غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں

غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں0%

غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن

غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 3470
ڈاؤنلوڈ: 1616

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 3470 / ڈاؤنلوڈ: 1616
سائز سائز سائز
غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں

غدیر آیۂ تبلیغ کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آیہ تبلیغ

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) (۱)

اے پیغمبرﷺ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

آیت کے انداز پر غور کرنے سے یہ بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے کہ آیت کسی اہم ترین مسئلہ کے بارے میں خبر دے رہی ہے کیونکہ اس آیت میں ایسی تاکیدیں موجود ہیں جو اس سے پہلے نہیں پائی گئیں مثلاً:

۱ ۔ آیت "یا ایھا الرسول" سے شروع ہو رہی ہے اور پیغمبر گرامیﷺ کو منصب کے ذریعے مخاطب کیا گیا ہے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیان کیا جانے والا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

۲ ۔ کلمہ "بلّغ" خود موضوع کی اہمیت و خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ:

 یہکلمہ منحصر بہ فردہے ی عن ی پورے قرآن میں ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

 راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات قرآن میں کہتے ہیں کہ "ابلغ" کی نسبت اس لفظ میں زیادہ تاکید پائی جاتی ہے کیونکہ اگرچہ یہ لفظ ایک ہی آیت (سورہ مائدہ، آیت نمبر ۶۷) میں آیا ہے لیکن اس کلمہ میں تاکید کے علاوہ مفہوم تکرار بھی پوشیدہ ہے یعنی یہ موضوع اتنا اہم تھا کہ اسے لازمی طور پر بیان ہونا چاہیے اور اس کی تکرار بھی ہونا چاہیے۔

۳ ۔ جملۂ( و اِن لَم تفعل فما بلّغت رسالت ه ) اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پیغمبر گرامی کو جس مطلب کے ابلاغ پر مامور کیا گیا ہے وہ اساس دین اور ستون رسالت و نبوت ہے کیونکہ اگر پیغمبرﷺ یہ کام انجام نہ دیں تو گویا فریضہ نبوت ادا نہ ہوسکے گا!

۴ ۔ پروردگار عالم کی طرف سے حضور اکرمﷺ کی جان کی حفاظت کی ضمانت لینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر کی تبلیغ میں یقیناً حضور کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے علاوہ شدید ردِّ عمل کا بھی خوف تھا لیکن خالق اکبر نے ان تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دیدی۔

توجہ:

 لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر آیۂ تبلیغ کس اہم ترین موضوع کے بارے میں خبر دے رہی ہے؟

 پیغمبرگرامیﷺ قدر کی یہ اہم ماموریت کیا تھی کہ جس کے لیئے پروردگار عالم نے واضح طور پر حفظ و امان کی ضمانت دی ہے؟

 حضورؐ سرور کائنات کو وہ کونسا حکم پہنچانا تھا جو آپؐ کی تمام رسالت کے مساوی تھا؟

 اللہ تبارک و تعالیٰ حضور اکرمﷺ سے کیا چاہتا ہے کہ جس کی خاطر ایک طرف آپ کو تہدید کر رہا ہے تو دوسری طرف حفظ جان کا وعدہ کر رہا ہے؟

آیت کے الفاظ پر غور و فکر اور تدبّر و تعمق سے تمام سوالات کے جوابات خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ غور و فکر کرنے والا تعصب کی عینک اتار کر منصفانہ طور پر کرسی قضاوت پر بیٹھے، کیونکہ:

اولاً: مورد بحث آیت، سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ ہے اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبرگرامیﷺ پر نازل ہونے والی یہ آخری سورت ہے جیسا کہ صاحب تفسیر "المنار" نے بیان کیا ہے کہ یہ پورا سورہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ و مدینہ کے درمیان نازل ہوا ہے۔(۲)

یعنی یہ آیت بعثت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے جبکہ پیغمبر اکرم ﷺکو تبلیغ رسالت کرتے ہوئے ۲۳ سال گذر رہے تھے۔

سوال: آپ سوچ کر بتائیے کہ ۲۳ سال تبلیغ اور پیغمبر اکرمﷺ کی زندگی کا آخری سال شروع ہونے تک وہ کون سی چیز تھی کہ جس کا ابھی تک رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا؟

 کیا یہ اہم مسئلہ ، نماز کے بارے میں تھا حالانکہ مسلمان ۲۰ سال سے نماز پڑھ رہے تھے؟

 کیا روزہ کے بارے میں اعلان تھا جبکہ ہجرت کے بعد روزہ واجب ہوگیا تھا اور تقریباًٍٍ مسلمان ۱۳ سال سے روزے رکھ رہے تھے؟

 کیا یہ حکم تشریع جہاد سے متعلق تھا؟ جبکہ مسلمان ہجرت کے دوسرے سال سے جہاد کرتے ہوئے آرہے تھے؟

جواب: انصاف تو یہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا مذکورہ بالا امور میں سے کسی سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے! کیونکہ غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آخر پیغمبر اکرمﷺ کی ۲۳ سالہ طاقت فرسا زحمت و مشقت کے باوجود وہ کون سا اہم امر تھا جس کا اعلان ابھی باقی تھا؟

ثانیاً: آیۂ مبارکہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کی ماموریت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ اسے نبوت کے ہم وزن قرار دیا گیا ہے۔ مختلف علماء و دانشمند حضرات نے جو احتمالات دیئے ہیں یا جنکا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ بھی مبہم ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی امر بھی نبوت و رسالت کے ہم وزن نہیں ہوسکتا لہذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ اہم ترین امر کیا ہے جو رسالت و نبوت کے ہم وزن ہے اور ۲۳ سال میں ابھی تک انجام نہیں پایا تھا؟

ثالثاً: اس ماموریت کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ چند لوگ اس کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے جبکہ یہی مسلمان نماز، روزے، حج و زکواۃ وغیرہ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے پس یہ کوئی یقیناً سیاسی مسئلہ تھا جس کی اتنی شدت سے مخالفت ہو رہی تھی۔

لہذا تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے اور منصفانہ قضاوت کرنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہم ترین مسئلہ غدیر خم میں پیغمبراکرم ﷺکا حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت و جانشینی کا رسمی طور پر اعلان تھا۔

روایات کی روشنی میں آیت کی تفسیر

( بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ) اس حکم کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس آیہ کریمہ کی صحیح تفسیر و توضیح کیلئے ہمارے پاس یہ طریقہ ہے کہ ہم اس کی شان نزول میں وارد ہونے والی روایات، مفسرین کی آراء ونظریات اور مؤرخین کے اقوال سے مدد لیں۔

صدر اسلام کے بہت سے محدثین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت حضرت علی ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے مثلاً:

۱ ۔ ابن عباس ۲ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری ۳ ۔ ابو سعید خدری ۴ ۔عبد اللہ بن مسعود ۵ ۔ ابو ہریرہ ۶ ۔ خذیفہ ۷ ۔ براء بن عازب کے علاوہ دیگر اصحاب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

مفسرین اہل سنت میں بھی بہت سے افراد کا یہ ہی نظریہ ہے کہ یہ آیت، ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مثلاً سیوطی اپنی تفسیر "در المنثور" میں، ابو الحسن واحدی نیشاپوری "اسباب نزول" میں، سید رشید رضا اپنی تفسیر "المنار" میں، فخر رازی اپنی تفسیر "التفسیر الکبیر" میں اور دیگر مفسرین نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہم قارئین کی سہولت کیلئے اور ان کے جذبہ جستجو کو مدّنظر رکھتے ہوئے فقط فخر رازی کے کلام کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں تفصیلات کیلئے مندرجہ بالا کتب و تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔

فخر رازی اہل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں ان کی جامع و مشروح تفسیر موجود ہے اور اس آیت کے بارے میں انہوں نے دس احتمال پیش کئے ہیں اور ولایت علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو دسویں احتمال کے طور پر پیش کیا ہے۔

کلام فخر رازی

نزلت الآی ة فی فضل علی بن ابی طالب و لما نزلت ه ذ ه الآی ة اَخذ بید ه و قال: من کنت مولا ه فعلی مولا ه اللّ ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه ، فلقی ه عمر فقال: ه نیئاً لک یابن أبی طالب! اصبحت مولای و مولی کل مؤمن و مؤمن ة ۔۔۔(۳)

یہ آیت (حضرت) علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا "جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں۔ پس اے پروردگار جو علی بن ابی طالبعليه‌السلام کو قبول کرے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو تو بھی اسے دشمن رکھ۔ اس کے بعد حضرت عمر کھڑے ہوئے اور حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آکر کہنے لگے مبارک ہو اے علی بن ابی طالبعليه‌السلام کہ آج آپ میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے رہبر و پیشوا مقرر ہوگئے۔

حاکم جسکانی نے بھی اپنی بے نظیر کتاب "شواہد التنزیل" میں زیاد بن منذر" سے روایت نقل کی ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ آیت ولایت علی بن ابیطالبعليه‌السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔(۴)

ابلاغ پیام سے پیغمبرﷺکو خطرہ

آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کو جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا اس سے پیغمبرؐ کو شدید خطرہ لاحق تھا اگرچہ اسلام سارے مراحل سے گذر چکا تھا اور خیبر و خندق کے معرکے سر ہوچکے تھے۔

ظاہر ہے یہ خطرہ پیغمبر اکرمﷺ کی حیات کیلئے نہیں تھا اور نہ آپ کو اس امر کی پرواہ تھی کہ اس کی خاطر تبلیغ حکم میں تاخیر فرماتے بلکہ آپ دین اسلام کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے چکے تھے اور اب بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار تھے ہاں خطرہ اس بدنامی کا تھا کہ لوگ خاندان پرستی کا الزام لگا کر دین سے منحرف ہوجائیں گے اور سالہا سال کی محنت و زحمت خطرہ میں پڑ جائے گی۔

جیسا کہ جب حضوراکرمﷺ نے ولایت علیعليه‌السلام کا اعلان کیا تو اسی صحرائے غدیر میں ایک حارث ابن نعمان فہری نے اعتراض کر دیا اور کہنے لگا۔

"اگر جو کچھ آپ نے اس وقت بیان کیا ہے خدا کی طرف سے ہے تو پھر خدا سے دعا کیجئے کہ مجھ پر عذاب نازل کرے اور مجھے نابود کردے!" اور پھر بعد میں ایسا ہی ہوا۔

لیکن پروردگار عالم نے وعدہ کیا اور حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرمایا:

( وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔(۵)

علماء اسلام نے اس حکم کے بارے میں بہت سی تاویلیں تلاش کی ہیں لیکن بالآخر یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علیعليه‌السلام کو میدان غدیر خم میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی ؑ بھی مولا ہے جیسا کہ فخر رازی نے بھی اسے دسویں قول کے طور پر ذکر کیا ہے۔

شُبہات ، اعتراضات و اشکالات

یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی:

محترم قارئیں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کر دینا مناسب ہے کہ بعض لوگوں نے آیت کے معنی و مفہوم میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے ایک شبہ ایجاد کیا ہے تاکہ عام لوگ اصل معنی و مطالب کی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکم تبلیغ خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کی مکی آیت ہے لہذا اس کا واقعہ غدیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو محسوس کرسکتے ہیں کہ آیت کے ذیل میں( فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) کا لہجہ دلیل ہے کہ آیت ، تبلیغ رسالت کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس کا ابتداءِ تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ اشکال ابن تیمیہ نے وارد کیا ہے اس کا کہنا ہے: اہل علم حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں مدینہ میں حجۃ الوداع سے کئی سال پہلے نازل ہوئی ہے (اگرچہ یہ سورۂ مائدہ میں موجود ہے)۔

اس لیئے کہ یہ آیت، رجم یا یہودیوں سے قصاص کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور یہ دونوں واقعات اوائل ہجرت میں فتح مکہ سے پہلے واقع ہوئے تھے۔(۶)

ابن تیمیہ کے اس قول میں شدید ضعف پایا جاتا ہے اور کوئی اس کا حامی نہیں سوائے فخر رازی و عینی کے کہ انہوں نے بعض لوگوں کی طرف اس کی نسبت دی ہے اور بطور قول "قیل" یعنی قول ضعیف کہا ہے۔

صحابہ و تابعین میں بھی کوئی اس نظریہ کا حامی نظر نہیں آتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ کے دعویٰ کی حمایت نظر آئے کہ اہل علم حضرات متفق ہیں۔ بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حتی ایک فرد بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی ہے بلکہ تاریخ و تفاسیر سے یہ بات ثابت ہے کہ علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہ آیت آخر نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔(۷)

احادیث کا جعلی ہونا

آیہ تبلیغ کے سلسلہ میں ولایت علی ؑ سے متعلق وارد ہونے والی احادیث کی اسناد کے بارے میں بعض اہل سنت نے چند ایک اسناد کے ضعیف ہونے کے بارے میں تو اظہار خیال کیا ہے جیسا کہ محقق کتاب "اسباب النزول واحدی نے ابو سعید خدری سے نقل ہونے والی حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے(۸) لیکن کسی نے بھی ان کے جعلی یا جھوٹے ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ نے تعصب سے کام لیتے ہوئے ان احادیث کو جعلی و وضعی کہا ہے۔

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ علمائے حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو نعیم کی کتاب "حلیۃ الاولیاء"، ثعلبی کی "فضائل خلفاء" اور واحدی کی تفسیر "نقاش" میں جھوٹی اور جعلی احادیث ہیں۔(۹)

جہاں تک احادیث کے ضعیٖف ہونے کا تعلق ہے تو کثرت اسانید اور ان کے مضامین کا آیہ تبلیغ سے ہم آہنگ ہونا اس قسم کے الزامات کو دور کر دیتا ہے اور روایات کی اسناد کے ضعیف ہونے کے احتمال کا بھی ازالہ و تدارک کر دیتا ہے۔

ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے کہ یہ احادیث صرف ابو نعیم اور ثعلبی نے نقل کی ہیں، حالانکہ اہل سنت کے بہت سے معتبر محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

ابن تیمیہ جب ابو حاتم کو صحیح و جعلی احادیث کی شناخت کے سلسلہ میں مرجع تسلیم کرتے ہیں تو ابو حاتم کے فرزند نے اس آیۂ کریمہ کی شان نزول کے لیے کہا ہے کہ یہ حضرت علیعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے والد کے ذریعہ ابو سعید خدری صحابی پیغمبرﷺسے روایت نقل کی ہے۔ پس ایسی صورت میں ابن تیمیہ کس طرح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابو حاتم اس قسم کی جعلی احادیث کو ہرگز نقل نہیں کرتے۔ اور کس طرح یہ حکم عائد کر رہے ہیں کہ "اس قسم کی احادیث کا کذب و جھوٹ، احادیث سے کمترین آگاہی رکھنے والے سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ ابن ابی حاتم کی سند حدیث میں تمام رجال، موثق یا صدوق مانے گئے ہیں۔

ابن تیمیہ نے ابو نعیم و ثعلبی اوردیگر افراد کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو احادیث نقل کی ہیں انہیں ان کے صحیح السند ہونے کا یقین نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ضعیف ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ بہتان کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے دعوی کے اثبات میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے لہذا انہیں اس بہتان کا جواب دینا چاہیے۔

انکار اعلان ولایت علیعليه‌السلام

اہل سنت کے مطابق واقعہ غدیر اور پیغمبر اکرم ﷺ کی جانب سے اعلان ولایت علی (من کنت مولا ه فعلی مولا ه ) میں کوئی شک و شبھہ اور تردید نہیں پائی جاتی بلکہ یہ واقعہ قطعی ہے۔ صرف ذہبی نے ابن جریر طبری کی شرح حال میں فرغانی سے نقل کیا ہے:

جب ابن جریر طبری کو یہ خبر ملی کہ ابن ا بی داؤد حدیث غدیر خم کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک کتاب فضائل ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے صحیح ہونے کے بارے میں روایات جمع کی ہیں۔(۱۰)

یاقوت حموی بھی کہتے ہیں:

بغداد کے بعض علماء، حدیث غدیر کا انکار اور تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: علی بن ابی طالب‘ اس وقت یمن میں تھے ۔۔۔ جب یہ خبر ابن جریر طبری کو ملی تو انہوں نے اس دعویٰ کی رد میں ایک کتاب فضائل علی بن ابی طالب‘ ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے مختلف طرق بھی بیان کیئے۔(۱۱)

ابو العباس ابن عقد نے بھی ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں حدیث غدیر کے طرق بیان کیئے ہیں۔(۱۲)

پس ان تمام شواہد کے بعد اعلان ولایت علی بن ابی طالب (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کی صداقت کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبھہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

انکار دعاءِ "اللهم وال من والاه"

واقعہ غدیر میں اعلان ولایت علی بن ابی طالب‘ کے بعد بہت سی کتب میں پیغمبراسلامﷺ کے دعائیہ کلمات ملتے ہیں، جس میں آپ ﷺنے فرمایا:" الل ه م وال من والا ه و عاد من عادا ه و انصر من نصر ه و اخذل من خذل ه " لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

"بیشک حدیث کا یہ حصہ علماء حدیث کی اتفاق نظر سے جھوٹ ہے اس لئے کہ پیغمبرؐ اکرم کی دعا لازمی طور پر مستجاب ہوتی ہے لیکن یہ دعا مستجاب نہ ہوئی لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعاءِ پیغمبر اسلامﷺ نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے سابقین نے زمانہ خلافت علیعليه‌السلام میں ان کی مدد نہیں کی بلکہ ان سے برسر پیکار ہوئے اور ان کے بارے میں صحیحین میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات ہرگز دوزخ میں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ صلح حدیبیہ کے اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ انہیں علیعليه‌السلام سے جنگ کے بعد کسی قسم کی ذلت و خواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے بعد انہوں نے کفار سے جنگ کی تو خدا نے ان کی مدد کرتے ہوئے انہیں فتحیاب کیا پس صفِ علی میں آنے والوں کے لیئے نصرت خدا کہاں ہے؟!(۱۳)

ابن تیمیہ کے یہ دعوے قرآن کریم کے معیار و موازین اور حدیث شناس علماء کے نظریہ کے برخلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہیں کیونکہ:

اولاً: جن احادیث میں"من کنت مولا ه فعلی مولا ه " کے بعد "الل ه م وال من والا ه ۔۔۔" آیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اہل سنت کے بزرگ و معتبر حدیث شناس علماء کی نظر میں صحیح السند ہیں جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے "یہ حدیث، شیخین، (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔(۱۴)

ان کے علاوہ ذہبی، ابن کثیر ، احمد بن حنبل وغیرہ نے بھی اسے بطور صحیح قبول کیا ہے۔

ان شواہد کے بعد ابن تیمیہ کو کیسے یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ کہنے لگے کہ حدیث شناس علماء کا اس حدیث کے جعلی و کذب ہونے پر اتفاق نظر ہے؟!

ثانیاً: مارقین و ناکثین سے حضرت علی علیہ السلام کی جنگیں تاویل قرآن پر تھیں اور اس کے بارے میں حضورؐ سرورکائنات پہلے سے پیش گوئی فرما چکے تھے: اِنّ منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ ؛ تم میں ایک وہ ہے جو تاویل قرآن کے لیے جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس تنزیل قرآن کے لیے جنگ کی ہے۔ اہل سنت کے مطابق یہ حدیث صحیح السند ہے اور اس کے طرق و مصادر بھی متعدد ہیں۔(۱۵)

ثالثاً: جو تاویل قرآن کی خاطر جنگ کرے قطعی طورپر نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی یہاں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نصرت الٰہی سے کیا مراد ہے اگر اس سے مراد ہر میدان میں حق والوں کی ظاہری کامیابی و فتح اور باطل کی شکست و ناکامی ہوجیساکہ ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے، تو پھر انبیاء و مؤمنین کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن کی کامیابی و کامرانی اور ان کی مدد کا خدانے وعدہ کیا ہے لیکن ایسا واقع نہ ہوا۔ پروردگار عالم فرماتا ہے:( انَّا لننصر رُسُلَنا و الذین آمنوا فی الحیو ة الدنیا و یَوم یقوم الا ش ه ادُ ) "بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے(۱۶) ۔

یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا(۱۷) ۔

بہت سے انبیاءومؤمنین اس دنیا میں قتل ہوئے اور عدل و انصاف قائم نہ کرسکے خصوصاً جبکہ ان کے یاور و انصار نے ان کی نافرمانی کی یا اطاعت میں کوتاہی برتی جیسا کہ حضورﷺکے زمانے میں جنگ احد کے موقع پر اور حضرت علیعليه‌السلام کے زمانے میں جنگ صفین کے موقع پر نافرمانی اورکوتاہی پر اتر آئے تھے بنابرایں انبیاء و مؤمنین کی نصرت کا وعدہ ان شرائط سے مشروط ہے جبکہ یہ فراہم ہوں۔

رابعاًٍ: وہ حدیث (گرچہ صحیح السند ہو) جو آیات قرآن کے مخالف ہو، فاقد اعتبار ہوتی ہے بنابریں ابن تیمیہ نے جو اصحاب شجرہ کے بارے میں حدیث نقل کی ہے وہ فاقد اعتبار اور مردود ہے۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے بعض لوگوں کے لیے الگ حساب کتاب رکھا ہے اور ان کی فتنہ انگیزیوں، خون خرابہ اور خطاؤں کو نادیدہ لیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں معیار نجات کی وضاحت کی گئی ہے بنابریں اگرچہ یہ روایات وارد ہوئی ہیں تو ان کی تاویل کرنا پڑے گی کیونکہ یہ تعلیمات قرآن کے برخلاف وارد ہوئی ہیں۔

پروردگار عالم نے اصحاب بیعت رضوان کے بارے میں اپنی رضایت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۔۔۔) (۱۸)

یقیناً خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔

یہ رضایت و خوشنودی اس صورت میں باقی رہنے والی ہے جبکہ یہ لوگ اپنی بیعت پر باقی رہیں لیکن اگر بیعت توڑ ڈالتےہیں تو پھر خوشنودی پروردگار بھی حاصل نہیں ہوسکتی بہشت کا تو سوال ہی کیا ہے!

جبکہ صحیحین میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ کی وفات کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے لہذا وہ دوزخی ہیں۔(۱۹)

اب آپ بتائیے کیا ان روایات سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟!

غور کیجئے، فکر کیجئے اور خوب سوچئے !!!

خطبۂ غدیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے۔ وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے۔ وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ہمیشہ سے بزرک ہے اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا۔ بلندیوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، بے نیاز، پاکیزہ صفات، ملائکہ اور روح کا پروردگار تمام مخلوقات پر فضل و کرم کرنے والا اور تمام ایجادات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگرچہ کوئی آنکھ اُسے نہیں دیکھتی، وہ صاحب علم و کرم ہے، اس کی رحمت ہر شے کے لیے وسیع اور اس کی نعمت کا احسان ہر شے پر قائم ہے۔ انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقیقن عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، مخفی امور اس پر مشتہح نہیں ہوتے، وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے، اس کی قوت ہر شے میں اور اس کی قدرت ہر چیز پر ہے، وہ بے مثل ہے اور شے کو شے بنانے والا ہے، ہمیشہ رہنے والا، انصاف کرنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ عزیز و حکیم ہے، نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی۔ کوئی شخص اس کے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اس کے ظاہر و باطن کا ادراک نہیں کرسکتا۔ مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے، میں گواہی دیتا دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکیزگی زمانہ پر محیط اور جس کا نور ابدی ہے۔ اس کا حکم نافذ ہے۔ نہ اس کا کوئی مشیر ہے نہ وزیر۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی تدابیر میں کوئی فرق ہے، جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر و نظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا۔ وہ خدا ہے لاشریک ہے جس کی صفت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے۔

وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اس کے قدرت کے سامنے متواضع اور ہر چیز اس کی ہبیت کے سامنے خاضع ہے وہ تمام ملکوں کا مالک، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، ہر ایک کو معین مدت کے لیے چلانے والا، دن کو رات اور رات کو دن پر حاوی کرنے والا، ظالموں کی کمر توڑنے والا، شیطانوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ نہ اس کا کوئی ضد ہے نہ مثل۔ وہ یکتا ہے بے نیاز ہے، اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے پورا کر دیتا ہے۔ جاننے والا، خیر کا احصاء کرنے والا ، موت و حیات کا مالک، فقر و غنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا ، رلانے والا، قریب کرنے والا، دو رہٹانے والا، عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے۔ ملک اسی کے اختیار میں ہے اور حمد اسی کے لیے زیبا ہے اور اسی کے قبضہ میں ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔ اس عزیز و غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، عطاؤں کو بکثرت دینے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے، اس کے لیے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسے گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال کرتا نہیں ہے۔ نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا اور عالمین کا مولا و حاکم ہے۔ اس کا حق ہر مخلوق پر یہ ہے کہ راحت و تکلیف اور نرم و گرم میں اس کی حمدو ثناء کرے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرے۔ میں اس پر اور اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اس کے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، اس کی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اس کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں اس لیے کہ اس کی اطاعت میرا فرض ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بنا پر کہ نہ کوئی اس کی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے ظلم کا خطرہ ہے میں اپنے لیے بندگی اور اس کے لیے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور اس کے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اس خدائے وحدہ لاشریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے حفاظت کی ضمانت لی ہے۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ، اے رسول جو حکم تمہاری طرف علی ؑ کے بارے میں نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جبرئیل بار بار میرے پاس یہ حکم پروردگار لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب‘ میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزل میرے لیے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس کا اعلان خدا نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

علی بن ابی طالب‘ نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوۃ دی ہے، وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ یہ گذارش کی کہ اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لیے کہ متقین کی قلت ہے اور منافقین کی کثرت، فساد کرنے والے، بدعمل اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاری کا بھی خطرہ ہے، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے: "یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو اِن کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پیش پروردگار بہت بڑی بات ہے"۔ ان لوگوں نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ مجھے "کاہن" کہنےلگے ہیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں اسی لیے خدا نے آیت نازل کی کہ "کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو فقط کاہن ہیں، تو پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر ایسا ہے تو تمہارے حق میں یہی خیر ہے، ورنہ میں چاہوں تو ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں اور اس کی طرف اشارہ بھی کرسکتا ہوں اور لوگوں کے لیے نشان دہی بھی کرسکتا ہوں۔ لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کر دوں۔ لہذا لوگو! ہوشیار رہو کہ اللہ نے علی ؑ کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ، انصار اور ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی ، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے۔ ہر توحید پرست کے لیے ان کا حکم جاری، ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے، ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

ایھا الناس! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمہارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی ؑ تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے۔ اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تا روزِ قیامت باقی رہے گی۔

حلال وہ ہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ یہ سب اللہ نے مجھے بتایا تھا اور میں نے سارے علم کو علی ؑ کے حوالہ کردیا۔

ایھا الناس! کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علیعليه‌السلام کے حوالہ کردیا ہے۔ یہ امام المتقین ؑ بھی ہے اور امام المبین بھی ہے۔

ایھا الناس! علیعليه‌السلام سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہوجانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے باطل کو فنا کردینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں۔ انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوئی۔ وہ سب سے پہلے اللہ و رسولؐ پر ایمان لائے اور اپنے جی جان سے رسولؐ پر قربان تھے ہمیشہ خدا کے رسولؐ کے ساتھ رہے جب کہ رسولؐ کے علاوہ کوئی عبادتِ خدا کرنے والا نہ تھا۔ ایھا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔ ایھا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں، اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے، بلکہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اس امر پر مخالفت کرنے والے پر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدترین عذاب نازل کر دے۔ لہذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہوجاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لیے مہیار کیا گیا ہے۔

ایھا الناس! خدا گواہ ہے کہ سابق کے تمام انبیاء و مرسلین کو میری بشارت دی گئی ہے اور میں خاتم الانبیاء و المرسلین اور زمین و آسمان کے تمام مخلوقات کے لیے حجت پروردگار ہوں۔ جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ جاہلیت جیسا کافر ہو جائےگا۔ اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا اور اس کا انجام جہنم ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ تا ابد اور ہر حال میں میری حمد کا حق دار ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و برتر ہے۔ اللہ نے ہمارے ہی ذریعہ رزق کو نازل کیا ہے اور مخلوقات کو باقی رکھا ہے۔ جو میری اس بات کو رد کردے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی  سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قدم راہ حق سے پھسل جائیں اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔

ایھا الناس! علی وہ جنب اللہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ ظالمین افسوس کریں گے کہ انہوں نے جنب اللہ کے بارے میں کوتاہی کی ہے۔

ایھا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات کو نگاہ میں رکھو اور متَشابہات کے پیچھے نہ پڑو۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے احکام اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ کوئی واضح نہ کرسکے گا۔ جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں ، میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی  مولا ہے۔ یہ علی بن ابی طالب‘ میرا بھائی ہے اور وصی بھی۔ اس کی محبت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ اور میری اولاد طیبین ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان میں ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوں۔ یہ میری اولاد مخلوقات میں احکام خدا کے امین اور زمین میں ملک خدا کے حکام ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ میں نے تبلیغ کردی میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی۔ میں نے حق کو واضح کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پھر آگاہ ہوجاؤ کہ امیر المؤمنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔

(اس کے بعد علیعليه‌السلام کو اپنے ہاتھوں پر اتنا بلند کیا کہ ان کے قدم رسولؐ کے گھٹنوں کے برابر ہوگئے۔ اور فرمایا)

ایھا الناس! یہ علی ؑ میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اور امت پر میرا خلیفہ ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا، اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا، اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے روکنے والا، اس کے رسولؐ کا جانشین اور مؤمنین کا امیر، امام اور ہادی ہے اور بیعت شکن، ظالم اور خارجی افراد ے جہاد کرنے والا ہے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ حکم خدا سے کہہ رہا ہوں میری کوئی بات بدل نہیں سکتی ہے۔ خدایا! علی ؑ کے دوست کو دوست رکھنا اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دینا، ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔ پروردگار! تو نے یہ وحی کی تھی کہ امامت علیعليه‌السلام کے لیے ہے اور تیرے حکم سے میں نے انہیں مقرر کیا ہے۔ جس کے بعد تو نے دین کو کامل کردیا، نعمت کو تمام کردیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دے دیا اور یہ اعلان کردیا جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہوگا۔ پروردگار! میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔

ایھا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علیعليه‌السلام کی امامت سے کی ہے لہذا جو علی ؑ اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ ان پر نگاہ رحمت کی جائے گی۔

ایھا الناس! یہ علی ؑ ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، مجھ سے قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے۔ اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں۔ قرآن مجید میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے بارے میں ہے اور جہاں بھی یا ایھا الذین امنو کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے۔ ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے، ہل اتیٰ میں جنت کی شہادت اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علاوہ کسی غیر کی مدح میں نہیں نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! یہ دین خدا کا مددگار، رسولؐ خدا سے دفاع کرنے والا، متقی، پاکیزہ صفت، ہادی اور مہدی ہے۔ تمہارا نبی بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں۔

ایھا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے اور میری ذریت علی ؑ کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! ابلیس آدمؑ کے مسئلہ میں حسد کا شکار ہوا۔ لہذا خبردار! تم علیعليه‌السلام سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہارے قدموں میں لغزش پیدا ہو جائے۔ آدم صفی اللہ ہونے کے باوجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دیئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے۔ تم میں تودشمنان خدا بھی پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھو علیعليه‌السلام کا دشمن صرف شقی ہوگا اور علی ؑ کا دوست صرف تقی ہوگا۔ اس پر ایمان رکھنے والا صرف مؤمن ہی ہوسکتا ہے اور انہیں کے بارے میں سورہ عصر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہوجاؤ۔

ایھا الناس! اللہ، اس کے رسولﷺ اور اس نور پر ایمان لاؤ جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا اچھے چہروں کو بگاڑ دے اور انہیں پشت کی طرف پھیر دے۔

ایھا الناس!نور کی پہلی منزل میں ہوں۔ میرے بعد علیعليه‌السلام اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ مہدی قائم تک برقرار رہے گا جو اللہ کا حق اور ہمارا حق حاصل کرے گا! اس لیے کہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین، معاندین، مخالفین، خائنین، آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔

ایھا الناس! میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے لیے اللہ کا نمائندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ تو کیا میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں تو تم اپنے پرانے دین پر پلٹ جاؤ گے؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اللہ کا نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ علی ؑ کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے جو ان کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! اللہ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کہ وہ تم سے ناراض ہوجائے اور تم پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوجائے کہ وہ مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے۔

ایھا الناس! عنقریب میرے بعد ایسے راہنما پیدا ہوں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے۔ اور قیامت میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بری اور بیزار ہیں۔

ایھا الناس! یہ لوگ اور ان کی اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہذا ان کے صحیفہ پر تمہیں نگاہ رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی قلیل جماعت کے علاوہ سب صحیفہ کی بات بھول چکے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں امامت کو امانت اور قیامت تک کے لیے اپنی اولاد میں وراثت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کردی ہے تاکہ ہر حاضر و غائب ، موجود و غیر موجود، مولود وغیر مولود سب پر حجت تمام ہوجائے۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ یہ پیغام غائب تک پہنچائے اور ہر باپ کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کو اپنی اولاد کے حوالہ کرتا رہے اور عنقریب لوگ اس کو غصبی ملکیت بنالیں گے۔ خدا غاصبین پر لعنت کرے۔ قیامت میں تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور آگ کے شعلے برسائے جائیں گے جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔

ایھا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھوڑے گا جب تک خبیث اور طیّب کو الگ الگ نہ کردے اور اللہ تم کو غیب پر باخبر کرنے والا نہیں ہے۔

ایھا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جسے اللہ اس کی تکذیب کی بناء پر ہلاک نہ کردے وہ اسی طرح ظالم بستیوں کو ہلاک کرتا رہا ہے۔ علیعليه‌السلام تمہارے امام اور حاکم ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ صادق الوعد ہے۔

ایھا الناس! تم سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور وہی بعد کے ظالموں کو ہلاک کرنے والا ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے امر و نہی کی مجھے ہدایت کی ہے اور میں نے اسے علی ؑ کے حوالہ کردیا ہے وہ امر و نہی الٰہی سے باخبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلامتی پاؤ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ ان کے روکنے پر رک جاؤ تاکہ راہ راست پر آجاؤ۔ ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستوں پر منتشر نہ ہوجاؤ۔ میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کے اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی ؑ ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو اِن کے صلب سے ہے۔ یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین (سورہ حمد کی تلاوت کرنے کے بعد آپ نے فرمایا) یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے بارے میں نازل ہوا ہے، اس میں اولاد کے لیے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔ یہی میری اولاد وہ الیاء ہیں جن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ دشمنان علی ؑ ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادرانِ شیطان ہیں جن میں ایک دوسرے کی طرف مہمل باتوں کے خفیہ اشارے کرتا رہتا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی مؤمنین برحق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کا ب میں کیا ہے۔ "تم کسی ایسی قوم جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھیں " آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے۔ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو جنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے تم طیب و طاہر ہو، لہذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے کہ "یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جو جہنم میں تپائے جائیں گے اور جہنم کی آواز اس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور ہر داخل ہونے والا گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں کہ جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے کہ کوئی گروہ داخل جہنم ہوگا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

ایھا الناس! دیکھو جنت و جہنم میں کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ، اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔

ایھا الناس! آگاہ ہوجاؤ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علیعليه‌السلام ہادی ہیں۔

ایھا الناس! میں نبی ہوں اور علیعليه‌السلام میرے وصی ہیں۔ یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدیعليه‌السلام ہے۔ وہی ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کا فتح کرنے والا اور ان کا منہدم کرنے والا ہے۔ وہی مشرکین کے ہر گروہ کا قاتل اور اولیاء اللہ کے ہر خون کا انتقام لینے والا ہے، وہی دین خدا کا مددگار اور ولایت کے عمیق سمندر سے سیراب کرنے والا ہے۔ وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشان لگانے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے۔ وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے، وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے، اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے اور اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے، وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔ ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے۔ اس پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حکم اور خفیہ اور اعلانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے۔

ایھا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے اللہ کے ہاتھ اپنا نفس بیچا ہے اور میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ جو اس بیعت کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! یہ حج اور عمرہ، اور یہ صفا و مروہ سب شعائر اللہ ہیں، لہذا حج اور عمرہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔

ایھا الناس! خانۂ خدا کا حج کرو، جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہوجاتے ہیں، اور جو اس سے الگ ہوجاتے ہیں وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔

ایھا الناس! کوئی مؤمن کسی موقف میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ لہذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

ایھا الناس! حجاج خدا کی طرف سے محل امداد ہیں اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

ایھا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو اور جب وہاں سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گناہ کے ساتھ۔

ایھا الناس! نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو جس طرح کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتاہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی ؑ تمہارے ولی اور تمہارے لیے وہ احکام کے بیان کرنے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد معین کیا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے وہ تمہیں ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جانتے ہو سب بیان کردیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں تمام حلال و حرام کی امر و نہی اس مقام پر یہ کہہ کر بیان کر دیتا ہوں کہ میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے لوں اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی ؑ اور ان کے بعد کے آئمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں، تم ان سب کا اقرار کرلو۔

"کہ یہ سب مجھ سے ہیں اور ان میں ایک امت قیام کرنے والی ہے جن میں سے مہدی ؑ بھی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا۔"

ایھا الناس! میں نے جس جس حلال کی رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ لہذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہو اور کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں پھر دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاؤ اور جو لوگ نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو۔ اس لیے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی واقعی امر بالمعروف ہوسکتا ہے اور نہ ہی عن المنکر۔

ایھا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علیعليه‌السلام کے بعد امام ان کی اولاد ہے اور میں نے بھی سمجھایا ہے یہ سب میرے اور علیعليه‌السلام کے اجزاء ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انہیں اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے۔ اور میں نے بھی کہا کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے۔

ایھا الناس! تقویٰ اختیار کرو تقوی، قیامت سے ڈرو کہ اس کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے۔ موت، حساب، اللہ کے بارگاہ کا محاسبہ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

ایھا الناس! تم اتنے زیادہ ہو کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کرسکتے ہو۔ لہذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبان سے علیعليه‌السلام کے امیر المؤمنین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو اِن کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں، لہذا تم سب مل کر کہو ہم سب آپ کی بات کے سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی ؑ اور اولاد علی ؑ کے بارے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے بیعت کر رہے ہیں، اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے۔ اللہ کی اطاعت کریں گے۔ آپ کی اطاعت کریں گے اور علی ؑ امیر المؤمنین اور ان کی اولاد ائمہ ؑ جو آپ کی ذریت میں ہیں ان کی اطاعت کریں گے۔ جن میں سے حسن و حسین‘ کی منزلت کو اور ان کے مرتبہ کو اپنی اور خدا کی بارگاہ میں تمہیں دکھلا دیا ہے اور یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور اپنے باپ علی ؑ کے بعد امام ہیں اور میں علی ؑ سے پہلے ان دونوں کا باپ ہوں۔ اب تم لوگ یہ کہو کہ ہم نے اس بات پر اللہ کی اطاعت کی، آپ کی اطاعت کی اور علی ؑ ، حسنؑ ، حسین ؑ او ائمہ ؑ جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے عہد لیا ہے سب کی دل و جان سے اور دست و زبان سے بیعت کی ہے۔ ہم اس کا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کریں گے۔ اللہ ہمارا گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں اور ہر ظاہر و باطن اور ملائکہ اور بندگان خدا سب اس بات کے گواہ ہیں اور اللہ ہر گواہ سے بڑا گواہ ہے۔

ایھا الناس! اب تم کیا کہتے ہو؟ یاد رکھو کہ اللہ ہر آواز کو جانتا ہے اور ہر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ہے، جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے لیے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔ جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی ہے، اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو ، علی ؑ کے امیر المؤمنین ہونے اور حسن ؑ و حسین ؑ اور ائمہ ؑ کے کلمۂ باقیہ ہونے کی بیعت کرو۔ جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرو اور یہ کہو کہ پروردگار ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ہمیں تیری مغفرت چاہیے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور یہ کہو کہ شکر پروردگار ہے کہ اس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اس کی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔

ایھا الناس! علی بن ابی طالب‘ کے فضائل اللہ کی بارگاہ سے ہیں اور اس نے قرآن میں بیان کیا ہے اور اس سے زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کراسکوں۔ لہذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اس کی تصدیق کرو۔ یاد رکھو جو اللہ، رسولؐ، علی ؑ اور ائمہ ؑ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا۔

ایھا الناس ! جو علی ؑ کی بیعت، ان کی محبت اور انہیں امیر المؤمنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے، وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے۔ ایھا الناس! وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پروردگار مؤمنین و مؤمنات کی مغفرت فرما اور کافرین پر اپنا غضب نازل فرما۔

والحمد لل ه رب العالم ین