نبی امی

نبی امی0%

نبی امی مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 61

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15831 / ڈاؤنلوڈ: 2015
سائز سائز سائز

سیرة ابن ہشام اور صحیح بخاری سے ”باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ مع اہل الحرب“، ج ۳‘ ص ۲۴۲ میں تحریر ہے کہ

”رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھے جانے کا واقعہ معاہدہ تحریر ہونے کے آغاز ہی میں رونما ہوا‘ لیکن زیادہ تر کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض اس وقت پیدا ہوا جب یہ لفظ حضرت علی(ع)نے تحریر فرمایا تھا اور رسول اکرم نے حضرت علی(ع)سے درخواست کی کہ اس لفظ کو مٹا دو‘ حضرت علی(ع)نے اس لفظ کو اپنے دست مبارک سے مٹانے سے معذرت چاہی۔ یہاں ایک بار پھر اختلاف پایا جاتا ہے‘ اہل تشیع کی روایات اس بات سے متفق ہیں کہ حضرت علی(ع)کے انکار کرنے پر آپ نے اپنے دست مبارک سے خود اس لفظ کو یعنی محمد رسول اللہ کو مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر فرمایا۔“

اور بعض دوسری روایات میں اور اہل سنت کی روایات میں بھی بڑے کھلے الفاظ میں آیا ہے کہ

”آپ نے حضرت علی(ع)سے درخواست کی کہ اس لفظ کو مجھے دکھاؤ اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس لفظ کو مٹا دو اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھوں گا۔“

یہاں پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریر کرنے والے حضرت علی(ع)تھے‘ آپ نہیں۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت دونوں کی رائے سے آپ نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا۔

قصص القرآن کی کتاب میں ابوبکر عتیق نیشاپوری سور آبادی کی تفسیر قرآن جو پانچویں صدی میں لکھی گئی ہے اور فارسی زبان میں ہے‘ شائع ہوئی ہے‘ میں بھی حدیبیہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ

”جب سہیل بن عمرو جو حدیبیہ کے سمجھوتے میں قریش کا نمائندہ تھا جب لفظ ”رسول اللہ “ پر اعتراض کرتا ہے‘ تو کہتا ہے ”سہیل بن عمرو“ اس طرح لکھو ”ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ سہیل بن عمرو“ یعنی یہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے سمجھوتہ کیا۔ آنحصور نے حضرت علی(ع)سے فرمایا‘ میرا نام یعنی لفظ رسول اللہ کو مٹا دو‘ علی(ع)کا دل اس بات کو نہ مانا تھا کہ لفظ رسول اللہ کو مٹا دیں اور آپ کے بار بار کہنے پر علی(ع)رنجیدہ خاطر ہوئے‘ یہاں تک کہ آنحضور نے فرمایا‘ میری انگلی اس لفظ پر رکھو تاکہ میں اسے مٹا دوں کیونکہ آپ اُمی تھے اور آپ لکھنا نہ جانتے تھے‘ حضرت علی(ع)نے آپ کی انگلی سے اس لفظ کی نشاندہی کروائی اور آپ نے اس لفظ کو مٹا دیا اور اس طرح سہیل بن عمرو نے جو بات کہی پوری کی۔“

۲۱

یعقوبی اپنی تاریخ میں ”تاریخ یعقوبی“ میں لکھتا ہے کہ

”رسول اللہ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لفظ ”رسول اللہ “ کاٹ کر عبداللہ لکھیں۔“

صحیح مسلم میں بھی یہ نقل ہوا ہے کہ

”جب علی(ع)لکھے ہوئے لفظ کو مٹانے سے انکار کرتے ہیں “

روایت کچھ اس طرح ہے‘ آپ نے فرمایا:

فارنی مکاتها فاراه مکاتها فمحاها و کتب محمد ابن عبدالله

’ ’آنحضور نے علی(ع)سے فرمایا‘ اس لفظ کی نشاندہی کرو اور علی(ع)نے اس لفظ کی نشاندہی کرائی‘ پس آپ نے اس لفظ کو مٹا دیا اور محمد بن عبداللہ لکھا۔“(صحیح مسلم‘ ج‘ ص ۱۷۴)

اس روایت میں ایک جگہ تو یہ کہا جا رہا ہے کہ آنحضور لفظ مٹانے کے لئے علی(ع)سے لفظ کی نشاندہی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اس لفظ کو مٹایا اور دوسرا لفظ ”محمد بن عبداللہ“ لکھا۔

آغاز میں یوں لگتا ہے کہ آپ نے مٹانے کے بعد تحریر فرمایا‘ درحقیقت حدیث کے راوی کا مقصود حتمی طور پر یہ ہے کہ علی(ع)نے لکھا‘ کیونکہ حدیث کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ آنحضور نے علی(ع)سے لفظ مٹانے کے لئے مدد مانگی۔

۲۲

تاریخ طبری اور تاریخ کامل‘ ابن اثیر اور بخاری کی باب الشروط سے ایک اور روایت کے مطابق واضح طور پر کہا گیا ہے کہ آنحضور نے اپنے دست مبارکس ے لکھا‘ کیونکہ کہا گیا ہے کہ

فاخذه رسول الله و کتب

”آنحضور نے دستاویز لیا اور خود لکھا۔“

طبری اور ابن اثیر کی عبارت میں ایک اور جملے کا اضافہ کیا گیا ہے کہ

فاخذه رسول الله و لیس یحسن ان يکتب فکتب

”آنحضور نے سمجھوتہ کی دستاویز لی‘ جبکہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے اور لکھا۔“

طبری اور ابن اثیر کی روایت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ آنحضور لکھنا نہیں جانتے تھے اور واقعہ حدیبیہ کے موقع پر آپ نے استثنائی طور پر لکھا۔

اس روایت سے شاید ان لوگوں کی بات کی تائید ہوتی ہو جو یہ کہتے ہیں کہ اگر آنحضور علم الٰہی کے ذریعے لکھنا چاہتے تو لکھ سکتے تھے‘ لیکن نہیں لکھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے کبھی نہ کسی کے شعر پڑھے اور نہ کہے‘ بعض دفعہ اگر آپ کسی سے کوئی شعر پڑھنے کے لئے کہتے تو اس کے مختلف حصوں کی تقدیم و تاخیر کر کے یا اس کے الفاظ میں کمی بیشی کر کے اس کے شعری ہیئت کو تبدیل فرما دیتے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ شعر و شاعری کو آپ کے مقام و مرتبے کے شایان شان نہ سمجھتا تھا۔

ارشاد خداوندی ہے:

( وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ ) (یس‘ ۶۹)

”اور ہم نے اس (پیغمبر) کو شعر کی تعلیم دی اور نہ شاعری اس کے شان کے لائق ہے‘ یہ (کتاب) تو بس (نری) نصیحت ہے اور صاف صاف قرآن ہے۔“

۲۳

اور اسی طرح دیکھنے میں آتا ہے کہ حدیبیہ کے سلسلے میں منقول واقعات میں تسلسل نہیں پایا جاتا‘ اگرچہ بعض منقول واقعات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں کلمہ ”بن عبداللہ“ جو آنحضور کے دستخط کا حصہ شمار ہوتا‘ آپ نے خود اپنے دست مبارک سے تحریر کیا تھا‘ لیکن انہیں حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اقدام ایک استثنائی اقدام تھا۔

اسدالغابہ میں تمیم بن جراشہ ثقفی کے حالات کے ضمن میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے‘ جس سے واشگاف انداز میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ آنحضور عہد رسالت میں بھی نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لکھنا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے:

”میں اور بنی ثقیف کا ایک گروہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے‘ پھر ہم نے آپ سے درخواست کی ہمارے ساتھ ایک معاہدہ کریں اور ہماری شرطوں کو تسلیم فرما لیں۔ آنحضور نے فرمایا‘ جو کچھ لکھنا چاہتے ہو لکھو اور مجھے دکھا دو۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے لئے ریا اور زنا کی اجازت کی شرط کو قبول فرمائیں‘ اب کیونکہ ہم لکھنا نہیں جانتے تھے ہم نے علی(ع)سے رجوع کیا۔ حضرت علی(ع)کو جب ہماری شرطوں کے بارے میں آگاہی ہوئی تو آپ(ع)نے معاہدہ لکھنے سے انکار کر دیا‘ ہم نے ازاں بعد خالد بن سعید بن العاص سے اس سلسلے میں درخواست کی تو علی(ع)نے اس سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم سے وہ کیا تحریر کرانا چاہتے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا‘ اس سے مجھے سروکار نہیں‘ وہ مجھ سے جو بھی تحریر کرنے کے لئے کہیں گے میں تحریر کروں گا۔ جب وہ آنحضور کے پاس جائیں گے تو آپ جو مناسب سمجھیں گے‘ کریں گے۔

چنانچہ خالد نے یہ معاہدہ لکھ دیا اور ہم اسے لے کر آنحضور کی خدمت میں گئے۔ آنحضور نے ایک شخص سے اسے پڑھنے کے لئے حکم دیا‘ دوران قرات جونہی لفظ ”ریا“ آپ نے سنا‘ فرمایا‘ میرا ہاتھ لفظ ”ریا“ پر رکھو‘ اس نے لفظ ”ریا“ پر آپ کا دست مبارک رکھا اور آپ نے اسے مٹا دیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ) (بقرہ‘ ۲۷۸)

”اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے ذمہ باقی رہ گیا ہے‘ اگر تم سچے مومن ہو تو چھوڑ دو۔“

۲۴

اس آیت کو سن کر ہماری روح اور ایمان کو اطمینان پہنچا اور ہم نے آپ کی بات مان لی کہ ہم آئندہ ”ریا“ یعنی سود نہیں لیں گے۔ وہ شخص جو اس تحریر کو پڑھ کر سنا رہا تھا‘ جب ”زنا“ کے بارے میں بتایا تو ایک بار پھر آپ نے اپنا دست مبارک اس لفظ ”زنا“ پر رکھا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی:

( وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ) (اسراء‘ ۳۲)

”اور دیکھو سنا کے پاس بھی نہ بھٹکنا کیونکہ بے شک وہ بڑی بے حیائی کا کام ہے۔“(اسدالغابہ‘ ج ۱‘ ص ۲۱۶)

حیرت انگیز بات

چار سال قبل ایرانی اخبارات و رسائل نے ایک حیرت انگیز بات شائع کی کہ ہندوستان کے ایک مسلمان دانشور جس کا نام سید عبداللطیف ہے اور جو دکن حیدر آباد کے رہنے والے ہیں جو مشرق قریب اور ہندوستان کے تہذیبی مطالعاتی ادارے کے سرپرست بھی ہیں‘ نیز دکن حیدر آباد کی اسلامی مطالعاتی اکیڈمی کے بھی سرپرست ہیں‘ نے ہندوستان کی ایک اسلامی کانفرنس میں اس سلسلے میں ایک جامع اور طویل تقریر کی جو انگریزی زبان میں شائع کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ

”آنحضور عہد رسالت سے پہلے بھی پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے!!“(مجلہ روشن فکر‘ شمارہ ہشتم‘ مہرماہ و شمارہ پاتر دہم مہر ماہ ۱۳۴۴ و نشریہ کانون سرد فتزان شمارہ آیان ماہ ۱۳۴۴ نقل از نشریہ آموزشن و پرورشن شمارہ شہروپور ۱۳۴۴)

ڈاکٹر سید عبداللطیف کی اس تقریر کی اشاعت نے اس موضوع پر مطالعہ رکھنے والے ایرانی میں ہلچل اور حیرانگی پیدا کر دی۔ اس بات کے شائع ہونے کے ساتھ ہی اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں نے (شہید مطہری) عین اس موقع پر طلباء کے اجتماع سے ایک مختصر تقریر کی۔

۲۵

اب کیونکہ عوامی سطح پر اس سلسلے میں خاصی دلچسپی نظر آ رہی تھی نیز ہ کہ موصوف کی تقریر میں کچھ ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو کسی دانشور کے لئے شائستہ نہیں ہیں۔ ہم ان کی باتوں کو نقل کرتے ہوئے ان کا ایک تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ

۱ ۔ آپ کا پڑھا‘ لکھا نہ ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ مفسروں نے لفظ اُمی کا غلط ترجمہ اور غلط تفسیر کی ہے۔ یہ لفظ سورئہ اعراف کی آیت ۱۰۶ اور ۱۰۴ آنحضور کے وصف کے ضمن میں آیا ہے۔ آیت ۱۰۶ میں ارشاد خداوندی ہے:

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ )

”جو لوگ ہمارے نبی اُمی کے قدم بہ قدم چلتے ہیں۔“

اسی طرح آیت ۱۰۴ میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ )

”پس (لوگو) خدا اور اس کے رسول نبی اُمی پر ایمان لاؤ۔“

موصوف کا کہنا ہے کہ مفسروں نے یہ سمجھا ہے کہ ”اُمی“ کا معنی ناخواندہ ہے‘ حالانکہ ”اُمی“ کا یہ مطلب نہیں ہے۔

۲ ۔ قرآن مجید میں دوسری آیات بھی ہیں جو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا پڑھنا بھی جانتے تھے اور لکھنا بھی۔

۳ ۔ بعض احادیث اور تاریخی حوالوں سے واشگاف انداز میں پتہ چلتا ہے کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔

موصوف نے جو دعویٰ کیا ہے اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ اب ہم ترتیب وار ان تینوں نکات پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے ان کے بارے میں تفصیلاً بھی گفتگو کریں گے۔

۲۶

اُمی کا لغوی مفہوم

کیا آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے اعتقاد کی بنیاد لفظ ”اُمی“ کی تفسیر تھی؟

اس دانشمند کا دعویٰ کہ آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے اعتقاد کی بنیاد صرف لفظ ”اُمی“ کی تفسیر تھی‘ اس لئے بے بنیاد ہے کیونکہ

۱ ۔ مکہ اور عرب کی تاریخ ظہور اسلام کے وقت اس بات کی قطعی گواہ ہے کہ آپ ناخواندہ تھے۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ظہور اسلام کے وقت حجاز کے ماحول میں پڑھنے‘ لکھنے کا رواج اس قدر محدود تھا کہ اس صنعت سے واقف ایک ایک شخص کا نام اس زمانے میں شہرت کے باعث تواریخ میں ثبت ہے‘ جبکہ کسی نے بھی آنحضور کے نام نامی کو ان کے ناموں کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ فرض کریں اگر قرآن میں اس موضوع کے بارے میں اشارہ یا صراحت نہ ہوتی تو لامحالہ مسلمانوں کو تاریخ کے فیصلے کے مطابق مجبوراً یہ قبول کرنا پڑتا کہ ان کے پیغمبر ناخواندہ تھے۔

۲ ۔ قرآن مجید میں سورئہ اعراف کی ایک اور آیت میں لفظ ”اُمی“ استعمال ہوا ہے جو اپنی جگہ واضح و آشکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مفسرین لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے حوالے جو سورئہ اعراف میں آیا ہے کسی نہ کسی حد تک اختلاف رائے رکھتے ہیں‘ لیکن آپ کے ناخواندہ ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل آیت کے مفہوم کے بارے میں ان میں کسی قسم کا اختلاف رائے نہیں پایا جاتا۔ وہ آیت یہ ہے:

( وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ) (عنکبوت‘ ۴۸)

”اور اے رسول! قرآن سے پہلے نہ تو تم کوئی کتاب پڑھتے اور نہ اپنے ہاتھ سے تم لکھا کرتے تھے‘ ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے ضرور تمہاری نبوت میں شک کرتے۔“

۲۷

اس آیت میں واشگاف طور سے بیان کیا گیا ہے کہ آنحضور عہد رسالت سے قبل نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا۔ اسلامی مفسرین نے عام طور سے اس آیت کی اسی طرح تفسیر بیان کی ہے‘ لیکن موصوف کا دعویٰ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں بھی غلطی ہوئی ہے۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں لفظ ”کتاب“ دیگر آسمانی کتابوں یعنی تورات و انجیل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ آپ نزول قرآن سے پہلے کسی آسمانی (مقدس) کتاب سے واقف نہ تھے‘ کیونکہ یہ آسمانی کتابیں عربی زبان میں نہیں تھیں اور اگر آپ ان کتابوں کو جو کہ عربی زبان میں نہ تھیں‘ پڑھ چکے ہوتے تو آپ جھوٹوں اور شک کرنے والے افراد کے الزامات کے ہدف قرار پاتے۔

یہ دعویٰ درست نہیں ہے‘ کیونکہ عربی لغت میں ”کتاب“ کا مطلب وہ نہیں ہے جو فارسی زبان میں عام طور سے مستعمل ہے‘ بلکہ اس لفظ کا اطلاق کسی بھی لکھی ہوئی چیز خواہ وہ خط ہو یا روزنامچہ‘ مقدس و آسمانی ہو یا غیر مقدس اور غیر آسمانی ہو‘ پر ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ کبھی تو دو افراد کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے لئے استعمال ہوا ہے‘ جیسے ملکہ ’سبا‘ کے بارے میں آیا ہے:

( يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ ﴿﴾ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ ) (نمل‘ ۲۹)

”اے میرے دربار کے سردارو! یہ ایک واجب الاحترام خط میرے پاس ڈال دیا گیا ہے‘ یہ سلیمان(ع)کی طرف سے ہے۔“

اور کبھی دو اشخاص کے درمیان ایک معاہدہ کے بارے میں استعمال ہوا ہے‘ مثال کے طور پر:

( الَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ ) (نور‘ ۳۳)

”وہ بردہ ”غلام“ جو کسی عہد یا شرط نامہ کے تحت خود کو آزاد کرانا چاہیں تو ان کی درخواست قبول کرو اور ان کے ساتھ شرط نامے کا مبادلہ کرو۔“

۲۸

اور کبھی لوح محفوظ اور ملکوتی حقائق کے بارے میں جو کائنات کے واقعات سے مربوط ہے‘ استعمال ہوا ہے:

( ولا رطب ولا یا بس الا فی کتاب مبین ) (انعام‘ ۵۹)

”کوئی خشک و تر نہیں‘ مگر یہ کہ لوح محفوظ میں موجود ہے۔“

دراصل قرآن میں صرف جہاں لفظ ”اہل“ اس لفظ کے ساتھ آیا اور ”اہل الکتاب“ کے پیرائے میں آیا ہے تو اس کا مطلب وہ ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

اہل کتاب یعنی کسی بھی آسمانی کتاب کے ماننے والے پیروکار۔

سورئہ نساء کی آیت ۱۵۳ میں ارشاد ہوتا ہے:

( یسئلک اهل الکتاب ان تنزل علیهم کتابا من السماء )

”(اے رسول!) آسمانی کتاب کے پیروکار تم سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی خط نازل کراؤ۔“

اس آیت میں یہ لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا‘ ایک بار لفظ ”اہل“ کے ہمراہ اور دوسری مرتبہ بغیر ”اہل“ کہ جہان پر لفظ ”اہل“ کتاب کے ساتھ آیا ہے وہاں اس کا مطلب آسمانی کتاب اور جہاں لفظ ”کتاب“ مجرد طور پر استعمال ہوا ہے‘ وہاں اس کا مفہوم ایک عام خط ہے۔

اس کے علاوہ عبارت ”ولا تخطہ بیمینک“ بذات خود یہ مقصود بیان کرتی ہے کہ آپ نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لکھنا اور اگر پڑھنا‘ لکھنا جانتے تو آپ پر یہ الزام لگاتے کہ دوسری جگہ سے لے کر لکھا ہے‘ لیکن کیونکہ آپ نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا تو ایسا الزام لگانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

جی ہاں! یہاں پر ایک غور طلب نکتہ ہے جو شاید ڈاکٹر عبداللطیف کی رائے کی تائید کرتا ہو‘ گو کہ ان کی خود بھی اس کی جانب توجہ مبذول نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کسی بھی مفسر نے اس کی جانب توجہ کی ہے۔

۲۹

سورئہ عنکبوت کی آیت ۴۸ میں لفظ ”تتلوا“ کا استعمال ہوا ہے‘ جس کا مصدر ”تلاوت“ ہے۔ تلاوت کا مطلب جیسا کہ مفردات میں راغب نے بیان کیا ہے‘ آیات مقدسہ کی قرات ہے اور یہ لفظ ”قرائت“ کے لفظ سے مختلف ہے‘ کیونکہ ”قرائت“ عمومی مفہوم کا حامل ہے‘ لہٰذا گو کہ لفظ ”کتاب“ کا مقدس اور غیر مقدس کتاب پر اطلاق ہوتا ہے‘ تاہم لفظ ”تتلوا“ صرف مقدس آیات کی قرات کے لئے مخصوص ہے۔ اب چونکہ یہاں پر لفظ ”تتلوا“ استعمال میں لایا گیا ہے تو بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ قرآن مجید سے مربوط ہے‘ تاہمد وسری تمام پڑھنے والی چیزوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہا گیا ہو‘ تم ابھی قرآن کی تلاوت کر رہے ہو‘ لیکن اس سے قبل کسی لکھی ہوئی چیز کو نہیں پڑھتے تھے۔

ایک اور آیت جس سے آپ کے ناخواندہ ہونے کے بارے اشارہ ملتا وہ سورئہ شوریٰ کی آیت ۵۲ ہے:

( وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان )

”ہم نے قرآن کو جو روح و حیات ہے‘ اپنے امر سے آپ پر وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اور اس سے قبل تمہیں (آپ) کو معلوم نہ تھا لکھی ہوئی چیز کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔“

یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ وحی کے نازل ہونے سے پہلے پڑھائی لکھائی کے بارے میں آپ کو کوئی علم نہ تھا۔

ڈاکٹر سید عبداللطیف نے اپنی تقریر میں اس آیت کا حوالہ نہیں دیا۔ ممکن ہے وہ یہ کہیں کہ اس آیت میں لفظ ”کتاب“ کا مطلب وہ مقدس متون ہیں جو عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں نازل ہوئے۔ اس کا جواب وہی ہے جو ہم نے گزشتہ آیت میں بیان کیا۔

اسلامی مفسرین اس دلیل کی بناء پر جو کہ ہم پر آشکار نہیں ہے‘ بیان کرتے ہیں کہ لفظ ”کتاب“ کا صرف قرآن مجید پر اطلاق ہوتا ہے‘ لہٰذا اس آیت کی تفسیر سے کوئی استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا۔

۳۰

۳ ۔ اسلامی مفسرین لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے سلسلے میں ہرگز ایک رائے کے حامل نہیں رہے‘ جبکہ آپ کے ناخواندہ ہونے اور عہد رسالت سے پہلے آپ کی پڑھنے‘ لکھنے کے سلسلے میں لاعلمی کے بارے میں نہ صرف تمام مفسرین بلکہ سارے علمائے اسلام میں اشتراک رائے پایا جاتا ہے اور یہ بات بذات خود اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے اعتقاد کی بنیاد لفظ ”اُمی“ کی تفسیر نہ تھی۔ اب ہم لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں:

لفظ اُمی اسلامی مفسرین کی نگاہ میں

اسلامی مفسرین نے لفظ ”اُمی“ کی تین طریقوں سے تفسیر و وضاحت کی ہے:

(الف) ناخواندہ ہونا اور لکھائی‘ پڑھائی کے بارے میں لاعلم ہونا‘

مفسرین کی اکثریت اس نظریہ کے حامی ہیں یا کم از کم اس رائے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ لفظ یعنی ”اُمی“ لفظ ”اُم“ سے جس کے معنی ماں ہیں‘ منسوب ہے۔ ”اُمی“ کا یہ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص لکھتے ہوئے متون اور انسانی معلومات کے لحاظ سے پیدائشی فطرت پر باقی رہا ہو‘ یعنی پڑھنے‘ لکھنے کے بارے میں کسی قسم کی تعلیم حاصل نہ کی ہو یا پھر یہ لفظ ”امت“ سے منسوب ہے یعنی جو لوگوں کی اکثریت کی عادات و اطوار پر باقی ہو‘ کیونکہ عوام کی اکثریت کا لکھنے‘ پڑھنے سے کوئی سروکار نہ تھا اور بہت کم لوگ اس فن سے واقف تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک لفظ ”امت“ میں خلقت کا مفہوم مضمر ہے یعنی جو اپنی ابتدائی خلقت اور حالت کی صفات پر باقی رہا ہو‘ ناخواندگی ہے۔ اس سلسلے میں اعشتی مشہور عرب شاعر کے ایک شعر کو بطور سند پیش کیا گیا ہے۔(مجمع البیان‘ آیت ۷۸‘ سورئہ بقرہ کے ذیل میں)

بہرحال اب یہ لفظ چاہے ”اُم“ سے مشتق ہو‘ چاہے ”امت“ سے اس لفظ کے معنی ناخواندہ ہی ہیں۔

۳۱

(ب) اُم القریٰ کے لوگ

اس رائے کے حامی اس لفظ ”اُمی“ کو ”اُم القریٰ“ یعنی مکہ سے منسوب کرتے ہیں۔ سورئہ انعام آیت ۹۳ میں مکہ کو ”اُم القریٰ“ سے تعبیر کیا گیا ہے:

”ولتنذر اُم القری و فی حولها

”تاکہ تم (آنحضور) اُم القریٰ (مکہ) اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو ڈراؤ۔“

غالباً اس امکان کی بھی کتب تفاسیر میں اور متعدد شیعہ احادیث میں تائدی کی گئی ہے۔ جبکہ ان حدیثوں کو معتبر نہیں سمجھا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہیں یہودیوں نے وضع کیا ہے۔(مجلہ آستان قدس‘ شمارہ ۲)

اس امکان کو مختلف دلائل کی بناء پر رد کیا گیا ہے۔ ایک تویہ کہ لفظ ”اُم القریٰ“ کسی خاص جگہ یا مقام کا نام نہیں اور اس کی ایک عمومی صفت کے لحاظ سے نہ کہ خصوصیت کے ساتھ مکہ پر اطلاق ہوا ہے۔ ”اُم القریٰ“ یعنی ’بستیوں کا مرکز“، اس طرح جو مقام بھی بستیوں کا مرکز یا صدر مقام ہو گا‘ اسے اُم القریٰ کے نام سے پکارا جائے گا۔

سورئہ قصص کی آیت ۵۹ سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ لفظ صفت کو بیان کرتا ہے‘ نہ کہ اسم کو:

( وما کان ربک مهلک القری حتی یبعث فی امها رسولا )

”اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا‘ جب تک اس کے صدر مقام میں کوئی رسول نہ بھیج دے۔“

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن زبان اور محاورہ میں جو مقام بھی کسی علاقے کا صدر مقام ہو وہ اس علاقے کا ”اُم القریٰ“ کہلائے گا۔

۳۲

(ایک روایت کے مطابق لفظ اُمی ”اُم القریٰ“ یعنی مکہ سے منسوب ہے‘ اس بات کی بھی تائید کی گئی ہے کہ یہ لفظ عمومی صفت ہے نہ کہ خصوصی‘ اسم کیونکہ روایت کے مطابق کہا گیا ہے:

و انما سمی الامی لانه کان فی اهل مکة و مکة فی امهات القریٰ

”آنحضور کو اس لئے اُمی کہا گیا ہے کیونکہ وہ مکہ کے رہنے والے تھے اور مکہ ”اُم القریٰ“ ہے۔“)

نیز یہ کہ لفظ ”اُمی“ کا ان لوگوں پر اطلاق ہوا ہے جو مکہ کے رہنے والے نہ تھے۔ سورئہ آل عمران کی آیت ۲۰ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وقل للذین اوتوا الکتاب و الامیین اأسلمتم )

”اہل کتاب اور اُمیین (غیر یہودی اور عیسائی) عربوں سے کہو کہ کیا تم اسلام لائے ہو۔“

کیونکہ عرب ایک آسمانی کتاب کے پیروکار نہ تھے‘ انہیں اُمیین کہا جاتا تھا‘ اس کے علاوہ اس لفظ کا یہودی عوام الناس جو کہ جاہل‘ ان پڑھ تھے اور اہل کتاب میں ان کا شمار ہوتا تھا‘ پر اطلاق ہوتا تھا۔

جیسا کہ سورئہ بقرہ کی آیت ۷۸ میں ارشاد ہوتا ہے:

( و منهم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی )

”اور کچھ ان میں سے ایسے ان پڑھ ہیں کہ وہ کتاب خدا کو صرف توہمات اور خیالات کی حد تک سمجھتے ہیں۔“

واضح رہے کہ قرآن میں جن یہودیوں کو ”اُمی“ قرار دیا ہے وہ مکہ کے رہنے والے نہ تھے‘ غالباً وہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہائش پذیر تھے۔

۳۳

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی لفظ ”اُم القریٰ“ سے منسوب ہو تو ادبی قاعدہ کے مطابق ”اُمی“ کی جگہ اسے ”قروی“ کہنا چاہئے‘ کیونکہ نحو اور علم و صرف کی نسبت کے باب کے اصول کے مطابق جب مضاف اور مضاف الیہ‘ الیہ سے منسوب کیا جاتا ہے‘ جب کہ مضاف ”اب“ یا ”اُم“ یا ”ابن“ یا ”بنت“ کا لفظ ہو تو لفظ کا مضاف الیہ سے نسبت دی جاتی ہے نہ کہ مضافت سے جیسا کہ ”ابو طالب‘ ابوحنیفہ‘ بنی تمیم سے منسوب کو طالبی‘ حنفی‘ تمیمی کہا جاتا ہے۔

(ج) عرب کے وہ مشرکین جو آسمانی کتاب کے پیروکار نہ تھے

اس نظریے کے بھی مفسرین پرانے ادوار سے حامل رہے ہیں‘ مجمع البیان سورئہ آل عمران کی آیت ۲۱ کے ضمن میں جہاں ”اُمیین“ کو ”اہل کتاب“ کے بالمقابل قرار دیا گیا ہے:

( وقل للذین اوتوا الکتاب والامیین )

”میں اس نظریے کو عبداللہ ابن عباس جو ایک عظیم صحابی اور مفسر تھے‘ سے منسوب کیا جاتا ہے اور سورئہ بقرہ کی آیت ۴۸ میں ابو عبداللہ سے روایت نقل کی گئی ہے‘ جبکہ آل عمران کی آیت ۴۵ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طبری نے خود بھی اس آیت کے باب میں اس مفہوم کا انتخاب کیا ہے۔ زمخشری نے کشاف میں اس آیت اور آل عمران کی آیت ۴۵ کو اسی نہج پر تفسیر کیا ہے‘ جبکہ فخررازی نے اس امکان کا سورئہ بقرہ کی آیت اور آل عمران کی آیت ۲۰ کے ضمن میں حوالہ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مفہوم پہلے مفہوم سے الگ نہیں ہے‘ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو لوگ بھی کسی آسمانی مقدس کتاب کے پیروکار نہ ہوں اور پڑھے‘ لکھے اور تعلیم یافتہ بھی ہوں تو انہیں ”اُمی“ کہا جائے‘ لکہ اس لفظ کا اطلاق اس لئے مشرکین عرب پر اطلاق کیا گیا‘ کیونکہ وہ پڑھے‘ لکھے نہ تھے‘ لہٰذا مشرکین عرب کے سلسلے میں اس لفظ کا استعمال اس لئے کیا گیا کیونکہ لکھنا‘ پڑھنا نہ جانتے تھے‘ کسی آسمانی کتاب کے پیروکار نہ ہونے کے ناطے نہیں‘ لہٰذا جہاں یہ لفظ جمع کی شکل میں آیا ہے

۳۴

اور عرب مشرکین پر اس کا اطلاق ہوا ہے تو وہاں اس امکان کو سامنے رکھا گیا‘ لیکن جہاں پر اس لفظ کا مفرد صیغہ استعمال میں لایا گیا اور آنحضور پر اس کا اطلاق ہوا تو کسی بھی مفسر نے یہ نہیں کہا کہ اس سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ آپ کسی آسمانی کتاب کے پیروکار نہ تھے۔ اس صورت میں صرف دو امکان سامنے آتے ہیں ایک یہ کہ آپ کو لکھائی کے بارے واقفیت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ آپ مکہ کے رہنے والے تھے‘ اب کیونکہ دوسرا امکان قطعی دلیلوں کے ذریعے رد ہوا ہے‘ لہٰذا حتمی طور پر آنحضور کو اس لئے ”اُمی“ کے لقب سے پہچانا گیا‘ کیونکہ آپ نے پڑھنے‘ لکھنے کی تعلیم حاصل نہ کی تھی‘ اس لفظ کے مفہوم کے سلسلے میں یہاں پر ایک چوتھا امکان بھی سامنے آتا ہے اور وہ مقدس کتابوں کے مفہوم کے بارے لاعلمی ہے اور یہ وہی امکان ہے جسے ڈاکٹر عبداللطیف کی ذاتی اختراع ہے‘ غالباً انہوں نے اس مفہوم کو جو قدیم مفسرین سے منقول ہے‘ خلط ملط کر دیا ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ ”اُمی“ اور ”اُمیون“ کے الفاظ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر استعمال میں لائے گئے ہیں‘ لیکن ہمیشہ اس کے ایک ہی مفہوم کو سامنے رکھا گیا ہے۔ ”اُمی“ لفظ کے معنی لغت کی رو سے نوزائیدہ بچے کے ہیں‘ جو شکم مادر سے پیدا ہوا ہو‘ جو نہ بول سکتا ہو اور نہ لکھ سکتا ہو اور اس کے ضمن میں ”اُمی“ اسے کہا گیا ہے جو نہ لکھنا جانتا ہو اور نہ پڑھنا۔ ”اُمی“ لفظ کے یہ بھی معنی ہیں جو ”اُم القریٰ“ میں رہائش پذیر ہو۔ ”اُم القریٰ“ یعنی شہروں کی ماں یا صدر مقام اور یہ وہ صفت ہے جو آنحضور کے زمانے کے عرب شہر مکہ کے لئے استعمال کرتے تھے‘ لہٰذا جو مکہ کے رہنے والا تھا‘ اسے ”اُمی“ بھی کہا جاتا تھا۔

قدیم سامی متون کے بارے علم نہ رکھنے والے افراد نہ کہ جنہیں قرآن میں ”اہل الکتاب“ کے نام سے موسوم کیا گیا اور پہچانا گیا‘ جو درحقیقت یہود اور نصاریٹ تھے‘ وہ بھی اُمی کہلاتے تھے۔ نیز یہ کہ اسلام سے قبل ان عربوں کے لئے جو کسی مقدس آسمانی کتاب کے حامل نہ تھے اور تورات و انجیل کے پیروکار بھی نہ تھے‘ ان کے لئے بھی قرآن مجید میں لفظ ”اُمیون“ استعمال میں لایا گیا اور یہ لفظ ”اہل الکتاب“ کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔

۳۵

اب جبکہ لفظ ”اُمی“ کے لئے اتنے زیادہ اور مختلف معنی وجود رکھتے ہیں‘ یہ بات واضح نہیں ہے کہ قرآن کے مسلم اور غیر مسلم مفسرین اور مترجمین کیونکر صرف نوزائیدہ بچے کے ہی لئے ”اُمی“ کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ان پڑھ اور نادان کو ہی کیوں ”اُمی“ کہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں انہوں نے اسلام سے قبل مکہ کے رہنے والوں کو ”اُمیون“ یا ان پڑھ گروہ قرار دیا ہے۔(نشریہ کانون سر دختران‘ شمارہ آیات ماہ ۱۳۴۴‘ ھ۔ش‘ نقل از نشریہ آموزش و پرورش شمارہ‘ شہرپور‘ ۱۳۴۴)

موصوف کی تقریر کا تنقیدی جائزہ

۱ ۔ قدیم زمانے سے اسلامی مفسرین نے لفظ ”اُمی“ اور ”اُمیون“ کا تین طریقوں سے مفہوم بیان کیا ہے‘ یا کم از کم ان الفاظ کے لئے تین امکانات کو سامنے رکھا ہے۔ اسلامی مفسرین نے ڈاکٹر عبداللطیف کے دعویٰ کے برخلاف لفظ کے صرف ایک ہی مفہوم کو بنیاد نہیں بنایا۔

۲ ۔ کسی مفسر نے یہ نہیں کہا ہے کہ لفظ اُمی کے معنی نوزائیدہ بچہ ہے‘ جس کا ضمنی مطلب پڑھنا‘ لکھنا نہ جاننے والا بنتا ہے۔ یہ لفظ بنیادی طور پر نوزائیدہ بچے کے لئے استعمال نہیں ہوتا‘ بلکہ اس عمر رسیدہ شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو لکھنے‘ پڑھنے کے فن کے بارے میں بچے کی مانند ناواقف ہوتا ہے

۳ ۔ موصوف کا یہ بیان کہ قدیم سامی متون سے واقفیت نہ ہونا بھی لفظ ”اُمی“ کے مفاہیم کے زمرے میں آتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ بلکہ قدیم مفسرین اور اہل لغت کے اقوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس لفظ کا جمع کے صیغہ ”اُمیین“ میں عرب مشرکین پر اطلاق ہوا ہے اور یہ ”اہل کتاب“ کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے‘ کیونکہ عرب مشرکین غالباً پڑھنا‘ لکھنا نہیں جانتے تھے اور بظاہر یہودی اور مسیحی لوگوں نے عرب مشرکین کی تحقیر کے لئے اس لفظ سے کام لیا اور ان کے لئے منتخب کیا۔

۳۶

یہ بات ممکن نہیں کہ کچھ لوگ کسی خاص زبان یا کتاب سے عدم واقفیت کی بناء پر جبکہ اپنی زبان سے اچھی طرح واقف ہوں اور اس میں پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں‘ ”اُمیین“ کہلائیں‘ کیونکہ اس توجیہہ کے مطابق اس لفظ کی بنیاد ”اُم“ یا ”اُمت“ بھی ہے اور نوزائیدہ بچے کی صفات پر باقی رہنے کے مفاہیم کا بھی حامل ہے۔

اب رہی یہ بات کہ کیونکر اس لفظ کو لفظ ”اُم القریٰ“ کی بنیاد قرار نہیں دیا گیا‘ جبکہ اس امکان کو بھی مسلسل طور سے نظرانداز نہیں کیا گیا؟ تو اس میں کافی موشگافیاں کرنی پڑتی ہیں‘ جو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ لہٰذا اس ہندوستانی دانشور کی حیرت بے جا ہے‘ جبکہ اس دعوے کی تائید کے سلسلے میں اس لفظ کے بعض دیگر اسعتمال بھی ہیں جو روایات اور تواریخ میں ثبت ہیں‘ جن کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس لفظ کے معنی ناخواندہ کے علاوہ اور دوسرے کوئی اور معنی نہیں ہیں۔

بحارالانوار کی ج ۱۶‘ چاپ جدید‘ ص ۱۱۹ پر بیان ہوا ہے‘ جو آپ سے ہی منقول حدیث ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

نحن امة امیة لا نقرء ولا نکتب

”ہم ”اُمی“ قوم ہیں‘ نہ پڑھنا جانتے ہیں نہ لکھنا۔“

ابن خلکان اپنی تاریخ کی جلد چہارم میں محمد بن عبدالملک جو ”ابن الزیات“ کے نام سے مشہور ہے اور معتصم و متوکل (سلسلہ عباسیہ کے خلفاء) کے حالات کے ضمن میں لکھتا ہے کہ

”وہ اس سے قبل خلیفہ عباسی معتصم کے معاونین میں شاسمل تھا‘ جبکہ احمد بن شاذی وزیر کے عہدہ پر فائز تھا۔ ایک دن معتصم کے نام ایک خط موصول ہوا‘ وزیر نے اس خط کو معتصم کو پڑھ کر سنایا‘ اس خط میں لفظ ”کلاء“ کا استعمال ہوا تھا۔ معتصم جو معلومات نہ رکھتا تھا‘ اپنے وزیر سے دریافت کرتا ہے کہ ”کلاء“ کے کیا معنی ہیں؟ وزیر بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا‘ اس موقع پر معتصم نے ایک جملہ کہا ”خلیفة اُمی و وزیر عامی“ یعنی خلیفہ ناخواندہ ہے اور وزیر جاہل۔

۳۷

بعد میں معتصم نے کہا کہ کسی معاون یا کاتب کو بلایا جائے‘ اس موقع پر ”ابن الزیات“ دربار میں موجود تھا‘ وہ دربار میں حاضر ہوا اور اس نے اس لفظ کی متعدد قریب المعنی الفاظ کی مدد سے وضاحت کی اور ان کے درمیان فرق کو بھی ظاہر کیا۔ یہی وہ بات تھی جس کے نتیجے میں ابن الزیات کے لئے وزارت کی راہ ہموار ہوئی۔ معتصم جو کہ عوام الناس کی زبان میں گفتگو کرتا تھا‘ لفظ ”اُمی“ سے اس کی ناخواندہ مراد تھی۔“

یہاں پر ایک ایرانی شاعر نظامی کہتا ہے:

احمد مرسل کہ خرد خاک اوست

”احمد مرسل جن کے ہاں عقل گھر کی لونڈی ہے۔“

ھر دو جہان بستہ فتراک اوست

”دونوں جہانوں پر ان کی نگاہوں کا احاطہ ہے۔“

اُمی گو پا بہ زبان فصیح

”اُمی ہے لیکن جب کلام فرماتے ہیں تو فصیح و بلیغ ہوتا۔“

از الف آدم و سبع مسیح

”اور آدم کے الف سے سبع مسیح تک سب کچھ ان کے سامنے ہے۔“

ھمچو الف راست بہ عہد وفا

”آپ الف کے مانند عہد و وفا میں استقامت کے حامل ہیں۔“

اول و آخر شدہ بر انبیاء

”آپ انبیاء میں اول بھی آخر بھی ہیں۔“

۳۸

کیا قرآن میں آنحضور کے پڑھنے اور لکھنے کے دلائل ہیں؟

عبداللطیف صاحب کا دعویٰ ہے کہ بعض قرآنی آیات سے واضح طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آنحصور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔ سورئہ آل عمران کی آیت ۱۶۳ پر اس طرف اشارہ ملتا ہے:

( لقد من الله علی المومنین اذ بعث فبصع رسولا من انفسهم یتلوا علیهم آیاته ویزکیهم و لعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین )

”خدا نے یقینا ایمانداروں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا‘ جو انہیں خدا کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا‘ ان کی پاکیزہ اور ان کا تزکیہ کرتا ہے‘ انہیں (کتاب خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ہے‘ اگرچہ یہ لوگ (آپ کی بعثت) سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں گھرے ہوئے تھے۔“

وہ فرماتے ہیں کہ

”قرآن پاک نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فریضہ یہ تھا کہ آپ اپنے پیروکاروں کو قرآن پاک کی تعلیم دیں اور یہ بات عیاں ہے کہ کسی شخص کی کم از کم استعداد و لیاقت جو کتاب یا اس میں شامل موضوعات و دانشمندانہ باتیں دوسروں کو تعلیم دے‘ جو بجائے خود قرآنی تعلیمات کا حصہ ہے‘ یہ ہے کہ قلم کا استعمال کر سکے یا کم از کم قلم سے لکھے ہوئے مواد کو پڑھ سکے۔“

یہ استدلال بھی حیرت انگیز ہے کیونکہ

۱ ۔ تمام مسلمان جس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں‘ جسے موصوف غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ آنحضور نبوت سے پہلے نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لکھنا۔ اس استدلال کی صداقت صرف اس حد تک ہے کہ آپ نبوت کے دوران سید مرتضیٰ‘ شعبی اور ایک اور گروہ عقیدہ کے مطابق پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ لہٰذا ڈاکٹر عبداللطیف کا درست نہیں ہے۔

۲ ۔ جہاں تک نبوت کے عہد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بھی یہ استدلال مکمل نہیں ہے۔

۳۹

البتہ بعض تعلیمات کے بارے میں جہاں پر ایک نئے متعلم کو پڑھنے‘ لکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے یا یہ کہ ریاضی وغیرہ کی تعلیم ہو تو اس میں تعلیم حاصل کرنے والے کو قلم‘ کاغذ اور تختہ سیاہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور معلم کو عملاً اقدام کرنا چاہئے تاکہ متعلم تعلیم حاصل کر سکے‘ لیکن حکمت‘ اخلاق‘ حلال اور حرام جو پیغمبروں کے فرائض میں شامل ہے‘ تو اس کے لئے قلم‘ کاغذ‘ تختہ سیاہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

حکماء کا وہ گروہ جو ”مشائین“ کے نام سے معروف ہے‘ انہیں اس لئے مشائین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ کیونکہ وہ راہ چلتے اپنے شاگردوں اور طالب علموں کو تعلیم دیتے تھے‘ لیکن وہ شاگرد جو ان تعلیمات کو ضبط تحریر میں لانا چاہتے تھے‘ تاکہ بھول جانے کی صورت میں انہیں دوبارہ یاد کر سکیں‘ ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان تعلیمات کو تحریر کریں‘ لہٰذا آنحضور ہمیشہ ہدایت فرماتے تھے کہ ان کی باتوں کو تحریری شکل دیں۔ آپ فرماتے تھے:

قیدوا العلم

”علم کو ثبت کیا کرو۔“

وہ دریافت کرتے کہ ہماری جانیں آپ پر قربان یہ کیونکر ممکن ہے؟ آپ جواب میں فرماتے:

”اسے تحریر و ثبت کیا کرو۔“(بحار‘ چاپ جدید‘ ج ۲‘ ص ۱۵۱)

آپ نے مزید فرمایا:

نضر الله عبدا سمع مقالتی فوعاها و بلغها من لم یسمعها (کافی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۳)

”خدا اس بندہ کو خوش و خرم رکھے‘ جس نے میری بات سنی‘ ازبر کی اور بعد میں اس تک پہنچائی جس نے نہ سنی ہو۔“

حدیث میں وارد ہے کہ آنحضور نے مسلسل تین بار فرمایا:

”خداوندا! میرے جانشینوں پر رحم فرما۔“

۴۰