نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657180 / ڈاؤنلوڈ: 15929
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب

دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔

توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب

نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

۱۰۱

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ

اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاة ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ (١)

یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔

چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاة الیل کراهته الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔

١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں

____________________

(١)بحارج٨٧.

۱۰۲

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔

٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔

٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے( انّ الشیطان لکم عدو مبین ) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

۱۰۳

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت

نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ ) (١)

یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔

____________________

(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.

(٢)بحار ج٨٧.

۱۰۴

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ

اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:

صلاة اللیل راحة الابدان (١)

یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔

____________________

(١)بحار ج٨٧

۱۰۵

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ

اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میں ستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)

____________________

(١) بحار الانوار ج٨٧.

۱۰۶

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :

جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔

٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔

٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ

اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے

۱۰۷

کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:

''یثبت النور فی قبر ه و ینزع الاثم والحسد من قلبه ویجار من عذاب القبر و یعطی برأة من النار ۔''(١)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

۱۰۸

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔

نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:

''صلاة اللیل سراج لصاحبها فی ظلمة القبر'' (١)

نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ

نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے

١۔ مثالی زندگی ۔

٢۔ابدی زندگی ۔

مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار

____________________

(١) بحار ج٨٧

۱۰۹

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:

''صلّی فی سواد اللیل لوحشة القبر'' (١)

یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:

''قم فی ظلمة اللیل اجعل قبرک روضة من ریاض الجنان ''(٢)

یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔

لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق

____________________

(١)بحار ج٨٧.

(٢) بحارج١٠٠.

۱۱۰

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب

جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے

۱۱۱

چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔(١)

اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:

میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ

____________________

(١)بحار ج٨٧.

۱۱۲

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر

جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :

١۔ دنیوی عذاب ۔

٢۔برزخی عذاب ۔

٣۔اخروی عذاب ۔

لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔

۱۱۳

اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)

اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔(٢)

____________________

(١)داستان ج٢ص٢٦.

(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

۱۱۴

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع

جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔

لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:

۱۱۵

صلاة اللیل شفیع صاحبها (١)

یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب

اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی

____________________

(١)جامع آیات و احادیث ج٢

۱۱۶

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.

لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:

۱۱۷

'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)

دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:

''من ختم له بقیام اللیل ثم مات فله الجنة '' (٢)

اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔

____________________

(١)محاسن برقی ص٨٧.

(٢)وسائل ج٥.

۱۱۸

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :

'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلة اثنتا عشرة رکعة سوی المکتوبة کان له حقاً واجباً بیت فی الجنة''

اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا(١)

تفسیر وتحلیل:

ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ

نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح

____________________

(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

۱۱۹

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا:اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامة فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١) پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب

نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٧.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863