جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام37%

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 159

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 159 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39091 / ڈاؤنلوڈ: 4972
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

ترجمہ: غلام حسین سلیم

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

پیش لفظ

امیر المومنین علی علیہ السلام کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت اس سے کہیں زیادہ وسیع اور پہلو دار ہے کہ کوئی اس کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر سمجھ سکے اور فکر کے گھوڑے دوڑائے۔ ایک فرد زیادہ سے زیادہ جو کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک یاچند مخصوص اور محدود پہلوؤں کو مطالعہ اور غور و فکر کے لیے منتخب کرے اور اسی پر قانع ہو۔

اس عظیم شخصیت کے وجود کے مخٹلف پہلوؤں میں سے ایک مختلف انسانوں پراس کا مثبت یا منفی اثر ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا وہ طاقتور ''جاذبہ'' اور '' دافعہ '' ہے، جو اب بھی اپنا بھرپور اثر دکھاتا ہے اوراس کتاب میںاسی پہلو پر گفتگو ہوئی ہے ۔

انسانی روح و جان میں رد عمل پیدا کرنے کے نقطہئ نظر سے افراد کی شخصیت یکساں نہیں ہے۔ جس نسبت سے شخصیت حقیر تر ہوتی ہے اتنا ہی کمتر خیالات کو وہ اپنی طرف کھینچتی اور دلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے اور جتنی شخصیت عظیم تر اور طاقت ور ہوتی ہے اتنی ہی فکر انگیز اور رد عمل پیدا کرنے والی ہوتی ہے خواہ رد عمل موافق ہو یا مخالف۔

فکر انگیز اور رد عمل پیدا کرنے والی شخصیات کا ذکر زبانوں پر زیادہ آتا ہے۔ بحث و مباحثہ اور اختلافات کا موضوع بنتی ہیں۔ شاعری، نقاشی اور دیگر فنون لطیفہ کا افتخار بنتی ہیں۔ داستانوں اور کہانیوں کاہیرو قرار پاتی ہیں۔ یہی تمام چیزیں ہیںجو علی علیہ السلام کے بارے میں بہ درجہئ اتم موجود ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا کوئی رقیب ہی نہیں یا بہت کم ہیں۔ کہتے ہیں کہ محمد ابن شہر آشوب مازندرانی جو ساتویں صدی کے اکابر علمائے امامیہ میں سے ہیں، جب اپنی مشہور کتاب ''مناقب '' تالیف کر رہے تھے، اس وقت ان کے کتب خانے میں مناقب کے نام سے ایک ہزار کتابیں تھیں جو سب علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی گئی تھیں۔

۴

اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولا علی(ع) کی بلند شخصیت نے تاریخ کے دھارے میں کتنے ذہنوں کو مشغول رکھا!

علی علیہ السلام اور ان تمام لوگوں کا جو حق کی روشنی میں منور ہیں، بنیادی امتیاز یہ ہے کہ وہ ذہنوں کو مشغول رکھنے اور افکار کو سرگرم کر نے کے علاوہ دلوں اور روحوں کو روشنی، حرارت، عشق و مستی اور ایمان و استحکام بخشتے ہیں۔

سقراط، افلاطون، ارسطو، بوعلی سینا، ڈیکارٹ جیسے فلسفی بھی افکار کو تسخیر کرنے اور ذہنوں کو سرگرم کرنے والے سپوت ہیں۔

علاوہ ازیں سماجی انقلابات کے رہنماؤں نے خاص کر آخری دو صدیوں میں اپنے پیروکاروں میں ایک طرح کا تعصب پیدا کیا ہے۔ مشائخ عرفان اپنے پیروکاروں کو غالباً '' تسلیم '' کے اس مرحلے تک پہنچا دیتے ہیں کہ اگر پیر مغاں اشارہ کر دے تووہ جائے نماز کو مے سے رنگیں کر دیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی گرمی و حرارت کے ساتھ ساتھ وہ نرمی لطافت اور خلوص و رقت نہیں دیکھتے جس کا نشان تاریخ میں علی(ع) کے پیروکاروں میں ملتا ہے۔ اگر صفویوں نے درویشوں کا ایک لشکرجرار منظم کرکے مؤثر جنگیں لڑیں تو ایسا علی(ع) کے نام پر کیا نہ کہ اپنے نام پر۔

معنوی حسن اور خوبصورتی جو خلوص و محبت پیدا کرتی ہے اور بات ہے اور رہنمائی، مفاد اور زندگی کی مصلحتیں جو سماجی رہنماؤں کا اثاثہ ہےں یا عقل و فلسفہ جو فلسفیوں کا اثاثہ ہیں یا اقتدار و تسلط کا اثبات جو عارف کا اثاثہ ہے، بالکل دوسری بات ہے۔

مشہور ہے کہ بوعلی سینا کے شاگردوں میں سے ایک اپنے استاد سے کہا کرتا تھا کہ اگر آپ اس غیر معمولی فہم و فراست کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھیں تو لوگ آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے اور بو علی سیناخاموش رہتے۔ یہاں تک کہ سردیوں کے موسم میں دونوں کسی سفر پر ساتھ تھے۔ صبح کے قریب بو علی سینا نیند سے بیدار ہوئے، شاگرد کو جگایا اور کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے تھوڑا سا پانی لا دو۔ شاگرد نے سستی کی اور بہانے تراشنے لگا۔ ہر چند بو علی نے اصرار کیا لیکن شاگرد اس سردی میں گرم بستر چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی وقت گلدستہ اذان سے موذن کی صدا بلند ہوئی۔ اللّٰہ اکبر اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ۔ اشہد ان محمدا رسول اللّٰہ۔ بو علی نے اپنے شاگرد کو جواب دینے کے لیے موقعہ غنیمت جانا۔ کہا کہ تو جو کہتا تھا کہ اگر میں نبوت کا دعویٰ کر بیٹھوں تولوگ میرے اوپر ایمان لے آئیں گے۔

۵

اب دیکھ میری موجودگی میں میرا حکم تجھ پر نہیں چلتا جو سالہا سال تک میرا شاگرد رہا اور میرے درس سے فائدہ اٹھایا کہ تو ایک لحظہ کے لیے اپنا گرم بستر چھوڑے اورمجھے پانی پلائے، لےکن یہ مؤذن چار سو سال کے بعد بھی پیغمبر (ص) کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا گرم بستر چھوڑ کر اس بلندی پر جا کر خدا کی وحدانیت اور آپ (ص) کی رسالت کی گواہی دے رہا ہے۔

ببین تفاوتِ رہ از کجا است تا بہ کجا

جی ہاں! فلسفی شاگرد پیدا کرتے ہیں نہ کہ پیروکار۔ سماجی رہنما متعصب پیروکار پیدا کرتے ہیں نہ کہ مہذب انسان۔ اقطاب و مشائخ عرفان ارباب تسلیم پیدا کرتے ہیں نہ کہ سرگرم مؤمن مجاہد۔

علی(ع) میں فلسفی، انقلابی رہنما، پیر طریقت اور پیغمبروں جیسی خصوصیات یکجا ہیں۔ علی(ع) کا مکتب، مکتبِ عقل و فکر بھی ہے اور مکتبِ انقلاب و ارتقاء بھی۔ مکتب تسیلم ہونے کے ساتھ نظم و ضبط بھی اور مکتب حسن و زیبائی اور جذبہ و حرکت بھی۔

علی علیہ السلام دوسروں کے لیے ایک امام عادل ہونے اور دوسروں کے بارے میں عدل و انصاف کا چلن رکھنے سے پہلے خود اپنی ذات میں ایک متعادل اور متوازن وجود تھے جن میں تمام انسانی کمالات یکجا تھے۔ وہ ایک گہری اور دور رس فکر بھی رکھتے تھے۔ ساتھ ہی انتہائی نرمی اور مہربانی کے جذبات بھی۔ یوں تمام روحانی اور جسمانی کمالات کے بہ یک وقت حامل تھے۔ راتوں کی عبادت کے دوران ماسوا اللہ دنیا سے ان کا رشتہ کٹ جاتا اور دن کو معاشرتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے !

دن کو انسانی آنکھیں علی(ع) کی ہمدردیاں اورقربانیاں دیکھتیں اور انسانی کان ان (ع) کے وعظ و نصیحت اور حکیمانہ باتیں سنتے۔ رات کو چشم ستارگان ان کے ذوق بندگی میں بہنے والے آنسو دیکھتیں اور گوش فلک ان کی عشق میں ڈوبی ہوئی دعائیںاور مناجاتیں سنتا۔ وہ مفتی بھی تھے اور حکیم بھی۔ عارف بھی تھے اور اجتماعی رہبر بھی۔ زاہد بھی تھے اور سپاہی بھی۔ قاضی بھی تھے اور مزدور بھی۔ خطیب بھی تھے اور ادیب بھی۔ غرض ہر لحاظ سے تمام خوبیوں کے ساتھ ایک کامل انسان!

۶

زیر نظر کتاب ایسی چار تقریروں کا مجموعہ ہے جو ۱۸ تا ۲۱ ماہ رمضان المبارک ۱۳۸۸ھ حسینیہ ارشاد میں کی گئی تھیں۔ یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں عمومی طور پر جذب و دفع اور خصوصی طور پر انسانوں کے جاذبہ و دافعہ کے اصول کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ حصہ اول میں علی علیہ السلام کے اس ابدی جاذبہ جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے، کے فلسفہ، فائدہ اور اثر کو موضوع قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں حضرت(ع) کے اس طاقتور دافعہ کی کہ وہ کس قسم کے عناصر کو سختی سے رد کرتااور دور پھینکتا تھا توضیح و تشریح کی گئی ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ علی علیہ السلام دوہری طاقت رکھتے تھے اور جو بھی ان (ع) کے مکتب میں پروان چڑھنا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ دوہری طاقت رکھتا ہو۔

چونکہ علی علیہ السلام کے مکتب کی پہچان صرف یہی نہیں ہے کہ دوہری طاقت ہو، اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ علی علیہ السلام کا جاذبہ کس قسم کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا اور ان کا دافعہ کس قماش کے لوگوں کو دور کرتا تھا۔ افسوس! ہم میں سے بعض جو ان (ع) کے مکتب کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جن کو علی (ع) جذب کرتے تھے انہیں دفع کرتے ہیں۔ اور جن کو وہ دفع کرتے تھے انہیں جذب کرتے ہیں۔ دافعہ علی (ع) کے باب میں خوارج کے بارے میں بحث پر اکتفاء کی گئی ہے۔ حالانکہ اور بھی گروہ ہیں جو دافعہئ علی علیہ السلام میں شامل ہےں۔ شاید کسی اور موقعہ پر اور کم از کم کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں کتاب کے دیگر نقائص کا بھی ازالہ کیا جائے.

تقریروں کی تکمیل اور اصلاح کی زحمت فاضل بلند و قدر جناب آقائے فتح اللہ امیدی نے برداشت کی ہے۔ نصف کتاب ان جناب کے قلم سے ہے جس کو ٹیپ شدہ کیسٹوں سے نقل کرکے از سرنو اپنے قلم سے تحریر کیا ہے اور کہیں اصلاح یا تکمیل کی ہے۔ دوسرا نصف دیگر میرے اپنے الفاظ ہیں یا ان جناب کی اصلاح کے بعدمیں نے خود بعض چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔ امید ہے کہ مجموعی طور پر اس کا مفید اثر ہوگا۔ ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں علی علیہ السلام کے سچے پیروکاروں میں قرار دے ۔

مرتضیٰ مطہری

تہران۔ ۱۱، اسفند ۱۳۴۹ شمسی

مطابق ۴،محرم الحرام ۱۳۹۱ قمری

۷

مقدمہ

قانونِ جذب و دفع

''جذب و دفع'' کا قانون ایک عمومی قانون ہے جو پورے نظام آفرینش میں کار فرما ہے۔ تمام جدید انسانی علوم کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ کائنات ہستی کا کوئی ذرّہ کشش کے عمومی قانون کی عملداری سے خارج نہیں ہے بلکہ اس کا پابند ہے۔ عالم کے بڑے سے بڑے اجرام و اجسام سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرات تک میں کشش (جاذبہ) کی پوشیدہ قوت موجود ہے اور کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر بھی ہے۔

ذرّہ ذرّہ کاندرین ارض و سماست

جنسِ خود را ہمچو کاہ و کہرباست

اس زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اپنی جنس کے لیے کاہ اور برق کی طرح ہے

اسے چھوڑیئے، اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ گو تمام جمادات کے سلسلے میں قوتِ جاذبہ کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ صرف اس بات پر بحث کرتے تھے کہ زمین کیونکر افلاک کے درمیان ٹھہری ہوئی ہے۔ تاہم ان کا عقیدہ تھا کہ زمین آسمان کے وسط میں معلق ہے اور جاذبہ ہر طرف سے اس کو کھینچتا ہے اور چونکہ یہ کشش تمام اطراف سے ہے اس لیے قہراً درمیان میں کھڑی ہے اور کسی ایک طرف کو نہیں جھکتی۔ بعض کا عقیدہ تھا کہ آسمان زمین کو جذب نہیں کرتا بلکہ اس کو دفع کرتا ہے اور چونکہ زمین پریہ دباؤ تمام اطراف سے مساوی ہے نتیجتاً زمین ایک خاص نقطے پرٹھہری ہوئی ہے اور اپنی جگہ نہیں بدلتی۔

۸

نباتات اور حیوانات میں بھی سب جاذبہ و دافعہ کی قوت کے قائل تھے بہ این معنی کہ ان کے لیے تین بنیادی قوتوں جاذبہ (طلب غذا کی قوت) نامیہ (بڑھنے کی قوت) اور مولدہ (پیدا کرنے کی قوت) کو مانتے تھے اور قوہئ غاذیہ کے لیے چند فرعی قوتوں جاذبہ،دافعہ، ہاضمہ اور ماسکہ (روکنے کی قوت) کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ معدہ کے اندر جذب کی ایک قوت ہے جو غذا کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جہاں غذا کو مناسب نہیں پاتی اس کو دفع(۱) کرتی ہے۔ اسی طرح وہ کہتے تھے کہ جگر میں جذب کی ایک قوت ہے جو پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

معدہ نان را می کشد تا مستقر

می کشد مہ آب را تف جگر

معدہ کھانے کو اور جگر پانی کو ان کے ٹھکانوں تک کھینچ لے جاتا ہے۔

انسانی دنیا میں جاذبہ و دافعہ

جذب و دفع سے مراد یہاں جنسی جذب و دفع نہیں ہے، اگرچہ وہ بھی جذب و دفع کی ایک خاص قسم ہے لیکن ہماری بحث سے مربوط نہیں ہے اور اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے، بلکہ وہ جذب و دفع مراد ہے جو معاشرتی زندگی میں افراد انسانی کے درمیان موجود ہے۔ انسانی معاشرے میں مشترکہ مفاد کی بنیاد پر باہمی تعاون کی چند صورتیں ہیں، وہ بھی ہماری بحث سے خارج ہیں۔

زیادہ تر دوستی و رفاقت یادشمنی اور عداوت سب انسانی جذب و دفع کے مظاہر ہیں۔ یہ جذب و دفع مطابقت و مشابہت ی ضدیت و منافرت کی بنیاد(۲) پر ہیں۔ درحقیقت جذب و دفع کی بنیادی علت کو مطابقت اور تضاد میں تلاش کرنا چاہے۔ جیساکہ فلسفیوں کی بحث میں مسلم ہے کہالسنخیة علّة الانضمام یعنی مطابقت یکجہتی کا سبب ہے۔

____________________

(۱) آج کل انسان کی جسمانی ساخت کو ایک مشین کی مانند سمجھا جاتا ہے اور دفع کے عمل کو نکاسی کی مانند۔

(۲)اس کے برعکس جو برقی رو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر دو ہمنام اجسام ( Positive ) میں داخل کی جائے تو وہ ایک دوسرے سے دفع کرتی اور ناہمنام اجسام Negetive Positive میں داخل کی جائے تو ایک دوسرے کو جذب کرتی ہے ۔

۹

کبھی دو انسان ایک دوسرے کو جذب کرتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو دوست اور رفیق بنائیں۔ اس میں ایک راز ہے اور وہ راز مطابقت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ ان دو افراد کے درمیان جب تک کوئی مشابہت نہ ہو ایک دوسرے کو جذب نہیں کرتے اور باہم دوستی کی طرف مائل نہیں ہوتے اور کلی طور پر ہر دو وجود کا ایک دوسرے کے قریب ہونا اس امری کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان کسی طرح کی مطابقت و مشابہت موجود ہے۔

مثنوی دفتر دوم میں ایک دلچسپ حکایت بیان کی گئی ہے:

کسی حکیم نے ایک کوے کو دیکھا کہ وہ لک لک کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا کر اس کے ساتھ بیٹھتا ہے اور دونوں مل کر پرواز کرتے ہیں! دو مختلف نوع کے پرندے ۔ کوے اور لک لک کی شکل میں۔ کوا لک لک کے ساتھ کیونکر؟ وہ ان کے قریب گیا اور غور کیا۔ دیکھا کہ دونوں لنگڑے ہیں۔

آں حکیمی گفت دیدم ہم تکی

در بیابان زاغ را با لک لکی

در عجب ماندم بجستم حالشاں

تاچہ قدرِ مشترک یابم نشان

چون شدم نزدیک و من حیران و دنگ

خود بدیدم ہر دو آن بودند لنگ

لنگڑے پن نے دو اجنبی حیوانوں کو ایک دوسرے سے مانوس کر دیا۔ انسان بھی بلاوجہ ایک دوسرے کے دوست اور رفیق نہیں ہوتے جس طرح کہ کبھی بھی بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوتے۔

۱۰

بعض لوگوں کے نزدیک اس جذب و دفع کی اصل وجہ ضرورت اور اس کا پورا کیا جانا ہے۔ انسان ایک ضرورت مند ہستی ہے جو پیدائشی طور پر محتاج ہے۔ وہ مسلسل محنت سے اپنی محرومیوں کو دور اور ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ ایک گروہ کے ساتھ پیوستہ نہ ہو اور دوسرے گروہ سے رشتہ پیوند منقطع نہ کرے تاکہ ایک گروہ سے فائدہ اٹھائے اور دوسرے کے ضرر سے اپنے آپ کو بچائے۔ ہم اس میں کوئی رجحان یا بغاوت نہیں دیکھتے مگر یہ کہ ذاتی تحفظ کے شعور نے اسے پختہ کیاہو۔ اس اعتبار سے زندگی کی مصلحتوں اور فطری ساخت نے انسان کو جاذب و دافع بنا دیا ہے کہ جہاں کوئی بہتری نظر آئے اس کے لیے تڑپے اور جہاں اپنے مقاصد کے منافی کوئی چیز دیکھے اسے اپنے سے دور کر دے اور ان کے علاوہ جو چیزیں نہ فائدے کی ہوں اور نہ نقصان دہ ہوں ان کے بارے میں کوئی احساس نہ ہو۔ درحقیقت جذب و دفع انسانی زندگی کے دو اساسی رکن ہیں۔ ان میں جتنی خامی ہوگی انسانی زندگی میں اتنا ہی خلل واقع ہوگا اور آخر میں جو خلاء کو پر کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ دوسروں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور جو نہ صرف یہ کہ خلا کو پر نہیں کرتا بلکہ خلا میں مزید اضافہ کرتا ہے، وہ انسانو ںکو اپنے سے دور کر دیتا ہے اور جو ان دونوں میں نہ ہو وہ اس پتھر کی طرح ہے جو کنارے پر پڑا ہے۔

۱۱

جذب و دفع کے سلسلے میں لوگو ں کے درمیان فرق

جاذبہ و دافعہ کے اعتبار سے لوگ یکساں نہیں ہیں۔ بلکہ مختلف طبقات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:

۱۔ وہ لوگ جو نہ جاذبہ رکھتے ہیں نہ دافعہ۔ نہ کوئی ان سے دوستی رکھتا ہے اور نہ ہی دشمنی ۔ نہ عشق و تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں نہ عداوت و حسد اور کینہ و نفرت۔ وہ بے پرواہ ہو کر لوگوں کے درمیان چلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پتھر ہے جو لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔

یہ ایک مہمل اور بے اثر وجود ہے۔ وہ انسان جو فضیلت یا رذالت کے اعتبار سے کوئی مثبت نقطہ نہ رکھتا ہو (مثبت سے مراد یہاں صرف فضیلت کا پہلو نہیں ہے بلکہ شقاوت بھی مرادہے) وہ ایک ایسا جانور ہے جو غذا کھاتا، سوتا اور انسانوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔ یہ اس گوسفند کی طرح ہے جو نہ کسی کا دوست ہے اور نہ کسی کا دشمن اور اگر لوگ اس کی خبر لیتے ہیں اور اسے پانی اور چارہ دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ کسی وقت اس کے گوشت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ نہ دوستانہ جذبات پیدا کر سکتا ہے نہ مخالفانہ۔ یہ ایک گروہ ہے جو بے قیمت اور بیہودہ و محروم لوگوں کا ہے۔ کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوست رکھتا ہو اور لوگ اس کو دوست رکھتے ہوں۔ بلکہ ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دشمن رکھتا ہو اور لوگ اسے دشمن رکھتے ہوں۔

۲۔وہ لوگ جو جاذبہ تو رکھتے ہیں لیکن دافعہ نہیں رکھتے بلکہ ہر ایک کے لیے گرم جوشی رکھتے ہیں اور تمام طبقات کے تمام لوگوں کو اپنا مرید بناتے ہیں۔ زندگی میں سب لوگ انہیں دوست رکھتے ہیں اور کوئی ان کا انکار نہیں کرتا۔ جب مرتے ہیں تب بھی مسلمان ان کو آب زمزم سے غسل دیتے ہیں اور ہندو ان کے جسم کو جلاتے ہیں۔

چنان بانیک و بد خو کن کہ بعد از مردنت عرفی

مسلمانت بہ زمزم شوید و ہندو بسوزاند

عرفی! نیک و بد سب کے ساتھ اس طرح زندگی گزار کہ تیرے مرنے کے بعد مسلمان تجھے زمزم سے غسل دیں اور ہندو جلا دیں.

۱۲

اس شاعر کے اصول کے مطابق ایسے معاشرے میں جہاں آدھے لوگ مسلمان ہیں اور جنازے کااحترام کرتے ہیں اور اسے غسل دیتے ہیں اور کبھی زیادہ احترام کرتے ہوئے مقدس آب زمزم سے غسل دیتے ہیں، اور آدھے ہندو ہیں جو مردے کو جلاتے ہیں اور اس کی رکھ اڑا دیتے ہیں،اس طرح زندگی گزار کہ مسلمان تجھے اپنا سمجھیں اور مرنے کے بعد تجھے آب زمزم سے غسل دینا چاہیں اور ہندو بھی تجھے اپنا جانیں اور مرنے کے بعد تجھے جلا دینا چاہیں۔

غالباً لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حسن خلق، بہترین میل جول اور جدید اصطلاح میں سوشل ہونے کا مطلب یہی ہے کہ انسان سب کو دوست بنائے لیکن ایسا کرنا ایک ہدف اور مسلک رکھنے والے انسان کے لیے جو ذاتی مفاد کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ معاشرے میں ایک فکر اور نظریے کے لیے کام کرتا ہے، آسان نہیں ہے۔ ایسا انسان چار و ناچار یک رو، صاف گو اور کٹر ہوتا ہے مگر یہ کہ وہ منافق اور دوغلا ہو۔ چونکہ تمام لوگ ایک طرح نہیں سوچتے، ایک طرح کا احساس نہیں رکھتے اور سب کی پسند ایک جیسی نہیں ہوتی لوگوں میں انصاف کرنے والے بھی ہیں اور ستم کرنے والے بھی۔ اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔

معاشرے میں انصاف پسند، ظلم کرنے والے، عادل اور فاسق سب لوگ ہیں۔ وہ سب کسی ایسے انسان کو دوست نہیں رکھ سکتے جو ایک ہدف کے لیے صحیح معنوں میں کام کرتا ہو اور خواہ مخواہ ان میں سے بعض کے مفاد سے متصادم ہو۔ مختلف طبقات اور مختلف نظریات کے لوگوں کو اپنی طرف جلب کرنے میں صرف وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جو ریا کار اور جھوٹا ہو اور ہر کسی سے اس کی پسند کے مطابق بات کرے اور ریا سے کام لے۔ لیکن اگر انسان یک رو اور پختہ عقیدہ رکھتا ہو تو قہری طور پرکچھ لوگ اس کے دوست ہوں گے اور کچھ لوگ اس کے دسمن بھی۔ وہ لوگ جن کی راہ اس سے ملتی ہے اس کی طرف کھچے چلے آئیں گے اور جو لوگ اس کی راہ کے مخالف جا رہے ہیں وہ اسے اپنے سے دور پھینکیں گے اور اس کی مخالفت کریں گے۔

بعض مسیحی جو اپنے آپ اور اپنے وطیرے کو محبت کا پیامی سمجھتے ہیںان کا دعویٰ ہے کہ انسان کامل فقط محبت رکھتا ہے اور بس۔ یوں صرف جاذبہ رکھتا ہے اور شاید بعض ہندو بھی اس طرح کا دعویٰ کرتے ہیں۔

۱۳

مسیحی اور ہندی فلسفوں میں زیادہ نمایاں تعلیم محبت ہی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز سے تعلق رکھنا چاہیے اور محبت کا اظہار کرنا چاہیے اور جب ہم سب کو دوست رکھتے ہیں تو اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی کہ وہ بھی ہمیں دوست رکھیں۔ برے بھی ہم کو دوست رکھیں گے کیونکہ انہوں نے ہم سے صرف محبت ہی دیکھی ہے۔

لیکن ان حضرات کو جان لیناچاہیے کہ صرف اہل محبت ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اہل مسلک (عقیدہ) ہونا بھی ضروری ہے اور کتاب بنام ''یہ ہے میرا مذہب'' میں گاندھی کے بقول محبت کو حقیقت کاجڑواں ہونا چاہےے اور حقیقت کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلک بھی ہے اور مسلک خواہ مخواہ دشمن پیدا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بعض کے ساتھ مقابلہ کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور بعض کو رد کردیتا ہے۔

اسلام بھی قانون محبت ہے۔ قرآن رسول اکرم(ص) کی پہچان رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے کراتا ہے۔

( وَ مَآ اَرْسَلْنٰاکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ۔(۱)

ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر عالمین کے لیے رحمت بنا کر۔

یعنی اپنے سخت ترین دشمنوں کے لیے بھی رحمت بنو اور ان سے بھی محبت کرو۔(۲) لیکن قرآن جس محبت کا حکم دیتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم ہر شخص کی پسند

____________________

(۱) ۲۱ سورہئ انبیاء آیت نمبر ۱۰۷

(۲)بلکہ آپ (ص) ہر چیز سے محبت کرتے تھے یہاں تک کہ حیوانات اور جمادات کے ساتھ بھی ۔اسی لیے ہم آپ (ص)کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپ (ص) کے تمام ہتھیاروں اور روزمرہ زندگی میں استعمال کی چیزوں کے خاص نام تھے۔ آپ (ص) کے گھوڑوں، تلواروں اور عماموں کے خاص نام تھے۔ ایسا صرف اس لیے تھا کہ تمام موجودات سے آپ (ص) کو محبت تھی۔ گویا آپ (ص) ہر چیز کے تشخص کے قائل تھے۔ ان کے علاوہ تاریخ میں اس طرح کا رویہ کسی اور انسان کے بارے میں نہیں ملتا۔ یہ روش بتاتی ہے کہ در حقیقت آپ (ص) انسانی عشق و محبت کی مثال تھے۔ جب کہ آپ (ص) احد کے دامن سے گزرتے تو چمکتی آنکھوں اور محبت سے لبریز نگاہوں سے احد کو مخاطب کرکے کہتے:جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَ نحبه ۔ یعنی یہ ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ آپ (ص) ایسے انسان تھے کہ پہاڑ اور پتھر بھی آپ (ص) کی محبت سے بہرہ مند تھے۔

۱۴

اور خواہش کے مطابق عمل کریں اور اس کے ساتھ اس طرح کا چلن اختیار کریں کہ وہ ہم سے خوش ہو اور نتیجتاً وہ ہماری طرف کشاں کشاں چلا آئے۔ محبت یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کو اس کی خواہشات میں آزاد چھوڑ دیں یاان خواہشات کی تائید کریں۔ محبت وہ ہے جو حقیقت سے مربوط ہو۔ محبت خیر خواہی ہے اور خیر خواہی کرتے ہوئے غالباً ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسرے فریق کی محبت جلب نہ کی جاسکے۔ اس راہ میں بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان جن سے تعلق خاطر رکھتا ہے وہ چونکہ اس محبت کو اپنی خواہشات کے خلاف پاتے ہیں، وہ قدر دانی کی بجائے دشمنی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ منطقی اور معقول محبت وہ ہے جس میں انسانی معاشرے کی بہتری اور مصلحت ہو، نہ کہ ایک خاص فرد یا گروہ کی۔ بسااوقات افراد کے ساتھ خیرخواہی اورمحبت کرنا معاشرے کے ساتھ سراسر بدخواہی اور دشمنی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

بڑے بڑے مصلحین کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے تھے اور اپنے لیے تکلیفوں کا راستہ ہموار کرتے تھے لیکن لوگوں کی طرف سے دشمنی اور تکلیف کے علاوہ کوئی صلہ نہیں پاتے تھے۔ پس ایسا ہرگز نہی ہے کہ محبت ہر جگہ جاذبہ رکھتی ہو بلکہ کبھی کبھار محبت اس قدر شدید دافعہ کا جلوہ بھی دکھاتی ہے کہ انسان کی مخالفت میں جماعتیں تشکیل کی جاتی ہیں۔

۱۵

عبد الرحمن ابن ملجم مرادی، علی علیہ السلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا۔ علی (ع) خوب جانتے تھے کہ یہ شخص ان کا ایک خطرناک دشمن ہے۔ دوسرے لوگ بھی کبھی کبھی کہتے تھے کہ یہ شخص خطرناک ہے، اس کی بیخ کنی کیجئے۔ مگر علی علیہ السلام کہتے: کیا ہے میں جرم سے پہلے قصاص لوں؟ اگر وہ میرا قاتل ہے تو میں اپنے قاتل کو نہیں مارسکتا۔ وہ میرا قاتل ہے، نہ کہ میں اس کاقاتل اور اسی کے بارے میں علی علیہ السلام نے کہا: ارید حیاتہ و یرید قتلی(۱) یعنی میں چاہتا ہوں وہ زندہ رہے اور اس کی سعادت چاہتا ہوں اور وہ چاہتا ہے کہ مجھے قتل کر دے۔ میں اس سے محبت و تعلق رکھتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھتا ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ محبت ہی تنہا انسانی امراض کاعلاج نہیں ہے بلکہ بعض طبقوں اورمزاجوں کے لیے سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور مقابلہ، دفع اور رد کر دینا لازم ہوجاتا ہے۔ اسلام جذب و محبت کا دین ہے۔ ساتھ ہی دفع اور غضب(۲) کا دین بھی۔

____________________

(۱) بحار الانوار جدید ایڈیشن۔ ج ۴۲، ص ۱۹۳ ۔ ۱۹۶

(۲) ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ نفرت بھی لطف و محبت کا ایک پہلو ہے۔ ہم دعا میں پڑھتے ہیں یا من سبقت رحمتہ غضبہ۔ اے وہ ذات جس کی رحمت نے اس کے غضب سے پہل کی اور چونکہ رحمت کرنا چاہتا تھا اس لیے غضب نازل کیا اور تو ناراض ہوا اور اگر محبت اور رحمت نہ ہوتی تو غضب بھی نہ ہوتا۔

۱۶

جس طرح ایک با پ اپنے بیٹے پر اس لیے ناراض ہوتا ہے کہ اس سے محبت ہے اور اس کے مستقبل کی فکر ہے۔ اگر کوئی غلط کام کرے تو ناخوش ہوجاتا ہے اور کبھی اسے مارتا بھی ہے۔ حالانکہ دوسروں کی اس سے زیادہ نامعقول روش دیکھتا ہے لیکن وہ محسوس نہیں کرتا۔ مگر چونکہ اپنے بچے سے تعلق خاطر رکھتا تھا اس لیے ناراض ہوا اور دوسروں کے بچوں سے کوئی تعلق نہ تھا اس لیے ناراض بھی نہیں ہوا۔

اور دوسری طرف تعلق خاطر کبھی غلط بھی ہوتا ہے۔ یعنی محض ایک جذبہ ہے جو حکم عقل کے تابع نہیں ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے:( وَ لَا تَاْخُذْکُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ ) (۲۴نور : ۲)یعنی قانون الہی کے اجراء میں تمہاری محبت و نرمی مجرم کو ڈھیل نہ دے۔ کیونکہ اسلام جس طرح افراد کے ساتھ تعلق خاطررکھتا ہے اسی طرح معاشرے کے ساتھ بھی تعلق خاطر رکھتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو انسان کی نظر میں چھوٹا ہو اور وہ اسے حقیر سمجھے امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: اشدّ الذنوب ما استھان صاحبہ۔(نہج البلاغہ حکمت : ۲۴۰) ''سب سے شدید گناہ وہ ہے جسے گناہگار آسان اور ناچیز سمجھے'' گناہ کی اشاعت ہی وہ چیز ہے جس سے گناہ کی شدت نظروں سے کم ہو جاتی ہے اور فرد کی نظر میں اسے حقیر ظاہر کرتی ہے۔اس لیے اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ گناہ مکمل طور پر پردے میں نہ ہو اور لوگ اس سے باخبر ہوجائیں تو گناہ گار کو ہر صورت میں مورد سیاست قرار پانا چاہےے یا حد کی سزا کھائے یا تعزیر کی۔ اسلامی فقہ میں کلی طور پر کہا گیا ہے کہ ہر واجب کے ترک اور ہر حرام کی بجاآوری پر اگر حد کا تعین نہ کیا گیا ہو تو اس کے لیے تعزیر ہے۔ ''تعزیر'' ''حد'' سے کمتر سزا ہے جس کا حاکم (شرع) اپنی صوابدید کے مطابق تعین کرتا ہے۔ ایک فرد کے گناہ اور اس کی اشاعت پر معاشرہ ایک قدم گناہ کے نزدیک ہوا اور یہ اس (معاشرہ) کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پس گناہگار کو اس کے گناہ کی اہمیت کے مناسب سزا دی جانی چاہیے تاکہ معاشرہ اپنی راہ پر واپس آجائے اور گناہ کی شدت نظروں سے کم نہ ہو۔

اس بناء پر سزا اور عذاب ایک ایسی ححبت ہے جو معاشرے کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔

۱۷

۳۔وہ لوگ جو دافعہ رکھتے ہیں لیکن جاذبہ نہیں رکھتے۔جو صرف دشمن بناتے ہیں لیکن دوست نہیں بناتے۔ یہ بھی ناقص لوگ ہیںاوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں مثبت انسانی خصلتیں مفقود ہیں۔ کیونکہ اگر وہ انسانی خصائل کے حامل ہوتے تو ہر چند تھوڑی تعداد میں ہی سہی، ایک گروہ ایسا ضرور رکھتے جو ان کا طرفدار اور ان سے تعلق خاطر رکھنے والا ہو۔ کیونکہ لوگوں کے درمیان اچھے لوگ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہو، لیکن کبھی سب لوگ برے نہیں ہوتے۔ جس طرح کہ کسی زمانے میں بھی سارے لوگ اچھے نہیں ہوتے۔ اس لیے لازمی طورپر کسی سے اگر سب کو دشمنی ہو توخرابی اس کی اپنی ہے۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان کی روح میں خوبیاں ہوں اور وہ کوئی دوست نہ رکھتا ہو۔ اس قسم کے لوگ اپنے وجود میں کوئی مثبت پہلو نہیں رکھتے حتیٰ کہ شقاوت کا پہلو بھی۔ ان کا وجود سراسر تلخ ہے اور سب کے لیے تلخ ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کم از کم بعض کے لیے شیریں ہو۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اعجز الناس من عجز عن اکتساب الاخوان، اعجز منه من ضیّع من ظفر به منهم ۔(۱)

لوگوں میں درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھائی اپنے لیے حاصل نہ کر سکے اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پا کر اسے کھو دے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت : ۱۱

۱۸

۴۔لوگ جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی ۔ وہ باصول لوگ جو اپنے مسلک اور عقیدے کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، چند گروہوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، دلوں میں محبوب اور مقصود کی حیثیت سے گھر کر جاتے ہیں اور چند گروہوں کو اپنے سے دفع اور رد بھی کرتے ہیں۔ دوست بھی بناتے ہیں اور دشمن بھی۔ موافق پرور بھی ہیں اور مخالف پرور بھی۔

ان کی بھی چند قسمیں ہیں کیونکہ کبھی جاذبہ و دافعہ دونوں قومی ہیں، کبھی دونوں ضعیف اور کبھی ایک قوی اور دوسرا ضعیف۔ باوقار لوگ وہ ہیں جو جاذبہ و دافعہ ہر دو قوی رکھتے ہوں اور اس کاتعلق اس بات سے ہے کہ ان کی روح میں مثبت یا منفی (اقدار) کی بنیادیں کس قدر مضبوط ہیں۔ البتہ قوت کے بھی مراتب ہیں، یہاں تک کہ ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ مجذوب دوست اپنی جان فدا کردیتے ہیں اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں اور دشمن بھی اس قدر سخت ہو جاتے ہیں کہ اس راہ (دشمنی) میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور یہ (صورت حال) اتنی قوی ہو جاتی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک ان کے جذب و دفع (کی شدت) انسانی روحوں میں کار فرما ہوتی ہے اور ایک وسیع حلقے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور یہ سہ پہلو جذب و دفع صرف اولیاء کے لیے مختص ہے، جس طرح کہ سہ پہلو دعوت (مشن) پیغمبروں کے لیے مختص ہے۔(۱)

____________________

(۱) مقدمہ جلد اول خاتم پیامبران، ص ۱۱ و ۱۲

۱۹

دوسری جانب یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کن عناصر کو جذب اور کن عناصر کو دفع کرتے ہیں۔ مثلاً کبھی ایسا ہتا ہے کہ دانا عنصر کو جذب اور نادان عنصر کو دفع کرتے ہیں اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کبھی شریف اور نجیب عناصر کو جذب اور پلید اور خبیث عناصر کو دفع کرتے ہیں اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہذا دوست اور دشمن، جذب ہونے والے اور دور پھینکے جانے والے اس (جذب و دفع کرنے والے) کی ماہیت پر قطعی دلیلیں ہیں۔

کسی کی شخصیت کے قابل ستائش ہونے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ جاذبہ و دافعہ رکھتی ہے یا یہ کہ قوی جاذبہ و دافعہ رکھتی ہے،بلکہ یہ تو اصل شخصیت کی دلیل ہے اور کسی کی محض شخصیت کسی کی خوبی کی دلیل نہیں ہے۔ دنیا کے تمام رہنما اور لیڈر حتیٰ کہ چنگیز خان، حجاج اور معاویہ جیسے جرائم پیشہ لوگ بھی جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتے تھے اور جب تک کسی کی روح میں مثبت نقطے موجود نہ ہوں، ممکن نہیں ہے کہ ہزاروں سپاہیوں کو وہ اپنامطیع اور اپنے ارادے کا تابع بنا لے۔ جب تک رہنمائی کی طاقت نہ رکھتا ہو، آدمی اتنے لوگوں کو اپنے گرد جمع نہیں کر سکتا۔

نادر شاہ ایسے ہی افراد میں سے ایک ہے۔ اس نے کتنے سرقلم کئے اور کتنی ہی آنکھیں حلقوں سے باہر نکال دیں لیکن اس کی شخصیت غیر معمولی طاقت کی حامل ہے۔ اس نے صفوی عہد کے آخری دنوں میں شکست خوردہ اور لٹے پٹے ایران سے ایک بھاری لشکر تیار کیا اور میدان جنگ کو اس طرح اپنے گرد اکٹھا کیا جس طرح مقناطیس فولادکے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یوں ایران کو نہ صرف غیروں کے تسلط سے نجات دلائی بلکہ ہندوستان کے آخری حصوں کو بھی فتح کرلیا اور نئی سرحدوں کو ایرانی سلطنت میں شامل کیا۔

بنابریں ہر شخصیت اپنے قبیل کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور اس کے مخالف لوگوں کو اپنے سے دور کر دیتی ہے۔ انصاف پرور اور شریف شخصیت نیکی پسند اور عدالت کے طلبگار عناصر کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور ہوس پرستوں، زرپرستوں اور منافقوں کو اپنے سے دور پھینکتی ہے۔ جرائم پیشہ شخصیت مجرموں کو اپنے گرد جمع کرتی ہے اور نیک لوگوں کو اپنے سے دور پھینکتی ہے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مالک بن جاؤ گے اور عجم بھی تمہارے مطیع ہونگے نیز جنت میں بھی تمہاری بادشاہی ہوگی''_ لیکن قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا اور وہ کہنے لگے کہ محمد بن عبداللہ مجنون ہوگیا ہے البتہ حضرت ابوطالب کی سماجی حیثیت کے پیش نظر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہ کرسکے_(۱)

یہ بھی منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صفاکی پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کو پکارا جب وہ جمع ہوگئے تو فرمایا:''اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر تمہارا منتظر ہے تو کیاتم میری تصدیق کرو گے؟''_ وہ بولے:'' کیوں نہیں ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں کوئی بدی نہیں دیکھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کبھی کوئی جھوٹ نہیں سنا تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتا ہوں ...'' اس پر ابولہب نے کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا ''تیرا سارا دن بربادی میں گزرے، کیا اتنی سی بات کیلئے لوگوں کو اکٹھا کیا تھا؟'' یہ سن کر سارے لوگ متفرق ہوگئے اور اس پر سورہ( تبت یدا ابی لهب ) نازل ہوئی_(۲)

ناکام مذاکرات

ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بحکم خدا اپنی قوم کے سامنے علی الاعلان ًاسلام کو پیش کیا تو اس وقت لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور ہوئے نہ آپ کی مخالفت کی_ لیکنجب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے معبودوں کی برائی بیان کی تو اس وقت انہوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف متحد ہوگئے سوائے ان لوگوں کے کہ جن کواللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے ان سے بچایا_ یہ لوگ کم بھی تھے اور بے بس بھی_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے چچا حضرت ابوطالب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتے ہوئے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کا دفاع کیا اور پیغمبراکرم بلاروک ٹوک اعلانیہ حکم الہی بجالاتے رہے_

___________________

۱_ تفسیر نور الثقلین ج۳ص۳۴کہ تفسیر قمی سے نقل کیا ہے_

۲_ اس حدیث کو مفسرین نے نقل کیا ہے اور سیوطی نے در منثور میں، نیز غیر شیعہ مورخین نے بھی واقعہ انذار کے ضمن میں نقل کیا ہے لیکن ہم واضح کرچکے ہیں کہ آیہ انذار میں سارے رشتہ دار مراد نہیں بلکہ فقط قریبی رشتہ دار ہی منظور ہیں_ بنابریں یہ روایت مذکورہ ارشاد الہی (فاصدع بما تو مر) کے ساتھ ہی سازگار معلوم ہوتی ہے_

۴۱

جب قریش نے یہ دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مخالفت کے باوجود باز نہیں آتے، ان کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں رکتے اور آپ کے چچا حضرت ابوطالب بھی آپ کی حمایت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قریش کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں تو انہوں نے حضرت ابوطالب کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی_ یہ مذاکرات (ا بن اسحاق وغیرہ کے خیال میں) تین مراحل سے گزرے اور سب کے سب بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے_

پہلا مرحلہ:

قریش کے چند سر کردہ افراد (جن کے ناموں کا مورخین نے ذکر کیا ہے) حضرت ابوطالب کے پاس گئے اور کہا :''اے ابوطالب آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے ہمارے دین کی برائی بیان کی ہے_ ہمارے نظریات کو باطل اور ہمارے آباء و اجداد کو گمراہ قرار دیا ہے پس یاتو آپ خود اس کو روکیں یا ہمارے اور اس کے درمیان حائل نہ ہوں کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ( نظریاتیلحاظ سے) اس کے مخالف ہیں_ یوں ہم اس سے آپ کو بھی بچائیں گے''_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے ان سے نرم گفتگو کی اور اچھے طریقے سے انہیں ٹال دیا چنانچہ وہ چلے گئے_

دوسرا مرحلہ:

جب مشرکین نے دیکھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے دین کی ترویج وتبلیغ میں مصروف ہیں یہاں تک کہ ان کے درمیان معاملہ بگڑنے لگا ہے_ لوگوں میں دشمنی اور اختلاف پیدا ہوچکا ہے اور قریش کے در میان کثرت سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ذکر ہونے لگا ہے تو وہ حضرت ابوطالب کے پاس گئے اور دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے بھتیجے کو ان کے آباء و اجداد کو برا بھلا کہنے ، ان کے نظریات کو باطل ٹھہرانے اور ان کے خداؤں کو بُرا کہنے سے نہیں روکیں گے تو وہ ان دونوں کے مقابلے پر اترآئیں گے اور ان سے جنگ

۴۲

کریں گے یہاں تک کہ کوئی ایک فریق ہلاک ہوجائے_ اس دھمکی کے بعد وہ چلے گئے_

حضرت ابوطالب نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کی اطلاع دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اور ان کے اوپر رحم کھائیں اور ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈالیں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوچاکہ چچا کا ارادہ بدل چکا ہے اور وہ آپ کی نصرت و حمایت کی طاقت نہیں رکھتے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اے چچا خدا کی قسم اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں اس امر سے دست بردار ہوجاؤں پھر بھی میں ہرگز باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ خدا اپنے دین کوغالب کر دے یا میں اس دین کی راہ میں قتل ہوجاؤں'' یہ دیکھ کر حضرت ابوطالب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا وعدہ کیا_

تیسرا مرحلہ:

اس دفعہ قریش نے حضرت ابوطالب کویہ پیشکش کی کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جگہ عمارة بن ولید کو اپنا بیٹا بنالیں اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو( جن کے بارے میں قریش کا خیال تھا کہ انہوں نے ابوطالب اور ان کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی تھی، مشرکین میں اختلاف ڈالا تھا اور ان کی آرزوؤں کو پامال کیا تھا) ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کریں_ تو اس طرح سے آدمی کا بدلہ آدمی سے ہوجائے گا _

حضرت ابوطالب نے کہا:'' خدا کی قسم تم نے میرے ساتھ نہایت برا سودا کرنے کا ارادہ کیا ہے_ تم چاہتے ہو کہ اپنا بیٹاپلنے کے لئے میرے حوالے کرو اوراس کے بدلے میں میں اپنا بیٹا قتل ہونے کے لئے تمہارے حوالے کردوں _خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا''_

یہ سن کر مطعم بن عدی نے کہا:'' اے ابوطالب اللہ کی قسم تیری قوم نے تیرے ساتھ انصاف کیا ہے انہوں نے اس چیز (افتراق و انتشار) سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جوتجھے بھی نا پسند ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو ان کی کوئی بات قبول نہیں کرنا چاہتا''_ حضرت ابوطالب نے کہا:'' واللہ انہوں نے تومیرے ساتھ نا انصافی کی ہے لیکن تونے مجھے بے یار ومددگار بنانے اور لوگوں کو میرے مقابلے میں لاکھڑا

۴۳

کرنے کا ارادہ کیا ہے_ پس تیری جو مرضی ہو وہ کر کے دیکھ لے''_ حضرت ابوطالب کی اس بات کے بعد معاملہ بگڑ گیا مخالفت کا بازار گرم ہوگیا اور لوگوں نے کھلم کھلا دشمنی شروع کردی_

ممکن ہے کہ یہ مراحل اسی ترتیب سے واقع ہوئے ہوں اور ممکن ہے کہ یہ ترتیب نہ رہی ہو_ بہرحال ہم نے جو کچھ کہا وہ ہمارے نزدیک بلا کم و کاست حالات و واقعات کے(۱) طبیعی سفر کی ایک تصویر کشی تھی البتہ اس گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھنے سے قبل درج ذیل نکات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں_

الف: اس ناکامی کے بعد

ہم نے ملاحظہ کیا کہ مشرکین مکہ نے شروع شروع میں یہ کوشش کی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے ساتھ نہ الجھیں_ چنانچہ انہوں نے خود حضرت ابوطالب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے موقف سے ہٹائیں اور اس چیز کا خاتمہ کریں جسے وہ اپنے لئے مشکلات اور خطرات کا سرچشمہ سمجھتے تھے_ انہوں نے ابوطالب کو بھڑکانے اور انہیں اپنے بھتیجے کے خلاف یہ سمجھاکر اکسانے کی کوشش کی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام ان کے مفادات کے منافی اور دیگر لوگوں کے علاوہ خود حضرت ابوطالب کی ہمدردی و شفقت کو زک پہنچانے کے مترادف ہے_

اس بناپر طبیعی تھا کہ خود حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے کی سرگرمیاں محدود کرتے_ اور قریش کو اس مسئلے سے نجات دلاتے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوطالب نے ان کی بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی ذات اور مفادات کو درپیش خطرات کی روک تھام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو وہ دھمکی دینے پر اترآئے _ اس کے بعد انہوں نے مکروفریب اور دھوکے کی سیاست اپنائی( جیساکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برائے قتل ان کے حوالے کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدلے عمارة بن ولید کو بطورفرزند، حضرت ابوطالب کے حوالے کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے)اس واقعے نے ان کے دلوں میں پوشیدہ مقصد کو بھی ظاہر کر دیا _ نیز حضرت ابوطالب اور

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج۱ ص۲۸۲،۲۸۶نیز البدء والتاریخ ج۴ص ۴۷،۱۴۹ نیز تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۵،۶۸_

۴۴

دیگر لوگوں کیلئے واضح ہوا کہ ان کا مقصد دین حق کومٹانے اور نورالہی کو بجھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں_ اس امرنے حضرت ابوطالب کو دین حق اور پیغمبراسلام کی حمایت پر مزید کمربستہ کر دیا_

ب: قریش کی ہٹ دھرمی کا راز

مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی اور نور الہی کو بجھانے کی کوششوں کا راز درج ذیل امور میں مضمر معلوم ہوتا ہے:

۱)قریش ،مکہ اور دوسرے مقامات کے غریبوں، غلاموں اور کمزوروں سے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام لیتے تھے_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آکران بیچارے لوگوں کے اندر ایک تازہ روح پھونکی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انسانی عظمت اور حریت کے تصور کو واضح کرنے کی کوشش شروع کی اورساتھ ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی دستگیری کرتے اور مسائل و مشکلات زندگی میں ان کے مددگار ہوتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی حقیقت خودان کیلئے آشکارکرتے تھے اور اسلامی تعلیمات سے ان کو بہرہ ور فرماتے تھے _ان تعلیمات کی ابتدائی باتوں میں سے ایک، ان ظالموں کے تسلط اور ظلم سے رہائی کی ضرورت کا مسئلہ بھی تھا_

۲)کفار مکہ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی تبلیغ اور اس کے مقاصد کو دیکھ کر یہ اندازہ کرچکے تھے کہ وہ اس دین کے زیر سایہ اپنے ناجائز امتیازات کو برقرار نہیں رکھ سکتے جنہیں ان ظالموں نے اپنے لئے مخصوص کررکھا تھا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ انہیں رد کر ر ہے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تاکید فرماتے تھے کہ خدا کی عدالت میں سب لوگ مساوی ہیں اس کے علاوہ یہ مشرکین، دین اسلام کے سائے تلے اپنی غیراخلاقی اور غیر انسانی اطوار کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ اسلام مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آیا تھا اور یہ لوگ اپنے رسوم کے زبردست پابند تھے حتی کہ اپنے ان معبودوں کی عبادت سے بھی زیادہ پابند رسوم تھے جن کی نگہبانی کے وہ دعویدار تھے_ چنانچہ ایک دفعہ ایک عرب نے بھوک لگنے پر اپنے اس خدا کو کھالیا جسے اس نے کھجوروں سے تیار کیاہوا تھا_

۳)تیسرے سبب کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے( وقالوا ان نتبع الهدی معک نتخطف من ارضنا ) (۱) یعنی اگر ہم تمہارے ساتھ ایمان لے آئیں تو اپنی سرزمین سے اچک لئے جائیں گے،

۴۵

بالفاظ دیگر انہوں نے اسلام قبول نہ کرنے کیلئے یہ بہانہ تراشا کہ اگر وہ ایمان لے آئے تو مشرکین عرب ان کے ایمان لانے اور بتوں کو ٹھکرانے کی وجہ سے ناراض ہوجائیں گے_

قرآن نے اس کا جواب یوں دیا ہے( اولم نمکن لهم حرما آمنا يُجبی الیه ثمرات کل شی رزقا من لدنا ) (۲) کیا ہم نے انہیں امن کے مقام حرم مکہ میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل ہماری دی ہوئی روزی کی بناپر چلے آر ہے ہیں_

بنابرایں اس خوف کی کوئی وجہ نہ تھی نیز اس خوف کے بہانے شرک پر باقی رہنے سے بھی خطرہ ٹل نہیں سکتا تھا کیونکہ کتنی ہی بستیوں کو خدانے ہلاک کرڈالا تھا جن کے مکین نعمتوں کی کثرت کے باعث بہک گئے پھر ان گھروں میں رہنے والا کوئی نہ رہا بلکہ یہی بات دنیا میں ان کی ہلاکت کی وجہ بنی کیونکہ اگر ان تمام امکانات اور مادی وسائل کو صحیح راہوں پر چلانے والے اور حال و مستقبل کے لحاظ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر فائدہ مند بنانے والے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہ ہوں تو یہی چیزیں باہمی اختلافات، ظلم و استبداد اور معاشرتی و قومی بربادی والے دیگر انحرافات کا باعث بنتی ہیں_

ہر چیز کا اختیار خداکے دست قدرت میں ہے_ جو کوئی بھی اس کی نافرمانی کرتاہے وہ اپنی ذات کو دنیوی اور اخروی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے پھر خدانے ان کیلئے قارون کی مثال بھی دی جس کے پاس اس قدر خزانے تھے جن کی چابیاں اٹھانے سے ایک طاقتورجماعت بھی عاجز تھی_ لیکن جب اس نے ہٹ دھرمی تکبر اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا اور احکام الہی کی مخالفت کی تو خدانے اسے گھر سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا_

متعلقہ سورہ کی آیات میں عجیب نکتے اور لطیف معانی پوشیدہ ہیں جو مستقل اور عمیق مطالعے کے محتاج ہیں لیکن یہاں اس کی گنجائشے نہیں یہاں ہم اسی اجمال اور اشارے پر اکتفا کرتے ہیں، خداوند عالم توفیق عطا کرنے اور مدد کرنے والا ہے_

___________________

۱ و ۲ _سورہ قصص، آیت ۵۷_

۴۶

مذاکرات کی ناکامی کے بعد

مذاکرات کی ناکامی کے بعدحضرت ابوطالب سمجھ گئے تھےکہ اب معاملہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور مشرکین سے کھلی جنگ کا مرحلہ قریب ہے لہذا حضرت ابوطالب نے حفظ ماتقدم کے طورپر بنی ہاشم اور بنی مطلّب سب کو جمع کیا اور ان کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حمایت و حفاظت کرنے کی دعوت دی تو ابولہب ملعون کے سوا انہوں نے مثبت جواب دیااور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کیلئے آمادہ ہوگئے _

خدانے بھی اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور مشرکین آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ہاں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجنون، ساحر، کاہن، اور شاعر کہہ کرپکارتے ر ہے لیکن قرآن ان لوگوں کو جھٹلاتا رہا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم راہ حق پرقائم ر ہے مشرکین کی افتراپردازیاں آپ کو خفیہ و اعلانیہ دعوت حق دینے سے کبھی نہ روک سکیں_

درحقیقت جب مشرکین نے دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات کو ضرر پہنچانے کا نتیجہ مسلح جھڑپ ہوگا جس کیلئے وہ آمادہ نہ تھے اور خاص کر بنی ہاشم کے روابط اور قبائل کے ساتھ ان کے معاہدوں مثلاً مطیبین کے معاہدہ اور جناب عبدالمطلب کے ساتھ مکہ کے نواح میں رہنے والے قبیلہ خزاعہ کے معاہدے کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی یقیننہ تھا کہ اس جھڑپ کا نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا_ بلکہ اگر یہ جنگ چھڑتی تو ممکن تھا کہ اس سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا موقع ملتا_(۱) توان تمام باتوں کے پیش نظر مشرکین نے بہتر یہ سمجھا کہ جنگ سے بچا جائے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کمزور بنانے اور اس کی تبلیغ کا مقابلہ کرنے کیلئے دیگر طریقوں سے کام لیا جائے_

چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرکین:

الف : لوگوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانی آیات قرآن سننے سے منع کرتے تھے جیساکہ

___________________

۱_ بعض محققین کا خیال ہے کہ شاید حضرت ابوطالب نے کبھی نرمی اور کبھی سختی برتنے کی روش اسلئے اختیار کی تاکہ اس قسم کی ایک جنگ چھڑ جائے جس سے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا پیغام پھیلانے کا بہتر موقع مل جائے_

۴۷

ارشاد الہی ہے:( وهم ینهون عنه وینا وْنَ عنه ) (۱) یعنی وہ قرآن سے دوسروں کو منع کرتے تھے اور خود بھی دوری اختیار کرتے تھے_ نیزفرمایا:( وقال الذین کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن و الغوافیه لعلکم تغلبون ) (۲) یعنی کافروں نے کہا اس قرآن کو نہ سنو اور اس کی تلاوت کے وقت شور مچاؤ شاید اس طرح ان پر غالب آسکو_

ب: حضور کا مذاق اڑانے اور آپ پر بے بنیاد تہمتیں لگانے کی روش اختیار کئے ہوئے تھے تاکہ وہ:

۱_ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات پر دباؤ ڈال سکیں کیونکہ ان کے گمان باطل میں شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسیاتی طورپر شکست کھاجائیں گے اور احساس کمتری و حقارت کاشکار ہوکر اپنے مشن سے ہاتھ اٹھا لیں گے_

۲_نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرتبے کو گھٹاکر نیز آپ کی شخصیت کو مسخ کر کے کمزور ارادے کے مالک افراد کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین میں داخل ہونے سے روکیں _اسی مقصد کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بیوقوف لوگوں کو اس بات پر اکساتے تھے کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کواذیت پہنچائیں اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلائیں _بسا اوقات قریش کے رو سا بھی اس قسم کے کاموں کا ارتکاب کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے کسی غلام کو حکم دیا کہ وہ حیوان کی اوجھڑی اور گوبر حالت نماز میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر ڈال دے چنانچہ غلام نے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پر پھینک دیا _اس بات سے حضرت ابوطالب غضبناک ہوئے اور آ کر وہ گندگی مشرکین کی مونچھوں پر مل دی _اس طرح خدا نے ان کے اوپر رعب طاری کر دیا_ مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر مٹی اور بکری کی بچہ دانی وغیرہ بھی ڈالتے تھے_

ان باتوں نے لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور رکھنے اور انہیں قبول اسلام سے روکنے میں کچھ حد تک اپنا اثردکھایا یہاں تک کہ عروة بن زبیر اور دوسروں کاکہنا ہے کہ مشرکین حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو ناپسند کرتے تھے، وہ اپنے زیر دست افراد کو آپ کے خلاف اکساتے تھے یوں عام لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوری اختیار کرگئے_(۳)

___________________

۱_سورہ انعام، آیت ۲۶_

۲_ سورہ فصلت، آیت ۲۶_

۳_تاریخ طبری، ج ۲ ص ۶۸_

۴۸

مکہ کے ستم دیدہ مسلمان

مذکورہ باتوں کے علاوہ مشرکین نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب سے انتقام لینے کی ٹھانی جو مختلف قبائل میں زندگی گزارتے تھے _چنانچہ ہر قبیلے نے اپنے اندر موجود مسلمانوں کو ستانے، انہیں اپنے دین سے دوبارہ پلٹانے، قیدکرنے، مارنے پیٹنے، بھوکا رکھنے، مکہ کی تپتی زمینوں پر سزا دینے، نیزدیگر ظالمانہ اور وحشیانہ طریقوں سے ان کو اذیت دینے کا سلسلہ شروع کیا_

ذکر مظلوم :

مشرکین نے کئی مسلمانوں پر ستم کیا _ عمر بن خطاب نے بھی قبیلہ بنی عدی کی شاخ بنی مؤمل کی ایک مسلمان لڑکی پر تشدد کیا_ وہ اسے مارتا رہا اور جب وہ مار مار ہلکان ہوگیا تو بولا '' میں تمہیں صرف تھکاوٹ سے تنگ آکر چھوڑ رہا ہوں''(۱) _ شاید قبیلہ بنی مؤمل نے عمر بن خطاب کو اپنے قبیلے کی لڑکی پر تشدد کرنے کی اجازت دے رکھی تھی وگرنہ معاشرے میں اس کی اتنی حیثیت ہی نہیں تھی کہ اسے اس جیسے کام کی کھل چھٹی دے دی جاتی _ اسی طرح مشرکین نے خباب بن الارت ، ام شریک ، مصعب بن عمیر اور دیگر لوگوں پر بھی تشدد کیا جن کے نام اور واقعات کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں ہے_

انہی لوگوں نے ہمارے لئے توحید اور عقیدے کی خاطر استقامت اور جہاد کی عمدہ مثال پیش کی ہے_ حالانکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ارادہ الہی کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مشرکوں کو اس تشدد سے باز رکھ سکے _ پھر بھی انہوں نے اپنے اسلام کے بل بوتے پر اس پوری دنیا کو چیلنج کیا ہوا تھا جو اپنی تمام تر توانائیوں سمیت ان کے مقابلے پر اتر آئی تھی _ اور اسی چیز میں ہی ان کی عظمت اور خصوصیت پوشیدہ تھی _

___________________

۱_ سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۴۱ ، سیرہ حلبیہ ج۱ ص ۳۰۰ اور ملاحظہ ہو: السیرة النبویہ ابن کثیر ج۱ ص ۴۹۳ اور المحبر ص ۱۸۴_

۴۹

حضرت ابوبکر نے کن کو آزاد کیا؟

راہ خدامیں اذیت پانے والوں میں بلال حبشی اور عامر بن فہیرہ بھی تھے، کہتے ہیں کہ ان کو حضرت ابوبکر نے خرید کر آزاد کیا اور انہیں حضرت ابوبکر کی وجہ سے نجات حاصل ہوئی_ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک مشکوک ہے کیونکہ:

اولا: اسکافی نے کہا ہے'' بلال اور عامربن فہیرہ کو خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے آزاد کیاہے''_ اور اسے واقدی اور ابن اسحاق نے بھی نقل کیا ہے_(۱)

علاوہ ازیں ابن شہر آشوب نے بلال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں آزاد شدگان میں شمار کیا ہے_(۲)

ثانیا: اس بارے میں وہ خود متضاد روایتیں ذکر کرتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی ربط ہی نہیں بنتا_

اس سلسلے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ہم حضرت ابوبکر کی طرف سے اداکی جانے والی قیمت میں اختلاف کا ہی ذکر کریں چنانچہ ایک روایت کہتی ہے حضرت ابوبکر نے اس کی قیمت میں اپنا ایک غلام دے دیا جو (بلال) سے زیادہ مضبوط تھا_

دوسری روایت کہتی ہے کہ اس کی قیمت کے طورپر ایک غلام، اس کی بیوی اور بیٹی کے علاوہ دو سو دینار بھی دیئے_

تیسری روایت کی رو سے سات اوقیہ(۳) سونے میں خریدا_

چوتھی روایت کے مطابق نو اوقیہ میں_

___________________

۱_ شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۷۳ اور قاموس الرجال ج ۵ ص ۱۹۶ و ج ۲ ص ۲۳۸ کی طرف رجوع کریں_

۲_المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۷۱_

۳_ اوقیہ رطل کا بارہواں حصہ جو چو تھائی چھٹانک تک ہوتا ہے_ (المنجد، مترجم)_

۵۰

پانچویں روایت کے مطابق پانچ اوقیہ کے بدلے اور چھٹی روایت کے مطابق ایک رطل(۱) سونے کے عوض خریدا_

ساتویں روایت کا کہنا ہے کہ حضرت ابوبکر نے اسے اپنے غلام قسطاس کے بدلے خریدا جو دس ہزار دینار کے علاوہ کنیزوں، غلاموں اور مویشیوں کا مالک تھا_

آٹھویں روایت کی رو سے اس کی قیمت ایک کمبل اور دس اوقیہ چاندی تھی علاوہ بریں اس مسئلے میں مزید اختلاف موجود ہے(۲) _

ثالثا :کہتے ہیں کہ اسی مناسبت سے( فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنیسره للیسری ) (۳) والی آیات حضرت ابوبکر کے حق میں نازل ہو ئیں(۴) حالانکہ:

۱_ اسکافی نے اسے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک قول کے مطابق یہ آیات مصعب ابن عمیر کے بارے میں اتری ہیں_(۵)

۲_ علاوہ برآں ابن عباس وغیرہ بلکہ خودرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے مروی احادیث میں اس آیت کی تفسیر کو عام قرار دیا گیا ہے اور اسے کسی فردسے مختص نہیں سمجھا گیا، شیعوں کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں نازل ہوئی، حلبی نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے احسان چکا دیا تھا اور وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ہاں آپ کا تربیت پانا تھا جبکہ آیات یہ کہتی ہیں کہ اس پرکسی کاکوئی احسان نہیں جس کا چکانا ضروری ہو_ رازی نے بھی یہی اعتراض کیا ہے_(۶)

___________________

۱_ رطل، ایک وزن مساوی ۱۲ اوقیہ کے ہے_ (المنجد، مترجم)_

۲_ گذشتہ اختلافات کے معاملہ میں مراجعہ ہو: سیرہ حلبیہ ج۱ ص ۲۹۸ و ۲۹۹ ، قاموس الرجال ج ۱ ص ۲۱۶ ، سیر اعلام النبلاء ج۱ ص ۳۵۳، سیرہ نبویہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۴۰ ، حلیة الاولیاء ج۱ ص ۱۴۸ اور بہت سے دیگر منابع

۳_ سورہ لیل، آیت ۵،۷_

۴_ درمنثور ء ۶ ص ۳۵۸،۳۹۰ کئی کتب سے ماخوذ نیز السیرة الحلبیة ہ ج ۱ ص ۲۹۹ اور شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۷۳ بہ نقل از جاحظ اور عثمانیہ ص ۲۵ _

۵_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۳ ص ۲۷۳_

۶_ السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹_

۵۱

لیکن رازی اور حلبی یہ نہیں جانتے کہ یہاںمرادکچھ اورہے یعنی خدا اس صاحب تقوی شخص کی صفت بیان نہیں کررہا بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ مال جو وہ خرچ کررہا ہے اسلئے خرچ نہیں کر رہا کہ کسی شخص کی طرف سے اس کی جزا ملے بلکہ وہ فقط اور فقط خدا کی مرضی کیلئے خرچ کررہا ہے _

۳_ ابن حاتم کے بیان کے مطابق یہ سورہ سمرة بن جندب کے بارے میں نازل ہوئی جو ایک درخت کھجور کا مالک تھا اس درخت کی شاخ ایک نادار شخص کے گھر میں تھی_ جب سمرة کھجور چننے درخت پر چڑھتا تو گاہے کچھ دانے گرپڑتے اور نادار شخص کے بچے وہ اٹھالیتے _یہ دیکھ کر سمرة درخت سے اترتا اور ان کے ہاتھوں سے دانے چھین لیتا اوراگر وہ منہ میں ڈال لیتے تو اپنی انگلی ڈال کر کھجور باہر نکال لیتا _پس نادار شخص نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس اس کی شکایت کی _اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی سمرة سے ملاقات ہوئی ،آپ نے اس سے کہا کہ وہ اس درخت کو جنت کے ایک درخت کے بدلے فروخت کر دے_ سمرة بولامجھے بہت کچھ ملا ہوا ہے میں خرما کے بہت سارے درختوں کا مالک ہوں ان میں سے کسی کا پھل اس درخت کے پھل سے زیادہ مجھے پسند نہیں_

ایک اورشخص جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور سمرة کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس آیا اورعرض کیا کہ اگر میں اس درخت کو حاصل کروں توآپ مجھے وہی چیز عنایت کریں گے جس کا آپ نے سمرة سے وعدہ فرمایا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے یہ سن کر وہ چلا گیا اور درخت کے مالک سے ملا _پھر خرما کے چالیس درختوں کے بدلے اس نے سمرة سے وہ درخت خرید لیا_ پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا اور درخت آپ کو ہدیہ کر دیا_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مالک مکان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اب یہ درخت تمہارا اور تمہارے گھروالوں کا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:( واللیل اذا یغشی ) (۱)

اسی لئے سیوطی نے سورہ اللیل کے بارے میں کہا ہے کہ قول معروف کے مطابق یہ سورہ مکی ہے نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدنی ہے کیونکہ اس کے سبب نزول میں خرما کے درخت کا واقعہ منقول ہے جیساکہ ہم نے اسباب نزول کے بارے میں ذکر کیا ہے_(۲)

___________________

۱_ درالمنثور ج ۶ ص ۳۵۷ از ابن ابی حاتم از ابن عباس اور تفسیر برہان ج ۴ ص ۴۷۰ از علی ابن ابراہیم ، در منشور سے منقول بات سے کچھ اختلاف کے ساتھ_

۲_ الاتقان ج ۱ ص ۱۴_

۵۲

یہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ منقول واقعہ ان آیات کے ساتھ متناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت کہتی ہے، کسی نے راہ خدا میں مال دیکر تقوی اختیار کیا لیکن کسی نے بخل سے کام لیا اور لاپروائی اختیار کی_

ہاں اگر ان کا عقیدہ یہ ہو کہ بخل کرنے والے سے مراد (نعوذ باللہ ) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تھے تو اور بات ہے جبکہ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال کے فقدان کی صورت میں آپ پر بخل صادق نہیں آتا، نیز خود یہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے_ یا پھر بخلکرنے والے سے مراد جناب عباس تھے جن کے بارے میں روایات کہتی ہیں کہ اس نے جاکر بلال کو خریدا اور ابوبکر کے پاس بھیجا پھر انہوں نے بلال کو آزاد کیا_

۴_ حدیث غار میں ہم حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کریں گے کہ قرآن میں آل ابوبکر کے بارے میں کوئی آیت نازل ہی نہیں ہوئی_ ہاں حضرت عائشہ کا عذر نازل ہوا یعنی سورہ نور میں حدیث افک (تہمت) سے متعلق آیات اور حضرت عائشہ کی اپنے متعلق صفائی بھی نازل ہوئی_ لیکن درحقیقت وہ آیت بھی حضرت عائشہ کے متعلق نازل نہیں ہوئی جیساکہ ہم نے اپنی کتاب حدیث الافک میں اس کا تذکرہ کیا ہے_

رابعاً: یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آسکی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یہ کیونکر فرمایا کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے کیونکہ ایک طرف تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر سے بلال کو مشترکہ طور پر خریدنے کا تقاضا کیا تو ابوبکر نے بتایا کہ اس نے بلال کو آزاد کر دیا ہے_(۱) وہ ان دو اقوال کے درمیان کیسے ہماہنگی پیدا کرسکتے ہیں؟ علاوہ برایں کیا حضرت خدیجہ (س) کے اموال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں نہ تھے؟ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کے مسلمانوں پر یہ اموال خرچ نہ کرتے تھے؟ جیساکہ اسماء بنت عمیس کو حضرت عمرنے ہجرت کے شرف سے محروم رہنے کا طعنہ دیا تو اس نے جواب میں کہا: ''بے شک وہ اور اس کے دیگر مسلمان ساتھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھوکوں کو سیر کراتے اور جاہلوں کو علم سکھاتے تھے'' اس واقعے کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ اپنے مقام پرہوگا_

___________________

۱_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۶۵_

۵۳

رہا اس بات کا احتمال کہ بلال والا واقعہ ہجرت سے قبل کے آخری سالوں میں واقع ہوا ہے تو اسے مورخین قبول نہیں کرتے کیونکہ نووی کہتے ہیں '' وہ اعلان نبوت کی ابتدا میں مسلمان ہوئے وہ سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والوں میں سے تھے''_(۱) مگر یہ کہا جائے کہ بلال مسلمان تو بہت پہلے ہوگئے تھے لیکن کچھ سال بعد انہیں خرید کر آزاد کیا گیا تھا_

ان ساری باتوں کے علاوہ یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ حضرت بلال کو حضرت عباس نے خرید کر حضرت ابوبکر کے پاس بھیجا اور انہوں نے اسے آزاد کیا_(۲) بعض دیگر روایات کہتی ہیں کہ حضرت بلال کو حضرت ابوبکر نے بذات خود خرید کر آزاد کیا_ نیز ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو کہتی کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی وفات ہوئی تو حضرت بلال نے ابوبکر سے کہا ''اگر تم نے مجھے اپنے لئے خریدا تھا تو اپنا غلام بنائے رکھو اور اگر رضائے الہی کیلئے خریدا تھا تو پھر مجھے آزاد کردو''_

اس روایت کی رو سے تو وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کو آزاد نہیں کیا تھا_ رہی حضرت عباس کے حضرت بلال کو خریدنے کی بات تو یہاں ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ حضرت عباس نے اگر بلال کو اپنے لئے خریدا تھا تو انہوں نے خود حضرت بلال کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور اگرحضرت عباس نے حضرت ابوبکر کے لئے خریدا تھا تو وہ حضرت ابوبکر کے وکیل کب بنے تھے؟ اور اس قسم کے کاموں میں کب سے دلچسپی لینے لگے تھے؟ جبکہ انہی لوگوں کے بقول حضرت عباس نے فتح مکہ کے سال یا جنگ بدر میں اسلام قبول کیا تھا_

بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ حضرت عباس نے امیة بن خلف سے بات کی پھر حضرت ابوبکرنے آکر حضرت بلال کو خریدلیا_(۳) یہ تو نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے _ زمانے کا دستور نرالا ہوتاہے_

گذشتہ نکات کے علاوہ اس بات کی طرف اشارہ کرنابھی ضروری ہے کہ خود حضرت ابوبکر کے معاشی

___________________

۱_تہذیب الاسماء و اللغات ج ۱ ص ۱۳۶_

۲_سیرت نبویہ از دحلان ج ۱ ص ۱۲۶ و السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹ نیز رجوع کریں المصنف ج ۱ ص ۲۳۴ کی طرف_

۳_ سیرت نبویہ از دحلان ج ۱ ص ۱۲۶ و السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹ نیز رجوع کریں المصنف ج ۱ ص ۲۳۴ کی طرف_

۵۴

حالات اس بات کی اجازت کب دیتے تھے کہ وہ کئی سو دینار دے سکتے؟ چہ جائیکہ ان کاایک غلام دس ہزار دینار کے علاوہ کنیزوں اور مویشیوں وغیرہ کا بھی مالک ہو( اگرچہ ہم فرض بھی کرلیں کہ اس دور میں عربوں کے غلام مال و دولت کے مالک بھی بن سکتے تھے) کیونکہ حضرت ابوبکر تاجر نہ تھے بلکہ چھوٹے بچوں کے استاد تھے پس ان کے پاس ہزاروں یاکم از کم سینکڑوں درہم و دینار کہاں سے آگئے تھے کہ جس سے سات یا نو افرادکو خرید کر آزاد کرتے_ غار والے واقعہ پر بحث کے دوران ہم انشاء اللہ حضرت ابوبکر کی مال و دولت کے بارے میں بھی اشارہ کریں گے_

بعض لوگوں نے تو حضرت ابوبکر سے منسوب غلاموں میں سے کئی ایک کے وجود میں ہی شک کیا ہے بالخصوص زنیرہ وغیرہ کے بارے میں_ جس کے متعلق سہیلی نے کہا ہے کہ عورتوں میں زنیرہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا_(۱)

سید حسنی کہتے ہیں: ''قریش ایمان لانے والوں کو سزائیں دیتے تھے تاکہ اسلام نہ پھیلے _وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہرقسم کا قیمتی اور نفیس مال دینے پر آمادہ تھے تاکہ وہ اپنے مشن سے دست بردار ہوجائیں _اس صورت میں قریش حضرت ابوبکر کے حق میں اپنے غلاموں سے کیسے دست بردار ہوسکتے تھے؟ اور ان کو سزا دیئے بغیر اتنی آسانی سے کیسے چھوڑ سکتے تھے''(۲) مگریہ کہاجائے کہ مال و دولت سے قریش کی محبت اور ساتھ ساتھ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی مایوسی کے سبب انہوں نے ایسا کیا (جیساکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے)_

کیا حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں برداشت کیں؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ اسلام کی راہ میں حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں برداشت کی ہیں_ کیونکہ جب ابوبکر اور طلحہ بن عبداللہ تیمی نے اسلام قبول کیا تو عمر بن عثمان نے دونوں کو پکڑکر ایک رسی میں ایک ساتھ باندھ دیا اور نوفل بن خویلد نے ان پر تشدد کرکے انہیں دین سے پھیرنے کی کوشش کی_ اسی لئے ابوبکر اور طلحہ کو'' قرینین ''

___________________

۱_ الروض الانف ج ۲ ص ۷۸_

۲_سیرة المصطفی ص ۱۴۹_

۵۵

کہا جاتا ہے _ البتہ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں باندھ کر ان پر تشدد کرنے والا صرف نوفل ہی ہے جبکہ اس دوران عمر بن عثمان کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا(۱) اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ :

۱_ وہ خود ہی کہتے ہیں'' خدانے حضرت ابوبکر کی حفاظت اس کی قوم کے ذریعہ سے کی ''(۲) اور یہ ان کے اس قول '' حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں اٹھائیں'' کے بالکل متضاد ہے_ اسی طرح ابن دغنہ کے اس قول ''اسے قوم سے نکال دیا گیا'' سے بھی متناقض ہے_

۲_ سیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جس قبیلہ سے بھی کوئی شخص اسلام لاتا تو صرف وہی قبیلہ اس پر تشدد کرتا تھا_ دوسرے قبیلہ والوں کو اس پر تشدد کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی_

۳_ اسکافی نے بھی یہی کہا ہے کہ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ یہ تشدد صرف غلاموں یا کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ سے ہوتا اور اس شخص پر ہوتا جس کی حمایت کرنے والا کوئی خاندان نہیں ہوتا تھا_(۳) اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر بڑے قابل اطاعت سردار اور بزرگ تھے_(۴) جس کے منتظر بزرگان قریش بھی رہتے تھے اور اس کی عدم موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرتے تھے_ حتی کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاملے میں بھی (جیسا کہ ابوبکر کے اسلام لانے والے واقعہ میں گذر چکا ہے) اسی کے پاس کوئی قطعی فیصلہ کرنے آئے تھے_ ان کی تعریفوں کے مطابق وہ بلند پایہ شخصیت ، بزرگ سردار اور قریش کے محترم رئیس تھے_(۵) پھر جناب ابوبکر اس گروہ سے کیسے ستائے گئے جو ان کے قبیلے سے بھی

___________________

۱_ اس بارے میں ملاحضہ ہو : العثمانیہ جاحظ ص ۲۷و ۲۸ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۳، سیرة ابن ہشام ج ۱ ص ۳۰۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۳۰، البدایہ و النہایہ ج ۲ ص ۲۹ ، بیہقی اور مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۹ اور البدء و التاریخ ج ۵ ص ۸۲_

۲_ البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۸ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۸۴ حاکم نے بھی اور ذہبی نے بھی اس کی تلخیص کے حاشیہ میں اس قول کو صحیح جانا ہے ، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۹، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۱، سنن احمد ، سنن ابن ماجہ ، سیرہ نبویہ دحلان ج ۱ ص ۱۲۶، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۶از کنز العمال ج ۷ ص ۱۴از ابن ابی شیبہ اور طبقات الکبری ابن سعد مطبوعہ صادر ج ۳ ص ۲۳۳_

۳_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۵_ ۴_ ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۵، سیرہ نبویہ دحلان ج ۱ ص ۱۲۳ اور سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۲۷۳_ ۵_ سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۳ اور البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶_

۵۶

نہ تھے؟ اور اس کی قوم نے اپنے سردار اور بلند پایہ شخصیت کو ایسے کیسے چھوڑدیا کہ وہ لوگ اس کی توہین کرتے رہیں؟اور ابن ہشام و غیرہ کے مطابق :'' اپنی قوم کا مونس ، محبت کرنے والا اور نرم خو تھا '' حتی کہ وہ کہتا ہے ''اس کی قوم کے افراد اس کے پاس جاکر کئی ایک امور کے لئے اس کی حمایت حاصل کرتے(۱) اور ابن دغنہ کے زعم میں : '' ایسے شخص کو کیونکر نکالا جاسکتا ہے؟ کیا تم ایسے شخص کو نکال باہر کر رہے جو گمنامی کا طالب ہے ، صلہ رحمی کرتاہے ، دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے ، مہمان نوا ز اور زمانے کی مصیبتوں پر دوسروں کا مدد گار ہے؟''(۲) _

توجہ : یہ ا لفاظ تقریباً وہی الفاظ ہیں جو وقت بعثت حضرت خدیجہ نے حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دلجوئی کے لئے کہے تھے_ ان الفاظ کو ابن دغنہ نے جناب ابوبکر کے ہجرت حبشہ کے وقت اس کے حق میں کہے ہیں جن کا سقم آئندہ معلوم ہوگا _یہاں بس پڑھتے جائیں ، سنتے جائیں اور پیش آیند پر تعجب بھی کرتے جائیں_ سنتا جاشرماتاجا _

پہلانکتہ : کیا حضرت ابوبکر قبیلہ کے سردار تھے؟

گذشتہ تمام باتیں ہم نے صرف ان کی باتوں کے اختلاف اور تناقض کو بیان کرنے کے لئے ذکر کی ہیں_ کیونکہ اگر ایک بات صحیح ہے تو دوسری صحیح نہیں ہے_ وگرنہ ہمیں ابوبکر کے عظیم سردار اور قابل اطاعت بزرگ ہونے میں شک ہے ، کیونکہ :

۱_ حضرت ابوبکر جب ابوسفیان کے ساتھ حج کوگئے تو (وقت تلبیہ) اس نے اپنی آواز ابوسفیان کی آواز سے اونچی رکھی ، ابوقحافہ نے اس سے کہا :'' ابوبکر اپنی آواز ابن حرب کی آواز سے دھیمی رکھو'' جس پر ابوبکر نے کہا :'' اے ابوقحافہ خدا نے اسلام میں وہ گھر بنائے ہیں جو پہلے نہیں بنے تھے اور وہ گھر ڈھادیئےیں جو زمانہ جاہلیت میں بنے ہوئے تھے_ اور ابوسفیان کا گھر بھی ڈھائے جانے والے گھروں میں سے ہے''_(۳)

۲_ جب ابوبکر کی بیعت کی جا رہی تھی تو ابوسفیان چلا اٹھا: '' امر خلافت کے لئے قریش کا سب سے پست

___________________

۱_ سیرہ ابن ہشام ج ۱ ص ۳۶۷ اور سیرہ نبویہ ابن کثیر ص ۴۳۷_

۲_ سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۱۰۳ اور اس بارے میں مزید منابع کا ذکر ہجرت ابوبکر کی بحث کی دوران ہوگا ان شاء اللہ _

۳_ ملاحظہ ہو : النزاع و التخاصم مقریزی ص ۱۹ اور اسی ماخذ سے ذکر کرتے ہوئے الغدیر ج ۳ ص ۳۵۳_

۵۷

گھرانہ تم پر غالب آگیا ہے'' اور حاکم کی عبارت میںیوں آبا ہے '' اس امر خلافت کا کیا ہوگا جو قریش کے سب سے کم مرتبہ اور ذلیل شخص یعنی ابوبکر کے پاس آیا ہے''(۱) جبکہ بلاذری کی عبارت یوں ہے: ''ابوسفیان نے حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آکر کہا ہے '' یا علیعليه‌السلام تم لوگوں نے قریش کے ذلیل ترین قبیلے کے آدمی کی بیعت کی ہے''(۲)

۳_ شاعر عوف بن عطیہ کا کہنا ہے:

و اما الا لامان بنوعدی ---- و تیم حین تزد حم الامور

فلا تشهد بهم فتیان حرب ---- و لکن ادن من حلیب و عیر

اذا رهنوا رماحهم بزبد ---- فان رماح تیم لا تضیر(۳)

اور قبیلہ بنی عدی اور تیم تو مشکلات کی بھیڑ میں واویلا کرنے والے پست اور بے صبرے ہیں_ انہیں کوئی جنگجو نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ایک جماعت اور قافلے سے بھی مغلوب ہونے والے ہیں_ انہیں مکھن (چکنی چپڑی باتوں) کے بدلے میں نیزے گروی رکھ لینے چاہئیں کیونکہ اب ان کے نیزے کسی کام کے نہیں ہیں_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو : المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۴۵۱ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۷۸ از ابن عساکرو ابواحمد دہقان ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۳۲۶، تاریخ طبری ج ۲ ص ۹۴۴، النزاع و التخاصم ص ۱۹ اور کنز العمال ج ۵ ص ۳۸۳و ۳۸۵از ابن عساکروابواحمد دہقان_

۲_ انساب الاشراف بلاذری (حصہ حیات طیبہ) ص ۵۸۸ _(اسی طرح منہاج الراعہ شرح نہج البلاغہ حبیب اللہ خوئی کے ترجمہ اردو ج ۳ ص ۵۰ پر جناب ابوبکر کے خاندانی پس منظر کے ذکر کے بعد آیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ابوسفیان نے ان کا خاندانی پس منظر یاد کرکے حضرت علیعليه‌السلام سے کہا:'' ارضیتم یا بنی عبد مناف ان یلی علیکم تیمی رذل'' اے بنی عبد مناف کیا تم ایک رذیل تیمی کی حکومت پر راضی ہوچکے ہو؟ ''حاکم نیشاپوری اور ان حجر نے لکھا ہے کہ جب ابوقحافہ نے اپنے بیٹے کی حکومت کا سناتو کہا : '' کیا بنی عبدمناف اور بنی مغیرہ میرے بیٹے کی حکومت پر راضی ہوگئے؟ '' لوگوں نے بتایا : '' جی ہاں'' تو اس وقت اس نے کہا تھا :'' اللهم لا واضع لما رفعت و لا رافع لما وضعت '' خدایا جسے تو بلند کرے اسے کوئی پست نہیں کرسکتا اور جسے تو پست کرے اسے کوئی بلندی نہیں دے سکتا_ اگر چہ کہ ابوسفیان کی باتیں نیک نیتی کی بناپر نہیں تھیں لیکن اس سے دو باتوں کا علم ہوتا ہے : ۱_ حضرت ابوبکر نہ صرف قبیلہ کے رئیس نہیں تھے بلکہ ان کا خاندانی پس منظر بھی کچھ قابل ذکر نہیں ہے اس لئے تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے حضرت ابوبکر کی دولت سے اپنے نبی کو مالامال کردیا تھا_۲_ حضرت علیعليه‌السلام ہر لحاظ سے خلافت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیادہ حقدار تھے _ اسی لئے ابوسفیان صرف حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آیا تا کہ وہ حق دار ہونے کی بنا پر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ابوسفیان اپنے مقاصد حاصل کرے گا لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے اس کے ارادے بھانپ لئے تھے اور مناسب جواب دیا تھا _ از مترجم)_ ۳_ طبقات الشعراء ابن سلام ص ۳۸_

۵۸

دوسرا نکتہ :

دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں :'' ابوبکر اظہار اسلام کرنے والا پہلا شخص ہے جس کی قوم نے اس کی حمایت کی'' یا'' جس پر اسے اتنا ماراگیا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا ''(۱) تو ان لوگوں کی مذکور باتوں کو بہت ساری گذشتہ باتیں بھی جھٹلاتی ہیں اور یہاں پر بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ دعوت اسلام کے اعلان کرنے والی سب سے پہلی شخصیت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات والا صفات تھی جناب ابوبکر نہیں تھے_ اور مذکورہ بات تو ان متضاد باتوں کے علاوہ ہے جو یہ لوگ کبھی تو کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے سب سے پہلے اظہار اسلام کیا تھا ، کبھی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کیا تھا اور یہاں پر وہ یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر نے ایسا کیا تھا؟ (حافظہ کہاںگیا؟)

اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ ابوبکر کا اظہار اسلام اس وقت تھا جب مسلمانوں کی تعداد ۳۸ افراد تک پہنچ گئی تھی اور حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر میں تشریف فرماتھے_ جبکہ ہم پہلے یہ بتاچکے ہیں کہ ابوبکر تو اس وقت تک بھی اسلام نہیں لائے تھے کیونکہ وہ پچاس سے زیادہ افراد کے اسلام لانے کے بعد مسلمان ہوئے تھے_ مگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کا مقصد یہ ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد اسلام لانے والوں کی تعداد ۳۸ افراد تک پہنچنے کے بعد ابوبکر مسلمان ہوا تھا_ لیکن یہ بات بھی روایت کی اس تصریح کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتی جس میں آیاہے کہ ابوبکر کا مسلمان ہونا جناب حمزہ کے اسلام لانے کے دن تھا جس وقت نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر میں تشریف فرما تھے_

اسلام میں سب سے پہلی شہادت

قریش کے ہاتھوں آل یاسرکو سخت ترین سزائیں دی گئیں نتیجتاً حضرت عمار کی ماں حضرت سمیہ، فرعون قریش ابوجہل (لعنة اللہ علیہ) کے ہاتھوں شہید ہوگئیں وہ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی سب سے پہلی

___________________

۱_ سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۹ تا ۴۴۹ ، البدایہ و النہایة ج ۳ ص ۳۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۲۹۴ اور الغدیر ج ۷ ص ۳۲۲ از تاریخ الخمیس و الریاض النضرہ ج ۱ ص ۴۶_

۵۹

ہستی ہیں_(۱) حضرت سمیہ کے بعد حضرت یاسر (رحمة اللہ علیہ) شہید ہوئے_البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے پہلے شہید حضرت حارث ابن ابوہالہ ہیں_ وہ اس طرح کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد الحرام میں کھڑے ہو کر فرمایا: '' اے لوگو لا الہ الا اللہ کہو تاکہ نجات پاؤ ''یہ سن کر قریش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ٹوٹ پڑے، سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فریاد رسی کیلئے پہنچنے والا یہی حارث تھا اس نے قریش پر حملہ کرکے انہیں آپ کے پاس سے ہٹایا جبکہ قریش نے حارث کارخ کیا اور اسے قتل کر دیا_(۲)

لیکن یہ واقعہ درست نہیں کیونکہ (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا) خدانے حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے ذریعے اپنے نبی کی حفاظت کی، چنانچہ قریش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بال بھی بیکا کرنے کی جر ات نہ کرسکے_اسی طرح بنی ہاشم کے دوسرے ایمان لانے والوں کی حالت ہے کیونکہ وہ لوگ حضرت جعفر (رض) حضرت علیعليه‌السلام اور دیگر افراد پر بھی حضرت ابوطالب کے مقام کی وجہ سے تشدد نہیں کرسکے_

علاوہ برایں مورخین کا تقریبا ًاتفاق ہے کہ اسلام کی راہ میں سب سے پہلی شہادت حضرت سمیہ اور اس کے شوہر حضرت یاسر کو نصیب ہوئی مزید یہ کہ اعلانیہ تبلیغ کی کیفیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ مذکورہ باتوں کے صریحاً منافی ہے (عنوان '' فاصدع بما تؤمر'' کا مطالعہ فرمائیں)_

یہاں ہمارے خیال کے مطابق اس واقعے کو گھڑنے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ حضرت خدیجہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل ایک یا ایک سے زیادہ بار شادی کی تھی اور ان دونوں سے ان کی اولاد ہوئی لیکن قبل ازیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ان کی شادی کی بحث میں اس کا ذکر ہوچکا ہے جو مذکورہ بالا بات کو مشکوک ظاہر کرتی ہے_

عمار بن یاسر

بنی مخزوم نے عمار بن یاسر کوبھی زبردست اذیتیں پہنچائیں یہاں تک کہ وہ قریش کی من پسند بات کہنے پر

___________________

۱ _ الاستیعاب حاشیہ الاصابہ ج ۴ ص ۳۳۰ و ۳۳۱ و ۳۳۳ ، الاصابہ ج۴ ص ۳۳۴ و ۳۳۵، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۱ ص ۴۹۵، اسد الغابہ ج۵ ص ۴۸۱ اور تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸_

۲_ نور القبس ص ۲۷۵ از شرقی ابن قطامی، الاصابة ج ۱ ص ۲۹۳ از کلبی، ابن حزم اور عسکری نیز الاوائل ج ۱ ص ۳۱۱،۳۱۲_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159