تفسیر سوره حمد

تفسیر سوره حمد 0%

تفسیر سوره حمد مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر سوره حمد

مؤلف: محسن علی نجفی
زمرہ جات:

مشاہدے: 5729
ڈاؤنلوڈ: 2904

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5729 / ڈاؤنلوڈ: 2904
سائز سائز سائز
تفسیر سوره حمد

تفسیر سوره حمد

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر سوره حمد

تالیف: محسن علی نجفی

سوره حمد

بسم الله الرحمن الرحيم ( ۱ )

الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ ) الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ ( ۳ ) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ ) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ( ۵ ) اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ( ۶ ) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

یہ سورہ قرآن کریم کا افتتاحیہ اور دیباچہ ہے۔ اہل تحقیق کے نزدیک قرآنی سورتوں کے نام توقیفی ہیں یعنی خود رسول کریم (ص) نے بحکم خدا ان کے نام متعین فرمائے ہیں ۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن عہد رسالت مآب (ص) میں ہی کتابی شکل میں مدون ہو چکا تھا، جس کا افتتاحیہ سوره فاتحہ تھا۔ چنانچہ حدیث کے مطابق اس سورے کو فَاتِحَةُ الْکِتَابِ ” کتاب کا افتتاحیہ “ کھا جاتا ہے۔

مقام نزول

سوره حجرمیں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ) ۔(۱)

اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دھرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

سبع مثانی سے مراد بالاتفاق سوره حمد ہے اور اس بات پر بھی تمام مفسرین متفق ہیں کہ سوره حجر مکی ہے۔ بنابریں سورہ حمد بھی مکی ہے۔ البتہ بعض کے نزدیک یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوا۔

تعداد آیات

تقریبا تمام مفسرین کا اتفا ق ہے کہ سوره حمد سات آیات پر مشتمل ہے لیکن اس بات میں اختلا ف ہے کہ سو رہ حمد کا جزوھے یا نہیں ؟بسم اللّٰہ کو سورے کاجزو سمجھنے والوں کے نزدیک صراط الذینسے آخر تک ایک آیت شمار ہوتی ہے اورجو لوگ اسے جزونھیں سمجھتے وہ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ ) کو ایک الگ آیت قراردیتے ہیں ۔

مکتب اہل بیت علیہم السلام میںبسم الله الرحمن الرحيم سوره توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا جزو ہے۔

فضیلت

سورہ فاتحہ کی فضیلت کے لیے یھی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پورے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔

مروی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے آباء طاہرین کے ذریعے سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فاتحة الکتاب کی آیات میں شامل ہے اور یہ سورہ سات آیات پر مشتمل ہے جوبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے مکمل ہوتا ہے۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے سنا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ عز و جل قَالَ لِیْ: یَا مُحَمد! ” ( وَ لَقَد آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ ) “ فَاٴفْرَدَ الْاِمْتِنَانَ عَلَیَّ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَ جَعَلَهَا بِاِزَاءِ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَ إنَّ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ اَشْرَفُ مَا فِیْ کُنُوْزِ الْعَرْشِ (۲)

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد(ص) ! بتحقیق ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ پس اللہ نے مجھے فاتحة الکتاب عنایت کرنے کے احسان کا علیحدہ ذکر فرمایا اور اسے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا۔ بے شک فاتحة الکتاب عرش کے خزانوں کی سب سے انمول چیزھے۔

آیت

آیت سے مراد ” نشانی“ ہے۔ قرآن مجید کی ہر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اسی لیے اسے آیت کھا گیا ہے ۔

آیات کی حد بندی توقیفی ہے،یعنی رسول خدا (ص) کے فرمان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اورکن عبارا ت پرمشتمل ہے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کھیعص ایک آیت ہے، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حمعسق دو آیتیں شمار ہوتی ہیں ۔

قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار چھ سو ( ۶۶۰۰) ہیں(۳) قرآن مجید کے کل حروف تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر( ۳۲۳۶۷۱) ہیں ،جب کہ طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عمر سے مروی ہے : القرآن الف الف حرف یعنی قرآن دس لاکھ ( ۱۰۰۰۰۰۰) حروف پر مشتمل ہے۔(۴) بنا بریں موجودہ قرآن سے چھ لاکھ چھہتر ہزار تین سو انتیس ( ۶۷۶۳۲۹) حروف غائب ہیں ۔

حق تو یہ تھا کہ اس روایت کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جاتا، مگر علامہ سیوطی فرماتے ہیں :

وَ قَدْ حُمِلَ ذَلِکَ عَلَی مَا نُسِخَ رَسْمُه مِنَ الْقُرْآنِ ایضاً اِذ الْمُْوجُوْدُ اَلْآنَ لاَ یَبْلُغُ هَذَا الْعَدَدَ ۔(۵)

روایت کو اس بات پر محمول کیا گیا ہے کہ یہ حصہ قرآن سے منسوخ الرسم ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ قرآن میں اس مقدار کے حروف موجود نہیں ہیں ۔

کتناغیرمعقول موقف ہے کہ قرآن کا دو تہائی منسوخ الرسم ہو جائے اور صرف ایک تہائی باقی رہ جائے؟!

سورہ

قرآن جس طرح اپنے اسلوب بیان میں منفرد ہے، اسی طرح اپنی اصطلاحات میں بھی منفرد ہے۔ قرآن جس ماحول میں نازل ہو اتھا،اس میں دیوان، قصیدہ، بیت اور قافیے جیسی اصطلاحات عام تھیں ، لیکن قرآن ایک ہمہ گیر انقلابی دستور ہونے کے ناطے اپنی خصوصی اصطلاحات کاحامل ہے۔قرآنی ابواب کو ”سورہ“ کا نام دیا گیا، جس کا معنی ہے” بلند منزلت “ ،کیونکہ ہر قرآنی باب نھایت بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے۔

سورہ کا ایک اور معنی فصیل شہر ہے۔ گویا قرآنی مضامین، ہر قسم کے تحریفی خطرات سے محفوظ ایک شہر پناہ کے احاطے میں ہیں ۔

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ۔

بنام خدائے رحمن و رحیم

تاریخی حیثیت

ایسا معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے مبارک نام سے ھرکام کا آغاز و افتتاح الٰہی سنت اور آداب خداوندی میں شامل رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے علم الاسماء سے نوازا گیا۔ حدیث کے مطابق اللہ کی ذات پر دلالت کرنے والے تکوینی اسماء یھی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں ۔

حضرت نوحعليه‌السلام نے کشتی میں سوار ہوتے وقت فرمایا:( بِسْمِ اللّٰهِ مَجْریها وَ مُرْسٰها ) (۶) حضرت سلیمانعليه‌السلام نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی:( اِنَّه مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّه بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) (۷) حضرت خاتم الانبیاء (ص) پرجب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اسم خدا سے آغازکرنے کاحکم ہوا :( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ) -(۸)

یہ الٰہی اصول ہر قوم اور ہر امت میں رائج ہے:

( وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَامَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلیٰ مَا رَزَقَهُمْ مِّنْ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ) (۹)

اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں عطا کیے ہیں ۔

( وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا ) ۔(۱۰)

اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انھی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو ۔

( وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّ اَصِیْلاً ) ۔(۱۱)

اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں ۔

قرآنی حیثیت

اس بات پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ جزو سورہ ہے۔ مکہ اور کوفہ کے فقھاء اور امام شافعی کا نظریہ بھی یھی ہے۔ عہد رسالت میں بتواتر ہر سورہ کے ساتھ بسم اللّہ کی تلاوت ہوتی رہی اور سب مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ سوره برائت کے علاوہ باقی تمام سورتوں کی ابتدا میں وہ بِسْمِ اللّٰہ کی تلاوت کرتے آئے ہیں ۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بِسْمِ اللّٰہ درج تھی، حالانکہ وہ اپنے مصاحف میں غیر قرآنی کلمات درج کرنے میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ قرآنی حروف پر نقطے لگانے سے بھی اجتناب کرتے تھے ۔

عصر معاویہ تک یہ سیرت تواترسے جاری رہی ۔ معاویہ نے ایک بار مدینے میں بِسْمِ اللّٰہ کے بغیر نماز پڑھائی تو مھاجرین و انصار نے احتجاج کیا :

یا معاویه اٴسرقت الصلاة اٴم نسیت اَیْنَ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ ۔(۱۲)

اے معاویہ! تو نے نماز چوری کی ہے یا بھول گئے ہو۔بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ کہاں گئی؟

معاویہ اوراموی حکام نے قرآن سے بِسْمِ اللّٰہ کو حذف کیا، لیکن ان کے مصلحت کوش پیروکاروں نے اسے ترک تو نہیں کیا، مگر آہستہ ضرور پڑھا، حالانکہ قرآن کی تمام سورتوں میں بِسْمِ اللّٰہ کے ایک الگ آیت شمار ہونے پر متعدد احادیث موجو د ہیں :

۱ ۔ عن طلحہ بن عبید الله قال: قال رسول الله (ص):مَنْ تَرَکَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم فَقَدْ تَرَکَ آیَةً مِنْ کتٰابِ الله (۱۳)

طلحہ بن عبید اللہ راوی ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:جس نےبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ترک کیا، اس نے قرآن کی ایک آیت ترک کی۔

۲ ۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ(ص) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ(ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی پھر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ (ص) آپ (ص)کس بات پرمسکرا رہے ہیں ؟ فرمایا :

اُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفَاً سُوْرَةٌ فَقَرَاٴَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ۔(۱۴)

ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ہوا ہے۔ پھر پڑھا:( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ۔( اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر ) ۔

۳ ۔ ابن عمر راوی ہیں کہ( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ہر سورہ کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔(۱۵)

۴ ۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں :

جب رسول اللہ (ص) کے پاس جبرائیلبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لے کر نازل ہوتے توآپ(ص) کو معلوم ہوجاتاتھاکہ جدید سورہ نازل ہونے والا ہے۔(۱۶)

لیکن بااین ہمہ امام ابوحنیفہ بسم اللہ کو سورہ حمد سمیت کسی بھی قرآنی سورے کا جزو نہیں سمجھتے۔ مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو القرآن الکریم و روایات المدرستین از علامہ مرتضیٰ عسکری۔

بسم اللہ سوره حمد کی ایک آیت ہے

اس بارے میں متعدد روایات موجود ہیں ۔ جن کے راوی درج ذیل جلیل القدرا صحاب ہیں :

۱ ۔ ابن عباس کہتے ہیں :

رسو ل اللہ(ص) سورہ حمد کی ابتدا بسم اللہ سے کرتے تھے۔(۱۷)

حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی مشھور ہے:

شیطان نے لوگوں سے قرآن کی سب سے بڑی آیت چرا لی ہے ۔(۱۸)

۲ ۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں :

رسول اللہ (ص) سوره حمد میں بسم اللہ پڑھتے تھے ۔(۱۹)

۳ ۔جابر(۲۰)

۴ ۔ نافع(۲۱)

۵ ۔ ابوھریرہ

۶ ۔ انس بن مالک(۲۲)

بسم اللہ کا بالجھر (آواز سے ) پڑھنا

اس بات پر بھی کبار اصحاب کی متعدد روایا ت موجود ہیں کہ رسول اللہ(ص) بسم اللہ کو آوازکے ساتھ پڑھتے تھے۔

۱ ۔ ابو ھریرہ راوی ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ: ثم عَلَّمَنِی جِبْرائِیْلُ الصَّلَوةَ فَقَامَ فَکَبَّرَ لنا .

رسول اللہ (ص ) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے نماز سکھائی۔پس وہ کھڑے ہوئے،

ثمَّ قَرَاٴَ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِیْمَا یُجْهَرُ بِهِ فِی کُلِّ رَکْعَةٍ (۲۳)

تکبیر کھی تاکہ اقتداء کی جائے،بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہر رکعت میں بالجھر پڑھی۔

۲ ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں :

رسو ل اللہ(ص)بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجھر پڑھتے تھے۔(۲۴)

۳ ۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے :

رسول اللہ (ص)دونوں سورتوں میں کو بالجھر پڑھتے تھے۔(۲۵)

۴ ۔ ابو ھریرہ کہتے ہیں :

رسول اللہ(ص)بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجھرپڑھتے تھے مگر لوگوں نے اسے ترک کر دیا۔(۲۶)

۵ ۔ ابو طفیل امام علی بن ابی طالبعليه‌السلام سے روایت کرتے ہیں :

رسو ل اللہ (ص) بسم اللہ کو واجب نمازوں میں بالجھر پڑھتے تھے۔(۲۷)

۶ ۔ انس بن مالک کہتے ہیں :

میں نے سنا کہ رسول اللہ بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھتے تھے۔(۲۸)

۷ ۔ ابن عمر راوی ہیں :

میں نے نبی(ص)،ابوبکر اور عمر کے پیچھے نمازیں پڑھیں ۔وہ سب بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھتے تھے۔(۲۹)

۸ ۔ انس راوی ہیں :

میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور علی علیہ السلام کے پیچھے نمازیں پڑھیں ۔ سب نے بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھا۔(۳۰)

اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بسم اللّٰہ کو بالجھر پڑھنے اور اس کے ضروری ہونے پرخصوصی کتب تالیف کی ہیں مثلاً:

۱ ۔ کتاب البسملة۔ تالیف :ابن خزیمہ متوفی ۳۱۱ ھ

۲ ۔ کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف : خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ ھ

۳ ۔ کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف:ابو سعید بو شیخی متوفی ۵۳۶ ھ

۴ ۔کتاب الجھر بالبسملة۔ تالیف:جلال الدین محلی شافعی متوفی ۸۶۴ ھ

ملاحظہ ہو: القرآن و روایات المدرستین

تشریح کلمات

اسم : ( س م و) یہ لفظ اگرسمو سے مشتق ہو تواس کا معنی ”بلندی“ ہے کیونکہ ا سم اپنے معنی کو پردئہ خفا سے منصہ شھود پر لاتا ہے اور اگر و س م سے مشتق ہو تو ”علامت “ کے معنی میں ہے۔

اللّٰه : ( ا ل ہ )اَ لَهَ یعنی عَبَدَ ۔ الٰہ سے مراد ہے معبود۔ حذف ہمزہ کے بعد ا ل معرفہ داخل کرنے سے اللہ بن گیا ۔یہ اسم ذات ہے جواللہ کی مقدس ذات سے مخصوص ہے۔هَلْ تَعْلَمُ لَه سَمِیًّا (۳۱) ” کیا اس کا کوئی ہم نام تیرے علم میں ہے۔ “

اَلرَّحْمٰن : ( ر ح م ) رحمت سے صیغہ مبالغہ ہے یعنی نھایت رحم کرنے والا ” مھربان “، جس کی رحمت ھرچیز کو شامل ہو۔یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا خصوصی لقب ہے۔

الرَحِیْم : صفت رحم سے متصف ذات جس کی رحمت کثیر ہو۔ یہ ” شریف “ اور ” کریم “ کے وزن پر ہے اور یہ وزن ایسی صفت بیان کرنے کے لیے آتا ہے جو کسی ذات کے لاینفک لوازم میں سے ہو ۔

تفسیر آیات

( بِسْمِ اللّٰهِ )

بسم اللہ میں باء ” استعانت “کے معنی میں ہے یعنی میں سھارا اور مدد لیتاہوں اللہ کے نام سے ۔

اولاً تو لفظ اللّٰہ ہی اسم اعظم ہونے کے اعتبار سے بہت بڑا سھارا ہے۔ ثانیاً اسم سے مراد مسمی ہوتا ہے۔ جیسے( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ ) (۳۲) میں نام خدا کی نہیں بلکہ ذات خدا کی تسبیح مراد ہے ۔

قرآن کا ہر سورہ انسانیت کے لیے صحیفہ نجات ہے۔ اس لیے ہر سورے کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے۔ ”اسم“ ذات کی ترجمانی کرتا ہے،کیونکہ اسم اگر قراردادی اور اعتباری ہو تو اس کے لیے مخصوص الفاظ منتخب کیے جاتے ہیں اور اگر تکوینی ہو تو اس مقصد کے لیے مخصوص ذات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل میں اسم اعظم بسم اللّٰہ ہے اور ذات کی شکل میں اسم اعظم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی تشریعی و تدوینی کتاب قرآن کو بسم اللّٰہ سے شروع کیا، اسی طرح اپنی تکوینی کتاب ”کائنات“ کی ابتدا ذات محمد(ص) سے کی اور تمام مخلوقات سے پہلے نور محمدی (ص) خلق فرمایا:

اِبْتَدَاٴَ اللّٰهُ کِتَابَه التَّدْوِیْنِی بِذِکْرِ اِسْمِهِ کَمَا اِبْتَدَاٴَ فی کِتَابَهُ التَّکْوِینِِی بِاِسْمِهِ الْاتَمْ فَخَلَقَ الْحَقِیقَةَ الْمُحَمَّدِیَّةَ وَ نُوْرَ النَّبِیِّ الْاَکْرَمِ قَبْلَ سَائِرِ الْمَخْلُوقِیْنَ (۳۳)

اللہ تعالیٰ نے اپنی تدوینی کتاب کی ابتدا اپنے نام سے کی جیساکہ اس نے اپنی تکوینی کتاب کی ابتدا اپنے کامل اسم سے کی۔ چنانچہ تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت اور نور محمدی (ص) کو خلق کیا۔

( الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱ ۔ قرآن کی ابتدا ذکر رحمت سے ہو رہی ہے۔ خود قرآن بھی اللہ کی عظیم رحمت ہے :

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هو شِفَاءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) (۳۴)

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے ۔

خود رسول کریم (ص) بھی اللہ کی عظیم رحمت ہیں :

( وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) (۳۵)

اور (اے محمد) ہم نے آپ کو عالمین کے لیے بس رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

رحمت کی اس غیر معمولی اہم یت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ہے:

( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ) ۔(۳۶)

تمھارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔

۲ ۔رحمٰن ۔بے پایاں رحم کرنے والا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس پررحم کرنے والا ہے ۔اس کا راز یہ ہے کہ اگر اس کا ذکر کر دیا جاتا تو خدا کی رحمانیت اسی کے ساتھ مخصوص ہو جاتی جب کہ ذکر نہ کرنے سے اللہ کی رحمانیت کا دائرہ وسیع رہتا ہے۔ لفظ الرحمٰن ہمیشہ کسی قید و تخصیص کے بغیر استعمال ہوتاہے یعنی رحمٰن بالمؤمنین نہیں کھا جاتاکیونکہ خدا فقط مومنین پر ہی رحم کرنے والا نہیں ہے :

( فَاِنَّ کَلِمَةَ الرَّحْمٰن فیِ جمیع موارد استعمالها مَحْذُوْفَةُ الْمُتَعَلَّقِ فَیُسْتَفَادُ مِنْها الْعُمُوْمُ وَ اٴَنَّ رَحْمَتَهُ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ) ۔(۳۷)

لفظ رحمٰن جھاں بھی استعمال ہوا ہے اس کا متعلق محذوف ہے، اسی لیے اس سے عمومےت کا استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔

۳ ۔رحمن اور رحیم کو بِسْمِ اللّٰہ جیسی اہم ترین آیت میں باہم ذکر کرنے سے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آجاتی ہے کیونکہ رحمن سے رحم کی عمومیت و وسعت وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ(۳۸) ”اور میری رحمت ھرچیز کو شامل ہے“ اور رَحیم سے رحم کا لازمہ ذات ہونامراد ہے کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۔(۳۹) چنانچہ اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں ۔

۴ ۔ رحمٰن اور رََحیم ، رحمسے مشتق ہیں ،جو احتیاج، ضرورتمندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ہوتاہے۔ کیونکہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ہوتا ہے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ہوتا ہے جس سے دوسرا شخص (جس پررحم کیاجاتا ہے) محروم ہوتا ہے۔

بعض علما ء کے نزدیک رحمٰن اسم ذات ہے، کیونکہ قرآن میں بہت سے مقامات پراس لفظ سے ذات کی طرف اشارہ کیا گیاہے :

( قُلْ اِنْ کَانَ لِلرحمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ ) (۴۰)

کہدیجیے : اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ہوں ۔

اس لیے اس لفظ کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہر کمال اور طاقت کا سرچشمہ ہے، جب کہ انسان اور دیگر مخلوقات محتاج ا و ر ضرورتمند ہیں ۔ کائنات کا مالک اپنے محتاج بندوں کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے رحمٰن و رَحیم ہے، کیونکہ وہی ہر فقدان کا جبران، ہر احتیاج کو پورا اور ھرکمی کو دور کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے۔

۵ ۔ نمازمیں بسم اللہ کو بالجھر (آواز کے ساتھ) پڑھنا مستحب ہے۔ حدیث کے مطابق یہ مومن کی علامت ہے۔

احادیث

امام حعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوارعليه‌السلام سے روایت فرماتے ہیں :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اٴَقْرَبُ اِلَی اسْمِ اللّٰهِ الاٴَعظَمِ مِن نَاظِرِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِهَا ۔(۴۱)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ کے اسم اعظم سے ایسے نزدیک ہے جیسے آنکھ کا قرینہ سفیدی سے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقْرَبُ اِلَی اِسْمِ اللّٰهِ الْاَعْظَمِ مِنْ سَوَادِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِهَ (۴۲)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم سے اتنی نزدیک ہے جتنی آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے قریب ہے ۔

اہم نکات

۱ ۔ ہر کام کی ابتدا میں اپنے مھربان معبود یعنی اللہ کانام لیناآداب بندگی میں سے ہے۔

۲ ۔ ہر کام کو نام خدا سے شروع کرنے سے انسان کے کائناتی موقف اور تصور حیات کا تعین ہوتا ہے کہ کائنات پر اسی کی حاکمیت ہےلَاْ مُوثِّرَ فِی الْوُجُوْدِ اِلَّا اللّٰه ہر کام اور ہر چیز میں صرف اسی کا دخل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے :کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَاٴْ بِبِسْمِ اللّٰهِ فَهُوَ اَبْتَرٌ (۴۳) یعنی ہر وہ اہم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نہیں پہنچتا۔ چونکہ اس کائنات میں اللہ ہی سب کا مطلوب و مقصود ہے اور اس کے بغیر ھرکام ادھورا اور ابتر رہتا ہے، لہٰذا حصول مرام کے لیے اس کے نام سے ابتدا کرناضروری ہے۔

۳ رحمن سے رحمت کی عمومیت اور رحیم سے رحمت کا لازمہ ذات ہونا، رحمن کے صیغہ مبالغہ ہونے اور رحیم کے صفت مشبہ ہونے سے ظاہر ہے۔

۴ ۔ اللہ کے اوصاف میں رحمن و رحیم کو سب سے زیادہ اہم یت حاصل ہے۔

۵ ۔ الله کی رحمانیت سب کو شامل ہے جب کہ اس کی رحیمیت صرف مومنین کے لیے ہے۔

تحقیق مزید

الوسائل ۶ : ۵۹ باب ان البسملة آیة الوسائل ۶ : ۱۱۹ ۔ ۷:۱۱۹ ۔ ۷ ۔ ۱۶۹ ۔ مستدرک الوسائل ۴:۱۶۶ ۔ ۴: ۱۸۷ ۔ ۴: ۱۸۹ ۔ عوالی اللآلی ۴ : ۱۰۲

۲ ( الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ )

۲ ۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جھانوں کا پروردگار ہے۔

تشریح کلمات

الحمد: ( ح م د ) ثنائے کامل ۔ اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں ۔ اَلْ کلمہ استغراق ہے۔ یعنی ساری حمد ، کوئی بھی حمد ہو ۔ اس لیے ہم نے اَلْ کا ترجمہ کاملسے کیا ہے ۔

رب : ( ر ب ب )کسی شے کو تدریجاً ارتقائی درجات کی طرف لے جانے والا۔ رب اس مالک کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ میں تدبیرامور ہو۔المالک الذی بیده تدبیر الامور ۔ العین میں مذکورہے :و من ملک شیئاً فهو ربه ۔جو کسی چیز کا مالک بنے وہ اس کا رب کہلائے گا۔ لسان العرب میں ہے:فَلَان رَبُّ هَذَا الشیء اَیْ مِلْکُهُ لَهُ فلاں اس چیز کا رب یعنی مالک ہے۔ بادل کورباب کہتے ہیں ،کیونکہ اس سے برسنے والے پانی سے نباتات کی نشو و نما ہوتی ہے۔

جو شخص ربکی طرف منسوب ہوا، اسے ربانی کہتے ہیں ۔ ارشا د قدرت ہے :

کُوْنُوْا رَبَّانِیّنَ (۴۴)

اللہ والے بن جاؤ ۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا :

اَنَا رَبَّانِیُّ هٰذِهِ الْاُمَّة (۴۵)

میں اس امت کا ربانی ہوں ۔

تفسیر آیات

( الْحَمْدُ للّهِ )

الحمد دو لفظوں اَل اور حمدسے مرکب ہے۔اَل عمومیت کا معنی دیتاہے اورحمد ثنائے کامل کو کہتے ہیں ۔ار دو زبان کی گنجائش کے مطابق اس کا مفھوم یہ بنتا ہے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے۔ یعنی اگرغیر خداکے لیے بظاہر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دےتی بھی ہے تو اس کا حقیقی سرچشمہ بھی ذات خداوندی ہے۔ بالفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ہوتی ہے :

( رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هََدٰی ) (۴۶)

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔

تمام موجودات معلول ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے علت العلل ہے۔ لہٰذا معلول کے تمام اوصافعلت کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کا وجود جو ایک کمال ہے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔اسی لیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپعليه‌السلام نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنے کے بعد فرمایا:

( فَمَا مِنْ حَمْدِ اِلّا وَ هو دَاخِلٌ فِیْمَا قُلْتُ ) (۴۷) یعنی ہر قسم کی حمدو ثنا اس جملے اَلْحَمْدُ للّٰہ میں داخل ہے جو میں نے کھاہے۔

( رَبِّ الْعَالَمِينَ )

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

( شُکْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ تَمَامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) .(۴۸)

حرام سے اجتناب کرنا نعمت کا شکر ہے اور الحمد للّٰہ رب العالمینکہنے سے شکر کی تکمیل ہوتی ہے۔

توحید رب تمام انبیاءعليه‌السلام کی تبلیغ کا محور و مرکز رہی ہے ، ورنہ توحید خالق کے تو مشرکین بھی قائل تھے ۔ ملاحظہ ہو سورة عنکبوت : ۶۳ تا ۶۱ ۔ سورہ زخرف ۹،۸۷ ۔ لقمان: ۲۵

تربیت یعنی کسی شے کوبتدریج ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔ جب لفظ رب کو بلا اضافت استعمال کیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے:

( قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هو رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ ) (۴۹)

کہدیجیے: کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا رب بناؤں ؟حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے ۔

البتہ غیر خدا کے لیے اضافت ضروری ہے جیسے رب البیت، رب السفینة وغیرہ۔

لفظ رب اس مالک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں مملوک کے امور کی تدبیر ہو ۔ اسلامی تعلیمات کا مرکزی نکتہ خالق و مدبر کی وحدت ہے کہ جس نے خلق کیا ہے اسی کے ہاتھ میں تدبیر امور ہے : یدبّر الامر من السمآء الی الارض۔

انسانی تکامل و ارتقا کا مربی خدا ہے اور حقیقی مالک بھی وہی ہے اس لیے لفظ رب کومقام دعا میں بہت اہم یت حاصل ہے۔ تمام انبیاءعليه‌السلام کی یہ سیرت رہی ہے کہ انھوں نے اپنی دعاؤں کی ابتدا لفظرب سے کی اور اللہ کو ہمیشہ اسی لفظ سے پکارا :( رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ) (۵۰) ( رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَ ) (۵۱) ( رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ ) (۵۲)

عالمین:اسم جمع ہے۔موجودات کی ایک صنف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جیسےعالم الانس، عالم الارواح وغیرہ۔ اللہ کے سوا پوری کائنات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔

ممکن ہے عَالَمِین سے یہاں پہلا معنی مراد ہو۔ بنابریں رَبِ الْعَالَمِیْنکا معنی یہ ہوا کہ تمام عالمینکا مربی اور ان کی ارتقا کا سرچشمہ فقط اللّٰہ ہے۔ اس جامع اور وسیع نظریہ توحید سے وہ فرسودہ توہمات بھی باطل ہوجاتے ہیں ، جن کے مطابق مشرکین تربیت و فیض کا سرچشمہ ایک ذات کی بجائے متعدد ذوات کو قرار دیتے اور ایک رب کی بجائے بہت سے ارباب کو پکارتے تھے

اہم نکات

۱ ۔ ہر حمد و ثنا ء کی بازگشت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰه

۲ ۔ تمام کائنات کا مالک اور ہر ارتقا کا سرچشمہ اللہ تعا لیٰ ہے ۔رَبِّ الْعَالَمِیْن

۳ ۔ کائنات پر صرف ایک رب کی حاکمیت ہے۔

۴ ۔ ربو بیت کا تقا ضا یہ ہے کہ مربو ب اپنے رب کی تعریف کرے۔

۵ ۔ مربی کے بغیرار تقا ئی مرا حل طے نہیں ہو سکتے۔

۶ ۔ تربیت یعنی حقیقی منزل کی طر ف رہنما ئی سب سے اہم کام ہے۔

۷ ۔ لفظ عا لمین سے ظا ہر ہے کہ تر بیت کا دائرہ نھا یت وسیع ہے۔

۸ ۔ وحدت مر بی نظا م کا ئنا ت میں ہم آہنگی اور وحد ت ہدف کی ضا من ہے۔

۳( الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ )

۳ ۔جو رحمٰن و رحیم ہے۔

تفسیر کلمات

وہ اللّٰہ جو لائق حمد و ثنا ، سرچشمہ تربیت و ارتقا اور صفت رحمانیت و رحیمیت سے متصف ہے،عالمین کا مالک اور قادر و قھار ہونے کے باوصف رحمن و رحیم بھی ہے ۔

مخفی نہ رہے کہ بِسْمِ اللّٰہ میں رَحْمٰن و رَحِیْم کے ذکرکے بعد اس مقام پر دوبارہ تذکرہ بے جا تکرار نہیں بلکہ بسم اللّٰہ میں اس کا ذکر مقام الوہی ت میں ہوا تھا، جب کہ یہاں مقام ربوبیت میں رَحْمٰن و رَحِیْم کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

اللہ کی رحمت سے وہ لوگ بھرہ مند ہو سکتے ہیں جو اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں ۔ اِرْحَمْ تُرْحَمْ ۔

اہم نکات

۱ ۔ اللہ تعالیٰ الوہی ت کے ساتھ ساتھ ربوبیت میں بھی رَحْمٰن و رَحِیْم ہے۔

۲ ۔ دوسروں پر رحم کر کے ہی رحمت خداوندی کا اہل بنا جا سکتا ہے۔