اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 34307
ڈاؤنلوڈ: 2512


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34307 / ڈاؤنلوڈ: 2512
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خداوند تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا. سورہ بقرہ، آیت/185

یہ شخص ( عبداللہ) کہتا ہے کہ اگرچہ اس آیت میں انہیں تیمم کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس وقت کے لئے جب پانی ٹھنڈا ہوگیا ہو کیا انہوں نے خدا و رسول(ص) سے جدا ہو کر خود کو مبلغ سمجھ لیا ہے؟ کیا وہ لوگوں پر ان کے خالق و پروردگار سے بھی زیادہ رحیم و رئوف ہے؟

اس کے بعد ابوموسی اس سنت نبی(ص) سے عبداللہ کو قانع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کو عمار نے بیان کیا تھا. اور جس میں رسول(ص) نے تیمم کرنے کا طریقہ سکھایا تھا. مگر عبداللہ اس مشہور حدیث کو یہ کہکر رد کر دیتے ہیں کہ عمار کے قول سے عمر ابن خطاب مطمئن نہیں ہوتے تھے!

اور یہاں یہ چیز بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بعض صحابہ کے نزدیک عمر کا قول ہی قانع کنندہ حجت تھی عمر خواہ حدیث سے مطمئن ہوتے ہوں یا آیت و حدیث کے صحیح ہونے اور آیت کے مفہوم کو پرکھنے کا معیار عمر ہی تھے خواہ آیت رسول(ص) کے اقوال و افعال کے معارض ہی ہوں. یہی وجہ ہے کہ آج ہم بہت سے لوگوں کے ا فعال کو قرآن وسنت رسول(ص) کے خلاف دیکھتے ہیں کیونکہ نصوص کے مقابلہ میں عمر کا اجتہاد آج مذہب بن گیا ہے اسی کا اتباع کیا جا رہا ہے اور جب بعض با اقتدار اور صاحبان نظر کو یہ بات معلوم ہے کہ عہد خلفاء میں احادیث بیان کرنا ممنوع تھا، حدیث کی تدوین بعد میں ہوئی ہے. حفاظ اور راویوں نے جو بیان کیا وہی لکھ لیا گیا. نتیجہ میں وہ مذہب عمر کے مخالف ثابت ہوئیں. کچھ راویوں نے اپنی طرف سے گڑھ کر رسول(ص) کی طرف منسوب کردی تا کہ ان کے ذریعہ ابو حفص( عمر) کی تائید کر سکیں جسے کہ مسئلہ متعہ اور نماز تراویح وغیرہ کے بارے میں متناقض روایتیں

۸۱

نقل ہوئی ہیں اسی لئے یہ مسئلہ آج تک مسلمانوں کے درمیان اختلافی ہے. اور اس زمانہ سے اسی حالت پر باقی ہے.جب تک عمر کا دفاع کرنے والے موجود رہیں گے بات صرف عمر کی ہے حق کے لئے بحث نہیں کرتے ہیں. عمر سے کوئی کہے کے اے عمر آپ نے غلطی کی ہے کیونکہ پانی کے فقدان سے نماز ساقط نہیں ہوتی ہے اس کے لئے آیت تیمم کتاب خدا میں موجود ہے اور کتب احادیث میں حدیث تیمم مذکور ہے پس جب آپ کو دونوں کی خبر نہیں ہے تو آپ کو منصب خلافت پر متمکن ہونا اور امت کی قیادت کرنا زیب نہیں دیتا. اور اگر آپ کو علم تھا تو وہ علم آپ کو کافر قرار دیتا ہے. اس لئے کہ آپ نے قرآن و حدیث کے احکام کی مخالفت کی ہے اگر آپ مومن ہوتے تو ایسا نہ کرتے. کیونکہ جب خدا اور اس کا رسول(ص) کوئی فیصلہ کر دیں تو آپ کو کسی فیصلہ کو قبول کرنے اور کسی کو رد کرنے کا حق نہیں ہے یہ بات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ:

( مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً )

جو بھی خدا و رسول(ص) کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا.

( إِنَّمَا الصَّدَقاتُ‏ لِلْفُقَراءِ وَ الْمَساكِينِ- وَ الْعامِلِينَ عَلَيْها وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ- وَ فِي الرِّقابِ وَ الْغارِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ- وَ ابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ- وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ‏ )

صدقات و خیرات بس فقراء و مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے اور راہ خدا میں اور

۸۲

غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے.

اور رسول(ص) کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ(ص) مولفة القلوب کا وہ حق دیا کرتے تھے جو خدا نے فرض کیا ہے لیکن عمر ابن خطاب نے اس فرض شدہ حق کو اپنی خلافت کے زمانہ میں باطل قرار دیا اور نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا. اور مولفة القلوب سے کہا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے. اسلام کو خدا نے عزت دی ہے اور تم سے بے نیاز کر دیا بلکہ عمر نے یہ حکم تو ابوبکر کی خلافت کے زمانہ ہی میں لگا دیا تھا. ہوا یہ تھا کہ مولفة القلوب ابوبکر کے پاس اپنا حق لینے آئے تو انہوں نے عمر کو رقعہ لکھا کہ ان کا حق دے دو، رقعہ لے کر وہ لوگ عمر کے پاس پہونچے تو عمر نے وہ رقعہ لے کر پھاڑ دیا اور ان لوگوں سے کہا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے. اسلام کو خدا نے عزت دی ہے اور تم سے بے نیاز کیا ہے پس اگر تم اسلام قبول کرتے ہو فبہا، ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہے. وہ بے چارے ابوبکر کے پاس آئے اور کہنے لگے خلیفہ آپ ہیں یا وہ؟ ابوبکر نے کہا انشاء اللہ وہی ہیں اور عمر کی رائے کے موافق ابوبکر نے بھی عمل کیا.(1)

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ عمر کا دفاع کرنے والوں کو آپ آج بھی دیکھیں گے کہ وہ اس واقعہ کو عمر کے مناقب اور شجاعت میں شمار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک شیخ محمد المعروف بہ دوالیبی بھی ہیں. وہ اپنی کتاب اصول الفقہ کے ص239 میں رقمطراز ہیں کہ:

شاید مولفة القلوب اس حق کو قطع کرنے میں جس کو

____________________

1.الجوہر النیرہ فی الفقہ الحنفی، جلد/1 ص164

۸۳

خدا نے قرآن میں فرض کیا ہے. عمر کا اجتہاد ان احکام کے لئے مقدمہ تھا جن کو وہ قرآنی نص کے باوجود وہ مصلحت وقت کے لحاظ سے بدل لیا کرتے تھے.

اس کے بعد موصوف عمر کے لئے عذر تراشتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر نے نص کی علت پر نظر کی نہ کہ اس کے ظاہر پر... آخر تک ان کا ایسا کلام ہے جس کو سلیم عقلیں نہیں سمجھ سکتی ہیں ہم ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ عمر مصلحت وقت کے لحاظ سے احکام قرآنی میں رد و بدل کر کے اپنی رائے پر عمل کرتے تھے لیکن ان کی اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ عمر نے نص کی علت کو دیکھا اور ظاہر پر نظر نہیں کی شیخ محمد اور ان کے ہمنوائوں سے ہماری گزارش ہے کہ نص قرآن اور نص نبوی زمانوں کے بدلنے سے متغیر نہیں ہوتی ہے. قرآن صراحت کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ خود رسول(ص) کو بھی کسی رد و بدل کا حق نہیں ہے چنانچہ ارشاد ہے:

( وَ إِذا تُتْلى‏ عَلَيْهِمْ‏ آياتُنا بَيِّناتٍ قالَ الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هذا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ ما يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَّ إِنِّي أَخافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ)

اور جب ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے توجن لوگوں کو ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن لائیے. یا اسی کو بدل دیجیئے. تو آپ کہہ دیجئے کہ مجھے اپنی طرف سے بدلنے کا کوئی اختیار نہیں ہے. میں تو صرف اس امر کا اتباع کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے میں اپنے پروردگار

۸۴

کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے عظیم دن کے عذاب کا خوف ہے. سورہ یونس، آیت/15

اور سنت نبوی(ص) کہتی ہے: حلال محمد(ص) قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد(ص) قیامت تک حرام ہے.

لیکن دوالیبی اور اجتہاد کے قائل افراد کے زعم کے مطابق زمانہ کے تغیر سے احکام متغیر ہوتے ہیں تو ا سی صورت میں ان حکام پر ملامت نہیں کی جا سکتی ہے جو احکام خدا کو اپنی مصلحت کے اقتضا کے مطابق قبائلی احکام سے بدل لیتے ہیں ظاہر ہے وہ حکم خدا کے مخالف ہوتے ہیں. پس ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ روزہ توڑ دو!تا کہ اپنے دشمن پر فتحیاب ہوسکو. اور موجودہ زمانہ میں جب کہ ہم فقر و جہل سے جنگ کر رہے ہیں روزے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. اور روزہ تو ہمیں نتیجہ گری اور تعدد ازدواج سے روکتا ہے کیونکہ روزہ ( جماع کو) عورت کے حقوق کی پامالی قرار دیتا ہے(کوئی) کہتا ہے کہ محمد(ص) کے زمانہ میں عورت پیشاب کے برتن سے تعبیر کی جاتی تھی. آج ہم نے اسے آزادی دلائی ہے اور اس کے پورے حقوق دئے ہیں.

اس رئیس نے بھی نص کی علت کو مدنظر رکھا اور اس کے ظاہر کو نظر انداز کر دیا بالکل اسی طرح جس طرح عمر نے کہا تھا... کہ آج مرد و عورت دونوں کو برابر میراث دی جائے گی. کیونکہ خدا نے مرد کو دہرا حصہ دینے کا حکم اس وقت دیا تھا جب وہ خانوادے کی کفالت کرتا تھا اور عورت معطل رہتی تھی. لیکن آج ایسا نہیں ہے آج عورت مشغول ہے، اپنے خانوادے کی کفالت کرتی ہے، وہ مثال میں اپنی زوجہ کو پیش کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے اخراجات پورے کئے ہیں اور وہ ان کی عنایتوں سے وزیر بن

۸۵

گیا ہے. اسی طرح اس نے زنا کو مباح قرار دے دیا. اور زنا کو اس شخص کا حق قرار دیا ہے جو سن بلوغ کو پہونچ جائے، اور اس نے زنا سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے پرورش گاہ قائم کی ہے. لوگ اس کی یہ علت بیان کرتے ہیں کہ وہ زنا کی اولاد پر رحم کرتا ہے کیونکہ لوگ ذلت و رسوائی کے خوف سے انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے. اس کے علاوہ اور بہت سے اجتہادات ہیں، تعجب خیز بات تو یہ ہے یہ شخص عمر کی شخصیت سے اتنا متاثر ہے کہ متعدد بار اس نے عمر کا بڑے شد و مد کے ساتھ تذکرہ کیا ہے اور ایک مرتبہ کہا کہ عمر کو زندگی میں اور موت کے بعد بھی خلافت کی فکر تھی چونکہ جناب بھی صدر ہیں اس لئے زندگی اور موت کے بعد بھی مسئولیت کا بار برداشت کریں گے. ایک مرتبہ جب اسے یہ اطلاع ملی کہ مسلمان میرے اجتہاد پرتنقید کرتے ہیں تو اس نے کہا عمر اپنے زمانہ کے سب سے بڑے مجتہد تھے پس میں اپنے نئے زمانہ میں کیوں نہ اجتہاد کروں، عمر حکومت کے صدر تھے میں بھی حکومت کا صدر ہوں.

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جب یہ رئیس محمد(ص) کا تذکرہ کرتا ہے تو مزاحیہ اور مسخرانہ انداز میں کرتا ہے. اپنی ایک تقریر میں کہتا ہے کہ: محمد(ص) کچھ بھی نہیں جانتے تھے انہیں جغرافیہ کا بھی علم نہیں تھا اسی لئے تو کہہ دیا علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے. وہ(محمد(ص)) یہ سمجھتے تھے چین دنیا کا آخری حصہ ہے. محمد(ص) یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ علم اتنی ترقی کرے گا کہ ہوائوں میں لوہا اڑایگا انہیں پوٹاشیم یا یا ایٹمی علوم اور کیمیاوی اسلحہ کے بارے میں کوئی علم نہ تھا.

میں اس بے خرد شخص پر ملامت نہیں کرتا ہوں کہ جو کتاب خدا اور سنت رسول(ص) سے کچھ بھی نہیں جانتا ہے. اور ایک روز اپنی حکومت

۸۶

کو اسلامی حکومت کا نام دیتا ہے. جبکہ اسلام کا مذاق بھی اڑاتا ہے. اصل میں پس پردہ مغربی تہذیب کار فرما ہے. وہ چاہتا ہے کہ اس حکومت کو یورپی ممالک کا جز بنا دے. بہت سے بادشاہوں اور رئوسا نے اسے مبارکبادی کے ساتھ تحائف بھی بھیجے جب اسے مغربی ممالک کی تائید اور اپنے متعلق ان کی رطب اللسانی معلوم ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے اسے مجاہد اکبر تک کا لقب دے دیا، میں پھر بھی اس پر ملامت نہیں کروں گا کیونکہ جو چیزیں اس سے دیکھنے میں آتی میں وہ بعید نہیں تھیں اس لئے کہ جس برتن میں جو ہوتا ہے وہی ٹپکتا ہے. اور جب میں انصاف کروں گا تو پہلے ابوبکرو عمر اور عثمان کو ملامت کا نشانہ بنائوں گا کیونکہ انہوں نے ہی وفات نبی(ص) کے دن ہی سے اس کا دروازہ کھول دیا تھا اور اموی وعباسی حکام کے کل اجتہادات کا یہی لوگ سبب بنے، ان سے زیادہ کسی نے کچھ نہیں کیا، سات صدیوں کی طویل مدت تک اسلام کے حقائق اور اس کے نصوص و احکام کو چھپایا گیا، نتیجہ میں نوبت آج یہاں تک پہونچ گئی کہ ایک ملک کا صدر مسلمان معاشرہ و جمعیت کے سامنے اپنی تقریر میں رسول(ص) کا مذاق اڑاتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا. نہ خود اس ملک کے باشندے کو شکوہ نہ دوسرے ممالک والوں کو اشکال.

اور یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اور جو میں اسلامی تحریک کے بعض اراکین سے کہتا ہوں کہ اگر آج تم اپنے ملک کے صدر سے اس بات پر لڑتے ہو کہ وہ نصوص قرآن وسنت کا اتباع نہیں کرتا ہے تو تم پر یہ بھی واجب ہے کہ اس شخص سے بیزاری اختیار کرو جس نے اس بدعت "نص کے مقابلہ میں اجتہاد" کی بنیاد رکھی ہے. اگر تم میں انصاف کا مادہ ہے

۸۷

اور اب حق کا اتباع کرنا چاہتے ہو. جو لوگ میری اس بات کو قبول نہیں کرتے اور مجھے اس لئے برا بھلا کہتے ہیں کہ میں آج کے رئوسا کو خلفائے راشدین سے ملاتا ہوں. ان کے لئے میرا جواب یہ ہے کہ آج کے بادشاہ اور رئوسا تاریخی واقعات کا حتمی نتیجہ ہیں. اور مسلمان رسول(ص) کی وفات سے لے کر آج تک کس دن آزاد تھے؟ کہتے ہیں کہ آپ شیعہ حضرات صحابہ پر بہتان باندھتے اور ان پر سب وشتم کرتے ہیں. اگر ہماری حکومت ہوگی تو تمہیں آگ میں جلائیں گے. میں کہتا ہوں کہ خدا تمہیں وہ دن ہی نہیں دکھائے گا.

ارشاد خداوند ہے:

( الطَّلاقُ‏ مَرَّتانِ‏ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ وَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَّا أَنْ يَخافا أَلَّا يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها وَ مَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‏ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُ‏ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ وَ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُها لِقَوْمٍ يَعْلَمُون) سورہ بقرہ، آیت/230

طلاق دو مرتبہ دی جائے گی اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسن سلوک کے ساتھ آزاد کر دیا جائیگا اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں دے دیا ہے. اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ یہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہو جائے

۸۸

کہ وہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے لیکن یہ حدود الہیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الہیہ سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا. پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کر لیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہیہ ہیں جنہیں خدا صاحبان علم و اطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کر رہا ہے.

بے دھڑک سنت نبی(ص) کی یہ تفسیر ہوتی رہی کہ بیوی شوہر پر تین طلاقوں کے بعد حرام ہوتی ہے اور پھر شوہر اسی وقت رجوع کرسکتا ہے جب کہ اس ( مطلقہ) سے کوئی دوسرا مرد نکاح کر کے طلاق دے دے پس وہ جب طلاق دے دے گا تو ہر پرانے شوہر کو نئے پر تقدم حاصل ہوگا اور عورت کو یہ اختیار ہوگا کہ خواہ اسے ( پرانے شوہر کو) قبول کرے یا انکار کر دے.

لیکن عمر ابن خطاب اپنی عادت کے مطابق ان حدود خدا میں غلطی کرتے ہیں جو جاننے والوں کے لئے بیان کئے گئے ہیں اس حکم کو بھی بدل دیا اور کہا کہ طلاق ایک ہی ہے لیکن تین لفظوں سے متحقق ہوگی اور شوہر پر اس کی زوجہ حرام ہو جائے گی اس طرح عمر نے قرآن مجید اور سنت نبی(ص) کی مخالفت کی

صحیح مسلم کی کتاب الطلاق کے باب" طلاق الثلاث" میں ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ: عہد رسول(ص) اور زمانہ ابوبکر میں نیز

۸۹

دو سال خلافت عمر میں طلاق ایک ہی تھی. پس عمر ابن خطاب نے کہا : لوگ اس سلسلہ میں جلدی سے کام لیتے ہیں اس میں ان کے لئے آسانی ہے. اگر ہم ان کی تصدیق کر دیتے تو وہ ان کے لئے حجت ہو جاتی.

قسم خدا کی تعجب ہے کہ خلیفہ صحابہ کے سامنے کس جرائت کے ساتھ احکام خدا کو بدل دیتے ہیں اور صحابہ ان کی ہر ایک بات کی موافقت کرتے ہیں نہ کوئی انکار کرتا ہے نہ معاوضہ اور ہم غریبوں کو اس طرح فریب دیتے ہیں کہ ایک صحابی نے عمر سے کہا: قسم خدا کی اگر ہم کہیں آپ سے کجی دیکھیں گے تو تلوار کی باڑ پر لے لیں گے" یہ قول روز بہتان اس لئے ہے تاکہ خلافت کو بلا جھجک آزادی اور ڈیموکریسی کا نمونہ بنا کے پیش کیا جاسکے جب کہ تاریخ اس کی تکذیب کرتی ہے اور اقوال کا اس وقت کوئی اعتبار نہیں ہوتا جب عمل ان کے خلاف ہوتا ہے یا شاید وہ کتاب و سنت میں کجی دیکھ رہے تھے اور عمر ابن خطاب اسے استوار کر رہے تھے" اس ہذیان سے ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں " میں جب شہر قفصہ میں تھا تو میں ان لوگوں کو فتوی دیتا تھا کہ جو اپنی بیویوں کو" انت حرام بالثلاث" کے ذریعہ حرام کر لیتے تھے اور اس وقت بہت خوش ہوتے تھے جب میں انہیں وہ صحیح احکام بتاتا تھا کہ جن میں خلفاء اپنے اجتہاد کے ذریعہ تصرف نہیں کرسکے ہیں لیکن جو انہیں علم کی طرف بلاتا ہے وہ اسے یہ کہکر ڈراتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں تو ہر چیز حلال ہے ایک بار ان میں سے ایک شخص نے مجھ سے اچھے انداز میں جدال کیا اور پوچھا؟ کہ جب سیدنا عمر ابن خطاب نے اس قضیہ اور دوسرے احکام خدا کو بدل دیا اور صحابہ نے ان کی موافقت کی تو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ و رضی اللہ عنہ نے ان سے جدال و جنگ کیوں نہیں کی؟ میں نے اسے وہی جواب دیا جو علی علیہ السلام نے قریش کو اس وقت

۹۰

دیا تھا جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ دلیر تو ہیں لیکن فنون جنگ سے بے خبر ہیں. آپ(ع) نے فرمایا کہ:

اللہ ان کا بھلا کرے کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدان دغا میں مجھ سے پہلے سے کار نمایاں کئے ہوئے ہو، میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور اب تو ساٹھ سے اوپر ہوگیا ہوں لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے.

جی ہاں! شیعوں کے علاوہ (کہ جو ان کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں) مسلمانوں نے علی(ع) کی بات پر کان دھرا. انہوں نے متعہ کی حرمت کے خلاف آواز بلند کی، تراویح کی بدعت کے خلاف معارضہ کیا بلکہ تمام ان احکام کے بارے میں صدائے احتجاج بلند کی جنہیں ابوبکر و عمر اور عثمان نے بدل ڈالا تھا لیکن ان کی رائے ان کے شیعوں میں محصور رہی اور دوسرے مسلمان ان سے جنگ کرتے رہے، لعنت بھیجتے رہے. آپ کے نام اور تذکرہ کو مٹانے میں منہمک رہے ان کے دلیرانہ موقف کو اس وقت کسی نے نہیں پہچانا کہ جب آپ کو عبدالرحمن ابن عوف) کہ عمر کے بعد جس کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور تھی، نے بلایا اور کہا میں آپ کو اس شرط پر خلیفہ بناتا ہوں کہ آپ مسلمانوں میں سنت شیخین، ابوبکر و عمر کے مطابق فیصلے کریں گے، علی علیہ السلام نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا: میں کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے مطابق عمل کروں گا اسی بنا پر انہوں نے علی(ع) کو نظر انداز کر دیا اور عثمان ابن عفان نے یہ شرط قبول کر لی لہذا خلافت انہیں کو سونپ دی گئی پس جب علی(ع) ابوبکر و عمر

۹۱

کے مرنے کے بعد بھی ان سے معارضہ نہیں کرسکتے تھے تو ان کی موجودگی میں کیونکر ممکن تھا؟؟

اس لئے آپ باب مدینة العلم کہ جو رسول(ص) کے بعد اعلم الناس کو دیکھتے ہیں کہ وہ اہلسنت کے یہاں متروک ہیں ، وہ( اہلسنت) مالک، ابوحنیفہ شافعی اور ابن حنبل کی اقتدا کرتے ہیں اور تمام امور دین میں انہیں کی تقلید کرتے ہیں کسی بھی چیز کے بارے میں علی(ع) سے رجوع نہیں کرتے ہیں اسی طرح آپ ان کے ائمہ حدیث جیسے بخاری و مسلم کو دیکھیں گے وہ ابو ہریرہ، ابن عمر اور ہر ایک لنگڑے گنجے اور قریب و بعید سے سیکڑوں حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن علی علیہ السلام سے معدود چند ہی حدیثیں نقل کرتے ہیں وہ بھی جھوٹی اور اہلبیت(ع) کی عظمت کو گھٹانے والی پھر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ جو علی(ع) کی تقلید کرتے ہیں انہیں کافر کہتے ان کو رافض کے القاب سے یاد کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شیعوں کی صرف اتنی خطا ہے کہ وہ علی(ع) کی اقتدا کرتے ہیں کہ جنہیں خلفائے ثلاثہ کے زمانہ میں گذشہ نشین بنا دیا گیا تھا پھر امویوں اور عباسیوں کے زمانہ حکومت میں ان پر لعنت کی گئی جس کو تاریخ سے کچھ لگائو ہے وہ بہت جلد اسی واضح حقیقت کو درک کر لے گا اور علی(ع) و اہلبیت(ع) و شیعیان علی(ع) کے خلاف ہونے والی سازش کو سمجھ لے گا.

۹۲

مخالفت نصوص کے سلسلہ میں عثمان اپنے دوستوں کا اتباع کرتے ہیں

شاید عثمان ابن عفان نے عبدالرحمن ابن عوف سے اس شرط پر خلافت لیتے وقت کہ وہ سیرت شیخین ابوبکر و عمر پر عمل کریں گے یہ طے کر لیا تھا کہ میں بھی ان دونوں ( ابوبکر و عمر) کی طرح نصوص قرآن اور نصوص نبوی(ص) کے مقابلہ میں اجتہاد کروں گا جو شخص عثمان کے دوران خلافت کا مطالعہ کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ اجتہاد کے میدان میں عثمان ابوبکر و عمر سے کہیں آگے نکل گئے تھے اور لوگ ان دونوں کے اجتہادات کو بھول گئے تھے میں اس موضوع کو طول نہیں دینا چاہتا. اس سے جدید و قدیم تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور ان میں عثمان کی وہ عجیب و غریب باتیں بھی مرقوم ہیں جو ان کے قتل کا باعث بنیں. لیکن میں اپنی عادت کے مطابق قارئین اور محققین کے لئے اختصار کے ساتھ دین محمدی میں اجتہاد کے حامی افراد کا تذکرہ کر رہا ہوں.

مسلم نے اپنی صحیح کتاب " صلوة المسافرین" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: خدا نے دو رکعت نماز فرض کی تھی پر وطن میں پوری ( یعنی چار رکعت) فرض کی اور سفرمیں وہی دو رکعت واجب رہی.

مسلم نے اپنی صحیح کی اسی کتاب میں یعلی ابن امیہ سے رویت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر ابن خطاب سے کہا کہ اگر تمہیں کافرون

۹۳

کا خوف ہو تو نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس طرح لوگ محفوظ رہیں گے! انہوں نے فرمایا: مجھے بھی اسی چیز سے تعجب ہے جس سے تمہیں تعجب ہے پس میں نے رسول(ص) سے دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: یہ صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر تصدیق کیا ہے پس اس کے صدقہ کو قبول کرو.

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب صلاة المسافرین و قصرہا میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: خدا نے اپنے نبی(ص) کی زبان سے حضر(وطن ) میں چار رکعت اور سفر میں دو رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت واجب کی ہے.

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح میں انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب رسول(ص) تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تھے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے.

نیز انہیں سے مروی ہے کہ ہم مدینہ سے رسول(ص) کے ہمراہ مکہ گئے تو واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے، میں نے دریافت کیا کہ مکہ میں کتنے دن قیام کیا؟ کہا دس روز.

مسلم کی بیان کردہ ان احادیث سے ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو آیت قصر کے معلق رسول(ص) پر نازل ہوئی تھی رسول(ص) نے اپنے قول و عمل سے اس کی تفسیر بیان کی تھی اور بتایا تھا کہ یہ خدا کی طرف سے چھوٹ ہے اس کے ذریعہ خدا مسلمانوں پر تصدیق کرتا ہے. پس مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے. اس سے دوالیبی اور اس جیسے عمر کی خطا کو صحیح بنا کر پیش کرنے والے اور ان کے لئے عذر تراشنے والے افراد کا یہ دعوی باطل ہو جاتا ہے کہ عمر نے اس کی علت کو مد نظر رکھا اور اس کے ظاہر کو

۹۴

نظر انداز کر دیا. کیونکہ رسول(ص) نے عمر کو آیت قصر نماز کے نزول کے وقت یہ سمجھا دیا تھا کہ نصوص ثابتہ اپنی علت پر موقوف نہیں ہوتی ہیں اس طرح سفر کی حالت میں نماز قصر رہے گی اگر چہ لوگوں کو خوف بھی لاحق نہ ہو لیکن عمر کا دوسرا ہی نظریہ ہے جس کو دوالیبی اور اہلسنت کے ددسرے علماء نے اپنے حسن ظن کی بنا پر نقل کیا ہے.

ہمیں عثمان ابن عفان کی طرف دیکھنا چاہیئے وہ بھی نصوص قرآن وسنت کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے ہیں وہ بھی خلفائے راشدین میں شامل ہیں اور وہ سفر میں بھی پوری نماز پڑھتے ہیں. بجائے دو رکعت کے چار رکعت ادا کرتے ہیں.

کیا میں یہ سوال کرسکتا ہوں کہ اس فریضہ میں کمی زیادتی کا سبب کیا ہے میری نگاہ میں اس کا منشاء یہ تھا کہ عوام کو خصوصا بنی امیہ کو یہ باور کرادے کہ وہ محمد(ص) اور ابوبکر و عمر سے زیادہ متقی ہے.

مسلم نے اپنی صحیح کے باب صلوة المسافرین و قصر الصلاة میں سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے انہوں نےرسول(ص) سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) منی میں نماز قصر پڑھتے تھے اور ابوبکر وعمر اور عثمان اپنی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ایسے ہی پڑھتے تھے لیکن بعد میں وہ پوری نماز پڑھنے لگے.

نیز مسلم میں بیان ہوا ہے کہ زہری کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے کہا: عائشہ کو کیا ہوگیا ہے وہ سفر میں پوری نماز پڑھتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ عائشہ نے عثمان کی طرح تاویل کرتی ہے.

اس طرح دین خدا اپنے احکام و نصوص کے ساتھ مفسرین کی تفسیر اور تاویل کرنے والوں کی تاویل و تفسیر کا تابع دار ہو کے رہ گیا.

۹۵

"ب" اسی طرح عثمان نے عمر کی تائید میں متعہ الحج کی حرمت کے بارے میں اجتہاد کیا اور متعہ النسا کو حرام قرار دیا. بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الحج کے باب" التمتع والاقران" میں مروان ابن حکم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے عثمان و علی رضی اللہ عنہما دونوں کو دیکھا ہے عثمان متعہ کرنے سے روکتے تھے اور دونوں کو جمع کرنے سے روکتے تھے.پس علی(ع) نے ان دونوں عمرہ و حج میں عمل کیا اور فرمایا: میں کسی کے کہنے سے سنت نبی(ص) کو ترک نہیں کروں گا.

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الحج کے باب " جواز التمتع" میں سعید ابن مسیب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: علی(ع) و عثمان عسفان میں جمع ہوگئے عثمان متعہ یا عمرہ سے منع کر رہے تھے علی(ع) نے فرمایا: کیا آپ اس فعل سے منع کر رہے ہیں جس پر رسول(ص) نے عمل کیا ہے؟ عثمان نے کہا: چھوڑئے، آپ(ص) نے فرمایا کہ میں تمہارے کہنے سے اس کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں پس علی(ع) نے ان دونوں پر عمل کیا.

جی ہاں! یہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں کہ جو کسی کے کہنے پر سنت رسول(ص) کو نہیں چھوڑتے ہیں دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عثمان اور علی(ع) کے درمیان اس قول کےسلسلہ میں اختلاف رہا ہے، عثمان علی(ع) سے کہتے " دعنا منک" اس میں ہر چیز کی مخالفت ہے، اور اس چیز کا اتباع نہیں ہے جس کی حضرت علی(ع) اپنے ابن عم رسول(ص) سے روایت کرتے ہیں جیسا کہ مقطوعہ روایت کے بارے میں آپ یہ کہیں کہ علی(ع) نے یہ فرمایا بس جب علی(ع) کی یہ رائے ہے تو میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟

لا ریب ، خلیفہ (عثمان) اپنی ہی رائے پر مصر رہے

۹۶

باوجودیکہ علی(ع) نے انہیں سنت نبوی(ع) یاد دلائی لیکن عثمان نے علی(ع) کی مخالفت میں لوگوں کو تمتع سے منع کر دیا اور حج و عمرہ کی اجازت دیدی.

"ت" اسی طرح عثمان نماز کے اجزاء میں اجتہاد کر لیتے تھے اور سجدہ میں جاتے اور بلند ہوتے وقت تکبیر نہیں کہتے تھے.

امام احمد ابن حنبل نے عمران ابن حصین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے علی(ع) کی امامت میں نماز ادا کی میں نے کہا آپ(علی(ع)) نے مجھے رسول(ص) اور دونوں خلفاء کی نماز یاد دلا دی میں بھی گیا اور ان کے پیچھے نماز ادا کی تو انہوں نے رکوع میں جاتے اور بلند ہوتے وقت تکبیریں کہیں، میں نے کہا: اسے ابو نجیدہ سب سے پہلے یہ تکبیرین کس نے ترک کیں؟ کہا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس وقت چھوڑ دی تھیں جب وہ بوڑھے ہوگئے تھے اور ان کی آواز نحیف ہوگئی تھی.(1)

ہاں اسی طرح سنت نبی(ص) برباد ہوئی اور اس کی جگہ سنت خلفاء، سنت بادشاہان اور سنت صحابہ نیز سنت اموی و عباسی نے لے لی اور یہ سب اسلام میں بدعت ہیں اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ضلالت کا نتیجہ جہنم ہے جیسا کہ رسالتماب علیہ التحیة والسلام نے فرمایا ہے.

اسی لئے آپ آج مسلمانوں کی نمازوں کی مختلف شکلیں ملاحظہ کر رہے ہیں، آپ انہیں ایک تصور کرتے ہیں جب کہ ان کے قلوب جدا ہیں وہ ایک صف میں کھڑے ہوں تو دیکھئے کہ کسی کے ہاتھ کھلے ہیں کسی کے بندھے ہیں اور ان ہاتھ باندھنے والوں کے طریقے بھی جدا ہیں. کوئی

____________________

1.مسند احمد ابن حنبل جلد/4 ص440

۹۷

نیفے سے اوپر ہاتھ باندھتا ہے اور کوئی سینے کے پاس باندھتا ہے، کوئی دونوں پیر ملاکر کھڑا ہوتا ہے اور کوئی دونوں پیر کے درمیان فاصلہ قائم کرتا ہے.اور ان میں سے ہر ایک اپنے اس فعل کو حق سمجھتا ہے. اور جب آپ اس سلسلہ میں ان سے گفتگو کریں گے تو وہ جواب دیں گے برادر یہ نماز کی صورتیں ہیں انہیں اہمیت نہ دو جس طرح چاہو پڑھو مہم نماز پڑھنا ہے.

ہاں! یہ ایک حد تک صحیح ہے مہم صرف نماز ہے لیکن نماز کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ رسول(ص) کی نماز کے مطابق ہو، رسول(ص) کا ارشاد ہے : اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھو. پس ہمیں ان کی نماز کے بارے میں چھان بین کرنا چاہیئے، کیونکہ نماز دین کا ستون ہے.

"ث" عثمان سے فرشتے بھی شرم کھاتے ہیں:

بلاذری کا کہنا ہے کہ جب عثمان کو ابوذر(رض) کے ربذہ میں مرجانے کی اطلاع ملی تو انہوں نے کہا: خدا ان (ابوذر) پر رحم کرے. عمار یاسر نے کہا کہ ہاں خدا ہم سب پر رحم کرے عثمان نے عمار سے ایک گالی دینے کے بعد کہا تم مجھے ابوذر(رض) کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر شرمندہ کرنا چاہتے ہو. جائو تم بھی ربذہ چلے جائو.(1)

جب عمار تیار ہوئے تو قبیلہ مخزوم علی(ع) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہی عثمان سے گفتگو کیجئے، علی علیہ السلام نے عثمان سے کہا: اے عثمان خدا سے ڈرو! تم نے ایک صالح انسان کو جلا وطن کیا وہ جلا وطن کے عالم

____________________

1.انساب الاشراف جلد/5 ص54

۹۸

میں جاں بحق ہوگیا اور اب اس کے مثل انسان کو جلا وطن کرنا چاہتے ہو؟

دونوں کے درمیان کافی دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عثمان نے علی علیہ السلام سے کہا جلا وطن کے تم اس سے بھی زیادہ مستحق ہو علی(ع) نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو کر گذرو!

پھر مہاجرین جمع ہو کر عثمان کے پاس آئے اور کہا کہ جو کچھ تم نے اس جلا وطن شخص کے لئے کہا ہے کہ جسے تم نے شہر بدر کیا ہے تو یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہے اس لئے عثمان نے عمار کو شہر بدر کرنے سے پرہیز کیا.

یعقوبی لکھتے ہیں کہ عمار یاسر نے مقداد کے جنازہ پر نماز پڑھی اور دفن کر دیا اور مقداد کی وصیت کے مطابق عثمان کو ان کے انتقال کی خبر نہ دی تو عثمان عمار پر بہت غضبناک ہوئے اور کہا: دیل ہو ابن سوداء پر کاش مجھے اس کی اطلاع ہوتی.(1)

کیا اس شرمیلے انسان سے گالیوں کا صدور ممکن ہے جس سے ملائکہ حیا کھاتے ہیں؟ اور وہ بھی نیک و شریف مومنین کے بارے میں؟

عثمان نے صرف عمار پر سب و شتم اور انہیں گالی دینے ہی پر اکتفا نہ کی جیسا کہ کہا تھا: یا عاض ایرابیہ" بلکہ اپنے غلاموں سے کہا عمار پر ٹوٹ پڑو! پس انہوں نے لات اور مکوں سے عمار کو مارا اور پھر عثمان نے لاتوں سے مارا جب کہ عثمان کے جوتوں میں نعل لگی ہوئی تھی جس سے وہ(عمار) مرض فتق میں مبتلا ہوگئے. عمار ضعیف تھے لہذا مار کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگئے یہ قصہ مورخین کے درمیان مشہور ہے.(2)

____________________

1.تاریخ یعقوبی جلد/2 ص147

2.انساب الاشراف جلد/5 ص49الاستیعاب جلد/3 ص422 ، الامامت والسیاسة جلد/1 ص29 شرح ابن ابی الحدید جلد/1 ص239 العقد الفرید بن عبد ربہ جلد/2 ص273.

۹۹

عبداللہ ابن مسعود کے ساتھ بھی عثمان نے ایسا ہی سلوک کیا تھا... عبداللہ ابن مسعود کو عثمان کا ایک سپاہی کاندھے پر اٹھا کر مسجد کے دروازہ تک لایا اور زمین پر دے مارا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی.(1) جب کہ عبداللہ ابن مسعود کی صرف اتنی خطا تھی کہ انہوں نے عثمان سے یہ کہدیا تھا کہ بنی امیہ کے فاسق افراد کو بے حساب مسلمانوں کا مال نہ دیں.

پھر عثمان کے خلاف شورش برپا ہوگئی نوبت ان کے قتل تک پہونچی اور تین روز تک انہیں دفن نہ کیا گیا. اس کے بعد بنی امیہ کے چار افراد آئے تاکہ نماز جنازہ پڑھیں تو صحابہ میں سے کسی نے کہا کہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے. ان پر ملائکہ نے نماز پڑھی ہے. پس لوگوں نے کہا: قسم خدا کی ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں ہرگز دفن نہیں کرنے دیا جائے گا. لہذا بے غسل و کفن" حش کوکب" یہودیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا. جب بنی امیہ کا تسلط ہوا تب انہوں نے حش کوکب کو بقیع میں شامل کر لیا.

یہ خلفائے ثلاثہ کی مختصر تاریخ ہے اگرچہ ہم نے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مختصر تاریخ بیان کی ہے. اور چند مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کی ہے. لیکن ان خیالی فضائل کا پردہ چاک کرنے کے لئے کہ جنہیں خلفائے ثلاثہ جانتے بھی نہیں تھے اور اپنی زندگی کے کسی لمحہ میں

____________________

1.انساب الاشرف واقدی، تاریخ یعقوبی جلد/2 ص147، شرح ابن ابی الحدید جلد/1 ص237

۱۰۰