نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)75%

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 61

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20054 / ڈاؤنلوڈ: 3357
سائز سائز سائز
نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

مؤلف:
اردو

۱

کتاب کا نام : نبی امی

مصنف کا نام : مرتضی مطہری

۲

تمہید ناخواندہ رسول

آپ کی زندگی مبارک کا یہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے کبھی نہ تو کسی کتاب کا مطالعہ کیا‘ نہ کسی استاد سے تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مدرسے‘ مکتب یا کتاب سے آشنائی تھی۔

مسلم یا غیر مسلم مورخوں میں کسی ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ بچپن‘ جوانی یا اس کے بعد عمر کے کسی بھی حصے میں کسی کے پاس پڑھنے‘ لکھنے یا سیکھنے کے لئے گئے ہوں اور اسی طرح کوئی یہ نشاندہی تو کروا دے کہ عہد رسالت سے قبل آپ نے ایک جملہ بھی لکھا یا سیکھا ہو۔

عرب کے تمام لوگ خاص طور پر سرزمین حجاز کے لوگ اس عہد میں مکمل طور پر ان پڑھ تھے ماسوائے چند افراد کے‘ جن کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا تھا‘پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ماحول میں کوئی شخص بھی اس فن سے واقف ہو چکا ہو اور پھر بھی لوگوں کے درمیان اس صفت کی وجہ سے مشہور نہ ہوا ہو۔

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور بعدازاں اس موضوع پر بحث بھی کریں گے‘ آپ کے مخالفین تاریخ کے اس حصے میں یہ بہتان تراشی کرتے تھے کہ آپ دوسروں کی سنی سنائی باتیں بیان کرتے ہیں‘ لیکن آپ پر یہ الزام نہیں تھا کہ کیونکہ آپ پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں‘ آپ کے پاس کتابیں موجود ہیں اور ان سے آپ اپنا مقصد بیان کرتے ہیں‘ کیونکہ اگر آپ کو لکھنے‘ پڑھنے سے معمولی واقفیت بھی ہوتی تو حتمی طور پر آپ پر یہ الزام عائد کیا جاتا۔

۳

دوسروں کے اعتراضات

مشرق شناسوں جو اسلامی تاریخ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ نے بھی آپ کے پہلے سے پڑھنے‘لکھنے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں دیا‘ بلکہ اس امر کا اعتراف کیا کہ آپ ان پڑھ تھے اور یہ کہ ایک ان پڑھ قوم کے درمیان ظہور میں آئے تھے۔

انگریز مورخ کارلائل اپنی کتاب ”البطال“ میں لکھتا ہے کہ

”ہمیں اس چیز کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ محمد نے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کیا۔“

صنعت تحریر عربوں کے درمیان نئی نئی متعارف ہوئی تھی‘ مذکورہ مورخ مزید بیان کرتا ہے کہ

”میرے خیال کے مطابق آپ کو لکھ پڑھنے سے کوئی شناسائی نہ تھی اور ماسوائے صحرائی زندگی کے آپ نے کسی دنیاوی چیز کا علم حاصل نہ کیا تھا۔“

ویل ڈیورنٹ

ویل ڈیورنٹ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں لکھتا ہے کہ

”اس دور میں بظاہر کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ آپ کو لکھنا‘ پڑھنا سکھاتا‘ کیونکہ اس دور میں عربوں کے لئے لکھنے‘ پڑھنے کی کوئی اہمیت نہ تھی‘ اسی بناء پر قبیلہ قریش کے صرف ۱۷ افراد پڑھنا‘لکھنا جانتے تھے اور آپ نے خود کچھ لکھا ہو‘ اس بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں اور عہد رسالت میں بھی آپ نے کچھ کاتب مقرر کئے ہوئے تھے‘ اس کے باوجود عربی زبان کی بلیغ ترین کتاب آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور مسائل کی باریکیوں کا تعلیم یافتہ افراد کے بہ نسبت بدرجہا بہتر طور پر ادراک کیا۔“

۴

جان ڈیون پورٹ

جان ڈیون پورٹ اپنی کتاب ”عذر تقصیر بہ پیشگاہِ محمد و قرآن“ میں رقمطراز ہے کہ

”تعلیم و تعلم کے حصول کے بارے میں جیسا کہ دنیا میں رائج ہے‘ سب جانتے ہیں کہ آپ نے تعلیم حاصل نہیں کی اور وہی کچھ سیکھا جو آپ کے قبیلے میں رائج تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں سیکھا۔“

کانسٹن ورجل گیورگیو

کانسٹن ورجل گیورگیو اپنی کتاب ”محمد پیغمبری کہ از نو باید شناخت“ محمد وہ نبی جسے ازسرنو پہچاننا چاہئے‘ میں لکھتا ہے کہ

”اُمی ہونے کے باوجود جب قرآن مجید کی ابتدائی آیات آپ پر نازل ہوئیں تو بات کا آغاز علم و قلم سے ہوا‘ یعنی لکھنے‘ پڑھنے اور سکھانے کی ہدایت کی گئی۔ دنیا کے کسی بڑے مذہب میں تعلیم دینے کے بارے میں اس حد تک تعلیم کو اجاگر نہیں کیا گیا اور مزید یہ کہ دنیا کا کوئی اور مذہب ایسا نہیں پایا جاتا جس کے اصول میں علم و معرفت کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔ اگر آپ دانشمند ہوتے تو غارِ حرا میں ان آیات کا نزول ایک حیران کن بات نہ ہوتی‘ کیونکہ دانشمند علم کی قدر و منزلت سے واقف ہوتا ہے‘ لیکن آپ ناخواندہ تھے اور کسی معلم سے تعلیم حاصل نہ کی تھی اور میں مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کے دین میں حصول علم و معرفت کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔“

۵

گوسٹاؤلوبون

گوسٹاؤلوبون اپنی مشہور کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں کہتا ہے کہ

”جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ اُمی تھے جو کہ قیاس آرائی ہی ہے‘ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ عالم تھے تو قرآن مجید کی آیات اور موضوعات میں ایک بہتر تسلسل ہوتا اور اس کے علاوہ یہ بھی ایک قیاس آرائی ہے کہ اگر آپ اُمی نہ ہوتے تو آپ کسی نئے دین کو متعارف یا رائج نہ کر سکتے تھے‘ کیونکہ ایک ناخواندہ شخص کو جاہل لوگوں کی ضرورتوں کا بہتر ادراک ہوتا ہے اور وہ بہتر طریقے سے ان کو راہ راست کی طرف لا سکتا ہے۔ بہرحال آپ اُمی ہوں یا غیر اُمی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ فہم و فراست کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔“

گوسٹاؤلوبون نے قرآن پاک کے مفاہیم کے بارے میں مکمل آگاہی نہ رکھنے کی بناء پر اور اپنی مادی سوچ کی وجہ سے آیات قرآنی کی بے ترتیبی اور ایک عالم کا جاہلوں کی ضرورتوں سے لاعلم ہونا‘ جیسی احمقانہ باتیں کی ہیں اور قرآن و رسول پاک کی شان میں گستاخی کرنے کے باوجود اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ کے پہلے سے پڑھے لکھے ہونے کی کوئی سند یا دلیل موجود نہیں۔

بہرحال ان بیانات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں‘ تاریخ اسلام اور مشرق کے بارے میں مسلمان اور مشرقی لوگ زیادہ بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہاں ان باتوں کو بیان کرنا اس لئے مناسب ہے کہ جو لوگ اس بارے میں ذاتی مطالعہ نہیں رکھتے‘ ان کے لئے معمولی سی بات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلم مورخین کے تجسس اور تنقیدی نگاہ سے اس ضمن میں معمول سے معمولی بات بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔

ایک موقع پر آپ اپنے چچا حضرت ابوطالب(ع)کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک مقام پر آرام کی غرض سے رکے تو وہاں پر آپ کا سامنا بحیرہ نامی ایک راہب سے ہوا (معروف اسلام و مشرق شناس پروفیسر ماسینیون اپنی کتاب ”سلمان پاک“ میں ایسے شخض کے وجود کے بارے میں بلکہ حضور پاک کی اس سے ملاقات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے اور اسے افسانوی شخصیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ”بحیرہ سرجیوس‘ تمیمداری اور دوسرے جنہوں نے آپ کے بارے میں روایات جمع کی ہیں‘ وہ سب اختراعی و فرضی کردار ہیں‘ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں)۔

۶

اس ملاقات نے مشرق شناسوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ آیا آپ نے اس مختصر ملاقات میں اس راہب سے کچھ سیکھا؟ اب جبکہ اتنا معمولی سا واقعہ جدید و قدیم مخالفین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے‘ تویہ امر واضح ہے کہ اگر آپ کے پہلے سے پڑھے لکھے ہونے کے بارے میں کسی ادنیٰ سی دلیل کا وجود بھی ہوتا تو ان کی نگاہوں سے کبھی پوشیدہ نہ رہتی اور اس گروہ کی طاقتور خوردبینوں کے نیچے وہ دلیل کئی گنا بڑی نظر آتی۔

اس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دو ادوار کے بارے میں بحث کی جائے:

۱ ۔ اعلان نبوت سے پہلے کا دور

۲ ۔ اعلان نبوت کا دور

اعلان نبوت کا دور یا دورئہ رسالت کے بارے میں بھی دو موضوعات پر سیر بحث حاصل ہونی چاہئے:

الف) لکھنا

ب) پڑھنا

بعد میں ہم واضح کریں گے کہ مسلم اور غیر مسلم علماء کی بالاتفاق یہ حتمی رائے ہے کہ آپ کو اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد پڑھنے‘ لکھنے سے معمولی واقفیت نہ تھی‘ لیکن اعلان نبوت کے بعد اس بات کے مسلم الثبوت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا‘ جبکہ عہد رسالت میں بھی جو بات کسی حد تک حتمی ہے وہ آپ کے لکھنا نہ جاننے کے بارے میں کی جا سکتی ہے‘ نہ کہ پڑھنے کی۔

۷

شیعہ مکتب فکر کی بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عہد رسالت میں پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ تاہم اس سلسلے میں شیعہ روایات میں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ مجموعی طور پر ان تمام دلائل اور قرائن کو سامنے رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے عہد رسالت میں نہ پڑھا اور نہ لکھا۔

عہد رسالت سے پہلے دور کے بارے میں غور و خوض کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے‘لکھنے کے لحاظ سے جزیرئہ عرب کے اس دور کے عام حالات کا جائزہ لیں۔

کتب تواریخ کے مطالعے سے اس ضمن میں یہ پتہ چلتا ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ساتھ جزیرئہ عرب میں پڑھنے‘ لکھنے والے افراد کی تعداد انتہائی محدود تھی۔

حجاز میں رسم الخط کا رائج ہونا

بلاذری اپنی کتاب ”فتوح البلدان“ میں حجاز کے عرب باشندوں میں رسم الخط کے رائج ہونے کے بارے میں رقمطرز ہے کہ

”پہلی مرتبہ ”طی“ کے قبیلے کے تین افراد نے(جو شام کے نواح میں تھے) عربی رسم الخط کی ترویج کی‘ اسے متعارف کرایا اور عربی حروف تہجی کو سریانی حروف تہجی سے موازنہ کیا۔ ازاں بعد انبار کے کچھ لوگوں نے ان تین افراد سے یہ رسم الخط سیکھا‘ بعد میں حیرہ کے لوگوں نے انبار کے ان تین افراد سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی‘ پھر بشر بن عبدالملک جو ”دومة الجندل“ کے عیسائی مسلک امیر اکیور بن عبدالملک کا بھائی تھا‘ ”حیرہ“ میں آمد و رفت کے دوران ”حیرہ“ کے لوگوں سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی۔

۸

بشر بن عبدالملک کندی بذات خود اپنے کسی کام سے مکہ مکرمہ گیا تو اسے سفیان بن امیہ (ابوسفیان کا چچا) اور ابوقیس بن عبدالمناف بن زہرہ نے دیکھا کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے‘ انہوں نے اس سے کہا کہ انہیں بھی لکھنا سکھا دے اور اس نے انہیں لکھنے کی تعلیم دی۔ اس کے بعد ”بشر“ ان دو افراد کے ہمراہ کاروباری سلسلے میں طائف روانہ ہو گیا‘ اس طرح غیلان بن سلمہ ثقفی نے ان لوگوں سے لکھنا سیکھا‘ اس کے بعد بشر ان دونوں ساتھیوں سے جدا ہو کر مصر چلا گیا۔ عمرو بن زرارہ جو بعد میں عمرو کاتب کے نام سے مشہور ہوا‘ نے بھی اس شخص یعنی بشر سے لکھنے کا فن سیکھا۔ بعد میں بشر شام روانہ ہو گیا اور وہاں پر بے شمار افراد اس کے لکھنے کے فن سے فیضیاب ہوئے۔“

ابن الندیم نے اپنی کتاب ”الفہرست“ میں جو ابتدائی خط کا پہلا مقالہ ہے‘ میں وہ بلاذری کی کتاب کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ

”پہلا عربی رسم الخط جس نے لکھا وہ قبیلہ بولان کے تین افراد تھے‘ جو کہ انبار میں رہائش پذیر ایک قبیلہ ہے اور حیرہ کے لوگوں نے انبار کے لوگوں سے خط کی تعلیم حاصل کی۔“

ابن خلدون بھی اپنی مشہور کتاب ”فی ان الخط و الکتابة من عداد الصنائع الانسانیة“ میں بلاذری کی کچھ باتوں کی تائید اور ذکر کیا ہے۔ بلاذری اس کی صفت پیش کرتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ

”ظہور اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں کچھ افراد تھے جو پڑھے لکھے تھے۔“

اور یہ بھی لکھتا ہے کہ

”جب اسلام کا ظہور ہوا تو قریش کے صرف ۱۷ افراد لکھنا جانتے تھے‘ ان کے نام یہ ہیں:

۱ ۔ عمرؓ بن الخطاب‘ ۲ ۔ علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘ ۳ ۔ عثمانؓ بن عفان‘ ۴ ۔ ابوعبیدہ جراح‘ ۵ ۔ طلحہ ۶ ۔ یزید بن ابی سفیان‘ ۷ ۔ ابوحذیقة بن ربیعہ‘ ۸ ۔ حاطب بن عمرو عاری‘ ۹ ۔ ابو سلمہ محذومی‘ ۱۰ ۔ ابان بن سعید اموی‘ ۱۱ ۔ خالد بن سعید اموی‘ ۱۲ ۔ عبداللہ بن سعد بن ابی شرح‘ ۱۳ ۔ حویطب بن عبدالعزیٰ‘ ۱۴ ۔ ابوسفیان بن حرب‘ ۱۵ ۔ معاویہ بن ابی سفیان‘ ۱۶ ۔ جمہیم بن الصلت‘ ۱۱ ۔ علاء بن الحضرمی۔

۹

جن کا قبیلہ قریش کے ساتھ سمجھوتہ طے پایا ہوا تھا‘ مگر خود قبیلہ قریش سے نہ تھے۔“

بلاذری صرف قبیلہ قریش کی ایک عورت کا نام بتالتا ہے جو زمانہ جاہلیت اور ظہور اسلام کے وقت لکھنا جانتی تھی۔ یہ عورت جس کا نام شفا دختر عبداللہ عذوی تھا‘ جو حلقہ بگوش اسلام ہوئیں‘ جس کا پہلی مہاجر عورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ بلاذری کہتا ہے کہ یہ عورت وہی ہے جس نے آنحضور کی زوجہ محترمہ ”حفصہ“ کو لکھنا سکھایا اور ایک دن آپ نے اس سے فرمایا:

الا تعلمین حفصه رقیه النمله کما علمتها الکتاب

”جیسا کہ حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ کیا اسے ”رقیة النملہ“ کی بھی تعلیم دے سکتی ہو اور اگر اس چیز کی تعلیم دے دو تو بہتر ہو گا۔“

فتوح البلدان مطبوعہ چھاپ خانہ السعادہ‘ مصر ۱۹۵۹ ء میں لفظ ”رقنة النملة“ لکھا گیا ہے جو کہ کتابتی غلطی ہے اور صحیح لفظ وہی ہے جیسا کہ ابن اثیر کی النہایہ میں آیا ہے یعنی ”نمل“ اور صحیح عبارت ”رقیة النملة“۔

رقیہ ان عبارتوں کو کہا جاتا تھا جن کا بلاؤں اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے ورد کرنا مفید سمجھا جاتا تھا۔ ابن اثیر لفظ ”رقی“ کے بارے میں کہتا ہے کہ آنحضور سے منقول بعض فرمودات میں ”رقی“ سے منع کیا گیا ہے اور بعض میں اس کی تجویز دی گئی ہے اور ابن اثیر دعویٰ کرتا ہے کہ جن احادیث میں غیر خدا سے پناہ طلب کی جائے ان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا توکل خدا پر نہیں رہتا‘ لہٰذا ایسے تعویزات پر اعتماد نہ کیا جائے‘ جبکہ وہ احادیث جن میں تعویزات کی سفارش کی گئی ان میں اسماء الٰہی اور ان سے اثر حاصل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

۱۰

ابن اثیر لفظ ”نمل“ کے بارے میں کہتا ہے:

”جو کچھ ”رقیة النملة“ میں مشہور ہے درحقیقت وہ ”رقی“ کی شکل نہیں ہے‘ بلکہ ایسی عبارتیں تھیں جو زبان زد خاص و عام تھیں اور سب کو معلوم تھا کہ ان کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ آنحضور نے بطور مزاح اور اشارتاً شفا سے اپنی زوجہ محترمہ حفصہ کو اس عبارت کو سکھانے کی تلقین کی۔ عبارتیں یہ تھیں:

العروس لحصل‘ و تحتضب‘ و تکتمل‘ وکل شئی نضتعل غیران لا تعصی الرجل

دلہن سکھیوں کے درمیان بیٹھی ہے اور سولا سنگھار کرتی ہے‘ کاجل لگاتی ہے‘ غرض کہ ایسے ہی کام کرتی ہے‘ لیکن اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرتی۔

ان عبارتوں کو”رقیة النملة“ کے نام سے یاد کیا تھا اور بظاہر ان عبارتوں میں طنز و مزاح کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔“

ابن اثیر کہتا ہے کہ

”آنحضور نے ازراہ مزاح شفا نامی عورت سے فرمایا تھا جیسا کہ تم نے حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ تو کتنا اچھا ہوتا کہ تم انہیں رقیة النملة بھی سکھا دیتی۔ یہ بات اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہماری زوجہ نے ہماری اطاعت نہیں کی اور اس راز کو جو میں نے اسے بتایا تھا۔“(یہ بات تاریخ میں مشہور ہے اور سورئہ تحریم کی پہلی آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے‘ اسے بھی فاش کر دیا)

بلاذری نے پھر چند ایسی مسلم خواتین کے نام بتائے کہ جو اسلامی دور میں بھی پڑھنا لکھنا جانتی تھیں یا صرف پڑھنا جانتی تھیں اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ

”حضرت حفصہ جو کہ رسول خدا کی زوجہ تھیں‘ وہ بھی لکھنا جانتی تھیں‘ ام کلثوم دختر عتبہ بن ابی معیط (اولین مہاجر خواتین) بھی لکھنا جانتی تھیں۔ عائشہ دخترسعد کہتی ہیں میرے والد نے مجھے لکھنا سکھایا‘ اسی طرح کریمہ دختر مقداد بھی لکھنا جانتی تھیں۔ حضرت عائشہ زوجہ رسول پڑھنا جانتی تھیں لیکن لکھنا نہیں اور اسی طرح ام سلمہ بھی۔“

۱۱

بلاذری بھی ان لوگوں کا نام بتاتا ہے جو مدینہ میں آنحضور کے منشی تھے اور مزید کہتا ہے کہ

ظہور اسلام کے نزدیک ”اوس“ اور ”خزرج“ (مدینے کے دو معروف قبیلے) میں صرف ۱۱ اشخاص لکھنے کے فن کو جانتے تھے(ان کے نام بھی بتاتا ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فن خط نویسی حجاز کے علاقے میں نیا نیا متعارف ہوا تھا‘ اس زمانے میں حجاز کے حالات اور ماحول کی صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص لکھنا‘ پڑھنا جانتا تھا تو وہ مقبول خاص و عام ہو جاتا تھا۔ وہ افراد جو ظہور اسلام سے کچھ عرصہ قبل اس فن سے واقف تھے‘ چاہے وہ مکہ میں ہوں یا مدینہ میں‘ وہ مشہور اور انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے تھے‘ لہٰذا ان کے نام تاریخ میں ثبت ہو گئے اور اگر رسول خدا کا شمار اس زمرہ میں ہوتا تو حتمی طور پر آپ اس صنعت کے حوالے سے پہچانے جاتے اور آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہوتا‘ کیونکہ آنحضور کا نام نامی اس زمرہ میں نہیں ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قطعی طور پر آپ کا پڑھنے‘ لکھنے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔“

عہد رسالت خصوصاً مدینے کا دور

گزشتہ بحث سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاک نے عہد رسالت کے دوران نہ پڑھا‘ نہ لکھا‘ لیکن مسلم علماء چاہے وہ اہل سنت ہوں یا شیعہ‘ اس سلسلے میں ان کا نقطہ نگاہ ایک نہیں ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ وحی نے جو ہر چیز کی تعلیم دیتی تھی‘ انہیں پڑھنا‘ لکھنا نہ سکھایا ہو؟ کچھ شیعہ روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپ دوران نبوت پڑھنا جانتے‘ لیکن لکھنا نہ جانتے تھے۔(بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)

۱۲

اس ضمن میں صدوق نے علل الشرایع میں ایک روایت نقل کی ہے:

”خدا کی رحمت اپنے رسول پر یہ تھی کہ آپ پڑھ سکتے تھے‘ لکھ نہیں سکتے تھے اور جب ابوسفیان نے احد پر چڑھائی کی تو حضرت عباسؓ جو آپ کے چچا تھے‘ نے ایک خط آپ کو لکھا اور جب یہ خط آپ تک پہنچا تو اس وقت آپ مدینے کے نزدیک ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے خط پڑھا‘ لیکن اپنے صحابیوں کو اس کے مضمون سے آگاہ نہ کیا۔ آپ نے حکم دیا‘ سب لوگ شہر مدینہ میں چلے جائیں اور جونہی سب لوگ شہر میں داخل ہو گئے تو آپ نے وہ خط پڑھ کر انہیں سنا دیا۔“

لیکن سیرة زبینی دخلان میں حضرت عباسؓ کے خط کے واقعہ کو علل الشرایع کی روایت کے برخلاف بیان کیا گیا ہے‘ اس میں لکھا ہے کہ

”جونہی حضرت عباسؓ کا خط آپ تک پہنچا تو آپ نے اسے کھولا اور ابی بن کعب کو دیا کہ اسے پڑھے۔ ابن کعب نے اسے پڑھا اور آپ نے حکم دیا کہ اس خط کو بند کر دے‘ اس کے بعد آپ سعد بی ربیعہ جو ایک مشہور صحابی تھے‘ ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عباسؓ کے خط کے متعلق بیان کیا اور ان سے درخواست کی کہ فی الحال اس موضوع کو پوشیدہ رکھیں۔“

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نبوت کے دوران لکھتے بھی تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ سید مرتضیٰ ”بحارالانوار“ سے نقل کرتے ہیں کہ

”اہل علم کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ آپ دنیا سے رحلت فرمانے سے پہلے لکھنا‘ پڑھنا جانتے تھے۔“

معتبر تواریخ اور کتابوں کی رو سے آپ نے وقت رحلت ارشاد فرمایا تھا کہ

”میری قلم اور دوات (یا دوات اور کنگھی) لاؤ تاکہ تمہیں کچھ ہدایات لکھ دوں‘ تاکہ تم میری رحلت کے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔(بحارچاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵ ۔ مجمع اللبیان آیت ۲۸‘ سورئہ عنکبوت کے ذیل میں‘ بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)

۱۳

یہاں پر دوات و قلم کی حدیث پر صحیح استناد نہیں ہے‘ کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ آپ اپنے دست مبارک سے لکھنا چاہتے تھے‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ مجمع کے درمیان لکھنا چاہتے تھے اور سب پر عیاں کرنا چاہتے تھے اور آپ گواہوں کے طور پر ان سے دستخط لینا چاہتے تھے‘ پھر یہ تعبیر کہ میں تمہارے لئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ تاکہ میرے بعد تم بھٹک نہ جاؤ درست ہے۔

آنحضور کے کاتبین

قدیم اسلامی مستند تواریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں آنحضور کے کچھ معاونین موجود تھے۔ یہ معاونین خدا کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے فرمودات‘ لوگوں کے عقائد‘ مذہبی معاملات‘ آپ کے عہد و پیمان‘ اہل کتاب‘ مشرکین کے نام آپ کے خطوط‘ پیغامات‘ دفتری معاملات‘ صدقات و جزیہ سے مربوط کتابچے‘ خمس و غنیمت سے مربوط کھاتے اور دیگر ضروری امور پر بہت سے خطوط جو آپ کی طرف سے قرب و جوار میں بھیجے گئے۔

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے زبانی فرامین جو ضبط تحریر میں آ گئے تھے اور ابھی تک باقی ہیں‘ مزید برآں دور نبوت میں آپ نے جتنے بھی معاہدے اور خطوط جو وقتاً فوقتاً لکھوائے وہ بھی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں۔

محمد بن سعد اپنی کتاب الطبقات الکبیر‘ ج ۲‘ ص ۱۰ تا ۳۸ میں آپ کے ۱۰۰ کے قریب خطوط کا حوالہ اپنے مضامین میں دیتا ہے۔ ان میں سے دعوت اسلام پر مشتمل کچھ خطوط دنیا کے مختلف بادشاہوں‘ حکمرانوں‘ قبائل کے سرداروں‘ دیگر سرکردہ افراد‘ رومی‘ ایرانی‘ خلیج فارس کے عمال اور دیگر اہم شخصیات کو تحریر کئے گئے ہیں‘ ان میں سے کچھ سرکلر‘ فرامین اور بعض دیگر معاملات کے بارے میں ہیں جو اسلام کے فقہی مدارک کے اسناد سمجھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر خطوط کا علم ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں‘ کاتب نے خط کے مضمون کے آخر میں اپنا نام ثبت کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کاتب کا نام خط کے آخر میں ثبت کئے جانے کی روایت پہلی بار ابی بن کعب جو معروف صحابی رسول ہیں‘ کے ذریعے رائج ہوئی۔

۱۴

مذکورہ بالا خطوط‘ معاہدے اور کھاتوں میں سے کوئی بھی آپ کے اپنے دست مبارک کا لکھا ہوا نہیں ہے‘ یعنی کوئی ایک خط بھی ایسا نہیں دیکھنے میں آیا کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خط رسول خدا نے خود تحریر کیا ہے۔ مزید برآں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے نزول قرآن کے دوران ایک بھی قرآنی آیت اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائی ہو‘ بلکہ کاتبین وحی نے فرداً فرداً قرآن مجید کو تحریر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ رسول خدا لکھنا جانتے ہوئے بھی اپنے دست مبارک سے ایک سورة یا کم از کم ایک آیت بھی نہ لکھتے ہوں۔

تاریخ میں آنحضور کے کاتبین کے نام

کتب تواریخ میں آنحضور کے معاونین کے نام آئے ہیں۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ کی دوسری جلد میں رسول خدا کی وحی‘ خطوط اور معاہدے لکھنے والے معاونین کے نام تحریر کئے ہیں:

”علی(ع)ابن ابی طالب(ع)‘ عثمانؓ بن عفان‘ عمرو بن العاص‘ معاویہ بن ابی سفیان‘ شرجیل بن حسنہ‘ عبداللہ بن سعید بن ابی سرح‘ مغیرة بن شعبہ‘ معاذ بن جبل‘ زید بن ثابت‘ حنظلہ بن الربیعہ‘ ابی بن کعب‘ جہیم بن الصلت‘ حضین النمیری۔“(تاریخ یعقوبی‘ ج ۲‘ ص ۶۹)

کاتبین کی فرداً فرداً خصوصی ذمہ داریاں

مسعودی اپنی کتاب ”التنبیہ والاشراف“ میں اس قدر تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یہ معاونین کاتبین اور ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے ذمے کون کون سا کام لیا ہوا تھا اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہے کہ ان تمام معاونین کا دائرئہ کار اس مقررہ حد سے بھی زیادہ تھا اور اسی نظم و ضبط کے امور بھی ان کے درمیان تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ مسعود مزید کہتا ہے

۱۵

کہ ”خالد بن سعید بن العاص آنحضور کے دست راست تھے‘ جو مختلف مسائل درپیش ہوتے وہ انہیں تحریر کرتے۔ اسی طرح مغیرہ بن شعبہ‘ حصین بن نمیر‘ عبداللہ بن ارقم اور علاء بن عقبہ لوگوں کے دستاویزات‘ معاہدوں اور دیگر معاملات کے دستاویزات کو ضبط تحریر میں لاتے تھے۔ زبیر بن العوام اور جہیم بن الصلت ٹیکسوں اور صدقات کے گوشواروں کو ضبط تحریر میں لاتے۔ حذیفہ بن الیمان کے سپرد حجاز کے لین دین کے معاملات یا اس سے متعلق امور کا شعبہ تھا۔ معیقب بن ابی فاطمہ کے ذمے اموال غنیمت کے ثبت کرنے کا شعبہ تھا۔ زید بن ثابت انصاری بادشاہوں اور دوسرے اعلیٰ حکام وغیرہ کو خطوط تحریر کرتے تھے‘ آپ آنحضور کے ترجمان بھی تھے اور آپ فارسی‘ رومی‘ قبطی اور حبشی زبانوں کے دستاویزات و خطوط کا ترجمہ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے یہ تمام زبانیں اہل مدینہ کے درمیان رہ کر سیکھی تھیں۔ حنظلہ بن ربیع ایک نہایت قیمتی سرمایہ تھے‘ انہوں نے لکھنے کے فن میں بہت شہرت و نیک نامی حاصل کی اور حنظلہ کاتب کے نام سے معروف ہوئے اور جب حضرت عمرؓ کے دور میں اسدلامی فتوحات کے سلسلے کا آغاز ہوا‘ ”رھا“ کے علاقے میں گئے اور اسی مقام پر وفات پا گئے۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کچھ عرصہ کتابت اور لکھنے سے منسلک رہے‘ لیکن بعد میں یہ مرتد ہو گیا اور مشرکین کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ شرجیل بن حسنہ طایخی نے بھی آپ کے لئے لکھا۔ ایان بن سعید اور علاء بن الحضرمی بھی گاہے بگاہے آپ کے لئے تحریر کرتے رہے۔ معاویہ نے آپ کی رحلت سے صرف چند ماہ قبل آپ کے لئے لکھنے کے فرائض انجام دیئے۔ یہ تمام افراد وہ ہیں جو عمومی طور پر کچھ عرصہ کے لئے لکھنے لکھانے کے سلسلے میں آپ کے محرر رہے‘ لیکن وہ لوگ جو آپ کے لئے ایک یا دو خطوط لکھتے رہے وہ آپ کے معاونین میں شمار نہیں کئے جاتے اور ہم ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔“(التنبیہ والاشراف‘ ص ۲۴۰‘ ۲۸۶)

۱۶

جامع ترمذی میں زید بن ثابت نقل فرماتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا اور میرے لئے ہدایت جاری کہ میں سریانی زبان سیکھوں اور جامع ترمذی میں زید بن ثابت سے یہ منقول ہے کہ رسول اکرم نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اب تم یہود کی لغت ”زبان“ بھی سیکھو‘ خدا کی قسم میں اپنے خطوط کے سلسلے میں یہودیوں پر اعتبار نہیں کر سکتا۔ زید بن ثابت کا کہنا ہے کہ میں نے یہ زبان ڈیڑھ ماہ سیکھی‘ اس کے بعد جب بھی آپ قوم یہود کے نام خط لکھواتے تو مجھ سے ہی لکھواتے تھے اور جب بھی یہود سے آپ کے نام خط موصول ہوتا تو میں ہی آپ کے لئے پڑھ کر سناتا تھا۔

فتوح البلدان میں بلاذری نے ص ۴۶۰ پر یہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا:

”رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ یہود کی کتاب کو سریانی زبان میں سیکھو اور مجھ سے فرمایا کہ مجھے اپنے کاتبین کے بارے میں یہودیوں سے خدشہ ہے‘ تو ۱۵ دن یا ۶ ماہ میں‘ میں نے سریانی سیکھ لی۔ ازاں بعد میں یہود کے نام آپ کے خطوط کو رشتہ تحریر میں لاتا اور ان سے ”یہود“ سے موصول خطوط کو آپ کو پڑھ کر سناتا۔“

مسعودی نے اس مقام پر کاتبین وحی اور اسی طرح سرکاری معاہدوں کے لکھنے والوں کے نام جیسے علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘عبداللہ بن مسعود اور ابی بن ابی کعب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کے نام کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے جو وحی کی کتابت کے علاوہ دوسری ذمہ داریوں کے حامل تھے۔

اسلامی تواریخ اور احادیث سے واقعات بہت زیادہ سامنے آتے ہیں‘ جن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور کے پاس دور دراز علاقوں کے ضرورت مند افراد آیا کرتے تھے اور آپ سے وعظ و نصیحت کرنے کی درخواست کرتے اور آپ اپنی مدبرانہ اور نصیحت آمیز گفتگو سے ان کے سوالوں کے جواب دیتے‘ یہ تمام باتیں اور گفتگو ”فی المجلس“ میں یا بعد میں تحریری شکل میں محفوظ ہو چکے ہیں۔

۱۷

اس کے باوجود ہماری نظر سے ایسی کوئی تحریر نہیں گزری کہ جس سے ثابت ہو کہ آپ نے کسی فرد کے جواب میں اپنے دست مبارک سے ایک سطر بھی تحریر فرمائی ہو‘ یقینا اگر آپ نے کوئی سطر بھی تحریر کی ہوتی تو مسلمان اس کو بطور تبرک یا نشانی اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہت بڑا افتخار سمجھتے ہوئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جس طرح ہم حضرت علی(ع)اور دیگر آئمہ معصومین(ع)کے بارے میں اس قسم کے واقعات سے عموماً ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ ان سے منسوب کچھ تحریریں یا خطوط‘ سالوں اور صدیوں سے ان کی نسلوں میں محفوظ ہیں اور آج بھی ایسے قرآنی نسخ موجود ہیں جو انہیں بزرگ ہستیوں سے منسوب ہیں۔ حضرت زید(ع)بن علی(ع)بن الحسین(ع)اور یحییٰ بن زید اور ان کے ذریعے صحیفہ سجادیہ کی حفاظت کا واقعہ‘ اس سلسلے میں ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

آنحضور نے درخواست گزاروں کے جواب میں ایک سطر تحریر نہیں فرمائی

ابن الندیم اپنے ”فن اول“ الفہرست کے دوسرے مقالے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے‘ وہ کہتا ہے:

”محمد بن الحسین نامی کوفہ کا رہنے والا ایک شیعہ جو ابن ابی بعرہ کے نام سے مشہور تھا۔ میری ملاقات ہوئی‘ اس کا ایک کتب خانہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ یہ کتاب خانہ اس نے کوفہ کے رہنے والے ایک شیعہ سے حاصل کیا تھا اور بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں موجود ہر کتاب پر اور ہر صفحہ پر تحریر کرنے والے کا نام ثبت تھا اور علماء کی ایک جماعت اور گروہ نے لکھنے والے افراد کے ناموں کی تائید بھی کی ہے۔ اس کتب خانہ میں حسنین علیہا السلام سے منسوب خطوط موجود و محفوظ تھے‘ نیز حضرت علی(ع)کے دست مبارک اور آنحضور کے تمام معاونین و کاتبین‘ سے لکھے ہوئے دستاویزات اور معاہدے موجود تھے اور ان کی مکمل حفاظت و نگہداشت کی جاتی رہی۔“

(الفہرست‘ مطبوعہ مطبعة الاستقامہ‘ قاہرہ‘ ص ۶۸)

۱۸

جی ہاں! ان نادر نمونوں اور پربرکت تحریروں کی اس حد تک حفاظت کی جاتی رہی‘ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضور نے ایک بھی سطر تحریر کی ہو اور تحریروں کے سلسلے میں مسلمانوں کی گہری دلچسپی کے معیار‘ خاص طور سے قبروں کی تحریروں کے بارے میں ان کے گہرے عقیدے کے باوجود ان کا نام و نشان نہ ملے؟

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور کے لکھنے کا ثبوت‘یہاں تک کہ عہد رسالت میں بھی کوئی بھی سامنے نہیں ہے‘ لیکن عہد رسالت میں آپ کے پڑھنے کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور حتمی طور سے نہیں کہی جا سکتی کہ آپ پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس دور نبوت میں آپ کے پڑھنے کے بارے میں بھی ہمارے پاس مکمل دلیلیں نہیں‘ بلکہ زیادہ تر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔

حدیبیہ کا واقعہ

آنحضور کی زندگی کی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات پیش آئے ہیں‘ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدنی زندگی کے دوران آپ پڑھنا‘ لکھنا نہ جانتے تھے۔ حدیبیہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت اور ایک حساس معاملے کی بناء پر بہت مشہور ہوا‘ اگرچہ تاریخ و احادیث کے حوالے سے اس سلسلے میں کافی اختلاف موجود ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان حوالوں کی مدد سے اس موضوع پر روشنی ڈالنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

۱۹

سنہ ہجری کے چھٹے سال ماہ ذی القعدہ میں رسول اکرم عمرہ و حج کی غرض سے مدینے سے مکے کی جانب روانہ ہوئے اور حکم دیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اپنے ہمراہ لے چلیں‘ لیکن جونہی مکہ سے ۲ فرسخ دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے راستے کی ناکہ بندی کر دی اور آپ کو اور ساتھی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا‘ باوجود اس کے ماہ حرام کا مہینہ تھا اور عہد جاہلیت کے قانون کے مطابق قریش کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ آپ کے لئے رکاوٹ پیدا کریں۔ آپ نے ان پر واضح کیا کہ میں صرف خانہ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آیا ہوں‘ میرا کوئی اور مقصد نہیں‘ مناسک حج کی انجام دہی کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا‘ لیکن قریش پھر بھی نہ مانے۔ ادھر دوسری طرف مسلمانوں خا اصرار تھا کہ زبردستی مکہ میں داخل ہو جائیں‘ لیکن آپ اس بات پر راضی نہ ہوئے اور آپ نے اس مہینے کے احترام اور کعبہ کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا اور پھر اتفاق رائے سے قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا۔

صلح نامہ کی تحریری شکل

آنحضور نے حضرت علی(ع)سے صلح نامہ کو تحریر کروایا۔ آپ نے فرمایا لکھو‘ ”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم“۔ سہیل بن عمرو جو قریش کا نمائندہ تھا‘ نے اعتراض کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کا طریقہ کار ہے اور ہمارے لئے مانوس نہیں ہے‘ آپ یہ لکھو کہ ”بسمک اللھم“۔ آپ نے اس کی بات قبول کی اور حضرت علی(ع)سے فرمایا کہ آپ(ع)اسی طرح سے لکھیں‘ بعد میں فرمانے لگے‘ لکھو‘ یہ سمجھوتہ ہے محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پا رہا ہے۔

قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے اور صرف آپ کے پیروکار آپ کو خدا کا رسول مانتے ہیں اور اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے اور مکہ مکہ میں داخلے پر بھی پابندی نہ لگاتے‘ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھئے۔ آنحضور نے فرمایا‘ تم چاہے مجھے خدا کا رسول مانو چاہے نہ مانو لیکن میں اللہ کا رسول ہوں‘ اس کے بعد آپ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لکھو‘ یہ عہد نامہ‘ معاہدہ محمد بن عبداللہ اور قریش کے لوگوں کے درمیان طے پا رہا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا‘ ازاں بعد تاریخی حوالوں کے مطابق اس معاہدے کے بعض پہلوؤں پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

۲۰

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61