حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 40904
ڈاؤنلوڈ: 2132

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40904 / ڈاؤنلوڈ: 2132
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھا حصہ:

امیر المومنین(ع) کی خلافت پر

حدیث منزلت کی دلالت

۶۱

حدیث منزلت اور خلافت علی(ع)کا واضح بیان

گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ حدیث منزلت امیر المومنین(ع) کے لئے متعدد ایسے مقامات و منزلتوں کو ثابت کرتی ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا لازمہ آپ(ع) کی امامت و خلافت ہے ۔ یہاں اس بارے میں بات کی جا رہی ہے کہ لوازم سے ہٹ کر یہ حدیث بلاواسطہ اور صراحتاً بھی آپ(ع) کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی خلافت و جانشینی کے مقام کو ثابت کرتی ہے۔ بنا بر ایں یہ حدیث واضح اور کھلے لفظوں میں آپ(ع) کی خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب ہارون(ع)کے مقامات میں سے ایک آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کا جانشین ہونا تھا۔ خدا وند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ہارون(ع) سے یوں فرمایا:

’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ۔میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ،ان کے امور کی اصلاح کرو اور مفسدین کی پیروی نہ کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

اعراف: ۱۴۲

۶۲

پیغمبر(ص) کی جانشینی، فضائل کی اوج

بغیر کسی شک وشبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی خلافت و جانشینی کے لئے قابلیت اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اس طرح کہ جانشین ، آنحضرت(ص) کی جگہ پر بیٹھ سکے اوران کی غیر موجودگی میں تمام امور اورذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے؛ کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ(ص) کا جانشین ، آپ(ص) کی خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے ہے ، اس رو سے لازم ہے کہ وہ پیغمبر(ص) کے ساتھ کوئی تناسب رکھتا ہو تاکہ اس کام سے عہدہ برآ ہو سکے۔

جانشین پیغمبر(ص) کے لئے ضروری ہے کہ فضائل و کمالات میں بلندی پر ہو تاکہ یہ بلند مقام ، اس سے جڑ سکے، اور ایسی صلاحیت کا حامل ہو کہ پیغمبر(ص) کی جگہ اس کو بٹھانا عقل و منطق کی رو سے کوئی بعید کام شمار کیا نہ ہو ؛ کیونکہ یہ واضح ہے کہ کسی ایسے شخص کو کسی کی جگہ بٹھایا جائے جو اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اس کے امور کو بخوبی انجام نہیں دے سکتا ہو اور دونوں کے درمیان کوئی تناسب ہی نہ ہو تو ایسا کیا جانا ، عقل وحکمت سے بعید کام ہے۔

۶۳

قابلیت کا ظہور

اب سوال یہ ہے کہ جناب موسیٰ نے ایسی صلاحیت اپنے بھائی ہارون میں دیکھی تھی اور ہارون کو اس قابل سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی غیر موجودگی میں آپ کا جانشین بن جائے ؟ اور کیا ہارون اس مقام کی اہلیت رکھتے تھے یا نہیں؟

جب خدا وند متعال نے اس خلافت کی تائید فرمائی اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے تو قطعا ایسی صلاحیت ہارون(ع) میں دیکھی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ کہ حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ۔یعنی جناب ہارون ان تمام مسئولیتوں میں ، جوحضرت موسیٰ کے ذمے تھیں ، آپ کے جانشین اور قائم مقام ہیں۔

بنا بر ایں حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کو ، اگرچہ کوہ طور پر جانے کی قلیل مدت کے لئے ہی سہی، اپنا جانشین مطلق قرار دیا ؛ یعنی ہارون(ع) تمام حالتوں میں موسیٰ کا جانشین ہے اور انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کی طرح روحانی کمالات اور معنوی مقامات کے درجات کو طے کیا ہے اس لئے اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو یہ کہ حضرت ہارون(ع) ، خدا کا وہ مورد پسند شخص ہے جسے خدا نے اسی مقام کے لئے لائق انتخاب کیا ہے۔

اگر وہ اس مقام کے حامل ہیں تو جب بھی موسیٰ غائب ہوں انہی کو خلیفہ اور جانشین ہونا چاہئے ، خواہ ان کی کی زندگی میں ہو یا ان کی وفات کے بعد۔

۶۴

یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ ہارون(ع) نے کتنے روز خلافت کی؛ بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس مقام کے لئے قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ طے ہو گیا کہ آپ خدا سے مناجات کرنے کوہ طور جائیں گے تو یہ طے تھا کہ مناجات ۰ روز پر مشتمل ہوگی ؛ لیکن ۰ دن اس پر اضافہ ہو گئے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر موسیٰ نے ہارون کو شروع ہی سے صرف ۰ دنوں کے لئے خلیفہ قرار دیا تھا تو اضافہ کئے گئے دس دنوں میں وہ کس طرح اس مقام پر باقی رہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت فقط تیس روز پر مشتمل نہ تھی؛ بلکہ ہر اس وقت کہ جب موسیٰ غائب ہوں وہ خلیفہ ہوں گے؛ یہاں تک کہ اگر آپ(ع) کی غیبت اس چالیس روز سے زیادہ بھی ہوتی۔

اس رو سے حدیث منزلت کے تحت پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت امیر المومنین(ع) ایسی منزلت رکھتے ہیں یعنی رسول خدا(ص) کی نیابت و خلافت آپ(ع) کے لئے ثابت ہو جاتی ہے اور آنحضرت(ص) کی غیر موجودگی میں فقط آپ(ع) ہی کو جانشین ہونا چاہئے۔

جی ہاں!اس حدیث سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے امیر المومنین(ع) کو اس مقام کے لئے انتخاب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ، آپ(ع) کو اس مقام کا لائق سمجھتا ہے۔

مختصر یہ کہ مقام خلافت ، کوئی سریع الزوال منصب نہیں ہے ؛ بلکہ قرب الٰہی کے درجات اور روحانی مقامات میں سے ہے کہ جو ضروری صلاحیتوں اور رضائے الٰہی کا محتاج ہے۔

۶۵

بلا شرط فرمان برداری

خلافت کا اثر و نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں پر تمام امور میں بغیر کسی قید وشرط کے امیر المومنینؑ کی اطاعت کرنا اور ہمیشہ آپ(ع) کے فرامین پر کان دھرنا واجب ہے۔اور آپ(ع) کی اس اطاعت اور بدون قید وشرط فرمان برداری کا لازمہ یہ ہے کہ آپ(ع) امامت و ولایت عامہ کے حامل ہوں۔

ممکن ہے کوئی یہ گمان کرے کہ ہارون کی بے چون و چرا اطاعت کا واجب ہونا اس لحاظ سے تھا کہ وہ پیغمبر تھے نہ کہ اس لحاظ سے کہ وہ موسیٰ کے جانشین تھے بنا بر ایں اطاعت مطلقہ کا واجب ہونا خلافت کے آثار میں سے نہیں ہے؛ اور چونکہ امیر المومنین(ع) ، پیغمبر نہیں اس لئے یہ اثر آپ(ع) کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

یہ اشکال اگرچہ بعض علمائے اہل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے؛ لیکن یہ ایک فضول اور غلط توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ اگر بلا چون وچرا اطاعت کا واجب ہونا ، خلافت کے نہیں بلکہ نبوت کے آثار میں سے ہے تو پہلے تین خلفا کی اطاعت بھی واجب نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بھی تو پیغمبر نہیں تھے اور امیر المومنین(ع) کی اطاعت بھی خلیفہ چہارم ماننے کے سبب واجب نہیں کہ آپ(ع) بھی پیغمبر نہیں فقط جانشین پیغمبر ہیں۔

۶۶

حدیث منزلت اور علمائے اہل سنت کا نظریہ

اس ضمن میں جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اہل سنت کے علماء اور دانشمندوں نے تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

بطور نمونہ ایک کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ہے جو شیعہ اثنا عشری کے ردّ میں لکھی گئی ہے۔ اس کا مصنف اعتراف کرتا ہے کہ حدیث منزلت حضرت علی(ع) کی خلافت کو ثابت کرتی ہے؛ بلکہ بات اس سے بڑھ گئی ہے، کہتا ہے :کوئی بھی اس حدیث کی دلالت کا انکار نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ ناصبی و دشمن اہل بیت ہو اور اہل سنت ہرگز ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہیں۔(۱؎)

ہماری بات یہاں خلافت بلافصل ثابت کرنے میں ہے یعنی پیغمبر(ص) کے بعد بلافاصلہ آپ(ع) ہی آنحضرت(ص) کے جانشین ہیں؛ لیکن اس حدیث سے اصل خلافت کا اثبات ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ کہ کسی ناصبی یا دشمن علی(ع) سے۔ جیسا کہ تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے اس مطلب کی تصریح کی ہے ۔ اور حدیث کی دلالت کو اسی حد تک قبول کیا ہے۔

اس کے باوجود اہل سنت کی کتب احادیث اور ان کی شروحات سے مراجعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلافت و ولایت پر اس حدیث کی اصل دلالت کو ہی قبول نہیں کرتے اور اس میں مناقشہ کرتے ہیں، یعنی وہی کام کرتے ہیں جس کی نسبت تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے ناصبیوں اور دشمنان اہل بیت کی طرف دی ہے۔

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۰

۶۷

بطور نمونہ اگر حافظ بن حجر عسقلانی کی فتح الباری ، حافظ نووی کی شرح صحیح مسلم اور المرقاۃ فی شرح المشکاۃ سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس حدیث کی شرح و تفسیر میں امامت وولایت پر اس کی دلالت پر اشکال کرتے ہیں ؛ یعنی تحفہ اثنا عشریہ کی وہی بات جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔

اب شرح صحیح مسلم میں نووی کی باتوں پر توجہ کریں ۔ اس کی عین عبارت یااسی طرح کی عبارت اہل سنت کے مذکورہ لکھاریوں نے اپنی مذکورہ کتب میں نقل کی ہے۔

نووی کا بیان ہے:یہ حدیث پیغمبراکرم (ص) کے بعد، علی(ع)کی جانشینی پر کوئی دلالت نہیں کرتی؛ کیونکہ پیغمبر(ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا کہ جب آپ(ص) ، علی(ع) کو مدینہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر تبوک کی طرف جا رہے تھے۔

نووی یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ حدیث ایک خاص مورد میں بیان ہوئی ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہارون(ع) ، علی(ع) کی جس سے تشبیہ دی گئی ہے ، موسیٰ کے بعد خلیفہ نہ تھے ؛ بلکہ وہ موسیٰ کی زندگی میں ہی دنیا سے چل بسے ۔ تاریخ نگاروں کے نزدیک جو بات مشہور ہے اس کے مطابق ہارون(ع) نے حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال قبل رحلت فرمائی۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار کی میقات کی جانب مناجات کے لئے جانا چاہا تو ہارون(ع) کو اپنا جانشین بنایا ۔ پس یہ خلافت و جانشینی ایک خاص محدودے میں ایک خاص واقعے سے متعلق ، موقت جانشینی ہے ، ہماری بحث ’’خلافت و جانشینی ‘‘ پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔شرح صحیح مسلم، نووی: ۱۵//۱۷۴

۶۸

سچ بتائیے !فیصلہ کیجئے!کیا ناصبی کے علاوہ کوئی ایسی بات کر سکتا ہے ؟ ایسی بات کہ کوئی بھی شخص یہاں تک تحفہ اثنا عشریہ کا مصنف بھی اس کی نسبت اپنی طرف دینا نہیں چاہتا، اسی لئے اس نے ناصبیوں کی طرف نسبت دی ہے۔

البتہ ہم ابن تیمیہ اور شیعہ عقائد کو رد کرنے والے دوسرے افراد کی باتیں بھی نقل کریں گے اور ان کی عبارتوں کے مخصوص حصوں کو لکھیں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ناصبی کون لوگ ہیں ۔ اس وقت آپ پہلے سے زیادہ ناصبیوں کے بارے میں آشنا ہو جائیں گے۔

اب تک یہ بیان ہوا کہ حدیث منزلت کس طرح صراحت سے امیر المومنین(ع) کی خلافت و امامت اور ولایت پر دلالت رکھتی ہے کہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ بھی اس دلالت کا منکر نہیں ہے ؛ لیکن آخر میں کہتا ہے :طرف مقابل سے پورا نزاع اور جھگڑا پیغمبر(ص) کے بعد بلا فصل امامت کے بارے میں ہے۔

۶۹

پانچواں حصہ:

حدیث منزلت کو رد کرنے کی علمی کوششیں

۷۰

حدیث منزلت کو ردّ کرنے کی کوششیں

گزشتہ مباحث میں سند اور متن کے لحاظ سے حدیث منزلت کی تحقیق کی۔ اس حصے میں علمی اشکالات اور ان کوششوں کی تحقیق کریں گے جو اس حدیث کو رد کرنے کے لئے اہل تسنن کی طرف سے کی گئی ہیں۔ ان اعتراضات اور اشکالات کو ہم دو مرحلوں میں ذکر کریں گے:

علمی اشکالات

ہم حدیث منزلت کے بارے میں ہر اشکال اور اعتراض قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ علمی بنیادوں پر مشتمل ہوں اور مناظرہ و گفتگو کے بارے میں بیان شدہ قواعد پر مبنی ہوں۔

اس حدیث کی دلالت پر کئے گئے اشکالات بطور خلاصہ تین اشکالات میں سمٹ جاتے ہیں:

پہلا اشکال :مدعا پر حدیث کا دلالت نہ کرنا

مخالفین کے پہلے اشکال کا ماحصل یہ ہے:

اس حدیث سے عمومی طور پر یہ استفادہ نہیں کیا جا سکتا کہ علی(ع) ہر جہت سے ہارون(ع) کی شبیہ ہیں؛ کیونکہ ان دونوں میں فقط ایک جہت سے شباہت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس بات کو بھی قبول نہیں کرتے کہ علی(ع) ، رسول اللہ (ص) کے لئے ہر مقام اور منزل پر وہی حیثیت رکھتے ہوں جو موسیٰ کے لئے ہارون کی حیثیت تھی۔

۷۱

دوسرا اشکال :خلافت کی محدودیت

اس حدیث سے جو خلافت و جانشینی ثابت ہوتی ہے وہ ایک موقتی خلافت ہے جو کسی خاص تقاضے کے مطابق ، محدود وقت کے لئے تھی۔ وہی زمانہ کہ جس میں پیغمبر(ص) زندہ تھے ، اور ہارون(ع) کی خلافت بھی اس وقت سے مربوط تھی جب حضرت موسیٰ اپنے رب سے مناجات کرنے گئے تھے ۔

اس مطلب کی تائید موسیٰ کی زندگی میں ہارون کے انتقال کر جانے سے بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہم کس خلافت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟

تیسرا اشکال :خلافت صرف جنگ تبوک کے وقت سے مخصوص تھی

یعنی یہ کہ حدیث منزلت جنگ تبوک کے وقت صادر ہوئی ہے ۔ جب پیغمبر(ص) مدینہ سے باہر تبوک کی طرف جارہے تھے علی(ع) کو اس لئے مدینہ چھوڑ گئے تھے کہ اپنے شخصی اور گھریلو امور کو سنبھالے اور مدینہ میں رہ جانے والوں کے امور کی تدبیر کرے ۔ اس بنا پر یہ حدیث ، کہ جو ایک معین واقعہ میں بیان ہوئی ہے ، اسی مورد کے لئے خاص ہو جائے گی۔

۷۲

پہلے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ ہارون(ع) سے علی(ع) کی شباہت تمام مقامات و منزلتوں میں نہیں ہے اور یہ شباہت ایسی عمومیت نہیں رکھتی جو ہارون کے تمام مقامات و منزلتوں کو شامل ہو جائے۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس حدیث میں دو ایسی عبارتیں ہیں جو اس کے معنی کو واضح کر دیتی ہیں:

ا۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘

اس عبارت میں اسم جنس’’منزلة‘‘ علم’’هارون ‘‘ کی طرف اضافہ ہوا ہے۔

۲ ۔استثنا :’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

اس استثنا کے ذریعے نبی اکرم(ص) نے ان تمام مقامات میں سے ، کہ جو امام(ع) کو حاصل ہیں ، فقط نبوت کو خارج کر دیا ہے۔ یہی استثنا بتاتا ہے کہ حضرت ہارون(ع) متعدد مقامات کے حامل تھے ان میں سے ایک مقام سے علی(ع) کو الگ رکھا گیا ہے۔

اصول فقہ ، بلاغت اور ادبیات کی کتب میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’استثنا ، عموم کا معیار اور ملاک ہے ؛ یعنی جب کسی جملے میں استثنا آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جملے میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اس کا حکم سب کو شامل ہے جن میں سے فقط ایک مورد کو الگ کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان کتب میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ’’اسم جنس مضاف‘‘الفاظ عموم میں سے ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی کوئی اشکال باقی رہ جاتا ہے؟

۷۳

اس بنا پر اس حدیث میں’’بمنزلة هارون‘‘ اسم جنس مضاف اور صیغہ عموم میں سے ہے۔ اسی طرح استثناء کا جملہ بھی عموم کے وجود کی دلیل ہے ؛ یعنی امیر المومنین(ع) پیغمبری کے سوا تمام مقامات اور منزلتوں میں حضرت ہارون کی طرح ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث تمام منابع میں اسی کیفیت کے ساتھ نقل ہوئی ہے ؛ یعنی یہی دو قرائن حدیث کے تمام متون میں موجود ہیں۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘ اور’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

لہٰذا اس حدیث سے پیغمبر(ص) کی مراد عموم نہ ہونے کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتااور حدیث اپنے مطلب میں صراحت کی حامل ہے؛ لہٰذا پہلا اشکال سرے سے ہی باطل ہو جاتا ہے۔

اہل فن کا نظریہ

ابن حاجب علم اصول اور عربی ادبیا ت کے بزرگوں اور پیشواوں میں سے ہے وہ اپنی کتاب مختصر الاصول میں ، جس کی بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور حوزات علمیہ کی درسی کتب میں شامل رہی ہے ، یوں لکھتا ہے:

محققین کے نزدیک جو صیغے عموم کے لئے وضع کئے گئے ہیں وہ مند رجہ ذیل ہیں: اسم شرط، اسم استفہام، موصولات، وہ جمع جس پر الف لام عہدنہ ہو بلکہ الف لام جنس داخل ہو اور خود اسم جنس جو الف لام یا اضافہ کے ذریعے معرفہ ہو گیا ہو۔(۱؎)

____________________

۱۔ المختصر( بیان المختصر۲) :۱۱۱

۷۴

وہ محققین جو زیادہ مدارک و ماخذ کے خواہاں ہیں وہ ادبی کتب سے ،جیسے جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’الاشباہ و النظائر‘‘اور ’’الکافیہ فی علم النحو‘‘ با شرح محقق جامی کہ جو’’ الفوائد الضیائیہ ‘‘کے نام سے مشہور ہے، رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ کتاب بھی حالیہ وقتوں میں حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔

اصولی کتب میں سے قاضی بیضاوی کی کتاب ’’المنہاج ‘‘اور اسی پر لکھی گئی شرحوں کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت‘‘ کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کتاب ، اصول فقہ میں اہل تسنن کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔

علم بلاغت کی کتب میں سے تفتازانی کی کتب’’ المطوّل فی شرح التلخیص‘‘ اور’’مختصر المعانی فی شرح التلخیص‘‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بھی حوزات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اصول فقہ، نحو اور بلاغت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

استثناء کے بارے میں بھی اصول فقہ کے تمام علمائے ما سلف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عموم کی موجودگی کا معیار استثناء کا وجود ہے۔

یہ بات قاضی بیضاوی کی کتاب ’’منھاج الوصول الی علم الاصول‘‘ اور اس پر لکھی گئی شرحوں میں مرقوم ہے۔ جیسا کہ ’’شرح ابن امام الکاملیہ‘‘ اور دوسری شرحوں میں ہے۔

۷۵

بنا بر ایں ہر وہ مقام ،جہاں پر استثناء صحیح ہو اور حکم افراد خاص میں محصور نہ ہو تو وہ عام ہوگا اور حدیث منزلت میں بھی استثناء پایا جاتا ہے۔

ہاں ! اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث صرف غزوۂ تبوک سے مختص ہے ؛ لہٰذا اس کی عمومیت سے صرف نظر کرنا چاہئے ؛ کیونکہ جب تخصیص کی کوئی دلیل یا شاہد نہ ہو تو پھر لفظ، عموم پر دلالت نہیں کرے گا۔ اس بنا پر حدیث منزلت صرف یہ بیان کر پائے گی کہ علی(ع) کی جانشینی ، مدینے میں باقی رہنے والوں کے لئے تھی تاکہ آپ(ع) بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کے امور کی دیکھ بھال کریں، جیسا کہ ابن تیمیہ کا یہی نظریہ ہے، اسکے علاوہ حدیث سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

واضح ہے کہ یہ اشکال اور دعویٰ دونوں صحیح نہیں ہیں؛ کیونکہ ، ہم بعد میں بھی بیان کریں گے ، حدیث منزلت غزوہ تبوک کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی رسول اکرم (ص) سے روایت ہو چکی ہے۔

ایک اشکال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ استثناء جب استثنائے متصل ہو تو اپنے سابق جملے کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے ؛ جبکہ یہاں استثناء ، منقطع ہے ؛ کیونکہ حدیث میں جو کچھ استثناء ہوا ہے وہ ایک جملہ خبریہ ہے اور جملہ خبریہ کا استثناء، استثنائے متصل ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ بیان کردہ مطالب ، علمی بحثیں ہیں کہ جن سے حقائق کے متلاشی افراد کسی حد تک آشنا ہوں گے۔یہ اشکال دیکھنے میں بہت خوبصورت اور زیبا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو پھر استثناء کی موجودگی کے ذریعے حدیث کی عمومیت پر استدلال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس اشکال کو صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ نے ذکر کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۱

۷۶

لیکن جب ہم حدیث کے مختلف متون کو ملاحظہ کرتے ہیں تو ان میں سے بعض متون میں’’الَّا‘‘ کے بعد جملہ خبریہ کی بجائے صرف’’النّبوّة‘‘ موجود ہے۔

اسی عبارت کے ساتھ نقل ہونے والی حدیث یا احادیث کی اسناد صحیح ہیں؛ جیسا کہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخی کتاب’’البدایة والنهایة‘‘ میں اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱؎)

اس کے علاوہ اہل سنت کے ہاں یہ مسلم بات ہے کہ علم اصول اور بلاغت کی رو سے استثناء میں ’’اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اصل سے دستبردار ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کوئی دلیل یا قرینہ نہ ہو۔

صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ ، جملہ خبریہ کی صورت میں آنے والے استثناء کو قرینہ بنا کر اس ’’اصل اولی ‘‘سے دستبردار ہونا چاہتا ہے؛ لیکن ہم نے جوابا ً کہا ہے کہ بعض متون میں یہ مستثنیٰ جملہ خبریہ کی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اسم ہے۔

استثناء میں ’’ اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے نہ کہ منقطع ہونا، اس سلسلے میں علمائے اہل سنت کی تعبیرات اور تصریحات سے آشنائی کے لئے حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کتاب’’المطوّل‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔(۲؎)

نیز اصول بزدوی کی شرح میں لکھی گئی شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ سے بھی مراجعہ کیا جا سکتا ہے جو اہل سنت کے اصولی مصادر میں سے ہے۔(۳؎)

____________________

۱۔ البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۴۰

۲۔المطوّل: ۲۰۴۔۲۲۴

۳۔ کشف الاسرار: ۳/ ۱۷۸

۷۷

اس کے علاوہ ابن حاجب بھی ’’مختصر الاصول‘‘ میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے۔(۱؎) یہاں تک کہ اگر حدیث کی شرحوں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس حدیث کے شارحین یہ تصریح کرتے نظر آئیں گے کہ یہ استثناء ، منقطع نہیں؛ متصل ہے۔ بطور نمونہ’’ارشاد الساری‘‘ (۲؎) میں قسطلانی کا بیان اور’’فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر‘‘ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔مختصر(بیان مختصر۲) : ۲۴۶

۲۔ارشاد الساری :۶/ ۱۱۷۔ ۱۱۸

۷۸

ان نکات کو پیش نظر رکھنے سے پہلا اعتراض اور اشکال ختم ہو جائے گا اور حدیث منزلت سے تمام مقامات اور منزلتیں ثابت ہوں گی؛ البتہ مذکورہ تمام مباحث، فنی اور تخصصی مباحث ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے اور زیادغور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے قواعد اورمخصوص علمی اصطلاحات پر مسلط ہونا چاہئے۔

دوسرے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کے ایک خاص واقعے میں حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین قرار دیا ہے؛ جس طرح حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کو اپنی زندگی میں جانشین قرار دیا تھا۔ جناب ہارون ، حضرت موسیٰ سے پہلے رحلت کر گئے؛ اس لحاظ سے حدیث منزلت ،اس خلافت و امامت پر دلالت ہی نہیں کررہی جو ہمارا محل نزاع ہے۔

اہل سنت کے بہت سے بڑے بڑے علماء نے یہی اشکال پیش کیا ہے؛ جن میں سے ابن حجر عسقلانی، قسطلانی و قاری؛ نیز ان کے متکلمین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی اشکال نقل کیا ہے۔

اس اشکال کا جواب دو صورتوں میں دیا جا سکتا ہے:

پہلی صورت:

جناب ہارون(ع) کے بیان کردہ مقامات اور منزلتیں متعدد تھیں جن میں سے ہر ایک کے ذریعے حضرت علی(ع) کی خلافت و جانشینی کا پتہ چلتا تھا؛ مثلا: لوگوں کے امور کی اصلاح کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے شریک کار ہونا یا آپ(ع) کی عصمت وغیرہ، اور یہ مقامات کسی معین اور مشخص زمانے تک ہرگز محدود نہیں رہے ہیں۔

۷۹

دوسری صورت:

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خلافت ، ایک روحانی اور معنوی مقام ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں: فلاں شخص خلیفہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شائستگی اور صلاحیت کے ایسے درجے پر پہنچ گیا ہے کہ اس مقام و خلافت کے اہل ہوگیا ہے۔ خلافت پیغمبر دراصل ، خلافت خدا ہے اور مقام الٰہی کی جانشینی کے لئے خود خلیفہ کے اندر شائستگی اور اہلیت کا پایا جانا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کے خلیفہ اور جانشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی حوالے سے آنحضرت(ص) کے ہم پلہ ہو ؛ تاکہ ان کی غیر موجودگی میں لوگوں کی ہدایت کی کر سی پر بیٹھ سکے۔ قرآن کی تاویل اور بطون سے آشنا ہو ؛ تاکہ لوگوں کو اسی طرح قرآن بیان کرے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) بیان کرتے تھے ،اور قرآن کے معارف و اسرار سے پردہ اٹھائے۔

مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) کا خلیفہ وہی شخص ہوگا جو آنحضرت (ص) کی غیر موجودگی میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ بنے؛ کیونکہ حضور اکرم (ص) کی رحلت کے ساتھ اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ؛ لیکن آسمان سے رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوتا؛ لہٰذا کوئی ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جس پر ہر سال ، شب قدر میں روح اور فرشتے نازل ہوں اور تمام امور کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

ایسی شخصیت کے لئے مطلوبہ شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو منتخب کرے۔

۸۰