حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر42%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51523 / ڈاؤنلوڈ: 3586
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

حدیث منزلت پر ایک نظر

تألیف: آ یت اللہ سید علی حسینی میلانی

مترجم: شیر علی نادم شگری

۳

ابتدائیہ

ادیان الٰہی میں سے آخری اور کامل ترین دین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے(ص) کی بعثت کے ذریعے دنیا والوں کے لئے پیش کیا گیا اور پیغام الٰہی لے کر آنے والوں کا سلسلہ آپ(ص)کی نبوت کے ساتھ ختم ہو گیا۔دین اسلام شہر مکہ میں پروان چڑھا اوررسالتمآب (ص)اور ان کے بعض با وفا دوستوں کی تیئس ( ۲۳) سالہ طاقت فرسا زحمتوں کے نتیجے میں پورے جزیرۂ عرب پر چھا گیا۔

رسول اللہ (ص) کے بعد اس راہ الٰہی کو جاری رکھنے کی ذمہ داری خداوند متعال کی طرف سے ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم میں عالم اسلام کے اولین جوانمرد یعنی امیر المومنین حضرت علی(ع) کو سونپی گئی۔

اس روز حضرت علی(ع) کی ولایت و جانشینی کے اعلان کے ساتھ نعمت الٰہی اور دین اسلام کی تکمیل اور پھر دین اسلام کے خدا کا واحد پسندیدہ دین ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس لئے کافر اور مشرکین دین اسلام کو نابود کر سکنے سے مایوس ہو گئے۔

زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) کے بعض اطرافی ،پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت، آپ(ص) کی رحلت کے بعد ہدایت ورہبری کی راہ کو تبدیل کر بیٹھے۔ شہر علم کے دروازے کو بند کرکے مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی حدیث لکھنے پر پابندی لگانے ، جھوٹی حدیثیں گھڑنے، شبہات ایجاد کرنے اور شیطانی طریقوں سے حقائق کو توڑ مروڑ کرنے کے ذریعے اسلام کے سورج جیسے تابناک حقائق کو شک وتردید کی کالی گھٹاوں کی اوٹ قرار دیا۔

ظاہر یہ ہے کہ تمام سازشوں کے باوجود امیرالمومنین(ع) ، ان کے اوصیاء(ع) اور بعض باوفا اصحاب و انصار (رضی اللہ عنھم) کے توسط سے اسلام کے حقائق اور پیغمبر اکرم(ص) کے گہر بار فرامین تاریخ میں ثبت ہو گئے ہیں اور زمانے کے مختلف موڑ پر جلوہ دکھاتے ہیں۔ ان حضرات نے حقائق بیان کرنے کے ضمن میں شکوک و شبہات اور شیطان و دشمنان اسلام کے اٹھائے جانے والے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اور حقیقت کو ہر کسی کے لئے آشکار کر چھوڑا ہے۔

۴

اس راہ میں شیخ مفید، سید مرتضیٰ ، شیخ طوسی، خوا جہ نصیر، علامہ حلی، قاضی نور اللہ، میر حامد حسین، سید شرف الدین اور علامہ امینی(رحمھم اللہ) جیسے روشن ستارے چمک اٹھے ہیں جنہوں نے حقائق اسلامی کے دفاع اور مکتب اہل بیت(ع) کی اصلیت بیان کرنے کی راہ میں تحقیق و جستجو اور شبہات کا جواب دینے کے لئے اپنی زبان اور قلم کو حرکت دی ہے۔

عصر حاضر میں حریم امامت وولایت امیر المومنین(ع) سے عالمانہ دفاع کرنے اور دین مبین کے تابناک حقائق کو رسا بیان وقلم کے ذریعے پیش کرنے والے دانشمندوں میں سے ایک عظیم محقق حضرت آیت اللہ سید علی حسینی میلانی ہیں۔ان کے رشحات قلم میں سے ایک نمونہ ہم آپ کی خدمت میں اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں امید ہے عاشقان اہل بیت(ع) کے لئے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ثابت ہوگی۔

نادم شگری

ربیع الاول ۱۴۳۸ ھ

قم المقدس

۵

مقدمہ

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علیٰ محمّد وآله الطّاهرین ولعنة اللّٰه علیٰ اعدآء هم اجمعین من الاوّلین والآخرین ۔

شیعہ اور اہل سنت کے منابع میں ذکر ہونے والی معروف احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث منزلت‘‘ہے۔ جس میں پیغمبر اکرم(ص) حضرت امیرالمومنین(ع) سے فرماتے ہیں:

"اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ " ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘

دوسری نقل کے تحت آپ(ص) نے فرمایا:

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون۔‘‘

ایک اور تعبیر میں یوں ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

’’علیّ منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ ۔علی(ع)کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘

دیگر بہت ساری احادیث کے مقابلے میں اس حدیث کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ اس حدیث کو دیگر محدثین کے علاوہ بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ اہل سنت کی اصطلاح میں یہ حدیث ایسی حدیث ہے کہ بخاری و مسلم دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ حدیث امیرالمومنین(ع) کی امامت پر کئی پہلووں سے دلالت کرتی ہے ؛ لہٰذا اس اعتبار سے اسی حدیث سے کئی جہات سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لئے ہمارے علماء نے شروع سے ہی اس حدیث پر خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ اسی طرح دوسروں نے بھی اسے اپنی اسناد سے نقل کرنے اور مختلف راستوں سے اس کا جواب دینے کا اہتمام کیا ہے۔

ہم اس تحریر میں’’سند‘‘اور ’’دلالت‘‘کے اعتبار سے اس حدیث شریف کی تحقیق کرکے محققین اور متلاشیان علم کے حوالے کریں گے۔

سید علی حسینی میلانی

۶

پہلا حصہ:

راویان ’’حدیث منزلت‘‘ پر ایک نظر

حدیث منزلت کے راوی

متن حدیث کی تحقیق سے پہلے ہم بعض اصحاب پیغمب(ص)کے نام بیان کریں گے جنہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح مختلف صدیوں سے تعلق رکھنے والے مشہور ترین محدثین ، مفسرین اور مورخین کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔

۱ ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام

راویان حدیث کی ابتدا میں خود امیرالمومنین(ع) کا اسم گرامی چمک رہا ہے۔ اسی طرح بعض اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، ان کے نام یہ ہیں:

۲ ۔ عبد اللہ ابن عباس

۳ ۔عبد اللہ ابن مسعود

۴ ۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری

۵ ۔ سعد ابن ابی وقاص

۶ ۔ عمر ابن خطاب

۷ ۔ ابو سعید خدری

۸ ۔ براء ابن عازب

۷

۹ ۔ جابر ابن سمرہ

۱۰ ۔ ابوہریرہ

۱۱ ۔مالک ابن حویرث

۱۲ ۔ زید ابن ارقم

۱۳ ۔ ابو رافع

۱۴ ۔ حذیفہ بن اسید

۱۵ ۔ انس بن مالک

۱۶ ۔ عبد اللہ ابن ابی اوفی

۱۷ ۔ ابو ایوب انصاری

۱۸ ۔ عقیل ابن ابی طالب

۱۹ ۔ حُبشی ابن جنادہ

۲۰ ۔ معاویہ ابن ابو سفیان

اس حدیث کے راویوں میں خواتین بھی ہیں کہ جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ ام المومنین ام سلمہ

۲ ۔ اسماء بنت عمیس

۸

حدیث منزلت کا تواتر

تیس ( ۳۰) سے زائد اصحاب نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، ممکن ہے اصحاب میں سے مردوں اور خواتین کو ملا کر راویوں کی تعداد چالیس ( ۴۰) تک پہنچ جائے۔

ابن عبد البر’’الاستیعاب‘‘میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:یہ حدیث، صحیح ترین اور معتبر ترین روایات میں سے ہے۔ وہ اسی تسلسل میں کہتے ہیں: سعد ابن ابی وقاص کی حدیث بہت ساری اسناد سے نقل ہوئی ہے۔

ابن عبد البر اس حدیث کو روایت کرنے والے بعض اصحاب کا نام لینے کے بعد کہتے ہیں: البتہ ایک اور گروہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے جس کے تمام افراد کا نام لینا طوالت کا باعث ہوگا۔(۱؎)

’’تہذیب الاکمال‘‘میں مزی نے بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور امیرالمومنین(ع) کے حالات زندگی میں اسی طرح اظہار نظر کیا ہے۔(۲؎)

حافظ ابن عساکر بھی’’ تاریخ مدینہ دمشق‘‘ میں بہت سارے مواقع پر امیرالمومنین(ع) کے حالات بیان کرتے وقت اس حدیث کی اسناد وطرق کو تقریباً بیس ( ۲۰) اصحاب سے ذکر کرتا ہے ۔(۳؎)

____________________

۱۔ الاستیعاب: ۳/ ۱۰۹۷

۲۔ تہذیب الکمال: ۲/۴۸۳

۳۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۳۰۶۔۳۹۳، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۹

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے والے بعض اصحاب کانام لینے کے بعد ان میں سے ایک گروہ کی روایت کا متن نقل کرتے ہوئے اور کہتا ہے:ابن عساکر نے علی(ع) کے حالات زندگی کے ضمن میں حدیث منزلت کے تمام طرق کو ذکر کیا ہے۔(۱؎)

اس بناء پر حدیث منزلت ، کہ جو شیعہ مفکرین کے ہاں متواتر ہے، اہل سنت کے ہاں بھی صحیح ، معروف اور مشہور احادیث میں سے ہے؛ بلکہ ان کے ہاں بھی متواتر احادیث میں شمار ہوتی ہے۔

حاکم نیشاپوری اسی ضمن میں کہتے ہیں:حدیث منزلت ، تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔(۲؎)

اسی طرح’’قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة‘‘ میں ، جس میں متواتر احادیث ہیں، حافظ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو بھی نقل کیا ہے ۔(۳؎)

شیخ علی متقی ہندی نے’’ قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کرنے میں سیوطی کی پیروی کی ہے۔ اس حدیث کے متواتر ہونے کا اعتراف کرنے والوں میں سے ایک دیار ہند کے محدث شاہ ولی اللّٰہ دہلوی ہے ۔ انہوں نے اس مطلب کو’’ازالة الخفاء فی سیرة الخلفاء ‘‘ میں لکھا ہے۔

____________________

۱۔ فتح الباری: ۷/۶۰

۲۔ کفایۃ الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع): ۲۸۳

۳۔ قطف الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترہ: حرف الف

۱۰

مختلف صدیوں میں اس حدیث کے راوی

یہاں ہم اہل سنت کے مشاہیر میں سے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کریں گے جو مختلف صدیوں میں اس حدیث کو روایت کرنے والے ہیں:

۱ ۔ محمد ابن اسحاق ۔صاحب کتاب السیرۃ ؛

۲ ۔ ابوداود سلیمان ابن داود طیالسی ۔صاحب المسند ؛

۳ ۔ محمد ابن سعد۔مصنف الطبقات الکبریٰ؛

۴ ۔ ابو بکر ابن ابی شیبہ۔صاحب کتاب المصنّف؛

۵ ۔ احمد ابن حنبل شیبانی ۔صاحب المسند ؛

۶ ۔ محمد ابن اسماعیل بخاری ۔ صحیح بخاری؛

۷ ۔ مسلم نیشاپوری۔ صحیح مسلم؛

۸ ۔ ابن ماجہ قزوینی۔ سنن ابن ماجہ؛

۹ ۔ ابو حاتم ابن حبّان۔صحیح؛

۱۰ ۔ محمد ابن عیسیٰ ترمذی۔سنن ترمذی؛

۱۱ ۔ عبد اللہ ابن احمد ابن حنبل ۔ یہ اہل سنت کے بڑے پیشوااحمد ابن حنبل کا بیٹا ہے۔ کبھی بعض علماء ، عبد اللہ کو اس کے باپ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس نے اس حدیث کو ’’زیادات مسند احمد‘‘اور’’زیادات مناقب احمد‘‘میں نقل کیا ہے۔

۱۱

۱۲ ۔ ابو بکر بزار۔صاحب المسند؛

۱۳ ۔ نسائی ۔ صاحب صحیح؛

۱۴ ۔ ابو یعلی موصلی ۔ صاحب المسند؛

۱۵ ۔ محمد ابن جریر طبری۔ صاحب تاریخ و تفسیر؛

۱۶ ۔ ابو عوانہ۔ صاحب صحیح؛

۱۷ ۔ ابو شیخ اصفہانی ۔ صاحب طبقات المحدثین؛

۱۸ ۔ ابو القاسم طبرانی۔ صاحب معجم (کبیر، اوسط، صغیر)؛

۱۹ ۔ ابو عبد اللہ حاکم نیشاپوری۔ صاحب المستدرک علی الصحیحین؛

۲۰ ۔ ابو بکر شیرازی۔صاحب الألقاب؛

۲۱ ۔ ابو بکر ابن مردویہ ۔ صاحب تفسیر؛

۲۲ ۔ ابو نعیم اصفہانی ۔ صاحب حلیۃ الأولیاء ؛

۲۳ ۔ ابو القاسم تنوخی ۔انہوں نے حدیث منزلت کی اسناد ذکر کرتے ہوئے الگ سے ایک کتاب لکھی ہے۔

۲۴ ۔ ابو بکر خطیب بغدادی ۔صاحب تاریخ بغداد؛

۲۵ ۔ ابن عبد البر ۔ صاحب الاستیعاب؛

۲۶ ۔بغوی ۔یہ اہل سنت کے ہاں’’محی السنۃ ‘‘(سنت کو زندہ کرنے والا) کے نام سے معروف ہے۔’’مصابیح السنہ ‘‘نامی کتاب ان کی لکھی ہوئی ہے ۔

۱۲

۲۷ ۔ رزین عبدی۔ صاحب کتاب الجمع بین الصحاح؛

۲۸ ۔ ابن عساکر۔ صاحب تاریخ مدینہ دمشق؛

۲۹ ۔ فخر رازی ۔ صاحب تفسیر کبیر؛

۳۰ ۔ مجد الدین ابن اثیر جزری ۔ صاحب جامع الاصول؛

۳۱ ۔ عز الدین ابن اثیر ۔ صاحب اسد الغابہ؛

۳۲ ۔ ابن نجار بغدادی ۔ صاحب تاریخ بغداد؛

۳۳ ۔ نووی ۔ صاحب شرح صحیح مسلم ؛

۳۴ ۔ ابوالعباس محب الدین طبری ۔ صاحب الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ المبشرۃ

۳۵ ۔ ابن سید الناس ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۶ ۔ ابن قیم جوزیہ ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۷ ۔ یافعی ۔ صاحب مرآۃ الجنان؛

۳۸ ۔ ابن کثیر دمشقی ۔ صاحب تفسیر و تاریخ؛

۳۹ ۔ خطیب تبریزی ۔ صاحب مشکاۃ المصابیح؛

۴۰ ۔ جمال الدین مزی۔ صاحب تہذیب الکمال؛

۴۱ ۔ ابن شحنہ ۔ معروف تاریخ کے مصنف؛

۴۲ ۔ زین الدین عراقی ۔ معروف محدث ، مختلف کتابوں کے مصنف ہیں ؛ جن میں سے ایک کتاب ’’الالفیہ فی علوم الحدیث ‘‘ہے؛

۱۳

۴۳ ۔ ابن حجر عسقلانی؛

۴۴ ۔ جلال الدین سیوطی؛

۴۵ ۔ دیار بکری ۔ تاریخ خمیس؛

۴۶ ۔ ابن حجر مکی ۔ الصواعق المحرقہ؛

۴۷ ۔ متقی ہندی ۔ کنز العمال؛

۴۸ ۔ منّاوی ۔ فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر؛

۴۹ ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ۔ ازالۃ الخفاء ، الحجۃ البالغہ؛

۵۰ ۔ احمد زینی دحلان ۔ السیرۃ الدحلانیۃ۔

ان کے علاوہ مختلف صدیوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے محدثین، مورخین اور مفسرین نے اس حدیث شریف کو اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

۱۴

دوسرا حصہ :

حدیث منزلت کے متن پر ایک نظر

حدیث منزلت کا متن اور اس کی تصحیح

۱۵

بخاری کی روایت

صحیح بخاری میں یہ روایت دو جگہ نقل ہوئی ہے۔

محمد بن بشار، غندر سے ، وہ شعبہ سے اور شعبہ ، سعد سے نقل کرتا ہے، وہ کہتا ہے:کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے ،اس نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے سنا ، کہتا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

"اما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ" ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۵/۲۴

۱۶

بخاری دوسری جگہ اس حدیث کو اس طرح نقل کرتا ہے:

مسدد، یحییٰ سے ، وہ شعبہ سے ، شعبہ ، حکم سے ، وہ مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے اور سعد اپنے باپ سے نقل کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’جب پیغمبر جنگ تبوک کے لئے مدینے سے باہر جا رہے تھے تو آپ(ص) نے علی(ع) کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑ دیا ۔علی(ع) نے عرض کیا:کیا آپ (ص)عورتوں اور بچوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دیں گے؟

پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"الا ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موس یٰ الا انّ ه ل یس بعدی نبیّ "

کیا تم خوش نہیں ہو کہ میرے لئے، موسیٰ کے لئے ہارون کی طرح ہو جاو سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۶/۳

۱۷

مسلم کی روایت

مسلم بن حجاج قشیری اس حدیث کو متعدد اسناد سے روایت کرتا ہے ۔ بطور نمونہ ایک مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ان روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جو اس نے اپنی سند کے ساتھ سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے ، سعید نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی " ۔

تم میرے لئے اس طرح ہو جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھا سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔‘‘

سعید کہتا ہے:میں چاہتا تھا کہ اس حدیث کو بالمشافہ سعد سے ہی سنوں ، اسی لئے میں نے اس سے ملاقات کی اور عامر کی نقل کردہ حدیث سعد کے ہاں بیان کردی۔

اس نے کہا :میں نے یہ حدیث پیغمبر(ص) سے سنی ہے ۔

میں نے کہا :کیا واقعی!تم نے خود سنی ہے ؟

اس نے میرے جواب میں اپنی انگلیوں کو کانوں پر رکھا اور کہا :جی ہاں!اگر جھوٹ کہوں تو میرے کان بہرے ہو جائیں ۔(۱؎)

____________________

۱۔صحیح مسلم: ۴/۱۸۷۰، حدیث ۲۴۰۴

۱۸

قابل ذکر ہے کہ اس متن میں چند ایک نکات ہیں ان پر توجہ کرنی چاہئے۔

مسلم اپنی صحیح میں کسی دوسری جگہ یوں نقل کرتا ہے :

بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد سے کہا: ابوتراب کو برا بھلا کہنے سے کون سی چیز تمہارے لئے مانع ہے ؟

سعد نے کہا :اس (علی(ع))کے بارے میں پیغمبر کی بیان کی گئی تین خصوصیات جب بھی مجھے یاد آتی ہیں میں ہرگز اس کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا۔پھر سعد نے وہ تین خصوصیات بیان کیں کہ جن میں سے ایک حدیث منزلت تھی۔(۱؎)

____________________

۱۔ صحیح مسلم: ۴/ ۱۸۷۱

۱۹

اہل سنت کی نگاہ میں دوصحیح کتابیں

جو کچھ گزر چکا ہے وہ ایسی حدیثیں تھیں جو اہل سنت کی دو صحیح کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ اہل سنت کے درمیان مشہور و معروف یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کی حدیثیں قطعی طور پر صحیح اور درست ہیں ، اکثر اہل سنت اس بات کے معتقد ہیں کہ ان دونوں کتابوں کی ساری کی ساری احادیث ’’قطعی الصدور‘‘ہیں اور ان روایات کی سند میں جھگڑنے اور شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

زیادہ سے زیادہ اطمینان کے لئے آپ علوم حدیث میں لکھی گئی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ بطور نمونہ :جلال الدین سیوطی کی تالیف ’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘، اسی طرح ’’الفیۃ الحدیث‘‘پر لکھی گئی شرحیں ،مثلا:شرح ابن کثیر ، شرح زین الدین عراقی وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ابو الصلاح کی کتاب علوم الحدیث میں بھی یہ مطلب دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک طرف سے اہل سنت کی معتبر اور مورد اعتماد کتاب ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘میں شاہ ولی اللہ دہلوی ، دو صحیح کتابوں پر تاکید کرتے ہیں؛ وہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری پر تمام علماء کے اجماع اور اتفاق کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:تمام علماء متفق النظر ہیں ،ہر وہ شخص کہ جو ان دونوں کتابوں سے بے اعتنائی کرے اور انہیں بے اہمیت سمجھے وہ بدعت گزار اور مؤمنین کے راستے پر نہ چلنے والا ہے۔

اس بنا پر اور شاہ ولی اللہ کی بات پر ، کہ جس میں اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے، توجہ دینے سے ، حدیث منزلت کی سند پر اعتراض کرنے والا دین میں بدعت ایجاد کرنے والا ہو جائے گا جو مؤمنین کے راستے سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چل رہا ہے۔

دوسری طرف سے اگر رجال کی کتب دیکھ لی جائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ مسلم اور بخاری نے جس راوی سے کوئی ایک حدیث نقل کی ہے تو تمام راوی شناسوں نے اسی راوی پر اعتماد کرکے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے ؛ اس طرح کہ ان میں سے بعض کا کہنا ہے : جس کسی نے ان دونوں سے روایت نقل کی وہ پل سے گزر گیا۔

۲۰

مسئلہ ۱۹_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

۳_ ضروريات زندگي:

مسئلہ ۲۰_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيںاس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم و غيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۱_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائشے كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا

-

۲۱

موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے _

مسئلہ ۲۲_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہوليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

مسلئہ ۲۳_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم و غيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۴_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت و غيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے

۲۲

خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

مسئلہ ۲۵_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تا كہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو_

مسئلہ ۲۶_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

۲۳

۴_ رجوع الى الكفاية:

مسئلہ ۲۷_ مالى استطاعت ميں '' رجوع الى الكفاية'' شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى )اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان و غيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

مسئلہ ۲۸_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ''رجوع الى الكفاية'' وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك

۲۴

ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى _

مسئلہ ۲۹_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ''حج بجالا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ''تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں '' رجوع الى الكفايہ '' شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے _

ليكن اگراسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كرلے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

۲۵

مسئلہ ۳۰_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے_

مسئلہ ۳۱_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ ۳۲_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

مسئلہ ۳۳_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں

۲۶

حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

مسئلہ ۳۴_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے و غيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ''رجوع الى الكفاية'' تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

مسئلہ ۳۵_اگركسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول

۲۷

كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجالانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۶_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجالائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجالائے _

مسئلہ ۳۷_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كرلے اگر چہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تا كہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج

۲۸

كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجالانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصدكيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب_ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جانہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے _

مسئلہ ۳۸_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كرلے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور

۲۹

ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجالانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

۳۰

مسئلہ ۳۹_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيارہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھو ادے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

د_زمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج

نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _

مسئلہ ۴۰_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بڑھا پے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تواس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۴۱_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو

۳۲

انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگر چہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے _ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميںاس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۲_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعدفوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپريہ كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۳_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگر چہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے

۳۳

تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_

مسئلہ ۴۴_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _

مسئلہ ۴۵_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے

۳۴

سے نكالا جائيگا _

مسئلہ ۴۶_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _

مسئلہ ۴۷_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :

۱_ بلوغ ، احوط كى بناپر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _

۲_ عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام

۳۵

دے _

۳_ ايمان ، احوط كى بناپر ،پس مؤمن كى طرف سے غير مؤمن كا حج كافى نہيں ہے _

۴_ اس كا حج كے اعمال اور احكام سے اس طرح واقف ہونا كہ اعمال حج كو صحيح طور پر انجام دينے پر قادر ہو اگر چہ اس طرح كہ ہر عمل كے وقت معلم كى راہنمائي كے ساتھ اسے انجام دے_

۵_ اس سال ميں خود اس كا ذمہ واجب حج كے ساتھ مشغول نہ ہو ہاں اگر اسے اپنے اوپر حج كے وجوب كا علم نہ ہو تو اسكے نيابتى حج كے صحيح ہونے كا قائل ہونا بعيد نہيں ہے _

۶_ حج كے بعض اعمال كے ترك كرنے ميں معذور نہ ہو _ اس شرط اور اس پر مترتب ہونے والے احكام كى وضاحت اعمال حج ميں آجائيگي_

مسئلہ ۴۸_نائب بنانے كے كافى ہونے ميں شرط ہے كہ نائب كے منوب عنہ كى طرف سے حج كے بجا لانے كا وثوق ہو ليكن يہ جان لينے كے

۳۶

بعد كہ اس نے حج انجام دے ديا ہے اس بات كا وثوق شرط نہيں ہے كہ اس نے حج كو صحيح طور پر انجام ديا ہے بلكہ اس ميں اصالة الصحة كافى ہے (يعنى اس كا عمل صحيح ہے)_

منوب عنہ كى شرائط :

منوب عنہ ميں چند چيزيں شرط ہيں_

اول : اسلام ، پس كافر كى طرف سے حج كافى نہيں ہے _

دوم : يہ كہ منوب عنہ فوت ہو چكا ہو يا بيمارى يا بڑھاپے كى وجہ سے خود حج بجالانے پر قادر نہ ہو يا خود حج بجالانے ميں اسكے لئے حرج ہو اور آئندہ سالوں ميں بھى بغير حرج كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ركھتا ہو البتہ اگر نيابت واجب حج ميں ہو _ ليكن مستحب حج ميں غير كى طرف سے نائب بننا مطلقا صحيح ہے _

۳۷

چند مسائل :

مسئلہ ۴۹_ نائب اور منوب عنہ كے درميان ہم جنس ہونا شرط نہيں ہے پس عورت مرد كى طرف سے نائب بن سكتى ہے اور مرد عورت كى طرف سے نائب بن سكتا ہے _

مسئلہ ۵۰_ صرورہ ( جس نے حج نہ كيا ہو) صرورہ اور غير صرورہ كى طرف سے نائب بن سكتا ہے چاہے نائب يا منوب عنہ مرد ہو ياعورت _

مسلئہ ۵۱_ منوب عنہ ميں نہ بلوغ شرط ہے نہ عقل_

مسلئہ ۵۲_ نيابتى حج كى صحت ميں نيابت كا قصد اور منوب عنہ كو معين كرنا شرط ہے اگر چہ اجمالى طور پر ليكن نا م كا ذكر كرنا شرط نہيں ہے_

مسئلہ ۵۳_ اس بندے كو اجير بنانا صحيح نہيں ہے كہ جسكے پاس، حج تمتع كے اعمال كو مكمل كرنے كا وقت نہ ہو اور اس وجہ سے اس كافريضہ حج افراد كى طرف عدول كرنا ہو ہاں اگر اجير بنائے اور اتفاق سے وقت تنگ ہو جائے تو اس پر عدول كر نا واجب ہے اور يہ حج تمتع سے كافى ہے اور اجرت كا بھى

۳۸

مستحق ہو گا _

مسئلہ ۵۴_ اگر اجير احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو پورى اجرت كا مستحق ہو گا البتہ اگر اجارہ منوب عنہ كے ذمہ كو برى كرنے كيلئے ہو جيسا كہ اگر اجارہ مطلق ہو اور اعمال كو انجام دينے كے ساتھ مقيد نہ ہو تو ظاہر حال يہى ہوتا ہے _

مسئلہ ۵۵_ اگر معين اجرت كے ساتھ حج كيلئے اجير بنايا جائے اور وہ اجرت حج كے اخراجات سے كم پڑ جائے تو اجير پر حج كے اعمال كو مكمل كرنا واجب نہيں ہے جيسے كہ اگر وہ حج كے اخراجات سے زيادہ ہو تو اس كا واپس لينا جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۵۶_ نائب پر واجب ہے كہ جن موارد ميں اسكے حج كے منوب عنہ سے كافى نہ ہونے كا حكم لگايا جائے _ نائب بنانے والے كو اجرت واپس كردے البتہ اگر اجارہ اسى سال كے ساتھ مشروط ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ بعد ميں منوب عنہ كى طرف سے حج بجالائے _

۳۹

مسئلہ ۵۷_ جو شخص حج كے بعض اعمال انجام دينے سے معذور ہے اسے نائب بنانا جائز نہيں ہے اور معذور وہ شخص ہے جو مختار شخص كے فريضے كو انجام نہ دے سكتا ہو مثلاً تلبيہ يا نماز طواف كو صحيح طور پر انجام نہ دے سكتا ہو يا طواف اور سعى ميں خود چلنے كى قدرت نہ ركھتا ہو يا رمى جمرات پر قادر نہ ہو ، اس طرح كہ اس سے حج كے بعض اعمال ميں نقص پيدا ہوتا ہو ، پس اگر عذر اس نقص تك نہ پہنچائے جيسے صرف بعض تروك احرام كے ارتكاب ميں معذور ہو تو اسكى نيابت صحيح ہے _

مسئلہ ۵۸_ اگر نيابتى حج كے دوران ميں عذر كا طارى ہونا نائب كے اعمال ميں نقص كا سبب بنے تو اجارے كا باطل ہو جانا بعيد نہيں ہے اور اس صورت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اجرت اور منوب عنہ كى طرف سے دوبارہ حج بجالانے پر مصالحت كريں_

مسئلہ ۵۹_ جو لوگ مشعر الحرام ميں اختيارى وقوف سے معذور ہيں انہيں نائب بنانا صحيح نہيں ہے پس اگر انہيں اس طرح نائب بنايا جائے تو وہ

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126