حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر42%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50791 / ڈاؤنلوڈ: 3415
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اسی لئے شیعہ اپنے حق کو ثابت کرنے یا دوسروں کے نظریات کو باطل کرنے کے لئے ہمیشہ معتبر احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جب اہل سنت جواب دینے سے عاجز آ جاتے ہیں اور انہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تو اپنے مفاد کے خلاف احادیث کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ ’’یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) نے اپنی کتب میں نقل نہیں کی ہے۔‘‘

بطور نمونہ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا :

"ستفترق امّتی علیٰ ثلاث و سبعین فرقة" ۔

میرے بعد میری امت تہتر ( ۷۳) گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔

یہ حدیث اسی تعبیر کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم میں نہیں آئی ہے؛ لیکن سنن چہار گانہ (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی اور سنن ابی داود) میں موجود ہے۔ ابن تیمیہ اس حدیث کے ردّ میں کہتا ہے :’’یہ حدیث صحیحین میں نقل نہیں ہوئی ہے۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ منہاج السنۃ: ۳/۴۵۶

۲۱

سنن و مسانید لکھنے والوں،جیسے امام احمد بن حنبل اور دیگر علماء کے اس حدیث کو اپنی کتب میں نقل کرنے کے باوجود ابن تیمیہ اس بہانے کے ساتھ اس حدیث کو قبول نہیں کرتا کہ یہ صحیح بخاری اور مسلم میں نہیں آئی ہے۔

وہ چیز ، جو سب سے پہلے ہر منصف انسان کو اپنی جانب متوجہ کراتی ہے ، یہ ہے کہ صحیحین میں آئی ہوئی احادیث کے قطعی الصدور ہونے پر اہل سنت کا اصرار ہے اور بخاری و مسلم کا نقل کرنا روایت کے قبول کرنے اور ان کا نقل نہ کرنا روایت کے رد کئے جانے کی دلیل سمجھتے ہیں ؛ اس کے باوجود جب وہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان دو کتابوں میں ایسی کوئی حدیث موجود ہے جس سے شیعہ لوگ مقام استدلال میں فائدہ اٹھائیں گے تو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس حدیث کو ردّ کرتے اور اسے غلط گردانتے ہیں ۔

اسی لئے صحیح بخاری و مسلم میں نقل شدہ اس روایت کو کہ:’’حضرت زہرا(ع) ، ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور جب تک زندہ رہیں اس سے بات نہیں کی۔‘‘تحفةالاثنا عشریه کا مصنف باطل سمجھتا اور ردّ کرتا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۷۸

۲۲

اسی طرح صحیح بخاری کی شرح ’’ارشاد الساری‘‘میں قسطلانی اور ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں ابن حجر مکی ، بیہقی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ زہری کی اس حدیث کو ضعیف شمار کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت علی(ع) نے چھ ماہ تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ یعنی بیہقی اس حدیث کی تضعیف کرتا ہے اور قسطلانی و ابن حجر اس تضعیف کو نقل کرتے ہیں حالانکہ یہ حدیث دونوں صحیح کتابوں (مسلم و بخاری) میں موجود ہے ۔

اس سلسلے میں حافظ ابو الفرج ابن جوزی نے حدیث ثقلین کو کتاب

’’العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة‘‘

میں درج کیا ہے جو ضعیف اور بے بنیاد احادیث کو اکٹھا کرنے کے لئے لکھی گئی تھی ۔ حالانکہ حدیث ثقلین صحیح مسلم میں بھی آئی ہے ۔ اسی لئے بعض علماء نے اس (ابو الفرج )پر نکتہ چینی کی ہے۔

واضح ہو گیا کہ احادیث کو قبول کرنے یا ٹھکرا دینے کا معیار اہل سنت کی مصلحتیں ہیں۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی حدیث ان کے اپنے اور ان کے فائدے میں ہے تو اس پر اعتماد کرتے اور صحیحین میں اس کی موجودگی کی وجہ سے اس کے صحیح ہونے پر استدلال کرتے ہیں ؛ لیکن اگر کوئی حدیث ان کے نقصان میں ہو اور ان کے عقیدتی مکتب اور مذہب کے ستون کو گرانے کا باعث ہو تو اس حدیث کو ضعیف شمار کرتے یا خلاف حق سمجھتے ہیں اگرچہ کسی ایک صحیح یا دونوں میں نقل ہوگئی ہو۔

۲۳

ظاہر ہے کہ احادیث کی تحقیق میں یہ طریقہ کار کوئی پسندیدہ روش نہیں ہے ، مفکرین اور صاحب فضیلت لوگ اس قسم کی کوئی روش کے حامل نہیں ہیں ۔ یہ لوگ اور ہر وہ شخص جو اپنے عقیدے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرکے اس پر عمل پیرا ہو تا ہے اس طرح کا طریقہ کار نہیں اپناتا۔

جب ’’حدیث منزلت ‘‘کی باری آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اصول اور علم کلام کے بعض علماء کھلم کھلا اس کی سند میں بحث اور جھگڑا کرتے ہیں، یا اس کی تضعیف کرتے ہیں اور اسے صحیح نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ حدیث دونوں صحیح کتابوں میں موجود ہے۔

ہم سوال کرتے ہیں:پس ان دونوں صحیح کتابوں کی تمام احادیث کے قطعی الصدور ہونے کی بات کہاں گئی؟ اور اس مطلب پر آپ کے اصرار کا کیا معنی ہے؟

البتہ ہم خود بھی صحیحین کی احادیث کے قطعی الصدور ہونے کے معتقد نہیں ہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اورکتاب نہیں جس کے اوّل سے آخر تک صحیح ہو۔

لیکن ہمارا مخاطب وہ لوگ ہیں جو ان دونوں کتابوں کو صحیح سمجھتے ہیں ، ان سے انہی کی تصریحات کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔

بنا بر ایں گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے ہاں کوئی پائیدار قاعدہ نہیں ہے جس کی ہمیشہ رعایت کی جائے اور اس کے لوازم کو قبول کیا جائے ۔ جو کچھ ہے وہ ان کے من کی چاہت ہے جس کو قاعدے کے عنوان سے مرتب کر کے اصل و اساس قرار دیا ہے ۔ جب چاہتے ہیں تو ان قواعد کو کام میں لاتے ہیں اور جب ان کی طبیعت کے موافق نہ ہو تو ان کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔

۲۴

حدیث منزلت کے مزید متون

حدیث منزلت صحیح بخاری ومسلم کے علاوہ اہل سنت کی دوسری مشہور و معروف کتب میں نقل ہو گئی ہے ۔ ہم ان کے متن کو ذکر کریں گے کیونکہ ہر نقل اور ہر متن کی اپنی الگ ایک خصوصیت ہے جس میں اچھی طرح سے تامل کرنا چاہئے ۔

ابن سعد کی روایت

الطبقات الکبریٰ میں ابن سعد اس حدیث کو چند اسناد کے ساتھ ذکر کرتا ہے ۔

۱ ۔ سعید بن مسیب سے متصل سلسلہ :

یہ وہی حدیث ہے کہ جو ہم نے صحیح مسلم سے نقل کی ہے ۔ یہاں اس کی نقل اورمسلم کی سعید بن مسیب سے کی گئی نقل کے درمیان مقائسہ کرنے کا وقت ہے ۔ سعید کہتا ہے : میں نے سعد بن مالک (وہی سعد بن ابی وقاص )سے کہا :میں چاہتا ہوں کہ تم سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھوں ؛ لیکن یہ سوال کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں۔

سعد نے کہا :بھتیجے !ایسا نہ کر ۔ جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ میں کسی چیز سے آگاہ ہوں تو پوچھ لیا کرو اور مجھ سے مت ڈرو!

میں نے کہا :جب پیغمبر اکرم(ص) نے جنگ تبوک کے وقت علی(ع) کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑا تو علی(ع) سے کیا کہا ؟

طبقات کا مصنف کہتا ہے :سعد نے پوری حدیث اس کے لئے نقل کی۔(۱؎)

____________________

۱۔الطبقات الکبریٰ: ۳/۲۴

۲۵

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں علی(ع) و اہل بیت پیغمبر(ع) کے بارے میں موجود حدیث ، صحابی رسول سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا اور خوف محسوس ہوتا تھا ؟ اگر حدیث دوسروں کے بارے میں ہوتی تو پوری آزادی اور آرام و راحت کے ساتھ پوچھا جاتا تھا۔

۲ ۔براء بن عازب اور زید بن ارقم سے متصل سلسلہ:

محمد بن سعد ’’الطبقات‘‘میں دوسری بار اپنی اسناد کے ساتھ برا بن عازب اور زید بن ارقم سے اس طرح نقل کرتا ہے کہ انہوں نے کہا :

جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو پیغمبر اسلام(ص) نے علی(ع) ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا :

"انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم" ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘(۱؎)

پیغمبر اکرم(ص) کے اس فرمان سے واضح ہوتا کہ مدینہ میں کچھ حادثات پیش آرہے تھے یا بعض سازشیں جنم لے رہی تھیں ۔ بعد والی حدیث میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے۔ اس وقت کی حساس صورتحال کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) خود مدینہ میں رہیں یا حضرت علی(ع) رہیں ؛کیونکہ یہ کام کسی اور کے بس کا نہیں تھا۔

____________________

۱۔الطبقات الکبریٰ: ۳/۲۴

۲۶

اور دوسری جہت سے جنگ تبوک میں پیغمبر اکرم(ص) کا شریک ہونابھی ناگزیر تھا اس لئے امیر المومنین(ع) سے فرمایا :

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم" ۔

ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں ۔

جب پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر تبوک تشریف لے گئے تو ایک گروہ نے ، بعض نے نقل کیا ہے قریش کا ایک گروہ اور بعض نے کہا ہے :کچھ منافقین ، نے اس طرح کہا:

’’پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو مدینے میں اس لئے چھوڑا ہے کہ آنحضرت(ص)، علی(ع) کو پسند نہیں کرتے۔ ‘‘

یہ بات امیرالمومنین(ع) کے کانوں تک پہنچی تو آپ(ع) ، رسول اللہ(ص) کے پیچھے چلے گئے ، جب پیغمبر(ص) سے ملے تو حضور(ص)نے آپ سے فرمایا :’’اے علی(ع)!آپ یہاں کیوں چلے آئے؟‘‘

جواب میں عرض کیا :اے رسول خدا(ص)!آپ کی مخالفت کا ہرگزارادہ نہ تھا مگر کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مجھے مدینے میں اس لئے چھوڑا گیا ہے کہ آپ(ص) مجھے ناپسند کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) نے تبسم فرمایا اور کہنے لگے :

"یا علی!أما ترضیٰ ا ن تکون منّی کهارون من موسیٰ الّا انّک لست بنبیّ؟قال :بلیٰ یا رسول الله!قال:فانّه کذالک " ۔

اے علی(ع)! کیا یہ پسند نہیں کہ تم میرے لئے اسی طرح رہو جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے اس کے کہ تم پیغمبر نہیں ہو؟‘‘عرض کیا :کیوں نہیں اے اللہ کے رسول(ص)!فرمایا :پس تم اسی طرح ہو۔‘‘

۲۷

نسائی کی روایت

نسائی اس روایت کو ’’خصائص‘‘میں یوں نقل کرتے ہیں :

لوگوں نے کہا :پیغمبر(ص)، علی(ع) سے تنگ آگئے ہیں اور اس کی ہمراہی سے متنفر ہیں۔

ایک اور روایت میں آیاہے کہ علی(ع) نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا :قریش گمان کرتا ہے کہ چونکہ میری ہمراہی آپ(ص) پر گراں گزرتی ہے اور آپ(ص) کے ساتھ میرا رہنا آپ کے لئے نا پسند ہے اس لئے مجھے مدینے میں چھوڑ دیا ہے ۔

پھر حضر ت نے گریہ کیا ، جب پیغمبر(ص) نے یہ دیکھا تو لوگوں کے درمیان پکار کر فرمایا :

"مامنکم احد الّا و له خاصّ ة یابن ابی طالب!اما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة ه ارون من موس یٰ الّا انّه لا نب یّ بعدی"

تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنے لئے کوئی چیز مختص نہ کرتا ہو۔ اے فرزند ابوطالب!کیا تم راضی نہیں ہوگے کہ میرے لئے ، موسیٰ کے لئے ہارون کی طرح ہوجاو سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں؟

امیر المومنین(ع) نے عرض کیا :

۲۸

’’رضیتُ عن الله وعن رسوله ۔

خدا وند متعال اور اس کے پیغمبر(ص) کی جانب سے راضی ہوں ۔(۱؎)

’’سیرہ ابن سید الناس‘‘،’’ سیرہ ابن قیم جوزیہ‘‘ ،’’ سیرہ ابن اسحاق‘‘ اور بعض دوسرے مصادر کی نقل کے مطابق حضرت علی(ع) پر اعتراض کرنے والے لوگ ، منافقین میں سے تھے ۔(۲؎)

بعض دوسرے متون میں لکھا ہے کہ لوگوں سے مراد قریش یامنافقین تھے، اس رو سے واضح ہو جاتا ہے کہ قریش کے درمیان بھی منافقین موجود تھے یہ بات بڑی اہم ہے۔

طبرانی کی روایت

طبرانی کی معجم الاوسط میں حضرت علی(ع) سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) نے ان سے فرمایا:

"خلّفتک ان تکون خلیفتی قلتُ:اتخلّف عنک یا رسول الله؟ قال:الا ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبیّ بعدی " ۔

میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرے جانشین اور خلیفہ ہو جاو۔عرض کیا :اے اللہ کے رسول(ص)!کیا آپ کے ساتھ نہ رہوں؟ فرمایا: کیا راضی نہیں ہو کہ میرے لئے اسی طرح ہوجاؤ جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ؟‘‘(۳؎)

اس حدیث کا یہ جملہ قابل غور ہے:

’’خلّفتک ان تکون خلیفتی‘‘

میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرے جانشین اور خلیفہ ہو جاو۔

____________________

۱۔ خصائص نسائی: ۶۷، احادیث ۴۴، ۶۱، ۷۷

۲۔ عیون الاثر: ۲/ ۲۹۴؛ زاد المعاد: ۳/ ۵۵۹۔ ۵۶۰؛ سیرہ ابن ہشام: ۲/ ۵۱۹۔ ۵۲۰

۳۔ معجم الاوسط: ۴/ ۴۸۴، حدیث ۴۲۴۸

۲۹

سیوطی کی روایت

جلال الدین سیوطی ، جامع الکبیر میں اس روایت کو ایک گروہ سے نقل کرتا ہے ، جن میں ابن نجار بغدادی ، ابوبکر شیرازی کی کتاب القاب، حاکم نیشاپوری کی الکنیٰ اور بزرگ حافظان حدیث میں سے حسن بن بدر کی کتاب’’مارواہ الخلفاء‘‘ شامل ہے۔

یہ سارے راوی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن عمر بن خطاب نے کہا :اب کے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؛کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے علی(ع) کے بارے میں تین باتیں سنی ہوئی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی میرے لئے ہوتی تو وہ میرے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہوتی جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(۱؎)

ہم لوگ ( ابو بکر ، ابو عبیدہ بن جراح(۲؎) اور اصحاب پیغمبر میں سے ایک اور شخص) حضور (ص) کی خدمت میں تھے ، آپ(ص)، علی ابن ابی طالب(ع)سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، ایسے میں اپنے دست مبارک کو علی(ع) کے کندھے پر رکھا اور فرمایا :

"یاعلی!انت اول المو منین ایماناً و اوّله م اسلاماً،وانت منّ ی بمنزلة ه ارون من موس یٰ ، و کذب من زعم انّه یحبّنی و یبغضک"

اے علی(ع)!تم پہلے مؤمن ہو جو ایمان لے آیا اور پہلے فرد ہو جو اسلام لایا ، تم میرے لئے وہی حیثیت رکھتے ہو جو حیثیت موسیٰ کے لئے ہارون کی تھی ، اور وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہے اورمجھ سے محبت کرنے کا گمان کرتا ہے۔ ‘‘

ابن کثیر کی روایت

ابن کثیر نے بھی یہ روایت اپنی تاریخ میں لکھی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا :

"او ما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة ه ارون من موس یٰ الاّ النّبوّة"

کیا راضی نہیں ہو کہ میرے لئے وہی ہو جاؤ جو موسیٰ کے لئے ہارون تھے،سوائے پیغمبری میں؟‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں حضرت علی(ع) کے بارے میں باتیں کرتے تھے ؟ اور کیا کچھ کہتے تھے ؟ کیوں عمر ان لوگوں کو آپ(ع)کے تذکرے سے منع کر رہا ہے؟ کیا یہ لوگ حضرت(ع) کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے تھے ؟ اور اب عمر انہیں اس کام سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ علی(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب مل جائے تو پوشیدہ حقائق سامنے آئیں گے۔ ۲۔واضح رہے کہ مہاجرین میں سے انہی تین افرادنے سقیفہ برپا کیا تھا ۔۳۔ البدایۃ و النہایۃ: ۷/ ۳۴۰

۳۰

قابل ذکر ہے کہ ان روایات میں تین تعبیریں ذکر ہوئی ہیں :

۱ ۔الاّ النّبوّة :سوائے پیغمبری میں ۔

۲ ۔الاّ انّک لست بنبیّ :سوائے اس کے کہ تم پیغمبر نہیں ہو۔

۳ ۔الاّ انّه لا نبیّ بعدی :سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

ظاہر ہے کہ ان تعبیروں کے درمیان بہت فرق پایا جاتا ہے ۔

ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اس کی سند صحیح ہے ؛ لیکن صحیح احادیث کی جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اس کو نقل نہیں کیا گیا ہے ۔

اسی طرح ابن کثیر اپنی تاریخ میں معاویہ اور سعد کی حدیث کے ضمن میں نقل کرتا ہے کہ ایک روز معاویہ ایک گروہ کے سامنے علی(ع) کو برا بھلا کہہ رہا تھا[!]

سعد نے اس سے کہا :خدا کہ قسم!اس (علی(ع) )کی تین خصوصیتوں میں سے اگر میں ایک کا بھی حامل ہوتا تو میرے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر تھا جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ۔۔۔۔پھر اس نے ان تین خصوصیات میں سے ایک کے طور پر’’حدیث منزلت‘‘ بیان کی۔(۱؎)

اہل سنت کے حافظین میں سے ایک حافظ زرندی اسی حدیث کو نقل کرتا ہے ؛ مگر معاویہ کا نام لئے بغیر کہتا ہے :راویوں میں ایک نے سعد سے پوچھا :کون سی چیز تمہیں علی(ع) کو برا بھلا کہنے سے روکتی ہے؟(۲؎)

____________________

۱۔ البدایۃ و النہایۃ: ۷/ ۳۴۰

۲۔ نظم درر السمطین: ۱۰۷

۳۱

ظاہر ہے کہ وہ معاویہ کا نام مخفی رکھنا چاہتا ہے تاکہ اپنی اور دوسروں کی آبرو بچ جائے۔

یہ واقعہ ، تاریخ مدینہ دمشق ، الصواعق المحرقہ اور دوسرے مصادر میں یوں نقل ہوا ہے: کسی نے معاویہ سے کوئی مسئلہ پوچھا ۔ اس نے کہا :علی(ع) سے پوچھو کہ وہ دانا تر ہے۔

پوچھنے والے نے کہا :اگر تم میرے سوال کا جواب دو تو علی(ع) کے جواب دینے سے بھی زیادہ مجھے پسندیدہ ہے ۔معاویہ نے کہا :تم نے بری بات کی!کیا واقعاً ایسے شخص سے ناخوش ہو کہ جسے پیغمبر(ص)نے اپنے علم سے مکمل طور پر سیراب کیا ہے!اور اس سے کہا ہے :

" انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی" ۔

تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون، سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

جب بھی عمر کسی مشکل کو حل کرنے سے عاجز رہ جاتا تو اس( علی(ع)) سے استفادہ کرتا تھا ۔(۱؎)

تمام مختلف متون میں سے جس متن کو ہم نے منتخب کیا ہے اس کی الگ خصوصیت ہے کہ جسے دقیق نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۳۹۶، حدیث ۴۱۰ حضرت علی(ع) کے حالات زندگی؛ الریاض النضرۃ: ۳/ ۱۶۲ مناقب امام علی(ع)؛ ابن مغازلی: ۳۴، حدیث ۵۲

۳۲

تیسرا حصہ:

حدیث منزلت کی دلالتوں پر ایک نظر

۳۳

حدیث منزلت کی دلالتیں

ہماری گفتگو کا دوسرا محور ،حدیث منزلت کی دلالتیں ہیں۔ چنانچہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے کہ حدیث منزلت متعدد امور پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک امیر المومنین(ع) کی امامت پر مکمل دلیل ہے ۔

قرآن کی رو سے حضرت ہارون کا مقام

حدیث منزلت کی دلالتوں کی تحقیق کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم حضرت ہارون(ع) کے مقامات پر ایک نظر ڈالیں اور یہ جان لیں کہ حضرت موسیؑ کی نسبت سے آپ(ع) کیا مقام و مرتبہ رکھتے تھے ؛ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پیغمبر(ص) کی نسبت سے علی(ع) کس مقام و مرتبے کے حامل ہیں۔

اس مطلب سے آشنائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید سے رجوع کرکے حضرت ہارون(ع) کے مقام و مرتبے سے آ گاہی حاصل کریں؛ کیونکہ قرآن مجید کی آیات میں ٹھیک طرح غورو خوض کرنے سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جناب ہارون(ع)مندرجہ ذیل مقامات کے حامل تھے :

۱ ۔ نبوت

حضرت ہارونؑ کا اولین مقام ’’پیغمبری‘‘ ہے ۔ خدا وند متعال فرماتا ہے :

" وَوَه َبْنَا لَ ه ُ مِنْ رَحْمَتِنٰا اَخٰا ه ُ ه ٰارُوْنَ نَبِ یّاً "

اور ہم نے اپنی رحمت سے اس (حضرت موسیٰ)کو اس کا بھائی ہارون عطا کر دیا جو پیغمبر تھا۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ مریم: ۵۳

۲۔ وزارت

۳۴

حضرت ہارون(ع) کا دوسرا مقام ’’وزارت‘‘تھا ۔ وزیر وہ ہوتا ہے جو امیر کی مسئولیت کا بارگراں اپنے کندھوں پر اٹھائے اور اسے انجام دینے کا عہدہ سنبھالے۔ اس مقام کو خدائے متعال نے حضرت موسیٰ کی زبان سے اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خدا وند متعال سے عرض کیا :

"وَاج ْعَل لِی وَزِیراً مِن اَه لِ ی ه ٰارُونَ اَخِ ی"

اور میرے لئے میرے خاندان سے میرا بھائی ہارون وزیر قرار دے۔‘‘(۱؎)

اسی طرح خدا وند متعال ، قرآن مجید میں اسی مقام کے بارے میں فرماتا ہے :

"وَ لَقَد آتَینٰا مُوسَی الکِتٰابَ وَجَعَلنٰا مَعَه اَخٰا ه ُ ه ٰارُونَ وَزِ یراً"

بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بھائی ہارون کو اس کا وزیر قرار دیا۔‘‘(۲؎)

سورہ قصص میں بھی ہارون(ع) کی وزارت کے بارے میں بات آ گئی ہے ؛ وہاں حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل ہوتا ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں :

"وَ اَخِی ه ٰارُونَ ه ُوَ اَفصَحُ مِنِّ ی لِسٰاناً فَاَرسِله ُ مَعِ یَ رِدءًا یُّصَدِّقَنِی"

اور میرا بھائی ئی ہارون کہ کس کی زبان مجھ سے زیادہ گویا ہے ، پس اسے میرے ہمراہ بھیج دے تاکہ میرا مدد گار ہو اور میری تصدیق کرے۔‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ طٰہٰ: ۳۹۔ ۳۰

۲۔ فرقان: ۳۵

۳۔ قصص: ۳۴

۳۵

۳ ۔ خلافت و جانشینی

حضرت ہارون(ع) کے مقامات میں سے ایک حضرت موسیٰ کی خلافت و جانشینی ہے ۔ خداوند اس مقام کو یوں بیان کرتا ہے :

"وَ قَالَ مُوسیٰ لِاَخِیه ِ ه ٰارُونَ اخلُفنِ ی فِی قَومِی وَاَصلِح وَلَا تَتَّبِع سَبِیلَ المُفسِدِین"

اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون(ع) سے کہا :قوم کے درمیان میرا جانشین بنے رہو اور ان (کے امور)کی اصلاح کرو اور فساد پھیلانے والوں کے راستے کی پیروی نہ کرو ۔‘‘(۱؎)

۴،۵ ، ۶ ۔اخوت و رسالت میں مشارکت ، مضبوط پشت پناہ

قرآن مجید کی رو سے حضرت ہارون(ع) کا چوتھا ، پانچواں اور چھٹا مقام ، آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کے ساتھ اخوت کا رشتہ ہونا، رسالت میں جناب موسیٰ کے ساتھ شریک ہونا اور ان کے لئے ایک پشت پناہ ہونا ہے۔ حضرت موسیٰ نے خدا وند متعال سے اس طرح دعا فرمائی:

’’وَاج ْعَل لِی وَزِیراً مِن اَه لِ ی هٰارُونَ اَخِی اشدُد بِه ِ اَزرِ ی وَ اَشرِکه ُ فِ ی اَمرِی"

اور میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے ، میرے بھائی ہارون کو ، اور اسے میرے لئے ایک مضبوط پشت پناہ قرار دے اور میرے کام میں شریک فرما۔‘‘(۲؎)

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۲۔ طٰہٰ: ۳۱۔۳۲

۳۶

حضرت علی(ع) کے مقام ومنزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت کے مندرجات کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اس فرمان کے ذریعے نبوت و پیغمبری کے علاوہ ،جناب ہارون(ع) کے وہ تمام مقامات حضرت امیرالمومنین(ع) کی شان میں ثابت کر دیا ہے جنہیں قرآن مجید نے حضرت ہارون(ع) کے لئے ثابت کیا ہے۔

حضور(ص) نے اس حدیث میں ہارون کے تمام مناصب کو مطلق بیان فرمایا ہے ؛ لیکن منصب پیغمبری کو استثناء فرمایا ہے ؛ کیونکہ ضرورت یہ کہتی ہے کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔

اس بنا پر پیغمبری کے علاوہ حضرت ہارون(ع) کے لئے ثابت شدہ تمام مناصب حضرت علی(ع) کے لئے بھی ثابت ہو جائیں گے ۔ اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ :

امیر المومنین(ع) اور حضرت ہارون(ع) کے معنوی منازل اور مقامات میں واحد فرق یہی ہے کہ علی(ع) ، پیغمبر نہیں ہیں ؛ لیکن آپ(ع) نے اپنی بعض خصوصیات اور اوصاف ’’خطبہ قاصعہ‘‘ میں یوں بیان فرمایا ہے :

’’ وَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ، وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ: وَضَعَنِی فِی حِجْرِهِ وَأَنَا وَلَدٌ ،یَضُمَّنِی اِلَیٰ صَدْرِهِ، وَیَکْنُفُنِی فِی فِرَاشِهِ، وَیُمِسُّنِی جَسَدَهُ، وَیْشِمُّنِی عَرْفَهُ، وَکَانَ یَمْضَعُ الشَّیَٔ ثُمَّ یُلْقِمُنِیْهِ، وَمَا وَجَدَ لِی کَذْبَةً فِی قَوْلٍ، وَلاَ خَطْلَةً فِی فِعْلٍ، وَلَقَدْ قَرَنَ اللّٰهُ بِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِمِنْ لَدُنْ اَنْ کَانَ فَطِیْمًا اَعْظَمَ مَلَکٍ مِنْ مَلاَئِکَتِهِ، یَسْلُکُ بِهِ طَرِیْقَ الْمَکَارِمِ، وَمَحَاسِنَ اَخْلاَقِ الْعَالَمِ، لَیْلَهُ وَنَهَارَهُ، وَلَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اَتَّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اَمَّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِهِ، عَلَمًا، وَیَامُرُنِی بِالْاِقْتَدَائِ بِهِ وَلَقَدْ کَانَ یُجَاوِرُ فِی کُلَّ سَنَةَ بِحِرَائَ فَأَرَاهُ، وَلاَ یَرَاهُ غَیْرِی، وَلَمْ یَجْمَعُ بَیْتُ وَاحِدٌ یَوْمَئِذٍ فِی الْاِسْلاَمِ غَیْرَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا ۔

۳۷

تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا! میں بچہ ہی تھا کہ رسول (ص) نے مجھے گود میں لے لیا تھا۔ اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔ بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ اپنے جسم مبارک مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپ (ص) کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی۔ اللہ نے آپ (ص) کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک ( روح القدس) کو آپ (ص) کے ساتھ لگا دیا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا، اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کابچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ) حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) اور (ا م المؤمنین) خدیجہ(ع) کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا۔‘‘

۳۸

یہ حصہ خصوصی طور پر دیکھئے کہ حضرت فرماتے ہیں :

’’ اَرَیٰ نُورَ الْوَحْیِ وَالرَّسَالَةِ، وَاَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ،وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ ،فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰهِ!مَاهٰذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: هٰذَا الشَّیْطَانُ قَدْاَیِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ ۔

میں رسالت کی خوشبوسونگھتا تھا ۔ جب آپ (ص) پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی، جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (ص) یہ آواز کیسی ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجا جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔‘‘

اب حضرت علی(ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) کے مندرجہ ذیل فرمان پر غور کریں !فرماتے ہیں :

’’ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَتَرَیٰ مَا اَرَیٰ اِلاَّ اَنَّکَ لَسْتَ بَنِبِیًّ وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْرٌ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خَیْرٍ ۔(اے علی(ع)!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو؛ بلکہ (میرے ) وزیر اور جانشین ہو اور یقینا بھلائی کی راہ پر ہو۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۳۹

ان جملوں پر توجہ کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث پیغمبر اور’’ خطبہ قاصعہ‘‘ میں امیر المومنین(ع) کے فرامین کے ساتھ آیات قرآن کس طرح ہم آہنگ ہیں۔ اگرچہ امام علی(ع) ، پیغمبر نہیں ؛ لیکن وحی و رسالت کے نور کو دیکھا اور خوشبوئے رسالت کو سونگھا ہے ۔

اب ہم پوچھیں گے کہ :کیا امیر المومنین(ع) کا یہ مقام و منزلت پیغمبر خدا(ص) کے دوسرے اصحاب کے مقام ومنزلت سے قابل مقائسہ ہے ؟

پس کیوں بعض لوگ کچھ خالی خیالی فضائل کو اس بلند مقام و مرتبے پر برتری دینا چاہتے ہیں ؟

حضرت علی(ع) ، پیغمبر نہیں ؛ لیکن وزیر ہیں ۔ کون سی شخصیت کا وزیر؟

اس پیغمبر کا جو اشرف المرسلین ، تمام پیغمبروں سے بزرگوار ترین ، شریف ترین اور خدا وند سبحان کی ان سب سے نزدیک ترین ہیں۔

اس بنا پر ایسی شخصیت کا وزیر ہونا حضرت موسیٰ کی وزارت سے کافی حد تک مختلف ہے ؛ اس لحاظ سے ہارون کہاں اس مقام ومرتبے تک پہنچ سکتا ہے ؟

اس وقت ہماری بات ہارون(ع) پر علی(ع) کی برتری کے بارے میں نہیں ہے ؛ بلکہ اس بارے میں ہے کہ رسول خدا(ص) کی خلافت کا مستحق علی(ع) ہیں یا ابو بکر؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہطور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے شعروں کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کا خواہاں تھے۔

ان میں سے کچھ موارد ہم نے اپنی دوسری کتاب''الانحرافات الکبری''میں ذکر کئے ہیں  لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔

 دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ  اور اس کا درباری ابوزبید اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔

'الاستیعاب''کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔(1) بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہکی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟(2)

عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ  ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے شعر عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے   والے فحاش شعر نمودار ہوئے    جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔بنی امیہ اشعار کی ترویج میں مبالغہ کرتے تھے اور کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے  تھے۔لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے  اور انہوں نے بہت سا مال حاصل کیا۔

--------------

[1]۔  الاستیعاب:ج3ص633

[2]۔  الاستیعاب:ج3ص633

۱۰۱

شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ  ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل  کو بطور نمونہ پیش  کرتے تھے۔اسی دوران منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والوں نے فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ دیتا تھا۔(1) ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کے اشعار کو بہت  سراہا جاتا تھا۔(2)

فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل ہوتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔(3)

شعر،شراب اور فحاشی کی مدد سے وجود میں آنے والے فتنہ کے اس لبادہ میں سے زندیقی اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے(4) ،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے

--------------

[1]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص۲۰۵

[2]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص238

[3]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص256

[4]۔ الحضارة الاسلامیة:ج2ص65

۱۰۲

جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء مرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس پھیلے۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے  سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مگن ہو گئے۔

اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے کہ جس کی اس سے  پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(363-449)عقلی نظریات کی آڑ میںہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ کہ تمہاری ایمانداری گذرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے کہ جو اس  کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوںکی سنت دم توڑ گئی۔(!)

وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔(1) پھر ابن راوندی(متوفی 293ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔(2) اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لے کھڑا ہوا   اور اس نے''الفصول والغایات فی محاذاة السور ولآیات''کے نام سے ایک کتاب  لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس  نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے تو تا کہ یہ چمک جائے ،پھر اسے ددیکھو کہ یہ کیسی ہے۔(3)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:137

[2]۔ الحضارة الاسلامیة:139

[3]۔  الحضارة الاسلامیة:140

۱۰۳

اس طرح  اشعار کو قوت ملنے کے بارے میںرسول خدا(ص)کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود میں لے لیں۔پھر دیراس کے بعد شراب اور پھر فحاش شعار رائج ہوئے اور عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر وہ خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے پاؤںجما لئے  اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ ،مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا۔(1) کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔(2)

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

 یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میںقصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔اہل کتاب کے علماء حکومتی وسرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کی کہانیاںسنانے میں اور جو کچھ  لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار  ہو،اسی میں  مشغول رکھیں۔(3) تمیم داری(تازہ  مسلمان ہونے والا عیسائی)دوسرے خلیفہ کی نظر میں مدینہ کے بہترین لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا(4) !اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ  گوئی کرتا تھا۔(5) عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا!(6)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:ج1ص127-[2]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج1ص418-[3]۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج1ص122-124(تلخیص)

[4]۔  الاصابة فی تمییز الصحابة:ج1ص215-[5] ۔  الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج1ص183،184 اور 186۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔[6]۔ القصاص و المذکرین:29

۱۰۴

 حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (مسلمان ،جو پہلے عیسائی تھے)نے سب سے پہلے قصہگوئی کی اور کعب الأحبار(تازہ مسلمان ہونے والا یہودی)کابھی شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصہگوئی کرتا تھا!

محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔

 قصہ  گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیااور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح  نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔(1)

 ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں: اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد - جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میںبہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے  ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ''جسّاسہ''کی کہانی کہ ججسے اس کے راویوں نے  رسول اکرم(ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔(2)

 ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:

--------------

[1]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:63

[2]۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:79 اور 80

۱۰۵

 شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا کہ جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔(1)

 اس لحاظ سے شام کو ''اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین''کا نام دیا جا سکتاہے۔ معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ''سرجون''وزیراور دربار کا خاص مصنف،''ابن آثال''دربار کامخصوص طبیب اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ''اخطل'' کے نام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔  یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے کہ جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔(2) مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 1۔ سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت میں تھا۔

 کتاب''الأغانی''میںوارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب خوری کرتا تھا اورجب  مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔(3) اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:189

[2]۔ معالم المدرستین:ج1ص50 اور 51

[3] ۔  الاغانی:ج16ص68 ،''معالم المدرستین ''سے اقتباس:ج2ص50،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج3ص228 اور 239،الکامل فی التاریخ :ج 4 ص 17''

[4]۔ التنبیہ الاشراف:261،معالم :سے اقتباس:ج2ص50

۱۰۶

2۔ ابن آثال: مؤرخین کے مطابق یہ  عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی ڈاکٹر تھا۔

 احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی و عقیدت تھی اور  ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔(1)

 یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین''حمص'' سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔(2)

 3۔ اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ  کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے اخطل کے بارے میں بتایا۔(3)

 ''الأغانی''میں بھی اسذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تو ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی بنی  ہوئی صلیب پہنے ہوتے تھا اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتا اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتا۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے

انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:162

[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳

[3]۔ البیان والتبیین:ج1ص86،معالم المدرستینسے اقتباس:ج2ص50

[4]۔ الأغانی:ج8ص229 ،321اور ج16ص68معالم المدرستین سے اقتباس:ج2ص50 اور 51

۱۰۷

 اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے اموی دور میں بھی عربوں کی بت پرستی کی  کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔(1)   یہ شواہد واضح و روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف و مقصد ایک تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی  اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی  میں ہو رہا تھا۔(2)

  عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

ابوریہ لکھتے ہیں: عمر بن خطاب بھی تمیم کا بہت احترام کرتا تھااور اسے''خیر أهل المدینة'' (3) (یعنی مدینے کا بہترین فرد ) کے الفاظ سے یاد کرتا تھا۔اور یہ سب بالکل اسی وقت ہو رہا تھا جب حضرت علی علیہ السلام اور بزرگ صحابی بھی موجود تھے ۔ جب بعد میں دوسرے خلیفہ کے حکم پرلوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تو تمیم اہل بدر کے ساتھ تھا جن کا شمار پیغمبراکرم(ص) کے سب سے محترم اصحاب میں سے ہوتا تھا اور وہ سب سے زیادہ حقوق لیتا تھا۔

--------------

[1]۔ انتقال علوم یونانی  بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):216-[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:74

[3] ۔  الاصابة: ج3ص473، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس، چھٹا شمارہ:  87 ۔ ذہبی کی روایت میں تمیم کو ''خیر المؤمنین''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔''سیر أعلام النبلاء''کی طرف رجوع کریں: ج2ص446

۱۰۸

اسی طرح جب اس نے حکم دیا کہ ماہ رمضان کی مستحب نمازوں اور نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے (سن 14 ہجری)تو اس نے دو افراد کو امام جماعت نامزد کیا تھا جن میں سے ایک تمیم داری تھا جو کہ راہب اور نصرانی عالم تھا اور جو تازہ مسلمان ہوا تھا۔

وہ ہزار درہم کی مالیت کا  لباس پہن کر بڑے جلال اور مزیّن ہو کر نماز جماعت میں آتا اور مسلمانوں کی امامت کرتا تھا۔(1) عثمان کی خلافت کے اختتام تک تمیم مدینہ میں تھا لیکن اس کے قتل ہو جانے کے بعد وہ شام چلا گیا اورر  40ھ کو وہیں اس دنیا سے چلا گیا۔(2)

ابوریہ لکھتے ہیں:قابل توجہ نکات میں سے یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے  اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تازہ مسلمان ہونے والے تمام یہودی  کاہن ،عیسائی اورسب ہوس پرست مسلمان شام چلے گئے۔

 یہ واضح ہے کہ یہ کام خدا کے لئے نہیں بلکہ فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں میں نفرت و بغض کی آگ بھڑکانے کے لئے تھا تا کہ اس کے ذریعے اموی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوں اور ان کے کشکول بھی اموی حکمرانوں کے دین سے بھر جائیں۔!(4)(3)

--------------

[1] ۔  تاریخ ابن عساکر:ج10ص479، تہذیب ابن عساکر:ج3ص360، سیر اعلام النبلاء:ج2س447، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس :ج6ص87

[2]۔  الاعلام(زرکلی):ج2ص71،اسد الغابہ: ج1ص25

[3]۔ اضواء علی السنّة المحمدیة:182(حوالہ)

[4]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:103

۱۰۹

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

یہ اموی حکمرانوں کا غیر اسلامی کردار و رفتاراور ان کے عیسایوں سے تعلقات صرف ولید تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس سے قبل وبعد بھی اسی کی طرح ہی تھے جنہوں نے ان کی مدد سے غصب کی گئی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال لیا۔

 ولید سے پہلے ہشام نے بھی عیسائیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کو اتنا بلند مقام دیاکہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کا حاکم بنا دیا ۔ جو کہ عیسائی زادہ تھا اور وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کی بھی حمایت اور طرفداری کرتا تھا۔

کتاب ''امویاں....''میں لکھتے ہیں: ہشام کی خلافت کے کچھ عرصہ بعد  خالد بن عبداللہ قسری  724 سے 738 م تک عراق کا حاکم رہا ۔ بعض موقعوں پر وہ مشرقی ریاستوںکی بھی مکمل نگرانی کرتا تھا لیکن کہتے ہیںکہ بعض دوسرے مواقع میں خراسان اس کی حکومت سے خارج ہوگیا تھااور خلیفہ بذات خود وہاں کا حاکم مقرر کرتا تھا۔تقریباً اموی دور کے آغاز سے ہیشام میں خالد کا خاندان اثر و رسوخ رکھتا تھا اور ولید کی خلافت کے زمانے میں خالد کچھ عرصے تک مکہ کا حاکم تھا۔ہشام کی طرح عراق میں مال پر قبضہ جمانے اور مال و دولت کے حصول کی خاطر چونچیں مارنے میںاس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنت روائی میں اس کے بارے میں بھی دشمنانہ نظر کا احساس ہوتا ہے کہ کبھی اسے اسلام کا دشمن تو کبھی عیسائیوں،یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کا طرفدار بیان کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک بار اس نے عیسائیت کو اسلام پر برتری دی اور اپنی عیسائی ماں کے لئے کوفہ میں مسجد کے پیچھے ایک کلیسا بنوایا۔بعض کتابوں میں اسے زندیق شمار کیا گیا۔یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ جس میں اکثر تردید و تنازع رہاہے نیز اسے مانوی حتی کہ ملحدانی افکار میں بھی دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں:اسے اپنے خاندان سے اتنی محبت تھی کہ حتی اگر خلیفہ اسے کعبہ کو تباہ کرنے کا حکم دیتا تو یہ اس کے بھی تیار تھا۔لکھتے ہیں کہ جب یہ مکہ کا حاکم تھا  تو اس نے زائرین کے لئے الگ سے پانی فراہم کیا تا کہ اس اقدام سے زمزم کے مقدس کنویں کی اہمیت کو کم کر سکے اور یہ بتائے کہ اس کا پانی کڑوا ہے،اور اس نے یہ اعلان کیا جو پانی اس نے فراہم کیا ہے وہ خدا کے نمائندے(خلیفہ) کے حکم سے ہے!(1)

--------------

[1]۔ امویان؛ نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:99

۱۱۰

 ''نہایت الأدب''میں لکھتے ہیں:خالد کی ماں عیسائی کنیزتھی(جس کا تعلق روم سے تھا اور خالد کے باپ نے اسے اسیر بنا لیا اوپھر خالد بھی اسی سے پیدا ہوا)خالد کا بھائی اسد بھی اسی عورت سے پیدا ہوا لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور جب وہ مرا تو خالد نے اس کے لئے اس کی قبر پر کلیسا بنوایا جس پر لوگوں نے اس کی مذمت کی اور فرزدق نے یہ اشعار کہے:''اے خدائے رحمن!اس سواری کی پشت شکستہ کردے جو خالد کو سوار کروا کرہمارے لئے دمشق سے لائی،کس طرح وہ لوگوں کی امامت کرنا چاہتا ہے جس کی ماں کا ایسا دین ہے کہ جوخدا کو یکتا نہیں مانتی؟ وہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنواتا ہے جس میں عیسائی ہیں اور جو کفر سے مساجد کے مینار تباہ کر رہا ہے''

 خالد نے حکم دیا تھا کہ مسجدوں کے مینار تباہ کر دیئے جائیں اور اس  کی وجہ یہ تھی کہ کسی شاعر نے اس بارے میں شعر کہے تھے:

 ''اے کاش!میری زندگی مؤذنوں کے ساتھ ہوتی کہ وہ کسی بھی شخص کوگھر کی چھت پر دیکھ سکتے ہیں ،یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا دلکش نازنین ان کی طرف اشارہ کرتیںہیں''جب خالد کو اس شعر کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بہانہ بنا کر مساجد کے مینار تباہ کرنے کا حکم دیا اور جب خالد تک یہ خبر پہنچی کہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنوانے کی وجہ سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں تو اس نے کہا:خداوند ان کے دین و آئین (اگر تمہارے دین و آئین سے بدتر ہے)پرلعنت کرے اوروہ معذرت کے طور پر یہ بات کہتا تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی بھی شخص کا خلیفہ و جانشین اس کے خاندان میں اس کے رسول  سے محترم ہے۔اور اس کی مراد یہ تھی کہ ہشام رسول خدا(ص) سے محترم ہے!ہم ان خرافات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔(1) حجاج بن یوسف سے بھی یہی بات عبدالملک اور رسول خدا(ص)کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔خالد بن عبداللہ قسری (جو عراق اور مشرقی علاوے میں حکومت کرتا تھا) حجاج کی سیاست پر عمل کرتا تھا۔

--------------

[1]۔ نہایت الأدب: ج6 ص۳۷۰

۱۱۱

 خالد ایک عام انسان تھااور جس طرح لکھا ہے کہ حتی وہ قرآن کو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا! ایک دن خطبہ پڑھتے وقت اس نے ایک آیت غلط پڑھی  اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے دوستوں میں سے قبیلہ تغلب کا ایک شخص اٹھا اور اس سے کہا:امیر؛اپنے لئے کام آسان کرو ،میں نے کوئی عاقل انسان نہیں دیکھا جو قرآن کوحفظ کرکے پڑھے۔حفظ کرکے قرآن  پڑھنااحمقوں کا کام ہے۔! خالد نے کہا:تم نے ٹھیک کہا ہے۔(2)(1) عراق میں خالد کے مظالم اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ہشام نے مجبوراً اسے برطرف کردیا۔(3)

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

 ''الکامل''میں مبرد نے نقل کیا ہے:خالد بن عبداللہ قسری جب عراق کا حاکم بنا تو وہ منبر سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتا تھا اور کہتاتھا:''أللّٰهم علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن هاشم، صهر رسول الله علی ابنته و أبا الحسن و الحسین'' اس کے بعد   وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر کہتا تھا: کیا یہ محترمانہ انداز نہیں ہے!(4)

 یہ کلام رسول اور آل رسول علیہم السلام سے اس کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔

--------------

[1]۔ ابولفرج اصفہانی: ج19ص60، تاریخ تمدن اسلامی سے اقتباس: ج4 ص80

[2] ۔ نہ  صرف خالد بلکہ بنی امیہ کے کچھ خلفاء صحیح سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی۔

اس بارے میں نقل ہونے والے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک مروان اپنی گفتگو اور محاوروں کے دوران بہت غلطیاں کرتا تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دوران ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی توہین کی اور کہا:''انه لصّ ابن لصّ'' اور کلمہ'' لص''ّ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ۔ لوگ اس پر بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا:ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ان دو باتوں میں سے کس پر ہنسیں؛اس نسبت پر جو تم  نے علی بن ابی طالب علیہما السلام سے دی ہے یا کلمہ لصّ پر جسے تم نے مجرور پڑھا ہے۔ (معاویہ و تاریخ: 147)

[3] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:218

[4]۔ معاویہ و تاریخ: 147

۱۱۲

ولید اور اس کے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کے مسلمانوں سے خاص دشمنی تھی۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:ولید نے ایک خط میں حجاز پر اپنے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو حکم دیا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی حجاز میں ہیں انہیں وہاں سے نکال کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دو۔پس خالد نے عثمان بن حیّان مرّی کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی مدینہ میں موجود ہیں انہیں نکال دے اور اس نے بھی ان تمام لوگوںکو ان کے اہل و عیال ہمراہ حجاج کے پاس  بھیج دیا ،تاجروں اور غیرتاجروں میںسے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اعلان کیا کہ جو بھی کسی عراقی کوپناہ دے گا وہ امان میں نہیں ہے۔ اسے جیسے ہی خبر ملتی کہ مدینہ والوں میں سے کسی کے گھر میں  کوئی عراقی ہے تو وہ اسے فوراً نکال دیتا تھا۔(1)

 بنی امیہ کے کارندے کلیسا بناتے تھے،قرآن کو حفظ کرکے پڑھنا احمقوں کا کام سمجھتے تھے اور فرزدق شاعر کے قول کے مطابق مساجد کے میناراپنے کفر کی وجہ سے تباہ کر دیتے تھے، خانۂ خدا کو آگ لگاتے تھے، پیغمبراکرم(ص) کے آثار نیست و نابود کرتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا وہ دین کے احکامات کو تبدیل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو خدا کا خلیفہ سمجھتے تھے اوروہ جو کچھ کہتے تھے قوم  بھی بغیر سوچے سمجھے اسے مان لیتی تھی!!

کیا ایسے لوگ مذہبی شعور رکھتے ہیں؟!

--------------

[1]۔ تاریخ یعقوبی: ج2ص246

۱۱۳

چوتھاباب

دشمنوں کے دو بنیادی حربے

    1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی-    اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک-    جہمیّہ-

    اموی دور میں معتزلہ-    مرجئہ ، اموی دور میں-    بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

    مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی-    معاشرے میں مرجئہ کا کردار-    بہشتی کافر!-

    مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی-    مرجئہ کے فرقے-    ابو حنیفہ اور مرجئہ-

    مرجئہ اور شیعہ-    مرجئہ اور شیعہ روایات-    امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

    عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

    اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.     خارجی کتابوں کا ترجمہ

    مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

    2- پیشنگوئیوں کوچھپانا

    الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

    نتیجۂ بحث

۱۱۴

 1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی

جوافراد یہودیوں کی تاریخ سے آشنا ہیں اور انہیں اسلام کے آئین سے ان کی دشمنی کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے خلاف مبارزہ آرائی کی ۔ ان کے پاس جو وسیلہ بھی تھاانہوں نے اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کیا تاکہ نہ صرف یہودی اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان ان کی ترقی کا راستہ روک سکیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی ہاری ہوئی سیاسی وفوجی طاقت کا کچھ سامان کر سکیں تا کہ غیر یہودی اقوام پر بھی اپنا حکم چلا سکیں!

اس قدرت طلبی کی بنیاد پر وہ مختلف مکر و فریب اور چال بازیوں کے مرتکب ہوئے تا کہ شاید ان کی دیرینہ خواہشات پوری ہوجائیں اور ان کے  سینے میں موجود دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔

ان کی ایک  سازش (جسے وہ مناسب منصوبوں کے ساتھ انجام دیتے تھے) مسلمانوں کے درمیان عقیدتی تفرقہ پیدا کرنا تھا ۔

 مسلمانوں میں مختلف فرقے بنانے میں عیسائیوں کا بھی ہاتھ تھا جو ان میں تفرقہ بازی اور عقیدتی اختلاف پیدا کرتے تھے۔

 ان منصوبوںسے یہودیوں کے دو اہم مقاصد تھے:

1۔ اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور مختلف گروہ بنانے سے نہ صرف ان کے ہاتھوں سے طاقت چلی جائے گی بلکہ اس عملسے مسلمان اصل دین اور اسلام کی بنیادمیں شک کرنے لگیں۔

لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ایک ایسا حربہ تھا کہ جسے یہودی صرف ابتدائے اسلام ہی سے نہیں بلکہ ظہوراسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے تا کہ ظہور اسلام کے بعد لوگ اس میں شک و شبہ کریں بلکہ اسے منکرانہ نگاہوں سے دیکھیں۔

2۔ اعتقادات میں اتحاد و یگانگت کو ختم کرکے انہوں نے نہصرف مسلمانوں کے اتحاد کو برہم کر دیا بلکہ ان پر اپناغلبہ پانے کا راستہ بھی ہموار کر لیا۔

۱۱۵

  اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک

 کتاب''دولت عباسیان''میں لکھتے ہیں:زندیق اموی دور میں وجود میں آئے اور عباسیوں کے پہلے دور میں ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئیں۔

 .....حقیقت میں زندقہ منظم مذہبی افکار کے قالب میں ایک سیاسی تحریک تھی جو اپنے پیروکاروں کو مانوی مذہب ،دینی اعتقاد کے محتویٰ اور ان کی فکری میراث کی طرف دعوت دیتی تھی۔اس اعتبار سے کہ اسلامی میراث کی جاگزین عربی ہے۔اور کبھی فلسفی دعوت کے پیچھے سیاست چھپی ہوتی تھی کیونکہ زندقہ نے فلسفہ کا لبادہ اوڑھ کرخود کو چھوپایا ہوا تھا اوردر حقیقت بعض انقلابی پہلوؤں سے مجوس تھے کہ جن کا مقصد اسلامی حکومت کو نابود کرنا اور اس کی جگہ ایرانی حکومت کو لانا تھا۔

 یہ واضح ہے کہ زندقہ ایک مانوی تحریک تھی جس نے اسلامی فتوحات کے بعد دوبارہ سے عراق اور ایران کے کچھ علاقوں میں جگہ بنا لی۔اس رجحان کے انتشار کی وجہ مذہبی آزادی تھی کہ فتوحات کے بعد مختلف مذاہب کے پیروکار وں کو اس کا سامنا تھا

اورجو معاشرے میں ایک طرح کے فکری و نظری  اختلافات اختتام پذیر ہوا۔(1)

اس بناء پر کہ زندیقی ایک فرقہ کے عنوان سے اموی دور میں وجود میں آئے،اب چاہے اسے مانوی تحریک سمجھیں یا مانوی و غیر مانوی تحریک سے اعم سمجھیں۔

جہمیّہ

 اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار  اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!

--------------

[1] ۔ دولت عباسیان:75

۱۱۶

 ''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل  اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!

 اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!

اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔

     وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں   کوئی کمی  واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!

     اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔

     شہرستانی کہتے ہیں:(1) اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔     اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ  جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے  تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں  کرتا!

--------------

[1] ۔  الملل و النحل:801، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج1ص198

۱۱۷

     وہ کہتا تھا:(1) ایمان ایک  قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں  مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے  اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!

     اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور   نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔

     وہ کہتا تھا:(2) ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی  ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔

     وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔

     اشعری کہتا ہے:(3) یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں  بلکہ  حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔

--------------

[1]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج4 ص204

[2]۔ الملل و النحل:ج1ص80، مقالات الاسلامیّین: ج1ص198

[3]۔ مقالات الاسلامیّین: ج1 ص312، الفرق بین الفرق:128 ، الملل و النحل: ج1ص80

۱۱۸

خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔

 وہ کہتا تھا:(1) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔(2)

اموی دور میں معتزلہ

 بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔

 حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔

 ''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ  گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟

--------------

[1]۔ الملل والنحل: ج1ص80

[2]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:79

۱۱۹

واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔

     واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔

     ''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔

 ''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبر(ص) سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔(1)

مرجئہ ، اموی دور میں

مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔

لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ  کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126