اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34305
ڈاؤنلوڈ: 2512


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34305 / ڈاؤنلوڈ: 2512
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایک طمانچہ رسید کیا. یہودی رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا اور مسلمان کا قصہ بیان کیا. تو نبی(ص) نے فرمایا: تم مجھے موسی پر فضیلت نہ دیا کرو کیونکہ روز قیامت تمام لوگ غش میں پڑے ہوں گے اور سب سے پہلے مجھے افاقہ ہوگا جب کہ موسی عرش پر بیٹھے ہوں گے. پس میں نہیں جانتا کہ وہ بھی غش کھانے والوں میں شامل تھے اور مجھ سے قبل افاقہ ہوگیا. یا خدا نے انہیں اس سے مستثنی کیا ہے.

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک یہودی طمانچہ کھا کے نبی(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: یا محمد(ص) انصار میں سے آپ کے ایک صحابی نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہے. آپ(ص) نے فرمایا: اسے بلائو. جب وہ آیا تو آپ(ص) نے فرمایا: تم نے اس کے منہ پر طمانچہ کیوں مارا؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ(ص) میں یہودی کے پاس سے گذرا تو میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ قسم اس کی جس نے موسی کو تمام لوگوں پر منتخب کیا ہے. میں نے کہا محمد(ص) پر بھی پس مجھے غصہ آگیا اور میں نے طمانچہ مار دیا.

آپ(ص) نے فرمایا: تم مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو کیونکہ قیامت کے دن تمام لوگوں پر غشی طاری ہوگی. اور سب سے پہلے مجھے افاقہ ہوگا تو میں موس کو عرش کا پایا پکڑے ہوئے دیکھوں گا میں نہیں جانتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوگیا ہوگا یا انہیں صاعقہ طور کی جزا دی جائے گی.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب تفسیر القرآن میں سورہ یوسف کی آیہ فلما جاء الرسول(ص) کے سلسلہ میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول(ص) نے فرمایا:

خدا لوط پر رحم کرے کہ انہوں نے رکن شدید کے

۱۸۱

پاس پناہ لے لی تھی. اگر مجھے یوسف کی طرح قید میں ڈال دیا جاتا تو بھی میں قبول کرتا جب کہ میرا رتبہ ابراہیم سے زیادہ بلند ہے کیونکہ خدا نے ان سے " اولم تومن" کہا: کیا تم ایمان نہیں لائے.

ان حدیث گڑھنے والوں نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ رسول(ص) کو اپنے پروردگار کے بارے میں مشکوک بنا کر پیش کیا. پس نہ انہیں شفاعت کا حق ہے نہ ان کے لئے مقام محمود ہے، اور نہ ہی دیگر انبیاء پر کوئی فضیلت ہے اور نہ ہی وہ اپنے اصحاب کو جنت کی بشارت دے سکتے ہیں. کیونکہ وہ خود اپنے متعلق بھی نہیں جانتے کہ روز قیامت ان کا کیا ہوگا. آئیے میرے ساتھ بخاری کی روایت پڑھئے اور تعجب کیجئے یا نہ کیجئے اختیار ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الکسوف کے باب "الجنائز" میں خارجہ ابن زید ابن ثابت سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت ام العلا کہ جس نے رسول(ص) کی بیعت کی تھی وہ کہتی ہے کہ نبی(ص) نے مہاجرین کو تقسیم کیا تو ہمارے حصہ میں عثمان ابن مظعون آئے ہم نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دی، انہیں ایسا درد لاحق ہوا کہ وہ اسی میں چل بسے، انتقال کے بعد غسل دیا گیا اور انہیں کے کپڑوں میں کفن دیا گیا ( جب ) رسول(ص) داخل ہوئے تو میں نے کہا: اے ابو سائب خدا تم پر رحم کرے میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا نے آپ کو معظم کیا. نبی(ص) نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم کہ خدا نے اسے معظم کیا؟ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان پس خدا کس کو معظم کرے گا. آپ(ص) نے فرمایا:

قسم خدا کی میں رسول(ص) ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں

۱۸۲

جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا.

وہ عورت کہتی ہے قسم خدا کی اس کے بعد کوئی کبھی پاک نہ کیا جائے گا.

قسم خدا کی یہ تو تعجب خیز بات ہے، پس جب رسول(ص) بھی خدا کی قسم کھا کے یہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ میرا کیا ہوگا تو اس کے بعد کیا باقی بچتا ہے.حالانکہ قول خدا ہے کہ:

( بَلِ الْإِنْسانُ عَلى‏ نَفْسِهِ‏ بَصِيرَةٌ )

بلکہ انسان خود بھی اپنی حالت کو بخوبی جانتا ہے.

اور خدا اپنے نبی(ص) کے لئے ارشاد فرماتا ہے:

( إِنَّا فَتَحْنا لَكَ‏ فَتْحاً مُبِيناً لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَ ما تَأَخَّرَ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَ يَهْدِيَكَ صِراطاً مُسْتَقِيماً وَ يَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْراً عَزِيزاً )

بیشک ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی ہے تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کر دے اور اپنی رحمت کو تمام کر دے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت دیدیے اور مہمترین طریقہ سے آپ کی مدد کرے.

اور جب مسلمان کا جنت میں داخل ہونا رسول(ص) کی اطاعت و اتباع اور ان کی تصیدیق پر موقوف ہے تو پھر ہم اس حدیث کی کیسے تصدیق کر دیں کہ جو نعوذ باللہ بنی امیہ کے عقیدہ سے بھی بدتر ہے کہ جو ایک دن بھی اس بات پر ایمان لائے کہ محمد(ص) اللہ کے بر حق رسول ہیں. وہ رسول(ص) کو ایسا بادشاہ سمجھـے تھے جو اپنی ذہانت کی بنا پر لوگوں پر کامیاب

۱۸۳

ہوگیا. اس بات کی صراحت معاویہ و یزید اور ان کے خلفاء و حکام نے کہا ہے.

نبی(ص) علم اور طب میں تناقض کرتے ہیں!

بیشک علم اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ بعض امراض متعدی ہیں اسے بیشتر لوگ جانتے ہیں یہاں تک کہ غیر مہذب افراد بھی اس سے واقف ہیں. لیکن جب یونیورسٹی میں تعلیم پانے والے طلباء کے سامنے یہ بات کہی جائے گی کہ رسول(ص) اس کا انکار کرتے تھے تو وہ آپ(ص) کا مذاق اڑائیں گے. اور انہیں رسول اسلام(ص) پر طعن کرنے موقع مل جائے گا خصوصا ان میں سے ایسے اساتذہ کہ جو ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں. لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو احادیث بخاری اور مسلم نے نقل کی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوت اور متعدی امراض کا وجود نہیں ہے. اور ایسی احادیث بھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ متعدی امراض کا وجود ہے. اس لئے ہم نے یہ سرخی قائم کی ہے. کہ نبی(ص) تناقض (گوئی ) کرتے ہیں. ہمارا اس بات پر ایمان نہیں ہے کہ رسول(ص) نے اپنے افعال یا اقوال میں ایک مرتبہ بھی تناقض کیا ہے. لیکن قاری کی توجہ مبذول کرنے اور عادت کے مطابق یہ عنوان قائم کیا ہے. تاکہ قاری معصوم رسالتمآب(ص) کی طرف منسوب جھوٹی اور گڑھی ہوئی احادیث سے خبردار ہوجائے اور اس قسم کی احادیث نقل کرنے کے ہمارے مقصد کو بھی سمجھ جائے کہ نبی(ص) کی تنزیہ اور آپ(ص) کی اس علمی منزلت کی نشاندہی کرنا ہے جو تمام جدید علوم پر سبقت رکھتی ہے. کوئی ایسا صحیح نظریہ نہیں ہے جو نبی(ص) کی صحیح حدیث کے معارض ہو. اور اگر معارض ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ حدیث

۱۸۴

رسول(ص) پر بہتان ہے. ایک طرف اور دوسری طرف یہی حدیث کبھی اس دوسری حدیث کے معارض ہوتی ہے کہ جو علمی نظریہ کے مطابق ہوتی ہے. پس اس صورت میں دوسری کو قبول کرنا اور پہلی کو چھوڑنا واجب ہے اور یہ بات محتاج بیان نہیں ہے.

اس کی مثال میں حدیث عدوی کو پیش کرتا ہوں کہ جو بحث کا مہم عنصر ہے یہی ہمارے لئے صحابہ روات اور حدیث گڑھنے والوں کی صحیح عکاسی کرتی ہے کہ رسالت مآب(ص) کی تناقض گوئی. کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے پس میں بخاری کی نقل کردہ دو حدیثوں پر اکتفا کرتا ہوں کیونکہ اہلسنت کے نزدیک یہی صحیح ترین کتاب ہے تاکہ تاویل کرنے والے متعدد گروہوں میں تقسیم نہ ہوسکیں اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ حدیث بخاری کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور اس کے برخلاف دوسرے محدثین کے نزدیک ثابت ہے. قاری کو معلوم ہے کہ اس باب میں میں نے بخاری سے احادیث میں تناقض کی مثال پیش کرنے پر اکتفا کی ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الطب کے باب الھامہ میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا کہ:

نہ کوئی متعدی مرض ہے نہ صفر و ہامہ کوئی شئی ہے. ایک دیہاتی نے کہا: یا رسول اللہ(ص) ان اونٹوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو ریت میں ہرنوں کی طرح پھرتے ہیں اور ان میں جب کوئی خارش والا اونٹ شامل ہوجاتا ہے تو سب کو یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے؟ رسول(ص) نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو یہ مرض کہاں سے لگا تھا؟

۱۸۵

ملاحظہ فرمائیے کہ اس دیہاتی نے اپنی فطرت کے ذریعہ کس طرح متعدی مرض کا پتہ لگایا ہے کہ جب ایک کھجلی والا اونٹ دوسرے اونٹوں میں مل جاتا ہے تو انہیں بھی وہ مرض لگ جاتا ہے. اب رسول(ص) کے پاس کوئی ایسا جواب نہیں ہے جس سے اس دیہاتی کو مطمئن کرسکیں لہذا الٹا اس سے سوال کرتے ہیں کہ پہلے اوںٹ کو یہ مرض کہاں سے لگا تھا؟

یہاں مجھے اس طبیب کا واقعہ یاد آگیا کہ جس کے پاس ایک عورت اپنے چیچک کے مریض بچہ کو لے کر آئی تھی ( بچہ کو دیکھ کر) طبیب نے پوچھا: تمہارے گھر یا پڑوس میں کوئی ایسا شخص ہے جو خسرہ کا مریض ہو؟ عورت نے کہا: ہرگز نہیں ، طبیب نے کہا شاید اسے مدرسہ سے یہ مرض لگ گیا ہے عورت نے فورا جواب دیا ہرگز نہیں کیونکہ یہ مدرسہ میں داخل نہیں ہوا ہے اس لئے کہ یہ ابھی پانچ سال کا ہے، طبیب نے کہا: شاید تم اسے اپنے عزیز و اقارب میں لے کر گئی تھیں، یا تمہارے رشتہ دار تمہارے یہاں آئے تھے ان میں یہ جراثیم تھے. عورت نے پھر نفی میں جواب دیا. اس وقت طبیب نے کہا: یہ جراثیم ہوا سے اس تک پہونچے ہیں.

جی ہاں! ہوا جراثیم اور متعدی امراض کو منتقل کرتی ہے کبھی ہوا کیے سبب پورا گائوں یا شہر مرض کی لپیٹ میں آجاتا ہے. اس کے لئے آپریشن و انجکشن وغیرہ بنائے گئے ہیں پس یہ تمام چیزیں اس (رسول(ص)) سے کیسے پوشیدہ رہیں جو وحی کے علاوہ کچھ کہتا ہی نہیں ہے؟ یہ تو رب العالمین کے رسول(ص) ہیں کہ جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے. زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی خدا سے مخفی نہیں ہے. وہ تو سننے اور جاننے والا ہے. اسی لئے ہم اس حدیث کی تردید کرتے ہیں. اسے کبھی قبول نہیں کرسکتے، ہاں: بخاری کی اس

۱۸۶

حدیث کو تسلیم کرتے ہیں. جو انہوں نے اسی باب اور اسی صفحہ پر ابی سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ سے سنا کہ رسول(ص) نے فرمایا کہ:

کوئی تیمار داری کرنے والا مریض کے پاس سے اٹھ کر صحت مند کے پاس نہ جائے.

ابوہریرہ نے اس حدیث سے پہلی حدیث کا انکار کیا تو ہم نے کہا: کیا تم نے یہ نہیں کہا ہے کہ کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا تو وہ حبشی زبان میں بڑا بڑا نے لگے ام سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس طرح ابوہریرہ کو حدیث بھولتے نہیں دیکھا تھا.

ان دونوں حدیثوں... کہ کوئی مرض متعدی نہیں اور تیمار داری کرنے والے کو صحت مند کے پاس نہیں جانا چاہئے. کے ساتھ بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح کی کتاب السلام کے باب" لا عدوی، طیره ولا هامه و لا صفرو ولا نوء، و لا غول و لا یورون، عرض علی مصح" میں بھی نقل کیا ہے.

ان احادیث میں سے ہم اس حدیث " کہ تیمار داری کرنے والے کو صحن مند کے پاس اٹھ کر نہیں جانا چاہئے" کو صحیح سمجھتے ہیں. یہ قول رسول(ص) ہے کیونکہ رسول(ص) تناقض نہیں کرسکتے تھے. اور یہ حدیث کہ " کوئی مرض متعدی نہیں ہے" رسول(ص) پر بہتان ہے کیونکہ اس حدیث سے ان کا طبیعی حقائق سے جاہل ہونا سمجھ میں آتا ہے. اسی لئے بعض صحابہ نے دونوں حدیثوں میں تناقض سمجھ کر ابوہریرہ سے بحث کی اور پہلی حدیث کے بارے میں سوال کیا تو ابوہریرہ کو اس بھنور سے نکلنے کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آیا. تو وہ حبشی زبان میں بڑا بڑانے لگے. شارح بخاری کہتے ہیں کہ انہوں نے غصہ کی حالت میں ایسی گفتگو کی جو لایفہم تھی!

۱۸۷

اور جو چیز ہمیں تاکید کے ساتھ اس بات کو باور کراتی ہے کہ رسول(ص) جدید علوم کو پہلے سے جانتے تھے خصوصا متعدی امراض کو. وہ یہ کہ آپ(ص) نے مسلمانوں کو طاعون، جذام اور وبا وغیرہ سے بچنے کی تلقین فرمائی.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الانبیاء کے باب" حدثنا ابو الیمان" میں اور اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب السلام کے باب" الطاعون والطیرة والکهانة وغیرها" میں اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا کہ:

طاعون ایک رجس ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے والے لوگوں پر بھیجا گیا تھا پس جب تم کسی جگہ کے بارے میں یہ سنو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں نہ جائو اور اگر اس جگہ طاعون پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو اس سے فرار کی غرض سے وہاں سے نہ نکلو:

دوسری حدیث میں ہے وہاں سے جلدی سے نکل جائو.

اسی معنی میں رسول(ص) کا یہ قول صحیح ہے کہ :

مجذوم سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے!

نیز آپ(ص) کا یہ قول:

پانی پیتے وقت برتن میں سانس نہ لو.

ایسے ہی آپ(ص) کا یہ فرمان:

جب کسی برتن کو کتا چاٹ لے تو اس برتن کو

۱۸۸

چھ مرتبہ پانی سے اور ایک مرتبہ خاک سے پاک کرو.

یہ سب کچھ امت کو نظافت و طہارت اور حفظان صحت کے اسباب کی تعلیم کی بنا پر ہے. رسول(ص) نے یہ نہیں فرمایا کہ:

جب کسی چیز میں مکھی گر جائے تو اسے غوطہ دے دو.

اس میں تو ہم کھلم کھلا تناقض پاتے ہیں یہاں تک کہ ہامہ کے سلسلہ میں بھی کہ جس سے عرب بدشگونی لیتے تھے. ہامہ ایک پرندہ ہے جو رات میں اڑتا ہے. کہا گیا ہے کہ یہ الو ہے. مالک ابن انس نے یہی معنی بیان کئے ہیں. پس جب نبی(ص) یہ کہتے ہیں کہ ھامہ سے کچھ نہیں ہوتا تو پھر تعویذ کس لئے بناتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدء لخلق کے باب" یزفون النسلان فی المشی" (1) میں سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: رسول(ص) حسن(ع) و حسین(ع) کے لئے تعویذ بناتے تھے ہمارے جد ابراہیم بھی اسماعیل و اسحاق کے لئے اس طرح بناتے تھے:

"اعوذ بکلمات الله التامة من کل شیطان و هامة و من کل عین لامة"

جی ہاں ہم نے اس فصل میں بعض ان متناقض احادیث کی مثال پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ جو رسول(ص) کی طرف منسوب ہیں جب کہ رسول(ص) ان سے بری ہیں

____________________

1.بخاری جلد/4 ص119

۱۸۹

ایسی اور سیکڑوں متناقض احادیث ہیں جہیں بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے. - فی الحال- ہم ان سے قطع نظر کرتے ہیں. کیونکہ ہم نے ہمیشہ قارئین کو اختصار و اشارہ کا عادی بنایا ہے. محققین کو اس سلسلہ میں تحقیق کرنا چاہئیے. عنقریب خدا ان کے ذریعہ احادیث رسول(ص) کو پاک کردے گا اور انہیں اجر عظیم عطا کرے گا اور وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کرنے کا سبب قرار پائیں گے اور نئی نسل کے سامنے قیمتی بحثین پیش کریں گے کہ جو پیغام اسلام کا آئینہ دار ہونگی.

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسى‏ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قالُوا وَ كانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهاً يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلًا سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمالَكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ‏ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظِيماً ) سورہ احزاب، آیت/71

ایمان لانے والو خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے مومنین کو اذیت دی تو خدا نے انہیں ان کے قول سے بری ثابت کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک وجیہ انسان تھے، ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور پنی تلی بات کہو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے اور جو خدا و رسول(ص) کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی پر فائز ہوگا.

۱۹۰

آٹھویں فصل

بخاری و مسلم سے متعلق

اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان دونوں کتابوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے. دینی مباحث میں عامہ کے یہی اساسی اور اولین مصادر ہیں حالانکہ بعض محققین کے لئے یہ مشکل پیدا ہوگئی کہ وہ اس متناقض اور رکیک چیز کی کیسے صراحت کر دیں جو انہیں ان مصادر میں ملتی ہیں، وہ انہیں تلخ گھونٹ کی طرح پی جاتے ہیں اورخوف کے مارے قوم کو اس سے آگاہ نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں ان دونوں کتابوں کا بہت احترام ہے. حقیقت یہ ہے کہ بخاری و مسلم کو بھی کبھی یہ بات گوارا نہ تھی کہ علماء میں سے کوئی ان کے مرتبہ تک پہونچے.

ہم نے ان کے اوپر تنقید کرنے اور ان کے مطاعن سے پردہ اٹھانے کا ارادہ صرف اس لئے کیا ہے تاکہ اپنے نبی(ص) کی طہارت و عصمت کو ثابت کیا جاسکے. اور جب اس مقصد کی خاطر اس طرح کی تنقید سے صحابہ بھی نہ

۱۹۱

بچ سکے تو مسلم اور بخاری رسول(ص) کے پاس بیٹھنے والوں سے تو افضل نہیں ہیں.

ہمارا مقصد رسول(ص) عربی کی تنزیہ ہے اور ہم آپ(ص) کی عصمت کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے جب کہ آپ(ص) علی الاطلاق تمام لوگوں سے اعلم و اتقی ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ خداوند عالم نے آپ(ص) کو منتخب کیا تاکہ آپ(ص) عالمین کے لئے رحمت بن جائیں اور تمام جن و انس پر آپ(ص) کو مبعوث کیا ہے. اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم نے ہم سے ان کی تقدیس وتنزیہ کا مطالبہ کیا ہے. اور اس کے سلسلہ میں مطاعن سے منع کیا ہے اور اسی لئے ہم اور تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے. کہ ان چیزوں کو چھوڑ دیں جو ان کے خلق عظیم کے متنافی ہیں. اور ہر وہ چیز جو ان کی عصمت کے خلاف اور ان کی با عظمت شخصیت کے، شایان شان نہ ہو. پس صحابہ، تابعین، تمام محدثین منت ہیں. پس تنقید کرنے والے اور تعصب رکھنے والے کا عنقریب جیسا کہ ان کی عادت ہے ہر نئی چیز سے خون کھولے گا. لیکن ہمارا مقصد تو خدا اور رسول(ص) کی رضا حاصل کرنا ہے اور وہ ذخیرہ، خزانہ اور اس دن کا توشہ ہے جس دن مال و اولاد کچھ کام نہ آئے گا مگر یہ کہ کوئی قلب سلیم کے ساتھ آئے.

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ان سچے مومنوں کی عزت افزائی کرنا بھی ہے جو خدا اور رسول(ص) کے اقدار سے واقف ہوئے ہیں اور حکام و خلفاء سلاطین کو نظروں میں نہیں لائے.

مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت شدید مخالفتوں میں گھر گیا تھا جب میں بخاری کی اس حدیث کہ" جناب موسی نے ملک الموت کو طمانچہ مارا

۱۹۲

اور اس کی آنکھیں پھوڑ دیں" پر تنقید کی تھی یہاں تک کہ مجھے دین سے خارج اور کافر کہا گیا. اور کہا گیا تم کون ہوتے ہو جو بخاری پر تنقید کر رہے ہو؟ اورشور و غل مچاتے ہوئے میرے چاروں طرح جمع ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں نے کتاب خدا کی کسی آیت پر تنقید کر دی ہے.

حقیقت تو یہ ہے جب تحقیق کرنے والا اندھی تقلید کی قید سے آزاد اور بے ہودہ تعصب سے بے پرواہ ہو کر بخاری و مسلم کا مطالعہ کرے گا تو یقینا اسے ان میں عجیب و غریب چیزیں نظر آئیں گی جو عرب کے بدئوں کی عقل کی عکاسی کرتی ہیں ان کے افکار جمود کا شکار ہیں وہ خرافات اور قصہ کہانیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی فکر ہر عجیب و غریب شئی کی طرف مائل ہوتی ہے. اور یہ کوئی عجیب نہیں اور نہ ہی ہم اس کو ذہنی کجی کہہ سکتے ہیں. کیونکہ ان کا زمانہ جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ نہیں تھا اور نہ ہی ٹیلیویزن اور ٹیلیفون کا دور تھا اور نہ ہی مزائیل وغیرہ کا عہد تھا.

اور ہمارا ارادہ یہ بھی نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کو رسالتمآب(ص) سے ملادیں کیونکہ اس میں بہت بڑا فرق ہے یہ(رسول(ص)) وہ ہیں جنہیں خدا نے غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں بھیجا یہ ان پر خدا کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تذکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور چونکہ یہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اس لئے خدا نے ان کو اولین و آخرین کے علم سے نوازا ہے.

جیسا کہ ہم محترم قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کراچکے ہیں کہ بخاری کی وہ تمام روایات جو رسول(ص) کی طرف منسوب ہیں وہ نبی(ص) کی حدیث نہیں ہیں، بخاری نے نبی(ص) کی کوئی حدیث نقل کی اور پھر اس کے بعد بعض صحابہ کی رای قلمبند کر دی جس سے قارئین کو یہ توہم ہوتا ہے کہ رائے بھی رسول(ص) کی حدیث ہے جب کہ

۱۹۳

وہ رسول(ص) کی حدیث نہیں ہے.

مثال کے طور پر میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الحیل کے باب " النکاح جلد/8 ص62" میں ابوہریرہ سے اور انہوں نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا کہ:

کنواری لڑکی کو بغیر اذن کے نکاح نہیں کرنا چاہیئے اور شادی شدہ کو مشورہ سے پہلے نکاح نہیں کرنا چائیے. کہا گیا: یا رسول(ص) اللہ اس اذن کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا : اس کی خاموشی، بعض افراد نے کہا ہے کہ اگر کنواری اجازت نہ دے جبکہ اس نے شادی نہ کی ہو اور کوئی شخص حیلہ بازی سے دو جھوٹے گواہی سے گواہی دلوائے کہ میں نے اس عورت سے شادی کی ہے تو قاضی اس نکاح کو صحیح قرار دے گا جب کہ اس کا شوہر یہ جانتا ہے کہ یہ گواہی باطل ہے پس اس سے ہمبستری کرنے میں اشکال نہیں ہے اور یہ نکاح صحیح ہے.

ذرا بخاری کی یہ حرکت ملاحظہ فرمائیے کہ حدیث رسول(ص) کے بعد لکھتے ہیں کہ بعض افراد نے کہا ہے. پس بعض مجہول افراد کی گواہی سے نکاح صحیح ہوگیا، قارئین کو یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ رسول(ص) کا نظریہ ہے جب کہ یہ غلط ہے.

دوسری مثال: بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدء الخلق کے باب " مناقب المہاجرین و فضلہم" میں عبداللہ ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم رسول(ص) کے زمانہ میں ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کے بعد عمر کو ان کے عبد عثمان کو ان کے بعد تمام اصحاب نبی(ص)

۱۹۴

برابر تھے کسی کو کسی کے اوپر فضیلت نہیں تھی.

یہ عبداللہ ابن عمر کی رائے ہے وہی اس کے ذمہ دار ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ رسول(ص) کے بعد سب سے افضل علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں. اور ان کا کہیں ذکر نہیں ہے اور عبداللہ ابن عمر ان کو عام لوگوں میں شمار کرتے ہیں؟

اسی لئے آپ عبداللہ ابن عمر کو امیرالمومنین(ع) کی بیعت سے انکار کرتے پائیں گے جب کہ علی (ع) ان کے مولا ہیں کیونکہ علی(ع) جس کے مولا نہیں ہیں وہ مومن نہیں ہے.(1)

اور نبی(ص) نے آپ(ع) کے بارے میں فرمایا ہے: علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ.(2) جب کہ عبداللہ ابن عمر دشمن خدا و رسول(ص) اور عدو مومنین حجاج ابن یوسف جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کرتے ہیں، ہم اس قسم کی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے لیکن قارئین کے سامنے بخاری اور ان جیسوں کے خیالات و نفسیات کو پیش کرنے کے لئے مجبور ہیں اسی بخاری نے باب مناقب المہاجرین میں یہ واقعہ نقل کیا ہے. گویا وہ سادے انداز میں قارئین کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں یہ رسول(ص) کی رائے ہے جب کہ وہ عبداللہ ابن عمر کی رائے ہے کہ جو علی علیہ السلام کے دشمن ہیں.

عنقریب ہم ذہین قارئین کے سامنے حضرت علی(ع) سے متعلق تمام چیزوں میں بخاری کا موقف پیش کریں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ وہ علی(ع) کے فضائل چھپانے میں کتنے کوشاں تھے اورعیب لگانے کے درپے تھے.

____________________

1.صواعق محرقہ ص107

2.صحیح ترمذی جلد/5 ص297، مستدرک الحاکم جلد/3 ص124

۱۹۵

جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدء الخلق کے باب " حدثنا الحمیدی" میں محمد ابن حنفیہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے والد سے کہا رسول(ص) کے بعد سب سے زیادہ افضل کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر. میں نے عرض کی: ان کے بعد؟ فرمایا: عمر، ( محمد حنفیہ کہتے ہیں) میں ڈرا کہ کہیں عمر کے بعد عثمان کا نام پیش کریں اس لئے میں نے پہلے ہی کہدیا کہ ان کے بعد آپ(ع) نے فرمایا: میں تو مسلمانوں میں سے عام شخص ہوں.

جی ہاں! انہوں نے یہ حدیث گڑھ کر فرزند علی ابن ابی طالب(ع) محمد ابن حنفیہ کی طرف منسوب کر دی ہے یہ بالکل وہی حدیث ہے جو پہلے ابن عمر کی زبانی نقل ہوچکی ہے نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے اگر چہ محمد ابن حنفیہ کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے پدر بزرگوار تیسرے نمبر پر عثمان کا نام نہ پیش کر دیں. لیکن ان کے والد نے ان کی بات کی یہ کہکر تردید کی کہ میں تو عام انسان ہوں. اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عثمان حضرت علی(ع) سے افضل ہیں. کیونکہ اہلسنت میں کوئی شخص بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ عثمان مسلمانوں میں سے ایک شخص تھا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ سب سے افضل ابوبکر پھر عمر اور ان کے بعد عثمان تھے پھر ہم اصحاب نبی(ص) کو مساوی سمجھتے ہیں. کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے. کیونکہ دوسرے لوگ مساوی ہیں.

کیا آپ کو بخاری کی روایت کردہ ان احادیث پر تعجب نہیں ہوتا، ان کی تمام احادیث کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے حضرت علی(ع) کو ہر فضیلت سے عاری ثابت کرنا کیا اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بخاری ہر اس چیز کو لکھتے ہیں جس سے بنی امیہ، بنی عباس اور ان حکام کے منشاء کے موافق ہوتی ہے جن کی پوری کوشش اہل بیت(ع) کی ہتک میں صرف ہوئی ہے جو شخص حقیقت

۱۹۶

سے آشنا ہونا چاہتا ہے اس کے لئے یہ ٹھوس دلیلیں ہیں.

بخاری و مسلم ابوبکر و عمر کی فضیلت بیان کرتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح کتاب بدئ الخلق کے باب "حدثنا الیمان"(1) میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب " فضائل ابی بکر الصدیق" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول(ص) نے نماز صبح ادا کی پھر لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا:

جب کوئی گائے پر سوار ہو کر اسے ہنکاتا ہے تو وہ گائے کہتی ہے کہ ہم اس لئے پیدا نہیں کئے گئے ہیں بلکہ ہم تو کھیتی کے لئے خلق کئے گئے ہیں. لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! گائے بھی بولتی ہے؟ آپ نے فرمایا: بیشک میں اور ابوبکر و عمر اس پر امین بنائے گئے ہیں جبکہ ابوبکر و عمر وہاں موجود نہ تھے.

اور جب کوئی شخص اپنی بھیڑ بکریوں کو چھوڑ دیتا ہے اور بھیڑیا کسی کی بکری اٹھا لے جاتا ہے اور پھر وہ شخص تلاش کر کے اسے بھیڑئے سے چھڑا لیتا ہے تو بھیڑیا اس سے کہتا ہے آج تو تم نے اسے مجھ سے بچالیا لیکن قیامت کے روز اسے کون بچائے گا اس دن میرے علاوہ کوئی اس کا نگہبان نہ ہوگا لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! کہیں بھیڑیا بھی بات کرتا ہے؟

____________________

1.بخاری جلد/4 ص49

۱۹۷

آپ(ص) نے فرمایا: بیشک مجھے اور ابوبکر و عمر کو اس پر امین بنایا گیا ہے. اور ابوبکر و عمر وہاں نہیں تھے.

یہ حدیث بھی دونوں خلفاء کے فضائل کے لئے گڑھی گئی ہے ورنہ رسول(ص) کے صحابہ آپ کے قول کی کیوں تکذیب کر رہے تھے. یہاں تک کہ آپ کو یہ کہنا پڑا کہ مجھے اور ابوبکر و عمر کو اس پر امین بنایا گیا ہے پھر راوی کے اس تاکید کلام کو ملاحظہ فرمائیے کہ وہاں ابوبکر و عمر موجود نہ تھے. یہ ایسے مضحکہ خیز فضائل ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن لوگ ڈوبنے والے کی طرح تنکے کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور جب حدیث گڑھنے والوں کو ان ( خلفاء) کے لئے کوئی خاص بات نہیں ملتی تو وہ اپنی طرف سے اس قسم کے فضائل گڑھ دیتے ہیں کہ جو خیالی اور ذہنی ایجاد ہوتے ہیں. ان کی بنیاد کسی علمی، منطقی اور تاریخی دلیل پر قائم نہیں ہوتی ہے. جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل اصحاب النبی(ص) کے باب" قول النبی، لو کنت متخذا خلیلا " میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل صحابہ کے باب " من فضائل ابی بکر الصدیق" میں عمر ابن عاص سے روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے اسے ذات سلاسل کے لشکر میں بھیجا پس میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ سب سے زیادہ محبوب آپ کو کون ہے؟ فرمایا: عائشہ ، میں نے کہا مردوں میں؟ فرمایا: ان کے باپ ، میں نے کہا ان کے بعد فرمایا: عمر ابن خطاب اس کے بعد تمام لوگ، مساوی ہیں.

گڑھنے والوں نے یہ حدیث اس وقت گڑھی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ سنہ8ھ میں ( یعنی وفات نبی(ص) سے دوسال قبل) نبی(ص) نے غزوہ ذات سلاسل کے لئے عمرو ابن عاص کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا کہ جس میں ابوبکر و عمر بھی شامل تھے. اس حدیث سے اس شخص کا منہ بند

۱۹۸

کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو یہ کہہ سکتا تھا کہ عمرو ابن عاص اس سے افضل تھا لہذا حدیث ڈھالنے والوں نے خود عمرو ابن عاص ہی کی زبان سے روایت گڑھی اور عائشہ کو اس طرح خاموش کیا کہ ایک طرف سے شک کو دور کیا اور دوسری طرف عائشہ کو مطلق افضلیت ملی.

یہی وجہ ہے کہ آپ امام نووی کو مسلم کی شرح میں یہ تحریر کرتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں گے. یہ ابوبکر و عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے عظیم فضائل کی تصریح ہے اور اس میں اہلسنت کے لئے واضح دلیل موجود ہے کہ صحابہ میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ان کے بعد عمر ہیں.

اس روایت پر بھی دوسری ضعیف روایات کی طرح دجالوں نے اکتفا نہ کی بلکہ علی(ع) ابن ابی طالب کی زبان سے بھی ایک روایت گڑھ دی اور اپنے زعم ( ناقص) میں انہوں نے اس کو ایک طرف شیعوں پر حجت قرار دیا ہے کہ جو علی(ع) ک تمام صحابہ میں افضل سمجھتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو یہ فریب دیا کہ علی(ع) کو ابوبکر و عمر سے کوئی شکایت نہیں تھی. بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل اصحاب النبی(ص) کے باب " مناقب عمر ابن خطاب " میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الفضائل الصحابہ کے باب " فضائل عمر" میں علی(ع) اور ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ: عمر کوتخت پر لٹایا گیا اور لوگ ان کے تخت کے اردگرد جمع ہوگئے اور ان کے لئے دعا کی میں بھی ان میں موجود تھا لیکن میری طرف کوئی متوجہ نہیں تھا ایک شخص میرا کندھا پکڑے ہوئے تھا، وہ علی(ع) تھے انہوں نے کہا خدا عمر پر رحم کرے پھر فرمایا: تمہارے بعد مجھے کوئی شخص عزیز نہیں ہے کہ جو تمہاری طرح اپنے عمل کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے، اور قسم خدا کی مجھے یقین ہے کہ خدا آپ کو آپ کے دوست(محمد(ص))

۱۹۹

کے جوار میں جگہ عطا کرے گا، مجھے یاد ہے کہ میں نے نبی(ص) کو بارہا ارشاد فرماتے سنا کہ: میں اور ابوبکر و عمر ( فلاں جگہ) گئے میں اور ابوبکر و عمر ( فلاں جگہ) داخل ہوئے میں اور ابوبکر و عمر فلاں جگہ کے لئے نکلے.

جی ہاں! اس کا جعلی ہونا تو واضح ہے اس سے اس سیاست کی بھی بو آرہی ہے جس نے فاطمہ زہرا(ع) کو ( ہر معاملہ سے ) الگ کیا، انہیں باپ کے پہلو میں دفن نہ ہونے دیا اگرچہ وہی سب سے پہلے آپ(ص) سے ملحق ہونے والی تھیں. شاید راوی ، میں(محمد(ص)) اور ابوبکر و عمر گئے، میں اورابوبکر و عمر داخل ہوئے میں اور ابوبکر و عمر نکلے کے بعد اس جملہ کا اضافہ کرنا بھول گیا کہ میں اور ابوبکر و عمر ایک ساتھ فن ہوں گے.

اس قسم کی گڑھی ہوئی روایات سے کہ جن کو تاریخ اور واقعات جھٹلا رہے ہیں احتجاج کرنے والے نے پر ہیز کیا جب کہ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) کی طول حیات میں ابوبکر و عمر نے ان پر ظلم کیا ہے.

پھر اگر آپ روایت میں غور فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ راوی علی(ع) کو ایک اجنبی شخص کی صورت میں پیش کرتا ہے جو کہ ایک اجنبی کی میت پر غم دور کرنے کے لئے آیا ہے تو دیکھتا ہے کہ لوگ اسے چاروں طرف سے گھیر ے ہوئے ہیں اور دعائیں مانگ رہے ہیں پس وہ ابن عباس کا کندھا پکڑے ہوئے ہیں گویا آہستہ سے کچھ ان کے کان میں کہنے کے لئے پیچھے کھینچتے ہیں جبکہ مفروض یہ ہے کہ علی(ع) سب سے آگے تھے اور انہوں نے سب کے ساتھ نماز پڑھی تھی اور دفن تک ساتھ ساتھ تھے.

ہرتاریخ دان جانتا ہے کہ بنی امیہ کے زمانہ میں معاویہ کے حکم سے لوگوں

۲۰۰