نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656957 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

۴۰۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَيْنُ حَقٌّ والرُّقَى حَقٌّ والسِّحْرُ حَقٌّ - والْفَأْلُ حَقٌّ والطِّيَرَةُ لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والْعَدْوَى لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والطِّيبُ نُشْرَةٌ والْعَسَلُ نُشْرَةٌ - والرُّكُوبُ نُشْرَةٌ والنَّظَرُ إِلَى الْخُضْرَةِ نُشْرَةٌ.

۴۰۱ - وقَالَعليه‌السلام : مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِي أَخْلَاقِهِمْ أَمْنٌ مِنْ غَوَائِلِهِمْ

۴۰۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ مُخَاطِبِيه - وقَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُسْتَصْغَرُ مِثْلُه عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا:

لَقَدْ طِرْتَ شَكِيراً وهَدَرْتَ سَقْباً.

(۴۰۰)

چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفال نیک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی(۱) کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔

خوشبو سواری' شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔

(۴۰۱)

لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے(۲) کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۴۰۲)

ایک شخص(۳) نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔

(۱)کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرادیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اوراس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پراعتماد کرناچاہیے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا ساراکاروبار صرف اوہام وخیالات پرچل رہا ہے اور شگون نیک کی طرف کوئی شخص متوجہ نہیں ہے اور بد شگونی کا اعتبار ہر شخص کر لیتا ہے اوراس پر بیشمار سماجی اثرات بھی مرتبہو جاتے ہیں اور معاشرتی فساد کا ایک سللہ شروع ہو جاتا ہے۔

(۲)چونکہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھبرا برتائو نہ کریں اور وہ ہر ایک کے شر سے محفوظ رہے لہٰذا اس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے تعلقات قائم کرے اوران سے رسم و راہ بڑھائے تاکہوہ شر پھیلانے کا ارادہ ہی نہ کریں۔کہ معاشر ہ میں زیادہ حصہ شراختلاف اوردوری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قربت کے بعد کسی نہ کسی مقدار میں تکلف ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔

(۳)بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم وفضل اور کمال و ہنر کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اونچی محفلوں میں بولنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں جس طرح کہ بعض خطباء کمال جہالت کے باوجود ہر بڑی سے بڑی مجلس سے خطاب کرنے کے امیدوار رہتے ہیں اور ان کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اپنی شخصیت کارعب قائم کرلیں گے اور یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ رہی سہی عزت بھی چلی جائے گی اور مجمع عام میں رسوا ہو جائیں گے۔

امیر المومنین نے اسے ہی افراد کو تنبیہ کی ہے جو قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں اور بلوغ فکری سے پہلے ہی بلبلانے لگتے ہیں۔

۷۶۱

قال الرضي والشكير هاهنا أول ما ينبت من ريش الطائر - قبل أن يقوى ويستحصف - والسقب الصغير من الإبل - ولا يهدر إلا بعد أن يستفحل.

۴۰۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَوْمَأَ إِلَى مُتَفَاوِتٍ خَذَلَتْه الْحِيَلُ

۴۰۴ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى قَوْلِهِمْ - لَا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه - إِنَّا لَا نَمْلِكُ مَعَ اللَّه شَيْئاً ولَا نَمْلِكُ إِلَّا مَا مَلَّكَنَا - فَمَتَى مَلَّكَنَا مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنَّا كَلَّفَنَا - ومَتَى أَخَذَه مِنَّا وَضَعَ تَكْلِيفَه عَنَّا.

۴۰۵ - وقَالَعليه‌السلام لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ - وقَدْ سَمِعَه يُرَاجِعُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ كَلَاماً

سید رضی :شکیر پرندہ کے ابتدائی پروں کو کہا جاتا ہے اورسقب چھوٹے اونٹ کا نام ہے جب کہ بلبلانے کاسلسلہ جوانی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

(۴۰۳)

جو مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے اس کی تدبیریں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔

(۴۰۴)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ'' لاحول ولا قوة الا باللہ '' کے معنی کیا ہیں ؟ توفرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور جو کچھ ملکیت ہے سب اسی کی دی ہوئی ہے تو جب وہ کسی ایسی چیز کا اختیار دیتا ہے جس کا اختیار اس کے پاس ہم سے زیادہ ہے تو ہمیں ذمہ داریاں بھی دیتا ہے اور جب واپس لے لیتا ہے تو ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے۔

(۴۰۵)

آپ نے دیکھا کہ عماریاسر مغیرہ(۱) بن شعبہ سے بحث

(۱)ابن ابی الحدید نے مغیرہ کے اسلام کی یہ تاریخ نقل کی ہے کہ یہ شخص ایک قافلہ کے ساتھ سفر میں جارہا تھا۔ایک مقام پر سب کو شراب پلا کر بے ہوش کردیا اور پھرقتل کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔اس کے بعد جب یہ خطرہ پیدا ہواکہ ورثہ انتقام لیں گے اورجان کاب چانا مشکل ہو جائے گا تو بھاگکر مدینہآگیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا کہاس طرح جان بچانے کا ایک راستہ نکل آئے گا۔

یہ شخص اسلام و ایمان دونوں سے بے بہرہ تھا۔اسلام جان بچانے کے لئے اختیار کیا تھا اورایمان کایہ عالم تھاکہ بر سر منبر '' کل ایمان'' کو گالیاں دیاکرتا تھا اور اسی بد ترین کردار کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا جو ہر دشمن علی کاآخری انجام ہوتا ہے۔

۷۶۲

دَعْه يَا عَمَّارُ - فَإِنَّه لَمْ يَأْخُذْ مِنَ الدِّينِ إِلَّا مَا قَارَبَه مِنَ الدُّنْيَا - وعَلَى عَمْدٍ لَبَسَ عَلَى نَفْسِه - لِيَجْعَلَ الشُّبُهَاتِ عَاذِراً لِسَقَطَاتِه.

۴۰۶ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَحْسَنَ تَوَاضُعَ الأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللَّه - وأَحْسَنُ مِنْه تِيه الْفُقَرَاءِ عَلَى الأَغْنِيَاءِ - اتِّكَالًا عَلَى اللَّه.

۴۰۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَا اسْتَوْدَعَ اللَّه امْرَأً عَقْلًا إِلَّا اسْتَنْقَذَه بِه يَوْماً مَا.

۴۰۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَه.

۴۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَلْبُ مُصْحَفُ الْبَصَرِ

کر رہے ہیں تو فرمایا عمار! اسے اس کے حال پرچھوڑ دو۔اس نے دین میں سے اتنا ہی حصہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب تر بنا سکے اورجان بوجھ کر اپنے لئے امور کو مشتبہ بنالیا ہے تاکہ انہیں شبہات کو اپنی لغزشوں کا بہانہ قراردے سکے ۔

(۴۰۶)

کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں لیکن اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فقر اء خدا پر بھروسہ کرکے دولت مندوں کے ساتھ تمکنت(۱) سے پیش آئیں۔

(۴۰۷)

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

(۴۰۸)

جو حق سے ٹکرائے گا حق بہر حال اسے پچھاڑ دے گا۔

(۴۰۹)

دل آنکھوں کا صحیفہ ہے

(۱)تکبراورتمکنت کوئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن جہاں تواضع اورخاکساری میں فتنہ و فساد پایا جاتا ہو ورنہ تکبر اورتمکنت کا اظہار بے حد ضروری ہو جاتا ہے فقراء کے تکبرکامقصد یہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا اظہار کریں اوربے بنیاد تمکنت کا سہارالیں۔بلکہ اس کامقصد یہ ے کہ اغنیاء کے بجائے پروردگار پر بھروسہ کریں اور اسی کے بھروسہ پر اپنی بے نیازی کا اظہار کریں تاکہ ایمان و عقیدہ میں استحکام پیدا ہو اوراغنیاء بھی تواضع اور انکسا پر مجبور ہو جائیں اور اس تواضع سے انہیں بھی کچھ اجر و ثواب حاصل ہو جائے ۔

۷۶۳

۴۱۰ - وقَالَعليه‌السلام : التُّقَى رَئِيسُ الأَخْلَاقِ.

۴۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : لَا تَجْعَلَنَّ ذَرَبَ لِسَانِكَ عَلَى مَنْ أَنْطَقَكَ - وبَلَاغَةَ قَوْلِكَ عَلَى مَنْ سَدَّدَكَ

۴۱۲ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ أَدَباً لِنَفْسِكَ اجْتِنَابُ مَا تَكْرَهُه مِنْ غَيْرِكَ.

۴۱۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ صَبَرَ صَبْرَ الأَحْرَارِ وإِلَّا سَلَا سُلُوَّ الأَغْمَارِ

۴۱۴ - وفِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّهعليه‌السلام - قَالَ لِلأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ مُعَزِّياً عَنِ ابْنٍ لَه.

إِنْ صَبَرْتَ صَبْرَ الأَكَارِمِ - وإِلَّا سَلَوْتَ سُلُوَّ الْبَهَائِمِ.

۴۱۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الدُّنْيَا: تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ -.

(۴۱۰)

تقویٰ تمام اخلاقیات کا راس و رئیس ہے۔

(۴۱۱)

اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اور اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایاہے۔

(۴۱۲)

اپنے نفس کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرو جنہیں دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو۔

(۴۱۳)

انسان جواں مردوں کی طرح صبر کرے گا ورنہ سادہ لوحوں کی طرح چپ ہو جائے گا۔

(۴۱۴)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث بن قیس کو اس کے بیٹے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بزرگوں کی طرح صبر کرو ورنہ جانوروں کی طرح ایک دن ضرور بھول جائو گے ۔

(۴۱۵)

آپ نے دنیا کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھوکہ دیتی ہے ۔نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے

۷۶۴

إِنَّ اللَّه تَعَالَى لَمْ يَرْضَهَا ثَوَاباً لأَوْلِيَائِه ولَا عِقَاباً لأَعْدَائِه وإِنَّ أَهْلَ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ - بَيْنَا هُمْ حَلُّوا إِذْ صَاحَ بِهِمْ سَائِقُهُمْ فَارْتَحَلُوا

۴۱۶ - وقَالَ لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام لَا تُخَلِّفَنَّ وَرَاءَكَ شَيْئاً مِنَ الدُّنْيَا - فَإِنَّكَ تَخَلِّفُه لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - إِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِطَاعَةِ اللَّه - فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - وإِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - فَكُنْتَ عَوْناً لَه عَلَى مَعْصِيَتِه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ حَقِيقاً أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ.

قَالَ الرَّضِيُّ ويُرْوَى هَذَا الْكَلَامُ عَلَى وَجْه آخَرَ وهُوَ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الَّذِي فِي يَدِكَ مِنَ الدُّنْيَا - قَدْ كَانَ لَه أَهْلٌ قَبْلَكَ - وهُوَ صَائِرٌ إِلَى أَهْلٍ بَعْدَكَ - وإِنَّمَا أَنْتَ جَامِعٌ لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - رَجُلٍ عَمِلَ فِيمَا جَمَعْتَه بِطَاعَةِ اللَّه

اللہ نے اسے نہ اپنے اولیاء کے ثواب کے لئے پسند کیا ہے اور نہ دشمنوں کے عذاب کے لئے۔اہل دنیا ان سواروں کے مانند ہیں جنہوں نے جیسے ہی قیام کیا ہنکانے والے نے للکار دیاکہ کوچ کا وقت آگیا ہے اور پھر روانہ ہوگئے ۔

(۴۱۶)

اپنے فرزند حسن(۱) سے بیان فرمایا: خبردار دنیا کی کوئی چیز اپنے بعد کے لئے چھوڑ کرمت جانا کہ اس کے وارث دو ہی طرح کے لوگ ہوں گے۔یا وہوں گے جو نیک عمل کریں گے تو جو مال تمہاری بد بختی کا سبب بنا ہے وہی ان کی نیک بختی کا سبب ہوگا اور اگر انہوں نے معصیت میں لگادیا تو وہ تمہارے مال کی وجہ سے بد بخت ہوں گے اورتم ان کو معصیت کے مددگار شمار ہوگے اور ان دونوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے تم اپنے نفس پر ترجیح دے سکتے ہو۔

سید رضی : اس کلام کو ایک دوسری طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ '' یہ دنیا جو آج تمہارے ہاتھ میں ہے کل دوسرے اس کے اہل رہ چکے ہیں اور کل دوسرے اس کے اہل ہوں گے اور تم اسے دو میں سے ایک کے لئے جمع کر رہے ہو یا وہ شخص جو تمہارے جمع کئے ہوئے کو اطاعت خدا میں صرف کرے گا تو جمع کرنے کی زحمت تمہاری

(۱)امام حسن سے خطاب مسئلہ کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے کہ اتنی عظیم بات کا سمجھنا اوراس سے فائدہ اٹھاناہر انسان کے بس کاکام نہیں ہے ورنہ امام حسن جیسی شخصیت کا انسان ان نکات کی طرف توجہ دلانے کامحتاج نہیں ہے اور ان کا کامخود ہی عالم انسانیت کو ان حقائق سے با خبر کرنااور ان نکات کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

بہرحال مسئلہ انتہائی اہم ہے کہ انسان کو اپنی عاقبت کے لئے جو کچھ کرناہے وہ اپنی زندگی میں کرنا ہے۔مرنے کے بعد دوسروں سے امید لگانا ایک وسوسہ شیطانی ہے اور کچھ نہیں ہے۔پھرمال بھی پروردگارنے دیا ہے تو اس کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہے۔چاہے زندگی میں صرف کردے یا اس کے مصرف کا تعین کردے ورنہ فائدہ دوسرے افراد اٹھائیں گے اور وبال اسے برداشت کرنا پڑے گا۔

۷۶۵

- فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيتَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ أَهْلًا أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ - ولَا أَنْ تَحْمِلَ لَه عَلَى ظَهْرِكَ - فَارْجُ لِمَنْ مَضَى رَحْمَةَ اللَّه - ولِمَنْ بَقِيَ رِزْقَ اللَّه.

۴۱۷ - وقَالَعليه‌السلام لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِه أَسْتَغْفِرُ اللَّه - ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ - الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ - وهُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ - أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى - والثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْه أَبَداً - والثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ - حَتَّى تَلْقَى اللَّه أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ - والرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ - ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا - والْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ - فَتُذِيبَه بِالأَحْزَانِ

ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میںسے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔

(۴۱۷)

ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ''استغفر اللہ '' تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:(۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم(۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا(۱) دینا

(۱)اس سلسلہ میں سرکاردوعالم (ص) کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھالیا اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس کی دعا بھی چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس حرام سے جوگوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوریاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہاثر ہے تو جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں۔ان کی عبادتوں اوردعائوں کا انجام کیا ہوگا ۔ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کاشکوہ کرنے کے بجائے دعائوں ک قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ بنا سکتی ہے تواث کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے جب تک قابل قبول نہ ہوجائے۔اور صحیح اور مقبول کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کے لئے عمل کے شرائط اور واجبات کودیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہیں ہوئی ہے تو عمل صحیح ہو جائے گا اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔لیکن قبول ہونے کے لئے اس کے علاوہ عمل کرنے والے کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھاجاتا ہے کہ پوردگار متقین کے علاوہکسی کے عمل کو قابل قبول نہیں قرار دیتا ہے اور اسنے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور انہیں کے اعمال کو اجرو ثواب کاحقدار اور بلندی درجات کا وسیلہ و ذریعہ قراردیتا ہے۔

۷۶۶

حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ - ويَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ - والسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ - كَمَا أَذَقْتَه حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّه.

۴۱۸ - وقَالَعليه‌السلام الْحِلْمُ عَشِيرَةٌ

۴۱۹ - وقَالَعليه‌السلام : مِسْكِينٌ ابْنُ آدَمَ - مَكْتُومُ الأَجَلِ مَكْنُونُ الْعِلَلِ - مَحْفُوظُ الْعَمَلِ تُؤْلِمُه الْبَقَّةُ - وتَقْتُلُه الشَّرْقَةُ وتُنْتِنُه الْعَرْقَةُ

۴۲۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام كَانَ جَالِساً فِي أَصْحَابِه - فَمَرَّتْ بِهِمُ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ فَرَمَقَهَا الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام :

إِنَّ أَبْصَارَ هَذِه الْفُحُولِ طَوَامِحُ وإِنَّ ذَلِكَ سَبَبُ هِبَابِهَا - فَإِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى امْرَأَةٍ تُعْجِبُه فَلْيُلَامِسْ أَهْلَه - فَإِنَّمَا هِيَ امْرَأَةٌ كَامْرَأَتِه.

یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے(۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھائو جیسے طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ۔اس کے بعد کہو ''استغفر اللہ ''

(۴۱۸)

بردباری خود ایک پورا قبیلہ ہے۔

(۴۱۹)

ابن آدم کس قدر مسکین ہے کہ اس کی موت بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بیماریاں بھی صیغہ راز میں ہیں اور اس کے اعمال بھی سب محفوظ کئے جا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے۔اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اسے بدبوداربنادیتا ہے ۔

(۴۲۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ادھر سے ایک خوبصورت عورت کا گذر ہوگیا اور لوگوں نے اسے کن آنکھیوں سے دیکھنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا: '' ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی عورت کو دیکھے جو پسند آنے والی ہو تو اپنے اہل سے روابط پیدا کرے کہ یہ عورت بھی اپنی ہی عورت جیسی ہے''

۷۶۷

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ - قَاتَلَه اللَّه كَافِراً مَا أَفْقَهَه - فَوَثَبَ الْقَوْمُ لِيَقْتُلُوه - فَقَالَعليه‌السلام :رُوَيْداً إِنَّمَا هُوَ سَبٌّ بِسَبٍّ أَوْ عَفْوٌ عَنْ ذَنْبٍ

۴۲۱ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ مِنْ عَقْلِكَ مَا أَوْضَحَ لَكَ سُبُلَ غَيِّكَ مِنْ رُشْدِكَ.

۴۲۲ - وقَالَعليه‌السلام : افْعَلُوا الْخَيْرَ ولَا تَحْقِرُوا مِنْه شَيْئاً،فَإِنَّ صَغِيرَه كَبِيرٌ وقَلِيلَه كَثِيرٌ - ولَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنَّ أَحَداً أَوْلَى بِفِعْلِ الْخَيْرِ مِنِّي - فَيَكُونَ واللَّه كَذَلِكَ إِنَّ لِلْخَيْرِ والشَّرِّ أَهْلًا فَمَهْمَا تَرَكْتُمُوه مِنْهُمَا كَفَاكُمُوه أَهْلُه

۴۲۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَصْلَحَ سَرِيرَتَه أَصْلَحَ اللَّه عَلَانِيَتَه - ومَنْ عَمِلَ لِدِينِه كَفَاه اللَّه.

یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ اللہ اس کا فرکو قتل کرے کس قدر فقیہ ہے۔تو لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ خبردار۔ٹہرو۔گالی کا بدلہ گالی ہوتا ہے یا خطا سے درگزر کرنا ہوتا ہے۔

(۴۲۱)

تمہارے لئے اتنی ہی عقل کافی ہے کہ گمراہی کا راستہ ہدایت کے راستہ سے الگ ہو جائے ۔

(۴۲۲)

نیکیاں انجام دو اور اس میں سے کسی چیز کوبھی حقیر نہ سمجھو کہ نیکی چھوٹی بھی بڑی ہوتی ہے اور تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے۔خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ کوئی شخص کا رخیر کے لئے مجھ سے بہتر ہے ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہو جائے گا۔نیکی اور برائی دونوںکے اہل ہوتے ہیں اگر تم اسے چھوڑ دوگے تو جو اس کا اہل ہوگا وہی اسے انجام دیدے گا۔

(۴۲۳)

جو اپنے باطن کی اصلاح(۱) کرے گا پروردگار اس کے ظاہر کو درست کردے گا اور جو اپنے دین کے لئے عمل کرے گا خدا اس کی دنیا کے لئے کافی ہو جائے گا

(۱)مقصد یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ایکگہرا رابطہ پایا جاتاہے اور دونوں میں کس یایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس باطن کی اصلح پر زوردے جو ظاہری اعمال کا سرچشمہ ہے کہ اس کے بعد ظاہر کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی اور اس کا سبب وہمالک ہوگا جس نے ظاہر کے اعمال کو باطن کے محرکات کا تابع بنادیا ہے۔

۷۶۸

أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ أَحْسَنَ فِيمَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَحْسَنَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ

۴۲۴ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ غِطَاءٌ سَاتِرٌ والْعَقْلُ حُسَامٌ قَاطِعٌ - فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِحِلْمِكَ وقَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ.

۴۲۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِلَّه عِبَاداً يَخْتَصُّهُمُ اللَّه بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ - فَيُقِرُّهَا فِي أَيْدِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا - فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ ثُمَّ حَوَّلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ.

۴۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : لَا يَنْبَغِي لِلْعَبْدِ

اور جو اپنے اور اللہ کے معاملات کو درست کرے گا پروردگار اس کے اوردوسرے انسانوں کے معاملات کو بھی ٹھیک کردے گا۔

(۴۲۴)

بردباری(۱) ڈھانک لینے والا پردہ ہے اور عقل تیز ترین تلوار ہے لہٰذا اپنے اخلاق کی کمزوریوں کو تحمل سے چھپائو اور اپنی خواہشات کا عقل کی تلوارسے مقابلہ کرو۔

(۴۲۵)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جنہیں پروردگار مخصوص نعمتیں دوسرے بندوں(۲) کے فائدہ کے لئے عنایت کرتاہے تو اس کے بعد جب تک وہ داد و دہش کرتے رہتے ہیں ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں باقی رکھتا ہے اور جب جودو کرم کو روک دیتے ہیں تو ان سے واپس لے لیتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے۔

(۴۲۶)

کسی بندہ کے لئے یہ مناسب نہی ہے کہ دو

(۱)انسانی زندگی کی دو عظیم خرابیاں ہیں :ایک کا نام ہے خواہش پرستی اوردوسری کا نام ہے بد اخلاقی ۔مولائے کائنات نے دونوں کا ایک ایک علاج بتایا ہے کہ خواہش پرستی کا علاج ہے اتباع عقل جس کے بعد خواہش کو امرونہی کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا ہے۔اوربداخلاقی کا علاج ہے بردباری کہ جس کے ذریعہ سے کم سے کم اس عیب کی پردہ پوشی کی جا سکتی ہے۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے پاس نعمتوں کی فراوانی کسی ذاتی امتیاز یا مالک سے کسی خاص رشتہ داری کی بنیاد پرنہیں ہے۔اس کا سبب درحقیقت وہ امانتداری ہے جو پروردگار اپنے بندہ میں دیکھناچاہتا ہے اوروہ انتظام ہے جو مالک کمزوروں کے لئے طاقتور افراد کے ذریعہ انجام دیتا ہے۔لہٰذا کسی انسان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور کمزوروں کی حاجت برآری کرکے اپنی شرافت اور امانتداری کا ثبوت دینا چاہیے۔

۷۶۹

أَنْ يَثِقَ بِخَصْلَتَيْنِ الْعَافِيَةِ والْغِنَى - بَيْنَا تَرَاه مُعَافًى إِذْ سَقِمَ وبَيْنَا تَرَاه غَنِيّاً إِذِ افْتَقَرَ.

۴۲۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ شَكَا الْحَاجَةَ إِلَى مُؤْمِنٍ فَكَأَنَّه شَكَاهَا إِلَى اللَّه - ومَنْ شَكَاهَا إِلَى كَافِرٍ فَكَأَنَّمَا شَكَا اللَّه.

۴۲۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي بَعْضِ الأَعْيَادِ - إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّه صِيَامَه وشَكَرَ قِيَامَه - وكُلُّ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّه فِيه فَهُوَ عِيدٌ.

۴۲۹ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَعْظَمَ الْحَسَرَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - حَسْرَةُ رَجُلٍ كَسَبَ مَالًا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه - فَوَرِثَه رَجُلٌ فَأَنْفَقَه فِي طَاعَةِ اللَّه سُبْحَانَه - فَدَخَلَ بِه الْجَنَّةَ ودَخَلَ الأَوَّلُ بِه النَّارَ.

۴۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَخْسَرَ النَّاسِ صَفْقَةً وأَخْيَبَهُمْ سَعْياً - رَجُلٌ

چیزوں پر بھروسہ کرے۔ایک عافیت اورایک مالداری۔ کہ عافیت دیکھتے دیکھتے بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مالداری دیکھتے دیکھتے غربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

(۴۲۷)

جو اپنے درد دل کو کسی مومن سے بیان کرے گویا اس نے خدا سے بیان کیا اور جو اس کی فریاد کسی کافر سے کرے تو گویا اس نے خدا کی شکایت کی۔

(۴۲۸)

ایک عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ ''یہ عید صرف ان کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے مسلمان کے لئے وہی روز۔روز عید ہے۔

(۴۲۹)

روز قیامت سب سے زیادہ حسرت ناک صورت حال اس شخص کی ہوگی جو اطاعت خداسے ہٹ کر مال حاصل کرے اورپھر اس کا وارث وہ ہو جائے جو اسے اطاعت خدا میں صرف کردے کہ وہ اسی مال سے جنت میں چلا جائے گا اورکمانے والا اسی سے جہنم کا حقدار ہو جائے گا ۔

(۴۳۰)

معاملات میں سب سے زیادہ خسارہ والا اور کوششوں میں سب سے زیادہ ناکام وہ شخص ہے جو اپنے

۷۷۰

أَخْلَقَ بَدَنَه فِي طَلَبِ مَالِه - ولَمْ تُسَاعِدْه الْمَقَادِيرُ عَلَى إِرَادَتِه - فَخَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا بِحَسْرَتِه وقَدِمَ عَلَى الآخِرَةِ بِتَبِعَتِه

۴۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : الرِّزْقُ رِزْقَانِ طَالِبٌ ومَطْلُوبٌ - فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَه الْمَوْتُ حَتَّى يُخْرِجَه عَنْهَا - ومَنْ طَلَبَ الآخِرَةَ طَلَبَتْه الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ رِزْقَه مِنْهَا.

۴۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّه هُمُ الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى بَاطِنِ الدُّنْيَا - إِذَا نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا - واشْتَغَلُوا بِآجِلِهَا إِذَا اشْتَغَلَ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا -

جسم کو مال کی طلب میں خستہ حال کردے اور پھر بھی مقدر ساتھ نہ دے کہ اس طرح دنیا سے حسرتیں لے کر چلا جاتا ہے اور آخرت میں بہر حال اس کی پاداش کو برداشت کرناپڑتا ہے۔

(۴۳۱)

رزق دو طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ ہے جو خود تلاش کرتا ہے اور ایک وہ ہے جسے تلاش کیاجاتا ہے۔لہٰذا یاد رکھو کہ جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اس کی طلبگار موت ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اس دنیا سے نکال باہر کرے اور جوآخرت کا طلب گار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ اپنا پورا حق حاصل کرلے۔

(۴۳۲)

اولیائ(۱) خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات

(۱)اس مقام پرحضرت نے اولیاء خداکے آٹھ صفات کاتذکرہ فرمایا ہے تاکہ ہر انسان اس کردار کو پہچانے اوراسے اختیارکرنے کی کوشش کرے کہ روز قیامت کے خوف و حزن سے اولیاء ء خداکے علاوہ کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔اولایء اللہ کے وہ صفات حسب ذیل ہیں:

(۱) جب لوگ دنیاکے ظاہر پر فریفتہ ہونے لگتے ہیں تو وہ اس کے اندرونی زہر کا مشاہدہ کرتے ہیں (۲) جب لوگ دنیا پر مرنے لگتے ہیں تبوہ آخرت کی فکرمیں لگ جاتے ہیں (۳) جوخواہشات انسان کو تباہ کر دیتی ہیں وہ انہیں کو تباہ کردیتے ہیں (۴) جو دولت دنیا انہیں چھوڑ دینے والی ہے وہ اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں (۵) جس دولت دنیا کو لوگ کثیر تصور کرتے ہیں وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں (۶) جس باطل سے لوگ صلح کر لیتے ہیں وہ اس کے سدا دشمن رہتے ہیں (۷) ان کے اور قرآن کے درمیان ایسا اتحاد کردار ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں (۸) اجرآخرت سے بہتر کوئی امید اور عذاب آخرت سے بد تر کوئی خوفناک شے اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھتے ہیں۔

۷۷۱

فَأَمَاتُوا مِنْهَا مَا خَشُوا أَنْ يُمِيتَهُمْ - وتَرَكُوا مِنْهَا مَا عَلِمُوا أَنَّه سَيَتْرُكُهُمْ - ورَأَوُا اسْتِكْثَارَ غَيْرِهِمْ مِنْهَا اسْتِقْلَالًا - ودَرَكَهُمْ لَهَا فَوْتاً - أَعْدَاءُ مَا سَالَمَ النَّاسُ وسَلْمُ مَا عَادَى النَّاسُ - بِهِمْ عُلِمَ الْكِتَابُ وبِه عَلِمُوا - وبِهِمْ قَامَ الْكِتَابُ وبِه قَامُوا - لَا يَرَوْنَ مَرْجُوّاً فَوْقَ مَا يَرْجُونَ - ولَا مَخُوفاً فَوْقَ مَا يَخَافُونَ.

۴۳۳ - وقَالَعليه‌السلام : اذْكُرُوا انْقِطَاعَ اللَّذَّاتِ وبَقَاءَ التَّبِعَاتِ.

۴۳۴ - وقَالَعليه‌السلام : اخْبُرْ تَقْلِه

قال الرضي - ومن الناس من يروي هذا للرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ومما يقوي أنه من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ما حكاه ثعلب عن ابن الأعرابي.

کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار ڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہو جانا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کرلینا تصورکرتے ہیں۔اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگ دشمن ہیں۔انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں۔قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت سے زندہ ہیں۔یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں۔

(۴۳۳)

یہ یاد رکھو کہ لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔

(۴۳۴)

امتحان کرو تاکہ نفرت پیدا کرو۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس قول کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ کلام امیر المومنین ہے اور اس کا شاہد ثعلب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ مامون نے اس فقرہ

۷۷۲

قال المأمون - لولا أن علياعليه‌السلام قال اخبر تقله - لقلت أقله تخبر

۴۳۵ - وقَالَعليه‌السلام : مَا كَانَ اللَّه لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الشُّكْرِ - ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الزِّيَادَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الدُّعَاءِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الإِجَابَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ لِعَبْدٍ بَابَ التَّوْبَةِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الْمَغْفِرَةِ.

۴۳۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَوْلَى النَّاسِ بِالْكَرَمِ مَنْ عُرِفَتْ بِه الْكِرَامُ.

۴۳۷ - وسُئِلَعليه‌السلام أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْعَدْلُ أَوِ الْجُودُ فَقَالَعليه‌السلام - الْعَدْلُ يَضَعُ الأُمُورَ مَوَاضِعَهَا والْجُودُ يُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا - والْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ والْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ - فَالْعَدْلُ أَشْرَفُهُمَا وأَفْضَلُهُمَا.

کو سن کر کہا کہ اگر حضرت علی نے اس طرح نہ فرمادیا ہوتا تو میں اسے یوں کہتا کہ ''نفرت کرو تاکہ آزمالو''

(۴۳۵)

اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بندہ کے لئے شکر کا دروازہ کھول دے اور پھر اضافہ نعمت کا دروازہ بند کردے یا دعا کا دروازہ کھول دے اورقبولیت کا دروازہ بند کردے یا توبہ کا دروازہ کھول دے اورمغفرت کا دروازہ بند کردے ۔

(۴۳۶)

کرم کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی جڑیں ان اہل کرم میں ہوتی ہیں جن کا کرم جانا پہچانا ہوتا ہے۔

(۴۳۷)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کون سا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہرنکال دیتی ہے۔انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں افضل اور اشرف ہے۔

۷۷۳

۴۳۸ - وقَالَعليه‌السلام : النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۴۳۹ - وقَالَعليه‌السلام : الزُّهْدُ كُلُّه بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ ولا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ ) .ومَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي ولَمْ يَفْرَحْ بِالآتِي - فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْه.

۴۴۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ

(۴۳۸)

لوگ ان چیزوں(۱) کے دشمن ہیں جن سے ناواقف ہیں۔( اوریہی دین کی دشمنی اور آل محمد(ص) سے عداوت کا بھی راز ہے )

(۴۳۹)

تمام زہد(۲) قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے '' جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اورجو ملجائے اس پر مغرورنہ ہو جائو ''لہٰذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اورآنے والے سے مغرورنہ ہوجائے اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے ۔

(۴۴۰)

رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدر کمزوربنا دیتی ہے۔

(۱)یہ بات بعینہ حکمت ۱۷۱ میں بیان کی جاچکی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جہالت ایک ایسی بلا ہے جس مبتلا ہونے کے بعد انسان اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں پہچانتا ہے اور بعض اوقات اپنا بھی دشمن ہوجاتاہے اوراس کا علاج اس کے ماسوا کچھ نہیں ہے کہ انسان کو صاحب علم بنایا جائے اور ایسا صاحب علم بنایا جائے جس میں غرور علم نہ پیدا ہو ورنہ بارش سے بھاگ کر پر نالہ کے نیچے کھڑے ہونے کے مرادف ہو جائے گا۔۔

(۲)زہد کا عام تصور غربت ' ناداری ' دنیا بیزاری اور پھٹے کپڑوں میں محصور کردیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔اس کے نزدیک زہد دولت ک ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور غربت کے ساتھ بھی۔اس کی نگاہ میں بہترین دولت مند بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر اس دولت سے غرور نہ پیداہوجائے ۔اور بد ترین فقری بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر دنیاکے ہاتھ سے نکل جانے سے رنجیدہ اور محزون نہ ہو۔

مولائے کائنات نے دوسرے مقامات پر اس کی بہترین تفسیر کی ہے کہ '' زہدیہ نہیں ہے کہ تم کسی چیز کے مالک نہ بنو۔بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز تمہاری مالک اور صاحب اختیار نہ ہونے پائے ۔یعنی دولت اور کرسی انسان کے اختیار میں ہے تو انسان زاہد ہے اور انسان ان دونوں کے اختیار میں چلا جائے تو اس کا زہد و تقویٰ اسی آن رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی بقا کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے ۔

۷۷۴

۴۴۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْوِلَايَاتُ مَضَامِيرُ الرِّجَالِ

۴۴۲ - وقَالَعليه‌السلام : لَيْسَ بَلَدٌ بِأَحَقَّ بِكَ مِنْ بَلَدٍ خَيْرُ الْبِلَادِ مَا حَمَلَكَ.

۴۴۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ جَاءَه نَعْيُ الأَشْتَرِ رحمهالله :

مَالِكٌ ومَا مَالِكٌ واللَّه لَوْ كَانَ جَبَلًا لَكَانَ فِنْداً - ولَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً - لَا يَرْتَقِيه الْحَافِرُ ولَا يُوفِي عَلَيْه الطَّائِرُ.

قال الرضي - والفند المنفرد من الجبال.

۴۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : قَلِيلٌ مَدُومٌ عَلَيْه خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۴۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا كَانَ فِي رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ فَانْتَظِرُوا أَخَوَاتِهَا.

(۴۴۱)

حکومتیں مردوں کے کردار کا میدان امتحان ہیں۔

(۴۴۲)

کوئی شہر تمہارے لئے دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔بلکہ بہترین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے رہے۔

(۴۴۳)

مالک اشتر کی خبر شہادت آنے کے بعدفرمایا: ''مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔اور اگرپتھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔اس کی بلندیوں کونہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ وہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔

سید رضی : فند پہاڑوں میں منفرد پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔

(۴۴۴)

مختصر عمل جس کی پابندی کی جا سکے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو انسان کو دل تنگ بنادے ۔

(۴۴۵)

اگر کسی انسان میں کوئی اچھی خصلت پائی جاتی ہے تو اس سے دوسری خصلتوں کی بھی توقع(۱) کی جاسکتی ہے۔

(۱)چونکہ اچھی خصلت شرافت نفس سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایک خصلت کو بھی دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص میں شرافت نفس پائی جاتی ہے اور یہ شرافت نفس جس طرح اس ایک خصلت پرآمادہ کر سکتی ہے اسی طرح دوسری خصلتیں بھی پیدا کر سکتی ہے کہ ایک درخست میں ایک ہی میورہ نہیں پیدا ہوتا ہے۔

۷۷۵

۴۴۶ - وقَالَعليه‌السلام لِغَالِبِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَبِي الْفَرَزْدَقِ فِي كَلَامٍ دَارَ بَيْنَهُمَا.

مَا فَعَلَتْ إِبِلُكَ الْكَثِيرَةُ - قَالَ دَغْدَغَتْهَا الْحُقُوقُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام ذَلِكَ أَحْمَدُ سُبُلِهَا.

۴۴۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنِ اتَّجَرَ بِغَيْرِ فِقْه فَقَدِ ارْتَطَمَ فِي الرِّبَا.

۴۴۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ عَظَّمَ صِغَارَ الْمَصَائِبِ ابْتَلَاه اللَّه بِكِبَارِهَا.

۴۴۹ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْه نَفْسُه

(۴۴۶)

غالب بن صعصعہ(۱) (پدر فرزوق) سے گفتگو کے دوران فرمایا: تمہارے بیشمار اونٹوں کا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہاکہ حقوق کی ادائیگی نے منتشر کردیا۔فرمایاکہ یہ بہترین اور قابل تعریف راستہ ہے۔

(۴۴۷)

جو احکام کو دریافت کئے بغیرتجارت(۲) کرے گاوہ کبھی نہ کبھی سود میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔

(۴۴۸)

جو چھوٹے(۳) مصائب کوبھی بڑا خیال کرے گا اسے خدا بڑے مصائب میں بھی مبتلا کردے گا۔

(۴۴۹)

جسے اس کانفس عزیز ہوگا اس کی نظرمیں

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ غالب فرزدق کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اونٹوں کے بارے میں بھی سوال کیا ار فرزدق کے بارے میں بھی سوال کیا تو غالب نے کہاکہ یہ میرا فرزند ہے اور اسے میں نے شعرو ادب کی تعلیم دی ہے۔آپ نے فرمایا کہ اے کاش تم نے قرآن مجید کی تعلیم دی ہوتی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بات دل کو لگ گئی اور انہوں نے اپنے پیروں میں زنجیریں ڈال لیں اور انہیں اس وقت تک نہیں کھولا جب تک سارا قرآن حفظ نہیں کرلیا۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ فقہ کی ضرورت صرف صلوٰة صیم کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے کہ تاکہ انسان برائیوں سے محفوظ رہ سکے اور لقمہ حلال پر زندگی گذار سکے ورنہفقہ کے بغیر تجارت کرنے میں بھی سود کا اندیشہ ہے اور سود سے بد تر اسلام میں کوئی مال نہیں ہے جس کا ایک پیسہ بھی حلال نہیں کیا گیا ہے۔

(۳)انسان کا ہنر یہ ہے کہ ہمیشہ مصائب کا مقالہ کرنے کے لئے تیار رہے اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی آجائے تو اسے حقیر اورمعمولی ہی سمجھے تاکہ دیگر مصائب کو حملہ کرنے کاموقع نہ ملے ورنہ ایک مرتبہ اپنی کمزوری کا اظہار کردیا تو مصائب کاہجوم عام ہوجائے گا اور انسان ایک لمحہ کے لئے بھی نجات حاصل نہ کرسے گا۔

۷۷۶

هَانَتْ عَلَيْه شَهَوَاتُه.

۴۵۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً إِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِه مَجَّةً.

۴۵۱ - وقَالَعليه‌السلام : زُهْدُكَ فِي رَاغِبٍ فِيكَ نُقْصَانُ حَظٌّ - ورَغْبَتُكَ فِي زَاهِدٍ فِيكَ ذُلُّ نَفْسٍ.

۴۵۲ - وقالعليه‌السلام الْغِنَى والْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه.

۴۵۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَا زَالَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ - حَتَّى نَشَأَ ابْنُه الْمَشْئُومُ عَبْدُ اللَّه.

خواہشات(۱) بے قیمت ہوں گی( کہ انہیں سے عزت نفس کی تباہی پیدا ہوتی ہے )

(۴۵۰)

انسان جس قدر بھی مزاح(۲) کرتا ہے اس قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

(۴۵۱)

جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جوتم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت ذلت نفس ہے ۔

(۴۵۲)

مالداری اورغربت کا فیصلہ پروردگار کی بارگاہ میں پیشی کے بعد ہوگا۔

(۴۵۳)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت کی ایک فرد شمار ہوتاتھا یہاں تک کہ اس کا منحوس فرزند عبداللہ نمودار ہوگیا۔

(۱)خواہش اس قید کا نام ہے جس کا قدی تا حیات آزاد نہیں ہو سکتا ہے کہ ہر قید کا تعلق انسان کی بیرونی زندگی سے ہوتا ہے اورخواہش انسان کواندر سے جکڑ لیتی ہے جس کے بعد کوئی آزاد کرانے والا بھی نہیں پیدا ہوتاہے اوریہی وجہ ہے کہ کہ جب ایک مرد حکیم سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تمہاری خواہش کیا ے ؟ تو اس نیبرجستہ یہی جواب دیا کہ بس یہی کہ کسی چیز کی خواہش نہ پیدا ہو۔

(۲)مزاج ایک بہترین چیز ہے جس سے انسان خود بھی خوش ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی خوشحال بناتا ہے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ مزاح بحد مزاح ہو اوراس میں غلط بیانی ' فریب کاری' ایذاء مومن ' توہین مسلمان کا پہلو نہ پیداہونے پائے اورحد سے زیادہ بھی نہ ہو ورنہ حرام اورباعث ہلاکت و بربادی ہو جائے گا۔

۷۷۷

۴۵۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا لِابْنِ آدَمَ والْفَخْرِ - أَوَّلُه نُطْفَةٌ وآخِرُه جِيفَةٌ - ولَا يَرْزُقُ نَفْسَه ولَا يَدْفَعُ حَتْفَه.

۴۵۵ - وسُئِلَ مَنْ أَشْعَرُ الشُّعَرَاءِ فَقَالَعليه‌السلام :إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَجْرُوا فِي حَلْبَةٍ - تُعْرَفُ الْغَايَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا - فَإِنْ كَانَ ولَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّيلُ

يريد إمرأ القيس

۴۵۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَلَا حُرٌّ يَدَعُ هَذِه اللُّمَاظَةَ لأَهْلِهَا - إِنَّه لَيْسَ لأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا.

(۴۵۴)

آخر فرزند آدم(۱) کافخرو مباہات سے کیا تعلق ہے جب کہ اس کا ابتدا نطفہ ہے اورانتہا مردار۔وہ نہ اپنی روزی کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی موت کو ٹال سکتا ہے۔

(۴۵۵)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ تو فرمایا کہ سارے شعراء نے ایک میدان میں قدم نہیں رکھا کہ سبقت عمل سے ان کی انتہائے کمال کا فیصلہ کیاجاسکے لیکن اگر فیصلہ ہی کرنا ہے تو بادشاہ گمراہ (یعنی امراء القیس)

(۴۵۶)

کیاکوئی ایسا آزاد(۲) مرد نہیں ہے جو دنیاکے اس چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو کہ تمہارے نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہٰذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرنا۔

(۱)انسانی زندگی کے تین دورہوتے ہیں : ابتدائ، انتہاء ، وسط ۔اور انسان کاحال یہ ہے کہ وہ ابتداء میں ایک قطرۂ نجس ہوتا ہے اور انتہاء میں مردار ہو جاتا ہے۔درمیانی حالات یقینا طاقت و قوت اور طہارت و پاکیزگی کے ہوتے ہیں لیکن اس کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ نہ اپنا رزق اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اور نہ اپنی موت اپنے اختیارمیں ہوتی ہے ۔ایسے حالات میں انسان کے لئے تکبرو غرورکا جوازکہاں سے پیداہوتا ہے۔تقاضائے شرافت و دیانت یہی ہے کہ جس نے پیداکیا ہے اسی کا شکریہ ادا کرے اوراسی کی اطاعت میں زندگی گذاردے تاکہ مرنے کے بعد خود بھی پاکیزہ رہے اوروہ زمین بھی پاکیزہ ہو جائے جس میں فن ہوگیا ہے۔

(۲)دنیا وہ ضعیفہ ہے جولاکھوں کے تصرف میں رہ چکی ہے اوروہ لقمہ ہے جسے کروڑوں آدمی چبا چکے ہیں۔کیا ایسی دنیا بھی اس لائق ہوتی ہے کہ انسان اس سے دل لگائے اور اس کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔اس کا تو سب سے بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے حوالے کرکے اپنی جنت کا انتظام کرلے جہاں ہر چیز نئی ہے اور کوئی نعمت استعمال شدہ نہیں ہے۔

۷۷۸

۴۵۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وطَالِبُ دُنْيَا.

۴۵۸ - وقَالَعليه‌السلام : الإِيمَانُ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَيْثُ يَضُرُّكَ - عَلَى الْكَذِبِ حَيْثُ يَنْفَعُكَ - وأَلَّا يَكُونَ فِي حَدِيثِكَ فَضْلٌ عَنْ عَمَلِكَ - وأَنْ تَتَّقِيَ اللَّه فِي حَدِيثِ غَيْرِكَ

۴۵۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَغْلِبُ الْمِقْدَارُ عَلَى التَّقْدِيرِ حَتَّى تَكُونَ الآفَةُ فِي التَّدْبِير.

قال الرضي وقد مضى هذا المعنى فيما تقدم - برواية تخالف هذه الألفاظ.

۴۶۰ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ والأَنَاةُ تَوْأَمَانِ يُنْتِجُهُمَا عُلُوُّ الْهِمَّةِ.

(۴۵۷)

دو بھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیرنہیں ہو سکتے ہیں۔ایک طالب علم اور ایک طالب دنیا ۔

(۴۵۸)

ایمان کی علامت یہ ہے کہ سچ نقصان بھی پہنچائے تو اسے فائدہ پہنچانے والے جھوٹ(۱) پر مقدم رکھو۔ اور تمہاری باتیں تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خداسے ڈرتے رہو۔

(۴۵۹)

(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) قدرت کا مقرر کیا ہوا مقدر انسان کے اندازوں پرغالب آجاتا ہے یہاں تک کہ یہی تدبیرکی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

سید رضی : یہ بات دوسرے اندازسے اس سے پہلے گذر چکی ہے۔

(۴۶۰)

بردباری اورصبر(۲) دونوں جڑواں ہیں اور ان کی پیداوار کا سرچشمہ بلند ہمتی ہے۔

(۱)یقینا ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کو جھوٹ پر مقدم رکھا جائے اورمعمولی مفادات کی راہ میں اس عظیم نعمت صدق کو قربان نہ کیا جائے لیکن کبھی کبھی اسے مواقع آس کتے ہیں جب سچ کا نقصان نا قابل برداشت ہو جائے تو ایسے موقع پر عقل اورشرع دونوں کی اجازت ہے کہ کذب کا راستہ اختیار کرکے اس نقصان سے تحفظ کا انتظام کرلیا جائے جس طرح کہ قاتل کسی نبی برحق کی تلا ش میں ہواورآپ کو اس کا پتہ معلوم ہو تو آپ کے لئے شرعاً جائز نہیں ہے کہ پتہ بتا کر نبی برحق کے قتل میں حصہ دار ہو جائیں ۔

(۲)یہ غلط مشہور ہوگیا ہے کہ مجبوری کا نام صبر ہے۔صبر مجبوری نہیں ہے ۔صبر بلند ہمتی ہے۔صبر انسان کو مصائب سے مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔صبر نسان میں عزائم کی بلندی پیداکرتا ہے۔صبر پچھلے حالات پر افسوس کرنے کے بجائے اگلے حالات کے لئے آمادگی کی دعوت دیتا ہے ۔''انا الیہ راجعون ''

۷۷۹

۴۶۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْغِيبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ.

۴۶۲ - وقَالَعليه‌السلام : رُبَّ مَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه.

۴۶۳ - وقَالَعليه‌السلام : الدُّنْيَا خُلِقَتْ لِغَيْرِهَا ولَمْ تُخْلَقْ لِنَفْسِهَا.

۴۶۴ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِبَنِي أُمَيَّةَ مِرْوَداً يَجْرُونَ فِيه - ولَوْ قَدِ اخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ - ثُمَّ كَادَتْهُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْهُمْ.

قال الرضي - والمرود هنا مفعل من الإرواد وهو الإمهال والإظهار

(۴۶۱)

غیبت(۱) کرناکمزور آدمی کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

(۴۶۲)

بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف ہی سے مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔

(۴۶۳)

دنیا دوسروں(۲) کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اپنے لئے نہیں پیداکی گئی ہے۔

(۴۶۴)

بنی امیہ میں سب کا ایک خاص میدان ہے جس میں دوڑلگا رہے ہیں ورنہ جس دن ان میں اختلاف ہوگیا تواس کے بعد بجو بھی ان پر حملہ کرنا چاہے گا تو غالب آجائے گا۔

سید رضی : مرود۔ارواد سے مفعل کے وزن پر ہے اورارواد کے معنی فرصت اور مہلت دینے کے ہیں۔جو

(۱)غیبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اس عیب کا تذکرہ کیا جائے جسے وہ خود پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے اظہار کو پسند نہیں کرتا ہے۔اسلام نے اس عمل کو فساد کی اشاعت سے تعبیر کیا ہے اوراسی بناپرحرام کردیا ہے ۔لیکن اگر کسی موقع پر عیب کے اظہارنہ کرنے ہی میں سماج یا مذہب کی بربادی کاخطرہ ہو تو بیان کرنا جائزبلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے جس طرح کہ علم رجال میں راویوں کی تحقیق کا مسئلہ ہے کہاگران کے عیوب پر پردہڈال دیا گیا تو مذہب کے تباہ و برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ہر جھوٹا شخص روایات کاانبار لگاسکتا ہے۔

(۲)دنیا کی تخلیق مقصود بالذات نہیں ہے ورنہ پروردگار اس کو دائمی اور ابدی بنادیتا ۔ دنیا کو فنا کرکے آخرت کو منظرعام پر لے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی تخلیق آخرت کے مقدمہ کے طور پرہوئی ہے ۔اب اگر کوئی شخص اسے قربان کرکے آخرت کما لیتاہے تو گویا اس نے صحیح مصرف میں لگا دیا ورنہ اپنی زندگی بھی برباد کی اورموت کوبھی صحیح راستہ پر نہیں لگایا۔

۷۸۰

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863