اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34833
ڈاؤنلوڈ: 2698


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34833 / ڈاؤنلوڈ: 2698
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قارئین اس جھوٹ سے لبریز روایت میں غور کریں جس میں سید الشہداء پر سب وشتم ہے. کیونکہ وہ ( سید الشہداء) اہلبیت(ع) کے لئے باعث افتخار ہیں. کتنی ہی مرتبہ اپنے اشعار میں حضرت علی(ع) نے جناب حمزہ پر فخر کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں : حمزہ شہیدوں کے سردار میرے چچا ہیں. اور بار ہا رسول(ص) نے ان پر فخر کیا ہے اور جب وہ قتل ہوئے تو رسول(ص) نے ان پر گریہ کیا. اور سید الشہداء کے لقب سے نوازا.

نبی(ص) کے عم حمزہ وہ ہیں جن کے ذریعہ خدا نے اسلام کو اس وقت عزت بخشی تھی جب کمزور مسلمان مخفی طور پر خدا کی عبادت کرتے تھے. ان کا اپنے بھتیجے کی نصرت میں قریش کے مقابلہ میں ڈٹ جانے اور قریش سور مائوں کے سامنے اسلام کا اعلان کرنے والا واقعہ مشہور ہے.

حمزہ وہ ہیں جنہوں نے ہجرت میں سبقت کی اور اپنے بھتیجے کے لئے ہجرت کے اسباب فراہم کئے.

حمزہ اپنے بھتیجے علی(ع)کے ساتھ بدر و احد کے سور مائوں میں تھے. خود بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب تفسیر القرآن کے باب قولہ"هذانِ‏ خَصْمانِ‏ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ "(1) میں حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن رحمن کے سامنے خصومت کے لئے میں بحث کرونگا قیس کا قول ہے یہ آیت انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے. بدر میں مبارزہ کرنے والے علی(ع)، حمزہ، عبیدہ اور شیبہ ابن ربیعہ. عتبہ ابن ربیعہ اور ولید ابن عتبہ تھے.

____________________

1.صحیح بخاری جلد/5 ص242

۲۴۱

بخاری کو ایسی ہی روایات نقل کرنے میں سکون ملتا ہے جو اہلبیت(ع) کی باعث افتخار چیزوں میں رخنہ پیدا کرتی ہیں اور اس قسم کی حدیث گڑھنے والوں کا سلسلہ طویل ہے.

بخاری کہتے ہیں کہ ہم سے عبدان نے بیان کیا، ہمیں عبداللہ نے خبر دی، ہمیں یونس نے خبر دی اور ہم سے احمد ابن صالح نے بیان کیا ہم سے عنبہ نے بیان کیا،ہم سے یونس نے زہری کے حوالہ سے بتایا کہ ہمیں علی(ع) ابن حسین(ع) نے خبر دی ہے.(1) ان سات اشخاص سے بخاری نے روایت نقل کی ہے قبل اس کے کہ سند کا سلسلہ سید الساجدین(ع) تک پہونچے. کیا زین العابدین(ع) کے شایان شان یہ بات تھی کہ وہ اس قسم کی جھوٹی باتوں کو بیان کریں. کہ سید الشہداء شراب پیتے تھے. جب وہ اسلام لاچکے تھے اور ہجرت کرچکے تھے. یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مسلمان تنگدستی میں مبتلا تھے. جیسا کہ روایت سے واضح ہے. کہ وہ اونٹینیاں علی(ع) کی شادی کے ولیمہ کے لئے تھیں جو کہ دو ہجری میں انجام پذیر ہوئی تھی. اور نبی(ص) نے علی(ع)کو بدر کے مال غنیمت میں سے ان کا حصہ عطا کیا تھا. اور کیا سید الشہداء حمزہ کے لئے یہ زیب دیتاہے کہ وہ زنا کار عورت سے گانا سنیں اور اس کے کہنے سے بے دھڑک اونٹینوں کو کاٹ ڈالیں.

کیا یہ بات سید الشہداء ( حمزہ) کے شایان شان ہے کہ بلا ذبیحہ کا گوشت کھائیں اور اس کے پہلو کو شگافتہ کر کے کلیجہ نکال لیں.

کیا یہ بات رسول(ص) کو زیب دیتی ہے کہ وہ بیہودہ اور شراب

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص16

۲۴۲

پینے والوں کے مجمع میں پہونچیں اور حمزہ پر ناراض ہوں؟

کیا سید الشہداء کے لئے یہ مناسب تھا کہ وہ شراب سے اتنے مست ہو جائیں کہ آنکھوں کا رنگ سرخ ہو جائے. اور وہ رسول(ص) پر اس طرح سب و شتم کریں کہ تم میرے والد کے غلام ہو؟

کیا رسول(ص) کے لئے یہ سزاوار تھا کہ وہ پچھلے پائوں میں لوٹ جائیں اور بغیر سرزنش کے چلے جائیں جب کہ مشہور یہ ہے کہ آپ(ص) کا غضب خدا کے لئے ہوتا تھا.

مجھے یقین ہے کہ اگر یہ روایت حمزہ کے بجائے ابوبکر یا عمر یا عثمان یا معاویہ کے بارے میں نقل ہوئی ہوتی تو بخاری اسے قباحت کے پیش نظر نقل نہ کرتے اور اگر نقل کرتے تو کاٹ چھانٹ کر نقل کرتے اس کا کیا کیا جائے کہ بخاری ان افراد سے خوش نہیں ہیں جنہوں نے خلفاء کے مسلک کا انکار کر دیا تھا. یہاں تک کہ وہ کربلا میں سب شہید کردئیے گئے،سوائے علی ابن الحسین(ع) کے، کوئی ن بچا لیکن دشمنوں نے ان کی زبان سے جھوٹی بات گڑھ کے نقل کر دیا.

بخاری فقہ اہلبیت(ع) سے متعلق اور نہ ہی ان کے علوم سے مربوط نہ ہی ان کے زہد و خصلت کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرتے کہ جن سے اہلبیت(ع) کی کتابیں بھری پڑی ہیں.

آئے بخاری سے دوسری روایت سنیں جس میں وہ اہلبیت(ع) پر طعن کرتے ہیں. جب بخاری سمیت روات نے علی(ع)ابن ابی طالب میں کوئی خامی نہیں دیکھی اور نہ ان کی طول حیات میں کبھی جھوٹ کا شائبہ پایا ہے اور نہ کسی گناہ و خطا کا سراغ ملا ہے اور اگر ایسی کوئی بات انہیں مل جاتی تو اس کے

۲۴۳

پروپیگنڈے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے اس لئے ان پر اتہام لگانے کے لئے یہ روایت گڑھی کہ وہ نماز کو حقیر سمجھتے تھے( معاذ اللہ)

بخاری اپنی صحیح کی کتاب الکسوف کے باب "تحریض النبی علی صلاة اللیل و طرق النبی فاطمة و علیا علیهما السلام لیلة الصلاة "(1)

حدثنا ابو الیمان قال: اخبرنا شعیب عن الزهری قال: اخبرنی علی بن حسین ان حسین بن علی اخبره ان علی بن ابی طالب اخبره ان رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

علی ابن ابیطالب(ع) نے فرمایا کہ رسول(ص) نے مجھے اور فاطمہ(ع) بنت نبی(ص) کو رات میں جگایا اور اور فرمایا: تم نماز نہیں پڑھوگے؟

میں نے کہا: یا رسول اللہ(ص) ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں جب وہ چاہے گا کہ ہمیں برانگیختہ کرے تو ہم اٹھ کھڑے ہوں گے. جب ہم نے یہ بات کہی تو نبی(ص) واپس چلے گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا : پھر میں نے انہیں فرماتے ہوئے سنا " حالانکہ آپ(ص) زانو پر ہاتھ مار کر فرمارہے تھے" کہ انسان بہت سی چیزوں میں جدال کرتا ہے.

بخاری خدا سے ڈرو! یہ علی(ع) وہ ہیں جن کے بارے میں مورخین ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ نے جنگ صفین میں لیلة الحریر میں نماز شب ادا کی اور اس وقت فوجوں کے دونوں دستوں کے درمیان نیزے چمک رہے تھے

____________________

بخاری جلد/2 ص43

۲۴۴

اور چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی. آپ نے مصلا بچھایا اور کوئی پروا نہ کی اور نہ ہی نماز توڑی.

علی(ع) ابن ابی طالب وہ ہیں جنہوں نے لوگوں کے لئے قضا و قدر کا مفہوم واضح کیا اور انسان کو اس کے افعال کا ذمہ دار قرار دیا ہے. لیکن بخاری تم اس روایت میں ان کو جبری ( جبر کا قائل) قرار دے رہے ہو کہ جس کے ذریعہ وہ رسول(ص) سے خواہ مخواہ بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں اگر وہ چاہے گا تو ہم اٹھ جائیں گے. یعنی اگر خدا چاہے گا کہ ہم نماز پڑھیں تو ضرور پڑھیں گے.

علی ابن ابی طالب(ع وہ ہیں کہ جن کی محبت ایمان اور جن کا بغض نفاق ہے تم ان کو جھگڑا لو قرار دے رہے ہو یہ تو سفید جھوٹ ہے اس سلسلہ میں کوئی بھی تمہاری موافقت نہیں کرے گا یہاں تک کہ امام کا قاتل ابن ملجم اور آپ کاسخت ترین دشمن جس نے منبروں سے آپ پر لعنت کا سلسلہ جاری کیا وہ معاویہ بھی اس بات کی تائید کرے گا یہ تو بہت ہی گری ہوئی بات ہے لیکن تم نے اس کے ذریعہ بہت کچھ کمایا ہے. تم نے اپنخ زمانہ کے حکام کو " جو اہلبیت(ع) کے دشمن تھے" راضی کیا اور انہوں نے اس پست دنیا میں تمہاری عظمت کو بڑھایا لیکن امیرالمومنین(ع) کے سلسلہ میں جو تمہارا موقف ہے اس سے تم نے اپنے خدا کو ناراض کیا، امیر المومنین علیہ السلام وہ ہیں جو سفید پیشانی والوں کے سردار اور قسیم جنت و نار ہیں. یہی قیامت کے روز اعراف پر کھڑے ہوں گے اور ہر ایک کو اس کی پیشانی سے پہچان لیں گے.(1)

____________________

1.حسکانی حنفی نے شواہد التنزیل کی جلد/1 ص198 پر خداوند عالم کے اس قول( وَ عَلَى‏ الْأَعْرافِ‏ رِجالٌ‏ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيماهُمْ‏ ) کی تفسیر میں، اور حاکم نے علی علیہ السلام سے روایتکی ہے کہ قیامت کے دن ہم جنت و جہنم کے درمیان کھڑے ہوں گے پس جس نے ہماری مدد کی ہوگی ہم اسے پیشانی سے پہچان لیں گے.

۲۴۵

اور جہنم سے کہیں گے یہ تمہارا ہے اور یہ ہمارا.(1)

اے بخاری مجھے معلوم کہ قیامت کے دن تمہاری کتاب اسی شکل میں ہوگی کہ جس شکل میں اب ہے کہ جس کے جلد خوبصورت انداز میں بندھی ہوئی ہے....

ہاں بخاری کے لئے یہ بہت بڑی بات تھی کہ وہ اپنے سید و سردار عمر ابن خطاب کو پانی نہ ملنے کے سبب تاک الصلاة لکھ دیں اور عمر اپنے ہی مسلک پر اپنی خلافت تک بر قرار رہے. چنانچہ قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں تو نماز نہیں پڑھوں گا.

پس اس نے حدیث گڑھنے والوں کوتلاش کیا اور انہوں نے اس کی فرمائش پر یہ حدیث گڑھ دی کہ علی(ع) پر نماز شب پڑھنا دشوار تھا. اگر ہم اس حدیث کی صحت کو قبول بھی کرلیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی علی(ع) کے لئے کوئی گناہ ہے کیونکہ یہ نماز نافلہ ہے جس کے پڑھنخ میں ثواب ہے اور نہ پڑھنے میں عذاب نہیں ہے. اس کو عمر کی واجب نماز

____________________

1.ابن حجر شافعی نے صواعق محرقہ کے ص101 پر نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: اے علی(ع) تم قسیم جنت و نار ہو اور تم قیامت کے دن جہنم سے کہو گے کہ یہ میرا ہے اور وہ تمارا ہے ابن حجر اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابوبکر نے علی(ع) سے کہا کہ میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ وہ فرما رہے تھے کہ صراط سے گذرنا کسی کے لئے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علی(ع) نہ لکھ دیں.

۲۴۶

چھوڑ دینے پر قیاس نہیں کیا جاسکتاہے یہ روایت صحیح نہیں ہے. اگرچہ بخاری ہی نے نقل کیوں نہ کی ہو.

بخاری اہلسنت کے نزدیک صحیح ہے اور ا ہلسنت مسلک خلفائ کے تائید کرنے والے ہیں اور اس مسلک پر بنی امیہ اور بنی عباس کی سیاست کی بنیاد استوار ہے محقق اس حقیقت کو جانتا ہے. آج تو یہ کسی پر مخفی نہیں ہے اور اہلسنت ان حکام کی سیاست کا اتباع کرتے ہوئے جنہوں نے انہیں اہلبیت(ع) اور ان کے شیعوں کو دشمنی پر ابھارا اور لاشعوری طور پر اہلبیت(ع) اور ان کے شیعوں کے دشمن بن گئے ہیں کیونکہ وہ ان کے دشمنوں سے دوستی اور ان کے دوستوں کو دشمن رکھتے ہیں. اسی لئے انہوں نے بخاری کی عظمت کو بڑھایا. ان کے پاس اہلبیت(ع) کےآثار میں سے کچھ نہیں ملے گا اور نہ ہی بارہ12 اماموں کے اقوال ملیں گے. یہاں تک کہ باب مدینة العلم کہ جن کو نبی(ص) سے وہی نسبت تھی جو ہارون کو موسی سے تھی. اور نبی(ص) ان کے مربی تھے. جیسی کوئی چیز نہیں ملے گی.

یہاں اہلسنت سے ایک سوال ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ کون سی چیز ہے جس کو بخاری نے تمام محدثین کے علاوہ ثابت کیا ہے تاکہ تمہارے نزدیک فضیلت پائیں؟؟

میرے خیال میں اس کا واحد جواب یہ ہے کہ بخاری وہ ہے کہ:

1-جس نے صحابہ ابوبکر، عمر، عثمان معاویہ کی مخالفت میں منقول احادیث میں تدلیس کی اور یہ وہ راستہ ہے جس کی معاویہ اور دیگر حکام نے دعوت دی تھی.

2-اور ان احادیث کو صحیح ثابت کیا ہےجن سے رسول(ص) کی

۲۴۷

عصمت مخدوش ہوتی ہے اور جو رسول(ص) کو ایک عام انسان بنا کر پیش کرتی ہیں کہ جس سے خطا سرزد ہوتی ہے اور یہ چیز وہ ہے جو طول تاریخ میں حکام کی پسندیدہ رہی ہے.

3-خلفائے ثلاثہ کی فضیلت میں گڑھی ہوئی جھوٹی حدیثوں کو نقل کیا اور علی(ع) ابن ابی طالب پر انہیں فضیلت دی یہ معاویہ کی دلی خواہش تھی وہ چاہتا تھا کہ علی(ع) کا ذکر مٹ جائے.

4-ایسی احادیث کی روایت کی جن سے اہلبیت(ع) کی عظمت و شرافت پر حرف آتا ہے.

5-ایسی احادیث کو قلمبند کیا جو خلافت کے سلسلہ میں مذہب جبر و تجسیم اور قضا و قدر کی تائید کرتی ہیں اور اس کو اپنی حکومت بر قرار رکھنے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس نے رواج دیا.

6-ایسی جھوٹی احادیث کو لکھا جو خرافات اور قصے کہانیوں سے مشابہت رکھتی ہیں تاکہ امت کو ان میں مبتلا رکھا جائے یہ ایک جماعت کا پروپیگنڈہ ہے جو بخاری کے ہمعصر حکام کی خواہش تھی.

قارئین محترم مثال کے طور پر آپ کے سامنے یہ روایت ہے:

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدء الخلق کے باب " ایام الجاہلیہ" جلد/4 ص238 پر روایت کی ہے کہ ہم سے نعیم بن حماد نے اور ہشیم نے حصین سے اس نے عمرو ابن میمون سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریہ کو دیکھا کہ جس کے چاروں طرف بندر جمع تھے اس بندریہ نے زنا کر لیا تھا.

۲۴۸

پس بندروں نے اسے سنگسار کیا تو میں نے بھی ان کے ساتھ اس پر پتھر برسائے.

میں بخاری سے کہتا ہوں شاید خدا نے بندروں پر رحم کیا اور ان کےلئے اس سنگساری کے حکم کو منسوخ کر دیا جو ان پر جنت سے نکالنے کے بعد عائد کیا تھا. اور زمانہ اسلام میں ان کے لئے زنا کو مباح قرار دیا جب کہ زمانہ جاہلیت میں حرام تھا. اسی لئے محمد(ص) کی بعثت سے لیکر کسی مسلمان نے اب تک یہ دعوی نہ کیا کہ میں بندروں کے سنگسار کرتے وقت وہاں حاضر تھا. یا ان کا شریک تھا.

۲۴۹

خاتمہ بحث

کیا محقق اور آزاد علماء ان خرفات پر کہ جن کی مثال بخاری میں بکثرت موجود ہے خاموش رہیں گے. اور کچھ نہیں بولیں گے.

ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ بخاری کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ جبکہ دوسری کتابوں میں بھی تو ضعیف حدیثیں موجود ہیں، یہ بات واضح ہے لیکن ان میں سے بخاری کو منتخب کیا ہے کیونکہ اس کتاب نے وہ شہرت پائی ہے کہ جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، حد ہوگئی علمائے اہلسنت کے درمیان اسے قرآن کے برابر سمجھا جانے لگا جس میں کسی بھی طرف سے باطل کی گنجائش نہیں ہے. کیونکہ جو کچھ اس ( قرآن) میں مرقوم ہے وہ صحیح ہے اس میں شک نہیں کیا جاسکتا، بخاری کی تقدیس کا چشمہ سلاطین و ملوک سے پھوٹتا ہے. خصوصا عباسی عہد سے کہ جس میں بیشتر کرسیوں پر فارس (ایران) والے قبضہ جما چکے تھے. اور حکومت کے اتنظامی امور میں دخیل تھے ان میں سے بعض وزیر اور مشیر تھے اور بعض طبیب و علم ہیئت کے ماہر تھے ابو فراس کہتا ہے:

۲۵۰

ابلغ لدیک بنی العباس مالکة لا یدعوا ملکها ملاکها العجم

ای المخاخر امست فی منازلکم وغیرکم آمر فیها و محتکم

بنی عباس تمہیں حکومت و خلافت مل گئی ہے لیکن تم یہ دعوی نہ کرو کہ وہ تمہارے قبضہ و اختیار میں ہے اس کے مالک تو عجم والے ہیں یہ کون سے فخر کی بات ہے کہ خلافت و حکومت تمہارے گھر میں ہے جب کہ اس کے حاکم تمہارے غیر ہیں.

فارس والے اپنی پوری طاقت کو کام میں لائے اور انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا، یہاں تک کہ قرآن کے بعد بخاری کو مرتبہ اول مل گیا اور ابوحنیفہ تینوں اماموں کے اوپر امام اعظم بن گئے.

اور اگر فارس والوں کو حکومت بنی عباس کے زمانہ قوم عرب کے بھڑک اٹھنے کا خوف نہ ہوتا تو وہ بخاری کو قرآن پر بھی ترجیح دیتے اور ابو حنیفہ کو نبی(ع) پر مقدم کرتے اور کون جانتا؟

میں نے ان کے اس قسم کے بعض خیالات پڑھے ہیں. ان میں سے بعض تو صاف کہتے تھے کہ حدیث قرآن پر حکم لگانے والی ہے. حدیث سے ان کی مراد بخاری ہی ہوتی تھی. جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر حدیثِ نبی(ص) اور ابوحنیفہ کے اجتہاد و رائے میں تعارض و ٹکرائو ہو جائے تو ابو حنیفہ کی رائے کو مقدم کرنا واجب ہے. اور اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ حدیث میں متعدد احتمال ہوتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو فبہا اور اگر اس کی صحت میں شک ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے.

امت اسلامیہ رفتہ رفتہ تکبر کا شکار ہوتی چلی گئی. وہ

۲۵۱

ہمیشہ محکوم رہی اس کی راہوں کا انتخاب فارس و مغل، ترک و فرانس، و انگلینڈ اور اٹلی کے بادشاہ و سلاطین کرتے رہے. بیان کرنے میں کیا حرج ہے.

اکثر علماء حکام کے پسِ پشت رہنے کے عادی تھے. فتوی دیتے تھے مال لیتے تھے. مال کی طمع میں چاپلوسی کرتے تھے وہ ہمیشہ ( اس زمانہ کی) سیاست کے مطابق عمل کرتے تھے( تفرقہ ڈالو محفوظ رہو) انہوں نے کسی ایک کو اجتہاد کی اجازت نہ دی اور نہ اجتہاد کے اس دروازہ کو کھولنے کی اجازت دی جس کو حکام نے دوسری صدی کے آغاز ہی میں اہلسنت کے درمیان فتنہ و جنگ کے خوف سے بند کر دیا تھا. اہلسنت کی اکثریت تھی وہ ہی حکومت پر قابض تھے اور شیعہ اقلیت میں تھے اور یہی ان کی نظر میں سب سے بڑا خطرہ تھے اس کے لئے بھی کچھ سوچنا تھا. لہذا علمائے اہلسنت اس سیاسی کھیل میں مشغول رہے. اور انہیں ( شیعوں کو) کافر ثابت کرنے اور ان پرتنقید کرنے میں لگے رہے. اور ہر طرح سے ان کی دلیلوں کی تردید کرتے رہے یہاں تک کہ اس سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور ہزاروں نیکو کار افراد کا خون بہایا گیا. جبکہ ان کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ عترت نبی(ص) سے محبت رکھتے تھے اور ان حکام سے بیزار تھے جو زبردستی امت پر مسلط ہوگئے تھے.

اور آج جب کہ ہم آزادی کے زمانہ میں ، روشنی کے دور میں، زندگی گذار رہے ہیں جیسا کہ اسے علم کا عہد کہا جاتا ہے اور دنیا کے ممالک فضائی جنگ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو کوشش میں لگے ہوئے ہیں. اور پوری دنیا پر قابض ہو جانا چاہتے ہیں اس زمانہ میں بھی اگر کوئی عالم تعصب و تقلید سے آزاد ہو جاتا ہے اور کوئی ایسی چیزلکھتا ہے جس سے

۲۵۲

اہلبیت(ع) سے محبت کی بو آتی ہے. تو ان کا خون کھول جاتا ہے اور اپنی پوری طاقت کو اس پر لعنت کرنے والے اور اسے کافر ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ اس نے ان کے مزاج کے خلاف، اقدام کیا ہے. اگر وہ بخاری کی مدح اور تقدیس میں کتاب لکھتا تو علامہ بن جاتا. اس پر سونے کی بارش ہوتی اور ہر سمت سے اس کی مدح سرائی ہوتی اسے ایسے افراد مل جاتے جنہیں چاپلوسی اور بری بات سے ان کی نماز و روزہ بھی نہیں روک سکتے ہیں.

آپ ان تمام مقتضیات میں غور کرتے ہیں کہ جو اکثر لوگوں کی گمراہی کے لئے کافی ہیں ان اسباب کے بارے میں سوچا جو بیشتر لوگوں ک ضلالت کی طرف کھینچتے ہیں، قرآن کریم اس مخفی راز سے آگاہ کرتا ہے. اس گفتگو کے ذریعہ جو خدائے ذو الجلال اور ابلیس لعین کے درمیان ہوتی تھی.

خدا : میرے حکم کے بعد تجھے کس چیز نے سجدہ سے باز رکھا؟

ابلیس : میں ان( آدم) سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور انہیں مٹی سے پیدا کیا ہے.

خدا : جنت سے نکل جائو یہاں رہتے ہوئے تم کو تکبر کرنے کا حق نہیں ہے. نکل جا تو پست افراد میں سے ہے.

ابلیس : مجھے قیامت تک کہ مہلت دی جائے.

خدا : تم انتظار کرنے والوں میں سے ہو.

ابلیس : جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی ضرور تیرے سیدھے راستہ میں بیٹھوں گا( تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا) پھر انہیں چاروں طرف سے گھیر لوں گا تو، تو ان میں سے

۲۵۳

اکثر کو شکر گذار نہ پائے گا.

خدا : تو یہاں سے نکل جا تو ذلیل و مردود ہے ان میں سے جو بھی تیرے ساتھ چلے گا تو میں ان سب سے جہنم بھر دوں گا.

اولاد آدم خبردار شیطان تمہیں فریب نہ دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کا لباس اتر کر گر گیا اور دونوں برہنہ ہوگئے. وہ اور اس کی اولاد تم کو دیکھتی ہے لیکن تم ان کو نہیں دیکھ سکتے ہو ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں قبول کرتے ہیں. اور یہ لوگ جب بھی کوئی برا کام انجام دیتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے آباء و اجداد کوایسے ہی پایا ہے. اور خدا ہی نے اس کا حکم دیا ہے. آپ کہدیجئے کہ خدا بری باتوں کا حکم نہیں دیتا ہے. کیا تم خدا کی طرف ان باتوں کی نسبت دیتے ہو. جنہیں تم نہیں جانتے ہو کہدیجئے میرا رب عدل کا حکم دیتا ہے اور ہر نماز کے وقت تم سب اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور خدا کو خالص دین کے ساتھ پکارو! اس نے جس طرح تمہاری انتہا کی اسی طرح تم اس کی طرف پلٹ کر بھی جائو گے. اس نے ایک گروہ کو ہدایت دی ہے اور ایک پر گمراہی سلط ہوگئی ہے. انہوں نے شیاطین کو اپنا ولی بنالیا ہے. اور خدا سے نظریں موڑ لی ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں.

۲۵۴

اسی لئے تمام مسلمانوں بھائیوں سے کہتا ہوں کہ شیطان پر لعنت کرو اپنے اوپر اسے قابو نہ دو، اس علمی بحث کی طرف آئو جسے قرآن و حدیث ثابت کرتی ہے. اس کلمہ کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مساوی ہے اسی چیز سے حجت قائم کرو جو ہمارے اور تمہارے نزدیک صحیح ہے. اور جو اختلاف کا باعث ہے اسے ایک طرف پھینک دیں. کیا رسول(ص) کا فرمان نہیں ہے کہ میری امت خطا پر جمع نہیں ہوگی. پس حق وہ ہے جس پر ہم شیعہ و سنی متفق ہیں اور جس میں اختلاف کرتے ہیں وہ باطل ہے. اگر ہم دگر پر چلیں گے تو صلح و صفا اور اتفاق عام ہوگا اور ضرور اتحاد کی چادر کے نیچے جمع ہو جائیں گے اور ضرور خدا کی طرف سے مدد آئے گی اور زمین و آسمان کی برکتیں عام ہو جائیں گی، وقت نکلا جا رہا ہے جو لوٹ کر نہیں آئے گا اس دن کے آنے سے پہلے انتظار کا وقت ہے جس میں بیع و خلال نہیں ہوگا. اور ہم سب شیعہ سنی اپنے امام مہدی(عج) کے انتظار میں ہیں ان کی بشارت کے سلسلہ میں ہماری کتابیں بھری پڑی ہیں کہ ہمارے ایک راستہ پر گامزن ہونے کے لئے یہ دلیل کافی نہیں ہے؟ شیعہ تمہارے بھائی ہیں اہلبیت(ع) انہیں کا ذخیرہ نہیں ہیں بلکہ محمد(ص) اور ان کے اہلبیت(ع) تمام مسلمانوں کے امام و رہبر ہیں یقینا ہم سنی اور شیعوں کا حدیث ثقلین پر اتفاق ہے. رسول(ص) نے فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس سے متمسک رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے. وہ ہے کتابِ خدا اور میری عترت(1) اور مہدی(عج)

____________________

1.گذشتہ بحث میں ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ حدیث اس حدیث کے معارض نہیں ہے جس میں کتاب و سنتی کی لفظ آئی ہے کتاب خدا اور سنت رسول(ص) دونوں صامت--کلام ہیں ان کے لئے ترجمان نا گزیر ہے. پس رسول(ص) نے اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے کہ قرآن و سنت کے بیان کرنے والے ائمہ اہلبیت(ع) ہیں جن کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ علم وعمل میں سب پر مقدم ہیں.

۲۵۵

ان کی عترت میں سے ہیں. کیا یہ دوسری دلیل نہیں ہے؟

اور اب جب کہ تاریکی و ظلم کا وہ زمانہ ختم ہوگیا کہ جس میں اہلبیت(ع) عترت رسول(ص) سے زیادہ کسی پر ظلم نہیں ہوا یہاں تک کہ لوگوں نے منبروں سے ان پر لعنت کی انہیں قتل کیا ان کی مخدرات کو مسلمانوں کے مجمع عام میں بے پردہ کیا.

اب وہ وقت آن پہونچا ہے جس میں اہلبیت(ع) نبی(ص) سے مظالم کو دور کیا جائے اور امت ان کے سایہ رحمت و عاطفت کی طرف رجوع کرے جو علم و عمل سے لبریز ہے اور ان کے شجر کے گھنے سایہ کی طرف بڑھے کہ جہاں فضل و شرف کی بہتات ہے. نبی(ص) اور ملائکہ ان پر درود بھیجتے ہیں اور مسلمانوں کو ہرنماز میں ان پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے. جیسا کہ ان سے محبت و مودت کا حکم دیا ہے.

اہلبیت(ع) کی فضیلت سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا ہے اس سلسلہ میں ہر زمانہ کے شعراء نے اشعار کہے ہیں. ان سے متعلق فرزدق کہتا ہے:

إِنْ‏ عُدَّ أَهْلُ‏ الْتُّقَى‏ كَانُوا أَئِمَّتَهُمْ‏ أَوْ قِيلَ مَنْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ قِيلَ هُمْ‏

مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمْ‏ كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمْ مَنْجًى وَ مُعْتَصَمٌ‏

مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللَّهِ ذِكْرُهُمُ‏ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ‏

۲۵۶

اگر اہل تقوی کو دیکھا جائے تو یہ ان کے امام ہیں اور یہ کہا جائے کہ روئے زمین پر سب سے بہتر کون ہے تو کہا جائے گا وہی ہیں. ان کی محبت دین اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے، ان کی قربت پناہ گاہ اور محفوظ ٹھکانا ہے. خدا کے ذکر کے بعد ان کا ذکر مقدم ہے.

کلام کی ابتداء اور انتہا وہی ہیں.

اور مشہور شاعر ابوفراس اپنے مشہور قصیدہ شافیہ میں ان کی مدح کرتا ہے اور عباسیوں سے نفرت کا اظہار کرتا ہے. ہم نے اس کے یہ اشعار منتخب کئے ہیں.

يا باعة الخمر كفّوا عن مفاخركم‏ لمشعر بيعهم يوم الهياج دم‏

خلوا الفخار لعلامین ان سئلوا یوم السؤال وعمالین ان عملوا

لا یغضبون لغیر الله ان غضبوا ولا یضیعون حکم الله ان حکموا

تنشی التلاوة فی ابیاتهم سحرا و فی بیوتک الاوتار والنغم

الرکن والبت والاستار منزلهم و زمزم والصفی والحجر و الحرم

و لیس من قسم فی الذکر نعرفه الا و هم غیر شک ذالک القم

اے شراب فروشو! ان پر فخر نہ کرو جو جنگ کے روز خون بیچتے ہیں، افتخار،علمائ و عمل کرنے والوں کا حق ہے. اگر وہ غضبناک ہوتے ہیں تو غیر خدا کے لئے نہیں اور اگر کوئی حکم لگاتے ہیں تو حکم خدا کو ضائع نہیں کرتے صبح کے وقت ان کے گھروں سے تلاوت کی آوازیں آتی ہیں. جبکہ تمہارے گھروں سے نغموں اور دھو تاروں کی آواز آتی ہے. زمزم صفا اور حجر و حرم رکن و خانہ( کعبہ)

۲۵۷

اور پردے ان کی منزل ہے. قرآن میں جتنی قسمیں آئی ہیں لاریب ؟؟؟ کے لئے ہیں.

زمخشری ، بیہقی اور قسطانی نے ابو عبداللہ محمد ابن علی انصاری شاطی کے یہ اشعار نقل کئے ہیں:

عدي‏ و تيم‏ لا أحاول ذكرها بسوء و لكني محب لهاشم‏

و هل تعتريني في علي و رهطه‏ إذا ذکروا في الله لومة لائم‏

يقولون: ما بال النصارى و حبهم‏ و أهل التقى من اعرب و أعاجم‏

فقلت لهم إني لأحسب حبهم‏ سری في قلوب الخلق حتی البهائم‏

میں عدی اور تمیم کا ذکر برائی سے نہیں کرتا ہوں لیکن میں( بنی) ہاشم کا محب ہوں میں علی(ع) اور ان کے شیعوں کے محبت کے سلسلہ میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا، کیونکہ خدا کے بارے میں لومت لائم کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے.

لوگ کہتے ہیں کہ انصار کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ علی(ع) اور ان کی جماعت سے محبت کرتے ہیں میں کیون نہ اس سے محبت کروں جب عرب و عجم کے صاحبان عقل سے محبت کرتے ہیں.

میں ان سے یہ بات کہتا ہوں کہ ان کی محبت کو میں پوری مخلوق کے قلب میں جاگزین محسوس کرتا ہوں یہاں تک کہ چوپائے بھی ان سے محبت کرتے ہیں.

۲۵۸

بعض نصاری نے خصوصا علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل و مناقب میں اور عموما اہلبیت(ع) کے فضائل و مناقب کے سلسلہ میں متعدد کتابیں تحریر کی ہیں جیسا کہ امام شاطبی نے اس بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے کہ" نصاری کو کیا ہوگیا ہے وہ ان(علی(ع)) سے محبت کرتے ہیں یہ ایسی تعجب خیز بات ہے جو پہیلی بنی رہے گی ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نصرانی اہلبیت(ع) کی عظمت کا اعتراف کرے اور اسلام نہ لائے؟ مگر یہ کہ خدا ہمیں قدرت و طاقت عطا کرے گا اس وقت اسلام لائیں گے اور پھر شوق سے یا خوف کے سبب اس سے چشم پوشی نہیں کرسکیں گے"

صاحب کشف الغمہ نے ص20 پر امیرالمومنین(ع ) کی مدح میں کسی نصرانی کا قول نقل کیا ہے:

علي‏ أمير المؤمنين‏ صريمه‏ و ما لسواه في الخلافة مطمع‏

له النسب العالي و إسلامه الذي‏ تقدم فيه و الفضائل أجمع‏

بان علیا افضل الناس کلهم و اورعهم بعد النبی و اشجع

و لو كنت أهوى ملة غير ملتي‏ لما كنت إلا مسلما أتشيع‏

علی(ع)، امیرالمومنین صاحب عزیمت اور بہادر ہیں ان کے سوا کسی کو خلافت کی طمع نہیں کرنا چاہئیے وہ حسب و نسب میں اعلی ہیں وہ سابق الاسلام ہیں اور ان کے فضائل پر اجماع ہے اگر میں اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کروں تو میں شیعہ مسلمان ہو جائوں گا.

پس مسلمانوں کو نبی(ص) کے اہلبیت(ع) سے بدرجہ اولی محبت کرنا چاہئیے کیونکہ رسالت کا پورا اجر ان کی محبت پر موقوف ہے.

۲۵۹

عنقریب میری ندا سننے والے کانوں ، کشادہ قلوب اور با بصیرت آنکھوں تک پہونچے گی جس کے ذریعہ میں دنیا و آخرت میج خوش بخت ہو جائوں گا. خدا سے میری دعا ہے کہ میرےعمل کو اپنے لئے خالص قرار دے اور اسے قبول کر لے، میری خطائوں کو بخش دے اور مجھے دنیا و آخرت میں محمد(ص) و آل محمد(ص) کا خدمت گذار بنا دے کیونکہ ان کی خدمت میں عظیم کامیابی ہے. بیشک میرے رب کا راستہ سیدھا ہے.

و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین والصلاة

والسلام علی محمد و آله الطیبن الطاهرین.

محمد تیجانی السماوی

۲۶۰