حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 41652
ڈاؤنلوڈ: 2217

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41652 / ڈاؤنلوڈ: 2217
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ حدیث بھی تاریخ مدینۃ دمشق میں نقل ہوئی ہے۔(۱؎)

۸ ۔ ام سلمہ کی حدیث

آٹھواں موقع ، جہاں ’’ حدیث منزلت‘‘ بیان ہوئی ہے وہ ام سلمہ کی ایک حدیث ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زوجہ جناب ام سلمہ سے فرمایا:

’’یا امّ سلمة! انّ علیّاً لحمه من لحمي و دمه من دمي وهو منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ انّه لا نبيّ بعدی ۔ اے ام سلمہ! علی(ع) کا گوشت ،میرے گوشت سے اور اس کا خون، میرے خون سے ہے۔ وہ میرے لئے وہی منزلت رکھتا ہے جو موسیٰ کے لئے ہارون رکھتا تھا سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ‘‘

یہ حدیث بھی تاریخ مدینۃ دمشق میں ہے ۔(۱؎)

ان کے علاوہ بہت سے دوسرے مواقع ہیں جہاں رسول اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) کی شان میں ’’ حدیث منزلت‘‘ بیان فرمائی ہے؛ البتہ ہم نے ان تمام موارد کی تحقیق کی ہے ؛ لیکن اختصار کی غرض سے انہی مذکورہ موارد پر اکتفا کرتے ہوئے باقی تمام موارد کو ذکر کرنے سے اجتناب کریں گے۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۲۹۰ ، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۳۲۹

۲۔ایضا: ۱/۳۶۵ ، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۴۰۶

۱۰۱

خلافت پر حدیث منزلت کی دلالت کا خلاصہ

حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت پر حدیث منزلت کی تصریح کو مندرجہ ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

پہلا نکتہ:

پیغمبر اکرم (ص) کے بعض بزرگ اصحاب اس عظیم مقام کی تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے۔

دوسرا نکتہ:

پیغمبر اکرم (ص) نے مختلف مواقع پر اس حدیث کو تکرار کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

تیسرا نکتہ:

اس حدیث کے متن اور مختلف نقل کے اندر کچھ قرائن موجود ہیں۔

متن حدیث کے بعض قرائن

اس واقعے کے بارے میں بہت سے شواہد اور قرائن موجود ہیں۔ ہم ان میں سے بعض کو بیان کریں گے:

پہلا شاہد:

حضور اکرم (ص) نے اس حدیث میں یوں فرمایا:

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘

۱۰۲

اس جملے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ کسی بھی کام میں علی(ع) کے سوا کوئی بھی شخص ، پیغمبر اکرم (ص) کی جگہ نہیں بیٹھ سکتا، آنحضرت (ص) کے امور کو انجام دینے کے لئے آپ (ص) جیسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آپ (ص) کی ذمہ داریوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے آپ (ص) کا نائب بن سکتا ہے۔

اس حقیقت کے دوسرے نمونے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے امیر المؤمنین(ع) کے ذریعے اہل مکہ تک سورہ برائت پہنچانے کے واقعے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا شاہد:

پیغمبر اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا:

’’خلّفتک أن تکون خلیفتی ۔میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

یہ عبارت بھی اسی مطلب پر ایک شاہد ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

تیسرا شاہد:

حضور اکرم (ص) نے فرمایا:

’’أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔۔۔ ۔تم میرے لئے اسی منزلت پر ہو جس پر موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔۔۔۔‘‘

یہاں تک کہ فرمایا:

’’فانّ المدینة لا تصلح الاَّ بي أو بک ۔ بتحق یق مدینے کے امور ، میرے یا تمہارے بغیر منظم نہیں ہوں گے۔‘‘

۱۰۳

المستدرک میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے ؛ لیکن بخاری اور مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔

چوتھا شاہد:

پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’لک من الأجر مثل مالي و مالک من المغتنم مثلما لي ۔ جو کچھ مجھے اجر و ثواب ملتا ہے تمہ یں بھی دیا جائے گا اور جو غنیمت میرے حصے میں آتی ہے ، تمہارے لئے بھی اسی طرح ہی ہوگی۔‘‘

اس حدیث کو’’الریاض النضرة في مناقب العشرة المبشرة‘‘ کے مصنف نے نقل کیا ہے۔(۱؎)

پانچواں شاہد:

’’حدیث منزلت‘‘ کی ایک نقل کے مطابق ، حضور اکرم (ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

’’ انّه لا ینبغی أن أذهب الاَّ و أنت خلیفتی ۔ کسی صورت میں میرا جانا صحیح نہیں ہے؛ مگر یہ کہ تم میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

یہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے اور بہت سارے مصادر میں مذکور ہے جن میں سے مسند احمد(۲؎) ، مسند ابی یعلی، المستدرک(۳؎) ، تاریخ مدینۃ دمشق(۴؎) ، تاریخ ابن کثیر(۵؎) ، الاصابۃ(۶؎) اور دوسرے مصادر کا نام لیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔الریاض النضرۃ :۳/۱۱۹ ۲۔ مسند احمد: ۱/ ۵۴۵، حدیث ۳۰۵۲

۳۔ المستدرک: ۳/ ۱۳۳۔ ۱۳۴

۴۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۲۰۹، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۲۵۱

۵۔البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۳۸

۶۔ الاصابۃ: ۴/ ۲۷۰

۱۰۴

چھٹا شاہد :

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

’’أنت خلیفتی في کلّ مؤمن بعدي أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ و أنت خلیفتی في کلّ مؤمن بعدي ۔تم م یرے بعد تمام مؤمنین کے درمیان میرے جانشین ہو۔ تم میرے لئے وہی منزلت رکھتے ہو جو موسیٰ کے لئے ہارون رکھتے تھے اور تم میرے بعد تمام مؤمنین کے درمیان میرے جانشین ہو۔‘‘

یہ حدیث بھی صحیح سند کے ساتھ خصائص نسائی میں موجود ہے۔(۳؎)

____________________

۳۔ خصائص نسائی: ۴۹۔ ۵۰

۱۰۵

خارج از متن قرائن

حدیث کے متن سے خارج بہت سارے ایسے قرائن موجود ہیں جو ہمارے مقصود معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ ہم نے سند اور دلالت کے لحاظ سے ’’ حدیث منزلت‘‘ کی تحقیق اور جستجو کی جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کی خلافت اور جانشینی پر دلالت کرتی ہے۔

اگر کوئی حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت کو چوتھے مرتبے پر قرار دینے کی کوشش کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قطعی دلیلوں کے ساتھ پہلے والے تین افراد کی خلافت کی حقانیت کو ثابت کرے تاکہ اس حدیث کو چوتھے مرتبے پر محمول کیا جا سکے ۔ اگر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے تو اس خلافت کو چوتھے مرتبے پر محمول کرنا کسی صورت بھی صحیح نہیں ہے۔

ایک جہت سے یہ حدیث ، حضرت امیر المؤمنین(ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے اور ایک جہت سے ، اعلمیت اور افضلیت کے لحاظ سے دوسروں پر آپ(ع) کی برتری کو ثابت کرتی ہے۔

ارویٰ اور معاویہ کا واقعہ

اگرچہ بات بہت طویل ہو گئی ہے؛ لیکن ایک روایت کو ذکر کرنا بر محل ہے۔ روایت کی گئی ہے کہ حارث بن عبد المطلب بن ہاشم کی بیٹی ارویٰ جو بڑی عمر رسیدہ خاتون تھیں، ایک مرتبہ معاویہ کے پاس پہنچیں۔ معاویہ نے ان سے کہا: آفرین ہو تم پر اے خالہ! کیا حال ہے آپ کا؟

۱۰۶

ارویٰ نے جواب دیا:

’’بخیر یابن أُختی! لقد کفرت النعمة، وأسأت لابن عمّک الصحبة، و تسمّیت بغیر اسمک، و أخذت غیر حقّک، و کنّا أهل البیت أعظم الناس في هذا الدین بلاء اً، حتّی قبض اللّٰه نبیّه مشکوراً سعیه، مرفوعاً منزلته، فوثبت علینا بعده بنو تیم وعدي و أُمیّة، فابتزّونا حقّنا، ولّیتم علینا تحتجّون بقرابتکم من رسول اللّٰه (ص) و نحن أقرب الیه منکم و أولیٰ بهذا الأمر، و کنّا فیکم بمنزلة بني اسرائیل في آل فرعون، و کان علیّ بن أبي طالب بعد نبیّنا بمنزلة هارون من موسی ۔ ٹھیک ہوں اے بھانجے! لیکن تم نے نعمت کے مقابلے میں ناشکری کی اور اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ بد رفتاری کی ، اپنے اوپر کسی اور کے نام کا لیبل لگا لیا اور کسی دوسرے کا حق لے لیا۔ ہم خاندان اہل بیت(ع) کا امتحان اس دین میں سب سے سخت تھا، یہاں تک کہ خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کو اپنی طرف اٹھا لیا در حالیکہ ان کی کوششوں کی شکر گزاری کی اور ان کے مقام کو بلند بنا دیا۔ ان کی رحلت کے بعد قبیلہ تیم (ابوبکر) ، عدی (عمر) اور امیہ ( عثمان و معاویہ) نے ہم پر یلغار کی اور ہمارے حق کو غصب کیا۔ تم لوگ ہم پر مسلط ہوگئے ہیں اور رسول اکرم (ص) سے اپنی رشتہ داری کے ذریعے استدلال کرنے لگے؛ حالانکہ تم سے زیادہ ہم پیغمبر اکرم (ص) سے نزدیک تر اور اس امر کے لئے لائق تر ہیں۔ ہم تمہارے درمیان، ایسے ہیں جیسے فرعونیوں کے درمیان بنی اسرائیل، اور علی(ع) بن ابیطالب(ع) ہمارے پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد ، موسیٰ کے لئے ہارون کی مانند تھے۔‘‘

۱۰۷

اس وقت عمر و عاص نے کہا : بس کر اے گمراہ بڑھیا! اپنی باتوں کو تمام کر دو ؛ کیونکہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

ارویٰ نے کہا: اے پسر نابغہ! تجھ جیسا بھی منہ کھولتا ہے؛ جبکہ تمہاری ماں، مکے کی مشہور ترین فاحشہ عورت تھی اور اس کی اجرت ساری عورتوں سے کم تھی۔ قریش کے پانچ افراد تجھے اپنے نطفے کی پیداوار سمجھتے ہیں؛ اسی لئے تیری ماں سے پوچھا تھا کہ تم ان میں سے کس کی ناجائز اولاد ہے؟

تیری ماں نے کہا: یہ سب میرے پاس آتے تھے۔ اب دیکھ لو جس سے زیادہ شباہت رکھتا ہے اسی کا سمجھ لو۔ ملاحظہ کیا تو، تو عاص بن وائل سے زیادہ شباہت رکھتا تھا؛ لہٰذا اس کا بیٹا سمجھ لیا گیا۔

اچانک مروان بول پڑا: او بڑھیا! بس کر! اور جس کام کے سلسلے میں یہاں آئی ہو وہ بتاؤ!

ارویٰ کہنے لگیں: اے ابن زرقاء! تو بھی بولنے لگا ہے؟

پھر معاویہ کی سمت رخ کر کے کہا: خدا کی قسم! تو نے ہی ان کو میری توہین کرنے کی اجازت دی ہے۔ سچ یہ ہے کہ تو اس ماں کی اولاد ہے جس نے جناب حمزہ(ع) کی شہادت کے موقع پر کہا تھا:

نحن جزینا کم بیوم بدر

والحرب بعد الحرب ذات سعر

ماکان لی فى عتب ة من صبر

و شکر وحشى ّ عَلَ ى ّ د ه ر ی

حتّی ترمّ أعظمی فی قبرى

ہم نے تمہیں روز بدر کا جواب دے دیا، وہ جنگ جو ایک جنگ کے بعد ہو وہ بڑی آتشیں ہوتی ہے۔ میں عتبہ کی جدائی پر صبر نہیں کر سکتی۔ پوری زندگی وحشی کی شکر گزار رہوں گی، اس وقت تک کہ میری ہڈیاں قبر میں چھپ جائیں۔

۱۰۸

اس وقت میری چچا زاد بہن نے جواب دیا تھا:

خَزیتِ في بدر و بعد بدر

یا بنت جبّار عظیم الکفر

تو جنگ بدر میں بھی اور اس کے بعد بھی ذلیل ہوگئی ہے ، اے اس ظالم و ستمگر کی بیٹی! جو بہت ہی بڑا کافر تھا۔

ایسے میں معاویہ نے کہا: اے خالہ ! جو کچھ گزر چکا، اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے[!] اپنی حاجت بتاؤ!

ارویٰ نے کہا: میں تجھ سے کوئی حاجت نہیں رکھتی؛ پھر معاویہ سے ہاں سے چلی گئیں۔

ایک روایت میں ہے کہ ارویٰ نے معاویہ کے جواب میں کہا: مجھے دو ہزار دینا چاہئے تاکہ حارث بن عبد المطلب کی غریب ونادار اولاد کے لئے آباد اور سرسبز و شاداب زمین کے ساتھ ایک چشمہ خرید سکوں، اس کے علاوہ اور دوہزار دینار بنی حارث کے فقراء کی شادی کے سلسلے میں اور دوہزار اپنے لئے تاکہ زندگی کی سختیوں اور مشکلات سے آسودہ ہو جاؤں۔

معاویہ نے حکم دیا کہ جو کچھ چاہتی ہے اسے دے دیا جائے۔

اس پورے واقعے کونقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی چچازاد ارویٰ نے ’’حدیث منزلت‘‘ سے استشہاد کیا ہے اور اس طرح حضرت امیر المؤمنین(ع) کی امامت پر استدلال کیا ہے۔ علی(ع) کو ہارون سے تشبیہ دی ہے اور اہل بیت(ع) کو ، فرعون اور فرعونیوں کے درمیان زندگی گزارنے والے ،بنی اسرائیل کی مانند قرار دیا ہے۔

یہ روایت معمولی سی تفاوت کے ساتھ’’ العقد الفرید‘‘ ،’’ المختصر فی اخبار بنی البشر‘‘ اور ابن شحنہ کی معتبر تاریخی کتاب’’ روضة المناظر‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔(۱؎)

جی ہاں ! اس طرح ’’ حدیث منزلت‘‘ کی دلالت کے بارے میں بحث ختم ہوگئی اور اس پر ہونے والے تمام علمی اعتراضات کے جواب دئیے گئے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر گزار ہیں۔

____________________

۱۔العقد الفرید: ۲/ ۱۱۹؛ المختصر فی اخبار بنی البشر: ۱/ ۱۸۸؛ روضۃ المناظر، حاشیہ تاریخ ابن کثیر، سنہ ۶۰ ہجری کے واقعات

۱۰۹

ساتواں حصہ:

غیر علمی اشکالات پر ایک نظر

۱۱۰

غیر علمی اشکالات

یہاں پر کچھ ایسے اشکالات کی طرف مختصر اشارہ کریں گے جن کے سہارے ’’حدیث منزلت‘‘ کو غیر علمی طریقے سے ردّ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہل سنت کے بعض متعصب افراد جب علمی راہ سے ’’حدیث منزلت‘‘ پر کوئی اشکال نہ کر سکے تو انہوں نے غیر علمی راستے کا سہارا لیا ہے۔

۱ ۔ حدیث کی تحریف

شکست خوردہ اشکالات اور بے سر وپا اعتراضات کے بعد مخالفین نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ تحریف حدیث کا راستہ ہے۔ جب انہوںنے دیکھا کہ سند اور دلالت کے بارے میں ان کی باتیں بے فائدہ ثابت ہو رہی ہیں تو تحریف کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ایک ناصبی کوجب تحریف کے علاوہ کوئی راہ نظر نہ آئی وہ اسی برے عمل کا مرتکب ہوا؛ لیکن تحریف بھی ایسی بری تحریف کر ڈالی کہ کوئی کافر بھی اس طرح نہیں کرتا۔

حریز بن عثمان کے حالات زندگی، خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد اور ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب میں ملاحظہ فرمائیں۔ ان کی نقل کے مطابق حریز کہتا ہے کہ علی(ع) کے بارے میں لوگ پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:’’انت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ‘‘ بات تو صحیح ہے ؛ لیکن سننے والے نے سننے میں غلطی کی ہے۔

راوی نے پوچھا: پھر روایت کس طرح تھی؟

حریز کہتا ہے:یہ حدیث اس طرح ہے:’’انت منّي بمنزلة قارون من موسیٰ‘‘ [!!]

راوی نے پوچھا : تو کس سے یوں نقل کر رہا ہے؟

حریز نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ولید بن عبد الملک ، منبر پر اس حدیث کو اسی طرح نقل کرتا تھا۔(۱؎)

____________________

۱۔ تاریخ بغداد: ۸/ ۲۶۸، حدیث ۴۳۶۵؛ تہذیب التہذیب: ۲/ ۲۰۹

۱۱۱

افسوس کی بات یہ ہے کہ حریز ان لوگوں میں سے ہے جن پر بخاری نے اپنی صحیح میں اعتماد کیا ہے اور اس سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ دوسری جہت سے صحیح مسلم کے علاوہ اہل سنت کی صحیح کتابوں کے مؤلفین نے اس شخص کو قبول کیا ہے ، اس کی روایتوں کی تصحیح کی ہے اور اس سے روایات نقل کی ہیں!

نقل ہوا ہے کہ احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ حریز کیسا آدمی ہے؟ تو اس نے جواب میں تین مرتبہ کہا: قابل اعتماد ہے، قابل اعتماد ہے، قابل اعتماد ہے!

جبکہ حریز کے حالات زندگی میں لکھا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت علی(ع) کو گالیاں دیتا تھا، اپنی پوری قوت کے ساتھ علی(ع) پر حملہ کرتا اور آپ(ع) پر ظلم کرتا تھا۔ [!]

علمائے اہل سنت کی تصریح کے مطابق ، حریز ناصبی تھا جو ہمیشہ کہتا تھا: میں علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا؛ کیونکہ اس نے میرے باپ دادا کو قتل کیا ہے۔

وہ ہمیشہ کہتا تھا: ہمارا امام (معاویہ) ہمارے لئے اور تمہارا امام ( علی(ع)) تمہارے لئے۔ وہ ہر صبح و شام حضرت علی(ع) پر ستر ( ۷۰) بار لعن کرتا تھا۔ [!]

۱۱۲

اس طرح کی بہت ساری باتیں اس سے نقل ہوئی ہیں؛ لیکن ساری تفصیلات کے باوجود اہل سنت اس کی روایات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ احمد بن حنبل ، تین بار کہتا ہے: وہ قابل اعتماد ہے اور مسلم کے علاوہ سارے ’’صحاح‘‘ کے مؤلفین اس سے روایت نقل کرتے ہیں۔

جی ہاں! اس صورتحال کو دیکھ کر ایک آزاد فکر محقق ، آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ اہل سنت ، راوی کی وثاقت کو ثابت کرنے اور حدیث کی صحت کو جانچنے میں کیسے معیارات اور ضوابط پر اعتماد کرتے ہیں اور حضرت علی(ع) کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔

۲ ۔ شیخین کی فضلیت میں احادیث گھڑنا

بعض لوگوں نے ’’ حدیث منزلت‘‘ کے مقابلے میں ایک دوسری روش اپنائی ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے شیخین کے لئے بھی ایک حدیث منزلت تیار کی ہے اور اس کی نسبت رسول خدا (ص) کی طرف دی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

’’ابوبکر و عمر منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ابوبکر اور عمر دونوں میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘[!]

۱۱۳

اس حدیث کو خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے؛ اس کے بعد منّاوی نے ’’کنوز الحقائق من حدیث غیر الخلائق‘‘ میں خطیب بغدادی سے نقل کیا ہے۔(۱؎)

لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ ابن جوزی نے بھی اس من گھڑت حدیث کو نقل کیا ہے؛ لیکن کتاب ’’ الموضوعات‘‘ میں نہیں ؛ بلکہ’’ العلل المتناهیةفی الاحادیث الواهیة‘‘ میں اس کو جگہ دی ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔(۲؎)

اسی طرح ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ، منکر اور ناشناختہ ہے۔(۳؎)

اسی کتاب میں دوسری جگہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ذہبی کہتا ہے: یہ ایک جھوٹی حدیث ہے۔(۴؎)

ابن حجر عسقلانی بھی اپنی کتاب ’’لسان المیزان ‘‘میں اس حدیث کو جھوٹا سمجھتا ہے اور اس کے من گھڑت اور جعلی ہونے کی تصریح کرتا ہے۔(۵؎)

بنا برایں اس جعلی حدیث سے استناد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ ایسی حدیث ہے جس کے ضعیف ہونے یا جھوٹے اور جعلی ہونے کی خود اہل سنت نے تصریح کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ من گھڑت حدیث ، مسانید و سنن اور صحاح ستہ میں سے کسی ایک کتاب کے اندر موجود نہیں ہے۔

____________________

۱۔ تاریخ بغداد: ۱۱ / ۳۸۵، حدیث ۲۶۵۸؛ کنوز الحقائق ،حاشیہ الجامع الصغیر ، حرف الف

۲۔ العلل المتناہیۃ:۱ / ۱۹۹، حدیث ۳۱۲

۳۔ میزان الاعتدال: ۵/ ۴۷۳، حدیث ۴۹۰۰

۴۔ ایضا: ۵/ ۲۰۷، حدیث ۶۰۱۵

۵۔لسان المیزان:۵/ ۹، حدیث ۵۸۲۸۔ اس کتاب میں صرف ابوبکر کا نام ذکر ہوا ہے۔

۱۱۴

۳ ۔ حدیث منزلت کی ردّ

تیسری اور آخری راہ جو مخالفین کو سوجھی وہ حدیث منزلت کو ردّ کرنا اور اس کی صحت کو قبول نہ کرنا ہے؛ جبکہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ حدیث ، صحیح بخاری اور مسلم سمیت دوسرے مصادر میں بھی نقل ہوئی ہے۔

اہل سنت کے بہت سارے علماء نے یہی روش اپنائی ہے جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ وہ دوسرے راستوں سے شکست کھا گئے ہیں اور روش علمی کے ذریعے اس حدیث پر کوئی اشکال وارد نہ کر سکے ہیں۔

ابو الحسن سیف الدین آمدی کہتا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن حجر مکی نے اس کی بات کو ’’ الصواعق المحرقہ‘‘ میں نقل کیا ہے۔(۱؎)

شریف جرجانی نے بھی ’’ شرح المواقف‘‘ میں آمدی کی بات کو قبول کر کے اسی پر اعتماد کیا ہے۔(۲؎)

قاضی ایجی نے بھی ’’حدیث منزلت ‘‘کے جواب میں کہا ہے: سند کے لحاظ سے اس حدیث کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔(۳؎)

ان کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے افراد بھی اس حدیث کو ردّ کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ آمدی کی بات پر اعتماد کرتے ہیں؛ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں آمدی کے حالات

____________________

۱۔ الصواعق المحرقۃ: ۷۳

۲۔شرح المواقف: ۸/ ۳۶۲

۳۔ ایضا

۱۱۵

زندگی کے ذیل میں اس طرح لکھا ہے کہ آمدی کو اس کے برے عقائد کی وجہ سے دمشق سے نکال باہر کر دیا گیا تھا اور یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔(۱؎)

ہم یہ عرض کریں گے : جب نماز نہ پڑھنا ،ایک ایسا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان کی عدالت چلی جاتی ہے اور دینی مسائل میں اس کی بات اور اس کے نظریات کے بے اعتبار ہونے کا سبب بنتا ہے تو پھر اس شخص پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور اس کی بات کیوں نقل کی جاتی ہے؟؟

اس کے علاوہ ، اہل سنت کے بہت سے بزرگان اور حافظان حدیث پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ان کے حالات زندگی میں یہ بات موجود ہے کہ یہی محدثین، روایات سنت پیغمبر اور دین کے امین بنے ہوئے لوگ، نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [!]

اگر اس تحریر میں گنجائش ہوتی تو ان کی مدح و ثنا اور توثیق و تعظیم میں لکھی گئی بعض عبارتوں کی طرف اشارہ کرتے ، جن کے ذریعے قاری کو معلوم ہوتا کہ مسلمانوں کے ہاں دین کا ستون شمار ہونے والی نماز کا ترک کرنا ان افراد کے لئے کوئی عیب و نقص کا سبب نہیں ہے۔ [!]

۱۱۶

سخن آخر

جو تحقیق اور بیان آپ کی نظر سے گزرا وہ ’’ حدیث منزلت‘‘ کے بارے میں اہل سنت کی کوششیں اور ان کے اشکالات تھے ۔ اشکال کرنے والے ، اہل سنت کے علماء، حافظان حدیث اور وہ لوگ ہیں جن پر اہل سنت ، اپنے عقائد اور احکام کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے امت کے نصیب میں ، اس مظلوم گروہ میں سے جو ’’ارویٰ‘‘ کے بقول فرعونیوں کے پنجے میں بنی اسرائیل کی مانند ہیں، بہترین علماء نہ ہوتے تو دین مبین اسلام کا ستیاناس ہوجاتا اور سید المرسلین (ص) کے آثار نابود ہوجاتے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان علماء کے ذریعے ، دوسروں پر حجت تمام کر دی ہے۔

اس وقت جو منصف مزاج محققین ، بحث و تحقیق کے درپے ہیں اور جہاں کہیں سے بھی ، حق کو پانے اور اس کی پیروی کرنے کے خواہاں ہیں، ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ ان باتوں کی اصلیت اور حقیقت کو سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں قرآن اور مقبول و معتبر سنت کی بنیادوں پر قائم عقائد پر استوار اور ثابت قدم رکھے ، حقائق کو آشکار کرنے اور امور کی وضاحت کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ؛ نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ص) کے پسندیدہ امور کی طرف لانے میں طالبان حق و حقیقت کیمدد کرنے کا موقع عطا فرمائے! صلوات و رحمت خدا ہو حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) کے خاندان پاک پر !

____________________

۱۔میزان الاعتدال: ۳/ ۳۵۸، حدیث ۳۶۵۲

۱۱۷

کتابنامہ

۱ ۔ قرآن مجید

۲ ۔ نہج البلاغہ: (شیخ محمد عبدہ) مطبع استقامت ، مصر۔

’’الف‘‘

۳ ۔ ارشاد الساری: احمد بن محمد بن ابو بکر قسطلانی، دار احیاء تراث عربی، بیروت۔

۴ ۔ الاستیعاب: ابن عبد البر، دا الجلیل، بیروت، لبنان، اشاعت اول، ۱۴۱۲ ھ۔

۵ ۔ الاصابۃ: ابن حجر عسقلانی، دارالکتب علمیہ، بیروت ، لبنان

’’ب‘‘

۶ ۔ البدایۃ و النہایۃ: ابن کثیر، دار الفکر، بیروت لبنان

’’ت‘‘

۷ ۔تاریخ بغداد: خطیب بغداد، دار الکتب العربی، بیروت ، اشاعت اول ، ۱۴۱۷ ۔

۸ ۔تاریخ مدینۃ دمشق: ابن عساکر، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۵

۹ ۔تحفہ اثنا عشریہ: شاہ عبد العزیز دہلوی، نورانی کتابخانہ، پشاور ، پاکستان

۱۰ ۔ تفسیر بغوی= معالم التنزیل فی التفسیر و التأویل:ابو محمد حسین بن مسعود فراء بغوی، دارلفکر، بیروت، ۱۴۰۵

۱۱ ۔ تفسیر الجلالین: جلال الدین محمد بن احمد المحلی شافعی؛ جلال الدین سیوطی

۱۲ ۔ تفسیر ثعلبی = الکشف و البیان: امام ثعلبی، نشر مصطفی بابی حلبی، مصر ، ۱۳۸۸

۱۳ ۔ تہذیب التہذیب: ابن حجر عسقلانی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۴

۱۴ ۔تہذیب الکمال: مزی ، مؤسسہ الرسالۃ ، بیروت، ۱۴۱۳

’’ج‘‘

۱۵ ۔ الجامع الکبیر: جلال الدین سیوطی، دار الفکر، بیروت ۱۴۱۴

۱۱۸

’’خ‘‘

۱۶ ۔الخصائص: نسائی، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، قم، ایران، اشاعت اول، ۱۴۱۹

’’د‘‘

۱۷ ۔الدر المنثور فی تفسیر الماثور: جلال الدین سیوطی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۳

’’ر‘‘

۱۸ ۔روضۃ المناظر: ابن شحنہ حنفی، ( مطبوع در حاشیہ تاریخ ابن کثیر)

۱۹ ۔ریاض النضرۃ: محب الدین الطبری، دار الکتب علمیہ ، بیروت

’’ز‘‘

۲۰ ۔زاد المعاد: ابن قیم جوزی، مؤسسہ الرسالہ ، بیروت، ۱۴۰۸

’’س‘‘

۲۱ ۔سنن ابن ماجہ: ابن ماجہ قزوینی، دار الجلیل ، بیروت، اشاعت اول ، ۱۴۱۸

۲۲ ۔ سنن ابی داؤد: ابو داؤود، دار الکتب علمیہ، بیروت ، اشاعت اول ، ۱۴۱۶

۲۳ ۔ السنن الکبریٰ: بیہقی، دار الکتب علمیہ، بیروت، اشاعت دوم، ۱۴۱۴

۲۴ ۔ سنن ترمذی: محمد بن عیسیٰ ترمذی، دار الفکر ، بیروت

۲۵ ۔ سنن النسائی: نسائی، دار المعرفۃ، بیروت، اشاعت سوم، ۱۴۱۴

۲۶ ۔ سیرۃ ابن ہشام: ابن ہشام، دار احیاء التراث العربی، بیروت، اشاعت اول ۱۴۱۵

۲۷ ۔ السیرۃ الحلبیہ: علی بن برہان الدین حلبی، مکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، قاہرہ، مصر، ۱۳۸۲

’’ش‘‘

۲۸ ۔ شرح صحیح مسلم: محی الدین یحییٰ بن شرف نووی

۲۹ ۔ شرح المواقف: سید شریف جرجانی، منشورات شریف رضی، قم، ایران، اشاعت اول، ۱۴۱۲

۱۱۹

’’ص‘‘

۳۰ ۔ صحیح بخاری: محمد بن اسماعیل بخاری، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۳۱ ۔ صحیح مسلم: مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری، دار الفکر، بیروت، ۱۳۹۸

۳۲ ۔ الصواعق المحرقۃ: ابن حجر ہیتمی مکی، مکتبۃ القاہرہ، قاہرہ، مصر

’’ط‘‘

۳۳ ۔الطبقات الکبریٰ :ابن سعد، دار صادر، بیروت ، ۱۴۰۵

’’ع‘‘

۳۴ ۔العقد الفرید: ابن عبد ربہ، دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۴۰۳

۳۵ ۔ العلل المتناھیۃ: ابن جوزی ، دار الکتب علمیہ، بیروت، اشاعت اول، ۱۴۰۳

۳۶ ۔ عیون الأثر: ابن سید الناس، مکتبہ دار التراث، مدینہ منورہ، ۱۴۱۳

’’ف‘‘

۳۷ ۔فتح الباری فی شرح البخاری: ابن حجر، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۳۸ ۔ فیض القدیر: مناوی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، اشاعت اول، ۱۴۱۵

’’ق‘‘

۳۹ ۔ قطف الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ: جلال الدین سیوطی

’’ک‘‘

۴۰ ۔کشف الاسرار فی شرح اصول البزدوی: شیخ عبد العزیز بخاری، دار الکتب علمیہ، بیروت ، ۱۴۱۸

۴۱ ۔کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب(ع): حافظ گنجی

۴۲ ۔ کنز العُمّال: متقی ہندی، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۴۳ ۔ کنوز الحقائق من حدیث خیر الخلائق : مناوی، مطبوع در حاشیہ الجامع الصغیر

۱۲۰