قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )9%

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ ) مؤلف:
: مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات: متن قرآن اور ترجمہ
صفحے: 609

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 609 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149228 / ڈاؤنلوڈ: 6400
سائز سائز سائز
قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

( سورة التحريم)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِکَ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ‌( ۱ ) قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَکُمْ تَحِلَّةَ

(۱) پیغمبر آپ اس شے کو کیوں ترک کررہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے (۲) خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم

أَيْمَانِکُمْ وَ اللَّهُ مَوْلاَکُمْ وَ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَکِيمُ‌( ۲ ) وَ إِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَ

کو کفارہ دے کر ختم کردیجئے اور اللہ آپ کا مولا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے (۳) اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے راز کی بات بتائی اور اس نے دوسری کو باخبر کردیا اور خدا نے

أَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هٰذَاقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ( ۳ )

نبی پر ظاہر کردیا تو نبی نے بعض باتوں کو اسے بتایا اور بعض سے اعراض کیا پھر جب اسے باخبر کیا تو اس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے تو آپ نے کہا کہ خدائے علیم و خبیرنے

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَ جِبْرِيلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَ

(۴) اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کرو گی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبریل اور نیک مومنین اور

الْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيرٌ( ۴ ) عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجاً خَيْراً مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ

ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں (۵) وہ اگر تمہیں طلاق بھی دے دے گا تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا مسلمہ, مومنہ,

قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَ أَبْکَاراً( ۵ ) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَ أَهْلِيکُمْ نَاراً

فرمانبردار, توبہ کرنے والی, عبادت گزار, روزہ رکھنے والی, کنواری اور غیر کنواری سب (۶) ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا

وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلاَئِکَةٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لاَ يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ‌( ۶ )

ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تندوتیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ کَفَرُوا لاَ تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ‌( ۷ )

(۷) اور اے کفر اختیار کرنے والو آج کوئی عذر پیش نہ کرو کہ آج تمہیں تمہارے اعمال کی سزا دی جائے گی

۵۶۱

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسَى رَبُّکُمْ أَنْ يُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ وَ يُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي

(۸) ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو عنقریب تمہارا پروردگار تمہاری برائیوں کو مٹا دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے

مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لاَ يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا

نہریں جاری ہوں گی اس دن خدا اپنے نبی اور صاحبانِ ایمان کو رسوا نہیں ہونے دے گا ان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا اور وہ کہیں گے کہ خدایا

أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلَى کُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ( ۸ ) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ

ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہمیں بخش دے کہ تو یقینا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے (۹) پیغمبر آپ کفر اور منافقین سے جہاد

عَلَيْهِمْ وَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ( ۹ ) ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَ امْرَأَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ

کریں اور ان پر سختی کریں اور ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہی بدترین انجام ہے (۱۰) خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ

عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ قِيلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ‌( ۱۰ ) وَ

دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنمّ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ (۱۱) اور

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَکَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ

خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے

وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‌( ۱۱ ) وَ مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ

اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے (۱۲) اور مریم بنت عمران علیہ السّلام کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے

بِکَلِمَاتِ رَبِّهَا وَ کُتُبِهِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌( ۱۲ )

کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی

۵۶۲

( سورة الملك)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

تَبَارَکَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْکُ وَ هُوَ عَلَى کُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ( ۱ ) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيَاةَ لِيَبْلُوَکُمْ أَيُّکُمْ أَحْسَنُ

(۱) بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھوں میں سارا ملک ہے اور وہ ہر شے پر قادر و مختار ہے (۲) اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حَسن عمل کے

عَمَلاً وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ( ۲ ) الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ

اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے اور وہ صاحب عزّت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے (۳) اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کئے ہیں اور تم رحمان کی خلقت میں کسی طرح کا فرق نہ دیکھو گے پھر دوبارہ

الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ( ۳ ) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْکَ الْبَصَرُ خَاسِئاً وَ هُوَ حَسِيرٌ( ۴ ) وَ لَقَدْ

نگاہ اٹھا کر دیکھو کہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے (۴) اس کے بعد بار بار نگاہ ڈالو دیکھو نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی لیکن کوئی عیب نظر نہ آئے گا (۵) ہم نے

زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَ جَعَلْنَاهَا رُجُوماً لِلشَّيَاطِينِ وَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ( ۵ ) وَ لِلَّذِينَ کَفَرُوا

آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور انہیں شیاطین کو سنگسار کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے اور ان کے لئے جہنمّ کا عذاب الگ مہیّا کر رکھا ہے (۶) اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ہے

بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ( ۶ ) إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقاً وَ هِيَ تَفُورُ( ۷ ) تَکَادُ تَمَيَّزُ مِنَ

ان کے لئے جہنمّ کا عذاب ہے اور وہی بدترین انجام ہے (۷) جب بھی وہ اس میں ڈالے جائیں گے اس کی چیخ سنیں گے اور وہ جوش مار رہا ہوگا (۸) بلکہ قریب ہوگا کہ جوش کی

الْغَيْظِ کُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَ لَمْ يَأْتِکُمْ نَذِيرٌ( ۸ ) قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَکَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا

شدت سے پھٹ پڑے جب بھی اس میں کسی گروہ کو ڈالا جائے گا تو اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا

(۹) تو وہ کہیں گے کہ آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلادیا اور یہ کہہ دیا

نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْ‌ءٍإِنْ أَنْتُمْ إِلاَّفِي ضَلاَلٍ کَبِيرٍ( ۹ ) وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ( ۱۰ )

کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو (۱۰) اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنّم والوں میں نہ ہوتے

فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقاً لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ( ۱۱ ) إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ أَجْرٌ کَبِيرٌ( ۱۲ )

(۱۱) تو انہوں نے خود اپنے گناہ کا اقرار کرلیا تو اب جہنم ّوالوں کے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے (۱۲) بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے پروردگار کا خوف رکھتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے

۵۶۳

وَ أَسِرُّوا قَوْلَکُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ( ۱۳ ) أَ لاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ( ۱۴ )

(۱۳) اور تم لوگ اپنی باتوں کو آہستہ کہو یا بلند آواز سے خدا تو سینوں کی رازوں کو بھی جانتا ہے (۱۴) اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا ہے جب کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاکِبِهَا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَ إِلَيْهِ النُّشُورُ( ۱۵ ) أَ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي

(۱۵) اسی نے تمہارے لئے زمین کو نرم بنادیا ہے کہ اس کے اطراف میں چلو اور رزق خدا تلاش کرو پھر اسی کی طرف قبروں سے اٹھ کر جانا ہے

(۱۶) کیا تم آسمان میں حکومت کرنے والے کی طرف سے مطمئن ہوگئے

السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ( ۱۶ ) أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْکُمْ حَاصِباً

کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ تمہیں گردش ہی دیتی رہے (۱۷) یا تم اس کی طرف سے اس بات سے محفوظ ہوگئے کہ وہ تمہاے اوپر پتھروں کی بارش کردے پھر تمہیں

فَسَتَعْلَمُونَ کَيْفَ نَذِيرِ( ۱۷ ) وَ لَقَدْ کَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَکَيْفَ کَانَ نَکِيرِ( ۱۸ ) أَ وَ لَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ

بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہوتا ہے (۱۸) اور ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی ہے تو دیکھو کہ ان کا انجام کتنا بھیانک ہوا ہے

(۱۹) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر ان پرندوں

فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَ يَقْبِضْنَ مَا يُمْسِکُهُنَّ إِلاَّ الرَّحْمٰنُ إِنَّهُ بِکُلِّ شَيْ‌ءٍ بَصِيرٌ( ۱۹ ) أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَکُمْ

کو نہیں دیکھا ہے جو پر پھیلا دیتے ہیں اور سمیٹ لیتے ہیں کہ انہیں اس فضا میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں سنبھال سکتا کہ وہی ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے (۲۰) کیا یہ جو تمہاری فوج بنا ہوا ہے

يَنْصُرُکُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ إِنِ الْکَافِرُونَ إِلاَّ فِي غُرُورٍ( ۲۰ ) أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي يَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِي

خدا کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہے - بیشک کفار صرف دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں (۲۱) یا یہ تم کو روزی دے سکتا ہے اگر خدا اپنی روزی کو روک لے - حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ

عُتُوٍّ وَ نُفُورٍ( ۲۱ ) أَ فَمَنْ يَمْشِي مُکِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيّاً عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‌( ۲۲ ) قُلْ

نافرمانی اورنفرت میں غرق ہوگئے ہیں(۲۲) کیا وہ شخص جو منہ کے بل چلتا ہے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا و سیدھے سیدھے صراظُ مستقیم پر چل رہا ہے

هُوَ الَّذِي أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلاً مَا تَشْکُرُونَ‌( ۲۳ ) قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَکُمْ فِي الْأَرْضِ

(۲۳) آپ کہہ دیجئے کہ خدا ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی نے تمہارے لئے کان آنکھ اور دل قرار دیئے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرنے والے ہو (۲۴) کہہ دیجئے کہ وہی وہ ہے جس نے زمین میں تمہیں پھیلا دیا ہے

وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ‌( ۲۴ ) وَيَقُولُونَ مَتَى هٰذَاالْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِينَ‌( ۲۵ ) قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَاللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۲۶ )

اور اسی کی طرف تمہیں جمع کرکے لے جایا جائے گا (۲۵) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگ سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا (۲۶) آپ کہہ دیجئے کہ علم اللہ کے پاس ہے اور میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

۵۶۴

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ کَفَرُوا وَ قِيلَ هٰذَا الَّذِي کُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ‌( ۲۷ ) قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَکَنِيَ اللَّهُ

(۲۷) پھر جب اس قیامت کے عذاب کو قریب دیکھیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب ہے جس کے تم خواستگار تھے (۲۸) آپ کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک

وَ مَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْکَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ‌( ۲۸ ) قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَکَّلْنَا

کردے یا ہم پر رحم کرے تو ان کافروں کا دردناک عذاب سے بچانے والا کون ہے (۲۹) کہہ دیجئے کہ وہی خدائے رحمان ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے

فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ‌( ۲۹ ) قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ يَأْتِيکُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ‌( ۳۰ )

پھر عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کِھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے (۳۰) کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارا سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی بہا کر کون لائے گا

( سورة القلم)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

ن وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُونَ‌( ۱ ) مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ‌( ۲ ) وَ إِنَّ لَکَ لَأَجْراً غَيْرَ مَمْنُونٍ‌( ۳ ) وَ إِنَّکَ

(۱) ن, قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں (۲) آپ اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہیں (۳) اور آپ کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے (۴) اور آپ

لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ‌( ۴ ) فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُونَ‌( ۵ ) بِأَيِّکُمُ الْمَفْتُونُ‌( ۶ ) إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ

بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں (۵) عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (۶) کہ دیوانہ کون ہے (۷) آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے

وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ‌( ۷ ) فَلاَ تُطِعِ الْمُکَذِّبِينَ‌( ۸ ) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ‌( ۹ ) وَ لاَ تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ

اور کون ہدایت یافتہ ہے (۸) لہذا آپ جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کریں (۹) یہ چاہتے ہیں کہ آپ ذرا نرم ہوجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں (۱۰) اور خبردار آپ کسی بھی مسلسل قسم کھانے والے

مَهِينٍ‌( ۱۰ ) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ‌( ۱۱ ) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ‌( ۱۲ ) عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِيمٍ‌( ۱۳ ) أَنْ کَانَ ذَا

ذلیل (۱۱) عیب جو اور اعلٰی درجہ کے چغلخور (۱۲) مال میں بیحد بخل کرنے والے, تجاوز گناہگار (۱۳) بدمزاج اور اس کے بعد بدنسل کی اطاعت نہ کریں (۱۴) صرف اس بات پر کہ یہ صاحب

مَالٍ وَ بَنِينَ‌( ۱۴ ) إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ‌( ۱۵ )

مال و اولاد ہے (۱۵) جب اس کے سامنے آیات الہیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ یہ سب اگلے لوگوں کی داستانیں ہیں

۵۶۵

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ‌( ۱۶ ) إِنَّابَلَوْنَاهُمْ کَمَابَلَوْنَاأَصْحَابَ الْجَنَّةِإِذْأَقْسَمُوالَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ‌( ۱۷ ) وَلاَيَسْتَثْنُونَ‌( ۱۸ )

(۱۶) ہم عنقریب اس کی ناک پر نشان لگادیں گے (۱۷) ہم نے ان کو اسی طرح آزمایا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح کو پھل توڑ لیں گے (۱۸) اور انشائ اللہ نہیں کہیں گے

فَطَافَ عَلَيْهَاطَائِفٌ مِنْ رَبِّکَ وَهُمْ نَائِمُونَ‌( ۱۹ ) فَأَصْبَحَتْ کَالصَّرِيمِ‌( ۲۰ ) فَتَنَادَوْامُصْبِحِينَ‌( ۲۱ ) أَنِ اغْدُواعَلَى

(۱۹) تو خدا کی طرف سے راتوں رات ایک بلا نے چکر لگایا جب یہ سب سورہے تھے (۲۰) اور سارا باغ جل کر کالی رات جیسا ہوگیا (۲۱) پھر صبح کو ایک نے دوسرے کو آواز دی (۲۲) کہ پھل توڑنا ہے تو اپنے اپنے

حَرْثِکُمْ إِنْکُنْتُمْ صَارِمِينَ‌( ۲۲ ) فَانْطَلَقُواوَهُمْ يَتَخَافَتُونَ‌( ۲۳ ) أَنْ لاَيَدْخُلَنَّهَاالْيَوْمَ عَلَيْکُمْ مِسْکِينٌ‌( ۲۴ ) وَغَدَوْاعَلَىحَرْدٍ

کھیت کی طرف چلو (۲۳) پھر سب گئے اس عالم میں کہ آپس میں راز دارانہ باتیں کررہے تھے (۲۴) کہ خبردار آج باغ میں کوئی مسکین داخل نہ ہونے پائے (۲۵) اور روک تھام کا بندوبست کرکے صبح سویرے پہنچ

قَادِرِينَ‌( ۲۵ ) فَلَمَّارَأَوْهَاقَالُواإِنَّالَضَالُّونَ‌( ۲۶ ) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ‌( ۲۷ ) قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ لَوْلاَ تُسَبِّحُونَ‌( ۲۸ )

گئے (۲۶) اب جو باغ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم تو بہک گئے (۲۷) بلکہ بالکل سے محروم ہوگئے (۲۸) تو ان کے منصف مزاج نے کہا کہ میں نے نہ کہا

قَالُواسُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّاکُنَّا ظَالِمِينَ‌( ۲۹ ) فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلاَوَمُونَ‌( ۳۰ ) قَالُوا يَاوَيْلَنَاإِنَّاکُنَّا طَاغِينَ‌( ۳۱ )

تھا کہ تم لوگ تسبیح پروردگار کیوں نہیں کرتے (۲۹) کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک و بے نیاز ہے اور ہم واقعا ظالم تھے (۳۰) پھر ایک نے دوسرے کو ملامت کرنا شروع کردی (۳۱) کہنے لگے کہ افسوس ہم بالکل سرکش تھے

عَسَى رَبُّنَاأَنْ يُبْدِلَنَاخَيْراًمِنْهَاإِنَّاإِلَى رَبِّنَارَاغِبُونَ‌( ۳۲ ) کَذٰلِکَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِأَکْبَرُ لَوْکَانُوا يَعْلَمُونَ‌( ۳۳ ) إِنَّ

(۳۲) شائد ہمارا پروردگار ہمیں اس سے بہتر دے دے کہ ہم اس کی طرف رغبت کرنے والے ہیں (۳۳) اسی طرح عذاب نازل ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بڑا ہے اگر انہیں علم ہو (۳۴) بیشک صاحبانِ تقویٰ کے لئے پروردگار

لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَرَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ‌( ۳۴ ) أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ کَالْمُجْرِمِينَ‌( ۳۵ ) مَالَکُمْ کيْفَ تَحْکُمُونَ‌( ۳۶ )

کے یہاں نعمتوں کی جنّت ہے (۳۵) کیا ہم اطاعت گزار وں کو مجرموں جیسا بنا دیں (۳۶) تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسا فیصلہ کر رہے ہو

أَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ‌( ۳۷ ) إِنَّ لَکُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ‌( ۳۸ ) أَمْ لَکُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَابَالِغَةٌإِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَکُمْ لَمَا

(۳۷) یا تمہاری کوئی کتاب ہے جس میں یہ سب پڑھا کرتے ہو (۳۸) کہ وہاں تمہاری پسند کی ساری چیزیں حاضر ملیں گی (۳۹) یا تم نے ہم سے روزِ قیامت تک کی قسمیں لے رکھی ہیں کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جس کا تم فیصلہ کرو

تَحْکُمُونَ‌( ۳۹ ) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذٰلِکَ زَعِيمٌ‌( ۴۰ ) أَمْ لَهُمْ شُرَکَاءُ فَلْيَأْتُوابِشُرَکَائِهِمْ إِنْ کَانُوا صَادِقِينَ‌( ۴۱ ) يَوْمَ يُکْشَفُ

گے(۴۰)ان سے پوچھئے کہ ان سب باتوں کا ذمہ دار کون ہے(۴۱)یا ان کے لئے شرکائ ہیں تواگر یہ سچے ہیں تو اپنے شرکائ کو لے آئیں(۴۲)جس دن پنڈلی

عَنْ سَاقٍ وَ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلاَ يَسْتَطِيعُونَ‌( ۴۲ )

کھول دی جائے گی اور انہیں سجدوں کی دعوت دی جائے گی اور یہ سجدہ بھی نہ کرسکیں گے

۵۶۶

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَ قَدْ کَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَ هُمْ سَالِمُونَ‌( ۴۳ ) فَذَرْنِي وَ مَنْ يُکَذِّبُ

(۴۳) ان کی نگاہیں شرم سے جھکی ہوں گی ذلّت ان پر چھائی ہوگی اور انہیں اس وقت بھی سجدوں کی دعوت دی جارہی تھی جب یہ بالکل صحیح و سالم تھے (۴۴) تو اب مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو

بِهٰذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ‌( ۴۴ ) وَ أُمْلِي لَهُمْ إِنَّ کَيْدِي مَتِينٌ‌( ۴۵ ) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْراً

ہم عنقریب انہیں اس طرح گرفتار کریں گے کہ انہیں اندازہ بھی نہ ہوگا (۴۵) اور ہم تو اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہماری تدبیر مضبوط ہے

(۴۶) کیا آپ ان سے مزدوری مانگ رہے ہیں

فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ‌( ۴۶ ) أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَکْتُبُونَ‌( ۴۷ ) فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَ لاَ تَکُنْ کَصَاحِبِ

جو یہ اس کے تاوان کے بوجھ سے دبے جارہے ہیں (۴۷) یا ان کے پاس کوئی غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں (۴۸) اب آپ اپنے پروردگار کے حکم کے لئے صبر کریں اور صاحب حوت جیسے نہ ہوجائیں

الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَ هُوَ مَکْظُومٌ‌( ۴۸ ) لَوْ لاَ أَنْ تَدَارَکَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَ هُوَ مَذْمُومٌ‌( ۴۹ ) فَاجْتَبَاهُ

جب انہوں نے نہایت غصّہ کے عالم میں آواز دی تھی (۴۹) کہ اگر انہیں نعمت پروردگار نے سنبھال نہ لیا ہوتا تو انہیں چٹیل میدان میں برے حالوں میں چھوڑ دیا جاتا (۵۰) پھر ان کے رب نے انہیں منتخب

رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ‌( ۵۰ ) وَ إِنْ يَکَادُ الَّذِينَ کَفَرُوا لَيُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَ يَقُولُونَ إِنَّهُ

کرکے نیک کرداروں میں قرار دے دیا (۵۱) اور یہ کفاّر قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلادیں گے اور یہ کہتے ہیں

لَمَجْنُونٌ‌( ۵۱ ) وَ مَا هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِينَ‌( ۵۲ )

کہ یہ تو دیوانے ہیں (۵۲) حالانکہ یہ قرآن عالمین کے لئے نصیحت ہے اور بس

( سورة الحاقة)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

الْحَاقَّةُ( ۱ ) مَا الْحَاقَّةُ( ۲ ) وَ مَا أَدْرَاکَ مَا الْحَاقَّةُ( ۳ ) کَذَّبَتْ ثَمُودُ وَ عَادٌ بِالْقَارِعَةِ( ۴ ) فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِکُوا

(۱) یقینا پیش آنے والی قیامت (۲) اور کیسی پیش آنے والی (۳) اور تم کیا جانو کہ یہ یقینا پیش آنے والی شے کیا ہے (۴) قوم ثمود و عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی کا انکار کیا تھا (۵) تو ثمود ایک چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک

بِالطَّاغِيَةِ( ۵ ) وَ أَمَّا عَادٌ فَأُهْلِکُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ( ۶ ) سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُوماً

کردیئے گئے (۶) اور عاد کو انتہائی تیز و تند آندھی سے برباد کردیا گیا (۷) جسے ان کے اوپر سات رات اور آٹھ دن کے لئے مسلسل مسخّرکردیا گیا تو تم

فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى کَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ( ۷ ) فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ( ۸ )

دیکھتے ہو کہ قوم بالکل مردہ پڑی ہوئی ہے جیسے کھوکھلے کھجور کے درخت کے تنے

۵۶۷

وَ جَاءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهُ وَ الْمُؤْتَفِکَاتُ بِالْخَاطِئَةِ( ۹ ) فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَابِيَةً( ۱۰ ) إِنَّا لَمَّا

(۸) تو کیا تم ان کا کوئی باقی رہنے والا حصہّ دیکھ رہے ہو (۹) اور فرعون اور اس سے پہلے اور الٹی بستیوں والے سب نے غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے (۱۰) کہ پروردگار کے نمائندہ کی

طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِي الْجَارِيَةِ( ۱۱ ) لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَ تَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ( ۱۲ ) فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ

نافرمانی کی تو پروردگار نے انہیں بڑی سختی سے پکڑ لیا (۱۱) ہم نے تم کو اس وقت کشتی میں اٹھالیا تھا جب پانی سر سے چڑھ رہا تھا (۱۲) تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سن لیں (۱۳) پھر جب صور میں پہلی مرتبہ پھونکا

نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ( ۱۳ ) وَ حُمِلَتِ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَاحِدَةً( ۱۴ ) فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ( ۱۵ ) وَ

جائے گا (۱۴) اور زمین اور پہاڑوں کو اکھاڑ کر ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا (۱۵) تو اس دن قیامت واقع ہوجائے گی (۱۶) اور

انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ( ۱۶ ) وَ الْمَلَکُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ( ۱۷ )

آسمان شق ہوکر بالکل پھس پھسے ہوجائیں گے (۱۷) اور فرشتے اس کے اطراف پر ہوں گے اور عرش الہٰی کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنْکُمْ خَافِيَةٌ( ۱۸ ) فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ کِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا کِتَابِيَهْ‌( ۱۹ ) إِنِّي

(۱۸) اس دن تم کو منظر عام پر لایا جائے گا اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی (۱۹) پھر جس کو نامئہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ سب سے کہے گا کہ ذرا میرا نامئہ اعمال تو پڑھو (۲۰) مجھے

ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاَقٍ حِسَابِيَهْ‌( ۲۰ ) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ( ۲۱ ) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ( ۲۲ ) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ( ۲۳ ) کُلُوا

پہلے ہی معلوم تھا کہ میرا حساب مجھے ملنے والا ہے (۲۱) پھر وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا (۲۲) بلند ترین باغات میں (۲۳) اس کے میوے قریب قریب ہوں گے (۲۴) اب آرام سے کھاؤ

وَ اشْرَبُوا هَنِيئاً بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ( ۲۴ ) وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ کِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ کِتَابِيَهْ‌( ۲۵ )

پیو کہ تم نےگزشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے(۲۵)لیکن جس کو نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائےگا وہ کہےگا اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا

وَ لَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ‌( ۲۶ ) يَا لَيْتَهَا کَانَتِ الْقَاضِيَةَ( ۲۷ ) مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ‌( ۲۸ ) هَلَکَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ‌( ۲۹ )

(۲۶) اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ہوتا (۲۷) اے کاش اس موت ہی نے میرا فیصلہ کردیا ہوتا (۲۸) میرا مال بھی میرے کام نہ آیا (۲۹) اور میری حکومت بھی برباد ہوگئی

خُذُوهُ فَغُلُّوهُ‌( ۳۰ ) ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ‌( ۳۱ ) ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوهُ‌( ۳۲ ) إِنَّهُ کَانَ لاَ

(۳۰) اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو (۳۱) پھر اسے جہنم ّمیں جھونک دو (۳۲) پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو (۳۳) یہ خدائے عظیم پر

يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ‌( ۳۳ ) وَ لاَ يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکِينِ‌( ۳۴ )

ایمان نہیں رکھتا تھا (۳۴) اور لوگوں کو مسکینوں کو کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا

۵۶۸

فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ‌( ۳۵ ) وَ لاَ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ غِسْلِينٍ‌( ۳۶ ) لاَ يَأْکُلُهُ إِلاَّ الْخَاطِئُونَ‌( ۳۷ ) فَلاَ أُقْسِمُ

(۳۵) تو آج اس کا یہاں کوئی غمخوار نہیں ہے (۳۶) اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے (۳۷) جسے گنہگاروں کے علاوہ کوئی نہیں کھاسکتا (۳۸) میں اس کی بھی قسم کھاتا

بِمَا تُبْصِرُونَ‌( ۳۸ ) وَ مَا لاَ تُبْصِرُونَ‌( ۳۹ ) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِيمٍ‌( ۴۰ ) وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلاً مَا

ہوں جسے تم دیکھ رہے ہو (۳۹) اور اس کی بھی جس کو نہیں دیکھ رہے ہو (۴۰) کہ یہ ایک محترم فرشتے کا بیان ہے (۴۱) اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ہاں تم بہت کم

تُؤْمِنُونَ‌( ۴۱ ) وَ لاَ بِقَوْلِ کَاهِنٍ قَلِيلاً مَا تَذَکَّرُونَ‌( ۴۲ ) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ‌( ۴۳ ) وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا

ایمان لاتے ہو (۴۲) اور یہ کسی کاہن کا کلام نہیں ہے جس پر تم بہت کم غور کرتے ہو (۴۳) یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے (۴۴) اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے

بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ‌( ۴۴ ) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ‌( ۴۵ ) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ‌( ۴۶ ) فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ

کوئی بات گڑھ لیتا (۴۵) تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے (۴۶) اور پھر اس کی گردن اڑادیتے (۴۷) پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے

حَاجِزِينَ‌( ۴۷ ) وَ إِنَّهُ لَتَذْکِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ‌( ۴۸ ) وَ إِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْکُمْ مُکَذِّبِينَ‌( ۴۹ ) وَ إِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى

والا نہ ہوتا (۴۸) اور یہ قرآن صاحبانِ تقویٰ کے لئے نصیحت ہے (۴۹) اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے جھٹلانے والے بھی ہیں (۵۰) اور یہ

الْکَافِرِينَ‌( ۵۰ ) وَ إِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ‌( ۵۱ ) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيمِ‌( ۵۲ )

کافرین کے لئے باعث حسرت ہے (۵۱) اور یہ بالکل یقینی چیز ہے (۵۲) لہذا آپ اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کریں

( سورة المعارج)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ‌( ۱ ) لِلْکَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ‌( ۲ ) مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ‌( ۳ ) تَعْرُجُ الْمَلاَئِکَةُ وَ

(۱) ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا (۲) جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے (۳) یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے (۴) جس کی طرف فرشتے اور

الرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ( ۴ ) فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِيلاً( ۵ ) إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً( ۶ ) وَ نَرَاهُ

روح الامین بلند ہوتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے (۵) لہذا آپ بہترین صبر سے کام لیں (۶) یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں (۷) اور ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے

قَرِيباً( ۷ ) يَوْمَ تَکُونُ السَّمَاءُ کَالْمُهْلِ‌( ۸ ) وَ تَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِهْنِ‌( ۹ ) وَ لاَ يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً( ۱۰ )

ہیں (۸) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوجائے گا (۹) اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون جیسے (۱۰) اور کوئی ہمدرد کسی ہمدرد کا پرسانِ حال نہ ہوگا

۵۶۹

يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ‌( ۱۱ ) وَ صَاحِبَتِهِ وَ أَخِيهِ‌( ۱۲ ) وَ فَصِيلَتِهِ الَّتِي

(۱۱) وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے (۱۲) اوربیوی اور بھائی کو (۱۳) اور اس کنبہ کو جس

تُؤْوِيهِ‌( ۱۳ ) وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ يُنْجِيهِ‌( ۱۴ ) کَلاَّ إِنَّهَا لَظَى‌( ۱۵ ) نَزَّاعَةً لِلشَّوَى‌( ۱۶ ) تَدْعُو مَنْ

میں وہ رہتا تھا (۱۴) اور روئے زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے (۱۵) ہرگز نہیں یہ آتش جہنمّ ہے (۱۶) کھال اتار دینے والی

(۱۷) ان سب کو آواز دے رہی ہے

أَدْبَرَ وَ تَوَلَّى‌( ۱۷ ) وَ جَمَعَ فَأَوْعَى‌( ۱۸ ) إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً( ۱۹ ) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً( ۲۰ ) وَ إِذَا

جو منہ پھیر کر جانے والے تھے (۱۸) اور جنہوں نے مال جمع کرکے بند کر رکھا تھا (۱۹) بیشک انسان بڑا لالچی ہے (۲۰) جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے (۲۱) اور جب

مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً( ۲۱ ) إِلاَّ الْمُصَلِّينَ‌( ۲۲ ) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ دَائِمُونَ‌( ۲۳ ) وَ الَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ

مال مل جاتا ہے تو بخیل ہو جاتا ہے (۲۲) علاوہ ان نمازیوں کے (۲۳) جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں (۲۴) اور جن کے اموال میں ایک

مَعْلُومٌ‌( ۲۴ ) لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ‌( ۲۵ ) وَ الَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ‌( ۲۶ ) وَ الَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ

مقررہ حق معین ہے (۲۵) مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے (۲۶) اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں (۲۷) اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے

مُشْفِقُونَ‌( ۲۷ ) إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ‌( ۲۸ ) وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ‌( ۲۹ ) إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ

والے ہیں (۲۸) بیشک عذاب پروردگار بے خوف رہنے والی چیز نہیں ہے (۲۹) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں (۳۰) علاوہ اپنی بیویوں

أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ‌( ۳۰ ) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ هُمُ العَادُونَ‌( ۳۱ ) وَ الَّذِينَ

اور کنیزوں کے کہ اس پر ملامت نہیں کی جاتی ہے (۳۱) پھر جو اس کے علاوہ کا خواہشمند ہو وہ حد سے گزر جانے والا ہے (۳۲) اور جو

هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رَاعُونَ‌( ۳۲ ) وَ الَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ‌( ۳۳ ) وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ

اپنی امانتوں اور عہد کا خیال رکھنے والے ہیں (۳۳) اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں (۳۴) اور جو اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے

يُحَافِظُونَ‌( ۳۴ ) أُولٰئِکَ فِي جَنَّاتٍ مُکْرَمُونَ‌( ۳۵ ) فَمَا لِ الَّذِينَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُهْطِعِينَ‌( ۳۶ ) عَنِ الْيَمِينِ وَ

ہیں(۳۵)یہی لوگ جنّت میں باعزّت طریقہ سے رہنے والے ہیں(۳۶)پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپکی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں(۳۷) داہیں

عَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ‌( ۳۷ ) أَيَطْمَعُ کُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ‌( ۳۸ ) کَلاَّ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ‌( ۳۹ )

بائیں سے گروہ در گروہ (۳۸) کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے (۳۹) ہرگز نہیں انہیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے

۵۷۰

فَلاَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَ الْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ‌( ۴۰ ) عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ خَيْراً مِنْهُمْ وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ‌( ۴۱ )

(۴۰) میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں (۴۱) اس بات پر کہ ان کے بدلے ان سے بہتر افراد لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَ يَلْعَبُوا حَتَّى يُلاَقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ‌( ۴۲ ) يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعاً کَأَنَّهُمْ إِلَى

(۴۲) لہذا انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنے باطل میں ڈوبے رہیں اور کھیل تماشہ کرتے رہیں یہاں تک کہ اس دن سے ملاقات کریں جس کا وعدہ کیا گیا ہے (۴۳) جس دن یہ سب قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے جس طرح

نُصُبٍ يُوفِضُونَ‌( ۴۳ ) خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذٰلِکَ الْيَوْمُ الَّذِي کَانُوا يُوعَدُونَ‌( ۴۴ )

کسی پرچم کی طرف بھاگے جارہے ہوں (۴۴) ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ذلت ان پر چھائی ہوگی اور یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے

( سورة نوح)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحاًإِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ‌( ۱ ) قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَکُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۲ )

(۱) بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈراؤ (۲) انہوں نے کہا اے قوم میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اتَّقُوهُ وَ أَطِيعُونِ‌( ۳ ) يَغْفِرْ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ وَ يُؤَخِّرْکُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا

(۳) کہ اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (۴) وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے

جَاءَلاَ يُؤَخَّرُ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ‌( ۴ ) قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاً وَ نَهَاراً( ۵ ) فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلاَّ فِرَاراً( ۶ )

گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو (۵) انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی (۶) پھر بھی میری دعوت کا کوئی اثر سوائے اس کے نہ ہوا کہ انہوں نے فرار اختیار کیا

وَإِنِّي کُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَاراً( ۷ )

(۷) اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا اور اپنے کپڑے اوڑھ لئے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدت سے اکڑے رہے

ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَاراً( ۸ ) ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَاراً( ۹ ) فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّاراً( ۱۰ )

(۸) پھر میں نے ان کو علی الاعلان دعوت دی (۹) پھر میں نے اعلان بھی کیا اور خفیہ طور سے بھی دعوت دی (۱۰) اور کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے

۵۷۱

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَاراً( ۱۱ ) وَ يُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَ بَنِينَ وَ يَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَ يَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَاراً( ۱۲ )

(۱۱) وہ تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا (۱۲) اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں قرار دے گا

مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَاراً( ۱۳ ) وَ قَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَاراً( ۱۴ ) أَ لَمْ تَرَوْا کَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً( ۱۵ )

(۱۳) آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا خیال نہیں کرتے ہو (۱۴) جب کہ اسی نے تمہیں مختلف انداز میں پیدا کیا ہے (۱۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں

وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً( ۱۶ ) وَ اللَّهُ أَنْبَتَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً( ۱۷ ) ثُمَّ يُعِيدُکُمْ

(۱۶) اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے (۱۷) اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے (۱۸) پھر تمہیں اسی میں لے

فِيهَا وَ يُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجاً( ۱۸ ) وَ اللَّهُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطاً( ۱۹ ) لِتَسْلُکُوا مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجاً( ۲۰ )

جائے گا اور پھر نئی شکل میں نکالے گا (۱۹) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنادیا ہے (۲۰) تاکہ تم اس میں مختلف کشادہ راستوں پر چلو

قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَ اتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَ وَلَدُهُ إِلاَّ خَسَاراً( ۲۱ ) وَ مَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً( ۲۲ ) وَ

(۲۱) اور نوح نے کہا کہ پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور اس کا اتباع کرلیا ہے جو مال و اولاد میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں دے سکتا ہے (۲۲) اور ان لوگوں نے بہت بڑا مکر کیا ہے (۲۳) اور

قَالُوا لاَ تَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَ لاَ تَذَرُنَّ وَدّاً وَ لاَ سُوَاعاً وَ لاَ يَغُوثَ وَ يَعُوقَ وَ نَسْراً( ۲۳ ) وَ قَدْ أَضَلُّوا کَثِيراً وَ لاَ

لوگوں سے کہا ہے کہ خبردار اپنے خداؤں کو مت چھوڑ دینا اور ود, سواع, یغوث, یعوق, نسر کو نظرانداز نہ کردینا (۲۴) انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کردیا

تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلاَّ ضَلاَلاً( ۲۴ ) مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَاراً فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَاراً( ۲۵ ) وَ

ہے اب تو ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرنا (۲۵) یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنم ّمیں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے (۲۶) اور

قَالَ نُوحٌ رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِينَ دَيَّاراً( ۲۶ ) إِنَّکَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَکَ وَ لاَ يَلِدُوا إِلاَّ

نوح نے کہا کہ پروردگار اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا (۲۷) کہ تو انہیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور

فَاجِراً کَفَّاراً( ۲۷ ) رَبِّ اغْفِرْ لِي وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً وَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ لاَ تَزِدِ

فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے (۲۸) پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے

الظَّالِمِينَ إِلاَّ تَبَاراً( ۲۸ )

اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شے میں اضافہ نہ کرن

۵۷۲

( سورة الجن)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً( ۱ ) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَ لَنْ

(۱) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے (۲) جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم تو اس پر

نُشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَداً( ۲ ) وَ أَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَ لاَ وَلَداً( ۳ ) وَ أَنَّهُ کَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى

ایمان لے آئے ہیں اور کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (۳) اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا (۴) اور ہمارے بیوقوف لوگ طرح طرح کی بے

اللَّهِ شَطَطاً( ۴ ) وَ أَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلَى اللَّهِ کَذِباً( ۵ ) وَ أَنَّهُ کَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ

ربط باتیں کررہے ہیں (۵) اور ہمارا خیال تو یہی تھا کہ انسان اور جناّت خدا کے خلاف جھوٹ نہ بولیں گے (۶) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جناّت کے بعض لوگوں

يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقاً( ۶ ) وَ أَنَّهُمْ ظَنُّوا کَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَداً( ۷ ) وَ أَنَّا

کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوں نے گرفتاری میں اور اضافہ کردیا (۷) اور یہ کہ تمہاری طرح ان کا بھی خیال تھا کہ خدا کسی کو دوبارہ نہیں زندہ کرے گا

(۸) اور ہم نے

لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَ شُهُباً( ۸ ) وَ أَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ

آسمان کو دیکھا تواسے سخت قسم کے نگہبانوں اورشعلوں سے بھرا ہوا پایا(۹)اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتےتھے لیکن اب کوئی سننا چاہے

الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَاباً رَصَداً( ۹ ) وَ أَنَّا لاَ نَدْرِي أَ شَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَداً( ۱۰ ) وَ أَنَّا

گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا(۱۰)اور ہمیں نہیں معلوم کہ اہل زمین کے لئے اس سے برائی مقصود ہےیا نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے(۱۱)اور ہم میں سے

مِنَّا الصَّالِحُونَ وَ مِنَّا دُونَ ذٰلِکَ کُنَّا طَرَائِقَ قِدَداً( ۱۱ ) وَ أَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَ لَنْ نُعْجِزَهُ

بعض نیک کردار ہیں اور بعض کے علاوہ ہیں اور ہم طرح طرح کے گروہ ہیں (۱۲) اور ہمارا خیال ہے کہ ہم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اسے اپنی گرفت

هَرَباً( ۱۲ ) وَ أَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلاَ يَخَافُ بَخْساً وَ لاَ رَهَقاً( ۱۳ )

سے عاجز کرسکتے ہیں (۱۳) اور ہم نے ہدایت کو سنا تو ہم تو ایمان لے آئے اب جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا اسے نہ خسارہ کا خوف ہوگا اور نہ ظلم و زیادتی کا

۵۷۳

وَ أَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَ مِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولٰئِکَ تَحَرَّوْا رَشَداً( ۱۴ ) وَ أَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَهَنَّمَ

(۱۴) اور ہم میں سے بعض اطاعت گزار ہیں اور بعض نافرمان اور جو اطاعت گزار ہوگا اس نے ہدایت کی راہ پالی ہے (۱۵) اور نافرمان تو جہنمّ کے

حَطَباً( ۱۵ ) وَ أَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقاً( ۱۶ ) لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَ مَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ

کندے ہوگئے ہیں (۱۶) اور اگر یہ لوگ سب ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے (۱۷) تاکہ ان کا امتحان لے سکیں اور جو بھی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرے گا

رَبِّهِ يَسْلُکْهُ عَذَاباً صَعَداً( ۱۷ ) وَ أَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلاَ تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً( ۱۸ ) وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ

اسے سخت عذاب کے راستے پر چلنا پڑے گا (۱۸) اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا (۱۹) اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کے لئے کھڑا ہوا

يَدْعُوهُ کَادُوا يَکُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً( ۱۹ ) قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَ لاَ أُشْرِکُ بِهِ أَحَداً( ۲۰ ) قُلْ إِنِّي لاَ أَمْلِکُ لَکُمْ

تو قریب تھا کہ لوگ اس کے گرد ہجوم کرکے گر پڑتے (۲۰) پیغمبرآپ کہہ دیجئے کہ میں صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا ہوں (۲۱) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے کسی

ضَرّاً وَ لاَ رَشَداً( ۲۱ ) قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَ لَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً( ۲۲ ) إِلاَّ بَلاَغاً مِنَ اللَّهِ وَ

نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ فائدہ کا (۲۲) کہہ دیجئے کہ اللہ کے مقابلہ میں میرا بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے اور نہ میں کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں (۲۳) مگر یہ کہ اپنے رب کے احکام اور

رِسَالاَتِهِ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً( ۲۳ ) حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ

پیغام کو پہنچادوں اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ّہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے (۲۴) یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے اس عذاب کو دیکھ لیا جس کا وعدہ کیا گیا

فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِراً وَ أَقَلُّ عَدَداً( ۲۴ ) قُلْ إِنْ أَدْرِي أَ قَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَداً( ۲۵ )

تھا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور اور کس کی تعداد کمتر ہے (۲۵) کہہ دیجئے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وعدہ قریب ہی ہے یا ابھی خدا کوئی اور مدّت بھی قرار دے گا

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً( ۲۶ ) إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُکُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ

(۲۶) وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے (۲۷) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے

خَلْفِهِ رَصَداً( ۲۷ ) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالاَتِ رَبِّهِمْ وَ أَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَ أَحْصَى کُلَّ شَيْ‌ءٍ عَدَداً( ۲۸ )

مقرر کردیتا ہے (۲۸) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچادیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہے

۵۷۴

( سورة المزمل)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ‌( ۱ ) قُمِ اللَّيْلَ إِلاَّ قَلِيلاً( ۲ ) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلاً( ۳ ) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً( ۴ )

(۱)اے میرے چادر لپیٹنے والے(۲)رات کو اٹھو مگرذراکم(۳)آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو(۴)یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو

إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْکَ قَوْلاً ثَقِيلاً( ۵ ) إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً وَ أَقْوَمُ قِيلاً( ۶ ) إِنَّ لَکَ فِي النَّهَارِ سَبْحاً

(۵) ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نازل کرنے والے ہیں (۶) بیشک رات کا اُٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے (۷) یقینا آپ کے لئے دن میں بہت سے

طَوِيلاً( ۷ ) وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً( ۸ ) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَکِيلاً( ۹ )

مشغولیات ہیں (۸) اور آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کریں اور اسی کے ہو رہیں (۹) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا آپ اسی کو اپنا نگراں بنالیں

وَ اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً( ۱۰ ) وَ ذَرْنِي وَ الْمُکَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَ مَهِّلْهُمْ قَلِيلاً( ۱۱ )

(۱۰) اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں (۱۱) اور ہمیں اور ان دولت مند جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیں

إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالاً وَ جَحِيماً( ۱۲ ) وَ طَعَاماً ذَا غُصَّةٍ وَ عَذَاباً أَلِيماً( ۱۳ ) يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ وَ

(۱۲) ہمارے پاس ان کے لئے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے (۱۳) اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے (۱۴) جس دن زمین اور پہاڑ لرزہ میں آجائیں گے

کَانَتِ الْجِبَالُ کَثِيباً مَهِيلاً( ۱۴ ) إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْکُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً( ۱۵ )

اور پہاڑ ریت کا ایک ٹیلہ بن جائیں گے(۱۵)بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بناکر ایک رسول بھیجا ہےجس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا

فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذاً وَبِيلاً( ۱۶ ) فَکَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ کَفَرْتُمْ يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيباً( ۱۷ )

(۱۶) تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا (۱۷) پھر تم بھی کفر اختیار کرو گے تو اس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا

السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ کَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً( ۱۸ ) إِنَّ هٰذِهِ تَذْکِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً( ۱۹ )

(۱۸) جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہونے والا ہے (۱۹) یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے

۵۷۵

إِنَّ رَبَّکَ يَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَ نِصْفَهُ وَ ثُلُثَهُ وَ طَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَکَ وَ اللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَ

(۲۰) آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے

النَّهَارَ عَلِمَ أَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْکُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَکُونُ مِنْکُمْ مَرْضَى وَ آخَرُونَ

وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائیں گے اور

يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ آخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَ أَقِيمُوا

بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور

الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّکَاةَ وَ أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْراً وَ

زکوٰة ادا کرواور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاوگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار

أَعْظَمَ أَجْراً وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ( ۲۰ )

سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے

( سورة المدثر)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ( ۱ ) قُمْ فَأَنْذِرْ( ۲ ) وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ( ۳ ) وَ ثِيَابَکَ فَطَهِّرْ( ۴ ) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ( ۵ ) وَ لاَ تَمْنُنْ

(۱) اے میرے کپڑا اوڑھنے والے (۲) اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ (۳) اور اپنے رب کی بزرگی کا اعلان کرو (۴) اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو (۵) اور برائیوں سے پرہیز کرو (۶) اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار

تَسْتَکْثِرُ( ۶ ) وَ لِرَبِّکَ فَاصْبِرْ( ۷ ) فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ( ۸ ) فَذٰلِکَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ( ۹ ) عَلَى الْکَافِرِينَ

بن جاؤ (۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو (۸) پھر جب صور پھونکا جائے گا (۹) تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا (۱۰) کافروں کے واسطے تو ہر گز

غَيْرُ يَسِيرٍ( ۱۰ ) ذَرْنِي وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِيداً( ۱۱ ) وَ جَعَلْتُ لَهُ مَالاً مَمْدُوداً( ۱۲ ) وَ بَنِينَ شُهُوداً( ۱۳ ) وَ

آسان نہ ہوگا (۱۱) اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے (۱۲) اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے (۱۳) اور نگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دیئے ہیں (۱۴) اور

مَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيداً( ۱۴ ) ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ( ۱۵ ) کَلاَّ إِنَّهُ کَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيداً( ۱۶ ) سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً( ۱۷ )

ہر طرح کے سامان میں وسعت دے دی ہے (۱۵) اور پھر بھی چاہتا ہے کہ اور اضافہ کردوں (۱۶) ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا (۱۷) تو ہم عنقریب اسے سخت عذاب میں گرفتار کریں گے

۵۷۶

إِنَّهُ فَکَّرَوَقَدَّرَ( ۱۸ ) فَقُتِلَ کَيْفَ قَدَّرَ( ۱۹ ) ثُمَّ قُتِلَ کَيْفَ قَدَّرَ( ۲۰ ) ثُمَّ نَظَرَ( ۲۱ ) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ( ۲۲ ) ثُمَّأَدْبَرَ وَ

(۱۸) اس نے فکر کی اور اندازہ لگایا (۱۹) تو اسی میں مارا گیا کہ کیسا اندازہ لگایا (۲۰) پھر اسی میں اور تباہ ہوگیا کہ کیسا اندازہ لگایا (۲۱) پھر غور کیا (۲۲) پھر تیوری چڑھا کر منہ بسور لیا (۲۳) پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور

اسْتَکْبَرَ( ۲۳ ) فَقَالَ إِنْ هٰذَا إِلاَّ سِحْرٌ يُؤْثَرُ( ۲۴ ) إِنْ هٰذَاإِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ( ۲۵ ) سَأُصْلِيهِ سَقَرَ( ۲۶ ) وَ مَا أَدْرَاکَ مَا

اکڑ گیا (۲۴) اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے (۲۵) یہ تو صرف انسان کا کلام ہے (۲۶) ہم عنقریب اسے جہنمّ واصل کردیں گے (۲۷) اور تم کیا جانو کہ جہنمّ

سَقَرُ( ۲۷ ) لاَ تُبْقِي وَلاَ تَذَرُ( ۲۸ ) لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ( ۲۹ ) عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ( ۳۰ ) وَمَاجَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِإِلاَّ مَلاَئِکَةً وَ

کیا ہے (۲۸) وہ کسی کو چھوڑنے والا اور باقی رکھنے والا نہیں ہے (۲۹) بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے (۳۰) اس پر انیس فرشتے معین ہیں (۳۱) اور ہم نے جہنمّ کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور

مَاجَعَلْنَاعِدَّتَهُمْ إِلاَّ فِتْنَةً لِلَّذِينَ کَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَيَزْدَادَالَّذِينَ آمَنُوا إِيمَاناً وَلاَ يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا

ان کی تعداد کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے کہ اہل کتاب کو یقین حاصل ہوجائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوجائے اور اہل کتاب یا

الْکِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْکَافِرُونَ مَا ذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهٰذَا مَثَلاً کَذٰلِکَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ

صاحبانِ ایمان اس کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں مرض ہے اور کفار یہ کہنے لگیں کہ آخر اس مثال کا مقصد کیا ہے اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے

وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَايَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ إِلاَّهُوَوَمَاهِيَ إِلاَّذِکْرَى لِلْبَشَرِ( ۳۱ ) کَلاَّ وَالْقَمَرِ( ۳۲ ) وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ( ۳۳ )

اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اس کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے یہ تو صرف لوگوں کی نصیحت کا ایک ذریعہ ہے (۳۲) ہوشیار ہمیں چاند کی قسم (۳۳) اور جاتی ہوئی رات کی قسم

وَالصُّبْحِ إِذَاأَسْفَرَ( ۳۴ ) إِنَّهَالَإِحْدَى الْکُبَرِ( ۳۵ ) نَذِيراًلِلْبَشَرِ( ۳۶ ) لِمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْيَتَأَخَّرَ( ۳۷ ) کُلُّ

(۳۴) اور روشن صبح کی قسم (۳۵) یہ جہنمّ بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے (۳۶) لوگوں کے ڈرانے کا ذریعہ (۳۷) ان کے لئے جو آگے پیچھے ہٹنا چاہیں (۳۸) ہر نفس اپنے اعمال

نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِينَةٌ( ۳۸ ) إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ‌( ۳۹ ) فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ‌( ۴۰ ) عَنِ الْمُجْرِمِينَ‌( ۴۱ ) مَا

میں گرفتار ہے (۳۹) علاوہ اصحاب یمین کے (۴۰) وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کررہے ہوں گے (۴۱) مجرمین کے بارے میں (۴۲) آخر تمہیں

سَلَکَکُمْ فِي سَقَرَ( ۴۲ ) قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّينَ‌( ۴۳ ) وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِينَ‌( ۴۴ ) وَ کُنَّا نَخُوضُ مَعَ

کس چیز نے جہنمّ میں پہنچادیا ہے (۴۳) وہ کہیں گے کہ ہم نماز گزار نہیں تھے (۴۴) اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے (۴۵) لوگوں کے برے

الْخَائِضِينَ‌( ۴۵ ) وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ‌( ۴۶ ) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ‌( ۴۷ )

کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے (۴۶) اور روزِ قیامت کی تکذیب کیا کرتے تھے (۴۷) یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی

۵۷۷

فَمَاتَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُالشَّافِعِينَ‌( ۴۸ ) فَمَالَهُمْ عَنِ التَّذْکِرَةِمُعْرِضِينَ‌( ۴۹ ) کَأَنَّهُمْ حُمُرٌمُسْتَنْفِرَةٌ( ۵۰ ) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ( ۵۱ )

(۴۸) تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی (۴۹) آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں (۵۰) گویا بھڑکے ہوئے گدھے ہیں (۵۱) جو شیر سے بھاگ رہے ہیں

بَلْ يُرِيدُ کُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفاً مُنَشَّرَةً( ۵۲ ) کَلاَّبَلْ لاَ يَخَافُونَ الْآخِرَةَ( ۵۳ ) کَلاَّ إِنَّهُ تَذْکِرَةٌ( ۵۴ ) فَمَنْ

(۵۲) حقیقتا ان میں ہر آدمی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اسے کِھلی ہوئی کتابیں عطا کردی جائیں (۵۳) ہرگز نہیں ہوسکتا اصل یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں ہے (۵۴) ہاں ہاں بیشک یہ سراسر

شَاءَ ذَکَرَهُ‌( ۵۵ ) وَمَا يَذْکُرُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ( ۵۶ )

نصیحت ہے(۵۵) اب جس کا جی چاہے اسے یاد رکھے(۵۶) اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے

( سورة القيامة)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

لاَأُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ( ۱ ) وَلاَ أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ( ۲ ) أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ‌( ۳ ) بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ

(۱) میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں (۲) اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں (۳) کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے (۴) یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی

نُسَوِّيَ بَنَانَهُ‌( ۴ ) بَلْ يُرِيدُالْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَأَمَامَهُ‌( ۵ ) يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ( ۶ ) فَإِذَابَرِقَ الْبَصَرُ( ۷ ) وَخَسَفَالْقَمَرُ( ۸ )

انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں (۵) بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے (۶) وہ یہ پوچھتا ہے کہ یہ قیامت کب آنے والی ہے (۷) تو جب آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی (۸) اور چاند کو گہن لگ جائے گا

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ( ۹ ) يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍأَيْنَ الْمَفَرُّ( ۱۰ ) کَلاَّ لاَ وَزَرَ( ۱۱ ) إِلَى رَبِّکَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ( ۱۲ )

(۹) اور یہ چاند سورج اکٹھا کردیئے جائیں گے (۱۰) اس دن انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کا راستہ کدھر ہے (۱۱) ہرگز نہیں اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے (۱۲) اب سب کا مرکز تمہارے پروردگار کی طرف ہے

يُنَبَّأُالْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍبِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ( ۱۳ ) بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ( ۱۴ ) وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ‌( ۱۵ ) لاَ تُحَرِّکْ

(۱۳) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے پہلے اور بعد کیا کیا اعمال کئے ہیں (۱۴) بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے (۱۵) چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے (۱۶) دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں

بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ‌( ۱۶ ) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ‌( ۱۷ ) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‌( ۱۸ ) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‌( ۱۹ )

عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں (۱۷) یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں (۱۸) پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں (۱۹) پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے

۵۷۸

کَلاَّ بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ( ۲۰ ) وَ تَذَرُونَ الْآخِرَةَ( ۲۱ ) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ( ۲۲ ) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ( ۲۳ ) وَ

(۲۰) نہیں بلکہ تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو(۲۱)اورآخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو(۲۲) اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے (۲۳) اپنے پروردگار

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ( ۲۴ ) تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ( ۲۵ ) کَلاَّ إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ‌( ۲۶ ) وَ قِيلَ مَنْ رَاقٍ‌( ۲۷ )

کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے (۲۴) اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے (۲۵) جنہیں یہ خیال ہوگا کہ کب کمر توڑ مصیبت وارد ہوجائے (۲۶) ہوشیار جب جان گردن تک پہنچ جائے گی (۲۷) اور کہا جائے گا کہ اب کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے

وَ ظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ‌( ۲۸ ) وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ‌( ۲۹ ) إِلَى رَبِّکَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ‌( ۳۰ ) فَلاَ صَدَّقَ وَ لاَ

(۲۸) اور مرنے والے کو خیال ہوگا کہ اب سب سے جدائی ہے (۲۹) اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی (۳۰) آج سب کو پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا (۳۱) اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ

صَلَّى‌( ۳۱ ) وَ لٰکِنْ کَذَّبَ وَ تَوَلَّى‌( ۳۲ ) ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى‌( ۳۳ ) أَوْلَى لَکَ فَأَوْلَى‌( ۳۴ ) ثُمَّ أَوْلَى

نماز پڑھی(۳۲) بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا (۳۳)پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا (۳۴)افسوس ہے تیرے حال پر بہت افسوس ہے (۳۵)حیف ہے اور

لَکَ فَأَوْلَى‌( ۳۵ ) أَ يَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَکَ سُدًى‌( ۳۶ ) أَ لَمْ يَکُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى‌( ۳۷ ) ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً

صد حیف ہے (۳۶) کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ اسے اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے گا (۳۷) کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتا ہے (۳۸) پھر علقہ بنا پھر اسے

فَخَلَقَ فَسَوَّى‌( ۳۸ ) فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّکَرَ وَ الْأُنْثَى‌( ۳۹ ) أَ لَيْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى‌( ۴۰ )

خلق کرکے برابر کیا (۳۹) پھر اس سے عورت اور مرد کا جوڑا تیار کیا (۴۰) کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے

( سورة الانسان)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئاً مَذْکُوراً( ۱ ) إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ

(۱) یقینا انسان پر ایک ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے نہیں تھا (۲) یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعاً بَصِيراً( ۲ ) إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً( ۳ ) إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِينَ سَلاَسِلَ وَ

سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے (۳) یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے

(۴) بیشک ہم نے کافرین کے لئے زنجیریں - طوق اور بھڑکتے ہوئے

أَغْلاَلاً وَ سَعِيراً( ۴ ) إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُهَا کَافُوراً( ۵ )

شعلوں کا انتظام کیا ہے (۵) بیشک ہمارے نیک بندے اس پیالہ سے پئیں گے جس میں شراب کے ساتھ کافور کی آمیزش ہوگی

۵۷۹

عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيراً( ۶ ) يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخَافُونَ يَوْماً کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً( ۷ ) وَ

(۶) یہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے نیک بندے پئیں گے اور جدھر چاہیں گے بہاکر لے جائیں گے (۷) یہ بندے نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے (۸) یہ

يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْکِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً( ۸ ) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَ لاَ

اس کی محبت میں مسکینً یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں (۹) ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں

شُکُوراً( ۹ ) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً( ۱۰ ) فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذٰلِکَ الْيَوْمِ وَ لَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَ

نہ شکریہ (۱۰) ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی (۱۱) تو خدا نے انہیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی اور سرور

سُرُوراً( ۱۱ ) وَ جَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَ حَرِيراً( ۱۲ ) مُتَّکِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِکِ لاَ يَرَوْنَ فِيهَا شَمْساً وَ لاَ

عطا کردیا(۱۲)اور انہیں ان کے صبر کے عوض جنّت اور حریر جنّت عطا کرےگا(۱۳) جہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے نہ آفتاب کی گرمی دیکھیں

زَمْهَرِيراً( ۱۳ ) وَ دَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلاَلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلاً( ۱۴ ) وَ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَ أَکْوَابٍ

گے اور نہ سردی (۱۴) ان کے سروں پر قریب ترین سایہ ہوگا اور میوے بالکل ان کے اختیار میں کردیئے جائیں گے (۱۵) ان کے گرد چاندی کے پیالے اور شیشے کے

کَانَتْ قَوَارِيرَا( ۱۵ ) قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيراً( ۱۶ ) وَ يُسْقَوْنَ فِيهَا کَأْساً کَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلاً( ۱۷ )

ساغروں کی گردش ہوگی (۱۶) یہ ساغر بھی چاندی ہی کے ہوں گے جنہیں یہ لوگ اپنے پیمانہ کے مطابق بنالیں گے (۱۷) یہ وہاں ایسے پیالے سے سیراب کئے جائیں گے جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی

عَيْناً فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلاً( ۱۸ ) وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤاً مَنْثُوراً( ۱۹ ) وَ

(۱۸) جو جنّت کا ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے (۱۹) اور ان کے گرد ہمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررہے ہوں گے کہ تم انہیں دیکھو گے تو بکھرے ہوئے موتی معلوم ہوں گے (۲۰) اور

إِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيماً وَ مُلْکاً کَبِيراً( ۲۰ ) عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَ إِسْتَبْرَقٌ وَ حُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ

پھر دوبارہ دیکھو گے تو نعمتیں اور ایک ملک کبیر نظر آئے گا (۲۱) ان کے اوپر کریب کے سبز لباس اور ریشم کے حلّے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا پروردگار

وَ سَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُوراً( ۲۱ ) إِنَّ هٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَاءً وَ کَانَ سَعْيُکُمْ مَشْکُوراً( ۲۲ ) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْکَ

پاکیزہ شراب سے سیراب کرے گا (۲۲) یہ سب تمہاری جزا ہے اور تمہاری سعی قابل قبول ہے (۲۳) ہم نے آپ پر قرآن تدریجا نازل کیا ہے

الْقُرْآنَ تَنْزِيلاً( ۲۳ ) فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَ لاَ تُطِعْ مِنْهُمْ آثِماً أَوْ کَفُوراً( ۲۴ ) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَ أَصِيلاً( ۲۵ )

(۲۴) لہذا آپ حکم اَ خدا کی خاطر صبر کریں اور کسی گنہگار یا کافر کی بات میں نہ آجائیں (۲۵) اور صبح و شام اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرتے رہیں

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609