جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام12%

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 159

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 159 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39094 / ڈاؤنلوڈ: 4972
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ایسے شخص کا پتہ پوچھا جو سب سے زیادہ بات پھیلانے والاہو لوگوں نے اس شخص کی نشاندہی کی_ حضرت عمر نے اسے اپنے مسلمان ہونے کی خبردی_ اس شخص نے قریش کے درمیان اس بات کا اعلان کیا یہ سن کر لوگ حضرت عمرکو مارنے کیلئے اٹھے لیکن ان کے خالو نے انہیں امان دے دی یوں لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا_

لیکن حضرت عمر نے اس کی امان میں رہنے سے انکار کیا کیونکہ دوسرے مسلمانوں کو مارپڑ رہی تھی اوران کو نہیں_ راوی کہتا ہے کہ نتیجتاً حضرت عمر بھی مار کھاتے رہے یہاں تک کہ خدانے اپنے دین کو ظاہر کردیا_

پانچویں روایت کے مطابق طواف کرتے وقت حضرت عمر سے ابوجہل نے کہا : ''فلان شخص کا خیال ہے کہ تم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے'' _ حضرت عمر نے کلمہ دین پڑھا تو یہ سن کر مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے _ حضرت عمر، عتبہ ابن ربیعہ کوپچھاڑ کر مارنے لگے_ پھر اپنی دونوں انگلیوں کو اس کی آنکھوں میں ڈال دیا_ عتبہ چیخنے لگا تو لوگ بکھر گئے اور حضرت عمر بھی اٹھ کھڑے ہوئے_ یہ دیکھ کر سوائے بزرگوں کے کوئی ان کی طرف بڑھنے کی جرا ت نہ کرسکا اور حضرت حمزہ لوگوں کو وہاں سے ہٹانے لگے_

چھٹی روایت کی رو سے وہ قبول اسلام سے قبل شراب نوشی کیا کرتے تھے_ایک رات وہ اپنی پسندیدہ محفل کی طرف نکل پڑے لیکن وہاں کسی کو نہ پایا_ شراب فروش کو ڈھونڈا لیکن وہ بھی نہ مل سکا _پھر طواف کرنے گئے تو دیکھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھ رہے ہیں_ حضرت عمر کا دل چاہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سنے چنانچہ وہ کعبے کے پردے کی آڑ میں بیٹھ کر سننے لگے، یوں اسلام ان کے دل میں داخل ہوا_ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا وہاں سے اٹھے اور اپنے گھر جو قطاء کے نام سے معروف تھا، کی طرف چلے تو راستے میں حضرت عمر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اوراظہار اسلام کر کے اپنے گھر کی راہ لی_

''العمدہ''کے مطابق کہتے ہیں کہ حضرت عمر تینتیس ۳۳ مردوں اور چھ عورتوں کے قبول اسلام کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ ابن مسیب نے کہا ہے کہ چالیس مردوں اور دس عورتوں کے بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے_ عبداللہ بن ثعلبہ کا بیان ہے پینتالیس ۴۵ مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایسا ہوا _ یہ بھی

۱۲۱

کہا گیا ہے کہ حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے _ پھر حضرت عمرکے قبول اسلام کے بعد یہ آیت اتری (یایہا النبی حسبک اللہ و من اتبعک من المومنین)(۱) یعنی اے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کیلئے بس خدا اور جو مومنین آپ کے تابع فرمان ہیں کافی ہیں_(۲)

مزید تمغے

بعض افراد کا کہنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے قبل یوں دعا کی تھی: ''اے اللہ اسلام کی تقویت فرما ،عمر ابن خطاب کے ذریعے''_ ایک اور جگہ یوں نقل ہوا ہے: ''خدا اسلام کی مدد فرما (یاتقویت فرما) ابوالحکم بن ہشام کے ذریعے یا عمر ابن خطاب کے ذریعے'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بدھ کے روز یہ دعا کی اور حضرت عمر جمعرات کے دن مسلمان ہوئے_

ابن عمر سے مروی ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :''خدایا ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے تیرے نزدیک جو زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کی تقویت فرما''_ ابن عمر کہتا ہے خداکے نزدیک عمرزیادہ عزیز تھے_ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر کا قبول اسلام ، اسلام کی فتح تھی، ان کی ہجرت اسلام کی نصرت تھی اور ان کی حکومت خدا کی رحمت تھی _جب وہ مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں

___________________

۱_ سورہ انفال، آیت ۶۴ _

۲_ رجوع کریں: الاوائل (عسکری) ج ۱ص ۲۲۱_۲۲۲نیز الثقات (ابن حبان) ص ۷۲_۷۵ البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸_۹۰مجمع الزوائد ج ۹ص ۶۱از بزار و طبرانی تاریخ طبری ۲۳ہجری کے حالات میں، طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۱، عمدة القاری ( عینی) ج ۸ص ۶۸، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۶_۳۷۴، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۵_۲۹۷، تاریخ عمر بن خطاب(ابن جوزی)ص ۲۳_۳۵، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۳۱ اور ۷۵_۸۰ _نیز السیرة الحلبیة ج۱ص ۳۲۹_۳۳۵، السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۳۲_۱۳۷، المصنف (حافظ) ج ۵ص ۳۲۷_۳۲۸، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_۱۸۳، اسباب انزول (واحدی)، حیاة الصحابة ج ۱ص ۲۷۴_۲۷۶ و الاتقان ج ۱ص ۱۵اور الدر المنثور ج ۳ص ۲۰۰ کشف الاستار از مسند البزار ج۳ ص ۱۶۹ تا ۱۷۲ اور لباب النقول مطبوعہ دار احیاء العلوم ص ۱۱۳،ان کے علاوہ دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۴ تا ۹ مطبوعہ دار النصر للطباعة اور دیگر کتب تاریخ اور حدیث کی طرف رجوع کریں_

۱۲۲

نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی_(۱)

ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہاگیا ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ ترمذی نے ان میں سے بعض روایات کو صحیح مانتے ہوئے بھی ان تمام روایات پر تعجب کا اظہار کیا ہے _

ہم حضرت عمرکے قبول اسلام سے مربوط تمام مذکورہ بالا باتوں اور روایات کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ باتیں بالکل بے بنیاد ہیں _ اس بات کی توضیح کیلئے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱_ عمر کب مسلمان ہوئے؟

گذشتہ روایات کی رو سے وہ حمزہ بن عبد المطلب کے قبول اسلام کے تین دن بعد مسلمان ہوئے_ عمر کا قبول اسلام اس بات کا سبب بنا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھرسے باہر نکلیں ، یعنی جب مسلمانوں کی تعداد چالیس یا اس کے لگ بھگ ہوگئی_

یہاں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں:

الف: وہ خود ہی کہتے ہیں کہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ بعثت کے تیسرے سال کا ہے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا، جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے_

ب: ان کا کہنا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا چنانچہ جب مسلمان کوچ کی

___________________

۱_ ان روایات کے بارے میں رجوع کریں: البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸، سیرت مغلطای ص ۲۳و منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ص ۴۷۰از طبرانی، احمد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی، ترمذی، نسائی از عمر، خباب، ابن مسعود، الاوائل ج ۱ص ۲۲۱، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۱_۱۹۳ و جامع ترمذی مطبوعہ ہند ج ۴ص ۳۱۴_۳۱۵، دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۷ نیز تحفہ الاحوذی ج ۴ص ۳۱۴ نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹و البخاری مطبوعة میمنیة، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص۳۲۵، الاستیعاب حاشیة الاصابة ج ۱ ص۲۷۱ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۰تاریخ اسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۲و تاریخ الخمیس و سیرت ابن ہشام و سیرت دحلان و مسند احمد و سیرت المصطفی و طبرانی در الکبیر و الاوسط و مشکاة_ نیز دیگر کتب تاریخ اور حدیث_

۱۲۳

تیاری کررہے تھے تو حضرت عمر کا دل بھر آیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے امید ظاہر کی کہ حضرت عمر مسلمان ہوجائے گا اور ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے جبکہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ اس سے پہلے یعنی بعثت کے تیسرے سال وقوع پذیر ہوا_

ج:حضرت عمر مسلمانوں کو ستانے میں مشرکین کے ساتھ تھے اور یہ بات ارقم کے گھر سے نکلنے اور اعلانیہ دعوت شروع ہونے کے بعد کی بات ہے ،بلکہ ہم تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بعثت کے چھٹے سال تک بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ:

اولًا: یہی لوگ خود کہتے ہیں کہ حضرت عمر نماز ظہر کے فرض ہونے کے بعد مسلمان ہوئے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کی مدد سے نماز ظہر اعلانیہ پڑھی (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے) جبکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ نماز ظہر واقعہ معراج (جو خود ان کے نزدیک بعثت کے بارہویں یا تیرہویں سال پیش آیا) کے دوران واجب ہوئی_ بنابریں ان کی باتوں میں تضاد ہے_ بعض لوگوں نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ یہاں مراد نماز صبح ہے_(۱) لیکن یہ توجیہہ غلط ہے کیونکہ لفظ ''ظہر'' ، ''صبح'' کے لئے استعمال نہیں ہوتا اور اگر ان کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی صبح کی نماز سورج کے ابھرنے تک مؤخر کر کے پڑھتے تھے تو یہ توجیہ بھی نامعقول ہے کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی نماز میں کسی عذر شرعی کے بغیر کیسے تاخیر کرسکتے تھے؟

ثانیاً: عبداللہ بن عمر صریحاً کہتا ہے کہ جب اس کے والد مسلمان ہوئے تو اس وقت اس کی عمر چھ سال تھی_(۲) بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ پانچ سال کا تھا_(۳)

اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر کے قبول اسلام کے وقت عبداللہ بن عمر گھرکی چھت پر موجود تھااس نے دیکھا کہ لوگوں نے اس کے باپ کے خلاف ہنگامہ کر رکھا ہے ادر اسے گھر میں محصور کردیا ہے_ اتنے میں

___________________

۱_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۳۵ _

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۱۹و طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۳ (حصہ اول) و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_

۳_ فتح الباری ج ۷ص ۱۳۵ _

۱۲۴

عاص بن وائل نے آکر ان کو منتشر کردیا_ اس وقت ابن عمرنے اپنے باپ سے بعض چیزوں کے متعلق استفسار کیا جس کا ذکر آگے آئےگا_

نیز ابن عمر کہتا ہے کہ جب اس کا باپ مسلمان ہوا تو اس نے باپ کی نگرانی شروع کی کہ وہ کیا کرتا ہے، کہتا ہے اس وقت میرے لڑکپن کا دور تھا اور میں جو کچھ دیکھتا اسے سمجھتا بھی تھا_(۱) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر ان دنوں باشعور اور سمجھدار تھا_ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرنے بعثت کے نویں سال اسلام قبول کیا جیساکہ بعض لوگوں کا خیال بھی ہے_(۲) کیونکہ ابن عمر بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا تھا ہجرت کے پانچویں سال جب جنگ خندق ہوئی تو ابن عمر کی زندگی کے پندرہ سال گزر چکے تھے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے (بنابرمشہور) اس کو جنگ میں شرکت کی اجازت دی(۳) بلکہ ابن شہاب کے مطابق تو حفصہ اور عبداللہ ابن عمر اپنے باپ عمر سے پہلے مسلمان ہوئے تھے اور جب ان کا باپ عمر مسلمان ہوا تو اس وقت عبدا للہ کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی(۴) اس بات کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر بعثت کے دسویں سال مسلمان ہوئے _ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت عمر ہجرت سے قدرے پہلے تک مسلمان نہیں ہوئے تھے_ اس کی دلیل درج ذیل امور ہیں:

الف: یہ کہ انہیں خبر ملی کہ ان کی بہن مردار نہیں کھاتی_(۵)

واضح ہے کہ مردار کھانے کی مخالفت سورہ انعام میں ہوئی ہے جو مکہ میں ایک ساتھ نازل ہوئی_ اس وقت قبیلہ اوس کی ایک عورت (اسماء بنت یزید) نے بعض روایات کی بنا پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اونٹنی کی لگام تھام رکھی تھی(۶) واضح رہے کہ قبیلہ اوس اور مدینہ والوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طائف کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۱و تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۵و سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۳_۳۷۴ _

۲_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۳۹البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۲و مروج الذہب مطبوعہ دار الاندلس بیروت ج ۲ص ۳۲۱_

۳_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹، تہذیب الکمال ج ۱۵ ص ۳۴۰ ، الاصابہ ج ۲ ص ۳۴۷، اسی کے حاشیہ پر الاستیعاب ج ۲ ص ۳۴۲ اور باقی منابع کے لئے ملاحظہ ہو ہماری کتاب '' سلمان الفارسی فی مواجہة التحدی'' (سلمان فارسی چیلنجوں کے مقابلے میں )ص ۲۴_

۴_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹_ ۵_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۵ص ۳۲۶ _ ۶_ الدر المنثور ج ۳ص ۲از طبرانی اور ابن مردویہ_

۱۲۵

کیا تھا اور ان کی عورتیں پہلی بیعت عقبہ کے بعد مکہ آئی تھیں_

ب:بعض لوگوں نے اس بات کو حقیقت سے قریب تر سمجھا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد چالیس یا پینتالیس افراد کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام قبول کیا(۱) اس کی تائید یوں ہوتی ہے کہ بعثت کے پانچویں سال حبشہ جانیوالے افراد کی تعداد اسّی ۸۰ مردوں سے زیادہ تھی اور ان کے بقول حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پینتالیس مسلمان ہونے والے افراد لازمی طور پر ہجرت کرنے والے ان اسّی افراد کے علاوہ ہونے چاہئیں_اگرچہ ابن جوزی نے حضرت عمر سے قبل مسلمان ہونے والوں کو شمار کیا ہے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیشتر بتائی ہے_(۲)

نیز اس امر کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے مطابق حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے اور یہ کہ حبشہ جانے والوں کو دیکھ کر ان کا دل پسیجا یہاں تک کہ مسلمانوں کو حضرت عمر کے مسلمان ہونے کی امید بندھی_

جب صورت حال یہ ہے تو واضح ہواکہ (جیساکہ مدینہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات کی بحث میں آگے چل کر ذکر ہوگا) اس وقت مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا اس کے لگ بھگ تھی(۳) یعنی ہجرت حبشہ کے بعد مسلمان ہونے والے صرف یہی پینتالیس کے قریب افراد تھے _ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے اسلام لائے تھے اور اس کے بعد ہجرت کی تھی اور شاید اسی لئے مکہ میں وہ مشرکین کی ایذا رسانی سے بچے رہے_

ج:حضرت عمر کے قبول اسلام کے حوالے سے روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بلند

___________________

۱_ الثقات از ابن حسان ج ۱ ص ۷۳، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۸۰، البدء و التاریخ ج ۵ ص ۸۸_

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۲۸_۲۹_

۳_ اگرچہ ابن ہشام نے ہجرت کرنے والوں کی تعداد ستر کے قریب بتائی ہے لیکن یہ بات قابل قبول نہیں کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن لوگوں میں بھائی چارہ قائم کیا ان کی تعداد ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ منقول ہے اور یہ امر غیرقابل قبول ہے کہ حضور نے کسی صحابی کا بھائی چارہ دوسرے کے ساتھ قائم نہ کیا ہو_

۱۲۶

آواز سے نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آئے اور سنا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آیات پڑھ رہے ہیں( وما کنت تتلو من قبله من کتاب ولاتخطه بیمینک الظالمون ) (۱) واضح ہے کہ یہ دو آیتیں سورہ عنکبوت کی ہیں جو یاتو مکہ میں نازل ہونے والی آخری سورت ہے یا آخری سے پہلی سورت_(۲) پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر ہجرت کے قریب قریب مسلمان ہوئے تھے_

د:بخاری نے صحیح بخاری میں نافع سے روایت کی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر اپنے باپ حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہوا _نافع نے اس کی یوں تاویل کی ہے کہ ابن عمرنے بیعت شجرہ کے موقع پرحضرت عمر سے پہلے بیعت کی تھی اسلئے لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر نے حضرت عمر سے پہلے اسلام قبول کیا_(۳)

لیکن ہم نافع سے سوال کرتے ہیں کہ کیا لوگ عربی زبان نہ جانتے تھے؟اگر جانتے تھے تو پھر انہوں نے یہ کہنے کی بجائے کہ ابن عمر نے اپنے باپ سے پہلے بیعت کی تھی کیونکر یہ کہا کہ وہ اپنے باپ سے پہلے مسلمان ہوا _نیز کیا ان میں کوئی اتنا بھی نہ جانتا تھا کہ بیعت کرنا اور چیز ہے ، اسلام قبول کرنا اور چیز ہے_ پس بیعت سے مراد قبول اسلام کیسے ہوسکتا ہے؟

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ جو کہتے تھے وہی درست ہے، یعنی یہ کہ ابن عمر دس سال کی عمر میں ہجرت سے کچھ پہلے مسلمان ہوااور اس کے بعد اس کے باپ مسلمان ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی_

۲_ حضرت عمر کو فاروق کس نے کہا؟

گذشتہ روایات میں ہم نے پڑھا کہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو فاروق کا لقب دیا _ لیکن ہماری نظر میں یہ بات نہایت مشکوک ہے کیونکہ زہری کہتا ہے ''ہمیں خبر ملی ہے کہ اہل کتاب

___________________

۱_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶نیز حضرت عمر کے قبول اسلام کے بارے میں ذکرشدہ مآخذ کی طرف رجوع کریں_

۲_ الاتقان ج ۱ ص ۱۰_۱۱_

۳_ صحیح بخاری (مطبوعہ مشکول) ج ۵ص ۱۶۳ _

۱۲۷

نے پہلے پہل حضرت عمر کو الفاروق کہہ کرپکارا _ مسلمانوں نے یہ لفظ ان سے لیا ہے اور ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس قسم کا لقب دیا ہو''(۱) جبکہ فاروق کا لقب انہیں ایام خلافت میں ملا تھا(۲)

۳_ کیا حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا؟

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا اور انہوں نے صحیفہ قرآنی کو خود پڑھا تھا_

ہمارے نزدیک تو یہ بات بھی مشکوک ہے اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر کو نہ پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا خصوصاً شروع شروع میں_ زندگی کے آخری ایام میں لکھنا پڑھنا سیکھ گئے ہوں تویہ اور بات ہے_ اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: بعض حضرات نے صریحاً کہا ہے کہ خباب بن ارت نے انہیں نوشتہ قرآنی پڑھ کر سنایا تھا_(۳) پس اگر وہ پڑھ سکتے تو معاملے کی سچائی اور حقیقت جاننے کے لئے اسے خود کیوں نہیں پڑھا_

دوسری وجہ: حافظ عبدالرزاق نے( ان لوگوں کے بقول) صحیح سند کے ساتھ مذکورہ واقعے کو نقل کیا ہے لیکن اس نے کہا ہے کہ حضرت عمرنے (اپنی بہن کے گھر میں) شانے کی ہڈی (جس پر قرآن کی آیات مرقوم تھیں) تلاش کی اور جب وہ مل گئی تو حضرت عمرنے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تو وہ کھانا نہیں کھاتی جو میں کھاتا ہوں_ پھر اس ہڈی سے اپنی بہن کو مارا اور اس کے سر کو دوجگہوں سے زخمی کردیا _ پھر وہ ہڈی لیکر نکلے اور کسی سے پڑھوایا_ حضرت عمر ان پڑھ تھے _جب وہ نوشتہ انہیں پڑھ کرسنایا گیا تو ان کا دل دہل گیا_(۴) اس بات کی تائید عیاض ابن ابوموسی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوموسی سے کہا:

___________________

۱_ تاریخ عمر ابن خطاب ( ابن جوزی )ص ۳۰، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۳، البدایة و النہایة ج ۷ص ۱۳۳، تاریخ طبری ج ۳ص ۲۶۷سنہ۲۳ہجری کے واقعات اور ذیل المذیل ج ۸از تاریخ طبری_

۲_ ملاحظہ ہو: طبقات الشعراء (ابن سلام ) ۴۴_

۳_ تاریخ ابن خلدون ج۲ص ۹ _

۴_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶_

۱۲۸

''اپنے محرر کو بلاؤ تاکہ وہ ہمیں شام سے پہنچنے والے چند خطوط پڑھ کر سنائے''_ ابوموسی نے کہا : ''وہ مسجد میں داخل نہیں ہوتا'' عمرنے پوچھا : ''کیا وہ مجنب ہے؟ ''جواب ملا : ''نہیں بلکہ وہ تو نصرانی ہے'' _ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اس کی ران پر مارا ،قریب تھا کہ ران کی ہڈی ٹوٹ جاتی_(۱)

ممکن ہے کوئی یہ جواب دے کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی خلفاء کبھی کبھی اپنے عہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بذات خود نہیں پڑھتے تھے ، یا یہ کہ وہ خطوط عربی میں نہیں لکھے گئے تھے_ لیکن بظاہر یہ تکلفات بعد کی پیداوار ہیں _علاوہ برایں شامیوں کی زبان ہمیشہ عربی رہی ہے اور یہ بعید بات ہے کہ انہوں نے عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطوط لکھے ہوں_

مذکورہ بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر عالمانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے_ اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے بارہ سال میں سورہ بقرہ یادکیا_ جب یاد کرلیا تو حیوان کی قربانی دی_(۲)

بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حفضہ سے کہا کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کلالہ کا حکم معلوم کرے اور حضرت حفصہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند تحریروں کی صورت میں انہیں املا کر دیا_ پھر فرمایا: '' عمر نے تجھے اس کا حکم دیا ہے ؟میرا تو یہ خیال ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھ پائے گا_(۳)

بہت سے لوگوں کی روایت کے مطابق نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر کے روبرو یہی بات کہی_(۴)

ہاں ممکن ہے حضرت عمرنے مشقت اٹھاکر نئے سرے سے لکھنا پڑھنا سیکھا ہو جیساکہ بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کہاکرتے تھے اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو آیہ رجم کو اپنے ہاتھ سے لکھتے

___________________

۱_ عیون الاخبار (ابن قتیبة) ج ۱ ص ۴۳، الدرالمنثور ج۲ ص ۲۹۱ از ابن ابی حاتم و بیہقی در شعب الایمان اور حیاة الصحابہ ج۲ ص ۷۸۵ از تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۶۸_

۲_ تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۱۶۵، الدر المنثور ج ۱ص ۲۱از خطیب نیز البیہقی در شعب الایمان و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۶۶، الغدیر ج ۶ص ۱۹۶از مآخذ مذکور و از تفسیر قرطبی ج ۱ ص۳۴ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۲۸۰ از تنویر الحوالک ج ۲ ص ۶۸_

۳_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۱۰ص ۳۰۵ _

۴_ رجوع کریں: الغدیر ج ۶ص ۱۱۶ (ایک سے زیادہ مآخذ سے منقول) اور ص ۱۲۸ _

۱۲۹

بہر حال معاملہ جو بھی ہو لیکن خلیفہ ثانی کے پڑھے لکھے ہونے کے متعلق شک کرنے والے ہم پہلے آدمی نہیں ہیں بلکہ یہ موضوع تو پہلی صدی ہجری سے ہی معرکة الآراء رہا ہے یہی زہری کہتاہے کہ '' ہم عمر بن عبدالعزیز ( جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا _ پھر اس کے بعد عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ مدینہ کا گورنر بنا تھا) کے پاس بیٹھے اس موضوع کے متعلق بحث کررہے تھے تو اس نے کہا :'' اگر ان لوگوں کے پاس اس بارے میں کوئی خبر ہے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا عمر لکھنا جانتا تھا؟'' عروة نے کہا : '' ہاں جانتا تھا'' اس نے پوچھا : '' تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ ''عروہ نے کہا : '' عمر کا یہ کہنا کہ اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن مجید میں اضافہ کیا ہے تو میں آیت رجم کو اپنے ہاتھوں سے قرآن میں لکھتا اس کی دلیل ہے'' _ عبداللہ کہتاہے : '' کیا عروہ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ اسے یہ حدیث کس نے بتائی ہے ؟ ''میں نے کہا : '' نہیں'' عبیداللہ کہتاہے: '' عروة کی مثال اس مچھر کی طرح ہے جو خون تو چوستاہے مگر اپنا نشان کہیں نہیں چھوڑتا ہماری حدیثیں چوری کرتاہے لیکن ہمیں چھپا دیتاہے'' یعنی حدیث میں نے بیان کی ہے_

نکتہ :

جب یہ بات مشکوک یا ثابت ہوجائے کہ حضرت عمر پڑھے لکھے نہیں تھے تو لا محالہ ان کا یہ قول بھی مشکوک ہوجائے گا کہ وہ کاتب وحی تھے_ اور شاید یہ بھی ان تمغوں میں سے ہے جنہیں حضرت عمر کے ان وفاداروں نے گھڑا ہے جنہیں حضرت عمر کی اس فضیلت سے محرومی بہت گراں گزری ہے _ مزید یہ کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب عمر نے ابوموسی کی ران پر اس زور سے مارا کہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا صرف اس لئے

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج ۹ص ۳۴از کنز العمال ج ۵ص ۵۰از ابن سعد، سعید بن منصور، ابن منذر، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم_

۲_ کنز العمال ج ۶ ص ۲۹۵_

۱۳۰

کہ اس نے نصرانی محرر رکھا ہوا تھا_ جبکہ وہ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ خود حضرت عمر کا اپنا ایک نصرانی غلام تھا جو آخری دم تک مسلمان نہیں ہوا تھا _ وہ اسے اسلام لانے کی پیشکش کرتے لیکن وہ انکار کرتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نصرانی غلام کو آزاد کردیا(۱) _ خلیفہ ثانی کے موقف میں یہ کتنا تضاد ہے ؟ اور اس کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے ؟ صرف یہ کہ ابوموسی پر اس کا اعتراض اس کے منصبی لحاظ سے صرف اس بناپر تھا کہ مسلمانوں کے داخلی امور میں ایک نصرانی سے کام لیتا تھا_ اور یہ کام مسلمانوں کی خدمت غیر مسلم سے کرانے والا مسئلہ بھی نہیں (کیونکہ حساس مسئلہ تھا_ جبکہ خلیفہ وقت کے پاس ایک نصرانی گھر کا بھیدی تھا _از مترجم)

۴_ کیا واقعی حضرت عمر اسلام کی سربلندی کا باعث بنے ہیں؟

منقول ہے کہ حضرت عمر کی برکت سے اسلام کو تقویت یا سربلندی ملی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے خدا سے دعا مانگی تھی کہ وہ حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو سربلندی اور تقویت عطا کرے ...بلکہ بعض روایتوں کے مطابق تو وہ زمانہ جاہلیت میں بھی زور آور تھے _ کیونکہ جب انہوں نے ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کا ہمدرد اور مونس ہے تو حضرت ابوبکر نے ان سے کہا :''میرا تو تیری حمایت کرنے کا ارادہ تھا اور تو میرے متعلق یہ کہہ رہا ہے _ اس لئے کہ تو جاہلیت میں تو زور آور تھا لیکن اسلام میں بزدل ہے ...''(۲) ہمارے نزدیک یہ بات نہ فقط مشکوک ہےبلکہ بے بنیاد ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں:

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج۹ ص ۳۴ از کنز العمال ج۵ ص ۵۰ از ابن سعد، سعید بن منصور ، ابن منذر ، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم، طبقات الکبری ج۶ ص ۱۰۹ ، التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۱۰۲ ، نظام الحکم فی الشریعة والتاریخ والحیاة الدستوریہ ص ۵۸ از تاریخ عمر ( ابن جوزی) ص ۸۷ و ص ۱۴۸ _

۲_ کنز العمال ج۶ ص ۲۹۵_

۱۳۱

الف: جب شیخ ابطح حضرت ابوطالب ،خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر حضرت حمزہ(جنہوں نے مشرکین کے سرغنہ ابوجہل کا سر پھوڑا تھا )اور بنی ہاشم کے دیگر صاحبان عزت وشرف افراد کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ ان سے اسلام کو عزت وتقویت ملی تو پھر حضرت عمر اسلام کی تقویت اور عزت کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟ جو خود ایک معمولی خادم(۱) کی حیثیت سے شام کے سفر میں ولید بن عقبہ کے ساتھ گئے تھے_(۲) وہ عمر جن کے قبیلے میں کوئی قابل ذکر بزرگ یا رئیس نہ تھا_(۳)

وہ عمر جنہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ گزرنے والی پوری زندگی میں شجاعت ومردانگی کی کوئی ایک مثال بھی قائم نہیں کی_ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرنے نہ ہی کوئی لڑائی لڑی، نہ کسی جنگ میں کوئی جرا ت مندانہ اقدام کیا، جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دور میں بہت سی جنگیں ہوئیں _

بلکہ اس کے برعکس ہم تو کئی جنگوں میں حضرت عمر کو میدان جنگ سے فرار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں_ مثال کے طور پر جنگ احد، جنگ حنین اور جنگ خیبر میں _جیساکہ سیرت نگاروں، تاریخ نویسوں اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذکر کیا ہے_ آئندہ اس کا تذکرہ ہوگا انشاء اللہ _

زمخشری نے یہاں ایک عجیب لطیفے کی بات نقل کی ہے اور وہ یہ کہ انس بن مدرکہ نے ایام جاہلیت میں قریش کے ایک گلے پر ڈاکہ ڈالا اور اس کو لے کر چلتا بنا _اپنی خلافت کے دوران حضرت عمرنے اس سے کہا :''ہم نے اس رات تمہارا تعاقب کیا تھا اگر ہمارے ہاتھ لگ جاتے تو تمہاری خیر نہیں تھی'' اس نے جواب دیا:''اس صورت میں آج آپ، لوگوں کے خلیفہ نہ ہوتے''_(۴)

جی ہاں اسلام کی سرافرازی اور تقویت حضرت عمر کے ذریعے کیسے ہوسکتی تھی؟ کیونکہ نہ توانہیں بذات خود کوئی حیثیت حاصل تھی، نہ ہی اپنے قبیلے کی وجہ سے کوئی عزت تھی اور نہ ہی وہ اتنے بہادر تھے کہ لوگ ان سے ڈرتے_

___________________

۱_ رجوع کریں: اقرب الموارد لفظ ''عسف''_اور''عسیف '' کا ایک اور معنی کرایہ کامزدور یا غنڈہ بھی ہے _

۲_ المنمق ( ابن حبیب) مطبوعہ ھند صفحہ ۱۴۷اور شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۲ص ۱۸۳_

۳_ المنمق ص ۱۴۷ _

۴_ ربیع الابرار ج ۱ص ۷۰۷ _

۱۳۲

ب: چاہے ہم اس بات کے قائل ہوں کہ حضرت عمر شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے واقعہ سے پہلے مسلمان ہوئے یا یہ کہیں کہ اس واقعہ کے بعد مسلمان ہوئے ، پھر بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حالات جوں کے توں رہے کیونکہ اگر ہم حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے اور اس کے بعد دعوت اسلام کے تدریجی سفرکو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے قبول اسلام کے بعد کوئی زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا_ ایک طرف سے مشرکین نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کو شعب ابوطالب میں محصور کردیا ، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرنے کے قریب ہوگئے _ان کے مرد درخت ببول کے پتے کھاتے تھے اور ان کے بچے بھوک سے بلبلا تے تھے_

ادھر مشرکین نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کی سازش کی اور وفات ابوطالب کے بعد جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر طائف سے لوٹے تو بہت مشکل سے شہر مکہ میں داخل ہوسکے_ ان سخت حالات میں عمر نے کہیں بھی کسی قسم کا حل پیش کرنے میں مدد نہیں کی _ان باتوں کے علاوہ ابولہب نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ستانے کیلئے مسلسل اذیتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا_

ج: امام بخاری نے صحیح بخاری اور دیگر کتب میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ جب عمر ڈرکے مارے گھرمیں محصور تھے، اس وقت عاص بن وائل ان کے پاس آیا اور اس نے پوچھا'' تمہاراکیا حال ہے؟'' وہ بولے :''تمہاری قوم کا کیا پتہ ہے اگر مسلمان ہوجاؤں تووہ مجھے قتل کردیں '' _وہ بولا :'' جب میں نے تجھے امان دے دی ہے تو وہ تجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے'' _حضرت عمر کہتے ہیں:''جب اس نے یہ کہا تو مجھے سکون حاصل ہوا اور میں ایمان لایا'' _ اس کے بعد اس نے ذکر کیا ہے کہ عاص نے کس طرح لوگوں کو حضرت عمر سے دور رکھا _ذہبی نے حضرت عمر کے اس قول ''مجھے اس کی قوت وجبروت سے حیرت ہوئی ...''کا بھی اضافہ کیا ہے _(۱)

___________________

۱_ رجوع کریں: صحیح بخاری ج ۵ص ۶۰_۶۱مطبوعہ مشکول (اس میں دو روایتیں مذکور ہیں) نیز تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۴، نسب قریش از مصعب زبیری ص ۴۰۹تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۲۶و السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۲، سیرت نبویہ (دحلان) ج ۱ص ۱۳۵، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۴،ر البدایة و النہایة ص ۸۲ اور دلائل النبوة (بیہقی) مطبوعہ دار النصر ج ۲ ص۹_

۱۳۳

پس جس شخص کو لوگ قتل کی دھمکی دیں اور وہ ڈرکے مارے گھرمیں دبک کر بیٹھ جائے وہ صاحب عزت وجبروت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام کو اس کے طفیل قوت وحیثیت حاصل ہوسکتی ہے_ البتہ اسلام کے صدقے خود انہیں عزت ومقام حاصل ہوا (جس کا آگے چل کر ذکر کریں گے) ان باتوں کے علاوہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ابوجہل نے حضرت عمر کوپناہ دی تھی(۱) بنابرایں مناسب یہ تھا کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شخص کے ذریعے دین کی تقویت و عزت کیلئے دعا کرتے جس نے عمر کو پناہ دی تھی اور جس کے جبروت سے لوگ حیرت زدہ تھے، گھر کے کونے میں چھپنے والے خوفزذہ حضرت عمر کے ذریعے نہیں_

د:عجیب بات تو یہ ہے کہ جن دو افراد کے حق میں اہلسنت کی روایات کے مطابق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے دعا کی ان میں سے ایک کا سر حضرت حمزہ نے اپنی کمان سے بڑی طرح پھوڑ دیا ، وہ بھی اس کے طرفداروں کے عین سامنے اور وہ بات کرنے کی بھی جرا ت نہ کرسکا _پھر وہ جنگ بدر میںہی ( جو مشرکین کے ساتھ پہلی جنگ تھی)، مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیااور دوسرا شخص بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے خلاف نکلا_یعنی خدانے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی دعا اس کے حق میں قبول نہیں فرمائی،کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے اسلام کی کوئی تقویت نہیں ہوئی_ جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ فرمایا کرتے تھے : ''میں نے اپنے رب سے کوئی دعا نہیں کی مگر یہ کہ خدانے اسے قبول کرلیا''(۲) لیکن یہاں توبات ہی برعکس ہے، کیونکہ عبدالرزاق کہتا ہے کہ جب حضرت عمرنے اپنے اسلام کو ظاہر کیا تو مشرکین سیخ پا ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت کوسخت اذیتیں دیں_(۳)

ھ: یہاں نعیم بن عبداللہ النحام عدوی اور عمر بن خطاب عدوی کے درمیان موازنہ فائدے سے خالی نہیں ہے_ نعیم حضرت عمر سے قبل مسلمان ہوا اور اپنے ایمان کو چھپاتا رہا_ اس کی قوم نے اسے ہجرت کرنے سے روکا کیونکہ بنی عدی کے یتیموں اور بیواؤں پر مال خرچ کرنے کی بنا پر اسے قوم کے درمیان عزت و شرف

___________________

۱_ تاریخ عمر(ابن جوزی) ص ۲۴ و ۲۵ اور ملاحظہ ہو: کشف الاستار ج۳ ص ۱۷۱ اور مجمع الزوائد ج۹ ص ۶۴ البتہ یہاں ذکر ہوا ہے کہ اس کے ماموں نے اسے پناہ دی تھی اور ابن اسحاق کہتاہے کہ یہاں ان کے ماموں سے مراد'' ابوجہل'' ہے _ لیکن ابن جوزی اس بات سے قانع نہیں ہوئے _ پس مراجعہ فرمائیں_

۲_ رجوع کریں: حالات زندگی حضرت علیعليه‌السلام از تاریخ عساکر با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۷۵_۲۷۶ (حاشیہ کے ساتھ) اور ۲۷۸، فرائد السمطین باب ۴۳حدیث ۱۷۲، کنز العمال ج ۱۵ص ۱۵۵طبع دوم از ابن جریر (جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے)، ابن ابی عاصم اور طبرانی در الاوسط نیز ابن شاھین در السنة اور ریاض النضرة ج ۲ص ۲۱۳_ ۳_ رجوع کریں المصنف (عبدالرزاق) ج۵ص۳۲۸_

۱۳۴

حاصل تھا چنانچہ انہوں نے کہا :''آپ ہمارے ہاں ہی ٹھہر یئےور جس دین کی چاہیں پیروی کرتے رہیں خدا کی قسم کوئی شخص بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر یہ کہ پہلے ہماری جانیں چلی جائیں''_(۱)

عروہ نے نعیم کے گھرانے کے بارے میں کہا ہے کہ بنی عدی کے کسی فردنے اس گھرانے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا(۲) یعنی اس کے مقام و منزلت کے پیش نظر انہوں نے کچھ نہیں کہا _ادھر حضرت عمر کو دیکھئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حدیبیہ میں انہیں مکہ بھیجنا چاہا تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے رؤسائے قریش کو ایک پیغام پہنچائے _یہ پیغام اس کام سے متعلق تھا جس کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے تھے _ لیکن عمرنے انکار کیا اور کہا:''میں قریش سے جانی خطرہ محسوس کرتا ہوں اور مکے میں بنی عدی کا کوئی فرد ایسا نہیں جو میری حمایت و حفاظت کرے''_ پھر اس نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عثمان بن عفان کو بھیجنے کیلئے اشارہ کیا_(۳)

و:ابن عمرنے نعیم النحام کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو نعیم نے اسے ٹھکرادیا اور کہا :''میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرا گوشت مٹی میں مل جائے'' پھر اس کی شادی نعمان بن عدی بن نضلہ سے کردی_(۴)

ز:دوران خلا فت شام کے دورے پر جاتے ہوئے جب حضرت عمر نے اپنے موزے اتار کر کاندھے پر رکھے اور اپنی اونٹنی کی مہار تھام کر پانی میں داخل ہوئے تو ابو عبیدہ نے اعتراض کیا_ حضرت عمرنے جواب دیا:'' ہم ذلیل ترین قوم کے افراد تھے لیکن خدانے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی پس جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے عزت طلب کریں گے تو خدابھی ہمیں ذلیل کردے گا''_(۵) حضرت عمر سے منقول ایک اور عبارت یوں ہے ''ہم وہ لوگ ہیں جنہیں خدانے اسلام کی برکت سے حیثیت بخشی ہے ، پس ہم کسی اور چیز کے ذریعے عزت و حیثیت طلب نہیں کریں گے''_(۶)

___________________

۱_ اسدالغابة ج ۲ص ۳۳نیز رجوع کریں: نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰_ ۲_ نسب قریش (مصعب) ص ۳۸۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج۴ ص ۱۶۷از ابن اسحاق، حیات صحابہ ج ۲ص_ ۳۹۷_۳۹۸از کنز العمال ج ۱ ص ۸۴، ۵۶ و ج ۵ص ۲۸۸از ابن ابی شیبہ، رویانی، ابن عساکر اور ابویعلی، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۴۶۱اور سنن البیہقی ج ۹ص ۲۲۱ _ ۴_ نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰ _

۵_ مستدرک حاکم: ج ۱ص ۶۱اور اس کی تلخیص (ذہبی) حاشیہ کے ساتھ جس نے بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق اسے صحیح قرار دیا ہے_

۶_ مستدرک حاکم ج ۱ص ۶۲ _

۱۳۵

ح:فتح مکہ کے موقع پرجب ابوسفیان جھنڈوں کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی نظر حضرت عمر پر پڑی جو ایک جماعت کے سا تھ تھے تو اس نے عباس سے پوچھا :'' اے ابوالفضل یہ متکلم کون ہے؟'' وہ بولے:'' عمر بن خطاب ہے''_ ابوسفیان نے کہا:'' خدا کی قسم بنی عدی کو ذلت وپستی اور قلت عدد کے بعد عزت وحیثیت ملی ہے''_عباس نے کہا :''اے ابوسفیان خدا جس کا مرتبہ بلندکرنا چاہے کرتا ہے، عمر کو خدا نے اسلام کی بدولت عزت بخشی ہے''_(۱)

۵_ حضرت عمر کا غسل جنابت

اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی بہن نے ان کو غسل کرنے کیلئے کہا تاکہ وہ نوشتہ قرآنی کو چھوسکیں حالانکہ قرآن کو چھونے کیلئے مشرک کا غسل عبث ہے ،کیونکہ ان میں اصل مانع شرک تھا نہ جنابت ،اسی لئے ان کی بہن نے کہا تھا کہ تم مشرک اور نجس ہو اور قرآن کو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں_(۲)

رہا غسل جنابت تو کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی غسل جنابت کیا کرتے تھے(۳) پھر حضرت عمر کی بہن نے ان سے یہ کیونکر کہا کہ تم غسل جنابت نہیں کرتے ہو_ ہاں اگر عام لوگوں کے برخلاف حضرت عمر کی عادت ہی غسل جنابت نہ کرنا تھی تویہ اور بات ہے _مشرکین کے غسل جنابت کرنے پر ایک دلیل یہ ہے کہ ابوسفیان نے جنگ بدر سے شکست کھاکر لوٹنے کے بعد قسم کھائی تھی کہ وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ کرنے سے قبل غسل جنابت نہیں کرے گا _واضح رہے کہ جنگ سویق ابوسفیان نے اپنی مذکورہ قسم کو نبھانے کیلئے لڑی تھی(۴) اس بات کا ہم آگے چل کر تذکرہ کریں گے

___________________

۱_ مغازی الواقدی ج ۲ص ۸۲۱اور کنز العمال ج ۵ص ۲۹۵از ابن عساکر اور واقدی_

۲_ الثقات ج ۱ص ۷۴نیز رجوع کریں مذکورہ روایت کے مآخذ کی جانب_

۳_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۲۹ از دمیری اور سہیلی، دمیری نے کہا ہے یہ ابراہیم و اسماعیل کے دین کی یادگار ہے نیز کہا ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کفار ایام جاہلیت میں غسل جنابت کرتے تھے اور اپنے مردوں کو بھی دھوتے تھے ان کو کفن بھی دیتے تھے نیز ان کیلئے دعا بھی کرتے تھے_

۴_ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۳۴۴، السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج ۲ ص ۵۴۰ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۱۰ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۲۱۱ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۳۹، السیرة النبویہ ( دحلان، سیرہ حلبیہ کے حاشیہ پر مطبوع) ج۲ ص ۵ بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲ اور تاریخ الامم والملوک ج ۲ ص۱۷۵_

۱۳۶

۶_ حضرت عمر کا قبول اسلام اور نزول آیت؟

کہتے ہیں کہ( یا یها النبی حسبک الله ومن اتبعک من المؤمنین ) والی آیت حضرت عمر کے قبول اسلام کی مناسبت سے اتری_ یعنی اس وقت جب اس نے تینتالیس افراد کے بعد قبول اسلام کیا(۱) لیکن اس قول کی مخالفت کلبی سے مروی اس روایت سے ہوتی ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر کے متعلق مدینہ میں نازل ہوئی(۲) واقدی سے منقول ہے کہ یہ آیت بنی قریظہ اور بنی نظیر کے بارے میں اتری ہے_(۳) یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہ سورہ انفال کی آیت ہے جو مکی نہیں، مدنی ہے زہری سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی(۴) _

اس کے علاوہ مذکورہ آیت سے قبل کی آیات جنگ وجہاد سے متعلق ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد کا حکم مدینے میں نازل ہوا تھا اسی لئے یہ آیت ان آیات کے ساتھ مکمل طور پر ہماہنگ ہے_ قارئین ان آیات میں غوروفکر فرمائیں_اس آیت کامدنی ہونا اس لحاظ سے بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدینے میں ہی اسلام کو قوت وشوکت اور مومنین کو عزت حاصل ہوئی_

آخری نکات

آخر میں ہم درج ذیل امور کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ:

۱) حضرت عمر کے قبول اسلام سے مربوط روایات کا مطالعہ کرنے والا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان مکمل تضاد موجود ہے_

___________________

۱_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از طبرانی ، ابو شیخ و ابن مردویہ نیز ملاحظہ ہوں وہ احادیث جنہیں بزار _ ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا گیا ہے _

۲_ مجمع البیان ج ۴ص ۵۵۷ _

۳_ شیخ طوسی کی کتاب التبیان ج ۵ص ۱۵۲ _

۴_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از ابن اسحاق و ابن ابی حاتم_

۱۳۷

۲) ان میں سے ایک روایت کے مطابق عمر کی نعیم النحام یا سعد سے ملاقات اور ان کے درمیان گفتگو ہوئی نعیم نے عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے سے آگاہ کیا اور اسے ان دونوں کے خلاف اکسایا_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سعد مسلمان تھا او رنعیم عمر سے پہلے پوشیدہ طور پر مسلمان ہوچکا تھا تو پھر وہ عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے خلاف کیونکر اکساتاہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ نعیم کو حضرت عمر سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا_ اسلئے اس نے مذکورہ فعل انجام دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس تو حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام جیسے پورے چالیس بہادر مرد موجود تھے اس کے باوجود بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے _ لیکن نعیم کو ان دونئے مسلمانوں کے بارے میں حضرت عمر کا خوف محسوس نہیں ہوا جبکہ ان کی مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ ان کے پاس کوئی موجود تھا_

۳) رہا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے عمر کے قبول اسلام کے بعداعلانیہ نماز پڑھی تو اس کے جواب میں ہم انہی لوگوں کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے علی الاعلان نماز پڑھنے والاابن مسعود تھا_ نیز ابن مسعود کے علاوہ دیگر حضرات کے بارے میں بھی اس قسم کی بات کرتے ہیں_

نتیجہ بحث

مذکورہ عرائض کی روشنی میں عرض ہے کہ جو شخص حضرت عمر کے قبول اسلام کی روایات کا مطالعہ کرے گا وہ بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ درحقیقت وہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے واقعے کی پردہ پوشی کی کوششیں ہیں ،وہ حمزہ جس کی وجہ سے اسلام کو حقیقی طور پر شان وشوکت نصیب ہوئی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو زبردست سروراور خوشی حاصل ہوئی _یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مذکورہ روایات میں حضرت عمر کا موازنہ حضرت حمزہ سے بار بار کرتے ہیں اور ان دونوں کو مساوی حیثیت دیتے ہیں بلکہ حضرت عمر کو ایک حدتک ترجیح بھی دیتے ہیں_

اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ امان کو رد کرنے کے بارے میں عثمان بن مظعون کی فضیلت حضرت عمر کے نام منتقل کرسکیں_ بلکہ ہم بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ شام کے اہل کتاب نے

۱۳۸

حضرت عمر کو خوشخبری دی تھی کہ اس نئے دین کی لگام مستقبل میں ان کے ہاتھ آجائے گی(۱) جس طرح انہوں نے بصری میں حضرت ابوبکر کو بھی اسی قسم کی خوشخبری سنائی(۲) _نیز خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو بھی خوشخبری دی تھی(۳) _ انہوں نے حضرت عمر کے اندر ان علامات کا مشاہدہ کیا تھا جن سے ان کے دعوی کی تقویت ہوتی تھی، جس طرح اس سے قبل حضرت ابوبکر میں ان کا مشاہدہ کیا تھاادھر حضرت عمر کا اسلام قبول کرنا تھا اور ادھر ان لوگوں کی پوری کوشش اس بات پر مبذول رہی کہ حضرت عمر کیلئے فضائل اور کرامات وضع کریں_فتبارک الله احسن الخالقین _

ابن عرفة نے کہا ہے:'' صحابہ کے اکثر فضائل بنی امیہ کے دور میں گھڑے گئے ہیں تاکہ بنی ہاشم کے مقام کو گھٹا سکیں''_چنانچہ معاویہ نے لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی شان میں احادیث وضع کرنے کا حکم دیا تھا ،جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا_یہاں ہم مذکورہ عرائض پر اکتفا کرتے ہیں اور حقیقت اور ہدایت کے متلاشیوں کیلئے اسے کافی سمجھتے ہیں_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو: الریاض النضرة ج ۲ ص ۳۱۹_

۲_ ملاحظہ ہو: السیرة الحلبیہ ج ۱ ص ۲۷۴ ، ۲۷۵ و ص ۱۸۶ اور الریاض النضرة ج۱ ص ۲۲۱_

۳_ ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں آغاز وحی کی روایات کے تحت عنوان اس واقعہ میں ورقہ بن نوفل کے کردار کی طرف بھی اشارہ کیا تھا اور اس کے سقم کو بھی ثابت کیا تھا _ پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

۱۳۹

چو تھی فصل

شعب ابوطالب میں

۱۴۰

( فلو لا نفر من کل فرقة طائفة لیتفقهوا فی الدین )

(۹:۱۲۲)

'' پس ان میں سے ہر گروہ سے کچھ لوگ نہیں نکلتے تاکہ وہ دین میں تفقہہ کریں؟،،

محض کسی چیز کے درک کرلینے کو ''اس چیز میں تفقہہ،، نہیں کہتے بلکہ گہری نظری اور بصیرت تفقہہ ہے۔

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقانا ) (۸:۲۹)

''اگر تم خدا سے ڈرتے ہو تو خدا تہارے دل میں ایک روشنی کو قرار دیتا ہے جس سے تم اچھے برے کی پہچان اور تمیز کرو۔،،

( والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا ) (۲۹:۶۹)

''جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں۔،،

خوارج نے قرآن کے اس طرز تعلیم کے بالکل برعکس جو چاہتا ہے کہ اسلامی فقہ ہمیشہ زندہ اور متحرک رہے، جمود اور ٹھہراؤکا آغاز کردیا۔ انہوں نے اسلامی معارف کو مردہ اور ساکن سمجھ لیا اور ظاہری شاکل اور صورت کو بھی اسلام کے متن میں گھسیڑ دیا۔

اسلام نے ہرگز شکل و صورت اور زندگی کے ظاہر پر توجہ نہیں دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی ساری توجہ روح و معنی اور اس راہ پر ہے جو انسان کو ان مقاصد اور معانی تک پہنچاتی ہے۔ اسلام نے مقاصد و معانی اور ان مقاصد تک پہنچنے کی راہ دکھانے کو اپنا دائرہ کار مقرر کر رکھا ہے اس کے علاوہ انسان کو آزاد چھوڑا ہے اور یوں تمدن ارو ثقافت کے پھیلاؤ سے کسی قسم کے تصادم سے پرہیز کرتا ہے۔

۱۴۱

اسلام نے کوئی مادّی ذریعہ یا کوئی ظاہری شکل نہیں پائی جس کو ''تقدّس،، کامقام حاصل ہو اور مسلمان اس شکل اور ظاہر کی حفاظت کو اپنا فرض جان لے۔ اس طرح علم اور تمدن کی توسیع کے مظاہرے کے ساتھ تصادم سے پرہیز ان اسباب میں سے ایک ہے جس نے اس دین کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ منطبق کرنا آسان بنا دیا ہے اور اس کی ابدی بقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ کو ختم کردیا ہے۔ یہ تعقّل ار تدیّن میں توازن ہی ہے جس نے ایک طرف اصول کو ثبات اور پائداری بخشی ہے اور دوسری جانب اس کو ظاہری اشکال سے الگ کردیا ہے۔ کلیات کو واضح کردیا ہے اور ان کلیات کے گونا گون مظاہر ہیں اور یہ مظاہر بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت (اصول) کو تبدیل نہیں کرتے۔

لیکن مظاہر اور مصادیق پر حقیقت کی تطبیق خود اتنا آسان کام نہیں کہ ہر شخص کا کام ہو بلکہ ایک گہرے ادراک اور صحیح سمجھ بوجھ کا محتاج ہے اور خوارج کی فکر میں جمود تھا اور جو کچھ سن لیتے اس سے ماوراء کسی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، اسی لیے امیر المؤمنین نے جس وقت ابن عباس کو ان سے بات چیت کے لیے بھیجا تو اس نے فرمایا: ''لا تخاصمھم بالقراٰن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون و لکن حاججھم بالسنۃ فانہم لن یجدوا عنھا محیصا،، ''ان کے ساتھ قرآن سے بحث نہ کرو۔ کیونکہ قرآن بہت سے احتمالات اور توجیہات کو قبول کرتا ہے جو تم کہو یا وہ کہیں۔ بلکہ سنت اور پیغمبر کے ارشادات کے ساتھ ان سے بحث کرو اور استدلال کرو کہ صریح ہے اور اس سے فرار کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔،، یعنی قران کلیات ہے، بحث کا مقام پر وہ ایک چیز کو مصداق بنا لیتے ہیں اور استدلال کرتے ہیں تم کسی اور چیز کو، اور یہ صورت حال بحث و مباحثہ کے مقام پر قطعاً نتیجہ خیز نہی ہے۔ وہ اس قدر سمجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ قرآن کی کسی حقیقت کو درک کرلیں اور اس کی اس کے صحیح مصداق کے ساتھ تطبیق کریں بلکہ ان کے ساتھ سنت کی بنیاد پر گفتگو کرو جو جزئی ہے او رمصداق کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہاں حضرت نے ان کی جمود فکری اور خشک مغری کی طرف اشارہ کیاہے دراں حالیکہ وہ دیندا رتھے جو تعقل اور تدّین میں فرق کی دلیل ہے۔

۱۴۲

خوارج صرف جہالت اور فکری جمود کی پیداوار تھے۔ وہ تجزیہ اور تحلیل کی قدرت نہیں رکھتے تھے اور کلی مصداق سے جدا نہیں کرسکتے تھے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر کسی خاش مقام پر حکمیت غلطی تھی تو پھر اس کی اساس ہی باطل اور غلط ہے حالانکہ یہ ممکن ہے کہ اس کی اساس محکم اور صحیح ہو لیکن کسی خاص مقام پر اس کا اجراء نارواء ہو لہٰذا تحکیم کی داستان میں ہم تین مرحلے دیکھتے ہیں:

۱ تاریخ شاہد ہے کہ علی علیہ سلام حکمیت پر راضی نہ تھے۔ معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی تجویز کو فریب او ردھوکہ سمجھتے تھے اور اس بات پر ان کو سخت اصرار تھا اور ڈٹے ہوئے تھے۔

۲ کہتے تھے کہ اگر شورای تحکیم کی تشکیل ناگزیر ہے توابو موسیٰ ایک بے تدبیر شخص ہے اور اس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا، ایک اہل آدمی کا انتخاب ہونا چاہیے اور خود ابن عباس یا مالک اشتر کو تجویز کرتے تھے۔

۳ حکمیت کا اصول بذاب خود صحیح ہے اور غلط نہیں ہے۔ یہاں بھی علی علیہ سلام کو اصرار تھا ''ابو العباس مبرد،، ''الکامل فی للغۃ و الادب،، ج ۲، ص ۱۳۴ میں کہتا ہے! علی علیہ سلام نے ذاتی طور پر خوارج کے ساتھ مباحثہ کیا اور ان سے کہا: تم خدا کی قسم کھا کر بتاؤ! کیا تم میں سے کوئی بھی میری طرح تحکیم کا مخالف تھا؟ وہ بولے: خدایا! تو گواہ ہے کہ نہ تھا۔ فرمایا: کیا تم نے مجھے مجبور نہ کیا کہ میں قبول کروں؟ بولے، خدایا! توگواہ ہے کہ ایسا ہی تھا۔ فرمایا: پس تم کیوں میری مخالفت کرتے ہو اور مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے؟ بولے: ہم ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہمیں تونہ کرنی چاہیے، ہم نے توبہ کرلی ہے۔ تم بھی توبہ کرلو۔ فرمایا: ''استغفر اللہ من کل ذنب، وہ بھی جو تقریبا چھ ہزار لوگ تھے لوٹ آئے اور کہنے لگے علی علیہ سلام نے توبہ کرلی ہے اب ہم منتظر ہیں کہ وہ حکم دیں اور ہم شام کی طرف کوچ کریں۔ اشعث ابن قیس ان کی خدمت میں آیا اور کہا: کہ لوگ کہتے ہیں آپ تحکیم کو گمراہی سمجھتے اور اس پر قائم رہنے کو کفر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے منبر پر گئے، خطبہ پڑھا اور فرمایا: جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ میں تحکیم سے پھر گیا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے اور جو شخص اس کو گمراہی سمجھتا ہے وہ خو دگمراہ تر ہے۔ خوارج بھی مسجد سے باہر نکل آئے اور دوبارہ علی علیہ سلام کے خلاف شورش کی۔،،

۱۴۳

حضرت فرماتے ہیں کہ یہ مقام اشتباہ تھا۔ اس لیے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی حیلہ کرنا چاہتے تھے اور چونکہ ابوموسیٰ نالائق آدمی تھا اور میں خود بھی شروع سے کہتا تھا۔ لیکن تم نے قبول نہ کیا لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تحکیم کی اساس ہی باطل ہو۔

ایک طرف لوگ حکومت قرآن اور حکومت افراد میں فرق نہیں کرتے تھے۔ حکومت قرآن کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں قرآن کا جو بھی حکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور حکومت افراد کے قبول کرنے کامطلب یہ ہے کہ ان کے ذاتی نظریات اور آراء کی پیروی کی جائے اور قرآن جو خود بات نہیں کرتا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے حقائق کو غور و فکر کے ساتھ حاصل کیا جائے اور ایسا کرنا بھی افراد کے بغیر ممکن نہیں۔ حضرت خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

انا لم نحکم الرجال و انما حکمنا القراٰن و هٰذا القراٰن انما هو خط مسطور بین الدفتین لا ینتطق بلسان ولا بدله من ترجمان، و انما ینطق عنه الرجال و لما دعانا القوم الی ان نحکم بیننا القرآن لم نکن الفریق المتولی عن کتاب الله، وقد قال سبحانه ''فان تنازعتم فی شیء فردوه الی الله و الرسول،، فرده الی الله ان نحکم بکتابه، ورده الی الرسول ان نأحذ بسنته، فاذا حکم بالصق فی کتاب الله فنحن احق الناس به، و ان حکم بسنته رسول الله فنحن اولاهم به ۔ (نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۲۵)

''ہم نے لوگوں کو حاکم قرار نہیں دیا ہے بلکہ قرآن کو حاکم قرار دیا ہے اور یہ قرآن جلد کے درمیان تحریریں ہیں، یہ زبان سے بات نہیں کرتا اور بیان کرنےوالے کا محتاج ہے لوگ ہیں جو اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور چونکہ اہل شام نے یہ چاہا کہ ہم قرآن کو حاکم قرار دیں، ہم ایسے لوگ نہ تھے جو قرآن سے روگردانی کرتے جبکہ خدا خود قرآن میں فرماتا ہے:

''اگر تم کسی چیز کے بارے میں کوئی نزاع رکھتے ہو تو اس کو خدا اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو،،

۱۴۴

خدا کی طرف رجوع کرنے کامطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کو حاکم قرار دیں اور اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں اور پیغمبر کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سنت کی پیروی کریں اور اگر خدا کی کتاب کے مطابق صحیح فیصلہ کیا جائے تو ہم اس کے سب سے زیادہ سزاوار ہیں اور اگر اس کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ ہو تو ہم اس کے لیے اولیٰ ہیں۔،،

یہاں ایک اشکال ہے کہ شیعہ اعتقاد اور امیر المؤمنین (نہج البلاغہ خطبہ ۲ آخری حصہ) کے مطابق اسلام میں حکومت اور امامت ''انتصابی،، اور مطابق ''نصّ،، ہے پس حضرت نے کیونکر حکمیّت کو تسلیم کرلیا اور بعد میں بھی اس کا سختی سے دفاع کیا؟

اس اشکال کا جواب ہم امام کے کلام کے ذیل میں ہی بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ جیسا کہ فرماتے ہیں اگر قرآن میں صحیح تدبر کیا جائے اور اس کے مطابق صحیح فیصلہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ ان کی امامت اور خلافت کے علاوہ دوسرا ہو ہی نہیں سکتا اور یہی حال سنت پیغمبر کا بھی ہے۔

۱۴۵

اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے پر اثر:

خوارج کے حالات کا مطالعہ ہمارے لیے اس نقطہئ نظر سے قیمتی ہے کہ ہم سمجھ لیںکہ انہوں نے سیاسی لحاظ سے ،عقیدہ و سلیقہ کے لحاظ سے اور فقہ و احکام کے لحاظ سے اسلامی تاریخ پر کیا اثر چھوڑا ہے۔

مختلف فرقے اور گروہ ہر چند رسوم کے چوکھٹے میں ایک دوسرے سے دور ہیں لیکن کبھی ایک مذہب کی روح دوسرے مذہب میں حلول کرجاتی ہے اور وہ مذہب درحالیکہ دوسرے کا مخالف ہے، اس کی روح اور معنی کو قبول کرتا ہے آدمی کی طبیعت (معنی و مفہوم) چراتی ہے کبھی ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو مثلا سنی ہیں لیکن روح اور معنی کے اعتبار سے شیعہ ہیں اور کبھی اس کے برعکس کبھی کوئی شخص طبیعتاً شریعت اور اس کے ظاہر کا پابند ہوتا ہے لیکن روح کے اعتبار سے صوفی ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس۔ اسی طرح بعض لوگ بظاہر اور رسوم کے اعتبار سے ممکن ہے شیعہ ہوں لیکن روحاً اور عملاً وہ خارجی ہوں۔ یہ بات افراد پر بھی صادق آتی ہے اور امتوں اور ملتوں پر بھی۔

جب مختلف فرقے ایک ہی معاشرے میں رہتے ہوں ہر چند ان کے رسوم محفوظ ہوں، لیکن ان کے عقائد اور طریقے ایک دوسرے میں سرایت کرجاتے ہیں۔ مثلاً ۔۔۔ طبل وترم بجائے کی رسمیں قفقاز کے راسخ العقیدہ لوگوں کے توسط سے ایران میں سرایت کرگئیں اور چونکہ لوگوں کے جذبات ان کو قبول کرنے کے لےےے آمادگی رکھتے تھے، اس لیے بجلی کی طرح ہر جگہ پھیل گئیں۔

اس بناء پر مختلف فرقوں کی روح پر غور کرنا چاہیے۔ کبھی کوئی فرقہ حسن ظن اور ''ضع فعل اخیک علی احسنہ،، کی پیداوار ہوتا ہے ۔ مثلاً سنی جو شخصیتوں کے ساتھ حسن ظن کی پیداواری ہیں اور ایک فرقہ ایسا ہے جو ایک خاص نقطہء نظر اور افراد شخصیات کی بجائے اصول اسلامی کو اہمیت دینے کے نظریئے کو پیداوار ہے۔ ایسے لوگ قہراً تنقیدی نظر کے حامل ہوں گے جیسے صدر اول کے شیعہ۔ ایک فرقہ باطن، روح اور باطن کی تاویل کو اہمیت دینے کے نقطہء نظر کی پیداوار ہوگا جیسے صوفیاء اور ایک فرقہ تعصب اور جمود کی پیداوار جیسے خوارج۔

۱۴۶

جب ہم فرقوں کی روح اور ان کے ابتدائی تاریخی عوامل کو پہچان لیں تو بہتر طور پر فیصلہ کرسکیں گے کہ بد کی صدیوں میں کون سے عقائد ایک فرقے سے دوسرے فرقے تک پہنچے اور اپنے رسوم اور ناموں کے چوکھٹے میں ہونے کے وصف، ان کی روح کو قبول کرلیا ہے۔ اس اعتبار سے عقائد اور افکار زبانوں (نعتوں) کی مانند ہیں کہ بغیر کسی شعوری کوشش کے ایک قوم کی زبان کے الفاظ دوسری قوم کی زبان میں سرایت کرجاتے ہیں جیساکہ ایران کی فتح کے بعد مسلمانوں کے ذریعے عربی زبان کی الفاظ فارسی زبان میں وارد ہوگئے۔ اسی طرح عربی اور فارسی زبانوں میں ترکی زبان کی تاثیر ہے۔ مثلاً متوکل کے دور کی ترکی اور سلجوقیوں اور مغلوں کے دور کی ترکی اور یہی حال دنیا کی ساری زبانوں کا ہے ار اسی طرح ذوق اور سلیقے بھی ہیں۔

خوارج کے طرز تفکر اور ان کے افکار کی روح ___ فکری جود اور تعقل کو تدین سے علیحدہ کرنا ___ نے تاریخ کے دھارے میں مختلف صورتوں سے اسلامی معاشرے کے اندر رخنہ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ تمام اسلامی فرقے ان کو اپنا مخالف سمجھتے پیں لیکن خارجیت کی روح کو پم ان کے طرز فکر میں (کار فرما) دیکھتے ہیں اور یہ اس کے نتیجے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو ہم نے کہا ہے کہ آدمی کی طبیعت (معنی اور مفہوم کو) چراتی ہے اور باہمی میل جول نے چرانے کے اس عمل کو آسان کردیا ہے۔

کچھ خارجی مسلک رکھنے والے ہر دور میں رہے ہیں اور ہیں، جن کا وطیرہ ہر نئی چیز کا مقابلہ کرنا ہے حتی کہ وسائل زندگی کو جن کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ اسلام میں کسی مادی وسیلہ یا ظاہری شکل کو کوئی تقدس کا مقام حاصل نہیں ہے، وہ ان کو تقدس کا رنگ دیتے ہیں اور ہر نئے وسیلے سے استفادہ کرنے کو کفر اور زندقہ سمجھتے ہیں۔

اسلام کے اعتقادی، علمی اور اسی طرح فقہی مکابت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے مکاتب ہیں جو تعقل اور تدین میں علیحدگی کی روح کی پیداوار ہیں اور ان کا مکتب جارجیت کی فکر کا صحیح معنوں میں جلوہ گاہ ہے۔ کسی حقیقت کے کشف کی راہ میں یا کسی فرعی قانون کے استخراج کی راہ میں انہوں نے عقل کو مکمل طور پر مسترد کررکھا ہے اور اس کی پیروی کو بدعت اور بے دینی کہتے ہیں حالانکہ قرآن نے بہت سی آیات میں انسان کوعقل کی طرف بلایا اور انسانی بصیرت کو دعوت الہی کا نگہبان قرار دیا ہے۔

۱۴۷

معتزلہ جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں وجود میں آئے تھے ___اور ان کی پیدائش کفر و ایمان کے معنی اور تفسیر کے اوپر بحث اور کاوش کے نتیجے میں ہوئی کہ آیا گناہ کبیرہ کا ارتکاب موجب کفر ہے یا نہیں اور یوں قہراً ان کی پیدائش خوارج کے ساتھ مربوط ہے ___ ایسے لوگ تھے جو کسی قدر آزاد فکر کرنا چاہتے تھے اور ایک عقلی زندگی کو وجود میں لانا چاہتے تھے، اگر چہ وہ علم کے مبادی اور مبانی سے بے بہرہ تھے تاہم اسلامی مسائل کو کسی حد تک آزادانہ غور و فکر اور تدبر کا موضوع قرار دیتے تھے، احادیث پر کسی حد تک تنقید کرتے تھے صرف ان آراء اور نظریات کی پیروی کرتے تھے جن پر ان کے اپنے عقیدے کے مطابق تحقیق کی گئی ہو یا اجتہاد کیا گیا ہو۔

یہ لوگ شروع سے ہی اہل حدیث اور ظاہر پرستوں کی مخالفت اور مقاومت سے دوچار تھے۔ وہ لوگ جو صرف حدیث کے ظواہر کوحجت جانتے تھے اور قرآن اور حدیث کی روح سے کوئی کام نہ رکھتے تھے، وہ عقل کے صریح حکم کی قدر و قیمت کے قائل نہ تھے۔ جس قدر معتزلہ فکر و اندیشہ کی قیمت کے قائل تھے یہ صرف ظواہر کی اہمیت کے اتنے ہی قائل تھے۔

اپنی ڈیڑھ سو سالہ زندگی میں معتزلہ کو عجیب قیاسات ( NOTIONS ) سے واسطہ پڑا یہاں تک کہ بالآخر اشعری مذہب وجود میں آیا اور تفکر اور اندیشہ ہائے عقلی اور فلسفیانہ طرز فکر کے سرے سے منکر ہوگئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جو روایات ان تک پہنچی ہیں ان کی ظاہری تعبیر پر آنکھیں بند کر کے عمل کریں اور معنی کی گہرائی میں تدبر اور تفکر نہ کریں ہر قسم کا سوال و جواب اور چون و چرا بدعت ہے۔ امام احمد بن حنبل جو اہلسنت کے ائمہ اربعہ میں سے ہےں معتزلہ کے طرز فکر کی سخت مخالفت کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان کو قید میں ڈال دیا گیا اور کوڑوں کی سزا دی گئی لیکن وہ اپنی مخالفت پر قائم رہے۔ بالآخر اشعری کامیاب ہوگئے اور انہوں نے عقلی طرز فکر کی بساط لپیٹ دی اوران کی کامیابی سے عالم اسلام کی عقلی زندگی پر کاری ضربلگائی۔ اشاعرہ، معتزلہ کو اصحاب بدعت سمجھتے تھے ایک اشعری شاعر اپنے مذہب کی کامیابی کے بعد کہتا ہے:

۱۴۸

ذهبت دولة اصحاب البدع

و وهی حبلهم ثم انقطع

و تداعی بانصراف جمعهم

حزب الا بلیس الذی کان جمع

هل لهم یا قومفی بدعتهم

من فقیه او امام یتبع

(المتزلہ تالیف زہدی جاء اللہ ص ۱۸۵)

''صاحبان بدعت کی قددت کا زمانہ ختم ہوگیا۔ ان کی رسی ڈھیلی پڑگئی پھر ٹوٹ گئی۔ اور وہ گروہ جس کو شیطان نے اکٹھا کردیا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ گروہ کو منتشر کردیں۔ اے ہم مسلکو! کیا اپنی بدعتوں میں ان کا کوئی قابل تقلید فقیہ یا امام تھا؟،،

''اخباریوں،، کا مکتب بھی جو ایک شیعہ مکتب فقہ ہے اور گیارہو ںاور بارہوں صدی ہجری میں عروج پر تھا۔ اہلسنت کے فرقوں ظاہریوں اور اہل حدیث کے بہت قریب ہے۔ فقہی نقطہ ء نظر سے ہر دو مکتب ایک ہیں اور ان کا واحد اختلاف احادیث کی پیروی کے بارے میں ہے ۔۔۔ یہ بھی تعقل اور تدین میں فرق کی ایک قسم ہے۔

اخباریوں نے عقل کو مکمل طور پر معطل کر رکھا ہے اور متون سے اسلامی احکام کے استخراج کے سلسلے میں عقل کی قمیت اور حجیت سے مکمل انکار کرتے ہیں اور اس کی پیروی کو حرام سمجھتے ہیں اور اپنی تالیفات میں اصولیئین ۔۔۔ ایک اور شیعہ مکتب فقہ کے حامی ۔۔۔ پر سخت برہم ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف کتاب و سنت حجت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حجیت کتاب بھی تفسیر سنت و حدیث کی راہ سے ہے اور حقیقت میں قرآن کو بھی انہوں نے حجیت سے گرادیا ہے اور صرف حدیث کے ظاہر کو پیروی کے قابل سمجھتے ہیں۔

۱۴۹

اس وقت ہم اسلام میں مختلف طرز فکر کاجائزہ لینے اور ان مکاتب کے پیروکاوں پر بحث کرنے کے متحمل نہیں ہیں جو دین کو عقل سے جدا کرتے ہیں جو خارجیت کی روح ہے۔ اس بحث کا دامن بہت وسیع ہے لیکن ہمارا مقصد صرف یہ اشارہ کرنا تھا کہ مختلف فرقوں کا ایک دوسرے پر کتنا اثر ہے اور ی ہکہ اگر چہ خارجیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی لیکن اس کی روح ہر اسلامی دور اور ہر صدر میں جلوہ گر رہی ہے۔ آج بھی دنیائے اسلام کے چند روشن فکر اور اہل قلم ان کے طرز فکر کو جدید اور عصری زبان میں لے آتے اور اس کوایک قابل توجہ فلسفے کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست

''قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست،، تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں کم و بیش رائج ہے۔ خاص طور پر جب مقدس مآب اور ظاہر پرست لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جائے، زہد و تقویٰ کی ظاہر داری کا بازار گرم ہو، موقعہ پرست لوگ قرآن نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیات رائج کردیتے ہیں۔ یہاں سے جو سبق حاصل کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے۔

الف:۔ پہلا سبق یہ ہے کہ جب بھی جاہل، نادان اور بے خبر لوگ پاکیزگی اور تقویٰ کے مظہر سمجھے جانے لگیں اور لوگ ان کو باعمل مسلمان کا نمونہ ( SYMBOL ) سمجھِنے لگیں اس وقت چالاک مفاد پرستوں کو اچھا موقعہ ہاتھ آجاتا ہے ۔ یہ چالاک لوگ ان کو اپنے مقاصد کے لیے آلہئ کار بنا لیتے ہیں اور ان کو حقیقی مصلحین کے افکار کی راہ میں مضبوط رکاوٹ بنالیتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسلام دشمن عناصر باقاعدہ اس ذریعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی اسلام کی طاقت کو انہو ںنے خ ود اسلام کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مغربی استعمار کو اس ذریعے سے فائدہ اٹھانے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اپنے مفاد کے لیے یہ مسلمانوں کے درمیان جھوٹے جذبات ابھارنا اور خاص طور پر فرقے پیدا کرکے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کس قد شرم کی بات ہے کہ ایک دل جلا مسلمان بیرونی اثر و نفوذ کو ختم کرنے کے لیے اٹھے اور جن لوگوں کو وہ نجات دینا چاہتا ہے ،وہی دین اور مذہب کے نام پر اس کے لےے سد راہ بن جائیں جی ہاں! اگر لوگ عام لوگ جاہل اور بے خبر ہوں، تو منافق خود اسلام کے مورچے سے اپنے لیے استفادہ کریں گے۔

۱۵۰

ہمارے اپنے ایران میں جہاں لوگ اہلبیت اطہار کی ولایت اور دوستی پر فخر کرتے ہیں، کچھ منافق اہلبیت کے مقدس نام پر اور ''ولاء اہلبیت،، کے مقدس مورچے کے نام پر قرآن، اسلام اور اہل بیت کے خلاف اور غاصب یہودیوں کے مفاد میں مورچے تعمیر کرتے ہیں (یہ قبل از انقلاب اسلامی کی صورت حال کی طر ف اشارہ ہے۔ مترجم) اور یہ اسلام، قرآن، پیغمبر اکرم اور اہلبیت کرام پر سب سے زیادہ گھناؤنا ظلم ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

انی ما اخاف علی امتی الفقر و لکن اخاف علیهم سوء التدبیر ___ '' میں اپنی امت کے لیے فقر و تنگدستی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں بلکہ امت کی جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ کچج فکری ہے۔ فکر کا افلاس میری امت کے لیے جتنا خطرناک ہے اقتصادی افلاس اتنا خطرناک نہیں ہے۔،،

ب:۔دوسرا سبق یہ ہے کہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح ہو۔ قرآن اسی صورت میں رہنما اور ہادی ہے کہ اس پر صحیح غور و فکر کیا جائے، اس کی عالمانہ تفسیر کی جائے اور اہل قران جو علم میں قرآن کے راسخین ہیں، کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جب تک قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح نہ ہو اور جب تک ہم قرآن سے استفادہ کرنے کی راہ اور اس کا اصول نہ سیکھیں ہم اس سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ مفاد پرست یا نادان لوگ کبھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور بائل مطلب کے پیچھے چلتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ کی زبان سے سنا کہ وہ حق بات کہتے ہیں اور اس سے باطل مراد لیتے ہیں یہ قرآن پر عمل کرنا اور اس کا احیاء نہیں ہے۔ بلکہ یہ قرآن کو مار ڈالنا ہے۔ قرآن پر عمل تب ہے جب اس سے صحیح مطلب درک کیا جائے۔

۱۵۱

قرآن ہمیشہ مسائل کو اصول اور کلیہ کی صورت میں پیش کرتا ہے لیکن کلی جزئی پر تطبیق صحیح فہم اور ادراک کے اوپر منحصر ہے۔ مثلاً قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلان روز علی علیہ سلام اور معاویہ کے درمیان جنگ ہوگی اور یہ کہ حق علی علیہ سلام کے ساتھ ہے، قرآن میں صرف اس قدر آیا ہے کہ :

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فان بغت احدٰهما علیٰ الاخرٰی فقاتلوا التی تبغی حتی تفیئی الی امر الله )

(سورہ حجرات آیت نمبر ۹)

''اگر مؤمنون کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو ان کے درمیان صلح کرادو اور اگر ان میں سے ایک دوسرے پر سرکشی اور ظلم کرے تو جو ظالم ہے اس کے ساتھ جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔،،

یہ قرآن اور اس کا طرز بیان ہے لیکن قرآن نہیں کہتا کہ فلاں جنگ میں فلاں حق پر ہے اوردوسرا باطل پر؟! قرآن ایک ایک کا نام نہیں لیتا۔ وہ نہیں کہتا کہ چالیس سال بعد یا اس کے بعد معاویہ نام کا ایک آدمی پیدا ہوگا اور علی علیہ سلام کے ساتھ جنگ کرے گا تم علی علیہ سلام کی طرف سے جنگ کرو اورجزئیات پر بحث ہونی بھی نہیں چاہےے قرآن کے ہیے ضروری نہیں ہے کہ موضوعات کو گن کر حق اور باطل پر انگلی رکھ کے بتادے ایسا ممکن نہیں ہے۔ قرآن ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے پس اسے چاہیے کہ اصول اور کلیات کو واضح کرے تاکہ جب بھی کسی زمانے میں کوئی باطل حق کے بالمقابل کھڑا ہوتو لوگ ان کلیات کو معیار بنا کر عمل کریں۔یہ لوگوں کا اپنا وظیفہ ہے کہ اصل دکھا دینے (وان طائفتان من المؤمنین اقتلوا ۔۔۔ الخ) کے بعد اپنی آنکھین کھلی رکھیں اور سرکش اور غیر سرکش گروہ میں تمیم کریں اور اگر سرکش گروہ صحیح معنوں میں سرکشی سے ہاتھ اٹھالے تو قبول کریں اور اگر ہاتھ نہ اٹھالے اور حیلہ کرے اور صرف اس لیے کہ اپنے آپ کو شکست سے بچائے تاکہ نیا حملہ کرنے کا موقعہ پالے اور پھر سرکشی کرنے کے لیے اس آیت کا جس میں خدا فرماتا ہے:

۱۵۲

( فان فاء ت فاصلحوا بینهما )

دامن تھام لے، تو اس کے حیلہ کو قبول نہ کریں۔

ان تمام چیزوں کی تشخیص کرنا خود لوگوں کا کام ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان عقلی اور اجتماعی طور پر بالغ ہوں اور اسی عقلی بلوغت کے ساتھ مرد حق اور غیر مرد حق میں تمیز کریں۔ قرآن اس لیے نہیں آیا ہے کہ ہر وقت لوگوں کے ساتھ اس طرح رویہ رکھے جس طرح نابالغ بچے کے ساتھ اس کا ولی عمل کرتا ہے، زندگی کی جزئیات کو کسی کے سرپرست کی حیثیت سے انجام دے اور ہر خاص موضوع کی علامت اور محسوس اشاروں سے تعین کرے۔

بنیادی طور پر اشخاص کی پہچان، ان کی صلاحیتوں، اہلیتوں اور اسلام اور اسلام کے حقائق کے ساتھ ان کی وابستگی کو پرکھنا بذات خود ایک فریضہ ہے اور غالباً ہم اس اہم فریضے سے غافل ہیں۔ علی علیہ السّلام فرماتے تھے:

''انکم لن تعرفوا الرشد حتی تعرفو الذی ترکه،،

(نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷)

''تم ہرگز حق کو نہیں پہچان سکتے اور راہ راست پر نہیں پہنچ سکتے جب تک اس شخص کو نہ پہچانو جس نے راہ راست کو چھوڑ دیا ہے۔،،

یعنی صرف اصول اور کلیات کی شناخت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک مصداق اور جزئیات سے ان کی تطبیق نہ ہو کیونکہ ممکن ہے افراد یا اشخاص کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے یا موضوع کو نہ پہچاننے کی وجہ سے تم اسلام، حق اور اسلام کے رسوم کے نام پر اسلام اور حقیقت کے خلاف اور باطل کے مفاد میں کام کر رہے ہو۔

قرآن میں ظلم، ظالم، عدل اور حق کا ذکر آیا ہے لیکن دیکھناچاہیے کہ ان کے مصداق کون ہےں؟ کہیں ہم کسی ظلم کو حق، اور کسی حق کو ظلم نہ سمجھ رہے رہوں؟ اور پھر انہی کلیات کے تحت اور اپنے خیال میں قرآن کے حکم پر عدالت اور حق کو ختم نہ کر رہے ہوں؟

۱۵۳

نفاق کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت:

تمام جنگوں میں سب سے مشکل نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ یہ اسیے شاطروں کے ساتھ جنگ ہے جو بیوقوفوں کو آلہء کار قرار دیتے ہیں۔ یہ جنگ کفر کے ساتھ جنگ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ کفر کے ساتھ جنگ میں مقابلہ ایک واضح، ظاہر اور بے پردہ معاملے سے ہے لیکن نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ایک پوشیدہ کفر کے ساتھ جنگ ہے۔ نفاق کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک ظاہری چہرہ جو اسلام اور مسلمانی کا ہے اور ایک چہرہ باطن کا جو کفر اور شیطنت ہے اور اس کا پچاننا عام لوگوں اور معمولی افراد کے لےے بہت دشوار ہے اور بسا اوقات ناممکن ہے۔ اس طرح نفاس کے ساتھ جنگ کرنا غالباً شکست کھان کیونکہ عام لوگوں کے ادراک کی لہریں ظاہر کی سرحد سے آگے نہیں بڑھتیں اور پوشیدہ چیزوں کو روشن نہیں کرتیں اور اتنی گہری نہیں ہوتی کہ باطن کی گہرائیوں میں اتر جائیں۔ امیر المومنین اس خط میں محمد ابن ابی بکر کولکھا گیا، فرماتے ہیں:

''ولقد قال لی رسول الله! انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکاء اما المؤمن فیمنعه الله باایمانه و اما المشرک فیقمعه الل ه بشرکه و لکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان عالم اللسان، یقول ما تعرفون و یفعل

۱۵۴

ماتنکرون ۔،،(۱)

''پیغمبر نے مجھ سے کہا میں اپنی امت پر مومن اور مشرک سے نہیں ڈرتا کیونکہ مؤمن کو خدا اس کے ایمان کی وجہ سے باز رکھتا ہے اور مشرک کو اس کی سرکشی کی وجہ سے رسوا کرتا ہے لیکن تمہارے اوپر منافق دل اور دانا زبان سے ڈرتاہوں کیونکہ وہ وہی کہتا ہے جو تم پسند کرتے ہو اور جسے تم ناپسند کرتے ہو اسے کرگزرتا ہے۔،،اس مقام پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نفاق اور منفاق کی طرف خطرے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ امت کے عام لوگ بے خبر اور ناآگاہ ہیں اور ظاہر داریوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔(۲)

____________________

۱) نہج البلاغہ نامہ ۲۷---- (۲) اسی لیے ہم اسلامی تاریخ کے دھارے میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی مصلح نے لوگوں، ان کی اجتماعی و دینی زبوں حالی کی اصلاح کی خاطر قیام کیا ہے اور مفاد پرستوں اور ظالموں کا مفاد خطرے میں پڑا ہے انہوں نے فوری طور پر تقدس کا لبادہ پہن لیا ہے اور تقویٰ اور دین کی ظاہر داری سے کام لیا ہے ۔ عباسی خلیفہ، مامون الرشید جس کی عیاشیاں اور فضول خرچیاں حکمرانوں کی تاریخ میں مشہور و معروف ہیں جب وہ علویوں کو دیکھتا ہے کہ انقلاب کی کوشش کر رہے ہیں فوراً شاہی جبہ اتار پھینکتا اور پیوند لگے ہوئے کپڑے پہن کر اجتماعات میں آنکتا ہے۔ ابو حنیفہ اس کا فی جس نے اس کے درہم و دینار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ہے مامون کے اس کام کو سراہتا ہے اور تعریف میں کہتا ہے:

مامون کز ملوک دولت اسلام ---ہگز چون اوند ید تازی ودہقان

مامون کہ اسلامی ممالک کے بادشاہوں میں اس کی طرح کوئی نہیں دیکھا گیا، بد اور دہقان کی طرح سادہ

جبہ ای از حزبداشت برتن و چندان ---سودہ و فرسودہ گشت بروی و خلقان

کسی وت اس کا ریشمی جبہ تھا جو اس کے دوش پر ہوتا تھا اور بہت نرم ونازک تھا مگر اب وہ پرانا ہوگیا اور پھٹ چکا ہے

مرند مارا از آن فزود تعجب ---کردند از وی سوال از سبب آن

ہم نشینوں کو اس پر سخت تعجب ہوا انہو ںنے سوال کیا کہ اس کا سبب کیا ہے

گفت ز شاہان حدیث ماند باقی ---در عرب و در عجم نہ توزی و کنان

اس نے کہا: بادشاہوں کی ایک بات باقی رہنے دو عرب و عجم میں کہ اس کے پاس کوئی سلاہوا سن کا کپڑا نہ تھا

۱۵۵

اور دوسروں میں بھی ہر ایک نے ''قرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کی،، تخریبی گھسی ٹی سیاست کا سہارا لیا اور (مصلحین کی) تمام زحمتوں اور قربانیوں کی سرکوبی کی اور انقلابات کو ابتداء ہی میں کچل دیا اور یہ لوگوں کی جہالت اور نادانی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ رسوم اور حقائق کے درمیان تمیز نہیں کرتے اور اس طرح اپنے اوپر انقلاب اور اصلاح کی راہ بند کرتے ہیں ارو اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب تمام اسباب بے اثر ہوجائیں اور پھر نئے سرے سے سفر شروع کریں۔

یاد رکھنا چاہیے جتنے احمق لوگ زیادہ ہوں گے نفاق کا بازار تانا ہی گرم ہوگا۔

احمق اور حماقت سے جنگ کرنا نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ احمق منافق کا آلہئ کار ہوتا ہے لہذالازمی طورپر احمق اور حماقت کے ساتھ جنگ کرنا، منافق سے اسلحہ چھین لینے اور منافق کے ہاتھ سے تلوار چھین لینے کے مترادف ہے۔

علی علیہ سلام کی سیرت سے جو عظیم نکتے ہمیں ملتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح کی جنگ کسی خاص جمعیت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جہاں بھی کچھ مسلمان اور وہ جو وضع دینی رکھتے ہیں اور غیروں کی ترقی اور استعماری مقاصد کو آگے بڑھانے میں آلہئ کار قرار پائیں اور استعمار گر اپنے مفادات کو بچانے کے لیے ان کو آگے کرکے ان کو اپنے لیے ڈھال بنائیں اور ان کے ساتھ جنگ کرنا ان ڈھال بننے والوں کو ختم کیا جائے تاکہ راہ کی رکاوٹ ختم ہو جائے اور دشمن کے قلب پر حملہ کیا جاسکے خوارج کو بگاڑنے کےلئے معاویہ کی کوشش شاید کامیاب تھیں اسی لیے اس روز بھی معاویہ اور اسی قبیل کے کچھ لوگ جیسے اشعث ابن قیس وغیرہ تخریب کار عناصر نے خوارج کو ڈھال بنا رکھا تھا۔

خوارج کو داستان ہم کو یہ حقیقت سمجھا دیتی ہے کہ ہر انقلاب میں پہلے ڈھال بننے والے کو نابود کر دینا چاہیے اور حماقتوں سے جنگ کرناچاہیے جس طرح علی علیہ سلام نے تحکیم کے واقع کے بعد پہلے خوارج سے نمٹ لیا اس کے بعد معاویہ کا تعاقب کرنا چاہا۔

۱۵۶

علی علیہ سلام ___ سچے امام اور پیشوا

وجود علی علیہ سلام، تاریخ و سیرت عی، خلق و خوی علی علیہ سلام، رنگ و بوئے علی علیہ سلام، سخن وگفتگوئے علی علیہ سلام سراسر درس ہے، سرمشق ہے، تعلیم ہے اور رہبری ہے۔

جس طرح علی علیہ سلام کے جاذبے ہمارے لئے سبق آموز اور درس ہیں ان کے دافع بھی اسی طرح ہیں ہم معمولاً علی کی زیارتوں اور اظہار ادب کے سارے پیرایوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تمہارے دوست کے دوست اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں اس جملے کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ہم اس نقطے کی طرف جا رہے ہیں جو تمہارے جاذبے کے مدار میں قرار پاتا ہے اور تم جذب کرتے ہو اور اس نقطے سے دوری اختیار کرتے ہیں جس کو تم دفع کرتے ہو۔

جو کچھ ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے وہ علی علیہ سلام کے جاذبہ اور واقعہ کا ایک گوشہ تھا ، خاص طور پر دافعہ علی کے بارے میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ علی نے دو گروہوں کو سختی سے دفع کیا ہے۔

۱: شاطر منافق

۲: زاہدان امق

ان کے شیعہ ہونے کے دعویداروں کیلئے یہی دو سبق کافی ہیں کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور منافقوں کے فریب میں نہ آئیں۔ وہ تیز نظر رکھنے والے بنیں اور ظاہر بینی کو چھوڑ دیں کہ آج جامعہ تشیع ان دو مصیبتوں میں سخت مبتلا ہے۔

والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ

اختتام ترجمہ ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء بروز جمعہ

بوقت ۴۰ ۔ ۱۲ ظہر

۱۵۷

فہرست

پیش لفظ ۴

مقدمہ ۸

قانونِ جذب و دفع ۸

انسانی دنیا میں جاذبہ و دافعہ ۹

جذب و دفع کے سلسلے میں لوگو ں کے درمیان فرق ۱۲

علی علیہ السّلام۔ دوہری قوت والی شخصیت ۲۱

جاذبہئ علی علیہ السلام کی قوت ۲۴

طاقت ور جاذبے ۲۴

تشیّع ۔ مکتب عشق و محبت ۳۱

اکسیرِ محبت ۳۴

حصار شکنی ۴۳

عشق۔ تعمیر ہے یا تخریب ۴۵

اولیاء سے محبت و ارادت ۵۲

مؤمنین کی آپس میں محبت ۵۵

معاشرے میں محبت کی قوت ۵۸

تہذیبِ نفس کا بہترین وسیلہ ۶۲

تاریخ اسلام سے مثالیں ۷۴

دوسری مثال ۷۶

ایک اور مثال: ۸۰

ایک مثال اور: ۸۳

۱۵۸

علی علیہ سلام کی محبت قرآن و سنت میں ۸۷

طہارت و پاکیزگی کا خزینہ: ۸۸

جاذبہئ علی علیہ سلام کا راز ۹۳

دافعہئ علی علیہ سلام کی قُوّت ۹۸

علی علیہ سلام کی دشمن سازی ۹۸

ناکثین و قاسطین و مارقین ۱۰۰

خوارج کا ظہور ۱۰۲

اصول عقائد خوارج ۱۱۱

خلافت کے بارے میں خوارج کا عقیدہ ۱۱۲

خلفاء کے بارے میں خوارج کاعقیدہ ۱۱۳

ہمیشہ ان کے ساتھ برسرپیکار رہتے تھے۔ ۱۱۴

خوارج کا خاتمہ ۱۱۴

رُسوم یا روح ۱۱۵

علی علیہ سلام کی جمہوریت ۱۲۲

خوارج کی بغاوت اور سرکشی ۱۲۳

خوارج کی نمایاں خصوصیّات ۱۲۵

اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے پر اثر: ۱۴۶

قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست ۱۵۰

نفاق کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت: ۱۵۴

علی علیہ سلام ___ سچے امام اور پیشوا ۱۵۷

۱۵۹