نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 629840
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 629840 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وهذا من أفصح الكلام وأغربه - فكأنهعليه‌السلام شبه المهلة التي هم فيها بالمضمار - الذي يجرون فيه إلى الغاية - فإذا بلغوا منقطعها انتقض نظامهم بعدها.

۴۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي مَدْحِ الأَنْصَارِ - هُمْ واللَّه رَبَّوُا الإِسْلَامَ كَمَا يُرَبَّى الْفِلْوُ - مَعَ غَنَائِهِمْ بِأَيْدِيهِمُ السِّبَاطِ وأَلْسِنَتِهِمُ السِّلَاطِ

۴۶۶ - وقَالَعليه‌السلام : الْعَيْنُ وِكَاءُ السَّه.

قال الرضي - وهذه من الاستعارات العجيبة - كأنه يشبه السه بالوعاء والعين بالوكاء - فإذا أطلق الوكاء لم ينضبط الوعاء - وهذا القول في الأشهر الأظهر من كلام النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقد رواه قوم لأمير المؤمنينعليه‌السلام - وذكر ذلك المبرد في كتاب المقتضب - في باب اللفظ بالحروف - وقد تكلمنا على هذه الاستعارة - في كتابنا الموسوم بمجازات الآثار النبوية.

فصیح ترین اورعجیب ترین تعبیر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا میدان عمل یہی مہلت خداوندی ہے جس میں سب بھاگے چلے جا رہے ہیں ورنہ جس دن یہ مہلت ختم ہوگئی سارا نظام درہم وبرہم ہو کر رہ جائے گا۔

(۴۶۵)

انصار مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔خدا کی قسم ان لوگوں نے اسلام کو اسی طرح پالا ہے جس طرح ایک سالہ بچہ ناقہ کو پالا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

(۴۶۶)

آنکھ عقب(۱) کا تسمہ ہے۔

سید رضی : یہ ایک عجیب و غریب استعارہ ہے جس میں انسان کے عقب کو ظرف کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس کیآنکھ کو تسمہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جب تسمہ کھولدیاجاتا ہے تو برتن کا سامان محفوظ نہیں رہتا ہے۔عام طور سے شہرت یہ ہے کہ یہ پیغمبر اسلام (ص) کاکلام ہے لیکن امیر المومنین سے بھی نقل کیا گیا ہے اور اس کاذکر مبردنے اپنی کتاب المقتضب میں باب اللفظ بالحروف میں کیا ہے اور ہم نے بھی اپنی کتاب المجازات النبویہ میں اس سے مفصل بحث کی ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کی آنکھ ہی اس کے تحفظ کاذریعہ ہے چاہے سامنے سے ہو چاہے پیچھے سے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس نعمت پروردگار کی قدر کرے اوراس بات کا احساس کرے کہ یہ ایک آنکھ نہ ہوتی تو انسان کا راستہ چلنا بھی دشوار ہو جاتا ۔حملوں سے تحفظ تو بہت دور کی بات ہے۔

۷۸۱

۴۶۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي كَلَامٍ لَه: ووَلِيَهُمْ وَالٍ فَأَقَامَ واسْتَقَامَ حَتَّى ضَرَبَ الدِّينُ بِجِرَانِه

۴۶۸ - وقَالَعليه‌السلام : يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ - يَعَضُّ الْمُوسِرُ فِيه عَلَى مَا فِي يَدَيْه - ولَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( ولا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ) - تَنْهَدُ فِيه الأَشْرَارُ وتُسْتَذَلُّ الأَخْيَارُ - ويُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ - وقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّينَ

۴۶۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وبَاهِتٌ مُفْتَرٍ

قال الرضي: وهذا مثل قولهعليه‌السلام

(۴۶۷)

لوگوں کے امور کاذمہ دار ایک ایساحاکم(۱) بنا جوخود بھی سیدھے راستہ پر چلا اور لوگوں کوب بھی اسی راستہ پر چلایا۔یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا۔

(۴۶۸)

لوگوں پر ایک ایسا سخت زمانہ آنے والا ہے جس میں موسرا پنے مال میں انتہائی بخل سے کام لے گا حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے اورپروردگار نے فرمایا ے کہ '' خبردار آپس میں حسن سلوک کوفراموش نہ کردینا ''اس زمانہ میں اشرار اونچے ہو جائیں گے اور اخیار کوذلیل سمجھ لیا جائے گا مجبور(۲) و بیکس لوگوں کی خریدو فروخت کی جائے گی حالانکہ رسول اکرم (ص) نے اس بات سے منع فرمایا ہے۔

(۴۶۹)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔حدسے آگے بڑھ جانے والا دوست اورغلط بیانی اور افتر ا پردازی کرنے والا دشمن۔

سیدرضی : یہ ارشاد مثل اس کالام سابق کے ہے

(۱)شیخ محمد عبدہ کاخیال ہے کہ یہ سرکار دو عالم (ص) کے کردار کے طرف اشارہ ہے کہ جب آپ کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپنے تمام لوگوں کو حق کے راستہ پر چلانا شروع کیا اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے اپنا سینہ ٹیک دیا اوراسے استقرار و استقلال حاصل ہوگیا۔

(۲)یہاں مجبور و بیکس سے مراد وہ افراد ہیں جن کو خریدو فروخت پر مجبور کردیا جائے کہ اسلام نے اس طرح کے معاملہ کو غلط قراردیا ہے اور اس بیع و شراء کو غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن اگرانسان کو معاملہ پر مجبورنہ کیا اور وہ حالات سے مجبور ہو کر معاملہ کرنے پر تیار ہوجائے توقف ہی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس میں انسان کی رضا مندی شامل ہے چاہے وہ رضا مندی حالات کی مجبوری ہی سے پیدا ہوئی ہو۔

۷۸۲

هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

۴۷۰ - وسُئِلَ عَنِ التَّوْحِيدِ والْعَدْلِ فَقَالَعليه‌السلام

التَّوْحِيدُ أَلَّا تَتَوَهَّمَه والْعَدْلُ أَلَّا تَتَّهِمَه

۴۷۱ - وقالعليه‌السلام : لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۴۷۲ - وقَالَعليه‌السلام فِي دُعَاءٍ اسْتَسْقَى بِه:اللَّهُمَّ اسْقِنَا ذُلُلَ السَّحَابِ دُونَ صِعَابِهَا.

قال الرضي - وهذا من الكلام العجيب الفصاحة - وذلك أنهعليه‌السلام شبه السحاب ذوات الرعود والبوارق - والرياح والصواعق - بالإبل الصعاب التي تقمص برحالها وتقص بركبانها - وشبه السحاب خالية من تلك الروائع - بالإبل الذلل التي تحتلب طيعة وتقتعد مسمحة

'' میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ۔ غلو کرنے والا دوست اور عناد رکھنے والا دشمن۔

(۴۷۰)

آپ سے توحید اور عدالت کے مفہوم کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ اس کی وہمی تصویر نہ بنائی جائے اور عدالت یہ ہے کہ اس کے حکیمانہ افعال کو متہم نہ کیا جائے ۔

(۴۷۱)

حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں۔

(۴۷۲)

بارش کے سلسلہ میں دعاکرتے ہوئے فرمایا ''خدایا ہمیں فرمانبردار بادلوں سے سیراب کرنا نہ کہ دشوار گذار بروں سے۔

سید رضی : یہ انتہائی عجیب و غریب فصیح کلام ہے جس میں حضرت نے گرج ' چمک اورآندھیوں سے بھرے ہوئے بادلوں کو سر کش اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو پیر پٹکتے رہتے ہیں اور سواروں کو پٹک دیتے ہیں اور اسی طرح ان تام خطرات سے خالی بادلوں کوف رمانبردار اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو دوہنے میں مطیع اورس واری میں فرمانبردار ہوں۔

۷۸۳

۴۷۳ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ غَيَّرْتَ شَيْبَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَعليه‌السلام

الْخِضَابُ زِينَةٌ ونَحْنُ قَوْمٌ فِي مُصِيبَةٍ! (يُرِيدُ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ).

۴۷۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا الْمُجَاهِدُ الشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّه بِأَعْظَمَ أَجْراً - مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ - لَكَادَ الْعَفِيفُ أَنْ يَكُونَ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ.

(۴۷۳)

آپ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ اپنے سفید بالوں کا رنگبدل دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا؟ فرمایا کہ خضاب ایک زینت ہے لیکن ہم لوگ حالات مصیبت(۱) میں ہیں (کہ سرکار دو عالم (ص) کا انتقال ہوگیا ہے )

(۴۷۴)

راہ خدا میں جہاد کرکے شہید ہوجانے والا اس سے زیادہ اجرکا حقدار نہیں ہوتا ہے ۔ جتنا اجر اس کا ہے جو اختیارات کے باوجود عفت(۲) سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ہے کہ ملائکہ آسمان میں شمار ہو جائے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خضاب بھی سرکار دو عالم (ص) کی سنت کا ایک حصہ تھا اور آپ اسے استعمال فرمایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت نے سرکار (ص) سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اجازت ہے کہ میں بھی آپ کے اتباع میں خضاب استعمال کروں۔تو فرمایا نہیں اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے محاسن تمہارے سرکے خونس ے رنگین ہوں گے اورتم سجدہ ٔ پروردگار میں ہوگے ۔

یہ سن کر آپ نے عرض کی کہ یارسول اللہ اس حادثہ میں میرادین تو سلامت رہے گا؟ فرمایا بیشک! جس کے بعد آپ مستقل اس وقت کا انتظارکرنے لگے اور اپنے کو راہ خدامیں قربان کرنے کی تیاری میںمصروف ہوگئے ۔

(۲)یہ بات طے شدہ ہے کہ راہ خدا میں قربانی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور سکار دو عالم (ص)نے بھی اس شہادت کو تمام نیکیوں کے لئے سر فہرست قراردیا ہے لیکن عفت ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہرایک کے بس کا کام نہیں ہے ۔خصوصیت کے ساتھ دور حاضرمیں جب کہ عفت کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے اور دامان کردار کے داغوں ہی کو سبب زینت تصورکرلیا گیا ہے ورنہ عفت کے بغیر انسانیت کا کوئی مفہوم نہیں ہے اوروہ انسان 'انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہے جس میں عفت کردار نہ پای جاتی ہو۔

عفیف الحیوة انسان ملائکہ میں شمار کئے جانے کے قابل اسی لئے ہے کہ عفت کردارملائکہ کا ایک امتیازی کمال ہے اور ان کے یہاں تردامنی کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر بشراس کردارکو پیدا کرلے تو اس کا مرتبہ ملائکہ سے افضل ہو سکتا ہے۔اس لئے کہ ملائکہ کی عفت قہری ہے اور اس کا راز ان جذبات اورخواہشات کانہ ہونا ہے جو انسان کو خلاف عفت زندگی پرآمادہ کرتے ہیں اورانسان ان جذبات وخواہشات سے معمور ہے لہٰذا وہ اگر عفت کردار اختیار کرلے تو اس کا مرتبہ یقینا ملائکہ سے بلند تر ہو سکتا ہے۔

۷۸۴

۴۷۵ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي وقد روى بعضهم هذا الكلام لرسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

۴۷۶ - وقَالَعليه‌السلام لِزِيَادِ ابْنِ أَبِيه - وقَدِ اسْتَخْلَفَه لِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ عَلَى فَارِسَ وأَعْمَالِهَا - فِي كَلَامٍ طَوِيلٍ كَانَ بَيْنَهُمَا نَهَاه فِيه عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ -. اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ واحْذَرِ الْعَسْفَ والْحَيْفَ - فَإِنَّ الْعَسْفَ يَعُودُ بِالْجَلَاءِ والْحَيْفَ يَدْعُو إِلَى السَّيْفِ.

۴۷۷ - وقَالَعليه‌السلام : أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَخَفَّ بِهَا صَاحِبُه.

۴۷۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَخَذَ اللَّه عَلَى أَهْلِ الْجَهْلِ أَنْ يَتَعَلَّمُوا - حَتَّى أَخَذَ عَلَى أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُعَلِّمُوا.

(۴۷۵)

قناعت وہ مال ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے ۔

(۴۷۶)

جب عبداللہ عباس نے زیاد بن ابیہ کو فارس اور اس کے اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ایک مرتبہ پیشگی خراج وصول کرنے سے روکتے ہوئے زیاد سے فرمایاکہ خبردار۔عدل کو استعمال کرو اور بیجا دبائو اور ظلم سے ہوشیار رہو کہ دبائو عوام کو غریب الوطنی پرآمادہ کردے گا اور ظلم تلواراٹھانے پر مجبور کردے گا۔

(۴۷۷)

سخت ترین گناہ وہ ہے جسے انسان ہلکا تصور کرلے۔

(۴۷۸)

پروردگار نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہدلینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کاعہد لیا ہے ۔

۷۸۵

۴۷۹ - وقَالَعليه‌السلام : شَرُّ الإِخْوَانِ مَنْ تُكُلِّفَ لَه.

قال الرضي لأن التكليف مستلزم للمشقة وهو شر لازم عن الأخ المتكلف له فهو شر الإخوان.

۴۸۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ أَخَاه فَقَدْ فَارَقَه.

قال الرضي يقال حشمه وأحشمه إذا أغضبه وقيل أخجله أو احتشمه طلب ذلك له وهو مظنة مفارقته.

وهذا حين انتهاء الغاية بنا إلى قطع المختار من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ، حامدين للَّه سبحانه على ما منّ به من توفيقنا لضم ما انتشر من أطرافه، وتقريب ما بعد من أقطاره. وتقرر العزم كما شرطنا أولا على تفضيل أوراق من البياض في آخر كل باب من الأبواب، ليكون لاقتناص الشارد، واستلحاق الوارد، وما عسى أن يظهر لنا بعد الغموض

(۴۷۹)

بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے زحمت اٹھانی پڑے۔

سید رضی : یہ اس طرح کہ تکلیف سے مشقت پیدا ہوتی ہے اور یہ وہ شر ہے جو اس بھائی کے لئے بہر حال لازم ہے جس کے لئے زحمت برداشت کرنا پڑے ۔

(۴۸۰)

اگر مومن اپنے بھائی سے احتشام کرے تو سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا۔

سید رضی :حشمہ۔احشمہ:اس وقت استعمال ہوتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اسے غضب ناک کردیا یا بقولے شرمندہ کردیا۔اس طرح احتشمہ کے معنی ہوں گے۔ اس سے غضب یا شرمندگی کا تقاضا کیا۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جدائی لازمی ہے۔

یہ ہمارے عمل کی آخری منزل ہے جس کا مقصد امیر المومنین کے منتخب کلام کاجمع کرنا تھا اورخدا کا شکرہے کہ اس نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں آپ کے منتشر کلمات کو جمع کرنے اور دور دست ارشادات کو قریب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی اورہمارا روز اول سے یہ عزم رہا ہے کہ ہر باب کے آخرمیں کچھ سادہ اوراق چھوڑدیں تاکہ جو کلمات اس وقت ہاتھ نہیں لگے انہیں بھی گرفت میں لا سکیں اور جونئے ارشادات مل جائیں انہیں ملحق کر سکیں ۔شائد کہ کوئی چیز نگاہوں سے اوجھل

۷۸۶

ويقع إلينا بعد الشذوذ، وما توفيقنا إلا باللَّه: عليه توكلنا، وهو حسبنا ونعم الوكيل.

وذلك في رجب سنة أربع مائة من الهجرة، وصلى اللَّه على سيدنا محمد خاتم الرسل، والهادي إلى خير السبل، وآله الطاهرين، وأصحابه نجوم اليقين.

تم - والحمد لله -

نهج البلاغة

من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام

ہونے کے بعد ظہورپذیر ہو جائے اور ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہاتھ آجائے۔

ہماری توفیق صرف پروردگار سے وابستہ ہے اوراسی پر ہمارابھروسہ ہے۔وہی ہمارے لئے کافی ہے اوروہی ہماراکارساز ہے۔اور یہ کتاب۴۰۰ ھ میں اختتام کو پہنچی ہے۔اللہ ہمارے سردار حضرت خاتم المرسلین اورہادی الی خیرالسبل اور ان کی اولاد طاہرین اوران اصحاب پر رحمت نازل کرے جوآسمان یقین کے نجوم ہدایت ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

۷۸۷

فہرست

امیر المومنین کے منتخب خطبات ۴

اور احکام کا سلسلہ کلام ۴

(۱) ۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴

(جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے) ۴

تخلیق جناب آدم کی کیفیت ۱۰

انبیاء کرام کا انتخاب ۱۲

بعثت رسول اکرم (ص) ۱۳

قرآن اور احکام شرعیہ ۱۴

ذکر حج بیت اللہ ۱۵

(۲) ۱۶

صفیں سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۶

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔ ۱۶

آل رسول اکرم (ص) ۱۸

ایک دوسری قوم ۱۸

(۳) ۱۹

آپ کے ایک خطبہ کا حصہ ۱۹

جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۱۹

۷۸۸

(۴) ۲۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۴

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا) ۲۴

(۵) ۲۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۵

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ۲۵

(۶) ۲۶

حضرت کا ارشاد گرامی ۲۶

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں ۲۶

(۷) ۲۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۷

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے ۲۷

(۸) ۲۸

آپ کا ارشاد گرامی ۲۸

زبیر کے بارے میں ۲۸

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے ۲۸

(۹) ۲۸

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۲۸

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔ ۲۸

۷۸۹

(۱۰) ۲۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۹

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ ۲۹

(۱۱) ۲۹

آپ کا ارشاد گرامی ۲۹

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے ۲۹

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے) ۲۹

(۱۲) ۳۰

آپ کا ارشاد گرامی ۳۰

(۱۳) ۳۱

آپ کا ارشاد گرامی ۳۱

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے ۳۱

(۱۴) ۳۲

آپ کا ارشاد گرامی ۳۲

(ایسے ہی ایک موقع پر) ۳۲

(۱۵) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا ۳۳

۷۹۰

(۱۶) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی) ۳۳

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۳۵

(۱۷) ۳۷

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے) ۳۷

(۱۸) ۳۹

آپ کا ارشاد گرامی ۳۹

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے) ۳۹

مذمت اہل رائے: ۴۰

(۱۹) ۴۱

آپ کا ارشاد گرامی ۴۱

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا: ۴۱

(۲۰) ۴۲

آپ کا ارشاد گرامی ۴۲

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے ۴۲

(۲۱) ۴۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۲

۷۹۱

(۲۲) ۴۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۳

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے ۴۳

(۲۳) ۴۵

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ ۴۵

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے ۴۵

(۲۴) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے ۴۸

(۲۵) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔ ۴۸

(۲۶) ۵۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۱

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۵۱

(بیعت کے ہنگام) ۵۱

(۲۷) ۵۲

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ ۵۲

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے) ۵۲

۷۹۲

(۲۸) ۵۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۶

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں) ۵۶

(۲۹) ۵۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۹

جب تحکیم کے بعد معاویہ(۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: ۵۹

(۳۰) ۶۰

آپ کا ارشاد گرامی ۶۰

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں ۶۰

(۳۱) ۶۱

آپ کا ارشاد گرامی ۶۱

جب آپ نے عبداللہ بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ اسے جنگ سے پہلے اطاعت امام کی طرف واپس لے آئیں۔ ۶۱

(۳۲) ۶۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۲

جس میں زمانہ کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی دعوت دی گئی ہے۔ ۶۲

(پانچویں قسم) ۶۳

(۳۲) ۶۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۴

(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے) ۶۴

۷۹۳

(۳۴) ۶۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۶

(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا ہےاور انکے حالات پرافسوس کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت کی گئی ہے) ۶۶

(۳۵) ۶۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۹

(جب تحکیم کے بعد اس کے نتیجہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حمدو ثنائے الٰہی کے بعد اس بلا کا سبب بیان فرمایا) ۶۹

(۳۶) ۷۰

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۰

(اہل نہروان کو انجام کارسے ڈرانےکے سلسلہ میں) ۷۰

(۳۷) ۷۱

آپ کا ارشاد گرامی(جو بمنزلہ' خطبہ ہے اور اس میں نہر وان کے واقعہ کےبعدآپ نےاپنے فضائل اورکارناموں کا تذکرہ کیا ہے) ۷۱

(۳۹) ۷۲

(۳۸) ۷۲

آپ کا ارشاد گرامی ۷۲

(جس میں شبہ کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اور لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۲

(۳۹) ۷۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۲

(جو معاویہ کے سردار لشکر نعمان بن(۱) بشیرکے عین التمر پرحملہ کے وقت ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اپنی نصرت پرآمادہ کیا ) ۷۲

۷۹۴

(۴۰) ۷۴

آپ کا ارشاد گرامی ۷۴

(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں ہے) ۷۴

(۴۱) ۷۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۵

(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے) ۷۵

(۴۲) ۷۶

آپ کا ارشاد گرامی ۷۶

(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا ہے) ۷۶

(۴۳) ۷۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۷

(جب جریربن عبداللہ البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب کو اہل شام سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا ) ۷۷

(۴۴) ۷۸

حضرت کا ارشاد گرامی ۷۸

(اس موقع پر جب مصقلہ(۱) بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ کیا تو بد دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا) ۷۸

(۴۵) ۷۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۹

(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۹

۷۹۵

(۴۶) ۷۹

آپ کا ارشاد گرامی ۷۹

(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو رکاب میں پائوں رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا) ۷۹

(۴۷) ۸۰

آپ کا ارشاد گرامی ۸۰

(کوفہ کے بارے میں ) ۸۰

(۴۸) ۸۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۱

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا) ۸۱

(۴۹) ۸۲

آپ کا ارشاد گرامی ۸۲

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۸۲

(۵۰) ۸۳

آپ کا ارشاد گرامی ۸۳

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے) ۸۳

(۵۱) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا) ۸۴

(۵۲) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے ) ۸۴

۷۹۶

(۵۳) ۸۶

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے) ۸۶

(۵۴) ۸۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۶

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے) ۸۶

(۵۵) ۸۷

آپ کا ارشاد گرامی ۸۷

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں) ۸۷

(۵۶) ۸۸

آپ کا ارشاد گرامی ۸۸

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا) ۸۸

(۵۷) ۸۹

آپ کا ارشاد گرامی ۸۹

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں) ۸۹

(۵۸) ۹۰

آپ کا ارشاد گرامی ۹۰

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے) ۹۰

(۵۹) ۹۱

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا ۹۱

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا ۹۱

۷۹۷

(۶۰) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے) ۹۲

(۶۱) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(۶۲) ۹۲

آپ کا ارشاد گرامی ۹۲

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا ) ۹۲

(۶۳) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے) ۹۳

(۶۴) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں ) ۹۳

(۶۵) ۹۵

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) ۹۵

(۶۶) ۹۷

آپ کا ارشاد گرامی ۹۷

(تعلیم جنگ کے بارے میں ) ۹۷

۷۹۸

(۶۷) ۹۸

آپ کا ارشاد گرامی ۹۸

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔ ۹۸

(۶۸) ۹۹

آپ کا ارشاد گرامی ۹۹

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا) ۹۹

(۶۹) ۱۰۰

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۰

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے) ۱۰۰

(۷۰) ۱۰۱

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۱

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی) ۱۰۱

(۷۱) ۱۰۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۱

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں) ۱۰۱

(۷۲) ۱۰۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۲

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے ) ۱۰۲

(۷۳) ۱۰۵

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا) ۱۰۵

۷۹۹

(۷۴) ۱۰۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۵

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا) ۱۰۵

(۷۵) ۱۰۶

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۶

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں) ۱۰۶

(۷۶) ۱۰۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۷

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے) ۱۰۷

(۷۷) ۱۰۸

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۸

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا) ۱۰۸

(۷۸) ۱۰۸

آپ کی دعا ۱۰۸

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے) ۱۰۸

(۷۹) ۱۰۹

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۹

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے) ۱۰۹

۸۰۰