نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 632508
ڈاؤنلوڈ: 15173

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 632508 / ڈاؤنلوڈ: 15173
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۴۰۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَيْنُ حَقٌّ والرُّقَى حَقٌّ والسِّحْرُ حَقٌّ - والْفَأْلُ حَقٌّ والطِّيَرَةُ لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والْعَدْوَى لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والطِّيبُ نُشْرَةٌ والْعَسَلُ نُشْرَةٌ - والرُّكُوبُ نُشْرَةٌ والنَّظَرُ إِلَى الْخُضْرَةِ نُشْرَةٌ.

۴۰۱ - وقَالَعليه‌السلام : مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِي أَخْلَاقِهِمْ أَمْنٌ مِنْ غَوَائِلِهِمْ

۴۰۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ مُخَاطِبِيه - وقَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُسْتَصْغَرُ مِثْلُه عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا:

لَقَدْ طِرْتَ شَكِيراً وهَدَرْتَ سَقْباً.

(۴۰۰)

چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفال نیک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی(۱) کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔

خوشبو سواری' شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔

(۴۰۱)

لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے(۲) کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۴۰۲)

ایک شخص(۳) نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔

(۱)کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرادیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اوراس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پراعتماد کرناچاہیے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا ساراکاروبار صرف اوہام وخیالات پرچل رہا ہے اور شگون نیک کی طرف کوئی شخص متوجہ نہیں ہے اور بد شگونی کا اعتبار ہر شخص کر لیتا ہے اوراس پر بیشمار سماجی اثرات بھی مرتبہو جاتے ہیں اور معاشرتی فساد کا ایک سللہ شروع ہو جاتا ہے۔

(۲)چونکہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھبرا برتائو نہ کریں اور وہ ہر ایک کے شر سے محفوظ رہے لہٰذا اس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے تعلقات قائم کرے اوران سے رسم و راہ بڑھائے تاکہوہ شر پھیلانے کا ارادہ ہی نہ کریں۔کہ معاشر ہ میں زیادہ حصہ شراختلاف اوردوری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قربت کے بعد کسی نہ کسی مقدار میں تکلف ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔

(۳)بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم وفضل اور کمال و ہنر کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اونچی محفلوں میں بولنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں جس طرح کہ بعض خطباء کمال جہالت کے باوجود ہر بڑی سے بڑی مجلس سے خطاب کرنے کے امیدوار رہتے ہیں اور ان کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اپنی شخصیت کارعب قائم کرلیں گے اور یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ رہی سہی عزت بھی چلی جائے گی اور مجمع عام میں رسوا ہو جائیں گے۔

امیر المومنین نے اسے ہی افراد کو تنبیہ کی ہے جو قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں اور بلوغ فکری سے پہلے ہی بلبلانے لگتے ہیں۔

۷۶۱

قال الرضي والشكير هاهنا أول ما ينبت من ريش الطائر - قبل أن يقوى ويستحصف - والسقب الصغير من الإبل - ولا يهدر إلا بعد أن يستفحل.

۴۰۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَوْمَأَ إِلَى مُتَفَاوِتٍ خَذَلَتْه الْحِيَلُ

۴۰۴ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى قَوْلِهِمْ - لَا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه - إِنَّا لَا نَمْلِكُ مَعَ اللَّه شَيْئاً ولَا نَمْلِكُ إِلَّا مَا مَلَّكَنَا - فَمَتَى مَلَّكَنَا مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنَّا كَلَّفَنَا - ومَتَى أَخَذَه مِنَّا وَضَعَ تَكْلِيفَه عَنَّا.

۴۰۵ - وقَالَعليه‌السلام لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ - وقَدْ سَمِعَه يُرَاجِعُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ كَلَاماً

سید رضی :شکیر پرندہ کے ابتدائی پروں کو کہا جاتا ہے اورسقب چھوٹے اونٹ کا نام ہے جب کہ بلبلانے کاسلسلہ جوانی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

(۴۰۳)

جو مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے اس کی تدبیریں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔

(۴۰۴)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ'' لاحول ولا قوة الا باللہ '' کے معنی کیا ہیں ؟ توفرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور جو کچھ ملکیت ہے سب اسی کی دی ہوئی ہے تو جب وہ کسی ایسی چیز کا اختیار دیتا ہے جس کا اختیار اس کے پاس ہم سے زیادہ ہے تو ہمیں ذمہ داریاں بھی دیتا ہے اور جب واپس لے لیتا ہے تو ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے۔

(۴۰۵)

آپ نے دیکھا کہ عماریاسر مغیرہ(۱) بن شعبہ سے بحث

(۱)ابن ابی الحدید نے مغیرہ کے اسلام کی یہ تاریخ نقل کی ہے کہ یہ شخص ایک قافلہ کے ساتھ سفر میں جارہا تھا۔ایک مقام پر سب کو شراب پلا کر بے ہوش کردیا اور پھرقتل کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔اس کے بعد جب یہ خطرہ پیدا ہواکہ ورثہ انتقام لیں گے اورجان کاب چانا مشکل ہو جائے گا تو بھاگکر مدینہآگیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا کہاس طرح جان بچانے کا ایک راستہ نکل آئے گا۔

یہ شخص اسلام و ایمان دونوں سے بے بہرہ تھا۔اسلام جان بچانے کے لئے اختیار کیا تھا اورایمان کایہ عالم تھاکہ بر سر منبر '' کل ایمان'' کو گالیاں دیاکرتا تھا اور اسی بد ترین کردار کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا جو ہر دشمن علی کاآخری انجام ہوتا ہے۔

۷۶۲

دَعْه يَا عَمَّارُ - فَإِنَّه لَمْ يَأْخُذْ مِنَ الدِّينِ إِلَّا مَا قَارَبَه مِنَ الدُّنْيَا - وعَلَى عَمْدٍ لَبَسَ عَلَى نَفْسِه - لِيَجْعَلَ الشُّبُهَاتِ عَاذِراً لِسَقَطَاتِه.

۴۰۶ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَحْسَنَ تَوَاضُعَ الأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللَّه - وأَحْسَنُ مِنْه تِيه الْفُقَرَاءِ عَلَى الأَغْنِيَاءِ - اتِّكَالًا عَلَى اللَّه.

۴۰۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَا اسْتَوْدَعَ اللَّه امْرَأً عَقْلًا إِلَّا اسْتَنْقَذَه بِه يَوْماً مَا.

۴۰۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَه.

۴۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَلْبُ مُصْحَفُ الْبَصَرِ

کر رہے ہیں تو فرمایا عمار! اسے اس کے حال پرچھوڑ دو۔اس نے دین میں سے اتنا ہی حصہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب تر بنا سکے اورجان بوجھ کر اپنے لئے امور کو مشتبہ بنالیا ہے تاکہ انہیں شبہات کو اپنی لغزشوں کا بہانہ قراردے سکے ۔

(۴۰۶)

کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں لیکن اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فقر اء خدا پر بھروسہ کرکے دولت مندوں کے ساتھ تمکنت(۱) سے پیش آئیں۔

(۴۰۷)

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

(۴۰۸)

جو حق سے ٹکرائے گا حق بہر حال اسے پچھاڑ دے گا۔

(۴۰۹)

دل آنکھوں کا صحیفہ ہے

(۱)تکبراورتمکنت کوئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن جہاں تواضع اورخاکساری میں فتنہ و فساد پایا جاتا ہو ورنہ تکبر اورتمکنت کا اظہار بے حد ضروری ہو جاتا ہے فقراء کے تکبرکامقصد یہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا اظہار کریں اوربے بنیاد تمکنت کا سہارالیں۔بلکہ اس کامقصد یہ ے کہ اغنیاء کے بجائے پروردگار پر بھروسہ کریں اور اسی کے بھروسہ پر اپنی بے نیازی کا اظہار کریں تاکہ ایمان و عقیدہ میں استحکام پیدا ہو اوراغنیاء بھی تواضع اور انکسا پر مجبور ہو جائیں اور اس تواضع سے انہیں بھی کچھ اجر و ثواب حاصل ہو جائے ۔

۷۶۳

۴۱۰ - وقَالَعليه‌السلام : التُّقَى رَئِيسُ الأَخْلَاقِ.

۴۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : لَا تَجْعَلَنَّ ذَرَبَ لِسَانِكَ عَلَى مَنْ أَنْطَقَكَ - وبَلَاغَةَ قَوْلِكَ عَلَى مَنْ سَدَّدَكَ

۴۱۲ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ أَدَباً لِنَفْسِكَ اجْتِنَابُ مَا تَكْرَهُه مِنْ غَيْرِكَ.

۴۱۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ صَبَرَ صَبْرَ الأَحْرَارِ وإِلَّا سَلَا سُلُوَّ الأَغْمَارِ

۴۱۴ - وفِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّهعليه‌السلام - قَالَ لِلأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ مُعَزِّياً عَنِ ابْنٍ لَه.

إِنْ صَبَرْتَ صَبْرَ الأَكَارِمِ - وإِلَّا سَلَوْتَ سُلُوَّ الْبَهَائِمِ.

۴۱۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الدُّنْيَا: تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ -.

(۴۱۰)

تقویٰ تمام اخلاقیات کا راس و رئیس ہے۔

(۴۱۱)

اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اور اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایاہے۔

(۴۱۲)

اپنے نفس کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرو جنہیں دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو۔

(۴۱۳)

انسان جواں مردوں کی طرح صبر کرے گا ورنہ سادہ لوحوں کی طرح چپ ہو جائے گا۔

(۴۱۴)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث بن قیس کو اس کے بیٹے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بزرگوں کی طرح صبر کرو ورنہ جانوروں کی طرح ایک دن ضرور بھول جائو گے ۔

(۴۱۵)

آپ نے دنیا کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھوکہ دیتی ہے ۔نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے

۷۶۴

إِنَّ اللَّه تَعَالَى لَمْ يَرْضَهَا ثَوَاباً لأَوْلِيَائِه ولَا عِقَاباً لأَعْدَائِه وإِنَّ أَهْلَ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ - بَيْنَا هُمْ حَلُّوا إِذْ صَاحَ بِهِمْ سَائِقُهُمْ فَارْتَحَلُوا

۴۱۶ - وقَالَ لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام لَا تُخَلِّفَنَّ وَرَاءَكَ شَيْئاً مِنَ الدُّنْيَا - فَإِنَّكَ تَخَلِّفُه لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - إِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِطَاعَةِ اللَّه - فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - وإِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - فَكُنْتَ عَوْناً لَه عَلَى مَعْصِيَتِه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ حَقِيقاً أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ.

قَالَ الرَّضِيُّ ويُرْوَى هَذَا الْكَلَامُ عَلَى وَجْه آخَرَ وهُوَ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الَّذِي فِي يَدِكَ مِنَ الدُّنْيَا - قَدْ كَانَ لَه أَهْلٌ قَبْلَكَ - وهُوَ صَائِرٌ إِلَى أَهْلٍ بَعْدَكَ - وإِنَّمَا أَنْتَ جَامِعٌ لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - رَجُلٍ عَمِلَ فِيمَا جَمَعْتَه بِطَاعَةِ اللَّه

اللہ نے اسے نہ اپنے اولیاء کے ثواب کے لئے پسند کیا ہے اور نہ دشمنوں کے عذاب کے لئے۔اہل دنیا ان سواروں کے مانند ہیں جنہوں نے جیسے ہی قیام کیا ہنکانے والے نے للکار دیاکہ کوچ کا وقت آگیا ہے اور پھر روانہ ہوگئے ۔

(۴۱۶)

اپنے فرزند حسن(۱) سے بیان فرمایا: خبردار دنیا کی کوئی چیز اپنے بعد کے لئے چھوڑ کرمت جانا کہ اس کے وارث دو ہی طرح کے لوگ ہوں گے۔یا وہوں گے جو نیک عمل کریں گے تو جو مال تمہاری بد بختی کا سبب بنا ہے وہی ان کی نیک بختی کا سبب ہوگا اور اگر انہوں نے معصیت میں لگادیا تو وہ تمہارے مال کی وجہ سے بد بخت ہوں گے اورتم ان کو معصیت کے مددگار شمار ہوگے اور ان دونوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے تم اپنے نفس پر ترجیح دے سکتے ہو۔

سید رضی : اس کلام کو ایک دوسری طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ '' یہ دنیا جو آج تمہارے ہاتھ میں ہے کل دوسرے اس کے اہل رہ چکے ہیں اور کل دوسرے اس کے اہل ہوں گے اور تم اسے دو میں سے ایک کے لئے جمع کر رہے ہو یا وہ شخص جو تمہارے جمع کئے ہوئے کو اطاعت خدا میں صرف کرے گا تو جمع کرنے کی زحمت تمہاری

(۱)امام حسن سے خطاب مسئلہ کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے کہ اتنی عظیم بات کا سمجھنا اوراس سے فائدہ اٹھاناہر انسان کے بس کاکام نہیں ہے ورنہ امام حسن جیسی شخصیت کا انسان ان نکات کی طرف توجہ دلانے کامحتاج نہیں ہے اور ان کا کامخود ہی عالم انسانیت کو ان حقائق سے با خبر کرنااور ان نکات کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

بہرحال مسئلہ انتہائی اہم ہے کہ انسان کو اپنی عاقبت کے لئے جو کچھ کرناہے وہ اپنی زندگی میں کرنا ہے۔مرنے کے بعد دوسروں سے امید لگانا ایک وسوسہ شیطانی ہے اور کچھ نہیں ہے۔پھرمال بھی پروردگارنے دیا ہے تو اس کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہے۔چاہے زندگی میں صرف کردے یا اس کے مصرف کا تعین کردے ورنہ فائدہ دوسرے افراد اٹھائیں گے اور وبال اسے برداشت کرنا پڑے گا۔

۷۶۵

- فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيتَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ أَهْلًا أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ - ولَا أَنْ تَحْمِلَ لَه عَلَى ظَهْرِكَ - فَارْجُ لِمَنْ مَضَى رَحْمَةَ اللَّه - ولِمَنْ بَقِيَ رِزْقَ اللَّه.

۴۱۷ - وقَالَعليه‌السلام لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِه أَسْتَغْفِرُ اللَّه - ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ - الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ - وهُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ - أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى - والثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْه أَبَداً - والثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ - حَتَّى تَلْقَى اللَّه أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ - والرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ - ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا - والْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ - فَتُذِيبَه بِالأَحْزَانِ

ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میںسے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔

(۴۱۷)

ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ''استغفر اللہ '' تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:(۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم(۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا(۱) دینا

(۱)اس سلسلہ میں سرکاردوعالم (ص) کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھالیا اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس کی دعا بھی چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس حرام سے جوگوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوریاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہاثر ہے تو جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں۔ان کی عبادتوں اوردعائوں کا انجام کیا ہوگا ۔ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کاشکوہ کرنے کے بجائے دعائوں ک قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ بنا سکتی ہے تواث کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے جب تک قابل قبول نہ ہوجائے۔اور صحیح اور مقبول کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کے لئے عمل کے شرائط اور واجبات کودیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہیں ہوئی ہے تو عمل صحیح ہو جائے گا اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔لیکن قبول ہونے کے لئے اس کے علاوہ عمل کرنے والے کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھاجاتا ہے کہ پوردگار متقین کے علاوہکسی کے عمل کو قابل قبول نہیں قرار دیتا ہے اور اسنے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور انہیں کے اعمال کو اجرو ثواب کاحقدار اور بلندی درجات کا وسیلہ و ذریعہ قراردیتا ہے۔

۷۶۶

حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ - ويَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ - والسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ - كَمَا أَذَقْتَه حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّه.

۴۱۸ - وقَالَعليه‌السلام الْحِلْمُ عَشِيرَةٌ

۴۱۹ - وقَالَعليه‌السلام : مِسْكِينٌ ابْنُ آدَمَ - مَكْتُومُ الأَجَلِ مَكْنُونُ الْعِلَلِ - مَحْفُوظُ الْعَمَلِ تُؤْلِمُه الْبَقَّةُ - وتَقْتُلُه الشَّرْقَةُ وتُنْتِنُه الْعَرْقَةُ

۴۲۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام كَانَ جَالِساً فِي أَصْحَابِه - فَمَرَّتْ بِهِمُ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ فَرَمَقَهَا الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام :

إِنَّ أَبْصَارَ هَذِه الْفُحُولِ طَوَامِحُ وإِنَّ ذَلِكَ سَبَبُ هِبَابِهَا - فَإِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى امْرَأَةٍ تُعْجِبُه فَلْيُلَامِسْ أَهْلَه - فَإِنَّمَا هِيَ امْرَأَةٌ كَامْرَأَتِه.

یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے(۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھائو جیسے طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ۔اس کے بعد کہو ''استغفر اللہ ''

(۴۱۸)

بردباری خود ایک پورا قبیلہ ہے۔

(۴۱۹)

ابن آدم کس قدر مسکین ہے کہ اس کی موت بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بیماریاں بھی صیغہ راز میں ہیں اور اس کے اعمال بھی سب محفوظ کئے جا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے۔اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اسے بدبوداربنادیتا ہے ۔

(۴۲۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ادھر سے ایک خوبصورت عورت کا گذر ہوگیا اور لوگوں نے اسے کن آنکھیوں سے دیکھنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا: '' ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی عورت کو دیکھے جو پسند آنے والی ہو تو اپنے اہل سے روابط پیدا کرے کہ یہ عورت بھی اپنی ہی عورت جیسی ہے''

۷۶۷

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ - قَاتَلَه اللَّه كَافِراً مَا أَفْقَهَه - فَوَثَبَ الْقَوْمُ لِيَقْتُلُوه - فَقَالَعليه‌السلام :رُوَيْداً إِنَّمَا هُوَ سَبٌّ بِسَبٍّ أَوْ عَفْوٌ عَنْ ذَنْبٍ

۴۲۱ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ مِنْ عَقْلِكَ مَا أَوْضَحَ لَكَ سُبُلَ غَيِّكَ مِنْ رُشْدِكَ.

۴۲۲ - وقَالَعليه‌السلام : افْعَلُوا الْخَيْرَ ولَا تَحْقِرُوا مِنْه شَيْئاً،فَإِنَّ صَغِيرَه كَبِيرٌ وقَلِيلَه كَثِيرٌ - ولَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنَّ أَحَداً أَوْلَى بِفِعْلِ الْخَيْرِ مِنِّي - فَيَكُونَ واللَّه كَذَلِكَ إِنَّ لِلْخَيْرِ والشَّرِّ أَهْلًا فَمَهْمَا تَرَكْتُمُوه مِنْهُمَا كَفَاكُمُوه أَهْلُه

۴۲۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَصْلَحَ سَرِيرَتَه أَصْلَحَ اللَّه عَلَانِيَتَه - ومَنْ عَمِلَ لِدِينِه كَفَاه اللَّه.

یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ اللہ اس کا فرکو قتل کرے کس قدر فقیہ ہے۔تو لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ خبردار۔ٹہرو۔گالی کا بدلہ گالی ہوتا ہے یا خطا سے درگزر کرنا ہوتا ہے۔

(۴۲۱)

تمہارے لئے اتنی ہی عقل کافی ہے کہ گمراہی کا راستہ ہدایت کے راستہ سے الگ ہو جائے ۔

(۴۲۲)

نیکیاں انجام دو اور اس میں سے کسی چیز کوبھی حقیر نہ سمجھو کہ نیکی چھوٹی بھی بڑی ہوتی ہے اور تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے۔خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ کوئی شخص کا رخیر کے لئے مجھ سے بہتر ہے ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہو جائے گا۔نیکی اور برائی دونوںکے اہل ہوتے ہیں اگر تم اسے چھوڑ دوگے تو جو اس کا اہل ہوگا وہی اسے انجام دیدے گا۔

(۴۲۳)

جو اپنے باطن کی اصلاح(۱) کرے گا پروردگار اس کے ظاہر کو درست کردے گا اور جو اپنے دین کے لئے عمل کرے گا خدا اس کی دنیا کے لئے کافی ہو جائے گا

(۱)مقصد یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ایکگہرا رابطہ پایا جاتاہے اور دونوں میں کس یایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس باطن کی اصلح پر زوردے جو ظاہری اعمال کا سرچشمہ ہے کہ اس کے بعد ظاہر کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی اور اس کا سبب وہمالک ہوگا جس نے ظاہر کے اعمال کو باطن کے محرکات کا تابع بنادیا ہے۔

۷۶۸

أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ أَحْسَنَ فِيمَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَحْسَنَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ

۴۲۴ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ غِطَاءٌ سَاتِرٌ والْعَقْلُ حُسَامٌ قَاطِعٌ - فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِحِلْمِكَ وقَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ.

۴۲۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِلَّه عِبَاداً يَخْتَصُّهُمُ اللَّه بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ - فَيُقِرُّهَا فِي أَيْدِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا - فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ ثُمَّ حَوَّلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ.

۴۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : لَا يَنْبَغِي لِلْعَبْدِ

اور جو اپنے اور اللہ کے معاملات کو درست کرے گا پروردگار اس کے اوردوسرے انسانوں کے معاملات کو بھی ٹھیک کردے گا۔

(۴۲۴)

بردباری(۱) ڈھانک لینے والا پردہ ہے اور عقل تیز ترین تلوار ہے لہٰذا اپنے اخلاق کی کمزوریوں کو تحمل سے چھپائو اور اپنی خواہشات کا عقل کی تلوارسے مقابلہ کرو۔

(۴۲۵)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جنہیں پروردگار مخصوص نعمتیں دوسرے بندوں(۲) کے فائدہ کے لئے عنایت کرتاہے تو اس کے بعد جب تک وہ داد و دہش کرتے رہتے ہیں ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں باقی رکھتا ہے اور جب جودو کرم کو روک دیتے ہیں تو ان سے واپس لے لیتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے۔

(۴۲۶)

کسی بندہ کے لئے یہ مناسب نہی ہے کہ دو

(۱)انسانی زندگی کی دو عظیم خرابیاں ہیں :ایک کا نام ہے خواہش پرستی اوردوسری کا نام ہے بد اخلاقی ۔مولائے کائنات نے دونوں کا ایک ایک علاج بتایا ہے کہ خواہش پرستی کا علاج ہے اتباع عقل جس کے بعد خواہش کو امرونہی کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا ہے۔اوربداخلاقی کا علاج ہے بردباری کہ جس کے ذریعہ سے کم سے کم اس عیب کی پردہ پوشی کی جا سکتی ہے۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے پاس نعمتوں کی فراوانی کسی ذاتی امتیاز یا مالک سے کسی خاص رشتہ داری کی بنیاد پرنہیں ہے۔اس کا سبب درحقیقت وہ امانتداری ہے جو پروردگار اپنے بندہ میں دیکھناچاہتا ہے اوروہ انتظام ہے جو مالک کمزوروں کے لئے طاقتور افراد کے ذریعہ انجام دیتا ہے۔لہٰذا کسی انسان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور کمزوروں کی حاجت برآری کرکے اپنی شرافت اور امانتداری کا ثبوت دینا چاہیے۔

۷۶۹

أَنْ يَثِقَ بِخَصْلَتَيْنِ الْعَافِيَةِ والْغِنَى - بَيْنَا تَرَاه مُعَافًى إِذْ سَقِمَ وبَيْنَا تَرَاه غَنِيّاً إِذِ افْتَقَرَ.

۴۲۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ شَكَا الْحَاجَةَ إِلَى مُؤْمِنٍ فَكَأَنَّه شَكَاهَا إِلَى اللَّه - ومَنْ شَكَاهَا إِلَى كَافِرٍ فَكَأَنَّمَا شَكَا اللَّه.

۴۲۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي بَعْضِ الأَعْيَادِ - إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّه صِيَامَه وشَكَرَ قِيَامَه - وكُلُّ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّه فِيه فَهُوَ عِيدٌ.

۴۲۹ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَعْظَمَ الْحَسَرَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - حَسْرَةُ رَجُلٍ كَسَبَ مَالًا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه - فَوَرِثَه رَجُلٌ فَأَنْفَقَه فِي طَاعَةِ اللَّه سُبْحَانَه - فَدَخَلَ بِه الْجَنَّةَ ودَخَلَ الأَوَّلُ بِه النَّارَ.

۴۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَخْسَرَ النَّاسِ صَفْقَةً وأَخْيَبَهُمْ سَعْياً - رَجُلٌ

چیزوں پر بھروسہ کرے۔ایک عافیت اورایک مالداری۔ کہ عافیت دیکھتے دیکھتے بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مالداری دیکھتے دیکھتے غربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

(۴۲۷)

جو اپنے درد دل کو کسی مومن سے بیان کرے گویا اس نے خدا سے بیان کیا اور جو اس کی فریاد کسی کافر سے کرے تو گویا اس نے خدا کی شکایت کی۔

(۴۲۸)

ایک عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ ''یہ عید صرف ان کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے مسلمان کے لئے وہی روز۔روز عید ہے۔

(۴۲۹)

روز قیامت سب سے زیادہ حسرت ناک صورت حال اس شخص کی ہوگی جو اطاعت خداسے ہٹ کر مال حاصل کرے اورپھر اس کا وارث وہ ہو جائے جو اسے اطاعت خدا میں صرف کردے کہ وہ اسی مال سے جنت میں چلا جائے گا اورکمانے والا اسی سے جہنم کا حقدار ہو جائے گا ۔

(۴۳۰)

معاملات میں سب سے زیادہ خسارہ والا اور کوششوں میں سب سے زیادہ ناکام وہ شخص ہے جو اپنے

۷۷۰

أَخْلَقَ بَدَنَه فِي طَلَبِ مَالِه - ولَمْ تُسَاعِدْه الْمَقَادِيرُ عَلَى إِرَادَتِه - فَخَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا بِحَسْرَتِه وقَدِمَ عَلَى الآخِرَةِ بِتَبِعَتِه

۴۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : الرِّزْقُ رِزْقَانِ طَالِبٌ ومَطْلُوبٌ - فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَه الْمَوْتُ حَتَّى يُخْرِجَه عَنْهَا - ومَنْ طَلَبَ الآخِرَةَ طَلَبَتْه الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ رِزْقَه مِنْهَا.

۴۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّه هُمُ الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى بَاطِنِ الدُّنْيَا - إِذَا نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا - واشْتَغَلُوا بِآجِلِهَا إِذَا اشْتَغَلَ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا -

جسم کو مال کی طلب میں خستہ حال کردے اور پھر بھی مقدر ساتھ نہ دے کہ اس طرح دنیا سے حسرتیں لے کر چلا جاتا ہے اور آخرت میں بہر حال اس کی پاداش کو برداشت کرناپڑتا ہے۔

(۴۳۱)

رزق دو طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ ہے جو خود تلاش کرتا ہے اور ایک وہ ہے جسے تلاش کیاجاتا ہے۔لہٰذا یاد رکھو کہ جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اس کی طلبگار موت ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اس دنیا سے نکال باہر کرے اور جوآخرت کا طلب گار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ اپنا پورا حق حاصل کرلے۔

(۴۳۲)

اولیائ(۱) خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات

(۱)اس مقام پرحضرت نے اولیاء خداکے آٹھ صفات کاتذکرہ فرمایا ہے تاکہ ہر انسان اس کردار کو پہچانے اوراسے اختیارکرنے کی کوشش کرے کہ روز قیامت کے خوف و حزن سے اولیاء ء خداکے علاوہ کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔اولایء اللہ کے وہ صفات حسب ذیل ہیں:

(۱) جب لوگ دنیاکے ظاہر پر فریفتہ ہونے لگتے ہیں تو وہ اس کے اندرونی زہر کا مشاہدہ کرتے ہیں (۲) جب لوگ دنیا پر مرنے لگتے ہیں تبوہ آخرت کی فکرمیں لگ جاتے ہیں (۳) جوخواہشات انسان کو تباہ کر دیتی ہیں وہ انہیں کو تباہ کردیتے ہیں (۴) جو دولت دنیا انہیں چھوڑ دینے والی ہے وہ اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں (۵) جس دولت دنیا کو لوگ کثیر تصور کرتے ہیں وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں (۶) جس باطل سے لوگ صلح کر لیتے ہیں وہ اس کے سدا دشمن رہتے ہیں (۷) ان کے اور قرآن کے درمیان ایسا اتحاد کردار ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں (۸) اجرآخرت سے بہتر کوئی امید اور عذاب آخرت سے بد تر کوئی خوفناک شے اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھتے ہیں۔

۷۷۱

فَأَمَاتُوا مِنْهَا مَا خَشُوا أَنْ يُمِيتَهُمْ - وتَرَكُوا مِنْهَا مَا عَلِمُوا أَنَّه سَيَتْرُكُهُمْ - ورَأَوُا اسْتِكْثَارَ غَيْرِهِمْ مِنْهَا اسْتِقْلَالًا - ودَرَكَهُمْ لَهَا فَوْتاً - أَعْدَاءُ مَا سَالَمَ النَّاسُ وسَلْمُ مَا عَادَى النَّاسُ - بِهِمْ عُلِمَ الْكِتَابُ وبِه عَلِمُوا - وبِهِمْ قَامَ الْكِتَابُ وبِه قَامُوا - لَا يَرَوْنَ مَرْجُوّاً فَوْقَ مَا يَرْجُونَ - ولَا مَخُوفاً فَوْقَ مَا يَخَافُونَ.

۴۳۳ - وقَالَعليه‌السلام : اذْكُرُوا انْقِطَاعَ اللَّذَّاتِ وبَقَاءَ التَّبِعَاتِ.

۴۳۴ - وقَالَعليه‌السلام : اخْبُرْ تَقْلِه

قال الرضي - ومن الناس من يروي هذا للرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ومما يقوي أنه من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ما حكاه ثعلب عن ابن الأعرابي.

کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار ڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہو جانا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کرلینا تصورکرتے ہیں۔اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگ دشمن ہیں۔انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں۔قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت سے زندہ ہیں۔یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں۔

(۴۳۳)

یہ یاد رکھو کہ لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔

(۴۳۴)

امتحان کرو تاکہ نفرت پیدا کرو۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس قول کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ کلام امیر المومنین ہے اور اس کا شاہد ثعلب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ مامون نے اس فقرہ

۷۷۲

قال المأمون - لولا أن علياعليه‌السلام قال اخبر تقله - لقلت أقله تخبر

۴۳۵ - وقَالَعليه‌السلام : مَا كَانَ اللَّه لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الشُّكْرِ - ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الزِّيَادَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الدُّعَاءِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الإِجَابَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ لِعَبْدٍ بَابَ التَّوْبَةِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الْمَغْفِرَةِ.

۴۳۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَوْلَى النَّاسِ بِالْكَرَمِ مَنْ عُرِفَتْ بِه الْكِرَامُ.

۴۳۷ - وسُئِلَعليه‌السلام أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْعَدْلُ أَوِ الْجُودُ فَقَالَعليه‌السلام - الْعَدْلُ يَضَعُ الأُمُورَ مَوَاضِعَهَا والْجُودُ يُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا - والْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ والْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ - فَالْعَدْلُ أَشْرَفُهُمَا وأَفْضَلُهُمَا.

کو سن کر کہا کہ اگر حضرت علی نے اس طرح نہ فرمادیا ہوتا تو میں اسے یوں کہتا کہ ''نفرت کرو تاکہ آزمالو''

(۴۳۵)

اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بندہ کے لئے شکر کا دروازہ کھول دے اور پھر اضافہ نعمت کا دروازہ بند کردے یا دعا کا دروازہ کھول دے اورقبولیت کا دروازہ بند کردے یا توبہ کا دروازہ کھول دے اورمغفرت کا دروازہ بند کردے ۔

(۴۳۶)

کرم کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی جڑیں ان اہل کرم میں ہوتی ہیں جن کا کرم جانا پہچانا ہوتا ہے۔

(۴۳۷)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کون سا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہرنکال دیتی ہے۔انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں افضل اور اشرف ہے۔

۷۷۳

۴۳۸ - وقَالَعليه‌السلام : النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۴۳۹ - وقَالَعليه‌السلام : الزُّهْدُ كُلُّه بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ ولا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ ) .ومَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي ولَمْ يَفْرَحْ بِالآتِي - فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْه.

۴۴۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ

(۴۳۸)

لوگ ان چیزوں(۱) کے دشمن ہیں جن سے ناواقف ہیں۔( اوریہی دین کی دشمنی اور آل محمد(ص) سے عداوت کا بھی راز ہے )

(۴۳۹)

تمام زہد(۲) قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے '' جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اورجو ملجائے اس پر مغرورنہ ہو جائو ''لہٰذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اورآنے والے سے مغرورنہ ہوجائے اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے ۔

(۴۴۰)

رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدر کمزوربنا دیتی ہے۔

(۱)یہ بات بعینہ حکمت ۱۷۱ میں بیان کی جاچکی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جہالت ایک ایسی بلا ہے جس مبتلا ہونے کے بعد انسان اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں پہچانتا ہے اور بعض اوقات اپنا بھی دشمن ہوجاتاہے اوراس کا علاج اس کے ماسوا کچھ نہیں ہے کہ انسان کو صاحب علم بنایا جائے اور ایسا صاحب علم بنایا جائے جس میں غرور علم نہ پیدا ہو ورنہ بارش سے بھاگ کر پر نالہ کے نیچے کھڑے ہونے کے مرادف ہو جائے گا۔۔

(۲)زہد کا عام تصور غربت ' ناداری ' دنیا بیزاری اور پھٹے کپڑوں میں محصور کردیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔اس کے نزدیک زہد دولت ک ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور غربت کے ساتھ بھی۔اس کی نگاہ میں بہترین دولت مند بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر اس دولت سے غرور نہ پیداہوجائے ۔اور بد ترین فقری بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر دنیاکے ہاتھ سے نکل جانے سے رنجیدہ اور محزون نہ ہو۔

مولائے کائنات نے دوسرے مقامات پر اس کی بہترین تفسیر کی ہے کہ '' زہدیہ نہیں ہے کہ تم کسی چیز کے مالک نہ بنو۔بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز تمہاری مالک اور صاحب اختیار نہ ہونے پائے ۔یعنی دولت اور کرسی انسان کے اختیار میں ہے تو انسان زاہد ہے اور انسان ان دونوں کے اختیار میں چلا جائے تو اس کا زہد و تقویٰ اسی آن رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی بقا کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے ۔

۷۷۴

۴۴۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْوِلَايَاتُ مَضَامِيرُ الرِّجَالِ

۴۴۲ - وقَالَعليه‌السلام : لَيْسَ بَلَدٌ بِأَحَقَّ بِكَ مِنْ بَلَدٍ خَيْرُ الْبِلَادِ مَا حَمَلَكَ.

۴۴۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ جَاءَه نَعْيُ الأَشْتَرِ رحمهالله :

مَالِكٌ ومَا مَالِكٌ واللَّه لَوْ كَانَ جَبَلًا لَكَانَ فِنْداً - ولَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً - لَا يَرْتَقِيه الْحَافِرُ ولَا يُوفِي عَلَيْه الطَّائِرُ.

قال الرضي - والفند المنفرد من الجبال.

۴۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : قَلِيلٌ مَدُومٌ عَلَيْه خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۴۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا كَانَ فِي رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ فَانْتَظِرُوا أَخَوَاتِهَا.

(۴۴۱)

حکومتیں مردوں کے کردار کا میدان امتحان ہیں۔

(۴۴۲)

کوئی شہر تمہارے لئے دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔بلکہ بہترین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے رہے۔

(۴۴۳)

مالک اشتر کی خبر شہادت آنے کے بعدفرمایا: ''مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔اور اگرپتھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔اس کی بلندیوں کونہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ وہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔

سید رضی : فند پہاڑوں میں منفرد پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔

(۴۴۴)

مختصر عمل جس کی پابندی کی جا سکے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو انسان کو دل تنگ بنادے ۔

(۴۴۵)

اگر کسی انسان میں کوئی اچھی خصلت پائی جاتی ہے تو اس سے دوسری خصلتوں کی بھی توقع(۱) کی جاسکتی ہے۔

(۱)چونکہ اچھی خصلت شرافت نفس سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایک خصلت کو بھی دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص میں شرافت نفس پائی جاتی ہے اور یہ شرافت نفس جس طرح اس ایک خصلت پرآمادہ کر سکتی ہے اسی طرح دوسری خصلتیں بھی پیدا کر سکتی ہے کہ ایک درخست میں ایک ہی میورہ نہیں پیدا ہوتا ہے۔

۷۷۵

۴۴۶ - وقَالَعليه‌السلام لِغَالِبِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَبِي الْفَرَزْدَقِ فِي كَلَامٍ دَارَ بَيْنَهُمَا.

مَا فَعَلَتْ إِبِلُكَ الْكَثِيرَةُ - قَالَ دَغْدَغَتْهَا الْحُقُوقُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام ذَلِكَ أَحْمَدُ سُبُلِهَا.

۴۴۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنِ اتَّجَرَ بِغَيْرِ فِقْه فَقَدِ ارْتَطَمَ فِي الرِّبَا.

۴۴۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ عَظَّمَ صِغَارَ الْمَصَائِبِ ابْتَلَاه اللَّه بِكِبَارِهَا.

۴۴۹ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْه نَفْسُه

(۴۴۶)

غالب بن صعصعہ(۱) (پدر فرزوق) سے گفتگو کے دوران فرمایا: تمہارے بیشمار اونٹوں کا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہاکہ حقوق کی ادائیگی نے منتشر کردیا۔فرمایاکہ یہ بہترین اور قابل تعریف راستہ ہے۔

(۴۴۷)

جو احکام کو دریافت کئے بغیرتجارت(۲) کرے گاوہ کبھی نہ کبھی سود میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔

(۴۴۸)

جو چھوٹے(۳) مصائب کوبھی بڑا خیال کرے گا اسے خدا بڑے مصائب میں بھی مبتلا کردے گا۔

(۴۴۹)

جسے اس کانفس عزیز ہوگا اس کی نظرمیں

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ غالب فرزدق کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اونٹوں کے بارے میں بھی سوال کیا ار فرزدق کے بارے میں بھی سوال کیا تو غالب نے کہاکہ یہ میرا فرزند ہے اور اسے میں نے شعرو ادب کی تعلیم دی ہے۔آپ نے فرمایا کہ اے کاش تم نے قرآن مجید کی تعلیم دی ہوتی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بات دل کو لگ گئی اور انہوں نے اپنے پیروں میں زنجیریں ڈال لیں اور انہیں اس وقت تک نہیں کھولا جب تک سارا قرآن حفظ نہیں کرلیا۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ فقہ کی ضرورت صرف صلوٰة صیم کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے کہ تاکہ انسان برائیوں سے محفوظ رہ سکے اور لقمہ حلال پر زندگی گذار سکے ورنہفقہ کے بغیر تجارت کرنے میں بھی سود کا اندیشہ ہے اور سود سے بد تر اسلام میں کوئی مال نہیں ہے جس کا ایک پیسہ بھی حلال نہیں کیا گیا ہے۔

(۳)انسان کا ہنر یہ ہے کہ ہمیشہ مصائب کا مقالہ کرنے کے لئے تیار رہے اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی آجائے تو اسے حقیر اورمعمولی ہی سمجھے تاکہ دیگر مصائب کو حملہ کرنے کاموقع نہ ملے ورنہ ایک مرتبہ اپنی کمزوری کا اظہار کردیا تو مصائب کاہجوم عام ہوجائے گا اور انسان ایک لمحہ کے لئے بھی نجات حاصل نہ کرسے گا۔

۷۷۶

هَانَتْ عَلَيْه شَهَوَاتُه.

۴۵۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً إِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِه مَجَّةً.

۴۵۱ - وقَالَعليه‌السلام : زُهْدُكَ فِي رَاغِبٍ فِيكَ نُقْصَانُ حَظٌّ - ورَغْبَتُكَ فِي زَاهِدٍ فِيكَ ذُلُّ نَفْسٍ.

۴۵۲ - وقالعليه‌السلام الْغِنَى والْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه.

۴۵۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَا زَالَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ - حَتَّى نَشَأَ ابْنُه الْمَشْئُومُ عَبْدُ اللَّه.

خواہشات(۱) بے قیمت ہوں گی( کہ انہیں سے عزت نفس کی تباہی پیدا ہوتی ہے )

(۴۵۰)

انسان جس قدر بھی مزاح(۲) کرتا ہے اس قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

(۴۵۱)

جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جوتم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت ذلت نفس ہے ۔

(۴۵۲)

مالداری اورغربت کا فیصلہ پروردگار کی بارگاہ میں پیشی کے بعد ہوگا۔

(۴۵۳)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت کی ایک فرد شمار ہوتاتھا یہاں تک کہ اس کا منحوس فرزند عبداللہ نمودار ہوگیا۔

(۱)خواہش اس قید کا نام ہے جس کا قدی تا حیات آزاد نہیں ہو سکتا ہے کہ ہر قید کا تعلق انسان کی بیرونی زندگی سے ہوتا ہے اورخواہش انسان کواندر سے جکڑ لیتی ہے جس کے بعد کوئی آزاد کرانے والا بھی نہیں پیدا ہوتاہے اوریہی وجہ ہے کہ کہ جب ایک مرد حکیم سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تمہاری خواہش کیا ے ؟ تو اس نیبرجستہ یہی جواب دیا کہ بس یہی کہ کسی چیز کی خواہش نہ پیدا ہو۔

(۲)مزاج ایک بہترین چیز ہے جس سے انسان خود بھی خوش ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی خوشحال بناتا ہے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ مزاح بحد مزاح ہو اوراس میں غلط بیانی ' فریب کاری' ایذاء مومن ' توہین مسلمان کا پہلو نہ پیداہونے پائے اورحد سے زیادہ بھی نہ ہو ورنہ حرام اورباعث ہلاکت و بربادی ہو جائے گا۔

۷۷۷

۴۵۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا لِابْنِ آدَمَ والْفَخْرِ - أَوَّلُه نُطْفَةٌ وآخِرُه جِيفَةٌ - ولَا يَرْزُقُ نَفْسَه ولَا يَدْفَعُ حَتْفَه.

۴۵۵ - وسُئِلَ مَنْ أَشْعَرُ الشُّعَرَاءِ فَقَالَعليه‌السلام :إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَجْرُوا فِي حَلْبَةٍ - تُعْرَفُ الْغَايَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا - فَإِنْ كَانَ ولَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّيلُ

يريد إمرأ القيس

۴۵۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَلَا حُرٌّ يَدَعُ هَذِه اللُّمَاظَةَ لأَهْلِهَا - إِنَّه لَيْسَ لأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا.

(۴۵۴)

آخر فرزند آدم(۱) کافخرو مباہات سے کیا تعلق ہے جب کہ اس کا ابتدا نطفہ ہے اورانتہا مردار۔وہ نہ اپنی روزی کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی موت کو ٹال سکتا ہے۔

(۴۵۵)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ تو فرمایا کہ سارے شعراء نے ایک میدان میں قدم نہیں رکھا کہ سبقت عمل سے ان کی انتہائے کمال کا فیصلہ کیاجاسکے لیکن اگر فیصلہ ہی کرنا ہے تو بادشاہ گمراہ (یعنی امراء القیس)

(۴۵۶)

کیاکوئی ایسا آزاد(۲) مرد نہیں ہے جو دنیاکے اس چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو کہ تمہارے نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہٰذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرنا۔

(۱)انسانی زندگی کے تین دورہوتے ہیں : ابتدائ، انتہاء ، وسط ۔اور انسان کاحال یہ ہے کہ وہ ابتداء میں ایک قطرۂ نجس ہوتا ہے اور انتہاء میں مردار ہو جاتا ہے۔درمیانی حالات یقینا طاقت و قوت اور طہارت و پاکیزگی کے ہوتے ہیں لیکن اس کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ نہ اپنا رزق اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اور نہ اپنی موت اپنے اختیارمیں ہوتی ہے ۔ایسے حالات میں انسان کے لئے تکبرو غرورکا جوازکہاں سے پیداہوتا ہے۔تقاضائے شرافت و دیانت یہی ہے کہ جس نے پیداکیا ہے اسی کا شکریہ ادا کرے اوراسی کی اطاعت میں زندگی گذاردے تاکہ مرنے کے بعد خود بھی پاکیزہ رہے اوروہ زمین بھی پاکیزہ ہو جائے جس میں فن ہوگیا ہے۔

(۲)دنیا وہ ضعیفہ ہے جولاکھوں کے تصرف میں رہ چکی ہے اوروہ لقمہ ہے جسے کروڑوں آدمی چبا چکے ہیں۔کیا ایسی دنیا بھی اس لائق ہوتی ہے کہ انسان اس سے دل لگائے اور اس کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔اس کا تو سب سے بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے حوالے کرکے اپنی جنت کا انتظام کرلے جہاں ہر چیز نئی ہے اور کوئی نعمت استعمال شدہ نہیں ہے۔

۷۷۸

۴۵۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وطَالِبُ دُنْيَا.

۴۵۸ - وقَالَعليه‌السلام : الإِيمَانُ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَيْثُ يَضُرُّكَ - عَلَى الْكَذِبِ حَيْثُ يَنْفَعُكَ - وأَلَّا يَكُونَ فِي حَدِيثِكَ فَضْلٌ عَنْ عَمَلِكَ - وأَنْ تَتَّقِيَ اللَّه فِي حَدِيثِ غَيْرِكَ

۴۵۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَغْلِبُ الْمِقْدَارُ عَلَى التَّقْدِيرِ حَتَّى تَكُونَ الآفَةُ فِي التَّدْبِير.

قال الرضي وقد مضى هذا المعنى فيما تقدم - برواية تخالف هذه الألفاظ.

۴۶۰ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ والأَنَاةُ تَوْأَمَانِ يُنْتِجُهُمَا عُلُوُّ الْهِمَّةِ.

(۴۵۷)

دو بھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیرنہیں ہو سکتے ہیں۔ایک طالب علم اور ایک طالب دنیا ۔

(۴۵۸)

ایمان کی علامت یہ ہے کہ سچ نقصان بھی پہنچائے تو اسے فائدہ پہنچانے والے جھوٹ(۱) پر مقدم رکھو۔ اور تمہاری باتیں تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خداسے ڈرتے رہو۔

(۴۵۹)

(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) قدرت کا مقرر کیا ہوا مقدر انسان کے اندازوں پرغالب آجاتا ہے یہاں تک کہ یہی تدبیرکی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

سید رضی : یہ بات دوسرے اندازسے اس سے پہلے گذر چکی ہے۔

(۴۶۰)

بردباری اورصبر(۲) دونوں جڑواں ہیں اور ان کی پیداوار کا سرچشمہ بلند ہمتی ہے۔

(۱)یقینا ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کو جھوٹ پر مقدم رکھا جائے اورمعمولی مفادات کی راہ میں اس عظیم نعمت صدق کو قربان نہ کیا جائے لیکن کبھی کبھی اسے مواقع آس کتے ہیں جب سچ کا نقصان نا قابل برداشت ہو جائے تو ایسے موقع پر عقل اورشرع دونوں کی اجازت ہے کہ کذب کا راستہ اختیار کرکے اس نقصان سے تحفظ کا انتظام کرلیا جائے جس طرح کہ قاتل کسی نبی برحق کی تلا ش میں ہواورآپ کو اس کا پتہ معلوم ہو تو آپ کے لئے شرعاً جائز نہیں ہے کہ پتہ بتا کر نبی برحق کے قتل میں حصہ دار ہو جائیں ۔

(۲)یہ غلط مشہور ہوگیا ہے کہ مجبوری کا نام صبر ہے۔صبر مجبوری نہیں ہے ۔صبر بلند ہمتی ہے۔صبر انسان کو مصائب سے مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔صبر نسان میں عزائم کی بلندی پیداکرتا ہے۔صبر پچھلے حالات پر افسوس کرنے کے بجائے اگلے حالات کے لئے آمادگی کی دعوت دیتا ہے ۔''انا الیہ راجعون ''

۷۷۹

۴۶۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْغِيبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ.

۴۶۲ - وقَالَعليه‌السلام : رُبَّ مَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه.

۴۶۳ - وقَالَعليه‌السلام : الدُّنْيَا خُلِقَتْ لِغَيْرِهَا ولَمْ تُخْلَقْ لِنَفْسِهَا.

۴۶۴ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِبَنِي أُمَيَّةَ مِرْوَداً يَجْرُونَ فِيه - ولَوْ قَدِ اخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ - ثُمَّ كَادَتْهُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْهُمْ.

قال الرضي - والمرود هنا مفعل من الإرواد وهو الإمهال والإظهار

(۴۶۱)

غیبت(۱) کرناکمزور آدمی کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

(۴۶۲)

بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف ہی سے مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔

(۴۶۳)

دنیا دوسروں(۲) کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اپنے لئے نہیں پیداکی گئی ہے۔

(۴۶۴)

بنی امیہ میں سب کا ایک خاص میدان ہے جس میں دوڑلگا رہے ہیں ورنہ جس دن ان میں اختلاف ہوگیا تواس کے بعد بجو بھی ان پر حملہ کرنا چاہے گا تو غالب آجائے گا۔

سید رضی : مرود۔ارواد سے مفعل کے وزن پر ہے اورارواد کے معنی فرصت اور مہلت دینے کے ہیں۔جو

(۱)غیبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اس عیب کا تذکرہ کیا جائے جسے وہ خود پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے اظہار کو پسند نہیں کرتا ہے۔اسلام نے اس عمل کو فساد کی اشاعت سے تعبیر کیا ہے اوراسی بناپرحرام کردیا ہے ۔لیکن اگر کسی موقع پر عیب کے اظہارنہ کرنے ہی میں سماج یا مذہب کی بربادی کاخطرہ ہو تو بیان کرنا جائزبلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے جس طرح کہ علم رجال میں راویوں کی تحقیق کا مسئلہ ہے کہاگران کے عیوب پر پردہڈال دیا گیا تو مذہب کے تباہ و برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ہر جھوٹا شخص روایات کاانبار لگاسکتا ہے۔

(۲)دنیا کی تخلیق مقصود بالذات نہیں ہے ورنہ پروردگار اس کو دائمی اور ابدی بنادیتا ۔ دنیا کو فنا کرکے آخرت کو منظرعام پر لے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی تخلیق آخرت کے مقدمہ کے طور پرہوئی ہے ۔اب اگر کوئی شخص اسے قربان کرکے آخرت کما لیتاہے تو گویا اس نے صحیح مصرف میں لگا دیا ورنہ اپنی زندگی بھی برباد کی اورموت کوبھی صحیح راستہ پر نہیں لگایا۔

۷۸۰