قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں0%

قرآنی دعائیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن

قرآنی دعائیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
زمرہ جات: مشاہدے: 29087
ڈاؤنلوڈ: 3159

تبصرے:

قرآنی دعائیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29087 / ڈاؤنلوڈ: 3159
سائز سائز سائز
قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قبولیت توبہ کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ قُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ‏ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمين ) (۹۲)

مومنین کرام ! قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج قبولیت توبہ کی دعا کو پیش کرنا ہے۔

خالق کائنات نے مختلف اقسام کی مخلوقات کو پیدا کیا ہے،امام علیؑ مخلوقات کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ خداوند متعال نے تین قسم کی مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ایک وہ مخلوق ہے جس میں صرف عقل پائی جاتی ہے، ان میں خواہشات کا کوئی نام و نشام نہیں ہے۔ دوسری وہ مخلوق ہے جس میں صرف اور صرف خواہشات پائی جاتی ہیں، عقل کا کوئی نام نہیں ہے۔اور وہ ایک وہ مخلوق ہے جس میں خداوند متعال نے عقل کو بھی رکھا ہے اور خواہشات کو بھی رکھا ہے۔یہ تین قسم کی مخلوقات ہیں جن میں صرف عقل، جن میں صرف خواہشات اور جن میں یہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ مخلوق جن میں صرف عقل پائی جاتی ہے وہ فرشتے ہیں، ملائکہ ہیں جہاں صرف عقلانیت کا عقل کا وجود ہے اور کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ابھی ہم فرشتوں کے بارے میں تفصیل میں نہیں جاتے مثلا کیا ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہے یا نہیں اور مختلف واقعات جو اس حوالے سے پائے جاتے ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ ہے کہ فرشتے وہ مخلوق ہیں جن میں عقل پائی جاتی ہے۔اور وہاں سے حیوان وہ مخلوق ہیں، جن میں صرف خواہشات پائی جاتی ہیں، ان میں عقل نہیں ہے۔ اب دونوں کے درمیان حضرت انسان ہے، جس میں عقل بھی پائی جاتی ہے اور خواہشات بھی جاتی ہیں، اب یہ درمیان میں جو انسان ہے جس میں دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یہ انسان اگر اپنی عقل کو اپنی خواہشات پر غالب کر دے، اپنی عقل کو غالب اور خواہشات کو مغلوب بنا دے یعنی اپنی زندگی میں تمام کاموں میں پہلے یہ سوچے کہ عقل کا کیا تقاضا ہے، صحیح راستہ کونسا ہے،خواہشات کی پیروی نہ کرے اب یہ انسان فرشتوں سے بھی افضل ہے۔کیوں افضل ہے؟ اس لیے کہ اس نے خواہشات کے باوجود، ہوا و حوس کے باوجود، ان کو مغلوب بنا دیا ان کا مقابلہ کیا اور عقل کے مطابق اپنی زندگی بسر کی۔ اب یہ انسان فرشتوں سے بھی بڑہ جاتا ہے۔لیکن جو انسان اپنی خواہشات کو غالب بنادے، اپنی عقل کو مغلوب بنا دے، یہ انسان حیوانوں سے بھی گر جاتا ہے۔ کیونکہ حیوانوں میں تو عقل پائی ہی نہیں جاتی اس میں تو عقل موجود تھی لیکن اس نے اس سے استفادہ نہیں کیا۔

جہاد اکبر

یہ حضرت انسان ہے جس میں دونوں چیزیں ہیں خواہشات بھی ہیں، عقل بھی ہے۔ہدایت بھی ہے ہدایت کے اسباب بھی ہیں، گمراہی کے عوامل بھی ہیں۔ رحمانی قوتیں بھی ہیں شیطانی قوتیں بھی ہیں اب اس میں نفس بھی ہے و نفس وما سواھا، اور اس میں دونوں چیزیں ہیں فال ہما فجورہا و تق وا ہا؛ فجور بھی پایا جاتا ہے اور تقوی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ انسان مرکب ہے ان چیزوں کا ، انسان کے اندر ہمیشہ ایک قسم کی جنگ ہوتی رہتی ہے، انسان ہر لمحہ گویا کہ میدان جنگ میں موجود ہے۔ اس کے اندر مقابلہ ہو رہا کرتا ہے رحمانی اور شیطانی قوتوں کا، ہر کوئی اسے اپنی طرف بلا رہا ہے، دعوت دے رہاہے۔جنود اللہ بھی ہے، اللہ کا لشکر اس کے اندر پایا جاتا ہے جو اسے نیکیوں کی طرف بلا رہا ہے۔ جنود الشیطان بھی ہیں، باطل لشکر بھی پایا جاتا ہے جو اسے برائی کی طرف بلا رہے ہیں۔ اب یہ انسان ہر لمحہ میدان جنگ میں ہے، اس لئے رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب جنگ سے لوٹ آنے والے مجاہدین کا استقبال کیا تو فرمایا مرحبا بقوم ، خوش آمدید اور مرحبا ہو اس قوم کیلئے جو جہاد اصغر سے لو ٹ آئے ہیں، اب انہیں جہاد اکبر کرنا ہے۔(۹۳)

صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ اپنے وطن کو چھوڑنا، اپنے خاندان محلے عیال کو چھوڑ کر ان مشکل حالات میں کٹھن حالات میں مسافرت کرنا، جنگ کرنا، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا، زخموں کو برداشت کرنا، یہ جہاد اصغر ہے۔ فرمایا جی! یہ جہاد اصغر ہے۔ ابھی جہاد اکبر باقی ہے، یہ جہاد اصغر تھا، چند دنوں کیلئے تھا۔ تم لوٹ آئے ہو، تمہارا دشمن تمہارے سامنے تھا۔ تمہارے پاس اسباب اور وسائل تھے، تم اسے دیکھ رہے تھے، اس کی طاقت کا تمہیں اندازہ تھا۔ سب کچھ تمہاری نظروں کے سامنے تھا۔ لیکن جہاد اکبر ، محدود نہیں ہے، پوری زندگی لمحہ بہ لمحہ تمہیں جہاد کرنا ہے، اور تمہارا دشمن بھی تمہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ تم شاید اس سے غفلت کرو وہ تم سے غافل نہیں ہوتا۔ یہ جہاد ، جہاد اکبر ہے۔

خلاصہ یہ : کہ جب انسان کے پاس خالق کائنات نے ان دونوں چیزوں کو رکھا ہے تو خداوند متعال نے اپنی رحمت کے ساتھ انسان کے لیے ہر وقت اپنی رحمت کے دروازوں کو کھلا رکھا ہے۔

مایوسی کفر ہے

قرآن اور روایات کی روشنی میں سب سے بڑا گناہ، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ، اگر ہے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے، ناامید ہونا ہے۔ فرمایا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوا کرو، سوائے گمراہ قوم کے، سوائے کافر قوم کے کوئی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوگا۔اللہ کی رحمت بہت ہی وسیع ہے۔ اب اگر یہ انسان ان خواہشات کی وجہ سے کبھی صراط مستقیم سے منحرف ہو جائے، کبھی ان خواہشات کے اثر میں کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے، گناہ کا مرتکب ہوجائے تو وہ گناہ اتنا بڑا نہیں ہے، جتنا اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے۔لہذا فرمایا کہ توبہ کرو۔توبوا الی اللہ توبہ کرو جب بھی تم سے کوئی خطا صادر ہو جائے، جب بھی تم سمجھو کہ خدا سے تھوڑا دور ہو گئے تھے، جب بھی تم یہ سمجھو کہ زندگی کی زرق و برق نے تمہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا، فورا استغفار کرو، توبہ کرو، اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

توبہ کی معنی

توبہ کی دعا قرآن مجید میں جہاں جہاں وارد ہوئی ہے وہاں خداوند متعال کی رحیمیت رحمانیت اور رحم اور کرم کی مظہر ہے۔جہاں بھی قرآن مجید نے توبہ کی بات کی ہے، مغفرت کی بات کی ہے وہاں رحم الہی کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ رحمت الہی کا تذکرہ ہےکہ کوئی بندہ اگر کبھی بھٹک جائے، خدا سے دور ہو جائے تو خالق کائنات اس کا انتظار کرتا ہے۔ کہ میرا یہ بندہ کب میری طرف لوٹ آئے گا، اور اسی لوٹنے کا نام، خدا کی طرف پلٹنے کا نام توبہ ہے۔یہ اللہ کی طرف لوٹنا ہے، پلٹنا ہے۔توبوا الی اللَّ ہِ لوٹ آئو خدا ک ی طرف۔ تمہاری تخلیق اللہ کی طرف سے ہے، تمہاری ابتدا خدا کی طرف سے ہے۔تمہاری انتہا بھی وہیں ہونی ہے۔

امام حسین(ع)اور انا للہ کی تفسیر

امام حسینؑ نے جوانا للَّهِ وانا الیهِ راجعون کی بہترین تفسیر کی ہے، عام طور پر ہم اس آیت کو اس وقت پڑہتے ہیں جب سنتے ہیں کہ کسی کا انتقال ہو گیا ہے، لیکن ہماری پوری زندگی اسی کا مظہر ہونی چاہیے۔ یہ آیت پوری زندگی کی ترجمانی کر رہی ہے کہ ہماری تخلیق بھی خدا کی طرف سے ہے آغاز سفر وہیں ہے تو اختتام سفر بھی وہیں ہے۔ خالق کائنات نے توبہ کے دروازے کو کھول رکھا ہے۔ اور اسے وہ بندے بہت پسند ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ خدا فرما رہا ہے: کہ اگر ایک انسان کسی تاریک رات میں سفر کر رہا ہو، انتہائی تاریک رات میں اور پھر اس کی ایک قیمتی چیز گم ہوجائے،ایسی تاریکی جہاں کچھ دکھائی نہ دے رہا ہو، ایسے میں اس کی قیمتی چیز گم ہوجائے اور پھر وہ اسے ڈہونڈنے کی کوشش کرے اچانک وہ چیز اسے مل جائے اسی کتنی خوشی ہوگی۔(۹۴)

تاریک رات میں قیمتی چیز گم کرنے کے بعد دوبارہ مل جائے کتنی خوشی ہوگی۔فرمایا اس شخص کو حاصل ہونے والی خوشی اس سے بہت زیادہ کم ہے جو مجھے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب میرا کوئی بندہ توبہ کرتا ہے،جب میرا کوئی بندہ دوبارہ میری طرف پلٹ آتا ہے مجھے چھوڑنے کے بعد، مجھ سے منحرف ہونے کے بعد، میری نافرمانی کے بعد، جو مجھ سے دور ہو گیا تھا جب دوبارہ لوٹ آتا ہے، پلٹ ہوتا ہے تو میں بہت خوش ہوجاتا ہوں۔

اس لئے خدا کی رحمت مخصوص راتوں میں صدا دیتی ہے، پکارتی ہے کہ ہے کوئی جو اپنے آپ کو بخشوا دے، ہے کوئی جو رحمت الہی کا مستحق بن جائے۔ چاہے وہ جمعرات ہو،و چاہے وہ نیمہ شعبان ہو یا شب قدر کی رات ہو۔ان راتوں میں رحمت الہی پکارتی ہے کہ گنہگارو آجائو آج تمہیں بخش دیا جائے گا۔ آج تمہارے لئے رحمت الہی کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔تو خالق کائنات چاہتا ہے کہ انسان اس سے ملا رہا اور اسی میں انسان کی بھلائی ہے۔ اگر کبھی انسان خواہشات نفسانی کی وجہ سے، ہوا اور ہوس کی وجہ سے، خدا سے دور ہو جائے، نافرمانی کر بیٹھے، کوئی معصیت کر بیٹھے، توبہ کے ذریعہ سے لوٹ آئے، پلٹ آئے، خدا سے رابطہ کو برقرار رکھے، لمحہ بہ لمحہ اس سے متصل رہے۔

توبہ کا حکم

اس لئے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو بھی یہ حکم دیا جا رہا ہے سورہ مومنون کی آیہ ۱۱۸ فرمایا :

( و قُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ‏ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمين‏؛ )

اے نبی تم یہ دعا کیا کرو کہ بار الہا! رحم فرما بخش دے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ جب یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب قرار دے رہی ہے تو معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سےکوئی گناہ صادر ہو گیا ہو نہیں، اگرچہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزانہ کتنی ہی بار استغفار کیا کرتے تھے استغفر اللہ و اتوب الیہ پڑہا کرتے تھے لیکن یہ گناہوں کی وجہ سے نہیں تھا ، شاید ہم نے خدا کے حق میں کوئی کوتاہی کر دی ہو اس کا حق ادا نہ کیا ہو، جب دنیوی کاموں میں انسان مشغول ہوجائے تو یہ تھوڑا سا بھی خدا سے دور ہونا اولیا الہی کو پسند نہیں ہوتا۔ یہ ان کے درجہ اورمعرفت کو بیان کرتا ہے۔ ایک لمحہ کیلئے بھی خدا سے بے توجہی نہیں کرتے، نہیں چاہتے اور عزیزو یہ مغفرت کی دعا اہم ترین دعا ہے۔ جو انبیا سے منقول ہے سب انبیا نے یہی دعا کی ہے، یہاں رسول اکرم کو مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے

( وَ قُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ‏ وَ أَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمين .)

وہاں حضرت موسیؑ دعا کر رہے ہیں

( قالَ رَبِّ اغْفِرْ لي‏ وَلِأَخي ) (۹۵)

خدایا مجھے بخش دے میرے بھائی کو بخش دے۔ یعنی اس مغفرت میں اس بخشش میں انسان دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملائے۔اور معنویات کا کمال یہی ہے ، حق اور حقیقت کا حقانیت کا حق پر ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ انسان دوسروں کو ملا لیتا ہے اپنے ساتھ، چاہتا ہے کہ سب سے زیادہ آدمی شریک ہوجائیں اس قافلے میں، اس کارواں میں، اس کاروان حق میں۔ جہاں انسان دوسروں کے وجود کو برداشت نہ کرے، جہاں انسان اپنا شریک نہ بنائے، جہاں صرف اپنا سوچے، خود غرضی کا مظا ہرہ کرے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ حق کا راستہ نہیں ہے۔

دعا میں دوسروں کو شامل کرنا

حکم دیا گیا ہے کہ جب دعا کرو تو جتنا ممکن ہو سکے اس دعا کو وسیع کرو۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کا ایک بہت بہترین جملہ ہے، اس دعا کے حوالے سےاستوسعوا رحمة الله ؛(۹۶)

اللہ کی رحمت کو مقید نہ کرو، محدود نہ کرو، صرف اپنے لیے دعا نہ کرو، ایسا نہیں ہے کہ خدا اگر تمہیں دے دے تو اس کی رحمت کی خزانے ختم ہوجائیں گے۔ دوسروں کو کیا دے گا نہیں، وہ ایسی ذات ہے جس کے خزانے ختم نہیں ہوتے، وہ جتنا دیتا چلا جاتا ہے اتنا اس کی رحمت وسیع ہوتی جاتی ہے۔ محدودیت نہیں ہے وہاں پر۔ لہذا سب کیلئے مغفرت کی دعا کر رہیں ہیں ، حضرت موسی علیہ السلام نے کیا دعا کی، بار الہا مجھے بخش دے میرے بھائی کو بخش دے، حضر نوح علیہ السلام کیا دعا کر رہے ہیں خدایا مجھے بخش دے میرے والدین کو بخش دے۔ اور جو بھی مومن میرے گھر میں داخل ہو یا بہتر لفظوں میں یوں کہوں کہ جو بھی دائرہ ایمان میں داخل ہو جائے، اس کی مغفرت فرما، اسے بخش دے۔ اس کی خطائوں سے درگذر فرما۔ یعنی انسان جب خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو تو ایسے ہو جیسے خالق کائنات نے اسے پیدا کیا تھا۔ کس طرح پاک اور معصوم تھا، اسے جب دوبارہ بارگاہ الہی میں حاضر کیا جائےتو وہ پہلے سے اپنی مغفرت کروا چکا ہو۔

لہذا خالق کائنات نے مختلف موقعے دئے ہیں خصوصی پیکیج دئے ہیں، زندگی میں مختلف تاریخیں قرار دی ہیں، ماہ مبارک رمضان بہت بڑا پیکیج ہے۔حج کا موقعہ بہت بڑا انعام و اکرام ہے خداوند متعال کی طرف سے۔ انسان ان خاص اوقات میں اگر اپنی بخشش کی دعا کرے تو خدا قبول کر لیتا ہے، اگرچہ وہ ہر وقت ہر دعا کو سنتا ہے اسے قبول کرتا ہے۔ لیکن اگر مخصوص زمان و مکان میں کی جائے تو اس دعا کی اہمیت بڑہ جاتی ہے، اس کی استجابت بہت زیادہ قریب ہو جاتی ہے، اس کے احتمالات قوی ہو جاتے ہیں ۔ تو انسان جب بھی کسی گناہ کا مرتکب ہو جب یہ احساس کرے وہ خدا سے تھوڑا سا دور ہو رہا ہے تو فورا اسے توجہ کرنی چاہیے اور استغفار اور توبہ کے ذریعہ سے خدا کے نزدیک ہو جائے اور ان دعائوں میں چاہے وہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا ہو جس کا خالق کائنات نے حکم دیا۔ چاہے حضرت موسی کی دعا ہے کہ بار الہا مجھے بخش دے میرے بھائی کو بخش دے۔ چاہے حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل علیہ السلام کی دعا ہو جب انہوں نے دعا کی

( وَ أَرِنا مَناسِكَنا وَتُبْ عَلَيْنا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحيم ) (۹۷)

بار الہا ہمیں مناسک حج کی تعلیم عطا فرما، ہماری توبہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما، تو توبہ کو قبول کرنے والا ہے تو ہی رحیم ہے۔ ان سب دعائوں میں جو چیز دیکھی جا رہی ہے وہ یہی کہ خالق کائنات کی رحمانیت کا تذکرہ ہو رہا ہے اس کی رحیمیت کا تذکرہ ہو رہا ہے، تو رحیم ہے تو کریم ہے تو توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔

دعا کی مناسبت سے صفات خدا کا ذکر

خالق کائنات نے اسی صفت کو متعدد آیات میں ذکر کیا ہے اور آداب دعا میں ایک ادب یہی ہے کہ جب بھی خالق کائنات سے کوئی چیز مانگنی ہو اسے اس کی اسی صفت کا واسطہ دیا کرو، دعا میں اس کو اسی صفت کے ساتھ پکارو۔و لل ہ الاسماء خدا کے تمام ن ام بہترین ہیں ، پاکیزہ ہیں بے مثل و بے مثال ہیں ایک سے بڑہ کر ایک ہیں۔ دیکھئے جب کوئی چیز مانگنی ہو تو اسی صفت کا واسطہ دیا کرو، جب خدا سے طلب رحمت کرنی ہو تو کہو انت خیر الراحمین۔ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ نے دعا کی تو یہی

( ربنا ارنا مناسکنا و تب علینا انک انت التواب ، )

جہاں توبہ کی بات ہو تو خداوند متعال کی صفت تواب کا تذکرہ کیا جائے، جہاں طلب رحمت کی بات ہو انت ارحم الراحمین کہہ کر اس سے دعا کی جائے ، استجابت کے نزدیک ہو جاتی ہے۔اس سے اس کی صفات کا واسطہ دے کر دعا کرو۔

دعا میں توسل

اہم آداب میں سے ایک ادب خاص طور پر جب توبہ کی دعا کی جا رہی ہو، قبولیت توبہ کیلئے دعا کی جا رہی ہو اسی ادب کو اپنایا جائے جو انبیا نے اپنایا، اول بشر حضرت آدم علیہ السلام جب انہیں جنت سے نکالا جاتا ہے ان کے عمل کی وجہ سے، زمین پر آتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے

( فَتَلَقَّى‏ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِماتٍ فَتابَ عَلَيْه ) (۹۸)

حضرت آدم کو خدا کی طرف سے کچھ کلمات کی تعلیم دی گئی، اسے کچھ کلمات عطا ہوے جن کی برکت کی وجہ سے خدا نے انہیں بخش دیا ۔ کونسے کلمات تھے، روایات اہلبیت میں یہی ہے وہ حضرات محمد و آل محمد کے اسامی گرامی تھے۔(۹۹)

یعنی حضرت آدم کو یہ تعلیم دی گئی کہ اگر تم اپنی مغفرت اور بخشش کرانا چاہتا ہو، توبہ قبول کرنا چاہتے ہو تو خدا کو واسطہ دو محمد و آل محمد کا، پھر اس کی دعا کو قبول کر دیا گیا۔ آداب دعا میں سے ایک یہی ہے، اگر چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے، تمہاری توبہ خدا قبول کر لے تو خدا کو واسطہ دو محمد و آل محمدکا، یہ آداب دعا میں سے ہے۔

توبہ کی حقیقت

البتہ اہم ترین چیز جو توبہ میں خاص طور پر مد نظر رکھنی چاہیے، ملحوظ نظر رہنی چاہیے وہ یہی کہ توبہ الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے، زبان سے استغفرا لل ہ کہنے کا نام نہ یں ہے۔وہ دلی پشیمانی، وہ احساس ندامت، یہ اصل اور حقیقت توبہ ہے۔ انسان پشیمان ہو، اسے احساس ہو جائے کہ اس نے نافرمانی کی ہے، اسے احساس ہوجائے کہ وہ غلط راستے پر چل نکلا تھا، اسے احسان ہوجائے وہ خدا سے دور کیوں ہوا، ایسے رحیم و کریم خدا سے دور کیوں ہوا، اس احساس کا پیدا ہونا توبہ ہے۔اگر یہ احساس انسان کے اندر پیدا نہیں ہو رہا اور وہ زبان سے استغفر الل ہ کہہ رہا ہے تو بعض روایات کی تعبیر کے مطابق خود اپنا استہزا کر رہا ہے(۱۰۰)

یہ توبہ نہیں ہے، اہم ترین عنصر توبہ کے یہی ہیں، اسی پشیمانی کا احساس ہو، اور آیندہ نہ کرنے کا مضبوط ارادہ کر لے کہ اب یہ کام نہیں کرنا، اب خدا کی یہ نافرمانی نہیں کرنی، اب خدا سے دوری اختیار نہیں کرنی، اور ساتھ میں ایسے کام کرے جس سے گذشتہ گناہوں کی تلافی ہو سکے۔

ہر گناہ کی توبہ مختلف ہے

واضح لفظوں میں یوں عرض کروں کہ ہر چیز کی، ہر گناہ کی توبہ مختلف ہے۔اگر کسی نے کسی کا حق کھایا ہے اور اب یہ توبہ کرنا چاہتا ہے تو اس میں جہاں احساس پشیمانی ہونا چاہیے بہت اہم ہے اور ساتھ میں اسے یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ دوسروں کا حق ان تک پہنچا دےاگر اس نے کس پر ظلم کیا ہے اب یہ مظلوم کی مدد کرے ، اب یہ انسان ذات کی خدمت کرے۔ اور خالق کائنات کی رحمت کو حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ یہی ہے کہ تم دوسروں کی مدد کرو، دوسروں کی مشکلات کو حل کرو۔ دوسروں کے کام آئو، دوسروں کی خطائوں سے چشم پوشی کرو، انہیں معاف کر دو۔ جب تم دوسروں کو معاف کرو گے جب تم زمیں والوں کو معاف کروگے تو آسمان والا تم کو معاف کر دے گا۔قرآن مجید نے جو قبولیت توبہ کیلئے حل ذکر کیے ہیں کہ کس طرح تمہاری توبہ قبول ہوسکتی ہے ، تو مختلف چیزوں کو ذکر کیا ہے ایک یہی کہ ہر کام سے توبہ مختلف ہے مثلا خالق کائنات بیان کر رہا ہے کہ کچھ وہ افراد تھے جن کو پتا تھا کہ حق کیا ہے حق کو جاننے با وجود انہوں نے گناہ یہ کیا کہ پردہ پوشی کی، حق کو ظاہر ہونے نہیں دیا، دوسروں کو نہیں بتایا کہ حق کیا ہے؟ ان کا گناہ کیا تھا؟ حق کی پردہ پوشی۔ اب جب یہ چاہتے ہیں کہ خدا انہیں بخش دے تو خالق خائنات ان کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ

( إلاَّ الَّذينَ تابُوا وَ أَصْلَحُوا وَ بَيَّنُوا ) (۱۰۱)

پہلے تو فرمایا کہ خداوند متعال حق کو چھپانے والوں پر، کتمان حق کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ پھر فرمایا مگر وہ جو توبہ کریں، جو اصلاح کریں، پھر حق کو واضح کریں، بیان کریں ،اپنے گناہ کی تلافی کریں۔ حقیقی توبہ یہ ہے کہ جو گناہ کیا گیا ہے اس تلافی کریں۔ انہوں نے کتمان کیا تھا، چھپایا تھا حق کو اب یہ حق کو واضح کریں۔ بتائیں، تعارف کرائیں۔ اگر ایسے کرینگے تو خدا فرما رہا ہے کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں۔اولئک اتوب علیهم

ان کی توبہ کو میں قبول کرتا ہوں یعنی جنہوں نے ویسی توبہ کی ہے جیسا گناہ ، گناہ اگر کتمان حق کا تھا اس کی توبہ یہ ہے اب اس حق کو واضح کریں، میں توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرتا ہوں ،ایسی توبہ۔

توبہ کا ایک راستہ یہی ہے کہ گناہ کی تلافی کی جائے۔گناہوں کو چھوڑ دیا جائے، اگر انسان گناہوں کو چھوڑ دے تو خالق کائنات اس کی چھوٹی چھوٹی خطائوں کو معاف کر دیتا ہے۔ارشاد رب العزت ہو رہا ہے( إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُم ) (۱۰۲)

اگر تم ان گناہوں کو چھوڑ دو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو خالق کائنات تمہاری چھوٹی چھوٹی خطائوں کو معاف کر دے گا، گناہوں سے اجتناب کرنا گذشتہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اس کی تلافی کر دیتا ہے۔

اور تیسرا عمل جو گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ نیکیوں کو انجام دے، نیک اعمال کرے، نیکیوں کی ایک خاصیت یہی ہے کہ یہ گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ یہ بھی خالق کائنات کی رحمت کا مظہر ہیں۔ خداوند متعال نے نیکیوں کو ذریعہ بنایا ہے گناہوں کو ختم کرنے کا( إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ‏ السَّيِّئات ) (۱۰۳)

بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں مٹا دیتی ہیں، یہ نیکیاں گناہوں پر غالب آجاتی ہیں، یہ گناہ نیکیوں کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ خداوند متعال اپنی رحمت کے ذریعہ سے نیکیوں کو غالب بنا دے گناہوں پر، اور عزیزو خالق کائنات نے یہ وعدہ کیا ہے جو بھی مجھ سے طلب رحمت کرے گا، بخشش کی دعا کرے گا، سچے دل سے توبہ کرے گا، میں اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہو۔

توبہ کا دروازا ہمیشہ کھلا ہے

خالق کائنات نے اپنی صفات کا تذکرہ کیا جن میں سے اہم صفت یہی ہے، قابل التوب ، تواب ؛توبہ کو قبول کرنے وا لا ہے، بہت ہی زیادہ توبہ قبول کرنے والا۔ یعنی انسان اگر سچے دل سے توبہ کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے، چاہے کتنے بھی گناہ ہوں، ایسا نہیں ایک گناہ کے بعد اگر کوئی توبہ توڑ ڈالے تو خدا اسے نہ بخشے بلکہ خدا کی توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوے ہیں۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان کو کسی بھی بہانے بخش دے۔ اور ایسا بخش دیتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایاالتائب من الذنب کمن لا ذنب له ؛(۱۰۴)

جو گناہ سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا بن جاتا ہے جیسے اس نے گناہ ہی نہیں کیا ، ہمارے ہاں دنیا میں مثال دی جاتی ہے کہ ایک چیز اگر ٹوٹ جاتی ہے تو اسے جوڑا بھی جائے تو نشان باقی رہتا ہے۔ لیکن اگر انسان سچے دل سے توبہ کر لے تو خدا ان نشانوں کو بھی مٹا دیتا ہے۔ اسے بلکل ویسا بنا دیتا ہے جیسے وہ پہلے تھا۔ لیکن بات وہی ہے کہ خلوص ہونا چاہیے، سچی دل سے توبہ کی جائے، خدا کی طرف لوٹ آئے، اپنے گناہوں پر پشیمان ہو جائے، آئندہ گناہ نہ کرنے کاعزم کرلے اور گناہوں کی تلافی کرے۔ اگر انسان ان چیزوں کو جمع کر دیتا ہے اور خالق کائنات کو اس کی رحمانیت کا رحیمیت کا واسطہ دیتا ہے اور حضرات محمد و آل محمد سے توسل کرتے ہوے دعا کرتا ہے، خدا اس کی توبہ کو ضرور قبول کرتا ہے۔ اس کی دعا کو سن لیتا ہے، ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ خالق کائنات ہماری خطائوں سے درگذر فرمائے اور ہمیں بخش دے۔ وہی دعا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے جس کا اسے حکم دیا گیا

( و قل رب اغفر و ارحم و انت خیر الراحمین )

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

توفیق شکر کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( فَتَبَسَّمَ‏ ضاحِكاً مِنْ قَوْلِها وَ قالَ رَبِّ أَوْزِعْني‏ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتي‏ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلى‏ والِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَ أَدْخِلْني‏ بِرَحْمَتِكَ في‏ عِبادِكَ الصَّالِحينَ ) (۱۰۵)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے گلدستہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج توفیق شکر کی دعا کو بیان کرنا ہے۔

صحیح اور سالم انسان، منصف المزاج انسان کی نشانی یہی ہے کہ جب بھی کوئی اس پر احسان کرتا ہے تو اس کے احسان کو یاد رکھتا ہے، اپنے محسن کو یاد رکھتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ سے دیتا ہے۔فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ جب انسان پر احسان کیا جاتا ہے تو انسان احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ سے ادا کرتا ہے۔ اور اگر کبھی وہ احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ سے ادا نہ کرسکے تو کم از کم اپنے محسن کو یاد ضرور رکھتا ہے۔اس کے احسان کو اگر احسان کے ذریعہ سے لوٹا نہیں سکتا تو اس کی تعریف کے ذریعے، اس کو اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کر کے اس کے احسان کا بدلہ دینے کی کوشش کرتا ہے ۔قرآن اسی بات کو اس انداز میں بیان کر رہا ہے:

( هَلْ جَزاءُ الْإِحْسانِ‏ إِلاَّ الْإِحْسان ) (۱۰۶)

احسان کا بدلہ احسان ہوا کرتا ہے۔اگر کوئی مشکل وقت میں، پریشانی کے وقت میں کسی کے کام آئے تو انسان اسے یاد رکھتا ہے، اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے، اگر خدا نہ کرے کبھی اس محسن پر برا وقت آن پڑے تو اس کی مدد کرنے کی کوششش کرتا ہے،اس کے کام آنے کی کوشش کرتا ہے، فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ اسی قاعدہ کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں، خالق کائنات کے ہمارے اوپر کتنے احسانات ہیں؟ اس نے ہمیں کتنی نعمتوں سے نوازا ہے؟ کتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ اتنی نعمتیں، جنہیں گن ہی نہیں سکتے، شمار بھی نہیں کرسکتے۔ ہم نے ان نعمتوں کو اتنا دیکھا ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غافل ہوجاتا ہے کہ یہ بھی کوئی نعمت ہے یا نہیں ہے۔

نعمت کی قدر دانی

ایک بہت بڑی لطیف مثال ہے جو فارسی شاعروں نے مطرح کی ہے اور استاد شہید مرتضی مطہری نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔(۱۰۷)

ایک مرتبہ ایک مچھلی کو بتایا گیا کہ پانی اللہ کی بڑی نعمت ہے تو کیونکہ وہ پانی میں ہی پیدا ہوئی پانی میں ہی رہتی تھی اسے پتا نہیں تھا کہ پانی ہے ہی کیا۔ ایک دن اتفاق یہ ہوا کہ طوفان اٹھا اور موج بلند ہوئی اور یہ اس موج میں بلند ہو کر باہر جا کر ساحل پر گری۔اور لگی تڑپنے، اب اسے احساس ہونے لگا کہ پانی کیا ہوتا ہے، ہماری بھی مثال اسی طرح کی ہےہم نے خدا کی نعمتوں کو اتنا نزدیک سے دیکھا اتنی مرتبہ دیکھا ہے کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی نعمت ہے۔بجلی اگر ۲۴ گھنٹے رہے تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی کچھ ہے لیکن اگر بار بار آنے جانے لگے کہ پتا چلتا ہے کہ بجلی کتنی بڑی نعمت ہے۔گرمیوں کے موسم میں جہاں ۵۰ گریڈ گرمی ہو اور وہاں بجلی نہ ہو انسان پکنے لگے، تڑپنے لگے تو پتا چلتا ہے کہ بجلی کیا ہے۔اگر رات کی تاریکی ہو تو پتا چلتا ہے کہ روشنی کیا ہے، اور ہم نے خالق کائنات کی اتنی نعمتوں کو اتنی مرتبہ دیکھا ہے کہ ہمیں سورج کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں رہتا کہ یہ اللہ کی نعمت ہے یہ سورج، چاند ستارے، یہ بہتے ہوے دریا۔ یہ سب اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ پھر معنوی نعمتیں، اس نے ہمیں مسلمان بنایا، اپنے نبی آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتی بنایا، کتنی بڑی نعمتیں ہیں، کتنے بڑے احسانات ہیں خدا کے ہم پر، اگر ہم احسان کے ذریعہ سے اس کا بدلہ نہیں دے سکتے اور دے بھی نہیں سکتے، کیونکہ وہ بے نیاز ہے، کم از کم عقل کا بھی یہی تقاضا ہے، فطرت اور دین کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کا شکر تو ادا کرو، مان تو لو اس نے نعمتیں عطا کی ہیں، اتنے احسان کئے ہیں مجھ پر، وہ انسان کتنا پست ہے جو خدا کی اتنی ساری نعمتوں کو بھلا دے، دیکھے ہی نہیں اور اپنے سب سے بڑے محسن کو فراموش کر دے۔ جوخدا کا شکر ادا نہیں کرتا وہ محسن فراموش ہے، اس نے اپنے سب سے بڑے محسن کو پہچانا ہی نہیں ہے، لمحہ بہ لمحہ اس کی کتنی نعمتوں سے استفادہ کر رہا ہے۔

شکر کرنا بھی ایک نعمت ہے

لہذا شکر کرنا بھی ایک نعمت ہے اور پھر اس شکر کرنے کیلئے شکر کرنا چاہیے یہ عرفانی تعبیر ہے اور بڑی بہترین تعبیر ہے کہ خدا جب کسی کا ذکر سننا چاہتا ہے تو اسے ذکر کی توفیق عطا فرماتا ہے، خدا کو جب کسی کا شکر اچھا لگتا ہے تو اسے شکر کی توفیق دے دیتا ہے یعنی ہر ذکر کے پیچھے جب انسان ایک ذکر کرنے لگتا ہے خدا کو یاد کرنے لگتا ہے، ایک مرتبہ انسان خدا کو یاد کرے اس کے پیچھے دو مرتبہ خدا نے اس کو یاد کیا ہے، اسے توفیق دی وہ ذکر کرے وہ اس کا ذکر سن رہا ہے انسان کے ہر ذکر کے پیچھے دو ذکر ہیں۔ خدا دو بار اسے یاد کر رہا ہے ،شکر کی ہمیں توفیق دے رہا ہے۔ دعا کریں خالق کائنات ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے۔ حق شکر یہی ہے کہ انسان یہ کہے کہ بار الہا میں تیرا شکر ادا نہیں کر سکتا۔

شکر کا حق

حدیث قدسی میں ہے کہ خالق کائنات نے حضرت موسیؑ کو فرمایا: اے موسی! ایسا شکر کرو جیسا شکر کرنے کا حق ہے۔(۱۰۸)

کہا خدا!یا تیرے بہت بڑے احسانات ہیں، یہ ہے وہ ہے میں تیرا شکر ادا ہی نہیں کر سکتا۔ جب اس نے یہ کہا میں تیرے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا تو فرمایا تو نے حق ادا کر دیا۔ یہی ہے کہ انسان عاجزی کا اعلان و اقرار کرے کہ بار الہا تیری اتنی نعمتیں ہیں، تیرے اتنے احسانات ہیں کہ ہم تیرا شکر ادا ہی نہیں کر سکتے، یہی شکر کا حق ہے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام پر خدا کے انعامات

جس آیت کو سرنامہ کلام قرار دیا ہے وہ حضرت سلیمانؑ کی دعا ہے، اسے خداوند متعال نے کتنی نعمتیں عطا فرمائیں تھیں، معنوی نعمتیں اسے اپنا نبی بنایا، تمام مخلوقات پر انہیں حق تصرف دیا، حق سلطنت دیا، اس کی حکومت تمام مخلوقات پر تھی۔ ہر مخلوق کی زبان کو جانتے تھے، ان کے کلام کو سمجھتے تھے، کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ ایک بار گذرے، وہاں چیونٹی نے بات کی، حضرت سلیمان نے اس کی بات سنی۔اور مسکرا دیا فتبسم من قول ہا ضاحکا؛ چ یونٹی کی بات سن کر حضرت سلیمان مسکرا دیے و قال رب اوزعنی سورہ نمل آیہ ۱۹ بار الہا مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کر سکوں جو نعمتیں تو نے مجھے عطا کی ہیں۔ نہ صرف شکر کرنا چاہیے یہ دعا بھی کرنی چاہیے بار الہا توفیق عطا فرما جس کی بنیاد میں تیرا شکر ادا کر سکوں، اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی؛ اتنی نعمتیں تو نے جب مجھے دی ہیں ایک نعمت یہ بھی دے کہ مجھے شکر کی توفیق عطا فرما۔ شکر کرنا بھی خود ایک نعمت ہے، اس نعمت کی بھی دعا کرنی چاہیے ،بار الہا اتنی نعمتیں دی ہیں تو ایک نعمت یہ بھی دے کہ میرا تیرا شکر کروں، شکرگذار بندہ بنوں۔

رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اتنی عظمت کے باوجود اتنی نمازیں پڑہتی تھے نوافل پڑہتے تھے بعض اوقات صحابہ تعجب کرتے تھے، آپ اس عظیم درجے پر فائز ہیں کہ عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا؛ اس سے بڑہ کر کیا درجہ ہے آپ اتنی عبادت کر رہے ہیں؟ تو یہ فرماتے تھے کیا تم نہیں چاہتے کہ میں خدا کا شکرگذار بندہ بنوں۔الم اکن عبدا شکورا ۔(۱۰۹)

توفیق شکر کی دعا، تیرے احسانات کا تیری انعامات تیرے اکرامات تیری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کروں، اور یہ شکر صرف ان نعمتوں کا نہیں ہے جو خدا نے مجھے دی ہیں۔

حضرت سلیمان یہ کہہ رہے ہیں( اشکر نعمتک التی انعمت علی و علی والدی؛ )

جو انعام و اکرام تو نے مجھ پر کیا اور میرے والدین پر کیا، انسان اپنے والدین سے وجود میں آتا ہے،والدین کی دعائیں ہوتی ہیں، تربیت ہوتی ہے جو اولاد کو کسی درجہ پر پہنچاتی ہے۔ کہا خدایا مجھے توفیق عطا فرما تا کہ میں ان نعمتوں کا شکر کر سکوں جو تو نے میرے والدین کو عطا کی ہیں، یہاں سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنے آپ کو نہ دیکھے، ان زحمتوں کی طرف توجہ کرے، ان نعمتوں کی طرف بھی توجہ کرے جو خداوند متعال نے اس کے والدین کو عطا کی تھیں، بار الہا توفیق شکر عطا فرما۔

رضایت پروردگار کی اہمیت

یہ توفیق شکر صرف زبانی نہیں ہے کہ میں صرف زبان سے تیرا شکر ادا کر سکوں۔ فرمایا و ان اعمل صالحا؛ اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں نیک اعمال کروں۔ کیسی نیکی ؟ نیکی صرف عمل انجام دینے کا نام نہیں ہے ،نیکی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا راضی ہو جائے ۔ فرق ہے اس میں کہ آپ عمل انجام دیں اور اس میں کہ خدا راضی ہوجائے، عمل کو انجام دینا شاید آسان ہو لیکن اس عمل کو خالص انجام دینا، صرف اللہ کیلئے انجام دینا، اس کی رضا کیلئے انجام دینا بہت مشکل ہے۔ بہت بڑے بڑے نیک کام کرنے والے بسا اوقات شیطان کے بہکاوے میں آکر لوگوں کو دکھانے کیلئے نیکی کرتے ہیں، اخبار میں ٖفوٹو کھنچوانے کیلئے، تعریف کروانے کیلئے نیکی کرتے ہیں نہیں، بار الہا مجھے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ نیک کام ایسا نیک ہو وان اعمل صالحا ترضاہ؛ ایسی نیکی ہو جس سے تو راضی ہو جائےیعنی وہ نیکی خالصۃ تمہارے لیے ہو۔ صرف اور صرف تیری رضا کیلئے ہو، اور جو چیز صرف اور صرف اللہ کیلئے ہو، جو کام صرف اور صرف اللہ کیلئے کیا جائے وہ بڑا قیمتی بن جاتا ہے۔ معمولی سے معمولی کام صرف اللہ کیلئے کیا جائے بہت عظیم ہوتا ہے۔

امامین حسنین کریمین شریفین جب بیمار ہوتے ہیں اور ان کیلئے نذر کی جاتی ہے، اگر ان کو شفا ملی تو روزے رکھے جائیں گے۔ حضرت علی، جناب زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین اور جناب فضہ ان کی کنیز، یہ سب روزہ رکھتے ہیں۔ افطار کا وقت آتا ہے، کوئی مسکین آتا ہے، کوئی یتیم آتا ہے، کوئی اسیر آتا ہے، تین دن تک کھانا مانگنے کیلئے، اپنا کھانا اٹھا کر اسے دے دیتے ہیں۔ جو کی معمولی روٹیاں، لیکن کیونکہ اللہ کیلئے دی گئیں تھیں خالق کائنات نے اسے اپنے قرآن مجید کا جز بنا دیا اور قیامت تک اس کا تذکرہ باقی رکھا، ان کے خلوص کی وجہ سے، انہوں نے اس نعمت کا حقیقی شکر ادا کیا۔ جو نعمت خدا نے دی تھی اس کو خدا کے نام پر دے دیا،( انما نطعمکم لوجهِ اللَّهِ )

ہم اللہ کیلئے دے رہے ہیں تم سے کسی جزا کی، کسی شکر گذاری کی کوئی توقع نہیں رکھتے۔ تو نیکی وہ ہے جو در حقیقت خدا کیلئے انجام دی جائے۔ بار الہا مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرما جس سے تو راضی ہو جائے۔

دعا کے ساتھ عمل بھی لازمی ہے

حضرت سلیمان علیہ السلام دعا کر رہے ہیں کہ بار الہا مجھے شکر کرنے کی توفیق عطا فرما، میں تیرا شکریہ ادا کروں اور نیک اعمال کرسکوں ، در حقیقت دعا بھی کروں اور عمل بھی کروں؛ ان اعمل صالحا، بسا اوقات ہماری ایک بڑی پریشانی یہی ہوتی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام دعا کرنا ہے۔جی ہاں دعا کرنی چاہیے، لیکن دعا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم عمل نہ کریں، کام کی ضرورت نہیں ہے، اپنے واجبات کو انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے، دعا کر لی ہے ۔ نہیں دعا کرنے کے ساتھ یہ کام بھی ہونے چاہیے، عمل بھی ہونا چاہیے۔

کتنی مثالیں دی ہیں قرآن مجید نے، نماز جمعہ کے وقت کاروبار کو بند کر دو اللہ کے ذکر کیلئے آئو جب یہ ذکر پورا ہو جائے

( فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّه ) (۱۱۰)

اللہ اب زمین میں پھیل جائو اور رزق الہی تلاش کرو۔وہاں دعا بھی کرو اور یہاں عمل بھی کرو۔ دعا اور دوا دونوں ہونی چاہیں، اگرشفا پانی ہے تو اللہ سے دعا بھی کرنی چاہیے اور دوا بھی پینی چاہیے۔ معنوی وسائل کو بھی عمل میں کانا چاہیے اور مادی وسائل سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ اس بنیاد پر کہ ان دونوں کو خدا نے ہی بنایا ہے،یہ عین توحید ہے شرک نہیں ہے اس میں۔ خدا نے ان کو بنایا ہے اس بنیا د پر ان سے فائدہ اٹھانا عین توحید ہے۔

حضرت سلیمان دعاکر رہے ہیں کہ بار الہا توفیق شکر عطا فرما اور عمل صالح کی توفیق دے دے جس سے تو راضی ہو جائے،( و ادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین ؛)

اور رپنی رحمت کے ذریعہ سے مجھے صالح بندوں میں شمار فرما۔ میں بھی ان میں سےبن جائوں۔اس میں درس یہی ہے کہ انسان صرف اپنے آپ کو نہ دیکھے، اس کے ساتھ دوسرے بھی ہیں۔

شکر کی اقسام

تو اہم دعا یہ ہے کہ انسان توفیق شکر کی دعا کرے۔ بار الہا تیرا شکر! یہ شکر کبھی زبانی ہے، انسان زبان سے کہہ دے۔ کبھی عملی ہے، عمل بھی ایسا کرے اور اہم ترین شکر یہی ہے کہ انسان اس نعمت کو اس طرح استعمال کرے جس طرح خدا چاہتا ہے۔اس نعمت کو گناہ کے کاموں میں استعمال نہ کرے۔جو نعمت خدا نے دی ہے اسے خدا کی مخالفت میں استعمال نہ کرے۔خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو ان کاموں میں استعمال کرے جن میں خدا استعمال کرتے ہوے دیکھنا چاہتا ہے۔

رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خالق کائنات ایک عظیم نعمت دے رہے ہیں، ارشاد فرما رہے ہیں( إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَر ) (۱۱۱)

اے میرے حبیب ہم تمہیں کوثر عطا کر رہے ہیں، ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے، کتنی بڑی نعمت ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ سورہ کوثر قرآن مجید کی سب سے مختصر سورہ ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خالق کائنات اس میں عظیم نعمت کا حوالہ دے رہے ہیں کہ ہم نے تمہیں بہت بڑی عظیم نعمت عطا کی ہے اور اس سورہ کے سیاق اور سباق لب اور لہجہ اور انداز کو دیکھا جائے تو قرآن مجید کا منفرد سورہ ہے۔اس لب و لہجہ میں خدا نے کہیں گفتگو نہیں کی ہے، وہ الفاظ جو اس سورہ میں استعمال ہوئے ہیں، پورے قرآن میں نہیں ہیں۔ لفظ کوثر پورے قرآن میں نہیں ہے۔ انا اعطیناک الکوثر؛ بہت بڑی نعمت عطا کی، جو کوثر عطا کیا ہے۔اب چاہے کوثر کی کوئی بھی معنی کی جائے خیر کثیر ہو، نہر ہو جنت والی، یا نسل کثیر ہو یہ نسل کثیر والا احتمال بہت قریب ہے؛ کیونکہ آخر سورہ میں فرمایا جا رہا ہے ان شانئک تمہارا دشمن ہی ابتر ہے، اس کی نسل ختم ہو جائی گی تو اس سے پتا چلتا ہے کہ یہاں نسل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ میرے حبیب جو کہہ رہے ہیں کہ رسول الل ہ نعوذ باللہ من ذالک ابتر ہ یں، اس کی کوئی اولاد باقی نہیں رہے گی، اس کا ذکر ختم ہو جائے گا۔ اس کا ہدف ختم ہو جائے گا، نہیں! ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے، نسل کثیر عطا کی ہے کہ ہر انسان کی نسل ختم ہوجائے گی لیکن تمہاری نسل قیامت تک باقی رہے گی۔ بڑی نعمت عطا کی ہے خداوند متعال نے۔ لیکن اس کے ساتھ شکرانہ چاہا، جب عظیم نعمت ہے تو اس کا شکر کرو ،اس کا شکر یہی ہے کہ فصل لربک وانحر؛ نماز پڑہو اپنے رب کیلئے، اس کے سامنے سجدہ کرو اس نعمت کا شکر ادا کرو، اور قربانی کرو بہت لطیف یہاں پر رابطہ پایا جاتا ہے شکر میں اور قربانی کرنے میں یعنی اللہ کی دی ہوئی نعمت کا سب سے بڑا شکر یہی ہے کہ دوسروں کے بھی کام آئو جو نعمت اللہ نے تمہیں دی ہے اس نعمت میں دوسروں کو بھی شریک کرو، اس نعمت کا دوسروں تک بھی فائدہ پہنچے، اگر خدا نے تمہیں علم دیا ہے اس علم کا شکریہ یہی ہے کہ اس علم کو پھیلائو، دوسروں تک پہنچائو۔ جو نعمت خدا دے رہا ہے اس کا عملی شکر یہی ہے کہ اسے انسان دوسروں تک پہنچائے۔ نتیجہ کیا ہے؟ خدا نے جو نعمت دی ہے وانحر قربانی کرو، دوسروں کے بھی کام آئو، دوسروں کی پریشانیاں ختم ہوں دوسروں کی بھی مدد ہو، دوسروں کو بھی کھانا پہنچے ، اور بڑے عظیم مطلب کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اسلام نے جو کھانا کھلانے کی تشویق کی ہے یہ اس بنیاد پر یہ ہے کہ اس کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچے بہت بڑی نعمت ہے تو اس کا شکر بھی بہت بڑا ہے، معنوی شکر اس کا یہی ہے کہ سب سے عظیم عبادت نماز شکرانے کے طور پر پڑہی جائے۔ نعمت عظیم ہے انا اعطینک الکوثر شکر عظیم ہے فصل لربک اور انسانوں کی خدمت وانحر۔شکر یہ ہے کہ خدا کی بھی یاد ہو نماز کی صورت میں انسانیت کی بھی خدمت ہو ان کو بھی فائدہ پہنچے قربانی کی صورت میں۔

کوثر اور تکاثر میں فرق

ایک بہت بڑا لطیف نقطہ جو یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے انا اعطیناک الکوثر، کوثر کا نتیجہ یہ ہے فصل ، یعنی کوثر انسان کو مسجد کی طرف لے جائے گی، خدا کی طرف لے جائے گی، کوثر اور تکاثر میں فرق یہی ہے، کوثر حق میں اضافہ کو کہتے ہیں لیکن تکاثر ناحق اضافہ کو کہتے ہیں، جیسا کہ سورہ تکاثر میں ارشاد ہوتا ہے کہ( أَلْهاكُمُ التَّكاثُر ) (۱۱۲)

یہ تکاثر کا نتیجہ تھا زیادہ اور زیادہ اور زیادہ، ہم زیادہ ہیں، ہم بہت زیادہ ہیں، ہماری تعداد زیادہ ہے، ہمارا قبیلہ بڑا ہے، یہ تمہیں قبروں تک لے گیا حتی زرتم المقابر یہ تکاثر بے جا فخر فروشی، بے جا زیادتی ،ناحق اضافہ، انسان کو قبرستان کی طرف لے جاتا ہے کہ انسان قبروں کو بھی گننے لگتا ہے۔ لیکن کوثر انسان کو خدا کی طرف لے جاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ فصل ، ذکر الہی کرو، اور حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کے ذریعہ سے خداوند متعال نے بہت ساری چیزوں کو بیان کیا ہے یہ وانحر، اونٹ کی قربانی ، قربانیوں میں سے عظیم قربانی کو کہا جاتا ہے۔عبادات میں سے عظیم عبادت، نماز ہے نماز اور اونٹ کی قربانی کو شکریہ قرار دیا گیا ہے انا اعطیناک الکوثر کا، وانحر اونٹ کی قربانی کو کہا جاتا ہے۔

اونٹ کو خدا نے کبھی اپنی توحید اور معرفت کا وسیلہ قرار دیا ہے افلا ینظرون خلقت۔ یہ اونٹ کو نہیں دیکھتے خالق کائنات نے اسے کس طرح بنایا ہے۔ اونٹ خداوند متعال کی ایک عجیب مخلوق ہے ، اللہ تعالی کی تخلیق و حکمت کا اندازہ لگایا جائے اونٹ کی تخلیق سے، وہ اس کا خالق ہے۔ اپنی معرفت کا ذریعہ بنایا ہے، اور یہاں اسے انسانوں کو فائدہ پہنچانے کاذریعہ بنایا گیا ہے۔ کبھی حج کے اعمال میں قربانی کا تذکرہ ہوا تو وہاں فرمایا یہ قربانی کے جانور شعائر خدا ہیں شعائر اللہ ہیں۔ فرمایا:

( ذلِكَ وَ مَنْ يُعَظِّمْ‏ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب‏ ) (۱۱۳)

جو اللہ کی نشانیوں، اللہ کی قربانی کے مخصوص جانور کی تعظیم کرے گا یہ بھی تقوا ہے، اللہ تعالی اس طرح جزا دیتا ہے۔جہاں بھی شکر کا مرحلہ آتا ہے وہاں نعمت کو صحیح استعمال کرنا اس کام میں استعمال کرنا، جس کیلئے اسے خدا نے بنایا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہی نعمت کا حقیقی شکریہ ہے۔اور اس شکریہ کو خالق کائنات فوری چاہتا ہے، جس انسان کو نعمت ملے انسان کو فورا شکر ادا کرنا چاہیے،

انا اعطیناک الکوثر جیسے ہی نعمت ملے شکر ادا کرو۔ ایسا نہیں کہ پھر کبھی شکر ادا کرینگے۔ جب نعمت خدا نے دی ہے اسی وقت فورا شکر کرنا چاہیے۔

معنوی نعمتوں پر توجہ کی ضرورت

انسان نعمتوں میں معنوی نعمتوں پر بھی توجہ دے، ہم اکثر اوقات جو گلا کرتے ہیں، شکوہ کرتے ہیں خدا سے وہ اس لیے کہ ہم بڑی بڑی نعمتوں کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ خدا نے ہمیں کتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں، ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ چھوٹی سی پریشانی آجاتی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں خدا نے ہمیں بھلا دیا ہے۔ اس نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا، ہم بدبخت ہو گئے ہیں، ہم پریشانی میں مبتلا ہیں، پوری کائنات میں سب سے زیادہ پریشان میں ہی ہوں۔یہ تنگ دلی کا نتیجہ کا ہے، تنگ نظری کا نتیجہ ہے۔ انسان دیکھے تو اس کے اوپر خالق کائنات کی کتنی نعمتیں ہیں ایک معمولی سی پریشانی محدود مدت تک کیلئے انسان اس میں گلا شکوہ کیوں کرے؟شکر گذاری میں اگر انسان اپنا وقت صرف کرے تو خدا نعمتوں میں اور اضافہ کردیتا ہے

( لَئِنْ شَكَرْتُمْ‏ لَأَزيدَنَّكُم ) (۱۱۴)

تم جتنا شکر کروگے اللہ اتنا اضافہ کرے گا اور زیادہ عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر تم کفر اختیار کروگے، ناشکری کروگے تو جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ ایک بہت بڑا عذاب خدا کا یہی ہوتا ہے کہ خدا پھر اس سے اپنے ذکر کو چھین لیتا ہے۔

بعض اوقات ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ فلان ظالم ہے، فاسق و فاجر ہے، اس کے پاس اللہ کی اتنی نعمتیں کیوں ہیں؟ اللہ نے بہت بڑا عذاب جو اسے دے رکھا ہے وہ یہی کہ اس سے اپنی یاد کو چھین لیا ہے، بہت بڑا عذاب ہے یہ، انسان مومن کو یہ نعمت بھی دیکھنی چاہیے کہ خدا نے اسے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ انبیا کی صفت ہے جیسا حضرت سلیمان نے کہا سورہ نمل کی آیت ہے اور سورہ احقاب کی آیہ ۱۵ اسی طرح ہے

( رب اوزعنی ان اشکر نعتمک التی انعمت علی )

بار الہا ہمیں توفیق شکر عطا فرما، ہماری یہی دعا ہونی چاہیے خالق کائنات ہمیں توفیق شکر عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کو صحیح استعمال کی توفیق عطا فرمائے جہاں اس نعمت کا حق بنتا ہے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

دشمنوں پر کامیابی کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( فَافْتَحْ‏ بَيْني‏ وَ بَيْنَهُمْ فَتْحاً وَ نَجِّني‏ وَ مَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنين ) (۱۱۵)

قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہیں یہ قرآنی دعائیں در حقیقت ہماری مشکلات کو ختم کرنے کا نسخہ ہیں کہ کس طرح ہم ان مشکلات کو معنوی طور پر دعا کے ذریعہ سے حل کر سکتے ہیں اور دعا در واقع کلید حلال مشکلات ہے۔مشکلات کو ختم کرنے کی چابی ہے، اور آج جس دعا کو جس قرآنی نسخے کو پیش کرنا ہے وہ دشمنوں پر کامیابی کی دعا ہے۔

حق اور باطل کا جھگڑا

دیکھئے ازل سے ہی حق اور باطل کا جھگڑا جاری ہے یہ جنگ رہی ہے آج تک اور رہے گی۔ حق اور باطل دو الگ الگ چیزیں ہیں ان میں کبھی بھی صلح و صفائی ہو ہی نہیں سکتی۔ صلح صفائی اس وقت ہوتی ہے جب فریقین میں سے ہر ایک کچھ نرمی کا اظہار کرے، اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جائے تا کہ صلح و صفائی ہو سکے۔ لیکن حق اپنے حق ہونے سے دستبردار ہو ہی نہیں سکتا اور باطل اپنے باطل ہونے سے دست بردار نہیں ہو سکتا اس لئے یہ جنگ جاری ہے، جس طرح حق و باطل میں جنگ ہے اسی طرح اہل حق و اہل باطل میں بھی جنگ جاری ہے۔

انبیا اور آئمہ کاروان حق کے سربراہ ہیں، وہاں سے شیطان باطل کے سربراہ ہیں اور جتنے بھی انسان ہیں ان دونوں میں سے جس بھی قافلے سے ملحق ہوتے چلے جائیں گے، جس کا ساتھ دینگے اس سے ملحق ہوتے چلیں جائیں گے۔ ہر ایک نے سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا ہے کہ وہ حق کا ساتھ دے یا باطل اور ناحق قوتوں کا ساتھ دے۔ اگرچہ حق والے بہت کم رہے ہیں اور یہ ہمیشہ کا اصول رہا ہے، حق والے بہت کم رہے ہیں، ان کے پاس ظاہری طور پر ساز سامان بھی کم رہا ہے۔ مال ملکیت بھی کم رہی ہے، افراد قوت بھی کم رہی ہے۔ ادہر سے باطل کو دیکھا جائے باطل کے ہمیشہ سے کثرت رہی ہے، اکثر انسانوں نے خواہشات کی پیروی کرتے ہوے حق کی مشکلات کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے باطل کا ساتھ دیا ہے۔ حق کے راستے میں تکالیف ہیں مشکلات ہیں ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر نتیجہ دیکھا جائے تو نتیجہ میں حق غالب ہے، حق کامیاب ہے حق کا مقام ہے، حق دائمی ہے، حق نے ہمیشہ رہنا ہے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ باطل والے اہل باطل کچھ دنوں کیلئے آ جاتے ہیں۔ چند دن شاید وہ اپنی حکومت بھی جما لیں، لوگوں کو اپنے سامنے جھکنے پر بھی مجبور کر دیں، لیکن باطل پایدار نہیں، ہے ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ اس نے ایک دن ختم ہونا ہے۔

حقیقی کامیابی حق کے لئے

علی سے فرمان کے مطابقللحق دولة و للباطل جولة (۱۱۶)

حق کو ہمیشہ والی کامیابی ملتی ہے اور باطل کو آنے جانے والی چند دنوں کی ہی حکومت ملتی ہے وہ بھی ظاہری طور پر، وہ بھی طاقت کے بل بوتے پر، وہ بھی صرف دکھاوے کی حد تک، اگرچہ حق والے کم رہے ہیں لیکن کیونکہ حق، حق ہے ظاہری طور پر انہیں کمزور دیکھا جائے ظاہری طور پر یہ دیکھا جائے کہ انہیں شہید کیا جا رہا ہے۔ انہیں شکنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا محاصرہ کیا جا چکا ہے، ان کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ ان کے وسائل کو قلع و قمع کیا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ وہ حق پر ہیں اور جو بھی حق پر ثابت قدم رہتا ہے حقیقی کامیابی اسی کی ہوتی ہے۔ حق والوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ہماری تعداد کتنی ہے، اسلحہ کتنا ہے، ساز سامان کتنا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہمارے پاس کتنی پارٹیاں ہیں ان سب چیزوں کو انہوں نے اہمیت نہیں دی، اگر انہوں نے دیکھا تو صرف اس بات کو کہ ہم حق پر ہیں۔ صرف اس بات کو کہ ہم خدا کے راستے پر ہیں، ہم خدا کے دین کی نصرت کرنے جا رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ہم حق پر ہیں اور خدا ہمارے ساتھ ہے تو پھر انہوں نے نہ اسلحہ کو دیکھا، نہ افرادی قوت کو دیکھا، صرف حق پر ہوتے ہوے خدا پر بھروسہ کرتے ہوے، توکل علی اللہ کرتے ہوے، میدان میں کود پڑے۔ اگرچہ شہید ہو گئے کامیابی ان کی ہوئی، نام ان کا رہے گا، حکومت ان کی رہے گی، نیک نامی ان کی رہے گی۔

باطل والے اگرچہ چند دن اپنے آپ کو خدا بھی کہلوائیں لیکن جب تک ان کے پاس یہ ظاہری وسائل ہیں، شاید وہ حکومت کریں۔ لیکن دائمی شکست ان کا مقدر بنتی ہے، ان کے جانے کے بعد کوئی انہیں یاد نہیں کرتا، بلکہ اگر یاد کیا بھی جائے تو برے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہی کامیابی اور ناکامی کا معیار ہے، کامیابی حق کی ہوتی ہے، وہ بھی دائمی اور ابدی۔ باطل والے چند دن دکھاوے کیلئے سامنے آ جاتے ہیں، لیکن ناکامی اور شکست ان کا مقدر ہوتی ہے۔

البتہ حق والوں کو کامیابی کیلئے اسباب اور وسائل فراہم کرنے پڑتے ہیں، ان میں سے اہم وسیلہ دعا ہوتی ہے، وہ قادر مطلق سے دعا کرتے ہیں اور ان کا تعلق اس ہستی سے ہو جاتا ہے جسے کوئی بھی کبھی شکست دے ہی نہیں سکتا، وہ غالب ہے، قہار ہے، کوئی اس کے سامنے ٹہر نہیں سکتا، خالق کائنات نے شروع سے ہی یہ اعلان کر رکھا ہے یہ باطل قوتیں جتنا چاہیں اپنے لشکروں کو جمع کر لیں لیکن خدا کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے،( یریدون ان یطفو بافواههم )

یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو، خدا کی ہدایت کو، اللہ کے پیغام کو، اللہ کے نمایندوں کو، اللہ کے رسول اور اولیا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، ان کو نیست و نابود کر دیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مخلوق ہیں وہ خالق ہے، یہ محدود ہیں وہ لا محدود ہے، ان کی طاقت بھی محدود ہے جبکہ اس کا حکم ایسا ہے:

( إِنَّما أَمْرُهُ‏ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ) (۱۱۷)

صرف کن کی ضرورت ہے وہ چیز ہو جاتی ہے، حق والے اسی راستے پر رہیں ہیں، قربانی کا راستہ انہوں نے اختیار کیا، خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دعائیں کیں خالق نے ان کو کامیابی عطا کی، اہم نسخہ دشمنوں پر کامیابی کا یہی ہے کہ انسان خالق کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور اس سے ملحق ہو جائے، متصل ہو جائے، اس سے جس کو کوئی طاقت جھکا نہیں سکتی، شکست نہیں دے سکتی۔

حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا

حضرت نوح علیہ السلام نے یہی دعا مانگی تھی جب مسلسل سیکڑوں سال اپنی قوم کو ہدایت کی دعوت دیتے رہے، انہیں حق کی طرف کی بلاتے رہے، انہیں خالق وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دیتے رہے۔ انہیں بتوں کے سامنے ، پتھر کے بتوں کے سامنے، کچھ نہ کرنے والے بتوں کے سامنے، جھکنے سے روکتے رہے۔ لیکن وہ نہیں مانے، استہزا کرتے رہے، مذاق اڑاتے رہے، مسخرے بازی کرتے رہے۔ لیکن جب ان کو یقین ہو گیا کہ اب ان میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں ہے ، اب دعا کی

فافتح بینی و بینهم فتحا ، بار الہا میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اب فیصلہ کا وقت آ چکا ہے، اب آخری بات ہونی ہے، آج کے بعد ان میں سے کوئی بھی حق کے راستے پر آنے والا نہیں ہے۔ وہ نور نبوت کے ذریعہ سے دیکھ رہے تھے کہ جن کے اندر بھی حق کو قبول کرنے کی معمولی سے معمولی صلاحیت بھی تھی، وہ حق کی طرف آ چکا ہے۔ لیکن اب ایسے بچے ہیں جن کے دل پتھر ہیں، جن کے گناہوں نے ان کے قلوب پر قبضہ کر لیا ہے۔ جن کے ضمیر خواہشات کی اسیری میں قید ہو چکے ہیں۔ اب ان کی نجات کی کوئی ذریعہ نہیں، کوئی وسیلہ نہیں۔ اب ان کے اوپر حق کی کوئی بات اثر کرنے والی نہیں۔ اب دعا کی ، بار الہا! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے ۔

مجھے اور میرے ساتھ جتنے مومن ہیں ان کو نجات عطا کر ہمیں کامیابی عطا کر ۔ یہ دعا حضرت نے اس وقت مانگی جب دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی حق کی طرف آنے والا نہیں ہے۔

انبیا کی دعائوں میں یہی نکتہ ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے حق کی بنیاد پر دعا کی ہے۔ کینے کی بنیاد پر ، نفرت اور تعصب کی بنیاد پر دعا نہیں کی، یعنی جب انہوں نے دیکھا کہ اب ان پر حق کا اثر ہی نہیں ہو سکتا، اب ان کے اندر وہ گنجائش اور ظرفیت ہی نہیں کہ حق کے پیغام کو قبول کرسکیں؛ تو اس ان کیلئے بد دعا کی، اور اپنے لیے کامیابی کی دعا ہے: نجنی، بار الہا تو ہمیں نجات عطا فرما، تو ہمیں دشمنوں پر کامیابی عطا فرما، دشمن اپنے ساز سامان پر غرور کا شکار تھا، وہ اپنے اسباب کی بنیاد پر مستی میں مست تھا، اسے پرواہ ہی نہیں تھی کہ انہیں شکست ہونے والی ہے۔

حضرت نے کشتی بنائی انہیں دعوت دی کہ اب بھی موقع ہے کہ آ جائو انہوں نے کہا کہ یہ کشتی کیا ہے؟ ہم بڑے بڑے پہاڑوں پر جا کر پناہ لیں گے۔ لیکن کیونکہ اب فیصلہ ہو چکا تھا، اب مقدر بنا یا چکا تھا، اب یہ آخری بات تھی۔ اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں، کوئی راستہ نہیں، کوئی راہ حل نہیں ۔لہذا جیسے حضرت نوح نے دعا کی خالق کائنات نے دعا قبول کر لی اور فرمایا:

( فَأَنْجَيْناهُ‏ وَ مَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُون‏ ) (۱۱۸)

ہم نے انہیں کشتی میں نجات عطا کی، اس کشتی میں کتنا بار لادا گیا تھا؟ کتنے انسان تھے؟ کتنے جانور تھے؟ کتنا ساز سامان رکھا گیا؟ کتنی غذا و خوراک کا سامان رکھا گیا؟ لیکن یہ کشتی حکم الہی سے پانی پر تیرتی گئی، بلند سے بلندتر ہوتی گئی، پانی اوپر چلا گیا لوگ غرق ہوتے رہے، جو بڑے بڑے پہاڑوں پر تھے وہ بھی نیست نابود ہو گئے۔ اس طرح اگر انسان خدا پر توکل کرتے ہوے دشمنوں کے خلاف دعا کرے خالق کائنات انہیں کامیابی عطا کرتا ہے اور حق کا دشمن نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

حضرت موسی(ع) کی بد دعا

یہ نمونے کم نہیں، مثالیں بہت زیادہ ہیں ، یہ حضرت نوحؑ کی مثال تھی ۔ادہر چلیے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف، فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا تھا، انہیں انسان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، انہیں ذرہ برابر کوئی سہولت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے مردوں کو قتل کیا جاتا تھا، ان کی عورتوں کو کنیز بنا لیا جاتا تھا، انہیں زندہ رکھا جاتا تھا۔ اب حضرت موسی کو خداوند متعال نے بھیجا، ان کی پرورش ہوئی دشمن کے ہی گھر میں، خدا اپنی قدرت دکھانا چاہتا ہے، خدا اپنی طاقت دکھانا چاہتا ہے، کوئی جتنا چاہے اپنا زور آزما لے، لیکن جب خدا چاہے گا تو اپنے نبی کو دشمن کے گھر میں پروران چڑہا سکتا ہے۔ حضرت موسی فرعون کے ہاں پلے بڑہے اور وہ وقت آیا جب حضرت موسی نے دعوت دی فرعون کو کہ ربوبیت کے دعوی سے دستبردار ہو جائو، حق اور حقیقت کو قبول کر لو، خالق لا یزل کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۔ انسانوں کو غلامی سے نجات دے دو، تم بھی انسان ہو، مخلوق ہو، یہ بھی انسان ہیں، مخلوق ہیں، تمہیں ان پر حکمرانی کا ربوبیت کا خدائی کا کوئی حق نہیں ہے۔فرعون نے کوئی بات نہیں مانی اب یہ وقت تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام دعا کریں اور حضرت موسی علیہ السلام نے دعا کی:

( وَ قالَ مُوسى‏ رَبَّنا إِنَّكَ آتَيْتَ‏ فِرْعَوْنَ وَ مَلَأَهُ زينَةً وَ أَمْوالاً فِي الْحَياةِ الدُّنْيا رَبَّنا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى‏ أَمْوالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ فَلا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذابَ الْأَليم ) (۱۱۹)

بار الہا! تو نے فرعون اور اس کے لشکریوں کو اس کے درباریوں کو زینت دنیا دے رکھی ہے، مال دنیا دے رکھا ہے۔ بار الہا! تو نے جو نعمت ان کو دی تھی کہ یہ تیری نعمتوں سے استفادہ کریں، تیرا شکر ادا کریں، تیری بندگی اور عبادت کریں۔ لیکن انہوں نے اس راستے کو پہچانا ہی نہیں، انہوں نے تیرے حق کو پہچانا ہی نہیں، انہوں نے تیری معرفت ہی حاصل نہیں کی۔ تو کیسا کریم خدا تھا انہیں نعمتوں پر نعمتیں دیتا چلا گیا۔ لیکن ان کے دل سخت سے سخت ہوتے چلے گئے انہوں نے نہ صرف تیری ربوبیت کا انکار کیا بلکہ اپنے آپ کو رب کہنے لگے تو نے نعمت دی تھی ا نہیں، لیکن انہوں نے کیا کیا؟ لیضلوا عن سبیلک ؛یہ لوگوں کو تمہارے راستے سے دور کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کو حق سے منحرف کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔

اب آگے حضرت موسی یہ دعا کر رہے ہیںربنا اطمس علی اموالهم

ان کے مال کو بے اثر بنا دے، جس مال ملکیت کے بل بوتے پر یہ تکبر کا شکار ہو رہے ہیں، غرور کر رہے ہیں، خدائی کا دعوی کر رہے ہیں، ان کی اس اساس کو بے اثر بنا دے ۔ روایات میں یہ بتایا گیا ہے جیسے ہی حضرت موسیؑ نے دعا مانگی ان کی جتنے مال، اشرفیاں، درہم دینار جتنا سرمایہ تھا، چاہے سون و چاندی کی صورت میں ہو، ہیرے وجواہر کی صورت میں ہو، خالق کائنات نے سب کے سب پتھر بنا دیے ، بے ارزش اور بے قیمت پتھر بنا دئیے۔(۱۲۰)

اب ان کے پاس کوئی مال ملکیت نہیں رہی، اتنی مہنگائی ہو گئی ان کے مال کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ یہ حضرت موسی کی دعا کا نتیجہ تھا کہ انسان اگر حق پر استقامت کا مظاہرہ کرے اور دشمن کو بار بار حق کی دعوت دیتا رہے ، پھر انسان بارگاہ الہی میں دعا کرے اور کہے ربنا اطمس علی اموال ہم، ان کے مال کو بے اثر کر دے، یہ مال کے بل بوتے پر ربوبیت جمانا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو خدا ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کے اس وسیلے کو ختم کر دے ۔

و اشدد علی قلوبهم ؛ ان کے مغزوں کو بے فکر بنا دے، ان کے دلوں کو سخت بنا دے کہ یہ کسی بات کو سمجھ ہی نہ پائیں۔ جس ذہن کی بنیاد پر، جس فکر کی بنیاد پر یہ نقشہ بناتے ہیں، لوگوں کو غلام بنانے کی نقشہ سازی کرتے ہیں ۔قوموں کو اپنا غلام بنا دیتے ہیں۔ ان کے اس مغز کو، اس دماغ کو، ان سے چھین لے۔ ان کے سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دے۔ اب یہ کسی کام کیلئے سوچ ہی نہ پائیں، حق والوں کو ختم کرنے کیلئے حق کو کمزور کرنے کیلئے، حق کو مغلوب کرنے کیلئے کوئی نقشہ ہی نہ بنا سکیں۔ ان کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہونے پائے بلکہ یہ کوئی تدبیر ہی نہ کر پائیں: واشدد علی قلوبھم ان کے سوچنی کی صلاحیت کو ختم کر دے اور یہاں بھی حضرت موسی اسی نکتے کی طرف توجہ کر رہے ہیں کہ ہم جو دشمن کے خلاف دعا کر رہے ہیں، ان پر کامیاب ہونے کی دعا کر رہے ہیں۔ یہ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں، تعصب کی بنیاد پر بد دعا نہیں کی جا رہی کینے اور حسد کی بنیاد پر بد دعا نہیں کی جارہی، قبیلے اور ذات کی بنیاد پر بددعا نہیں کی جا رہی۔ بلکہ حق اور حقیقت کی بنیاد پر، کیونکہ انہوں نے اب حق کا ساتھ دینا ہی نہیں ہے، انہوں نے اب حق قبول ہی نہیں کرنا ہے، لہذا اب ان کے زندہ رہنا کا کوئی جواز نہیں بنتا، ان کا خدا کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا( فلا یومنو احتی یروا العذاب الالیم )

یہ اس وقت تک ایمان نہیں لے آئیں گے جب تک دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں، جب تک اپنی نیستی اور نابودی کو یقینی طور پر محسوس نہ کریں ایمان نہیں لے آئینگے۔ یہاں حضرت موسیؑ نے دعا کی جناب ہارون علیہ السلام نے ان کی دعا پر آمین کہا تو خالق کائنات نے ارشاد فرمایا: تمہاری دعا مستجاب ہو گئی، جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں میں حق کو قبول کرنے کی ذرہ برابر صلاحیت نہیں رہی، اب ان کے دل پتھر بن چکے ہیں۔ اب یہ خدا کی زمین پر کیوں باقی رہیں، خدا کی نعمتوں سے کیوں استفادہ کریں، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو انبیا کے خلاف کیوں استفادہ کریں، ان کا کوئی حق نہیں بنتا۔ جیسے ہی حضرت نے دعا کی، خدا نے دعا سن لی۔

فرعون کا عبرتناک انجام

جب فرعون ڈوبنے لگا تب متوجہ ہوا، باطل کی یہی خام خیالی ہوتی ہے اسے اس وقت احساس ہوتا ہے جب پانی سر سے گذر جاتا ہے، ویسے تو خدا بڑا کریم ہے، جب تک موقع ہے خدا سنتا ہے۔ لیکن انہوں نے تو حق کے قلعہ قمع کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اور جب ڈوبنے لگا اور غرق ہونے لگا اب کہا کہ ایمان لے آتا ہوں۔ خدا نے فرمایا: اب تمہارا کیسا ایمان لے آنا، اب تو تم تباہی کے کنارے پر ہو، اس وقت خداوند نے اعلان فرمایا تھا، قرآن نے اسے نقل کیا ہے، یاد رکھو تم ڈوب رہے ہو لیکن ہم تمہارے بدن کو نجات دینگے باقی رکھیں گے اور یہ تاریخ اور تمام لوگوں کیلئے نمونہ عبرت بن جائیگا،

( فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ‏ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ) (۱۲۱)

اب تمہارے بدن کو نجات دے دینگے، آج بھی ان کا بدن باقی ہے لوگوں کیلئے عبرت ہے۔ خدائی کا دعوی کرنے کا یہ انجام و حشر ہوتا ہے۔ کوئی بھی حق کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا، اگر اہل حق، حق پر استقامت کریں اور دعا کریں ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔

حضرت طالوت علیہ السلام کی بد دعا

یہ تاریخی نمونے ہیں وہاں حضرت طالوت علیہ السلام کی دعا ہے جب وہ جالوت کے خلاف لشکر کشی کرنے لگے، اس کے پاس بہت عظیم لشکر تھا حق والے بہت کم تھے لیکن قرآن مجید ان کی دعا کو نقل کر رہا ہے،

( وَ لَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ‏ وَ جُنُودِهِ قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرين ) (۱۲۲)

جب جالوت اور اس کے لشکر کے پاس جا کھڑے ہوے، لشکر کو آمادہ کر کے لے گئے، جنگ کا وقت آیا اب دعا کر رہے ہیں:

بار الہا! ہمیں اپنی طرف سے حوصلہ اور صبر عطا فرما ہمیں اپنی طرف سے مدد دے، کافر قوم کے خلاف ہمیں کامیابی عطا فرما، ان تمام دعائوں میں یہ نکتہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو دعا کی گئی ہے، وہ عمل کرنے کے بعد دعا کی گئی ہے۔ یہ ایک بہت اہم نکتا ہے یعنی تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو، اپنے وظائف کو انجام دو جو تم سے ہو سکتا ہے پھر توکل کرتے ہوے دعا کرو۔ خالق کائنات تم کو کامیابی عطا فرمائے گا، آج تک خالق نے اس قوم کی مدد نہیں کی جو اپنے گھر میں محصور ہو جائے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور فقط دعا کرتی رہے۔ خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود انہیں اپنی حالت تبدیل کرنے کا احساس نہ ہو،

( إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِم‏ ) (۱۲۳)

تبدیلی کا آغاز انسان شروع کرتا ہے کامیابی خدا دیتا ہے۔ دشمن کے خلاف لشکر کشی کرنا، حق کیلئے قربانیاں دینا، لشکر جمع کرنا حوصلے بلند رکھنا انسان کا کام ہوتا ہے، مومن کا کام ہوتا ہے، کامیابی دینا خدا کا کام ہوتا ہے۔ دشمن اور کامیابی کیلئے یہی اصول ہیں۔

رسول اللہ(صلعم) کی بددعا

جنگ بدر میں آئیے، جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ تھی۔مسلمانوں کی تعداد انتہائی محمدود ۳۱۳ ۔

کافروں کا لشکر ۱۰۰۰ ، تین برابر زیادہ ہے۔ ان کے پاس سازسامان ہے، وہ اسلحہ سے لیس ہیں، مکمل طور پر تیاری کے ساتھ ہیں اور یہاں ان کے پاس سواری کیلئے گھوڑے نہیں ہیں ۔ان کے پاس اسلحہ و ساز سامان نہیں ہے، یہاں بوڑہوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس پر رسول اللہ نے اعلان کیا خضاب کرو، تا کہ ان کو لگے جوان آئے ہیں ۔ ان کے پاس سواری نہیں چند لوگ مل کر سوار ہو رہے ہیں یا پیدل ہو رہے ہیں، اس حالت میں دعا کرتے ہیں

( إِذْ تَسْتَغيثُونَ‏ رَبَّكُمْ فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفين ) (۱۲۴)

وہ وقت یاد کرو جب تم دعا کر رہے تھے ، جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے خالق کائنات نے تمہاری دعا کو قبول کر لیا اور فرمایا میں ہزا فرشتوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کروں گا یہ خدا اس طرح دعا قبول کرتا ہے ، ان کو یقین ہے اگر اب یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے تو خدا کی مدد اور نصرت کے ذریعہ سے ایمان کے جذبے سے، ورنہ نہ ان کے پاس طاقت ہے نہ لشکر ہے، نہ اسحلہ ہے نہ سازسامان ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر ایمان ہے، حق پر ہونے کا یقین ہے، خدا پر توکل کرتے ہیں، دعا مانگ رہے ہیں، یہی وہ وقت تھا جب رسول اللھ نے دعا کیلئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایااللهم انجز ما وعدتنی ؛(۱۲۵)

بارالہا تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے اسے پورا فرما :

اللَّهم ان تهلک هذه العصابه

اگر یہ لشکر جو آج تیرے لیے قربانی کیلئے حاضر ہے یہ اگر قتل ہو جائیں تو پھر کوئی تیری عبادت والا نہیں ہے، ان کی مدد فرما۔

رسول اللہ کی دعا تھی خدایا دشمنوں پر مدد فرما، خدا نے ہزار فرشتے نازل فرمائے، لیکن یاد رکھیے یہ جو فرشتے نازل ہوے انہوں نے جنگ نہیں کی، انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا، پھر یہ کیوں نازل کئے؟ کیوں آئے؟ ان کے نازل ہونے کا اصلی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کا حوصلہ بلند ہو جائے تقویت ملے اور کافروں کے حوصلے پست ہوں، خدا نے ان کے نزول کا فلسفہ یہی بتاتا ہےالا بشری

خوشخبری کیلئے نازل فرمایا، تمہارے دلوں کو مطمئن کرنا چاہتا ہے، تمہارے حوصلوں کو بلند کرنا چاہتا ہے، تمہاری تشویق کرنا چاہتا ہے، جنگ ہمیشہ حوصلوں کے بلند ہونے سے جیتی جا سکتی ہے۔ جس قوم کے حوصلے بلندں ہوں، اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ دعا کا نتیجہ تھا فرشتوں کے آنے سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند ہو گیا، مسلمانوں کو واضح کامیابی ملی، جب بھی انہوں نے حق پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوے خدا پر توکل کرتے ہوے دعا کرکے میدان جنگ میں قدم رکھا، کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ لیکن جب غرور کا شکار ہوے، جب انہوں نے مال دنیا کو مقصد بنایا، جب کشور گشائی اور مال غنیمت کو مقصدبنایا، انہیں شکست کا سامنا ہوا۔(۱۲۶)

کیونکہ جنگ حق کی بنیاد پر جیتی جا سکتی ہے، جنگ احد میں کیا ہوا جب مسلمان غنیمت کی طرف راغب ہونے لگے انہیں شکست ہوئی، دشمن پر کامیابی کے اصول یہی ہیں اپنی پوری تیاری کرو، حوصلوں کو بلند رکھو، ایمان کے بل بوتے پر خدا پر بھروسہ کرتے ہوئےدعا کرو، خدا تمہارے دشمنوں کو ناکام کرے گا۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته