حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 40903
ڈاؤنلوڈ: 2132

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40903 / ڈاؤنلوڈ: 2132
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بعثت کی ابتدا ء اور حضرت علی(ع) کی وزارت

حضرت علی(ع) کی وزارت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث الدار‘‘ ہے۔ وہی دن کہ جس میں پیغمبراکرم(ص) نے اپنی بعثت کے آغاز میں قریبی رشتہ داروں کو جمع کر کے فرمایا:’’فایّکم یوازرنی علیٰ امری هذا؟‘‘ تم میں سے کون اس کام میں میرا وزیر بنو گے ؟

امیر المومنین(ع) نے عرض کیا :’’انا یا نبیّ الله!اکون وزیرک علیه ‘‘ میں ، اے اللہ کے رسول(ص)!اس مسئولیت میں ، میں آپ(ص)کا وزیر بنوں گا ۔

پیغمبر(ص)نے فرمایا:

’’انّ هٰذا اخی و و صیّی و خلیفتی فیکم فاسمعو ا له و اطیعوا ۔بے شک یہ میرے بھائی ، وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں ، پس اس کی بات پر کان دھرو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تفسیر بغوی: ۴/۲۷۸ ۔ نیز دوسرے مصادر۔

۴۱

حلبی ، اپنی سیرہ میں اس واقعے کو یوں نقل کرتا ہے :

اس وقت علی(ع) نے آمادگی کا اظہار کیا تو پیغمبر(ص) نے اس سے فرمایا :

’’اِجلس!فانت ا خی و وزیری و وصیّی و وارثی و خلیفتی من بعدی ۔بیٹھ جا!تو میرا بھائی، وزیر ، وصی ، وارث اور میرے بعد میرا جانشین ہوگا۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔السیرۃ الحلبیہ: ۱/ ۴۶۱

۴۲

علی(ع) کی وزارت اور پیغمبر(ص) کی دعا

تاریخ مدینہ دمشق ، المرقاۃ ، درالمنثور اور ریاض النضرۃ لکھنے والوں نے یہ روایت ابن مردویہ ، ابن عساکر ، خطیب بغدادی اور دوسروں سے نقل کی ہے کہ اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول خدا(ص) کو درگاہ الٰہی میں یہ عرض کرتے ہوئے سنا :

’’اللّهمّ انّی اقول کما قال اخی موسیٰ:اللّهمّ اجعل لی وزیراً من اهلی اخی علیّاً،اشدد به ازری و اشرکه فی امری کی نسبّحک کثیراً و نذکرک کثیراً، انّک کنت بنا بصیراً ۔ خداوندا!میں تجھ سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی موسیٰ نے کہا تھا: خدایا!

میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے میرے بھائی علیؑ کو، اس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط بنا، اسے میرے کام میں شریک فرما تاکہ زیادہ تیری تسبیح کروں اور زیادہ تیری یاد میں رہوں ، بے شک تو ہمیں دیکھنے والا ہے۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق:۱/۱۲۰۔۱۲۱، حدیث ۱۴۷، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی۔ الدر المنثور: ۵/۵۶۶؛ الریاض النضرۃ: ۳/ ۱۱۸

۴۳

مخصوص منزلت

امیر المومنین(ع)،پیغمبر اکرم(ص)کی نسبت سے ایک مخصوص مقام کے حامل ہیں جو آپ(ع) نے اپنے فصیح و بلیغ خطبے میں بیان فرمایا ہے :’’تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔‘‘

یہ وہی قریبی رشتہ ہے جو موسیٰ و ہارون(ع) کے واقعے میں حضرت موسیٰ نے خدا وند عالم سے طلب کرتے ہوئے عرض کیا :

’’وَاجْعَل لِی وَزِیراً مِن اَهلِی هٰارُونَ اَخِی ۔اور میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے، میرے بھائی ہارون کو۔‘‘

اسی وجہ سے ، جیسا کہ بعد میں بیان کریں گے، پیغمبر(ص) نے اپنی اور علی(ع) کی برادری کا اعلان کرتے وقت حدیث منزلت ذکر فرمائی۔

خصوصی برتری

امیر المومنین(ع) کی خصوصیات ان باتوں سے کہیں بلند ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’واُولُوا الاَرحٰامِ بَعضُهُم اَولیٰ بِبَعضٍ فِی کِتَابِ اللّٰهِ مِنَ المُومِنِین وَ المُهاجِرِینَ ۔ اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ احزاب: ۶

۴۴

یہ تین خصوصیات (ایمان ، ہجرت اور قرابت)حضرت علی(ع) کے سوا کسی پر منطبق نہیں ہو سکتیں۔ اس بناء پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (ص)کے بعد خلافت وولایت کے مضبوط پایوں میں سے ایک پایہ نزدیکی رشتہ ہونا ہے۔

فخر رازی نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ (فرزند امام حسن(ع) ) کے ، جو عالم و فاضل اور قرآن کریم سے آشنا شخص تھے، استدلال کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جناب محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ نے عباسی خلیفہ منصور کو لکھے گئے ایک خط میں اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔

منصور نے ان کے جواب میں لکھا :پیغمبر(ص) کی نسبت ، علی(ع) سے زیادہ عباسؓ حقدار ہے ؛ کیونکہ عباس ؓ ،آنحضرت(ص) کے چچا جبکہ علی(ع)، چچا کے بیٹے ہیں۔

فخر رازی ، اگرچہ عباسی نہیں ہیں ؛ لیکن اس نے عباسیوں کے دعویٰ کو قبول کیا ہے۔ اس کا یہ عمل بنی عباس سے دوستی کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ بخاطر ۔۔۔!

البتہ خود فخر رازی کو بخوبی علم ہے کہ عباس اگرچہ حضور پاک(ص) کے چچا ہیں ؛ لیکن مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؛ کیونکہ وہ فتح مکہ کے بعد مدینہ آئے ہیں اور پیغمبر فرما چکے تھے کہ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں ہے ۔ اس بنا ء پر مہاجرین میں سے واحد شخص جو حضور(ص) کا قریبی رشتہ ہے وہ تنہا علی(ع) کی ذات گرامی ہے ۔

انصاف کی رو سے دیکھا جائے کہ پیغمبر(ص) کے اصحاب میں علی(ع) کے علاوہ مؤمن اور مہاجر بہت سارے ہیں ؛ لیکن ان میں سے کوئی بھی رسول خدا(ص) کا قریبی نہیں ہے ۔ فقط عباس رہ جاتا ہے ؛ لیکن وہ مہاجر نہیں ہے پس یہ آیت علی(ع) کے سوا کسی اور پر قابل انطباق نہیں ہے ۔

۴۵

قابل ذکر ہے کہ رازی اس مقام پر عباسیوں اور منصور عباسی سے موافقت کر لیتا ہے ؛ جبکہ ہاشمیوں اور علویوں کی مخالفت کرتا ہے تاکہ ، بزعم خود ، اس آیت سے امیر المومنین(ع) کی امامت پر استدلال نہ کیا جا سکے ۔

بنا ء بر ایں ، آیہ شریفہ’’اولوا الارحام‘‘ آپ(ع) کی امامت پر ایک اور دلیل ہو جائے گی اور یہیں سے آشکار ہو جاتا ہے کہ امیر المومنین(ع) کا اس آیت سے استدلال کرنا اور قرابت کا مسئلہ اٹھانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیت امامت و ولایت کے مسئلے میں دخل رکھتی ہے ۔

اس کے علاوہ یہ کہ عباس نے غدیر خم میں آپ(ع) کی بیعت کی اور اسی بیعت پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کی بیعت نہیں کی اور ماجرائے سقیفہ کے وقت جناب امیر المومنین(ع)کی خدمت میں آکر آپ(ع) کی تجدید بیعت کرنا چاہی۔

اس لحاظ سے عباس ؓ ، پیغمبر(ص) کے بعد امامت و خلافت کے مستحق نہ تھے ۔

امور میں شرکت

ایک مقام جو کسی اور آیت میں بیان ہوا ہے وہ یہ کہ موسیٰ نے جب خدا سے چاہا کہ ہارون(ع)کو ان کے کاموں میں شریک کردے تو عرض کیا :

( وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی ) اور اسے میرے کام میں شریک قرار دے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۲

۴۶

یعنی ہارون(ع) ان تمام مسئولیتوں اور تمام مناصب و مقامات میں شریک تھے جو حضرت موسیٰ کو دئیے گئے تھے ۔ اس حدیث کے تحت یہ مقام امیر المومنین(ع) کے لئے ثابت ہوگا اور آپ(ع) پیغمبری کے علاوہ تمام امور میں پیغمبر اکرم(ص) کے یاور ہوں گے ۔اس بناء پر پیغمبری کے علاوہ ہر منصب و مقام میں امیر المومنین(ع) پیغمبر خدا(ص) کے شریک ہوں گے۔

رسول خدا(ص) کی ایک ذمہ داری قرآن کریم کی تعلیم دینا اور اس کی تفسیر کرنا تھا ؛ جیسا کہ فرما رہا ہے :

( وَأَنزَلْنَا إلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔اور ہم نے قرآن آپ پر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان کی طرف جو کچھ اتارا گیا ہے اسے روشن کردیں اور شاید یہ لوگ غور کریں۔ ‘‘(۱؎)

اسی طرح آنحضرت(ص) کو حکمت عطا کی گئی ہے :

( وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) ۔اور خدا نے تم پر کتاب وحکمت نازل فرمائی ہے۔‘‘(۲؎)

نیز قرآن مجید کے مطابق آنحضرت (ص) کی ایک ذمہ داری ، اختلافات اور تنازعات کے موقع پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے:

( لِیُبَینَِّ لَهُمُ الَّذِی یخَْتَلِفُونَ فِیه ) تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ۔‘‘(۳؎)

اسی طرح آپ(ص) ،لوگوں پر حاکم تھے :

( إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّهُ ) ۔ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔‘‘(۴؎)

____________________

۱۔نحل: ۴۴

۲۔ نساء: ۱۱۳

۳۔ نحل : ۳۹

۴۔ نساء: ۱۰۵

۴۷

اور ایک جہت سے پیغمبر(ص) لوگوں پر خود ان سے زیادہ برتری رکھتے ہیں اور آپ(ص) کا حکم سب لوگوں پر نافذ ہے :

( النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُومِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ) ۔نب ی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔۔۔۔‘‘(۱؎)

ان تمام مقامات اور دیگر مناصب میں جو قرآن ، پیغمبر(ص) کے لئے ثابت کرتا ہے امیر المومنین(ع) ، پیغمبر(ص) کے شریک ہیں اور آپ(ع) خود ان مقامات کے حامل ہوں گے ۔

ایک مختصر جملے میں یہ کہ حضرت علی(ع) ،نفس پیغمبر(ص) ہیں اور نبوت کے علاوہ تمام مقامات و کمالات میں پیغمبر(ص) کے ساتھ شریک ہیں ۔یہ وہ نکتہ ہے جو پیغمبر اکرم(ص) نے روز مباہلہ اپنی جان اور نفس کے طور پر علی(ع) کا تعارف کرا کے بیان فرمایا ہے:

( فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَأَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا وَنِسَاء کُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ) ۔تو آپ کہہ د یں:آو ہم اپنے بیٹوںکو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاو، ہم اپنے نفسوںکو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو ۔‘‘(۲؎)

اس بناء پر امیر المومنین(ع)تمام مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان پر آپ(ع) کا حکم نافذ ہے ۔ آپ(ع) ہی قرآن کے مفسر ومبین ، احکام کوبیان کرنے والے، مطلق حاکم اور اختلافات کے وقت مرجع ہوں گے ۔

____________________

۱۔احزاب: ۶

۲۔ آل عمران: ۶۱

۴۸

اب کیا ایسے شخص کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی اور پیغمبر(ص) کا جانشین ہوگا ؟

کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایسے شخص کو کنارے لگا دیا جائے اور ایک ایسے کو خلیفہ بنا دیا جائے جو ذرہ برابر ان مقامات کا حامل نہیں ہے اور اس نے ان مقامات کی خوشبو تک نہیں سونگھی ہے ؟

پیغمبر اکرم(ص) کے بعد امیر المومنین(ع) کی موجودگی گویا خود پیغمبر(ص) کی موجودگی ہے کہ وہ جان پیغمبر (ص) اور آپ(ص) کے شریک کار تھے ۔

پیغمبر اکرم(ص) کی پشت پناہی

حضرت موسیٰ نے خدا سے جن چیزوں کی درخواست کی تھی ، ان میں ایک حضرت ہارون(ع) کے ذریعے اپنی پشت پناہی کی دعا تھی :( اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی ) ۔اسے میرا پشت پناہ بنا دے!‘‘(۱؎)

خدا نے بھی آپ(ع) کی دعا قبول کی اور فرمایا :( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ ) عنقریب ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے۔‘‘(۲؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۱

۲۔ قصص: ۳۵

۴۹

اس بارے میں مروی روایات کے علاوہ مندرجہ بالا آیت ہی کی بنا پر پیغمبر(ص) کی پشتیبانی کا مرتبہ حضرت علی(ع) سے مخصوص ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ختم رسالت کا بوجھ پیغمبر خاتم (ص) کے کندھوں پر رکھا گیا ہے ، یہ تمام مسئو لیتوں سے بہت بڑی اور بہت بھاری مسئولیت تھی اور پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے سوا کوئی اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔

جیسا کہ ذکر شدہ احادیث میں گزر گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے دعا فرمائی کہ امیر المومنین(ع) اس بڑی مسئولیت کے سلسلے میں آپ(ص) کا پشت پناہ اور قوی بازو بن جائے ۔

لیکن واضح ہے کہ پیغمبر خاتم (ص) کی پشت پناہی اور حضرت موسیٰ کی پشت پناہی ، بہت ہی مختلف ہے اور یہ اختلاف اس اختلاف کے مطابق ہے جو ان حضرات کے مقام و مرتبے میں ہے ۔

امور کی اصلاح ودرستگی

ساتواں مرتبہ، جو آیت سے استفادہ ہوتا ہے ، امور کی اصلاح اوردرستگی ہے۔ خداوند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے خدا سے عرض کیا :

( وَقَالَ مُوسَی لأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ ) ۔اور موس یٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا۔(۱؎)

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۵۰

چنانچہ ہارون(ع) ،امت موسیٰ کے مصلح تھے اور آپ(ع) ، حضرت موسیٰ کی جگہ پر اس کی امت کے امور کی اصلاح اور انہیں منظم کرتے تھے ۔ اس امت میں یہ مقام علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے حوالے کیا گیا ہے ۔ آپ(ع) کو امت پیغمبر(ص) کے امور کی اصلاح و آراستگی کرنا ہے ، فتنوں کے آگے کھڑے ہو کر روکنا ہے اور گمراہی و انحرافات سے لوگوں کو بچا کر رکھنا ہے ۔

یہ واضح ہے کہ جو شخص ہرکام میں مطلقًا مصلح (اصلاح کرنے والا) ہو تو حتما ًاسے ہر حال میں صالح (اصلاح شدہ ) ہونا چاہئے ؛ اسی طرح جو مطلقًا ہر شعبے میں مصلح ہو اسے چاہئے کہ ہر چیز کی خوبی و برائی سے خوب آ گاہ ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلاح کے نام پر برائی کی ترویج کر بیٹھے ۔

اس لحاظ سے یہ مقام ، امیر المومنین(ع) کی عصمت اور علم لدنی کا اقتضا کرتا ہے ۔

علم و آگہی

ہارون(ع) کی منزلتوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ(ع) حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں سے داناتر اور آ گاہ ترین فرد تھے ۔ اور حضرت علی(ع) کے ہارون(ع) کی جگہ لینے سے یہ مقام آپ(ع) کے لئے بھی ثابت ہوجانا چاہئے ۔ آپ(ع) نے خطبہ قاصعہ میں اس فضیلت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے :

’’ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اَتَّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اَمَّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِهِ، عَلَمًا، وَیَامُرُنِی بِالْاِقْتَدَائِ بِهِ ۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کابچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۵۱

ایک اور خطبے میں ، جبکہ بات غیب کی ہوئی ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں :

’’فَهَذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِی لَا یَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَ مَا سِوَی ذَلِکَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ نَبِیَّهُ فَعَلَّمَنِیهِ وَ دَعَا لِی بِأَنْ یَعِیَهُ صَدْرِی وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِی ۔یہ وہی علم غیب ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور ( خدا نے جو علم اپنے لئے مختص کیا ہے ) اس کے علاوہ باقی وہ علم ہے کہ جو خدا نے پیغمبر(ص) کو سکھایا ہے ، پھر آنحضرت(ص) نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اور میرے لئے دعا فرمائی ہے کہ میرے سینے میں اس کی گنجائش ہو جائے اور میرے اعضاء و جوارح اس سے پُر ہو جائے ۔‘‘(۱؎)

آپ(ع) کی اعلمیت اور آگاہی ایک طرف سے اسی خطبہ قاصعہ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جس میں خود آپ(ع) نے آنحضرت(ص) سے نقل فرمایا ہے کہ حضور(ص) نے آپ(ع) سے فرمایا :

’’ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَتَرَیٰ مَا اَرَیٰ ۔( اے علی(ع)!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو۔‘‘(۲؎)

ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم(ص) ، امیر المومنین(ع) سے فرماتے ہیں :

’’انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیاتها من بابها ۔میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں پس جو اس شہر میں آنا چاہے اس پر لازم ہے کہ دروازے سے آئے ۔‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۸

۲۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۳۔تاریخ الخلفاء: ۱۳۵؛ المعجم الکبیر: ۱۱/۶۵ ، ح۱۱۰۶۱؛ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۴

۵۲

یہ حدیث بھی ان احادیث میں سے ہے جو امیر المومنین(ع) کی امامت کو ثابت کرتی ہیں ۔ اس حدیث کے لئے الگ ہی بحث مختص کر دینا چاہئے تاکہ اس کی اسناد و دلالت کی تحقیق و جستجو کی جائے اور اس کو ردّ کرنے کے لئے مخالفین کی طرف سے کی جانے والی کوششوں ، جھوٹے پروپیگنڈوں ، تحریفوں اور ان کی خیانتوں سے پردہ اٹھایا جائے ۔

لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد ہارون(ع) سب سے دانا تر تھے۔ بطور نمونہ مندرجہ ذیل آیت کے ضمن میں کتب تفاسیر سے رجوع فرمائیں!خدا وند متعال قارون کی زبانی نقل فرماتا ہے :

( قَالَ إنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی ) ۔قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے حاصل ہے۔‘‘(۱؎)

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں یہ تصریح کی ہے کہ ہارون(ع) حضرت موسیٰ کے سوا تمام بنی اسرائیل سے دانا تر تھے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ قصص: ۷۸

۲۔ ملاحظہ ہوں: تفسیر بغوی: ۴/ ۳۵۷؛ تفسیر جلالین: ۲/ ۲۰۱ ۔ اور دوسری تفسیریں

۵۳

مقام عصمت

حدیث شریف سے معلوم ہونے والا نواں مقام ’’مقام عصمت ‘‘ہے ۔ واقعاً کیا کسی کو حضرت ہارون(ع) کی عصمت میں شک ہے ؟ اس حدیث میں پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو ہارون(ع) کی طرح اور ان کی منزلت پر قرار دیا ہے ۔ ایک طرف سے کسی ایک صحابی نے مقام عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔ اسی طرح کوئی بھی حضرت علی(ع) کے سوا کسی صحابی کی عصمت کا دعویٰ نہیں کرتا۔

ساتویں مقام کی توضیح میں ہم کہہ چکے ہیں کہ کوئی بھی تمام امور میں مصلح نہیں ہوتا مگر یہ کہ خود تمام امور میں صالح ہو ۔ اب اس مقام کی توضیح میں چند سوالات درپیش ہیں۔

کیا کوئی عاقل مان سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بعد معصوم کی موجودگی میں کوئی غیر معصوم شخص ، امام بن جائے ؟

کیا عقل انسانی تسلیم کرتی ہے کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم، خدا اور مخلوقات کے درمیان واسطہ بن جائے ؟

کیا عقل کی رو سے صحیح ہے اور کیا عقلاء اجازت دیتے ہیں کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم کی پیروی کی جائے ؟

جی ہاں!امیر المومنین(ع) خطبہ قاصعہ میں اسی مقام عصمت کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا ہوں اور نبوت و پیغمبری کی خوشبو کو استشمام کرتا ہوں ۔

۵۴

حقیقتاً کیا یہ معقول طرز عمل ہے کہ ایسے انسان کو کنارے لگا دیا جائے اور ایسے کی پیروی کی جائے جس کو اس منزلت سے تھوڑا سا حصہ بھی نہ ملا ہو ؟

واضح ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) جو کچھ دیکھتے اور سنتے تھے وہ گزشتہ انبیا ء کے دیکھنے اور سننے سے بہت بالا تر اور با اہمیت تھا ۔ پس امیر المومنین(ع) ہر وہ چیز سنتے تھے جو ہمارے پیغمبر(ص) سنتے اور ہر وہ دیکھتے جو ہمارے پیغمبر(ص) دیکھتے تھے ۔یہ نکتہ بیشتر غور و فکر کا متقاضی ہے ۔

مقام طہارت و پاکیزگی

دسویں منزلت ، طہارت و پاکیزگی کی منزلت ہے ۔ خدا ئے متعال نے مسجد الاقصیٰ کے بارے میں جناب ہارون(ع) کے لئے وہ چیزیں حلال کردیں جو دوسروں کے لئے حلال نہ تھیں ، حدیث منزلت کی رو سے یہ فضیلت و خصوصیت بھی امیر المومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے لئے موجود ہونا چاہئے ، اور یہ آپ(ع) اور اہل بیت(ع) کی ایک ایسی خصوصیت ہوگی جو ان بزرگواروں کو دوسروں سے ممتاز کرے گی اور یہ ہستیاں اس جہت سے دوسروں سے برتر ہوں گی ۔

جو فضیلت جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھی وہ امیر المومنین(ع) کے لئے اثبات کرنے کے لئے احادیث میں بہت سارے شواہد ہیں ۔

۵۵

ان میں سے ایک حدیث ’’سدّ الابواب‘‘ہے؛ ایسی حدیث جو شیعہ سنی مورد اتفاق روایات میں مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔ یہاں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے بعض احادیث کی طرف اشارہ کریں گے ۔

ابن عساکر اپنی تاریخ میں یوں نقل کرتے ہیں :ایک دن رسول خدا(ص) نے ایک خطبہ دیا اور اس طرح ارشاد فرمایا :

’’انّ الله امر موسیٰ و هارون ا ن یتبوّا لقومهما بیوتا ً ، و امرها ان لا یبیت فی مسجدهما جنب ، ولا یقربوا فیه النسآء الّا هارون و ذرّیّته ، ولا یحلّ لاحد ان یقرب النسآء فی مسجدی هذا ولا یبیت فیه جنب الّا علیّ و ذرّیّته ۔خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کریں اور انہیں حکم دیا کہ کوئی بھی موسیٰ و ہارون کی مسجد میں جنابت کی حالت میں رات نہ گزارے اور کوئی مسجد میں عورتوں سے مقاربت نہ کرے سوائے ہارون اور اس کی ذرّیت کے ۔ اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ میری اس مسجد میں عورتوں سے مقاربت کرے اور حالت جنابت میں یہاں رات بسر کرے ، سوائے علی(ع) اور اس کی ذرّیت کے ۔‘‘(۱؎)

اس حدیث کو سیوطی نے بھی در منثور میں ،تاریخ ابن عساکر سے نقل کیا ہے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۲۹۶، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۲۔ الدر المنثور: ۴/ ۳۸۴

۵۶

مجمع الزوائد میں ہے کہ علی(ع) نے فرمایا : پیغمبر(ص) نے میرا ہاتھ تھاما اور فرمایا :

’’انّ موسیٰ سال ربه ا ن یطهّر مسجده بهارون و انّی سالت ربّی ا ن یطهّر مسجدی بک و بذرّیّتک ۔موسیٰ نے اپنے پروردگار سے چاہا تھا کہ اس کی مسجد کو ہارون(ع) کے لئے پاک فرما دے اور میں نے اپنے پروردگار سے چاہا ہے کہ میری مسجد کو تمہارے اور تمہاری ذرّیت کے لئے پاک قرار دے ۔‘‘

اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے کسی کو ابوبکر کے پاس یہ کہلابھیجا کہ تم نے جو دروازہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف کھولا ہے اسے بند کرو ۔

ابوبکر نے کہا :’’انّا لله و انّا الیه راجعون‘‘ ، پھر کہا :سن لیا اور اطاعت کی۔ اسی وقت گھر کے دروازے کو مسدود کر دیا ۔پھر حضور اکرم(ص) نے کسی کو عمر اور ابن عباس کے ہاں اسی فرمان کے ساتھ بھیجا ۔

اس موقع پر آپ(ص) نے فرمایا :’’ما انا سددتُ ابوابکم و فتحتُ باب علیّ ، ولکنّ الله فتح باب علیّ و سدّ ابوابکم ۔میں نے تمہارے گھروں کے دروازے بند نہیں کئے اور علی(ع) کا دروازہ کھلا نہ چھوڑا ؛ بلکہ خدا نے علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا چھوڑا اور تمہارے دروازے بن کر دئیے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴

۵۷

یہ واقعہ دوسری بار مجمع الزوائد ، کنز العمال اور دیگر منابع میں کسی اور صورت میں نقل ہوا ہے ۔ مجمع الزوائد میں ذکر ہوا ہے کہ:

جب پیغمبر اکرم(ص) نے تمام اہل مسجد کو نکال باہر کر دیا اور علی(ع) کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرا دیئے تو لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ، لوگ اعتراض کرنے لگے ، حضور اکرم (ص) کو اس اعتراض کی خبر ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا :

’’ما انا اخرجتکم من قبل نفسی ولا انا ترکته، ولکن اللّٰه اخرجکم و ترکه ، انّما انا عبد مامور ، ما امرت به فعلت، ان اتّبع الّا ما یُوحیٰ الیّ ۔میں نے خود ہی سے تمہیں مسجد سے باہر نہیں نکالا اور علی(ع) کو اپنے حال پر باقی نہ رکھا ، بلکہ خدا وند متعال نے تمہیں خارج کردیا اور علی(ع) کے دروازے کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا ۔ میں تو فقط ایک مامور ہوں ، جس چیز کا مجھے حکم دیا جاتا ہے میں انجام دیتا ہوں ، میں فقط مجھ پر ہونے والی وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ ‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۵؛ کنز العمال: ۱۱/ ۶۰۰، حدیث ۳۲۸۸۷

۵۸

دوسرے مصادرنے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے؛ احمد بن حنبل کی ’’مسند‘‘اور ’’المناقب‘‘، حاکم نیشاپوری کی ’’المستدرک‘‘، مجمع الزوائد ، تاریخ مدینہ دمشق اور دوسرے مصادر میں زید بن ارقم سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:

’’اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک گروہ کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے، ایک روز حضور(ص) نے فرمایا :’’سدّوا هذا الابواب الّا باب علیّ‘‘ علی(ع) کے دروازے کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کر دو!

بعض نے آپ(ص) کے اس حکم کے بارے میں مختلف باتیں کیں اور اعتراضات کئے۔ ایسے میں پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے اور حمد و ثنا ئے الٰہی کے بعد ارشاد فرمایا:

’’امّا بعد فانّی امرتُ سدّ هذه الابواب غیر باب علی ، فقال فیه قائلکم واللّٰه ما سددت شیئاً ولا فتحته ولکن امرت بشیء اتبعته ۔میں نے حکم دیا کہ سوائے در علی(ع) کے باقی تمام دروازے بند کردیئے جائیں ۔ تم میں سے بعض نے اعتراض کیا۔ خدا کی قسم!میں نے کوئی دروازہ بند نہیں کیا اور نہ ہی کھولا؛ بلکہ مجھے حکم دیا گیا اور میں نے اطاعت کی ۔‘‘(۱؎)

یہ حدیث سنن ترمذی ، خصائص نسائی اور دوسرے مصادرمیں بھی نقل ہوئی ہے۔(۲؎)

____________________

۱۔ المناقب: ۷۲، حدیث ۱۰۹؛ مسند احمد: ۵/ ۴۹۶، حدیث ۱۸۸۰۱؛ المستدرک: ۳/ ۱۲۵؛ مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴؛ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۲۷۹۔۲۰۸، حدیث ۳۲۴، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی؛ الریاض النضرۃ: ۳/۱۸۵

۲۔ ملاحظہ ہو: سنن ترمذی: ۵/ ۳۰۵؛ خصائص نسائی: ۵۹ / حدیث ۳۸

۵۹

بنا بر این در خانہ علی(ع) کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنے کا ماجرا ، حدیث منزلت کے موارد میں سے ایک ہوگا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی ۔تم میرے لئے اسی مقام پر جس مقام پر موسیٰ کے لئے ہارون تھے؛ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔‘‘

مذکورہ تمام مطالب کے پیش نظر حضرت امیر المومنین(ع) کی امامت پر حدیث منزلت کی دلالت چند جہات سے واضح ہوجاتی ہے:

۱ ۔حضرت امیر المومنین(ع) کی عصمت کی جہت سے،

۲ ۔ دوسروں پر آپ(ع) کی افضلیت و برتری کے حوالے سے،

۳ ۔ان خصوصیات کے ثابت ہونے کی جہت سے جو جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھیں۔

۶۰