نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656677 / ڈاؤنلوڈ: 15922
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۷۰)

وقالعليه‌السلام

في سحرة اليوم الذي ضرب فيه

مَلَكَتْنِي عَيْنِي وأَنَا جَالِسٌ - فَسَنَحَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - مَا ذَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِكَ مِنَ الأَوَدِ واللَّدَدِ فَقَالَ ادْعُ عَلَيْهِمْ فَقُلْتُ أَبْدَلَنِي اللَّه بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ - وأَبْدَلَهُمْ بِي شَرّاً لَهُمْ مِنِّي.

قال الشريف - يعني بالأود الاعوجاج وباللدد الخصام - وهذا من أفصح الكلام.

(۷۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم أهل العراق

وفيها يوبخهم على ترك القتال والنصر يكاد يتم ثم تكذيبهم له

أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَالْمَرْأَةِ الْحَامِلِ - حَمَلَتْ فَلَمَّا أَتَمَّتْ أَمْلَصَتْ

(۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی)

ابھی میں بیٹھا(۱) ہواتھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (ص) سامنے تشریف فرما ہیں۔میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کجروی اوردشمنی کامشاہدہ کیا ہے۔فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔

سید رضی فرماتا ہے اود سے مراد کجروی اور لدد سے مراد دشمنی ہے اور یہ فصیح ترین کلام میں سے ہے

(۷۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں)

اما بعد!اے اہل عراق ! بس تمہاری مثال اس حاملہ عورت کی ہے جو(۹) ماہ تک بچہ کو شکم میں رکھے اور جب ولادت کا وقت آئے تو ساقط کردے

(۱)یہ بھی رویا ئے صادقہ کی ایک قسم ہے جہاں انسان واقعاً یہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے خواب کی باتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھ رہا رسول اکرم (ص) کا خواب میں آاا کسی طرح کی تردید اور تشکیک کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر حال قابل غور ہے کہ جس وصی نے اتنے سارے مصائب برداشت کرلئے اوراف تک نہیں کی اس نے خواب میں رسول اکرم(ص)کو دیکھتے ہیں فریاد کیوں شروع کردی اورجس نبی نے ساری زندگی مظالم و مصائب کا سامنا کیا اور بد دعا نہیں کی' اس نے بد دعا کرنے کاحکم کس طرح دے دیا؟حقیقت امر یہ ہے کہ حالات اس منزل پرتھے جس کے بعد فریاد بھی برحق تھی اور بد دعا بھی لازم تھی۔اب یہ مولائے کائنات کا کمال کردار ہے کہ براہ راست قوم کی تباہی اور بربادی کی دعا نہیں کی بلکہ انہیں خود انہیں کے نظریات کے حوالہ کردیا کہ خدایا!یہ میری نظرمیں برے ہیں تو مجھے ان سے بہتر اصحاب دیدے اور میں ان کی نظرمیں برا ہوںتو انہیں مجھ سے بدترحاکم دیدے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ برا حاکم کیسا ہوتا ہے۔

مولائے کائنات کی یہ دعا فی الفور قبول ہوگی اورچند لمحوں کے بعد آپ کو معصوم بندگان خدا کا جوار حاصل ہوگیا اور شریر قوم سے نجات مل گئی۔

۱۰۱

ومَاتَ قَيِّمُهَا وطَالَ تَأَيُّمُهَا ووَرِثَهَا أَبْعَدُهَا -. أَمَا واللَّه مَا أَتَيْتُكُمُ اخْتِيَاراً - ولَكِنْ جِئْتُ إِلَيْكُمْ سَوْقاً - ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تَقُولُونَ عَلِيٌّ يَكْذِبُ قَاتَلَكُمُ اللَّه تَعَالَى - فَعَلَى مَنْ أَكْذِبُ أَعَلَى اللَّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِه - أَمْ عَلَى نَبِيِّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - كَلَّا واللَّه لَكِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا - ولَمْ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهَا - وَيْلُ أُمِّه كَيْلًا بِغَيْرِ ثَمَنٍ لَوْ كَانَ لَه وِعَاءٌ - «ولَتَعْلَمُنَّ نَبَأَه بَعْدَ حِينٍ».

(۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

علم فيها الناس الصلاة على النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وفيها بيان صفات الله سبحانه وصفة النبي والدعاء له

اور پھر اس کا شوہربھی مرجائے اوربیوگی کی مدت بھی طویل ہو جائے کہ قریب کا کوئی وارث نہ رہ جائے اور دور والے وارث ہو جائیں

خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے پاس اپنے اختیارسے نہیں آیا ہوں بلکہ حالات کے جبر سے آیا ہوں اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم لوگ مجھ پرجھوٹ کا الزام لگاتے ہو۔خدا تمہیں غارت کرے۔میں کس کے خلاف غلط بیانی کروں گا؟

خدا کے خلاف؟ جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی ہے۔

ہر گز نہیں ! بلکہ یہ بات ایسی تھی جو تمہاری سمجھ سے بالا تر تھی اور تم اس کے اہل نہیں تھے ۔خدا تم سے سمجھے۔میں تمہیں جواہر پارے ناپ ناپ کردے رہا ہوں اور کوئی قیمت نہیں مانگ رہا ہوں۔مگر اے کاش تمہارے پاس اس کا ظرف ہوتا۔اورعنقریب تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔

(۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے )

۱۰۲

صفات الله

اللَّهُمَّ دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ ودَاعِمَ الْمَسْمُوكَاتِ وجَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وسَعِيدِهَا.

صفات النبي

اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِكَ - ونَوَامِيَ بَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ ورَسُولِكَ - الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ والْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ والْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ والدَّافِعِ جَيْشَاتِ الأَبَاطِيلِ والدَّامِغِ صَوْلَاتِ الأَضَالِيلِ كَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَائِماً بِأَمْرِكَ

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے) ۱) والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اوردلوں کو ان کی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے '

اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ اور رسول حضرت محمد (ص) پر قراردے جو سابق نبوتوں کے ختم کرنے والے ' دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ' حق کے ذریعہ(۲) حق کا اعلان کرنے والے' باطل کے جوش و خروش کودفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے۔جو بار جس طرح ان کے حوالہ کیا گیا انہوں نے اٹھالیا۔تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔

(۱)وحوالارض کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔بعض حضرت کاخیال ہے کہ زمین کوآفتاب سے الگ کرکے فضائے بسیط میں لڑھکا دیا گیا اوراسی کا نام دحوالارض ہے اوربعض حضرات کا کہنا ہے کہ دحو کے معنی فرش بچھانے کے ہیں۔گویا کہ زمین کو ہموار بنا کر قابل سکونت بنادیا گیا اور یہی دحوالارض ہے۔بہر حال روایات میں اس کی تاریخ ۲۵ ذی قعدہ بتائی گئی ہے جس تاریخ کو سرکار دو عالم (ص)حجة الوداع کے لئے مدینہ سے برآمد ہوئے تھے اورتخلیق ارض کی تاریخ مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوگئی تھی۔اس تاریخ میں روزہ رکھنا بے پناہ ثواب کا حامل ہے اوریہ تاریخ سال کے ان چار دنوں میں شامل ہے جس کا روزہ اجربے حساب رکھتا ہے۔ ۲۵ ذی قعدہ۔۱۷ ربیع الاول۔۲۷ رجب۔۱۸ ذی الحجہ

غور کیجئے ' تو یہ نہایت درجہ حسین انتخاب قدرت ہے کہ پہلا دن وہ ہے جس میں زمین کا فرش بچھایا گیا ۔دوسرا دن وہ ہے جب مقصد تخلیق کائنات کو زمین پر بھیجا گیاتیسرا دن وہ ہے جب اس کے منصب کا اعلان کرکے اس کا کام شروع کرایا گیا اور آخری دن وہ ہے جب اس کا کام مکمل ہوگیا اورصاحب منصب کو''اکملت لکم دینکم'' کی سند مل گئی۔

(۲)یہ اسلام کا مخصوص فلسفہ ہے جو دنیا داری کے کسی نظام میں نہیں پایا جاتاہے۔دنیا داری کا مشہور و معروف نظام و اصول یہ ہے کہ مقصد ہرذریعہ کو جائز بنادیتا ہے۔انسانت کوفقط یہ دیکھنا چاہیے کہ مقصد صحیح اوربلند ہو۔اس کے بعد اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرلے اس میں کوئی حرج اورمضائقہ نہیں ہے لیکن اسلام کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ دنیا میں مقصد اور مذہب دونوں کا پیغام لے کرآیا ہے۔اس نے'' ان الدین '' کہہ کر اعلان کیا ہے کہ اسلام طریقہ حیات ہے اورعند الله '' کہہ کر واضح کیا ہے کہ اس کا ہدف حقیقی ذات پروردگار سے۔لہٰذا وہ نہ غلط مقصد کو مقصد قرا دینے کی اجازت دے سکتا ہے اورنہ غلط راستہ کو راستہ قرار دینے کی۔اس کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ماننے والے صحیح راستہ پرچلیں اور اسی راستہ کے ذریعہ منزل تک پہنچیں۔چنانچہ مولائے کائنات نے سرکاردو عالم (ص) کی اسی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے جاہلیت کے نقار خانہ میں آواز حق بلند کی ہے لیکن اسآواز کو بلند کرنے کا طریقہ اور راستہ بھی صحیح اختیار کیا ہے ورنہ جاہلیت میں آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اس قدرش ور مچائو کہ دوسرے کی آواز نہ سنائی دے۔اسلام ایسے احمقانہ انداز فکر کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔وہ اپنے فاتحین سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ حق کا پیغام حق کے راستہ ے پہنچائوں' غارت گری اور لو ٹ مار کے ذریعہ نہیں۔یہ اسلام کی پیغام رسانی نہیں ہے۔خدا اور رسول (ص) کے لئے ایذا رسانی ہے جس کا جرم انتہائی سنگین ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں کی لعنت ہے۔

۱۰۳

مُسْتَوْفِزاً فِي مَرْضَاتِكَ - غَيْرَ نَاكِلٍ عَنْ قُدُمٍ ولَا وَاه فِي عَزْمٍ - وَاعِياً لِوَحْيِكَ حَافِظاً لِعَهْدِكَ - مَاضِياً عَلَى نَفَاذِ أَمْرِكَ حَتَّى أَوْرَى قَبَسَ الْقَابِسِ وأَضَاءَ الطَّرِيقَ لِلْخَابِطِ وهُدِيَتْ بِه الْقُلُوبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والآثَامِ - وأَقَامَ بِمُوضِحَاتِ الأَعْلَامِ ونَيِّرَاتِ الأَحْكَامِ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ وخَازِنُ عِلْمِكَ الْمَخْزُونِ وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ وبَعِيثُكَ بِالْحَقِّ - ورَسُولُكَ إِلَى الْخَلْقِ.

الدعاء للنبي

اللَّهُمَّ افْسَحْ لَه مَفْسَحاً فِي ظِلِّكَ واجْزِه مُضَاعَفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ وأَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ مَنْزِلَتَه وأَتْمِمْ لَه نُورَه - واجْزِه مِنِ ابْتِعَاثِكَ لَه مَقْبُولَ الشَّهَادَةِ - مَرْضِيَّ الْمَقَالَةِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وخُطْبَةٍ فَصْلٍ - اللَّهُمَّ اجْمَعْ بَيْنَنَا وبَيْنَه فِي بَرْدِ الْعَيْشِ وقَرَارِ النِّعْمَةِ ومُنَى الشَّهَوَاتِ وأَهْوَاءِ اللَّذَّاتِ، ورَخَاءِ الدَّعَةِ ومُنْتَهَى الطُّمَأْنِينَةِ وتُحَفِ الْكَرَامَةِ

تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔نہ آگے بڑھنے سے انکارکیا اور نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔تیری وحی کو محفوظ کیا۔تیرے عہد کی حفاظت کی تیرے حکم کے نفاذ کی راہمیں بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کردی اور گم کر دہ راہ کے لئے راستہ واضح کردیا۔ان کے ذریعہ دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انہوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کردئیے۔وہ تیرے امانت داربندہ' تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار' روز قیامت کے لئے تیرے گواہ' حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اورمخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایہ رحمت میں وسیع ترین منزل قراردیدے اور ان کے خیر کو اپنے فضل سے دگنا چوگنا کردے۔خدایا ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگ تربنادے۔ان کے نورکی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انہیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کرکہ ان کی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور ان کا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوارزندگی' نعمات کی منزل ' خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز۔آرائش و طمانیت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کردے ۔

۱۰۴

(۷۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لمروان بن الحكم بالبصرة

قَالُوا: أُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَسِيراً يَوْمَ الْجَمَلِ - فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَكَلَّمَاه فِيه فَخَلَّى سَبِيلَه فَقَالَا لَه - يُبَايِعُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

قَالَعليه‌السلام :

أَولَمْ يُبَايِعْنِي بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ - لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِه إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِكَفِّه لَغَدَرَ بِسَبَّتِه أَمَا إِنَّ لَه إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَه - وهُوَ أَبُو الأَكْبُشِ الأَرْبَعَةِ وسَتَلْقَى الأُمَّةُ مِنْه ومِنْ وَلَدِه يَوْماً أَحْمَرَ.

(۷۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما عزموا على بيعة عثمان

(۷۳)

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا)

کہا جاتا ہے کہ جب مروان بن الحکم جنگ جمل میں گرفتار ہوگیا تو امام حسن و حسین) ۱ ( نے امیرالمومنین سے اس کی سفارش کی اور آپ نے اسے آزاد کردیا تو دونوں حضرت نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! یہ اب آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔تو آپ نے فرمایا:

کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کے بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا۔یاد رکھو اسے بھی حکومت ملے گی مگر صر ف اتنی دیر جتنی دیرمیں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹیوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بد ترین دن دیکھنے والی ہے۔

(۷۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا)

(۱)آل محمد (ص) کے اس کردار کا تاریخ کائنات میں کوئی جواب نہیں ہے۔انہوں نے ہمیشہ فضل و کرم سے کام لیا ہے۔حد یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ امام حسن و امام حسین کی سفارش کو مستقبل کے حالات سے نا واقفیت بھی تصور کرلیا جائے تو امام زین العابدین کے طرز عمل کو کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد بھی مروان کے گھر والوں کو پناہ دی ہے اور اس بے حیا نے حضرت سے پناہ کی درخواست کی ہے۔درحقیقت یہ بھی یہودیت کی ایک شاخ ہے کہ وقت پڑنے پر ہر ایک کے سامنے ذلیل بن جائو اور کام نکلنے کے بعد پروردگار کی نصیحتوں کی بھی پرواہ نہ کرو۔اللہ دین اسلام کو ہر دور کی یہودیت سے محفوظ رکھے۔

۱۰۵

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي - ووَ اللَّه لأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً - الْتِمَاساً لأَجْرِ ذَلِكَ وفَضْلِه - وزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوه مِنْ زُخْرُفِه وزِبْرِجِه

(۷۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان

أَولَمْ يَنْه بَنِي أُمَيَّةَ عِلْمُهَا بِي عَنْ قَرْفِي أَومَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِي عَنْ تُهَمَتِي - ولَمَا وَعَظَهُمُ اللَّه بِه أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِي - أَنَا حَجِيجُ الْمَارِقِينَ وخَصِيمُ النَّاكِثِينَ الْمُرْتَابِينَ وعَلَى كِتَابِ اللَّه تُعْرَضُ الأَمْثَالُ وبِمَا فِي الصُّدُورِ تُجَازَى الْعِبَادُ!

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات(۲) کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

(۷۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں)

کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا پروردگار نے تہمت و افترا کے خلاف جو نصیحت فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے والا'ان عہد شکن مبتلائے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ معاملات کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی پر ہوگا۔

(۲)امیر المومنین کا مقصد یہ ہے کہ خلافت میرے لئے کسی ہدف اور مقصد حیات کا مرتبہ نہیں رکھتی ہے۔یہ در حقیقت عام انسانیت کے لئے سکون و اطمینان فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔لہٰذا اگر یہ مقصد کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوگیا تو میرے لئے سکوت جائز ہو جائے گا اور میں اپنے اوپر ظلم کو برداشت کرلوں گا۔دوسرا فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ باطل خلافت سے مکمل عدل و اناصف اور سکون و اطمینان کی توقع محال ہے لیکن مولائے کائنات کا منشاء یہ ہے کہ اگر ظلم کا نشانہ میری ذات ہوگی تو برداشت کرلوں گا لیکن عوام الناس ہوں گے اور میرے پاس مادی طاقت ہوگی تو ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ یہ عہد الٰہی کے خلاف ہے۔

۱۰۶

(۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الحث على العمل الصالح

رَحِمَ اللَّه امْرَأً سَمِعَ حُكْماً فَوَعَىودُعِيَ إِلَى رَشَادٍ فَدَنَا وأَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا - رَاقَبَ رَبَّه وخَافَ ذَنْبَه قَدَّمَ خَالِصاً وعَمِلَ صَالِحاً - اكْتَسَبَ مَذْخُوراً واجْتَنَبَ مَحْذُوراً - ورَمَى غَرَضاً وأَحْرَزَ عِوَضاً كَابَرَ هَوَاه وكَذَّبَ مُنَاه - جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِيَّةَ نَجَاتِه والتَّقْوَى عُدَّةَ وَفَاتِه - رَكِبَ الطَّرِيقَةَ الْغَرَّاءَ ولَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَيْضَاءَ - اغْتَنَمَ الْمَهَلَ وبَادَرَ الأَجَلَ وتَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

(۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے)

خدا رحمت نازل(۱) کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو جھٹلادے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے اورتقویٰ کو وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل کا زاد راہ لے کرآگے بڑھے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور مسلم و کافر۔دین دارو بے دین سب کو شامل ہے۔یہ ہمیشہ غضب الٰہی سے آگے آگے چلتی ہے۔لیکن روز قیامت اس رحمت کا استحقاق آسان نہیں ہے۔وہ حساب کادن ہے اور خدائے واحد قہار کی حکومت کا دن ہے۔لہٰذا اس دن رحمت خداکے استحقاق کے لئے ان تمام چیزوں کواختیارکرنا ہوگا جن کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ کیا ہے اور ان کے بغیر رحمة اللعالمین کا کلمہ اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی کام نہیں آسکتا ہے۔دنیا کے احکام الگ ہیں اور آخرت کے احکام الگ ہیں۔یہاں کا نظام رحمت الگ ہے اور وہاں کا نظام مکافات و مجازات الگ۔

۱۰۷

(۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وذلك حين منعه سعيد بن العاص حقه

إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَيُفَوِّقُونَنِي تُرَاثَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تَفْوِيقاً - واللَّه لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ - لأَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!

قال الشريف - ويروى التراب الوذمة وهو على القلب

قال الشريف وقولهعليه‌السلام ليفوقونني - أي يعطونني من المال قليلا كفواق الناقة - وهو الحلبة الواحدة من لبنها -. والوذام جمع وذمة - وهي الحزة من الكرش أو الكبد تقع في التراب فتنفض.

(۷۸)

من كلمات كانعليه‌السلام

من كلمات كانعليه‌السلام يدعو بها

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِه مِنِّي - فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَيَّ بِالْمَغْفِرَةِ

(۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا)

یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حالانکہ اگر میں زندہ رہ گیا تو اس طرح جھاڑ کرپھینک(۱) دوں گاجس طرح قصاب گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔

سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکالا جاتا ہے۔فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔

(۷۸)

آپ کی دعا

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے)

خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:

(۱)کتنی حسین تشبیہ ہے کہ بنی امیہ کی حیثیت اسلام میں نہ جگر کی ہے نہ معدہ کی اورنہ جگر کے ٹکڑے کی ۔یہ وہ گروہیں جو الگ ہو جانے والے کپڑے سے چپک جاتی ہے لیکن گوشت کا استعمال کرنے والا اسے بھی برداشت نہیں کرتا ہے اوراسے جھاڑنے کے بعد ہی خریدار کے حوالے کر تا ہے تاکہ دکان بد نام نہ ہونے پائے اور تاجر نا تجربہ کار اور بذ ذوق نہ کہا جاسکے !

۱۰۸

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا وَأَيْتُ مِنْ نَفْسِي ولَمْ تَجِدْ لَه وَفَاءً عِنْدِي - اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا تَقَرَّبْتُ بِه إِلَيْكَ بِلِسَانِي ثُمَّ خَالَفَه قَلْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رَمَزَاتِ الأَلْحَاظِ وسَقَطَاتِ الأَلْفَاظِ وشَهَوَاتِ الْجَنَانِ وهَفَوَاتِ اللِّسَانِ

(۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لبعض أصحابه - لما عزم على المسير إلى الخوارج، وقد قال له: إن سرت يا أمير المؤمنين، في هذا الوقت، خشيت ألا تظفر بمرادك، من طريق علم النجوم

فقالعليه‌السلام : أَتَزْعُمُ أَنَّكَ تَهْدِي إِلَى السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا صُرِفَ عَنْه السُّوءُ - وتُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا حَاقَ بِه الضُّرُّ فَمَنْ صَدَّقَكَ بِهَذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْآنَ - واسْتَغْنَى عَنِ الِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - فِي نَيْلِ الْمَحْبُوبِ ودَفْعِ الْمَكْرُوه وتَبْتَغِي فِي قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِأَمْرِكَ - أَنْ يُولِيَكَ الْحَمْدَ دُونَ رَبِّه - لأَنَّكَ بِزَعْمِكَ أَنْتَ هَدَيْتَه إِلَى السَّاعَةِ - الَّتِي نَالَ فِيهَا النَّفْعَ وأَمِنَ الضُّرَّ.

خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی کی۔

خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔

(۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے جس میں نکلنے والے سے بلائیں ٹل جائیں گی اورتم اس ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے والا نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل کرنے والا پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔

۱۰۹

ثم أقبلعليه‌السلام على الناس فقال:

أَيُّهَا النَّاسُ - إِيَّاكُمْ وتَعَلُّمَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِه فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ - فَإِنَّهَا تَدْعُو إِلَى الْكَهَانَةِ - والْمُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ والْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ والسَّاحِرُ كَالْكَافِرِ - والْكَافِرُ فِي النَّارِ سِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّه

(۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان نقصهن

مَعَاشِرَ النَّاسِ إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الإِيمَانِ - نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ

ایہا الناس! خبر دار نجوم کا(۱) مت حاصل کرو مگر اتنا ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے والا ) ہو جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام خدا لے کرنکل پڑو۔

(۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں)

لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے ناقص ہوتی ہیں۔

(۱)واضح رہے کہ علم نجوم حاصل کرنے سے مراوان اثرات ونتائج کا معلوم کرنا ہے جو ستاروں کی حرکات کے بارے میں اس علم کے مدعی حضرات نے بیان کئے ہیں ورنہ اصل ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔اس سے انسان کے ایمان اورعقیدہ میں بھی استحکام پیدا ہوتا ہے اور بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔اور ستاروں کاوہ علم جو ان کے حقیقی اثرات پرمبنی ہے ایک فضل و شرف ہے اورعلم پروردگارکا ایک شعبہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کر دیتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اولا علم نجوم کو کہانت کا ایک شعبہ قرار دیا کہ غیب کی خبر دینے والے اپنے اخبار کے مختلف مآخذ ومدارک بیان کرتے ہیں۔جن میں سے ایک علم نجوم بھی ہے۔اس کے بعد جب ہ غیب کی خبریں بیان کر دیتے ہیں تو انہیں خبروں کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے ہیں جو جادوگری کا ایک شعبہ ہے اور جادوگری انسان کو یہ محسوس کرانا چاہتی ہے کہ اس کائنات میں عمل دخل ہمارا ہی ہے اور اس جادو کا چڑھانا اوراتارنا ہمارے ہی بس کا کام ہے' دوسرا کوئی یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔

۱۱۰

فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ - فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ - وأَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ - وأَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ - فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ - فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وكُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ - ولَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَرِ.

(۸۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الزهد

أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الأَمَلِ - والشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ والتَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ - فَإِنْ عَزَبَ ذَلِكَ عَنْكُمْ فَلَا يَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَكُمْ - ولَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ

ایمان کے اعتبار(۱) سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام حیض میں نماز روزہ سے بیٹھ جاتی ہیں اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مردکے برابر ( ہوتی ہے۔حصہ کی کمی یہ ہے کہ انہیں میراث میں حصہ مردوں کے آدھے حصہ کے برابر ملتا ہے ۔ لہٰذا تم بدترین عورتوں سے بچتے رہو اور بہترین عورتوں سے بھی ہوشیار رہو اورخبردار نیک کام بھی ان کی اطاعت کی بنا پر انجام نہ دینا کہ انہیں برے کام کا حکم دینے کاخیال پیدا ہو جائے۔

(۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(زہد کے بارے میں)

ایہاالناس! زاہد امیدوں کے کم کرنے' نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اورمحرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کو فراموش نہ کر دینا

(۱)اس خطبہ میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے مفاہیم میں کلیات کی طرح صورت حال اور تجربات کابھی دخل ہو سکتا ہے یعنی یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ہر عورت پر ہو جائے۔دنیا میں ایسی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو نسوانی عوارض سے پاک ہو۔اس کی گواہی بنض قرآن تنہا قابل قبول ہو اور وہ اپنے باپ کی تنہا وارث ہو۔ظاہر ہے کہ اس خاتون میں کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ہے جیسے جناب فاطمہ اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں اور ان فطری نقائص کے ساتھ کرداری اور ایمانی نقائص بھی ہوں کہ یہ عورت ہر اعتبار سے قابل لعنت و مذمت ہو۔قوانین کا دارومدار نہ قسم اول پر ہوسکتا ہے اورنہ قسم دوم پر۔قوانین کا اطلاق درمیانی قسم پر ہوتا ہے۔جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور صرف فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہواور امیر المومنین کی اطاعت کی تھی یا انہیں بھڑکایا تھا۔پھر امیر المومنین امام معصوم ہیں کوئی جذباتی انسان نہیں ہیں اور ان سے پہلے رسول اکرم (ص) بھی یہ بات فرماچکے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلان کے لئے ایک مناسب موقع ہاتھ آگیا جہاں اپنی بات کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے اور عورت کے اتباع کے نتائج سے باخبر کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۱

فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّه إِلَيْكُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَةٍ ظَاهِرَةٍ - وكُتُبٍ بَارِزَةِ الْعُذْرِ وَاضِحَةٍ.

(۸۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم صفة الدنيا

مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وآخِرُهَا فَنَاءٌ - فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وفِي حَرَامِهَا عِقَابٌ - مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ - ومَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ ومَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْه - ومَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْه ومَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْه ومَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْه.

قال الشريف - أقول وإذا تأمل المتأمل قولهعليه‌السلام ومن أبصر بها بصرته - وجد تحته من المعنى العجيب والغرض البعيد - ما لا تبلغ غايته ولا يدرك غوره - لا سيما إذا قرن إليه قوله ومن أبصر إليها أعمته - فإنه يجد الفرق بين أبصر بها - وأبصر إليها واضحا نيرا وعجيبا باهرا

کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اورحجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے۔

(۸۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا کے صفات کے بارے میں )

میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج و غم اورانتہا فنا ونیستی ہے۔اس کے حلال میں حساب میں ہے اور حرام میں عقاب ۔جو اس میں غنی ہو جائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے اور جو فقیر ہو جائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہو جائے۔جو اس کی طرف دوڑ لگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہو جائے۔جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کو منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے۔

سید رضی : اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی'' من ابصر بها بصرته'' میں غورکرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اورگہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر دوسرے فقرہ'' من ابصر الیها اعتمه'' کوملایا جائے تو''ابصر بها '' اور ''ابصر الیها '' کا فرق اور نمایاں ہو جائے گا اور عقل مدہوش ہو جائے گی۔

۱۱۲

(۸۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي الخطبة العجيبة تسمى «الغراء»

وفيها نعوت اللَّه جل شأنه، ثم الوصية بتقواهثم التنفير من الدنيا، ثم ما يلحق من دخولالقيامة، ثم تنبيه الخلق إلى ما هم فيه من الأعراض، ثم فضلهعليه‌السلام في التذكير

صفته جل شأنه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي عَلَا بِحَوْلِه ودَنَا بِطَوْلِه مَانِحِ كُلِّ غَنِيمَةٍ وفَضْلٍ وكَاشِفِ كُلِّ عَظِيمَةٍ وأَزْلٍ أَحْمَدُه عَلَى عَوَاطِفِ كَرَمِه وسَوَابِغِ نِعَمِه وأُومِنُ بِه أَوَّلًا بَادِياً وأَسْتَهْدِيه قَرِيباً هَادِياً - وأَسْتَعِينُه قَاهِراً قَادِراً وأَتَوَكَّلُ عَلَيْه كَافِياً نَاصِراً - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه

(۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اس خطبہ میں پروردگارکے صفات 'تقویٰ کی نصیحت ' دنیا سے بیزاری کاسبق قیامت کےحالات لوگوں کی بے رخی پر تنبیہ اورپھر یادخدا دلانے میں اپنی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساری تعریف(۱) اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کی بنا پر بلند اور اپنے احسانات کی بنا پر بندوں سے قریب تر ہے۔وہ ہر فائدہ اورفضل کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اوررنج کا ٹالنے والا ہے۔میں اس کی کرم نوازیوں اورنعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہی اول اور ظاہر ہے اور اسی سے ہدایت طلب کرتا ہو کہ وہی قریب اور ہادی ہے۔اسی سے مددچاہتا ہوں کہ وہی قادر اور قاہر ہے۔اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہی کافی اور ناصر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہو کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں

(۱) یوں تو امیر المومنین کے کسی بھی خطبہ کی تعریف کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خطبہ غراء کہے جانے کے قابل ہے جس میں اس قدرحقائق و معارف اور معانی و مفاہیم کو جمع کردیا گیا ہے کہ ان کا شمار کرنا بھی طاقت بشر سے بالا تر ہے ۔ آغاز خطبہ میں مالک کائنات کے بظاہر دو متضاد صفات و کمالات کاذکر کیا یا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے اعتبارسے انتہائی بلند تر ہے لیکن اس کے بعد بھی بندوں سے دورنہیں ہے اس لئے کہ ہرآن اپنے بندوں پر ایسا کرم کرتا رہتا ہے کہ یہ کرم اسے بندوں سے قریب تر بنائے ہوئے ہے اور اسے دورنہیں ہونے دیتا ہے۔لفظ'' بحولہ'' میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی بلندی کسی وسیلہ اورذریعہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ذاتی طاقت اور قدرت کا نتجیہ ہے ورنہ اس کے علاوہ ہر ایک کوبلندی اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر بلندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔وہ اگر چاہے تو بندہ کو قاب قوسین کی منزلوں تک بلند کردے ''اسری بعبدہ'' اوراگر چاہے تو '' صاحب معراج '' کے کاندھوں پربلند کردے ''وعلی واضع اقدامہ ۔فی محل وضع اللہ یدہ ''۔اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بعثت کا اصل مقصد یہ تھا کہ الٰہی احکام نافذہو جائیں بندوں پرحجت تمام ہو جائے اورانہیں قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کردیا جائے کہ یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اوری ہخدائی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پرانسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

۱۱۳

أَرْسَلَه لإِنْفَاذِ أَمْرِه وإِنْهَاءِ عُذْرِه وتَقْدِيمِ نُذُرِه

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ضَرَبَ الأَمْثَالَ ووَقَّتَ لَكُمُ الآجَالَ وأَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ وأَحَاطَ بِكُمُ الإِحْصَاءَ وأَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَاءَ وآثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِغِ، والرِّفَدِ الرَّوَافِغِ وأَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ فَأَحْصَاكُمْ عَدَداً - ووَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فِي قَرَارِ خِبْرَةٍ ودَارِ عِبْرَةٍ - أَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فِيهَا ومُحَاسَبُونَ عَلَيْهَا.

التنفير من الدنيا

فَإِنَّ الدُّنْيَا رَنِقٌ مَشْرَبُهَا رَدِغٌ مَشْرَعُهَا - يُونِقُ مَنْظَرُهَا ويُوبِقُ مَخْبَرُهَا - غُرُورٌ حَائِلٌ

انہیں پروردگارنے اپنے حکم کو نافذ کرنے ' اپنی حجت کوت مام کرنے اورعذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ بند گان خدا!میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہاری ہدایت کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تمہاری زندگی کے لئے مدت معین کی ہے تمہیں مختلف قسم کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے لئے اسباب معیشت کو فراواں کردیا ہے۔تمہارے اعمال کا مکمل احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا کا انتظام کر دیا ہے۔تمہیں مکمل نعمتوں اوروسیع تر عطیوں سے نوازاہے اورموثردلیلوں کے ذریعہ عذاب آخرت سے ڈرایا ہے۔تمہار ے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور تمہارے لئے اس امتحان گاہ اور مقام عبرت میں مدتیں معین کردی ہیں۔یہیں تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اسی کے اقوال و اعمال پر تمہارا حساب کیا جائے گا۔ یاد رکھو اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گل آلود ہے۔اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطر ناک ہیں۔یہ دنیا ایک مٹ جانے والا دھوکہ(۱) ہے

(۱)ایک ایک لفظ پرغور کیا جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی پیدا کی جائے ۔صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو رہنے والا نہیں ہے ایک روشنی ہے جو بجھ جانے والی ہے۔ایک سایہ ہے جوڈھل جانے والا ہے اور ایک سہارا ہے جو گر جانے والا ہے۔انصاف سے بتائو کیا ایسی دنیا بھی دل گلانے کے قابل اور اعتبار کرنے کے لائق ہے۔حقیقت امر یہ ہے کہ دنیا سے عشق و محبت صرف جہالت اورناواقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان اس کی حقیقت و بیوفائی سے با خبر ہو جائے تو طلاق دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

قیامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی بیوفائی ۔موت کی چیرہ دستی کا برابر مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عبرت حاصل کرنیوالا نہیں ہے اور ہرآنے والا دور گزشتہ دورکا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہاہے۔ یہ حقیقت عام انسانوں کی زندگی میں واضح نہ بھی ہو تو ظالموں اورستمگروں کی زندگی میں صبح و شام واضح ہوتی رہتی ہے کہ ہر ستمگر اپنے پہلے والے ستمگروں کا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہا ہے اور ہر مسئلہ حیات کا حل ظلم و ستم کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں قرار دیتا ہے۔خدا جانے ان ظالموں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور یہ اندھا انسان کب بینا بنے گا۔مولائے کائنات ہی نے سچ فرمایا تھا کہ '' سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آجائے گی تو بیدار ہو جائیں گے ''یعنی جب تک آنکھ کھلی رہے گی بند رہے گی اور جب بند ہو جائے گی تو کھل جائے گی۔استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

۱۱۴

وضَوْءٌ آفِلٌ وظِلٌّ زَائِلٌ وسِنَادٌ مَائِلٌ حَتَّى إِذَا أَنِسَ نَافِرُهَا واطْمَأَنَّ نَاكِرُهَاقَمَصَتْ بِأَرْجُلِهَا وقَنَصَتْ بِأَحْبُلِهَا وأَقْصَدَتْ بِأَسْهُمِهَا وأَعْلَقَتِ الْمَرْءَ أَوْهَاقَ الْمَنِيَّةِ قَائِدَةً لَه إِلَى ضَنْكِ الْمَضْجَعِ ووَحْشَةِ الْمَرْجِعِ - ومُعَايَنَةِ الْمَحَلِّ وثَوَابِ الْعَمَلِ وكَذَلِكَ الْخَلَفُ بِعَقْبِ السَّلَفِ لَا تُقْلِعُ الْمَنِيَّةُ اخْتِرَاماً ولَا يَرْعَوِي الْبَاقُونَ اجْتِرَاماً يَحْتَذُونَ مِثَالًا ويَمْضُونَ أَرْسَالًا إِلَى غَايَةِ الِانْتِهَاءِ وصَيُّورِ الْفَنَاءِ

بعد الموت البعث

حَتَّى إِذَا تَصَرَّمَتِ الأُمُورُ - وتَقَضَّتِ الدُّهُورُ وأَزِفَ النُّشُورُ أَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَائِحِ الْقُبُورِ وأَوْكَارِ الطُّيُورِ وأَوْجِرَةِ السِّبَاعِ ومَطَارِحِ الْمَهَالِكِ سِرَاعاً إِلَى أَمْرِه مُهْطِعِينَ إِلَى مَعَادِه رَعِيلًا صُمُوتاً قِيَاماً صُفُوفاً - يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ويُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي - عَلَيْهِمْ لَبُوسُ الِاسْتِكَانَةِ وضَرَعُ الِاسْتِسْلَامِ والذِّلَّةِ - قَدْ ضَلَّتِ الْحِيَلُ وانْقَطَعَ الأَمَلُ وهَوَتِ الأَفْئِدَةُ كَاظِمَةً

ایک بجھ جانے والی روشنی۔ایک ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا سہارا ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ے ہے اوراسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو ٹپکنے لگتی ہے اور عاشق کواپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہے اور پھراپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے۔انسان کی گردن می ں موت کا پھنڈا ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کرتنگی مرقداور وحشت منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ اپناٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پرآجاتی ہے۔نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اورنہ آنے والے افرادگناہوں سے باز آتے ہیں۔پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اورتمام زمانے بیت جائیں گے اورقیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انہیں قبروں کے گوشوں۔پرندوں کے گھونسلوں ۔درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا۔اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے۔گروہ درگروہ۔خاموش صف بستہ اوراستادہ ۔نگاہ قدرت ان پر حاوی اور داعی الٰہی کی آواز ان کے کانوںمیں۔بدن پر بیچارگی کا لباس اورخود سپردگی و ذلت کی کمزوری غالب۔تدبیر یں گم۔امیدں منقطع دل مایوس کن خاموش کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔

۱۱۵

وخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ مُهَيْنِمَةً وأَلْجَمَ الْعَرَقُ وعَظُمَ الشَّفَقُ وأُرْعِدَتِ الأَسْمَاعُ - لِزَبْرَةِ الدَّاعِي إِلَى فَصْلِ الْخِطَابِ ومُقَايَضَةِ الْجَزَاءِ - ونَكَالِ الْعِقَابِ ونَوَالِ الثَّوَابِ.

تنبيه الخلق

عِبَادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِدَاراً ومَرْبُوبُونَ اقْتِسَاراً ومَقْبُوضُونَ احْتِضَاراً ومُضَمَّنُونَ أَجْدَاثاً وكَائِنُونَ رُفَاتاً ومَبْعُوثُونَ أَفْرَاداً ومَدِينُونَ جَزَاءً ومُمَيَّزُونَ حِسَاباً قَدْ أُمْهِلُوا فِي طَلَبِ الْمَخْرَجِ وهُدُوا سَبِيلَ الْمَنْهَجِ وعُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ وكُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّيَبِ وخُلُّوا لِمِضْمَارِ

اور آوازیں دب کرخاموش ہو جائیں گی۔پسینہ منہ میں لگام لگا دے گا اور خوف عظیم ہوگا۔کان اس پکارنے والے کی آوازسے لرز اٹھیں گے جو آخری فیصلہ سنائے گا اور اعمال کا معاوضہ دینے اور آخرت کے عقاب یا ثواب کے حصول کے لئے آواز دے گا۔

تم وہ(۱) بندے ہو جو اس کے اقتدار کے اظہار کے لئے پیدا ہوئے ہو اور اس کے غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔نزع کے ہنگام ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور انہیں قبروں کے اندر چھپا دیا جائے گا۔یہ خاک کے اندر مل جائیں گے اور پھر الگ الگ اٹھائے جائیں گے۔انہیں اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ور حساب کی منزل میں الگ الگ کردیا جائے گا۔انہیں دنیا میں عذاب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے مہلت دی جا چکی ہے اور انہیں روشن راستہ کی ہدایت کی جا چکی ہے۔انہیں مرضی خدا کے حصول کا موقع بھی دیا جا چکا ہے اور ان کی نگاہوں سے شک کے پردے بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔انہیں میدان عمل میں آزاد بھی چھوڑا جا چکا ہے تاکہ آخرت کی دوڑ کی تیاری کرلیں اور سوچ سمجھ کر

(۱)انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کی تخلیق اتفاقات کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی زندگی اختیارات کا مجموعہ۔ وہ ایک خالق قدیر کی قدرت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور ایک حکیم خبیر کے اختیارات کے زیر اثر زندگی گذار رہا ہے۔ایک وقت آئے گا جب فرشتہ موت اس کی روح قبض کرلے گا اوراسے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر پہنچا دیا جائے گا اور پھر ایک دن تن تنہا قبر سے نکال کر منز حساب میں لا کھڑا کردیا جائے گا اور اسے اس کے اعمال کا مکمل معاوضہ دے دیا جائے گا اور یہ کام غیرعادلانہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اسے دنیا میں عذاب سے بچنے اور رضائے خدا حاصل کرنے کی مہلت دی جا چکی ہے۔اسے توبہ کا راستہ بھی بتایا جا چکا ہے اور عمل کے میدان کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس کی نگاہوں سے شک کے پردیبھی اٹھائے جا چکے ہیں اور اسے میدان عمل میں دوڑنے کا موقع بھی دیا جا چکا ہے۔اسے اس انسان جیسی مہلت بھی دی جا چکی ہے جو روشنی میں اپنے مدعا کو تلاش کرتا ہے کہ ایک طرف یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ تیز رفتاری میں مقصد سے آگے نہ نکل جائے اور ایک طرف یہ بھی احساس رہتا ہے کہ کہیں چراغ بجھ نہ جائے اور اس طرح اس کی روشنی انتہائی محتاط ہوتی ہے۔

۱۱۶

الْجِيَادِ ورَوِيَّةِ الِارْتِيَادِوأَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ فِي مُدَّةِ الأَجَلِ ومُضْطَرَبِ الْمَهَلِ

فضل التذكير

فَيَا لَهَا أَمْثَالًا صَائِبَةً ومَوَاعِظَ شَافِيَةً - لَوْ صَادَفَتْ قُلُوباً زَاكِيَةً وأَسْمَاعاً وَاعِيَةً - وآرَاءً عَازِمَةً وأَلْبَاباً حَازِمَةً - فَاتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ واقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ - ووَجِلَ فَعَمِلَ وحَاذَرَ فَبَادَرَ وأَيْقَنَ فَأَحْسَنَ وعُبِّرَ فَاعْتَبَرَوحُذِّرَ فَحَذِرَ وزُجِرَ فَازْدَجَرَ وأَجَابَ فَأَنَابَ ورَاجَعَ فَتَابَ واقْتَدَى

فَاحْتَذَى

کر منزل کی تلاش کرلیں اور اتنی مہلت پالیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور آئندہ منزل کا سامان مہیا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے

ہائے یہ کس قدر صحیح مثالیں(۱) اورشفا بخش نصیحتیں ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت(۲) سے ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دلائی گئی تو عبرت حاصل کرلی ۔خوف دلایا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو ان کے نقش قدم پر چلا

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالک کائنات کی بیان کی ہوئی مثالیں صائب و صحیح اور اس کی نصیحتیں صحت مند اورشفا بخش ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی نسخہ شفا صرف نسخہ کی حد تک کارآمد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال کرنا اور استعمال کے ساتھ پرہیز کرنابھی ضروری ہوتا ہے ۔اور انسانوں میں اسی شرط کی کمی ہے۔نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے چارعناصر کاہونالازمی ہے۔سننے والے کان ہوں۔طیب و طاہر دل ہوں۔رائے میں استحکام ہو اورفکر میں ہوشیاری ہو۔یہ چاروں عناصر نہیں ہیں تو نصیحتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اور عالم بشریت کی کمزوری یہی ہے کہ اسمیں انہیں عناصر میں سے کوئی نہ کوئی عنصر کم ہو جاتا ہے اوروہ مواعظ و نصائح کے اثرات سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲)ایک مرد مومن کی زندگی کا حسین ترین اور پاکیزہ ترین نقشہ یہی ہے کہ لیکن یہ الفاظ فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں ہیں۔زندگی پر منطبق کرنے کے لئے اور زندگی کا امتحان کرنے کے لئے ہیں کہ کیا واقعاً ہماری زندگی میں یہ حالات اور کیفیات پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہے توہماری عاقبت بخیر ہے اور ہمیں نجات کی امید رکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس دار عبرت میں گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اب سے اصلاح دنیا وآخرت کے عمل میں لگ جانا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ موت اچانک نازل ہو جائے اور وصیت کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہو سکے۔کتنا بلیغ فقرہ ہے مولائے کائنات کا کہ گذشتہ لوگ ہر قید و بند اور ہر پابندی حیات سے آزاد ہوگئے لیکن موت کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور اس نے بالآخر انہیں گرفتار کرلیا اوران کی وعدہ گاہ تک پہنچا دیا۔

۱۱۷

وأُرِيَ فَرَأَى فَأَسْرَعَ طَالِباً ونَجَا هَارِباً - فَأَفَادَ ذَخِيرَةً وأَطَابَ سَرِيرَةً وعَمَّرَ مَعَاداً - واسْتَظْهَرَ زَاداً لِيَوْمِ رَحِيلِه ووَجْه سَبِيلِه وحَالِ حَاجَتِه - ومَوْطِنِ فَاقَتِه وقَدَّمَ أَمَامَه لِدَارِ مُقَامِه - فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَه - واحْذَرُوا مِنْه كُنْه مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِه - واسْتَحِقُّوا مِنْه مَا أَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِيعَادِه - والْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِه.

التذكير بضروب النعم

ومنها: جَعَلَ لَكُمْ أَسْمَاعاً لِتَعِيَ مَا عَنَاهَا وأَبْصَاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا وأَشْلَاءً جَامِعَةً لأَعْضَائِهَا - مُلَائِمَةً لأَحْنَائِهَا فِي تَرْكِيبِ صُوَرِهَا ومُدَدِ عُمُرِهَا بِأَبْدَانٍ قَائِمَةٍ بِأَرْفَاقِهَا وقُلُوبٍ رَائِدَةٍ لأَرْزَاقِهَا - فِي مُجَلِّلَاتِ نِعَمِه ومُوجِبَاتِ مِنَنِه وحَوَاجِزِ عَافِيَتِه وقَدَّرَ لَكُمْ أَعْمَاراً

منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دلایا ہے اور اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔

اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ جو اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اس کی عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے وہ عمریں قرار دی ہیں جن

۱۱۸

سَتَرَهَا عَنْكُمْ - وخَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثَارِ الْمَاضِينَ قَبْلَكُمْ - مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ ومُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ أَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَايَا دُونَ الآمَالِ وشَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الآجَالِ - لَمْ يَمْهَدُوا فِي سَلَامَةِ الأَبْدَانِ - ولَمْ يَعْتَبِرُوا فِي أُنُفِ الأَوَانِ فَهَلْ يَنْتَظِرُ أَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ إِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ - وأَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ إِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ - وأَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَاءِ إِلَّا آوِنَةَ الْفَنَاءِ مَعَ قُرْبِ الزِّيَالِ وأُزُوفِ الِانْتِقَالِ وعَلَزِ الْقَلَقِ وأَلَمِ الْمَضَضِ وغُصَصِ الْجَرَضِ وتَلَفُّتِ الِاسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ والأَقْرِبَاءِ - والأَعِزَّةِ والْقُرَنَاءِ فَهَلْ دَفَعَتِ الأَقَارِبُ

کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل کی ہلاکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ کردیا۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں(۱) اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اولاد اعزا احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔تو کیا آج تک کبھی اقربا نے موت کو دفع کردیا

(۱)ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جب دنیا کے تمام مشاغل تمام کرکے بستر پرآئے تو اس خطبہ کی تلاوت کرے اور اس کے مضامین پر غور کرے۔پھر اگر ممکن ہوتو کمرہ کی روشنی گل کرکے دروازہ بند کرکے قبر کا تصور پیدا کرے اور یہ سوچے کہ اگر اس وقت کسی طرف سے سانپ، بچھوحملہ آور ہو جائیں اور کمرہ کی آواز باہرنہ جا سکے اور دروازہ کھول کر بھاگنے کا امکان بھی نہ ہو تو انسان کیا کرے گا اور اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کرے گا۔شائد یہی تصوراسے قبر کے بارے میں سوچنے اور اس کے ہولناک مناظر سے بچنے کے راستے نکالنے پرآمادہ کر سکے ورنہ دنیا کی رنگینیاں ایک لمحے کے لئے بھی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقعنہیں دیتی ہیں اور کسی نہ کسی وہم میں مبتلا کرکے نجات کا یقین دلا دیتی ہیں اور پھر انسان اعمال سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

۱۱۹

أَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ وقَدْ غُودِرَ فِي مَحَلَّةِ الأَمْوَاتِ رَهِيناً وفِي ضِيقِ الْمَضْجَعِ وَحِيداً قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَه - وأَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَه وعَفَتِ الْعَوَاصِفُ آثَارَه - ومَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَه وصَارَتِ الأَجْسَادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِهَا والْعِظَامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِهَا - والأَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ أَعْبَائِهَا مُوقِنَةً بِغَيْبِ أَنْبَائِهَا لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا - ولَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَيِّئِ زَلَلِهَا أَولَسْتُمْ أَبْنَاءَ الْقَوْمِ والآبَاءَ وإِخْوَانَهُمْ والأَقْرِبَاءَ - تَحْتَذُونَ أَمْثِلَتَهُمْ وتَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ وتَطَئُونَ جَادَّتَهُمْ فَالْقُلُوبُ قَاسِيَةٌ عَنْ حَظِّهَا لَاهِيَةٌ عَنْ رُشْدِهَا - سَالِكَةٌ فِي غَيْرِ مِضْمَارِهَا كَأَنَّ الْمَعْنِيَّ سِوَاهَا وكَأَنَّ الرُّشْدَ فِي إِحْرَازِ دُنْيَاهَا.

التحذير من هول الصراط

واعْلَمُوا أَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ ومَزَالِقِ دَحْضِه وأَهَاوِيلِ زَلَلِه وتَارَاتِ أَهْوَالِه فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه -

ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم تازگی کے بعدہلاک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء اجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے گزرنا ہے۔اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔اس طرح جس طرح وہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

۴۰۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَيْنُ حَقٌّ والرُّقَى حَقٌّ والسِّحْرُ حَقٌّ - والْفَأْلُ حَقٌّ والطِّيَرَةُ لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والْعَدْوَى لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والطِّيبُ نُشْرَةٌ والْعَسَلُ نُشْرَةٌ - والرُّكُوبُ نُشْرَةٌ والنَّظَرُ إِلَى الْخُضْرَةِ نُشْرَةٌ.

۴۰۱ - وقَالَعليه‌السلام : مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِي أَخْلَاقِهِمْ أَمْنٌ مِنْ غَوَائِلِهِمْ

۴۰۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ مُخَاطِبِيه - وقَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُسْتَصْغَرُ مِثْلُه عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا:

لَقَدْ طِرْتَ شَكِيراً وهَدَرْتَ سَقْباً.

(۴۰۰)

چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفال نیک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی(۱) کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔

خوشبو سواری' شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔

(۴۰۱)

لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے(۲) کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۴۰۲)

ایک شخص(۳) نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔

(۱)کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرادیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اوراس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پراعتماد کرناچاہیے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا ساراکاروبار صرف اوہام وخیالات پرچل رہا ہے اور شگون نیک کی طرف کوئی شخص متوجہ نہیں ہے اور بد شگونی کا اعتبار ہر شخص کر لیتا ہے اوراس پر بیشمار سماجی اثرات بھی مرتبہو جاتے ہیں اور معاشرتی فساد کا ایک سللہ شروع ہو جاتا ہے۔

(۲)چونکہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھبرا برتائو نہ کریں اور وہ ہر ایک کے شر سے محفوظ رہے لہٰذا اس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے تعلقات قائم کرے اوران سے رسم و راہ بڑھائے تاکہوہ شر پھیلانے کا ارادہ ہی نہ کریں۔کہ معاشر ہ میں زیادہ حصہ شراختلاف اوردوری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قربت کے بعد کسی نہ کسی مقدار میں تکلف ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔

(۳)بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم وفضل اور کمال و ہنر کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اونچی محفلوں میں بولنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں جس طرح کہ بعض خطباء کمال جہالت کے باوجود ہر بڑی سے بڑی مجلس سے خطاب کرنے کے امیدوار رہتے ہیں اور ان کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اپنی شخصیت کارعب قائم کرلیں گے اور یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ رہی سہی عزت بھی چلی جائے گی اور مجمع عام میں رسوا ہو جائیں گے۔

امیر المومنین نے اسے ہی افراد کو تنبیہ کی ہے جو قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں اور بلوغ فکری سے پہلے ہی بلبلانے لگتے ہیں۔

۷۶۱

قال الرضي والشكير هاهنا أول ما ينبت من ريش الطائر - قبل أن يقوى ويستحصف - والسقب الصغير من الإبل - ولا يهدر إلا بعد أن يستفحل.

۴۰۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَوْمَأَ إِلَى مُتَفَاوِتٍ خَذَلَتْه الْحِيَلُ

۴۰۴ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى قَوْلِهِمْ - لَا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه - إِنَّا لَا نَمْلِكُ مَعَ اللَّه شَيْئاً ولَا نَمْلِكُ إِلَّا مَا مَلَّكَنَا - فَمَتَى مَلَّكَنَا مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنَّا كَلَّفَنَا - ومَتَى أَخَذَه مِنَّا وَضَعَ تَكْلِيفَه عَنَّا.

۴۰۵ - وقَالَعليه‌السلام لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ - وقَدْ سَمِعَه يُرَاجِعُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ كَلَاماً

سید رضی :شکیر پرندہ کے ابتدائی پروں کو کہا جاتا ہے اورسقب چھوٹے اونٹ کا نام ہے جب کہ بلبلانے کاسلسلہ جوانی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

(۴۰۳)

جو مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے اس کی تدبیریں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔

(۴۰۴)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ'' لاحول ولا قوة الا باللہ '' کے معنی کیا ہیں ؟ توفرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور جو کچھ ملکیت ہے سب اسی کی دی ہوئی ہے تو جب وہ کسی ایسی چیز کا اختیار دیتا ہے جس کا اختیار اس کے پاس ہم سے زیادہ ہے تو ہمیں ذمہ داریاں بھی دیتا ہے اور جب واپس لے لیتا ہے تو ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے۔

(۴۰۵)

آپ نے دیکھا کہ عماریاسر مغیرہ(۱) بن شعبہ سے بحث

(۱)ابن ابی الحدید نے مغیرہ کے اسلام کی یہ تاریخ نقل کی ہے کہ یہ شخص ایک قافلہ کے ساتھ سفر میں جارہا تھا۔ایک مقام پر سب کو شراب پلا کر بے ہوش کردیا اور پھرقتل کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔اس کے بعد جب یہ خطرہ پیدا ہواکہ ورثہ انتقام لیں گے اورجان کاب چانا مشکل ہو جائے گا تو بھاگکر مدینہآگیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا کہاس طرح جان بچانے کا ایک راستہ نکل آئے گا۔

یہ شخص اسلام و ایمان دونوں سے بے بہرہ تھا۔اسلام جان بچانے کے لئے اختیار کیا تھا اورایمان کایہ عالم تھاکہ بر سر منبر '' کل ایمان'' کو گالیاں دیاکرتا تھا اور اسی بد ترین کردار کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا جو ہر دشمن علی کاآخری انجام ہوتا ہے۔

۷۶۲

دَعْه يَا عَمَّارُ - فَإِنَّه لَمْ يَأْخُذْ مِنَ الدِّينِ إِلَّا مَا قَارَبَه مِنَ الدُّنْيَا - وعَلَى عَمْدٍ لَبَسَ عَلَى نَفْسِه - لِيَجْعَلَ الشُّبُهَاتِ عَاذِراً لِسَقَطَاتِه.

۴۰۶ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَحْسَنَ تَوَاضُعَ الأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللَّه - وأَحْسَنُ مِنْه تِيه الْفُقَرَاءِ عَلَى الأَغْنِيَاءِ - اتِّكَالًا عَلَى اللَّه.

۴۰۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَا اسْتَوْدَعَ اللَّه امْرَأً عَقْلًا إِلَّا اسْتَنْقَذَه بِه يَوْماً مَا.

۴۰۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَه.

۴۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَلْبُ مُصْحَفُ الْبَصَرِ

کر رہے ہیں تو فرمایا عمار! اسے اس کے حال پرچھوڑ دو۔اس نے دین میں سے اتنا ہی حصہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب تر بنا سکے اورجان بوجھ کر اپنے لئے امور کو مشتبہ بنالیا ہے تاکہ انہیں شبہات کو اپنی لغزشوں کا بہانہ قراردے سکے ۔

(۴۰۶)

کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں لیکن اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فقر اء خدا پر بھروسہ کرکے دولت مندوں کے ساتھ تمکنت(۱) سے پیش آئیں۔

(۴۰۷)

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

(۴۰۸)

جو حق سے ٹکرائے گا حق بہر حال اسے پچھاڑ دے گا۔

(۴۰۹)

دل آنکھوں کا صحیفہ ہے

(۱)تکبراورتمکنت کوئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن جہاں تواضع اورخاکساری میں فتنہ و فساد پایا جاتا ہو ورنہ تکبر اورتمکنت کا اظہار بے حد ضروری ہو جاتا ہے فقراء کے تکبرکامقصد یہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا اظہار کریں اوربے بنیاد تمکنت کا سہارالیں۔بلکہ اس کامقصد یہ ے کہ اغنیاء کے بجائے پروردگار پر بھروسہ کریں اور اسی کے بھروسہ پر اپنی بے نیازی کا اظہار کریں تاکہ ایمان و عقیدہ میں استحکام پیدا ہو اوراغنیاء بھی تواضع اور انکسا پر مجبور ہو جائیں اور اس تواضع سے انہیں بھی کچھ اجر و ثواب حاصل ہو جائے ۔

۷۶۳

۴۱۰ - وقَالَعليه‌السلام : التُّقَى رَئِيسُ الأَخْلَاقِ.

۴۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : لَا تَجْعَلَنَّ ذَرَبَ لِسَانِكَ عَلَى مَنْ أَنْطَقَكَ - وبَلَاغَةَ قَوْلِكَ عَلَى مَنْ سَدَّدَكَ

۴۱۲ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ أَدَباً لِنَفْسِكَ اجْتِنَابُ مَا تَكْرَهُه مِنْ غَيْرِكَ.

۴۱۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ صَبَرَ صَبْرَ الأَحْرَارِ وإِلَّا سَلَا سُلُوَّ الأَغْمَارِ

۴۱۴ - وفِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّهعليه‌السلام - قَالَ لِلأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ مُعَزِّياً عَنِ ابْنٍ لَه.

إِنْ صَبَرْتَ صَبْرَ الأَكَارِمِ - وإِلَّا سَلَوْتَ سُلُوَّ الْبَهَائِمِ.

۴۱۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الدُّنْيَا: تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ -.

(۴۱۰)

تقویٰ تمام اخلاقیات کا راس و رئیس ہے۔

(۴۱۱)

اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اور اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایاہے۔

(۴۱۲)

اپنے نفس کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرو جنہیں دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو۔

(۴۱۳)

انسان جواں مردوں کی طرح صبر کرے گا ورنہ سادہ لوحوں کی طرح چپ ہو جائے گا۔

(۴۱۴)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث بن قیس کو اس کے بیٹے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بزرگوں کی طرح صبر کرو ورنہ جانوروں کی طرح ایک دن ضرور بھول جائو گے ۔

(۴۱۵)

آپ نے دنیا کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھوکہ دیتی ہے ۔نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے

۷۶۴

إِنَّ اللَّه تَعَالَى لَمْ يَرْضَهَا ثَوَاباً لأَوْلِيَائِه ولَا عِقَاباً لأَعْدَائِه وإِنَّ أَهْلَ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ - بَيْنَا هُمْ حَلُّوا إِذْ صَاحَ بِهِمْ سَائِقُهُمْ فَارْتَحَلُوا

۴۱۶ - وقَالَ لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام لَا تُخَلِّفَنَّ وَرَاءَكَ شَيْئاً مِنَ الدُّنْيَا - فَإِنَّكَ تَخَلِّفُه لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - إِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِطَاعَةِ اللَّه - فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - وإِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - فَكُنْتَ عَوْناً لَه عَلَى مَعْصِيَتِه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ حَقِيقاً أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ.

قَالَ الرَّضِيُّ ويُرْوَى هَذَا الْكَلَامُ عَلَى وَجْه آخَرَ وهُوَ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الَّذِي فِي يَدِكَ مِنَ الدُّنْيَا - قَدْ كَانَ لَه أَهْلٌ قَبْلَكَ - وهُوَ صَائِرٌ إِلَى أَهْلٍ بَعْدَكَ - وإِنَّمَا أَنْتَ جَامِعٌ لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - رَجُلٍ عَمِلَ فِيمَا جَمَعْتَه بِطَاعَةِ اللَّه

اللہ نے اسے نہ اپنے اولیاء کے ثواب کے لئے پسند کیا ہے اور نہ دشمنوں کے عذاب کے لئے۔اہل دنیا ان سواروں کے مانند ہیں جنہوں نے جیسے ہی قیام کیا ہنکانے والے نے للکار دیاکہ کوچ کا وقت آگیا ہے اور پھر روانہ ہوگئے ۔

(۴۱۶)

اپنے فرزند حسن(۱) سے بیان فرمایا: خبردار دنیا کی کوئی چیز اپنے بعد کے لئے چھوڑ کرمت جانا کہ اس کے وارث دو ہی طرح کے لوگ ہوں گے۔یا وہوں گے جو نیک عمل کریں گے تو جو مال تمہاری بد بختی کا سبب بنا ہے وہی ان کی نیک بختی کا سبب ہوگا اور اگر انہوں نے معصیت میں لگادیا تو وہ تمہارے مال کی وجہ سے بد بخت ہوں گے اورتم ان کو معصیت کے مددگار شمار ہوگے اور ان دونوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے تم اپنے نفس پر ترجیح دے سکتے ہو۔

سید رضی : اس کلام کو ایک دوسری طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ '' یہ دنیا جو آج تمہارے ہاتھ میں ہے کل دوسرے اس کے اہل رہ چکے ہیں اور کل دوسرے اس کے اہل ہوں گے اور تم اسے دو میں سے ایک کے لئے جمع کر رہے ہو یا وہ شخص جو تمہارے جمع کئے ہوئے کو اطاعت خدا میں صرف کرے گا تو جمع کرنے کی زحمت تمہاری

(۱)امام حسن سے خطاب مسئلہ کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے کہ اتنی عظیم بات کا سمجھنا اوراس سے فائدہ اٹھاناہر انسان کے بس کاکام نہیں ہے ورنہ امام حسن جیسی شخصیت کا انسان ان نکات کی طرف توجہ دلانے کامحتاج نہیں ہے اور ان کا کامخود ہی عالم انسانیت کو ان حقائق سے با خبر کرنااور ان نکات کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

بہرحال مسئلہ انتہائی اہم ہے کہ انسان کو اپنی عاقبت کے لئے جو کچھ کرناہے وہ اپنی زندگی میں کرنا ہے۔مرنے کے بعد دوسروں سے امید لگانا ایک وسوسہ شیطانی ہے اور کچھ نہیں ہے۔پھرمال بھی پروردگارنے دیا ہے تو اس کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہے۔چاہے زندگی میں صرف کردے یا اس کے مصرف کا تعین کردے ورنہ فائدہ دوسرے افراد اٹھائیں گے اور وبال اسے برداشت کرنا پڑے گا۔

۷۶۵

- فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيتَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ أَهْلًا أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ - ولَا أَنْ تَحْمِلَ لَه عَلَى ظَهْرِكَ - فَارْجُ لِمَنْ مَضَى رَحْمَةَ اللَّه - ولِمَنْ بَقِيَ رِزْقَ اللَّه.

۴۱۷ - وقَالَعليه‌السلام لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِه أَسْتَغْفِرُ اللَّه - ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ - الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ - وهُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ - أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى - والثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْه أَبَداً - والثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ - حَتَّى تَلْقَى اللَّه أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ - والرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ - ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا - والْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ - فَتُذِيبَه بِالأَحْزَانِ

ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میںسے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔

(۴۱۷)

ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ''استغفر اللہ '' تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:(۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم(۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا(۱) دینا

(۱)اس سلسلہ میں سرکاردوعالم (ص) کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھالیا اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس کی دعا بھی چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس حرام سے جوگوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوریاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہاثر ہے تو جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں۔ان کی عبادتوں اوردعائوں کا انجام کیا ہوگا ۔ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کاشکوہ کرنے کے بجائے دعائوں ک قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ بنا سکتی ہے تواث کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے جب تک قابل قبول نہ ہوجائے۔اور صحیح اور مقبول کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کے لئے عمل کے شرائط اور واجبات کودیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہیں ہوئی ہے تو عمل صحیح ہو جائے گا اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔لیکن قبول ہونے کے لئے اس کے علاوہ عمل کرنے والے کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھاجاتا ہے کہ پوردگار متقین کے علاوہکسی کے عمل کو قابل قبول نہیں قرار دیتا ہے اور اسنے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور انہیں کے اعمال کو اجرو ثواب کاحقدار اور بلندی درجات کا وسیلہ و ذریعہ قراردیتا ہے۔

۷۶۶

حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ - ويَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ - والسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ - كَمَا أَذَقْتَه حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّه.

۴۱۸ - وقَالَعليه‌السلام الْحِلْمُ عَشِيرَةٌ

۴۱۹ - وقَالَعليه‌السلام : مِسْكِينٌ ابْنُ آدَمَ - مَكْتُومُ الأَجَلِ مَكْنُونُ الْعِلَلِ - مَحْفُوظُ الْعَمَلِ تُؤْلِمُه الْبَقَّةُ - وتَقْتُلُه الشَّرْقَةُ وتُنْتِنُه الْعَرْقَةُ

۴۲۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام كَانَ جَالِساً فِي أَصْحَابِه - فَمَرَّتْ بِهِمُ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ فَرَمَقَهَا الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام :

إِنَّ أَبْصَارَ هَذِه الْفُحُولِ طَوَامِحُ وإِنَّ ذَلِكَ سَبَبُ هِبَابِهَا - فَإِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى امْرَأَةٍ تُعْجِبُه فَلْيُلَامِسْ أَهْلَه - فَإِنَّمَا هِيَ امْرَأَةٌ كَامْرَأَتِه.

یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے(۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھائو جیسے طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ۔اس کے بعد کہو ''استغفر اللہ ''

(۴۱۸)

بردباری خود ایک پورا قبیلہ ہے۔

(۴۱۹)

ابن آدم کس قدر مسکین ہے کہ اس کی موت بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بیماریاں بھی صیغہ راز میں ہیں اور اس کے اعمال بھی سب محفوظ کئے جا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے۔اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اسے بدبوداربنادیتا ہے ۔

(۴۲۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ادھر سے ایک خوبصورت عورت کا گذر ہوگیا اور لوگوں نے اسے کن آنکھیوں سے دیکھنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا: '' ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی عورت کو دیکھے جو پسند آنے والی ہو تو اپنے اہل سے روابط پیدا کرے کہ یہ عورت بھی اپنی ہی عورت جیسی ہے''

۷۶۷

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ - قَاتَلَه اللَّه كَافِراً مَا أَفْقَهَه - فَوَثَبَ الْقَوْمُ لِيَقْتُلُوه - فَقَالَعليه‌السلام :رُوَيْداً إِنَّمَا هُوَ سَبٌّ بِسَبٍّ أَوْ عَفْوٌ عَنْ ذَنْبٍ

۴۲۱ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ مِنْ عَقْلِكَ مَا أَوْضَحَ لَكَ سُبُلَ غَيِّكَ مِنْ رُشْدِكَ.

۴۲۲ - وقَالَعليه‌السلام : افْعَلُوا الْخَيْرَ ولَا تَحْقِرُوا مِنْه شَيْئاً،فَإِنَّ صَغِيرَه كَبِيرٌ وقَلِيلَه كَثِيرٌ - ولَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنَّ أَحَداً أَوْلَى بِفِعْلِ الْخَيْرِ مِنِّي - فَيَكُونَ واللَّه كَذَلِكَ إِنَّ لِلْخَيْرِ والشَّرِّ أَهْلًا فَمَهْمَا تَرَكْتُمُوه مِنْهُمَا كَفَاكُمُوه أَهْلُه

۴۲۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَصْلَحَ سَرِيرَتَه أَصْلَحَ اللَّه عَلَانِيَتَه - ومَنْ عَمِلَ لِدِينِه كَفَاه اللَّه.

یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ اللہ اس کا فرکو قتل کرے کس قدر فقیہ ہے۔تو لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ خبردار۔ٹہرو۔گالی کا بدلہ گالی ہوتا ہے یا خطا سے درگزر کرنا ہوتا ہے۔

(۴۲۱)

تمہارے لئے اتنی ہی عقل کافی ہے کہ گمراہی کا راستہ ہدایت کے راستہ سے الگ ہو جائے ۔

(۴۲۲)

نیکیاں انجام دو اور اس میں سے کسی چیز کوبھی حقیر نہ سمجھو کہ نیکی چھوٹی بھی بڑی ہوتی ہے اور تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے۔خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ کوئی شخص کا رخیر کے لئے مجھ سے بہتر ہے ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہو جائے گا۔نیکی اور برائی دونوںکے اہل ہوتے ہیں اگر تم اسے چھوڑ دوگے تو جو اس کا اہل ہوگا وہی اسے انجام دیدے گا۔

(۴۲۳)

جو اپنے باطن کی اصلاح(۱) کرے گا پروردگار اس کے ظاہر کو درست کردے گا اور جو اپنے دین کے لئے عمل کرے گا خدا اس کی دنیا کے لئے کافی ہو جائے گا

(۱)مقصد یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ایکگہرا رابطہ پایا جاتاہے اور دونوں میں کس یایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس باطن کی اصلح پر زوردے جو ظاہری اعمال کا سرچشمہ ہے کہ اس کے بعد ظاہر کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی اور اس کا سبب وہمالک ہوگا جس نے ظاہر کے اعمال کو باطن کے محرکات کا تابع بنادیا ہے۔

۷۶۸

أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ أَحْسَنَ فِيمَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَحْسَنَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ

۴۲۴ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ غِطَاءٌ سَاتِرٌ والْعَقْلُ حُسَامٌ قَاطِعٌ - فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِحِلْمِكَ وقَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ.

۴۲۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِلَّه عِبَاداً يَخْتَصُّهُمُ اللَّه بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ - فَيُقِرُّهَا فِي أَيْدِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا - فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ ثُمَّ حَوَّلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ.

۴۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : لَا يَنْبَغِي لِلْعَبْدِ

اور جو اپنے اور اللہ کے معاملات کو درست کرے گا پروردگار اس کے اوردوسرے انسانوں کے معاملات کو بھی ٹھیک کردے گا۔

(۴۲۴)

بردباری(۱) ڈھانک لینے والا پردہ ہے اور عقل تیز ترین تلوار ہے لہٰذا اپنے اخلاق کی کمزوریوں کو تحمل سے چھپائو اور اپنی خواہشات کا عقل کی تلوارسے مقابلہ کرو۔

(۴۲۵)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جنہیں پروردگار مخصوص نعمتیں دوسرے بندوں(۲) کے فائدہ کے لئے عنایت کرتاہے تو اس کے بعد جب تک وہ داد و دہش کرتے رہتے ہیں ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں باقی رکھتا ہے اور جب جودو کرم کو روک دیتے ہیں تو ان سے واپس لے لیتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے۔

(۴۲۶)

کسی بندہ کے لئے یہ مناسب نہی ہے کہ دو

(۱)انسانی زندگی کی دو عظیم خرابیاں ہیں :ایک کا نام ہے خواہش پرستی اوردوسری کا نام ہے بد اخلاقی ۔مولائے کائنات نے دونوں کا ایک ایک علاج بتایا ہے کہ خواہش پرستی کا علاج ہے اتباع عقل جس کے بعد خواہش کو امرونہی کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا ہے۔اوربداخلاقی کا علاج ہے بردباری کہ جس کے ذریعہ سے کم سے کم اس عیب کی پردہ پوشی کی جا سکتی ہے۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے پاس نعمتوں کی فراوانی کسی ذاتی امتیاز یا مالک سے کسی خاص رشتہ داری کی بنیاد پرنہیں ہے۔اس کا سبب درحقیقت وہ امانتداری ہے جو پروردگار اپنے بندہ میں دیکھناچاہتا ہے اوروہ انتظام ہے جو مالک کمزوروں کے لئے طاقتور افراد کے ذریعہ انجام دیتا ہے۔لہٰذا کسی انسان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور کمزوروں کی حاجت برآری کرکے اپنی شرافت اور امانتداری کا ثبوت دینا چاہیے۔

۷۶۹

أَنْ يَثِقَ بِخَصْلَتَيْنِ الْعَافِيَةِ والْغِنَى - بَيْنَا تَرَاه مُعَافًى إِذْ سَقِمَ وبَيْنَا تَرَاه غَنِيّاً إِذِ افْتَقَرَ.

۴۲۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ شَكَا الْحَاجَةَ إِلَى مُؤْمِنٍ فَكَأَنَّه شَكَاهَا إِلَى اللَّه - ومَنْ شَكَاهَا إِلَى كَافِرٍ فَكَأَنَّمَا شَكَا اللَّه.

۴۲۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي بَعْضِ الأَعْيَادِ - إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّه صِيَامَه وشَكَرَ قِيَامَه - وكُلُّ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّه فِيه فَهُوَ عِيدٌ.

۴۲۹ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَعْظَمَ الْحَسَرَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - حَسْرَةُ رَجُلٍ كَسَبَ مَالًا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه - فَوَرِثَه رَجُلٌ فَأَنْفَقَه فِي طَاعَةِ اللَّه سُبْحَانَه - فَدَخَلَ بِه الْجَنَّةَ ودَخَلَ الأَوَّلُ بِه النَّارَ.

۴۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَخْسَرَ النَّاسِ صَفْقَةً وأَخْيَبَهُمْ سَعْياً - رَجُلٌ

چیزوں پر بھروسہ کرے۔ایک عافیت اورایک مالداری۔ کہ عافیت دیکھتے دیکھتے بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مالداری دیکھتے دیکھتے غربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

(۴۲۷)

جو اپنے درد دل کو کسی مومن سے بیان کرے گویا اس نے خدا سے بیان کیا اور جو اس کی فریاد کسی کافر سے کرے تو گویا اس نے خدا کی شکایت کی۔

(۴۲۸)

ایک عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ ''یہ عید صرف ان کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے مسلمان کے لئے وہی روز۔روز عید ہے۔

(۴۲۹)

روز قیامت سب سے زیادہ حسرت ناک صورت حال اس شخص کی ہوگی جو اطاعت خداسے ہٹ کر مال حاصل کرے اورپھر اس کا وارث وہ ہو جائے جو اسے اطاعت خدا میں صرف کردے کہ وہ اسی مال سے جنت میں چلا جائے گا اورکمانے والا اسی سے جہنم کا حقدار ہو جائے گا ۔

(۴۳۰)

معاملات میں سب سے زیادہ خسارہ والا اور کوششوں میں سب سے زیادہ ناکام وہ شخص ہے جو اپنے

۷۷۰

أَخْلَقَ بَدَنَه فِي طَلَبِ مَالِه - ولَمْ تُسَاعِدْه الْمَقَادِيرُ عَلَى إِرَادَتِه - فَخَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا بِحَسْرَتِه وقَدِمَ عَلَى الآخِرَةِ بِتَبِعَتِه

۴۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : الرِّزْقُ رِزْقَانِ طَالِبٌ ومَطْلُوبٌ - فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَه الْمَوْتُ حَتَّى يُخْرِجَه عَنْهَا - ومَنْ طَلَبَ الآخِرَةَ طَلَبَتْه الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ رِزْقَه مِنْهَا.

۴۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّه هُمُ الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى بَاطِنِ الدُّنْيَا - إِذَا نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا - واشْتَغَلُوا بِآجِلِهَا إِذَا اشْتَغَلَ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا -

جسم کو مال کی طلب میں خستہ حال کردے اور پھر بھی مقدر ساتھ نہ دے کہ اس طرح دنیا سے حسرتیں لے کر چلا جاتا ہے اور آخرت میں بہر حال اس کی پاداش کو برداشت کرناپڑتا ہے۔

(۴۳۱)

رزق دو طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ ہے جو خود تلاش کرتا ہے اور ایک وہ ہے جسے تلاش کیاجاتا ہے۔لہٰذا یاد رکھو کہ جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اس کی طلبگار موت ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اس دنیا سے نکال باہر کرے اور جوآخرت کا طلب گار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ اپنا پورا حق حاصل کرلے۔

(۴۳۲)

اولیائ(۱) خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات

(۱)اس مقام پرحضرت نے اولیاء خداکے آٹھ صفات کاتذکرہ فرمایا ہے تاکہ ہر انسان اس کردار کو پہچانے اوراسے اختیارکرنے کی کوشش کرے کہ روز قیامت کے خوف و حزن سے اولیاء ء خداکے علاوہ کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔اولایء اللہ کے وہ صفات حسب ذیل ہیں:

(۱) جب لوگ دنیاکے ظاہر پر فریفتہ ہونے لگتے ہیں تو وہ اس کے اندرونی زہر کا مشاہدہ کرتے ہیں (۲) جب لوگ دنیا پر مرنے لگتے ہیں تبوہ آخرت کی فکرمیں لگ جاتے ہیں (۳) جوخواہشات انسان کو تباہ کر دیتی ہیں وہ انہیں کو تباہ کردیتے ہیں (۴) جو دولت دنیا انہیں چھوڑ دینے والی ہے وہ اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں (۵) جس دولت دنیا کو لوگ کثیر تصور کرتے ہیں وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں (۶) جس باطل سے لوگ صلح کر لیتے ہیں وہ اس کے سدا دشمن رہتے ہیں (۷) ان کے اور قرآن کے درمیان ایسا اتحاد کردار ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں (۸) اجرآخرت سے بہتر کوئی امید اور عذاب آخرت سے بد تر کوئی خوفناک شے اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھتے ہیں۔

۷۷۱

فَأَمَاتُوا مِنْهَا مَا خَشُوا أَنْ يُمِيتَهُمْ - وتَرَكُوا مِنْهَا مَا عَلِمُوا أَنَّه سَيَتْرُكُهُمْ - ورَأَوُا اسْتِكْثَارَ غَيْرِهِمْ مِنْهَا اسْتِقْلَالًا - ودَرَكَهُمْ لَهَا فَوْتاً - أَعْدَاءُ مَا سَالَمَ النَّاسُ وسَلْمُ مَا عَادَى النَّاسُ - بِهِمْ عُلِمَ الْكِتَابُ وبِه عَلِمُوا - وبِهِمْ قَامَ الْكِتَابُ وبِه قَامُوا - لَا يَرَوْنَ مَرْجُوّاً فَوْقَ مَا يَرْجُونَ - ولَا مَخُوفاً فَوْقَ مَا يَخَافُونَ.

۴۳۳ - وقَالَعليه‌السلام : اذْكُرُوا انْقِطَاعَ اللَّذَّاتِ وبَقَاءَ التَّبِعَاتِ.

۴۳۴ - وقَالَعليه‌السلام : اخْبُرْ تَقْلِه

قال الرضي - ومن الناس من يروي هذا للرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ومما يقوي أنه من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ما حكاه ثعلب عن ابن الأعرابي.

کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار ڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہو جانا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کرلینا تصورکرتے ہیں۔اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگ دشمن ہیں۔انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں۔قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت سے زندہ ہیں۔یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں۔

(۴۳۳)

یہ یاد رکھو کہ لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔

(۴۳۴)

امتحان کرو تاکہ نفرت پیدا کرو۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس قول کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ کلام امیر المومنین ہے اور اس کا شاہد ثعلب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ مامون نے اس فقرہ

۷۷۲

قال المأمون - لولا أن علياعليه‌السلام قال اخبر تقله - لقلت أقله تخبر

۴۳۵ - وقَالَعليه‌السلام : مَا كَانَ اللَّه لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الشُّكْرِ - ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الزِّيَادَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الدُّعَاءِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الإِجَابَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ لِعَبْدٍ بَابَ التَّوْبَةِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الْمَغْفِرَةِ.

۴۳۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَوْلَى النَّاسِ بِالْكَرَمِ مَنْ عُرِفَتْ بِه الْكِرَامُ.

۴۳۷ - وسُئِلَعليه‌السلام أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْعَدْلُ أَوِ الْجُودُ فَقَالَعليه‌السلام - الْعَدْلُ يَضَعُ الأُمُورَ مَوَاضِعَهَا والْجُودُ يُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا - والْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ والْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ - فَالْعَدْلُ أَشْرَفُهُمَا وأَفْضَلُهُمَا.

کو سن کر کہا کہ اگر حضرت علی نے اس طرح نہ فرمادیا ہوتا تو میں اسے یوں کہتا کہ ''نفرت کرو تاکہ آزمالو''

(۴۳۵)

اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بندہ کے لئے شکر کا دروازہ کھول دے اور پھر اضافہ نعمت کا دروازہ بند کردے یا دعا کا دروازہ کھول دے اورقبولیت کا دروازہ بند کردے یا توبہ کا دروازہ کھول دے اورمغفرت کا دروازہ بند کردے ۔

(۴۳۶)

کرم کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی جڑیں ان اہل کرم میں ہوتی ہیں جن کا کرم جانا پہچانا ہوتا ہے۔

(۴۳۷)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کون سا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہرنکال دیتی ہے۔انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں افضل اور اشرف ہے۔

۷۷۳

۴۳۸ - وقَالَعليه‌السلام : النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۴۳۹ - وقَالَعليه‌السلام : الزُّهْدُ كُلُّه بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ ولا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ ) .ومَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي ولَمْ يَفْرَحْ بِالآتِي - فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْه.

۴۴۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ

(۴۳۸)

لوگ ان چیزوں(۱) کے دشمن ہیں جن سے ناواقف ہیں۔( اوریہی دین کی دشمنی اور آل محمد(ص) سے عداوت کا بھی راز ہے )

(۴۳۹)

تمام زہد(۲) قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے '' جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اورجو ملجائے اس پر مغرورنہ ہو جائو ''لہٰذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اورآنے والے سے مغرورنہ ہوجائے اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے ۔

(۴۴۰)

رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدر کمزوربنا دیتی ہے۔

(۱)یہ بات بعینہ حکمت ۱۷۱ میں بیان کی جاچکی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جہالت ایک ایسی بلا ہے جس مبتلا ہونے کے بعد انسان اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں پہچانتا ہے اور بعض اوقات اپنا بھی دشمن ہوجاتاہے اوراس کا علاج اس کے ماسوا کچھ نہیں ہے کہ انسان کو صاحب علم بنایا جائے اور ایسا صاحب علم بنایا جائے جس میں غرور علم نہ پیدا ہو ورنہ بارش سے بھاگ کر پر نالہ کے نیچے کھڑے ہونے کے مرادف ہو جائے گا۔۔

(۲)زہد کا عام تصور غربت ' ناداری ' دنیا بیزاری اور پھٹے کپڑوں میں محصور کردیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔اس کے نزدیک زہد دولت ک ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور غربت کے ساتھ بھی۔اس کی نگاہ میں بہترین دولت مند بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر اس دولت سے غرور نہ پیداہوجائے ۔اور بد ترین فقری بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر دنیاکے ہاتھ سے نکل جانے سے رنجیدہ اور محزون نہ ہو۔

مولائے کائنات نے دوسرے مقامات پر اس کی بہترین تفسیر کی ہے کہ '' زہدیہ نہیں ہے کہ تم کسی چیز کے مالک نہ بنو۔بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز تمہاری مالک اور صاحب اختیار نہ ہونے پائے ۔یعنی دولت اور کرسی انسان کے اختیار میں ہے تو انسان زاہد ہے اور انسان ان دونوں کے اختیار میں چلا جائے تو اس کا زہد و تقویٰ اسی آن رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی بقا کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے ۔

۷۷۴

۴۴۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْوِلَايَاتُ مَضَامِيرُ الرِّجَالِ

۴۴۲ - وقَالَعليه‌السلام : لَيْسَ بَلَدٌ بِأَحَقَّ بِكَ مِنْ بَلَدٍ خَيْرُ الْبِلَادِ مَا حَمَلَكَ.

۴۴۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ جَاءَه نَعْيُ الأَشْتَرِ رحمهالله :

مَالِكٌ ومَا مَالِكٌ واللَّه لَوْ كَانَ جَبَلًا لَكَانَ فِنْداً - ولَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً - لَا يَرْتَقِيه الْحَافِرُ ولَا يُوفِي عَلَيْه الطَّائِرُ.

قال الرضي - والفند المنفرد من الجبال.

۴۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : قَلِيلٌ مَدُومٌ عَلَيْه خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۴۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا كَانَ فِي رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ فَانْتَظِرُوا أَخَوَاتِهَا.

(۴۴۱)

حکومتیں مردوں کے کردار کا میدان امتحان ہیں۔

(۴۴۲)

کوئی شہر تمہارے لئے دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔بلکہ بہترین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے رہے۔

(۴۴۳)

مالک اشتر کی خبر شہادت آنے کے بعدفرمایا: ''مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔اور اگرپتھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔اس کی بلندیوں کونہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ وہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔

سید رضی : فند پہاڑوں میں منفرد پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔

(۴۴۴)

مختصر عمل جس کی پابندی کی جا سکے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو انسان کو دل تنگ بنادے ۔

(۴۴۵)

اگر کسی انسان میں کوئی اچھی خصلت پائی جاتی ہے تو اس سے دوسری خصلتوں کی بھی توقع(۱) کی جاسکتی ہے۔

(۱)چونکہ اچھی خصلت شرافت نفس سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایک خصلت کو بھی دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص میں شرافت نفس پائی جاتی ہے اور یہ شرافت نفس جس طرح اس ایک خصلت پرآمادہ کر سکتی ہے اسی طرح دوسری خصلتیں بھی پیدا کر سکتی ہے کہ ایک درخست میں ایک ہی میورہ نہیں پیدا ہوتا ہے۔

۷۷۵

۴۴۶ - وقَالَعليه‌السلام لِغَالِبِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَبِي الْفَرَزْدَقِ فِي كَلَامٍ دَارَ بَيْنَهُمَا.

مَا فَعَلَتْ إِبِلُكَ الْكَثِيرَةُ - قَالَ دَغْدَغَتْهَا الْحُقُوقُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام ذَلِكَ أَحْمَدُ سُبُلِهَا.

۴۴۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنِ اتَّجَرَ بِغَيْرِ فِقْه فَقَدِ ارْتَطَمَ فِي الرِّبَا.

۴۴۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ عَظَّمَ صِغَارَ الْمَصَائِبِ ابْتَلَاه اللَّه بِكِبَارِهَا.

۴۴۹ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْه نَفْسُه

(۴۴۶)

غالب بن صعصعہ(۱) (پدر فرزوق) سے گفتگو کے دوران فرمایا: تمہارے بیشمار اونٹوں کا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہاکہ حقوق کی ادائیگی نے منتشر کردیا۔فرمایاکہ یہ بہترین اور قابل تعریف راستہ ہے۔

(۴۴۷)

جو احکام کو دریافت کئے بغیرتجارت(۲) کرے گاوہ کبھی نہ کبھی سود میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔

(۴۴۸)

جو چھوٹے(۳) مصائب کوبھی بڑا خیال کرے گا اسے خدا بڑے مصائب میں بھی مبتلا کردے گا۔

(۴۴۹)

جسے اس کانفس عزیز ہوگا اس کی نظرمیں

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ غالب فرزدق کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اونٹوں کے بارے میں بھی سوال کیا ار فرزدق کے بارے میں بھی سوال کیا تو غالب نے کہاکہ یہ میرا فرزند ہے اور اسے میں نے شعرو ادب کی تعلیم دی ہے۔آپ نے فرمایا کہ اے کاش تم نے قرآن مجید کی تعلیم دی ہوتی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بات دل کو لگ گئی اور انہوں نے اپنے پیروں میں زنجیریں ڈال لیں اور انہیں اس وقت تک نہیں کھولا جب تک سارا قرآن حفظ نہیں کرلیا۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ فقہ کی ضرورت صرف صلوٰة صیم کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے کہ تاکہ انسان برائیوں سے محفوظ رہ سکے اور لقمہ حلال پر زندگی گذار سکے ورنہفقہ کے بغیر تجارت کرنے میں بھی سود کا اندیشہ ہے اور سود سے بد تر اسلام میں کوئی مال نہیں ہے جس کا ایک پیسہ بھی حلال نہیں کیا گیا ہے۔

(۳)انسان کا ہنر یہ ہے کہ ہمیشہ مصائب کا مقالہ کرنے کے لئے تیار رہے اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی آجائے تو اسے حقیر اورمعمولی ہی سمجھے تاکہ دیگر مصائب کو حملہ کرنے کاموقع نہ ملے ورنہ ایک مرتبہ اپنی کمزوری کا اظہار کردیا تو مصائب کاہجوم عام ہوجائے گا اور انسان ایک لمحہ کے لئے بھی نجات حاصل نہ کرسے گا۔

۷۷۶

هَانَتْ عَلَيْه شَهَوَاتُه.

۴۵۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً إِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِه مَجَّةً.

۴۵۱ - وقَالَعليه‌السلام : زُهْدُكَ فِي رَاغِبٍ فِيكَ نُقْصَانُ حَظٌّ - ورَغْبَتُكَ فِي زَاهِدٍ فِيكَ ذُلُّ نَفْسٍ.

۴۵۲ - وقالعليه‌السلام الْغِنَى والْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه.

۴۵۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَا زَالَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ - حَتَّى نَشَأَ ابْنُه الْمَشْئُومُ عَبْدُ اللَّه.

خواہشات(۱) بے قیمت ہوں گی( کہ انہیں سے عزت نفس کی تباہی پیدا ہوتی ہے )

(۴۵۰)

انسان جس قدر بھی مزاح(۲) کرتا ہے اس قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

(۴۵۱)

جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جوتم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت ذلت نفس ہے ۔

(۴۵۲)

مالداری اورغربت کا فیصلہ پروردگار کی بارگاہ میں پیشی کے بعد ہوگا۔

(۴۵۳)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت کی ایک فرد شمار ہوتاتھا یہاں تک کہ اس کا منحوس فرزند عبداللہ نمودار ہوگیا۔

(۱)خواہش اس قید کا نام ہے جس کا قدی تا حیات آزاد نہیں ہو سکتا ہے کہ ہر قید کا تعلق انسان کی بیرونی زندگی سے ہوتا ہے اورخواہش انسان کواندر سے جکڑ لیتی ہے جس کے بعد کوئی آزاد کرانے والا بھی نہیں پیدا ہوتاہے اوریہی وجہ ہے کہ کہ جب ایک مرد حکیم سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تمہاری خواہش کیا ے ؟ تو اس نیبرجستہ یہی جواب دیا کہ بس یہی کہ کسی چیز کی خواہش نہ پیدا ہو۔

(۲)مزاج ایک بہترین چیز ہے جس سے انسان خود بھی خوش ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی خوشحال بناتا ہے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ مزاح بحد مزاح ہو اوراس میں غلط بیانی ' فریب کاری' ایذاء مومن ' توہین مسلمان کا پہلو نہ پیداہونے پائے اورحد سے زیادہ بھی نہ ہو ورنہ حرام اورباعث ہلاکت و بربادی ہو جائے گا۔

۷۷۷

۴۵۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا لِابْنِ آدَمَ والْفَخْرِ - أَوَّلُه نُطْفَةٌ وآخِرُه جِيفَةٌ - ولَا يَرْزُقُ نَفْسَه ولَا يَدْفَعُ حَتْفَه.

۴۵۵ - وسُئِلَ مَنْ أَشْعَرُ الشُّعَرَاءِ فَقَالَعليه‌السلام :إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَجْرُوا فِي حَلْبَةٍ - تُعْرَفُ الْغَايَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا - فَإِنْ كَانَ ولَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّيلُ

يريد إمرأ القيس

۴۵۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَلَا حُرٌّ يَدَعُ هَذِه اللُّمَاظَةَ لأَهْلِهَا - إِنَّه لَيْسَ لأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا.

(۴۵۴)

آخر فرزند آدم(۱) کافخرو مباہات سے کیا تعلق ہے جب کہ اس کا ابتدا نطفہ ہے اورانتہا مردار۔وہ نہ اپنی روزی کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی موت کو ٹال سکتا ہے۔

(۴۵۵)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ تو فرمایا کہ سارے شعراء نے ایک میدان میں قدم نہیں رکھا کہ سبقت عمل سے ان کی انتہائے کمال کا فیصلہ کیاجاسکے لیکن اگر فیصلہ ہی کرنا ہے تو بادشاہ گمراہ (یعنی امراء القیس)

(۴۵۶)

کیاکوئی ایسا آزاد(۲) مرد نہیں ہے جو دنیاکے اس چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو کہ تمہارے نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہٰذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرنا۔

(۱)انسانی زندگی کے تین دورہوتے ہیں : ابتدائ، انتہاء ، وسط ۔اور انسان کاحال یہ ہے کہ وہ ابتداء میں ایک قطرۂ نجس ہوتا ہے اور انتہاء میں مردار ہو جاتا ہے۔درمیانی حالات یقینا طاقت و قوت اور طہارت و پاکیزگی کے ہوتے ہیں لیکن اس کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ نہ اپنا رزق اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اور نہ اپنی موت اپنے اختیارمیں ہوتی ہے ۔ایسے حالات میں انسان کے لئے تکبرو غرورکا جوازکہاں سے پیداہوتا ہے۔تقاضائے شرافت و دیانت یہی ہے کہ جس نے پیداکیا ہے اسی کا شکریہ ادا کرے اوراسی کی اطاعت میں زندگی گذاردے تاکہ مرنے کے بعد خود بھی پاکیزہ رہے اوروہ زمین بھی پاکیزہ ہو جائے جس میں فن ہوگیا ہے۔

(۲)دنیا وہ ضعیفہ ہے جولاکھوں کے تصرف میں رہ چکی ہے اوروہ لقمہ ہے جسے کروڑوں آدمی چبا چکے ہیں۔کیا ایسی دنیا بھی اس لائق ہوتی ہے کہ انسان اس سے دل لگائے اور اس کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔اس کا تو سب سے بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے حوالے کرکے اپنی جنت کا انتظام کرلے جہاں ہر چیز نئی ہے اور کوئی نعمت استعمال شدہ نہیں ہے۔

۷۷۸

۴۵۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وطَالِبُ دُنْيَا.

۴۵۸ - وقَالَعليه‌السلام : الإِيمَانُ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَيْثُ يَضُرُّكَ - عَلَى الْكَذِبِ حَيْثُ يَنْفَعُكَ - وأَلَّا يَكُونَ فِي حَدِيثِكَ فَضْلٌ عَنْ عَمَلِكَ - وأَنْ تَتَّقِيَ اللَّه فِي حَدِيثِ غَيْرِكَ

۴۵۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَغْلِبُ الْمِقْدَارُ عَلَى التَّقْدِيرِ حَتَّى تَكُونَ الآفَةُ فِي التَّدْبِير.

قال الرضي وقد مضى هذا المعنى فيما تقدم - برواية تخالف هذه الألفاظ.

۴۶۰ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ والأَنَاةُ تَوْأَمَانِ يُنْتِجُهُمَا عُلُوُّ الْهِمَّةِ.

(۴۵۷)

دو بھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیرنہیں ہو سکتے ہیں۔ایک طالب علم اور ایک طالب دنیا ۔

(۴۵۸)

ایمان کی علامت یہ ہے کہ سچ نقصان بھی پہنچائے تو اسے فائدہ پہنچانے والے جھوٹ(۱) پر مقدم رکھو۔ اور تمہاری باتیں تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خداسے ڈرتے رہو۔

(۴۵۹)

(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) قدرت کا مقرر کیا ہوا مقدر انسان کے اندازوں پرغالب آجاتا ہے یہاں تک کہ یہی تدبیرکی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

سید رضی : یہ بات دوسرے اندازسے اس سے پہلے گذر چکی ہے۔

(۴۶۰)

بردباری اورصبر(۲) دونوں جڑواں ہیں اور ان کی پیداوار کا سرچشمہ بلند ہمتی ہے۔

(۱)یقینا ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کو جھوٹ پر مقدم رکھا جائے اورمعمولی مفادات کی راہ میں اس عظیم نعمت صدق کو قربان نہ کیا جائے لیکن کبھی کبھی اسے مواقع آس کتے ہیں جب سچ کا نقصان نا قابل برداشت ہو جائے تو ایسے موقع پر عقل اورشرع دونوں کی اجازت ہے کہ کذب کا راستہ اختیار کرکے اس نقصان سے تحفظ کا انتظام کرلیا جائے جس طرح کہ قاتل کسی نبی برحق کی تلا ش میں ہواورآپ کو اس کا پتہ معلوم ہو تو آپ کے لئے شرعاً جائز نہیں ہے کہ پتہ بتا کر نبی برحق کے قتل میں حصہ دار ہو جائیں ۔

(۲)یہ غلط مشہور ہوگیا ہے کہ مجبوری کا نام صبر ہے۔صبر مجبوری نہیں ہے ۔صبر بلند ہمتی ہے۔صبر انسان کو مصائب سے مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔صبر نسان میں عزائم کی بلندی پیداکرتا ہے۔صبر پچھلے حالات پر افسوس کرنے کے بجائے اگلے حالات کے لئے آمادگی کی دعوت دیتا ہے ۔''انا الیہ راجعون ''

۷۷۹

۴۶۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْغِيبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ.

۴۶۲ - وقَالَعليه‌السلام : رُبَّ مَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه.

۴۶۳ - وقَالَعليه‌السلام : الدُّنْيَا خُلِقَتْ لِغَيْرِهَا ولَمْ تُخْلَقْ لِنَفْسِهَا.

۴۶۴ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِبَنِي أُمَيَّةَ مِرْوَداً يَجْرُونَ فِيه - ولَوْ قَدِ اخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ - ثُمَّ كَادَتْهُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْهُمْ.

قال الرضي - والمرود هنا مفعل من الإرواد وهو الإمهال والإظهار

(۴۶۱)

غیبت(۱) کرناکمزور آدمی کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

(۴۶۲)

بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف ہی سے مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔

(۴۶۳)

دنیا دوسروں(۲) کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اپنے لئے نہیں پیداکی گئی ہے۔

(۴۶۴)

بنی امیہ میں سب کا ایک خاص میدان ہے جس میں دوڑلگا رہے ہیں ورنہ جس دن ان میں اختلاف ہوگیا تواس کے بعد بجو بھی ان پر حملہ کرنا چاہے گا تو غالب آجائے گا۔

سید رضی : مرود۔ارواد سے مفعل کے وزن پر ہے اورارواد کے معنی فرصت اور مہلت دینے کے ہیں۔جو

(۱)غیبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اس عیب کا تذکرہ کیا جائے جسے وہ خود پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے اظہار کو پسند نہیں کرتا ہے۔اسلام نے اس عمل کو فساد کی اشاعت سے تعبیر کیا ہے اوراسی بناپرحرام کردیا ہے ۔لیکن اگر کسی موقع پر عیب کے اظہارنہ کرنے ہی میں سماج یا مذہب کی بربادی کاخطرہ ہو تو بیان کرنا جائزبلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے جس طرح کہ علم رجال میں راویوں کی تحقیق کا مسئلہ ہے کہاگران کے عیوب پر پردہڈال دیا گیا تو مذہب کے تباہ و برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ہر جھوٹا شخص روایات کاانبار لگاسکتا ہے۔

(۲)دنیا کی تخلیق مقصود بالذات نہیں ہے ورنہ پروردگار اس کو دائمی اور ابدی بنادیتا ۔ دنیا کو فنا کرکے آخرت کو منظرعام پر لے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی تخلیق آخرت کے مقدمہ کے طور پرہوئی ہے ۔اب اگر کوئی شخص اسے قربان کرکے آخرت کما لیتاہے تو گویا اس نے صحیح مصرف میں لگا دیا ورنہ اپنی زندگی بھی برباد کی اورموت کوبھی صحیح راستہ پر نہیں لگایا۔

۷۸۰

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863