حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر28%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50783 / ڈاؤنلوڈ: 3412
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بعثت کی ابتدا ء اور حضرت علی(ع) کی وزارت

حضرت علی(ع) کی وزارت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث الدار‘‘ ہے۔ وہی دن کہ جس میں پیغمبراکرم(ص) نے اپنی بعثت کے آغاز میں قریبی رشتہ داروں کو جمع کر کے فرمایا:’’فایّکم یوازرنی علیٰ امری هذا؟‘‘ تم میں سے کون اس کام میں میرا وزیر بنو گے ؟

امیر المومنین(ع) نے عرض کیا :’’انا یا نبیّ الله!اکون وزیرک علیه ‘‘ میں ، اے اللہ کے رسول(ص)!اس مسئولیت میں ، میں آپ(ص)کا وزیر بنوں گا ۔

پیغمبر(ص)نے فرمایا:

’’انّ هٰذا اخی و و صیّی و خلیفتی فیکم فاسمعو ا له و اطیعوا ۔بے شک یہ میرے بھائی ، وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں ، پس اس کی بات پر کان دھرو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تفسیر بغوی: ۴/۲۷۸ ۔ نیز دوسرے مصادر۔

۴۱

حلبی ، اپنی سیرہ میں اس واقعے کو یوں نقل کرتا ہے :

اس وقت علی(ع) نے آمادگی کا اظہار کیا تو پیغمبر(ص) نے اس سے فرمایا :

’’اِجلس!فانت ا خی و وزیری و وصیّی و وارثی و خلیفتی من بعدی ۔بیٹھ جا!تو میرا بھائی، وزیر ، وصی ، وارث اور میرے بعد میرا جانشین ہوگا۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔السیرۃ الحلبیہ: ۱/ ۴۶۱

۴۲

علی(ع) کی وزارت اور پیغمبر(ص) کی دعا

تاریخ مدینہ دمشق ، المرقاۃ ، درالمنثور اور ریاض النضرۃ لکھنے والوں نے یہ روایت ابن مردویہ ، ابن عساکر ، خطیب بغدادی اور دوسروں سے نقل کی ہے کہ اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول خدا(ص) کو درگاہ الٰہی میں یہ عرض کرتے ہوئے سنا :

’’اللّهمّ انّی اقول کما قال اخی موسیٰ:اللّهمّ اجعل لی وزیراً من اهلی اخی علیّاً،اشدد به ازری و اشرکه فی امری کی نسبّحک کثیراً و نذکرک کثیراً، انّک کنت بنا بصیراً ۔ خداوندا!میں تجھ سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی موسیٰ نے کہا تھا: خدایا!

میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے میرے بھائی علیؑ کو، اس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط بنا، اسے میرے کام میں شریک فرما تاکہ زیادہ تیری تسبیح کروں اور زیادہ تیری یاد میں رہوں ، بے شک تو ہمیں دیکھنے والا ہے۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق:۱/۱۲۰۔۱۲۱، حدیث ۱۴۷، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی۔ الدر المنثور: ۵/۵۶۶؛ الریاض النضرۃ: ۳/ ۱۱۸

۴۳

مخصوص منزلت

امیر المومنین(ع)،پیغمبر اکرم(ص)کی نسبت سے ایک مخصوص مقام کے حامل ہیں جو آپ(ع) نے اپنے فصیح و بلیغ خطبے میں بیان فرمایا ہے :’’تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔‘‘

یہ وہی قریبی رشتہ ہے جو موسیٰ و ہارون(ع) کے واقعے میں حضرت موسیٰ نے خدا وند عالم سے طلب کرتے ہوئے عرض کیا :

’’وَاجْعَل لِی وَزِیراً مِن اَهلِی هٰارُونَ اَخِی ۔اور میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے، میرے بھائی ہارون کو۔‘‘

اسی وجہ سے ، جیسا کہ بعد میں بیان کریں گے، پیغمبر(ص) نے اپنی اور علی(ع) کی برادری کا اعلان کرتے وقت حدیث منزلت ذکر فرمائی۔

خصوصی برتری

امیر المومنین(ع) کی خصوصیات ان باتوں سے کہیں بلند ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’واُولُوا الاَرحٰامِ بَعضُهُم اَولیٰ بِبَعضٍ فِی کِتَابِ اللّٰهِ مِنَ المُومِنِین وَ المُهاجِرِینَ ۔ اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ احزاب: ۶

۴۴

یہ تین خصوصیات (ایمان ، ہجرت اور قرابت)حضرت علی(ع) کے سوا کسی پر منطبق نہیں ہو سکتیں۔ اس بناء پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (ص)کے بعد خلافت وولایت کے مضبوط پایوں میں سے ایک پایہ نزدیکی رشتہ ہونا ہے۔

فخر رازی نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ (فرزند امام حسن(ع) ) کے ، جو عالم و فاضل اور قرآن کریم سے آشنا شخص تھے، استدلال کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جناب محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ نے عباسی خلیفہ منصور کو لکھے گئے ایک خط میں اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔

منصور نے ان کے جواب میں لکھا :پیغمبر(ص) کی نسبت ، علی(ع) سے زیادہ عباسؓ حقدار ہے ؛ کیونکہ عباس ؓ ،آنحضرت(ص) کے چچا جبکہ علی(ع)، چچا کے بیٹے ہیں۔

فخر رازی ، اگرچہ عباسی نہیں ہیں ؛ لیکن اس نے عباسیوں کے دعویٰ کو قبول کیا ہے۔ اس کا یہ عمل بنی عباس سے دوستی کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ بخاطر ۔۔۔!

البتہ خود فخر رازی کو بخوبی علم ہے کہ عباس اگرچہ حضور پاک(ص) کے چچا ہیں ؛ لیکن مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؛ کیونکہ وہ فتح مکہ کے بعد مدینہ آئے ہیں اور پیغمبر فرما چکے تھے کہ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں ہے ۔ اس بنا ء پر مہاجرین میں سے واحد شخص جو حضور(ص) کا قریبی رشتہ ہے وہ تنہا علی(ع) کی ذات گرامی ہے ۔

انصاف کی رو سے دیکھا جائے کہ پیغمبر(ص) کے اصحاب میں علی(ع) کے علاوہ مؤمن اور مہاجر بہت سارے ہیں ؛ لیکن ان میں سے کوئی بھی رسول خدا(ص) کا قریبی نہیں ہے ۔ فقط عباس رہ جاتا ہے ؛ لیکن وہ مہاجر نہیں ہے پس یہ آیت علی(ع) کے سوا کسی اور پر قابل انطباق نہیں ہے ۔

۴۵

قابل ذکر ہے کہ رازی اس مقام پر عباسیوں اور منصور عباسی سے موافقت کر لیتا ہے ؛ جبکہ ہاشمیوں اور علویوں کی مخالفت کرتا ہے تاکہ ، بزعم خود ، اس آیت سے امیر المومنین(ع) کی امامت پر استدلال نہ کیا جا سکے ۔

بنا ء بر ایں ، آیہ شریفہ’’اولوا الارحام‘‘ آپ(ع) کی امامت پر ایک اور دلیل ہو جائے گی اور یہیں سے آشکار ہو جاتا ہے کہ امیر المومنین(ع) کا اس آیت سے استدلال کرنا اور قرابت کا مسئلہ اٹھانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیت امامت و ولایت کے مسئلے میں دخل رکھتی ہے ۔

اس کے علاوہ یہ کہ عباس نے غدیر خم میں آپ(ع) کی بیعت کی اور اسی بیعت پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کی بیعت نہیں کی اور ماجرائے سقیفہ کے وقت جناب امیر المومنین(ع)کی خدمت میں آکر آپ(ع) کی تجدید بیعت کرنا چاہی۔

اس لحاظ سے عباس ؓ ، پیغمبر(ص) کے بعد امامت و خلافت کے مستحق نہ تھے ۔

امور میں شرکت

ایک مقام جو کسی اور آیت میں بیان ہوا ہے وہ یہ کہ موسیٰ نے جب خدا سے چاہا کہ ہارون(ع)کو ان کے کاموں میں شریک کردے تو عرض کیا :

( وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی ) اور اسے میرے کام میں شریک قرار دے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۲

۴۶

یعنی ہارون(ع) ان تمام مسئولیتوں اور تمام مناصب و مقامات میں شریک تھے جو حضرت موسیٰ کو دئیے گئے تھے ۔ اس حدیث کے تحت یہ مقام امیر المومنین(ع) کے لئے ثابت ہوگا اور آپ(ع) پیغمبری کے علاوہ تمام امور میں پیغمبر اکرم(ص) کے یاور ہوں گے ۔اس بناء پر پیغمبری کے علاوہ ہر منصب و مقام میں امیر المومنین(ع) پیغمبر خدا(ص) کے شریک ہوں گے۔

رسول خدا(ص) کی ایک ذمہ داری قرآن کریم کی تعلیم دینا اور اس کی تفسیر کرنا تھا ؛ جیسا کہ فرما رہا ہے :

( وَأَنزَلْنَا إلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔اور ہم نے قرآن آپ پر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان کی طرف جو کچھ اتارا گیا ہے اسے روشن کردیں اور شاید یہ لوگ غور کریں۔ ‘‘(۱؎)

اسی طرح آنحضرت(ص) کو حکمت عطا کی گئی ہے :

( وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) ۔اور خدا نے تم پر کتاب وحکمت نازل فرمائی ہے۔‘‘(۲؎)

نیز قرآن مجید کے مطابق آنحضرت (ص) کی ایک ذمہ داری ، اختلافات اور تنازعات کے موقع پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے:

( لِیُبَینَِّ لَهُمُ الَّذِی یخَْتَلِفُونَ فِیه ) تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ۔‘‘(۳؎)

اسی طرح آپ(ص) ،لوگوں پر حاکم تھے :

( إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّهُ ) ۔ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔‘‘(۴؎)

____________________

۱۔نحل: ۴۴

۲۔ نساء: ۱۱۳

۳۔ نحل : ۳۹

۴۔ نساء: ۱۰۵

۴۷

اور ایک جہت سے پیغمبر(ص) لوگوں پر خود ان سے زیادہ برتری رکھتے ہیں اور آپ(ص) کا حکم سب لوگوں پر نافذ ہے :

( النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُومِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ) ۔نب ی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔۔۔۔‘‘(۱؎)

ان تمام مقامات اور دیگر مناصب میں جو قرآن ، پیغمبر(ص) کے لئے ثابت کرتا ہے امیر المومنین(ع) ، پیغمبر(ص) کے شریک ہیں اور آپ(ع) خود ان مقامات کے حامل ہوں گے ۔

ایک مختصر جملے میں یہ کہ حضرت علی(ع) ،نفس پیغمبر(ص) ہیں اور نبوت کے علاوہ تمام مقامات و کمالات میں پیغمبر(ص) کے ساتھ شریک ہیں ۔یہ وہ نکتہ ہے جو پیغمبر اکرم(ص) نے روز مباہلہ اپنی جان اور نفس کے طور پر علی(ع) کا تعارف کرا کے بیان فرمایا ہے:

( فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَأَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا وَنِسَاء کُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ) ۔تو آپ کہہ د یں:آو ہم اپنے بیٹوںکو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاو، ہم اپنے نفسوںکو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو ۔‘‘(۲؎)

اس بناء پر امیر المومنین(ع)تمام مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان پر آپ(ع) کا حکم نافذ ہے ۔ آپ(ع) ہی قرآن کے مفسر ومبین ، احکام کوبیان کرنے والے، مطلق حاکم اور اختلافات کے وقت مرجع ہوں گے ۔

____________________

۱۔احزاب: ۶

۲۔ آل عمران: ۶۱

۴۸

اب کیا ایسے شخص کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی اور پیغمبر(ص) کا جانشین ہوگا ؟

کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایسے شخص کو کنارے لگا دیا جائے اور ایک ایسے کو خلیفہ بنا دیا جائے جو ذرہ برابر ان مقامات کا حامل نہیں ہے اور اس نے ان مقامات کی خوشبو تک نہیں سونگھی ہے ؟

پیغمبر اکرم(ص) کے بعد امیر المومنین(ع) کی موجودگی گویا خود پیغمبر(ص) کی موجودگی ہے کہ وہ جان پیغمبر (ص) اور آپ(ص) کے شریک کار تھے ۔

پیغمبر اکرم(ص) کی پشت پناہی

حضرت موسیٰ نے خدا سے جن چیزوں کی درخواست کی تھی ، ان میں ایک حضرت ہارون(ع) کے ذریعے اپنی پشت پناہی کی دعا تھی :( اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی ) ۔اسے میرا پشت پناہ بنا دے!‘‘(۱؎)

خدا نے بھی آپ(ع) کی دعا قبول کی اور فرمایا :( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ ) عنقریب ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے۔‘‘(۲؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۱

۲۔ قصص: ۳۵

۴۹

اس بارے میں مروی روایات کے علاوہ مندرجہ بالا آیت ہی کی بنا پر پیغمبر(ص) کی پشتیبانی کا مرتبہ حضرت علی(ع) سے مخصوص ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ختم رسالت کا بوجھ پیغمبر خاتم (ص) کے کندھوں پر رکھا گیا ہے ، یہ تمام مسئو لیتوں سے بہت بڑی اور بہت بھاری مسئولیت تھی اور پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے سوا کوئی اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔

جیسا کہ ذکر شدہ احادیث میں گزر گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے دعا فرمائی کہ امیر المومنین(ع) اس بڑی مسئولیت کے سلسلے میں آپ(ص) کا پشت پناہ اور قوی بازو بن جائے ۔

لیکن واضح ہے کہ پیغمبر خاتم (ص) کی پشت پناہی اور حضرت موسیٰ کی پشت پناہی ، بہت ہی مختلف ہے اور یہ اختلاف اس اختلاف کے مطابق ہے جو ان حضرات کے مقام و مرتبے میں ہے ۔

امور کی اصلاح ودرستگی

ساتواں مرتبہ، جو آیت سے استفادہ ہوتا ہے ، امور کی اصلاح اوردرستگی ہے۔ خداوند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے خدا سے عرض کیا :

( وَقَالَ مُوسَی لأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ ) ۔اور موس یٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا۔(۱؎)

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۵۰

چنانچہ ہارون(ع) ،امت موسیٰ کے مصلح تھے اور آپ(ع) ، حضرت موسیٰ کی جگہ پر اس کی امت کے امور کی اصلاح اور انہیں منظم کرتے تھے ۔ اس امت میں یہ مقام علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے حوالے کیا گیا ہے ۔ آپ(ع) کو امت پیغمبر(ص) کے امور کی اصلاح و آراستگی کرنا ہے ، فتنوں کے آگے کھڑے ہو کر روکنا ہے اور گمراہی و انحرافات سے لوگوں کو بچا کر رکھنا ہے ۔

یہ واضح ہے کہ جو شخص ہرکام میں مطلقًا مصلح (اصلاح کرنے والا) ہو تو حتما ًاسے ہر حال میں صالح (اصلاح شدہ ) ہونا چاہئے ؛ اسی طرح جو مطلقًا ہر شعبے میں مصلح ہو اسے چاہئے کہ ہر چیز کی خوبی و برائی سے خوب آ گاہ ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلاح کے نام پر برائی کی ترویج کر بیٹھے ۔

اس لحاظ سے یہ مقام ، امیر المومنین(ع) کی عصمت اور علم لدنی کا اقتضا کرتا ہے ۔

علم و آگہی

ہارون(ع) کی منزلتوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ(ع) حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں سے داناتر اور آ گاہ ترین فرد تھے ۔ اور حضرت علی(ع) کے ہارون(ع) کی جگہ لینے سے یہ مقام آپ(ع) کے لئے بھی ثابت ہوجانا چاہئے ۔ آپ(ع) نے خطبہ قاصعہ میں اس فضیلت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے :

’’ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اَتَّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اَمَّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِهِ، عَلَمًا، وَیَامُرُنِی بِالْاِقْتَدَائِ بِهِ ۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کابچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۵۱

ایک اور خطبے میں ، جبکہ بات غیب کی ہوئی ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں :

’’فَهَذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِی لَا یَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَ مَا سِوَی ذَلِکَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ نَبِیَّهُ فَعَلَّمَنِیهِ وَ دَعَا لِی بِأَنْ یَعِیَهُ صَدْرِی وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِی ۔یہ وہی علم غیب ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور ( خدا نے جو علم اپنے لئے مختص کیا ہے ) اس کے علاوہ باقی وہ علم ہے کہ جو خدا نے پیغمبر(ص) کو سکھایا ہے ، پھر آنحضرت(ص) نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اور میرے لئے دعا فرمائی ہے کہ میرے سینے میں اس کی گنجائش ہو جائے اور میرے اعضاء و جوارح اس سے پُر ہو جائے ۔‘‘(۱؎)

آپ(ع) کی اعلمیت اور آگاہی ایک طرف سے اسی خطبہ قاصعہ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جس میں خود آپ(ع) نے آنحضرت(ص) سے نقل فرمایا ہے کہ حضور(ص) نے آپ(ع) سے فرمایا :

’’ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَتَرَیٰ مَا اَرَیٰ ۔( اے علی(ع)!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو۔‘‘(۲؎)

ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم(ص) ، امیر المومنین(ع) سے فرماتے ہیں :

’’انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیاتها من بابها ۔میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں پس جو اس شہر میں آنا چاہے اس پر لازم ہے کہ دروازے سے آئے ۔‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۸

۲۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۳۔تاریخ الخلفاء: ۱۳۵؛ المعجم الکبیر: ۱۱/۶۵ ، ح۱۱۰۶۱؛ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۴

۵۲

یہ حدیث بھی ان احادیث میں سے ہے جو امیر المومنین(ع) کی امامت کو ثابت کرتی ہیں ۔ اس حدیث کے لئے الگ ہی بحث مختص کر دینا چاہئے تاکہ اس کی اسناد و دلالت کی تحقیق و جستجو کی جائے اور اس کو ردّ کرنے کے لئے مخالفین کی طرف سے کی جانے والی کوششوں ، جھوٹے پروپیگنڈوں ، تحریفوں اور ان کی خیانتوں سے پردہ اٹھایا جائے ۔

لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد ہارون(ع) سب سے دانا تر تھے۔ بطور نمونہ مندرجہ ذیل آیت کے ضمن میں کتب تفاسیر سے رجوع فرمائیں!خدا وند متعال قارون کی زبانی نقل فرماتا ہے :

( قَالَ إنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی ) ۔قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے حاصل ہے۔‘‘(۱؎)

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں یہ تصریح کی ہے کہ ہارون(ع) حضرت موسیٰ کے سوا تمام بنی اسرائیل سے دانا تر تھے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ قصص: ۷۸

۲۔ ملاحظہ ہوں: تفسیر بغوی: ۴/ ۳۵۷؛ تفسیر جلالین: ۲/ ۲۰۱ ۔ اور دوسری تفسیریں

۵۳

مقام عصمت

حدیث شریف سے معلوم ہونے والا نواں مقام ’’مقام عصمت ‘‘ہے ۔ واقعاً کیا کسی کو حضرت ہارون(ع) کی عصمت میں شک ہے ؟ اس حدیث میں پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو ہارون(ع) کی طرح اور ان کی منزلت پر قرار دیا ہے ۔ ایک طرف سے کسی ایک صحابی نے مقام عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔ اسی طرح کوئی بھی حضرت علی(ع) کے سوا کسی صحابی کی عصمت کا دعویٰ نہیں کرتا۔

ساتویں مقام کی توضیح میں ہم کہہ چکے ہیں کہ کوئی بھی تمام امور میں مصلح نہیں ہوتا مگر یہ کہ خود تمام امور میں صالح ہو ۔ اب اس مقام کی توضیح میں چند سوالات درپیش ہیں۔

کیا کوئی عاقل مان سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بعد معصوم کی موجودگی میں کوئی غیر معصوم شخص ، امام بن جائے ؟

کیا عقل انسانی تسلیم کرتی ہے کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم، خدا اور مخلوقات کے درمیان واسطہ بن جائے ؟

کیا عقل کی رو سے صحیح ہے اور کیا عقلاء اجازت دیتے ہیں کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم کی پیروی کی جائے ؟

جی ہاں!امیر المومنین(ع) خطبہ قاصعہ میں اسی مقام عصمت کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا ہوں اور نبوت و پیغمبری کی خوشبو کو استشمام کرتا ہوں ۔

۵۴

حقیقتاً کیا یہ معقول طرز عمل ہے کہ ایسے انسان کو کنارے لگا دیا جائے اور ایسے کی پیروی کی جائے جس کو اس منزلت سے تھوڑا سا حصہ بھی نہ ملا ہو ؟

واضح ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) جو کچھ دیکھتے اور سنتے تھے وہ گزشتہ انبیا ء کے دیکھنے اور سننے سے بہت بالا تر اور با اہمیت تھا ۔ پس امیر المومنین(ع) ہر وہ چیز سنتے تھے جو ہمارے پیغمبر(ص) سنتے اور ہر وہ دیکھتے جو ہمارے پیغمبر(ص) دیکھتے تھے ۔یہ نکتہ بیشتر غور و فکر کا متقاضی ہے ۔

مقام طہارت و پاکیزگی

دسویں منزلت ، طہارت و پاکیزگی کی منزلت ہے ۔ خدا ئے متعال نے مسجد الاقصیٰ کے بارے میں جناب ہارون(ع) کے لئے وہ چیزیں حلال کردیں جو دوسروں کے لئے حلال نہ تھیں ، حدیث منزلت کی رو سے یہ فضیلت و خصوصیت بھی امیر المومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے لئے موجود ہونا چاہئے ، اور یہ آپ(ع) اور اہل بیت(ع) کی ایک ایسی خصوصیت ہوگی جو ان بزرگواروں کو دوسروں سے ممتاز کرے گی اور یہ ہستیاں اس جہت سے دوسروں سے برتر ہوں گی ۔

جو فضیلت جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھی وہ امیر المومنین(ع) کے لئے اثبات کرنے کے لئے احادیث میں بہت سارے شواہد ہیں ۔

۵۵

ان میں سے ایک حدیث ’’سدّ الابواب‘‘ہے؛ ایسی حدیث جو شیعہ سنی مورد اتفاق روایات میں مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔ یہاں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے بعض احادیث کی طرف اشارہ کریں گے ۔

ابن عساکر اپنی تاریخ میں یوں نقل کرتے ہیں :ایک دن رسول خدا(ص) نے ایک خطبہ دیا اور اس طرح ارشاد فرمایا :

’’انّ الله امر موسیٰ و هارون ا ن یتبوّا لقومهما بیوتا ً ، و امرها ان لا یبیت فی مسجدهما جنب ، ولا یقربوا فیه النسآء الّا هارون و ذرّیّته ، ولا یحلّ لاحد ان یقرب النسآء فی مسجدی هذا ولا یبیت فیه جنب الّا علیّ و ذرّیّته ۔خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کریں اور انہیں حکم دیا کہ کوئی بھی موسیٰ و ہارون کی مسجد میں جنابت کی حالت میں رات نہ گزارے اور کوئی مسجد میں عورتوں سے مقاربت نہ کرے سوائے ہارون اور اس کی ذرّیت کے ۔ اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ میری اس مسجد میں عورتوں سے مقاربت کرے اور حالت جنابت میں یہاں رات بسر کرے ، سوائے علی(ع) اور اس کی ذرّیت کے ۔‘‘(۱؎)

اس حدیث کو سیوطی نے بھی در منثور میں ،تاریخ ابن عساکر سے نقل کیا ہے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۲۹۶، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۲۔ الدر المنثور: ۴/ ۳۸۴

۵۶

مجمع الزوائد میں ہے کہ علی(ع) نے فرمایا : پیغمبر(ص) نے میرا ہاتھ تھاما اور فرمایا :

’’انّ موسیٰ سال ربه ا ن یطهّر مسجده بهارون و انّی سالت ربّی ا ن یطهّر مسجدی بک و بذرّیّتک ۔موسیٰ نے اپنے پروردگار سے چاہا تھا کہ اس کی مسجد کو ہارون(ع) کے لئے پاک فرما دے اور میں نے اپنے پروردگار سے چاہا ہے کہ میری مسجد کو تمہارے اور تمہاری ذرّیت کے لئے پاک قرار دے ۔‘‘

اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے کسی کو ابوبکر کے پاس یہ کہلابھیجا کہ تم نے جو دروازہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف کھولا ہے اسے بند کرو ۔

ابوبکر نے کہا :’’انّا لله و انّا الیه راجعون‘‘ ، پھر کہا :سن لیا اور اطاعت کی۔ اسی وقت گھر کے دروازے کو مسدود کر دیا ۔پھر حضور اکرم(ص) نے کسی کو عمر اور ابن عباس کے ہاں اسی فرمان کے ساتھ بھیجا ۔

اس موقع پر آپ(ص) نے فرمایا :’’ما انا سددتُ ابوابکم و فتحتُ باب علیّ ، ولکنّ الله فتح باب علیّ و سدّ ابوابکم ۔میں نے تمہارے گھروں کے دروازے بند نہیں کئے اور علی(ع) کا دروازہ کھلا نہ چھوڑا ؛ بلکہ خدا نے علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا چھوڑا اور تمہارے دروازے بن کر دئیے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴

۵۷

یہ واقعہ دوسری بار مجمع الزوائد ، کنز العمال اور دیگر منابع میں کسی اور صورت میں نقل ہوا ہے ۔ مجمع الزوائد میں ذکر ہوا ہے کہ:

جب پیغمبر اکرم(ص) نے تمام اہل مسجد کو نکال باہر کر دیا اور علی(ع) کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرا دیئے تو لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ، لوگ اعتراض کرنے لگے ، حضور اکرم (ص) کو اس اعتراض کی خبر ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا :

’’ما انا اخرجتکم من قبل نفسی ولا انا ترکته، ولکن اللّٰه اخرجکم و ترکه ، انّما انا عبد مامور ، ما امرت به فعلت، ان اتّبع الّا ما یُوحیٰ الیّ ۔میں نے خود ہی سے تمہیں مسجد سے باہر نہیں نکالا اور علی(ع) کو اپنے حال پر باقی نہ رکھا ، بلکہ خدا وند متعال نے تمہیں خارج کردیا اور علی(ع) کے دروازے کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا ۔ میں تو فقط ایک مامور ہوں ، جس چیز کا مجھے حکم دیا جاتا ہے میں انجام دیتا ہوں ، میں فقط مجھ پر ہونے والی وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ ‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۵؛ کنز العمال: ۱۱/ ۶۰۰، حدیث ۳۲۸۸۷

۵۸

دوسرے مصادرنے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے؛ احمد بن حنبل کی ’’مسند‘‘اور ’’المناقب‘‘، حاکم نیشاپوری کی ’’المستدرک‘‘، مجمع الزوائد ، تاریخ مدینہ دمشق اور دوسرے مصادر میں زید بن ارقم سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:

’’اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک گروہ کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے، ایک روز حضور(ص) نے فرمایا :’’سدّوا هذا الابواب الّا باب علیّ‘‘ علی(ع) کے دروازے کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کر دو!

بعض نے آپ(ص) کے اس حکم کے بارے میں مختلف باتیں کیں اور اعتراضات کئے۔ ایسے میں پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے اور حمد و ثنا ئے الٰہی کے بعد ارشاد فرمایا:

’’امّا بعد فانّی امرتُ سدّ هذه الابواب غیر باب علی ، فقال فیه قائلکم واللّٰه ما سددت شیئاً ولا فتحته ولکن امرت بشیء اتبعته ۔میں نے حکم دیا کہ سوائے در علی(ع) کے باقی تمام دروازے بند کردیئے جائیں ۔ تم میں سے بعض نے اعتراض کیا۔ خدا کی قسم!میں نے کوئی دروازہ بند نہیں کیا اور نہ ہی کھولا؛ بلکہ مجھے حکم دیا گیا اور میں نے اطاعت کی ۔‘‘(۱؎)

یہ حدیث سنن ترمذی ، خصائص نسائی اور دوسرے مصادرمیں بھی نقل ہوئی ہے۔(۲؎)

____________________

۱۔ المناقب: ۷۲، حدیث ۱۰۹؛ مسند احمد: ۵/ ۴۹۶، حدیث ۱۸۸۰۱؛ المستدرک: ۳/ ۱۲۵؛ مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴؛ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۲۷۹۔۲۰۸، حدیث ۳۲۴، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی؛ الریاض النضرۃ: ۳/۱۸۵

۲۔ ملاحظہ ہو: سنن ترمذی: ۵/ ۳۰۵؛ خصائص نسائی: ۵۹ / حدیث ۳۸

۵۹

بنا بر این در خانہ علی(ع) کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنے کا ماجرا ، حدیث منزلت کے موارد میں سے ایک ہوگا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی ۔تم میرے لئے اسی مقام پر جس مقام پر موسیٰ کے لئے ہارون تھے؛ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔‘‘

مذکورہ تمام مطالب کے پیش نظر حضرت امیر المومنین(ع) کی امامت پر حدیث منزلت کی دلالت چند جہات سے واضح ہوجاتی ہے:

۱ ۔حضرت امیر المومنین(ع) کی عصمت کی جہت سے،

۲ ۔ دوسروں پر آپ(ع) کی افضلیت و برتری کے حوالے سے،

۳ ۔ان خصوصیات کے ثابت ہونے کی جہت سے جو جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھیں۔

۶۰

چوتھا حصہ:

امیر المومنین(ع) کی خلافت پر

حدیث منزلت کی دلالت

۶۱

حدیث منزلت اور خلافت علی(ع)کا واضح بیان

گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ حدیث منزلت امیر المومنین(ع) کے لئے متعدد ایسے مقامات و منزلتوں کو ثابت کرتی ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا لازمہ آپ(ع) کی امامت و خلافت ہے ۔ یہاں اس بارے میں بات کی جا رہی ہے کہ لوازم سے ہٹ کر یہ حدیث بلاواسطہ اور صراحتاً بھی آپ(ع) کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی خلافت و جانشینی کے مقام کو ثابت کرتی ہے۔ بنا بر ایں یہ حدیث واضح اور کھلے لفظوں میں آپ(ع) کی خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب ہارون(ع)کے مقامات میں سے ایک آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کا جانشین ہونا تھا۔ خدا وند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ہارون(ع) سے یوں فرمایا:

’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ۔میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ،ان کے امور کی اصلاح کرو اور مفسدین کی پیروی نہ کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

اعراف: ۱۴۲

۶۲

پیغمبر(ص) کی جانشینی، فضائل کی اوج

بغیر کسی شک وشبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی خلافت و جانشینی کے لئے قابلیت اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اس طرح کہ جانشین ، آنحضرت(ص) کی جگہ پر بیٹھ سکے اوران کی غیر موجودگی میں تمام امور اورذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے؛ کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ(ص) کا جانشین ، آپ(ص) کی خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے ہے ، اس رو سے لازم ہے کہ وہ پیغمبر(ص) کے ساتھ کوئی تناسب رکھتا ہو تاکہ اس کام سے عہدہ برآ ہو سکے۔

جانشین پیغمبر(ص) کے لئے ضروری ہے کہ فضائل و کمالات میں بلندی پر ہو تاکہ یہ بلند مقام ، اس سے جڑ سکے، اور ایسی صلاحیت کا حامل ہو کہ پیغمبر(ص) کی جگہ اس کو بٹھانا عقل و منطق کی رو سے کوئی بعید کام شمار کیا نہ ہو ؛ کیونکہ یہ واضح ہے کہ کسی ایسے شخص کو کسی کی جگہ بٹھایا جائے جو اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اس کے امور کو بخوبی انجام نہیں دے سکتا ہو اور دونوں کے درمیان کوئی تناسب ہی نہ ہو تو ایسا کیا جانا ، عقل وحکمت سے بعید کام ہے۔

۶۳

قابلیت کا ظہور

اب سوال یہ ہے کہ جناب موسیٰ نے ایسی صلاحیت اپنے بھائی ہارون میں دیکھی تھی اور ہارون کو اس قابل سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی غیر موجودگی میں آپ کا جانشین بن جائے ؟ اور کیا ہارون اس مقام کی اہلیت رکھتے تھے یا نہیں؟

جب خدا وند متعال نے اس خلافت کی تائید فرمائی اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے تو قطعا ایسی صلاحیت ہارون(ع) میں دیکھی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ کہ حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ۔یعنی جناب ہارون ان تمام مسئولیتوں میں ، جوحضرت موسیٰ کے ذمے تھیں ، آپ کے جانشین اور قائم مقام ہیں۔

بنا بر ایں حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کو ، اگرچہ کوہ طور پر جانے کی قلیل مدت کے لئے ہی سہی، اپنا جانشین مطلق قرار دیا ؛ یعنی ہارون(ع) تمام حالتوں میں موسیٰ کا جانشین ہے اور انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کی طرح روحانی کمالات اور معنوی مقامات کے درجات کو طے کیا ہے اس لئے اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو یہ کہ حضرت ہارون(ع) ، خدا کا وہ مورد پسند شخص ہے جسے خدا نے اسی مقام کے لئے لائق انتخاب کیا ہے۔

اگر وہ اس مقام کے حامل ہیں تو جب بھی موسیٰ غائب ہوں انہی کو خلیفہ اور جانشین ہونا چاہئے ، خواہ ان کی کی زندگی میں ہو یا ان کی وفات کے بعد۔

۶۴

یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ ہارون(ع) نے کتنے روز خلافت کی؛ بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس مقام کے لئے قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ طے ہو گیا کہ آپ خدا سے مناجات کرنے کوہ طور جائیں گے تو یہ طے تھا کہ مناجات ۰ روز پر مشتمل ہوگی ؛ لیکن ۰ دن اس پر اضافہ ہو گئے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر موسیٰ نے ہارون کو شروع ہی سے صرف ۰ دنوں کے لئے خلیفہ قرار دیا تھا تو اضافہ کئے گئے دس دنوں میں وہ کس طرح اس مقام پر باقی رہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت فقط تیس روز پر مشتمل نہ تھی؛ بلکہ ہر اس وقت کہ جب موسیٰ غائب ہوں وہ خلیفہ ہوں گے؛ یہاں تک کہ اگر آپ(ع) کی غیبت اس چالیس روز سے زیادہ بھی ہوتی۔

اس رو سے حدیث منزلت کے تحت پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت امیر المومنین(ع) ایسی منزلت رکھتے ہیں یعنی رسول خدا(ص) کی نیابت و خلافت آپ(ع) کے لئے ثابت ہو جاتی ہے اور آنحضرت(ص) کی غیر موجودگی میں فقط آپ(ع) ہی کو جانشین ہونا چاہئے۔

جی ہاں!اس حدیث سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے امیر المومنین(ع) کو اس مقام کے لئے انتخاب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ، آپ(ع) کو اس مقام کا لائق سمجھتا ہے۔

مختصر یہ کہ مقام خلافت ، کوئی سریع الزوال منصب نہیں ہے ؛ بلکہ قرب الٰہی کے درجات اور روحانی مقامات میں سے ہے کہ جو ضروری صلاحیتوں اور رضائے الٰہی کا محتاج ہے۔

۶۵

بلا شرط فرمان برداری

خلافت کا اثر و نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں پر تمام امور میں بغیر کسی قید وشرط کے امیر المومنینؑ کی اطاعت کرنا اور ہمیشہ آپ(ع) کے فرامین پر کان دھرنا واجب ہے۔اور آپ(ع) کی اس اطاعت اور بدون قید وشرط فرمان برداری کا لازمہ یہ ہے کہ آپ(ع) امامت و ولایت عامہ کے حامل ہوں۔

ممکن ہے کوئی یہ گمان کرے کہ ہارون کی بے چون و چرا اطاعت کا واجب ہونا اس لحاظ سے تھا کہ وہ پیغمبر تھے نہ کہ اس لحاظ سے کہ وہ موسیٰ کے جانشین تھے بنا بر ایں اطاعت مطلقہ کا واجب ہونا خلافت کے آثار میں سے نہیں ہے؛ اور چونکہ امیر المومنین(ع) ، پیغمبر نہیں اس لئے یہ اثر آپ(ع) کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

یہ اشکال اگرچہ بعض علمائے اہل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے؛ لیکن یہ ایک فضول اور غلط توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ اگر بلا چون وچرا اطاعت کا واجب ہونا ، خلافت کے نہیں بلکہ نبوت کے آثار میں سے ہے تو پہلے تین خلفا کی اطاعت بھی واجب نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بھی تو پیغمبر نہیں تھے اور امیر المومنین(ع) کی اطاعت بھی خلیفہ چہارم ماننے کے سبب واجب نہیں کہ آپ(ع) بھی پیغمبر نہیں فقط جانشین پیغمبر ہیں۔

۶۶

حدیث منزلت اور علمائے اہل سنت کا نظریہ

اس ضمن میں جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اہل سنت کے علماء اور دانشمندوں نے تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

بطور نمونہ ایک کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ہے جو شیعہ اثنا عشری کے ردّ میں لکھی گئی ہے۔ اس کا مصنف اعتراف کرتا ہے کہ حدیث منزلت حضرت علی(ع) کی خلافت کو ثابت کرتی ہے؛ بلکہ بات اس سے بڑھ گئی ہے، کہتا ہے :کوئی بھی اس حدیث کی دلالت کا انکار نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ ناصبی و دشمن اہل بیت ہو اور اہل سنت ہرگز ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہیں۔(۱؎)

ہماری بات یہاں خلافت بلافصل ثابت کرنے میں ہے یعنی پیغمبر(ص) کے بعد بلافاصلہ آپ(ع) ہی آنحضرت(ص) کے جانشین ہیں؛ لیکن اس حدیث سے اصل خلافت کا اثبات ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ کہ کسی ناصبی یا دشمن علی(ع) سے۔ جیسا کہ تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے اس مطلب کی تصریح کی ہے ۔ اور حدیث کی دلالت کو اسی حد تک قبول کیا ہے۔

اس کے باوجود اہل سنت کی کتب احادیث اور ان کی شروحات سے مراجعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلافت و ولایت پر اس حدیث کی اصل دلالت کو ہی قبول نہیں کرتے اور اس میں مناقشہ کرتے ہیں، یعنی وہی کام کرتے ہیں جس کی نسبت تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے ناصبیوں اور دشمنان اہل بیت کی طرف دی ہے۔

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۰

۶۷

بطور نمونہ اگر حافظ بن حجر عسقلانی کی فتح الباری ، حافظ نووی کی شرح صحیح مسلم اور المرقاۃ فی شرح المشکاۃ سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس حدیث کی شرح و تفسیر میں امامت وولایت پر اس کی دلالت پر اشکال کرتے ہیں ؛ یعنی تحفہ اثنا عشریہ کی وہی بات جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔

اب شرح صحیح مسلم میں نووی کی باتوں پر توجہ کریں ۔ اس کی عین عبارت یااسی طرح کی عبارت اہل سنت کے مذکورہ لکھاریوں نے اپنی مذکورہ کتب میں نقل کی ہے۔

نووی کا بیان ہے:یہ حدیث پیغمبراکرم (ص) کے بعد، علی(ع)کی جانشینی پر کوئی دلالت نہیں کرتی؛ کیونکہ پیغمبر(ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا کہ جب آپ(ص) ، علی(ع) کو مدینہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر تبوک کی طرف جا رہے تھے۔

نووی یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ حدیث ایک خاص مورد میں بیان ہوئی ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہارون(ع) ، علی(ع) کی جس سے تشبیہ دی گئی ہے ، موسیٰ کے بعد خلیفہ نہ تھے ؛ بلکہ وہ موسیٰ کی زندگی میں ہی دنیا سے چل بسے ۔ تاریخ نگاروں کے نزدیک جو بات مشہور ہے اس کے مطابق ہارون(ع) نے حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال قبل رحلت فرمائی۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار کی میقات کی جانب مناجات کے لئے جانا چاہا تو ہارون(ع) کو اپنا جانشین بنایا ۔ پس یہ خلافت و جانشینی ایک خاص محدودے میں ایک خاص واقعے سے متعلق ، موقت جانشینی ہے ، ہماری بحث ’’خلافت و جانشینی ‘‘ پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔شرح صحیح مسلم، نووی: ۱۵//۱۷۴

۶۸

سچ بتائیے !فیصلہ کیجئے!کیا ناصبی کے علاوہ کوئی ایسی بات کر سکتا ہے ؟ ایسی بات کہ کوئی بھی شخص یہاں تک تحفہ اثنا عشریہ کا مصنف بھی اس کی نسبت اپنی طرف دینا نہیں چاہتا، اسی لئے اس نے ناصبیوں کی طرف نسبت دی ہے۔

البتہ ہم ابن تیمیہ اور شیعہ عقائد کو رد کرنے والے دوسرے افراد کی باتیں بھی نقل کریں گے اور ان کی عبارتوں کے مخصوص حصوں کو لکھیں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ناصبی کون لوگ ہیں ۔ اس وقت آپ پہلے سے زیادہ ناصبیوں کے بارے میں آشنا ہو جائیں گے۔

اب تک یہ بیان ہوا کہ حدیث منزلت کس طرح صراحت سے امیر المومنین(ع) کی خلافت و امامت اور ولایت پر دلالت رکھتی ہے کہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ بھی اس دلالت کا منکر نہیں ہے ؛ لیکن آخر میں کہتا ہے :طرف مقابل سے پورا نزاع اور جھگڑا پیغمبر(ص) کے بعد بلا فصل امامت کے بارے میں ہے۔

۶۹

پانچواں حصہ:

حدیث منزلت کو رد کرنے کی علمی کوششیں

۷۰

حدیث منزلت کو ردّ کرنے کی کوششیں

گزشتہ مباحث میں سند اور متن کے لحاظ سے حدیث منزلت کی تحقیق کی۔ اس حصے میں علمی اشکالات اور ان کوششوں کی تحقیق کریں گے جو اس حدیث کو رد کرنے کے لئے اہل تسنن کی طرف سے کی گئی ہیں۔ ان اعتراضات اور اشکالات کو ہم دو مرحلوں میں ذکر کریں گے:

علمی اشکالات

ہم حدیث منزلت کے بارے میں ہر اشکال اور اعتراض قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ علمی بنیادوں پر مشتمل ہوں اور مناظرہ و گفتگو کے بارے میں بیان شدہ قواعد پر مبنی ہوں۔

اس حدیث کی دلالت پر کئے گئے اشکالات بطور خلاصہ تین اشکالات میں سمٹ جاتے ہیں:

پہلا اشکال :مدعا پر حدیث کا دلالت نہ کرنا

مخالفین کے پہلے اشکال کا ماحصل یہ ہے:

اس حدیث سے عمومی طور پر یہ استفادہ نہیں کیا جا سکتا کہ علی(ع) ہر جہت سے ہارون(ع) کی شبیہ ہیں؛ کیونکہ ان دونوں میں فقط ایک جہت سے شباہت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس بات کو بھی قبول نہیں کرتے کہ علی(ع) ، رسول اللہ (ص) کے لئے ہر مقام اور منزل پر وہی حیثیت رکھتے ہوں جو موسیٰ کے لئے ہارون کی حیثیت تھی۔

۷۱

دوسرا اشکال :خلافت کی محدودیت

اس حدیث سے جو خلافت و جانشینی ثابت ہوتی ہے وہ ایک موقتی خلافت ہے جو کسی خاص تقاضے کے مطابق ، محدود وقت کے لئے تھی۔ وہی زمانہ کہ جس میں پیغمبر(ص) زندہ تھے ، اور ہارون(ع) کی خلافت بھی اس وقت سے مربوط تھی جب حضرت موسیٰ اپنے رب سے مناجات کرنے گئے تھے ۔

اس مطلب کی تائید موسیٰ کی زندگی میں ہارون کے انتقال کر جانے سے بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہم کس خلافت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟

تیسرا اشکال :خلافت صرف جنگ تبوک کے وقت سے مخصوص تھی

یعنی یہ کہ حدیث منزلت جنگ تبوک کے وقت صادر ہوئی ہے ۔ جب پیغمبر(ص) مدینہ سے باہر تبوک کی طرف جارہے تھے علی(ع) کو اس لئے مدینہ چھوڑ گئے تھے کہ اپنے شخصی اور گھریلو امور کو سنبھالے اور مدینہ میں رہ جانے والوں کے امور کی تدبیر کرے ۔ اس بنا پر یہ حدیث ، کہ جو ایک معین واقعہ میں بیان ہوئی ہے ، اسی مورد کے لئے خاص ہو جائے گی۔

۷۲

پہلے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ ہارون(ع) سے علی(ع) کی شباہت تمام مقامات و منزلتوں میں نہیں ہے اور یہ شباہت ایسی عمومیت نہیں رکھتی جو ہارون کے تمام مقامات و منزلتوں کو شامل ہو جائے۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس حدیث میں دو ایسی عبارتیں ہیں جو اس کے معنی کو واضح کر دیتی ہیں:

ا۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘

اس عبارت میں اسم جنس’’منزلة‘‘ علم’’هارون ‘‘ کی طرف اضافہ ہوا ہے۔

۲ ۔استثنا :’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

اس استثنا کے ذریعے نبی اکرم(ص) نے ان تمام مقامات میں سے ، کہ جو امام(ع) کو حاصل ہیں ، فقط نبوت کو خارج کر دیا ہے۔ یہی استثنا بتاتا ہے کہ حضرت ہارون(ع) متعدد مقامات کے حامل تھے ان میں سے ایک مقام سے علی(ع) کو الگ رکھا گیا ہے۔

اصول فقہ ، بلاغت اور ادبیات کی کتب میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’استثنا ، عموم کا معیار اور ملاک ہے ؛ یعنی جب کسی جملے میں استثنا آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جملے میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اس کا حکم سب کو شامل ہے جن میں سے فقط ایک مورد کو الگ کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان کتب میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ’’اسم جنس مضاف‘‘الفاظ عموم میں سے ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی کوئی اشکال باقی رہ جاتا ہے؟

۷۳

اس بنا پر اس حدیث میں’’بمنزلة هارون‘‘ اسم جنس مضاف اور صیغہ عموم میں سے ہے۔ اسی طرح استثناء کا جملہ بھی عموم کے وجود کی دلیل ہے ؛ یعنی امیر المومنین(ع) پیغمبری کے سوا تمام مقامات اور منزلتوں میں حضرت ہارون کی طرح ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث تمام منابع میں اسی کیفیت کے ساتھ نقل ہوئی ہے ؛ یعنی یہی دو قرائن حدیث کے تمام متون میں موجود ہیں۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘ اور’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

لہٰذا اس حدیث سے پیغمبر(ص) کی مراد عموم نہ ہونے کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتااور حدیث اپنے مطلب میں صراحت کی حامل ہے؛ لہٰذا پہلا اشکال سرے سے ہی باطل ہو جاتا ہے۔

اہل فن کا نظریہ

ابن حاجب علم اصول اور عربی ادبیا ت کے بزرگوں اور پیشواوں میں سے ہے وہ اپنی کتاب مختصر الاصول میں ، جس کی بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور حوزات علمیہ کی درسی کتب میں شامل رہی ہے ، یوں لکھتا ہے:

محققین کے نزدیک جو صیغے عموم کے لئے وضع کئے گئے ہیں وہ مند رجہ ذیل ہیں: اسم شرط، اسم استفہام، موصولات، وہ جمع جس پر الف لام عہدنہ ہو بلکہ الف لام جنس داخل ہو اور خود اسم جنس جو الف لام یا اضافہ کے ذریعے معرفہ ہو گیا ہو۔(۱؎)

____________________

۱۔ المختصر( بیان المختصر۲) :۱۱۱

۷۴

وہ محققین جو زیادہ مدارک و ماخذ کے خواہاں ہیں وہ ادبی کتب سے ،جیسے جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’الاشباہ و النظائر‘‘اور ’’الکافیہ فی علم النحو‘‘ با شرح محقق جامی کہ جو’’ الفوائد الضیائیہ ‘‘کے نام سے مشہور ہے، رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ کتاب بھی حالیہ وقتوں میں حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔

اصولی کتب میں سے قاضی بیضاوی کی کتاب ’’المنہاج ‘‘اور اسی پر لکھی گئی شرحوں کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت‘‘ کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کتاب ، اصول فقہ میں اہل تسنن کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔

علم بلاغت کی کتب میں سے تفتازانی کی کتب’’ المطوّل فی شرح التلخیص‘‘ اور’’مختصر المعانی فی شرح التلخیص‘‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بھی حوزات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اصول فقہ، نحو اور بلاغت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

استثناء کے بارے میں بھی اصول فقہ کے تمام علمائے ما سلف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عموم کی موجودگی کا معیار استثناء کا وجود ہے۔

یہ بات قاضی بیضاوی کی کتاب ’’منھاج الوصول الی علم الاصول‘‘ اور اس پر لکھی گئی شرحوں میں مرقوم ہے۔ جیسا کہ ’’شرح ابن امام الکاملیہ‘‘ اور دوسری شرحوں میں ہے۔

۷۵

بنا بر ایں ہر وہ مقام ،جہاں پر استثناء صحیح ہو اور حکم افراد خاص میں محصور نہ ہو تو وہ عام ہوگا اور حدیث منزلت میں بھی استثناء پایا جاتا ہے۔

ہاں ! اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث صرف غزوۂ تبوک سے مختص ہے ؛ لہٰذا اس کی عمومیت سے صرف نظر کرنا چاہئے ؛ کیونکہ جب تخصیص کی کوئی دلیل یا شاہد نہ ہو تو پھر لفظ، عموم پر دلالت نہیں کرے گا۔ اس بنا پر حدیث منزلت صرف یہ بیان کر پائے گی کہ علی(ع) کی جانشینی ، مدینے میں باقی رہنے والوں کے لئے تھی تاکہ آپ(ع) بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کے امور کی دیکھ بھال کریں، جیسا کہ ابن تیمیہ کا یہی نظریہ ہے، اسکے علاوہ حدیث سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

واضح ہے کہ یہ اشکال اور دعویٰ دونوں صحیح نہیں ہیں؛ کیونکہ ، ہم بعد میں بھی بیان کریں گے ، حدیث منزلت غزوہ تبوک کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی رسول اکرم (ص) سے روایت ہو چکی ہے۔

ایک اشکال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ استثناء جب استثنائے متصل ہو تو اپنے سابق جملے کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے ؛ جبکہ یہاں استثناء ، منقطع ہے ؛ کیونکہ حدیث میں جو کچھ استثناء ہوا ہے وہ ایک جملہ خبریہ ہے اور جملہ خبریہ کا استثناء، استثنائے متصل ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ بیان کردہ مطالب ، علمی بحثیں ہیں کہ جن سے حقائق کے متلاشی افراد کسی حد تک آشنا ہوں گے۔یہ اشکال دیکھنے میں بہت خوبصورت اور زیبا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو پھر استثناء کی موجودگی کے ذریعے حدیث کی عمومیت پر استدلال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس اشکال کو صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ نے ذکر کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۱

۷۶

لیکن جب ہم حدیث کے مختلف متون کو ملاحظہ کرتے ہیں تو ان میں سے بعض متون میں’’الَّا‘‘ کے بعد جملہ خبریہ کی بجائے صرف’’النّبوّة‘‘ موجود ہے۔

اسی عبارت کے ساتھ نقل ہونے والی حدیث یا احادیث کی اسناد صحیح ہیں؛ جیسا کہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخی کتاب’’البدایة والنهایة‘‘ میں اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱؎)

اس کے علاوہ اہل سنت کے ہاں یہ مسلم بات ہے کہ علم اصول اور بلاغت کی رو سے استثناء میں ’’اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اصل سے دستبردار ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کوئی دلیل یا قرینہ نہ ہو۔

صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ ، جملہ خبریہ کی صورت میں آنے والے استثناء کو قرینہ بنا کر اس ’’اصل اولی ‘‘سے دستبردار ہونا چاہتا ہے؛ لیکن ہم نے جوابا ً کہا ہے کہ بعض متون میں یہ مستثنیٰ جملہ خبریہ کی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اسم ہے۔

استثناء میں ’’ اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے نہ کہ منقطع ہونا، اس سلسلے میں علمائے اہل سنت کی تعبیرات اور تصریحات سے آشنائی کے لئے حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کتاب’’المطوّل‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔(۲؎)

نیز اصول بزدوی کی شرح میں لکھی گئی شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ سے بھی مراجعہ کیا جا سکتا ہے جو اہل سنت کے اصولی مصادر میں سے ہے۔(۳؎)

____________________

۱۔ البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۴۰

۲۔المطوّل: ۲۰۴۔۲۲۴

۳۔ کشف الاسرار: ۳/ ۱۷۸

۷۷

اس کے علاوہ ابن حاجب بھی ’’مختصر الاصول‘‘ میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے۔(۱؎) یہاں تک کہ اگر حدیث کی شرحوں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس حدیث کے شارحین یہ تصریح کرتے نظر آئیں گے کہ یہ استثناء ، منقطع نہیں؛ متصل ہے۔ بطور نمونہ’’ارشاد الساری‘‘ (۲؎) میں قسطلانی کا بیان اور’’فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر‘‘ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔مختصر(بیان مختصر۲) : ۲۴۶

۲۔ارشاد الساری :۶/ ۱۱۷۔ ۱۱۸

۷۸

ان نکات کو پیش نظر رکھنے سے پہلا اعتراض اور اشکال ختم ہو جائے گا اور حدیث منزلت سے تمام مقامات اور منزلتیں ثابت ہوں گی؛ البتہ مذکورہ تمام مباحث، فنی اور تخصصی مباحث ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے اور زیادغور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے قواعد اورمخصوص علمی اصطلاحات پر مسلط ہونا چاہئے۔

دوسرے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کے ایک خاص واقعے میں حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین قرار دیا ہے؛ جس طرح حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کو اپنی زندگی میں جانشین قرار دیا تھا۔ جناب ہارون ، حضرت موسیٰ سے پہلے رحلت کر گئے؛ اس لحاظ سے حدیث منزلت ،اس خلافت و امامت پر دلالت ہی نہیں کررہی جو ہمارا محل نزاع ہے۔

اہل سنت کے بہت سے بڑے بڑے علماء نے یہی اشکال پیش کیا ہے؛ جن میں سے ابن حجر عسقلانی، قسطلانی و قاری؛ نیز ان کے متکلمین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی اشکال نقل کیا ہے۔

اس اشکال کا جواب دو صورتوں میں دیا جا سکتا ہے:

پہلی صورت:

جناب ہارون(ع) کے بیان کردہ مقامات اور منزلتیں متعدد تھیں جن میں سے ہر ایک کے ذریعے حضرت علی(ع) کی خلافت و جانشینی کا پتہ چلتا تھا؛ مثلا: لوگوں کے امور کی اصلاح کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے شریک کار ہونا یا آپ(ع) کی عصمت وغیرہ، اور یہ مقامات کسی معین اور مشخص زمانے تک ہرگز محدود نہیں رہے ہیں۔

۷۹

دوسری صورت:

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خلافت ، ایک روحانی اور معنوی مقام ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں: فلاں شخص خلیفہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شائستگی اور صلاحیت کے ایسے درجے پر پہنچ گیا ہے کہ اس مقام و خلافت کے اہل ہوگیا ہے۔ خلافت پیغمبر دراصل ، خلافت خدا ہے اور مقام الٰہی کی جانشینی کے لئے خود خلیفہ کے اندر شائستگی اور اہلیت کا پایا جانا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کے خلیفہ اور جانشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی حوالے سے آنحضرت(ص) کے ہم پلہ ہو ؛ تاکہ ان کی غیر موجودگی میں لوگوں کی ہدایت کی کر سی پر بیٹھ سکے۔ قرآن کی تاویل اور بطون سے آشنا ہو ؛ تاکہ لوگوں کو اسی طرح قرآن بیان کرے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) بیان کرتے تھے ،اور قرآن کے معارف و اسرار سے پردہ اٹھائے۔

مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) کا خلیفہ وہی شخص ہوگا جو آنحضرت (ص) کی غیر موجودگی میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ بنے؛ کیونکہ حضور اکرم (ص) کی رحلت کے ساتھ اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ؛ لیکن آسمان سے رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوتا؛ لہٰذا کوئی ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جس پر ہر سال ، شب قدر میں روح اور فرشتے نازل ہوں اور تمام امور کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

ایسی شخصیت کے لئے مطلوبہ شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو منتخب کرے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126