اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34673
ڈاؤنلوڈ: 2639


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34673 / ڈاؤنلوڈ: 2639
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام احمد نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ ایک مرتبہ سفر میں رسول(ص) کے ہمراہ تھے کہ دو افراد کو گاتے ہوئے سنا گیا جو ایک دوسرے کا جواب دے رہے تھے، نبی(ص) نے فرمایا دیکھو یہ کون ہیں، لوگوں نے بتایا کہ معاویہ اور عمرو ابن عاص ہیں تو رسول(ص) نے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: پروردگارا انہیں برباد فرما، اور انہیں جہنم میں جھونک دے.(1) ابوذر غفاری سے مروی ہے کہ انہوں نے معاویہ سے کہا کہ جب تم رسول(ص) کے قریب سے گذرے تھے تو میں نے رسول(ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ : پروردگار: اس پر لعنت فرما اور خاک کے علاوہ اسے کبھی ( شکم) سیر نہ کرنا.(2) اور حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس خط میں جو آپ(ع) نے اہل عراق کے نام لکھا ہے تحریر کیا ہے:

بخدا اگر میں تن تنہا ان سے مقابلہ کے لئے نکلوں اور زمین کی ساری وسعتیں ان سے چھلک رہی ہوں جب بھی میں پرواہ نہ کروں نہ پریشان ہوں اور جس گمراہی میں وہ مبتلا ہیں اور جس ہدایت پر میں ہوں اس کے متعلق پوری بصیرت اور اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں اور میں اللہ کے حضور میں پہونچنے کا مشاق اور اس کے حسن ثواب کے لئے دامن امید پھیلائے ہوئے منتظر ہوں. مگر مجھے اس کی فکر ہے کہ اس قوم پر بد مغز اور بد کردار لوگ حکومت کریں اور وہ اللہ کے مال کو اپنی

____________________

1. مسند امام احمد جلد/4 ص421 طبرانی نے بھی کبیر میں تحریر کیا ہے.

2.مسند امام احمد جلد/4 ص421، لسان العرب جلد/7 ص404

۱۶۱

املاک اور اس کے بندوں کو غلام بنالیں، نیکوکاروں سے برسرپیکار رہیں بدکرداروں کو اپنے قبضہ میں رکھا.

باوجودیکہ رسول(ص) نے ان پر لعنت کی ہے اور ان احادیث میں انہیں(اہلسنت کو) کوئی خدشہ نہیں ملا ہے، کیونکہ وہ صحابہ ان احادیث کو بخوبی جانتا ہے لہذا انہوں نے ان احادیث کے مقابلہ میں اور حدیثیں گڑھِیں کہ جنہوں نے حق کو باطل میں تبدیل کر دیا اور رسول(ص) کو ایک عام انسان بنا دیا کہ جس پر جاہلیت کی حمیت طاری ہو جاتی ہے اور کبھی اتنے مغلوب الغضب ہو جاتے ہیں کہ ناحق کسی شخص پر سب و شتم کرنے لگتے ہیں. انہوں نے اپنے ملعون سرداروں کے دفاع میں یہ حدیث گڑھی کہ جسے بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الدعوات کے باب قول النبی(ص) میں" من آذیته فاجعله له زکاة و رحمة" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتابالبر و الصله والادب کے باب"من لعنه النبی الخ..." میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

رسول(ص) کے پاس دو اشخاص آئے اور کسی ایسی چیز کے بارے میں بحث کرنے لگے جسے میں نہیں جانتی پس رسول(ص) ان پر غضبناک ہوئے اور لعنت و سب و شتم کیا. جب وہ چلے گئے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ(ص) ان دونوں سے کیا غلطی ہوگئی تھی؟ آپ(ص) نے فرمایا: تم کیا کہہ رہی ہو؟

میں نے کہا آپ(ص) نے ان پر لعنت کی ہے، فرمایا کیا تم نہیں جانتی ہو کہ میں نے اپنے رب سے شرط کر رکھی ہے کہ پروردگارا میں بشر ہوں پس اگر میں کسی مسلمان پر لعنت کروں یا اسے برا بھلا کہوں تو تو اسے معاف فرما،

۱۶۲

اور اسے اجر عطا فرما"

ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی(ص) نے فرمایا:

بار الہا: میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں کوتاہی نہ کروں گا اس لئے کہ میں بشر ہوں بس اگر میں کسی مومن کو برا بھلا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا کوڑے ماروں تو، تو اسے اس شخص کے لئے رحمت و رافت قرار اور روز قیامت اسے اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے.

ایسی ہی گڑھی ہوئی احادیث کی رو سے نبی(ص) غیر خدا پر غضبناک ہوتے ہیں سب و شتم کرتے ہیں بلکہ لعنت کرتے ہیں اس کو کوڑے لگاتے ہیں جب کہ وہ ان کا مستحق نہیں ہوتا ہے ( معاذ اللہ) یہ کون سا نبی ہے کہ جب شیطان سوار ہوتا ہے تو معقولات کے دائرہ سے باہر ہو جاتا ہے، کیا کوئی عام آدمی ایسا فعل انجام دے سکتا ہے؟ کیا یہ فعل قبیح نہیں ہے؟

ایسی احادیث کے ذریعہ بنی امیہ کے وہ حکام جن پر رسول اللہ(ص) نے لعنت کی، جن کے حق میں بد دعا فرمائی اور جن کو بعض فاحشات کے ارتکاب کی بنا پر کوڑے لگوائے اور لوگوں کے سامنے ذلیل کیا، مظلوم بن گئے اور پاک و پاکیزہ لائق رحم خدا کے مقرب بن گئے.

یہ گڑھی ہوئی احادیث خود ہی اپنی مخالفت کرتی ہیں اور گڑھنے والوں کو ذلیل کرتی ہیں، رسول اللہ(ص) کسی پر لعنت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی فحش بکتے تھے، حاشا حاشا...انہوں نے چھوٹے منہ سے بڑی بات کہی، خدا ان پر اپنا قہر نازل کرے اور ان کے لئے دردناک

۱۶۳

عذاب تیار ہے.

ان باطل خیالات کی بیخکنی کرنے کے لئے ہمارے لئے بخاری و مسلم کی عائشہ سے نقل کی ہوئی ایک ہی رواتی کافی ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الادب کے باب" لم یکن النبی فاحشا و متفحشا" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

یہودی نبی(ص) کے پاس آئے اور السام علیکم کہا عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: تمہیں پر تباہی اور خدا کی لعنت و قہر ہو نبی(ص) نے فرمایا: چھوڑو! عائشہ ٹھنڈ ے دل سے کام لو. فحش سے پرہیز کرو، میں نےعرض کی کیا آپ نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا ہے؟ آپ(ص) نے جواب دیا کیا تم نے نہیں سنا کہ میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے ان کی بد دعا کو انہیں پر لوٹا دیا، ان کے بارے میں میری بد دعا سنی جائے گی اور میرے سلسلہ میں ان کی نہیں سنی جائے گی.

جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب البر والصلاة والادب میں تحریر کیا ہے کہ رسول(ص) نے مسلمان کو لعنت کرنے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ انہیں چوپایوں اور حیوانات پر بھی لعنت کرنے سے منع کیا ہے. آپ(ص) سے کہا گیا یا رسول(ص) اللہ آپ(ص مشرکین کے حق میں بد دعا کر دیجئے، آپ(ص) نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں، میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں.

یہ ہے وہ چیز جس سے قلب رحیم اور خلق عظیم کا پتہ چلتا ہے اور یہی چیز رسول(ص) سے مخصوص تھی وہ کسی پر ناحق سب و شتم اور لعنت نہیں کرتے تھے اور کسی غیر مستحق کو کوڑے نہیں لگواتے تھے وہ جب کسی پر غضبناک ہوتے تھے

۱۶۴

تو صرف خدا کے لئے اور اسی پر لعنت کرتے تھے جو لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور حدود خدا کو قائم کرنے کے لئے کوڑے لگواتے تھے ان نیک افراد کو کوڑے نہیں لگواتے جن کے خلاف ثبوت یا گواہی یا خود ان کا اعتراف نہ ہو.

لیکن ان کا دل ان روایات کو دیکھ کر بہت جلتا تھا کہ جن میں معاویہ اور بنی امیہ پر لعنت کی گئی ہے لہذا انہوں نے لوگوں کو دھوکا دینے اور معاویہ کو بڑھانے کے لئے ایسی احادیث گڑھ لی ہیں اسی لئے مسلم نے اپنی صحیح میں ان روات کو نقل کرنے کے بعد کہ جن میں نبی(ص) نے معاویہ پر لعنت کی ہے اور جو خدا کی رحمت و قربت بن گئی ہیں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول(ص) آگئے تو میں دروازہ کی اوٹ میں چھپ گیا ابن عباس کہتے ہیں رسول(ص) نے مجھے پکڑ کر فرمایا: جائو معاویہ کو بلا لائو ابن عباس کہتے ہیں کہ میں معاویہ کے پاس سے رسول(ص) کے پاس آیا عرض یک وہ کھانا کھا رہا ہے، آپ(ص) نے فرمایا پھرجائو اور بلا کے لائو، ابن عباس کہتے ہیں میں پھر گیا، اور واپس آکر عرض کیا وہ کھانا کھا رہا ہے، پس آپ(ص) نے فرمایا: خدا اس کا پیٹ نہ بھرے.(1)

تاریخی کتابوں ہمیں یہ چیز ملتی ہے کہ امام نسائی نے الخصائص کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سےمختص کی تھی،، لکھنے کے بعد شام گئے تو شام والوں نے ان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: تم نے معاویہ کے فضائل کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ امام نسائی نے کہا:مجھے اس کی کسی فضیلت کا علم نہیں ہے مگر یہ کہ خدا اس کا پیٹ نہ بھرے، پس یہ جملہ سن کر شام والوں نے

۱۶۵

انہیں اتنا مارا کہ وہ شہید ہوگئے، مؤرخین لکھتے ہیں کہ معاویہ کو رسول(ص) کی بد دعا لگ گئی یہی وجہ ہے کہ معاویہ کھاتے کھاتے تھک جاتا تھا لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا.

حقیقت تو یہ ہے کہ میں بھی ان روایات سے واقف نہیں تھا جو لعنت کو رحمت اور قرب خدا قرار دیتی ہیں. یہاں تک کہ تیونس میں ایک بزرگوار نے مجھے ان سے آشنا کیا، بزرگوار علم و آگہی کے لحاظ سے شہرت یافتہ تھے اور ہم ایک مجمع احادیث کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے یہاں تک کہ معاویہ ابن ابی سفیان کا تذکرہ بھی نکل آیا، وہ بزرگوار معاویہ کے بارے میں بڑے ہی فخر و غرور کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے. وہ بہت زیرک اور ذکاوت و حسن تدبیر میں مشہور تھے. وہ پورے طور سے معاویہ کی سیاست اور جنگ میں علی کرم اللہ وجہہ پر اس کے غالب ہونے کو بیان کر رہے تھے. میں نے کسی طرح اس پر تو صبر کر لیا لیکن جب وہ معاویہ کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی میں زیادہ آگے نکل گئے تو میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا لہذا میں نے ان سے کہا: رسول(ص) کو معاویہ سے قطعی محبت نہ تھی بلکہ آپ(ص) نے معاویہ پر لعنت اور اس کے لئے بد دعا کی ہے، یہ بات سن کر حاضرین تعجب میں پڑ گئے اور کچھ میری بات سے غضبناک بھی ہوئے. لیکن ان بزرگوار نے پورے اعتماد کے ساتھ میری تائید کی اس سے حاضرین اور حیرت میں پڑ گئے اور موصوف سے کہنے لگے: ہم کچھ نہیں سمجھ پا رہے ہیں! ایک طرف آپ معاویہ کی مدح سرائی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس بات سے بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ نبی(ص) نے ان ( معاویہ) پر لعنت کی ہے. یہ دونوں کیسے ممکن ہیں؟ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں نے بھی یہی سوال کیا، انہوں نے ہمیں عجیب و

۱۶۶

غریب جواب دیا کہ جس کا قبول کرنا مشکل ہوگیا. انہوں نے کہا: رسول(ص) نے جو ان پر سب و شتم اور لعنت کی بیشک وہ خدا کے نزدیک رحمت و رافت ہے. مجمع نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟ کہا: اس لئے کہ رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ میں بھی سارے انسانوں کی طرح ایک انسان ہوں اور میں نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ میری لعنت کو رحمت و رافت بنا دے. پھر انہوں نے اپنی بات کہتے ہوئے اضافہ کیا: یہاں تک کہ جس کو رسول(ص) نے قتل بھی کیا ہے وہ دنیا ہی سے جنت میں چلا جاتا ہے. اس کے بعد میں نے ان سے تنہائی میں اس حدیث کا حوالہ معلوم کیا تو انہوں نے مجھے صحیح بخاری اور مسلم کا حوالہ دیا اور مجھے ان احادیث کا علم ہوا. لیکن اس سے میرے اس یقین میں اور استحکام پیدا ہوگیا جو امویوں کی اس سازش کے سلسلہ میں قائم ہوا تھا کہ جو انہوں نے حقائق اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے اور عصمت رسول(ص) کو داغدار بنانے کے لئے تھی.

اور اس کے بعد مجھے ایسی بہت سی روایتیں ملیں جو ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں. یہاں تک کہ وہ سازش کرنے والے بھی مطمئن ہوگئے انہوں نے اکثر باتوں کو خدا کی طرف منسوب کر دیا. بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التوحید کے باب" قول الله تعالی یریدون ان یبدلوا کلام الله" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا کہ:

جس شخص نے کوئی نیک کام انجام نہ دیا ہو، اسے مرنے کے بعد جلا دو یا اس کے بدن کا نصف حصہ خشکی میں اور نصف حصہ دریا میں قرار دو، قسم خدا کی اگر خدا اس بات پر قادر ہوگا تو اسے ایسا ہی عذاب دے گا کہ عالمین میں

۱۶۷

کوئی نہیں دےسکتا. پس خدا دریا کو حکم دے گا اور جو کچھ اس میں ہوگا جمع ہو جائے گا. پھر خشکی کو حکم دے گا تو اس کی تمام چیزیں جمع ہو جائیں گی پھر کہے گا تو نے ایسا کیوں کیا وہ کہے گا: تیری خشیت کی بنا پر، اور تو جانتا ہے. پس خدا اسے بخش دے گا.

اور اسی صفحہ پر ابوہریرہ کی بیان کردہ یہ روایت موجود ہے کہ میں نے رسول(ص) کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

جب کسی بندہ سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ بسا اوقات کہتا ہے مجھ سے گناہ ہوگیا اور کہتا ہے پروردگار میں نے گناہ کیا یا بسا اوقات کہتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا پس تو مجھے بخش دے.

اس کا پروردگار کہتا ہے کہ : کیا میرا بندہ یہ جانتا تھا کہ اس کا پروردگار ہے جو اس کے گناہ کو بخش دے گا تو میں نے اپنے بندہ کے گناہ بخش دے پھر بندہ ایک مدت تک گناہ نہ کرے اور پھر گناہ کا مرتکب ہو جائے اور کہے پروردگارا مجھ سے دوسرا گناہ سرزد ہوگیا ہے. پس تو بخش دے تو خدا کہے گا کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی ( رب) ہے جو گناہوں کو بخشتا ہے پس میں نے اپنے بندہ کو معاف کیا. پھر جب تک خدا چاہے وہ گناہوں سے باز رہے اور گناہ کر بیٹھے اور کہے پالنے والے میں نے

۱۶۸

دوسرے گناہ کا ارتکاب کیا پس تو اسے بھی معاف کردے پھر خدا کہتا ہے کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہوں کو بخشتا ہے میں نے اپنے بندہ کو تین مرتبہ معاف کیا پس اب جو چاہے انجام دے.

خدا کے بندو! یہ کون سا رب ہے؟ باوجودیکہ بندہ کو پہلی دفعہ میں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کر دیتا ہے. لیکن اس کے رب کو اس کی مطلق خبر نہ ہوئی ہر دفعہ یہ کہتا رہا کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہوں کو بخش دیتا ہے؟؟

یہ کون سا پروردگار ہے جو بے شمار مکرر گناہوں کو معاف فرماتا ہے... اور اپنے بندہ سے کہتا ہے جو چاہو کرو.

ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات بہت بڑی ہوگئی اگر چہ وہ جھوٹ ہی ہے پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے تو کیا آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیں گے.

جی ہاں! ان کا یہی گمان ہے کہ رسول(ص) نے عثمان کے لئے فرمایا: تم جو چاہو کرو آج کے بعد تمہارے افعال تمہیں ضرر نہیں پہونچائیں گے بقول اہلسنت کے یا اس دقت کی بات ہے جب عثمان عسرہ تیار کر رہے تھے. بیشک یہ وہ پروانہ بخشش ہے کہ جو جنت میں داخل ہونے کے لئے کنیہ والے دیا کرتے ہیں.

لہذا یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ اگر عثمان ایسے افعال بجالائے ہیں جو ان کے خلاف بغاوت اور قتل اور بغیر غسل و کفن کے یہودیوں کے مقبرہ میں دفن کا باعث بنے.

۱۶۹

."یہ تو ان کی امیدیں ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو."

نبی(ص) کے اقوال میں تناقض!

بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ ابن عبدالوھاب سے روایت کی ہے ہم سے حماد نے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایا کہ جس کو نیکیوں کے ساتھ نہیں یاد کیا جاتا. اس نے کہا میں فتنوں کی شبوں میں ایک شب اپنا اسلحہ لے کر نکلا تو ابو بکرہ میرے سامنے آگئے اور کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: رسول(ص) کے ابن عم (علی(ع)) کی مدد کا ارادہ ہے. ابوبکرہ نے کہا کہ رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ:

جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے سے لڑیں گے تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے، کہا گیا کہ قاتل تو جرم کی وجہ سے جہنم میں جائے گا لیکن مقتول کی کیا خطا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا : کہ وہ اپنے مد مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا.

حماد ابن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب و یونس ابن عبید کے سامنے یہ روایت اس لئے نقل کی تاکہ وہ بھی میری تائید کریں تو انہوں نے کہا کہ اس حدیث کو حسن نے احنف ابن قیس سے اور انہوں نے ابوبکرہ سے نقل کیا ہے.(1)

____________________

1.صحیح بخاری جلد/8 ص92، کتاب الفتن باب " اذا التقی المسلمان بسیفہما"

۱۷۰

مسلم نے بھی اپنی صحیح کی کتاب الفتن کے اسی باب میں حدیث ابوبکرہ کو احنف ابن قیس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اس شخص کی مدد کی غرض سے نکلا پس ابوبکرہ سے میری ملاقات ہوگئی اس نے کہا: کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہا : اس شخص کی مدد کو جا رہا ہوں اس نے کہا کہ لوٹ جائو کیونکہ میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ:

جب دو مسلمان ایک دوسرے کے مقابلہ میں تلوار لے کر نکل آئیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں داخل ہوں گے پس میں نے کہا یا رسول(ص)! یہ تو قاتل ہے مقتول کا قصور کیا ہے؟ فرمایا: وہ بھی اپنے بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا.(1)

ان گڑھی ہوئی احادیث سے قاری ان کے اسباب کو بخوبی سمجھ لے گا کہ ان احادیث کو کیوں گڑھا گیا ہے... اور رسول(ص) کے ابن عم سے ابوبکرہ کی عداوت بھی آشکار ہو جاتی ہے اور یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کو رسوا کرنے کے لئے اس نے کیا کیا اور اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ باطل کے مقابلہ میں حق کی نصرت کرنے والے صحابہ کے حوصلوں کو اس طرح پشت کیا، ان کے لئے اس حدیث کی سی حدیثیں گڑھ دیں کہ جنہیں نہ عقلیں قبول کرتی ہیں نہ قرآن صحیح قرار دیتا ہے اور نہ ہی سنت کی روسے درست ہیں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( فَقَتِلُوا الَّتِى تَبْغِى‏ حَتَّى‏ تَفِى‏ ءَ إِلَى‏ أَمْرِ اللَّهِ )

____________________

1.اس حدیث کو بخاری نے کتاب الایمان کے باب " للعاصی" میں نقل کیا ہے.

۱۷۱

اس گروہ سے مل کر جنگ کریں جو زیادتی کرنے والا ہے. یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے. الحجرات، آیت/9

ظالموں اور بغاوت کرنے والوں سے جنگ کرنے کا حکم واضح ہے اسی لئے بخاری کے شارح کو اس حدیث کی اس طرح حاشیہ آرائی کرتے ہوئے دیکھیں گے.

ملاحظہ فرمائیے کیا یہ حدیث بغاوت سے مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حجت ہے؟ جب کہ خدا کا یہ قول موجود ہے کہ باغی گروہ سے جنگ کرتے رہو. یہاں تک کہ وہ حکم خدا کی طرف واپس آجائے.

اور جو حدیث کتاب خدا کے خلاف ہوتی ہے وہ جھوٹی ہوتی ہے اسے دیوار پر مار دینا چاہئیے. بنی(ص) کی صحیح حدیث حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ہے.

جس کا میں مولا ہوں اس کے علی(ع) مولا ہیں. بار الہا اس کے دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن رکھ اس کی مدد کرنے والے کی مدد فرما، اسے رسوا کرنے والے کو ذلیل کر اور حق کو اس کے ساتھ ساتھ موڑ دے.

پس علی(ع) سے محبت رسول(ص) سے محبت کے مترادف ہے. اور تمام مسلمانوں پر حضرت علی(ع) کی مدد کرنا واجب ہے اور انہیں رسوا کرنا باطل کی مدد اور حق کو ذلیل کرنا ہے.

اگر آپ بخاری کی حدیث میں غور فرمائیں گے تو دیکھیں گے

۱۷۲

کہ مجہول راویوں کا ایک سلسلہ ہے جن کے اسماء درج نہیں گئے. حماد نے ہم سے ایک نا معلوم شخص کے وسیلہ سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس کی واضح دلالت اس بات پر ہے کہ مجہول اشخاص منافقین میں سے ہیں جو علی علیہ السلام سے بغض رکھتے ہیں اور ان کے فضائل کو چھپانے کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ میں مشغول رہتے ہیں. اور سعد ابن ابی وقاص کہ جس نے حق کی نصرت کرنے سے منع کیا کہتا ہے: مجھے تلوار دو ( اس کے بعد کہا) یہ علی(ع) حق ہے اور یہ علی(ع) باطل ہے میں اس سےضرور جنگ کروں گا ایسے ہی اور بہت سے تال میل ہیں جنہوں نے حق کو باطل سے ملا دیا اور روشن راہوں کو تاریکی میں تبدیل کر دیا ہے.

واضح رہے ہمیں احادیث کی متعدد کتابوں میں یہ چیز ملتی ہے کہ رسول(ص) نے بہت سے صحابہ کو جنت کی بشارت دی ہے خصوصا ان دس افراد کو جو مسلمانوں کے درمیان عشرہ مبشرہ کے نام سے مشہور ہیں.

احمد اور ترمذی و ابودائود نے روایت کی ہے بیشک نبی(ص) نے فرمایا:

ابوبکر، عمر، عثمان، علی(ع)، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن ابن عوف، سعد ابن ابی وقاص، سعد ابن زید اور ابو عبیدہ ابن جراح جنتی ہیں.(1)

اور نبی(ص) کا یہ قول بھی صحیح ہے کہ:

خاندان یاسر کو بشارت دے دو کہ تمہاری

____________________

1.مسند احمد جلد/1 ص193، صحیح ترمذی جلد/3 ص183، سنن ابودائود جلد/2 ص264

۱۷۳

وعدہ گاہ جنت ہے.

آپ(ص) نے یہ بھی فرمایا کہ:

جنت چار افراد، علی(ع)،عمار، سلمان و مقداد کی مشتاق ہے.

اور مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول(ص) نےعبدالہ ابن سلام کو جنت کی بشارت دی ہے اور آپ(ص) کا یہ فرمان بھی درست ہے کہ حسن(ع) وحسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں نیز جعفر ابن ابی طالب جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے والا قول صحیح ہے. اور فاطمہ(ع) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی مادر گرامی خدیجہ کو جبریل نے جنت میں قصر کی بشارت دی، اسی طرح صہیب روی کو جنت کی بشارت دی، بلال حبشی اور سلمان فارسی کو جنت کی بشارت دی.

جب اتنے افراد کو جنت کی بشارت دی ہے تو پھر جنت کی بشارت کے سلسلہ میں احادیث کو انہیں دس10 افراد ( عشرہ مبشرہ) سے کیوں مختص کیا جاتا ہے. آپ ہر اس مجمع اور مجلس میں کہ جس میں جنت کی بات بیان ہو رہی ہو عشرہ مبشرہ کا ذکر لازمی سماعت فرمائیں گے.

ہمیں ان کی اس بات پر حسد نہیں ہے اور نہ ہی ہم خدا کی اس وسیع رحمت کو محدود کرسکتے ہیں جو ہر شئی پر محیط ہے لیکن اتنی بات ضرور کہتے ہیں کہ یہ تمام حدیثیں اس حدیث کے معارض ہیں جس میں رسول(ص) نے دو مسلمانوں کو آپس میں تلوار سے لڑنے پر قاتل و مقتول دونوں کو جہنمی کہا ہے. اس لئے اگر ہم اس حدیث کو تسلیم کر لیتے ہیں تو حدیث بشارت دھواں بن کر اڑ جائے گی کیونکہ ان میں سے معظم افراد نے ایک دوسرے سے

۱۷۴

جنگ و جدال کیا اور بعض نے بعض کو قتل کیا ہے. حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت میں عائشہ کی قیادت میں ہونے والی جنگ جمل میں طلحہ و زبیر قتل ہوئے اور ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے.

اسی طرح عمار یاسر، معاویہ ابن ابی سفیان کی بھڑکائی ہوئی جنگ صفین میں شہید ہوئے اور جب عمار اپنی تلوار سے علی(ع) ابن ابی طالب کی نصرت کر رہے تھے اس انہیں باغی گروہ نے قتل کیا جیسا کہ اس سلسلہ میں رسول(ص) کی حدیث بھی موجود ہے. اسی طرح سید الشہدا جوانانِ جنت کے سردار اور آپ کے ساتھیوں نے اپنی تلوار سے یزیدلع ابن معاویہ کے لشکر کا مقابلہ کیا اور یزید نے سب کو قتل کر دیا علی(ع) ابن الحسین(ع) کے علاوہ کوئی نہ بچا.

پس ان کذابوں کی رائے کے لحاظ سے یہ قاتل و مقتول، دونوں جہنمی ہیں. کیونکہ انہوں نے تلوار سے ایک دسورے کا مقابلہ کیا ہے.

یاد رہے کہ اس حدیث کی نسبت اس کی طرف نہیں دی جاسکتی جو اپنی خواہش نفس سے کچھ کہتا ہی نہیں تھا بلکہ وہ وہی کہتا تھا جو اس پر وحی کی جاتی تھی جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ حدیث عقل و منطق کے خلاف ہے، اور کتاب خدا و سنت رسول(ص) کے متناقض ہے. یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے جھوٹ کے پلندوں سے بخاری و مسلم کیسے غافل رہے اور ادران سے کیونکہ خبردار نہیں ہوئے، یا ایسی احادیث ہی ان کا مذہب و عقیدہ ہے.

۱۷۵

فضائل میں تناقض

دیگر انبیاء و مرسلین پر فضیلت کے سلسلہ میں صحاح میں کچھ متناقض حدیثیں بھی پائی جاتی ہیں اور کچھ ایسی حدیثیں بھی صحاح میں موجود ہیں جو رسول(ص) سے موسی کے درجہ کو بڑھاتی ہیں. میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ احادیث عمر اور عثمان کے زمانہ خلافت میں مسلمان ہونے والے یہودیوں جیسے، کعب الاحبار، تمیم الدارمی اور وہب ابن منبہ وغیرہ نے بعض صحابہ جیسے ابوہریرہ، انس ابن مالک کے نام سے گڑھ کر رائج کر دی ہیں.

بخاری نے ا پنی صحیح کی کتاب التوحید کے باب قولہ تعالی،( كَلَّمَ‏ اللَّهُ‏ مُوسى‏ تَكْلِيماً ) انس ابن مالک سے شب معراج کے سفر، پھر ساتویں آسمان پر پہونچنے وہاں سے سدرة المنتہی پہونچنے اور محمد(ص) اور امت محمد(ص) پر پچاس نمازوں کے واجب ہونے کے سلسلہ میں ایک طویل حکایت، نقل کی ہے یہ پچاس نمازیں تو موسی کے طفیل میں معاف ہوگئیں اور صرف پانچ، نمازیں فرض کی گئیں اس حکایت میں صریح کذب اور کفر موجود ہے جیسے خداوند عالم قریب ہوا، اور آگے بڑھا یہاں تک دو کمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا. ایسے خرافات موجود ہیں لیکن اس روایت میں ہمارے لحاظ سے جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ جب محمد(ص) نے ساتویں آسمان کے دروازہ کو کھلا تو دیکھا کہ جناب موسی تشریف فرما ہیں کہ جنہیں خدا نے خود سے ہمکلامی کی سرفرازی میں ساتویں آسمان کی رفعت پر ساکن کیا. جب موسی نے یہ دیکھا تو عرض کیا، پروردگار میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ پر کسی

۱۷۶

کو فوقیت دی جائے گی.

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان کے باب بدئ الوحی الی رسول اللہ(ص) میں اور بخاری نے ا پنی صحیح کی کتاب بدئ الخلق کے باب" ذکر الملائکة صلواة الله علیهم" میں پہلے قصہ سے مشابہ ایک اور حکایت نقل کی ہے جو رات کے سفر اور معراج کو بیان کرتی ہے لیکن اس میں جناب موسی کو چھٹے آسمان پر اور جناب ابراہیم کو ساتویں آسمان پر دکھایا گیا ہے اس میں یہ ٹکڑا مہم ہے: رسول(ص) فرماتے ہیں:

پس ہم چھٹے آسمان پر آئے آواز آئی یہ کون ہے؟

جواب دیا گیا جبرئیل، اور کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد(ص)، آواز آئی کیا ان تک پیغام پہونچا دیا گیا؟ کہا: جی ہاں! پھر مرحبا کہا گیا. اس کے بعد موسی کی خدمت میں پہونچے اور سلام کہا: انہوں نے مجھے میرے بھائی اور نبی کہکے خوش آمدید کہا جب میں وہاں سے آگے بڑھ گیا تو جناب موسی رونے لگے، ندا آئی تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟ کہا: اس لڑکے کو میرے بعد مبعوث کیا گیا اور یہ میری امت سے زیادہ اپنی امت کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا.

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان کے باب" ادنی اهل الجنة منزله فیها" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

روز قیامت میں لوگوں کا سردار بنوں گا کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہوگا؟ تمام اولین و آخرین کو ایک ایسی جگہ

۱۷۷

جمع کیا جائے گا کہ جہاں سے پکارنے والے کو سب دیکھیں گے اور اس کی آواز بھی سنیں گے....

سورج ان سے قریب تر ہو جائے گا لوگوں کی اضطرابی ناقابل برداشت ہوجائے گی، لوگ کہیں گے کیا تھی اپنی حالت کی خبر نہیں ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تمہارے رب کی بارگاہ میں کون تمہاری شفاعت کرسکتا ہے؟ پس بعض، بعض سے کہیں گے تم آدم کے پاس جائو، لوگ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے آپ ابوالبشر ہیں آپ کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ہے، اور ملائکہ کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت نہیں دیکھ رہے ہیں کیا آپ کو ہماری بگڑتی ہوئی کیفیت کا اندازہ نہیں ہے پس آدم فرمائیں گے، آج میرا رب شدید غضبناک ہے. نہ اس سے قبل اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ اس کے بعد اتنا عضبناک ہوگا. اور یہ وہی خدا ہے کہ اس نے مجھے درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا لیکن میں نے اس پر عمل نہ کیا... نفسی، نفسی، میرے علاوہ کسی دوسرے کو ڈھونڈ لو،نوح کے پاس چلے جائو. یہ روایت بہت طویل ہے ( اور ہم نے ہمیشہ اختصار کو مد نظر رکھا ہے) یہاں تک کہ لوگ نوح کے پاس پہونچیں گے، پھر ابراہیم کے پاس

۱۷۸

اس کے بعد موسی و عیسی کے پاس جائیں گے اور سب نفسی، نفسی کہیں گے اور عیسی کے علاوہ سب اپنی خطائوں کا تذکرہ کریں گے لیکن عیسی بھی نفسی، نفسی پکاریں گے اور کہیں گے میرے علاوہ کسی اور کو تلاش کرو، محمد(ص) کے پاس جائو، رسول(ص) فرماتے ہیں کہ: لوگ میرے پاس آئیں گے. پس میں عرش کے نیچے جاکر اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ میں سر رکھ دونگا، اس کے بعد خداوند عالم میرے لئے محامد و حسن الثنا کے دروازے کھول دے گا کہ اس سے قبل کسی کے لئے نہ کھولے ہونگے پھر ندا آئے گی، اے محمد! سر اٹھائو. تم سوال کرو. عطا کیا جائے گا. شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، پس سر اٹھائوں گا. اور کہوں گا : امتی یا رب ، امتی، ندا آئے گی اے محمد اپنی امت کے ہمراہ باب ایمن سے جنت میں داخل ہو جائو، اب ان پر کوئی حساب نہیں ہے. اس کے علاوہ وہ دوسرے دروازوں سے بھی داخل ہوں گے پھر رسول(ص) فرماتے ہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت کے دروازوں کے پٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصرہ کے درمیان کا فاصلہ ہے.

ان احادیث میں رسول(ص) فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز وہ لوگ کے سردار ہوں گے! اور موسی فرماتے ہیں پروردگار مجھے گمان بھی نہیں

۱۷۹

تھا کہ میری منزلت کو کوئی پہونچے گا. اور کہتے ہیں: موسی گریہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں خدایا یہ لڑکا میرے بعد مبعوث کیا گیا اور اپنی امت کے ساتھ جنت میں میری امت سے زیادہ افراد کے ساتھ داخل ہوگا.

ان احادیث سے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ آدم سے لے کر عیسی تک نوح و ابراہیم و موسی کی شمولیت کے ساتھ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوة والسلام قیامت کے روز خدا سے شفاعت نہیں کریں گے. اس کے لئے خدا نے محمد(ص) کو مخصوص کیا ہے، ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح محمد(ص) کو سارے انسانوں پر فضیلت دیتے ہیں. لیکن اسرائیلیوں اور ان کے اعوان و انصار بنی امیہ محمد(ص) کی اس فضیلت کو برداشت نہیں کیا یہاں تک کہ انہوں نے موسی کی برتری کے لئے روایات گڑھیں جیسا کہ ہم سابقہ بحثوں میں شب معراج محمد(ص) سے موسی کا قول ملاحظہ کرچکے ہیں اور جب خدا نے رسول(ص) پر پچاس نمازیں واجب کی تھیں تو موسی نے آپ(ص) سے کہا تھا. میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں. اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ رسول(ص) پر موسی کی فضیلت کے لئے خود نبی(ص) کی زبان سے احادیث گڑھ لیں ان میں سے بعض آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التوحید کے باب" فی المشیئة و الارادة و ما تشائوون الا ان یشاء الله" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

ایک مسلمان اور ایک یہودی میں تو، تو ، میں ، میں ہوگئی مسلمان نے کہا قسم اس کی جس نے محمد(ص) کو عالمین پر منتخب کیا اور یہودی نے کہا: قسم اس کی جس نے موسی کو عالمین پر منتخب کیا. یہ سنتے ہی مسلمان نے یہودی کو

۱۸۰