امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب0%

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ
زمرہ جات: مشاہدے: 11328
ڈاؤنلوڈ: 3840

تبصرے:

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11328 / ڈاؤنلوڈ: 3840
سائز سائز سائز
امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حسینی تحریک کا خلاصہ

انسانی جہالت اور پستی کے خلاف جنگ!

امام حسین کی زیارت اربعین میں ایک جملہ ذکر کیا گیا ہے جو مختلف زیارتوں اور دعاوں کے جملوں کی مانند قابل تآمّل اور معنی خیزجملہ ہے اور وہ جملہ یہ ہے’’وَ بَذَلَ مَهجَتَهُ فِیکَ‘‘ ، یعنی زیارت پڑھنے والا خدا

کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ امام حسین نے اپنی پوری ہستی اور دنیا ، اپنی جان اور خون کو تیری راہ میں قربان کردیا‘‘؛’’لِيَستَنقِذَ عِبَادِکَ مِنَ الجَهَالَةِ وَحَیرَةِالضَّلَالَةِ ‘ ،’’تاکہ تیرے بندوں کو جہالت سے نجات دلائیںاور ضلالت و گمراہی کی حیرت و سرگردانی سے اُنہیں باہرنکالیں‘‘۔ یہ اِس حقیقت کا ایک رُخ ہے یعنی یہ حسین ابن علی ہے کہ جس نے قیام کیا ہے۔ اِس حقیقت کا دوسرا رخ جسے اِس زیارت کا اگلا جملہ بیان کرتا ہے،’’وَقَد تَوَازَرَ عَلَیهِ مَن غَرَّتهُ الدُّنيَا وَبَاعَ حَظَّهُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰٰٰٰی ‘‘ ،اِس واقعہ میں امام کے مدِ مقابل وہ لوگ تھے جو زندگی و دنیا سے فریب کھا کر اپنی ذات میں کھو گئے تھے، دنیاوی مال و منال، خواہشات نفسانی اور شہوت پرستی نے اُنہیں خود سے بے خود کردیا تھا،’’وَبَاعَ حَظَّهُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰی‘‘ ؛’’اُنہوں نے اپنے حصے کو کوڑیوں کے دام بیچ ڈالا‘‘۔ خداوند عالم نے عالم خلقت میں ہر انسان کیلئے ایک خاص حصہ قرار دیا ہے اور وہ حصہ ،دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی سے عبارت ہے۔ اِن لوگوں نے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت کو دنیا کی صرف چند روزہ فانی زندگی کے عوض فروخت کرڈالا۔ یہ ہے حسینی تحریک کا خلاصہ کہ ایک طرف وہ عظمت و بزرگی اور ایک طرف یہ پستی اور ذلت و رسوائی!

اِس بیان میں غوروفکر کرنے سے انسان اِس بات کا احساس کرتا ہے کہ حسینی تحریک کو دو مختلف نگاہوں سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور یہ دونوں نگاہیں درست ہیں لیکن یہ دونوں نگاہیں مجموعاً اِس تحریک کے مختلف اورعظیم ابعاو جہات کی نشاندہی کرنے والی ہیں۔

ایک نگاہ امام حسین کی تحریک کی ظاہری صورت سے متعلق ہے کہ آپ کی یہ تحریک و قیام؛ ایک فاسق، ظالم اور منحرف یزیدی حکومت کے خلاف تھالیکن ظاہری و معمولی اور آدھے دن میں ختم ہو جانے والی یہی تحریک درحقیقت ایک بہت بڑی تحریک تھی کہ جسے یہ نگاہ دوم بیان کرتی ہے اور وہ انسان کی جہالت و پستی کے خلاف امام کی تحریک ہے ۔صحیح ہے کہ امام حسین گرچہ یزید سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن یہ امام عالی مقام کاصرف یزید جیسے بے قیمت اور پست انسان سے تاریخی اور عظیم مقابلہ نہیں ہے بلکہ انسان کی جہالت وپستی ، ذلت و رُسوائی اور گمراہی سے مقابلہ ہے اور درحقیقت امام نے اِن سے جنگ کی ہے۔

امامت کی ملوکیت میں تبدیلی

اسلام کے ہاتھوں ایک آئیڈیل حکومت کی نبیاد رکھی گئی ،اگر ہم اِس تناظر میں واقعہ کربلا اور تحریک حسینی کا خلاصہ کرنا چاہیں تو اِ س طرح بیان کرسکتے ہیںکہ امام حسین کے زمانے میں بشریت؛ ظلم و جہالت اور طبقاتی نظام کے ہاتھوں پس رہی تھی اور دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں خواہ وہ ایرانی شہنشائیت ہو یا رومی سلطنت و بادشاہت، سب کی سب غیر عوامی ، عیاشی، ظلم و ستم اور جہالت و برائیوں کی حکومتیں تھیں۔

اِسی طرح نسبتاً چھوٹی حکومتیں جو جزیرۃ العرب میں قائم تھیں، اُن سے بدتر تھیں غرضیکہ پوری دنیا پر جہالت کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اِس ظلمت و تاریکی میں نور اسلام نے پیغمبر خدا ۰ کے وسیلے، امداد الٰہی اور عوام کی طاقت فرسا جدوجہد کے ذریعہ جزیرۃ العرب کے ایک علاقے کو منور کیا، بعد میں یہ نور آہستہ آہستہ پھیلتا رہا اوراُس نے ایک وسیع و عریض علاقے کو منور کردیا۔

جب حضرت ختمی مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کی یہ حکومت ایسی حکومت تھی جو تاریخ بشریت میں سب کیلئے ایک آئیڈیل تھی اور اگر وہ حکومت اُسی طرح باقی رہتی تو بلاشک و شبہ وہ تاریخ کو تبدیل کردیتی یعنی جو کچھ صدیوں کے بعد یعنی امام زمانہ کے ظہور کے زمانے میں ظہور پذیر ہوتا وہ اُسی زمانے میں وقوع پذیر ہوجاتا۔ امام زمانہ کے ظہور کے بعد کی دنیا عدل و انصاف، پاکیزگی، سچائی اور معرفت و محبت کی دنیا ہے، اِس عالم ہستی کی حقیقی دنیا امام زمانہ کے ظہور کے بعد کے زمانے سے متعلق ہے کہ یہ صرف خدا ہے جانتا ہے کہ اُس وقت بشر کن عظمتوں اور فضیلتوں کو حاصل کرے گا۔ بنابراِیں ، اگر پیغمبر اسلام ۰ کی حکومت جاری رہتی تو تاریخ انسانیت تبدیل ہوجاتی لیکن کچھ خاص حالات کی وجہ سے یہ کام انجام نہ پاسکا۔

پیغمبر اسلام ۰ کی حکومت کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بنیادیں ظلم و ستم کے بجائے عدل و انصاف ؛ شرک اور انسانی فکر کو متفرق اور پرا کندہ کرنے کے بجائے توحید اور پروردگار عالم کی بندگی پر تمرکز؛ جہالت کے بجائے علم و معرفت اور حسد وکینے کے بجائے انسانوں میں محبت و ہمدردی اور مداراکرنے کے رابطوں کی بنیادوں پر قائم تھی۔ ایسی حکومت کے سائے میں پرورش پانے والا انسان ؛باتقوی ، پاکدامن ، عالم ، بابصیرت، فعال، پُرنشاط، متحرک اور کمال کی طرف گامزن ہوگا۔ لیکن پچاس سال بعد حالات بالکل ہی بدل گئے، نام کا اسلام رہ گیا اور لوگ صرف ظاہری مسلمان تھے لیکن باطن میں اسلام و اسلامی تعلیمات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ عدل و انصاف کی حکومت کے بجائے ظالم حکومت برسر اقتدار آگئی، اُخوت و مساوات کی جگہ طبقاتی نظام اور گروہ بندی برا جمان ہو گئے اورنور معرفت بجائے جہالت کے سیاہ با دلوںنے لوگوں پر سایہ کرلیا۔ اِن پچاس سالوں میں آپ جتنا آگے کی طرف جاتے جائیں گے اور اگر انسان ایسی مثالیں ڈھونڈنا چاہے تو ایسے سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جنہیں اہل تحقیق ،نوجوان نسل کیلئے بیان کرسکتے ہیں۔

امامت و ملوکیت کا فرق!

خدا وند عالم کا عطا کردہ’’ ہدایت کانظام امامت‘‘ ؛ ملوکیت وسلطنت میں تبدیل ہوگیا! نظام امامت کی حقیقت و اصلیت؛ سلطنت و ملوکیت کے نظام کی حقیقت و جوہر سے مختلف ہے، اُس سے مکمل طورپر تناقض رکھتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ امامت یعنی روحانی اور معنوی رہبری و پیشوائی، لوگوں سے ایک قلبی اور اعتقادی رابطہ لیکن ملوکیت و سلطنت یعنی ظلم و قدرت اور فریب کی حکومت کہ جس میں عوام اور حکومت میں کوئی قلبی ، معنوی اور ایمانی رشتہ و رابطہ قائم نہیں ہوتااور یہ دونوں بالکل ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہیں۔ امامت؛ امّت کے درمیان، امت کیلئے اور امت کی خیر و بھلائی کیلئے ایک رواں اور شفاف چشمہ ہے جبکہ ملوکیت و سلطنت؛ عوام کی مصلحت پر زور زبردستی کا راج، سلطنت یعنی خاص افراد کی فلاح و بہبود کی حکومت اور حکام و سلاطین کیلئے ثروت اندوزی اور شہوت رانی کے وسائل فراہم کرنے کے امکانات! ہم امام حسین کے زمانے حکو مت کی جتنی تصویریں دیکھتے ہیں ہمیں ہر طرف ملوکیت و سلطنت ہی نظر آتی ہے۔

جب یزید برسر اقتدار آیا تو اُس کا لوگوں سے نہ کوئی رابطہ تھا اور نہ وہ علم و پرہیز گاری اور پاکدامنی اور تقوی کی الف ب سے واقف تھا؛راہ خدا میں جہادکرنے کااُس کانہ کوئی سابقہ تھا اور نہ ہی وہ معنویت و روحانیت پر یقین و اعتقاد رکھتا تھا؛ نیزنہ اُس کا کردار ایک مومن کے کردارکی مانند تھا اور نہ اُس کی گفتارایک حکیم و دانا کی گفتار تھی اور سنتِ رسول ۰ سے اُس کا دور دور کاکو ئی واسطہ نہیں تھا۔ اِن حالات میں حسین ابن علی کیلئے جو ایسے امام و رہبر تھے کہ جنہیں مسند رسول ۰ پر بیٹھنا چاہیے تھا، ایسے حالات پیش آئے اور اُنہوں نے قیام کیا۔

قیام امام حسین کا اصل ہدف

اگر اِس واقعہ کا ظاہری تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو بظاہر یہ قیام، ظلم کی بنیادوں پر قائم یزید کی با طل حکومت کے خلاف تھا لیکن حقیقت میں یہ قیام ؛اسلامی اقدار کے اِحیائ ، معرفت و ایمان کو جلادینے اور عزت کے حصول کیلئے تھا اور اِس کا مقصد یہ تھا کہ امت کوذلت و پستی ، رسوائی اور جہالت سے نجات دی جائے۔

لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب سید الشہدا مدینہ تشریف لے جارہے تھے تو اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام یہ تحریر لکھی،’’اِنِّی لَمْ اَخرُج اَشِرًا وَ لاَ بَطِرَاً وَلاَ مُفسِدًا وَلَا ظَالِمًا اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّی‘‘ ؛’’میں غرورو تکبر ،فخر ومباہات اور ظلم و فساد کیلئے قیام نہیں کررہا ہوں،میں دیکھ رہا ہوں کہ امت محمدی ۰ کی حالت تبدیل ہوگئی ہے اور لوگ غلط سمت اور انحطاط کی طرف حرکت کررہے ہیں اور اُس جانب قدم بڑھارہے ہیں کہ جو اسلام اور پیغمبر اکرم ۰ کی بتائی ہوئی سمت کے خلاف ہے اور میں نے اِسی انحراف اور خرابی سے مقابلے کیلئے قیام کیا ہے‘‘۔

سید الشہدا کے مبارزے کی دو صورتیں

امام حسین کے قیام ومبارزے کی دوصورتیں ہیں اور دونوں کا اپنا اپنا الگ نتیجہ ہے اور دونوں اچھے نتائج ہیں؛ ایک نتیجہ یہ تھا کہ امام حسین یزیدی حکومت پر غالب و کامیاب ہوجاتے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں سے زمام اقتدار چھین کر امت کی صحیح سمت میں راہنمائی فرماتے،اگر ایسا ہوجاتا تو تاریخ کی شکل ہی بدل جاتی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ اگر کسی بھی وجہ اور دلیل سے یہ سیاسی اور فوجی نوعیت کی کامیابی آپ کیلئے ممکن نہیں ہوتی تو اُس وقت امام حسین اپنی زبان کے بجائے اپنے خون، مظلومیت اور اُس زبان کے ذریعہ کہ جسے تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھتی، اپنی باتیں ایک رواںاور شفاف پانی کی مانند تاریخ کے دھارے میں شامل کردیتے اور آپ نے یہی کام انجام دیا۔

البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زبانی وعدے کرتے اور اپنے ایمان کی مضبوطی کا دم بھرتے تھے اگر ایسا نہ کرتے تو پہلی صورت وجود میں آتی اور امام حسین اُسی زمانے میں دنیا و آخرت کی اصلاح فرمادیتے لیکن اِن افراد نے کو تاہی کی! اِس کوتاہی کے نتیجے میں وہ پہلی صورت سامنے نہیں آسکی اور نوبت دوسری صورت تک جا پہنچی۔ یہ وہ چیز ہے کہ جسے کوئی بھی قدرت امام حسین سے نہیں چھین سکتی اور وہ میدانِ شہادت میں جانے کی قدرت اورراہِ دین میں اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی جان قربان کرنا ہے۔ یہ وہ ایثار و فداکاری ہے کہ جو اتنی عظیم ہے کہ اِس کے مقابلے میں دشمن کتنی ہی ظاہری عظمت کا مالک کیوں نہ ہو، وہ حقیر ہے اور اُس کی ظاہری عظمت ختم ہوجاتی ہے اور یہ وہ خورشید ہے کہ جو روز بروز دنیائے اسلام پر نور افشانی کررہا ہے۔

آج امام حسین گذشتہ پانچ یا دس صدیوں سے زیادہ دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ دنیا کے مفکرین، روشن فکر شخصیات اور بے غرض افراد جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور واقعہ کربلا کو دیکھتے ہیں تو اپنے دل میں خضوع کا احساس کرتے ہیں۔ وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئی سروکار نہیں رکھتے لیکن آزادی، عدالت، عزت، سربلندی اور اعلی انسانی اقدار جیسے بلند پایہ مفاہیم کو سمجھتے ہیں اور اِس زاویے سے کربلا کو دیکھتے ہیں تو آزادی و آزادی خواہی، عدل و انصاف کے قیام، برائیوں ، جہالت اور انسانی پستی سے مقابلہ کرنے میںسید الشہدا اُن کے امام و رہبر ہیں۔

جہالت و پستی، انسان کے دو بڑے دشمن

آج انسان نے دنیا میں جہاںکہیں بھی چوٹ کھائی ہے خواہ وہ سیاسی لحاظ سے ہو یا فوجی و اقتصادی لحاظ سے، اگر آپ اُس کی جڑوں تک پہنچیں تو آپ کو یا جہالت نظر آئے گی یا پستی ۔یعنی اِس انسانی معاشرے کے افراد یا آگاہ وواقف نہیںہیں اوراُنہیں جس چیز کی لازمی معرفت رکھنی چاہیے وہ لازمی معرفت و شناخت نہیں رکھتے ہیں یا یہ کہ معرفت کے حامل ہیں لیکن اُس کی اہمیت اور قدر وقیمت کے قائل نہیں ہیں،انہوں نے اُسے کوڑیوں کے دام بیچ دیا ہے اور اُس کے بجائے ذلت وپستی کو خرید لیا ہے!

حضرت امام سجاد اور حضرت امیر المومنین سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ’’لَیسَ لِاَنفُسِکُم ثَمَن? اِلَّا الجَنَّةَ فَلَا تَبِیعُوهَا بِغَیرِهَا‘‘ ؛’’تمہاری جانوں کی جنت کے علاوہ کوئی اور قیمت نہیں ہے لہٰذا اپنی جانوں کو جنت کے علاوہ کسی اور چیز کے عوض نہ بیچو‘‘۔ یعنی اے انسان! اگر یہ طے ہو کہ تمہاری ہستی و ذات اور تشخص و وجود کو فروخت کیا جائے تو اِن کی صرف ایک ہی قیمت ہے اور وہ ہے خدا کی جنت، اگر تم نے اپنے نفس کو جنت سے کم کسی اور چیز کے عوض بیچا تو جان لو کہ تم کو اِس معاملے میں غبن ہوا ہے! اگر پوری دنیا کوبھی اِس شرط کے ساتھ تمہیںدیں کہ ذلت وپستی کو قبول کر لو توبھی یہ سودا جائز نہیں ہے۔

وہ تمام افراد جو دنیا کے گوشے کناروں میں زر وزمین اور صاحبانِ ظلم و ستم کے ظلم کے سامنے تسلیم ہوگئے ہیں اوراُنہوں نے اِس ذلت و پستی کو قبول کر لیا ہے، خواہ عالم ہوں یا سیاست دان، سیاسی کارکن ہوں یا اجتماعی امور سے وابستہ افراد یا روشن فکر اشخاص، تو یہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اُنہوں نے اپنی قدر وقیمت کو نہیں پہچانا اور خود کو کوڑیوں کے دام فروخت کردیا ہے ؛ہاں سچ تو یہی ہے کہ دنیا کے بہت سے سیاستدانوں نے خود کو بیچ ڈالا ہے۔ عزت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صرف سلطنت کیلئے بادشاہت یا ریاست کی کرسی پر بیٹھے؛ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان تخت حکومت پر بیٹھ کر ہزاروں افرادسے غروروتکبر سے پیش آتا ہے اوراُن پر ظلم کرتاہے لیکن اُسی حالت میں ایک بڑی طاقت اور سیاسی مرکز کا اسیر و ذلیل بھی ہوتا ہے اور خود اُس کی نفسانی خواہشات اُسے اپنا قیدی بنائے ہوئے ہوتی ہیں! آج کی دنیا کے سیاسی اسیر و قیدی کسی نہ کسی بڑی طاقت و قدرت اور دنیا کے بڑے سیاسی مراکز کے اسیر و قیدی ہیں!

اسلامی انقلاب سے قبل ایران کی ذلت و پستی!

اگر آپ آج ہمارے اِس عظیم ملک پر نگاہ ڈالیں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ اِس ملک کے نوجوانوں کے چہرے اپنے ملک کے استقلال و خودمختاری اور عزت کے احساس سے شادمان ہیں۔ کوئی بھی اِ س بات کا دعوی نہیں کرسکتا ہے کہ اِس ملک کا سیاسی نظام، دنیا کی کسی ایک سیاسی قدرت کا ایک چھوٹا سا حکم بھی قبول کرتا ہے! پوری دنیا اِس بات کو اچھی طرح قبول کرتی ہے کہ اِس عظیم اوربا عزت ملک میں اسلامی انقلاب سے قبل ایسی حکومت برسراقتدار تھی کہ جس کے افراد فرعونیت اور تکبر کے مرض میں مبتلا تھے، اُنہوں نے اپنے لیے ایک اعلی قسم کے جاہ وجلال اور رعب و دبدبے کی دنیا بنائی ہوئی تھی اور لوگ اُن کی تعظیم کرتے ہوئے اُن کے سامنے جھکتے تھے لیکن یہی افراد دوسروں کے اسیر و اُن کے سامنے ذلیل و پست تھے!اِسی تہران میں جب بھی امریکی سفیر چاہتا تو وقت لیے بغیر شاہ سے ملاقات کرتا، ہربات کو اُ س پر تھونپتا اور اُس سے اپنی بات کی تکمیل چاہتا اور اگر وہ انجام نہ دیتا تو اُسے ہٹا دیتا (لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شاہ ایران میں اتنی جرآت ہی نہیں تھی کہ وہ امریکی حکومت یا امریکی سفیر کے مرضی کے خلاف کوئی چھوٹا سا عمل انجام دے!) اِن افراد کا ظاہر بہت جاہ و جلال والا تھا لیکن صرف عوام اور کمزور افراد کے سامنے۔ امام حسین اِسی پستی و ذلت کو انسانوں سے دور کرنا چاہتے تھے۔

اخلاق پیغمبر ۰

پیغمبر اکرم ۰ کی حالت یہ تھی کہ’’کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ يَاکُلُ آَکلَ العَبدِ وَ يَجلِسُ جُلُوسَ العَبدِ‘‘ ،’’ وہ غلام و عبد ک ی مانند غذا تناول فرماتے اور بندوں کے مثل بیٹھتے تھے ‘‘۔ خود پیغمبر اکرم ۰ کے بہت سے عزیز و اقارب امیر ترین افراد تھے لیکن لوگوں سے آپ ۰ کی رفتار و عمل بہت ہی متواضعانہ تھا، اُن کا احترام فر ماتے اور کبھی فخر و مباہات سے پیش نہیں آتے تھے لیکن آپ ۰ کی ایک نگاہ و اشارے سے اُس زمانے کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے بدنوں میں کپکپی طاری ہوجاتی تھی؛یہ ہے حقیقی عزت!

امامت و سلطنت کا بنیادی فرق

امامت یعنی وہ نظام کہ جو خدا کی عطا کی ہوئی عزت کو لوگوں کیلئے لے کر آتا ہے، لوگوں کو علم و معرفت عطا کرتا ہے، اُن کے درمیان پیا ر محبت کو رائج کرتا ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں اسلام اور مسلمانوں کی عظمت و بزرگی کی حفاظت جیسا عظیم فریضہ اُس کے فرائض میں شامل ہے لیکن بادشاہت اور ظالم حکومتیں بالکل اِس کے برعکس عمل کرتی ہیں۔

آج دنیا کے بہت سے ممالک میں بادشاہی نظام رائج نہیں ہے لیکن وہ لو گ درحقیقت بادشاہ ہی ہیںاور مطلق العنانیت اُن کے ملک پر حاکم ہے۔اِن کا نام سلطان ،بادشاہ سلامت،جاں پناہ ،ظلِّ الٰہی اور ظلِّ سبحانی نہیں ہے اور ظاہری جمہوریت بھی اُن کے ملک میں موجود ہے لیکن اُن کے دماغ میں وہی قدیم سلطنت و بادشاہت اور اُس کی فر عونیت کا قوی ہیکل دِیو سوارہے یعنی لوگوں سے ظالمانہ اور متکبرانہ رویہ رکھنا اور اپنے سے بالاتر طاقتوں کے سامنے ذلت ورسوائی سے جھکنا! نوبت تو یہاں تک آپہنچی ہے کہ ایک بہت ہی بڑے اور طاقتور ملک (امریکا) کے اعلی سیاسی عہدیدار اپنے اپنے مقام و منصب کے لحاظ سے صہیونیوں، بین الاقوامی مافیا، بین الاقوامی خفیہ نیٹ ورک اور بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان کے ہاتھوں اسیر و غلام ہیں! یہ لوگ مجبور ہیں کہ اُن کی خواہشات کے مطابق باتیں کریں اور اپنا موقف اختیار کریں تاکہ وہ کہیں اِن سے ناراض نہ ہو جائیں، اِسے کہتے ہیں سلطنت و با دشاہت! جب کسی بھی کام کے ایک پہلو میں بھی ذلت و رُسورائی موجود ہوگی تو وہ ذلت و رُسوائی اُس کے بدن اور ڈھانچے میں بھی سرائیت کرجائے گی اور امام حسین نے عالم اسلام میں پنپنے والی اِسی ذلت و رُسوائی کے خلاف قیام کیا۔

بندگی خداکے ساتھ ساتھ عزت و سرفرازی

امام حسین کے رفتار و عمل میں ابتدائ ہی سے یعنی مدینہ سے آپ کی حرکت سے شہادت تک معنویت، عزت وسربلندی اور اُس کے ساتھ ساتھ خداوند عالم کے سامنے عبودیت و بندگی اور تسلیم محض کوواضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جبکہ واقعہ کربلا اورامام کی پوری زندگی میں یہی بات قابل مشاہدہ ہے۔

جس دن آپ کی خدمت میںہزاروں خطوط لائے گئے کہ ہم آپ کے شیعہ اور چاہنے والے ہیں اور کوفہ و عراق میں آپ کی آمد کا انتظار کررہے ہیں تو آپ کسی بھی قسم کے غرور و تکبر میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ایک مقام پر آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ’’خُطَّ المَوْتِ عَلٰى وُلدِآدَمَ مَحَطَّ القَلَادَةِ عَلٰى جِیدِ الفَتَاةِ‘‘ (۱) ’’موت فرزند آدم ک یلئے اِس طرح لکھ دی گئی ہے جس طرح ایک گلوبند ایک جوان لڑکی گلے پر نشان چھوڑ جاتا ہے‘‘۔ سید الشہدا نے یہاں موت کا ذکر کیا ہے ، یہ نہیں کہا کہ ایسا کریں ویسا کریں گے یاامام حسین نے یہاں دشمنوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہو اور دوستوں اور چاہنے والوں کو سبز باغ دکھائے ہوں کہ میں تم کو شہر کوفہ کے منصب ابھی سے تقسیم کیے دیتا ہوں؛ایسا ہر گز نہیں ہے! بلکہ سید الشہدا یہاں ایک سچے اور خالص مسلمان کی حیثیت سے معرفت، عبودیت و بندگی اور تواضع کی بنیا دوں پر قائم اپنی تحریک کا اعلان فرمارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب لوگ نے اپنی نگاہیںاِسی عظیم شخصیت کی طرف اٹھائی ہوئی ہیں اوراُس سے اظہار عقیدت و مودّت کرتے ہیں۔ جس دن کربلا میں تیس ہزار پست و ذلیل افراد کے ہاتھوں سو سے بھی کم افراد کا محاصرہ کیا گیا اورلوگ آپ اور آپ کے اہل بیت و اصحاب کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے اور اہل حرم اور خواتین کو قیدی بنانے کیلئے پر تولنے لگے تو اُس خدائی انسان، خداکے سچے بندے اور اسلام کے سچے عاشق میں خوف اضطراب کا دور دور تک کو ئی نام و نشان نہیں تھا۔

وہ راوی کہ جس نے روز عاشورا کے واقعات کو نقل کیا ہے اورجو کتابوں کے ذریعہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں، کہتا ہے کہ’’فَوَاللّٰهِ ما رَاَیتُ مَکثُورًا‘‘؛ ’’قسم خدا کی کہ روز عاشورا کے مصائب ، سختیوں اور ظلم و ستم کے باوجود میں نے اُنہیں تھوڑا سا بھی ٹوٹا ہوا نہیں پایا‘‘۔ ’’مَکثُورا ‘‘یعنی جس پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، جس کا بچہ مرجائے،جس کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے،جس کے مال و دولت کو لوٹ لیا جائے اور مصیبتوں اور سختیوں کے طو فان کی اُٹتھی ہوئی مو جیںجسے چاروں طرف سے گھیر لیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے چاروں طرف سے بلاوں میں گھرے ہوئے حسین ابن علی کی طرح کسی کو بھی مضبوط چٹان کی مانند نہیں دیکھا، ’’اربط جاشا‘‘۔ مختلف جنگوں ، بڑے بڑے محاذ جنگ اور اجتماعی اور سیاسی میدانوں میں ہم کو مختلف قسم

کے افراد نظر آتے ہیں کہ جو غم و اندوہ کے دریا میں غرق ہوتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ اُس مصیبت اور کڑے وقت حسین ابن علی کی مانندمیں نے کسی کو نہیں دیکھا جو شاداب چہرے، مصمم ارادوں کا مالک، عزم آ ہنی رکھنے والا اور خداوند عالم کی ذات پر کامل توکل کرنے والا ہو! یہ ہے خداوند عالم کی عطا کی ہوئی عزت! یہ ہیں وہ انمٹ نقوش ہیںجو واقعہ کربلا نے تاریخ پر چھوڑے ہیں۔ انسان کو ایسی حکومت و معاشرے کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا چاہیے یعنی ایسا معاشرہ کہ جس میں جہالت وپستی، انسانوں کی غلامی اور طبقاتی نظام اور نسل و نژاد کے زخم و نا سُور موجودنہ ہوں۔سب کو ایسے معاشرے کے حصول کیلئے مل کر اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ وہ وجود میں آئے اور آئے گا اور یہ کام ممکن ہے۔

اسلامی انقلاب کا آئیڈیل کربلا ہے

ایک وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا میں رائج مادی مکا تب وسیاست سے انسانیت مایوس ہو چکی تھی لیکن ہمارے اسلامی انقلاب اور نظام اسلامی نے یہ ثابت کردیا کہ جہالت و پستی ،طبقاتی نظام ،انسانوں کی انسانوں کیلئے غلامی اورنسل ونژاد سے پاک معاشرے کا قیام ممکن ہے۔صحیح ہے کہ ہمارا اسلامی نظام ابھی کامل نہیں ہوا ہے لیکن اُس نے اپنے ہدف کے حصول کی راہ سے بڑی بڑی رکاوٹوں کو دور کردیا ہے؛ طاغوتی حکومت، آمرانہ نظام حکومت، وہ حکومتیں جو اپنی عوام پر شیروں کی طرح مسلط تھیں لیکن بڑی طاقتوں کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی تھیں، (پہلوی خاندان کے)ایسے افرادکی حکومت جو اپنی عوام سے فرعونیت و تکبر سے پیش آتی تھی لیکن غیروں اور بیگانوں کے سامنے اُس کا سر تسلیم خم تھا، یہ ہیں ایک قوم کی راہ کے موانع اور وہ بھی ایسی حکومت کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں جس کی حمایت و طرفداری کرتی تھیں۔ ایرانی قوم نے یہ ثابت کر دکھایا کہ یہ کام عملی اور ممکن ہے اور اِس رکاوٹ کو ہٹا کر اِس راستے پر حرکت کی جاسکتی ہے۔

خداوند عالم کے لطف و کرم سے اِس نظام کو کامیاب بنا نے کی راہ میں بہت زیادہ کوششیں کی گئی ہیں لیکن

میرے بھائیوں اور بہنو! ہم ابھی آدھے راستے میں کھڑے ہیں؛ اگر ہم سید الشہدا کے پیغام کو زندہ رکھیں، اگر امام حسین کے نام کا احترام کریں، اگرہم تحریک کربلا کو انسانی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ جانتے ہیں اور اُس کی عظمت و احترام کے قائل ہیں تو یہ اِس لیے ہے کہ اِس واقعہ کا تذکرہ اور اُسے زندہ رکھنا ہماری مددکرے گاکہ ہم آگے کی جانب قدم بڑھائیں اور اور امام حسین کے بتائے ہوئے راستے کو اپنا سر مشق زندگی قرار دیں۔ امام حسین کے نام گرامی کو خداوند عالم نے عظمت بخشی ہے اور تاریخ میں واقعہ کربلا کو تا ابد زندہ رکھا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اِس واقعہ کو زندہ رکھیں اور اِس کی عظمت کو بیان کریںتواِس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اِس کام کو انجام دے رہے ہیں، نہیں! یہ واقعہ اِس سے زیادہ با عظمت ہے کہ دنیا کے مختلف واقعات اُسے کم رنگ بنائیں یا اُسے ختم کردیں۔(۲)

کربلا ہے اِک آفتاب اور اُس کی تنویریں بہت!

محرم سے متعلق دو قسم کی باتیں کی جاسکتی ہیں جن میںسے ایک خود واقعہ کربلا سے متعلق ہے۔ اگرچہ کہ ہمارے بزرگ علما نے فلسفہ قیام امام حسین کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اور بہت ہی قیمتی مطا لب اِس ضمن میں موجود ہیں لیکن اِس درخشاں حقیقت کی عظمتیں بیان کرنے کیلئے ایک طویل عمر بھی نا کا فی ہے۔ ہم واقعہ کربلااور قیام امام حسین کے متعلق جتنا بھی غوروفکر کریں، متوجہ ہوں گے کہ یہ واقعہ مختلف جہات سے جذابیت، فکری وسعت کا حامل اور بیان کیے جانے کے قابل ہے۔ ہم جتنی بھی فکر کریں گے تو ممکن ہے کہ اِس واقعہ کے نئے پہلووں، زاویوں اورحقائق کو ہمارے سامنے آئیں۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو پورے سال بیان کی جاتی ہے لیکن ماہ محرم کی اپنی ایک الگ خاص بات ہے اور ایام محرم میں اِسے زیادہ بیان کیا جانا چاہیے اور کیا جاتا ہے اور ان شائ اللہ بیان کیا جاتا رہے گا۔

مکتب تشیع کا ایک وجہ امتیاز، کربلا

واقعہ کربلا کا ایک پہلو جو ماہ محرم کی مناسبت سے قابل بحث ہے اور اِس بارے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے، وہ امام حسین کی عزاداری اور واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کی برکتوں سے متعلق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرے مسلمان مکا تب فکر کی بہ نسبت شیعہ مکتبہ فکرکا ایک امتیاز اُس کا واقعہ کربلا سے متصل ہونا ہے۔ جس زمانے سے حضرت امام حسین کے مصائب کا تذکرہ شروع ہوا تواُسی وقت سے اہل بیت کے محبوں اور چاہنے والوں کے اذہان میں فیض و برکت اور معنویت کے چشمے جاری ہوئے اور آج تک جاری ہیں اور یونہی جاری رہیں گے۔

زندگی میں پیار و محبت اور مہربانی کا کردار

واقعہ کربلا کا تذکرہ کرنا صرف ایک تاریخی واقعہ کو دہرانا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جو بے شمار ابعادوجہات کا حامل ہے۔ پس اِس واقعہ کا تذکرہ درحقیقت ایسا مقولہ ہے جو بہت سی برکتوں کا باعث ہوسکتا ہے لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ آئمہ طاہرین کے زمانے میں امام حسین پر گریہ کرنا اور دوسروں کو رُلانا ایک خاص اہمیت و مقام کا حامل تھا۔ مبادا کوئی یہ خیال کرے کہ عقل و منطق اور استدلال کی روشنی میں گریہ کرنا اور اِس قسم کی دوسری بحثیں سب قدیمی اور پرانی ہیں! نہیں، یہ غلط خیال ہے ۔ ہمدردی کے احساسات کی اہمیت اپنی جگہ اور منطق و استدلال کی افادیت اپنی جگہ اورانسانی شخصیت کی تعمیر اور ایک اسلامی معاشرے کے قیام میں دونوںخاص کردارکے حامل ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں کہ جنہیں پیار ومحبت اور میٹھی زبان سے ہی حل کیا جاسکتا ہے اور عقل ومنطق اور استدلال اِن احساسات کی جگہ نہیں لے سکتے۔

اگر آپ انبیا کی تحریکوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ جب انبیا مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر اُن کے گرد جمع ہونے والے افراد استدلال و برہان کی وجہ سے اُن کے پاس نہیں آتے تھے۔ آپ پیغمبر اکرم ۰ کو سیرت کے ملاحظہ کیجئے تو آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا کہ آنحضرت ۰ نے قابلیت و استعداد رکھنے والے کفار کو اپنے سامنے بٹھا کر دلیل و برہان سے بات کی ہو کہ یہ خدا کے وجود کی دلیل ہے یا اِس دلیل کی روشنی میں خدا، واحد ہے یا اِس عقلی دلیل کی بنیاد پر تم جن بتوں کی پرستش کرتے ہو وہ باطل ہے !دلیل و برہان کو وہاں استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی تحریک زور پکڑ جاتی ہے جبکہ پہلے مرحلے پر تحریک، ہمدردی کے جذبات و احساسات اور پیار و محبت کی زبان کے ہمراہ ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے پر اُن کے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اِن بتوں کو دیکھو کہ یہ کتنے ناتوان اور عاجز ہیں‘‘۔ پیغمبر اکرم ۰ اپنی دعوت کے پہلے مرحلے پر فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو! خداوند متعال، واحد ہے‘‘،’’قُولُوا لَا اِلٰهَ اِلّا اللّٰهُ تُفلِحُوا‘‘؛ ’’کہوکہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور فلاح پاجاو‘‘۔ ’’لَا اِلٰهَ اِلّا اللّٰه ‘‘ کہنا کس دلیل کی بنا پر’’تُفلِحُوا ‘‘ (نجات پانے)کا باعث بنتا ہے ؟ حضرت ختمی مرتبت ۰ نے یہاں اِس بات کوکیلئے کون سی عقلی اور فلسفی دلیل پیش کی؟ البتہ ہر احساس میں کہ جو سچا اور صادق ہو، ایک فلسفی دلیل پوشیدہ ہوتی ہے۔

ہم یہاں اِس پر بحث کررہے ہیں کہ جب کوئی نبی اپنی دعوت کا اعلان کرتا ہے تووہ خدا کی طرف عقلی اور فلسفی دلیل وبرہان سے لوگوں کو دعوت نہیں دیتا بلکہ احساسات اور پیار و محبت کی زبان استعمال کرتا ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ یہ سچے احساسات، غلط اور بے منطق نہیں ہوتے اور اِن میں استدلال و برہان پوشیدہ ہوتے ہیں۔ نبی پہلے مرحلے پر معاشرے میں موجودلوگوں پر ظلم و ستم ، طبقاتی نظام اور لوگوں پر جنّ وبشر اور شیاطینِ اِنس کے خودساختہ خداوں’’اَندَادُ اللّٰه‘‘ کے دباو کواپنا ہدف بناتا ہے ؛یہ ہے احساسات اور مہربانی کی زبان۔ لیکن جب کوئی تحریک اپنی راہ پر چل پڑتی ہے تو اُس کے بعد منطقی استدلال و برہان کی نوبت آتی ہے ، یعنی وہ افراد جو عقل و خِرد اور فکری پیشرفت کے حامل ہوتے ہیں وہ اعلی ترین دلیل و برہان تک پہنچ جا تے ہیں لیکن بعض افراد ابتدائی مراحل میں ہی پھنسے رہ جاتے ہیں۔

لیکن یہ بھی نہیں معلوم کہ جو دلیل و برہان کے اعلی درجات کے حامل ہوتے ہیں وہ اعلی معنوی درجات بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ نہیں! کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چھوٹی اور ابتدائی سطح کے استدلال رکھنے والے افراد میں مہربانی اور ہمدردی کے احساسات زیادہ ہوتے ہیں، عالم غیب سے اُن کا رابطہ زیادہ مستحکم ہوتا ہے اور رسول اکرم ۰ سے اُن کی محبت کا دریا زیادہ موجیں مارتا ہے اور یہی لوگ ہیں جو عالی وبلند درجات تک پہنچتے ہیں۔

اعلی ہدف!

روحانیت اور معنویت کی دنیا میں محبت اور مہربانی کا اپنا ایک خاص اور الگ مقام ہے؛ نہ مہربانی، دلیل و برہان کی جگہ لے سکتی ہے اور نہ ہی دلیل و برہان، مہربانی ،احساسات کی جگہ پُر کرسکتے ہیں۔ واقعہ کربلا اپنی ذات اور حقیقت میںسچے قسم کے مہربانی اور محبت کے جذبات و احساسات لئے ہوا ہے۔ایک ایسے اعلی صفت اورپاک و پاکیزہ نورانی انسان کی ملکوتی شخصیت میں نقص و عیب اور دھوکہ و فریب کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ہے جو ایک عظیم ہدف کیلئے کہ جس کے بارے میں تمام مُنصِفین عالم متفق القول ہیں کہ اُس کا قیام معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے تھا ، ایک عجیب و غریب تحریک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ’’اَيُّهَا النَّاسُ! اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وآلِهِ وَسَلَّم قَالَ مَن رَآَی سُلطَانًا جَائرًا ۔۔۔‘‘۔ یہاں امام حسین ظلم و ستم سے مقابلے کو اپنی تحریک کا فلسفہ قرار دے کر اُس کا اعلان فرمارہے ہیں کہ ’’يَعمَلُ فِی عِبَادِاللّٰهِ بِالجَورِ والطُّغيَانِ وَبالاِثمِ وَالعُدوَانِ ‘‘؛ یعنی’’ جو بندگانِ خدا پر ظلم و جوراورگناہ و معصیت سے حکومت کر رہا ہے‘‘۔ یہاں بات مقدس ترین اہداف کی ہے کہ جسے تمام مُنصِفِین عالم قبول کرتے ہیں؛ایسا انسان اپنے ایسے بلند اور مقدس ہدف کی راہ میں جنگ اورمبارزے کی سختیوں اور مصائب کو تحمل کرتا ہے۔

غریبانہ جنگ!

سب سے دشوار ترین جنگ، غریبانہ جنگ ہے۔ اپنے دوستوں کی داد و تحسین ، نعروں، جوش و خروش اور ولولے کو بڑھانے کے احساسات کے ساتھ میدان جنگ میں موت کے منہ میں جانا چنداں مشکل نہیں ہے۔

صدر اسلام کی کسی جنگ میں جب حق و باطل کے لشکر مقابلے کیلئے صف آرا ہوئے تو محاذ جنگ میں سرفہرست رہنے والی شخصیات میں پیغمبر اکرم ۰ اور امیر المومنین پیش پیش تھے، پیغمبر اکرم ۰ نے اپنے سپاہیوں سے پوچھا کہ’’کون ہے جو میدان جنگ میں جائے تاکہ دشمن کے فلاں معروف جنگجو کو قتل کرسکے‘‘؟ سپاہ اسلام میں سے ایک نوجوان نے حامی بھری اور سامنے آگیا؛ حضرت ختمی مرتبت ۰ نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آگے تک اُس کے ساتھ گئے، مسلمانوں نے بھی اُس کیلئے دعا کی اور وہ یوں میدانِ جنگ میں قدم رکھتا ہے، جہاد کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے؛یہ ایک قسم کا جہاد کرنا اور قتل ہونا ہے۔ ایک اور قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب انسان میدان نبرد میں قدم رکھتا ہے تو معاشرے کی اکثریت یا اُس کی منکر و مخالف ہے یااُس کی شخصیت اور مقام و منزلت سے غافل؛یا اُس سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہے یا اُس سے مقابلے کیلئے نیزوں کو ہوا میں لہرا رہی ہے اور تلواروںکو باہر نکالے ہوئے ہے اور وہ افراد جو اپنے قلب سے اُس کو داد و تحسین دینے والے ہیں وہ تعداد میں بھی کم ہیں اوروہ بھی اُس کو زبانی داددینے کی جرآت نہیں رکھتے۔

تحریک کربلا میں ’’عبد اللہ ابن عباس ۱ ‘‘ اور ’’عبد اللہ ابن جعفر‘‘ جیسے افراد بھی جو خاندان بنی ہاشم سے تعلق کھتے ہیں اور اِسی شجرہ طیبہ سے متصل ہیں، جرآت نہیں کرتے کہ مکہ یا مدینہ میں کھڑے ہوکر فریاد بلند کریں اور امام حسین کیلئے اور اُن کی حمایت میں نعرے لگائیں؛یہ ہے غریبانہ جنگ اور مبارزہ!اوریہ ایسی سخت ترین جنگ ہے کہ جہاں تمام افراد اِس لڑنے والے انسان سے روگرداں اور اُس کے دشمن ہوں۔ امام حسین کی جنگ میں اُن کے بعض دوستوں نے بھی اُن سے منہ موڑ لیا تھا جیسا کہ اُن میں سے ایک سے جب سید الشہدا نے کہا کہ ’’آو میری مدد کرو‘‘ تو اُس نے مدد کرنے کے بجائے حضرت کیلئے اپنا گھوڑا بھیج دیا اور کہا کہ ’’میرے گھوڑے سے استفادہ کیجئے‘‘۔

اِس سے بھی بڑھ کر غربت و تنہائی اور کیا ہو گی اور اِس غریبانہ جنگ سے بھی بڑھ کر اور کون سی جنگ ہے؟! اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس غربت و تنہائی کی جنگ میں اُس کے عزیز ترین افراد کو اُس کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے، اُس کے بھتیجے، بیٹے، بھانجے، بھائی، چچا زاد بھائی ، بہترین اصحاب اور گل ہائے بنی ہاشم اُس کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے ہیں ! حتی اُس کے شیر خوار شش ماہہ بچے کو بھی موت کےگھاٹ اتار دیا جاتا ہے!

اِن تمام مصائب اور جان فرسا سختیوں کے علاہ وہ جانتا ہے کہ جیسے ہی اُس کی روح اُس کے جسم سے جدا ہوگی اُس کے اہل و عیال، بے پناہ و بے دفاع ہوجائیں گے اور دشمن کے حملوں کا نشانہ بنیں گے۔ وہ اِس بات سے بھی آگاہ ہے کہ سپاہِ یزید کے بھوکے بھیڑیے اُس کی چھوٹی اور نوجوان بچیوں پر حملہ آور ہوں گے، اُن کے ننھے ننھے دلوں کو خوف سے دہلا ئیں گے اور اُن کی بے حرمتی کریں گے۔ وہ اِس بات کا بھی علم رکھتا ہے کہ یہ بے غیرت لوگ دنیائے اسلام کی مشہور شخصیات سے تعلق رکھنے والی امیر المومنین کی عظیم دختر حضرت زینب کبری کی بے حرمتی اور اُن سے جسارت کریں گے؛ وہ اِن تمام حالات سے آگاہ و باخبر تھا۔

اِن مشکلات اور سختیوں کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل و عیال کی تشنگی کا بھی اضافہ کیجئے؛ شیر خوار بچہ تشنہ، چھوٹے بچے اور بچیاں پیاس سے جاں بہ لب اور نڈھال، بوڑھے اور ضعیف العمر افراد تشنگی سے بے حال؛ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ جنگ کتنی سخت ہے؟ اتناپاک و پاکیزہ، نورانی اور عظیم المرتبت انسان کہ آسمان سے ملائکہ جس کی زیارت کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہیں تاکہ اُس سے متبرّک ہوں، ایسا انسان کہ انبیائ اور اولیائ جس کے بلند و بالا مقام پر رشک کرتے ہیں، ایسی سخت ترین جنگ اور شدید ترین مصائب اور طاقت فرسا سختیوں کے ساتھ شہید ہوجاتا ہے! ایسے شخص کی شہامت بہت ہی عجیب و غریب ہے، ایسا کون سا انسان ہے کہ جو اِس دلخراش واقعہ کو سن کر متآثر نہ ہواوروہ کون انسان ہے کہ جس کے سینے میںدل دھڑکتا ہو اوروہ اِس واقعہ کو سمجھے ، پہچانے اور اُس کا عاشق نہ بنے؟!

یہ وہ چشمہ ہے جو روزِعاشوراُس وقت جاری ہوا کہ جب حضرت زینب’’تلّہ زینبیہ‘‘پر تشریف لے گئیں اور پیغمبر ۰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’يَا رَسُولَ اللّٰهِ ! صَلّی عَلَیکَ مَلَائِکةُ السَّمَآئِ ، هَذاحُسَین مُرَمَّل? بِالدِّمَآئِ ، مُقَطَّعُ الاَعضَآئِ ، مَسلُوبَ العَمَّامَةِ والرِّدَآئ ِ‘‘؛ ’’ اے نانا رسول اللہ ۰! آسمان کے ملائکہ آپ پر درودو سلام بھیجیں،یہ آپ کا حسین ہے، اپنے ہی خون میں غلطاں، جس کا جسم پائمال ہے اور جس کے عمامے اورعبا کو لوٹ لیا گیا ہے‘‘۔ حضرت زینب ٭ نے یہاں امام حسین کے مصائب پڑھنے شروع کیے اور با آواز بلند اُس واقعہ کو بیان کرنا شروع کیا کہ جسے یہ لوگ چھپانا چاہتے تھے۔ سید

الشہدا کی عظیم المرتبت خواہر نے کربلاوکوفہ اور شام و مدینہ میں با آواز بلند واقعہ عاشورا کو بیان کیا، یہ چشمہ اُس وقت اُبلا اور آج تک جاری و ساری ہے!

مجالس اور کربلا کی عظیم نعمت

جب ایک انسان کا دامن ایک نعمت سے خالی ہوتا ہے تو اُس سے اُس نعمت کاسوال بھی نہیں کیا جاتا لیکن جب انسان ایک نعمت سے بہرہ مند ہو تا ہے تو اُس سے اُس نعمت کے متعلق ضروربا ز پُرس کی جائے گی۔ ہمارے پاس بزرگترین نعمتوں میں سے ایک نعمت،مجالس عزا ، محرم اور کربلا کی نعمت ہے؛افسوس یہ ہے کہ ہمارے غیر شیعہ مسلمان بھائیوں نے اپنے آپ کو اِس نعمت عظمی سے محروم کیا ہوا ہے، وہ اِس نعمت سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں اور اِس کے امکانات بھی موجود ہیں۔ البتہ بعض غیر شیعہ مسلمان بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں محرم کے ذکر اورواقعہ کربلا سے بہرہ منداور مستفید ہوتے ہیں۔آج جبکہ ہمارے درمیان محرم اور واقعہ کربلا کا تذکرہ اور امام حسین کی بے مثال قربانی کا ذکر موجود ہے تو اِیسے وقت میںاِن مجالس اور تذکرے سے کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اِس نعمت کا شکرانہ کیا ہے؟

ظالم طاقتوںکاکربلاسے خوف میں مبتلا ہونا

یہ عظیم نعمت ،ہمارے قلوب کو ایمان و اسلام کے منبع سے متصل کرتی ہے اور ایسا کام انجام دیتی ہے کہ جو اُس نے تاریخ میں انجام دیا کہ جس کی وجہ سے ظالم و جابر اور ستمگر حکمران واقعہ کربلا سے خوف میں مبتلا ہوگئے حتی کہ امام حسین کی قبر مبارک سے بھی خوف کھانے لگے۔ واقعہ کربلا اور شہدائے کربلا سے خوف و ہراس بنی امیہ کے زمانے سے شروع ہوا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ آپ نے اِس کا ایک نمونہ خود ہمارے انقلاب میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جب بھی محرم کا چاند طلوع ہوتا تھا تو کافر و فاسق پہلوی حکومت اپنے ہاتھوں کو بندھا

ہوامحسوس کرتی اور ہماری کربلائی عوام کے مقابلے کیلئے خود کو عاجز پاتی تھی اور پہلوی حکومت کے اعلی حکام محرم کے سامنے عاجز و درماندہ ہوجاتے تھے! اُس حکومت کی رپورٹوں میں اشاروں اور صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محرم کی آمد سے بالکل چکرا جاتے تھے۔ حضرت امام خمینی ۲ ، اُس دین شناس، دنیا شناس اور انسان شناس حکیم و دانا نے سمجھ لیا تھا کہ امام حسین کے اہداف تک رسائی کیلئے اِس واقعہ سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے اور اُنہوں نے اِس سے اچھی طرح استفادہ کیا بھی۔(۳)

____________________

۱ بحار الانوار ، جلد ۴۴، صفحہ ۳۶۶

۲ خطبہ نماز جمعہ ۱۵/۶/۲۰۰۰

۳ ماہ محرم کی آمد پر علمائ سے خطاب ۷/۶/۲۰۰۴