نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)75%

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 61

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20077 / ڈاؤنلوڈ: 3369
سائز سائز سائز
نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

مؤلف:
اردو

۱

کتاب کا نام : نبی امی

مصنف کا نام : مرتضی مطہری

۲

تمہید ناخواندہ رسول

آپ کی زندگی مبارک کا یہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے کبھی نہ تو کسی کتاب کا مطالعہ کیا‘ نہ کسی استاد سے تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مدرسے‘ مکتب یا کتاب سے آشنائی تھی۔

مسلم یا غیر مسلم مورخوں میں کسی ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ بچپن‘ جوانی یا اس کے بعد عمر کے کسی بھی حصے میں کسی کے پاس پڑھنے‘ لکھنے یا سیکھنے کے لئے گئے ہوں اور اسی طرح کوئی یہ نشاندہی تو کروا دے کہ عہد رسالت سے قبل آپ نے ایک جملہ بھی لکھا یا سیکھا ہو۔

عرب کے تمام لوگ خاص طور پر سرزمین حجاز کے لوگ اس عہد میں مکمل طور پر ان پڑھ تھے ماسوائے چند افراد کے‘ جن کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا تھا‘پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ماحول میں کوئی شخص بھی اس فن سے واقف ہو چکا ہو اور پھر بھی لوگوں کے درمیان اس صفت کی وجہ سے مشہور نہ ہوا ہو۔

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور بعدازاں اس موضوع پر بحث بھی کریں گے‘ آپ کے مخالفین تاریخ کے اس حصے میں یہ بہتان تراشی کرتے تھے کہ آپ دوسروں کی سنی سنائی باتیں بیان کرتے ہیں‘ لیکن آپ پر یہ الزام نہیں تھا کہ کیونکہ آپ پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں‘ آپ کے پاس کتابیں موجود ہیں اور ان سے آپ اپنا مقصد بیان کرتے ہیں‘ کیونکہ اگر آپ کو لکھنے‘ پڑھنے سے معمولی واقفیت بھی ہوتی تو حتمی طور پر آپ پر یہ الزام عائد کیا جاتا۔

۳

دوسروں کے اعتراضات

مشرق شناسوں جو اسلامی تاریخ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ نے بھی آپ کے پہلے سے پڑھنے‘لکھنے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں دیا‘ بلکہ اس امر کا اعتراف کیا کہ آپ ان پڑھ تھے اور یہ کہ ایک ان پڑھ قوم کے درمیان ظہور میں آئے تھے۔

انگریز مورخ کارلائل اپنی کتاب ”البطال“ میں لکھتا ہے کہ

”ہمیں اس چیز کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ محمد نے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کیا۔“

صنعت تحریر عربوں کے درمیان نئی نئی متعارف ہوئی تھی‘ مذکورہ مورخ مزید بیان کرتا ہے کہ

”میرے خیال کے مطابق آپ کو لکھ پڑھنے سے کوئی شناسائی نہ تھی اور ماسوائے صحرائی زندگی کے آپ نے کسی دنیاوی چیز کا علم حاصل نہ کیا تھا۔“

ویل ڈیورنٹ

ویل ڈیورنٹ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں لکھتا ہے کہ

”اس دور میں بظاہر کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ آپ کو لکھنا‘ پڑھنا سکھاتا‘ کیونکہ اس دور میں عربوں کے لئے لکھنے‘ پڑھنے کی کوئی اہمیت نہ تھی‘ اسی بناء پر قبیلہ قریش کے صرف ۱۷ افراد پڑھنا‘لکھنا جانتے تھے اور آپ نے خود کچھ لکھا ہو‘ اس بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں اور عہد رسالت میں بھی آپ نے کچھ کاتب مقرر کئے ہوئے تھے‘ اس کے باوجود عربی زبان کی بلیغ ترین کتاب آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور مسائل کی باریکیوں کا تعلیم یافتہ افراد کے بہ نسبت بدرجہا بہتر طور پر ادراک کیا۔“

۴

جان ڈیون پورٹ

جان ڈیون پورٹ اپنی کتاب ”عذر تقصیر بہ پیشگاہِ محمد و قرآن“ میں رقمطراز ہے کہ

”تعلیم و تعلم کے حصول کے بارے میں جیسا کہ دنیا میں رائج ہے‘ سب جانتے ہیں کہ آپ نے تعلیم حاصل نہیں کی اور وہی کچھ سیکھا جو آپ کے قبیلے میں رائج تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں سیکھا۔“

کانسٹن ورجل گیورگیو

کانسٹن ورجل گیورگیو اپنی کتاب ”محمد پیغمبری کہ از نو باید شناخت“ محمد وہ نبی جسے ازسرنو پہچاننا چاہئے‘ میں لکھتا ہے کہ

”اُمی ہونے کے باوجود جب قرآن مجید کی ابتدائی آیات آپ پر نازل ہوئیں تو بات کا آغاز علم و قلم سے ہوا‘ یعنی لکھنے‘ پڑھنے اور سکھانے کی ہدایت کی گئی۔ دنیا کے کسی بڑے مذہب میں تعلیم دینے کے بارے میں اس حد تک تعلیم کو اجاگر نہیں کیا گیا اور مزید یہ کہ دنیا کا کوئی اور مذہب ایسا نہیں پایا جاتا جس کے اصول میں علم و معرفت کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔ اگر آپ دانشمند ہوتے تو غارِ حرا میں ان آیات کا نزول ایک حیران کن بات نہ ہوتی‘ کیونکہ دانشمند علم کی قدر و منزلت سے واقف ہوتا ہے‘ لیکن آپ ناخواندہ تھے اور کسی معلم سے تعلیم حاصل نہ کی تھی اور میں مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کے دین میں حصول علم و معرفت کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔“

۵

گوسٹاؤلوبون

گوسٹاؤلوبون اپنی مشہور کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں کہتا ہے کہ

”جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ اُمی تھے جو کہ قیاس آرائی ہی ہے‘ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ عالم تھے تو قرآن مجید کی آیات اور موضوعات میں ایک بہتر تسلسل ہوتا اور اس کے علاوہ یہ بھی ایک قیاس آرائی ہے کہ اگر آپ اُمی نہ ہوتے تو آپ کسی نئے دین کو متعارف یا رائج نہ کر سکتے تھے‘ کیونکہ ایک ناخواندہ شخص کو جاہل لوگوں کی ضرورتوں کا بہتر ادراک ہوتا ہے اور وہ بہتر طریقے سے ان کو راہ راست کی طرف لا سکتا ہے۔ بہرحال آپ اُمی ہوں یا غیر اُمی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ فہم و فراست کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔“

گوسٹاؤلوبون نے قرآن پاک کے مفاہیم کے بارے میں مکمل آگاہی نہ رکھنے کی بناء پر اور اپنی مادی سوچ کی وجہ سے آیات قرآنی کی بے ترتیبی اور ایک عالم کا جاہلوں کی ضرورتوں سے لاعلم ہونا‘ جیسی احمقانہ باتیں کی ہیں اور قرآن و رسول پاک کی شان میں گستاخی کرنے کے باوجود اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ کے پہلے سے پڑھے لکھے ہونے کی کوئی سند یا دلیل موجود نہیں۔

بہرحال ان بیانات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں‘ تاریخ اسلام اور مشرق کے بارے میں مسلمان اور مشرقی لوگ زیادہ بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہاں ان باتوں کو بیان کرنا اس لئے مناسب ہے کہ جو لوگ اس بارے میں ذاتی مطالعہ نہیں رکھتے‘ ان کے لئے معمولی سی بات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلم مورخین کے تجسس اور تنقیدی نگاہ سے اس ضمن میں معمول سے معمولی بات بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔

ایک موقع پر آپ اپنے چچا حضرت ابوطالب(ع)کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک مقام پر آرام کی غرض سے رکے تو وہاں پر آپ کا سامنا بحیرہ نامی ایک راہب سے ہوا (معروف اسلام و مشرق شناس پروفیسر ماسینیون اپنی کتاب ”سلمان پاک“ میں ایسے شخض کے وجود کے بارے میں بلکہ حضور پاک کی اس سے ملاقات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے اور اسے افسانوی شخصیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ”بحیرہ سرجیوس‘ تمیمداری اور دوسرے جنہوں نے آپ کے بارے میں روایات جمع کی ہیں‘ وہ سب اختراعی و فرضی کردار ہیں‘ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں)۔

۶

اس ملاقات نے مشرق شناسوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ آیا آپ نے اس مختصر ملاقات میں اس راہب سے کچھ سیکھا؟ اب جبکہ اتنا معمولی سا واقعہ جدید و قدیم مخالفین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے‘ تویہ امر واضح ہے کہ اگر آپ کے پہلے سے پڑھے لکھے ہونے کے بارے میں کسی ادنیٰ سی دلیل کا وجود بھی ہوتا تو ان کی نگاہوں سے کبھی پوشیدہ نہ رہتی اور اس گروہ کی طاقتور خوردبینوں کے نیچے وہ دلیل کئی گنا بڑی نظر آتی۔

اس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دو ادوار کے بارے میں بحث کی جائے:

۱ ۔ اعلان نبوت سے پہلے کا دور

۲ ۔ اعلان نبوت کا دور

اعلان نبوت کا دور یا دورئہ رسالت کے بارے میں بھی دو موضوعات پر سیر بحث حاصل ہونی چاہئے:

الف) لکھنا

ب) پڑھنا

بعد میں ہم واضح کریں گے کہ مسلم اور غیر مسلم علماء کی بالاتفاق یہ حتمی رائے ہے کہ آپ کو اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد پڑھنے‘ لکھنے سے معمولی واقفیت نہ تھی‘ لیکن اعلان نبوت کے بعد اس بات کے مسلم الثبوت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا‘ جبکہ عہد رسالت میں بھی جو بات کسی حد تک حتمی ہے وہ آپ کے لکھنا نہ جاننے کے بارے میں کی جا سکتی ہے‘ نہ کہ پڑھنے کی۔

۷

شیعہ مکتب فکر کی بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عہد رسالت میں پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ تاہم اس سلسلے میں شیعہ روایات میں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ مجموعی طور پر ان تمام دلائل اور قرائن کو سامنے رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے عہد رسالت میں نہ پڑھا اور نہ لکھا۔

عہد رسالت سے پہلے دور کے بارے میں غور و خوض کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے‘لکھنے کے لحاظ سے جزیرئہ عرب کے اس دور کے عام حالات کا جائزہ لیں۔

کتب تواریخ کے مطالعے سے اس ضمن میں یہ پتہ چلتا ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ساتھ جزیرئہ عرب میں پڑھنے‘ لکھنے والے افراد کی تعداد انتہائی محدود تھی۔

حجاز میں رسم الخط کا رائج ہونا

بلاذری اپنی کتاب ”فتوح البلدان“ میں حجاز کے عرب باشندوں میں رسم الخط کے رائج ہونے کے بارے میں رقمطرز ہے کہ

”پہلی مرتبہ ”طی“ کے قبیلے کے تین افراد نے(جو شام کے نواح میں تھے) عربی رسم الخط کی ترویج کی‘ اسے متعارف کرایا اور عربی حروف تہجی کو سریانی حروف تہجی سے موازنہ کیا۔ ازاں بعد انبار کے کچھ لوگوں نے ان تین افراد سے یہ رسم الخط سیکھا‘ بعد میں حیرہ کے لوگوں نے انبار کے ان تین افراد سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی‘ پھر بشر بن عبدالملک جو ”دومة الجندل“ کے عیسائی مسلک امیر اکیور بن عبدالملک کا بھائی تھا‘ ”حیرہ“ میں آمد و رفت کے دوران ”حیرہ“ کے لوگوں سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی۔

۸

بشر بن عبدالملک کندی بذات خود اپنے کسی کام سے مکہ مکرمہ گیا تو اسے سفیان بن امیہ (ابوسفیان کا چچا) اور ابوقیس بن عبدالمناف بن زہرہ نے دیکھا کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے‘ انہوں نے اس سے کہا کہ انہیں بھی لکھنا سکھا دے اور اس نے انہیں لکھنے کی تعلیم دی۔ اس کے بعد ”بشر“ ان دو افراد کے ہمراہ کاروباری سلسلے میں طائف روانہ ہو گیا‘ اس طرح غیلان بن سلمہ ثقفی نے ان لوگوں سے لکھنا سیکھا‘ اس کے بعد بشر ان دونوں ساتھیوں سے جدا ہو کر مصر چلا گیا۔ عمرو بن زرارہ جو بعد میں عمرو کاتب کے نام سے مشہور ہوا‘ نے بھی اس شخص یعنی بشر سے لکھنے کا فن سیکھا۔ بعد میں بشر شام روانہ ہو گیا اور وہاں پر بے شمار افراد اس کے لکھنے کے فن سے فیضیاب ہوئے۔“

ابن الندیم نے اپنی کتاب ”الفہرست“ میں جو ابتدائی خط کا پہلا مقالہ ہے‘ میں وہ بلاذری کی کتاب کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ

”پہلا عربی رسم الخط جس نے لکھا وہ قبیلہ بولان کے تین افراد تھے‘ جو کہ انبار میں رہائش پذیر ایک قبیلہ ہے اور حیرہ کے لوگوں نے انبار کے لوگوں سے خط کی تعلیم حاصل کی۔“

ابن خلدون بھی اپنی مشہور کتاب ”فی ان الخط و الکتابة من عداد الصنائع الانسانیة“ میں بلاذری کی کچھ باتوں کی تائید اور ذکر کیا ہے۔ بلاذری اس کی صفت پیش کرتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ

”ظہور اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں کچھ افراد تھے جو پڑھے لکھے تھے۔“

اور یہ بھی لکھتا ہے کہ

”جب اسلام کا ظہور ہوا تو قریش کے صرف ۱۷ افراد لکھنا جانتے تھے‘ ان کے نام یہ ہیں:

۱ ۔ عمرؓ بن الخطاب‘ ۲ ۔ علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘ ۳ ۔ عثمانؓ بن عفان‘ ۴ ۔ ابوعبیدہ جراح‘ ۵ ۔ طلحہ ۶ ۔ یزید بن ابی سفیان‘ ۷ ۔ ابوحذیقة بن ربیعہ‘ ۸ ۔ حاطب بن عمرو عاری‘ ۹ ۔ ابو سلمہ محذومی‘ ۱۰ ۔ ابان بن سعید اموی‘ ۱۱ ۔ خالد بن سعید اموی‘ ۱۲ ۔ عبداللہ بن سعد بن ابی شرح‘ ۱۳ ۔ حویطب بن عبدالعزیٰ‘ ۱۴ ۔ ابوسفیان بن حرب‘ ۱۵ ۔ معاویہ بن ابی سفیان‘ ۱۶ ۔ جمہیم بن الصلت‘ ۱۱ ۔ علاء بن الحضرمی۔

۹

جن کا قبیلہ قریش کے ساتھ سمجھوتہ طے پایا ہوا تھا‘ مگر خود قبیلہ قریش سے نہ تھے۔“

بلاذری صرف قبیلہ قریش کی ایک عورت کا نام بتالتا ہے جو زمانہ جاہلیت اور ظہور اسلام کے وقت لکھنا جانتی تھی۔ یہ عورت جس کا نام شفا دختر عبداللہ عذوی تھا‘ جو حلقہ بگوش اسلام ہوئیں‘ جس کا پہلی مہاجر عورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ بلاذری کہتا ہے کہ یہ عورت وہی ہے جس نے آنحضور کی زوجہ محترمہ ”حفصہ“ کو لکھنا سکھایا اور ایک دن آپ نے اس سے فرمایا:

الا تعلمین حفصه رقیه النمله کما علمتها الکتاب

”جیسا کہ حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ کیا اسے ”رقیة النملہ“ کی بھی تعلیم دے سکتی ہو اور اگر اس چیز کی تعلیم دے دو تو بہتر ہو گا۔“

فتوح البلدان مطبوعہ چھاپ خانہ السعادہ‘ مصر ۱۹۵۹ ء میں لفظ ”رقنة النملة“ لکھا گیا ہے جو کہ کتابتی غلطی ہے اور صحیح لفظ وہی ہے جیسا کہ ابن اثیر کی النہایہ میں آیا ہے یعنی ”نمل“ اور صحیح عبارت ”رقیة النملة“۔

رقیہ ان عبارتوں کو کہا جاتا تھا جن کا بلاؤں اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے ورد کرنا مفید سمجھا جاتا تھا۔ ابن اثیر لفظ ”رقی“ کے بارے میں کہتا ہے کہ آنحضور سے منقول بعض فرمودات میں ”رقی“ سے منع کیا گیا ہے اور بعض میں اس کی تجویز دی گئی ہے اور ابن اثیر دعویٰ کرتا ہے کہ جن احادیث میں غیر خدا سے پناہ طلب کی جائے ان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا توکل خدا پر نہیں رہتا‘ لہٰذا ایسے تعویزات پر اعتماد نہ کیا جائے‘ جبکہ وہ احادیث جن میں تعویزات کی سفارش کی گئی ان میں اسماء الٰہی اور ان سے اثر حاصل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

۱۰

ابن اثیر لفظ ”نمل“ کے بارے میں کہتا ہے:

”جو کچھ ”رقیة النملة“ میں مشہور ہے درحقیقت وہ ”رقی“ کی شکل نہیں ہے‘ بلکہ ایسی عبارتیں تھیں جو زبان زد خاص و عام تھیں اور سب کو معلوم تھا کہ ان کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ آنحضور نے بطور مزاح اور اشارتاً شفا سے اپنی زوجہ محترمہ حفصہ کو اس عبارت کو سکھانے کی تلقین کی۔ عبارتیں یہ تھیں:

العروس لحصل‘ و تحتضب‘ و تکتمل‘ وکل شئی نضتعل غیران لا تعصی الرجل

دلہن سکھیوں کے درمیان بیٹھی ہے اور سولا سنگھار کرتی ہے‘ کاجل لگاتی ہے‘ غرض کہ ایسے ہی کام کرتی ہے‘ لیکن اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرتی۔

ان عبارتوں کو”رقیة النملة“ کے نام سے یاد کیا تھا اور بظاہر ان عبارتوں میں طنز و مزاح کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔“

ابن اثیر کہتا ہے کہ

”آنحضور نے ازراہ مزاح شفا نامی عورت سے فرمایا تھا جیسا کہ تم نے حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ تو کتنا اچھا ہوتا کہ تم انہیں رقیة النملة بھی سکھا دیتی۔ یہ بات اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہماری زوجہ نے ہماری اطاعت نہیں کی اور اس راز کو جو میں نے اسے بتایا تھا۔“(یہ بات تاریخ میں مشہور ہے اور سورئہ تحریم کی پہلی آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے‘ اسے بھی فاش کر دیا)

بلاذری نے پھر چند ایسی مسلم خواتین کے نام بتائے کہ جو اسلامی دور میں بھی پڑھنا لکھنا جانتی تھیں یا صرف پڑھنا جانتی تھیں اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ

”حضرت حفصہ جو کہ رسول خدا کی زوجہ تھیں‘ وہ بھی لکھنا جانتی تھیں‘ ام کلثوم دختر عتبہ بن ابی معیط (اولین مہاجر خواتین) بھی لکھنا جانتی تھیں۔ عائشہ دخترسعد کہتی ہیں میرے والد نے مجھے لکھنا سکھایا‘ اسی طرح کریمہ دختر مقداد بھی لکھنا جانتی تھیں۔ حضرت عائشہ زوجہ رسول پڑھنا جانتی تھیں لیکن لکھنا نہیں اور اسی طرح ام سلمہ بھی۔“

۱۱

بلاذری بھی ان لوگوں کا نام بتاتا ہے جو مدینہ میں آنحضور کے منشی تھے اور مزید کہتا ہے کہ

ظہور اسلام کے نزدیک ”اوس“ اور ”خزرج“ (مدینے کے دو معروف قبیلے) میں صرف ۱۱ اشخاص لکھنے کے فن کو جانتے تھے(ان کے نام بھی بتاتا ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فن خط نویسی حجاز کے علاقے میں نیا نیا متعارف ہوا تھا‘ اس زمانے میں حجاز کے حالات اور ماحول کی صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص لکھنا‘ پڑھنا جانتا تھا تو وہ مقبول خاص و عام ہو جاتا تھا۔ وہ افراد جو ظہور اسلام سے کچھ عرصہ قبل اس فن سے واقف تھے‘ چاہے وہ مکہ میں ہوں یا مدینہ میں‘ وہ مشہور اور انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے تھے‘ لہٰذا ان کے نام تاریخ میں ثبت ہو گئے اور اگر رسول خدا کا شمار اس زمرہ میں ہوتا تو حتمی طور پر آپ اس صنعت کے حوالے سے پہچانے جاتے اور آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہوتا‘ کیونکہ آنحضور کا نام نامی اس زمرہ میں نہیں ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قطعی طور پر آپ کا پڑھنے‘ لکھنے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔“

عہد رسالت خصوصاً مدینے کا دور

گزشتہ بحث سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاک نے عہد رسالت کے دوران نہ پڑھا‘ نہ لکھا‘ لیکن مسلم علماء چاہے وہ اہل سنت ہوں یا شیعہ‘ اس سلسلے میں ان کا نقطہ نگاہ ایک نہیں ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ وحی نے جو ہر چیز کی تعلیم دیتی تھی‘ انہیں پڑھنا‘ لکھنا نہ سکھایا ہو؟ کچھ شیعہ روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپ دوران نبوت پڑھنا جانتے‘ لیکن لکھنا نہ جانتے تھے۔(بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)

۱۲

اس ضمن میں صدوق نے علل الشرایع میں ایک روایت نقل کی ہے:

”خدا کی رحمت اپنے رسول پر یہ تھی کہ آپ پڑھ سکتے تھے‘ لکھ نہیں سکتے تھے اور جب ابوسفیان نے احد پر چڑھائی کی تو حضرت عباسؓ جو آپ کے چچا تھے‘ نے ایک خط آپ کو لکھا اور جب یہ خط آپ تک پہنچا تو اس وقت آپ مدینے کے نزدیک ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے خط پڑھا‘ لیکن اپنے صحابیوں کو اس کے مضمون سے آگاہ نہ کیا۔ آپ نے حکم دیا‘ سب لوگ شہر مدینہ میں چلے جائیں اور جونہی سب لوگ شہر میں داخل ہو گئے تو آپ نے وہ خط پڑھ کر انہیں سنا دیا۔“

لیکن سیرة زبینی دخلان میں حضرت عباسؓ کے خط کے واقعہ کو علل الشرایع کی روایت کے برخلاف بیان کیا گیا ہے‘ اس میں لکھا ہے کہ

”جونہی حضرت عباسؓ کا خط آپ تک پہنچا تو آپ نے اسے کھولا اور ابی بن کعب کو دیا کہ اسے پڑھے۔ ابن کعب نے اسے پڑھا اور آپ نے حکم دیا کہ اس خط کو بند کر دے‘ اس کے بعد آپ سعد بی ربیعہ جو ایک مشہور صحابی تھے‘ ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عباسؓ کے خط کے متعلق بیان کیا اور ان سے درخواست کی کہ فی الحال اس موضوع کو پوشیدہ رکھیں۔“

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نبوت کے دوران لکھتے بھی تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ سید مرتضیٰ ”بحارالانوار“ سے نقل کرتے ہیں کہ

”اہل علم کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ آپ دنیا سے رحلت فرمانے سے پہلے لکھنا‘ پڑھنا جانتے تھے۔“

معتبر تواریخ اور کتابوں کی رو سے آپ نے وقت رحلت ارشاد فرمایا تھا کہ

”میری قلم اور دوات (یا دوات اور کنگھی) لاؤ تاکہ تمہیں کچھ ہدایات لکھ دوں‘ تاکہ تم میری رحلت کے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔(بحارچاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵ ۔ مجمع اللبیان آیت ۲۸‘ سورئہ عنکبوت کے ذیل میں‘ بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)

۱۳

یہاں پر دوات و قلم کی حدیث پر صحیح استناد نہیں ہے‘ کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ آپ اپنے دست مبارک سے لکھنا چاہتے تھے‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ مجمع کے درمیان لکھنا چاہتے تھے اور سب پر عیاں کرنا چاہتے تھے اور آپ گواہوں کے طور پر ان سے دستخط لینا چاہتے تھے‘ پھر یہ تعبیر کہ میں تمہارے لئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ تاکہ میرے بعد تم بھٹک نہ جاؤ درست ہے۔

آنحضور کے کاتبین

قدیم اسلامی مستند تواریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں آنحضور کے کچھ معاونین موجود تھے۔ یہ معاونین خدا کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے فرمودات‘ لوگوں کے عقائد‘ مذہبی معاملات‘ آپ کے عہد و پیمان‘ اہل کتاب‘ مشرکین کے نام آپ کے خطوط‘ پیغامات‘ دفتری معاملات‘ صدقات و جزیہ سے مربوط کتابچے‘ خمس و غنیمت سے مربوط کھاتے اور دیگر ضروری امور پر بہت سے خطوط جو آپ کی طرف سے قرب و جوار میں بھیجے گئے۔

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے زبانی فرامین جو ضبط تحریر میں آ گئے تھے اور ابھی تک باقی ہیں‘ مزید برآں دور نبوت میں آپ نے جتنے بھی معاہدے اور خطوط جو وقتاً فوقتاً لکھوائے وہ بھی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں۔

محمد بن سعد اپنی کتاب الطبقات الکبیر‘ ج ۲‘ ص ۱۰ تا ۳۸ میں آپ کے ۱۰۰ کے قریب خطوط کا حوالہ اپنے مضامین میں دیتا ہے۔ ان میں سے دعوت اسلام پر مشتمل کچھ خطوط دنیا کے مختلف بادشاہوں‘ حکمرانوں‘ قبائل کے سرداروں‘ دیگر سرکردہ افراد‘ رومی‘ ایرانی‘ خلیج فارس کے عمال اور دیگر اہم شخصیات کو تحریر کئے گئے ہیں‘ ان میں سے کچھ سرکلر‘ فرامین اور بعض دیگر معاملات کے بارے میں ہیں جو اسلام کے فقہی مدارک کے اسناد سمجھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر خطوط کا علم ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں‘ کاتب نے خط کے مضمون کے آخر میں اپنا نام ثبت کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کاتب کا نام خط کے آخر میں ثبت کئے جانے کی روایت پہلی بار ابی بن کعب جو معروف صحابی رسول ہیں‘ کے ذریعے رائج ہوئی۔

۱۴

مذکورہ بالا خطوط‘ معاہدے اور کھاتوں میں سے کوئی بھی آپ کے اپنے دست مبارک کا لکھا ہوا نہیں ہے‘ یعنی کوئی ایک خط بھی ایسا نہیں دیکھنے میں آیا کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خط رسول خدا نے خود تحریر کیا ہے۔ مزید برآں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے نزول قرآن کے دوران ایک بھی قرآنی آیت اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائی ہو‘ بلکہ کاتبین وحی نے فرداً فرداً قرآن مجید کو تحریر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ رسول خدا لکھنا جانتے ہوئے بھی اپنے دست مبارک سے ایک سورة یا کم از کم ایک آیت بھی نہ لکھتے ہوں۔

تاریخ میں آنحضور کے کاتبین کے نام

کتب تواریخ میں آنحضور کے معاونین کے نام آئے ہیں۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ کی دوسری جلد میں رسول خدا کی وحی‘ خطوط اور معاہدے لکھنے والے معاونین کے نام تحریر کئے ہیں:

”علی(ع)ابن ابی طالب(ع)‘ عثمانؓ بن عفان‘ عمرو بن العاص‘ معاویہ بن ابی سفیان‘ شرجیل بن حسنہ‘ عبداللہ بن سعید بن ابی سرح‘ مغیرة بن شعبہ‘ معاذ بن جبل‘ زید بن ثابت‘ حنظلہ بن الربیعہ‘ ابی بن کعب‘ جہیم بن الصلت‘ حضین النمیری۔“(تاریخ یعقوبی‘ ج ۲‘ ص ۶۹)

کاتبین کی فرداً فرداً خصوصی ذمہ داریاں

مسعودی اپنی کتاب ”التنبیہ والاشراف“ میں اس قدر تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یہ معاونین کاتبین اور ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے ذمے کون کون سا کام لیا ہوا تھا اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہے کہ ان تمام معاونین کا دائرئہ کار اس مقررہ حد سے بھی زیادہ تھا اور اسی نظم و ضبط کے امور بھی ان کے درمیان تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ مسعود مزید کہتا ہے

۱۵

کہ ”خالد بن سعید بن العاص آنحضور کے دست راست تھے‘ جو مختلف مسائل درپیش ہوتے وہ انہیں تحریر کرتے۔ اسی طرح مغیرہ بن شعبہ‘ حصین بن نمیر‘ عبداللہ بن ارقم اور علاء بن عقبہ لوگوں کے دستاویزات‘ معاہدوں اور دیگر معاملات کے دستاویزات کو ضبط تحریر میں لاتے تھے۔ زبیر بن العوام اور جہیم بن الصلت ٹیکسوں اور صدقات کے گوشواروں کو ضبط تحریر میں لاتے۔ حذیفہ بن الیمان کے سپرد حجاز کے لین دین کے معاملات یا اس سے متعلق امور کا شعبہ تھا۔ معیقب بن ابی فاطمہ کے ذمے اموال غنیمت کے ثبت کرنے کا شعبہ تھا۔ زید بن ثابت انصاری بادشاہوں اور دوسرے اعلیٰ حکام وغیرہ کو خطوط تحریر کرتے تھے‘ آپ آنحضور کے ترجمان بھی تھے اور آپ فارسی‘ رومی‘ قبطی اور حبشی زبانوں کے دستاویزات و خطوط کا ترجمہ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے یہ تمام زبانیں اہل مدینہ کے درمیان رہ کر سیکھی تھیں۔ حنظلہ بن ربیع ایک نہایت قیمتی سرمایہ تھے‘ انہوں نے لکھنے کے فن میں بہت شہرت و نیک نامی حاصل کی اور حنظلہ کاتب کے نام سے معروف ہوئے اور جب حضرت عمرؓ کے دور میں اسدلامی فتوحات کے سلسلے کا آغاز ہوا‘ ”رھا“ کے علاقے میں گئے اور اسی مقام پر وفات پا گئے۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کچھ عرصہ کتابت اور لکھنے سے منسلک رہے‘ لیکن بعد میں یہ مرتد ہو گیا اور مشرکین کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ شرجیل بن حسنہ طایخی نے بھی آپ کے لئے لکھا۔ ایان بن سعید اور علاء بن الحضرمی بھی گاہے بگاہے آپ کے لئے تحریر کرتے رہے۔ معاویہ نے آپ کی رحلت سے صرف چند ماہ قبل آپ کے لئے لکھنے کے فرائض انجام دیئے۔ یہ تمام افراد وہ ہیں جو عمومی طور پر کچھ عرصہ کے لئے لکھنے لکھانے کے سلسلے میں آپ کے محرر رہے‘ لیکن وہ لوگ جو آپ کے لئے ایک یا دو خطوط لکھتے رہے وہ آپ کے معاونین میں شمار نہیں کئے جاتے اور ہم ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔“(التنبیہ والاشراف‘ ص ۲۴۰‘ ۲۸۶)

۱۶

جامع ترمذی میں زید بن ثابت نقل فرماتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا اور میرے لئے ہدایت جاری کہ میں سریانی زبان سیکھوں اور جامع ترمذی میں زید بن ثابت سے یہ منقول ہے کہ رسول اکرم نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اب تم یہود کی لغت ”زبان“ بھی سیکھو‘ خدا کی قسم میں اپنے خطوط کے سلسلے میں یہودیوں پر اعتبار نہیں کر سکتا۔ زید بن ثابت کا کہنا ہے کہ میں نے یہ زبان ڈیڑھ ماہ سیکھی‘ اس کے بعد جب بھی آپ قوم یہود کے نام خط لکھواتے تو مجھ سے ہی لکھواتے تھے اور جب بھی یہود سے آپ کے نام خط موصول ہوتا تو میں ہی آپ کے لئے پڑھ کر سناتا تھا۔

فتوح البلدان میں بلاذری نے ص ۴۶۰ پر یہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا:

”رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ یہود کی کتاب کو سریانی زبان میں سیکھو اور مجھ سے فرمایا کہ مجھے اپنے کاتبین کے بارے میں یہودیوں سے خدشہ ہے‘ تو ۱۵ دن یا ۶ ماہ میں‘ میں نے سریانی سیکھ لی۔ ازاں بعد میں یہود کے نام آپ کے خطوط کو رشتہ تحریر میں لاتا اور ان سے ”یہود“ سے موصول خطوط کو آپ کو پڑھ کر سناتا۔“

مسعودی نے اس مقام پر کاتبین وحی اور اسی طرح سرکاری معاہدوں کے لکھنے والوں کے نام جیسے علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘عبداللہ بن مسعود اور ابی بن ابی کعب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کے نام کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے جو وحی کی کتابت کے علاوہ دوسری ذمہ داریوں کے حامل تھے۔

اسلامی تواریخ اور احادیث سے واقعات بہت زیادہ سامنے آتے ہیں‘ جن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور کے پاس دور دراز علاقوں کے ضرورت مند افراد آیا کرتے تھے اور آپ سے وعظ و نصیحت کرنے کی درخواست کرتے اور آپ اپنی مدبرانہ اور نصیحت آمیز گفتگو سے ان کے سوالوں کے جواب دیتے‘ یہ تمام باتیں اور گفتگو ”فی المجلس“ میں یا بعد میں تحریری شکل میں محفوظ ہو چکے ہیں۔

۱۷

اس کے باوجود ہماری نظر سے ایسی کوئی تحریر نہیں گزری کہ جس سے ثابت ہو کہ آپ نے کسی فرد کے جواب میں اپنے دست مبارک سے ایک سطر بھی تحریر فرمائی ہو‘ یقینا اگر آپ نے کوئی سطر بھی تحریر کی ہوتی تو مسلمان اس کو بطور تبرک یا نشانی اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہت بڑا افتخار سمجھتے ہوئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جس طرح ہم حضرت علی(ع)اور دیگر آئمہ معصومین(ع)کے بارے میں اس قسم کے واقعات سے عموماً ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ ان سے منسوب کچھ تحریریں یا خطوط‘ سالوں اور صدیوں سے ان کی نسلوں میں محفوظ ہیں اور آج بھی ایسے قرآنی نسخ موجود ہیں جو انہیں بزرگ ہستیوں سے منسوب ہیں۔ حضرت زید(ع)بن علی(ع)بن الحسین(ع)اور یحییٰ بن زید اور ان کے ذریعے صحیفہ سجادیہ کی حفاظت کا واقعہ‘ اس سلسلے میں ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

آنحضور نے درخواست گزاروں کے جواب میں ایک سطر تحریر نہیں فرمائی

ابن الندیم اپنے ”فن اول“ الفہرست کے دوسرے مقالے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے‘ وہ کہتا ہے:

”محمد بن الحسین نامی کوفہ کا رہنے والا ایک شیعہ جو ابن ابی بعرہ کے نام سے مشہور تھا۔ میری ملاقات ہوئی‘ اس کا ایک کتب خانہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ یہ کتاب خانہ اس نے کوفہ کے رہنے والے ایک شیعہ سے حاصل کیا تھا اور بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں موجود ہر کتاب پر اور ہر صفحہ پر تحریر کرنے والے کا نام ثبت تھا اور علماء کی ایک جماعت اور گروہ نے لکھنے والے افراد کے ناموں کی تائید بھی کی ہے۔ اس کتب خانہ میں حسنین علیہا السلام سے منسوب خطوط موجود و محفوظ تھے‘ نیز حضرت علی(ع)کے دست مبارک اور آنحضور کے تمام معاونین و کاتبین‘ سے لکھے ہوئے دستاویزات اور معاہدے موجود تھے اور ان کی مکمل حفاظت و نگہداشت کی جاتی رہی۔“

(الفہرست‘ مطبوعہ مطبعة الاستقامہ‘ قاہرہ‘ ص ۶۸)

۱۸

جی ہاں! ان نادر نمونوں اور پربرکت تحریروں کی اس حد تک حفاظت کی جاتی رہی‘ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضور نے ایک بھی سطر تحریر کی ہو اور تحریروں کے سلسلے میں مسلمانوں کی گہری دلچسپی کے معیار‘ خاص طور سے قبروں کی تحریروں کے بارے میں ان کے گہرے عقیدے کے باوجود ان کا نام و نشان نہ ملے؟

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور کے لکھنے کا ثبوت‘یہاں تک کہ عہد رسالت میں بھی کوئی بھی سامنے نہیں ہے‘ لیکن عہد رسالت میں آپ کے پڑھنے کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور حتمی طور سے نہیں کہی جا سکتی کہ آپ پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس دور نبوت میں آپ کے پڑھنے کے بارے میں بھی ہمارے پاس مکمل دلیلیں نہیں‘ بلکہ زیادہ تر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔

حدیبیہ کا واقعہ

آنحضور کی زندگی کی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات پیش آئے ہیں‘ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدنی زندگی کے دوران آپ پڑھنا‘ لکھنا نہ جانتے تھے۔ حدیبیہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت اور ایک حساس معاملے کی بناء پر بہت مشہور ہوا‘ اگرچہ تاریخ و احادیث کے حوالے سے اس سلسلے میں کافی اختلاف موجود ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان حوالوں کی مدد سے اس موضوع پر روشنی ڈالنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

۱۹

سنہ ہجری کے چھٹے سال ماہ ذی القعدہ میں رسول اکرم عمرہ و حج کی غرض سے مدینے سے مکے کی جانب روانہ ہوئے اور حکم دیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اپنے ہمراہ لے چلیں‘ لیکن جونہی مکہ سے ۲ فرسخ دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے راستے کی ناکہ بندی کر دی اور آپ کو اور ساتھی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا‘ باوجود اس کے ماہ حرام کا مہینہ تھا اور عہد جاہلیت کے قانون کے مطابق قریش کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ آپ کے لئے رکاوٹ پیدا کریں۔ آپ نے ان پر واضح کیا کہ میں صرف خانہ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آیا ہوں‘ میرا کوئی اور مقصد نہیں‘ مناسک حج کی انجام دہی کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا‘ لیکن قریش پھر بھی نہ مانے۔ ادھر دوسری طرف مسلمانوں خا اصرار تھا کہ زبردستی مکہ میں داخل ہو جائیں‘ لیکن آپ اس بات پر راضی نہ ہوئے اور آپ نے اس مہینے کے احترام اور کعبہ کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا اور پھر اتفاق رائے سے قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا۔

صلح نامہ کی تحریری شکل

آنحضور نے حضرت علی(ع)سے صلح نامہ کو تحریر کروایا۔ آپ نے فرمایا لکھو‘ ”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم“۔ سہیل بن عمرو جو قریش کا نمائندہ تھا‘ نے اعتراض کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کا طریقہ کار ہے اور ہمارے لئے مانوس نہیں ہے‘ آپ یہ لکھو کہ ”بسمک اللھم“۔ آپ نے اس کی بات قبول کی اور حضرت علی(ع)سے فرمایا کہ آپ(ع)اسی طرح سے لکھیں‘ بعد میں فرمانے لگے‘ لکھو‘ یہ سمجھوتہ ہے محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پا رہا ہے۔

قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے اور صرف آپ کے پیروکار آپ کو خدا کا رسول مانتے ہیں اور اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے اور مکہ مکہ میں داخلے پر بھی پابندی نہ لگاتے‘ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھئے۔ آنحضور نے فرمایا‘ تم چاہے مجھے خدا کا رسول مانو چاہے نہ مانو لیکن میں اللہ کا رسول ہوں‘ اس کے بعد آپ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لکھو‘ یہ عہد نامہ‘ معاہدہ محمد بن عبداللہ اور قریش کے لوگوں کے درمیان طے پا رہا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا‘ ازاں بعد تاریخی حوالوں کے مطابق اس معاہدے کے بعض پہلوؤں پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61