قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )12%

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ ) مؤلف:
: مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات: متن قرآن اور ترجمہ
صفحے: 609

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 609 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149256 / ڈاؤنلوڈ: 6403
سائز سائز سائز
قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

وَکَمْ أَهْلَکْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشاً فَنَقَّبُوا فِي الْبِلاَدِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ‌( ۳۶ ) إِنَّ فِي ذٰلِکَ لَذِکْرَى لِمَنْ

(۳۶) اور ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا ہے جو ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں تو انہوں نے تمام شہروں کو چھان مارا تھا لیکن موت سے چھٹکارا کہاں ہے (۳۷) اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے

کَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْأَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَشَهِيدٌ( ۳۷ ) وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ مَا مَسَّنَا

جس کے پاس دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ بات سنتا ہو (۳۸) اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی مخلوقات کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور ہمیں اس سلسلہ میں کوئی تھکن

مِنْ لُغُوبٍ‌( ۳۸ ) فَاصْبِرْعَلَى مَايَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِرَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ‌( ۳۹ ) وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ

چھو بھی نہیں سکی ہے (۳۹) لہٰذا آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح کیا کریں (۴۰) اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس کی تسبیح کریں اور سجدوں کے بعد بھی

وَأَدْبَارَ السُّجُودِ( ۴۰ ) وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَکَانٍ قَرِيبٍ‌( ۴۱ ) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ يَوْمُ

اس کی تسبیح کیا کریں (۴۱) اور اس دن کو غور سے سنو جس دن قدرت کا منادی اسرافیل قریب ہی کی جگہ سے آواز دے گا (۴۲) جس دن صدائے آسمان کو سب بخوبی سن لیں گے اور وہی دن قبروں سے

الْخُرُوجِ‌( ۴۲ ) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَاالْمَصِيرُ( ۴۳ ) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعاًذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَيْنَايَسِيرٌ( ۴۴ )

نکلنے کا دن ہے (۴۳) بیشک ہم ہی موت و حیات دینے والے ہیں اور ہماری ہی طرف سب کی بازگشت ہے (۴۴) اسی دن زمین ان لوگوں کی طرف سے شق ہوجائے گی اور یہ تیزی سے نکل کھڑے ہوں گے کہ یہ حشر ہمارے لئے بہت آسان ہے

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَ مَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ( ۴۵ )

(۴۵) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں آپ قرآن کے ذریعہ ان لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں جو عذاب سے ڈرنے والے ہیں

( سورة الذاريات)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

وَ الذَّارِيَاتِ ذَرْواً( ۱ ) فَالْحَامِلاَتِ وِقْراً( ۲ ) فَالْجَارِيَاتِ يُسْراً( ۳ ) فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْراً( ۴ ) إِنَّمَا تُوعَدُونَ

(۱) ان ہواؤں کی قسم جو بادلوں کو منتشر کرنے والی ہیں (۲) بھر بادل کا بوجھ اٹھانے والی ہیں (۳) پھر دھیرے دھیرے چلنے والی ہیں (۴) پھر ایک امر کی تقسیم کرنے والی ہیں (۵) تم سے جس بات کا وعدہ کیا گیا ہے

لَصَادِقٌ‌( ۵ ) وَ إِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ‌( ۶ )

وہ سچی ہے (۶) اور جزا و سزا بہرحال واقع ہونے والی ہے

۵۲۱

وَالسَّمَاءِذَاتِ الْحُبُکِ‌( ۷ ) إِنَّکُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ‌( ۸ ) يُؤْفَکُ عَنْهُ مَنْ أُفِکَ‌( ۹ ) قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ‌( ۱۰ ) الَّذِينَ هُمْ فِي

(۷) اور مختلف راستوں والے آسمان کی قسم (۸) کہ تم لوگ مختلف باتوں میں پڑے ہوئے ہو (۹) حق سے وہی گمراہ کیا جاسکتا ہے جو بہکایا جاچکا ہے (۱۰) بیشک اٹکل پچو لگانے والے مارے جائیں گے (۱۱) جو اپنی غفلت میں

غَمْرَةٍ سَاهُونَ‌( ۱۱ ) يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ‌( ۱۲ ) يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ‌( ۱۳ ) ذُوقُوا فِتْنَتَکُمْ هٰذَاالَّذِي کُنْتُمْ بِهِ

بھولے پڑے ہوئے ہیں (۱۲) یہ پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کا دن کب آئے گا (۱۳) تو یہ وہی دن ہے جس دن انہیں جہّنم کی آگ پر تپایا جائے گا (۱۴) کہ اب اپنا عذاب چکھو اور یہی وہ عذاب ہے جس کی تم

تَسْتَعْجِلُونَ‌( ۱۴ ) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ‌( ۱۵ ) آخِذِينَ مَاآتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ کَانُوا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِينَ‌( ۱۶ )

جلدی مچائے ہوئے تھے (۱۵) بیشک متقی افراد باغات اور چشموں کے درمیان ہوں گے (۱۶) جو کچھ ان کا پروردگار عطا کرنے والا ہے اسے وصول کررہے ہوں گے کہ یہ لوگ پہلے سے نیک کردار تھے

کَانُوا قَلِيلاً مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ‌( ۱۷ ) وَبِالْأَسْحَارِهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ‌( ۱۸ ) وَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ‌( ۱۹ )

(۱۷) یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے (۱۸) اور سحر کے وقت اللہ کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتے تھے (۱۹) اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم افراد کے لئے ایک حق تھا

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ‌( ۲۰ ) وَفِي أَنْفُسِکُمْ أَ فَلاَ تُبْصِرُونَ‌( ۲۱ ) وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَ مَا تُوعَدُونَ‌( ۲۲ )

(۲۰) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں (۲۱) اور خود تمہارے اندر بھی - کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو (۲۲) اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب کچھ موجود ہے

فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّکُمْ تَنْطِقُونَ‌( ۲۳ ) هَلْ أَتَاکَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُکْرَمِينَ‌( ۲۴ )

(۲۳) آسمان و زمین کے مالک کی قسم یہ قرآن بالکل برحق ہے جس طرح تم خود باتیں کررہے ہو (۲۴) کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السّلام کے محترم مہمانوں کا ذکر پہنچا ہے

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلاَماً قَالَ سَلاَمٌ قَوْمٌ مُنْکَرُونَ‌( ۲۵ ) فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ‌( ۲۶ ) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ

(۲۵) جب وہ ان کے پاس وارد ہوئے اور سلام کیا تو ابراہیم علیہ السّلام نے جواب سلام دیتے ہوئے کہا کہ تم تو انجانی قوم معلوم ہوتے ہو (۲۶) پھر اپنے گھر جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑا تیار کرکے لے آئے (۲۷) پھر ان کی طرف بڑھادیا اور کہا کیا

أَلاَتَأْکُلُونَ‌( ۲۷ ) فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوالاَتَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌( ۲۸ ) فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْهَهَا

آپ لوگ نہیں کھاتے ہیں (۲۸) پھر اپنے نفس میں خوف کا احساس کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں اور پھر انہیں ایک دانشمند فرزند کی بشارت دیدی (۲۹) یہ سن کر ان کی زوجہ شور مچاتی ہوئی آئیں اور انہوں نے منہ پیٹ لیا

وَ قَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ‌( ۲۹ ) قَالُوا کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ إِنَّهُ هُوَ الْحَکِيمُ الْعَلِيمُ‌( ۳۰ )

کہ میں بڑھیا بانجھ (یہ کیا بات ہے (۳۰) ان لوگوں نے کہا یہ ایسا ہی ہوگا یہ تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے وہ بڑی حکمت والا اور ہر چیز کا جاننے والا ہے

۵۲۲

قَالَ فَمَاخَطْبُکُمْ أَيُّهَاالْمُرْسَلُونَ‌( ۳۱ ) قَالُواإِنَّاأُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ‌( ۳۲ ) لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةًمِنْ طِينٍ‌( ۳۳ ) مُسَوَّمَةً

(۳۱) ابراہیم علیہ السّلام نے کہا کہ اے فرشتو تمہیں کیا مہم درپیش ہے (۳۲) انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے (۳۳) تاکہ ان کے اوپر مٹی کے کھرنجے دار پتھر برسائیں (۳۴) جن پر

عِنْدَرَبِّکَ لِلْمُسْرِفِينَ‌( ۳۴ ) فَأَخْرَجْنَامَنْ کَانَ فِيهَامِنَ الْمُؤْمِنِينَ‌( ۳۵ ) فَمَاوَجَدْنَافِيهَاغَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ‌( ۳۶ )

پروردگار کی طرف سے حد سے گزر جانے والوں کے لئے نشانی لگی ہوئی ہے (۳۵) پھر ہم نے اس بستی کے تمام مومنین کو باہر نکال لیا (۳۶) اور وہاں مسلمانوں کے ایک گھر کے علاوہ کسی کو پایا بھی نہیں

وَتَرَکْنَافِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ‌( ۳۷ ) وَفِي مُوسَى إِذْأَرْسَلْنَاهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ‌( ۳۸ ) فَتَوَلَّى بِرُکْنِهِ

(۳۷) اور وہاں ان لوگوں کے لئے ایک نشانی بھی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرنے والے ہیں (۳۸) اور موسٰی علیہ السّلام کے واقعہ میں بھی ہماری نشانیاں ہیں جب ہم نے ان کو فرعون کی طرف کھلی ہوئی دلیل دے کر بھیجا (۳۹) تو اس نے لشکر کے دِم پر منہ موڑ لیا

وَقَالَ سَاحِرٌأَوْمَجْنُونٌ‌( ۳۹ ) فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَمُلِيمٌ‌( ۴۰ ) وَفِي عَادٍإِذْأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ‌( ۴۱ )

اور کہا کہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے (۴۰) تو ہم نے اسے اور اس کی فوج کو گرفت میں لے کر دریا میں ڈال دیا اور وہ قابل ملامت تھا ہی (۴۱) اور قوم عاد میں بھی ایک نشانی ہے جب ہم نے ان کی طرف بانجھ ہوا کو چلا

مَاتَذَرُ مِنْ شَيْ‌ءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلاَّ جَعَلَتْهُ کَالرَّمِيمِ‌( ۴۲ ) وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّى حِينٍ‌( ۴۳ ) فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ

دیا (۴۲) کہ جس چیز کے پاس سے گزر جاتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ کردیتی تھی (۴۳) اور قوم ثمود میں بھی ایک نشانی ہے جب ان سے کہا گیا کہ تھوڑے دنوں مزے کرلو (۴۴) تو ان لوگوں نے حکم خدا کی نافرمانی کی تو انہیں

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُوَهُمْ يَنْظُرُونَ‌( ۴۴ ) فَمَا اسْتَطَاعُوامِنْ قِيَامٍ وَمَاکَانُوا مُنْتَصِرِينَ‌( ۴۵ ) وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ کَانُوا

بجلی نے اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے (۴۵) پھر نہ وہ اٹھنے کے قابل تھے اور نہ مدد طلب کرنے کے لائق تھے (۴۶) اور ان سے پہلے قوم نوح تھی کہ وہ تو سب

قَوْماًفَاسِقِينَ‌( ۴۶ ) وَ السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ‌( ۴۷ ) وَ الْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ‌( ۴۸ )

ہی فاسق اور بدکار تھے (۴۷) اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں (۴۸) اور زمین کو ہم نے فرش کیا ہے تو ہم بہترین ہموار کرنے والے ہیں (۴۹)

وَ مِنْ کُلِّ شَيْ‌ءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ‌( ۴۹ ) فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَکُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۵۰ )

اور ہر شے میں سے ہم نے جوڑا بنایا ہے کہ شاید تم نصیحت حاصل کرسکو (۵۰) لہذا اب خدا کی طرف دوڑ پڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں

وَ لاَ تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلٰهاً آخَرَ إِنِّي لَکُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۵۱ )

(۵۱) اور خبردار اس کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا نہ بنانا کہ میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

۵۲۳

کَذٰلِکَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ قَالُوا سَاحِرٌ أَوْمَجْنُونٌ‌( ۵۲ ) أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ‌( ۵۳ )

(۵۲) اسی طرح ان سے پہلے کسی قوم کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ (۵۳) کیا انہوں نے ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کی ہے - نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ‌( ۵۴ ) وَ ذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ‌( ۵۵ ) وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ

(۵۴) لہٰذا آپ ان سے منہ موڑ لیں پھر آپ پر کوئی الزام نہیں ہے (۵۵) اور یاد دہانی بہرحال کراتے رہے کہ یاد دہانی صاحبانِ ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے (۵۶) اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی

لِيَعْبُدُونِ‌( ۵۶ ) مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَ مَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ‌( ۵۷ ) إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ‌( ۵۸ ) فَإِنَّ

عبادت کے لئے پیدا کیا ہے (۵۷) میں ان سے نہ رزق کا طلبگار ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کچھ کھلائیں (۵۸) بیشک رزق دینے والا, صاحبِ قوت اور زبردست صرف علیہ السّلام اللہ ہے (۵۹) پھر

لِلَّذِينَ ظَلَمُواذَنُوباً مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلاَيَسْتَعْجِلُونِ‌( ۵۹ ) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ کَفَرُوامِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ‌( ۶۰ )

ان ظالمین کے لئے بھی ویسے ہی نتائج ہیں جیسے ان کے اصحاب کے لئے تھے لہذا یہ جلدی نہ کریں (۶۰) پھر کفار کے لئے اس دن ویل اور عذاب ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے

( سورة الطور)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

وَ الطُّورِ( ۱ ) وَ کِتَابٍ مَسْطُورٍ( ۲ ) فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ( ۳ ) وَ الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ( ۴ ) وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ‌( ۵ ) وَ

(۱) طور کی قسم (۲) اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم (۳) جو کشادہ اوراق میں ہے (۴) اور بیت معمور کی قسم (۵) اور بلند چھت (آسمان) کی قسم (۶) اور

الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ( ۶ ) إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ‌( ۷ ) مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ‌( ۸ ) يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْراً( ۹ ) وَ تَسِيرُ

بھڑکتے ہوئے سمندر کی قسم (۷) یقینا تمہارے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے (۸) اور اس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے (۹) جس دن آسمان باقاعدہ چکر کھانے لگیں گے (۱۰) اور پہاڑ باقاعدہ حرکت

الْجِبَالُ سَيْراً( ۱۰ ) فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِينَ‌( ۱۱ ) الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ‌( ۱۲ ) يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ

میں آجائیں گے (۱۱) پھر جھٹلانے والوں کے لئے عذاب اور بربادی ہی ہے (۱۲) جو محلات میں پڑے کھیل تماشہ کررہے ہیں (۱۳) جس دن انہیں

جَهَنَّمَ دَعّاً( ۱۳ ) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِي کُنْتُمْ بِهَا تُکَذِّبُونَ‌( ۱۴ )

بھرپور طریقہ سے جہّنم میں ڈھکیل دیا جائے گا (۱۴) یہی وہ جہّنم کی آگ ہے جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے

۵۲۴

أَ فَسِحْرٌ هٰذَا أَمْ أَنْتُمْ لاَ تُبْصِرُونَ‌( ۱۵ ) اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لاَ تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ

(۱۵) آیا یہ جادو ہے یا تمہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے (۱۶) اب اس میں چلے جاؤ پھر چاہے صبر کرو یا نہ کرو سب برابر ہے یہ تمہارے ان اعمال کی سزادی جارہی ہے جو تم

تَعْمَلُونَ‌( ۱۶ ) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَعِيمٍ‌( ۱۷ ) فَاکِهِينَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَ وَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ‌( ۱۸ )

انجام دیا کرتے تھے (۱۷) بیشک صاحبانِ تقویٰ باغات اور نعمتوں کے درمیان رہیں گے (۱۸) جو خدا عنایت کرے گا اس میں خوش حال رہیں گے اور خدا انہیں جہّنم کے عذاب سے محفوظ رکھے گا

کُلُوا وَ اشْرَبُوا هَنِيئاً بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ‌( ۱۹ ) مُتَّکِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَ زَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ‌( ۲۰ ) وَ

(۱۹) اب یہیں آرام سے کھاؤ پیو ان اعمال کی بنا پر جو تم نے انجام دئیے تھے (۲۰) وہ برابر سے بچھے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم ان کا جوڑا کشادہ چشم حوروں کو قرار دیں گے (۲۱) اور

الَّذِينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ مَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‌ءٍ کُلُّ امْرِئٍ بِمَا

جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ

کَسَبَ رَهِينٌ‌( ۲۱ ) وَ أَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاکِهَةٍ وَ لَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ‌( ۲۲ ) يَتَنَازَعُونَ فِيهَا کَأْساً لاَ لَغْوٌ فِيهَا وَ لاَ

ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے (۲۲) اور ہم جس طرح کے میوے یا گوشت وہ چاہیں گے اس سے بڑھ کر ان کی امداد کریں گے (۲۳) وہ آپس میں جام شراب پر جھگڑا کریں گے لیکن وہاں کوئی لغویت

تَأْثِيمٌ‌( ۲۳ ) وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ کَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَکْنُونٌ‌( ۲۴ ) وَ أَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ‌( ۲۵ )

اور گناہ نہ ہوگا (۲۴) اور ان کے گرد وہ نوجوان لڑکے چکر لگاتے ہوں گے جو پوشیدہ اور محتاط موتیوں جیسے حسین و جمیل ہوں گے (۲۵) اور پھر ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے سوال جواب کریں گے

قَالُوا إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ‌( ۲۶ ) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ‌( ۲۷ ) إِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ

(۲۶) کہیں گے کہ ہم تو اپنے گھر میں خدا سے بہت ڈرتے تھے (۲۷) تو خدا نے ہم پر یہ احسان کیا اور ہمیں جہّنم کی زہریلی ہوا سے بچالیا (۲۸) ہم اس سے پہلے بھی اسی سے

نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ‌( ۲۸ ) فَذَکِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاهِنٍ وَ لاَ مَجْنُونٍ‌( ۲۹ ) أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ

دعائیں کیا کرتے تھے کہ وہ یقینا وہ بڑا احسان کرنے والا اور مہربان ہے (۲۹) لہذا آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں - خدا کے فضل سے آپ نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون (۳۰) کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے

نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ‌( ۳۰ ) قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ‌( ۳۱ )

اور ہم اس کے بارے میں حوادث زمانہ کا انتظار کررہے ہیں (۳۱) تو آپ کہہ دیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں

۵۲۵

أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلاَمُهُمْ بِهٰذَا أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ‌( ۳۲ ) أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَلْ لاَ يُؤْمِنُونَ‌( ۳۳ ) فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ

(۳۲) کیا ان کی عقلیں یہ باتیں بتاتی ہیں یا یہ واقعا سرکش قوم ہیں (۳۳) یا یہ کہتے ہیں کہ نبی نے قرآن گڑھ لیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے والے ا نہیں ہیں (۳۴) اگر یہ اپنی بات میں سچے ہیں تو یہ بھی

إِنْ کَانُوا صَادِقِينَ‌( ۳۴ ) أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْ‌ءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ‌( ۳۵ ) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ بَلْ لاَ

ایسا ہی کوئی کلام لے آئیں (۳۵) کیا یہ بغیر کسی چیز کے ازخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود ہی پیدا کرنے والے ہیں (۳۶) یا انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کردیا ہے - حقیقت یہ ہے کہ

يُوقِنُونَ‌( ۳۶ ) أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أَمْ هُمُ الْمُسَيْطِرُونَ‌( ۳۷ ) أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ

یہ یقین کرنے والے نہیں ہیں (۳۷) یا ان کے پاس پروردگار کے خزانے ہیں یہی لوگ حاکم ہیں (۳۸) یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ آسمان کی باتیں سن لیا کرتے ہیں تو ان کا

بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ‌( ۳۸ ) أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَ لَکُمُ الْبَنُونَ‌( ۳۹ ) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ‌( ۴۰ ) أَمْ

سننے والا کوئی واضح ثبوت لے آئے (۳۹) یا خدا کے لئے لڑکیاں ہیں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں (۴۰) یا تم ان سے کوئی اجر رسالت مانگتے ہو کہ یہ اس کے بوجھ کے نیچے دبے جارہے ہیں (۴۱) یا

عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَکْتُبُونَ‌( ۴۱ ) أَمْ يُرِيدُونَ کَيْداً فَالَّذِينَ کَفَرُوا هُمُ الْمَکِيدُونَ‌( ۴۲ ) أَمْ لَهُمْ إِلٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ

ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ اسے لکھ رہے ہیں (۴۲) یا یہ کوئی مکاری کرنا چاہتے ہیں تو یاد رکھو کہ کفار خود اپنی چال میں پھنس جانے والے ہیں

(۴۳) یا ان کے لئے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا

سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِکُونَ‌( ۴۳ ) وَ إِنْ يَرَوْا کِسْفاً مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطاً يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْکُومٌ‌( ۴۴ ) فَذَرْهُمْ

خدا ہے جب کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ ہے (۴۴) اور یہ اگر آسمان کے ٹکڑوں کو گرتا ہوا بھی دیکھ لیں گے تو بھی کہیں گے یہ تو تہ بہ تہ بادل ہیں (۴۵) تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے

حَتَّى يُلاَقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ‌( ۴۵ ) يَوْمَ لاَ يُغْنِي عَنْهُمْ کَيْدُهُمْ شَيْئاً وَ لاَ هُمْ يُنْصَرُونَ‌( ۴۶ ) وَ إِنَّ

یہاں تک کہ وہ دن دیکھ لیں جس دن بیہوش ہوجائیں گے (۴۶) جس دن ان کی کوئی چال کام نہ آئے گی اور نہ کوئی مدد کرنے والا ہوگا (۴۷) اور جن

لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَاباً دُونَ ذٰلِکَ وَ لٰکِنَّ أَکْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ‌( ۴۷ ) وَ اصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَإِنَّکَ بِأَعْيُنِنَا وَ سَبِّحْ

لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے لئے اس کے علاوہ بھی عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت اس سے بے خبر ہے (۴۸) آپ اپنے پروردگار کے حکم کے لئے صبر کریں آپ ہماری نگاہ کے سامنے ہیں اور ہمیشہ قیام

بِحَمْدِ رَبِّکَ حِينَ تَقُومُ‌( ۴۸ ) وَ مِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَ إِدْبَارَ النُّجُومِ‌( ۴۹ )

کرتے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رہیں (۴۹) اور رات کے ایک حصّہ میں اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی تسبیحِ پروردگار کرتے رہیں

۵۲۶

( سورة النجم)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

وَالنَّجْمِ إِذَاهَوَى‌( ۱ ) مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَى‌( ۲ ) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى‌( ۳ ) إِنْ هُوَإِلاَّوَحْيٌ يُوحَى‌( ۴ ) عَلَّمَهُ شَدِيدُ

(۱) قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا (۲) تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا (۳) اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے (۴) اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے (۵) اسے نہایت طاقت

الْقُوَى‌( ۵ ) ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوَى‌( ۶ ) وَهُوَبِالْأُفُقِ الْأَعْلَى‌( ۷ ) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى‌( ۸ ) فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْأَدْنَى‌( ۹ ) فَأَوْحَى إِلَى

والے نے تعلیم دی ہے (۶) وہ صاحبِ حسن و جمال جو سیدھا کھڑا ہوا (۷) جب کہ وہ بلند ترین افق پر تھا (۸) پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا (۹) یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا (۱۰) پھر خدا نے اپنے بندہ کی

عَبْدِهِ مَا أَوْحَى‌( ۱۰ ) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَأَى‌( ۱۱ ) أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى‌( ۱۲ ) وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى‌( ۱۳ ) عِنْدَ

طرف جس راز کی بات چاہی وحی کردی (۱۱) دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا (۱۲) کیا تم اس سے اس بات کے بارے میں جھگڑا کررہے ہو جو وہ دیکھ رہا ہے (۱۳) اور اس نے تو اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے (۱۴) سدرِ

سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى‌( ۱۴ ) عِنْدَهَاجَنَّةُ الْمَأْوَى‌( ۱۵ ) إِذْيَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى‌( ۱۶ ) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغَى‌( ۱۷ )

المنتہیٰ کے نزدیک (۱۵) جس کے پاس جنت الماویٰ بھی ہے (۱۶) جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا (۱۷) اس وقت اس کی آنکھ نہ بہکی اور

لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْکُبْرَى‌( ۱۸ ) أفَرَأَيْتُمُ اللاَّتَ وَ الْعُزَّى‌( ۱۹ ) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى‌( ۲۰ ) أَ لَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَهُ

نہ حد سے آگے بڑھی (۱۸) اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیان دیکھی ہیں (۱۹) کیا تم لوگوں نے لات اور عذٰی کو دیکھا ہے (۲۰) اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے (۲۱) تو کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے

الْأُنْثَى‌( ۲۱ ) تِلْکَ إِذاًقِسْمَةٌضِيزَى‌( ۲۲ ) إِنْ هِيَ إِلاَّأَسْمَاءٌسَمَّيْتُمُوهَاأَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَاأَنْزَلَ اللَّهُ بِهَامِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ

لڑکیاں ہیں (۲۲) یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے (۲۳) یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کرلئے ہیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے - درحقیقت یہ لوگ صرف

إِلاَّالظَّنَّ وَمَاتَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْجَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى‌( ۲۳ ) أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَاتَمَنَّى‌( ۲۴ ) فَلِلَّهِ الْآخِرَةُوَالْأُولَى‌( ۲۵ )

اپنے گمانوں کا اتباع کررہے ہیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ہے اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے (۲۴) کیا انسان کو وہ سب مل سکتا ہے جس کی آرزو کرے (۲۵) بس اللہ ہی کے لئے دنیا اور آخرت سب کچھ ہے

وَ کَمْ مِنْ مَلَکٍ فِي السَّمَاوَاتِ لاَ تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئاً إِلاَّ مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَ يَرْضَى‌( ۲۶ )

(۲۶) اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کام نہیں آسکتی ہے جب تک خدا جس کے بارے میں چاہے اور اسے پسند کرے اجازت نہ دے دے

۵۲۷

إِنَّ الَّذِينَ لاَيُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلاَئِکَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى‌( ۲۷ ) وَمَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّالظَّنَّ وَإِنَّ

(۲۷) بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ ملائکہ کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں (۲۸) حالانکہ ان کے پاس اس سلسلہ میں کوئی علم نہیں ہے یہ صرف وہم و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں

الظَّنَّ لاَيُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً( ۲۸ ) فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِکْرِنَاوَلَمْ يُرِدْإِلاَّالْحَيَاةَالدُّنْيَا( ۲۹ ) ذٰلِکَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ

اور گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے (۲۹) لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہوجائیں (۳۰) یہی ان کے علم کی انتہا ہے

الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّکَ هُوَأَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَأَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى‌( ۳۰ ) وَلِلَّهِ مَافِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ

اور بیشک آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون ہدایت کے راستہ پر ہے (۳۱) اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے کل اختیارات ہیں تاکہ

الَّذِينَ أَسَاءُوابِمَا عَمِلُواوَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى‌( ۳۱ ) الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ کَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّکَ

وہ بدعمل افراد کو ان کے اعمال کی سزادے سکے اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ دے سکے (۳۲) جو لوگ گناہانِ کبیرہ اور فحش باتوں سے پرہیز کرتے ہیں (گناہان صغیرہ کے علاوہ) بیشک آپ کا پروردگار

وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إِذْأَنْشَأَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِکُمْ فَلاَ تُزَکُّوا أَنْفُسَکُمْ هُوَ أَعْلَمُ

ان کے لئے بہت وسیع مغفرت والا ہے وہ اس وقت بھی تم سب کے حالات سے خوب واقف تھا جب اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا تھا اور اس وقت بھی جب تم ماں کے شکم میں جنین کی منزل میں تھے لہذا اپنے نفس کو زیادہ پاکیزہ قرار نہ دو

بِمَنِ اتَّقَى‌( ۳۲ ) أَ فَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى‌( ۳۳ ) وَ أَعْطَى قَلِيلاً وَ أَکْدَى‌( ۳۴ ) أَ عِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى‌( ۳۵ )

وہ متقی افراد کو خوب پہچانتا ہے (۳۳) کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ہے جس نے منہ پھیر لیا (۳۴) اور تھوڑا سا راہ خدا میں دے کر بند کردیا (۳۵) کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس کے ذریعے وہ دیکھ رہا ہے

أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى‌( ۳۶ ) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى‌( ۳۷ ) أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى‌( ۳۸ ) وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ

(۳۶) یا اسے اس بات کی خبر ہی نہیں ہے جو موسٰی علیہ السّلام کے صحیفوں میں تھی (۳۷) یا ابراہیم علیہ السّلام کے صحیفوں میں تھی جنہوں نے پورا پورا حق ادا کیا ہے (۳۸) کوئی شخص بھی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے (۳۹) اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے

إِلاَّ مَا سَعَى‌( ۳۹ ) وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى‌( ۴۰ ) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى‌( ۴۱ ) وَ أَنَّ إِلَى رَبِّکَ الْمُنْتَهَى‌( ۴۲ )

جتنی اس نے کوشش کی ہے (۴۰) اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی (۴۱) اس کے بعد اسے پورا بدلہ دیا جائے گا (۴۲) اور بیشک سب کی آخری منزل پروردگار کی بارگاہ ہے

وَ أَنَّهُ هُوَ أَضْحَکَ وَ أَبْکَى‌( ۴۳ ) وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا( ۴۴ )

(۴۳) اور یہ کہ اسی نے ہنسایا بھی ہے اور ----- فِلایا بھی ہے (۴۴) اور وہی موت و حیات کا دینے والا ہے

۵۲۸

وَ أَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّکَرَ وَ الْأُنْثَى‌( ۴۵ ) مِنْ نُطْفَةٍ إِذَا تُمْنَى‌( ۴۶ ) وَ أَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَى‌( ۴۷ ) وَ أَنَّهُ

(۴۵) اور اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا ہے (۴۶) اس نطفہ سے جو رحم میں ڈالا جاتا ہے (۴۷) اور اسی کے ذمہ دوسری زندگی بھی ہے (۴۸) اور

هُوَ أَغْنَى وَ أَقْنَى‌( ۴۸ ) وَ أَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى‌( ۴۹ ) وَ أَنَّهُ أَهْلَکَ عَاداً الْأُولَى‌( ۵۰ ) وَ ثَمُودَ فَمَا أَبْقَى‌( ۵۱ )

اسی نے مالدار بنایا ہے اور سرمایہ عطا کیا ہے (۴۹) اور وہی ستارہ شعریٰ کا مالک ہے (۵۰) اور اسی نے پہلے قوم عاد کو ہلاک کیا ہے (۵۱) اور قوم ثمود کو بھی پھر کسی کو باقی نہیں چھوڑا ہے

وَ قَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ کَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَ أَطْغَى‌( ۵۲ ) وَ الْمُؤْتَفِکَةَ أَهْوَى‌( ۵۳ ) فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى‌( ۵۴ )

(۵۲) اور قوم نوح کو ان سے پہلے .کہ وہ لوگ بڑے ظالم اور سرکش تھے (۵۳) اور اسی نے قوم لوط کی اُلٹی بستیوں کو پٹک دیا ہے (۵۴) پھر ان کو ڈھانک لیا جس چیز نے کہ ڈھانک لیا

فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکَ تَتَمَارَى‌( ۵۵ ) هٰذَا نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَى‌( ۵۶ ) أَزِفَتِ الْآزِفَةُ( ۵۷ ) لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ

(۵۵) اب تم اپنے پروردگار کی کس نعمت پر شک کررہے ہو (۵۶) بیشک یہ پیغمبر بھی اگلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے (۵۷) دیکھو قیامت قریب آگئی ہے (۵۸) اللہ کے علاوہ کوئی اس کا

کَاشِفَةٌ( ۵۸ ) أَ فَمِنْ هٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ‌( ۵۹ ) وَ تَضْحَکُونَ وَ لاَ تَبْکُونَ‌( ۶۰ ) وَ أَنْتُمْ سَامِدُونَ‌( ۶۱ )

ٹالنے والا نہیں ہے (۵۹) کیا تم اس بات سے تعجب کررہے ہو (۶۰) اور پھر ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو (۶۱) اور تم بالکل غافل ہو

فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَ اعْبُدُوا( ۶۲ )

(۶۲) ( اب سے غنیمت ہے) کہ اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو

( سورة القمر)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ( ۱ ) وَ إِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ( ۲ ) وَ کَذَّبُوا وَ اتَّبَعُوا

(۱) قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے (۲) اور یہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل جادو ہے

(۳) اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کا اتباع کیا

أَهْوَاءَهُمْ وَ کُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ( ۳ ) وَ لَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ( ۴ ) حِکْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ( ۵ )

اور ہر بات کی ایک منزل ہوا کرتی ہے (۴) یقینا ان کے پاس اتنی خبریں آچکی ہیں جن میں تنبیہ کا سامان موجود ہے (۵) انتہائی درجہ کی حکمت کی باتیں ہیں لیکن انہیں ڈرانے والی باتیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتیں

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَى شَيْ‌ءٍ نُکُرٍ( ۶ )

(۶) لہذا آپ ان سے منہ پھیر لیں جسن دن ایک بلانے والا (اسرافیل) انہیں ایک ناپسندہ امر کی طرف بلائے گا

۵۲۹

خُشَّعاًأَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ کَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ( ۷ ) مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ يَقُولُ الْکَافِرُونَ هٰذَا يَوْمٌ

(۷) یہ نظریں جھکائے ہوئے قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح ٹڈیاں پھیلی ہوئی ہوں (۸) سب کسی بلانے والے کی طرف سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہوں گے اور کفار یہ کہہ رہے ہوں گے کہ آج کا دن بڑا

عَسِرٌ( ۸ ) کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَکَذَّبُوا عَبْدَنَا وَ قَالُوا مَجْنُونٌ وَ ازْدُجِرَ( ۹ ) فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ( ۱۰ )

سخت دن ہے (۹) ان سے پہلے قوم نوح نے بھی تکذیب کی تھی کہ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہہ دیا کہ یہ دیوانہ ہے بلکہ اسے جھڑکا بھی گیا (۱۰) تو اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں میری مدد فرما

فَفَتَحْنَاأَبْوَابَ السَّمَاءِبِمَاءٍمُنْهَمِرٍ( ۱۱ ) وَفَجَّرْنَاالْأَرْضَ عُيُوناً فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ( ۱۲ ) وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ

(۱۱) تو ہم نے ایک موسلا دھار بارش کے ساتھ آسمان کے دروازے کھول دیئے (۱۲) اور زمین سے بھی چشمے جاری کردیئے اور پھر دونوں پانی ایک خاص مقررہ مقصد کے لئے باہم مل گئے (۱۳) اور ہم نے نوح علیہ السّلام کو

أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ( ۱۳ ) تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ کَانَ کُفِرَ( ۱۴ ) وَلَقَدْ تَرَکْنَاهَاآيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۱۵ ) فَکَيْفَ کَانَ عَذَابِي

تختوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کرلیا (۱۴) جو ہماری نگاہ کے سامنے چل رہی تھی اور یہ اس بندے کی جزا تھی جس کا انکار کیا گیا تھا (۱۵) اور ہم نے اسے ایک نشانی بناکر چھوڑ دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے (۱۶) پھر ہمارا عذاب اور ڈرانا کیسا

وَنُذُرِ( ۱۶ ) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۱۷ ) کَذَّبَتْ عَادٌ فَکَيْفَ کَانَ عَذَابِي وَ نُذُرِ( ۱۸ )

ثابت ہوا (۱۷) اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (۱۸) اور قوم عاد نے بھی تکذیب کی تو ہمارا عذاب اور ڈرانا کیسا رہا

إِنَّاأَرْسَلْنَاعَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراًفِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ( ۱۹ ) تَنْزِعُ النَّاسَ کَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ( ۲۰ ) فَکَيْفَ کَانَ

(۱۹) ہم نے ان کی اوپر تیز و تند آندھی بھیج دی ایک مسلسل نحوست والے منحوس دن میں (۲۰) جو لوگوں کو جگہ سے یوں اُٹھالیتی تھی جیسے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں (۲۱) پھر دیکھو ہمارا

عَذَابِي وَنُذُرِ( ۲۱ ) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِفَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۲۲ ) کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ( ۲۳ ) فَقَالُوا أَ بَشَراً مِنَّا وَاحِداً

عذاب اور ڈرانا کیسا ثابت ہوا (۲۲) اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (۲۳) اور ثمود نے بھی پیغمبروں علیہ السّلام کو جھٹلایا (۲۴) اور کہہ دیا کہ کیا ہم اپنے ہی میں سے ایک شخص کا اتباع کرلیں اس طرح تو ہم

نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذاً لَفِي ضَلاَلٍ وَ سُعُرٍ( ۲۴ ) أَ أُلْقِيَ الذِّکْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ کَذَّابٌ أَشِرٌ( ۲۵ ) سَيَعْلَمُونَ غَداً

گمراہی اور دیوانگی کا شکار ہوجائیں گے (۲۵) کیا ہم سب کے درمیان ذکر صرف اسی پر نازل ہوا ہے درحقیقت یہ جھوٹا ہے اور بڑائی کا طلبگار ہے (۲۶) تو

مَنِ الْکَذَّابُ الْأَشِرُ( ۲۶ ) إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَ اصْطَبِرْ( ۲۷ )

عنقریب کل ہی انہیں معلوم ہوجائے گا جھوٹا اور متکبر کون ہے (۲۷) ہم ان کے امتحان کے لئے ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں لہذا تم اس کا انتظار کرو اور صبر سے کام لو

۵۳۰

وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ کُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ( ۲۸ ) فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ( ۲۹ ) فَکَيْفَ کَانَ عَذَابِي

(۲۸) اور انہیں باخبر کردو کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہوگا اور ہر ایک کو اپنی باری پر حاضر ہونا چاہئے (۲۹) تو ان لوگوں نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور اس نے اونٹنی کو پکڑ کر اس کی کونچیں کاٹ دیں (۳۰) پھر سب نے دیکھا کہ ہمارا عذاب

وَنُذُرِ( ۳۰ ) إِنَّاأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةًوَاحِدَةًفَکَانُواکَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ( ۳۱ ) وَلَقَدْيَسَّرْنَاالْقُرْآنَ لِلذِّکْرِفَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۳۲ )

اور ڈرانا کیسا ثابت ہوا (۳۱) ہم نے ان کے اوپر ایک چنگھاڑ کو بھیج دیا تو یہ سب کے سب باڑے کے بھوسے کی طرح ہوگئے (۳۲) اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے

کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ( ۳۳ ) إِنَّاأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِباً إِلاَّ آلَ لُوطٍ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ( ۳۴ ) نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا کَذٰلِکَ

(۳۳) اور قوم لوط نے بھی پیغمبروں علیہ السّلام کو جھٹلایا (۳۴) تو ہم نے ان کے اوپر پتھر برسائے صرف لوط کی آل کے علاوہ کہ ان کو سحر کے ہنگام ہی بچالیا (۳۵) یہ ہماری ایک نعمت تھی اور اسی طرح

نَجْزِي مَنْ شَکَرَ( ۳۵ ) وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْابِالنُّذُرِ( ۳۶ ) وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَاأَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا

ہم شکر گزار بندوں کو جزادیتے ہیں (۳۶) اور لوط نے انہیں ہماری گرفت سے ڈرایا لیکن ان لوگوں نے ڈرانے ہی میں شک کیا (۳۷) اور ان سے مہمان کے بارے میں ناجائز مطالبات کرنے لگے تو ہم نے ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا کہ

عَذَابِي وَ نُذُرِ( ۳۷ ) وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُکْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ( ۳۸ ) فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ( ۳۹ ) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ

اب عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو (۳۸) اور ان کے اوپر صبح سویرے نہ ٹلنے والا عذاب نازل ہوگیا (۳۹) کہ اب ہمارے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو (۴۰) اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے

فَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۴۰ ) وَ لَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ( ۴۱ ) کَذَّبُوا بِآيَاتِنَا کُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ( ۴۲ )

تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (۴۱) اور فرعون والوں تک بھی پیغمبرعلیہ السّلام آئے (۴۲) تو انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کا انکار کردیا تو ہم نے بھی ایک زبردست صاحب اقتدار کی طرح انہیں اپنی گرفت میں لے لیا

أَ کُفَّارُکُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولٰئِکُمْ أَمْ لَکُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ( ۴۳ ) أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ( ۴۴ ) سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ

(۴۳) تو کیا تمہارے کفار ان سب سے بہتر ہیں یا ان کے لئے کتابوں میں کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے (۴۴) یا ان کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے پاس بڑی جماعت ہے جو ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ہے (۴۵) عنقریب یہ جماعت شکست کھاجائے گی اور سب پیٹھ پھیر کر

الدُّبُرَ( ۴۵ ) بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ أَدْهَى وَ أَمَرُّ( ۴۶ ) إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلاَلٍ وَ سُعُرٍ( ۴۷ )

بھاگ جائیں گے (۴۶) بلکہ ان کا موعد قیامت کا ہے اور قیامت انتہائی سخت اور تلخ حقیقت ہے (۴۷) بیشک مجرمین گمراہی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں

يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ( ۴۸ ) إِنَّا کُلَّ شَيْ‌ءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ( ۴۹ )

(۴۸) قیامت کے دن یہ آگ پر منہ کے بل کھینچے جائیں گے کہ اب جہنمّ کا مزہ چکھو (۴۹) بیشک ہم نے ہر شے کو ایک اندازہ کے مطابق پیدا کیا ہے

۵۳۱

وَ مَا أَمْرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ( ۵۰ ) وَ لَقَدْ أَهْلَکْنَا أَشْيَاعَکُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ( ۵۱ ) وَ کُلُّ شَيْ‌ءٍ فَعَلُوهُ

(۵۰) اور ہمارا حکم پلک جھپکنے کی طرح کی ایک بات ہے (۵۱) اور ہم نے تمہارے ساتھیوں کو پہلے ہی ہلاک کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے (۵۲) اور ان لوگوں نے جو کچھ بھی کیا ہے

فِي الزُّبُرِ( ۵۲ ) وَ کُلُّ صَغِيرٍ وَ کَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ( ۵۳ ) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ( ۵۴ ) فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ

سب نامہ اعمال میں محفوظ ہے (۵۳) اور ہر چھوٹا اور بڑا عمل اس میں درج کردیا گیا ہے (۵۴) بیشک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے (۵۵) اس پاکیزہ مقام پر جو

مَلِيکٍ مُقْتَدِرٍ( ۵۵ )

صاحبِ اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے

( سورة الرحمن)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

الرَّحْمٰنُ‌( ۱ ) عَلَّمَ الْقُرْآنَ‌( ۲ ) خَلَقَ الْإِنْسَانَ‌( ۳ ) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ‌( ۴ ) الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ‌( ۵ ) وَ النَّجْمُ

(۱) وہ خدا بڑا مہربان ہے (۲) اس نے قرآن کی تعلیم دی ہے (۳) انسان کو پیدا کیا ہے (۴) اور اسے بیان سکھایا ہے (۵) آفتاب و ماہتاب سب اسی کے مقرر کردہ حساب کے ساتھ چل رہے ہیں (۶) اور بوٹیاں بیلیں

وَ الشَّجَرُ يَسْجُدَانِ‌( ۶ ) وَ السَّمَاءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِيزَانَ‌( ۷ ) أَلاَّ تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ‌( ۸ ) وَ أَقِيمُوا الْوَزْنَ

اور درخت سب اسی کا سجدہ کررہے ہیں (۷) اس نے آسمان کو بلند کیا ہے اور انصاف کی ترازو قائم کی ہے (۸) تاکہ تم لوگ وزن میں حد سے تجاوز نہ کرو (۹) اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم کرو

بِالْقِسْطِ وَ لاَ تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ‌( ۹ ) وَ الْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ‌( ۱۰ ) فِيهَا فَاکِهَةٌ وَ النَّخْلُ ذَاتُ الْأَکْمَامِ‌( ۱۱ )

اور تولنے میں کم نہ تولو (۱۰) اور اسی نے زمین کو انسانوں کے لئے وضع کیا ہے (۱۱) اس میں میوے ہیں اور وہ کھجوریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں

وَ الْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّيْحَانُ‌( ۱۲ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۱۳ ) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ( ۱۴ )

(۱۲) وہ دانے ہیں جن کے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول بھی ہیں (۱۳) اب تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۱۴) اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے

وَ خَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ( ۱۵ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۱۶ )

(۱۵) اور جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا ہے (۱۶) تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے

۵۳۲

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ‌( ۱۷ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۱۸ ) مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ‌( ۱۹ ) بَيْنَهُمَا

(۱۷) وہ چاند اور سورج دونوں کے مشرق اور مغرب کا مالک ہے (۱۸) پھر تم دونوں اپنی رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے (۱۹) اس نے دو دریا بہائے ہیں جو آپس میں مل جاتے ہیں (۲۰) ان کے درمیان

بَرْزَخٌ لاَ يَبْغِيَانِ‌( ۲۰ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۲۱ ) يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ‌( ۲۲ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ

حد فا صلِ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتے (۲۱) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۲) ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں (۲۳) تو تم اپنے رب

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۲۳ ) وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ کَالْأَعْلاَمِ‌( ۲۴ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۲۵ ) کُلُّ

کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۴) اسی کے وہ جہاز بھی ہیں جو دریا میں پہاڑوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں (۲۵) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۶) جو بھی روئے

مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ‌( ۲۶ ) وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَ الْإِکْرَامِ‌( ۲۷ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۲۸ )

زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والے ہیں (۲۷) صرف تمہاری رب کی ذات جو صاحبِ جلال و اکرام ہے وہی باقی رہنے والی ہے (۲۸) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے

يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ کُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ‌( ۲۹ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۳۰ ) سَنَفْرُغُ لَکُمْ

(۲۹) آسمان و زمین میں جو بھی ہے سب اسی سے سوال کرتے ہیں اور وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے (۳۰) کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۱) اے دونوں گروہو ہم عنقریب

أَيُّهَا الثَّقَلاَنِ‌( ۳۱ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۳۲ ) يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ

ہی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے (۳۲) تو تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۳۳) اے گروہ جن و انس اگر تم میں قدرت ہو کہ

السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لاَتَنْفُذُونَ إِلاَّ بِسُلْطَانٍ‌( ۳۳ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۳۴ ) يُرْسَلُ عَلَيْکُمَاشُوَاظٌ

آسمان و زمین کے اطرف سے باہر نکل جاؤ تو نکل جاؤ مگر یاد رکھو کہ تم قوت اور غلبہ کے بغیر نہیں نکل سکتے ہو (۳۴) تو تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۳۵) تمہارے اوپر

مِنْ نَارٍوَنُحَاسٌ فَلاَتَنْتَصِرَانِ‌( ۳۵ ) فَبِأَيِّ آلاَءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۳۶ ) فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَةً کَالدِّهَانِ‌( ۳۷ )

آگ کا سبز شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا تو تم دونوں کسی طرح نہیں روک سکتے ہو (۳۶) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۳۷) پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی طرح سرخ ہوجائے گا

فَبِأَيِّ آلاَءِرَبِّکُمَاتُکَذِّبَانِ‌( ۳۸ ) فَيَوْمَئِذٍلاَيُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلاَجَانٌ‌( ۳۹ ) فَبِأَيِّ آلاَءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۴۰ )

(۳۸) تو تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۳۹) پھر اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہ کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا (۴۰) تو پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے

۵۳۳

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَ الْأَقْدَامِ‌( ۴۱ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۴۲ ) هٰذِهِ جَهَنَّمُ

(۴۱) مجرم افراد تو اپنی نشانی ہی سے پہچان لئے جائیں گے پھر پیشانی اور پیروں سے پکڑ لئے جائیں گے (۴۲) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۴۳) یہی وہ جہنّم ہے

الَّتِي يُکَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ‌( ۴۳ ) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَ بَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ‌( ۴۴ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۴۵ ) وَ

جس کا مجرمین انکار کررہے تھے (۴۴) اب اس کے اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے پھریں گے (۴۵) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۴۶) اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے

لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ‌( ۴۶ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۴۷ ) ذَوَاتَا أَفْنَانٍ‌( ۴۸ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو دو باغات ہیں (۴۷) پھر تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۸) اور دونوں باغات درختوں کی ٹہنیوں سے ہرے بھرے میوؤں سے لدے ہوں گے (۴۹) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو

تُکَذِّبَانِ‌( ۴۹ ) فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ‌( ۵۰ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۵۱ ) فِيهِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِهَةٍ زَوْجَانِ‌( ۵۲ )

جھٹلاؤ گے (۵۰) ان دونوں میں دو چشمے بھی جاری ہوں گے (۵۱) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۵۲) ان دونوں میں ہر میوے کے جوڑے ہوں گے

فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۵۳ ) مُتَّکِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَ جَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ‌( ۵۴ ) فَبِأَيِّ

(۵۳) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۵۴) یہ لوگ ان فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استراطلس کے ہوں گے اور دونوں باغات کے میوے انتہائی قریب سے حاصل کرلیں گے (۵۵) پھر تم اپنے رب کی کس کس

آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۵۵ ) فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لاَ جَانٌ‌( ۵۶ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ

نعمت کا انکار کرو گے (۵۶) ان جنتوں میں محدود نگاہ والی حوریں ہوں گی جن کو انسان اور جنات میں سے کسی نے پہلے چھوا بھی نہ ہوگا (۵۷) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۵۷ ) کَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَ الْمَرْجَانُ‌( ۵۸ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۵۹ ) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ

کرو گے (۵۸) وہ حوریں اس طرح کی ہوں گی جیسے سرخ یاقوت اور مونگے (۵۹) پھر تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۶۰) کیا احسان

إِلاَّالْإِحْسَانُ‌( ۶۰ ) فَبِأَيِّ آلاَءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۶۱ ) وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ‌( ۶۲ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَاتُکَذِّبَانِ‌( ۶۳ )

کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے (۶۱) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۶۲) اور ان دونوں کے علاوہ دو باغات اور ہوں گے (۶۳) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے

مُدْهَامَّتَانِ‌( ۶۴ ) فَبِأَيِّ آلاَءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۶۵ ) فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ‌( ۶۶ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۶۷ )

(۶۴) دونوں نہایت درجہ سرسبز و شاداب ہوں گے (۶۵) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۶۶) ان دونوں باغات میں بھی دو جوش مارتے ہوئے چشمے ہوں گے (۶۷) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے

۵۳۴

فِيهِمَا فَاکِهَةٌ وَ نَخْلٌ وَ رُمَّانٌ‌( ۶۸ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۶۹ ) فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ‌( ۷۰ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ

(۶۸) ان دونوں باغات میں میوے, کھجوریں اور انار ہوں گے (۶۹) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۷۰) ان جنتوں میں نیک سیرت اور خوب صورت عورتیں ہوں گی (۷۱) پھر تم اپنے رب کی کس کس

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۷۱ ) حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ‌( ۷۲ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۷۳ ) لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ

نعمت کا انکار کرو گے (۷۲) وہ حوریں ہیں جو خیموں کے اندر چھپی بیٹھی ہوں گی (۷۳) تو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۷۴) انہیں ان سے پہلے کسی انسان

قَبْلَهُمْ وَ لاَ جَانٌ‌( ۷۴ ) فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۷۵ ) مُتَّکِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَ عَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ‌( ۷۶ )

یا جن نے ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا (۷۵) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۷۶) وہ لوگ سبز قالینوں اور بہترین مسندوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے

فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‌( ۷۷ ) تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِي الْجَلاَلِ وَ الْإِکْرَامِ( ۷۸ )

(۷۷) پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے (۷۸) بڑا بابرکت ہے آپ کے پروردگار کا نام جو صاحب جلال بھی ہے اور صاحبِ اکرام بھی ہے

( سورة الواقعة)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ( ۱ ) لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا کَاذِبَةٌ( ۲ ) خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ( ۳ ) إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجّاً( ۴ ) وَ بُسَّتِ

(۱) جب قیامت برپا ہوگی (۲) اور اس کے قائم ہونے میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہے (۳) وہ الٹ پلٹ کر دینے والی ہوگی (۴) جب زمین کو زبردست جھٹکے لگیں گے (۵) اور پہاڑ بالکل

الْجِبَالُ بَسّاً( ۵ ) فَکَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثّاً( ۶ ) وَ کُنْتُمْ أَزْوَاجاً ثَلاَثَةً( ۷ ) فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ( ۸ )

چور چور ہوجائیں گے (۶) پھر ذرات بن کر منتشر ہوجائیں گے (۷) اور تم تین گروہ ہوجاؤ گے (۸) پھر داہنے ہاتھ والے اور کیا کہنا داہنے ہاتھ والوں کا

وَ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ( ۹ ) وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ‌( ۱۰ ) أُولٰئِکَ الْمُقَرَّبُونَ‌( ۱۱ ) فِي جَنَّاتِ

(۹) اور بائیں ہاتھ والے اور کیا پوچھنا ہے بائیں ہاتھ والوں کا (۱۰) اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں (۱۱) وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرب ہیں (۱۲) نعمتوں

النَّعِيمِ‌( ۱۲ ) ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ‌( ۱۳ ) وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ‌( ۱۴ ) عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ( ۱۵ ) مُتَّکِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ‌( ۱۶ )

بھری جنتوں میں ہوں گے (۱۳) بہت سے لوگ اگلے لوگوں میں سے ہوں گے (۱۴) اور کچھ آخر دور کے ہوں گے (۱۵) موتی اور یاقوت سے جڑے ہوئے تختوں پر (۱۶) ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے

۵۳۵

يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ‌( ۱۷ ) بِأَکْوَابٍ وَ أَبَارِيقَ وَ کَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ‌( ۱۸ ) لاَ يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَ لاَ

(۱۷) ان کے گرد ہمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررہے ہوں گے (۱۸) پیالے اور ٹونٹی وار کنٹر اور شراب کے جام لئے ہوئے ہوں گے

(۱۹) جس سے نہ درد سر پیدا ہوگا اور

يُنْزِفُونَ‌( ۱۹ ) وَ فَاکِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ‌( ۲۰ ) وَ لَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ‌( ۲۱ ) وَ حُورٌ عِينٌ‌( ۲۲ ) کَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ

نہ ہوش و حواس گم ہوں گے (۲۰) اور ان کی پسند کے میوے لئے ہوں گے (۲۱) اور ان پرندوں کا گوشت جس کی انہیں خواہش ہوگی (۲۲) اور کشادہ چشم حوریں ہوں گی (۲۳) جیسے سربستہ

الْمَکْنُونِ‌( ۲۳ ) جَزَاءً بِمَا کَانُوا يَعْمَلُونَ‌( ۲۴ ) لاَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَ لاَ تَأْثِيماً( ۲۵ ) إِلاَّ قِيلاً سَلاَماً

موتی (۲۴) یہ سب درحقیقت ان کے اعمال کی جزا اوراس کا انعام ہوگا(۲۵) وہاں نہ کوئی لغویات سنیں گے اور نہ گناہ کی باتیں (۲۶) صرف ہر طرف سلام

سَلاَماً( ۲۶ ) وَ أَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ‌( ۲۷ ) فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ( ۲۸ ) وَ طَلْحٍ مَنْضُودٍ( ۲۹ ) وَ

ہی سلام ہوگا (۲۷) اور داہنی طرف والے اصحاب کیا کہنا ان اصحاب یمین کا (۲۸) بے کانٹے کی بیر (۲۹) لدے گتھے ہوئے کیلے (۳۰) پھیلے

ظِلٍّ مَمْدُودٍ( ۳۰ ) وَ مَاءٍ مَسْکُوبٍ‌( ۳۱ ) وَ فَاکِهَةٍ کَثِيرَةٍ( ۳۲ ) لاَ مَقْطُوعَةٍ وَ لاَ مَمْنُوعَةٍ( ۳۳ ) وَ فُرُشٍ

ہوئے سائے (۳۱) جھرنے سے گرتے ہوئے پانی (۳۲) کثیر تعداد کے میوؤں کے درمیان ہوں گے (۳۳) جن کا سلسلہ نہ ختم ہوگا اور نہ ان پر کوئی روک ٹوک ہوگی (۳۴) اور اونچے قسم

مَرْفُوعَةٍ( ۳۴ ) إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً( ۳۵ ) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْکَاراً( ۳۶ ) عُرُباً أَتْرَاباً( ۳۷ ) لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ‌( ۳۸ )

کے گدے ہوں گے (۳۵) بیشک ان حوروں کو ہم نے ایجاد کیا ہے (۳۶) تو انہیں نت نئی بنایا ہے (۳۷) یہ کنواریاں اور آپس میں ہمجولیاں ہوں گی

(۳۸) یہ سب اصحاب یمین کے لئے ہیں

ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ‌( ۳۹ ) وَ ثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ‌( ۴۰ ) وَ أَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ‌( ۴۱ ) فِي سَمُومٍ وَ

(۳۹) جن کا ایک گروہ پہلے لوگوں کا ہے (۴۰) اور ایک گروہ آخری لوگوں کا ہے (۴۱) اور بائیں ہاتھ والے تو ان کا کیا پوچھنا ہے (۴۲) گرم گرم ہوا

حَمِيمٍ‌( ۴۲ ) وَ ظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ‌( ۴۳ ) لاَ بَارِدٍ وَ لاَ کَرِيمٍ‌( ۴۴ ) إِنَّهُمْ کَانُوا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِينَ‌( ۴۵ ) وَ کَانُوا

کھولتا ہوا پانی (۴۳) کالے سیاہ دھوئیں کا سایہ (۴۴)جو نہ ٹھنڈا ہو اور نہ اچھا لگے (۴۵) یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے بہت آرام کی زندگی گزار رہے تھے (۴۶) اور بڑے بڑے

يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ‌( ۴۶ ) وَ کَانُوا يَقُولُونَ أَ إِذَا مِتْنَا وَ کُنَّا تُرَاباً وَ عِظَاماً أَ إِنَّا لَمَبْعُوثُونَ‌( ۴۷ ) أَ وَ

گناہوں پر اصرار کررہے تھے (۴۷) اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک اور ہڈی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا (۴۸) کیا ہمارے

آبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ‌( ۴۸ ) قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ‌( ۴۹ ) لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ‌( ۵۰ )

باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے (۴۹) آپ کہہ دیجئے کہ اولین و آخرین سب کے سب (۵۰) ایک مقرر دن کی وعدہ گاہ پر جمع کئے جائیں گے

۵۳۶

ثُمَّ إِنَّکُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ‌( ۵۱ ) لَآکِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ‌( ۵۲ ) فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ‌( ۵۳ )

(۵۱) اس کے بعد تم اے گمراہو اور جھٹلانے والوں (۵۲) تھوہڑ کے درخت کے کھانے والے ہو گے (۵۳) پھر اس سے اپنے پیٹ بھرو گے

فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ‌( ۵۴ ) فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ‌( ۵۵ ) هٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ‌( ۵۶ ) نَحْنُ خَلَقْنَاکُمْ فَلَوْ

(۵۴) پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے (۵۵) پھر اس طرح پیو گے جس طرح پیاسے اونٹ پیتے ہیں (۵۶) یہ قیامت کے دن ان کی مہمانداری کا سامان ہوگا (۵۷) ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تو دوبارہ پیدا کرنے کی

لاَ تُصَدِّقُونَ( ۵۷ ) أَ فَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ‌( ۵۸ ) أَ أَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ‌( ۵۹ ) نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَکُمُ الْمَوْتَ وَ

تصدیق کیوں نہیں کرتے (۵۸) کیا تم نے اس نطفہ کو دیکھا ہے جو رحم میں ڈالتے ہو (۵۹) اسے تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں (۶۰) ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقدر کردیا

مَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ‌( ۶۰ ) عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَ نُنْشِئَکُمْ فِي مَا لاَ تَعْلَمُونَ‌( ۶۱ ) وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ

ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں (۶۱) کہ تم جیسے اور لوگ پیدا کردیں اور تمہیں اس عالم میں دوبارہ ایجاد کردیں جسے تم جانتے بھی نہیں ہو

(۶۲) اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو

الْأُولَى فَلَوْ لاَ تَذَکَّرُونَ‌( ۶۲ ) أَ فَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ‌( ۶۳ ) أَ أَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ‌( ۶۴ ) لَوْ نَشَاءُ

تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو (۶۳) اس دا نہ کو بھی دیکھا ہے جو تم زمین میں بوتے ہو (۶۴) اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں

(۶۵) اگر ہم چاہیں تو اسے

لَجَعَلْنَاهُ حُطَاماً فَظَلْتُمْ تَفَکَّهُونَ‌( ۶۵ ) إِنَّا لَمُغْرَمُونَ‌( ۶۶ ) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ‌( ۶۷ ) أَ فَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي

چور چور بنادیں تو تم باتیں ہی بناتے رہ جاؤ (۶۶) کہ ہم تو بڑے گھاٹے میں رہے (۶۷) بلکہ ہم تو محروم ہی رہ گئے (۶۸) کیا تم نے اس پانی کو دیکھا

تَشْرَبُونَ‌( ۶۸ ) أَ أَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ‌( ۶۹ ) لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجاً فَلَوْ لاَ تَشْکُرُونَ‌( ۷۰ )

ہے جس کو تم پیتے ہو (۶۹) اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں (۷۰) اگر ہم چاہتے تو اسے کھارا بنادیتے تو پھر تم ہمارا شکریہ کیوں نہیں ادا کرتے ہو

أَ فَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ‌( ۷۱ ) أَ أَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ‌( ۷۲ ) نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْکِرَةً وَ مَتَاعاً

(۷۱) کیا تم نے اس آگ کو دیکھا ہے جسے لکڑی سے نکالتے ہو (۷۲) اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں

(۷۳) ہم نے اسے یاد دہانی کا ذریعہ اور مسافروں کے لئے

لِلْمُقْوِينَ‌( ۷۳ ) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيمِ‌( ۷۴ ) فَلاَ أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ‌( ۷۵ ) وَ إِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ‌( ۷۶ )

نفع کا سامان قرار دیا ہے (۷۴) اب آپ اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کریں (۷۵) اور میں تو تاروں کے منازل کی قسم کھاکر کہتا ہوں (۷۶) اور تم جانتے ہو کہ یہ قسم بہت بڑی قسم ہے

۵۳۷

إِنَّهُ لَقُرْآنٌ کَرِيمٌ‌( ۷۷ ) فِي کِتَابٍ مَکْنُونٍ‌( ۷۸ ) لاَ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ‌( ۷۹ ) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ‌( ۸۰ )

(۷۷) یہ بڑا محترم قرآن ہے (۷۸) جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے (۷۹) اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے (۸۰) یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے

أَ فَبِهٰذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ‌( ۸۱ ) وَ تَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ‌( ۸۲ ) فَلَوْ لاَ إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ‌( ۸۳ )

(۸۱) تو کیا تم لوگ اس کلام سے انکار کرتے ہو (۸۲) اور تم نے اپنی روزی یہی قرار دے رکھی ہے کہ اس کا انکار کرتے رہو (۸۳) پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ جب جان گلے تک پہنچ جائے

وَ أَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ‌( ۸۴ ) وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْکُمْ وَ لٰکِنْ لاَ تُبْصِرُونَ‌( ۸۵ ) فَلَوْ لاَإِنْ کُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ‌( ۸۶ )

(۸۴) اور تم اس وقت دیکھتے ہی رہ جاؤ (۸۵) اور ہم تمہاری نسبت مرنے والے سے قریب ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے ہو (۸۶) پس اگر تم کسی کے دباؤ میں نہیں ہو اور بالکل آزاد ہو

تَرْجِعُونَهَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِينَ‌( ۸۷ ) فَأَمَّا إِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ‌( ۸۸ ) فَرَوْحٌ وَ رَيْحَانٌ وَ جَنَّةُ نَعِيمٍ‌( ۸۹ )

(۸۷) تو اس روح کو کیوں نہیں پلٹا دیتے ہو اگر اپنی بات میں سچے ہو (۸۸) پھر اگر مرنے والا مقربین میں سے ہے (۸۹) تو اس کے لئے آسائش, خوشبو دار پھول اور نعمتوں کے باغات ہیں

وَ أَمَّا إِنْ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ‌( ۹۰ ) فَسَلاَمٌ لَکَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ‌( ۹۱ ) وَ أَمَّا إِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِينَ

(۹۰) اور اگر اصحاب یمین میں سے ہے (۹۱) تو اصحاب یمین کی طرف سے تمہارے لئے سلام ہے (۹۲) اور اگر جھٹلانے والوں اور گمراہوں

الضَّالِّينَ‌( ۹۲ ) فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ‌( ۹۳ ) وَتَصْلِيَةُجَحِيمٍ‌( ۹۴ ) إِنَّ هٰذَالَهُوَحَقُّ الْيَقِينِ‌( ۹۵ ) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيمِ‌( ۹۶ )

میں سے ہے (۹۳) تو کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے (۹۴) اور جہنّم میں جھونک دینے کی سزا ہے (۹۵) یہی وہ بات ہے جو بالکل برحق اور یقینی ہے

(۹۶) لہذا اپنے عظیم پروردگار

کے نام کی تسبیح کرتے رہو

( سورة الحديد)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَکِيمُ‌( ۱ ) لَهُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيِي وَ يُمِيتُ وَ

(۱) محو تسبیح پروردگار ہے ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے اور وہ پروردگار صاحبِ عزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے (۲) آسمان و زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات و موت کا دینے والا ہے

هُوَ عَلَى کُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ( ۲ ) هُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَيْ‌ءٍ عَلِيمٌ‌( ۳ )

اور ہر شے پر اختیار رکھنے والا ہے (۳) وہی اوّل ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے

۵۳۸

هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَ مَا يَخْرُجُ

(۴) وہی وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور پھر عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا ہے وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے یا زمین سے خارج ہوتی ہے

مِنْهَا وَ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَ هُوَ مَعَکُمْ أَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ( ۴ ) لَهُ مُلْکُ

اور جو چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو اور وہ تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے

(۵) آسمان و زمین کا ملک

السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ إِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ( ۵ ) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَ هُوَ عَلِيمٌ

اسی کے لئے ہے اور تمام امور کی بازگشت اسی کی طرف ہے (۶) وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ سینوں کے رازوں سے

بِذَاتِ الصُّدُورِ( ۶ ) آمِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَ أَنْفَقُوا لَهُمْ

بھی باخبر ہے (۷) تم لوگ اللہ و رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے - تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا

أَجْرٌ کَبِيرٌ( ۷ ) وَ مَا لَکُمْ لاَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الرَّسُولُ يَدْعُوکُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّکُمْ وَ قَدْ أَخَذَ مِيثَاقَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ

ان کے لئے اجر عظیم ہے (۸) اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا پر ایمان نہیں لاتے ہو جب کہ رسو ل تمہیں دعوت دے رہا ہے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ اور خدا تم سے اس بات کا عہد بھی شلے چکا ہے اگر تم

مُؤْمِنِينَ‌( ۸ ) هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَ إِنَّ اللَّهَ بِکُمْ

اعتبار کرنے والے ہو (۹) وہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی نشانیاں نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کرلے آئے اور اللہ تمہارے حال پر

لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ‌( ۹ ) وَ مَا لَکُمْ أَلاَّ تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ لِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ لاَ يَسْتَوِي مِنْکُمْ مَنْ

یقینا مہربان و رحم کرنے والا ہے (۱۰) اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ہو جب کہ آسمان و زمین کی وراثت اسی کے لئے ہے اور تم میں سے فتح سے

أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ أُولٰئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَ قَاتَلُوا وَ کُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَ

پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ہوسکتا ہے جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے - پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگرچہ خدا نے سب سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور

اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ( ۱۰ ) مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَ لَهُ أَجْرٌ کَرِيمٌ‌( ۱۱ )

وہ تمہارے جملہ اعمال سے باخبر ہے (۱۱) کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کو دوگنا کردے اور اس کے لئے باعزّت اجر بھی ہو

۵۳۹

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاکُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا

(۱۲) اس دن تم باایمان مرد اور باایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ آج تمہاری بشارت کا سامان وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں

الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‌( ۱۲ ) يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا

اور تم ہمیشہ ان ہی میں رہنے والے ہو اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے (۱۳) اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں صاحبان ایمان سے کہیں گے کہ ذرا ہماری طرف بھی نظر مرحمت کرو کہ ہم

نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِکُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُوراً فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهُ مِنْ

تمہارے نور سے استفادہ کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ اور اپنے شیاطین سے نور کی التماس کرو اس کے بعد ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس کے اندر کی طرف رحمت ہوگی

قِبَلِهِ الْعَذَابُ‌( ۱۳ ) يُنَادُونَهُمْ أَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ قَالُوا بَلَى وَ لٰکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَکُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ

اور باہر کی طرف عذاب ہوگا (۱۴) اور منافقین ایمان والوں سے پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے تو وہ کہیں گے بیشک مگر تم نے اپنے کو بلاؤں میں مبتلا کردیا اور ہمارے لئے مصائب کے منتظر رہے اور تم نے رسالت میں شک کیا اور تمہیں

غَرَّتْکُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَ غَرَّکُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ( ۱۴ ) فَالْيَوْمَ لاَ يُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْيَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِينَ کَفَرُوا

تمناؤں نے دھوکہ میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ حکم خدا آگیا اور تمہیں دھوکہ باز شیطان نے دھوکہ دیا ہے (۱۵) تو آج نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ کفار سے

مَأْوَاکُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلاَکُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ( ۱۵ ) أَ لَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِکْرِ اللَّهِ وَ مَا نَزَلَ

تم سب کا ٹھکانا جہنمّ ہے وہی تم سب کا صاحب ختیار ہے اور تمہارا بدترین انجام ہے (۱۶) کیا صاحبانِ ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے

مِنَ الْحَقِّ وَ لاَ يَکُونُوا کَالَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَ کَثِيرٌ مِنْهُمْ

حق کےلئے نرم ہوجائیں اوروہ ان اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں کتاب دی گئی تو ایک عرصہ گزرنےکے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت

فَاسِقُونَ‌( ۱۶ ) اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ‌( ۱۷ ) إِنَّ

بدکار ہوگئی (۱۷) یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوں کو واضح کرکے بیان کردیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو (۱۸) بیشک

الْمُصَّدِّقِينَ وَ الْمُصَّدِّقَاتِ وَ أَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً يُضَاعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ أَجْرٌ کَرِيمٌ‌( ۱۸ )

خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے راہ خدا میں اخلاص کے ساتھ مال خرچ کیا ہے ان کا اجر دوگنا کردیا جائے گا اور ان کے لئے بڑا باعزّت اجر ہے

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609