قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )9%

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ ) مؤلف:
: مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات: متن قرآن اور ترجمہ
صفحے: 609

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 609 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149254 / ڈاؤنلوڈ: 6403
سائز سائز سائز
قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

قرآن کریم ( اردو ترجمہ کے ساتھ )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

( سورة التحريم)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِکَ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ‌( ۱ ) قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَکُمْ تَحِلَّةَ

(۱) پیغمبر آپ اس شے کو کیوں ترک کررہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے (۲) خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم

أَيْمَانِکُمْ وَ اللَّهُ مَوْلاَکُمْ وَ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَکِيمُ‌( ۲ ) وَ إِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَ

کو کفارہ دے کر ختم کردیجئے اور اللہ آپ کا مولا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے (۳) اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے راز کی بات بتائی اور اس نے دوسری کو باخبر کردیا اور خدا نے

أَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هٰذَاقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ( ۳ )

نبی پر ظاہر کردیا تو نبی نے بعض باتوں کو اسے بتایا اور بعض سے اعراض کیا پھر جب اسے باخبر کیا تو اس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے تو آپ نے کہا کہ خدائے علیم و خبیرنے

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَ جِبْرِيلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَ

(۴) اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کرو گی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبریل اور نیک مومنین اور

الْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيرٌ( ۴ ) عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجاً خَيْراً مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ

ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں (۵) وہ اگر تمہیں طلاق بھی دے دے گا تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا مسلمہ, مومنہ,

قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَ أَبْکَاراً( ۵ ) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَ أَهْلِيکُمْ نَاراً

فرمانبردار, توبہ کرنے والی, عبادت گزار, روزہ رکھنے والی, کنواری اور غیر کنواری سب (۶) ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا

وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلاَئِکَةٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لاَ يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ‌( ۶ )

ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تندوتیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ کَفَرُوا لاَ تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ‌( ۷ )

(۷) اور اے کفر اختیار کرنے والو آج کوئی عذر پیش نہ کرو کہ آج تمہیں تمہارے اعمال کی سزا دی جائے گی

۵۶۱

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسَى رَبُّکُمْ أَنْ يُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ وَ يُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي

(۸) ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو عنقریب تمہارا پروردگار تمہاری برائیوں کو مٹا دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے

مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لاَ يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا

نہریں جاری ہوں گی اس دن خدا اپنے نبی اور صاحبانِ ایمان کو رسوا نہیں ہونے دے گا ان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا اور وہ کہیں گے کہ خدایا

أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلَى کُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ( ۸ ) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ

ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہمیں بخش دے کہ تو یقینا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے (۹) پیغمبر آپ کفر اور منافقین سے جہاد

عَلَيْهِمْ وَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ( ۹ ) ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَ امْرَأَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ

کریں اور ان پر سختی کریں اور ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہی بدترین انجام ہے (۱۰) خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ

عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ قِيلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ‌( ۱۰ ) وَ

دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنمّ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ (۱۱) اور

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَکَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ

خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے

وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‌( ۱۱ ) وَ مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ

اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے (۱۲) اور مریم بنت عمران علیہ السّلام کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے

بِکَلِمَاتِ رَبِّهَا وَ کُتُبِهِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌( ۱۲ )

کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی

۵۶۲

( سورة الملك)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

تَبَارَکَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْکُ وَ هُوَ عَلَى کُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ( ۱ ) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيَاةَ لِيَبْلُوَکُمْ أَيُّکُمْ أَحْسَنُ

(۱) بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھوں میں سارا ملک ہے اور وہ ہر شے پر قادر و مختار ہے (۲) اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حَسن عمل کے

عَمَلاً وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ( ۲ ) الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ

اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے اور وہ صاحب عزّت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے (۳) اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کئے ہیں اور تم رحمان کی خلقت میں کسی طرح کا فرق نہ دیکھو گے پھر دوبارہ

الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ( ۳ ) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْکَ الْبَصَرُ خَاسِئاً وَ هُوَ حَسِيرٌ( ۴ ) وَ لَقَدْ

نگاہ اٹھا کر دیکھو کہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے (۴) اس کے بعد بار بار نگاہ ڈالو دیکھو نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی لیکن کوئی عیب نظر نہ آئے گا (۵) ہم نے

زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَ جَعَلْنَاهَا رُجُوماً لِلشَّيَاطِينِ وَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ( ۵ ) وَ لِلَّذِينَ کَفَرُوا

آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور انہیں شیاطین کو سنگسار کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے اور ان کے لئے جہنمّ کا عذاب الگ مہیّا کر رکھا ہے (۶) اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ہے

بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ( ۶ ) إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقاً وَ هِيَ تَفُورُ( ۷ ) تَکَادُ تَمَيَّزُ مِنَ

ان کے لئے جہنمّ کا عذاب ہے اور وہی بدترین انجام ہے (۷) جب بھی وہ اس میں ڈالے جائیں گے اس کی چیخ سنیں گے اور وہ جوش مار رہا ہوگا (۸) بلکہ قریب ہوگا کہ جوش کی

الْغَيْظِ کُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَ لَمْ يَأْتِکُمْ نَذِيرٌ( ۸ ) قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَکَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا

شدت سے پھٹ پڑے جب بھی اس میں کسی گروہ کو ڈالا جائے گا تو اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا

(۹) تو وہ کہیں گے کہ آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلادیا اور یہ کہہ دیا

نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْ‌ءٍإِنْ أَنْتُمْ إِلاَّفِي ضَلاَلٍ کَبِيرٍ( ۹ ) وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ( ۱۰ )

کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو (۱۰) اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنّم والوں میں نہ ہوتے

فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقاً لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ( ۱۱ ) إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ أَجْرٌ کَبِيرٌ( ۱۲ )

(۱۱) تو انہوں نے خود اپنے گناہ کا اقرار کرلیا تو اب جہنم ّوالوں کے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے (۱۲) بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے پروردگار کا خوف رکھتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے

۵۶۳

وَ أَسِرُّوا قَوْلَکُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ( ۱۳ ) أَ لاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ( ۱۴ )

(۱۳) اور تم لوگ اپنی باتوں کو آہستہ کہو یا بلند آواز سے خدا تو سینوں کی رازوں کو بھی جانتا ہے (۱۴) اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا ہے جب کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاکِبِهَا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَ إِلَيْهِ النُّشُورُ( ۱۵ ) أَ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي

(۱۵) اسی نے تمہارے لئے زمین کو نرم بنادیا ہے کہ اس کے اطراف میں چلو اور رزق خدا تلاش کرو پھر اسی کی طرف قبروں سے اٹھ کر جانا ہے

(۱۶) کیا تم آسمان میں حکومت کرنے والے کی طرف سے مطمئن ہوگئے

السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ( ۱۶ ) أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْکُمْ حَاصِباً

کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ تمہیں گردش ہی دیتی رہے (۱۷) یا تم اس کی طرف سے اس بات سے محفوظ ہوگئے کہ وہ تمہاے اوپر پتھروں کی بارش کردے پھر تمہیں

فَسَتَعْلَمُونَ کَيْفَ نَذِيرِ( ۱۷ ) وَ لَقَدْ کَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَکَيْفَ کَانَ نَکِيرِ( ۱۸ ) أَ وَ لَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ

بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہوتا ہے (۱۸) اور ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی ہے تو دیکھو کہ ان کا انجام کتنا بھیانک ہوا ہے

(۱۹) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر ان پرندوں

فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَ يَقْبِضْنَ مَا يُمْسِکُهُنَّ إِلاَّ الرَّحْمٰنُ إِنَّهُ بِکُلِّ شَيْ‌ءٍ بَصِيرٌ( ۱۹ ) أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَکُمْ

کو نہیں دیکھا ہے جو پر پھیلا دیتے ہیں اور سمیٹ لیتے ہیں کہ انہیں اس فضا میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں سنبھال سکتا کہ وہی ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے (۲۰) کیا یہ جو تمہاری فوج بنا ہوا ہے

يَنْصُرُکُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ إِنِ الْکَافِرُونَ إِلاَّ فِي غُرُورٍ( ۲۰ ) أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي يَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِي

خدا کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہے - بیشک کفار صرف دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں (۲۱) یا یہ تم کو روزی دے سکتا ہے اگر خدا اپنی روزی کو روک لے - حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ

عُتُوٍّ وَ نُفُورٍ( ۲۱ ) أَ فَمَنْ يَمْشِي مُکِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيّاً عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‌( ۲۲ ) قُلْ

نافرمانی اورنفرت میں غرق ہوگئے ہیں(۲۲) کیا وہ شخص جو منہ کے بل چلتا ہے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا و سیدھے سیدھے صراظُ مستقیم پر چل رہا ہے

هُوَ الَّذِي أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلاً مَا تَشْکُرُونَ‌( ۲۳ ) قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَکُمْ فِي الْأَرْضِ

(۲۳) آپ کہہ دیجئے کہ خدا ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی نے تمہارے لئے کان آنکھ اور دل قرار دیئے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرنے والے ہو (۲۴) کہہ دیجئے کہ وہی وہ ہے جس نے زمین میں تمہیں پھیلا دیا ہے

وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ‌( ۲۴ ) وَيَقُولُونَ مَتَى هٰذَاالْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِينَ‌( ۲۵ ) قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَاللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۲۶ )

اور اسی کی طرف تمہیں جمع کرکے لے جایا جائے گا (۲۵) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگ سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا (۲۶) آپ کہہ دیجئے کہ علم اللہ کے پاس ہے اور میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

۵۶۴

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ کَفَرُوا وَ قِيلَ هٰذَا الَّذِي کُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ‌( ۲۷ ) قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَکَنِيَ اللَّهُ

(۲۷) پھر جب اس قیامت کے عذاب کو قریب دیکھیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب ہے جس کے تم خواستگار تھے (۲۸) آپ کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک

وَ مَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْکَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ‌( ۲۸ ) قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَکَّلْنَا

کردے یا ہم پر رحم کرے تو ان کافروں کا دردناک عذاب سے بچانے والا کون ہے (۲۹) کہہ دیجئے کہ وہی خدائے رحمان ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے

فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ‌( ۲۹ ) قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ يَأْتِيکُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ‌( ۳۰ )

پھر عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کِھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے (۳۰) کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارا سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی بہا کر کون لائے گا

( سورة القلم)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

ن وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُونَ‌( ۱ ) مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ‌( ۲ ) وَ إِنَّ لَکَ لَأَجْراً غَيْرَ مَمْنُونٍ‌( ۳ ) وَ إِنَّکَ

(۱) ن, قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں (۲) آپ اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہیں (۳) اور آپ کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے (۴) اور آپ

لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ‌( ۴ ) فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُونَ‌( ۵ ) بِأَيِّکُمُ الْمَفْتُونُ‌( ۶ ) إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ

بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں (۵) عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (۶) کہ دیوانہ کون ہے (۷) آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے

وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ‌( ۷ ) فَلاَ تُطِعِ الْمُکَذِّبِينَ‌( ۸ ) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ‌( ۹ ) وَ لاَ تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ

اور کون ہدایت یافتہ ہے (۸) لہذا آپ جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کریں (۹) یہ چاہتے ہیں کہ آپ ذرا نرم ہوجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں (۱۰) اور خبردار آپ کسی بھی مسلسل قسم کھانے والے

مَهِينٍ‌( ۱۰ ) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ‌( ۱۱ ) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ‌( ۱۲ ) عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِيمٍ‌( ۱۳ ) أَنْ کَانَ ذَا

ذلیل (۱۱) عیب جو اور اعلٰی درجہ کے چغلخور (۱۲) مال میں بیحد بخل کرنے والے, تجاوز گناہگار (۱۳) بدمزاج اور اس کے بعد بدنسل کی اطاعت نہ کریں (۱۴) صرف اس بات پر کہ یہ صاحب

مَالٍ وَ بَنِينَ‌( ۱۴ ) إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ‌( ۱۵ )

مال و اولاد ہے (۱۵) جب اس کے سامنے آیات الہیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ یہ سب اگلے لوگوں کی داستانیں ہیں

۵۶۵

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ‌( ۱۶ ) إِنَّابَلَوْنَاهُمْ کَمَابَلَوْنَاأَصْحَابَ الْجَنَّةِإِذْأَقْسَمُوالَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ‌( ۱۷ ) وَلاَيَسْتَثْنُونَ‌( ۱۸ )

(۱۶) ہم عنقریب اس کی ناک پر نشان لگادیں گے (۱۷) ہم نے ان کو اسی طرح آزمایا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح کو پھل توڑ لیں گے (۱۸) اور انشائ اللہ نہیں کہیں گے

فَطَافَ عَلَيْهَاطَائِفٌ مِنْ رَبِّکَ وَهُمْ نَائِمُونَ‌( ۱۹ ) فَأَصْبَحَتْ کَالصَّرِيمِ‌( ۲۰ ) فَتَنَادَوْامُصْبِحِينَ‌( ۲۱ ) أَنِ اغْدُواعَلَى

(۱۹) تو خدا کی طرف سے راتوں رات ایک بلا نے چکر لگایا جب یہ سب سورہے تھے (۲۰) اور سارا باغ جل کر کالی رات جیسا ہوگیا (۲۱) پھر صبح کو ایک نے دوسرے کو آواز دی (۲۲) کہ پھل توڑنا ہے تو اپنے اپنے

حَرْثِکُمْ إِنْکُنْتُمْ صَارِمِينَ‌( ۲۲ ) فَانْطَلَقُواوَهُمْ يَتَخَافَتُونَ‌( ۲۳ ) أَنْ لاَيَدْخُلَنَّهَاالْيَوْمَ عَلَيْکُمْ مِسْکِينٌ‌( ۲۴ ) وَغَدَوْاعَلَىحَرْدٍ

کھیت کی طرف چلو (۲۳) پھر سب گئے اس عالم میں کہ آپس میں راز دارانہ باتیں کررہے تھے (۲۴) کہ خبردار آج باغ میں کوئی مسکین داخل نہ ہونے پائے (۲۵) اور روک تھام کا بندوبست کرکے صبح سویرے پہنچ

قَادِرِينَ‌( ۲۵ ) فَلَمَّارَأَوْهَاقَالُواإِنَّالَضَالُّونَ‌( ۲۶ ) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ‌( ۲۷ ) قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ لَوْلاَ تُسَبِّحُونَ‌( ۲۸ )

گئے (۲۶) اب جو باغ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم تو بہک گئے (۲۷) بلکہ بالکل سے محروم ہوگئے (۲۸) تو ان کے منصف مزاج نے کہا کہ میں نے نہ کہا

قَالُواسُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّاکُنَّا ظَالِمِينَ‌( ۲۹ ) فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلاَوَمُونَ‌( ۳۰ ) قَالُوا يَاوَيْلَنَاإِنَّاکُنَّا طَاغِينَ‌( ۳۱ )

تھا کہ تم لوگ تسبیح پروردگار کیوں نہیں کرتے (۲۹) کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک و بے نیاز ہے اور ہم واقعا ظالم تھے (۳۰) پھر ایک نے دوسرے کو ملامت کرنا شروع کردی (۳۱) کہنے لگے کہ افسوس ہم بالکل سرکش تھے

عَسَى رَبُّنَاأَنْ يُبْدِلَنَاخَيْراًمِنْهَاإِنَّاإِلَى رَبِّنَارَاغِبُونَ‌( ۳۲ ) کَذٰلِکَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِأَکْبَرُ لَوْکَانُوا يَعْلَمُونَ‌( ۳۳ ) إِنَّ

(۳۲) شائد ہمارا پروردگار ہمیں اس سے بہتر دے دے کہ ہم اس کی طرف رغبت کرنے والے ہیں (۳۳) اسی طرح عذاب نازل ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بڑا ہے اگر انہیں علم ہو (۳۴) بیشک صاحبانِ تقویٰ کے لئے پروردگار

لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَرَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ‌( ۳۴ ) أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ کَالْمُجْرِمِينَ‌( ۳۵ ) مَالَکُمْ کيْفَ تَحْکُمُونَ‌( ۳۶ )

کے یہاں نعمتوں کی جنّت ہے (۳۵) کیا ہم اطاعت گزار وں کو مجرموں جیسا بنا دیں (۳۶) تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسا فیصلہ کر رہے ہو

أَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ‌( ۳۷ ) إِنَّ لَکُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ‌( ۳۸ ) أَمْ لَکُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَابَالِغَةٌإِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَکُمْ لَمَا

(۳۷) یا تمہاری کوئی کتاب ہے جس میں یہ سب پڑھا کرتے ہو (۳۸) کہ وہاں تمہاری پسند کی ساری چیزیں حاضر ملیں گی (۳۹) یا تم نے ہم سے روزِ قیامت تک کی قسمیں لے رکھی ہیں کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جس کا تم فیصلہ کرو

تَحْکُمُونَ‌( ۳۹ ) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذٰلِکَ زَعِيمٌ‌( ۴۰ ) أَمْ لَهُمْ شُرَکَاءُ فَلْيَأْتُوابِشُرَکَائِهِمْ إِنْ کَانُوا صَادِقِينَ‌( ۴۱ ) يَوْمَ يُکْشَفُ

گے(۴۰)ان سے پوچھئے کہ ان سب باتوں کا ذمہ دار کون ہے(۴۱)یا ان کے لئے شرکائ ہیں تواگر یہ سچے ہیں تو اپنے شرکائ کو لے آئیں(۴۲)جس دن پنڈلی

عَنْ سَاقٍ وَ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلاَ يَسْتَطِيعُونَ‌( ۴۲ )

کھول دی جائے گی اور انہیں سجدوں کی دعوت دی جائے گی اور یہ سجدہ بھی نہ کرسکیں گے

۵۶۶

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَ قَدْ کَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَ هُمْ سَالِمُونَ‌( ۴۳ ) فَذَرْنِي وَ مَنْ يُکَذِّبُ

(۴۳) ان کی نگاہیں شرم سے جھکی ہوں گی ذلّت ان پر چھائی ہوگی اور انہیں اس وقت بھی سجدوں کی دعوت دی جارہی تھی جب یہ بالکل صحیح و سالم تھے (۴۴) تو اب مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو

بِهٰذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ‌( ۴۴ ) وَ أُمْلِي لَهُمْ إِنَّ کَيْدِي مَتِينٌ‌( ۴۵ ) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْراً

ہم عنقریب انہیں اس طرح گرفتار کریں گے کہ انہیں اندازہ بھی نہ ہوگا (۴۵) اور ہم تو اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہماری تدبیر مضبوط ہے

(۴۶) کیا آپ ان سے مزدوری مانگ رہے ہیں

فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ‌( ۴۶ ) أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَکْتُبُونَ‌( ۴۷ ) فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَ لاَ تَکُنْ کَصَاحِبِ

جو یہ اس کے تاوان کے بوجھ سے دبے جارہے ہیں (۴۷) یا ان کے پاس کوئی غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں (۴۸) اب آپ اپنے پروردگار کے حکم کے لئے صبر کریں اور صاحب حوت جیسے نہ ہوجائیں

الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَ هُوَ مَکْظُومٌ‌( ۴۸ ) لَوْ لاَ أَنْ تَدَارَکَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَ هُوَ مَذْمُومٌ‌( ۴۹ ) فَاجْتَبَاهُ

جب انہوں نے نہایت غصّہ کے عالم میں آواز دی تھی (۴۹) کہ اگر انہیں نعمت پروردگار نے سنبھال نہ لیا ہوتا تو انہیں چٹیل میدان میں برے حالوں میں چھوڑ دیا جاتا (۵۰) پھر ان کے رب نے انہیں منتخب

رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ‌( ۵۰ ) وَ إِنْ يَکَادُ الَّذِينَ کَفَرُوا لَيُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَ يَقُولُونَ إِنَّهُ

کرکے نیک کرداروں میں قرار دے دیا (۵۱) اور یہ کفاّر قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلادیں گے اور یہ کہتے ہیں

لَمَجْنُونٌ‌( ۵۱ ) وَ مَا هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِينَ‌( ۵۲ )

کہ یہ تو دیوانے ہیں (۵۲) حالانکہ یہ قرآن عالمین کے لئے نصیحت ہے اور بس

( سورة الحاقة)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

الْحَاقَّةُ( ۱ ) مَا الْحَاقَّةُ( ۲ ) وَ مَا أَدْرَاکَ مَا الْحَاقَّةُ( ۳ ) کَذَّبَتْ ثَمُودُ وَ عَادٌ بِالْقَارِعَةِ( ۴ ) فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِکُوا

(۱) یقینا پیش آنے والی قیامت (۲) اور کیسی پیش آنے والی (۳) اور تم کیا جانو کہ یہ یقینا پیش آنے والی شے کیا ہے (۴) قوم ثمود و عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی کا انکار کیا تھا (۵) تو ثمود ایک چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک

بِالطَّاغِيَةِ( ۵ ) وَ أَمَّا عَادٌ فَأُهْلِکُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ( ۶ ) سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُوماً

کردیئے گئے (۶) اور عاد کو انتہائی تیز و تند آندھی سے برباد کردیا گیا (۷) جسے ان کے اوپر سات رات اور آٹھ دن کے لئے مسلسل مسخّرکردیا گیا تو تم

فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى کَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ( ۷ ) فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ( ۸ )

دیکھتے ہو کہ قوم بالکل مردہ پڑی ہوئی ہے جیسے کھوکھلے کھجور کے درخت کے تنے

۵۶۷

وَ جَاءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهُ وَ الْمُؤْتَفِکَاتُ بِالْخَاطِئَةِ( ۹ ) فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَابِيَةً( ۱۰ ) إِنَّا لَمَّا

(۸) تو کیا تم ان کا کوئی باقی رہنے والا حصہّ دیکھ رہے ہو (۹) اور فرعون اور اس سے پہلے اور الٹی بستیوں والے سب نے غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے (۱۰) کہ پروردگار کے نمائندہ کی

طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِي الْجَارِيَةِ( ۱۱ ) لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَ تَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ( ۱۲ ) فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ

نافرمانی کی تو پروردگار نے انہیں بڑی سختی سے پکڑ لیا (۱۱) ہم نے تم کو اس وقت کشتی میں اٹھالیا تھا جب پانی سر سے چڑھ رہا تھا (۱۲) تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سن لیں (۱۳) پھر جب صور میں پہلی مرتبہ پھونکا

نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ( ۱۳ ) وَ حُمِلَتِ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَاحِدَةً( ۱۴ ) فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ( ۱۵ ) وَ

جائے گا (۱۴) اور زمین اور پہاڑوں کو اکھاڑ کر ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا (۱۵) تو اس دن قیامت واقع ہوجائے گی (۱۶) اور

انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ( ۱۶ ) وَ الْمَلَکُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ( ۱۷ )

آسمان شق ہوکر بالکل پھس پھسے ہوجائیں گے (۱۷) اور فرشتے اس کے اطراف پر ہوں گے اور عرش الہٰی کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنْکُمْ خَافِيَةٌ( ۱۸ ) فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ کِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا کِتَابِيَهْ‌( ۱۹ ) إِنِّي

(۱۸) اس دن تم کو منظر عام پر لایا جائے گا اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی (۱۹) پھر جس کو نامئہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ سب سے کہے گا کہ ذرا میرا نامئہ اعمال تو پڑھو (۲۰) مجھے

ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاَقٍ حِسَابِيَهْ‌( ۲۰ ) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ( ۲۱ ) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ( ۲۲ ) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ( ۲۳ ) کُلُوا

پہلے ہی معلوم تھا کہ میرا حساب مجھے ملنے والا ہے (۲۱) پھر وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا (۲۲) بلند ترین باغات میں (۲۳) اس کے میوے قریب قریب ہوں گے (۲۴) اب آرام سے کھاؤ

وَ اشْرَبُوا هَنِيئاً بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ( ۲۴ ) وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ کِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ کِتَابِيَهْ‌( ۲۵ )

پیو کہ تم نےگزشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے(۲۵)لیکن جس کو نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائےگا وہ کہےگا اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا

وَ لَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ‌( ۲۶ ) يَا لَيْتَهَا کَانَتِ الْقَاضِيَةَ( ۲۷ ) مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ‌( ۲۸ ) هَلَکَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ‌( ۲۹ )

(۲۶) اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ہوتا (۲۷) اے کاش اس موت ہی نے میرا فیصلہ کردیا ہوتا (۲۸) میرا مال بھی میرے کام نہ آیا (۲۹) اور میری حکومت بھی برباد ہوگئی

خُذُوهُ فَغُلُّوهُ‌( ۳۰ ) ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ‌( ۳۱ ) ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوهُ‌( ۳۲ ) إِنَّهُ کَانَ لاَ

(۳۰) اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو (۳۱) پھر اسے جہنم ّمیں جھونک دو (۳۲) پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو (۳۳) یہ خدائے عظیم پر

يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ‌( ۳۳ ) وَ لاَ يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکِينِ‌( ۳۴ )

ایمان نہیں رکھتا تھا (۳۴) اور لوگوں کو مسکینوں کو کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا

۵۶۸

فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ‌( ۳۵ ) وَ لاَ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ غِسْلِينٍ‌( ۳۶ ) لاَ يَأْکُلُهُ إِلاَّ الْخَاطِئُونَ‌( ۳۷ ) فَلاَ أُقْسِمُ

(۳۵) تو آج اس کا یہاں کوئی غمخوار نہیں ہے (۳۶) اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے (۳۷) جسے گنہگاروں کے علاوہ کوئی نہیں کھاسکتا (۳۸) میں اس کی بھی قسم کھاتا

بِمَا تُبْصِرُونَ‌( ۳۸ ) وَ مَا لاَ تُبْصِرُونَ‌( ۳۹ ) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِيمٍ‌( ۴۰ ) وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلاً مَا

ہوں جسے تم دیکھ رہے ہو (۳۹) اور اس کی بھی جس کو نہیں دیکھ رہے ہو (۴۰) کہ یہ ایک محترم فرشتے کا بیان ہے (۴۱) اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ہاں تم بہت کم

تُؤْمِنُونَ‌( ۴۱ ) وَ لاَ بِقَوْلِ کَاهِنٍ قَلِيلاً مَا تَذَکَّرُونَ‌( ۴۲ ) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ‌( ۴۳ ) وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا

ایمان لاتے ہو (۴۲) اور یہ کسی کاہن کا کلام نہیں ہے جس پر تم بہت کم غور کرتے ہو (۴۳) یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے (۴۴) اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے

بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ‌( ۴۴ ) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ‌( ۴۵ ) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ‌( ۴۶ ) فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ

کوئی بات گڑھ لیتا (۴۵) تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے (۴۶) اور پھر اس کی گردن اڑادیتے (۴۷) پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے

حَاجِزِينَ‌( ۴۷ ) وَ إِنَّهُ لَتَذْکِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ‌( ۴۸ ) وَ إِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْکُمْ مُکَذِّبِينَ‌( ۴۹ ) وَ إِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى

والا نہ ہوتا (۴۸) اور یہ قرآن صاحبانِ تقویٰ کے لئے نصیحت ہے (۴۹) اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے جھٹلانے والے بھی ہیں (۵۰) اور یہ

الْکَافِرِينَ‌( ۵۰ ) وَ إِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ‌( ۵۱ ) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيمِ‌( ۵۲ )

کافرین کے لئے باعث حسرت ہے (۵۱) اور یہ بالکل یقینی چیز ہے (۵۲) لہذا آپ اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کریں

( سورة المعارج)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ‌( ۱ ) لِلْکَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ‌( ۲ ) مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ‌( ۳ ) تَعْرُجُ الْمَلاَئِکَةُ وَ

(۱) ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا (۲) جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے (۳) یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے (۴) جس کی طرف فرشتے اور

الرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ( ۴ ) فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِيلاً( ۵ ) إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً( ۶ ) وَ نَرَاهُ

روح الامین بلند ہوتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے (۵) لہذا آپ بہترین صبر سے کام لیں (۶) یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں (۷) اور ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے

قَرِيباً( ۷ ) يَوْمَ تَکُونُ السَّمَاءُ کَالْمُهْلِ‌( ۸ ) وَ تَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِهْنِ‌( ۹ ) وَ لاَ يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً( ۱۰ )

ہیں (۸) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوجائے گا (۹) اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون جیسے (۱۰) اور کوئی ہمدرد کسی ہمدرد کا پرسانِ حال نہ ہوگا

۵۶۹

يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ‌( ۱۱ ) وَ صَاحِبَتِهِ وَ أَخِيهِ‌( ۱۲ ) وَ فَصِيلَتِهِ الَّتِي

(۱۱) وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے (۱۲) اوربیوی اور بھائی کو (۱۳) اور اس کنبہ کو جس

تُؤْوِيهِ‌( ۱۳ ) وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ يُنْجِيهِ‌( ۱۴ ) کَلاَّ إِنَّهَا لَظَى‌( ۱۵ ) نَزَّاعَةً لِلشَّوَى‌( ۱۶ ) تَدْعُو مَنْ

میں وہ رہتا تھا (۱۴) اور روئے زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے (۱۵) ہرگز نہیں یہ آتش جہنمّ ہے (۱۶) کھال اتار دینے والی

(۱۷) ان سب کو آواز دے رہی ہے

أَدْبَرَ وَ تَوَلَّى‌( ۱۷ ) وَ جَمَعَ فَأَوْعَى‌( ۱۸ ) إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً( ۱۹ ) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً( ۲۰ ) وَ إِذَا

جو منہ پھیر کر جانے والے تھے (۱۸) اور جنہوں نے مال جمع کرکے بند کر رکھا تھا (۱۹) بیشک انسان بڑا لالچی ہے (۲۰) جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے (۲۱) اور جب

مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً( ۲۱ ) إِلاَّ الْمُصَلِّينَ‌( ۲۲ ) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ دَائِمُونَ‌( ۲۳ ) وَ الَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ

مال مل جاتا ہے تو بخیل ہو جاتا ہے (۲۲) علاوہ ان نمازیوں کے (۲۳) جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں (۲۴) اور جن کے اموال میں ایک

مَعْلُومٌ‌( ۲۴ ) لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ‌( ۲۵ ) وَ الَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ‌( ۲۶ ) وَ الَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ

مقررہ حق معین ہے (۲۵) مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے (۲۶) اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں (۲۷) اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے

مُشْفِقُونَ‌( ۲۷ ) إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ‌( ۲۸ ) وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ‌( ۲۹ ) إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ

والے ہیں (۲۸) بیشک عذاب پروردگار بے خوف رہنے والی چیز نہیں ہے (۲۹) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں (۳۰) علاوہ اپنی بیویوں

أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ‌( ۳۰ ) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ هُمُ العَادُونَ‌( ۳۱ ) وَ الَّذِينَ

اور کنیزوں کے کہ اس پر ملامت نہیں کی جاتی ہے (۳۱) پھر جو اس کے علاوہ کا خواہشمند ہو وہ حد سے گزر جانے والا ہے (۳۲) اور جو

هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رَاعُونَ‌( ۳۲ ) وَ الَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ‌( ۳۳ ) وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ

اپنی امانتوں اور عہد کا خیال رکھنے والے ہیں (۳۳) اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں (۳۴) اور جو اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے

يُحَافِظُونَ‌( ۳۴ ) أُولٰئِکَ فِي جَنَّاتٍ مُکْرَمُونَ‌( ۳۵ ) فَمَا لِ الَّذِينَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُهْطِعِينَ‌( ۳۶ ) عَنِ الْيَمِينِ وَ

ہیں(۳۵)یہی لوگ جنّت میں باعزّت طریقہ سے رہنے والے ہیں(۳۶)پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپکی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں(۳۷) داہیں

عَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ‌( ۳۷ ) أَيَطْمَعُ کُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ‌( ۳۸ ) کَلاَّ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ‌( ۳۹ )

بائیں سے گروہ در گروہ (۳۸) کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے (۳۹) ہرگز نہیں انہیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے

۵۷۰

فَلاَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَ الْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ‌( ۴۰ ) عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ خَيْراً مِنْهُمْ وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ‌( ۴۱ )

(۴۰) میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں (۴۱) اس بات پر کہ ان کے بدلے ان سے بہتر افراد لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَ يَلْعَبُوا حَتَّى يُلاَقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ‌( ۴۲ ) يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعاً کَأَنَّهُمْ إِلَى

(۴۲) لہذا انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنے باطل میں ڈوبے رہیں اور کھیل تماشہ کرتے رہیں یہاں تک کہ اس دن سے ملاقات کریں جس کا وعدہ کیا گیا ہے (۴۳) جس دن یہ سب قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے جس طرح

نُصُبٍ يُوفِضُونَ‌( ۴۳ ) خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذٰلِکَ الْيَوْمُ الَّذِي کَانُوا يُوعَدُونَ‌( ۴۴ )

کسی پرچم کی طرف بھاگے جارہے ہوں (۴۴) ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ذلت ان پر چھائی ہوگی اور یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے

( سورة نوح)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحاًإِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ‌( ۱ ) قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَکُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ‌( ۲ )

(۱) بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈراؤ (۲) انہوں نے کہا اے قوم میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اتَّقُوهُ وَ أَطِيعُونِ‌( ۳ ) يَغْفِرْ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ وَ يُؤَخِّرْکُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا

(۳) کہ اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (۴) وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے

جَاءَلاَ يُؤَخَّرُ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ‌( ۴ ) قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاً وَ نَهَاراً( ۵ ) فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلاَّ فِرَاراً( ۶ )

گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو (۵) انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی (۶) پھر بھی میری دعوت کا کوئی اثر سوائے اس کے نہ ہوا کہ انہوں نے فرار اختیار کیا

وَإِنِّي کُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَاراً( ۷ )

(۷) اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا اور اپنے کپڑے اوڑھ لئے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدت سے اکڑے رہے

ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَاراً( ۸ ) ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَاراً( ۹ ) فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّاراً( ۱۰ )

(۸) پھر میں نے ان کو علی الاعلان دعوت دی (۹) پھر میں نے اعلان بھی کیا اور خفیہ طور سے بھی دعوت دی (۱۰) اور کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے

۵۷۱

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَاراً( ۱۱ ) وَ يُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَ بَنِينَ وَ يَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَ يَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَاراً( ۱۲ )

(۱۱) وہ تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا (۱۲) اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں قرار دے گا

مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَاراً( ۱۳ ) وَ قَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَاراً( ۱۴ ) أَ لَمْ تَرَوْا کَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً( ۱۵ )

(۱۳) آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا خیال نہیں کرتے ہو (۱۴) جب کہ اسی نے تمہیں مختلف انداز میں پیدا کیا ہے (۱۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں

وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً( ۱۶ ) وَ اللَّهُ أَنْبَتَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً( ۱۷ ) ثُمَّ يُعِيدُکُمْ

(۱۶) اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے (۱۷) اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے (۱۸) پھر تمہیں اسی میں لے

فِيهَا وَ يُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجاً( ۱۸ ) وَ اللَّهُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطاً( ۱۹ ) لِتَسْلُکُوا مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجاً( ۲۰ )

جائے گا اور پھر نئی شکل میں نکالے گا (۱۹) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنادیا ہے (۲۰) تاکہ تم اس میں مختلف کشادہ راستوں پر چلو

قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَ اتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَ وَلَدُهُ إِلاَّ خَسَاراً( ۲۱ ) وَ مَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً( ۲۲ ) وَ

(۲۱) اور نوح نے کہا کہ پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور اس کا اتباع کرلیا ہے جو مال و اولاد میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں دے سکتا ہے (۲۲) اور ان لوگوں نے بہت بڑا مکر کیا ہے (۲۳) اور

قَالُوا لاَ تَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَ لاَ تَذَرُنَّ وَدّاً وَ لاَ سُوَاعاً وَ لاَ يَغُوثَ وَ يَعُوقَ وَ نَسْراً( ۲۳ ) وَ قَدْ أَضَلُّوا کَثِيراً وَ لاَ

لوگوں سے کہا ہے کہ خبردار اپنے خداؤں کو مت چھوڑ دینا اور ود, سواع, یغوث, یعوق, نسر کو نظرانداز نہ کردینا (۲۴) انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کردیا

تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلاَّ ضَلاَلاً( ۲۴ ) مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَاراً فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَاراً( ۲۵ ) وَ

ہے اب تو ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرنا (۲۵) یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنم ّمیں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے (۲۶) اور

قَالَ نُوحٌ رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِينَ دَيَّاراً( ۲۶ ) إِنَّکَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَکَ وَ لاَ يَلِدُوا إِلاَّ

نوح نے کہا کہ پروردگار اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا (۲۷) کہ تو انہیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور

فَاجِراً کَفَّاراً( ۲۷ ) رَبِّ اغْفِرْ لِي وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً وَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ لاَ تَزِدِ

فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے (۲۸) پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے

الظَّالِمِينَ إِلاَّ تَبَاراً( ۲۸ )

اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شے میں اضافہ نہ کرن

۵۷۲

( سورة الجن)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً( ۱ ) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَ لَنْ

(۱) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے (۲) جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم تو اس پر

نُشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَداً( ۲ ) وَ أَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَ لاَ وَلَداً( ۳ ) وَ أَنَّهُ کَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى

ایمان لے آئے ہیں اور کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (۳) اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا (۴) اور ہمارے بیوقوف لوگ طرح طرح کی بے

اللَّهِ شَطَطاً( ۴ ) وَ أَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلَى اللَّهِ کَذِباً( ۵ ) وَ أَنَّهُ کَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ

ربط باتیں کررہے ہیں (۵) اور ہمارا خیال تو یہی تھا کہ انسان اور جناّت خدا کے خلاف جھوٹ نہ بولیں گے (۶) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جناّت کے بعض لوگوں

يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقاً( ۶ ) وَ أَنَّهُمْ ظَنُّوا کَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَداً( ۷ ) وَ أَنَّا

کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوں نے گرفتاری میں اور اضافہ کردیا (۷) اور یہ کہ تمہاری طرح ان کا بھی خیال تھا کہ خدا کسی کو دوبارہ نہیں زندہ کرے گا

(۸) اور ہم نے

لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَ شُهُباً( ۸ ) وَ أَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ

آسمان کو دیکھا تواسے سخت قسم کے نگہبانوں اورشعلوں سے بھرا ہوا پایا(۹)اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتےتھے لیکن اب کوئی سننا چاہے

الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَاباً رَصَداً( ۹ ) وَ أَنَّا لاَ نَدْرِي أَ شَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَداً( ۱۰ ) وَ أَنَّا

گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا(۱۰)اور ہمیں نہیں معلوم کہ اہل زمین کے لئے اس سے برائی مقصود ہےیا نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے(۱۱)اور ہم میں سے

مِنَّا الصَّالِحُونَ وَ مِنَّا دُونَ ذٰلِکَ کُنَّا طَرَائِقَ قِدَداً( ۱۱ ) وَ أَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَ لَنْ نُعْجِزَهُ

بعض نیک کردار ہیں اور بعض کے علاوہ ہیں اور ہم طرح طرح کے گروہ ہیں (۱۲) اور ہمارا خیال ہے کہ ہم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اسے اپنی گرفت

هَرَباً( ۱۲ ) وَ أَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلاَ يَخَافُ بَخْساً وَ لاَ رَهَقاً( ۱۳ )

سے عاجز کرسکتے ہیں (۱۳) اور ہم نے ہدایت کو سنا تو ہم تو ایمان لے آئے اب جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا اسے نہ خسارہ کا خوف ہوگا اور نہ ظلم و زیادتی کا

۵۷۳

وَ أَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَ مِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولٰئِکَ تَحَرَّوْا رَشَداً( ۱۴ ) وَ أَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَهَنَّمَ

(۱۴) اور ہم میں سے بعض اطاعت گزار ہیں اور بعض نافرمان اور جو اطاعت گزار ہوگا اس نے ہدایت کی راہ پالی ہے (۱۵) اور نافرمان تو جہنمّ کے

حَطَباً( ۱۵ ) وَ أَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقاً( ۱۶ ) لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَ مَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ

کندے ہوگئے ہیں (۱۶) اور اگر یہ لوگ سب ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے (۱۷) تاکہ ان کا امتحان لے سکیں اور جو بھی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرے گا

رَبِّهِ يَسْلُکْهُ عَذَاباً صَعَداً( ۱۷ ) وَ أَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلاَ تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً( ۱۸ ) وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ

اسے سخت عذاب کے راستے پر چلنا پڑے گا (۱۸) اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا (۱۹) اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کے لئے کھڑا ہوا

يَدْعُوهُ کَادُوا يَکُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً( ۱۹ ) قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَ لاَ أُشْرِکُ بِهِ أَحَداً( ۲۰ ) قُلْ إِنِّي لاَ أَمْلِکُ لَکُمْ

تو قریب تھا کہ لوگ اس کے گرد ہجوم کرکے گر پڑتے (۲۰) پیغمبرآپ کہہ دیجئے کہ میں صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا ہوں (۲۱) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے کسی

ضَرّاً وَ لاَ رَشَداً( ۲۱ ) قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَ لَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً( ۲۲ ) إِلاَّ بَلاَغاً مِنَ اللَّهِ وَ

نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ فائدہ کا (۲۲) کہہ دیجئے کہ اللہ کے مقابلہ میں میرا بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے اور نہ میں کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں (۲۳) مگر یہ کہ اپنے رب کے احکام اور

رِسَالاَتِهِ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً( ۲۳ ) حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ

پیغام کو پہنچادوں اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ّہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے (۲۴) یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے اس عذاب کو دیکھ لیا جس کا وعدہ کیا گیا

فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِراً وَ أَقَلُّ عَدَداً( ۲۴ ) قُلْ إِنْ أَدْرِي أَ قَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَداً( ۲۵ )

تھا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور اور کس کی تعداد کمتر ہے (۲۵) کہہ دیجئے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وعدہ قریب ہی ہے یا ابھی خدا کوئی اور مدّت بھی قرار دے گا

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً( ۲۶ ) إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُکُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ

(۲۶) وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے (۲۷) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے

خَلْفِهِ رَصَداً( ۲۷ ) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالاَتِ رَبِّهِمْ وَ أَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَ أَحْصَى کُلَّ شَيْ‌ءٍ عَدَداً( ۲۸ )

مقرر کردیتا ہے (۲۸) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچادیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہے

۵۷۴

( سورة المزمل)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ‌( ۱ ) قُمِ اللَّيْلَ إِلاَّ قَلِيلاً( ۲ ) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلاً( ۳ ) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً( ۴ )

(۱)اے میرے چادر لپیٹنے والے(۲)رات کو اٹھو مگرذراکم(۳)آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو(۴)یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو

إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْکَ قَوْلاً ثَقِيلاً( ۵ ) إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً وَ أَقْوَمُ قِيلاً( ۶ ) إِنَّ لَکَ فِي النَّهَارِ سَبْحاً

(۵) ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نازل کرنے والے ہیں (۶) بیشک رات کا اُٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے (۷) یقینا آپ کے لئے دن میں بہت سے

طَوِيلاً( ۷ ) وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً( ۸ ) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَکِيلاً( ۹ )

مشغولیات ہیں (۸) اور آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کریں اور اسی کے ہو رہیں (۹) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا آپ اسی کو اپنا نگراں بنالیں

وَ اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً( ۱۰ ) وَ ذَرْنِي وَ الْمُکَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَ مَهِّلْهُمْ قَلِيلاً( ۱۱ )

(۱۰) اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں (۱۱) اور ہمیں اور ان دولت مند جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیں

إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالاً وَ جَحِيماً( ۱۲ ) وَ طَعَاماً ذَا غُصَّةٍ وَ عَذَاباً أَلِيماً( ۱۳ ) يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ وَ

(۱۲) ہمارے پاس ان کے لئے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے (۱۳) اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے (۱۴) جس دن زمین اور پہاڑ لرزہ میں آجائیں گے

کَانَتِ الْجِبَالُ کَثِيباً مَهِيلاً( ۱۴ ) إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْکُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً( ۱۵ )

اور پہاڑ ریت کا ایک ٹیلہ بن جائیں گے(۱۵)بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بناکر ایک رسول بھیجا ہےجس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا

فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذاً وَبِيلاً( ۱۶ ) فَکَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ کَفَرْتُمْ يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيباً( ۱۷ )

(۱۶) تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا (۱۷) پھر تم بھی کفر اختیار کرو گے تو اس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا

السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ کَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً( ۱۸ ) إِنَّ هٰذِهِ تَذْکِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً( ۱۹ )

(۱۸) جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہونے والا ہے (۱۹) یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے

۵۷۵

إِنَّ رَبَّکَ يَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَ نِصْفَهُ وَ ثُلُثَهُ وَ طَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَکَ وَ اللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَ

(۲۰) آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے

النَّهَارَ عَلِمَ أَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْکُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَکُونُ مِنْکُمْ مَرْضَى وَ آخَرُونَ

وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائیں گے اور

يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ آخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَ أَقِيمُوا

بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور

الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّکَاةَ وَ أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْراً وَ

زکوٰة ادا کرواور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاوگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار

أَعْظَمَ أَجْراً وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ( ۲۰ )

سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے

( سورة المدثر)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ( ۱ ) قُمْ فَأَنْذِرْ( ۲ ) وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ( ۳ ) وَ ثِيَابَکَ فَطَهِّرْ( ۴ ) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ( ۵ ) وَ لاَ تَمْنُنْ

(۱) اے میرے کپڑا اوڑھنے والے (۲) اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ (۳) اور اپنے رب کی بزرگی کا اعلان کرو (۴) اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو (۵) اور برائیوں سے پرہیز کرو (۶) اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار

تَسْتَکْثِرُ( ۶ ) وَ لِرَبِّکَ فَاصْبِرْ( ۷ ) فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ( ۸ ) فَذٰلِکَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ( ۹ ) عَلَى الْکَافِرِينَ

بن جاؤ (۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو (۸) پھر جب صور پھونکا جائے گا (۹) تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا (۱۰) کافروں کے واسطے تو ہر گز

غَيْرُ يَسِيرٍ( ۱۰ ) ذَرْنِي وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِيداً( ۱۱ ) وَ جَعَلْتُ لَهُ مَالاً مَمْدُوداً( ۱۲ ) وَ بَنِينَ شُهُوداً( ۱۳ ) وَ

آسان نہ ہوگا (۱۱) اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے (۱۲) اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے (۱۳) اور نگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دیئے ہیں (۱۴) اور

مَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيداً( ۱۴ ) ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ( ۱۵ ) کَلاَّ إِنَّهُ کَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيداً( ۱۶ ) سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً( ۱۷ )

ہر طرح کے سامان میں وسعت دے دی ہے (۱۵) اور پھر بھی چاہتا ہے کہ اور اضافہ کردوں (۱۶) ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا (۱۷) تو ہم عنقریب اسے سخت عذاب میں گرفتار کریں گے

۵۷۶

إِنَّهُ فَکَّرَوَقَدَّرَ( ۱۸ ) فَقُتِلَ کَيْفَ قَدَّرَ( ۱۹ ) ثُمَّ قُتِلَ کَيْفَ قَدَّرَ( ۲۰ ) ثُمَّ نَظَرَ( ۲۱ ) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ( ۲۲ ) ثُمَّأَدْبَرَ وَ

(۱۸) اس نے فکر کی اور اندازہ لگایا (۱۹) تو اسی میں مارا گیا کہ کیسا اندازہ لگایا (۲۰) پھر اسی میں اور تباہ ہوگیا کہ کیسا اندازہ لگایا (۲۱) پھر غور کیا (۲۲) پھر تیوری چڑھا کر منہ بسور لیا (۲۳) پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور

اسْتَکْبَرَ( ۲۳ ) فَقَالَ إِنْ هٰذَا إِلاَّ سِحْرٌ يُؤْثَرُ( ۲۴ ) إِنْ هٰذَاإِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ( ۲۵ ) سَأُصْلِيهِ سَقَرَ( ۲۶ ) وَ مَا أَدْرَاکَ مَا

اکڑ گیا (۲۴) اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے (۲۵) یہ تو صرف انسان کا کلام ہے (۲۶) ہم عنقریب اسے جہنمّ واصل کردیں گے (۲۷) اور تم کیا جانو کہ جہنمّ

سَقَرُ( ۲۷ ) لاَ تُبْقِي وَلاَ تَذَرُ( ۲۸ ) لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ( ۲۹ ) عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ( ۳۰ ) وَمَاجَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِإِلاَّ مَلاَئِکَةً وَ

کیا ہے (۲۸) وہ کسی کو چھوڑنے والا اور باقی رکھنے والا نہیں ہے (۲۹) بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے (۳۰) اس پر انیس فرشتے معین ہیں (۳۱) اور ہم نے جہنمّ کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور

مَاجَعَلْنَاعِدَّتَهُمْ إِلاَّ فِتْنَةً لِلَّذِينَ کَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَيَزْدَادَالَّذِينَ آمَنُوا إِيمَاناً وَلاَ يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا

ان کی تعداد کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے کہ اہل کتاب کو یقین حاصل ہوجائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوجائے اور اہل کتاب یا

الْکِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْکَافِرُونَ مَا ذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهٰذَا مَثَلاً کَذٰلِکَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ

صاحبانِ ایمان اس کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں مرض ہے اور کفار یہ کہنے لگیں کہ آخر اس مثال کا مقصد کیا ہے اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے

وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَايَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ إِلاَّهُوَوَمَاهِيَ إِلاَّذِکْرَى لِلْبَشَرِ( ۳۱ ) کَلاَّ وَالْقَمَرِ( ۳۲ ) وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ( ۳۳ )

اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اس کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے یہ تو صرف لوگوں کی نصیحت کا ایک ذریعہ ہے (۳۲) ہوشیار ہمیں چاند کی قسم (۳۳) اور جاتی ہوئی رات کی قسم

وَالصُّبْحِ إِذَاأَسْفَرَ( ۳۴ ) إِنَّهَالَإِحْدَى الْکُبَرِ( ۳۵ ) نَذِيراًلِلْبَشَرِ( ۳۶ ) لِمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْيَتَأَخَّرَ( ۳۷ ) کُلُّ

(۳۴) اور روشن صبح کی قسم (۳۵) یہ جہنمّ بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے (۳۶) لوگوں کے ڈرانے کا ذریعہ (۳۷) ان کے لئے جو آگے پیچھے ہٹنا چاہیں (۳۸) ہر نفس اپنے اعمال

نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِينَةٌ( ۳۸ ) إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ‌( ۳۹ ) فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ‌( ۴۰ ) عَنِ الْمُجْرِمِينَ‌( ۴۱ ) مَا

میں گرفتار ہے (۳۹) علاوہ اصحاب یمین کے (۴۰) وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کررہے ہوں گے (۴۱) مجرمین کے بارے میں (۴۲) آخر تمہیں

سَلَکَکُمْ فِي سَقَرَ( ۴۲ ) قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّينَ‌( ۴۳ ) وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِينَ‌( ۴۴ ) وَ کُنَّا نَخُوضُ مَعَ

کس چیز نے جہنمّ میں پہنچادیا ہے (۴۳) وہ کہیں گے کہ ہم نماز گزار نہیں تھے (۴۴) اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے (۴۵) لوگوں کے برے

الْخَائِضِينَ‌( ۴۵ ) وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ‌( ۴۶ ) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ‌( ۴۷ )

کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے (۴۶) اور روزِ قیامت کی تکذیب کیا کرتے تھے (۴۷) یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی

۵۷۷

فَمَاتَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُالشَّافِعِينَ‌( ۴۸ ) فَمَالَهُمْ عَنِ التَّذْکِرَةِمُعْرِضِينَ‌( ۴۹ ) کَأَنَّهُمْ حُمُرٌمُسْتَنْفِرَةٌ( ۵۰ ) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ( ۵۱ )

(۴۸) تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی (۴۹) آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں (۵۰) گویا بھڑکے ہوئے گدھے ہیں (۵۱) جو شیر سے بھاگ رہے ہیں

بَلْ يُرِيدُ کُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفاً مُنَشَّرَةً( ۵۲ ) کَلاَّبَلْ لاَ يَخَافُونَ الْآخِرَةَ( ۵۳ ) کَلاَّ إِنَّهُ تَذْکِرَةٌ( ۵۴ ) فَمَنْ

(۵۲) حقیقتا ان میں ہر آدمی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اسے کِھلی ہوئی کتابیں عطا کردی جائیں (۵۳) ہرگز نہیں ہوسکتا اصل یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں ہے (۵۴) ہاں ہاں بیشک یہ سراسر

شَاءَ ذَکَرَهُ‌( ۵۵ ) وَمَا يَذْکُرُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ( ۵۶ )

نصیحت ہے(۵۵) اب جس کا جی چاہے اسے یاد رکھے(۵۶) اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے

( سورة القيامة)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

لاَأُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ( ۱ ) وَلاَ أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ( ۲ ) أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ‌( ۳ ) بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ

(۱) میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں (۲) اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں (۳) کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے (۴) یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی

نُسَوِّيَ بَنَانَهُ‌( ۴ ) بَلْ يُرِيدُالْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَأَمَامَهُ‌( ۵ ) يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ( ۶ ) فَإِذَابَرِقَ الْبَصَرُ( ۷ ) وَخَسَفَالْقَمَرُ( ۸ )

انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں (۵) بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے (۶) وہ یہ پوچھتا ہے کہ یہ قیامت کب آنے والی ہے (۷) تو جب آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی (۸) اور چاند کو گہن لگ جائے گا

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ( ۹ ) يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍأَيْنَ الْمَفَرُّ( ۱۰ ) کَلاَّ لاَ وَزَرَ( ۱۱ ) إِلَى رَبِّکَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ( ۱۲ )

(۹) اور یہ چاند سورج اکٹھا کردیئے جائیں گے (۱۰) اس دن انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کا راستہ کدھر ہے (۱۱) ہرگز نہیں اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے (۱۲) اب سب کا مرکز تمہارے پروردگار کی طرف ہے

يُنَبَّأُالْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍبِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ( ۱۳ ) بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ( ۱۴ ) وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ‌( ۱۵ ) لاَ تُحَرِّکْ

(۱۳) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے پہلے اور بعد کیا کیا اعمال کئے ہیں (۱۴) بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے (۱۵) چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے (۱۶) دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں

بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ‌( ۱۶ ) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ‌( ۱۷ ) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‌( ۱۸ ) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‌( ۱۹ )

عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں (۱۷) یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں (۱۸) پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں (۱۹) پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے

۵۷۸

کَلاَّ بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ( ۲۰ ) وَ تَذَرُونَ الْآخِرَةَ( ۲۱ ) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ( ۲۲ ) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ( ۲۳ ) وَ

(۲۰) نہیں بلکہ تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو(۲۱)اورآخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو(۲۲) اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے (۲۳) اپنے پروردگار

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ( ۲۴ ) تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ( ۲۵ ) کَلاَّ إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ‌( ۲۶ ) وَ قِيلَ مَنْ رَاقٍ‌( ۲۷ )

کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے (۲۴) اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے (۲۵) جنہیں یہ خیال ہوگا کہ کب کمر توڑ مصیبت وارد ہوجائے (۲۶) ہوشیار جب جان گردن تک پہنچ جائے گی (۲۷) اور کہا جائے گا کہ اب کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے

وَ ظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ‌( ۲۸ ) وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ‌( ۲۹ ) إِلَى رَبِّکَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ‌( ۳۰ ) فَلاَ صَدَّقَ وَ لاَ

(۲۸) اور مرنے والے کو خیال ہوگا کہ اب سب سے جدائی ہے (۲۹) اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی (۳۰) آج سب کو پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا (۳۱) اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ

صَلَّى‌( ۳۱ ) وَ لٰکِنْ کَذَّبَ وَ تَوَلَّى‌( ۳۲ ) ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى‌( ۳۳ ) أَوْلَى لَکَ فَأَوْلَى‌( ۳۴ ) ثُمَّ أَوْلَى

نماز پڑھی(۳۲) بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا (۳۳)پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا (۳۴)افسوس ہے تیرے حال پر بہت افسوس ہے (۳۵)حیف ہے اور

لَکَ فَأَوْلَى‌( ۳۵ ) أَ يَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَکَ سُدًى‌( ۳۶ ) أَ لَمْ يَکُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى‌( ۳۷ ) ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً

صد حیف ہے (۳۶) کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ اسے اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے گا (۳۷) کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتا ہے (۳۸) پھر علقہ بنا پھر اسے

فَخَلَقَ فَسَوَّى‌( ۳۸ ) فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّکَرَ وَ الْأُنْثَى‌( ۳۹ ) أَ لَيْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى‌( ۴۰ )

خلق کرکے برابر کیا (۳۹) پھر اس سے عورت اور مرد کا جوڑا تیار کیا (۴۰) کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے

( سورة الانسان)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌( ۰ )

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئاً مَذْکُوراً( ۱ ) إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ

(۱) یقینا انسان پر ایک ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے نہیں تھا (۲) یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعاً بَصِيراً( ۲ ) إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً( ۳ ) إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِينَ سَلاَسِلَ وَ

سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے (۳) یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے

(۴) بیشک ہم نے کافرین کے لئے زنجیریں - طوق اور بھڑکتے ہوئے

أَغْلاَلاً وَ سَعِيراً( ۴ ) إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ کَأْسٍ کَانَ مِزَاجُهَا کَافُوراً( ۵ )

شعلوں کا انتظام کیا ہے (۵) بیشک ہمارے نیک بندے اس پیالہ سے پئیں گے جس میں شراب کے ساتھ کافور کی آمیزش ہوگی

۵۷۹

عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيراً( ۶ ) يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخَافُونَ يَوْماً کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً( ۷ ) وَ

(۶) یہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے نیک بندے پئیں گے اور جدھر چاہیں گے بہاکر لے جائیں گے (۷) یہ بندے نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے (۸) یہ

يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْکِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً( ۸ ) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَ لاَ

اس کی محبت میں مسکینً یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں (۹) ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں

شُکُوراً( ۹ ) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً( ۱۰ ) فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذٰلِکَ الْيَوْمِ وَ لَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَ

نہ شکریہ (۱۰) ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی (۱۱) تو خدا نے انہیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی اور سرور

سُرُوراً( ۱۱ ) وَ جَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَ حَرِيراً( ۱۲ ) مُتَّکِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِکِ لاَ يَرَوْنَ فِيهَا شَمْساً وَ لاَ

عطا کردیا(۱۲)اور انہیں ان کے صبر کے عوض جنّت اور حریر جنّت عطا کرےگا(۱۳) جہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے نہ آفتاب کی گرمی دیکھیں

زَمْهَرِيراً( ۱۳ ) وَ دَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلاَلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلاً( ۱۴ ) وَ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَ أَکْوَابٍ

گے اور نہ سردی (۱۴) ان کے سروں پر قریب ترین سایہ ہوگا اور میوے بالکل ان کے اختیار میں کردیئے جائیں گے (۱۵) ان کے گرد چاندی کے پیالے اور شیشے کے

کَانَتْ قَوَارِيرَا( ۱۵ ) قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيراً( ۱۶ ) وَ يُسْقَوْنَ فِيهَا کَأْساً کَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلاً( ۱۷ )

ساغروں کی گردش ہوگی (۱۶) یہ ساغر بھی چاندی ہی کے ہوں گے جنہیں یہ لوگ اپنے پیمانہ کے مطابق بنالیں گے (۱۷) یہ وہاں ایسے پیالے سے سیراب کئے جائیں گے جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی

عَيْناً فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلاً( ۱۸ ) وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤاً مَنْثُوراً( ۱۹ ) وَ

(۱۸) جو جنّت کا ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے (۱۹) اور ان کے گرد ہمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررہے ہوں گے کہ تم انہیں دیکھو گے تو بکھرے ہوئے موتی معلوم ہوں گے (۲۰) اور

إِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيماً وَ مُلْکاً کَبِيراً( ۲۰ ) عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَ إِسْتَبْرَقٌ وَ حُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ

پھر دوبارہ دیکھو گے تو نعمتیں اور ایک ملک کبیر نظر آئے گا (۲۱) ان کے اوپر کریب کے سبز لباس اور ریشم کے حلّے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا پروردگار

وَ سَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُوراً( ۲۱ ) إِنَّ هٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَاءً وَ کَانَ سَعْيُکُمْ مَشْکُوراً( ۲۲ ) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْکَ

پاکیزہ شراب سے سیراب کرے گا (۲۲) یہ سب تمہاری جزا ہے اور تمہاری سعی قابل قبول ہے (۲۳) ہم نے آپ پر قرآن تدریجا نازل کیا ہے

الْقُرْآنَ تَنْزِيلاً( ۲۳ ) فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَ لاَ تُطِعْ مِنْهُمْ آثِماً أَوْ کَفُوراً( ۲۴ ) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَ أَصِيلاً( ۲۵ )

(۲۴) لہذا آپ حکم اَ خدا کی خاطر صبر کریں اور کسی گنہگار یا کافر کی بات میں نہ آجائیں (۲۵) اور صبح و شام اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرتے رہیں

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609