امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب22%

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14109 / ڈاؤنلوڈ: 6744
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : امام حسین ، دلربائے قلوب

صاحب اثر : حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای حَفَظَہُ اللّٰہُ

تالیف : موسّسہ فرہنگی قدر ولایت ۔تہران

تاریخ اشاعت : شعبان ۱۴۲ ۸ ہجر ی اگست ۲ ۰۰۷ئ

ناشر : نشر ولایت پاکستان(مرکز حفظ و نشرآثار ولایت)

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

انتساب!

عالم ہستی کے امام حریت،تا ریخ انسانیت کی سب سے شجاع انسان،میدان جنگ کے بطل جلیل،کائنات کے سب سے عظیم سُور ما،

عزت و آزادی کے عالمی علمبردار،حسین ابن علی کے نام؛کہ جس کیلئے آزاد انسانوں کی آنکھیں اشکبار، دل مصمم ارادوں کے مالک،عزم جواں ہیں!

عرض ناشر

’’امام حسین ،دلربائے قلوب‘‘ میں سیرت امام حسین کاحقیقی انداز سے جائزہ لیا گیا ہے۔

’’اما م حسین ،دلربائے قلوب ‘‘؛دراصل واقعہ کربلا کے پس پردہ حقیقی عوامل اوراہداف ونتائج پر مکتب کربلا کے ایک حقیقی پیروکار،سچے عاشق حسین ،مجاہد ومبارز،حضرت امام خمینی ۲ کے فرزند صادق،کربلائے عصر کے سورماودلیر انسان،بطل جلیل اورفرزنداسلام حضرت امام خامنہ ای دامت برکاتہ کے خطبات وتقاریر کا وہ نادر مجموعہ ہے جسے موسّسہ قدر ولایت تہران نے شائع کیا۔

’’امام حسین ،دلربائے قلوب ‘‘میں واقعہ کربلاسے ماقبل وبعد کے سیاسی اجتماعی اور ثقافتی حالات کاتحلیلی انداز سے جائزہ لے کر موجود ہ عصر کے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرکے ذمہ داریوں کو مشخص کیا گیا ہے

نشرولایت پاکستان(مرکز حفظ ونشر آثار ولایت)کاقیام ۲۰۰۲ ئ م یں عمل میں لایا گیاہے۔اس ادارے کا مقصد رہبر معظم ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کے تمام مطبوع وغیر مطبوع آثار کی حفاظت اوران کی اردو زبان میں منتقلی ہے۔

امید ہے یہ کتاب یقینا قاری کے ذہن میں نئے دریچہ ہائے فکر کو کھولنے میں مددگار ثابت ہوگی تاکہ ہم اپنی اجتماعی ،سیاسی اورثقافتی ذمہ داریوںکو سمجھ کر بطریق احسن انہیں انجام دیں سکیں۔

نشرولایت پاکستان

(مرکز حفظ ونشر آثارولایت)

امام حسین اُسوہ انسانیت

امام حسین ،دلربائے قلوب

میرے عزیز دوستو! حسین ابن علی کا نام گرامی بہت ہی دلکش نام ہے ؛ جب ہم احساسات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں امام حسین کے نام کی خاصیت اورحقیقت و معرفت یہ ہے کہ یہ نام دلربائے قلوب ہے اور مقناطیس کی مانند دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ البتہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو ایسے نہیں ہیں اور امام حسین کی معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہیں، دوسری طرف ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کا شمار اہل بیت کے شیعوں میں نہیں ہوتا لیکن اُن کے درمیان بہت سے ایسے افراد ہیںکہ حسین ابن علی کا مظلوم نام سنتے ہی اُن کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو جاتاہے ور اُن کے دل منقلب ہوجاتے ہیں۔ خداوند عالم نے امام حسین کے نام میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جب اُن کا نام لیا جاتا ہے تو ہماری قوم سمیت دیگر ممالک کے شیعوں کے دل و جان پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ ہے حضرت امام حسین کی مقدس ذات سے احساساتی لگاو کی تفسیر۔

اہل بصیرت کے درمیان ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے جیسا کہ روایات اور تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے ، حضرت ختمی مرتبت ۰ اور امیر المومنین کے گھر اور اِن بزرگوار ہستیوں کی زندگی میں بھی اِس عظیم ذات کو مر کزیت حاصل تھی اور یہ ہمیشہ اِن عظیم المرتبت ہستیوں کے عشق و محبت کا محور رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

امام حسین کی تعلیمات اور دعائیں

تعلیمات اور دعاوں کے لحاظ سے بھی یہ عظیم المرتبت ہستی اور اُن کا اسم شریف بھی کہ جو اُن کے عظیم القدر مسمّی(ذات) کی طرف اشارہ کرتا ہے، اِسی طرح ہے۔ آپ کے کلمات و ارشادات ، معرفت الٰہی کے گرانبہا گوہروں سے لبریز ہیں۔ آپ روز عرفہ ، امام حسین کی اِسی دعائے عرفہ کو ملاحظہ کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ بھی زبور آل محمد ۰ ( صحیفہ سجادیہ)کی مانند عشق و معرفت الٰہی کے خزانوں اور اُس کے حسن و جمال کے حَسِین نغموں سے مالا مال ہے ۔ یہاں تک کہ انسان جب امام سجاد کی بعض دعاؤں کا دعائے عرفہ سے موازنہ کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ امام سجاد کی دعائیں در حقیقت امام حسین کی دعائے عرفہ کی ہی تشریح و توضیح ہیں، یعنی دعائے عرفہ ’’اصل ‘‘ ہے اور صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اُس کی ’’فرع‘‘۔ عجیب و غریب دعائے عرفہ، واقعہ کربلا اور زندگی کے دیگر مواقع پر آپ کے ارشادات ،کلمات اور خطبات ایک عجیب معانی اور روح رکھتے ہیں اور عالم ملکوت کے حقائق اور عالی ترین معارف الہٰیہ کاایسا بحر بیکراں ہیں کہ آثار اہل بیت میں جن کی نظیر بہت کم ہے۔

سید الشہدا ، انسانوں کے آئیڈیل

بزرگ ہستیوں کی تآسّی وپیروی اور اولیائے خدا سے انتساب و نسبت، اہل عقل و خرد ہی کا شیوہ رہا ہے۔ دنیا کا ہر ذی حیات موجود، آئیڈیل کی تلاش اور اُسوہ و مثالی نمونے کی جستجو میں ہے ،لیکن یہ سب اپنے آئیڈیل کی تلاش میں صحیح راستے پر قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔ اِس دنیا میں بعض افراد ایسے بھی ہیں کہ اگر اُن سے دریافت کیا جائے کہ وہ کون سی شخصیت ہے کہ جو آپ کے ذہن و قلب پر چھائی ہوئی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اُن حقیر اور پست انسانوں کا پتہ بتائیں گے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خواہشات نفسانی کی بندگی و غلامی میں گزاری ہے۔ اِن آئیڈیل بننے والے افراد کی عادات و صفات ،غافل انسانوں کے سِوا کسی اورکو اچھی نہیں لگتیں اور یہ معمولی اور غافل انسانوں کو ہی صرف چند لمحوں کیلئے سرگرم کرتے ہیں اور دنیا کے معمولی انسانوں کے ایک گروہ کیلئے تصوّراتی شخصیت بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنے آئیڈیل کی تلاش میں بڑے بڑے سیاستدانوں اور تاریخی ہیرووں کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اُنہیں اپنے لیے مثالی نمونہ اور اُسوہ قرار دیتے ہیں لیکن عقلمند ترین انسان وہ ہیں جو اولیائے خدا کو اپنا اُسوہ اور آئیڈیل بناتے ہیںکیونکہ اولیائے الٰہی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اِ س حد تک شجاع ، قدرت مند اور صاحب ارادہ واختیار ہوتے ہیں کہ اپنے نفس اور جان و دل کے خود حاکم و امیر ہوتے ہیں یعنی اپنے نفس اور نفسانی خواہشات کے غلام اور اسیر نہیں بنتے۔

ایک حکیم (دانا)کا بے مثال جواب

قدیم حکمائ اور فلسفیوں میں سے کسی سے کیلئے منسوب ہے کہ اُس نے اسکندر رومی_ مقدونی_ سے کہا کہ ’’تم ہمارے غلاموں کے غلام ہو۔‘‘ اسکندر اعظم یہ بات سن کر برہم ہوگیا۔ اُس حکیم نے کہا کہ ’’غصہ نہ کرو، تم اپنے غصے اور شہوت کے غلام ہو۔ تم جب بھی کسی چیز کو حاصل کرتے ہوتو اُس وقت بھی بے تاب اور مضطرب ہوتے ہو اور جب غصہ کرتے ہو تو اُس وقت بھی پریشانی و بے کلی کی کیفیت تم پر سوار رہتی ہے اور یہ شہوت و غضب کے مقابلے میں تمہاری غلامی کی علامت ہے جبکہ میری شہوت و غضب میرے غلام ہیں‘‘۔

ممکن ہے کہ یہ قصہ صحیح ہو اور ممکن ہے کہ یہ بالکل حقیقت نہ رکھتا ہو لیکن اولیائے خدا ، پیغمبروں اور بشریت کیلئے خدائی ہدایت کی شاہراہ کے راہنماوں کیلئے یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ اِس کی زندہ مثالیں حضرت یوسف ، حضرت ابراہیم اور حضرت موسی ہیں اور اِ س کی متعدد مثالیں ہمیں اولیائے الٰہی کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ اہل عقل و خرد وہ انسان ہیں کہ جو اِن بزرگ ہستیوںاور اِن شجاع اور صاحب ارادہ و اختیار انسانوں کو اپنا آئیدیل قرار دیتے ہیں اور اِس راستے پر گامزن ہو کر اپنے باطن میں اپنے ارادے و اختیار کے مالک بن جاتے ہیں۔

واقعہ کربلا سے قبل امام حسین کی شخصیت و فعالیت

اِن بزرگ ہستیوں کے درمیان بھی بہت سی عظیم شخصیات پائی جاتی ہیں کہ جن میں سے ایک شخصیت حضرت امام حسین کی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم خاکی ، حقیر اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اولیائ کی ارواح اور تمام ملائکہ مقربین اور اِن عوالم میں موجود تمام چیزوں کیلئے جو ہمارے لیے واضح و آشکار نہیں ہیں، امام حسین کا نورِ مبارک، آفتاب کی مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زیر سایہ زندگی بسر کرے تو اُس کا یہ قدم بہت سود مند ہوگا۔

توجہ کیجئے کہ امام حسین نہ صرف یہ کہ فرزند پیغمبر ۰ تھے بلکہ علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا ٭ کے بھی نور چشم تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ایک انسان کو عظمت عطا کرتی ہیں۔ سید الشہدا عظیم خاندان نبوت، دامن ولایت و عصمت اور جنتی اور معنوی فضاو ماحول کے تربیت یافتہ تھے لیکن اُنہوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ جب حضرت ختمی مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کی عمر مبارک آٹھ ، نو برس کی تھی اور جب امیر المومنین نے جام شہادت نوش کیا تو آپ سینتیس یا اڑتیس سال کے نوجوان تھے۔ امیر المومنین کے زمانہ خلافت میں کہ جو امتحان و آزمایش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے میں بھرپور محنت کی اور ایک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔

اگر ایک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جیسے انسانوں کی مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتنی ہمت و حوصلہ کافی ہے، بس اتنا ہی اچھا ہے اور خدا کی عبادت اور دین کی خدمت کیلئے ہمت و حوصلے کی اتنی مقدار ہمارے لیے کافی ہو گی لیکن یہ حسینی ہمت و حوصلہ نہیں ہے۔ امام حسین نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت میں کہ آپ ماموم اور امام حسن امام تھے، اپنی پوری طاقت و توانائی کو اُن کیلئے وقف کردیا تاکہ اسلامی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے ؛ یہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کی انجام دہی ، پیشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کی مطلق اطاعت ہے اور یہ سب ایک انسان کیلئے عظمت و فضیلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسین کی زندگی میں ایک ایک لمحے پر غور کیجئے۔ شہادت امام حسن کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پیش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور تمام مشکلات کو برداشت کیا۔ امام حسن کی شہادت کے بعد آپ تقریباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کیجئے کہ امام حسین نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کیا کام انجام دیئے۔

دین میں ہونے والی تحریفات سے مقابلہ

امام حسین کی عبادت اورتضرّع وزاری، توسُّل ، حرم پیغمبر ۰ میں آپ کا اعتکاف اور آپ کی معنوی ریاضت اور سیر و سلوک؛ سب امام حسین کی حیات مبارک کا ایک رُخ ہے۔ آپ کی زندگی کا دوسرا رُخ علم اور تعلیمات اسلامی کے فروغ میںآپ کی خدمات اور تحریفات سے مقابلہ کیے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے میں ہونے والی تحریف دین درحقیقت اسلام کیلئے ایک بہت بڑی آفت و بلا تھی کہ جس نے برائیوں کے سیلاب کی مانند پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامی سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درمیان اِس بات کی تاکید کی جاتی تھی کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت پر لعن اور سبّ و شتم کریں۔ اگر کسی پر الزام ہوتا کہ یہ امیر المومنین کی ولایت و امامت کا طرفدار اور حمایتی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّةِ وَالآَخذُ بِالتُّهمَةِ ‘‘،(صرف اِس گمان و خیال کی بنا پر کہ یہ امیرالمو منین کا حمایتی ہے ، قتل کردیا جاتا اور صرف الزام کی وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ لیا جاتا اور بیت المال سے اُس کاوظیفہ بند کردیا جاتا)۔

اِن دشوار حالات میں امام حسین ایک مضبوط چٹان کی مانند جمے رہے اور آپ نے تیز اور برندہ تلوار کی مانند دین پر پڑے ہوئے تحریفات کے تمام پردوں کو چاک کردیا، (میدان منی میں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات یہ سب تاریخ میںمحفوظ ہیں اور اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام حسین اِس سلسلے میں کتنی بڑی تحریک کے روح رواں تھے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی وسیع پیمانے پر انجام دیا اور یہ امر و نہی، معاویہ کے نام آپ کے خط کی صورت میں تاریخ کے اوراق کی ایک ناقابل انکار حقیقت اور قابل دید حصّہ ہیں۔ اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک میرے ذہن میں ہے، اہل سنت مورخین نے نقل کیا ہے، یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ شیعہ مورخین نے اُسے نقل کیا ہویا اگر نقل بھی کیا ہے تو سنی مورخین سے نقل کیا ہے۔ آپ کا وہ عظیم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دلیرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینا دراصل یزید کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدینے سے کربلا کیلئے آپ کی روانگی تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ ‘‘، ’’میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زندگی کے تین میدانوں میں امام حسین کی جدوجہد

توجہ فرمائیے کہ ایک انسان مثلا امام حسین اپنی انفرادی زندگی _ تہذیب نفس اور تقوی_ میں بھی اتنی بڑی تحریک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی تحریفات سے مقابلہ، احکام الہی کی ترویج و اشاعت ، شاگردوں اور عظیم الشان انسانوں کی تربیت کو بھی انجام دیتے ہیںنیز سیاسی میدان میں بھی کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے، عظیم جدوجہد اور تحریک کے پرچم کو بھی خود بلند کرتے ہیں۔ یہ عظیم انسان انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی اپنی خود سازی میں مصروف عمل ہے۔

امام حسین کی حیا ت طیبہ کا اجمالی جا ئزہ

امام حسین کی زندگی کے تین دور

سب سے پہلے مرحلے پر یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ واقعہ کتنا عظیم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کیا جائے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا میں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں کہ ’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِیبَةُ ‘‘۔ یہ مصائب و مشکلات بہت بڑی تھیں۔ ’’رزیۃ‘‘ یعنی بہت عظیم حادثہ؛ یہ حادثہ اور واقعہ بہت عظیم اور کمر توڑ دینے والا اور اپنی نوعیت کا بے نظیر واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کی عظمت و بزرگی کا اندازہ لگانے کیلئے میں سید الشہدا کی حیات طیبہ سے تین ادوار کو اجمالی طور پر آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کہ سید الشہدا کی حیات کے اِن تین ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تینوں زمانوں میں ایک ایسی شخصیت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کیلئے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نوبت یہاں تک جا پہنچے گی کہ اِس شخصیت کے جدّ کی امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرلیں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بیت کا نہایت سفاکانہ اور دردناک طریقے سے قتل عام کریں اور خواتین کو اسیر و قیدی بنالیں!

اِن تینوں زمانوں میں سے ایک دور پیغمبر اکرم ۰ کی حیات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپ کی جوانی یعنی رسول اکرم ۰ کے وصال کے بعد پچیس سال اور امیر المومنین کی حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تیسرا زمانہ امیر المومنین کی شہادت کے بعد بیس سال کے عرصے پر محیط ہے۔

دورِ طفولیت

پیغمبر اکرم ۰ کی حیات طیبہ کے اِس نورانی دور میں امام حسین حضرت ختمی مرتبت ۰ کے نور چشم تھے۔ پیغمبر اکرم ۰ کی ایک صاحبزادی تھیں بنام فاطمہ کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم ۰ نے اُن کے بارے میں فرمایا کہ ’’اِنَّ اللّٰهَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَة وَ يَرضی لِرِضَاهَا ‘‘(۱) ، ’’اگر کس ی نے فاطمہ کو غضبناک کیا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دی ہے اور اگر کسی نے فاطمہ کو خوش کیا تو اُس نے خدا کو خوشنود کیا‘‘۔ توجہ فرمائیے کہ یہ صاحبزادی کتنی عظیم المرتبت ہے کہ حضرت ختمی مرتبت ۰ مجمع عام میں اور کثیر تعداد کے سامنے اپنی بیٹی کے بارے میں اِس طرح گفتگو فرماتے ہیں؛ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم ۰ نے اپنی اِس بیٹی کا ہاتھ اسلامی معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ میں دیا کہ جو عظمت و بلندی اور اپنی شجاعت و کارناموں کی وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، یعنی علی ابن ابی طالب ۔ یہ جوان، شجاع ، شریف، سب سے زیادہ با ایمان، مسلمانوں میں سب سے زیادہ شاندار ماضی کاحامل، سب سے زیادہ شجاع اور تمام نبرد و میدان عمل میں آگے آگے تھا ۔ یہ وہ ہستی ہے کہ اسلام جس کی شمشیر کا مرہونِ منت ہے، یہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلیر)پیچھے رہ جاتے ہیں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّیوں کو سلجھاتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کوتہس نہس کردیتا ہے؛ یہ وہ عزیز ترین اور محبوب ترین داماد ہے کہ جسے خدا کے آخری رسول ۰ نے اپنی بیٹی دی ہے ۔ اُس کی یہ محبوبیت رشتہ داری اور اقربا پروری اور اِسی جیسے دیگر امور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اُس شخصیت کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ اِس عظیم جوان اور اِس عظیم المرتبت بیٹی سے ایک ایسا بچہ جنم لیتا ہے کہ جو حسین ابن علی کہلاتاہے۔

البتہ یہی تمام باتیں اور عظمتیں امام حسن کے بارے میں بھی ہیں لیکن ابھی ہماری بحث صرف سید الشہدا کے بارے میں ہے۔ حسین ابن علی ،پیغمبر اکرم ۰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عزیزہیں۔ حضرت ختمی مرتبت ۰ جو دنیائے اسلام کے سربراہ ، اسلامی معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہیں، اِس بچے کو اپنی آغوش میں لیتے ہیں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد میں لےجاتے ہیں۔ سب ہی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بچہ ، تمام مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کے دل کا چین، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم ۰ ، منبر پر خطبہ دینے میں مصروف ہیں، اِس بچے کا پیر کسی چیز سے الجھتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے ، پیغمبر اکرم ۰ منبر سے نیچے تشریف لاتے ہیں، اُسے اپنی گود میں اٹھا کر پیار اور نوازش کرتے ہیں؛ یہ ہے اِس بچے کی اہمیت و حقیقت!

پیغمبر اکرم ۰ نے چھ سات سال کے امام حسن اور امام حسین کے متعلق فرمایا کہ ’’سَيِّدی شَبَابِ اَهلِ الجَنَّةِ ‘‘(۲) یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ (یا رسول اللہ!) یہ تو ابھی بچے ہیں، ابھی تو سن بلوغ کوبھی نہیں پہنچے اور انہوں نے جوانی کی دہلیزمیں ابھی تک قدم نہیں رکھا ہے؛ لیکن رسول اکرم ۰ فرماتے ہیں کہ یہ جوانان جنت کے سردار ہیں یعنی یہ بچے چھ سات سال میں بھی ایک جوان کی مانند ہیں، یہ سمجھتے ہیں، ادراک رکھتے ہیں ،عملی اقدام کرتے ہیں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود میں موجزن ہے۔ اگر اُسی زمانے میں کوئی یہ کہتا کہ یہ بچہ، اِسی پیغمبر کی اُمت کے ہاتھوں بغیر کسی جرم و خطا کے قتل کردیا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئی بھی شخص اِس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ جیسا کہ پیغمبر ۰ نے یہ فرمایا اور گریہ کیا تو سب افراد نے تعجب کیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟!

____________________

۱ بحار الانوار ، جلد ۴۳ صفحہ ۴۴

۲ بحار الانوار ، جلد۱۰، صفحہ ۳۵۳

امام حسین کا دورانِ جوانی

دوسرا دور پیغمبر اکرم ۰ کی وفات کے بعد سے امیر المومنین کی شہادت تک کا پچیس سالہ دور ہے۔ اِس میں یہ شخصیت، جوان، رشید، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں میں آگے آگے ہے، عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور اسلامی معاشرے کے تمام مسلمان اِس کی عظمت وبزرگی سے واقف ہیں۔ جب بھی کسی جواد و سخی کا نام آتا ہے تو سب کی نگاہیں اِسی پر متمرکز ہوتی ہیں، مکہ ومدینے کے مسلمانوں میں، ہر فضیلت میں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، یہ ہستی خورشید کی مانند جگمگا رہی ہے، سب ہی اُس کا احترام کرتے ہیں، خلفائے راشدین ۱ بھی امام حسن اور امام حسین کا احترام کرتے ہیں ، اِن دونوں کی عظمت و بزرگی کے قولاً و عملاً قائل ہیں، ان دونوں کے نام نہایت احترام اور عظمت سے لیے جاتے ہیں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظیر جوان اور سب کے نزدیک قابل احترام۔ اگر اُنہی ایام میں کوئی یہ کہتا کہ یہی جوان (کہ جس کی آج تم اتنی تعظیم کررہے ہو) کل اِسی امت کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا تو شاید کوئی یقین نہ کرتا۔

امام حسین کا دورانِ غربت

سید الشہدا کی حیات کا تیسرا دور، امیر المومنین کی شہادت کے بعد کا دور ہے، یعنی اہل بیت کی غربت و تنہائی کا دور۔ امیر المومنین کی شہادت کے بعد امام حسن اور امام حسین مدینے تشریف لے آئے۔حضرت علی کی شہادت کے بعد امام حسین بیس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوی امام(۱) رہے اور آپ تمام مسلمانوں م یں ایک بزرگ مفتی کی حیثیت سے سب کیلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلام میں داخل ہو نے والوںکی توجہ کا مرکز، اُن کی تعلیم وتر بیت کا محور اوراہل بیت سے اظہا رعقیدت و محبت رکھنے والے افراد کے توسل و تمسک کے نقطہ ارتکاز کی حیثیت سے مدینے میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ آپ ، محبوب، بزرگ، شریف، نجیب اور عالم وآگاہ شخصیت کے مالک تھے۔

آپ نے معاویہ کو خط لکھا، امام حسین اگر کسی بھی حاکم کو تنبیہ کی غرض سے خط تحریر فرماتے تو عالم اسلام کے نزدیک اُس کی سزا موت تھی، معاویہ پو رے احترام کے ساتھ یہ خط وصول کرتاہے، اُسے پڑھتا ہے ، تحمل کرتا ہے اور کچھ نہیں کہتا۔ اگر اُسی زمانے میں کوئی یہ کہتا کہ آئندہ چند سالوں میں یہ محترم ، شریف اور نجیب و عزیز شخصیت کو کہ جو تمام مسلمانوں کی نگاہوں میں اسلام وقرآن کی جیتی جاگتی تصویر ہے، اسلام و قرآن کے اِنہی ماننے والوں کے ہاتھوں قتل کردیا جائے گا اور وہ بھی اُس دردناک طریقے سے کہ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا

تھا تو کوئی بھی اِس بات پر یقین نہیں کرتا۔ لیکن اپنی نوعیت کا عجیب و غریب ، حیرت انگیز اور یہی ناقابل یقین واقعہ رونما ہوا اور کن افراد کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا؟ وہی لوگ جو اُس کی خدمت میں دوڑ دوڑ کر آتے تھے، سلام کرتے تھے اور اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اِن (متضاد) باتوں کا کیا مطلب ہے؟ اِ س کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اِن پچاس سالوں میں معنویت اور اسلام کی حقیقت سے بالکل خالی ہوگیاتھا، یہ معاشرہ صرف نام کا اسلامی تھا لیکن باطن بالکل خالی اور پوچ اور یہی خطرے کی سب سے بڑی بات ہے۔ نمازیں ہورہی ہیں، نماز باجماعت میں لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے، لوگوں نے اپنے اوپرمسلمانی کا لیبل لگایا ہوا ہے اور کچھ لوگ تو اہل بیت کے طرفدار اور حمایتی بھی بنے ہوئے ہیں !!

رسول اللہ ۰ کے اہل بیت تمام عالم اسلام میں قابل احترام ہیں

میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ پورے عالم اسلام میں سب ہی اہل بیت کو قبول کرتے ہیں اور کسی کو اِس میں کسی بھی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔ اہل بیت کی محبت تمام عالم اسلام کے دلوں میں موجود ہے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ آج بھی آپ دنیائے اسلام کے کسی بھی حصے میں جائیے، آپ دیکھیں گے کہ سب اہل بیت سے محبت کرتے ہیں۔ وہ مسجد جو امام حسین سے منسوب ہے اور وہ مسجد جو قاہرہ میں حضرت زینب سے منسوب ہے ، ہمیشہ زوّاروں سے پُر رہتی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں ، قبر کی زیارت کرتے ہیں اور توسل کرتے ہیں۔

ابھی دو تین سال قبل(۲) ا یک نئی کتاب مجھے دی گئی ؛ چونکہ قدیمی کتابوں میں یہ مطالب بہت زیادہ ہیں، یہ کتاب’’ اہل بیت کون ہیں‘‘؟کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔ سعودی عرب کے ایک محقق نے تحقیق کرکے اِس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ اہل بیت سے مراد علی ، فاطمہ ٭اور حسن و حسین ہیں۔ یہ حقیقت تو ہم شیعوں کی جان روح کا حصہ ہے لیکن ہمارے اِس سنی مسلمان بھائی نے اس حقیقت کو لکھا اور طبع کیا ہے۔ یہ کتاب میرے پاس موجود ہے اور اِس کے ہزاروں نسخے چھپ ہو کر فروخت ہوچکے ہیں۔(۳)

____________________

۱ معنوی امام اس لحاظ سے کہ امیر المومنین کی شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئی اور آپ کی شہادت کے بعد امامت ، امام حسین کو منتقل ہوئی۔ امام حسن کی امامت کا زمانہ یا امام حسین کی اپنی امامت کا دور، دونوں زمانوں میں امام حسین ۲۰ سال تک تمام مسلمانوں کے معنوی امام رہے ۔ (مترجم)

۲ تقریباً ۱۹۹۸ میں کیونکہ یہ تقریر سن ۲۰۰۰ کی ہے۔

۳ خطبہ نماز جمعہ، ۸/۰۵/۲۰۰۰

ہدف کے حصول میں امام حسین کا عزم وحوصلہ اور شجا عت

دشمن کے خلاف جنگ کی بہترین حکمت عملی

میرے دوستو! ایسا انسان اسوہ عمل قرار دیئے جانے کا حقدار ہے۔ یہ تمام باتیں اور یہ (انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی میدان اور اِن میں آپ کی فعالیت) واقعہ کربلا سے قبل ہے۔ ان تینوں مراحل میں امام حسین نے ایک لمحے کیلئے توقف نہیں فرمایا اور ہر آن و ہر لمحے اپنے ہدف کی جانب بڑھتے رہے۔ لہٰذا ہمیں بھی کسی بھی لمحے کو ضایع نہیں کرنا چاہیے ممکن ہے وہی ایک لمحے کا توقف و آرام دشمن کے تسلط کا باعث بن جائے۔ دشمن ہماری کمزوریوں اور فصیل کے غیر محفوظ حصوںکی تلاش میں ہے تاکہ اندر نفوذ کرسکے اور وہ اِس بات کا منتظر ہے کہ ہم رُکیں اور وہ حملہ کرے۔ دشمن کے حملے کو روکنے اور اُسے غافل گیر کرنے کا سب سے بہترین راستہ آپ کا حملہ ہے اور آپ کی اپنے مقصد کی طرف پیشقدمی اور پیشرفت دراصل دشمن پر کاری ضرب ہے۔

بعض افرا یہ خیال کرتے ہیں کہ دشمن پر حملے کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف توپ اور بندوق وغیرہ کو ہی دشمن کے خلاف استعمال کرے یا سیاسی میدان میں فریاد بلند کرے، البتہ یہ تمام امور اپنے اپنے مقام پر صحیح اور لازمی ہیں ؛جی بالکل لازمی ہے کہ انسان سیاسی میدان میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچائے۔ بعض افراد یہ خیال نہ کریں کہ ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب دشمن کے خلاف فریاد بلند کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ثقافتی حملوں کو روک دے،نہیں؛ البتہ یہ کام اپنی جگہ درست اور لازمی ہے لیکن راہ حل صرف یہ ایک عمل نہیں ہے۔

انسان کا اپنے لیے ، اپنی اولاد، ماتحت افراد اور امت مسلمہ کیلئے تعمیر نو کے حوالے سے کام کرنا دراصل عظیم ترین کاموں سے تعلق رکھتا ہے ۔ دشمن مسلسل کوششیں کررہا ہے تاکہ کسی طرح بھی ہو سکے ہم میں نفوذ کرے؛ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ دشمن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے! ہمارا دشمن اپنی تمام تر ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے اور پورے مغربی استکبار اور اپنی منحرف شدہ جاہلانہ اور طاغوتی ثقافت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ دشمن کئی صدیوں قبل وجود میں آچکا ہے اور اِس نے پوری دنیا کے اقتصادی، ثقافتی ، انسانی اور سیاسی وسائل پر اپنے ہاتھ پیر جمالیے ہیں۔ لیکن اب اِسے ایک اہم ترین مانع_سچے اور خالص اسلام _کا سامنا ہے۔ یہ اسلام کھوکھلا اور ظاہری و خشک اسلام نہیں ہے کہ جس نے دشمن کا راستہ روکا ہے؛ ہاں ایک ظاہری اور کھوکھلا اسلام بھی موجود ہے کہ جس کے پیروکاروں کا نام صرف مسلمان ہے۔ یہ عالم استکبار اِن نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے ،یہ مل کر آپس میں گپ لگاتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ انہیں ایسے مسلمانوں اور اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

خالص اسلام کی نشانی

دشمن کی آنکھ کا کانٹا اور اُس کی راہ کی رکاوٹ دراصل وہ سچا اور خالص اسلام ہے کہ جسے قرآن روشناس کرتا ہے اور وہ ’’لَن يَجعَلَ اللّٰهُ لِلکَافِرِینَ عَلَی المُومنِینَ سَبِیلاً ‘‘ ،’’اللہ نے اہل ایمان پر کافروں کی برتری و فضیلت کی کوئی راہ قرار نہیں دی ہے‘‘ اور ’’اَن الحُکمُ اِلَّا لِلّٰهِ ‘‘ ،’’حکم صرف خدا ہی کا ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ اگر آپ کسی دائرے کوتھوڑا سا کم کریں تو آپ دائرے کے مرکز سے نزدیک ہوجائیں گے، یعنی یہ واقعی اور خالص اسلام ’’اِنَّ اللّٰهَ اشتری مِنَ المُومِنِيْنَ اَنفُسَهُم و اَموالَهُم باَنَّ لَهُمُ الجَنَّةُ ‘‘ ،’’اللہ نے مومنین میں سے کچھ کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے اور اُن کیلئے جنت قرار دی ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ یہ آپ لوگوںکا اسلام ہے کہ جن کے جسموں میں ابھی تک دشمن کی گولیاں موجود ہیں اورجو سرتاپا جہاد فی سبیل اللہ اور راہ خدا میں جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خواہ وہ جنگ میں زخمی و معلول ہونے والے افراد ہوں یا شہدائ کے گھر والے ہوں یا پھر وہ لوگ جو درجہ شہادت پر فائز ہوئے یا الحمد للہ غازی بن کر میدان جنگ سے لوٹے؛ دشمن کی راہ کی اصلی رکاوٹ یہ لوگ ہیں۔

دشمن سے ہر صورت میں مقابلہ

ہمارا دشمن اِس رکاوٹ سے ہرگز غافل نہیں ہے اُس کی مسلسل کوشش ہے کہ اِ س رکاوٹ کو اپنی راہ سے ہٹادے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی بہترین حکمت عملی اور زیرکی سے دشمن کا مقابلہ کریں۔ مسلسل حرکت اور جدوجہد ہر صورت میں لازمی ہے،خودسازی اور تعمیر ذات کے میدان میں بھی کہ یہ تمام امور پر مقدم ہے، بالکل میرے اور آپ کے سرور و آقا حسین کی مانند اورسیاسی میدان میںبھی مسلسل حرکت کا جاری رہنا بہت ضروری ہے کہ جو امر بالمروف اور نہی عن المنکر اور سیاسی میدان میں ہماری مسلسل جدّوجہد اور ثابت قدمی سے عبارت ہے۔ دنیائے استکبار کے مقابلے میں جہاں لازم ہو وہاں اپنے سیاسی موقف کو بیان کرنا اور اُس کی وضاحت کرنا چاہیے۔ اِسی طرح یہ مسلسل حرکت اور جدوجہد ثقافتی میدان میں بھی ضروری ہے یعنی انسان سازی، خودسازی، فکری تعمیر اور صحیح و سالم فکر و ثقافت کی ترویج؛ اُن تمام افراد کا وظیفہ ہے کہ جو امام حسین کو اپنے لئے اسوہ عمل قرار دیتے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہماری قوم امام حسین کی بہت دلدادہ اور عاشق ہے اور امام حسین ہمارے نزدیک ایک عظیم المرتبت شخصیت کے مالک ہیں حتی غیر مسلم افرادکے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔

ظلمت و ظلم کے پورے جہان سے امام حسین کا مقابلہ

اب ہم واقعہ کربلا کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔ واقعہ کربلا ایک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود یہ مسئلہ اُن افراد کیلئے درس ہے کہ جو امام حسین کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔

میرے دوستو ! توجہ کیجئے کہ واقعہ کربلا آدھے دن یا اِس سے تھوڑی سی زیادہ مدت پر محیط ہے اور اُس میں بہتر (۷۲ ) کے قر یب افراد شہید ہوئے ہیں ۔ دنیا میں اور بھی سینکڑوں شہدائ ہیں لیکن واقعہ کربلا نے اپنی مختصر مدت اور شہدائ کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ اتنی عظمت حاصل کی ہے اور حق بھی یہی ہے ؛ بلکہ یہ واقعہ اِ س سے بھی زیادہ عظیم ہے کیونکہ اِس واقعہ نے وجود بشر کی گہرائیوں میں نفوذ کیا ہے اور یہ سب صرف اور صرف اِس واقعہ کی روح کی وجہ سے ہے۔ یہ واقعہ اپنی کمیت و جسامت کے لحاظ سے بہت زیادہ پُر حجم نہیں ہے، دنیا میں بہت سے چھوٹے بچے قتل کیے گئے ہیں جبکہ کربلا میں صرف ایک شش ماہ کا بچہ قتل کیا گیا ہے، دشمنوں نے بہت سی جگہ قتل عام کا بازار گرم کیا ہے اور سینکڑوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے (جبکہ کربلا میں صرف ایک ہی بچہ قتل ہوا ہے اور یہ دوسرے بچوں کے قتل کی تعداد کے مقابلے میں ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے)؛ واقعہ کربلا اپنی کمیت کے لحاظ سے قابل توجہ نہیں بلکہ روح اور معنی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔

روح کربلا

واقعہ کربلا کی روح و حقیقت یہ ہے کہ امام حسین اِ س واقعہ میں ایک لشکر یا انسانوں کی ایک گروہ کے مد مقابل نہیں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد میںامام حسین کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کی یہی بات قابل اہمیت ہے ۔ سالار شہیدان اُس وقت کج روی، ظلمت اور ظلم کی ایک پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے تھے اور یہ پوری دنیا تمام مادی اسباب و سائل کی مالک تھی یعنی مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوی اور درباری ملا، سب ہی اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کی یہی چیزیں دوسروں کی وحشت کا سبب بنی ہوئی تھیں۔ایک معمولی انسان یا اُس سے ذرا بڑھ کر ایک اور انسان کا بدن اُس دنیا ئے ظلمت و ظلم کی ظاہری حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو دیکھ کر لرز اٹھتا تھا لیکن یہ سرور شہیداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے میں ہرگز نہیں لرزے ، آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے (اپنی راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے میں) کسی قسم کا شک وتردید کیا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زیادتی کا مشاہدہ کیا تو) آپ فوراً میدان میں اتر آئے۔ اس واقعہ کی عظمت کاپہلو یہی ہے کہ اس میں خالصتاً خدا ہی کیلئے قیام کیا گیا تھا۔

’’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ ‘‘کا معنی

کربلا میں امام حسین کا کام بعثت میں آپ کے جد مطہر حضرت ختمی مرتبت ۰ کے کاموں سے قابل تشبیہ و قابل موازنہ ہے، یہ ہے حقیقت۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے تن تنہا پوری ایک دنیا سے مقابلہ کیا تھا امام حسین بھی واقعہ کربلا میں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم ۰ بھی ہرگز نہیں گھبرائے ، راہ حق میں ثابت قدم رہے اور منزل کی جانب پیشقدمی کرتے رہے، اسی طرح سید الشہدا بھی نہیں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ نے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تحریک نبوی ۰ اور تحریک حسینی کا محور و مرکز ایک ہی ہے اور دونوں ایک ہی جہت کی طرف گامزن تھے۔ یہ وہ مقام ہے کہجهاں’’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ ‘‘ کا معنی سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ ہے امام حسین کے کام کی عظمت۔

قیام امام حسین کی عظمت!

امام حسین نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائیے اور یہاں کوئی نہ رہے ، میں اپنی بیعت تم سب پر سے اٹھالیتا ہوں اور میرے اہل بیت کو بھی اپنی ساتھ لے جاو، کیونکہ یہ میرے خون کے پیاسے ہیں‘‘۔ امام حسین کے یہ جملے کوئی مزاح نہیں تھے؛ فرض کیجئے کہ اگر اُن کے اصحاب قبول بھی کرلیتے اور امام حسین یکتا و تنہا یا دس افراد کے ساتھ میدان میں رہ جاتے تو آپ کے خیال میں کیا سید الشہدا کے کام کی عظمت کم ہوجاتی ؟ ہرگز نہیں ! وہ اُس وقت بھی اسی عظمت و اہمیت کے حامل ہوتے ۔ اگر اِن بہتر (۷۲ ) افراد ک ی جگہ بہتر ہزار افراد امام حسین کا ساتھ دیتے تو کیا اِن کے کام ا ور اُس تحریک کی عظمت کم ہوجاتی؟

امام حسین کی عظمت و شجاعت

امام حسین کے کام کی عظمت یہ تھی کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعی اور انحراف کے

پورے ایک جہان کے دباو کو قبول نہیں کیا۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں معمولی نوعیت کے انسان اپنے مد مقابل طاقت کے ظاہری روپ اور ظلم کو دیکھ کر شک و تردید کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ بارہا عرض کیا ہے کہ عبداللہ ابن عباس جو ایک بزرگ شخصیت ہیں اور اسی طرح خاندان قریش کے افراد اِس تمام صورتحال پر ناراض تھے۔ عبداللہ ابن زبیر ۱ ، عبدا للہ ابن عمر ۱ ، عبدالرحمان ابن ابی بکر ۱ ، بڑے بڑے اصحاب کے فرزند اور خود بعض اصحاب کی بھی یہی حالت تھی۔ مدینے میں صحابہ کرام کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اور سب باغیرت تھے، ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ خیال کریں کہ اُن میں غیرت نہیں تھی؛ یہ وہی اصحاب ہیں کہ جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ میں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور جنگ کی ۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ لوگ ڈر و خوف کا شکار ہوگئے، ہرگز نہیں بلکہ وہ بہترین شمشیر زن و شجاع تھے۔

لیکن میدان جنگ میں قدم رکھنے کیلئے شجاعت بذاتِ خود ایک موضوع ہے جبکہ ایک پورے جہان سے مقابلے کیلئے شجاعت کا حامل ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ امام حسین اِس دوسری شجاعت کے مالک تھے؛ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بارہا تاکید کی ہے کہ امام خمینی ۲ کی تحریک دراصل امام حسین کی تحریک کی مانند تھی اور اُن کی تحریک دراصل ہمارے زمانے میں امام حسین کی تحریک کی ایک جھلک تھی اگر بعض لوگ یہ کہیں کہ امام حسین توصحرائے کربلا میں تشنہ شہید ہوئے جبکہ امام خمینی ۲ نے عزت و سربلندی کے ساتھ حکومت کی، زندگی بسر کی اور جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی بے مثال تشییع جنازہ ہوئی! لیکن ہماری مراد یہ پہلو نہیں ہے؛ اِس واقعہ کربلا کی عظمت کا پہلو یہ ہے کہ امام حسین ایک ایسی طاقت و قدرت کے مد مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے کہ جو تمام مادی اسباب و وسائل کی مالک تھی۔ قبلاً آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ امام حسین کے دشمن کے پاس مال و دولت تھی ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے لیس سپاہی اس کی فوج میں شامل تھے اور ثقافتی و معاشرتی میدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھی اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قیامت تک پوری دنیا پر محیط ہے ، کربلا صرف میدان کربلا کے چند سو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی جگہ کا نام نہیں ہے۔ آج کی دنیائے استکبار و ظلم اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی ہے۔

امام حسین کا ہدف، اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کی تعمیر نو

آج میں نے نیت کی ہے روز عاشورا کے حوالے سے امام حسین کی تحریک کے بارے میں گفتگو کروں؛ امام حسین کی تحریک بہت ہی عجیب و غریب تحریک ہے۔ ہم سب کی زندگی سید الشہدا کی یادو ذکر سے لبریز و معطر ہے اور ہم اِس پر خدا کے شاکر ہیں ۔ اِس عظیم شخصیت کی تحریک کے متعلق بہت زیادہ باتیں کی گئی ہیں لیکن اِس کے باوجود انسان اِس بارے میں جتنا بھی غور وفکر کرتا ہے تو فکر و بحث اور تحقیق ومطالعہ کا میدان اتنا ہی وسعت پیدا کرتا جاتا ہے۔ اِس بے مثل و نظیر اورعظیم واقعہ کے متعلق بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے کہ جس کے بارے میں غوروفکرکرنا اور اُسے ایک دوسرے کیلئے بیان کرنا چاہیے۔

چند ماہ کی تحریک اور سو سے زیادہ درس

اِس واقعہ پر توجہ کیجئے؛ حضرت سید الشہدا اُس دن سے لے کے جب آپ نے مدینے سے اپنا سفر شروع کیا اور مکے کی جانب قدم بڑھائے، کربلا میں جام شہادت نوش کرنے تک اِن چند ماہ (۲۸ رجب تا ۱۰ محرم) م یں شاید انسان سو سے زیادہ درس عبرت کو شمار کرسکتا ہے؛ میں ہزاروں درس عبرت کہنا نہیں چاہتا اِس لئے کہ ہزاروں درس عبرت حاصل کیے جاسکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے امام حسین کا ہر ہر اشارہ ایک درس ہو۔

یہ جو ہم نے بیان کیا ہے کہ سو سے زیادہ درس تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم امام عالی مقام کے اِن تمام کاموں کا نہایت سنجیدگی اور توجہ سے مطالعہ کریں۔ اِسی طرح تحریک کربلا سے سو عنوان و سو باب اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک باب، ایک قوم، ایک پوری تاریخ، ایک ملک ، ذاتی تربیت، معاشرتی اصلاح اور قرب خدا کیلئے اپنی جگہ ایک مکمل درس کی حیثیت رکھتاہے۔

اِن سب کی وجہ یہ ہے کہ حسین ابن علی کی شخصیت؛ ہماری جانیں اُن کے نام و ذکر پر فدا ہوں، دنیا کے تمام مقدس اور پاکیزہ افراد کے درمیان خورشید کی مانند روشن و درخشاں ہے، آپ ؛انبیائ، اولیائ ،آئمہ ، شہدائ اور صالحین کو دیکھئے اگر یہ ماہ و ستارے ہیں تو یہ بزرگوار شخصیت خورشید کی مانند روشن و تابناک ہے؛ لیکن یہ سو درسِ عبرت ایک طرف اور امام حسین کا اصلی اور اہم ترین درس ایک طرف۔

اصلی درس : سید الشہدا نے قیام کیوں کیا؟

میں آج کوشش کروں گا کہ اِس واقعہ کے اصلی درس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔ ا س واقعہ کے دوسرے پہلوجانبی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اِس اصلی درس کو مرکزیت حاصل ہے کہ امام حسین نے قیام کیوں فرما یا تھا؟

امام حسین ؛آپ کی شخصیت مدینہ اور مکہ میں قابل احترام ہے اور یمن میں بھی آپ کے شیعہ اور محبین موجود ہیں لہٰذا کسی بھی شہر تشریف لے جائیے؛ یزید سے سروکار رکھنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس طرح یزید بھی آپ کو تنگ نہیں کرے گا! آپ کے چاہنے والے شیعوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے، جائیے اُن کے درمیان عزت و احترام سے زندگی بسر کیجئے اور دل کھول کر اسلام کی تبلیغ کیجئے ! آپ نے یزید کے خلاف قیام کیوں کیا؟ اِس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟

یہ ہے اِس تحریک کربلا کا اصلی اور بنیادی سوال اور یہی اِس واقعہ کا اصلی درس ہے۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ کسی اور نے اِن مطالب کو بیان نہیں کیا ہے؛کیوں نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس سلسلے میں بہت محنت سے کام کیا گیا ہے اور اس بارے میں نظریات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن ہم جو مطالب آپ کی خدمت میں عرض کررہے ہیں یہ ہماری نظر میں اِس واقعہ کا ایک بالکل نیا پہلو ہے جو تازگی کا حامل اور اچھوتا پہلو ہے۔


3

4

5

6

7

8

9