اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34821
ڈاؤنلوڈ: 2695


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34821 / ڈاؤنلوڈ: 2695
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کافر ظلم و تعدی کے بعد بھی کلمہ پڑھ لے تو اسے قتل کرنا حرام ہے جب کہ اس نے کلمہ میں نہ محمد کی رسالت کا اعتراف کیا ہے نہ نماز پڑھنے اور نہ زکوة دینے کا وعدہ کیا ہے، نہ روزہ رکھنے اور نہ ہی حج بجالانے کا اعتراف کیا ہے. تم کہاں چلے جارہے ہو اور کیسی تاویل کر رہے ہو؟

"ب" بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب المغازی کے باب" بعث النبی(ص) اسامة ابن زید الی حرقات من جبهته" اور مسلم نےکتاب الایمان کے باب" تحریم قتل الکافر بعد ان قال" لا اله الا الله" میں اسامہ ان زید سے روایت کی ہے کہ، ہمیں رسول(ص) نے حرقہ کی طرف بھیجا ہمارا اس قوم سے مقابلہ ہوا تو ہم نے اسے پسپا کر دیا میں اور انصار میں سے ایک شخص حرقہ کے ایک شخص کے قریب پہونچے جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کلمہلا اله الا الله پڑھ لیا انصاری نے تو اسے کچھ نہ کہا لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر ہلاک کر دیا جب ہم واپس آگئے اور رسول(ص) کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ(ص) نے فرمایا: اسے اسامہ تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد بھی قتل کر دیا؟ میں نے عرض کی وہ پناہ ڈھونڈ رہا تھا. آپ(ص) نے اس قدر اس کلمہ کی تکرار کی کہ میں یہ سوچنے لگا کہ کاش میں آج سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا.

اس حدیث سے قطعی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس نے کلمہ" لا اله الا الله" پڑھ لیا اس کا قتل حرام ہے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ رسول(ص) نے اسامہ پر اتنی سختی کی کہ وہ تمنا کرنے لگے کہ کاش میں اس دن سے پہلے ایمان ہی نہ لایا ہوتا تاکہ یہ حدیث اس کو بھی شامل ہو جاتی کہ اسلام پہلے گناہوں کو بخش دیتا ہے" اور اس بڑے گناہ کی وجہ سے خدا سے مغفرت کا خواستگار ہوا.

۴۱

بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں ابوذر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک روز میں نبی(ص) کے پاس آیا، دیکھا کہ آپ سفید چادر اوڑھے سو رہے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میں پھر حاضر ہوا تو اس وقت آپ(ص) بیدار ہوچکے تھے پس آپ(ص) نے فرمایا کہ:

جو شخص بھیلا اله الا الله پڑھ لے گا اور مرتے دم تک اس پر بر قرار رہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا.

میں نے عرض کی: خواہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو؟ آپ(ص) نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو. میں نے کہا اگر چہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو؟ آپ(ص) نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو، میں نے(پھر) عرض کی؛ اگر چہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو؟ آپ(ص) نے(پھر) فرمایا: خواہ اس نے زنا اور چوری ہی کی ہو، اور اس سے ابوذر ہی کو ذلیل ہونا پڑا ہو.(1)

جب ابوذر اس حدیث کو بیان کرتے تھے تو کہتے تھے کہ خواہ یہ ابوذر کو برا ہی لگے.

یہ دوسری حدیث ہے جو کلمہ پڑھ لینے والے کے داخل جنت ہونے کو بیان کرتی ہے اور اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے خواہ اس سے ابوبکر و عمر اور ان کے اصحاب و انصار کہ" جو ان کی عزت بچانے کے لئے تاویل کرتے ہیں حقائق کو بدل ڈالتے ہیں اور احکام خدا میں رد و بدل کرتے ہیں" کی اس سے ہتک ہی کیوں نہ ہوتی ہو.

____________________

1.صحیح بخاری کتاب اللباس میں باب" ثیاب البیض" صحیح مسلم کتاب الایمان باب" من مات لا یشرک بالله شیئا دخل الجنة"

۴۲

بیشک ابوبکر و عمر دونوں ان احکام سے واقف تھے، کیونکہ رسالمتآب سے قریب تھے ہم سے بہتر طور پر احکام کی معرفت رکھتے تھے لیکن ان دونوں نے خلافت کی طمع میں بہت سے احکام خدا اور رسول(ص) کی تاویل کر لی جبکہ اس پر بینہ موجود تھا.

شاید جب ابوبکر نے مانعین زکوة کے قتل کا ارادہ کیا اور عمر نے ابوبکر کے سامنے رسول(ص) کی یہ حدیث پیش کی تھی کہ یہ قتل حرام ہے تو انہوں نے اپنے دوست کو اس طرح مطمئن کیا ہوگا کہ جب تم خانہ فاطمہ(ع) کو جلانے کے لئے لکڑیاں لے جا سکتے ہو جبکہ فاطمہ(ع) کلمہ شہادت بھی پڑھتی تھیں. پھر عمر نے ابوبکر کو قانع کیا کہ اب دار السلطنت میں علی(ع) و فاطمہ(ع) کی بھی کوئی شان نہیں ہے چہ جائیکہ دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے ان قبیلوں کی کوئی حقیقت ہے جو مانعین زکوة ہیں. اور اگر ہم انہیں ایسے چھوڑ دیں گے تو اسلامی شہروں میں ان کا یہ واقعہ تیزی سے پھیل جائے گا اور عنقریب مرکز خلافت میں ان کا اثر و رسوخ بن جائے گا.

اب عمر نے دیکھا کہ خدا نے جنگ وقتال کے لئے ابوبکر کا سینہ کشادہ کردیا ہے کہدیا کہ ہاں یہی حق ہے.

ابوبکر ، عمر اور عثمان حدیث نبی(ص) لکھنے سے منع کرتے ہیں

جب محقق تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرے گا اور اس بات کا احاطہ کرے گا کہ خلفائے ثلاثہ کی حکومت میں بہت سی خلافت ورزیاں ہوئی ہیں تو وہ بخوبی سمجھ لے گا کہ انہوں نے( خلفائے ثلاثہ) حدیث نبوی کو ضبط تحریر میں لانے اور اس کی تدوین ہی کو منع نہیں کیا بلکہ حدیث بیان کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی کیونکہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ احادیث ان کی مصلحت کے خلاف ہیں یا کم از کم ان کے

۴۳

اکثر ان احکام و افعال کے مخالف و معارض ہیں جو ان کی تاویل و اجتہاد کا نتیجہ ہیں. باقی بچی حدیث نبی(ص) کہ جو شریعت اسلامی کا دوسرا مصدر ہخ بلکہ مصدر اول کی مفسر اور بیان کرنے والی ہے. واضح رہے کہ مصدر اول قرآن مجید ہے، حدیث بیان کرنا حرام تھی اسی لئے مورخین و محدثین نے پہلی فرصت میں عمر ابن عبدالعزیز یا ان کے زمانہ کے کچھ اور بعد میں حدیث کی تدوین و دستہ بندی کا کام شروع کیا بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم کے باب" کیف یقبض العلم" میں تحریر کیا ہے کہ عمر ابن عبد العزیز نے ابوبکر ابن حزم کو لکھا کہ تمہیں جہاں بھی رسول(ص) کی حدیث ملے اسے لکھ لو میں ڈرتا ہوں کہ علماء کے فوت ہو جانے سے علم کے نشانات نہ مٹ جائیں.

لیجئے وفات نبی(ص) کے بعد ابوبکر لوگوں کے درمیان خطبہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں تم لوگ رسول(ص) سے حدیث نقل کرتے ہو اور ان میں اختلاف کرتے ہو. تمہارے بعد والے ان میں اور زیادہ اختلاف کریں گے لہذا تم رسول(ص) کی کسی حدیث کو بیان نہ کرنا جو تم سے حدیث رسول(ص) کے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو.(1)

قسم خدا کی ابوبکر کی یہ حرکت بہت ہی عجیب ہے اس بدترین روز کہ جسے" رزیة یوم الخمیس" کہا جاتا ہے، ابوبکر نے بھی اپنے دوست عمر کی اس بات ی موافقت کی کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے. رسول اللہ(ص) تو ہذیان بک رہے ہیں.

آج ابوبکر کہتے ہیں کہ رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور جو شخص تم سے سوال کرے تو کہہ دینا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا ہے.

____________________

1.تذکرة الخواص، جلد/1 ص3

۴۴

اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو! الحمد للہ کہ انہوں نے صریح طور پر اس بات کا اعتراف کر لیا کہ انہوں نے حدیث رسول(ص) کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اس (حدیث) کو بھلا بیٹھے تھے.

یہاں ابوبکر و عمر کا دفاع کرنے والے اور رسول(ص) کے بعد انہیں سب سے افضل سمجھنے والے اہل سنت سے ایک سوال کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنی صحاح میں اپنے اعتقاد کے مطابق یہ روایت نقل کرتے ہو کہ رسول(ص) نے فرمایا کہ:

میں تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے جا رہا ہوں میرے بعد جب تک تم ان سے متمسک رہوگے اس وقت تک گمراہ نہ ہوگے( وہ ہیں) کتاب خدا اور میری سنت،

اگر ہم اس حدیث کے صحیح ہونے کو تسلیم بھی کر لیں تو تمہارے نزدیک افضل الخلق (ابوبکر و عمر) کو کیا ہوگیا تھا کہ انہوں نے سنت کا انکار کر دیا اور اس کا کوئی وزن نہ سمجھا بلکہ لوگوں کو اس کے قلمبند کرنے اور بیان کرنے سے بھی منع کر دیا؟ کیا کوئی ابوبکر سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ آپ نے مانعین زکوة کے قتل کا اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کا تذکرہ کسی آیت میں دیکھا ہے؟

پس ہمارے اور ابوبکر کے درمیان کتاب خدا ہے جو زکوة نہ دینے والوں کے متعلق یہ کہتی ہے کہ:

( وَ مِنْهُمْ‏ مَنْ‏ عاهَدَ اللَّهَ‏ لَئِنْ آتانا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ. فَلَمَّا آتاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَ تَوَلَّوْا وَ هُمْ مُعْرِضُونَ. فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً فِي قُلُوبِهِمْ إِلى‏ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ وَ بِما كانُوا يَكْذِبُونَ )

سورہ توبہ، آیت/75-77

۴۵

ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کر دے گا تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ہو جائیں گے. اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کر دیا تو بخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہو کر پلٹ گئے تو ان کے بخل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کر دیا، اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے اس لئے انہوں نے خدا سے کئے ہوے وعدہ کی مخالفت کی ہے اور جھوٹ بولے ہیں.

تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیات خصوصا ثعلبہ کے متعلق نازل ہوئی ہیں. جس نے رسول(ص) کو زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا. میں یہاں ایک بات کا اضافہ کرتا ہوں اور نہ یہ کہ ثعلبہ نے رسول(ص) کو زکوة دینے سے منع کیا تھا کیونکہ وہ رکوة کا جذیہ کہتا تھا جیسا کہ خدا نے گذشتہ آیات میں اس کے نفاق کو بیان کیا ہے اس کے باوجود نبی(ص) نے اس سے جنگ نہیں کی اور طاقت وقوت سے اس کا مال نہیں چھینا جب کہ آپ(ص) اس بات پر قادر تھے. لیکن مالک ابن نویرہ اور ان کے قبیلہ والوں نے تو زکوة کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ وہ زکوة دیگر فرائض دین کی طرح فرض سمجھتے تھے. ہاں وہ اس خلیفہ کا انکار کرتے تھے کہ جو رسول(ص) کے بعد زبردستی منصب خلافت پر متمکن ہوا تھا.

تو ابوبکر کی یہ بات تو اور زیادہ عجیب و غریب ہے کہ انہوں نے کتاب خدا کو بھی پس پشت ڈال دیا تھا. جیسا کہ جناب فاطمہ(ع) نے قرآن سے استدلال کیا اور ان کے سامنے کتاب خدا کی ان محکم و آشکار آیات کی تلاوت کی جو وراثت انبیاء کو ثابت کرتی ہیں. لیکن ابوبکر نے کسی ایک آیت کو تسلیم نہ کیا.

۴۶

اور تمام آیایتوں کو اپنی گڑھی ہوئی حدیث سے منسوخ کردیا اور آنحالیکہ خود لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ رسول(ص) کی حدیث نقل کرتے ہو اور پھر اس میں اختلاف کرتے ہو. اور لوگ تمہارے بعد اس میں شدید اختلاف کریں گے پس تم رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا جو شخص تم سے کچھ پوچھے تو کہدینا کہ ہمارے، تمہارے درمیان کتاب خدا ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو! یہی بات ابوبکر نے اس وقت کیوں نہیں کہی تھی جب بضعة الرسول(ص) فاطمہ(ع) سے اس حدیث کے بارے میں اختلاف کیا تھا کہ ہم گروہ انبیاء نہ وارث بنتے ہیں اور نہ وارث بناتے ہیں،، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا کہ ہمارے تمہارے درمیان کتاب خدا ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو؟ ایسی حالت میں جواب تو مشہور ہے عنقریب اس کا مخالف قرآن ہونا آپ پر آشکار ہو جائے گا. اور جب اپنے دعوے میں ابوبکر پر غالب ہوگئیں تو حضرت علی(ع) کی خلافت کی نصوص سے احتجاج فرمایا اور اب ابوبکر کے پاس ان کو جھٹلانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا ایسے ہی موقع کے لئے خداوند عالم فرماتا ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ‏ تَقُولُونَ‏ ما لا تَفْعَلُونَ‏ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ‏ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ)

اے ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو، اللہ کے نزدیک ہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو.

جی ہاں ابوبکر کو اس وقت آرام نہیں مل سکا تھا جب احادیث نبی(ص) لوگوں کے درمیان اس طرح متداول رہتیں کہ لوگ انہیں(حدیثوں کو) حفظ کرتے لکھتے، ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہونچاتے، ایک دیہات سے دوسرے

۴۷

دیہات میں پہونچاتے اور ان میں وہ صریح نصوص تھیں جو اس سیاست کے خلاف تھیں جس پر ابوبکر کی حکومت کی اساس تھی. پس ابوبکر کے سامنے اس کا صرف یہی حل تھا کہ وہ احادیث کو چھپائے، ان پر پردہ ڈالے یا انہیں جلا کر خاکستر کر دے اور بالکل نابود کر دے.(1) یہ لیجئے ان کی بیٹی عائشہ گواہی دیتی ہیں، کہتی ہیں: میرے والد نے رسول(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کیں پھر ان کی رائے بدل گئی ہیں نے کہا: کس چیز کی بنا پر ان کی رائے بدل گئی، پس صبح کے وقت انہوں نے کہا: بیٹی وہ حدیثیں لے آئو جو تمہارے پاس ہیں. میں نے پیش کر دیں تو انہوں نے ان میں آگ لگا دی.(2)

عمر ابن خطاب نقل حدیث پر پابندی لگاتے ہیں

حدیث پر پابندی کے سلسلہ میں ہم ابوبکر کی سیاست دیکھ چکے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے حدیث کا وہ مجموعہ بھی نذر آتش کر دیا تھا کہ جس میں پانچ سو حدیثیں مندرج تھیں اس مجموعہ کو نذر آتش کرنے کا سبب ان اصحاب اور مسلمانوں کو ان احادیث سے جاہل رکھنا تھا کہ جو سنت نبی(ص) کے پیاسے ہیں. اور جب عمر ابوبکر کے قائم مقام بنے تو بھائی چارگی اور دوستی کا اقتصاد یہ تھا کہ اسی

____________________

1.کنز العمال جلد/5 ص237 اور ابن کثیر نے مسند صدیق میں اور ذہبی نے تذکرة الحفاظ کی جلد/5 ص5 پر تحریر کیا ہے.

2. کنز العمال جلد/5 ص237 اور ابن کثیر نے مسند صدیق میں، ذہبی نے تذکرة الحفاظ کی جلد/5 ص5 پر تحریر کیا ہے.

۴۸

سیاست کو اختیار کریں لیکن ان کا انداز بہت ہی شدت اور سختی کا تھا. انہوں نے نقل حدیث اور تدوین حدیث کی پابندی ہی پر اکتفا نہ کی بلکہ اس سلسلہ میں لوگوں کو ڈرایا دھمکایا اور مارا بھی اور لوگوں کو محصور کر دیا.

ابن ماجہ نے قرظہ ابن کعب سے روایت کی ہے کہ عمر نے ہمیں کوفہ بھیجا اور خود بھی صرار تک ہمارے ساتھ ساتھ چلتے رہے. راستہ میں کہنے لگے کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیوں ہوں؟ ہم نے کہا کہ رسول(ص) کی صحبت کے حق کی بنا پر اور انصار کے حق کی وجہ سے، انہوں نے کہا نہیں میں تمہارے ساتھ اس لئے آیا ہوں تاکہ ایک حدیث تم سے بیان کروں میں چاہتا تھا کہ تم اسے محفوظ رکھو. تم اس قوم کے پاس جارہے ہو جو قرآن سن کر بہت خوش ہوتی ہے. پس جب اس کی نظریں تم پر پڑیں گی تو وہ ضرور تمہارے پاس آئے گی اور کہے گی اے اصحاب محمد! تو تم رسول(ص) سے کم روایت نقل کرنا پھر میں تمہارے ساتھ ہوں.(1)

جب قرظہ ابن کعب آئے تو انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کیجئے ابن کعب نے کہا کہ حدیث بیان کرنے سے ہمیں عمر نے منع کیا ہے.(2)

اس طرح مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الادب کے باب الاستئذان میں روایت کی ہے کہ عمر نے ابوموسی اشعری سے کہا اگر تم رسول(ص) سے حدیث نقل کرو گے تو تمہاری خبر لی جائے گی.

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ہم ایک روز ابی ابن کعب کے

____________________

1.سنن ابن ماجہ جلد/باب التوفی فی الحدیث

2.ذہبی نے تذکرة الحفاظ جلد/1 ص4-5 پر تحریر کیا ہے

۴۹

پاس بیٹھے تھے کہ غصہ کے عالم میں ابوموسی اشعری آئے اور کھڑے ہو کر کہنے لگے: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم سے کسی نے رسول(ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنا چاہئے اگر اجازت ملے فبہا ورنہ واپس لوٹ جانا چاہیئے.ابی ابن کعب نے کہا کیا ہوا؟ اشعری نے کہا کل میں نے عمر ابن خطاب کے پاس پہونچنے کے لئے تین مرتبہ اجازت طلب کی، انہوں نے اجازت نہ دی میں واپس آگیا آج پھر ان کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ میں کل بھی آیا تھا لیکن تین مرتبہ اجازت طلب کر کے چلا گیا عمر نے کہا: ہم نے تمہاری آواز سنی تھی لیکن ہم اس وقت ایک کام میں مشغول تھے اگر تم اسی طرح اجازت طلب کرتے رہتے تو تمہیں اجازت مل جاتی. میں نے کہا : میں نے رسول(ص) کے فرمان کے مطابق عمل کیا. عمر نے کہا کہ قسم خدا کی اگر تم نے اس حدیث کو گواہی نہ پیش کی تو میں تمہارے پیٹ اور پیٹھ کو ضرور دکھ پہونچائوں گا. ابی ابن کعب نے کہا کہ قسم خدا کی میں تمہارے ساتھ تمہارے ہی ہم سن کو بھیجتا ہوں. ابو سعید کہتے ہیں. ابی ابن کعب نے مجھ سے کہا ابو سعید اٹھو! بس میں اٹھا اور عمر کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رسول(ص) سے یہ حدیث سنی ہے.

بخاری نے بھی اس واقعہ کو اپنی عادت کے مطابق کترو بیونت کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس سے عمر کی عزت بچانے کے لئے اس دھمکی کا تذکرہ غائب کر دیا ہے جو عمر نے ابوموسی اشعری کو دی تھی کہ " اگر کوئی ثبوت پیش نہ کیا تو خبر لی جائے گی"(1) جب کہ مسلم نے اپنی صحیح میں عمر کے بارے میں ابو موسی اشعری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: اے فرزند خطاب اصحاب رسول(ص) کے لئے عذر نہ بنو.

____________________

1.صحیح بخاری،کتاب الاستئذان باب التسلیم والاستئذان ثلاثا،،

۵۰

ذہبی نے ابو سلمہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوہریرہ سے کہا کیا آپ عمر کے زمانہ میں یہ حدیث بیان کرتے تھے؟ کہا اگر میں عمرکے زمانہ میں ایسی حدیثیں بیان کرتا تو وہ کوڑے سے میری خبر لیتے.

جیسے عمر نقل حدیث کی ممانعت کے سلسلہ میں مارنے پیٹنے کی دءھمکی دے چکے تھے ایسے ہی یہ دوسرے ہیں جس نے صحابہ کی جمع کی ہوئی حدیثوں کو جلا ڈالا ایک روز لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کہا:

لوگو! مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے پاس کچھ کتابیں ہیں میری خواہش ہے کہ سب کو ملا کر ایک مستحکم و استوار کتاب مرتب کردوں، پس جس جس کے پاس کتاب ہے وہ لاکر میرے پاس جمع کر دے میں اس میں غور و فکر کروں گا. لوگوں نے سوچا کہ عمر حدیثوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں ایک نہج سے جمع کریں کہ جس سے کوئی اختلاف پیدا نہ ہو، پس وہ اپنی اپنی کتاب لے کر عمر کے پاس آئے اور عمر نے سب کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا.(1) اس طرح ابن عبدالبر نے اپنی جامع میں علم کی فضیلت کے سلسلہ میں تحریر کیا ہے کہ عمر سنت کو لکھنا چاہتے تھے پھر ان کے لئے بداء واقع ہوگیا اس لئے انہوں نے نہیں لکھا اور دوسرے شہروں میں لکھ بھیجا کہ جس کے پاس کوئی چیز ( یعنی حدیث ہو اسے مٹا دے.

حدیث کے رواج کے جتنے راستے تھے، ڈرانا، دھمکانا، منع کرنا، احادیث کی کتابوں کو جلانا، سب بند کر دئے اب چند صحابہ بچے جو مدینہ سے باہر سفر میں لوگوں سے ملاقات کے دوران رسول(ص) کی حدیث بیان کرتے تھے

____________________

1.طبقات الکبری لابن سعد جلد/5 ص188 اور خطیب بغدادی نے تقیید العلم میں تحریر کیا ہے

۵۱

لیکن جب عمر کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو مدینہ میں مقید کر دیا اور باہر نکلنے پر پابندی لگا دی. ابن اسحاق نے عبدالرحمن ابن عوف سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ قسم خدا کی عمر نے مرنے سے قبل گوشہ و کنار سے اصحاب رسول(ص) کے پاس پیغام بھیجا اور ان سب کو جمع کیا. عبداللہ ابن حذیفہ، ابو درداء ابو ذر غفاری اور عقبہ ابن عامر کے سامنے کہا یہ احادیث نہیں ہیں جو تم رسول(ص) سے نقل کر کے لوگوں میں پھیلا رہے ہو: انہوں نے کہا آپ نے ہمیں نقل کرنے سے منع کیا ہے؟ عمر نے کہا میرے پاس ٹھہرو! اور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے جدا نہ ہونا.(1)

عمر کے بعد خلیفہ ثالث عثمان آتے ہیں وہ بھی وہی راستہ اختیار کرتے ہیں اور اسی ڈگر پر گامزن ہوتے ہیں. جو ان کے گذشتہ دوستوں نے منتخب کی تھی منبر پر جاتے ہیں اور صریح طور پر کہتے ہیں.

کسی کے لئے رسول(ص) کی وہ حدیث نقل کرنا جائز نہیں ہے کہ جو اس نے ابوبکر و عمر کے زمانہ میں نقل نہ کی ہو.(2)

اس طرح حصار کا سلسلہ خلفائے ثلاثہ کی پچیس سالہ حکومت تک برقرار رہا. یہ حصار اگر انہیں کے زمانہ تک محدود رہتا تو بھی کافی تھا لیکن اس کے بعد بھی جاری رہا اور جب معاویہ حاکم بنا تو وہ بھی منبر پر گیا اور کہا: خبردار تم وہی حدیث بیان کرسکتے ہو جو عمر کے زمانہ میں بیان کرتے تھے کیونکہ عمر لوگوں کو خدا کے بارے میں ڈراتے تھے.(3)

____________________

1.کنز العمال جلد/5 ص239

2.مسند امام احمد ابن حنبل جلد/1 ص363

3.صحیح مسلم کتابکتاب الزکوة باب" النهی عن المسالة" من جزء الثالث"

۵۲

اور بنی امیہ کے تمام خلفاء کا طریقہ بھی یہی رہا کہ انہوں نے لوگوں کو رسول(ص) کی صحیح حدیث نقل کرنے سے منع کیا. اور خود جھوٹی حدیثیں گڑھ کر رسول(ص) کی طرف منسوب کر دیں. نتیجہ میں ہر زمانہ کے مسلمان تناقضات، قصہ کہانیوں اور ایسی دلدل میں پھنس گئے کہ جن کا اسلام سے تعلق نہیں ہے. میں آپ کے سامنے مدائنی کا وہ قول نقل کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب" الاحداث" میں نقل کیا ہے. کہتے ہیں کہ عام الجماعت کے بعد معاویہ نے اپنے کارندوں کو اس مضمون کا خط لکھا کہ: اس شخص کے جان و مال کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جو ابو تراب علی ابن ابی طالب(ع) کی فضیلت کے سلسلہ کی کوئی حدیث بیان کرتا ہے. اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر ضلع کے خطباء نے منبروں سے علی علیہ السلام پر لعنت اور ان سے بیزاری کا اظہار شروع کر دیا.

اس کے بعد ساری دنیا میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ علی(ع) کے دوستوں اور اہلبیت(ع) کے محبوں کی گواہی قبول نہ کی جائے پھر لکھا کہ عثمان کے چاہنے والوں اور دوستداروں کا خیال رکھو اور جو ان کی فضیلت کے سلسلہ میں حدیث بیان کرتے ہیں ان کے پاس نشست و برخاست شروع کردو. انہیں قریب بلائو، ان کا احترام کرو. اور ان میں سے جو بھی عثمان کے بارے میں کوئی روایت نقل کرے اس کا نام اور اس کے خانوادہ کا نام مع ولدیت لکھ کر میرے پاس بھیج دو!

پس لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ عثمان کے فضائل کی کثرت ہوگئی کیونکہ عثمان کے بارے میں حدیث گڑھنے والوں کے لئے معاویہ نے خلعت و عطیات بھیجے اور یہ بات عرب میں پھیل گئی لہذا ایسے لوگوں کی ہر شہر میں کثرت ہوگئی اور دنیا کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل

۵۳

کرنے کی غرض سے حدیثیں گڑھنے لگا. اگر لوگوں میں سے مردود ترین انسان نے معاویہ کے اعمال کے سامنے عثمان کی شان میں کوئی حدیث پیش کر دی تو اس کا نام نوٹ کر لیا گیا، مقرب بنایا گیا اور اس کی شفاعت کی گئی. پس ایک زمانہ تک لوگوں کا یہی رویہ رہا. پھر معاویہ نے اپنے کارندوں کو لکھا کہ عثمان کے بارے میں حدیثوں کی بہتات ہوگئی ہے اور ہر جگہ پھیل گئی ہیں. تم میرا خط پاتے ہی لوگوں کو دوسرے صحابہ اور پہلے دونوں خلفاء کی شان میں حدیثیں گڑھنے کا لالچ دو اور ابو تراب کی شان میں منقول کسی بھی حدیث کو ایسا نہ چھوڑو جس کا نقیض صحابہ سے منقول نہ ہو. کیونکہ یہ بات مجھے بہت پسند اور میرے سکون کا باعث ہے. ابوتراب اور ان کے شیعوں کی باتوں کو دلیل سے باطل کر دو. اور ان پر عثمان کے فضائل کو غلبہ دو.

معاویہ کا خط لوگوں کے سامنے پڑھا گیا نتیجہ میں صحابہ کے مناقب کے بارے میں ایسی بے شمار حدیثیں وجود میں آگئیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے. جب لوگوں کو ایسی حدیث مل جاتی تھی تو وہ اسے منبروں سے بیان کرتے اور مکتبوں کے معلموں کو تلقین کی جاتی کہ ہ بچوں کو ان احادیث کی تعلیم دیں کہ ہ بھی روایت بیان کرنے لگے. اور یہ چیز انہیں بالکل قرآن کی طرح سکھائی گئی. بلکہ لڑکیوں، عورتوں، خادموں، مخدوموں سبھی کو سکھا دی اور اس طرح ایک زمانہ گذر گیا.

پھر معاویہ نے تمام ممالک کے کارندوں کو ایک خط لکھا:

دیکھو کہ علی(ع) سے کون شخص محبت کرتا ہے جو ایسا کرتا ہے رجسٹر سے اس کا نام کاٹ دو اور اس کی بخشش و وظیفہ بند کر دو.

۵۴

پھر ایک دوسرے خط کے ذریعہ اس کی توثیق کی:

جس کو تم اس قوم(اہل بیت(ع)) کی محبت میں متہم پائو اسے مصیبت میں مبتلا کر دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو.

عراق اور خصوصا کوفہ کے لئے اس سے بڑی اور کیا بلا ہوسکتی تھی. حد یہ تھی کہ شیعیان علی(ع) میں سے ایک شخص اپنے ایک معتمد دوست کے پاس آتا ہے اس کے گھر میں داخل ہوتا ہے اس سے اپنا راز بیان کرتا ہے اور اس کے خادموں اور غلاموں سے ڈرتا رہتا ہے. اور اس سے سخت قسم لئے بغیر کوئی بات نہیں کہتا تاکہ وہ اسے چھپائے رہے. پس بہت سی گڑھی ہوئی حدیثیں ظاہر ہوئیں اور اسی طریقہ پر فقہاھ قضاة اور حاکم چلے، اکثر لوگ اس مصیبت میں مبتلا تھے وہ کمزور افراد جو خشوع و عبادت کا اظہار کرتے تھے وہ حدیث تراشی میں اس لئے حصہ لیتے تھے تا کہ حکام سے کچھ ملے اور ان کی مجلسوں میں جگہ ملے، اموال ہاتھ آئے منزلت نصیب ہو یہاں تک کہ یہ روایات ان دیندان لوگوں نے بھی بیان کر ڈالیں جو جھوٹ اور بہتان کو قطعی حلال نہیں سمجھتے تھے لیکن وہ انہیں بھی حق سمجھتے تھے اگر وہ انہیں باطل سمجھتے تو کبھی نقل نہ کرتے اور نہ ان پر ایمان رکھتے.(1)

میں تو یہ کہتا ہوں کہ ساری ذمہ داری ابوبکر و عمر و عثمان کے سر جائے گی جنہوں نے رسول(ص) کی صحیح احادیث لکھنے سے صحابہ کو منع کیا تھا ان کے چاہنے والوں کا دعوی ہے کہ ابوبکر عمر و عثمان نے اس لئے احادیث نبی(ص) لکھنے سے منع کیا تھا تا کہ قرآن و حدیث میں اختلاط نہ ہو یہ تو ایسی بات ہے جسے سن کر دیوانے ہنس دیں. کیا قرآن و سنت ( حدیث) شکر و نم ہیں اگر دونوں

____________________

1.شرح نہج البلاغہ جلد/11 ص46

۵۵

مخلوط ہوجائیں گے تو ایک کو دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہو جائے گا اور پھر شکر و نمک بھی مخلوط نہیں ہوتے کیونکہ دونوں کو مخصوص بوروں میں رکھا جاتا ہے کیا خلفاء اس بات کو بھول گئے تھے قرآن کو خاص مصحف میں لکھا جائے اور حدیث کو مخصوص کتاب میں قلمبند کیا جائے جیسا کہ آج ہمارے زمانہ میں ہوتا ہے. اور عمر ابن عبدالعزیز کے زمانہ میں جب حدیث کی تدوین ہوئی تھی اس زمانہ سے ہوتا آرہا ہے پس سنت کیوں قرآن سے مخلوط نہیں ہوئی باوجودیکہ حدیثوں کی سیکڑوں کتابیں وجود میں آگئیں. یہاں تک کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم سے اختلاط نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح مسلم، مسند احمد اور موطاء مالک سے مختلط نہیں ہوتی ہے چہ جائیکہ قرآن مجید مخلوط ہو جاتا.

اس دلیل میں کوئی دم خم نہیں ہے بالکل بیت عنکبوت کی طرح ہے کہ جس کی بنیاد دلیل پر نہیں ہے بلکہ دلیل اس کے برعکس صحیح ہے زہری نے عروہ سے روایت کی نے کہ عمر ابن خطاب سنن کو لکھنا چاہتے تھے اس کے لئے انہوں نے اصحاب سے مشورہ کیا. انہوں نے مشورہ دیا کہ ضرور لکھا جائے پس عمر نے اس سلسلہ میں ایک مہینہ تک خدا کے استخارہ سے مدد چاہی پھر ایک روز کہنے لگے میں سنن( حدیثوں) کو لکھنا چاہتا تھا تم سے قبل میں نے کچھ لوگوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا تھا لیکن وہ اسی میں منہمک ہوگئے اور کتاب خدا کو چھوڑ دیا اور قسم خدا کی میں قرآن کو کبھی کسی چیز سے مخلوط نہیں کروں گا.(1)

قارئین محترم اس روایت کو ملاحظہ فرمائیں اصحاب رسول(ص) نے عمر کو کیسے مشورہ دیا کہ سنن کو لکھا جائے لیکن انہوں نے کل صحابہ کی مخالفت کی اور ان کی

____________________

1.کنزالعمال جلد/5 ص239 اور ابن سعد نے زہری کے طریقہ سے نقل کیا ہے اور عبدالبر نے کتاب جامع میں بیان العلم و فضل میں لکھا ہے

۵۶

رائے کو یہ کہکر ٹھکرا دیا کہ میں نے تم سے پہلے والے لوگوں سے بھی اس سلسلہ میں گفتگو کی تھی انہوں نے کتابیں بھی لکھیں اور اسی کے ہو کے رہ گئے اور کتاب خدا کو بھول گئے، اب شوری کا دعوی کہاں چلا گیا کہ جس کو اہل سنت بڑے شد و مد کے ساتھ پیش کرتے ہیں. وہ قوم کہاں ہے جو سر جوڑ کر حدیثوں کی جمع آوری میں لگ گئے اور کتاب خدا کو بھلا دیا. اس کے بارے میں ہم نے عمر ابن خطاب کے علاوہ کسی سے بھی نہیں سنا ہے. اور اگر اس قوم کا وجود فرض بھی کر لیا جائے تو بھی مقارنت کی یہاں کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کتاب خدا میں تحریف کر کے اپنی طرف سے ایک کتاب لکھ دی تھی جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے.

( فَوَيْلٌ‏ لِلَّذِينَ‏ يَكْتُبُونَ‏ الْكِتابَ‏ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هذا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَ وَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ) بقرہ، آیت/79

وائے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تا کہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں ان کے لئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی.

لیکن سنن کو لکھنے میں یہ شکل نہیں ہے کیونکہ وہ اس معصوم نبی(ص) کا کلام ہے جو اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہی نہیں وہ تو وحی کے مطابق کلام کرتا ہے اور سنن قرآن کی مفسر اور اس کو بیان کرنے والی ہے چنانچہ قول خدا ہے:

( وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ‏ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ )

اور آپ کی طرف بھی ذکر(قرآن) کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل

۵۷

کئے گئے ہیں. سورہ نحل، آیت/44

اور رسول(ص) کا ارشاد ہے کہ مجھے قرآن عطا کیا گیا اور اس کا مثل اس کے ہمراہ ہے اور یہ بات تو قرآن جاننے والے کے لئے واضح ہے کیونکہ پانچ وقت کی نماز، زکوة اور ان کی رکعات و مقدار قرآن میں نہیں ہے. اور نہ ہی روزے کے احکام اور مناسک حج قرآن میں بیان ہوئے ہیں بلکہ بیشتر احکام رسول(ص) نے بیان فرمائے ہیں. اور اسی لئے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے:

( ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) سورہ حشر، آیت/7

جو کچھ بھی رسول(ص) تم کو دے دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے اس سے رک جائو.

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ‏ اللَّهَ‏ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ‏ )

(اے رسول) کہدیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو خدا بھی تم سے محبت کرے گا.

اے کاش عمرکتاب خدا کو سمجھتے اور اسی میں منہمک ہو جاتے اور اس سے احکام رسول(ص) کی اطاعت کرنا سیکھتے اور اس سے مناقشہ نہ کرتے اور نہ ہی اس میں مین میخ نکالتے.(1) کاش عمر کتاب خدا کو سمجھتے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور اس سے احکام کلالہ کی تعلیم حاصل کرتے کہ جس کو وہ مرتے دم تک نہ جان سکے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص37 باب کتاب العلم و جلد/5 ص138

۵۸

جبکہ اپنی خلافت کے زمانہ میں متعدد فیصلے کئے. اے کاش عمر کتاب خدا کو سمجھتے اور اس میں کوشش کرتے اور اس سے تیمم کا حکم سیکھتے کہ جس کو اپنی خلافت کے زمانے میں نہیں جانتے تھے. اور جس کو پانی نہیں ملتا تھا اسے نماز چھوڑ دینے کا فتوی دے دیتے تھے.(1) اے کاش عمر کتاب خدا کو سمجھتے اور اس کی تعلیم کے سلسلہ میں کدو کاوش کرتے اور اس سے طلاق کا حکم اخذ کرتے طلاق بس دو ہی ہیں اس کے بعد یا روک لینا چاہئے یا آزاد کر دینا چاہئے. عمر نے طلاق ایک کر دی.(2) اور اپنی رائے و اجتہاد کو احکام خدا پر مقدم کیا اور انہیں دیوار پر دے مارا.

نا قابل انکار حقیقت یہ ہے کہ خلفائے نے احادیث کی نشر و اشاعت کو ممنوع قرار دیا اور ان کے بیان کرنے والوں کو دھمکی دی احادیث پر اس لئے پردہ ڈالا کہ وہ ان کی خطائوں کو اجاگر اور سازشوں کو منکشف کرتی ہیں اور قرآن کی طرح وہ ان کی تاویل نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ قرآن صامت ہے اور متعدد وجوہ کا حامل ہے لیکن حدیث رسول(ص) تو اقوال افعال نبی(ص) کا نام ہے کوئی بھی اس بات کی تردید نہیں کرسکتا ہے اسی لئے حضرت علی(ع) نے ابن عباس کو خوارج سے مباحثہ کرنے کے لئے روانہ کرتے وقت فرمایا تھا:

تم ان پر قرآن سے حجت قائم نہ کرنا کیونکہ قرآن میں متعدد احتمالات ہیں اس کے وہ اور تم دونوں ہی قائل ہو. ان پر سنت کے ذریعہ حجت قائم کرنا اس سے وہ ہرگز فرار نہیں کرسکیں گے.(3)

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص90، مسلم جلد/1 ص193 باب التیمم

2.صحیح مسلم کتاب الطلاق جلد/1

3.نہج البلاغہ جلد/1 ص77 مکتوب بنام ابن عباس

۵۹

ابوبکر ، عمر کو خلیفہ بنا کر نصوص کی مخالفت کرتے ہیں

اس موضوع کے سلسلہ میں علی علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:

قسم خدا کی فرزند ابوقحافہ نے خلافت کی قمیص کو زبردستی پہن لیا ہے جب کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ خلافت میں میرا وہی مقام ہے جو چکی میں کیل( قطب) کا ہوتا ہے... حادثات کا سیلاب میرا کچھ نہیں بگاڑتا، میری بلندی تک پرندہ پر نہیں مارسکتا، میں نے اس پر پردہ ڈال دیا ہے. اور اس سے کنار کشی اختیار کر لی، اور سوچنے لگا کیا میں اپنے کٹے ہوئے ہاتھ سے حملہ کردوں یا اس گھٹا ٹوپ تاریکی پر صبر کر لوں کہ جس میں بڑے بوڑھے اور بچے جوان ہو جاتے ہیں اور مومن رنج اٹھاتا ہوا اپنے رب سے جاملتا ہے. پس میں نے صبر ہی کو ق رین عقل سمجھا میں نے صبر کیا حالانکہ میری آنکھ میں خار تھا اور حلق میں ہڈی پھنسی ہوئی تھی میں اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے راہ لی اور اپنے بعد خلافت کی زمام ابن خطاب کے ہاتھوں میں دے گیا ( کہاں یہ دن جو ناقہ کی پشت پر کٹا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کے ساتھ گذرتا تھا)

تعجب ہے یا تو وہ اپنی زندگی ہی میں خلافت سے دست بردار ہونا چاہتا تھا یا اب مرنے کے بعد بھی دوسرے

۶۰