حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر42%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50123 / ڈاؤنلوڈ: 3314
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

حدیث منزلت پر ایک نظر

تألیف: آ یت اللہ سید علی حسینی میلانی

مترجم: شیر علی نادم شگری

۳

ابتدائیہ

ادیان الٰہی میں سے آخری اور کامل ترین دین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے(ص) کی بعثت کے ذریعے دنیا والوں کے لئے پیش کیا گیا اور پیغام الٰہی لے کر آنے والوں کا سلسلہ آپ(ص)کی نبوت کے ساتھ ختم ہو گیا۔دین اسلام شہر مکہ میں پروان چڑھا اوررسالتمآب (ص)اور ان کے بعض با وفا دوستوں کی تیئس ( ۲۳) سالہ طاقت فرسا زحمتوں کے نتیجے میں پورے جزیرۂ عرب پر چھا گیا۔

رسول اللہ (ص) کے بعد اس راہ الٰہی کو جاری رکھنے کی ذمہ داری خداوند متعال کی طرف سے ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم میں عالم اسلام کے اولین جوانمرد یعنی امیر المومنین حضرت علی(ع) کو سونپی گئی۔

اس روز حضرت علی(ع) کی ولایت و جانشینی کے اعلان کے ساتھ نعمت الٰہی اور دین اسلام کی تکمیل اور پھر دین اسلام کے خدا کا واحد پسندیدہ دین ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس لئے کافر اور مشرکین دین اسلام کو نابود کر سکنے سے مایوس ہو گئے۔

زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) کے بعض اطرافی ،پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت، آپ(ص) کی رحلت کے بعد ہدایت ورہبری کی راہ کو تبدیل کر بیٹھے۔ شہر علم کے دروازے کو بند کرکے مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی حدیث لکھنے پر پابندی لگانے ، جھوٹی حدیثیں گھڑنے، شبہات ایجاد کرنے اور شیطانی طریقوں سے حقائق کو توڑ مروڑ کرنے کے ذریعے اسلام کے سورج جیسے تابناک حقائق کو شک وتردید کی کالی گھٹاوں کی اوٹ قرار دیا۔

ظاہر یہ ہے کہ تمام سازشوں کے باوجود امیرالمومنین(ع) ، ان کے اوصیاء(ع) اور بعض باوفا اصحاب و انصار (رضی اللہ عنھم) کے توسط سے اسلام کے حقائق اور پیغمبر اکرم(ص) کے گہر بار فرامین تاریخ میں ثبت ہو گئے ہیں اور زمانے کے مختلف موڑ پر جلوہ دکھاتے ہیں۔ ان حضرات نے حقائق بیان کرنے کے ضمن میں شکوک و شبہات اور شیطان و دشمنان اسلام کے اٹھائے جانے والے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اور حقیقت کو ہر کسی کے لئے آشکار کر چھوڑا ہے۔

۴

اس راہ میں شیخ مفید، سید مرتضیٰ ، شیخ طوسی، خوا جہ نصیر، علامہ حلی، قاضی نور اللہ، میر حامد حسین، سید شرف الدین اور علامہ امینی(رحمھم اللہ) جیسے روشن ستارے چمک اٹھے ہیں جنہوں نے حقائق اسلامی کے دفاع اور مکتب اہل بیت(ع) کی اصلیت بیان کرنے کی راہ میں تحقیق و جستجو اور شبہات کا جواب دینے کے لئے اپنی زبان اور قلم کو حرکت دی ہے۔

عصر حاضر میں حریم امامت وولایت امیر المومنین(ع) سے عالمانہ دفاع کرنے اور دین مبین کے تابناک حقائق کو رسا بیان وقلم کے ذریعے پیش کرنے والے دانشمندوں میں سے ایک عظیم محقق حضرت آیت اللہ سید علی حسینی میلانی ہیں۔ان کے رشحات قلم میں سے ایک نمونہ ہم آپ کی خدمت میں اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں امید ہے عاشقان اہل بیت(ع) کے لئے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ثابت ہوگی۔

نادم شگری

ربیع الاول ۱۴۳۸ ھ

قم المقدس

۵

مقدمہ

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علیٰ محمّد وآله الطّاهرین ولعنة اللّٰه علیٰ اعدآء هم اجمعین من الاوّلین والآخرین ۔

شیعہ اور اہل سنت کے منابع میں ذکر ہونے والی معروف احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث منزلت‘‘ہے۔ جس میں پیغمبر اکرم(ص) حضرت امیرالمومنین(ع) سے فرماتے ہیں:

"اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ " ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘

دوسری نقل کے تحت آپ(ص) نے فرمایا:

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون۔‘‘

ایک اور تعبیر میں یوں ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

’’علیّ منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ ۔علی(ع)کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘

دیگر بہت ساری احادیث کے مقابلے میں اس حدیث کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ اس حدیث کو دیگر محدثین کے علاوہ بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ اہل سنت کی اصطلاح میں یہ حدیث ایسی حدیث ہے کہ بخاری و مسلم دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ حدیث امیرالمومنین(ع) کی امامت پر کئی پہلووں سے دلالت کرتی ہے ؛ لہٰذا اس اعتبار سے اسی حدیث سے کئی جہات سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لئے ہمارے علماء نے شروع سے ہی اس حدیث پر خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ اسی طرح دوسروں نے بھی اسے اپنی اسناد سے نقل کرنے اور مختلف راستوں سے اس کا جواب دینے کا اہتمام کیا ہے۔

ہم اس تحریر میں’’سند‘‘اور ’’دلالت‘‘کے اعتبار سے اس حدیث شریف کی تحقیق کرکے محققین اور متلاشیان علم کے حوالے کریں گے۔

سید علی حسینی میلانی

۶

پہلا حصہ:

راویان ’’حدیث منزلت‘‘ پر ایک نظر

حدیث منزلت کے راوی

متن حدیث کی تحقیق سے پہلے ہم بعض اصحاب پیغمب(ص)کے نام بیان کریں گے جنہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح مختلف صدیوں سے تعلق رکھنے والے مشہور ترین محدثین ، مفسرین اور مورخین کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔

۱ ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام

راویان حدیث کی ابتدا میں خود امیرالمومنین(ع) کا اسم گرامی چمک رہا ہے۔ اسی طرح بعض اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، ان کے نام یہ ہیں:

۲ ۔ عبد اللہ ابن عباس

۳ ۔عبد اللہ ابن مسعود

۴ ۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری

۵ ۔ سعد ابن ابی وقاص

۶ ۔ عمر ابن خطاب

۷ ۔ ابو سعید خدری

۸ ۔ براء ابن عازب

۷

۹ ۔ جابر ابن سمرہ

۱۰ ۔ ابوہریرہ

۱۱ ۔مالک ابن حویرث

۱۲ ۔ زید ابن ارقم

۱۳ ۔ ابو رافع

۱۴ ۔ حذیفہ بن اسید

۱۵ ۔ انس بن مالک

۱۶ ۔ عبد اللہ ابن ابی اوفی

۱۷ ۔ ابو ایوب انصاری

۱۸ ۔ عقیل ابن ابی طالب

۱۹ ۔ حُبشی ابن جنادہ

۲۰ ۔ معاویہ ابن ابو سفیان

اس حدیث کے راویوں میں خواتین بھی ہیں کہ جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ ام المومنین ام سلمہ

۲ ۔ اسماء بنت عمیس

۸

حدیث منزلت کا تواتر

تیس ( ۳۰) سے زائد اصحاب نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، ممکن ہے اصحاب میں سے مردوں اور خواتین کو ملا کر راویوں کی تعداد چالیس ( ۴۰) تک پہنچ جائے۔

ابن عبد البر’’الاستیعاب‘‘میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:یہ حدیث، صحیح ترین اور معتبر ترین روایات میں سے ہے۔ وہ اسی تسلسل میں کہتے ہیں: سعد ابن ابی وقاص کی حدیث بہت ساری اسناد سے نقل ہوئی ہے۔

ابن عبد البر اس حدیث کو روایت کرنے والے بعض اصحاب کا نام لینے کے بعد کہتے ہیں: البتہ ایک اور گروہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے جس کے تمام افراد کا نام لینا طوالت کا باعث ہوگا۔(۱؎)

’’تہذیب الاکمال‘‘میں مزی نے بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور امیرالمومنین(ع) کے حالات زندگی میں اسی طرح اظہار نظر کیا ہے۔(۲؎)

حافظ ابن عساکر بھی’’ تاریخ مدینہ دمشق‘‘ میں بہت سارے مواقع پر امیرالمومنین(ع) کے حالات بیان کرتے وقت اس حدیث کی اسناد وطرق کو تقریباً بیس ( ۲۰) اصحاب سے ذکر کرتا ہے ۔(۳؎)

____________________

۱۔ الاستیعاب: ۳/ ۱۰۹۷

۲۔ تہذیب الکمال: ۲/۴۸۳

۳۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۳۰۶۔۳۹۳، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۹

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے والے بعض اصحاب کانام لینے کے بعد ان میں سے ایک گروہ کی روایت کا متن نقل کرتے ہوئے اور کہتا ہے:ابن عساکر نے علی(ع) کے حالات زندگی کے ضمن میں حدیث منزلت کے تمام طرق کو ذکر کیا ہے۔(۱؎)

اس بناء پر حدیث منزلت ، کہ جو شیعہ مفکرین کے ہاں متواتر ہے، اہل سنت کے ہاں بھی صحیح ، معروف اور مشہور احادیث میں سے ہے؛ بلکہ ان کے ہاں بھی متواتر احادیث میں شمار ہوتی ہے۔

حاکم نیشاپوری اسی ضمن میں کہتے ہیں:حدیث منزلت ، تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔(۲؎)

اسی طرح’’قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة‘‘ میں ، جس میں متواتر احادیث ہیں، حافظ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو بھی نقل کیا ہے ۔(۳؎)

شیخ علی متقی ہندی نے’’ قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کرنے میں سیوطی کی پیروی کی ہے۔ اس حدیث کے متواتر ہونے کا اعتراف کرنے والوں میں سے ایک دیار ہند کے محدث شاہ ولی اللّٰہ دہلوی ہے ۔ انہوں نے اس مطلب کو’’ازالة الخفاء فی سیرة الخلفاء ‘‘ میں لکھا ہے۔

____________________

۱۔ فتح الباری: ۷/۶۰

۲۔ کفایۃ الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع): ۲۸۳

۳۔ قطف الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترہ: حرف الف

۱۰

مختلف صدیوں میں اس حدیث کے راوی

یہاں ہم اہل سنت کے مشاہیر میں سے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کریں گے جو مختلف صدیوں میں اس حدیث کو روایت کرنے والے ہیں:

۱ ۔ محمد ابن اسحاق ۔صاحب کتاب السیرۃ ؛

۲ ۔ ابوداود سلیمان ابن داود طیالسی ۔صاحب المسند ؛

۳ ۔ محمد ابن سعد۔مصنف الطبقات الکبریٰ؛

۴ ۔ ابو بکر ابن ابی شیبہ۔صاحب کتاب المصنّف؛

۵ ۔ احمد ابن حنبل شیبانی ۔صاحب المسند ؛

۶ ۔ محمد ابن اسماعیل بخاری ۔ صحیح بخاری؛

۷ ۔ مسلم نیشاپوری۔ صحیح مسلم؛

۸ ۔ ابن ماجہ قزوینی۔ سنن ابن ماجہ؛

۹ ۔ ابو حاتم ابن حبّان۔صحیح؛

۱۰ ۔ محمد ابن عیسیٰ ترمذی۔سنن ترمذی؛

۱۱ ۔ عبد اللہ ابن احمد ابن حنبل ۔ یہ اہل سنت کے بڑے پیشوااحمد ابن حنبل کا بیٹا ہے۔ کبھی بعض علماء ، عبد اللہ کو اس کے باپ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس نے اس حدیث کو ’’زیادات مسند احمد‘‘اور’’زیادات مناقب احمد‘‘میں نقل کیا ہے۔

۱۱

۱۲ ۔ ابو بکر بزار۔صاحب المسند؛

۱۳ ۔ نسائی ۔ صاحب صحیح؛

۱۴ ۔ ابو یعلی موصلی ۔ صاحب المسند؛

۱۵ ۔ محمد ابن جریر طبری۔ صاحب تاریخ و تفسیر؛

۱۶ ۔ ابو عوانہ۔ صاحب صحیح؛

۱۷ ۔ ابو شیخ اصفہانی ۔ صاحب طبقات المحدثین؛

۱۸ ۔ ابو القاسم طبرانی۔ صاحب معجم (کبیر، اوسط، صغیر)؛

۱۹ ۔ ابو عبد اللہ حاکم نیشاپوری۔ صاحب المستدرک علی الصحیحین؛

۲۰ ۔ ابو بکر شیرازی۔صاحب الألقاب؛

۲۱ ۔ ابو بکر ابن مردویہ ۔ صاحب تفسیر؛

۲۲ ۔ ابو نعیم اصفہانی ۔ صاحب حلیۃ الأولیاء ؛

۲۳ ۔ ابو القاسم تنوخی ۔انہوں نے حدیث منزلت کی اسناد ذکر کرتے ہوئے الگ سے ایک کتاب لکھی ہے۔

۲۴ ۔ ابو بکر خطیب بغدادی ۔صاحب تاریخ بغداد؛

۲۵ ۔ ابن عبد البر ۔ صاحب الاستیعاب؛

۲۶ ۔بغوی ۔یہ اہل سنت کے ہاں’’محی السنۃ ‘‘(سنت کو زندہ کرنے والا) کے نام سے معروف ہے۔’’مصابیح السنہ ‘‘نامی کتاب ان کی لکھی ہوئی ہے ۔

۱۲

۲۷ ۔ رزین عبدی۔ صاحب کتاب الجمع بین الصحاح؛

۲۸ ۔ ابن عساکر۔ صاحب تاریخ مدینہ دمشق؛

۲۹ ۔ فخر رازی ۔ صاحب تفسیر کبیر؛

۳۰ ۔ مجد الدین ابن اثیر جزری ۔ صاحب جامع الاصول؛

۳۱ ۔ عز الدین ابن اثیر ۔ صاحب اسد الغابہ؛

۳۲ ۔ ابن نجار بغدادی ۔ صاحب تاریخ بغداد؛

۳۳ ۔ نووی ۔ صاحب شرح صحیح مسلم ؛

۳۴ ۔ ابوالعباس محب الدین طبری ۔ صاحب الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ المبشرۃ

۳۵ ۔ ابن سید الناس ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۶ ۔ ابن قیم جوزیہ ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۷ ۔ یافعی ۔ صاحب مرآۃ الجنان؛

۳۸ ۔ ابن کثیر دمشقی ۔ صاحب تفسیر و تاریخ؛

۳۹ ۔ خطیب تبریزی ۔ صاحب مشکاۃ المصابیح؛

۴۰ ۔ جمال الدین مزی۔ صاحب تہذیب الکمال؛

۴۱ ۔ ابن شحنہ ۔ معروف تاریخ کے مصنف؛

۴۲ ۔ زین الدین عراقی ۔ معروف محدث ، مختلف کتابوں کے مصنف ہیں ؛ جن میں سے ایک کتاب ’’الالفیہ فی علوم الحدیث ‘‘ہے؛

۱۳

۴۳ ۔ ابن حجر عسقلانی؛

۴۴ ۔ جلال الدین سیوطی؛

۴۵ ۔ دیار بکری ۔ تاریخ خمیس؛

۴۶ ۔ ابن حجر مکی ۔ الصواعق المحرقہ؛

۴۷ ۔ متقی ہندی ۔ کنز العمال؛

۴۸ ۔ منّاوی ۔ فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر؛

۴۹ ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ۔ ازالۃ الخفاء ، الحجۃ البالغہ؛

۵۰ ۔ احمد زینی دحلان ۔ السیرۃ الدحلانیۃ۔

ان کے علاوہ مختلف صدیوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے محدثین، مورخین اور مفسرین نے اس حدیث شریف کو اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

۱۴

دوسرا حصہ :

حدیث منزلت کے متن پر ایک نظر

حدیث منزلت کا متن اور اس کی تصحیح

۱۵

بخاری کی روایت

صحیح بخاری میں یہ روایت دو جگہ نقل ہوئی ہے۔

محمد بن بشار، غندر سے ، وہ شعبہ سے اور شعبہ ، سعد سے نقل کرتا ہے، وہ کہتا ہے:کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے ،اس نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے سنا ، کہتا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

"اما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ" ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۵/۲۴

۱۶

بخاری دوسری جگہ اس حدیث کو اس طرح نقل کرتا ہے:

مسدد، یحییٰ سے ، وہ شعبہ سے ، شعبہ ، حکم سے ، وہ مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے اور سعد اپنے باپ سے نقل کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’جب پیغمبر جنگ تبوک کے لئے مدینے سے باہر جا رہے تھے تو آپ(ص) نے علی(ع) کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑ دیا ۔علی(ع) نے عرض کیا:کیا آپ (ص)عورتوں اور بچوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دیں گے؟

پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"الا ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موس یٰ الا انّ ه ل یس بعدی نبیّ "

کیا تم خوش نہیں ہو کہ میرے لئے، موسیٰ کے لئے ہارون کی طرح ہو جاو سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۶/۳

۱۷

مسلم کی روایت

مسلم بن حجاج قشیری اس حدیث کو متعدد اسناد سے روایت کرتا ہے ۔ بطور نمونہ ایک مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ان روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جو اس نے اپنی سند کے ساتھ سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے ، سعید نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی " ۔

تم میرے لئے اس طرح ہو جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھا سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔‘‘

سعید کہتا ہے:میں چاہتا تھا کہ اس حدیث کو بالمشافہ سعد سے ہی سنوں ، اسی لئے میں نے اس سے ملاقات کی اور عامر کی نقل کردہ حدیث سعد کے ہاں بیان کردی۔

اس نے کہا :میں نے یہ حدیث پیغمبر(ص) سے سنی ہے ۔

میں نے کہا :کیا واقعی!تم نے خود سنی ہے ؟

اس نے میرے جواب میں اپنی انگلیوں کو کانوں پر رکھا اور کہا :جی ہاں!اگر جھوٹ کہوں تو میرے کان بہرے ہو جائیں ۔(۱؎)

____________________

۱۔صحیح مسلم: ۴/۱۸۷۰، حدیث ۲۴۰۴

۱۸

قابل ذکر ہے کہ اس متن میں چند ایک نکات ہیں ان پر توجہ کرنی چاہئے۔

مسلم اپنی صحیح میں کسی دوسری جگہ یوں نقل کرتا ہے :

بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد سے کہا: ابوتراب کو برا بھلا کہنے سے کون سی چیز تمہارے لئے مانع ہے ؟

سعد نے کہا :اس (علی(ع))کے بارے میں پیغمبر کی بیان کی گئی تین خصوصیات جب بھی مجھے یاد آتی ہیں میں ہرگز اس کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا۔پھر سعد نے وہ تین خصوصیات بیان کیں کہ جن میں سے ایک حدیث منزلت تھی۔(۱؎)

____________________

۱۔ صحیح مسلم: ۴/ ۱۸۷۱

۱۹

اہل سنت کی نگاہ میں دوصحیح کتابیں

جو کچھ گزر چکا ہے وہ ایسی حدیثیں تھیں جو اہل سنت کی دو صحیح کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ اہل سنت کے درمیان مشہور و معروف یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کی حدیثیں قطعی طور پر صحیح اور درست ہیں ، اکثر اہل سنت اس بات کے معتقد ہیں کہ ان دونوں کتابوں کی ساری کی ساری احادیث ’’قطعی الصدور‘‘ہیں اور ان روایات کی سند میں جھگڑنے اور شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

زیادہ سے زیادہ اطمینان کے لئے آپ علوم حدیث میں لکھی گئی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ بطور نمونہ :جلال الدین سیوطی کی تالیف ’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘، اسی طرح ’’الفیۃ الحدیث‘‘پر لکھی گئی شرحیں ،مثلا:شرح ابن کثیر ، شرح زین الدین عراقی وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ابو الصلاح کی کتاب علوم الحدیث میں بھی یہ مطلب دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک طرف سے اہل سنت کی معتبر اور مورد اعتماد کتاب ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘میں شاہ ولی اللہ دہلوی ، دو صحیح کتابوں پر تاکید کرتے ہیں؛ وہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری پر تمام علماء کے اجماع اور اتفاق کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:تمام علماء متفق النظر ہیں ،ہر وہ شخص کہ جو ان دونوں کتابوں سے بے اعتنائی کرے اور انہیں بے اہمیت سمجھے وہ بدعت گزار اور مؤمنین کے راستے پر نہ چلنے والا ہے۔

اس بنا پر اور شاہ ولی اللہ کی بات پر ، کہ جس میں اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے، توجہ دینے سے ، حدیث منزلت کی سند پر اعتراض کرنے والا دین میں بدعت ایجاد کرنے والا ہو جائے گا جو مؤمنین کے راستے سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چل رہا ہے۔

دوسری طرف سے اگر رجال کی کتب دیکھ لی جائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ مسلم اور بخاری نے جس راوی سے کوئی ایک حدیث نقل کی ہے تو تمام راوی شناسوں نے اسی راوی پر اعتماد کرکے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے ؛ اس طرح کہ ان میں سے بعض کا کہنا ہے : جس کسی نے ان دونوں سے روایت نقل کی وہ پل سے گزر گیا۔

۲۰

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126