حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر28%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50831 / ڈاؤنلوڈ: 3422
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چوتھا حصہ:

امیر المومنین(ع) کی خلافت پر

حدیث منزلت کی دلالت

۶۱

حدیث منزلت اور خلافت علی(ع)کا واضح بیان

گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ حدیث منزلت امیر المومنین(ع) کے لئے متعدد ایسے مقامات و منزلتوں کو ثابت کرتی ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا لازمہ آپ(ع) کی امامت و خلافت ہے ۔ یہاں اس بارے میں بات کی جا رہی ہے کہ لوازم سے ہٹ کر یہ حدیث بلاواسطہ اور صراحتاً بھی آپ(ع) کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی خلافت و جانشینی کے مقام کو ثابت کرتی ہے۔ بنا بر ایں یہ حدیث واضح اور کھلے لفظوں میں آپ(ع) کی خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب ہارون(ع)کے مقامات میں سے ایک آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کا جانشین ہونا تھا۔ خدا وند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ہارون(ع) سے یوں فرمایا:

’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ۔میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ،ان کے امور کی اصلاح کرو اور مفسدین کی پیروی نہ کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

اعراف: ۱۴۲

۶۲

پیغمبر(ص) کی جانشینی، فضائل کی اوج

بغیر کسی شک وشبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی خلافت و جانشینی کے لئے قابلیت اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اس طرح کہ جانشین ، آنحضرت(ص) کی جگہ پر بیٹھ سکے اوران کی غیر موجودگی میں تمام امور اورذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے؛ کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ(ص) کا جانشین ، آپ(ص) کی خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے ہے ، اس رو سے لازم ہے کہ وہ پیغمبر(ص) کے ساتھ کوئی تناسب رکھتا ہو تاکہ اس کام سے عہدہ برآ ہو سکے۔

جانشین پیغمبر(ص) کے لئے ضروری ہے کہ فضائل و کمالات میں بلندی پر ہو تاکہ یہ بلند مقام ، اس سے جڑ سکے، اور ایسی صلاحیت کا حامل ہو کہ پیغمبر(ص) کی جگہ اس کو بٹھانا عقل و منطق کی رو سے کوئی بعید کام شمار کیا نہ ہو ؛ کیونکہ یہ واضح ہے کہ کسی ایسے شخص کو کسی کی جگہ بٹھایا جائے جو اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اس کے امور کو بخوبی انجام نہیں دے سکتا ہو اور دونوں کے درمیان کوئی تناسب ہی نہ ہو تو ایسا کیا جانا ، عقل وحکمت سے بعید کام ہے۔

۶۳

قابلیت کا ظہور

اب سوال یہ ہے کہ جناب موسیٰ نے ایسی صلاحیت اپنے بھائی ہارون میں دیکھی تھی اور ہارون کو اس قابل سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی غیر موجودگی میں آپ کا جانشین بن جائے ؟ اور کیا ہارون اس مقام کی اہلیت رکھتے تھے یا نہیں؟

جب خدا وند متعال نے اس خلافت کی تائید فرمائی اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے تو قطعا ایسی صلاحیت ہارون(ع) میں دیکھی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ کہ حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ۔یعنی جناب ہارون ان تمام مسئولیتوں میں ، جوحضرت موسیٰ کے ذمے تھیں ، آپ کے جانشین اور قائم مقام ہیں۔

بنا بر ایں حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کو ، اگرچہ کوہ طور پر جانے کی قلیل مدت کے لئے ہی سہی، اپنا جانشین مطلق قرار دیا ؛ یعنی ہارون(ع) تمام حالتوں میں موسیٰ کا جانشین ہے اور انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کی طرح روحانی کمالات اور معنوی مقامات کے درجات کو طے کیا ہے اس لئے اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو یہ کہ حضرت ہارون(ع) ، خدا کا وہ مورد پسند شخص ہے جسے خدا نے اسی مقام کے لئے لائق انتخاب کیا ہے۔

اگر وہ اس مقام کے حامل ہیں تو جب بھی موسیٰ غائب ہوں انہی کو خلیفہ اور جانشین ہونا چاہئے ، خواہ ان کی کی زندگی میں ہو یا ان کی وفات کے بعد۔

۶۴

یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ ہارون(ع) نے کتنے روز خلافت کی؛ بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس مقام کے لئے قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ طے ہو گیا کہ آپ خدا سے مناجات کرنے کوہ طور جائیں گے تو یہ طے تھا کہ مناجات ۰ روز پر مشتمل ہوگی ؛ لیکن ۰ دن اس پر اضافہ ہو گئے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر موسیٰ نے ہارون کو شروع ہی سے صرف ۰ دنوں کے لئے خلیفہ قرار دیا تھا تو اضافہ کئے گئے دس دنوں میں وہ کس طرح اس مقام پر باقی رہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت فقط تیس روز پر مشتمل نہ تھی؛ بلکہ ہر اس وقت کہ جب موسیٰ غائب ہوں وہ خلیفہ ہوں گے؛ یہاں تک کہ اگر آپ(ع) کی غیبت اس چالیس روز سے زیادہ بھی ہوتی۔

اس رو سے حدیث منزلت کے تحت پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت امیر المومنین(ع) ایسی منزلت رکھتے ہیں یعنی رسول خدا(ص) کی نیابت و خلافت آپ(ع) کے لئے ثابت ہو جاتی ہے اور آنحضرت(ص) کی غیر موجودگی میں فقط آپ(ع) ہی کو جانشین ہونا چاہئے۔

جی ہاں!اس حدیث سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے امیر المومنین(ع) کو اس مقام کے لئے انتخاب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ، آپ(ع) کو اس مقام کا لائق سمجھتا ہے۔

مختصر یہ کہ مقام خلافت ، کوئی سریع الزوال منصب نہیں ہے ؛ بلکہ قرب الٰہی کے درجات اور روحانی مقامات میں سے ہے کہ جو ضروری صلاحیتوں اور رضائے الٰہی کا محتاج ہے۔

۶۵

بلا شرط فرمان برداری

خلافت کا اثر و نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں پر تمام امور میں بغیر کسی قید وشرط کے امیر المومنینؑ کی اطاعت کرنا اور ہمیشہ آپ(ع) کے فرامین پر کان دھرنا واجب ہے۔اور آپ(ع) کی اس اطاعت اور بدون قید وشرط فرمان برداری کا لازمہ یہ ہے کہ آپ(ع) امامت و ولایت عامہ کے حامل ہوں۔

ممکن ہے کوئی یہ گمان کرے کہ ہارون کی بے چون و چرا اطاعت کا واجب ہونا اس لحاظ سے تھا کہ وہ پیغمبر تھے نہ کہ اس لحاظ سے کہ وہ موسیٰ کے جانشین تھے بنا بر ایں اطاعت مطلقہ کا واجب ہونا خلافت کے آثار میں سے نہیں ہے؛ اور چونکہ امیر المومنین(ع) ، پیغمبر نہیں اس لئے یہ اثر آپ(ع) کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

یہ اشکال اگرچہ بعض علمائے اہل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے؛ لیکن یہ ایک فضول اور غلط توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ اگر بلا چون وچرا اطاعت کا واجب ہونا ، خلافت کے نہیں بلکہ نبوت کے آثار میں سے ہے تو پہلے تین خلفا کی اطاعت بھی واجب نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بھی تو پیغمبر نہیں تھے اور امیر المومنین(ع) کی اطاعت بھی خلیفہ چہارم ماننے کے سبب واجب نہیں کہ آپ(ع) بھی پیغمبر نہیں فقط جانشین پیغمبر ہیں۔

۶۶

حدیث منزلت اور علمائے اہل سنت کا نظریہ

اس ضمن میں جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اہل سنت کے علماء اور دانشمندوں نے تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

بطور نمونہ ایک کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ہے جو شیعہ اثنا عشری کے ردّ میں لکھی گئی ہے۔ اس کا مصنف اعتراف کرتا ہے کہ حدیث منزلت حضرت علی(ع) کی خلافت کو ثابت کرتی ہے؛ بلکہ بات اس سے بڑھ گئی ہے، کہتا ہے :کوئی بھی اس حدیث کی دلالت کا انکار نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ ناصبی و دشمن اہل بیت ہو اور اہل سنت ہرگز ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہیں۔(۱؎)

ہماری بات یہاں خلافت بلافصل ثابت کرنے میں ہے یعنی پیغمبر(ص) کے بعد بلافاصلہ آپ(ع) ہی آنحضرت(ص) کے جانشین ہیں؛ لیکن اس حدیث سے اصل خلافت کا اثبات ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ کہ کسی ناصبی یا دشمن علی(ع) سے۔ جیسا کہ تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے اس مطلب کی تصریح کی ہے ۔ اور حدیث کی دلالت کو اسی حد تک قبول کیا ہے۔

اس کے باوجود اہل سنت کی کتب احادیث اور ان کی شروحات سے مراجعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلافت و ولایت پر اس حدیث کی اصل دلالت کو ہی قبول نہیں کرتے اور اس میں مناقشہ کرتے ہیں، یعنی وہی کام کرتے ہیں جس کی نسبت تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے ناصبیوں اور دشمنان اہل بیت کی طرف دی ہے۔

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۰

۶۷

بطور نمونہ اگر حافظ بن حجر عسقلانی کی فتح الباری ، حافظ نووی کی شرح صحیح مسلم اور المرقاۃ فی شرح المشکاۃ سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس حدیث کی شرح و تفسیر میں امامت وولایت پر اس کی دلالت پر اشکال کرتے ہیں ؛ یعنی تحفہ اثنا عشریہ کی وہی بات جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔

اب شرح صحیح مسلم میں نووی کی باتوں پر توجہ کریں ۔ اس کی عین عبارت یااسی طرح کی عبارت اہل سنت کے مذکورہ لکھاریوں نے اپنی مذکورہ کتب میں نقل کی ہے۔

نووی کا بیان ہے:یہ حدیث پیغمبراکرم (ص) کے بعد، علی(ع)کی جانشینی پر کوئی دلالت نہیں کرتی؛ کیونکہ پیغمبر(ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا کہ جب آپ(ص) ، علی(ع) کو مدینہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر تبوک کی طرف جا رہے تھے۔

نووی یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ حدیث ایک خاص مورد میں بیان ہوئی ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہارون(ع) ، علی(ع) کی جس سے تشبیہ دی گئی ہے ، موسیٰ کے بعد خلیفہ نہ تھے ؛ بلکہ وہ موسیٰ کی زندگی میں ہی دنیا سے چل بسے ۔ تاریخ نگاروں کے نزدیک جو بات مشہور ہے اس کے مطابق ہارون(ع) نے حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال قبل رحلت فرمائی۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار کی میقات کی جانب مناجات کے لئے جانا چاہا تو ہارون(ع) کو اپنا جانشین بنایا ۔ پس یہ خلافت و جانشینی ایک خاص محدودے میں ایک خاص واقعے سے متعلق ، موقت جانشینی ہے ، ہماری بحث ’’خلافت و جانشینی ‘‘ پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔شرح صحیح مسلم، نووی: ۱۵//۱۷۴

۶۸

سچ بتائیے !فیصلہ کیجئے!کیا ناصبی کے علاوہ کوئی ایسی بات کر سکتا ہے ؟ ایسی بات کہ کوئی بھی شخص یہاں تک تحفہ اثنا عشریہ کا مصنف بھی اس کی نسبت اپنی طرف دینا نہیں چاہتا، اسی لئے اس نے ناصبیوں کی طرف نسبت دی ہے۔

البتہ ہم ابن تیمیہ اور شیعہ عقائد کو رد کرنے والے دوسرے افراد کی باتیں بھی نقل کریں گے اور ان کی عبارتوں کے مخصوص حصوں کو لکھیں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ناصبی کون لوگ ہیں ۔ اس وقت آپ پہلے سے زیادہ ناصبیوں کے بارے میں آشنا ہو جائیں گے۔

اب تک یہ بیان ہوا کہ حدیث منزلت کس طرح صراحت سے امیر المومنین(ع) کی خلافت و امامت اور ولایت پر دلالت رکھتی ہے کہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ بھی اس دلالت کا منکر نہیں ہے ؛ لیکن آخر میں کہتا ہے :طرف مقابل سے پورا نزاع اور جھگڑا پیغمبر(ص) کے بعد بلا فصل امامت کے بارے میں ہے۔

۶۹

پانچواں حصہ:

حدیث منزلت کو رد کرنے کی علمی کوششیں

۷۰

حدیث منزلت کو ردّ کرنے کی کوششیں

گزشتہ مباحث میں سند اور متن کے لحاظ سے حدیث منزلت کی تحقیق کی۔ اس حصے میں علمی اشکالات اور ان کوششوں کی تحقیق کریں گے جو اس حدیث کو رد کرنے کے لئے اہل تسنن کی طرف سے کی گئی ہیں۔ ان اعتراضات اور اشکالات کو ہم دو مرحلوں میں ذکر کریں گے:

علمی اشکالات

ہم حدیث منزلت کے بارے میں ہر اشکال اور اعتراض قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ علمی بنیادوں پر مشتمل ہوں اور مناظرہ و گفتگو کے بارے میں بیان شدہ قواعد پر مبنی ہوں۔

اس حدیث کی دلالت پر کئے گئے اشکالات بطور خلاصہ تین اشکالات میں سمٹ جاتے ہیں:

پہلا اشکال :مدعا پر حدیث کا دلالت نہ کرنا

مخالفین کے پہلے اشکال کا ماحصل یہ ہے:

اس حدیث سے عمومی طور پر یہ استفادہ نہیں کیا جا سکتا کہ علی(ع) ہر جہت سے ہارون(ع) کی شبیہ ہیں؛ کیونکہ ان دونوں میں فقط ایک جہت سے شباہت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس بات کو بھی قبول نہیں کرتے کہ علی(ع) ، رسول اللہ (ص) کے لئے ہر مقام اور منزل پر وہی حیثیت رکھتے ہوں جو موسیٰ کے لئے ہارون کی حیثیت تھی۔

۷۱

دوسرا اشکال :خلافت کی محدودیت

اس حدیث سے جو خلافت و جانشینی ثابت ہوتی ہے وہ ایک موقتی خلافت ہے جو کسی خاص تقاضے کے مطابق ، محدود وقت کے لئے تھی۔ وہی زمانہ کہ جس میں پیغمبر(ص) زندہ تھے ، اور ہارون(ع) کی خلافت بھی اس وقت سے مربوط تھی جب حضرت موسیٰ اپنے رب سے مناجات کرنے گئے تھے ۔

اس مطلب کی تائید موسیٰ کی زندگی میں ہارون کے انتقال کر جانے سے بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہم کس خلافت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟

تیسرا اشکال :خلافت صرف جنگ تبوک کے وقت سے مخصوص تھی

یعنی یہ کہ حدیث منزلت جنگ تبوک کے وقت صادر ہوئی ہے ۔ جب پیغمبر(ص) مدینہ سے باہر تبوک کی طرف جارہے تھے علی(ع) کو اس لئے مدینہ چھوڑ گئے تھے کہ اپنے شخصی اور گھریلو امور کو سنبھالے اور مدینہ میں رہ جانے والوں کے امور کی تدبیر کرے ۔ اس بنا پر یہ حدیث ، کہ جو ایک معین واقعہ میں بیان ہوئی ہے ، اسی مورد کے لئے خاص ہو جائے گی۔

۷۲

پہلے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ ہارون(ع) سے علی(ع) کی شباہت تمام مقامات و منزلتوں میں نہیں ہے اور یہ شباہت ایسی عمومیت نہیں رکھتی جو ہارون کے تمام مقامات و منزلتوں کو شامل ہو جائے۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس حدیث میں دو ایسی عبارتیں ہیں جو اس کے معنی کو واضح کر دیتی ہیں:

ا۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘

اس عبارت میں اسم جنس’’منزلة‘‘ علم’’هارون ‘‘ کی طرف اضافہ ہوا ہے۔

۲ ۔استثنا :’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

اس استثنا کے ذریعے نبی اکرم(ص) نے ان تمام مقامات میں سے ، کہ جو امام(ع) کو حاصل ہیں ، فقط نبوت کو خارج کر دیا ہے۔ یہی استثنا بتاتا ہے کہ حضرت ہارون(ع) متعدد مقامات کے حامل تھے ان میں سے ایک مقام سے علی(ع) کو الگ رکھا گیا ہے۔

اصول فقہ ، بلاغت اور ادبیات کی کتب میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’استثنا ، عموم کا معیار اور ملاک ہے ؛ یعنی جب کسی جملے میں استثنا آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جملے میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اس کا حکم سب کو شامل ہے جن میں سے فقط ایک مورد کو الگ کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان کتب میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ’’اسم جنس مضاف‘‘الفاظ عموم میں سے ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی کوئی اشکال باقی رہ جاتا ہے؟

۷۳

اس بنا پر اس حدیث میں’’بمنزلة هارون‘‘ اسم جنس مضاف اور صیغہ عموم میں سے ہے۔ اسی طرح استثناء کا جملہ بھی عموم کے وجود کی دلیل ہے ؛ یعنی امیر المومنین(ع) پیغمبری کے سوا تمام مقامات اور منزلتوں میں حضرت ہارون کی طرح ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث تمام منابع میں اسی کیفیت کے ساتھ نقل ہوئی ہے ؛ یعنی یہی دو قرائن حدیث کے تمام متون میں موجود ہیں۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘ اور’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

لہٰذا اس حدیث سے پیغمبر(ص) کی مراد عموم نہ ہونے کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتااور حدیث اپنے مطلب میں صراحت کی حامل ہے؛ لہٰذا پہلا اشکال سرے سے ہی باطل ہو جاتا ہے۔

اہل فن کا نظریہ

ابن حاجب علم اصول اور عربی ادبیا ت کے بزرگوں اور پیشواوں میں سے ہے وہ اپنی کتاب مختصر الاصول میں ، جس کی بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور حوزات علمیہ کی درسی کتب میں شامل رہی ہے ، یوں لکھتا ہے:

محققین کے نزدیک جو صیغے عموم کے لئے وضع کئے گئے ہیں وہ مند رجہ ذیل ہیں: اسم شرط، اسم استفہام، موصولات، وہ جمع جس پر الف لام عہدنہ ہو بلکہ الف لام جنس داخل ہو اور خود اسم جنس جو الف لام یا اضافہ کے ذریعے معرفہ ہو گیا ہو۔(۱؎)

____________________

۱۔ المختصر( بیان المختصر۲) :۱۱۱

۷۴

وہ محققین جو زیادہ مدارک و ماخذ کے خواہاں ہیں وہ ادبی کتب سے ،جیسے جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’الاشباہ و النظائر‘‘اور ’’الکافیہ فی علم النحو‘‘ با شرح محقق جامی کہ جو’’ الفوائد الضیائیہ ‘‘کے نام سے مشہور ہے، رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ کتاب بھی حالیہ وقتوں میں حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔

اصولی کتب میں سے قاضی بیضاوی کی کتاب ’’المنہاج ‘‘اور اسی پر لکھی گئی شرحوں کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت‘‘ کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کتاب ، اصول فقہ میں اہل تسنن کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔

علم بلاغت کی کتب میں سے تفتازانی کی کتب’’ المطوّل فی شرح التلخیص‘‘ اور’’مختصر المعانی فی شرح التلخیص‘‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بھی حوزات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اصول فقہ، نحو اور بلاغت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

استثناء کے بارے میں بھی اصول فقہ کے تمام علمائے ما سلف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عموم کی موجودگی کا معیار استثناء کا وجود ہے۔

یہ بات قاضی بیضاوی کی کتاب ’’منھاج الوصول الی علم الاصول‘‘ اور اس پر لکھی گئی شرحوں میں مرقوم ہے۔ جیسا کہ ’’شرح ابن امام الکاملیہ‘‘ اور دوسری شرحوں میں ہے۔

۷۵

بنا بر ایں ہر وہ مقام ،جہاں پر استثناء صحیح ہو اور حکم افراد خاص میں محصور نہ ہو تو وہ عام ہوگا اور حدیث منزلت میں بھی استثناء پایا جاتا ہے۔

ہاں ! اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث صرف غزوۂ تبوک سے مختص ہے ؛ لہٰذا اس کی عمومیت سے صرف نظر کرنا چاہئے ؛ کیونکہ جب تخصیص کی کوئی دلیل یا شاہد نہ ہو تو پھر لفظ، عموم پر دلالت نہیں کرے گا۔ اس بنا پر حدیث منزلت صرف یہ بیان کر پائے گی کہ علی(ع) کی جانشینی ، مدینے میں باقی رہنے والوں کے لئے تھی تاکہ آپ(ع) بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کے امور کی دیکھ بھال کریں، جیسا کہ ابن تیمیہ کا یہی نظریہ ہے، اسکے علاوہ حدیث سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

واضح ہے کہ یہ اشکال اور دعویٰ دونوں صحیح نہیں ہیں؛ کیونکہ ، ہم بعد میں بھی بیان کریں گے ، حدیث منزلت غزوہ تبوک کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی رسول اکرم (ص) سے روایت ہو چکی ہے۔

ایک اشکال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ استثناء جب استثنائے متصل ہو تو اپنے سابق جملے کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے ؛ جبکہ یہاں استثناء ، منقطع ہے ؛ کیونکہ حدیث میں جو کچھ استثناء ہوا ہے وہ ایک جملہ خبریہ ہے اور جملہ خبریہ کا استثناء، استثنائے متصل ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ بیان کردہ مطالب ، علمی بحثیں ہیں کہ جن سے حقائق کے متلاشی افراد کسی حد تک آشنا ہوں گے۔یہ اشکال دیکھنے میں بہت خوبصورت اور زیبا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو پھر استثناء کی موجودگی کے ذریعے حدیث کی عمومیت پر استدلال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس اشکال کو صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ نے ذکر کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۱

۷۶

لیکن جب ہم حدیث کے مختلف متون کو ملاحظہ کرتے ہیں تو ان میں سے بعض متون میں’’الَّا‘‘ کے بعد جملہ خبریہ کی بجائے صرف’’النّبوّة‘‘ موجود ہے۔

اسی عبارت کے ساتھ نقل ہونے والی حدیث یا احادیث کی اسناد صحیح ہیں؛ جیسا کہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخی کتاب’’البدایة والنهایة‘‘ میں اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱؎)

اس کے علاوہ اہل سنت کے ہاں یہ مسلم بات ہے کہ علم اصول اور بلاغت کی رو سے استثناء میں ’’اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اصل سے دستبردار ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کوئی دلیل یا قرینہ نہ ہو۔

صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ ، جملہ خبریہ کی صورت میں آنے والے استثناء کو قرینہ بنا کر اس ’’اصل اولی ‘‘سے دستبردار ہونا چاہتا ہے؛ لیکن ہم نے جوابا ً کہا ہے کہ بعض متون میں یہ مستثنیٰ جملہ خبریہ کی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اسم ہے۔

استثناء میں ’’ اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے نہ کہ منقطع ہونا، اس سلسلے میں علمائے اہل سنت کی تعبیرات اور تصریحات سے آشنائی کے لئے حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کتاب’’المطوّل‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔(۲؎)

نیز اصول بزدوی کی شرح میں لکھی گئی شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ سے بھی مراجعہ کیا جا سکتا ہے جو اہل سنت کے اصولی مصادر میں سے ہے۔(۳؎)

____________________

۱۔ البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۴۰

۲۔المطوّل: ۲۰۴۔۲۲۴

۳۔ کشف الاسرار: ۳/ ۱۷۸

۷۷

اس کے علاوہ ابن حاجب بھی ’’مختصر الاصول‘‘ میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے۔(۱؎) یہاں تک کہ اگر حدیث کی شرحوں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس حدیث کے شارحین یہ تصریح کرتے نظر آئیں گے کہ یہ استثناء ، منقطع نہیں؛ متصل ہے۔ بطور نمونہ’’ارشاد الساری‘‘ (۲؎) میں قسطلانی کا بیان اور’’فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر‘‘ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔مختصر(بیان مختصر۲) : ۲۴۶

۲۔ارشاد الساری :۶/ ۱۱۷۔ ۱۱۸

۷۸

ان نکات کو پیش نظر رکھنے سے پہلا اعتراض اور اشکال ختم ہو جائے گا اور حدیث منزلت سے تمام مقامات اور منزلتیں ثابت ہوں گی؛ البتہ مذکورہ تمام مباحث، فنی اور تخصصی مباحث ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے اور زیادغور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے قواعد اورمخصوص علمی اصطلاحات پر مسلط ہونا چاہئے۔

دوسرے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کے ایک خاص واقعے میں حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین قرار دیا ہے؛ جس طرح حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کو اپنی زندگی میں جانشین قرار دیا تھا۔ جناب ہارون ، حضرت موسیٰ سے پہلے رحلت کر گئے؛ اس لحاظ سے حدیث منزلت ،اس خلافت و امامت پر دلالت ہی نہیں کررہی جو ہمارا محل نزاع ہے۔

اہل سنت کے بہت سے بڑے بڑے علماء نے یہی اشکال پیش کیا ہے؛ جن میں سے ابن حجر عسقلانی، قسطلانی و قاری؛ نیز ان کے متکلمین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی اشکال نقل کیا ہے۔

اس اشکال کا جواب دو صورتوں میں دیا جا سکتا ہے:

پہلی صورت:

جناب ہارون(ع) کے بیان کردہ مقامات اور منزلتیں متعدد تھیں جن میں سے ہر ایک کے ذریعے حضرت علی(ع) کی خلافت و جانشینی کا پتہ چلتا تھا؛ مثلا: لوگوں کے امور کی اصلاح کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے شریک کار ہونا یا آپ(ع) کی عصمت وغیرہ، اور یہ مقامات کسی معین اور مشخص زمانے تک ہرگز محدود نہیں رہے ہیں۔

۷۹

دوسری صورت:

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خلافت ، ایک روحانی اور معنوی مقام ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں: فلاں شخص خلیفہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شائستگی اور صلاحیت کے ایسے درجے پر پہنچ گیا ہے کہ اس مقام و خلافت کے اہل ہوگیا ہے۔ خلافت پیغمبر دراصل ، خلافت خدا ہے اور مقام الٰہی کی جانشینی کے لئے خود خلیفہ کے اندر شائستگی اور اہلیت کا پایا جانا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کے خلیفہ اور جانشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی حوالے سے آنحضرت(ص) کے ہم پلہ ہو ؛ تاکہ ان کی غیر موجودگی میں لوگوں کی ہدایت کی کر سی پر بیٹھ سکے۔ قرآن کی تاویل اور بطون سے آشنا ہو ؛ تاکہ لوگوں کو اسی طرح قرآن بیان کرے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) بیان کرتے تھے ،اور قرآن کے معارف و اسرار سے پردہ اٹھائے۔

مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) کا خلیفہ وہی شخص ہوگا جو آنحضرت (ص) کی غیر موجودگی میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ بنے؛ کیونکہ حضور اکرم (ص) کی رحلت کے ساتھ اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ؛ لیکن آسمان سے رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوتا؛ لہٰذا کوئی ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جس پر ہر سال ، شب قدر میں روح اور فرشتے نازل ہوں اور تمام امور کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

ایسی شخصیت کے لئے مطلوبہ شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو منتخب کرے۔

۸۰

اگر ہم خلافت کو صرف ایک ظاہری اور اعتباری مرتبہ تصور کریں ، جس کا ایک محدود وقت ہو اور اس وقت کے شروع ہوتے ہی خلافت شروع ہوجاتی ہو اور اس کے اختتام کے ساتھ خلافت بھی اختتام کو پہنچتی ہو؛ نیز اس کے لئے کسی صلاحیت اور اہلیت کی ضرورت ہی نہ ہو تو یہ بہت ہی دور از حقیقت بات ہوگی ۔

اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو خلافت کے لائق جان کر منتخب کیا ، یا رسول خدا (ص) نے کسی کے اندر ایسی صلاحیت دیکھ کر اس کو اپنا مطلق خلیفہ بنا لیا اور( اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی ) (۱؎) کہہ کر سب کو سمجھا یا تو ہمیں ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ انسان خلیفہ پیغمبر بننے کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نا اہل کو پیغمبر (ص) کا جانشین قرار نہیں دیتا۔

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۸۱

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) ، علم الٰہی ، عصمت الٰہی اور قدرت الٰہی کے حامل ہیں اور فقدان پیغمبر (ص) کی خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ اور رسول خدا (ص) ، کسی شخص کو تمام مقامات کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین قرار دے ، خواہ اس کو عملیانے کا موقع نہ بھی ملے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کا منتخب بندہ ہے۔ اس کی صلاحیت و شائستگی اس منزل پر ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی غیر موجودگی میں ہر جہت سے آپ (ص)کے مقام کو سنبھال سکتا ہے؛ اختلافات میں مرجع بن سکتا ہے، لوگوں پر حاکم بھی بن سکتا ہے، احکام الٰہی کا بیان کرنے والا اور کلمات الٰہی کی تفسیر کرنے والا بھی بن سکتا ہے ؛ نیز لوگوں کے نفوس پر ان سے زیادہ اولیٰ اور اس کا حکم لوگوں پر ان کے اپنے احکام سے زیادہ نافذ بھی ہو سکتا ہے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کی خلافت کے لئے کوئی وقت معین نہیں کیا؛ بلکہ فرمایا:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ یعنی: جب بھی میں نہ ہوں تو میری غیر موجودگی کی خلاء کو پر کرو۔ اسی وجہ سے جناب ہارون ، ان دس دنوں میں بھی،جنہیں حضرت موسیٰ کی مناجات کی مدت پر اضافہ کیا گیا تھا، اپنے منصب پر باقی رہے ۔

جب یہ بلند منزلت اور مرتبت ، جناب ہارون کی نسبت ثابت ہوگئی تو حضرت امیر المؤمنین(ع) کے لئے بھی ثابت ہوجائے گی۔

زیادہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المؤمنین(ع) کو مقام ومنزلت کے لحاظ سے جناب ہارون(ع) کی مانند قرار دیا ہے نہ کہ ان حالات کے لحاظ سے جو انہیں پیش آئے ہیں؛ دوسرے الفاظ میں یہ کہ حضور اکرم (ص) نے اس طرح بیان نہیں فرمایا کہ جناب ہارون(ع) نے چالیس روز خلافت کا منصب سنبھالا ہے ؛ لہٰذ اتم بھی چالیس روز تک خلافت کے عہدے پررہو گے؛ نہیں!؛بلکہ یہاں پر مقام و منزلت کی بات ہے۔ جناب ہارون ، جناب موسیٰ کی خلافت کے حامل تھے اور یہ مقام جناب موسیٰ کی زندگی میں بھی بنی اسرائیل کے درمیان ان کے لئے محفوظ تھا۔

۸۲

حدیث منزلت اورابن تیمیہ کا نظریہ

ابن تیمیہ بھی اس حدیث پر مذکورہ اشکالات کی مانند اعتراض کرتا ہے؛ لہٰذا ہم اس کے نظرئیے کی کچھ چھان بین کریں گے۔

ابن تیمیہ کی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مختلف جگہوں پر حضرت امیر المؤمنین(ع) کی دشمنی، ان کی عیب جوئی اور ان پر طعنہ زنی سے مملو ہے۔ وہ اپنی کتاب کسی حصے میں یوں لکھتا ہے:

جب کبھی پیغمبر اکرم (ص) کسی جنگ، عمرہ ، حج یا کسی سفر پر جاتے تھے تو اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑ جاتے تھے۔ یہاں تک لکھا ہے کہ ایک سفر کے وقت آنحضرت (ص) نے ’’ ابن ام مکتوم‘‘ کو مدینے میں اپنا جانشین بنایا تھا۔ کوئی شخص اس جانشینی کو ابن ام مکتوم کے لئے فضیلت یا مقام ومرتبہ شمار نہیں کرتا۔

پھر وہ حدیث منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جب (پیغمبر اکرم (ص) کی آخری جنگ) جنگ تبوک شروع ہوئی تو آنحضرت (ص) نے کسی کو بھی فوج سے جدا رہنے اور اس حکم سے سرپیچی کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کی طرح کسی اور جنگ میں آپ(ص) کے ساتھ اتنے زیادہ لوگ نہ تھے۔ صرف عورتیں ، بچے ، معذور لوگ اور منافقین مدینے میں رہ گئے۔

مدینے میں دلاور مؤمنین نہیں تھے؛ تاکہ پیغمبر ،گزشتہ کی مانند کسی کو ان پر اپنا جانشین بنا جاتے۔ دوسری جہت سے یہ کہ مدینے میں بچوں، عورتوں اور معذوروں کے علاوہ کوئی اور رہنے والا نہ تھا؛ اس رو سے پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے اصحاب میں سے کسی اہم اور معروف شخص کو جانشین بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی؛ بلکہ اس موقع کی جانشینی حضور اکرم (ص) کی دوسری تمام جانشینیوں سے انتہائی بے وقعت جانشینی تھی ؛ یعنی تبوک کے وقت علی(ع) کی جانشینی ، ابن ام مکتوم کی جانشینی سے بھی بے وقعت اور بے اہمیت تھی۔[!!]

۸۳

ابن تیمیہ مزید کہتا ہے: علی(ع) کی جانشینی کے وقت مدینے میں طاقتور مؤمنین کی زیادہ تعداد موجود نہ تھی تاکہ ان کے لئے کسی زبردست کو جانشین قرار دینے کی نوبت آئے۔ اس بنا پر پہلے جن لوگوں نے حضور (ص) نے اپنا جانشین بنایا ہے ان کی جانشینی ، علی(ع)کی جانشینی سے بہتر اور برتر ہوگی۔

اسی وجہ سے علی(ع) ، روتے ہوئے حضور اکرم (ص) کی خدمت آئے اور گویا ہوئے: کیا آپ (ص) مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑیں گے؟

پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا: امانت داری کی خاطر تمہیں اپنا جانشین بنایا ہے اور پیغمبر (ص) کی جانشینی کبھی عیب ونقص شمار نہیں ہوتی، جس طرح موسیٰ نے ہارون کو اپنی قوم کے لئے اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

جب کوئی بادشاہ اور دوسرے لوگ جنگ کے لئے نکلتے ہیں تو اپنے ساتھ ایسے افراد کو لے لیتے ہیں جن سے زیادہ استفادہ کرنا ہو، کشمکش کے وقت ان کی ضرورت ہو، ان کے مشوروں سے سبق لینا ہو اور ان کی زبانوں، ہاتھوں اور تلواروں سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو۔ اس لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کو اس جنگ میں علی(ع) کی کوئی ضرورت نہیں تھی تاکہ ان سے مشورہ کیا جائے یا ان کی زبان، ہاتھ اور تلوار سے استفادہ کیا جائے [!] جبھی تو انہیں چھوڑ کر دوسروں کو ہمراہ لے لیا؛ کیونکہ ان امور میں وہ لوگ آنحضرت (ص) کے کام آتے تھے۔

۸۴

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ابن تیمیہ کہتا ہے: ایک چیز کو دوسری کے ساتھ تشبیہ دینے کا لازمہ یہ نہیں کہ دونوں چیزیں تمام جہتوں سے ایک دوسرے کی طرح ہوں؛ بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ بات کس موقع پر کہی گئی ہے ۔ کیا آپ وہ روایات نہیں دیکھتے جو صحیح بخاری اور مسلم میںنقل ہوئی ہیں اور ثابت ہیں؟ روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے اسیروں کے بارے میں ابوبکر سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: ان کے بدلے میں پیسے اور فدیہ لے کر انہیں رہا کردیں۔ پھر آنحضرت (ص) نے عمر سے مشورہ لیا تو اس نے کہا: ان سب کو قتل کر دو۔

پس آنحضرت (ص) نے فرمایا: اب میں ان دو ساتھیوں کا مقام تم لوگوں کو بتاتا ہوں۔ اے ابو بکر! تم ابراہیم کی مانند ہو [!] اور اے عمر ! تم نوح کی مانند ہو۔ [!]

لہٰذا اگر پیغمبر اکرم (ص) کسی سے یہ فرمائے کہ تم ابراہیم و عیسیٰ کی طرح ہو یا کسی دوسرے سے فرمائے کہ تم نوح اور موسیٰ کی مانند ہو تو ایسا کہنا نہایت اہم اور بہتر ہے یہ کہنے سے کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسی کے لئے ہارون۔

جو کچھ بیان ہوا وہ ابن تیمیہ کے بیان اور کلام کا ایک حصہ تھا۔ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس شخص کے ساتھ اپنے عدل کے مطابق سلوک کرے اور ہر کلمے کے مقابلے میں اسے وہی جزا دے جس کا وہ مستحق ہے۔

۸۵

نظریہ ابن تیمیہ کی ردّ

اب ہم چند موارد میں ابن تیمیہ کے نظرئیے کی مختصر تحقیق کریں گے:

۱ ۔ جو احادیث ہم نے پہلے نقل کی ہیں اور جو بعد میں نقل کریں گے، ان میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک نقل کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نیحضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘

دوسری تعبیر میں آنحضرت (ص) نے فرمایا:

’’فانّ المدینة لا تصلح الاَّ بي أو بک ۔ مد ینے کے امور میرے یا آپ(ع) کے بغیر درست اور منظم نہیں ہوں گے۔‘‘

ایک تعبیر ،ہم اس طرح ملاحظہ کرتے ہیں:

’’ انّه لا ینبغی أن أذهب الاَّ و أنت خلیفتی ۔ کسی صورت میں میرا جانا صحیح نہیں ہے؛ مگر یہ کہ تم میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

ان عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر مدینے میں کوئی دوسرا ہرگز جانشین پیغمبر کے طور پر نہیں رہ سکتا تھااور صرف آنحضرت (ص) یا حضرت امیر المؤمنین(ع) ہی مدینے کے امور کی دیکھ بھال کر سکتے تھے۔

واضح رہے کہ اس وقت مدینے پر ایک خاص فضا حاکم تھی اور منافقین سازشوں کے ایسے جال بچھا رہے تھے کہ کوئی بھی صحابی ان سازشوں کا مقابلہ کرکے انہیں ناکام بنانے کی قدرت و صلاحیت نہیں رکھتا تھا ۔ اس کام سے صرف دو افراد : پیغمبر اکرم (ص) یا حضرت امیر المؤمنین(ع)ہی عہدہ بر آ ہو سکتے تھے۔

۸۶

واقعاً اگر ( بقول ابن تیمیہ) یہ جانشینی ، حضرت امیر المؤمنین(ع) کے لئے کوئی فضل و رتبہ ثابت نہیں کرتی ؛ بلکہ حضور اکرم (ص) کی پہلی جانشینیوں سے بے وقعت اور بے اہمیت ہے تو عمر اپنے لئے اس مقام اور جانشینی کی آرزو کیوں کیا کرتا تھا؟ کیوں سعد بن ابی وقاص کے دل میں اس مقام تک پہنچنے کی حسرت تھی؟

۲ ۔ ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ ’’ علی(ع) اس حالت میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آئے کہ ان کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ‘‘ سراسر جھوٹ ہے۔ امیر المؤمنین(ع) کا رونا اس وجہ سے نہ تھا کہ پیغمبر (ص) نے آپ(ع) کو عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑا تھا؛ بلکہ اس وجہ سے تھا کہ آپ(ع) اس جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے ؛ نیز منافقین کی جانب سے سنی گئی دل دکھانے والی باتیں بھی رونے کا سبب بنی تھیں۔

دوسری بات یہ کہ امیر المؤمنین(ع) نے فرمایا:’’أ تخلّفنی فی النساء و الصبیان ‘‘ کیا آپ (ص) مجھے عورتوں اور بچوں میں اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟ یہ بات آپ(ع) نے اس وقت فرمائی تھی جب رسول اللہ (ص) جنگ کے لئے مدینہ سے باہر نہ گئے تھے؛ لیکن آپ(ع) نے گریہ اس وقت کیا جب مدینے سے نکلنے کے بعد آپ(ع) پیغمبر اکرم (ص) سے ملاقات کے لئے آئے تھے جس کی وجہ بھی منافقین کی باتیں اور افواہیں ہی تھیں نہ کہ آپ(ع) نے اس جانشینی کو بے وقعت سمجھا ہو۔ اس لحاظ سے ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ ’’ علی(ع) نے جب خود کو عورتوں اور بچوں کے درمیان خلیفہ بنتے دیکھا تو اعتراضاً گریہ کیا۔ ‘‘ امیر المؤمنین(ع) کی نسبت بہت بڑی ناروا تہمت اور افتراء ہے۔

۸۷

۳ ۔ ابن تیمیہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آنحضرت (ص) نے ابوبکر کو حضرت ابراہیم(ع) سے اور عمر کو حضرت نوح (ع) سے تشبیہ دی ہے۔ اس نے مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم میں نقل ہوئی ہے۔

اس سے بڑھ کر واضح جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ؛ کیونکہ صحیح بخاری اور مسلم آپ کی دسترس میں ہے، دیکھیں کیا کوئی ایسی حدیث ان دونوں کتابوں میں ہے؟!

اس بات کی شاہد ، ’’منہاج السنۃ‘‘ کی نئی اشاعت ہے جو ڈاکٹر محمد رشاد سالم کی تحقیق کے ساتھ ۹ جلدوں میں سعودی عرب سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے متن کو ملاحظہ کرکے ابن تیمیہ کا اس حدیث سے استدلال اور اس کی صحیحین کی طرف نسبت کو مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس کتاب کا محقق ، ابن تیمیہ کی بات کے نیچے حاشئے میں لکھتا ہے:

یقینا یہ حدیث فقط ’’ مسند احمد ‘‘ میں نقل ہوئی ہے اور مسند کے محقق، شیخ احمد شاکر کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

یہ حدیث احمد بن حنبل کی کتاب ’’مناقب الصحابہ‘‘ میں بھی مذکور ہے جو حال ہی میں سعودی عرب سے دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کے محقق نے بھی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاشئے میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔

۸۸

نتیجہ یہ ہوا کہ صحیح بخاری اور مسلم میں اس حدیث کا کوئی وجود نہیں ہے تاکہ ان دونوں میں مذکور ’’ حدیث منزلت‘‘ سے تعارض کر سکے اور جن کتابوں میں اس کا وجود ہے ان کے محققین نے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح کر دی ہے۔

شاید ابن تیمیہ نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ کوئی محقق اس کی کتاب کو پڑھ کر صحیح بخاری اور مسلم کے ساتھ اس کا مقائسہ کرے گاپھر اس کی دھوکہ دہی اور جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔

ابن تیمیہ نے اپنی اس عبارت میں حضرت امیر المؤمنین(ع) کی ذات گرامی پر جو طعنہ زنی کی ہے اور جو ناروا باتیں آپ(ع) کے حق میں روا رکھی ہیں، ہم ان کے بارے میں کچھ کہے بغیر اس کے جواب کو اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ بہترین حاکم اور فیصلہ کرنے والا ہے۔

اعور واسطی کا نظریہ

ابن تیمیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اعور واسطی نے بھی شیعوں کی ردّ میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں۔ یہ اہل سنت کے ہاں ، یوسف اعور واسطی کے نام سے مشہور ہے۔ شیعوں کی ردّ میں لکھے گئے ایک رسالے میں یہ پلید ناصبی لکھتا ہے: اگر مان لیا جائے کہ حدیث منزلت سے مقام خلافت ثابت ہوتا ہے تو اس میں فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ کیونکہ ہارون(ع) کی خلافت کے دوران فتنہ و فساد اور مؤمنین کے مرتد ہونے کے سوا کچھ نہیں تھا، اس زمانے میں بنی اسرائیل گوسالہ پرست ہوگئے ۔ اسی طرح علی(ع) کی خلافت کے دوران فتنہ و فساد اور جمل و صفین میں مسلمانوںکے قتل کے سوا کچھ اور پیش نہ آیا۔ [!]

کیا اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت کے دوران بنی اسرائیل کا گوسالہ پرستی کرنا ، ہارون کی خلافت و جانشینی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ؟

۸۹

بالفرض اس کی بات کو مان لیا جائے تو پیغمبروں کی پیغمبری کے دوران ہونے والی تمام خرابیاں، کفر ، ظلم و ستم اور قتل و غارت جیسی برائیاں ، ان کی نبوت کے لئے عیب اور نقص شمار ہوتی ہیں؟

کیا یہ صحیح ہے کہ سرکشوں، مستکبروں اور جابروں کے تمام گناہوں کو مصلحین، انبیاء اور خلفائے الٰہی اپنے ذمے لیں؟ کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ، اسلام اور ایمان کے دعویداروں کی آزمائش پر مبنی ہے ؟ تاکہ جس کے اندر کھوٹ ہے وہ ذلیل و رسوا ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَ حَسِبَ النَّاسُ أَن یُترَْکُواْ أَن یَقُولُواْ ء َامَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُونَ ) ۔کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟‘‘(۱؎)

حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر جانا اور ہارون کو ان کا خلیفہ بننا چاہئے ؛ تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون حضرت موسیٰ اور ان کے خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہے اور کون فقط زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے؛ لیکن اندر سے کوئی عقیدہ نہیں رکھتا۔

لیکن کیا کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ دورخی کرنے والوں کا کفر اور ستمگروں کا ستم، ہارون کی خلافت میں رخنہ ڈالے گایا اس میں کوئی کمزوری پیدا کر ے گا؟

____________________

۱۔ عنکبوت: ۲

۹۰

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ایک اور انداز سے جاری ہوئی جس کے ذریعے لوگوں کی آزمائش ہوئی ؛ تاکہ ہر اس شخص کا عقیدہ طشت ازبام ہوجائے جو دل سے پیغمبر اکرم (ص) اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا؛ نیز ہر اس شخص کا باطن آشکار ہو جائے جس کے سر میں سلطنت و حکومت کا سودا سمایا ہواتھااور اس نے سلطنت ہی کی خاطر اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس طرح وہ خلیفہ رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجائے، جنگ کے شعلے بھڑکائے اور مسلمانوں کو اس کی آگ میں جھونک دے۔

ظاہر ہے کہ کسی بھی منطق کے مطابق ظالم افراد کے ظلم وستم اور سرکش لوگوں کی نافرمانیوں کو مصلح افراد کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا؛ لیکن اعور واسطی انتہائی ڈھٹائی اور کمال بے شرمی کے ساتھ ظالموں کے ظلم وستم، آشوب گروں کے فتنوں اور رخنہ اندازوں کی نافرمانیوں کے پیش نظر حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت پر انگلی اٹھاتا ہے اور اس کی تضعیف کرتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر تبوک کے واقعے میں امیر المؤمنین(ع) کی جانشینی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور آپ(ع) کے لئے کسی مقام و مرتبے کو ثابت نہیں کرتی؛ یہاں تک کہ یہ جانشینی ، ابن ام مکتوم کی جانشینی سے بھی بے اہمیت ہے تو سارے شیعہ سنی علماء نے اس حدیث کو اتنی اہمیت کیوں دی ہے؟ کیوں مختلف زمانوں میں اس کی مختلف سندوں کو ذکر کیا اور اس کے راویوں کی تحقیق کی ہے؟ نیز کس لئے اس حدیث کی دلالت و معانی کی اتنی چھان بین کی ہے؟

اگر یہ موضوع اس قدر بے اہمیت اور یہ جانشینی تمام جانشینیوں سے پست تر تھی جو کسی تحقیق و جستجو کے بھی لائق نہ تھی تو اس حدیث کے سلسلے میں اس حد تک اہتمام کا کیا مطلب ہے؟

کیوں عمر کہتا ہے کہ اگرمیں ان خصوصیات میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو یہ میرے لئے ان تمام چیزوں سے زیادہ بہتر تھا جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے؟

۹۱

کیوں سعد بن ابی وقاص کہتا ہے کہ ان مقامات میں سے ایک میرا ہوتا تو وہ میرے لئے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب تھا جس پر سورج طلوع کرتا ہے؟

کیوںعلی (ع) کی فضیلت بیان کرتے وقت معاویہ اسی حدیث کو بیان کرتا ہے؟

کیوں اس حدیث کو ردّ کرنے اوراس کو باطل ثابت کرنے کے لئے اتنی کوششیں ہوئی ہیں؟

فضل بن روبہان ان افراد میں سے ہے جو ہمیشہ پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے استدلالات کو ردّ کرنے کے درپے ہوتا ہے؛ اس کے باوجود’’حدیث منزلت ‘‘کے بارے میں وہ کہتا ہے: ’’اس حدیث کے ذریعے علی(ع) کے لئے برادری، تبلیغ رسالت میں پیغمبر اکرم (ص) کی وزارت اور بعض دوسری فضیلتیں ثابت ہوجاتی ہیں۔‘‘

مذکورہ بیان کی روشنی میں دوسرے اشکال کے لئے بھی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔

تیسرے اشکال کا جواب

تیسرا اشکال یہ تھا کہ ’’حدیث منزلت ‘‘غزوۂ تبوک سے مختص ہے۔

جی ہاں ! اس اشکال کی گنجائش اس وقت ہوگی جب یہ حدیث صرف اور صرف جنگ تبوک کے موقع پر بیان ہوئی ہو، اور اس شان نزول کو ہم قبول بھی کرلیں ؛ نیز یہ شان نزول حدیث کے اسی مورد کے ساتھ مختص ہونے کا سبب بھی بن جائے۔

لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے ’’حدیث ثقلین‘‘ اور ’’ حدیث غدیر‘‘ کی طرح ’’ حدیث منزلت‘‘ کو بھی بہت سی جگہوں پر مختلف مواقع میں بیان فرمایا ہے۔ اہل سنت کی کتابیں سب کی دسترس میں ہیں، آزاد فکر اور منصف مزاج محقق ان روایتوں کوملاحظہ کر سکتے ہیں جن میں سے بعض کو ہم آنے والے حصے میں بیان کریں گے۔

۹۲

چھٹا حصہ:

وہ مواقع جہاں حدیث منزلت بیان ہوئی

۹۳

وہ مواقع جہاں حدیث منزلت بیان ہوئی

پیغمبر اکرم (ص) نے بہت ساری جگہوں پر مختلف مناسبتوں سے حضرت امیر المؤمنین(ع) کی شان میں ’’حدیث منزلت‘‘ بیان فرمائی ہے۔ یہاں پر ہم اختصار کے ساتھ چند موارد کی طرف اشارہ کریں گے:

۱۔ اصحاب کی اخوت کے موقع پر

اصحاب پیغمبر کی باہمی اخوت اور برادری کا موقع وہ ابتدائی موقع ہے جہاں پر رسول اللہ (ص) نے حدیث منزلت بیان فرمائی۔

ابن ابی اوفیٰ کا کہنا ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے ، ابوبکر اور عمر سمیت، تمام اصحاب کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تو علی(ع) نے عرض کیا:

’’ یا رسول اللّٰه! ذهب روحی وانقطع ظهری حین رأیتک فعلت ما فعلت بأصحابک غیری، فان کان هذا من سخط عَلَیّ فلک العتبی والکرامة ۔ اے رسول خدا (ص)! میری جان نکل گئی اور میری کمر ٹوٹ گئی جب میں نے دیکھا کہ آپ (ص) نے میرے علاوہ اپنے تمام اصحاب کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنادیا ہے۔ اگرآپ (ص) نے مجھ سے ناراضگی کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو آپ (ص) کو ہی حق حاصل ہے کہ میری سرزنش کریں یا بزرگواری فرمائیں۔‘‘

۹۴

اس وقت حضور اکرم (ص) نے فرمایا:

" والّذی بعثني بالحقّ! ما أخّرتک الاَّ لنفسي، و أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ غیر أنّه لا نبيّ بعدی، وأنت أخي و وارثي" اس خدا ک ی قسم جس نے مجھے مبعوث فرمایا! میں نے تمہیں صرف اپنے لئے انتخاب کیا ہے اور تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تم میرے بھائی اور وارث ہو۔ ‘‘

حضرت علی(ع) نے عرض کیا:

’’ما أرث منک یا رسول اللّٰه" اے اللہ کے رسول (ص) ! میں آپ (ص) سے کیا میراث پاؤں گا؟‘‘

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

’’ ما ورّث الأنبیاء من قبلي " ۔ وہ ی کچھ جو مجھ سے پہلے والے انبیاء نے ورثے میں چھوڑا ہے۔‘‘

حضرت علی(ع) نے دوبارہ سوال کیا:

’’ما ورّث الأنبیاء من قبلک" آپ (ص) سے پہلے انبیاء نے ورثے میں کیا چھوڑا؟‘‘

حضور (ص) نے فرمایا:

’’کتاب ربّهم و سنّة نبیّهم وأنت معي في قصري في الجنّة مع ابنتي و أنت أخي و رفیقي " ۔ان کے پروردگار کی کتاب اور پیغمبر کی راہ روشن۔ تم جنت میں میرے قصر میں میری بیٹی فاطمہ سمیت میرے ساتھ ہوں گے اور تم میرے بھائی اور رفیق ہو۔‘‘

۹۵

پھر حضور اکرم (ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( إخْوَانًا عَلیَ سُرُرٍ مُّتَقَبِلِین ) ۔وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوںگے۔‘‘(۱؎)

اس روایت کو حافظ جلال الدین سیوطی نے’’ الدر المنثور‘‘ میں درج ذیل آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے :

( اللَّهُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَئکَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعُ بَصِیر ) ۔اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اللہ یقینا خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘(۲؎)

اس آیت مجیدہ اور اس مذکورہ حدیث کا تناسب قابل توجہ ہے۔ سیوطی نے اس حدیث کو بغوی، باوردی، ابن قانع، طبرانی اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔(۳؎) ’’الریاض النضرة في مناقب العشرة المبشرة‘‘ (۴؎) اور احمد بن حنبل کی کتاب ’’مناقب علی(ع)‘‘(۵؎) میں بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔ متقی ہندی نے بھی کنز العمال میں اس حدیث کو مناقب سے نقل کر کے ذکر کیا ہے۔(۶؎)

____________________

۱۔ حجر: ۴۷

۲۔ حج: ۷۵

۳۔ الدر المنثور: ۶/ ۷۶۔۷۷

۴۔ الریاض النضرۃ :۳/ ۱۸۲

۵۔المناقب: ۱۴۲، حدیث ۲۰۷

۶۔ کنز العمال: ۹/ ۱۷۶، ح ۲۵۵۵۴و ۳/۱۰۵، ح۳۶۳۴۵

۹۶

۲ ۔حسنین(ع) کی ولادت کے موقع پر

دوسرا موقع ، جہاں رسول اللہ (ص) نے ’’حدیث منزلت‘‘بیان فرمائی ،وہ حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی ولادت کا موقع ہے۔

ملا علی قاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ نے ایک حدیث کے ضمن میں کہا کہ حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرم (ص) پر جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے حکم خدا سے فرمایا:

’’انّ علیّاً منک بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ یقینا علی(ع) ، آپ (ص) کے لئے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ وسیلۃ المتعبدین الی متابعۃ سیّد المرسلین:۵/ ۲۲۵

۹۷

۳ ۔ خطبہ غدیر خم

تیسرا موقع ، جہاں حضور اکرم (ص) نے اس حدیث کو بیان فرمایا، وہ غدیر خم کا خطبہ ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’ نگاہی بہ حدیث غدیر‘‘ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

۴ ۔ مسجد کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کراتے وقت

’’حدیث منزلت‘‘ بیان ہونے والے مواقع میں سے چوتھا موقع ، مسجد نبوی (ص) کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرانے کا ماجرا ہے۔ ہم نے اس ماجرا کے بارے میں کی گئی اپنی ایک تحقیق میں اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ روایت یوں بیان کی گئی ہے:

’’ وانّ علیّاً منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ بے شک علی(ع) میرے لئے وہی ہیں جو موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘

فقیہ مغازلی نے ’’ مناقب امام علی(ع)‘‘ میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ مناقب امام علی(ع)، ابن مغازلی: ۲۵۵۔ ۲۵۷

۹۸

۵ ۔عمر بن خطاب کا تقاضا

پانچواں موقع وہی ہے جہاں پر عمر بن خطاب نے کہا تھا:’’ کفّوا عن ذکر علیّ ‘‘ علی(ع) کے بارے میں کوئی بات نہ کریں۔۔۔

اس واقعے کو ہم گزشتہ اوراق میں مختلف مصادر سے نقل کر چکے ہیں۔

۶ ۔ دختر حمزہ کے ماجرا میں

’’حدیث منزلت‘‘ کے بیان کا چھٹا موقع ، سید الشہداء حضرت حمزہ(ع) کی بیٹی کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

جب جناب حمزہ(ع) کی بیٹی مکے سے مدینے کو آئیں تو حضرت امیر المؤمنین(ع)، جعفر اور زید کے درمیان اس کی کفالت و سرپرستی کے بارے میں اختلاف ہوگیا اور بات پیغمبر اکرم (ص) تک پہنچائی گئی تاکہ آپ (ص) اس بارے میں فیصلہ فرمائیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’امّا أنت یا عليّ! فأنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ النّبوّة ۔ مگر تم اے علی(ع)! تم میرے لئے وہی منزلت رکھتے ہو جو موسیٰ کی لئے ہارون رکھتے تھے، سوائے مقام نبوت میں۔ ‘‘

اس روایت کوابن عساکر نے تاریخ مدینۃ دمشق(۱؎) میں، احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند(۲؎) میں اور بیہقی نے السنن الکبریٰ(۳؎) میں نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے مصادر میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۳۶۸، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۴۰۹

۲۔ مسند احمد : ۱/ ۱۸۵، حدیث ۹۳۳

۳۔ السنن الکبریٰ: ۸/۶

۹۹

۷ ۔ جابر کی ایک حدیث

ساتواں موقع ، جابر بن عبد اللہ انصاری کی ایک حدیث ہے۔ وہ کہتے ہیں : ہم مسجد میں سوئے ہوئے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) تشریف لائے اور یوں فرمایا:

’’أترقدون بالمسجد؟ انّه لا یرقد فیه ۔ کیا تم لوگ مسجد میں سوتے ہو؟ مسجد سونے کی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

حضور اکرم (ص)کے ساتھ حضرت علی(ع) بھی تھے،آنحضرت (ص) نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا:

’’تعال یا علي! انّه یحلّ لک في المسجد ما یحلّ لي أما ترضی أن تکون منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ النبوّة ! ۔ اے علی(ع) قریب آجاؤ! جو کچھ مسجد میں میرے لئے حلال ہے وہی تمہارے لئے بھی روا ہے۔کیا تم راضی نہیں ہو کہ میرے لئے ایسے رہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے مقام نبوت میں؟!‘‘

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126