اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34842
ڈاؤنلوڈ: 2699


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34842 / ڈاؤنلوڈ: 2699
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ بتایا تھا کہ آپ(ص) نے علی(ع) کو کب وصیت کی تھی. لیکن مسلط حکام نے انہیں ایسے واقعات نقل کرنے سے منع کر رکھا تھا جیسا کہ تیسری وصیت کے لئے ممانعت تھی جس کو انہوں نے بھلا دیا، سیاست حقیقت کو چھپانے میں تھی خود عمر نے بھی اس کی تصریح کی ہے، انہوں نے رسول(ص) کو نوشتہ لکھنے سے منع کیا کیونکہ عمر جانتے تھے کہ نوشتہ علی(ع) کی خلافت سے مختص ہے... ابن ابی الحدید نے عمر ابن خطاب اور عبداللہ ابن عباس کے درمیان میں ہونے والی اس گفتگو کو درج کیا ہے. عمر ابن عباس سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اب بھی علی(ع) کے دل میں خلافت کی تمنا ہے؟ ابن عباس نے کہا ہاں! عمر نے کہا: رسول(ص) نے مرض الموت میں ان (علی(ع)) کے نام کی تصریح کرنا چاہی تھی لیکن میں نے اسلام پر ترس کھا کر انہیں اس سے منع کر دیا.(1)

مولانا صاحب اب حقیقت سے کیوں فرار کر رہے ہیں اظہار حق سے پہلو تہی کیسی، تاریکی کا زمانہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ساتھ گیا... آپ اس تاریکی کو پردہ ڈال کر اور بڑھا رہے ہیں، آپ دوسروں کو حقیقت کے ادراک اور اس تک رسائی سے منع کر رہے ہیں، جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اگر اس کی بنیاد حسن نیت پر ہے تو آپ کے لئے خدا سے میری دعا ہے کہ وہ تمہاری ہدایت کرے اور آپ کی بصیرت کو کھول دے.

6- بخاری نے اکثر نبی(ص) کی ان احادیث میں تبدیلی و تدلیس کی ہے جن میں ابوبکر و عمر کی توہین و تنقیص محسوس کی ہے، لیجئے بخاری کو تاریخ کا ایک

____________________

1.شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد/12 ص21 پر ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اس واقعہ کو صاحب تاریخ بغداد نے لکھا ہے.

۲۲۱

مشہور واقعہ جس میں رسول(ص) نے ایک حدیث بیان کی تھی پسند نہیں آیا اور اسے پوری طرح نقل نہیں کیا کیونکہ اس سے علی(ع) کی ابوبکر پر فضیلت ثابت ہو رہی تھی.

اہلسنت کے علماء نے اپنی صحاح و مسانید میں مثلا ترمذی نے اپنی صحیح میں حاکم نے مستدرک میں، احمد ابن حنبل نے مسند میں، امام نسائی نے خصائص میں، طبری نے تفسیر میں، جلال الدین سیوطی نے اپنی در المنثور میں، ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اور زمخشری نے کشاف میں روایت کی ہے کہ:

رسول(ص) نے ابوبکر کو ( مکہ) بھیجا اور وہاں ان کلمات ( خدا و رسول(ص) مشرکین سے بری ہیں) ک پڑھنے کا حکم دیا، ان کے پیچھے پھر علی(ع) کو روانہ کیا، اور انہیں ان کلمات کو پڑھنے کا حکم دیا، پس علی(ع) نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر ان کلمات کو پڑھا کہ: مسلمانو! جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا ہے اب ان سے خدا و رسول(ص) کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے، پس چار مہینے تک کہیں کبھی سیر کرو، یاد رکھو! کہ خدا سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے، اس سال کے بعد مشرکین کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا اور نہ ہی عریانی کی حالت میں کسی کو طواف کی اجازت دی جائے گی.

ابوبکر لوٹ آئے اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟ فرمایا: نہیں لیکن میرے پاس جبرئیل آئے تھے اور انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ اس پیغام کو تم یا وہی شخص پہونچا سکتا ہے جو تم سے ہے.

۲۲۲

بخاری نے اپنی عادت کے مطابق اس واقعہ کو بھی اسی انداز سے نقل کیا ہے چنانچہ اپنی صحیح کی کتاب تفسیر القرآن کے باب " قولہ فسیحو فی الارض اربعة اشہر" میں فرماتے ہیں کہ: مجھے حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی ہے کہ ابوہریرہ نے کہا کہ اسی حج میں دیگر اعلان کرنے والوں کے ساتھ ابوبکر نے مجھے بھی بھیجا اور ہمیں نہ عریانی کی حالت میں کسی کو طواف کرنے دیا جائیگا حمید ابن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر رسول(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کو وہ کلمات دے کر روانہ کیا. اور برائت کا اعلان کرنے کا حکم دیا، ابو ہریرہ کا کہنا ہے کہ روز نحر علی(ع) نے منی میں برائت کا اعلان کیا اور یہ کہا کہ: اس سال کے بعد مشرکوں کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا اور نہ ہی عریانی کی حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنے دیا جائے گا.(1)

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اغراض اورمذہبی دشمنی کے تحت بخاری نے احادیث و واقعات میں کس طرح قطع و برید کی ہے، کیا اس میں جس طرح بخاری نے بیان کیا ہے اور جس انداز میں اہلسنت کے دوسرے علماء و محدثین نے قلمبند کیا ہے دونوں میں کوئی مشابہت و مماثلت ہے؟

اور یہ ہی نہیں بلکہ بخاری ابوبکر کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ انہوں( ابوبکر) نے ابوہریرہ کو اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا کہ وہ منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائیگا اور نہ ہی عریانی کی حالت میں طواف کی اجازت دی جائے گی اس کے بعد

____________________

1.صحیح بخاری جلد/5 ص202 کتاب تفسیر القرآن سورہ برائت

۲۲۳

حمید ابن عبدالرحمن کے اس قول کی نوبت آتی ہے کہ رسول(ع) نے علی(ع) کو سورہ برائت دے کر روانہ کیا اور اعلان برائت کاحکم دیا.

پھر ابوہریرہ کا قول آتا ہے کہ روز نحر یہ اعلان کرنے والوں میں کہ "اس سال کے بعد مشرکین کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا اور نہ ہی کسی کو عریان حالت میں طواف کی اجازت دی جائے گی" علی(ع) بھی شامل ہوگئے.

اس اسلوب سے بخاری علی ابن ابی طالب(ع) کی فصیلت کو گھٹاتے ہیں کہ انہیں رسول(ص) نے بعد میں سورہ برائت کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا جب کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اس وقت روانہ کیا تھا جب جبرئیل خدا کا یہ حکم لیکر نازل ہوئے کہ اس مہم امر سے ابوبکر کو معزول کرو. اس پیغام کو تو تم یاد ہی شخص پہونچا سکتا ہے جو تم سے ہے. لیکن بخاری کے لئے یہ بات بہت ہی ناگوار تھی. ابوبکر وحی خدا کے ذریعہ معزول اور علی(ع) ابن ابی طالب کو ان پر مقدم کیا جائے ظاہر ہے اس بات پر بخاری کبھی خوش نہیں ہوسکتے تھے لہذا روایت میں تدلیس سے کام لیا.

اور محقق اس تال میل، علمی امانت میں خیانت سے کیسے خبردار نہ ہوگا خصوصا جب وہ یہ پڑھے گا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں اسی حج میں ابوبکر نے مجھے ان اعلان کرنے والوں کے پاس بھیجا جنہیں روز قربانی بھیجا تھا. کیا ابوبکر عہد رسول(ص) ہی میں امور تقسیم کرنے لگے تھے؟ اور یہ خود محکوم بن کر نہیں گئے تھے؟ حاکم کیسے بن گئے کہ جو صحابہ کے درمیان سے لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرتے ہیں؟

ذرا بخاری کی حرکت کو ملاحظہ فرمائیے کہ کیسے ہر چیزکی اصل کو بدلتے ہیں کہ حضرت علی(ع) جن کے سوا کوئی اسے انجام نہیں دے

۲۲۴

سکتا تھا وہ تو نبی(ص) کی طرف سے اس مہم امر کی انجام دہی کے لئے مبعوث ( محکوم) ہیں وہ تو ابوہریرہ ایسے دوسرے اعلان کرنے والوں میں شامل ہوگئے لیکن ابوبکر کی معزولیت اور روتے ہوئے ان کی واپسی کو بیان ہی نہیں کیا اور نہ رسول(ص) کے اس قول کو نقل کیا ہے کہ " میرے پاس جبرئیل آئے تھے انہوں نے کہا ہے کہ اس پیغام کو آپ یا وہ شخص پہونچا سکتا ہے جو آپ سے ہے.

کیونکہ رسول(ص) نے اس حدیث میں اپنے ابن عم اور وصی علی ابن ابی طالب(ع) کو امت کا قائد بنایا ہے. اور پھر یہ بات تو واضح ہے کہ نبی(ص) کی حدیث جبرئیل کے پیغام کے مطابق ہوتی ہے کہ جس کے بعد تاویل کرنے والوں(بخاری جیسوں) کے لئے اس تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے کہ محمد(ص) کی رائے بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہے کیونکہ وہ بھی بشر ہیں ان سے بھی خطا سر زد ہوتی ہے ظاہر ہے کہ اس صورت میں بخاری کے لئے بہتر یہ تھا کہ اس حدیث کو نظر انداز کریں اور اسے دوسری حدیثوں کی طرح چاٹ جائیں.

پس آپ بخاری کو اپنی صحیح کی کتاب الصلح کے باب" کیف یکتب هذا ما صالح فلان بن فلان " میں علی(ع) ابن ابی طالب کے بارے میں رسول(ص) کے قول " علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں" کو علی(ع) و جعفر اور زید کے قضیہ میں درج کرتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں گے....

جبکہ ابن ماجہ ، ترمذی، نسائی اور امام احمد صاحب کنز العمال ( وغیرہ) سب نے رسول(ص) کے اس قول، "علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں" کو حجة الوداع کے حوالہ سے نقل کیا ہے. لیکن بخاری نے مذکورہ باب میں درج کیا ہے.

۲۲۵

7- اس پر ایک بات کا میں اور اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان کے باب الدلیل میں تحریر کیا ہے کہ علی(ع) اور انصار کی محبت ایمان اور علامت دین ہے اور ان کا بغض نفاق کی نشانی ہے.

علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ: آپ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ہوا کو چلایا. مجھ سے نبی(ص) امی نے بتایا کہ مجھ سے وہی محبت رکھے گا جو مؤمن ہوگا اور وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا.

ترمذی نے اپنی صحیح میں اور نسائی نے اپنی سنن میں احمد ابن حنبل نے مسند میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں اور طبری نے، ذخائر العقبی میں، ابن حجر نے لسان المیزان میں اس حدیث کو نقل کیا ہے لیکن بخاری نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا اگرچہ ان کے نزدیک یہ حدیث ثابت ہے جب کہ مسلم نے اسے نقل کیا ہے اور ان کے رواة سب ثقہ ہیں. بخاری نے اس حدیث کے بارے میں پہلے یہ سوچا کہ اس حدیث سے تو اکثر صحابہ منافق ثابت ہوں گے اگرچہ وہ رسول(ص) کے پاس بیٹھتے تھے لہذا اس کو نظر انداز کر دیا.

یہ اس کا قول ہے جو اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وحی کے مطابق کلام کرتا ہے. خود یہ خود حدیث حضرت علی(ع) کے لئے بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ انہیں کے ذریعہ حق کو باطل سے اور ایمان سے جدا کیا جاتا ہے حضرت علی(ع) اس امت کے آیت اللہ العظمی اور حجت الکبری ہیں اور اس امت کے لئے وہ امتحان و آزمائش ہیں جس کے ذریعہ خدا امت محمد(ص) کو آزماتا اور پرکھتا ہے، باوجودیکہ نفاق کا تعلق باطنی اسرار سے ہے اسے وہی جانتا ہے

۲۲۶

جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہوتا ہے ظاہر ہے اسے علام الغیوب کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا ہے. پس خدا نے اس امت پر رحم و فضل کیا اور (آپ(ع) کو) اس امت کے لئے (مومن و منافق کی) علامت قرار دیا. تاکہ جو ہلاک ہو وہ حجت کے بعد اور جو نجات پائے وہ بھی حجت کے بعد.

میں اس سلسلہ میں بخاری کی ذہانت کی ایک مثال پیش کرتا ہوں، میرا ذاتی اعتقاد یہ ہے کہ شاید اسلاف ہی سے اہلسنت اسی خاصیت کے تحت بخاری کو دوسرے محدثین پر فضیلت دیتے ہیں بخاری کی ساری کوشش اس بات میں صرف ہوئی ہے کہ کوئی ایسی حدیث نقل نہ ہونے پائے جو ان کے مذہب کے مخالف ہو.

چنانچہ وہ اپنی صحیح کیکتاب الهبه و فضلها والتحریص علیها کے باب" هبة الرجل لامراته والمراة لزوجها" میں تحریر فرماتے ہیں کہ: عبداللہ ابن عبداللہ نے مجھے خبر دی کی عائشہ نے کہا:

جب نبی(ص) کی طبیعت ناساز ہوتی اور درد میں شدت ہوئی تو آپ(ص) نے ازواج سے اجازت طلب کی اور کہا کہ میری تیمار داری میرے ( عائشہ کے) گھر پر ہو انہوں نے اجازت دے دی تو آپ(ص) دو اشخاص کے سہارے وہاں سے نکلے، آپ(ص) کے قدم زمین پر خط دیتے جاتے تھے. ان دو اشخاص میں سے ایک عباس تھے ایک کوئی اورشخص تھا، پس عبداللہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس سے عائشہ کی اس بات کا تذکرہ کیا انہوں نے بتایا : کیا

۲۲۷

تم جانتے ہو یہ دوسرا شخص کون تھا جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا؟ میں نے کہا: آپ ہی بتائے انہوں نے کہا وہ علی(ع) ابن ابی طالب تھے.

اس واقعہ کو ابن سعد نے صحیح سند سے اپنی طبقات میں تفصیل سے لکھا ہے.(1) اسی طرح سیرة حلبیہ اور اصحاب سنن نے بھی اس کو تحریر کیا ہے اس صاف معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ ایک منٹ بھی علی(ع) کی خیریت نہیں چاہتی تھیں.

لیکن بخاری نے اس واقعہ سےاس جملہ کو اڑا دیا جس سے عائشہ کاعلی(ع) سے بغض ظاہر ہوتا ہے اور یہ کہ وہ (عائشہ) علی(ع) کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں پھر بھی جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ بھی صاحبان عقل و خرد کے لئے کافی ہے، کسی بھی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے محقق پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ ام المومنین عائشہ اپنے مولا علی(ع) ابن ابی طالب سے بغض رکھتی تھیں.(2) بغض کی انتہا یہ تھی کہ جب ان کو حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی تو اس وقت سجدہ شکر کیا. بہر حال خدا ام المومنین پر رحم کرے اور ان کے شوہر کی عظمت کے تحت

____________________

1.طبقات، جلد/2 ص29

2.ابن حجر نے صواعق محرقہ کے ص107 پر تحریر کیا ہے کہ دو دیہاتی عمر کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے عمر نے حضرت علی(ع) سے فیصلہ کرنے کی گذارش کی ، ان میں سے ایک نے کہا: یہ ہمارے درمیان فیصلہ کریں گے؟ پس عمر نے جھپٹ کر اس کا گریبان پکڑا اور کہا خدا تجھے غارت کرخ تجھے معلوم ہے یہ کون ہیں؟ یہ تمہارے اور تمام مومنوں کے مولا ہیں اور جس کے یہ مولا

۲۲۸

انہیں بخش دے، ہم خدا کی اس رحمت کو محدود نہیں کرتے ہیں جو ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے. ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ جنگ و فتنے نہ ہوتے جو ہماری پراگندگی اور ہماری جمعیت کی تفریق اور ہماری ہوا اکھڑ جانے کا سبب بنی یہاں تک کہ آج ہم مستکبرین کا لقمہ اور ظالم استعمار کا نشانہ بن گئے ہیں.

"لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم"

جن روایات سے اہلبیت(ع) کی تنقیص ہوتی ہے وہ بخاری کو بہت محبوب ہیں

بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ بخاری نے وہ راستہ اختیار کیا جس کا تعلق خلفاء کے مسلک سے تھا اور جسے حکومتوں نے مضبوط و مستحکم کیا تھا، یا اس مکتب نے بخاری اور ان جیسے افراد کو چنا اور انہیں اپنے بادشاہ کی بادشاہت کی پائداری اور ان کے مذاہب کی ترویج کے لئے خزانہ و ستون بنایا اور ان کے اجتہادات کو جیسے چاہا گھایا. کیونکہ یہ مشغلہ اموی و عباسی حکومت میں بہترین تجارت اور نفع بخش مال تھا. ان علماء کے لئے جو خلیفہ کی تائید کے حصول میں مقابلہ بازی کیا کرتے تھے جس طریقے سے بھی ہوسکے خواہ حدیث گڑھ کے یا تدلیس کر کے. یہی زمانہ کی سیاست تھی، ہر ایک ان کی نظروں میں معظم اور اس سے دولت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا تھا. انہوں نے اپنی آخرت

____________________

-نہیں ہیں وہ مومن نہیں ہے

۲۲۹

کو دنیا کے عوض میں فروخت تو کر دیا لیکن ان کی ( اس) تجارت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ قیامت کے دن پشیمان اور نقصان اٹھانے والوں میں ہونگے.

عوام، عوام ہے، زمانہ، زمانہ ہے آج بھی آپ اسی انداز اور اسی سیاست کو ملاحظہ کرتے ہیں کتنے بڑے بڑے عالم اپنے گھروں میں مقید ہیں جنہیں لوگ جانتے نہیں ہیں اور کتنے جاہل خطیب، امام جماعت اور مسلمانوں کے شہروں کے حاکم بنے ہوئے ہیں، اس کا سبب حکومت کی قریب اور تائید ہے ورنہ آپ مجھے اپنے رب کی قسم کھا کے بتائیے کہ اہلبیت نبی(ص) کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ایسا پاک رکھا جو حق ہے، سے بخاری کی عداوت و علیحدگی کی کیا تفسیر کی جاسکتی ہے؟ ائمہ ہدی سے بخاری کی دشمنی کی کیوں کر تاویل ہوسکتی ہے جب کہ بعض ائمہ خود بخاری کے زمانہ میں موجود تھے لیکن ان سے بخاری نے حدیث نہیں لی ہاں اگر کوئی حدیث لی تو وہ جو ان کی عظمت کو گھٹانے کے لئے گڑھ کر ان کی طرف منسوب کر دی گئی ہے اور ان کی عصمت کے منافی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے. اس کی بعض مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.

پھر بخاری نے ان نواصب و خوارج سے حدیثیں لی ہیں جنہوں نے اہلبیت(ع) سے جنگ کی، انہیں قتل کیا، ( جیسا کہ) آپ دیکھتے ہیں کہ وہ معاویہ، عمرو ابن عاص، ابوہریرہ، مروان ابن حکم اور مقاتل ابن سلیمان کہ جسے دجال کہا جاتا ہے اور عمران ابن خطان ایسے دشمن علی(ع) و عدو اہلبیت(ع) سے روایت کی ہے. جو کہ خوارج کا شاعر اور خطیب ہے. جس نے علی(ع) کو قتل کرنے پر ابن ملجم کی مدح سرائی کی تھی.

جیسا کہ بخاری نے خوارج ومرجئہ و مجسمہ اور بعض ایسے نا معلوم

۲۳۰

لوگوں سے روایت کی ہے کہ جن کا زمانہ میں وجود ہی نہیں ہے.

اس طرح انہوں نے اپنی صحیح میں بعض مشہور راویوں کی طرف بعض نا ہنجار قسم کے راویوں کے ذریعہ جھوٹ اور تدلیس کی نسبت دی ہے اس کی مثال وہ روایت ہے جس کو بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب النکاح کے باب" ما یحل من النساء و ما یحرم و قوله تعالی ( حرمت علیکم امهاتکم ) الخ میں تحریر کیا ہے.

دوسرے باب میں خداوند عالم کے اس قول( و احل لکم ما وراء ذالکم ) کے بارے میں ( تحریر) فرماتے ہیں کہ عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کی بہن سے زنا کرے تو اس پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی.

اور یحیی کندی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے شعبی و ابو جعفر سے نقل کیا ہے کہ:

اگر کوئی شخص کسی لڑکے سے بد فعلی کرتے تو اس کی ماں سے نکاح حرام ہے.

بخاری کے شارح نے اس عبارت پر اس طرح حاشیہ لگایا ہے" بہتر یہ ہے کہ علماء ایسی باتوں کو کتابوں سے صاف کر کے اپنی عظمت بڑھائیں.

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب تفسیر القرآن کے باب " نسائکم حرث لکم" میں نافع سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن عمر قرآن کی تلاوت کرتے وقت کسی سے کلام نہیں کرتے تھے، ایک روز تلاوت کے وقت میں ان کے پاس پہونچ گیا وہ سورہ بقرة کی تلاوت کر رہے تھے جب

۲۳۱

تلاوت کرچکے تو کہا: جانتے ہو یہ ( آیت) کس چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: یہ فلان فلان چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر وہ چلے گئے.

اور نافع نے ابن عمرسے روایت کی ہے" قالوا حرثکم انی شئتم" انہوں نے کہا:یا ایها فی.... ( یعنی فلان جانب سے ....) شارح نے اس پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہا کہ:قوله فی بحذف المجرور وهو الظرف ای فی الیدین" ( ان کا یہ قول کہ فلان جانب سے تو یہاں مجرور کو حذف کیا ہے اور نہ ہے (بر) ایک قول یہ ہے کہ مولف نے کراہت کی بنا پر اسے حذف کیا ہے اور اسی طرح شارح نے بھی.(1)

ایک روز میں پیرس کی یونیورسٹی سربون میں اخلاقِ نبی(ص) کے سلسلہ میں گفتگو کر رہا تھا کہ جن کے اخلاق کی شہادت قرآن نے دی ہے اور رسالت پر مبعوث ہونے سے قبل بھی رسول(ص) کا اخلاق مشہور تھا اسی لئے آپ(ص) کو صادق و امین کہا جاتا تھا. جلسہ کو تقریبا ایک گھنٹہ گذر گیا تھا جس میں میں نے یہ وضاحت کی تھی کہ نبی(ص) جنگجو نہیں تھے اور نہ ہی اپنے مذہب کے استوار کرنے میں حقوق انسانی کو پامال کرتے تھے اور طاقت کے زور پر اپنا مذہب بھی نہیں منواتے تھے جیسا کہ بعض مستشرقین کا دعوی ہے.

اس مناقشہ کے درمیان کہ جس میں چنے ہوئے اساتذہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے اسپیشلسٹ خصوصا مستشرقین شریک تھے گویا میں ایک طرح سے ان لوگوں پرچوٹ کر رہا تھا جو شہادت پیدا کرتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک سن رسیدہ عربی عیسائی بھی تھا ( میرے خیال میں وہ لبنانی تھا. اس نے زیرکی اور خیانت

____________________

1.صحیح بخاری جلد/6 ص127

۲۳۲

دونوں کی آمیزش سے اوپر اعتراض کیا قریب تھا کہ میری ساری محنت اکارت ہو جائے.

اس ڈاکٹر نے فصیح عربی میں کہا تم نے جو بھی جلسہ میں کہا اس میں بہت زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے خصوصا عصمت نبی(ص) کے بارے میں کیونکہ اس سلسلہ میں خود مسلمان تمہارے موافق نہیں ہیں. خود محمد(ص) تمہاری موافقت نہیں کرتے ہیں انہوں نے متعدد بار کہا ہے کہ میں بشر ہوں جس سے خطا سرزد ہوسکتی ہے، نیز مسلمانوں نے ان کی متعدد خطائوں کو قلمبند کیا ہے. ہم ان کے نام شمار نہیں کراسکتے ہیں. مسلمانوں کی صحیح اور معتبر کتابیں اس کی گواہی دے رہی ہیں، اس کے بعد عیسائی نے کہا: جہاں تک جنگوں کا تعلق ہے اس سلسلہ میں حاضرین تاریخ کا مطالعہ فرمائیں بلکہ اس سلسلہ میں صرف کتابوں میں محمد(ص) کی جنگوں کا مطالعہ کافی ہے پھر ان کے بعد انہیں جنگوں کا سلسلہ خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا. یہاں تک کہ وہ فرانس کے مغرب میں واقع شہر PoiTiER تک پہونچ گئے. اور ہر جنگ میں وہ اپنے نئے مذہب کو تلوار کے زور سے منواتے تھے.

حاضرین اس کی باتوں کو قبول کر رہے تھے اور تالیاں بجا بجا کر اس کی تائید کر رہے تھے. ان کو مطمئن کرنے کی میں نے اپنے تئیں کافی کوشش کی یہ ڈاکٹر صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں غلط ہے اگرچہ مسلمانوں نے یہ اپنی کتابوں میں لکھا ہے اس سے ایک استہزائیہ قہقہہ لگا جس سے ہال گونج اٹھا.

ڈاکٹر نے پھر مداخلت کی اور کہا کہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ غیر معتبر کتابوں سے بیان کیا ہے یہ باتیں صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہیں.

میں نے کہا یہ کتابیں سنیوں کے نزدیک صحیح ہیں لیکن شیعوں کے نزدیک ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور میں شیعہ ہوں.

۲۳۳

اس نے کہا شیعوں کی رائے ہمارے لئے مہم نہیں ہے. ان کو اکثر مسلمان کافر کہتے ہیں. سنی مسلمان ہیں اور ان کی تعداد شیعوں کے دس برابر ہے ان کے نزدیک شیعوں کی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے. مزید کہا: جب تم مسلمانوں میں آپس میں تفاہم ہو جائے اور اپنے نبی(ص) کی عصمت کے سلسلہ میں تم اپنے نفسوں کو مطمئن کر لوگے اس وقت ممکن ہے کہ تم ہمیں مطمئن کرسکو ( یہ بات اس نے مسکرا کر اہانت کے انداز میں کہی)

پھر از سر نو میری طرف متوجہ ہوا اور کہا: لیکن جہاں تک ( ان کے) اخلاق حمیدہ کی بات ہے تو میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ آپ حاضرین کو یہ سمجھا دیں کہ محمد(ص) نے چون54 سال کی عمر میں شش سالہ عائشہ سے کیسے شادی کی؟

ایک بار پھر قہقہوں سے ہال گونجنے لگا اور لوگ گردن اٹھا کر میرے جواب کا انتظار کرنے لگے انہیں یہ بات باور کرانے کے لئے میں نے اپنی سی کوشش کی کہ عرب میں شادی دو مرحلوں میں ہوتی ہے، پہلا مرحلہ چھ سال کی عمر میں نکاح کیا تھا. لیکن اس وقت دخول نہیں کیا تھا بلکہ نو سال کی عمر میں دخول کیا تھا. میں نے کہا یہی بخاری نے لکھا ہے اگر چہ یہ بات میرے خلاف تھی. مجھے ذاتی طور پر اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے کیونکہ لوگ اس زمانہ میں مہذب زندگی نہیں گذارتے تھے اور نہ ہی ولادت، وفات کی تاریخ لکھی جاتی تھی اور اگر روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی نو سال کی عمر میں عائشہ بالغ ہوچکی تھیں. آج ہم روس اور رومانیہ کی کتنی ہی لڑکیوں کوٹیلیویژن پر جسمانی لحاظ سے کامل دیکھتے ہیں لیکن جب ان کی عمر بتائی جاتی ہے تو حیرت میں پڑ جاتے ہیں کسی بھی عمر گیارہ11 سال سے زیادہ نہیں ہوتی ہے.

۲۳۴

اس میں شک نہیں ہے کہ نبی(ص) نے عائشہ سے بالغ ہونے اور مہینہ دیکھنے کے بعد دخول کیا ہے. کیونکہ اسلام اٹھارہ 18 سال کو بلوغ کی حد قرار نہیں دیتا جیسا کہ تمہارے فرانس میں مشہور ہے. بلکہ عورت کے بلوغ کی علامت اس کا حائص ہونا ہے اور مرد کے بلوغ کی علامت منی کا خارج ہونا ہے. اور یہ بات آج ہمارے سامنے کہ دس سال کی عمر میں بھی بہت سے لڑکوں کی منی خارج ہوتی ہے. اسی طرح لڑکیاں بھی دس سال سے پہلے ہی حائض ہو جاتی ہیں.

اس وقت ایک عورت کھڑی ہوئی اور اس نے میرے اوپر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ: اگر آپ کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے اور کبھی ایسا ہوتا بھی ہے اور علمی لحاظ سے صحیح ہے لیکن کمسن لڑکی سے اس بوڑھے کی شادی کو کیسے تسلیم کر لیں جس کی عمر اپنی انتہا کو پہونچ چکی ہو؟

میں نے کہا: محمد (ص) اللہ کے نبی(ص) ہیں وہ جو کچھ کرتے ہیں وحی کے مطابق کرتے ہیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ کے ہر فعل میں حکمت ہوتی ہے اگرچہ میں ذاتی طور پر اس حکمت سے ناواقف ہوں.

عیسائی ڈاکٹر نے کہا: لیکن مسلمانوں نے اسے سنت نبی(ص) بنا لیا ہے. کتنی ہی کمسن لڑکیوں کی شادی ان کے باپ نے اپنے ہم عمر سے کر دی ہے. اور افسوس کی بات ہے کہ آج تک یہ ریت چلی آرہی ہے میں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور کہا: اسی لئے تو میں نے سنی مذہب کوچھوڑ دیا اور مذہب شیعہ کو اختیار کر لیا ہے کیونکہ مسلک شیعہ عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرے، ولی و سرپرست اس پر تحمیل نہیں کرسکتا ہے.

اس نے کہا سنی، شیعہ کی بحث چھوڑئے ہمیں عائشہ

۲۳۵

سے محمد(ص) کی شادی کو دیکھنا ہے. وہ حاضرین کی طرف متوجہ ہوا اور ظنزیہ انداز میں کہا محمد(ص) میں جن کی عمر چون54 سال ہوچکی ہے وہ اس کمسن لڑکی سے شادی کرتے ہیں جو ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی ہے. ہمیں بخاری بتاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں گڑیا سے کھیلتی تھیں اس سے عائشہ کی طفولیت سمجھ میں آتی ہے یہی وہ اخلاق عالیہ ہے جس سے نبی(ص) ممتاز ہوتا ہے؟

میں نے از سرنو حاضرین کو پھر اس طرح مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ بخاری کی بات کو نبی(ص) پر حجت نہیں قرار دیا جاسکتا. لیکن اب کچھ کہنا سے سود تھا یہ لبنانی عیسائی ڈاکٹر جیسے چاہتا تھا ان (اہلسنت) کے افکار سے کھیلتا تھا. اور میرے لئے اس کے علاوہ چارہ کار نہ تھا کہ گفتگو کو ختم کر دیتا. کیونکہ وہ مجھ پر بخاری سے حجت قائم کر رہا تھا جبکہ میں بخاری کی کسی بات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں.

میں وہاں سے ان مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتا ہوا نکلا کہ جنہوں نے دشمن اسلام و پیغمبر(ص) کو وہ ہتھیار فراہم کئے جنہیں وہ اب ہمارے خلاف استعمال کر رہےہیں ان ہتھیار دینے والوں میں سرفہرست بخاری ہے اس روز میں بہت ہی رنجیدہ گھر واپس آیا اور صحیح بخاری کے صفحات پلٹنا شروع کئے تو مجھے عائشہ کے فضائل میں سب کچھ مل گیا. اس وقت میں نے شکر خدا ادا کیا ورنہ میں رسول(ص) کی شخصیت کے بارے میں میں شک میں پڑا رہتا اگرچہ ان چیزوں نے پہلے مجھے شک میں مبتلا کیا تھا. العیاذ باللہ.

یہاں ان بعض روایات کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے جو مباحثہ ومناقشہ کے درمیان ہوئی تھیں. تاکہ قارئین پر واضح ہو جائے کہ تنقید کرنے والے ہم پر بہتان نہیں باندھتے ہیں انہوں نے ہماری صحاح میں خامیاں پائیں اور انہیں ہمارے خلاف استعمال کیا ہے.

۲۳۶

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الخلق کے باب "تزویج النبی(ص) صلی الله علیه و آله وسلم عائشة و قدومه المدینة و بنائه بها " میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

جب نبی(ص) نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال تھی، پھر ہم مدینہ آئے اور حرث ابن خزرج کے گھر اترے پس وہاں میرے بالوں میں گرد بھر گئی ایک روز میرے پاس میری ماں ام رومان آئیں تو اس وقت میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی وہ غضبناک ہوئیں میں ان کے پاس آئی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے کیوں ناراض ہیں مجھ سے کیا چاہتی ہیں، پس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور دروازہ پر لاکھڑا کیا، میری سانس پھول گئی تھی. جب تھوڑا سکون ملا تو انہوں نے میرا چہرہ اور سر دھویا اور پھر مجھے گھر میں داخل کیا، میں نے دیکھا کہ وہاں انصار کی عورتیں جمع ہیں انہوں نے مجھے دعائیں دیں میری ماں نے مجھے ان کے سپرد کر دیا. انہوں نے میری زلفین سنواریں پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ ( وآلہ) و سلم کے سپرد کر دیا. اس وقت میرا سن تو برس کا تھا.

اس قسم کی روایات کی حاشیہ آرائی کا کام میں قارئین کے سپرد کرتا ہوں.

جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الادب کے باب." الانبساط الی الناس" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

۲۳۷

میں نبی(ص) کے گھر گڑیوں سے کھیلتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں جب رسول اللہ(ص) آتے تھے تو وہ سہیلیاں ہٹ جاتی تھیں تو آپ انہیں میرے پاس بھیجتے تھے وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتی تھیں.

اگر آپ اس قسم کی روایات کا مطالعہ کریں گے تو کیا اس کے بعد بعض مستشرقین کی تنقید پر اعتراض کرسکیں گے؟

اپنے پروردگار کی قسم کھا کے مجھے بتائیے! جب آپ رسول(ص) کے بارے میں عائشہ کا یہ قول پڑھیں گے کہ میں نے تو آپ(ص) کے رب کو آپ کی خواہش کے متعلق جلد باز پایا.(1)

( سچ بتائیے) اس عورت کے متعلق آپ کے دل میں کتنا احترام باقی رہے گا. جو نبی(ص) کی پاکیزگی میں شک کرتی ہے. کیا اس سے آپ کے دل میں یہ بات نہیں آئے گی کہ ان کی بے وقوفی کی دلیل ہے ان کی عقل کامل نہیں تھی.

کیا اس کے بعد ان دشمنان اسلام پر ملامت کی جاسکے گی جو اکثر اس بات کو ہوا دیتے ہیں کہ محمد(ص) عورتوں کو بہت دوست رکھتے تھے اور شہوت پرست تھے پس جب وہ بخاری میں یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا پروردگار ان کی خواہش (نفس) کے بارے میں سرعت سے کام لیتا ہے نیز بخاری میں یہ دیکھتے ہیں کہ محمد(ص) ایک گھنٹے میں گیارہ عورتوں سے جماع کرتے تھے اور انہیں تیس کی طاقت دی گئی تھی.

تو ان مسلمانوں پر ملامت کرنی چائیے کہ جنہوں نے اس

____________________

1.صحیح بخاری جلد/6 ص24 کتاب تفسیر القرآن قولہ تعالی.( تُرْجِي مَنْ تَشاءُ مِنْهُنَّ- وَ تُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشاءُ وَ مَنِ‏ ابْتَغَيْتَ‏ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُناحَ عَلَيْكَ )

۲۳۸

قسم کی خرافات کو لکھا ہے اور ان کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ انہیں قرآن کے مثل جانا ہے کہ جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے لیکن وہ ( اہلسنت) تمام چیزوں میں مجبور ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے عقیدہ میں بھی آزاد نہیں ہے. کسی چیز میں ان کا اختیار نہیں ہے. یقینا یہ کتابیں ان پر اولین حکام نے تحمیل ( پھوپی) کی تھیں اب ہم ان روایات کو سپرد قلم کر رہے ہیں جنہیں بخاری نے اہلبیت کی منقصت کے لئے نقل کیا ہے.

چنانچہ اپنی صحیح کی کتاب المغازی کے باب" شهود الملائکة بدرا" (1) میں علی(ع) ابن حسین(ع) سے روایت کی ہے کہ حسین(ع) ابن علی(ع) نے خبر دی ہے کہ علی(ع) نے فرمایا:

بدر کے مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹنی ملی تھی اور نبی(ص) نے بھی مجھے خمس میں سے کچھ دیا تھا پس جس روز فاطمہ(ع) بنت نبی(ص) سے میری نسبت ہوئی تو میں نے بنی قینقاع کے ایک اونٹوں کو سنوارنے والے کو تیار کیا کہ وہ میرے ساتھ آئے ذخیرہ میں چلے، میرا خیال تھا کہ اسے فروخت کر کے عروسی کا ولیمہ کر دوں گا. جب میں نے اپنی اونٹنی کا کجاوہ خبر حیاں رسیاں جمع کر لیں جب کہ میری اونٹنی انصار میں سے ایک شخص کے حجرہ کے سایہ میں بیٹھی تھی. میں نے دیکھا کہ اس کا کوہان کٹا ہوا ہے. اور پہلو چاک ہیں. جگر نکال لئے

____________________

1.بخاری، جلد/5 ص16

۲۳۹

گئے ہیں یہ منظر دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا، میں نے کہا یہ کام کس نے کیا ہے؟ لوگوج نے کہا: حمزہ ابن عبدالمطلب نے اور وہ اس گھر میں ہیں انصار میں سے کچھ ان کے ساتھی بھی موجود ہیں ان کے پاس شراب کی بوتل ہے. پس حمزہ نے تلوار اٹھا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، اور پہلو چاک کر کے ان کے جگر نکال لئے، حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

میں نبی(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ(ص) کے پاس زید بن حارث بھی بیٹھے تھے. میری حالت سے نبی(ص) نے اس کا اندازہ لگایا. اور فرمایا: تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ(ص) حمزہ نے میری اونٹیوں کے کوہان کاٹ لئے ہیں. ان کے پہلو چاک کر کے جگر نکال لئے ہیں اور وہ فلان گھر میں شرابیوں کے درمیان بیٹھے ہیں، نبی(ص) نے اپنی ردا طلب کی، دوش پر ڈالی اور روانہ ہوئے. میں نے اور زید نے بھی آپ(ص) کا اتباع کیا اس گھر پر پہونچے جس میں حمزہ تھے، داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اجازت ملی تو نبی(ص) نے حمزہ کی حرکت پر انہیں لعنت ملامت کی، شراب کے نشہ سے حمزہ کی آنکھیں سرخ تھیں. حمزہ نے نبی(ص) کو دیکھا پھر نظر اٹھا کر آپ(ص) کے چہرہ کی طرف دیکھا اور کہا تم میرے والد کے غلام ہو. پس نبی(ص) سمجھ گئے کہ یہ چڑھائے ہوئے ہے لہذا خاموش ہوگئے اور واپس پلٹ گئے ہم بھی ان کے ساتھ نکل آئے.

۲۴۰