اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34301
ڈاؤنلوڈ: 2511


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34301 / ڈاؤنلوڈ: 2511
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ان فضائل کے حامل نہیں تھے. اتنا ہی کافی ہے.

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اہلسنت ان حقائق کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

اہل ذکر کے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ : اگر تم ان حقائق سے واقف ہو، انہیں تسلیم کرتے ہو، ان کا انکار نہیں کرتے کیونکہ تم نے اپنی صحاح میں جس طرح پیش کیا ہے اگرچہ کترو بیونت کےساتھ نقل کیا ہے لیکن اتنے ہی سے تم نے خلافت راشدہ کی عمارت منہدم کر دی ہے.

اور اگر تم ان حقائق کا انکار کرتے ہو اور ان کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو تم نے اپنی صحاح کا اعتبار کھو دیا اور تمہاری جن معتبر کتابوں میں ان کا تذکرہ ہے ان کی تردید سے تمہارے سارے معتقدات کی عمارت تہس نہس ہو جائے گی.

۱۰۱

چھٹی فضل

خلافت سے متعلق

خلافت، آپ جانتے ہیں خلافت کیا ہے؟ اس کو خدا نے امت کے لئے آزمائش بنایا ہے کہ جس کو طمع پرور لوگوں نے تقسیم کر لیا اور اس کے سلسلہ میں بہت سے نیکو کار لوگوں کا خون بہا، یہ وہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان کافر ہوئے، اس نے صراط مستقیم سے منحرف کیا اور جہنم میں جھونک دیا ہم اس کی مختصر تاریخ کو پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جو خلافت کی ان مخفی اور لگی لپٹی باتوں کو آشکار کر دے جو رسول(ص) کی موجودگی اور وفات کے بعد خلافت کے سلسلہ میں ہوتی رہیں.

پہلی چیز جو ذہنوں میں خطور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست ( حاکمیت) اہل عرب کے نزدیک ہر زمانہ میں بدیہی امور سے مربوط رہی ہے آپ دیکھیں گے کہ عرب قبیلہ کے رئیس و سردار کو ہر معاملہ میں اپنے نفسوں پر مقدم کرتے ہیں وہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے جو کچھ طے کرتے ہیں اس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور اس کی بات پر سبقت نہیں کرتے.

۱۰۲

ان کا یہ رئیس عادتا عمر رسیدہ اور امور کو دیگر افراد سے بخوبی جاننے والا اور ان (عرب) کے درمیان حسب و نسب کے لحاظ سے اشرف و افضل ہوتا ہے.

اس رئیس قبیلہ پر جو بھی اس کے خاندان کا ذہانت، عقلمندی شجاعت اور دوسرے امور کے علم میں، مہمانوں کی ضیافت میں اس سے بہتر ثابت ہوتا ہے. وہی قبیلہ کا رئیس بن جاتا ہے، لیکن زیادہ تر ریاست میراث کے طور پر ملتی ہے.

اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں قبائل و خاندان اپنی تاستقلالیت کے باوجود اس ایک قبیلہ کی ریاست کے سائے میں رہتے ہیں، جو اموال و افراد کے لحاظ سے مضبوط ہوتا ہے. اس کے کچھ جیالے اور بہادر افراد ہوتے ہیں جو دوسرے قبیلوں کا دفاع اور حمایت کرتے ہیں. اس کی ایک مثال قریش ہے کہ جو عرب کے دوسرے قبیلوں کو اپنا مطیع سمجھتا ہے اور خانہ خدا کی کلید برداری کو اپنا حق تصور کرتا ہے.

اور جب اسلام آیا اس وقت رسول(ص) نے اس چیز کو اتنی اہمیت دی کہ جب بھی کوئی قبیلہ آپ کے پاس آتا اور اسلام کا اقرار کرنا تھا تو اسی وقد میں سے اس کے سردار اور شریف آدمی کو اس قبیلہ کا ریئس بنا دیتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ان سے زکوة وصول کرے اور رسول(ص) و قبیلہ کے درمیان واسطہ قرار دیا.

پھر محمد(ص) نے حکم خدا سے اسلامی حکومت تشکیل دی کہ جو اپنے احکام و استحکام میں وحی خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہے، پس اجتماعی اور انفرادی نظام جیسے عقود نکاح، طلاق، خرید و فروخت، لین دین اور

۱۰۳

میراث و زکوة اور اسی طرح ہر وہ چیز جو جنگ و معاملات و عبادات میں سے فرد یا اجتماع سے مخصوص ہو اس میں سب احکام خدا کے سامنے عاجز ہیں اور رسول(ص) کاکام احکام کو نافذ کرنا اور ان پر عمل کر کے بتانا ہے.

لامحالہ رسول(ص) اس بات پر غور کرتے ہوں گے کہ اس مہم کے سر کرنے کے لئے کس کو اپنا خلیفہ بنائیں.

اور یہ بات بھی بدیہی ہے کہ ہر حکومت کا صدر یا بادشاہ ( اگر وہ اپنی قوم کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو وہ) ان تمام مہمات میں کسی کو اپنا نائب بناتا ہے جو قوم و قبیلہ میں بادشاہ کی عدم موجودگی میں رونما ہوں گی لہذا یہ نائب اس کا وصی و وزیر اول ہے اور یہ وہ مقرب ہے کہ جب کوئی بھی بادشاہ کے پاس نہ ہوگا تو یہ حاضر رہے گا اور یہ بھی ضروری ہے کہ تمام وزراء اور قبائل اسے جانتے ہوں.

پس عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ رسول(ص) نے ان تمام باتوں سے چشم پوشی کرلی تھی. اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دی تھی جبکہ ان کا یہی کام تھا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، اسی موضوع سے متعلق بہت سی احادیث تھیں جن پر ان لوگوں نے پردہ ڈال دیا جو شوری کا نظریہ رکھتے تھے اور وہ افراد نے خلیفہ کے تعین و تشخص کے سلسلہ میں رسول(ص) کی عظمت و قداست کو مجروح کرنا چاہتے تھے، چنانچہ آپ پر ہذیان کا اتہام لگایا. اسامہ کے امیر بنانے کے بارے میں چہ می گوئیاں کیں اور کہا کہ وہ بچہ ہے اس میں قیادت کی صلاحیت نہیں ہے. پھر رسول(ص) کی وفات کے سلسلہ میں لوگوں کو شک میں مبتلا رکھا. تمام امور کو معطل کر دیا تاکہ مسلمان رسول(ص) کے منتحب کردہ خلیفہ کی بیعت نہ کر لیں، نصوص کی پامالی ہی سے متعلق ان کی یہ کوشش بھی تھی کہ انہوں نے

۱۰۴

علی(ع) اور یاران و انصار کو رسول(ص) کی تجہیز میں مشغول پاکر موقع غنیمت سمجھا ا ور سقیفہ میں جاکر میٹنگ منعقد کر لی اور اپنی مرضی سے خلیفہ چن لیا اور اس سے امیدیں وابستہ کر لیں پھر عام لوگوں سے بالجبر و اکراہ بیعت لینا شروع کر دی اور میدان سیاست سے لوگوں کو الگ رکھنے میں پوری کوشش صرف کر دی اور پوری طاقت و تواں کے ذریعہ کسی بھی لب کشائی کرنے والے کی سرکوبی میں یہ کہکر منہمک ہوگئے کہ وہ اتحاد کو پاش پاش کرنا چاہتا ہے، یا کہتے تھے کہ نئی شرعی خلافت ک بارے میں شک میں مبتلا ہے خواہ اب اقدام کرنے والی فاطمہ(ع) ہی ہوں.

اس کے بعد نبی(ص) کی احادیث پر پابندی لگا دی تاکہ خلافت سے متعلق نصوص لوگوں تک نہ پہونچ سکیں خواہ اس فردی معاملہ میں اجتماعی قتل و خونریزی کی نوبت ہی کیوں نہ آئی ہو اور یہ سب فتنہ کوبی کے نام پر ہوتا تھا. اور کبھی لوگوں پر کافر ہونے کا الزام لگا کر قتل کرتے تھے.

یہ تمام باتیں ہمیں مورخین کی تحریر سے معلوم ہوتی ہیں اگر چہ ان میں سے بعض نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ بعض متناقض روایات گڑھیں یا تاویلات و اعتذار کہ جن کی حقیقت کو مرور ایام و حادثات نے آشکار کر دیا.

ان "مورخین" میں سے بعض افراد معذور ہیں کیونکہ انہوں نے اولین مصادر سے معلومات فراہم کی ہیں کہ جو ان سیاسی اور اجتماعی حالات کے تحت لکھی گئی ہیں کہ جن سے عظیم فتنہ اٹھ کھڑا ہو اور یہ سب کچھ بنی امیہ کی خلافت کے دوران ہوا ہے کہ جنہوں نے بعض صحابہ اور تابعین کے درمیان اموال و مناصب تقسیم کر دیتے تھے.

لہذا بعض مورخین نے صحابہ سے حسن ظن کی بنا پر ایسی

۱۰۵

باتیں نقل کردی ہیں وہ ( بیچارہ) آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے راز سے واقف نہیں ہے لہذا صحیح اور جھوٹی روایات خلط ملط ہوگئیں اور محقق کے لئے حقیقت تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہوگیا.

محققین کے ذہن سے اس حقیقت کو قریب کرنے کے لئے چند سوالات پیش کرنا ضروری ہے تاکہ ان سوالات یا جوابات سے بعض حقائق سے پردہ ہٹ جائے یا بعض اشارات کا انکشاف ہو جائے کہ جو حقیقت تک پہونچانے والے ہیں.

سوالات و جوابات

بہت سی جگہوں سے میرے پاس بعض مہم سوالات پر مشتمل کچھ خطوط آئے ہیں ان خطوط سے قارئین محترم کے شوق اور ان کے ذوق تجسس کا پتہ ملتا ہے، ان میں سے بعض کے میں نے جواب روانہ کئے اور بعض کا جواب دینے سے اعراض کیا حالانکہ مجھے اس میں کوئی مہابہ نہ تھا. صرف اس وجہ سے جوابات نہیں لکھے کہ وہ سب میری کتاب " ثم اھتدیت" اور " لاکون مع الصادقین" میں موجود ہیں، افادیت کے پیش نظر میں ان سوالات کو مع جوابات کے اس فصل میں بیان کر رہا ہوں. یہی وجہ ہے کہ قارئین بعض احادیث و حادثات کو ایک ہی کتاب میں مکرر یا تینوں کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں گے. یہ کام میں نے کتاب خدا کی اقتدا کرتے ہوئے کیا ہے. قرآن نے ایک ہی بات کو مومنین کے ذہن میں بٹھانے کے لئے متعدد سوروں میں بیان کیا ہے.

۱۰۶

س-1-جب رسول(ص) یہ جانتے تھے کہ امت میں امر خلافت کے سبب جھگڑا ہوگا تو انہوں نے کیوں خلیفہ معین نہیں کیا؟

ج-1-رسول(ص) نے حجة الوداع کے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کو خلیفہ معین کیا تھا، آپ(ص) کے ہمراہ حج کرنے والے صحابہ نے اس کی گواہی دی ہے رسول(ص) یہ بھی جانتے تھے کہ امت عہد شکنی کرے گی اور اپنی پہلی حالت پر پلٹ جائے گی.

س-2-کسی صحابی نے رسول(ص) سے امر خلافت کے بارے میں سوال کیوں نہ کیا جبکہ وہ ہر چیز کے بارے میں پوچھتے تھے؟

ج-2-یقینا صحابہ نے اس سلسلہ میں سوالات کئے اور رسول(ص) جوابات دئے ہیں:

( يَقُولُونَ‏ هَلْ‏ لَنا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْ‏ءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ) سورہ آل عمراہ، آیت/154

( إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‏ ) مائدہ/56

وہ کہتے ہیں کیا کسی چیز میں ہمارا اختیار ہے. کہدیجئے کہ کل اختیار اللہ کا ہے.

تمہارا ولی خدا اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں.

جب صحابہ نے سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:میرے بعد یہ میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ہیں.

____________________

1.تاریخ طبری و تاریخ کامل باب" وانذر عشیرتک الاقربین" ملاحظہ فرمائیں.

۱۰۷

س-3-جب رسول(ص) امت کو گمراہی و ضلالت سے بچانے کے سلسلہ میں نوشتہ لکھنا چاہتے تھے اس وقت بعض صحابہ کیوں سد راہ بنے اور ہذیان کا بہتان لگایا؟

ج-3-یقینا صحابہ نے رسول(ص) کو نوشتہ نہ لکھنے دیا اور آپ(ص) پر ہذیان کا بہتان لگایا وہ (صحابہ) جانتے تھے کہ رسول(ص) تحریری شکل میں علی(ع) کو خلیفہ معین کریں گے کیونکہ چند روز قبل ہی رسول(ص) نے کتاب خدا اور عترت سے تمسک اختیار کرنے کے لئے فرمایا تھا. تاکہ امت کے بعد گمراہ نہ ہو. صحابہ سمجھ گئے تھے کہ اس نوشتہ میں بالکل وہی الفاظ لکھے جائیں گے. کیونکہ علی(ع) عترت کے راس و رئیس ہیں. اسی لئے صحابہ نے رسول(ص) پر ہذیان کی تہمت لگائی تاکہ وہ قطعی فیصلہ تحریر کی صورت میں نہ دے سکیں، یہی وجہ تھی کہ نوشتہ لکھنے سے قبل ہی شور و غوغا مچ گیا اور اختلاف و نزاع شروع ہوگیا. اور جب نبی(ص) ( صحابہ کے عقیدہ کے مطابق) ہذیان بکے گا تو ان کا نوشتہ بھی ہذیان ہوگا تو اب عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نہ لکھا جائے.

س-4- رسول(ص) نے نوشتہ لکھنے پر اصرار کیوں نہ کیا خصوصا جبکہ آپ(ص) امت کو ضلالت سے بچانا چاہتے تھے؟

ج-4- نوشتہ لکھنے پر اصرار کرنا رسول(ص) کی طاقت سے باہر تھا کیونکہ گمراہی سے محفوظ رکھنا" بیشتر صحابہ کے" ہذیان والے قول سے منتفی ہوگیا تھا. اب وہ نوشتہ گمراہی سے بچنے کے بجائے گمراہی کا مصدر بن جاتا ہے. اور ا گر رسول(ص) نوشتہ لکھنے پر اصرار کرتے تو آپ(ص) کے بعد بہت سے بے بنیاد جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے. یہاں تک کہ کتاب اور نصوص قرآن میں شک کیا جانے لگتا.

۱۰۸

س-5- رسول(ص) نے وفات سے قبل زبانی تین وصیتیں کی تھیں تو ہم تک فقط دو وصیتیں کیوں پہونچی ہیں اور ایک کیوں ضائع ہوگئی؟

ج-5- بات واضح ہے. پہلی وصیت کو اس لئے ضائع کر دیا گیا کہ وہ علی(ع) کی خلافت سے متعلق تھی اور خلفا نے خلافت سے متعلق کچھ کہنے سننے پر پابندی لگا دی تھی ورنہ ایک عاقل اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ رسول(ص) کوئی وصیت کریں اور ان کی وصیت کو بھلا دیا جائے جیسا کہ بخاری کہتے ہیں.

س-6- کیا رسول(ص) اپنی موت کا وقت جانتے تھے؟

ج-6- بیشک رسول(ص) پہلے سے اپنی موت کا وقت جانتے تھے اور حجة الوداع کی روانگی سے قبل بھی آپ(ص) کو اس علم تھا اور اسی لئے اس حج کو حجة الوداع کہتے ہیں اور صحابہ بھی آپ(ص) کی اس بات سے یہ جان گئے تھے کہ آپ(ص) کی وفات نزدیک ہے.

س-7- نبی(ص) نے ایسا لشکر کیوں تشکیل دیا تھا کہ جس میں سر برآوردہ مہاجرین و انصار اور اصحاب کبار کو شامل ہونے کا حکم دیا تھا اور اپنی موت سے دو روز قبل فلسطین کی طرف روانہ ہونے کے لئے کیوں کہا؟

ج-7- رسول(ص) نے یہ اقدام اس سازش سے آگاہ ہونے کے بعد کیا تھا جو قریش میں اندر، اندر کی گئی تھی اور انہوں (قریش) نے آپس میں یہ عہد کیا تھا کہ رسول(ص) کے بعد پیمان شکنی کریں گے اور علی(ع) سے خلافت چھین لیں گے، اس لئے آپ(ص) نے انہیں لشکر میں شامل کر کے اپنی موت سے قبل مدینہ سے باہر بھیجنا چاہا تھا تاکہ وہ اس وقت مدینہ واپس آئیں جب علی(ع) کی خلافت محکم ہو جائے. اس طرح وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو

۱۰۹

سکیں گے. اس کے علاوہ سریہ اسامہ کی کوئی علت بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے کہ اپنی موت سے دو روز قبل دار الخلافہ کو فوج اور طاقت سے خالی کر دیں.

س-8- رسول(ص) نے علی(ع) کو لشکر اسامہ میں کیوں نہیں شریک کیا؟

ج-8- کیونکہ رسول(ص) کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنا خلیفہ بنا کر دنیا سے جائیں تاکہ وہ آپ(ص) کے بعد تمام کاموں کو سنبھالے. اسی لئے علی(ع) کو اس لشکر میں شریک نہیں کیا تھا جس میں مہاجرین و انصار کخ نمایاں چہرے شامل تھے، اور ان میں ابوبکر و عمر و عثمان اور عبدالرحمن ابن عوف بھی تھے. رسول(ص) کا یہ عمل صاف بتاتا ہے کہ آپ کے بعد علی(ع) بلا فصل خلیفہ ہیں، اور جن لوگوں کو رسول(ص) نے جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم نہیں دیا تھا ان میں خلافت کی طمع نہیں تھی. اور نہ ہی وہ علی(ع) سے بغض رکھتے تھے. نہ ہی عہد شکنی کا ارادہ رکھتے تھے.

س-9- رسول(ص) نے ایک بے ریش کمسن جوان کو ان ( صحابہ) کا امیر کیوں بنایا؟

ج-9- اس لئے کہ وہ علی(ع) سے حسد کرتے تھے اور ان کے سلسلہ میں بد عہد تھے اور علی(ع) کو کمسن سمجھتے تھے، قریش کے ساٹھ سالہ بوڑھے تیس سالہ جوان علی(ع) کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تھے. پس نبی(ص) نے سترہ17 سالہ جوان اسامہ کو ان کا امیر بنایا تا کہ جس کی میں بھی نہیں بھیگی تھیں. صحابہ کی ناک گھسنا تھی تاکہ اولا ان پر اور ثانیا سارے مسلمانوں پر یہ واضح ہو جائے کہ اپنے ایمان میں سچا مومن وہ ہے جو اپنے نفس میں تنگی محسوس کرنے کے باوجود رسول(ص) کے حکم کو سنے اور اطاعت کرے، اسامہ ابن زید ابن حارث

۱۱۰

کو امیر المومنین سید الوصیین، باب علم النبی(ص) اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب(ع) سے کیا نسبت؟ اسی لئے صحابہ و قریش اسامہ کو امیر بنانے سے رسول(ص) کی تدبیر کو سمجھ گئے تھے اور اسامہ کی سرداری کے سلسلہ میں چہ میگوئیاں کرنے لگے اور ان کی معیت میں جانے سے انکار کر دیا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ان لوگوں میں وہ چالباز افراد بھی شامل تھے. جن کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے:

( وَ قَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ‏ وَ إِنْ كانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبالُ) سورہ ابراہیم، آیت/46

اور انہوں نے مکر کیا اور ان کا مکر خدا کے پاس ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا تھا جس سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں.

س-10- نبی(ص) کا غیظ متخلفین کے سلسلہ میں اتنا شدید کیوں ہوگیا تھا کہ ان پر لعنت تک کی؟

ج-10- یقینا رسول(ص) کے غیظ میں اس وقت شدت آگئی تھی جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ اسامہ کے امیر بنانے پر وہ طعن کر رہے ہیں ، طعن کا رخ رسول(ص) کی طرف تھا نہ کہ اسامہ کی طرف، اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ان لوگوں کا خدا و رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ، وہ اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے. رسول(ص) کے حکم کو نہیں. اسی لئے رسول(ص) نے ان پر لعنت کی کہ انہیں، ان کے پیروکاروں اور سارے مسلمانوں کو یہ بات بتادیں کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا. اس دلیل کی بنا پر یہ لوگ ہلاک ہوئے.

س-11- کیا کسی مسلمان پر لعنت کرنا جائز ہے خصوصا نبی(ص) کے لئے؟

۱۱۱

ج- جو صرف زبان سے اسلام کا اقرار کرے یعنی اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ کہے اور اس کے بعد خدا و رسول(ص) کے احکام کی اطاعت نہ کرے تو اس پر لعنت کرنا جائز ہے اس سلسلہ قرآن مجید میں بہت سی آیتیں موجود ہیں ہم ان میں سے ایک کو نقل کرتے ہیں:

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ‏ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَيِّناتِ وَ الْهُدى‏ مِنْ بَعْدِ ما بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتابِ أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ) سورہ بقرہ، آیت/159

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کر دینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی.

جب خدا حق چھپانے والوں پر لعنت کرتا ہے تو حق کا انکار کرنے والوں اور باطل پر عمل کرنے والوں پر لعنت کرنے میں کیا حرج ہے.

س-12- کیا رسول(ص) نے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لئے معین کیا تھا؟

ج- متضاد روایات سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو اس کام کے لئے معین نہیں کیا تھا ، ہاں اگر ہم عمر کے ہم عقیدہ ہو جائیں تو ممکن ہے رسول(ص) نے( معاذ اللہ) ہذیان کی حالت میں کچھ کہدیا ہو. اور جس کا یہ عقیدہ ہے وہ کافر ہے ورنہ ایک عقلمند اس بات کی تصدیق کیونکر کرسکتاہے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو یہ حکم دیا تھا کہ تم لوگوں کو نماز پڑھائو جبکہ انہیں جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم دے چکے تھے اور خود اسامہ کو ان (ابوبکر) کا امیر و امام بنایا تھا. پھر مدینہ تھا. پھر مدینہ میں ابوبکر کو کیسے امام جماعت بنا دیا جب کہ وہ مدینہ میں نہیں تھے. تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ نبی(ص) کی

۱۱۲

وفات کے روز ابوبکر مدینہ نہیں تھے. بعض مورخین من جملہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ حضرت علی(ع) نے عائشہ کو متہم کیا کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہلوا دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور جب نبی(ص) کو صورتحال معلوم ہوئی تو بہت غضبناک ہوئے اور عائشہ سے فرمایا : تمہیں جیسی عورتیں یوسف کےساتھ بھی تھیں. یہ فرما کر مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور ابوبکر کو ہٹا کر نماز پڑھائی تا کہ لوگوں کے پاس بعد کے لئے کوئی حجت نہ رہ جائے.

س-13- عمر ابن خطاب نے یہ قسم کیوں کھائی تھی کہ رسول(ص) نے وفات نہیں پائی اور ان لوگوں کو قتل کی دھمکی کیوں دی تھی جو کہہ رہے تھے کہ رسول(ص) نے رحلت فرمائی اور یہ دھمکی انہوں نے ابوبکر کے پہونچنے کے بعد کیوں دی؟

ج- یقینا عمر ان لوگوں کو قتل کی دھمکی دے رہے تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ رسول(ص) نے دار فانی کو خیر باد کہدیا. عمر یہ اس لئے کہہ رہے تھے تاکہ لوگ شش و پنج میں مبتلا ہو جائیں اور علی(ع) کی بیعت نہ کرسکیں یہاں تک کہ وہ جھگڑالو لوگ مدینہ پہونچ گئے جن کو منصب دینے پر معاہدہ ہوچکا تھا اور جو لوگ نہیں پہونچے تو انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے بازی جیت لی ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں. عمر ننگی تلوار لے کر لوگوں کو رعب میں لینے لگے، بیشک عمر لوگوں کو نبی(ص) کے حجرہ میں داخل ہونے سے منع کر رہے تھے تاکہ حالات کو کنڑول میں لے لیں. ورنہ کسی ایک شخص کو بھی حجرہ رسول(ص) میں کیوں نہیں داخل ہونے دیتے تھے. صرف ابوبکر وہاں آتے جاتے تھے جب ابوبکر کو یہ خبر ملی کہ ہم نے حالات پر قابو پالیا ہے تب وہ حجرہ نبی(ص) سے باہر نکلے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ جو شخص محمد(ص)کی پوجا کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد(ص) مرگئے اور جو خدا کی عبادت کرتا ہے تو بیشک خدا زندہ ہے. وہ

۱۱۳

کبھی نہیں مرے گا.

ہم یہاں اس قول پر ایک مختصر تعلیق لگانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کیا ابوبکر کا یہ عقیدہ تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی محمد(ص) کو پوجا کرتا ہے؟ہرگز نہیں یہ تو انہوں نے مجازی طور پر بنی ہاشم اور خصوصا علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کی تنقیض اور ہتک کے لئے کہا تھا کہ وہ سارے عرب پر یہ فخر کرتے تھے کہ محمد(ص) رسول اللہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان کے اہل و خاندان والے ہیں ہم تمام لوگوں سے زیادہ ان کی میراث کے حقدار ہیں.

یہ تعبیر عمر ابن خطاب کی اس تعبیر سے کہیں زیادہ فضیح ہے جو انہوں نے یوم رزیہ الخمیس میں اس طرح بیان کی تھی کہ " ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے" گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں محمد(ص) کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان کا قصہ تمام ہوا اور ان کا عہد گزر گیا، پھر ابوبکر نے اپنے اس قول سے اور تاکید کر دی کہ " جو شخص محمد(ص)کو پوجتا تھا وہ سن لے کہ محمد(ص) مرگئے"اس جملہ سے ابوبکر کی مراد یہ تھی کہ جو لوگ محمد(ص) کی وجہ سے ہم پر فخر کرتے تھے وہ آج سے پیچھے ہٹ جائیں. کیونکہ ان (محمد(ص)) کا قصہ تمام ہوگیا. ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے. وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گی. اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نبی(ص) کو حقیقت میں بنی ہاشم اور علی(ع) دوسروں سے بہتر سمجھتے تھے. وہ ان کے احترام اور تقدس و نفاذ امر میں مبالغہ کرتے تھے اور ان کی اتباع میں غلام، صحابہ اور قریش میں پردیسی افراد بھی ایسا ہی کرتے تھے. جب رسول(ص) تھوکتے تھے تو وہ ایک دوسرے پر سبقت کر کے اسے اٹھاتے تاکہ اپنے چہرہ پر ملیں اور ان کے وضو کے پانی اور بال کے لئے لڑتے تھے. یہ تمام غریب و نادار زمانہ رسول(ص) ہی سے علی(ع) کے شیعہ تھے اور انہیں اس نام سے

۱۱۴

خود رسول(ص) نے پکارا ہے.(1)

لیکن عمر ابن خطاب اور قریش میں سے بعض بلند پایہ صحابہ اکثر احکام نبی(ص) کے معارض ہوتے تھے اور آپ کی نافرمانی کرتے تھے بلکہ ان کے افعال سے اپنے کو دور رکھتے تھے. عمر ابن خطاب نے وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی کیوں کہ بعض صحابہ اسے با برکت سمجھتے تھے جیسا کہ اس زمانہ میں وہابیوں نے یہی کام کیا کہ انہوں نے آثار نبی(ص)کو مٹا دیا. یہاں تک کہ اس گھر کو بھی منہدم کر دیا جس میں آپ(ص) کی ولادت ہوئی تھی اور ان کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کو میلاد شریف کے سلسلہ میں جمع نہ ہونے دیا جائے ان کے تبرکات میں سے ایک صلوة ہے. اس کے لئے بھی بعض غافلین کو یہ سمجھا دیا کہ صلوة کامل شرک ہے.

س- 14- انصار مخفیانہ طور پر سقیفہ نبی ساعدہ میں کیوں جمع ہوئے تھے؟

ج- جب انصار کو قریش کی اس سازش کا علم ہوا جو انہوں نے علی(ع) کو خلافت سے دور رکھنے کے لئے کی تھی تو وہ وفات نبی(ص) کے وقت جمع ہوئے اور یہ کوشش کی کہ کسی طرح خلیفہ ہم میں سے بن جائے. پس مہاجر قریش کے ان سرداروں نے جو رسول(ص) سے خاندانی قرابت رکھتے تھے علی(ع) کی بیعت توڑنے کا ارادہ کر لیا تو انصار غیروں کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیوں کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اسلام نے ہماری تلواروں سے استحکام پایا ہے. اور مہاجرین تو ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہیں اگر ہم مہاجرین کو

____________________

1.تفسیر درمنثور، جلال الدین سیوطی، سورہ بینہ

۱۱۵

اپنے شہروں اور گھروں میں جگہ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے تو ان کی کوئی عزت نہ ہوتی اور اگر اوس و جزرج کے درمیان خلافت کے سلسلہ میں اختلاف نہ ہوتا تو ابوبکر و عمرکو خلافت حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملتا بلکہ یہ بھی انہیں کی بیعت کرنے پر مجبور ہوتے.

س- 15- ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ نے سقیفہ کی تشکیل میں کیوں جلدی کی اور اچانک انصار کے پاس کیوں پہونچے؟

ج- جب مہاجرین کے سرداروں نے انصار کی نقل و حرکت دیکھی اور ان کی تدبیر کو تاڑ گئے تو ان میں سے سالم حذیفہ کے غلام نے ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ کو اس مخفی اجتماع کی خبر دی تو وہ سقیفہ کی طرف دوڑے تاکہ انصار کی منصوبہ بندی کو ختم کردیں اور وہاں اچانک پہونچ کر انصار پر یہ ثابت کر دیں کہ ہم تمہاری سازش سے بے خبر نہیں ہیں.

س- 16- عمر ابن خطاب نے راستہ ہی میں انصار کو مطمئن کرنے کے لئے نوشتہ کیوں تیار کیا تھا؟

ج- اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمر ابن خطاب انصار کے عمل سے ڈر رہے تھے اسی طرح وہ اس بات سے بھی ڈر رہے تھے کہ انصار نے اگر علی(ع) کو خلافت سے دور رکھنے کے سلسلے میں ہماری موافقت نہ کی تو کیا ہوگا، ساری محنت اکارت ہو جائے گی اور تمام کوششیں برباد ہو جائیں گی. یہاں تک کہ خلافت کے لئے نبی(ص) کے سامنے بھی جرائت کی اور یہ سب کچھ اکارت ہو جائے گا. اس لئے عمر ابن خطاب سقیفہ کے راستہ میں یہی سوچتے رہے کہ ان ( انصار) کے ساتھ کون سی چال چلی جائے کہ جس سے اپنے مقصد کے بارے میں ان کی رائے حاصل کر لیں.

۱۱۶

س- 17- مہاجرین نے انصار پر کس طرح کامیاب ہو کر ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا؟

ج- مہاجرین کی فتح اور انصار کی ناکامی کے متعدد اسباب ہیں انصار کے قبیلے تھے جو زمانہ جاہلیت ہی سے ریاست و زمامت کے لئے لڑ رہے تھے. آنحضرت(ص) کی وجہ سے یہ چپقلش ختم ہوگئی تھی لیکن جب رسول(ص) کا انتقال ہوگیا اور آپ(ص) کی قوم والوں نے خلافت کو اس کے شرعی وارث سے چھیننے کا قصد کر لیا تو اوس نے بھی اپنے سردار سعد ابن عبادہ کو خلافت کے لئے اکسایا. لیکن خزرج کے رئیس بشیر ابن سعد نے اپنے ابن عم پر حسد کیا اور اسے یہ تو یقین تھا کہ سعد ابن عبادہ کے ہوتے ہوئے خلافت اس تک نہیں پہونچ سکتی. پس انصار کی طاقت بٹ گئی اور ان میں سے کچھ لوگ مہاجروں میں شامل ہوگئے اور مہاجرین نے سچے نصیحت کرنے والوں کا کردار ادا کیا.

جیسا کہ ابوبکر نے ان کے اندر جاہلیت کی دشمنی کو اور بھڑکا دیا اس طرح ان کی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑا کہ اگر ہم خلافت اوس کے سپرد کردیں تو اس پر خزرج کبھی راضی نہیں ہوں گے. اور اگر خلافت کی باگ ڈور خزرج کے ہاتھوں میں دے دیں تو اسے اوس کبھی برداشت نہیں کریں گے پھر ابوبکر نے انہیں اس بات کی طمع دی کہ حکومت میں تمہارا بھی حصہ ہوگا. اور کہا کہ ہم امیر میں اورتم وزیر. ہم تمہارے اوپر رائے کے ذریعہ کبھی استبداد نہیں کریں گے.

اس کے بعد ابوبکر نے اپنی ذہانت سے ایک کھیل پوری امت کے ساتھ کھیلا اور سچے نصیحت کرنے والے کا کردار کیا. اور اپنے زہد کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مجھے خلافت کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم ان

۱۱۷

دونوں" عمر ابن خطاب اور ابوعبیدہ" میں سے جس کو چاہو منتخب کر لو.

یہ بہترین اور مضبوط منصوبہ تھا، عمر ابن خطاب اور ابوعبیدہ نے کہا ہم آپ پر کس طرح سبقت کرسکتے ہیں. آپ ہم سے پہلے اسلام لائے ہیں اور رسول(ص) کے یار غار ہیں. ہاتھ پھیلائیے ہم آپ کی بیعت کریں پس ابوبکر نے ہاتھ پھیلایا اور خزرج کے سردار بشیر ابن سعد نے دوڑ کر بیعت کر لی. اور اس کا اتباع کرتے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کر لی لیکن سعد ابن عبادہ نے بیعت نہ کی.

س- 18- سعد ابن عبادہ نے بیعت سے کیوں انکار کیا اور عمر نے انہیں قتل کی دھمکی کیوں دی؟

ج- جب انصار نے ابوبکر کی بیعت کر لی اور خلیفہ کی قربت و جاہ حاصل کرنے کی غرض سے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے تو سعد ابن عبادہ نے بیعت سے انکار کر دیا اور اپنی قوم کو بھی بیعت کرنے سے روکنے لگا. لیکن شدت مرض کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکا. کیونکہ صاحب فراش تھا ان کی کوئی نہ سنتا تھا. اس وقت عمر نے کہا: اسے قتل کر دو. یہ فتنہ کو ہوا دے رہا ہے. تاکہ اس کے ذریعہ اختلاف کی بیخکنی کی جائے اور کوئی بیعت سے انکار نہ کرے، کیونکہ اس سے مسلمانوں میں تفرقہ پھیل جائے گا اور یہ فتنہ پیدا ہونے کا سبب بنے گا.

س -19- انہوں ( ابوبکر و عمر) نے خانہ فاطمہ(ع) کو جلانے کی وھمکی کیوں دی؟

ج- صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کر کے خانہ علی(ع) ابن ابی طالب میں پناہ لے رکھی تھی. اگر عمر ابن خطاب جلدی

۱۱۸

نہ کرتے اور گھر کے چاروں طرف لکڑیاں جمع کر کے انہیں جلانے کی دھمکی نہ دیتے تو بات بہت بڑھ جاتی، امت کے علوی اور بکری دو گروہ ہو جاتے. لیکن عمر ابن خطاب کو بہت دور کی سوجھی اور کہا: یا تو تم بیعت کے لئے نکل آئو ورنہ میں گھر کو اس کے مکینوں کے ساتھ جلا دوں گا. عمر کی مکین سے مراد علی(ع) و فاطمہ(ع) بنت رسول(ص) ہیں.

اس کے بعد لوگوں میں کس کی ہمت تھی کہ وہ اطاعت سے روگردانی کرے اور بیعت سے انکار کرے کیونکہ عمر کے سامنے سیدہ نساء العالمین(ع) اور ان کے شوہر سید الوصیین سے بڑھ کر اور کون محترم ہوسکتا ہے؟

س-20- ابوسفیان ان کو ڈرانے اور دھمکانے کے بعد کیوں خاموش ہوگیا؟

ج- اس لئے کہ جب ابوسفیان وفات نبی(ص) کے بعد مدینہ لوٹ کے آیا تو اس کے پاس جمع شدہ صدقات بھی تھے. تو اب ابوبکر کی خلافت تھی اس لئے وہ تیزی سے علی(ع) ابن ابی طالب کے گھر کی طرف پڑھا اور انہیں بغاوت پر اکسانے لگا اور موجود خلافت سے جنگ کے لئے مال و افراد کا لالچ دیا. لیکن علی(ع) ابن ابی طالب اس کی سازش کو تاڑ گئے اور اس کی پیش کش کو رد کر دیا. جب ابوبکر و عمر کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ دوڑتے ہوئے ابوسفیان کے پاس گئے اور اس کو مال و دولت کا لالچ دیا اور کہا کہ جو کچھ صدقات تم نے جمع کئے ہیں وہ ہم تمہیں کو لوٹا دیں گے اور تم کو خلافت میں بھی شریک بنا لیں گے پس اس کے بیٹے کو شام کا حاکم مقرر کر دیا. لہذا ابوسفیان ان سے راضی ہوگیا اور خاموشی اختیار کر لی. اور جب ابوسفیان کا بیٹا یزید اپنے کیفر کردار کو پہونچا تو ابوسفیان کے دوسرے بیٹے معاویہ کو اس کا قائم مقام بنا دیا اور اس مسند ولایت

۱۱۹

پر بٹھا دیا.

س- 21- کیا علی(ع) خلافت سے راضی ہوگئے اور بیعت کر لی تھی؟

ج- کبھی نہیں.... علی(ع) کبھی راضی نہیں ہوئے اور نہ ہی خاموش بیٹھے بلکہ ہرطریقہ سے ابوبکر کی خلافت کے خلاف احتجاج کیا. اور دھمکی اور دہشت گردی کے باوجود بیعت کرنے پر تیار نہ ہوئے، ابن قتیبہ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ علی(ع) نے ان(ابوبکر و عمر) سے کہا قسم خدا کی میں تمہاری کبھی بیعت نہیں کروں گا، بلکہ بیعت کے سلسلہ میں میں تم دونوں سے زیادہ اولی ہوں. آپ(ع) نے اپنی زوجہ فاطمہ زہرا(ع) کو ساتھ لیا اور انصار کی مجلسوں میں گئے. لیکن انصار نے یہ عذر پیش کیا کہ ہمارے پاس ابوبکر پہلے آگئے تھے. بخاری کہتے ہیں کہ علی(ع) نے فاطمہ(ع) کی حیات تک بیعت نہیں کی لیکن جب فاطمہ(ع) کا انتقال ہوگیا اور لوگوں کی بے رخی بڑھنے لگی تو آپ(ع) ابوبکر سے مصالحت کرنے پر مجبور ہوگئے، جناب فاطمہ(ع) اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں، پس کیا فاطمہ(ع) بغیر بیعت کئے ہوئے مرگئیں جب کہ ان کے والد رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص مرجائے اور اس کی گردن میں بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا. اور کیا علی(ع) کو یہ علم تھا کہ ابوبکر کے بعد تک زندہ رہیں گے. کیونکہ انہوں نے بیعت کرنے میں چھ ماہ کی تاخیر کی تھی؟ لیکن علی(ع) کبھی خاموش نہیں رہے اور اپنی طول حیات میں جب بھی موقعہ پایا اپنے حق کا مطالبہ کیا اور دلیل کے طور پر آپ(ع) کا مشہور خطبہ شقشقیہ موجود ہے.

س- 22- انہوں نے فاطمہ زہرا(ع) کو کیوں غضبناک کیا، کیا مصالحت کی کوئی گنجائش نہ تھی؟

۱۲۰