فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں0%

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شیخ حسین گنجی
زمرہ جات: مشاہدے: 12105
ڈاؤنلوڈ: 2690

تبصرے:

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12105 / ڈاؤنلوڈ: 2690
سائز سائز سائز
فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ساتویں مجلس

اہل بیت اور مقام رسالت

اللہ تعالی قرآن میں ارشادفرماتاہے:

( وَ تِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهيمَ عَلى‏ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاء )

سورہ انعام، آیت۸۳

یہ ہماری دلیل ہےجسےہم نےابراہیم علیہ السّلام کوانکی قوم کےمقابلہ میں عطا کی اورہم جسکوچاہتےہیں اسکےدرجات کو بلندکردیتےہیں ۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وموضع الرسالة

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت! اور پیغام الہی آنےکی جگہ!

زیارت جامعہ کادوسراجملہ، رسالت کےبارے میں ہےصرف پیغمبراکرم کی نبوت اوررسالت نہیں بلکہ تمام انبیاءکی رسالت،موضع کی معنی ہےہرچیزکامکان،محل اس بناپرجملےکاظاہری ترجمہ یہ ہوگاسلام ہوتم آئمہ معصومین پرجوکہ رسالت کی محل،مکان ہو۔

کچھ مترجمین کاکہناہےکہ : کیونکہ پیغمبراکرم صاحب رسالت تھے اس اعتبار سےامام ھادی فرمانا چاہتے ہیں رسالت آپ کےگھر میں وارد ہوئی ہےلیکن یہ معنی اس جمع کےلئے ایک مجازی معنی ہےحقیقی نہیں ہےجیسےلفظ شیرہےجوکہ کبھی شجاع انسان کیلئے استعمال ہوتا ہےجو کہ اس کی غیرحقیقی اور مجازی معنی ہےیہ کیسی معنی ہےکہ ہم آئمہ معصومین کو کہیں کیونکہ آپ کا جد اللھ کا رسول تھا اس اعتبار سےآپ میں بھی رسالت آئی ہے۔ لیکن موضع الرسالہ کی حقیقی معنی یہ ہےکہ تمام انبیا چاہےاولوالعزم یا غیر اولوالعزم سوائے خاتم الانبیا ء کے، ان سب کی نبوت و رسالت آپ کےہاتھوں امضا ہوتی ہےیعنی وہ حقیقی رسالت، خدا نےآپ کو عطا کی ہےاور پھر آپ کی طرف سےتمام انبیا تک تبلیغ ہوتی ہےحقیقت میں رسالت آپ کےوجود میں خلاصہ ہوتی ہے۔

مطلق اورمقیدولایت

ہم جب انسانوں کامحاسبہ کریں تودیکھنےمیں آتاہےکہ مراتب کےسلسلےمیں انسان کاپہلامرتبہ اسکابشرہوناہے۔پھرکچھ لوگ اس سےآگےبڑھتےہیں جنکوخداوندمقامِ نبوت یا رسالت عطاکرتاہے۔لیکن مقام نبوت ورسالت سےبھی بڑامقام ولایت وامامت ہے۔

اللھ تعالی قرآن مجید میں فرما رہا ہے:

( وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماما؛ )

سورہ بقرہ، آیت۱۲۴

اوراسوقت کویادکروجب خدانےچندکلمات کےذریعےابراہیم علیہ السّلام کاامتحان لیااورانہوں نےپوراکردیاتواسنےکہاکہ ہم تم کو لوگوں کا امام اورقائدبنارہےہیں۔

یعنی ابراھیم عبدتھا، خلیل تھا، نبی و رسول تھا لیکن جب خدا نےاسےآزمایا تو امامت تک پہنچا، اس بنا پر ام،امت نبوت اور رسالت سےبڑہ کر ہے۔

دوسری طرف سےجو بھی نبی یا رسول کےعنوان سےمبعوث ہوتا ہےتو نبوت یا رسالت ،اسکی ولایت کی فرع ہوتی ہےکیونکہ خداوندمتعال نےاسےایک باطنی ولایت عطاکی ہےتاکہ اپنےاوپر اورکائنات پرتسلط پیدا کرے۔ پھر اسےمقام نبوت تک پہنچاتا ہےکوئی نبی بغیر ولایت کےنہیں ہوتا ہےاگر نبی کےپاس ولایت نہ ہو تو اس سےمعجزہ کیسےصادر ہوگا کس طرح ماضی کی یا آیندہ کی خبریں دے گا۔

لیکن جو انبیا، صاحب ولایت اور امامت ہیں انکی ولایت مقید ہےمحدود ہے، مطلق نہیں ہے، ابراہیم خلیل اللھ آیت قرآن کےمطابق امام ہیں لیکن مقید امام، مطلق امام نہیں ہیں یعنی تمام انبیا اور خدا کےعلاوہ تمام مخلوق پر امام نہیں ہیں اس لئے روایات میں آیا ہے: کل قیامت کےدن تمام انبیا و انفساپکارینگے فقط پیغمبراکرم اورآئمہ وامتی پکارینگے یعنی جب امتیں اپنےرسولوں کےپاس جائیں گی تو وہ کہینگے پیغمبرکےپیچھے جاؤ کیونکہ ہم سب اس کےنمایندے تھے۔

بحار، ج ۸ ، ص ۳۵

اس بناپرولایت مطلقہ اہلبیت کےپاس ہےخداوندمتعال اپنےلاریب کلام میں فرمارہےہیں :

( هُنالِكَ الْوَلايَةُ لِلَّهِ الْحَق )

سورہ کھف، آیت۴۴

اسوقت ثابت ہواکہ قیامت کی نصرت صرف خدائےبرحق کےلئےہے۔

خدا قیامت کےدن اپنی کامل ولایت لوگوں کو دکھا ئینگے اگر لو گ دنیا میں نہ سمجھ سکےتو وہاں آخرت میں سمجھ جائینگے وہاں تو رکاوٹیں اور حجاب ختم ہوجائینگے، وہاں تو دن ہوگا دنیا کےبرخلاف؛ یہاں شب ہےہماری روایتوں میں آیا ہےکہ ھنالک الولایہ یہ ہی امیرالمومنین (ع) کی ولایت۔(کافی، ج ۱ ، ص ۴۱۸ ۔)

کل قیامت کےدن لوگ مولا علی کی مطلق ولایت دیکھیں گے اور متوجہ ہونگے یہاں تک کہ خداوند متعال نےمخلوق کا حساب و کتاب بھی ان کےحوالے کیا ہے۔

گذشتہ تمام مطالب سےاس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ نبوت، ولایت کی طرف سےامضا ہوتی ہےیعنی اگر آئمہ جو کہ ولایت مطلقہ کےمالک ہیں امضا نہ کریں تو کوئی بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا۔

ایک روایت میں آیا ہےکہ:

مَا تَكَامَلَتِ النُّبُوَّةُ لِنَبِيٍّ فِي الْأَظِلَّةِ حَتَّى عُرِضَتْ علیه وَلَآیتي وَ وَلَايَةُ أَهْلِ بَيْتِي‏؛

بحار، ج ۲۶ ، ص ۲۸۱ ۔

کسی بھی نبی کی نبوت کامل نہیں ہوتی مگر یہ کہ میری اور میرے اہل بیت کی ولایت اس کےسامنےپیش کی گئی۔

دوسری روایت میں یہ مطلب حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکےبارے میں بیان ہوا ہے،

أَقَرَّ بِفَضْلِها

مجمع النورین، ص ۴۰ ۔

فرمایا جب فاطمہ کی فضیلت کا اقرار کرتا تو خدا اسےدرجہ دیتا تھا اورمبعوث کرتا تھا۔

تبلیغ ولایت، پیغمبر اکرم کی بعثت کا راز

خداوند متعال سورہ مائدہ میں اپنےرسول کو فرما رہےہیں:

( يا آیتا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ )

سورہ مائدہ، آیت ۶۷ ۔

اےپیغمبرآپ اس حکم کو پہنچادیں جوآپکےپروردگارکی طرف سےنازل کیاگیاہےاوراگرآپنےیہ نہ کیاتوگویااسکےپیغام کونہیں پہنچایا۔

خداوندمتعال نےفماتبلغ نہیں فرمایابلکہ ماضی کاصیغہ استعمال کیا ہے۔ آخر یہ کہنےکےبجائے کہ اگرعلی کا تعارف نہیں کروایا تواپنی رسالت کونہیں پہنچائے گا، یہ کیوں کہاکہ تونےرسالت نہیں پہنچائی ؟مقصدیہ ہےکہ پہلےدن سےآج تک یہ سب کچھ علی کی ولایت اورامامت کامقدمہ ہے۔حقیقت میں مولا علی،رسول اکرم(ص)کاباطن ہےکیونکہ رسول اکرم(ص)کاظاہر،نبوت اورباطن،ولایت ہے۔اسلئےقرآن آیاہےاوراس نےباطن سےپردہ کواٹھایاہےیعنی جو کوئی بھی رسول اکرم(ص)کےکامل باطن کودیکھناچاہتا ہےاسےچاہیے کہ علی کو دیکھے اس لئے کبھی فرماتے تھے :

حَبِيبُ قَلْبِي‏

مشارق انوار الیقین، ص ۶۹

امیرالمومنین (ع) میرا قلب ہے۔

دوسری روایت میں فرمایا:

بِي أُنْذِرْتُمْ وَ بِعلی بْنِ أَبِي طَالِبٍ اهْتَدَيْتُم‏؛

بحار، ج ۳۵ ، ص ۴۰۵

مجھ رسول کےذریعے تمہیں ڈرایا جاتا ہےلیکن ہدایت امیرالمومنین (ع) کےپاس ہے۔ رسول اکرم(ص) کا ایک اہم کام ڈرانا ہےتاکہ بشر باطل سےدستبردار ہو کر حق میں داخل ہو جائے لیکن رسول اللہ تو ھدایت کا عہدہ بھی رکھتے تھے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

( أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هاد )

سورہ رعد، آیت ۷

میں صرف ڈرانےوالا ہوں اور ہر قوم کےلئے ایک ہادی اور رہبر ہے۔

تو پھرکیوں آنحضرت اس روایت اپنےآپ کو ڈرانےوالا (منذر)اور علی کو ہادی کہہ رہےہیں؟ اسکاراز یہ ہےکہ پیغمبراکرم نبوت کا ظاہری مقام رکھتے ہیں اورنبی کاکام خبردینا اور ڈرانا ہےلیکن حضرت فرماتےہیں کہ میرا باطن ولایت اور امامت ہےاور باطن کےعنوان سےبشر کی ہدایت کرتا ہوں کیونکہ ولایت کا کام ڈرانےکےعلاوہ ہدایت اور دستگیری بھی ہےحضرت علی (ع)بھی رسول کےباطن اور نفس ہیں اسی دلیل کی بنیاد پر انہیں ہادی کہا گیا ہے۔

مقام عصمت،نبوت وامامت کامحافظ

اس روایت کو تو سب نےسنا ہے:

لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمة لما خلقتکما؛

مستدرک سفینة البحار، ج ۳ ، ص ۱۶۶

اے پیغمبراگرتونہ ہوتا تو افلاک کو پیدا نہ کرتا اگرعلی نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو تم دونوں کو پیدانہ کرتا۔اس حدیث کی معنی یہ ہےکہ ایک مقام نبوت ہوتاہےاورایک مقام امامت اور اسی طرح ایک مقام عصمت ہوتا ہے۔امامت اورولایت، رسالت کےمحافظ ہیں۔لیکن خود ولایت اورامامت کوبھی ایک محافط کی ضرورت ہےجو کہ عصمت ہے۔یہ روایت یہ بیان کررہی ہےکہ حقیقت میں پیغمبرنبی بھی ہےاورامام بھی اورمقام عصمت بھی رکھتاہے۔ خداوندمتعال رسول اللہ کوخطاب کرکےفرما رہا ہے: یا رسول اللہ اگر تیرا ولایت وامامت کارخ نہ ہوتا تومیں تمہیں پیدا نہ کرتا کیونکہ یہ امامت ہےجو تیری نبوت کی محافظ ہےتمہاری اس ولایت و امامت کامصداق امیرالمومنین(ع)بھی ہےاسی طرح اگر عصمت نہ ہوتی تو نہ تمہیں پیدا کرتا اور نہ ہی امامت کو، کیونکہ امامت کو بھی محافظ کی ضرورت ہےتمہاری عصمت نےخارج میں ایک مصداق بنالیا ہےجو کہ حضرت زہرا ہیں یہ نہیں کہنا چاہ رہےکہ فاطمہ ،رسول اللہ اور امیرالمومنین (ع) علی سےافضل ہیں بلکہ یہ تین مقام رسول اللہ کےہیں، ان کا ظاہری مقام نبوت ہےباطنی مقام امامت ہےاور باطن کا باطنی مقام عصمت ہے۔ خود پیغمبر اکرم نےعلی کو فرمایا:

کنت مع الانبیا سرا و معی جهرا؛

القطرہ من بحارمناقب النبی والعترہ، ج ۱ ، ص ۱۸۸

تو سب انبیاءکےساتھ تھامخفی طورپراورمیرےساتھ ہےآشکار۔ یعنی انکی نبوت اوررسالت کاباطن،ولایت تھا۔علی انکےاندرتھےہرکسی کو ان کےظرف کےمطابق طاقت دے رہا تھا اور صاحب ولایت بنا رہا تھا۔ در حقیقت جو ولایت تمام انبیا کےوجود میں کام کر رہی تھی اور ان کو جو مقید ولایت حاصل تھی وہ علی کی طرف سےتھی اسی وجہ سےرسول اللہ کےساتھ علنی اور آشکار ہو کر اپنا تعارف کروایا۔

حکومت انبیاءپرولایت

حضرت علی(ع)نےدوسری روایت میں فرمایا:

وَ إِنِّي لَصَاحِبُ الْكَرَّاتِ وَ دَوْلَةُ [دَوْلَةِ] الدُّول؛

بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۴

میں صاحب کرامات ہوں، میں حکومتوں کا حاکم ہوں ۔ یعنی کیا؟ کیا مولا یہاں یہ کہنا چاہ رہےہیں کہ میں جنگ میں دشمن پر مسلسل حملے کرتا ہوں ؟ یا پہلے جملے کی معنا پر توجہ دیتے ہوئے اس کی کچھ اور معنی بھی ہو سکتی ہےوہ یہ کہ میں کتنی ہی بار اس دنیا میں آیا ہوں اور آتا رہوں گا۔مطلب حضرت یہ فرماناچاہتےہیں کہ میں آدم کےساتھ تھا، ابراہیم کےساتھ، عیسی کےساتھ، موسی کےساتھ تمام انبیا کےساتھ تھا ایسا نہیں ہےکہ فقط پیغمبراکرم کےدور میں دنیا میں آیا ہوں۔

نمونہ کےطور پر یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ خداوند متعال نےحضرت موسی و ہارون کو فرمایا :

( اذْهَبا إِلى‏ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى )

سورہ طہ، آیت۴۳

تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔

لیکن خدا نےایک وعدہ بھی ان کو دیا :

( نَجْعَلُ لَكُما سُلْطانا )

سورہ قصص، آیت ۳۵

اورتمہارےلئےغلبہ قراردیں گے۔

فرعون نےمحل کےنگھبانوں کوحکم دے رکھا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہ دیں شاید وہ ایسی بات کرنا چاہتے تھے وہ نہیں چاہتا تھا کہ دوسروں کےآگے رسوا ہو۔

جب حضرت موسی و ہارون قصر میں داخل ہوئے، انہوں نےدیکھا کہ فرعون تخت پر بیہوش پڑا ہےبعد میں جب ہوش آیا اور انکےدرمیان گفتگو ہوئی فرعون نےنگھبانوں کو بلوایا اور ان کو کہا : کیا میں نےتمہیں نہیں کہا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہیں دینا؟ انہوں نےکہا : ہم نےایسا ہی کیا تھا اور کسی کو اندر آنےنہیں دیا فرعون نےکہا پس وہ جوان جو فاخر لباس پہنےسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی ہیبت اور عظمت کو دیکھ کر میں زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا وہ کون تھا؟ روایت میں ہےکہ وہ امیرالمومنین (ع) تھے

مدینہ المعاجز، ج ۱ ، ص ۱۴۳ ۔

یعنی مخفی طور پر سب انبیا کےساتھ تھے کبھی کبھی ظاہر بھی ہو جاتے تھے۔

روایت کےآگے حضرت نےفرمایا :

دَولَةُ [دَولَةِ] الدُّول ؛

اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی میں سب انبیاءکی حکومت تھا اگر انہوں نےکوئی حکومت تشکیل دی تو وہ میری ولایت کےزیر سایہ تھی۔ شیعہ اور سنی دونوں نےاس روایت کو نقل کیا ہے:

إِنَّ النَّاسَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى حُبِّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع لَمَا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ ؛

بحار، ج ۳۹ ، ص ۲۴۸ ؛ ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۲۷۲

اگر لوگ علی کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہیں کرتا۔

اس روایت میں کچھ نکات ہیں

۱ ۔ جہنم مولا علی کےدوستوں کیلئے نہیں ہےبلکہ مولا کےدشمنوں کیلئے ہے

۲ ۔ اگر مولا فقط اس امت کےساتھ مخصوص ہوں تو دوسری امتوں کا کیا ہوگا؟ فرعون کا کیا ہوگا؟ نمرود کا کیا ہوگا؟ قوم لوط و عاد کا کیا ہوگا؟حضرت علی(ع)تو ظاہری طور پر ان کےپاس نہ تھے تو لوگ کیسےحضرت سےمحبت کرتے کہ جنت میں جا سکیں اور انکےدشمن واصل جہنم ہوں۔ یہی کہا جائے گا کہ امیرالمومنین (ع) مخصوص تاریخ سےتعلق نہیں رکھتے بلکہ تمام زمانوں اور عوالم سےتعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا حکم تمام امتوں میں تھا ان کی محبت بھی سب پر واجب تھی حقیقت میں تمام انبیا مولا علی کےنمائندے تھے، انہوں نےفیض، علم، معارف اور شرائط رسالت مولا علی سےلئے تھے، مولا ہی نےان کی رسالت کو امضا کیا تھا اور تبلیغ کی اجازت انہیں دی تھی۔ یہی سبب ہےکہ جب پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین آئے تو تمام ادیان منسوخ ہو گئے کیونکہ وہ سب نمائندے تھے رسول اللہ کےآنےسےان کا کام پورا ہو گیا۔

زیارت جامعہ کا ایک جملا ہے:

وَ عِنْدَكُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلَائِكَتُه‏؛

جو کچھ انبیا پر نازل ہوا وہ آپ کےپاس ہےیعنی پہلے سےآپ کےپاس موجود تھا آپ کےتوسط سےانبیا کو ملا جو کچھ بھی فرشتے لے آئے وہ سب آپ کےپاس تھا یعنی خدا نےآپ چھاردہ معصومین کو عطا کیا ہے۔

روایت میں ہےکہ امام صادق (ع) نےفرمایا:

إِنَّ اللَّهَ أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً وَ عِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِين‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۴۴۲

سب سےپہلے خدانےجس کو پیدا کیا وہ پیغمبر اکرم اور آئمہ تھے۔ پہلے انہیں پیدا کیا تاکہ جو بھی فیض، کمالات اور معارف ہیں ا ن کو عطا فرمائے پھر وہ انبیاء یا غیر انبیا کو دیں۔

امیرالمومنین(ع)اورعلم الکتاب

یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔آیت قرآن ہےکہ:

( قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب )

سورہ رعد، آیت ۴۳

کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کےلئے خدا کافی ہےاور وہ شخص کافی ہےجس کےپاس پوری کتاب کا علم ہے۔

روایات میں وارد ہوا ہےکہ

من عنده علم الکتاب

سےمراد امیرالمومنین (ع) ہیں۔

شواھد التنزیل، ج ۱ ، ص ۳۰۸

یہ آیت مکہ میں رسول اللہ پر نازل ہوئی جس دورمیں کافرآکرپیغمبرسےسوال جواب کرتے تھےابھی تک انہوں نےرسالت کو قبول نہیں کیا تھا خدا فرما رہا ہےپیغمبرکےپاس دو گواہ ہیں ایک خدا اور دوسراے وہ جن کےپاس علم الکتاب ہےیعنی امیرالمومنین (ع)۔

امیرالمومنین(ع)کی مکہ میں عمرکچھ زیادہ نہ تھی، ابھی تک تو ظاہری امامت کوبھی نہیں پہنچے تھے لیکن اس زمانےمیں بھی علم الکتاب رکھتے تھے کیونکہ ان کا علم ذاتی ہےدنیا میں آنےسےپہلے ہی سب کچھ جانتے تھے ۔

منقول ہےکہ جب حضرت علی (ع)دنیا میں پیدا ہوئے تو ان کی آنکھیں بند تھیں، آنکھیں نہیں کھولیں۔ لیکن جیسےحضرت کو پیغمبر کےہاتھوں میں دیا پیغمبر کےہاتھوں پر آنکھیں کھولیں یعنی یا رسول اللہ فقط آپ کا جمال دیکھنےکیلئے میری آنکھیں کھلیں گی پھر مولا نےان آیتوں کی تلاوت کی:

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ‏قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ هُمْ في‏ صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ وَ الَّذينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ؛)

سورہ مومنون، آیت ۱ تا۳

یقیناصاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئےجواپنی نمازوں میں گڑگڑانےوالےہیں اورلغوباتوں سےاعراض کرنےوالےہیں۔

کیسےہوسکتا ہےکہ ابھی پیغمبر نےنبوت کا اعلان نہیں کیا، ابھی پیغمبر پر قرآن نازل نہیں ہوا، امیرالمومنین(ع)نےقرآن کی تلاوت کی؟ اس کا جواب سورہ رحمان میں آیا ہےخدا فرماتا ہے:

( الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسان؛ )

وہ خدا بڑا مہربان ہےاس نےقرآن کی تعلیم دی ہےانسان کو پیدا کیا ہےاور اسےبیان سکھایا ہے۔

یعنی ہم نےعالم نورانیت میں حضرت علی(ع)کو قرآن کی تعلیم دی پھر علی کو پیدا کیا پہلے قرآن جانتے تھے پھر پیدا ہوئے۔

انسان سےمراد حضرت علی (ع)ہیں کیونکہ سورہ دھر کا دوسرا نام جو کہ حضرت کی شان میں نازل ہوئی، انسان ہے۔ حقیقت میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ وہ انسان جو پروردگار جہاں کا مظھر کامل ہےوہ سورہ دھر میں ملے گا دوسرے افراد تو اس کےمشابہ ہیں جتنا رشد کرینگے اتنا ہی انسانیت کےنزدیک ہوں گے اس بنا پر خلق الانسان کی معنی خلق علیا علی کو خلق کیا ہے۔

تفسیر نور الثقلین، ج ۵ ، ص ۱۸۸

معلم کون ہے؟ معلم خود خدا ہے،

الرَّحمنُ

درس کا موضوع کیا ہے؟ قرآن،

عَلَّمَ القُرآنَ

شاگرد کون ہے؟ علی،

خَلَقَ الْإِنْسان

یہاں ایک سوال اٹھتاہےکہ حضرت نےپیداہوتےوقت سورہ مومنون کی تلاوت کیوں کی؟اسلئےتاکہ رسول اللہ کہہ سکیں

اےعلی! تمہاری وجہ سےمومنین کامیاب ہونگے۔جوبھی تم سےجداہوگا وہ کبھی بھی فلاح وکامیابی نہیں پائےگا۔

انبیا کا خلاصہ

زیارت جامعہ کےدوسرے حصہ میں پڑھتے ہیں :

وَسُلَالَةُ النَّبِيِّينَ وَ صَفْوَةُ الْمُرْسَلِين‏؛

سلالہ کی معنی ہےکسی پھل کا جوس، نچوڑ، اصل جوھر یعنی اگر تمام انبیا کا خلاصہ جو کہ علم و حقائق و معارف ہیں، ایک جگہ جمع ہوں تو ان تمام کمالات کا نچوڑ آئمہ ہیں۔

صفوة المرسلین

یعنی اگربہترین اورخالص مسلمانوں کوجداکیاجائے،بہترین مرسل اورخداکی طرفسےبھیجےہوےبہترین پیغام لانےوالےآپ ہیں۔جب گل کا پانی نکالا جاتا ہےتو گلاب بن جاتا ہےاب اگر دوبارہ اس کو ابال کر دوبارہ آب لیا جائے تو اسےسلالہ کہتے ہیں یعنی گلاب۔

سلالة النبین

بتا رہا ہےکہ انبیا گل ہیں اور آپ آئمہ گلاب ہیں۔

صفو ة المرسلین

بتا رہا ہےکہ ۳۱۳ رسول گلاب کےمانند ہیں آپ اس گلاب کی عطر اور خوشبو ہیں۔

تقرب کا برترین مقام

زیارت کےایک اور حصہ میں عرض کرتے ہیں:

فَبَلَغَ اللَّهُ بِكُمْ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُكَرَّمِينَ وَ أَعْلَى مَنَازِلِ الْمُقَرَّبِينَ وَ أَرْفَعَ دَرَجَاتِ الْمُرْسَلِين‏؛

پس خدا نےآپ کو صاحبان عظمت کےبلند مقام پر پہنچایا اور اپنےمقربین کی بلندمنزلوں تک لے گیا اور اپنےپیغمبروں کےاونچے مراتب عطا فرمائے۔

یہاں فقط یہ نہیں کہا جا رہا کہ آپ مقام نبوت و رسالت رکھتے ہیں بلکہ کہا جا رہا ہے: آپ نبوت کا عالی درجہ رکھتے ہیں جو کہ وہی پیغمبر اکرم کا درجہ ہےیعنی آپ کا مقام پیغمبر کےمقام کےبرابر ہے۔

اس جملے سےجو دوسری معنا سمجھ میں آتی ہےوہ بکم میں جو با ہےوہ سببیت کی معنی میں ہےیعنی خدانےآپ کی وجہ سےمرسلین کو بلند وبالا درجہ عطا کیا اورمقربین کو مقرب بنایا جو بھی تقرب کےاعلی درجہ پر فائز ہوا ہےاور رسالت کےاعلی درجہ پر پہنچا ہےآپ کےصدقہ میں خداوند نےاسےوہ مقام عطا کیا ہے۔ ان جملات کو اگر ملائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ نبوتیں اور رسالتیں ایک منبع اور سرچشمہ سےنکلی ہیں جو کہ چھاردہ معصومین کا وجود اقدس ہے۔

آٹھویں مجلس

قرآن کی نظرمیں اہلبیت کا باب اللہ ہونا

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )

سورہ بقرہ، آیت ۱۸۹

اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ

اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔

زیارت جامعہ کےاس حصے میں ائمہ معصومین کو باب اللہ سےتشبیہ دی گئی ہے۔

وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ

یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی کےدروازوں میں سےایک دروازہ ہیں جس کےذریعے اللہ تعالی اپنےبندوں کا امتحان لیتا ہے۔

سب سےپہلےتویہ سوال پیداہوتاہےکہ: اللہ تعالی نےاہلبیت کی پہچان کیلئےتشبیہ کاسہاراکیوں لیاہے؟کبھی ائمہ معصومین کونجات کی کشتی کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو ہدایت کا چراغ کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو پاک درخت کہا گیا ہے، کبھی ائمہ معصومین کو چاند اورستاروں سےتشبیہ دی گئی ہے۔ ان تمام تشبیہات کا مقصد تمام انسانوں کو اہلبیت کی عظمت سمجھانا تھا کیونکہ اس دور میں عرب فکری بلندی نہ رکھتا تھا اس لئے مجبورا عقلی چیزوں کو محسوسات کےذریعے سمجھانا پڑتا تھا اسلئے ان کو اہلبیت کی عظمت سمجھانےکیلئے ان چیزوں سےتشبیہ دی جاتی تھی جس کو وہ آسانی سےسمجھ سکیں ۔

مثال کےطور پر رسول اکرم(ص) نےیہ سمجھانےکیلئے کہ : اہلبیت تمام فضائل اور کمالات کےمالک ہیں بہت ساری تشبیہات سےاستفادہ کیا ہے۔ کبھی ائمہ معصومین کو چراغ سےتو کبھی کشتی سےتشبیہ دی ہےاس طرح سےرسول اکرم(ص) سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طرح تمام انسان چراغ اور کشتی سےفائدہ حاصل کرتےہیں اس طرح اہلبیت کا وجود تمام انسانوں کیلئے فائدہ مند ہے۔

اہلبیت کو باب اللہ سےتشبیہ دینےکا سبب

ہم اس مقدمے کی روشنی میں سمجھنےکی کوشش کرتے ہیں کہ اہلبیت کودروازے سےکیوں تشبیہ دی گئی؟ اللہ تعالی نےقرآن مجید میں سورہ بقرہ کےدو مقامات پر ائمہ معصومین کو دروازے سےتشبیہ دی ہے۔

اللہ تعالی سورہ بقرہ کےایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )

سورہ بقرہ، آیت ۱۸۹ ۔

اور یہ کوئی نیکی نہیں ہےکہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سےآؤ،بلکہ نیکی ان کےلئے ہےجو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔

یہ بات عقل کےمطابق نہیں اوریہ اچھی بات نہیں کہ کوئی انسان مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل ہو۔ انسان اسوقت تک مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل نہیں ہوسکتاجب تک اس گھرکونہ توڑےیاخراب نہ کرےپھروہاں سےگھرمیں داخل ہو۔

کیااللہ تعالی اس آیت میں ایک ایسےمسئلےکوبیان کرنا چاہتا ہےجس کو سب جانتے ہیں؟کیا اللہ تعالی اس آیت میں صرف یہ بیان کرناچاہتاہےکہ اپنےاوراپنےدوستوں کےگھروں میں پچھواڑےسےداخل نہ ہواکرو؟ نہیں! یہ مرادنہیں۔اس گھرسےمرادتوحیدکاگھرہے، رسالت کاگھرہے، قرآن کاگھرہے،گھرہے۔ اگر ہم کسی مادی گھرمیں پچھواڑےکی طرف سےداخل نہیں ہوسکتے تو اگر ہم اس معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں دروازے سےداخل ہونا چاہیے ۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ اس معنوی گھر کا دروازہ کہاں ہے؟ توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دوازہ کہاں ہے؟ روایتوں میں آیا ہےکہ اس معنوی گھر توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دروازہ اہلبیت ہیں۔

اصبغ ابن نباتہ فرماتے ہیں:

كُنْتُ جَالِساً عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَجَاءَ ابْنُ الْكَوَّاء

میں امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا اتنےمیں ابن کوا، داخل ہوا جو منافقین کا سردار تھا اور امام علی کےسخت دشمنوں میں شمار ہوتا تھا ۔ ابن کوا نےامیرالمومنین (ع) سےسوال کیا :

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا

اس آیت کی تفسیرکیاہے؟امیرالمومنین(ع)نےجواب میں فرمایا:

نَحْنُ الْبُيُوتُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا وَ نَحْنُ بَابُ اللَّهِ وَ بُيُوتُهُ الَّتِي يُؤْتَى مِنْهُ فَمَنْ بَايَعَنَا وَ أَقَرَّ بِوَلَآیتنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَ مَنْ خَالَفَنَا وَ فَضَّلَ علینَا غَيْرَنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا

بحارالانوار، ج۲۳، ص ۳۲۹

ہم وہ باب اللہ ہیں جسکےبارےمیں اللہ تعالی نےحکم فرمایا ہےکہ میرےگھرمیں اہلبیت کےدروازےسےداخل ہوں اب جوبھی ہماری پیروی کرےگااورہماری ولایت کااقرارکرےگاوہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل ہوا۔لیکن جوہماری مخالفت کرےگا اورہمارےحکم سےمنہ موڑےگااوردوسروں کوہم پرمقدم کرےگا وہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل نہیں ہوا بلکہ وہ پچھواڑےسےداخل ہواہے۔

کون ہےجو گھر میں پچھواڑے سےداخل ہوتا ہے؟ وہ جو چوری کی نیت سےداخل ہوتا ہے۔ اب جو بھی معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے، توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کےگھر میں داخل ہونا چاہتا ہےوہ اہلبیت کےدروازے سےداخل نہ ہو تو وہ چور شمار ہوگا ۔

روایتوں میں آیا ہےکہ اس طرح کےافراد چور کی طرح ہیں، امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

سَرَقُوا أَكْرَمَ آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

بحارالانوار، ج۸۹، ص ۲۳۶۔

قرآن کی سب سےافضل آیت

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )

جس کو چوری کیا گیا ہےاور کہتے ہیں

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )

قرآن کی سورتوں کا جزء نہیں ۔

کون ہیں جو اس طرح کہتے ہیں ؟ وہی جو دروازے سےداخل نہیں ہوئے اور دوسروں کو امیرالمومنین (ع) کی ولایت پر مقدم کرتےہیں ۔

گناہوں کی معافی کا دروازہ

سورہ بقرہ کی ایک اور آیت میں اللہ تعالی بنی اسرائیل سےفرماتا ہے:

( وَ إِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْها حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَ ادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً وَ قُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطاياكُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِين )

سورہ بقرہ، آیت ۵۸۔

اوروہ وقت بھی یاد کروجب ہم نےکہا کہ اس قریہ میں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمینان سےکھاؤ اور دروازہ سےسجدہ کرتے ہوئے اور حط کہتے ہوئے داخل ہو کہ ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جزا میں اضافہ بھی کردیتے ہیں

جب بنی اسرائیل نےبیت المقدس کو فتح کرنا چاہا، بلعم باعور نےبنی اسرائیل پر لعنت کرنا چاہی تو اس کی زبان گنگ ہو گئی اس نےحکم دیا کہ کچھ عورتیں سینگار کر کہ بنی اسرائیل کےلشکر میں داخل ہو جائیں تاکہ ان کو گمراہ کر سکیں اور جنگ سےباز رکھیں۔ اس وجہ سےان میں طاعون کا مرض پھیل گیا اور بنی اسرائیل چالیس سال تک بیابان میں گم پھرتے رہے۔ پھر اللہ تعالی نےبنی اسرائیل سےفرمایا : اب بیت المقدس کےشہر میں داخل ہو جاؤ اس حال میں کہ سر سجدے میں ہو اور زبان پر گناہوں کی معافی کی دعا ہو ۔ جب بنی اسرائیل شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شہر کا دروازہ بہت بڑا ہےتو انہوں نےسجدہ نہ کیا اور اللہ تعالی کےحکم سےمنہ موڑا ۔

روایتوں میں آیا ہےکہ : اللہ تعالی نےبنی اسرائیل کو سجدے کا حکم اس لئے دیا کہ شہر کےدروازے پہ امام علی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔

تفسیر صافی، ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: جب شہر میں داخل ہوں تو امام علی کی تصویر کےسامنےسجدہ کریں ۔ اللہ تعالی نےیہ نہیں فرمایا کہ(رکعا) رکوع کی حالت میں بلکہ فرمایا

( وَ ادخُلُوا البابَ سُجَّداً )

کہ سجدے کی حالت میں شہر کےدروازے میں داخل ہو جاؤ۔

ہم یہاں ایک نکتہ بیان کرتے ہیں : امام معصوم کےسامنےسجدہ کرنےکا کیا حکم ہے؟ شہید اول فرماتے ہیں : امام رضا اور ائمہ معصومین کی زیارت کےآداب میں سےایک یہ ہےجب ضریع میں، حرم میں داخل ہونا چاہیں تو زائر کو چاہیے پہلے بوسہ لے اور پیشانی کو زمین پہ رکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔

دروس، ج ۲ ، ص ۲۵

حقیقت میں جب ہم امام کی زیارت کرتے ہیں تو اللہ تعالی کو سجدہ کرتےہیں جس طرح اللہ تعالی نےفرشتوں کو حکم دیا جب حضرت آدم پر نظر پڑے تو سجدہ کریں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔ جب حضرت آدم کو فرشتے سجدہ کر سکتے ہیں تو امام معصوم کو جو کہ پوری کائنات کےساتھ ساتھ حضرت آدم کی بھی تخلیق کا سبب ہیں ان کو سجدہ کیوں نہ کیا جائے!

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کام ٹھیک نہیں ؟ لیکن کئی بار میں نےخود دیکھا ہےکہ مرحوم اراکی جب زیارت کیلئے ضریع میں داخل ہوتے تو اپنی پیشانی کو فرش پہ رکھتے اور چومتے ۔ حضرت آیت اللہ بہجت جب خلوت میں ہوتے تو خود کو زمین پہ گراتے اور چوکھٹ کو چومتے رہتے۔

آیت آگے بڑھتی ہےاور فرماتی ہے

وَ قُولُوا حِطَّةٌ:

جب سجدہ کرو تو کہنا : معافی معافی یعنی اللہ تعالی ہمارے گناہ معاف فرما۔ اس آیت کی تفسیر میں امام باقر فرماتے ہیں کہ :

نَحْنُ بَابُ حِطَّتِكُمْ

تفسیر برھان، ج ۱ ، ص ۱۰۴: نورالثقلین، ج ۱ ، ص ۸۳

ہم گناہوں کی بخشش کا دروازہ ہیں ۔ ایک اور روایت میں امام علی فرماتے ہیں کہ:

( نَحْنُ) أَنَا بَابُ حِطَّة

بحارالانوار، ج ۶۵ ، ص ۶۱ ۔

وہ دروازہ جس کےسامنےبنی اسرائیل گناہوں کی بخشش طلب کررہےتھے وہ دروازہ ہم ائمہ معصومین ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہےجب تک بنی اسرائیل سےامیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین (ع)راضی نہ ہوں گے اللہ تعالی ان کےگناہ معاف نہیں کرے گا ۔

بنی اسرائیل حطہ کی جگہ پہ حنطہ

بحارالانوار، ج ۱۳ ، ص ۱۷۹ ۔

یعنی گندم پکار رہےتھے۔ اگر انسان کی فکر مادی ہوگی تو وہ قرآن کی تفسیر بھی مادی کرے گا ۔

زیارت جامعہ کےایک حصے میں ارشاد ہوتا ہےکہ :

يَا وَلِيَّ اللَّهِ إِنَّ بَيْنِي وَ بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ذُنُوبا لا يَأْتِي علیها إِلا رِضَاكُمْ

اے خدا کےولی میرے اور خدائے عزوجل کےدرمیان وہ گناہ ہیں جو سوائے آپ کی رضامندی کےمحو نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم لاکھوں مرتبہ استغفار کریں پوری رات صبح تک گریہ کریں کو ئی فائدہ نہیں ۔ پس کس طرح ہم اپنےگناہوں کی بخشش کروائیں ؟

روایتوں میں آیا ہےکہ پیر یا جمعرات کو ہمارے نامہ اعمال امام معصوم کےسامنےپیش ہوتے ہیں وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جب ہم نیک عمل کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے توفیق کےاضافے کی دعا کرتے ہیں اور جب ہم برے اعمال کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں ان کا استغفار ہمارےلئے فائدہ مند ہے۔

تفسیر نورالثقلین، ج ۲ ، ص ۲۶۴ ۔

رسول اکرم(ص) کےزمانےمیں بھی اسی طرح تھا ۔ استغفار کےآداب میں ہےکہ لوگ رسول اکرم(ص) کی خدمت حاضر ہوں تاکہ رسول اکرم(ص)ان کیلئےاستغفار کریں اوراللہ تعالی ان کےگناہوں کو معاف کرے۔

مدینہ المعاجز، ج ۸ ، ص ۲۷۱ ۔

حقیقت میں ولایت کااعتقادگناہوں کی بخشش کاذریعہ ہے۔جب ہم ولایت پرایمان رکھتے ہیں توہماری استغفارمیں اثرپیدا ہوتا ہے، ہماری نمازمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری توبہ میں اثر پیدا ہوتاہے، ہمارےرونےمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری زیارت میں اثر پیدا ہوتا ہےاور اگر ہمیں ولایت پر یقین نہ ہو تو ان تمام اعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حقیقت میں اثر، ولایت کا ہے۔

نویں مجلس

روایات میں ائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )

سورہ یس، آیت ۱۲ ۔

اور ہم نےہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔

رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

ان علیا باب اله الاکبر

بحار، ج ۴۰ ، ص ۵۵ ۔

بتحقیق حضرت علی (ع)اللہ تعالی کا بڑا دروازہ ہے۔

گذشتہ بحث میں ہم نےان آیات کو ذکر کیا جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس مورد میں ہم ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہےوہ روایات بہت زیادہ ہیں حد تواتر سےبھی زیادہ ۔ ہم یہاں اس موضوع میں چند روایتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔

رسول اکرم(ص) ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

ان علیا باب اله الاکبر

امیرالمومنین (ع) اللہ تعالی کی طرف اور توحید کی طرف رہنمائی کرنےوالا بزرگترین دروازہ ہے۔اسی طرح رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

أَنَّ علیاً بَابُ الْهُدَى بعْدِي‏؛

امالی الصدوق، ص ۲۰ ۔

امیرالمومنین (ع) میرے بعد باب ہدایت ہیں۔ تمام انبیاء اللہ تعالی تک پہنچنےکا ذریعہ ہیں لیکن وہ انبیاء بھی اللہ تعالی تک پہنچنےکیلئے ایک دروازے اور ذریعے کےمحتاج ہیں جو کہ بزرگترین باب اللہ ہیں اور بزرگترین باب اللہ امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین ہیں ۔

سلیم بن قیس ہلالی کوفی حضرت سلمان سےنقل کرتے ہیں کہ :

فَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَافِرا ؛

کتاب سلیم بن قیس، ص ۱۶۸ ؛ بحار، ج ۴۰ ، ص ۹۷ ۔

امیر المومنین باب اللہ ہیں جو ان کےراستے اور اس دروازے سےاسلام میں داخل ہوا وہ مومن ہےاور جو اس دروازے سےخارج ہوا وہ کافر ہے۔

ایمان اور کفر

ہم یہاں ایک علمی نکتے کو بیان کرتے ہیں : ہر کلمہ اور صفت کا ایک ضد اور مقابل ہوتا ہےجیسےنور کا ظلمت، رات کا دن، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ایمان کا ضد اور مقابل کیا ہے؟ کیا ایمان کا ضد مسلمان ہے؟ نہیں ۔ اگر ہم ان آیتوں کو ملاحظہ کریں جواللہ تعالی نےایمان کےمتعلق نازل فرمائی ہیں تو پتا چلتا ہےکہ اللہ تعالی نےایمان کےمقابل اور ضد کےطور پر کلمہ فاسق کو استعمال کیا ہے۔

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ ۔)

کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہےاس کےمثل ہوجائے گا جو فاسق ہےہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

احادیث اور روایات میں مومن سےمراد وہ انسان ہےجو ائمہ معصومین کی امامت کو قبول کرے۔ حقیقت میں ایمان کا رکن، امامت اور ولایت ائمہ معصومین (ع)ہے۔ جو ولایت نہیں رکھتا وہ مومن نہیں اور جو مومن نہیں وہ مومن کا ضد اور مقابل ہےیعنی وہ کفر کی صف میں کھڑاہےاور ضروری ہےکہ اسےکافر گنا جائے۔

ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ :

مَنْ أَتَاكُمْ نَجَا وَ مَنْ لَمْ يَأْتِكُمْ هَلَكَ

جو آپ کےپاس آگیا اس نےنجات پالی اور جو نہ آیا ہلاک ہو گیا۔

حضرت سلمان فرماتےہیں: جوبھی امامت کےماننےکےبعدامامت کامنکرہواوہ کافرہے۔لیکن امام علی نقی زیارت جامعہ میں اس بھی آگےبڑھ کرفرماتے ہیں: جوبھی امامت اورولایت کونہیں مانتا وہ کافرہے۔اوریہ سچا مطلب رسول اکرم(ص)کی حدیث سےلیاگیاہےجس میں رسول اکرم(ص)فرماتے ہیں:جوبھی اس حال میں مرا کہ اپنےزمانےکےامام کی معرفت نہیں رکھتا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا کہ زمان جاہلیت کفر والا زمانہ تھا۔

اللہ تعالی کی معرفت کا دروازہ

ایک اورروایت میں امام صادق(ع)فرماتے ہیں:

الاوصیاءُ هم ابواب الله عزوجل التي يوتى منهاولولاهم ماعرف الله بهم احتج الله علی خلقه؛

کافی، ج ۱ ، ص ۱۹۳ ۔

اوصیا ہی باب اللہ ہیں جس سےداخل ہوا جاتا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو اللہ کی معرفت حاصل نہ کہ جا سکتی ان کےذریعہ سےہی خداوندمتعال نےلوگوں پر اتمام حجت کی ہے۔

یعنی رسول اکرم(ص)کےجانشین ناقابل شکست باب اللہ ہیں جن سےاللہ تعالی ہرایک کوعطاکرتاہےہمیں چاہیے ان کےدرسےتوحید کو حاصل کریں اگر یہ نہ ہوتے تواللہ تعالی کی معرفت ممکن نہ تھی اور ان کےسبب اللہ تعالی نےتمام مخلوق پر حجت کو تمام کیاہے۔اس روایت میں امام صادق(ع)نےائمہ معصومین کو باب اللہ پکاراہےیعنی جو بھی چاہتا ہےکہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرے اسےچاہیے اہلبیت کےراستے سےخدا تک پہنچے ورنہ اہلبیت کےراستے کو چھوڑ کر اللہ تعالی تک پہنچنا محال ہے؛ کیونکہ اہلبیت کےعلاوہ کوئی اللہ تعالی کی معرفت نہیں رکھتا ۔

سیدالشہداء امام حسین اس آیت

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ علیهمْ طَاعَتُهُ؛

تفسیرصافی، ج ۵ ، ص ۷۵ ۔

پوری کائنات کی خلقت کامقصد اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرناہےاورجب اللہ تعالی کی معرفت ہوگی تواللہ تعالی کی عبادت کی جائےگی اورجب اللہ تعالی کی عبادت ہوگی توغیرکی عبادت سےانسان کی جان چھوٹ جائےگی۔

ہم دعائےکمیل میں پڑھتے ہیں کہ:اللہ تعالی کی بندگی انسان کوغیرسےبے نیازبنادیتی ہے۔ہم جو کہ دنیاکی ہوا، ہوس، زرق اور برق میں مبتلا ہیں کیسےدنیاسےبےنیازہوسکتےہیں؟ہم جب اللہ تعالی کےبندے بن جائیںگےسب قیدوں سےآزادہوجائیںگےاورتمام چیزوں سےبےنیازہوجائیںگے۔اسکےبعدراوی نےسوال کیا:اللہ تعالی کی معرفت سےکیامرادہے؟ہم کیسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل کریں؟امام نےفرمایا:اللہ تعالی کی معرفت سےمرادانسان کااپنےوقت کےامام کوپہچاننا ہےجسکی اطاعت اللہ تعالی نےواجب قراردی ہے۔

اس بنا پر اگر ہم نےامام زمانہ کو پہچانا تو ہم اللہ تعالی کی معرفت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر نہج البلاغہ نہ ہوتا، صحیفہ سجادیہ نہ ہوتا، اہلبیت کےکلمات نہ ہوتے توہم اللہ تعالی کو کیسےپہچانتے؟ جس طرح اہلسنت حضرات اللہ کو نہیں پہچان سکےاور ان میں سےاکثر اللہ تعالی کی جسمانیت کےقائل ہوگئے ہیں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

َ ذِرْوَةُ الْأَمْرِ وَ سَنَامُهُ وَ مِفْتَاحُهُ وَ بَابُ الْأَنْبِيَاءِ وَ رِضَى الرَّحْمَنِ الطَّاعَةُ لِلْإِمَامِ بَعْدَ مَعْرِفَتِه‏؛

بحار، ج ۲۳ ، ص ۲۹۴ ۔

جو بھی اسلام کےبلند قلعے میں داخل ہونا چاہتا ہے، اور جو بھی اسلام کےبلند قلعے کی چابی چاہتا ہے،اور جو بھی اللہ تعالی کی رضایت چاہتا ہے، جو بھی تمام چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے(جیسےسیاست، اقتصاد، اخلاق، اعتقاد، عرفان، عبادت) اس کو دو کام کرنےچاہییں۔

پہلا : امام کی معرفت۔ دوسرا : امام کی اطاعت۔

فکر کی اصلاح (حکمت نظری)امام کی معرفت میں ہےاور عمل کی اصلاح (حکمت عملی) امام کی پیروی میں ہے۔ہم اس کام کےذریعے تمام چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے امام کو پہچان کر قبول کریں پھر امام کی اطاعت کرنےکی کوشش کریں۔

( وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ )

سورہ اعراف، آیت ۱۸۰ ۔

(اور اللہ ہی کےلئےبہترین نام ہیں)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:

امام رضا:

نحن واللَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ؛

کافی، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ۔

اللہ تعالی کی قسم ! اللہ تعالی کےاسماء حسنی ہم اہلبیت ہیں ۔

اسم آئینےکو کہتے ہیں جس کےسامنےکسی چیز کو دیکھا جائے اور پہچانا جائے۔

اس بناءپرہم کہتےہیں اللہ تعالی کےاسماء حسنی اہلبیت ہیں۔اسکاکیامطلب ہوا؟جب ہم اپنا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آئینےکی طرف جاتے ہیں اوراپناچہرہ دیکھتے ہیں۔اگرہم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھناچاہتےہیں توبھی ایک آئینےکی ضرورت ہے۔اورائمہ معصومین وہ آئینہ ہیں۔اگرتم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھنا چاہتےہو توجاؤاہلبیت کی قدرت،عظمت اوررحمت،کو دیکھو۔جب اہلبیت کی قدرت، عظمت اوررحمت، دیکھ سکوتواللہ تعالی کی قدرت،عظمت اوررحمت کوبھی دیکھ سکوگے۔

ایک روایت میں امام زین العابدین فرماتےہیں :

نَحْنُ أَبْوَابُ اللَّهِ وَ نَحْنُ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيم‏؛

معانی الاخبار، ص ۱۴ ۔

ہم ہی باب اللہ ہیں ہم ہی سیدھا راستہ ہیں۔

( قُلْ أَرَآیتمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ )

سورہ ملک، آیت ۳۰.

کہہ دیجئےکہ تمہاراکیاخیال ہےاگرتمہاراساراپانی زمین کےاندرجذب ہوجائےتوتمہارےلئےچشمہ کاپانی بہاکرکون لائےگا)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :

مَاؤُكُمْ أَبْوَابُكُمْ أَيِ الْأَئِمَّةُ وَ الْأَئِمَّةُ أَبْوَابُ اللَّهِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ خَلْقِه‏؛

بحار، ج ۲۴ ، ص ۱۰۰ ۔

یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کےدرمیان دروازہ ہیں ۔

یعنی توحید پر ایمان، معاد پر ایمان، رسالت پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، غیب پر ایمان کا ایک دراوزہ ہےجو کہ ہم اہلبیت ہیں ۔ جو ہم اہلبیت پر ایمان نہیں رکھتا اس کےپاس توحید، معاد، رسالت، ملائکہ، غیب پر ایمان نہیں ہے۔

اسی طرح شہر احکام، شہراخلاق، شہر یقین اورشہرعلم کا ایک دروازہ ہےجو کہ اہلبیت کی ذات ہے۔

قرآن کادروازہ اہلبیت ہیں۔جوقرآن پڑہناچاہتاہے، قرآن سمجھنا چاہتاہے، قرآن کےباطن کی آگاہی حاصل کرناچاہتاہے،تفسیرقرآن کو جانناچاہتاہے، قرآن کی لطافتوں اورنزاکتوں کاعلم حاصل کرناچاہتاہےتواسےدراہلبیت سےفیض حاصل کرناپڑےگا۔