حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 40917
ڈاؤنلوڈ: 2134

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40917 / ڈاؤنلوڈ: 2134
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

حدیث منزلت پر ایک نظر

تألیف: آ یت اللہ سید علی حسینی میلانی

مترجم: شیر علی نادم شگری

۳

ابتدائیہ

ادیان الٰہی میں سے آخری اور کامل ترین دین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے(ص) کی بعثت کے ذریعے دنیا والوں کے لئے پیش کیا گیا اور پیغام الٰہی لے کر آنے والوں کا سلسلہ آپ(ص)کی نبوت کے ساتھ ختم ہو گیا۔دین اسلام شہر مکہ میں پروان چڑھا اوررسالتمآب (ص)اور ان کے بعض با وفا دوستوں کی تیئس ( ۲۳) سالہ طاقت فرسا زحمتوں کے نتیجے میں پورے جزیرۂ عرب پر چھا گیا۔

رسول اللہ (ص) کے بعد اس راہ الٰہی کو جاری رکھنے کی ذمہ داری خداوند متعال کی طرف سے ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم میں عالم اسلام کے اولین جوانمرد یعنی امیر المومنین حضرت علی(ع) کو سونپی گئی۔

اس روز حضرت علی(ع) کی ولایت و جانشینی کے اعلان کے ساتھ نعمت الٰہی اور دین اسلام کی تکمیل اور پھر دین اسلام کے خدا کا واحد پسندیدہ دین ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس لئے کافر اور مشرکین دین اسلام کو نابود کر سکنے سے مایوس ہو گئے۔

زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) کے بعض اطرافی ،پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت، آپ(ص) کی رحلت کے بعد ہدایت ورہبری کی راہ کو تبدیل کر بیٹھے۔ شہر علم کے دروازے کو بند کرکے مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی حدیث لکھنے پر پابندی لگانے ، جھوٹی حدیثیں گھڑنے، شبہات ایجاد کرنے اور شیطانی طریقوں سے حقائق کو توڑ مروڑ کرنے کے ذریعے اسلام کے سورج جیسے تابناک حقائق کو شک وتردید کی کالی گھٹاوں کی اوٹ قرار دیا۔

ظاہر یہ ہے کہ تمام سازشوں کے باوجود امیرالمومنین(ع) ، ان کے اوصیاء(ع) اور بعض باوفا اصحاب و انصار (رضی اللہ عنھم) کے توسط سے اسلام کے حقائق اور پیغمبر اکرم(ص) کے گہر بار فرامین تاریخ میں ثبت ہو گئے ہیں اور زمانے کے مختلف موڑ پر جلوہ دکھاتے ہیں۔ ان حضرات نے حقائق بیان کرنے کے ضمن میں شکوک و شبہات اور شیطان و دشمنان اسلام کے اٹھائے جانے والے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اور حقیقت کو ہر کسی کے لئے آشکار کر چھوڑا ہے۔

۴

اس راہ میں شیخ مفید، سید مرتضیٰ ، شیخ طوسی، خوا جہ نصیر، علامہ حلی، قاضی نور اللہ، میر حامد حسین، سید شرف الدین اور علامہ امینی(رحمھم اللہ) جیسے روشن ستارے چمک اٹھے ہیں جنہوں نے حقائق اسلامی کے دفاع اور مکتب اہل بیت(ع) کی اصلیت بیان کرنے کی راہ میں تحقیق و جستجو اور شبہات کا جواب دینے کے لئے اپنی زبان اور قلم کو حرکت دی ہے۔

عصر حاضر میں حریم امامت وولایت امیر المومنین(ع) سے عالمانہ دفاع کرنے اور دین مبین کے تابناک حقائق کو رسا بیان وقلم کے ذریعے پیش کرنے والے دانشمندوں میں سے ایک عظیم محقق حضرت آیت اللہ سید علی حسینی میلانی ہیں۔ان کے رشحات قلم میں سے ایک نمونہ ہم آپ کی خدمت میں اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں امید ہے عاشقان اہل بیت(ع) کے لئے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ثابت ہوگی۔

نادم شگری

ربیع الاول ۱۴۳۸ ھ

قم المقدس

۵

مقدمہ

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علیٰ محمّد وآله الطّاهرین ولعنة اللّٰه علیٰ اعدآء هم اجمعین من الاوّلین والآخرین ۔

شیعہ اور اہل سنت کے منابع میں ذکر ہونے والی معروف احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث منزلت‘‘ہے۔ جس میں پیغمبر اکرم(ص) حضرت امیرالمومنین(ع) سے فرماتے ہیں:

"اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ " ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘

دوسری نقل کے تحت آپ(ص) نے فرمایا:

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون۔‘‘

ایک اور تعبیر میں یوں ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

’’علیّ منّی بمنزلة هارون من موسیٰ ‘‘ ۔علی(ع)کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘

دیگر بہت ساری احادیث کے مقابلے میں اس حدیث کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ اس حدیث کو دیگر محدثین کے علاوہ بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ اہل سنت کی اصطلاح میں یہ حدیث ایسی حدیث ہے کہ بخاری و مسلم دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ حدیث امیرالمومنین(ع) کی امامت پر کئی پہلووں سے دلالت کرتی ہے ؛ لہٰذا اس اعتبار سے اسی حدیث سے کئی جہات سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لئے ہمارے علماء نے شروع سے ہی اس حدیث پر خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ اسی طرح دوسروں نے بھی اسے اپنی اسناد سے نقل کرنے اور مختلف راستوں سے اس کا جواب دینے کا اہتمام کیا ہے۔

ہم اس تحریر میں’’سند‘‘اور ’’دلالت‘‘کے اعتبار سے اس حدیث شریف کی تحقیق کرکے محققین اور متلاشیان علم کے حوالے کریں گے۔

سید علی حسینی میلانی

۶

پہلا حصہ:

راویان ’’حدیث منزلت‘‘ پر ایک نظر

حدیث منزلت کے راوی

متن حدیث کی تحقیق سے پہلے ہم بعض اصحاب پیغمب(ص)کے نام بیان کریں گے جنہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح مختلف صدیوں سے تعلق رکھنے والے مشہور ترین محدثین ، مفسرین اور مورخین کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔

۱ ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام

راویان حدیث کی ابتدا میں خود امیرالمومنین(ع) کا اسم گرامی چمک رہا ہے۔ اسی طرح بعض اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، ان کے نام یہ ہیں:

۲ ۔ عبد اللہ ابن عباس

۳ ۔عبد اللہ ابن مسعود

۴ ۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری

۵ ۔ سعد ابن ابی وقاص

۶ ۔ عمر ابن خطاب

۷ ۔ ابو سعید خدری

۸ ۔ براء ابن عازب

۷

۹ ۔ جابر ابن سمرہ

۱۰ ۔ ابوہریرہ

۱۱ ۔مالک ابن حویرث

۱۲ ۔ زید ابن ارقم

۱۳ ۔ ابو رافع

۱۴ ۔ حذیفہ بن اسید

۱۵ ۔ انس بن مالک

۱۶ ۔ عبد اللہ ابن ابی اوفی

۱۷ ۔ ابو ایوب انصاری

۱۸ ۔ عقیل ابن ابی طالب

۱۹ ۔ حُبشی ابن جنادہ

۲۰ ۔ معاویہ ابن ابو سفیان

اس حدیث کے راویوں میں خواتین بھی ہیں کہ جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ ام المومنین ام سلمہ

۲ ۔ اسماء بنت عمیس

۸

حدیث منزلت کا تواتر

تیس ( ۳۰) سے زائد اصحاب نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، ممکن ہے اصحاب میں سے مردوں اور خواتین کو ملا کر راویوں کی تعداد چالیس ( ۴۰) تک پہنچ جائے۔

ابن عبد البر’’الاستیعاب‘‘میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:یہ حدیث، صحیح ترین اور معتبر ترین روایات میں سے ہے۔ وہ اسی تسلسل میں کہتے ہیں: سعد ابن ابی وقاص کی حدیث بہت ساری اسناد سے نقل ہوئی ہے۔

ابن عبد البر اس حدیث کو روایت کرنے والے بعض اصحاب کا نام لینے کے بعد کہتے ہیں: البتہ ایک اور گروہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے جس کے تمام افراد کا نام لینا طوالت کا باعث ہوگا۔(۱؎)

’’تہذیب الاکمال‘‘میں مزی نے بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور امیرالمومنین(ع) کے حالات زندگی میں اسی طرح اظہار نظر کیا ہے۔(۲؎)

حافظ ابن عساکر بھی’’ تاریخ مدینہ دمشق‘‘ میں بہت سارے مواقع پر امیرالمومنین(ع) کے حالات بیان کرتے وقت اس حدیث کی اسناد وطرق کو تقریباً بیس ( ۲۰) اصحاب سے ذکر کرتا ہے ۔(۳؎)

____________________

۱۔ الاستیعاب: ۳/ ۱۰۹۷

۲۔ تہذیب الکمال: ۲/۴۸۳

۳۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۳۰۶۔۳۹۳، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۹

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے والے بعض اصحاب کانام لینے کے بعد ان میں سے ایک گروہ کی روایت کا متن نقل کرتے ہوئے اور کہتا ہے:ابن عساکر نے علی(ع) کے حالات زندگی کے ضمن میں حدیث منزلت کے تمام طرق کو ذکر کیا ہے۔(۱؎)

اس بناء پر حدیث منزلت ، کہ جو شیعہ مفکرین کے ہاں متواتر ہے، اہل سنت کے ہاں بھی صحیح ، معروف اور مشہور احادیث میں سے ہے؛ بلکہ ان کے ہاں بھی متواتر احادیث میں شمار ہوتی ہے۔

حاکم نیشاپوری اسی ضمن میں کہتے ہیں:حدیث منزلت ، تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔(۲؎)

اسی طرح’’قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة‘‘ میں ، جس میں متواتر احادیث ہیں، حافظ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو بھی نقل کیا ہے ۔(۳؎)

شیخ علی متقی ہندی نے’’ قطف الازهارالمتناثرة فی الأ خبار المتواترة ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کرنے میں سیوطی کی پیروی کی ہے۔ اس حدیث کے متواتر ہونے کا اعتراف کرنے والوں میں سے ایک دیار ہند کے محدث شاہ ولی اللّٰہ دہلوی ہے ۔ انہوں نے اس مطلب کو’’ازالة الخفاء فی سیرة الخلفاء ‘‘ میں لکھا ہے۔

____________________

۱۔ فتح الباری: ۷/۶۰

۲۔ کفایۃ الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع): ۲۸۳

۳۔ قطف الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترہ: حرف الف

۱۰

مختلف صدیوں میں اس حدیث کے راوی

یہاں ہم اہل سنت کے مشاہیر میں سے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کریں گے جو مختلف صدیوں میں اس حدیث کو روایت کرنے والے ہیں:

۱ ۔ محمد ابن اسحاق ۔صاحب کتاب السیرۃ ؛

۲ ۔ ابوداود سلیمان ابن داود طیالسی ۔صاحب المسند ؛

۳ ۔ محمد ابن سعد۔مصنف الطبقات الکبریٰ؛

۴ ۔ ابو بکر ابن ابی شیبہ۔صاحب کتاب المصنّف؛

۵ ۔ احمد ابن حنبل شیبانی ۔صاحب المسند ؛

۶ ۔ محمد ابن اسماعیل بخاری ۔ صحیح بخاری؛

۷ ۔ مسلم نیشاپوری۔ صحیح مسلم؛

۸ ۔ ابن ماجہ قزوینی۔ سنن ابن ماجہ؛

۹ ۔ ابو حاتم ابن حبّان۔صحیح؛

۱۰ ۔ محمد ابن عیسیٰ ترمذی۔سنن ترمذی؛

۱۱ ۔ عبد اللہ ابن احمد ابن حنبل ۔ یہ اہل سنت کے بڑے پیشوااحمد ابن حنبل کا بیٹا ہے۔ کبھی بعض علماء ، عبد اللہ کو اس کے باپ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس نے اس حدیث کو ’’زیادات مسند احمد‘‘اور’’زیادات مناقب احمد‘‘میں نقل کیا ہے۔

۱۱

۱۲ ۔ ابو بکر بزار۔صاحب المسند؛

۱۳ ۔ نسائی ۔ صاحب صحیح؛

۱۴ ۔ ابو یعلی موصلی ۔ صاحب المسند؛

۱۵ ۔ محمد ابن جریر طبری۔ صاحب تاریخ و تفسیر؛

۱۶ ۔ ابو عوانہ۔ صاحب صحیح؛

۱۷ ۔ ابو شیخ اصفہانی ۔ صاحب طبقات المحدثین؛

۱۸ ۔ ابو القاسم طبرانی۔ صاحب معجم (کبیر، اوسط، صغیر)؛

۱۹ ۔ ابو عبد اللہ حاکم نیشاپوری۔ صاحب المستدرک علی الصحیحین؛

۲۰ ۔ ابو بکر شیرازی۔صاحب الألقاب؛

۲۱ ۔ ابو بکر ابن مردویہ ۔ صاحب تفسیر؛

۲۲ ۔ ابو نعیم اصفہانی ۔ صاحب حلیۃ الأولیاء ؛

۲۳ ۔ ابو القاسم تنوخی ۔انہوں نے حدیث منزلت کی اسناد ذکر کرتے ہوئے الگ سے ایک کتاب لکھی ہے۔

۲۴ ۔ ابو بکر خطیب بغدادی ۔صاحب تاریخ بغداد؛

۲۵ ۔ ابن عبد البر ۔ صاحب الاستیعاب؛

۲۶ ۔بغوی ۔یہ اہل سنت کے ہاں’’محی السنۃ ‘‘(سنت کو زندہ کرنے والا) کے نام سے معروف ہے۔’’مصابیح السنہ ‘‘نامی کتاب ان کی لکھی ہوئی ہے ۔

۱۲

۲۷ ۔ رزین عبدی۔ صاحب کتاب الجمع بین الصحاح؛

۲۸ ۔ ابن عساکر۔ صاحب تاریخ مدینہ دمشق؛

۲۹ ۔ فخر رازی ۔ صاحب تفسیر کبیر؛

۳۰ ۔ مجد الدین ابن اثیر جزری ۔ صاحب جامع الاصول؛

۳۱ ۔ عز الدین ابن اثیر ۔ صاحب اسد الغابہ؛

۳۲ ۔ ابن نجار بغدادی ۔ صاحب تاریخ بغداد؛

۳۳ ۔ نووی ۔ صاحب شرح صحیح مسلم ؛

۳۴ ۔ ابوالعباس محب الدین طبری ۔ صاحب الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ المبشرۃ

۳۵ ۔ ابن سید الناس ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۶ ۔ ابن قیم جوزیہ ۔ صاحب السیرۃ ؛

۳۷ ۔ یافعی ۔ صاحب مرآۃ الجنان؛

۳۸ ۔ ابن کثیر دمشقی ۔ صاحب تفسیر و تاریخ؛

۳۹ ۔ خطیب تبریزی ۔ صاحب مشکاۃ المصابیح؛

۴۰ ۔ جمال الدین مزی۔ صاحب تہذیب الکمال؛

۴۱ ۔ ابن شحنہ ۔ معروف تاریخ کے مصنف؛

۴۲ ۔ زین الدین عراقی ۔ معروف محدث ، مختلف کتابوں کے مصنف ہیں ؛ جن میں سے ایک کتاب ’’الالفیہ فی علوم الحدیث ‘‘ہے؛

۱۳

۴۳ ۔ ابن حجر عسقلانی؛

۴۴ ۔ جلال الدین سیوطی؛

۴۵ ۔ دیار بکری ۔ تاریخ خمیس؛

۴۶ ۔ ابن حجر مکی ۔ الصواعق المحرقہ؛

۴۷ ۔ متقی ہندی ۔ کنز العمال؛

۴۸ ۔ منّاوی ۔ فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر؛

۴۹ ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ۔ ازالۃ الخفاء ، الحجۃ البالغہ؛

۵۰ ۔ احمد زینی دحلان ۔ السیرۃ الدحلانیۃ۔

ان کے علاوہ مختلف صدیوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے محدثین، مورخین اور مفسرین نے اس حدیث شریف کو اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

۱۴

دوسرا حصہ :

حدیث منزلت کے متن پر ایک نظر

حدیث منزلت کا متن اور اس کی تصحیح

۱۵

بخاری کی روایت

صحیح بخاری میں یہ روایت دو جگہ نقل ہوئی ہے۔

محمد بن بشار، غندر سے ، وہ شعبہ سے اور شعبہ ، سعد سے نقل کرتا ہے، وہ کہتا ہے:کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے ،اس نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے سنا ، کہتا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

"اما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ" ۔کیا پسند نہیں کہ تم میرے لئے ایسے ہو جاو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۵/۲۴

۱۶

بخاری دوسری جگہ اس حدیث کو اس طرح نقل کرتا ہے:

مسدد، یحییٰ سے ، وہ شعبہ سے ، شعبہ ، حکم سے ، وہ مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے اور سعد اپنے باپ سے نقل کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’جب پیغمبر جنگ تبوک کے لئے مدینے سے باہر جا رہے تھے تو آپ(ص) نے علی(ع) کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑ دیا ۔علی(ع) نے عرض کیا:کیا آپ (ص)عورتوں اور بچوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال دیں گے؟

پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"الا ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موس یٰ الا انّ ه ل یس بعدی نبیّ "

کیا تم خوش نہیں ہو کہ میرے لئے، موسیٰ کے لئے ہارون کی طرح ہو جاو سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ؟‘‘(۱؎)

____________________

۱۔صحیح بخاری: ۶/۳

۱۷

مسلم کی روایت

مسلم بن حجاج قشیری اس حدیث کو متعدد اسناد سے روایت کرتا ہے ۔ بطور نمونہ ایک مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ان روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جو اس نے اپنی سند کے ساتھ سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے ، سعید نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی " ۔

تم میرے لئے اس طرح ہو جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھا سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔‘‘

سعید کہتا ہے:میں چاہتا تھا کہ اس حدیث کو بالمشافہ سعد سے ہی سنوں ، اسی لئے میں نے اس سے ملاقات کی اور عامر کی نقل کردہ حدیث سعد کے ہاں بیان کردی۔

اس نے کہا :میں نے یہ حدیث پیغمبر(ص) سے سنی ہے ۔

میں نے کہا :کیا واقعی!تم نے خود سنی ہے ؟

اس نے میرے جواب میں اپنی انگلیوں کو کانوں پر رکھا اور کہا :جی ہاں!اگر جھوٹ کہوں تو میرے کان بہرے ہو جائیں ۔(۱؎)

____________________

۱۔صحیح مسلم: ۴/۱۸۷۰، حدیث ۲۴۰۴

۱۸

قابل ذکر ہے کہ اس متن میں چند ایک نکات ہیں ان پر توجہ کرنی چاہئے۔

مسلم اپنی صحیح میں کسی دوسری جگہ یوں نقل کرتا ہے :

بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد سے کہا: ابوتراب کو برا بھلا کہنے سے کون سی چیز تمہارے لئے مانع ہے ؟

سعد نے کہا :اس (علی(ع))کے بارے میں پیغمبر کی بیان کی گئی تین خصوصیات جب بھی مجھے یاد آتی ہیں میں ہرگز اس کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا۔پھر سعد نے وہ تین خصوصیات بیان کیں کہ جن میں سے ایک حدیث منزلت تھی۔(۱؎)

____________________

۱۔ صحیح مسلم: ۴/ ۱۸۷۱

۱۹

اہل سنت کی نگاہ میں دوصحیح کتابیں

جو کچھ گزر چکا ہے وہ ایسی حدیثیں تھیں جو اہل سنت کی دو صحیح کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ اہل سنت کے درمیان مشہور و معروف یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کی حدیثیں قطعی طور پر صحیح اور درست ہیں ، اکثر اہل سنت اس بات کے معتقد ہیں کہ ان دونوں کتابوں کی ساری کی ساری احادیث ’’قطعی الصدور‘‘ہیں اور ان روایات کی سند میں جھگڑنے اور شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

زیادہ سے زیادہ اطمینان کے لئے آپ علوم حدیث میں لکھی گئی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ بطور نمونہ :جلال الدین سیوطی کی تالیف ’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘، اسی طرح ’’الفیۃ الحدیث‘‘پر لکھی گئی شرحیں ،مثلا:شرح ابن کثیر ، شرح زین الدین عراقی وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ابو الصلاح کی کتاب علوم الحدیث میں بھی یہ مطلب دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک طرف سے اہل سنت کی معتبر اور مورد اعتماد کتاب ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘میں شاہ ولی اللہ دہلوی ، دو صحیح کتابوں پر تاکید کرتے ہیں؛ وہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری پر تمام علماء کے اجماع اور اتفاق کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:تمام علماء متفق النظر ہیں ،ہر وہ شخص کہ جو ان دونوں کتابوں سے بے اعتنائی کرے اور انہیں بے اہمیت سمجھے وہ بدعت گزار اور مؤمنین کے راستے پر نہ چلنے والا ہے۔

اس بنا پر اور شاہ ولی اللہ کی بات پر ، کہ جس میں اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے، توجہ دینے سے ، حدیث منزلت کی سند پر اعتراض کرنے والا دین میں بدعت ایجاد کرنے والا ہو جائے گا جو مؤمنین کے راستے سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چل رہا ہے۔

دوسری طرف سے اگر رجال کی کتب دیکھ لی جائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ مسلم اور بخاری نے جس راوی سے کوئی ایک حدیث نقل کی ہے تو تمام راوی شناسوں نے اسی راوی پر اعتماد کرکے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے ؛ اس طرح کہ ان میں سے بعض کا کہنا ہے : جس کسی نے ان دونوں سے روایت نقل کی وہ پل سے گزر گیا۔

۲۰