قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں0%

قرآنی دعائیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن

قرآنی دعائیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
زمرہ جات: مشاہدے: 28779
ڈاؤنلوڈ: 3030

تبصرے:

قرآنی دعائیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28779 / ڈاؤنلوڈ: 3030
سائز سائز سائز
قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علم میں اضافہ کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ قُلْ رَبِّ زِدْني‏ عِلْما ) (۱۴۲)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج علم میں اضافہ کی دعا کو بیان کرنا ہے۔

خالق کائنات نے فطری طورپر جو احساسات اور جذبات انسان کے اندر رکھے ہیں، ان میں سے ایک اہم جذبہ حقیقت کو تلاش کرنے کا ہے۔ کوئی بھی بات سامنے آجائے اس کو جاننا، اس کے اسباب اور عوامل کو تلاش کرنا، انسان کی فطریات میں سے ہے۔فطری طور پر ہر انسان جاننا چاہتا ہے ، وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ خاندان کے آداب اور رسومات، اقوام کے عقائد اور افکار کا اثر ہو جائے تو شاید یہ ایک حد تک دب جائے۔لیکن فطری طور پر ہر انسان جاننا چاہتا ہے، اور اسلام بھی کیونکہ کہ دین فطرت ہے لہذا اسلام نے بھی علم کی اہمیت پر بہت زیادہ تاکید ہے۔علم حاصل کرنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اسلام علم کا دین ہے، اور قرآن مجید میں اگر غور فکر فرمائیں تو پتا چلے گا قرآ ن نے علم کی کتنی فضیلت بیان کی ہے۔انسانیت کا امتیاز بھی یہی علم ہے۔انسان کو انسان بنانےمیں علم کا کردار ہے۔انسان کو فضیلت حاصل ہونے میں علم کا کردار ہے۔انسان جو مسجود ملائکہ بنا اس میں علم کا کردار ہے۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے :

( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها ) (۱۴۳)

ہم نے تمام اسماء اور حقائق کی تعلیم جناب آدم کو عطا فرمائی، پھر ملائکہ سے پوچھا تم بتائو ان اسما کو، وہ نہیں بتا سکے، جناب آدم نے ان کو بیان کیا اور جناب آدم کی برتری اور فضیلت فرشتوں پر ثابت ہو گئی۔ کس بنیاد پر؟علم کی بنیاد پر، یہ علم ہی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ علم ہی ہے جو عمل کو معنا بخش بناتا ہے، علم ہی ہے جو دنیا اور آخرت کو آباد کرتا ہے۔نہ دنیا کی کامیابی علم کے بغیر ممکن ہے اور نہ آخرت کی کامیابی کے بغیر کوئی معنا رکھتی ہے۔ جب تک علم نہیں آجاتا، جب تک انسان حقائق کو جان نہیں لیتا، پہچان نہیں لیتا ان کی معرفت حاصل نہیں کرتا، اس کے آگے بڑہنے کی، اس کے ترقی کرنے کی، چاہے وہ مادی امور میں ہو، چاہے معنوی امور میں ہو، ایک محال چیز ہے۔

علم کی فضیلت

قرآن انبیا علیہ السلام کی خاص طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا ایک اہم سبب تعلیم کو قرار دیتا ہے۔

( هُوَ الَّذي بَعَثَ‏ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ ) (۱۴۴)

وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول بھیجا امی لوگوں میں اہل مکہ کے درمیان کیوں؟ تا کہ ان کے پاس آکر اللہ کی آیات کی تلاوت کرے۔ان کو تعلیم دے ، ان کے نفوس کو پاک اور پاکیزہ بنائے تزکیہ نفس کرے ان کا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا ایک اہم سبب تعلیم دینا ہے۔انسان کو حقیقی علم دینا ہے ۔

خالق کائنات نے اسی فطری بات کو قرآن مجید میں دوسری جگہ پر بیان کیا ہے؛ ارشاد فرمایا ہے کہ قل ھل یستوی ۔لون۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوں ، ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دونوں برابر ہوں۔ بلکہ جاننے والوں کو فضیلت حاصل ہے۔ جاننے والے بہتر ہیں، نہ جاننے والوں سے۔ جو بہتر ہیں خدا انہیں زیادہ پسند کرتا ہے جو بہتر ہیں اللہ ان کے مراتب میں اضافہ کرتا ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ

( يَرْفَعِ‏ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجات ) (۱۴۵)

خالق کائنات تم میں سے ایمان لے آنے والوں کو اور وہ جنہیں علم عطا کیا گیا ہے ان کو درجات عطا کرتا ہے۔ ان کے درجات میں بلندی عطا کرتا ہے، ان کو بلند مراتب پر فائز کرتا ہے۔ یعنی ان کی یہ بلندی ان کی یہ برتری، ان کی یہ فضیلت، ان کا بالا مقام تک پہنچنا، ایمان اور علم کی بنیاد پر ہے۔ اللہ جو درجات میں اضافہ کرتا ہے ان کی بنیاد علم ہے اور ایمان ہے۔ جنہیں علم عطا کیا گیاہے، اتنے بلند ہیں کہ خالق کائنات نے جب اپنی وحدانیت کی گواہی دینا چاہی خود خدا نے اپنی وحدانیت کو بیان کرنا چاہا اپنی عدالت اور انصاف کو بیان کرنا چاہا تو فرمایا کہ اپنی توحید کی اور عدالت کی میں گواہی دیتا ہوں، میرے فرشتے گواہی دیتے ہیں اور اہل علم گواہی دیتے ہیں۔گواہی دینے والوں میں اہل علم کا تذکرہ خالق کائنات نے ملائکہ اور اپنے ساتھ کیا ہے۔علم والے اتنے عظیم ہیں کہ ان کا تذکرہ فرشتوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے یہ اتنے عظیم ہیں کہ خدا اپنی گواہی کے ساتھ ان کا ذکر کر رہا ہے

( شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قائِماً بِالْقِسْطِ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزيزُ الْحَكيم ) (۱۴۶)

خداوند متعال گواہی دے رہا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اس کے فرشتے بھی یہی گواہی دے رہے ہیں جن کو علم دیا گیا ہے وہ بھی یہی گواہی دے رہے ہیں کہ خدا یک ہے ۔یہ گواہی دینے والے اس قدر عظیم ہیں کہ خدا ان کا تذکرہ اپنے ساتھ کر رہا ہے۔

علم اساس عمل

ظاہر ہے جب تک علم نہ آئے تو عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ علم ہی ہے جو مقدمہ ہوتا ہے کسی بھی نیکی کا، لہذا امام علی علیہ السلام علم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوے ارشاد فرماتے ہیں

العلم اصل کل خیر؛ (۱۴۷)

ہر نیکی کی جڑ علم ہے۔ہر نیکی کی بنیاد ، اساس علم ہے، علم ہی ہے جو نیکی کو نیکی بناتا ہے، اگر علم نہ ہو تو نیکی کیا معنی رکھتی ہے؟ نیکی کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ علم ہی ہے جو انسان کو دوسروں سے الگ کرتا ہے جدا کرتا ہے اور ممتاز مقام اور حیثیت عطا کرتا ہے۔ کیا علم کی فضیلت کیلئے اتنا کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی خالق کائنات کی طرف سے نازل ہونے والا پہلا پیغام یہ تھا:( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذي خَلَق ) (۱۴۸)

پڑہو اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پہلی وحی اور پہلا پیغام یہی ہے کہ پڑہنے کی بات کی جارہی ہے تعلیم کی بات کی جا رہی ہے۔ نہ صرف خدا کے کلام کی ابتدا علم سے ہوئی ہے بلکہ خدا جو اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج پر لے جاتا ہے آسمانوں کی سیر کراتا ہے، بہشت اور دوزخ کی جب سیر کرائی جاتی ہے رسول اللہ کو، یہ سب نشانیاں جو دکھائی جاتی ہیں یہ سب اس بنیاد پر تھیں کہ ان کے علم میں اضافہ ہو، ارشاد رب العزت ہو رہا ہے

( سُبْحانَ الَّذي أَسْرى‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصير ) (۱۴۹)

پاک ہے وہ ذات جو پنے عبد کو رات میں سیر کیلئے لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور پھر وہاں سے معراج کا جو پورا سفر تھا یہ سب اس لیے تھا کہ لنریہ من آیتنا تا کہ ہم اپنی نشانیاں دکھائیں وہ ہمارے نشانیوں کو دیکھیں اور اس طرح اس کے علم میں اضافہ ہو ، معراج علم میں اضافہ کا سبب تھا، اس طرح کا معراج کسی نبی کو کسی ولی کو خداوند متعال نہیں کرایا جیسا خاتم الانبیاء والمرسلین سید الانبیاء و المرسلین حبیب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کرایا، یہ معراج در حقیقت علم کی معراج تھی کمال کی معراج تھی، فضائل کی معراج تھی، اس پورے معراج کا ایک اصلی سبب کیا ہے؟ علم اور کمالات میں اضافہ ہے۔خالق کائنات چاہتا تھا اپنے رسول کے علم میں اضافہ کرے، نہ صرف اس کا رسول اس دنیا سے آگاہ ہو بلکہ فضائوں سے کہکشائوں سے آسمانوں سے جنت اور دوزخ سے ان تمام مراحل کون و مکان سے آگاہ رہے۔

رسول اکرم(صعلم) کی دعا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین دعا بھی یہی ہے، باوجود اس کے کہ رسول اللہ کو کتنا علم عطا کیا گیا ہے اور جسے خدا علم عطا کرتا ہے اسے خیر کثیر عطا کرتا ہے

( و من یوتی الحکمة فقط اوتی خیرا کثیرا؛ )

اور جسے حکمت کی تعلیم دی جائے اسے گویا کہ خیر کثیر دیا گیا ہے۔اس مقام پر فائز ہے لیکن اس باوجود ان کی اہم دعا جس دعا کرنے کا خالق کائنات انہیں حکم بھی دے رہا ہے کہ یہ دعا مانگتے رہو، و قل رب زدنی علما؛ بار الہا میرے علم میں اور اضافہ فرما؛ میرے علم میں اور اضافہ فرما۔ یعنی تمام کمالات کا مقدمہ علم ہے ؛ جتنا علم آجائے اسے حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے مزید علم کی ضرورت ہے مزید آگاہی کی ضرورت ہے، یہ علم کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ہر لمحہ انسان علم میں اضافہ ہونا چاہیے وہ دن جس دن میں انسان کے علم میں اضافہ نہ ہو وہ دن اس کیلئے خسارہ کا دن ہے، اس کی زندگی گذر رہی ہے اس کی عمر کم سے کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اگر علم میں اضافہ نہ ہو تو اس وقت خسارہ کیا اپنا۔

امام زین العابدین سید الساجدین علیہ السلام ہر رات میں یہی دعا کرتے تھے بار الہا مجھے عقل کامل قلب پاک اور علم فراوان عطا فرما۔(۱۵۰)

تمام نیکیاں اسی میں ہے انسان کا عقل کامل ہو جائے، معرفت کے اعلی درجہ پر جا پہنچے، اشیا کی حقیقت کو پہچان سکے حقائق عالم کو جان سکے۔ عقل کامل اور اس کے ساتھ ساتھ پاک دل، صاف دل صحیح اور سالم دل جس طرح انسان دنیا میں آتا ہے اس کا دل پاک آتا ہے آلودہ نہیں ہوتا برائیوں سے، اس طرح پاک دل، اور پھر علم فراوان عطا فرما۔ یہ وہ دعا ہے جو امام زین العابدین علیہ السلام ہر رات کو کیا کرتے تھے، یعنی کہ علم ہی ہے جو ان کمالات کا سبب بنتا ہے۔

علم کی حقیقت

اور علم سے مراد لفظ پڑہنا نہیں ہے الفاظ کو رٹنا نہیں ہے ، اصطلاحات کو یاد کرنا نہیں ہے، الفاظ کو جاننا نہیں ہےبلکہ حقائق کو جاننا ہے حقیقت سے آشنائی ہے یہ الفاظ آپ ایک طوطے کو بھی رٹوا دین وہ بھی رٹ دے گا۔ لیکن اصل سمجھنا ہے، ان حقائق کو درک کرنا، ان کا ادراک ، فہم اور شعور پیدا کرنا، یہ اصل علم ہے۔ اس لیے امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ

(العلم نور یقذفه الله فی قبل من یشاء )(۱۵۱)

علم نور ہے اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے اس کے دل میں ڈال دیتا ہےیعنی جو اپنے دل کو پاک کرے، صاف کرے، خدا سے ارتباط قائم کرے، تقوا الہی اختیار کرے، پرہیزگاری کو پیشہ بنائے خدا خود اسے اہل جانتے ہوے علم عطا فرماتا ہے۔حقیقی علم وہی ہے جو خدا عطا کرے۔ الفاظ جاننے سے کوئی عالم نہیں بنتا، ارشاد رب العزت ہو رہا ہے

( وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ‏ اللَّه ) (۱۵۲)

اللہ سے ڈرو تقوائے الہی اختیار کرو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خالق کائنا تمہارے علم میں اضافہ فرمائے گا، یہ و ہ علم ہوگا جو کتابوں سے نہیں ملتا بلکہ جو تزکیہ نفس سے ملتا ہے، دل کو پاک کرنے سے ملتا ہے۔ اگر انسان اپنے قلب کو جو کہ حرم اللہ عرش اللہ ہے مومن کا دل حرم اللہ ہے، عرش اللہ ہے، اگر انسان اسے اغیار سے پاک کر دے، غیر اللہ سے صاف کر دے تو خالق کائنات اسے اپنی خصوصی عنایات نازل کرتا ہے اور اسے حقیقی علم عطا فرماتا ہے۔ ان لوگوں پر خدا الہام کرتا رہتا ہے۔

حکمت کے حصول کی دعا

انسان مومن نہ صرف علم کی دعا کرتا ہے بلکہ حقائق کو جاننے پہچاننے حق اور باطل کو تشخیص دینے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق طلب کرتا ہے، جسے بعض تعبیرات کے مطابق حکمت کہا جاتا ہے، وہی دعا جو جناب ابراہیمؑ نے کی رب ہب ل ی حکما و الحقنی بالصالحین؛

بار الہا مجھے علم و حکمت عطا فرما، مفسرین نے یہاں فرمایا ہے کہ یہاں حکمت علم سے بڑہ کر ہے، صرف جاننا نہیں ہے یہاں پر، بلکہ ایسی قوت ہو جس کے ذریعہ سے انسان تشخیص دے سکے کہ حق کیا ہے باطل ہے، جب وہ مشخص کر سکے تو اس کے پاس اتنی قوت بھی ہونی چاہیے کہ وہ حق پر عمل بھی کرسکے۔ خواہشات نفسانی ہوا و حوس، معاشرے کی رسومات اور بہت ساری چیزیں انسان کو روک دیتی ہیں۔ بسا اوقات وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں کرتا، ذاتی مفادات اور مصلحت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ حکمت یعنی انسان کے پاس تشخیص دینے کے ساتھ حق پر عمل کرنے کی توفیق ہوجائے وہ حق کو جان سکے پہچان سکے اس پر عمل کر سکے، یہ تعصب انسان کو کہاں پہنچا دیتا ہے، خالق کائنات نے ان کی دعا کو نقل کیا ہے کہ جنہوں نے حق کوپہچان لیا اب بجائے اس کے کہ وہ دعا کریں کہ بار الہا ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما، کہنے لگے

( وَ إِذْ قالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كانَ هذا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنا حِجارَةً مِنَ السَّماءِ أَوِ ائْتِنا بِعَذابٍ أَليم ) (۱۵۳)

بار الہا ! اگر یہی حق ہے تو آسمان سے پتھر نازل فرما، یہ کیسی دعا جا رہی تھی، یہ تعصب یہ کینہ، یہ بغض انسان کو کہاں پہنچا دیتا ہے کہ وہ حق کو جاننے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ اس کے ماننے کی دعا کرے کہے کہ بار الہا مجھے حق کو قبول کرنے کی دعا توفیق عطا فرما۔ بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اگر یہی حق ہے تو پھر مجھے حق نہیں چاہیے، آسمان سے میرے اوپر پتھر نازل ہو۔ یہ چیزیں ہیں جو انسان کو بدبختی کی طرف لی جاتی ہیں۔

غیر مفید علم

اس لیے بعض روایات میں کہا گیا ہے ایسے علم سے پناہ مانگو جو علم کوئی فائدہ ہی نہ دے۔ علم بھی کچھ مفید ہوتے ہیں اور کچھ غیر مفید ہوتے ہیں، یہ علم کی جتنی تاکید بیان کی جا رہی ہے جتنے علم کے فضائل بیان کیے جا رہے ہیں یہ وہ فضائل ہیں جو مفید علم کیلئے ہیں، غیر مفید علم کیلئے کوئی فضیلت نہیں ہے۔اللهم انی اعوذبک من علم لاینفع (۱۵۴)

بار الہا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو مفید نہ ہو جو فائدہ نہ دے بلکہ فائدے کے بجائے نقصان دے۔علم سوء کا علماء سوء کا کردار ایک عبرت ناک کردار ہے۔ قرآن نے بھی اسے نقل کیا ہے،

( مَثَلُ الَّذينَ حُمِّلُوا التَّوْراةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوها كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفارا ) (۱۵۵)

ان میں سے نہ بنو جنہیں جب کتاب دی گئی تو انہوں نے کتاب پر عمل نہیں کیا، کتاب ان کیلئے مفید واقع نہیں ہو سکی انہوں نے کتاب سے استفادہ نہیں کیا، ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گدہے پر کتاب بار کی جائے،ایک گدہے پر آپ کتابوں کو رکھ دیں تو ایسا نہیں ہوتاہے کہ گدہا کتابوں کے رکھنے سے عالم بن جائے ؛ جن کو تورات دیا گیا لیکن انہوں اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گدہے پر کتاب لاد دیے جائیں انہیں کوئی فائدہ نہ ہو۔ غیر مفید علم سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے اس بنیاد پر علم حاصل کرنا چاہیے کہ علم حاصل کرینگے عمل کرینگے اور پھر سعادت اور کامیابی دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہمیں نصیب ہوں گی۔

حقیقت یہی ہے کہ اسلام نے علم کی بہت ہی زیادہ اہمیت بیان کی ہے۔ رسول کائنات نے علم کی اہمیت بیان کی ہے فرمایاالعلم فریضه علی کل مسلم و مسلمه (۱۵۶)

علم کو طلب کرنا، طلب علم کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب ہے، اور عمر کی بھی کوئی قید نہیں بتائیاطلبوا العلم من المهد الی اللحد

گہوارے سے لے کر بچپنے سے لیکر آغاز زندگی سے لے کر اختتام تک قبر تک علم حاصل کرو۔ کوئی وقت معین نہیں ہے، کوئی مکان معین نہیں ہے :اطلبوا العلم ولو بالصین ؛(۱۵۷)

علم حاصل کرو چاہے تمہں دور دراز کا سفر کر کے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، چین تک جانے کی زحمت کو قبول کرلوعلم حاصل کرنے کیلئے، یہ علم میراث مومن ہے۔

علم میراث انبیاء

رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم میری میراث ہے اور انبیاء کی میراث ہے۔(۱۵۸)

انبیاء کے وارث کون ہیں؟ ان کو ماننے والے، ان کو چاہنے والے ہم محبان انبیاء کو چاہیے کہ میراث انبیا کو حاصل کریں، اپنے آپ کو اس اہل بنائیں کہ خدا اپنی میراث، اپنے انبیا کی میراث ہمیں عطا فرمائے۔ ہمیں ان کا وارث بنا دے، حقیقی وارث بنا دے، یہ انبیا کی سیرت ہے ایک لمحہ کیلئے بھی وہ راضی نہیں ہیں کہ ان کے علم میں اضافہ نہ ہو اور رک جائے یہ سلسلہ ،علم کا سلسلہ چلتے رہنا چاہیے بڑہتے رہنا چاہیے اس کیلئے کوئی حد یقف نہیں ہے، ہر لمحہ انسان کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔

علما کی سیرت میں دیکھیں علم کی اہمیت، ایک بزرگ عالم دین کیلئے نقل کیا جاتا ہے ۔(۱۵۹)

کہ اس کی موت بلکل قریب تھی۔ وہ بلکل بستر مرگ تھا، ایک بار اسے ہوش آیا تو سوال کرنے لگا یہ مسئلہ کیسے ہے؟ اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے رشتہ دار جو اطراف میں کھڑے تھے کہنے لگے آپ مرنے والے ہیں ، پھر بھی یہ باتیں کر رہے ہیں، فرمایا مرنا تو ہےہی میں یہ مسئلہ جان کے مروں تو بہتر ہے یا بغیر جانے دنیا سے چلا جائوں یہ بہتر ہے، اتنی حد تک، مرنا ہی ہے جانا ہی ہے تو آدمی ایک مسئلہ جان کر جائے ، اس کے علم میں یہ اضافہ ہو اور مفید علم قرار پائے اس کیلئے،اسلام نے کتنی علم کی اہمیت بتائی ہے، فرمایا کچھ نہیں ہےتمہارے پاس، کوئی مال نہیں جسے حق مہر قرار دو اور شادی کرو تو تعلیم کو حق مہر قرار دو، تعلیم کو حق مہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا علم کی اہمیت مادی چیزوں سے کمتر ہے کہ مادی چیزوں کو درہم اور دینار کو حق مہر قرار دی جا سکتا ہو لیکن تعلیم اور کتابت کو حق مہر نہ بنایا جا سکے۔

اسلام تو کہتا ہے کہ اگر قیدی تعلیم دیتا ہے، تو اسے آزاد کرو اس شرط پر کہ وہ تعلیم دے، اتنی عظمت اسلام نے بیان کی ہے ، اس لیے کہا جاتا ہے اسلام دین فطرت ہے دین عقلانیت ہے فہم اور منطق کا دین ہے۔ پہلی وحی، علم کے بارے میں ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہمارے پہلے بنیادی کتاب اصول کافی کا پہلا باب بھی عقل اور جھل کے متعلق ہے۔تمام چیزیں ہمیں علم کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس عظیم الشان میراث کی قدر کریں اور ہمہ وقت اور ہمہ جا علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

ایک اور نقطہ ہے وہ یہ کہ جتنی علم کی فضیلت ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص علم کیلئے ہو بلکہ مطلق علم اسی طرح ہیں، تمام علوم کی ضرورت ہے، البتہ جو عقائد کا علم ہے وہ انسان کیلئے واجب ہے، ہر ایک اپنے عقائد کو دلیلوں سے حاصل کرے اور اس کے علاوہ جو بھی علم معاشرے کی ضرورت ہو جس کیلئے مسلمان معاشرہ ضرورت مند ہو اس علم کو حاصل کرنا واجب کفائی بن جاتا ہے۔ تمام دنیوی علوم جو معاشرے کی ضرورت ہیں، اسلامی معاشرے کی ضرورت ہیں حکومت کی ضرورت ہیں، لوگوں کی سہولیات کیلئے ان کی ضرورت ہے ان مسائل اور پریشانیوں کے حل کیلئے ان کی ضرورت ہے، ان کو حاصل کرنا بھی واجب کفائی ہے،یہ اسلام نے علم کی عظمت کو بیان کیا ہے، ہم سب کی یہی دعا ہونی چاہیے جس کا حکم خالق لم یزل و لا یزال نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا وہ یہی دعا ہے

و قل رب زدنی علما۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

صالحین سے ملحق ہونے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( رَبِّ هَبْ لي‏ حُكْماً وَ أَلْحِقْني‏ بِالصَّالِحين‏ ) (۱۶۰)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ صالحین سے ملحق ہونے کی دعا ہے

انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے، یعنی پوری تاریخ میں اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیشہ ہمیں یہی نظر آئے گا کہ انسان ہمیشہ اپنے ہم جنس اور ہم نوع انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک انسان تک و تنہا بلکل اکیلا جا کر کہیں زندگی بسر کرے۔ انسان، انسانوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرے گا۔ چاہے وہ قبل از تاریخ کی زندگی ہو، ما بعد از تاریخ کی زندگی ہو، چاہے وہ اولی معاشرے ہوں یا آج کل کے پیشرفتہ اور ترقی یافتہ معاشرے ہوں، انسان ہمیشہ انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا لین دین ہوتا ہے معاملات ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اس کے روابط ہوتے ہیں، دوسروں کے بغیر انسان تک و تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا، لیکن اب یہ تعلقات اگر ہوں تو کس کے ساتھ ہوں؟ کس بنیاد پر ہوں؟یہ ایک اہم سوال بن جاتا ہے اور اس میں انبیاء علیہ السلام کی وہی تعلیم ہے جو فطرت کا تقاضہ ہے یعنی جس طرح انسان کی فطرت پاک و پاکیزہ ہے جس طرح انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ اچھا رہے، دوسرے اس کا حق دیتے رہیں، دوسرے اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں، اسی طرح اسی بھی چاہیے کہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، نیکی کی بنیاد پر، اچھائی کی بنیاد پر، بھلائی کی بنیاد پر، انسانوں کے آپس میں تعلقات ہوں، یعنی انسان کی دوسروں سے دوستی نیکی کی بنیاد پر ہو، اس بنیاد پر ہو کہ یہ بھی اللہ کے بندے ہیں میں بھی اللہ کا بندہ ہوں، یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں میں بھی اللہ کی مخلوق ہوں، خدا نے حکم دیا ہے کہ دوسرے انسانوں سے دوستی کرو ان کے حقوق ادا کرو ان کا خیال رکھو ان کے ہمدرد بنو اس بنیاد پر جو تعلقات استوار ہوں گے وہ دائمی اور پائیدار اور ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔

صالحین سے ملحق ہونے کے لئے توفیق چاہیے

حضرت ابراہیمؑ کی دعا کو نقل کیا گیا، اس میں حضرت نے یہی دعا مانگی ہے

( رَبِّ هَبْ لي‏ حُكْماً وَ أَلْحِقْني‏ بِالصَّالِحين‏ ؛)

بارالہا! مجھے علم اور حکمت کی تعلیم عطا فرما، اور مجھے صالحین سے ملحق کر دے۔ دیکھا جائے تو خود حضرت ابراہیمؑ علم اور حکمت کے مالک ہیں، علم اور دانائی خدا نے انہیں عطا کی ہے۔ خود صالحین میں سے ہیں، بلکہ خالق کائنات نے جو انہیں اولاد عطا کی چاہے حضرت وہ اسحق علیہ السلام ہوں حضرت اسماعیلؑ ہوں، ان کے بعد آنے والے حضرت یعقوبؑ ہوں، وہ تمام کے تمام صالحین تھے۔ اس کا قرآن نے اعلان کیا ہے کہ وہ سب کے سب صالحین تھے، خود صالح ہیں پھر بھی یہ دعا کرتے ہیں بار الہا مجھے صالحین سے ملحق کر دے، یہ ایک قسم کا ہمارے لیے درس ہے، کہ صالحین سے ملحق ہونے کیلے توفیق چاہیے، جیسا کہ ہر مسئلے میں خدا کی توفیق درکار ہوتی ہے، اگر ایک لمحہ کیلئے بھی ہمارے اندر یہ غرور پیدا ہو جائے کہ یہ کمالات میرے اپنے کمالات ہیں، میں کچھ ہوں میں کچھ کر سکتا ہوں تو وہاں پر انسان تنزل کا شکار ہو جاتا ہے۔ پستی کا شکار ہو جاتا ہے اور اسفل سافلین میں سے بن جاتا ہے، ہر لمحہ اپنے آپ کو خدا کے محضر میں محسوس کرنا اور اپنی توفیقات کو خدا سے طلب کرنا انبیاء کی سنت ہے۔

حضرت ابراہیم صالحین میں سے ہیں لیکن دعا کر رہے ہیںو الحقنی بالصالحین بار الہا صالحین سے ملحق کردینا تیرا کام ہے، مجھے صالحین کے قافلہ میں سے قرار دے، میں بھی اس کاروان کا ایک حصہ بن جائوں، جو روز ازل سے یہ صالحین کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ہر نسل میں سے صالحین آئیں گے تو مجھے ان صالحین میں سے قرار دے۔ہمیں یہ درس دیا جا رہا ہے ہر لمحہ تمہیں کوشش کرنی چاہیے کہ تمہارا شمار صالحین میں سے ہو، قرآن مجید کی وہ سورہ جو ہر نماز میں کم از کم دو مرتبہ پڑہی جاتی ہے یعنی سورہ حمد، اس میں انسان کوئی چیز مانگتا ہے تو وہ سب کیلئے کرتا ہے،

( اهدنا الصراط المستقیم؛ )

یعنی ان دعائوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان خودی سے نکلے، نفس پرستی، خود پرست سے نکلے، اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ کھڑا کرے۔ دوسروں کو اپنے جیسا سمجھے، اور مل کر یہ اعلان کرے کہایاک نعبد و ایاک نستعین ،

بار الہا ہم سب کے سب تیری عبادت کرتے ہیں تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں

اهدنا الصراط المستقیم ،

ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما، اور نماز کے انتہا میں جو سلام پڑہا جاتا ہے اس سلام میں بھی آپ یہی کہتے ہیں کہ

السلام علینا وعلی عبادالله الصالحین ؛

ہم پر بھی سلام ہو اور خدا کے صالح بندوں پر بھی سلام ہو۔ صالح بندوں پر سلام کرنا بھی نماز کا حصہ ہے، یعنی حکم الہی ہے کہ تم یہ سلام کیا کرو، تاکہ تمہیں ہمشیہ احساس رہے کہ صالحین سے ملحق ہونا صالحین میں سے شمار ہونا صالحین میں قرار پانے کی کتنی فضیلت ہے کہ نماز میں ان کے اوپر سلام کیا جا رہا ہے۔

صالحین کی ہمنشینی کا فائدہ

یہ اچھے دوست انسان کے زندگی بدل دیتے ہین، صالحین کے ساتھ نشست و برخاست انسان کو صالح بنا دیتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واضح طور پر اعلان فرما رہے ہیں کہ

المرء علی دین خلیله ؛(۱۶۱)

انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ یعنی دوستی دین کے اوپر اثر انداز ہوتی ہے،کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ انسان دوستی کی بنیاد پر اپنا دین تبدیل کر دیتا ہے، دوستی کے اثر میں آکر۔ یعنی ہمنشینی کا بہت زیادہ اثر ہے، جس کے ساتھ انسان کی نشت و برخاست ہوگی البتہ معمولی حد تک نہیں موثر حد تک، گہرے تعلقات جس سے ہوں گے تو یقینا کچھ اثرات اس کے لے گا تو کچھ اثرات اس پر ڈالے گا۔

بروں کی صحبت انسان کو برا بنا دیتی ہے، جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا بروں کے ساتھ بیٹھا خاندان نبوتش گم کرد اپنے نبوت کے خاندان کو اس نے کھو دیا، گم کر دیا۔اپنے والد کے ساتھ کشتی نجات میں سوار نہیں ہوا۔ اور وہاں اصحاب کہف کا کتا ہے لیکن وہ کیونکہ اچھوں کے ساتھ رہتا ہے تو ان کا ذکر بھی اچھوں کے ساتھ ہونے لگا۔ جہاں اصحاب کہف کا تذکرہ ہوا ہے قرآن مجید میں وہاں ان کے کتے کا بھی ذکر ہوا ہے، یعنی اچھوں کے ساتھ، نیک انسانوں کے ساتھ، صالح انسانوں کے ساتھ نشت و برخاست کرنا، ان کے ساتھ ہمنشینی کرنا ،ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا انسان پر موثر ہوتا ہے، اور جو انسان صالح ہوتے ہیں خالق کائنات ان پر خصوصی عنایت کرتا ہے۔ لہذا ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے خدا ہمیں بھی صالحین میں سے قرار دے، ہمیں اس قافلہ سے ملحق کردے، ہم بھی اس کاروان کا حصہ بن جائیں۔

حضرت عیسی(ع) کی نصیحت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حواری ، حضرت عیسیؑ کے وہ مخصوص پیروکار حضرت کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ من نجالس؛ اے روح اللہ! ہم کس کے ساتھ بیٹھیں؟ ہماری نشست و برخاست کس کے ساتھ ہونی چاہیے؟ ہمارے روابط کس کے ساتھ ہونے چاہیں؟ فرمایا:من یذکرکم الله رویته ؛

اس کے ساتھ اٹھو اور بیٹھو جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلائے۔ وہ اتنا صالح ہو کہ اسے دیکھ کر تم اللہ کی یاد کرنے لگ جائو،یزید فی علمکم منطقه ؛

جس کا بولنا جس کی گفتگو کرنا تمہارے عمل میں اضافہ کا سبب بنے، جو تمہیں عمل کی ترغیب دلائے، بے عملی کی طرف نہ بلائے بداخلاقی کی دعوت نہ دے، تمہیں منحرف اور گمراہ نہ کرے، اس کے ساتھ اٹھو اور بیٹھو۔ جو بد عملی کی دعوت دیتے ہیں، انسان کو سست اور غافل بنانے کی دعوت دیتے ہیں ان کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے، ان کے ساتھ ہمنشینی اختیار نہیں کرنی چاہیے، حضرت عیسیؑ کی نصیحت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیان کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ نسشت و برخاست رکھو کہ جن کی گفتگو تہمارے عمل میں اضافہ کا سبب بنے،

و یرغبکم فی الآخرة عمله ؛

جس کا عمل دیکھ کر تمیں بھی آخرت کی ترغیب ہونے لگے، یہ بہت اہم بات ہے۔(۱۶۲)

ہم آخرت کو چاہتے بہت ہیں لیکن اہمیت نہیں دیتے۔ علی علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق جو نہج البلاغہ میں ہے کہ میں نے جنت جیسی ایسی اچھی نعمت نہیں دیکھی جس کے چاہنے والے سوئے ہوئے ہوں۔(۱۶۳)

یعنی انسان جس چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس کیلئے کوشش اور زحمت کرتا ہے، محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کے قرب کیلئے کوشش کی جائے۔ لیکن جنت کو انسان چاہتے تو ہیں لیکن اس سے غافل ہوتے ہیں، اس کی کوشش نہیں کرتے کہ اپنے آپ کو جنتی بنا سکیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو جن کا عمل تمہیں آخرت کی ترغیب دلائے۔ تمہیں یقین ہو جائے کہ اگر ایسے لوگ زحمت کر رہے ہیں تو یقینا جنت ہے کہ ایسے لوگ زحمت کر رہے ہیں، اگر انسان ان اچھے لوگوں کی صحبت کو چھوڑ کر ہوا و ہوس خواہشات نفسانی کے غلاموں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دے تو امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں

مجالسة اهل الهوی منساة للایمان (۱۶۴)

اہل ہوس نفسانی خواہشات کے غلاموں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان کی ہمنشینی اختیار کرنا، انسان کے ایمان کو فراموش کر دیتی ہے۔ انسان بھول جاتا ہے اپنے ایمان کو، وہ اپنے ایمان کو فراموش کر دیتا ہے۔ یعنی اس اٹھنے بیٹھنے کا اثر ہے صالحین کے ساتھ جتنا انسان کا ارتباط ہوگا اسی طرح وہ ان میں شامل ہونے کی کوشش کرے گا، وہ فوائد پھر اسے بھی حاصل ہوں گے وہ رحمتیں اسے بھی حاصل ہوں گی جو صالحین کو ہوتی ہیں۔

قرآن مجید نے آخر انبیاء کا اتنا تذکرہ کیوں کیا ہے ؟اور حکم دیا ہے

( واذکر فی الکتاب ابراهیم واذکر فی الکتاب اسماعیل؛ )

ذکرو کرو کتاب میں ابراہیمؑ کا اسماعیلؑ کا، خدا نے اپنے کتاب میں صالح بندوں کا تذکرہ کیا ہے اور ہمیں انہیں یاد کرنا کا حکم دیا ہے، کیوں؟ جب انسان صالحین کا ذکر کرے گا ان کے اوپر خدا کے الطاف اور نعمات کو دیکھے گا کس طرح ان کو نعمتوں سے نوازا ہے اسے بھی شوق ہوگا کہ وہ بھی قافلہ میں آجائے، اس کا بھی دل چاہے گا کہ وہ بھی اس کاروان میں داخل ہو جائے۔

اجر رسالت مودت کیوں؟

یہ خدا نے اپنے اولیاء کی محبت کا حکم کیوں دیا ہے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اجر رسالت کو مودت فی القربی کیوں قرار دیا ہے؟

( قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى ) (۱۶۵)

کا کیوں ارشاد فرمایا ہے؟ کہ جب انسان ان عظیم ہستیوں سے محبت اور مودت کرنے لگے گا ان کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا، یہ محبت اس کی زندگی کی اصلاح کر دے گی، اچھے لوگوں سے اگر انسان محبت کرنے لگے تو یہ محبت اسے کھینچ کر ان جیسا بناتی ہے ان کے قریب لاتی ہے، یہ خداوند متعال ان کی محبت کاحکم دے کر شرک کی بات نہیں کر رہا ، بلکہ جو ان سے محبت کرے گا وہ خدا کے قریب ہو جائے گا ؛کیونکہ وہ خدا کے قریب ہیں، ان کے نمایندہ ہیں۔

قرآن کی تعبیر ہے جناب عیسیؑ نے اپنے حواریین سے فرمایا

( :قالَ مَنْ أَنْصاري‏ إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّه‏ ) (۱۶۶)

کون ہے جو میرا مددگار بنے خدا کی راہ میں؟ انہوں نے یہ جواب دیا نحن انصارالل ہ؛ حضرت ع یسی نے کہا تھا کہ انصاری، میرے انصار، انہوں نے جواب دیا کہ نحن انصار الل ہ؛ ان کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی مدد کرنا گویا خدا کی مدد کرنا ہے، آپ کے انصار بننا گویا خدا کا انصار بننا ہے۔ناصر نبی، ناصر خدا ہوا کرتا ہے۔ یہ اولیا الہی کی محبت ہے اگر انسان ان کی محبت اپنے دل میں بسا لے حقیقی محبت، جس میں انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنے محبوب کو ناراض نہ کرے اس کے فرامین پر عمل کرے اس کی اطاعت کرے تو یہ محبت اس کی اصلاح کا سبب بنے گی، یہ محبت سبب بنے گی وہ بھی اس محبوب کے قریب ہونے کی کوشش کرے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہوگا تو در حقیقت خدا کے قریب ہوگا۔

( قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوني‏ يُحْبِبْكُمُ‏ اللَّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحيم‏ ) (۱۶۷)

اگر اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو رسول کی پیروی کرو، رسول کی جب پیروی کرنے لگو گے تو خدا تم سے محبت کرنے لگے گا، انسان اگر رسول اللہ کی محبت دل میں بسا لے تو وہ محبوب خدا بن جاتا ہے، دعائوں میں بھی زیارتوں میں اسی مطلب کی تلقین کی گئی ہے، انتہائی معتبر اور مستند زیارت ، زیارت امین اللہ جسے آپ کسی بھی روضہ شریف جا کر، کسی بھی امام کے حرم میں جا کر اس زیارت کو پڑہ سکتے ہیں۔(۱۶۸) اس میں ایک جملہ یہ ہے:فاجعل نفسی محبة لصفوة اولیائک ،

بار الہا میرے نفس کو اپنے چنے ہوے اولیا کا محب بنا دے یعنی میرے دل میں ان کی محبت ڈال دے۔یہ ان کی محبت ہے جو مجھے کامیاب بنائی گی، محبت ہے جو میری اصلاح کرے گی، یہ محبت ہے جس سے میری تربیت ہوگی، یہ محبت ہے جو مجھے ان سے نزدیک کرے گی اور میں بھی کامیاب ہو جائوں گا۔ تیرے منتخب بندوں کا عاشق بن جائوں جب ان سے محبت کرنے لگوں گا تو محبوبہ فی ارضک و سمائک تیری زمین و آمسان میں محبوب بن جائوں گا، یعنی جو ان کا محب اور عاشق ہوجاتا ہے دنیا اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔جو اس عظیم حقیقت کا عاشق بن جائے محب بن جائے اپنے دل میں ان کی محبت کو بسا لے تو تمام چیزیں اس کی محب بن جاتی ہیں۔یہ صالحین کی ہمنشینی کا اثر ہے، انسان اگر صالحین کی ہمنشینی اختیار کرے اور دعا کرے کہ صالحین میں اس کا شمار ہونے لگے تو صالحین کے اوپر نازل ہونے والی نعمتیں اسے بھی عطا ہوں گی، صالحین پر جو خدا کی خصوصی رحمت ہوتی ہے اسے بھی نصیب ہوگی۔

لہذا قرآن مجید نقل کر رہا ہے ان کا قول جو یہ کہہ رہے تھے کہ

( وَ ما لَنا لانُؤْمِنُ‏ بِاللَّهِ وَ ما جاءَنا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنا رَبُّنا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحين ) (۱۶۹)

ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم ایمان نہیں لائے، اللہ پر ایمان کیوں نہیں لے آئے، اس نے جو کچھ حقائق اور حق کی تعلیم بھیجی اس پر ایمان کیوں نہ لائیں؟ ہم ایمان لے آئیں گے اور اس بنیاد پر ایمان لے آٗیں گے کہ یدخل ربنا الصالحین؛ ہمیں امید ہے کہ خالق کائنات ہمارا شمار بھی صالحین میں کر دے گا، صالحین میں سے قرار پانا اتنا اہم ہے یہ ایمان جو انسان قبول کرتا ہے ایک سبب اس کا یہی ہوتا ہے ایک فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کاروان میں شامل ہوجائے اس عظیم قافلہ میں شامل ہوجائے جو صالحین کا قافلہ ہے۔ ہمیں بھی یہی دعا کرنی چاہیے کہ خداوند متعال ہمیں بھی صالحین میں شمار فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

صبر کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ لَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَ جُنُودِهِ قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرين ) (۱۷۰)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج صبر کی دعا کو آپ کے سامنے پیش کرنا ہے۔

یہ دنیا تزاحم اور تضاد کی دنیا ہے، یہاں اگر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرے تو اس کیلئے صبر کرنا بہت ہی ضروری ہے، اس دنیا میں صبر کے بغیر کامیابی کی کوئی معنی نہیں بنتی صبر کے بغیر کامیابی مل ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ ہر ایک اپنی فکر اور اپنی نظر رکھتا ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مقصد تک پہنچ سکے تو ظاہر ہے کہ پھر یہاں پر تعارض ہوگا، تضاد پیش آئے گا۔ جو بھی چاہتا ہے کہ کامیابی تک رسائی حاصل کرے تو اسے مشکل مراحل طے کرنے پڑیں گے اور صبر کرنا پڑے گا، خالق کائنات قرآن مجید میں انسانوں کو خسارہ میں بیان کرتے ہوے فرماتا ہے:

( وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفي‏ خُسْرٍ إِلاَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْرِ ) (۱۷۱)

قسم ہے زمانہ کی انسان خسارہ میں ہے اس خسارہ سے وہی بچ سکتے ہیں جن کے اندر چار خصوصیات پائی جاتی ہوں،جو ایمان لے آئیں ، عمل صالح کریں ؛ ایمان اور عمل صالح کے بعد صبر کی تلقین کریں اور حق کی تلقین کریں۔یہ حق کی تلقین اور صبر کی تلقین بہت اہم ہے خاص طور پر صبر کی تلقین۔یعنی اگر کوئی خسارہ سے بچنا چاہتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اسے خود صبر کرنا پڑے گا بلکہ اپنے دوسرے ایمانی بھائیوں کو اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کی تلقین کرنی پڑے گی۔

رسول اللہ(صلعم) کو صبر کا حکم

صبر اتنا اہم ہے کہ خالق کائنات خود اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صبر کا حکم دے رہا ہے،

( فَاصْبِرْ كَما صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ‏ مِنَ الرُّسُل ) (۱۷۲)

اے حبیب تم بھی اسی طرح صبر کروجس طرح آپ سے پہلے اولو العزم پیغمبر صبر کر چکے ہیں۔ صاحب شریعت انبیا، رسل صبر کر چکے اسی طرح تم بھی صبر کرو، صبر کیے بغیر یہ اہداف یہ مقاصد یہ اغراض حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اور ایک مرتبہ تو حد ہوگئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بڑے بڑے دشمن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچے جو اکابریں میں سے تھے روسا میں سے تھے، بڑے سرمایہ دار اور مالدار لوگ تھے وہ آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، ہم بھی آپ کی دعوت میں شامل ہوجاتے ہیں ہماری شرط یہ ہے کہ آپ ان غریبوں کو اپنے ہاں سے دور کردیں، آخر ہم امیر ہیں، ہم دولت والے ہیں ہمارا حساب و کتاب ان سے جدا ہے۔ ہمیں بلکل بھی اچھا نہیں لگے گا کہ ہم امیر لوگ ان غریبوں کے ساتھ بیٹھیں ایک جگہ پر بیٹھیں۔ اور خاص طور پر رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں جہاں سب نیچے زمین پر بیٹھا کرتے تھے کہا ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم بھی ان غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھیں ہم تو مالدار ہیں۔یہاں خاص طور پر رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خالق کائنات نے حکم دیا

( وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ‏ مَعَ الَّذينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَداةِ وَ الْعَشِيِّ يُريدُونَ وَجْهَه ) (۱۷۳)

آپ صبر کریں ان لوگوں کے ساتھ جو دن اور رات صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی غریب ہیں تو کیا ہوا، ان کا رابطہ خدا کے ساتھ بہت اچھا ہے، آپ ان کی ظاہری حالت کو نہ دیکھیں آپ ان کی دنیوی حالت کو نہ دیکھیں آپ ان کے ایمان کو دیکھیں، خلوص کو دیکھیں، باطنی نیت کو دیکھیں، پاک قلوب کو دیکھیں، صحیح اور سالم ضمیر کو دیکھیں، یہ نقصان کا سودا ہوگا کہ امیروں کو اپنے ساتھ بٹھانے کیلئے ان خدا پسند لوگوں کو ان خدا کے عابد اور پرہیزگار بندوں کو اپنے آپ سے دور کرو، نہیں ان کے ساتھ صبر کرو، انہی پر صبر کرو، یہی تمہاری دعوت کو پھیلائیں گے یہی تمہارے پیغام کو آگے بڑہائیں گے یہی آپ کے مشن کو لے کر آگے چلیں گے اور پوری دنیا میں اسلام کا چرچا کریں گے اور اسلام کی تبلیغ کریں گے۔

یہ صبر کی اہمیت ہے۔ان دونوں آیتوں سے جو خاص طور پر رسول اللہ کو حکم دے رہی ہیں کہ آپ صبر کریں، اپنے ماننے والوں کے ساتھ مل کر صبر کریں، پتا چلتا ہے کہ صبر کے بغیر منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا، اس دنیا کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے صبر کرنا پڑے گا، یہاں ایسا نہیں ہے کہ ہر چیز معجزہ سے حل کی جائے، نہیں! بلکہ اسباب اور وسائل کے ذریعہ سے، جس طرح کائنات کا نظام اور سسٹم ہے آہستہ آہستہ تدریجی طور یہ منزلیں آگے بڑہتی چلی جائیں گی اور کامیابیاں انسان کو نصیب ہوں گی، صبر ان کامیابیوں کا پہلا زینہ ہوا کرتا ہے۔پھر جب انسان صبر کی فضیلت کی طرف ، صبر کی اس منزلت کی طرف نگاہ کرتا ہے ان نعمتوں کو دیکھتا ہے جو خالق کائنات صبر کرنے کی وجہ سے اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے تو پھر صبر کرنے والوں کا حوصلہ اور بڑہ جاتا ہے۔

صبر کی فضیلت

خالق کائنات قرآن مجید میں صبر کرنے والوں کی مدح کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے

( إِنَّما يُوَفَّى‏ الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِساب ) (۱۷۴)

صبر کرنے والوں کو خالق کائنات ان کا اجر دیں گے اور بے حساب دیں گے، کوئی حد معین نہیں ہے کوئی لیمٹ نہیں ہے، کتنے فیصد ہوگا یہ معین نہیں ہے بغیر حساب کے اجرعطا فرمائے گا، اور یہ صبر ہی ہے جو انسان کو اعلی ترین مراحل تک لے جا سکتا ہے۔ افضل ترین عہدوں تک لے جا سکتا ہے، یہاں تک کہ آئمہ علیہ السلام کی امامت جو خالق کائنات نے ان کو عطا کی ہے، وہ اسی بنیاد پر ہے۔

( وَ جَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا وَ كانُوا بِآياتِنا يُوقِنُون ) (۱۷۵)

جب انہوں نے ہماری راہ میں پہنچنے والی مشکلات پر صبر کیا تو ہم نے انہیں امام بنا دیا، اب یہ نہ کسی کی ملامت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کی لالچ میں آتے ہیں، نہ کسی کی دھمکی سے خوف کھاتے ہیں۔ ان کو کوئی بھی چیز خدا کی راہ سے خدا کی راہ کی طرف دعوت دینے سے نہیں روک سکتی۔ صبر کی بنیاد پر۔اور صبر کرنے والے جب وارد محشر ہوں گے تو فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوے ان کا استقبال کریں گے کہ

( سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ‏ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّار ) (۱۷۶)

سلام ہو تم پر جو تم نے صبر کیا اس دنیا میں۔چند دنوں کی مشکلات پر تم نے صبر کیا خالق کائنات اب تمہیں دائمی نعمتوں سے نواز رہا ہے اب خدا تمہیں ہمیشہ والی نعمتیں عطا فرما رہا ہے یہ نتیجہ ہے تمہارے صبر کا۔

خداوند متعال دوسری جگہ پر یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ

( وَ لَنَجْزِيَنَ‏ الَّذينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما كانُوا يَعْمَلُون‏ ؛ ) (۱۷۷)

اور ہم ضرور بہ ضرور اجر دینگے ان کو جنہوں نے صبر کیا، کتنا اجر دیں گے ارشاد ہو رہا ہے باحسن ما کانوا یعملون؛ جتنا انہوں نے عمل کیا تھااس سے بہت بہتر اجر و ثواب دیں گے ان کے صبر کرنے کی بنیاد پر۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہالصبر نصف الایمان؛ (۱۷۸) صبر نصف ایمان ہے۔ایمان کا اہم جز اور حصہ ہے، صبر کے بغیر ایمان کی کوئی معنی نہیں بنتی اس لیے بعض روایات میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جو صبر نہیں کرتا تو گویا اس کے پاس ایمان ہی نہیں ہے۔وہ گویا کہ خالق کائنات کی تخلیق پر ایمان ہی نہیں رکھتا یہ جو خالق کائنات نے اس دنیا میں نظام بنایا ہے ، اس میں صبر کرنا ایک اہم اور بنیادی جز اور حصہ ہے ایمان کا۔

دوسری جگہ پر رسول اللہ ارشاد فرما رہے ہیں کہالصبر کنز من کنوز الجنة؛ (۱۷۹)

صبر جنت کے خزانوں مین سے ایک خزانہ ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں بہشتی خزانے ملیں ان میں اہم خزانہ صبر کا ہے، جس انسان کو جس مومن کو اس دنیا میں صبر کی توفیق ہو رہی ہے، گویا کہ اسے بہشتی خزانے مل رہے ہیں، گویا کہ اسے جنت کا ایک خزانہ مل رہا ہے۔ گویا کہ وہ اپنے آپ کو جنتی بنانے کا مسحق اور حقدار بنا رہا ہے۔

اسی بنیاد پر امام محمد باقرؑ ارشاد فرما رہا ہیں:

الجنه محفوفه بالمکاره والصبر؛

جنت چھپی ہوئی ہے گھری ہوئی ہے مشکلات اور صبر میں،،

فمن صبر المکاره فی الدنیا (۱۸۰)

جو بھی اس دنیا میں مشکلات پر صبر کرے گا پریشانیوں پر صبر کرے گا، تو وہ جنت میں داخل ہوگا، مشکلات پر صبر کرنا اور جنت میں جانا، ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں۔ اگر انسان خدا کیلئے صبر کرتا ہے، راہ خدا میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتا ہے تو خالق کائنات اس دنیا میں اس کو جنت عطا کرے گا، یعنی اس دنیا اور اس دنیا کا آپس میں ایک رابطہ یہ ہے کہ جو یہاں پریشانیاں اٹھائے گاجو یہاں خدا کیلئے مشکلات کو برداشت کرے گا اسے وہاں کوئی پریشانی نہیں اٹھانا پڑے گی، جو یہاں تکلیف دیکھے گا اسے وہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، جو یہاں صبر کرے گا اسے وہاں دائمی نعمتوں سے سرشار کیا جائے گا، وہاں اس کیلئے سکھ ہی سکھ ہوں گے خوشحالی ہوگی اور نعمتیں ہوں گی اور سب سے بڑہ کر یہ کہ رب اس کا اس سے راضی ہوگا۔

صبر کے درجات

لیکن صبر کے مختلف درجات ہیں؛ ایک صبر محمود ہے، صبر محمود یہ ہے کہ انسان لذات گناہ کو چھوڑ دے اپنے نفس کو مجبور کرے اپنے نفس کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ گناہ کی لذت کی طرف نہ جائے، اپنے آپ کو گناہ کی لذتوں سے دور کر دے۔ یہ بھی صبر کرنا ہے۔ظاہر ہے کہ شیطان یہی کوشش کرتا ہے کہ گناہوں کہ اچھا کر کے پیش کرے، ان کو لذیذ کر کے بتائے، انہیں آسان صورت میں جلوہ نما کرے، لیکن وہاں پر انسان صبر کرتے ہوے اپنے نفس کو آمادہ کرے اس بات پر کہ اگر ہمیشہ کی نعمتیں چاہتے ہو، اگر رضوان خدا چاہتے ہو تو یہاں تمہیں صبر کرنا پڑے گا، ایک ہوتا ہے گناہ پر صبر کہ انسان صبر کرے اور گناہ کے قریب نہ جائے۔ گناہ کے ذریعہ حاصل ہونے والی آسایش، گناہ کے ذریعہ حاصل ہونے والا پیسہ، گناہ کے بل بوتے پر حاصل ہونی والی عیش عشرت کو قبول نہ کرے صبر کرے، یہ صبر کا ایک مرحلہ ہے۔

دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اطاعت الہی پر صبر کرے، ظاہر ہے اطاعت میں بھی پریشانیاں ہیں، مشکلات ہیں، صبح نماز کیلئے اٹھنا اتنا آسان نہیں ہے، گرمیوں میں رمضان کے واجب روزے رکھنا اتنا آسان نہیں ہے، اپنے کمائے ہوئے مال میں سے خمس اور زکوات ادا کرنا اتنا آسان نہیں ہے، مشکلات ہیں۔ لیکن انسان صبر کرے اس بنیاد پر صبر کرے کہ آج میں تھوڑی سی زحمت کروں گا تو کل اس کا بہت بڑا نتیجہ نکلے گا، آج کی اس مختصر زحمت کا دائمی نعمتوں کی صورت میں نتیجہ نکلے گا، اس سے میرا رب راضی ہوگا، اور اس کا فائدہ مجھے ہی ملے گا، ایسا نہیں ہے کہ ہم جو خرچ کر رہے ہیں خدا کے نام پر یہ رایگان چلا جائے گا یہ ضایع ہو جائے گا خدا ضایع ہونے نہیں دیتا، زندگی کے جو لمحات خدا کی راہ میں خرچ کیے جائے خدا ان کے بدلے میں زندگی میں برکت دیتا ہے اور انسان سے وہ وہ کام کراتا ہے جو بغیر توفیق خدا کے ممکن ہی نہیں ہیں، یہ صبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اس سے بڑہ کر صبر جمیل ہے( فَاصْبِرْ صَبْراً جَميلا ) (۱۸۱)

صبر جمیل یہ ہے کہ انسان مشکلات کے آنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو قانع کر لے مطمئن ہو جائے کہ جو کچھ مجھے پیش آئے گا وہ حکم الہی سے ہوگا وہ اذن الہی سے ہوگا، میں کوئی شکوہ نہیں کروں گا کوئی شکایت نہیں کروں گا۔ یعنی رضا بقضائ ہ وتسل یما لاامرہ،

رضائے الہی پر راضی رہنا، خدا نے جو میرے لیے مقدر بنایا ہے وہی بہتر ہوگا، رضائے الہی پر راضی رہنا یہ اعلی ترین درجہ ہے صبر کا، خدا رضوان الہی پر بندہ کو راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے سب سے بڑا درجہ اور کمال یہی ہے، اور آئمہ علیہ السلام خصوصا سید الشہدا حسین بن علی علیہ السلام اسی مرتبہ پر فائز تھے، اپنا سب کچھ خدا کے نام پر قربان کر رہے تھے، بیٹے بھتیجے پورا خاندان، اصحاب، انصار سب کچھ دے دیا، اپنا سر بھی دے دیا رضا بقضائ ہ و تسل یما لامرہ؛ کہتے ہوئے، یہ صبر کا اعلی ترین رتبہ ہے۔

عزاداری صبر کے منافی نہیں ہے

لیکن یہاں پر جو ایک اشتباہ کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے صبر کریں ، اور پھر صبر کی معنی یہ کی جاتی ہے کہ انسان گریہ نہ کرے، جی نہیں، صبر کی یہ معنی نہیں ہے۔ رونہ انسان کی فطرت میں ہے۔ جس طرح خالق کائنات نے خوشی پر انسان کو تبسم کرنے اور مسکرانے سے نہیں روکا، اسی طرح غم اور دکھ میں انسان کا غمگین ہونا اور دکھی ہوجانا، آنکھوں میں آنسو آجانا فطری سی بات ہے طبعی بات ہے، اس کے نمونہ ہیں، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں جب آپ کے فرزند کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، کوئی کہنے لگا یا رسول اللہ آپ تو ہمیں کہتے ہیں کہ صبر کریں، تو فرمایا، ہاں ، دل دکھے گا، آنکھوں میں آنسو آئیں گے، یہ صبر کے مخالف نہیں ہے، صبر کے مخالف یہ ہے کہ ہم خدا سے شکوہ اور شکایت کریں، خدا کی تقدیر پر راضی نہ رہیں، خدا سے گلا و شکوہ کریں، خدایا ایسا کیوں ہوا، ایسا کیوں کیا؟ یہ کیوں چھین لیا؟میرا بیٹا مجھ سے کیوں جدا کر دیا؟تقدیر خدا پر راضی نہ رہنا اور گلا شکوہ کرنا یہ صبر کے منافی ہے۔ صرف رونا، صبر کے منافی ہوتا تو انبیاء روتے ہی نہیں، مگر کیا قرآن یہ نہیں بتاتا کہ جناب یعقوب علیہ السلام یوسف کے فراق میں کتنے سال روئے، اتنا روئے کہ

( وَ ابْيَضَّتْ‏ عَيْناهُ مِنَ الْحُزْن‏؛ ) (۱۸۲)

اس غم کی بنیاد پر اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں، ان کی بینائی چلی گئی، اگر رونا اور گریہ کرنا صبر کے منافی ہوتا تو کبھی انبیاء روتے ہی نہیں، یہ مغالطہ کرتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ صبر کی اتنی فضیلت ہے لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رونا ہی نہیں چاہیے، جبکہ رونا فطری بات ہے۔ ہاں، شکوہ اور شکایت خدا سے نہیں کرنا چاہیے یہ ایمان کے منافی ہے۔

خدا صابرین کے ساتھ ہے

لہذا اہل ایمان ہمیشہ خدا سے صبر کی دعا کرتے رہتے ہیں، جب بھی کسی معرکہ پر ہوتے ہیں جب بھی کسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے یہاں تک کہ جنگ کے میدان میں بھی ہوتے ہیں تو خدا سے توفیق طلب کرتے ہیں۔ اور خدا نے یہ فرمایا ہے کہ

( إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرين‏؛ ) (۱۸۱)

اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جو مشکلات پر صبر کرتے ہیں۔ دین خدا کی بڑہائی کیلئے سربلندی کیلئے عزت اور آبرو کیلئے قربانیاں دیتے ہیں صبر کرتے ہیں، حزب اللہ اور اللہ کے لشکر اولیاء الہی اور خالص اور مخلص مومنین کی نشانی یہی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کی زبانی ہم سنتے ہیں کہ جب جناب طالوت لشکر لیکر نکلے جالوت کے مقابلے میں پہنچے کتنا عظیم لشکر ہے ان کے پاس، انہوں نے ہمت نہیں ہاری اپنے حوصلہ پست ہونے نہیں دیے، خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوے یہ دعا کی

ربنا افرغ علینا صبرا بار الہا ہمیں صبر عطا فرما، و ثبت اقدامنا، ہمیں استقامت عطا فرما، ثبات قدم عطا فرما وانصرناعلی القوم الکافرین، کافرین کے مقابلے میں ہمیں کامیابی عطا فرما، یعنی اہل ایمان اپنا عمل انجام دے دیتے ہیں اپنی ذمہ داری پر عمل کر دیتے ہیں میدان میں قدم رکھ دیتے ہیں پھر جا کر برزوا کے بعد میدان میں آنے کے بعد پھر خدا سے دعا کرتے ہیں ۔

ان آیات کا نتیجہ یہی بنتا ہے کہ عمل کرنا تمہارا کام ہے، کوشش کرنا تمہارا کام ہے، میدان میں آنا تمہارا کام ہے، تلوار اٹھانا تمہارا کام ہے، کامیابی دینا خدا کا کام ہے۔کامیابی سے ہمکنار کرنا خدا کا کام ہے توفیق دینا خدا کا کام ہے، تم اپنا کام کرو، خدا کا کام خدا کے حوالہ کر دو خدا اپنے کام کو بہترین طریقہ سے انجام دے گا جہاں جہاں انسان شکست کھاتا ہے وہاں وہاں در حقیقت اس نے ذمہ داری میں کوتاہی کی ہوتی ہے۔ اگر انسان اپنی ذمہ داری بطور احسن انجام دے تو خدا کے لطف اور کرم میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کے ہاں کوئی بخل نہیں ہے، اگر کمیاں ہوتی ہیں کوتاہیاں ہوتی ہیں نقص ہوتے ہیں تو ہماری طرف سے ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کا درس ہے، زندگی کے تمام مراحل میں انسان صبر کے ذریعہ سے کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے، صبر کے ذریعہ سے مشکلات پر قابو پا سکتا ہے، مشکلات چند دنوں کیلئے ہوتی ہیں انسان کو مایوس نہ بنا دیں، رحمت خدا سے دور نہ کردیں، خدا سے بدبین نہ کر دیں، بہت کمزور ایمان والے ہوتے ہیں وہ لوگ جو معمولی معمولی مشکلات کی وجہ سے خدا سے بدظن ہو جاتے ہیں، گلا شکوہ کرنے لگتے ہیں انہیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا خدا ہی نہیں ہے ہماری ساتھ یہ نا انصافی کیوں رہی ہے؟ یہ کیوں وہ کیوں؟ سب کچھ خدا کے خاطے میں ڈال دیتے ہیں، تمام ظالم اور حکمرانوں کے کام خدا کے ذمہ ڈال دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، مگر قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ کتنے ہی ایسے انبیا تھے جن کے ساتھ مخلص لوگ شہید ہوئے، انبیا کی کیا تقصیر تھی، ان کا کیا گناہ تھا، وہ تو پاک تھے معصوم تھے، ایسا نہیں ہے کہ انسان کو جو بھی پریشانی اور مشکل پیش آئے تو اس میں اس کا قصور ہوتا ہے، اگرچہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ کبھی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔

لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ امتحان ہو، یہ حاصل ہونے والی پریشانیاں اور پیش آنے والی امتحانات ہوتی ہیں انسان صبر کے ساتھ حوصلہ کے ساتھ عزم کے ساتھ ان کا مقابلہ کرے اور خدا سے دعا مانگے کہ خدا اسے صبر اور حوصلہ کی توفیق عطا فرمائے، اور میں تو یہ کہتا رہتا ہوں کہ خدا اپنے اولیا کی مدد کرتا ہےبسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم مدد کا غلط نتیجہ نکالتے ہیں غلط مطلب نکالتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی مدد صرف یہی ہے کہ وہ غیبی قوتوں کو بھیج دے اور ایک لمحہ میں ہمیں کامیابی مل جائے، اگرچہ یہ بھی ایک قسم کی مدد ہے لیکن اس سے بڑہ کر یہ مدد ہوتی ہے کہ خدا مومن اور مجاہد انسان کو حوصلہ اور عزم عطا کرتا ہے اور صبر عطا کرتا ہے۔

صبر کی سب سے بڑی داستان ہے کربلا، کتنی مدد کی ہے خدا نے حسین بن علی کی، ایک لمحہ کیلئے بھی اس کے قدم ڈگمگاتے نہیں ہیں کتنی بڑی بڑی قربانیاں دی جا رہی ہیں ایک لمحہ کیلئے بھی کوئی پشیمانی نہیں ہے۔مارنے والے ڈر رہے ہیں خوف میں مبتلا ہیں مرنے والوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے ، یہ خدا کی مدد ہے۔ خدا اس طرح مدد کرتا ہے کہ ان کے حوصلوں کو بلند کردیتا ہے، یہ صبر اور حوصلہ ہے جو انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

صبر کے بغیر ایمان کا اور کامیابی کوئی تصور نہیں ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کی ان مشکلات پر صبر کریں اور خالق کائنات سے صبر کی توفیق اور کامیابی کی دعا کریں۔ دعا ہے خالق کائنات ہم سب کو زندگی کے تمام مراحل میں تمام امتحان میں صبر اور حوصلہ کے ساتھ گذارنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ حقیقی کامیابی حاصل کر سکیں۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

مومنین اور مومنات کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( رَبَّنَا اغْفِرْ لي‏ وَ لِوالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِساب ) (۱۸۲)

آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ مومنین اور مومنات کیلئے دعا ہے۔

خالق کائنات نے انسانوں کے درمیان بہت سارے رشتہ بنائے ہیں، کچھ حسب ونسب کی بنیاد پر ہیں، نبسی رشتے ہیں۔قوم اور قبیلے کے رشتے ہیں، جسمانی رشتے ہیں ان سے بڑہ کر جو اہم رشتہ خداوند متعال نے بنایا ہے وہ ایمان کا رشتہ ہے، ایسا رشتہ جو ٹوٹنے ہی نہ پائے جو اس دنیا میں بھی قائم رہے اور اس دنیا میں بھی قائم رہے، جس کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آنا ہے، جو بھی دین کے دائرہ داخل ہو جاتا ہے وہ اس رشتہ سے جڑ جاتا ہے، مسلمان جہاں بھی رہیں جس جگہ پر رہیں جس زمانے میں بھی ہوں تمام کے تمام آپس میں بھائی بھائی ہیں، خالق کائنات اہل ایمان پر اپنی عظیم نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوانا، (۱۸۳)

اور اس نعمت کو یاد کرو جو خالق کائنات نے تم پر نازل کی، تمہیں عطا کی، تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تم قبیلوں میں بٹے ہوے تھے، تم نسل اور نزاد اور قوم اور قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، تمہارے اندر لسانی اختلاف تھے، قبیلائی اختلاف تھے نسل در نسل اختلاف تھے، زمان اور مکان کے اختلافات تھے۔ لیکن خالق کائنات نے اپنے فضل اور کرم سے تمہیں ایک دوسرے بھائی بنا دیا، تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت رکھ دی۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اہل ایمان کیلئے ایک دوسرے کیلئے دلوں میں محبت رکھی ہے۔کیونکہ یہ محبت اللہ پر اس کی توحید پر یقین رکھنے کے نتیجہ میں ہے، یہ ایمان کا نتیجہ ہے؛ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کو ماننے کا نتیجہ ہے کہ انسان اس رشتہ سے جڑ جاتا ہے۔اور یہ عظیم الشان رشتہ ہے، جو کبھی ٹوٹتا نہیں ہے یہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے،جسے کوئی چیز توڑ نہیں سکتی مگر یہ کہ انسان اسلام کے دائرے سے ہی نکل جائے۔

مومنین کے لئے دعا کی فضیلت

کوئی شخص آتا ہے امام موسی کاظمؑ کی بارگاہ میں، مولاکیسے دعا مانگیں کہ ہماری دعا مستجاب ہو جائے۔ امام فرماتے ہیں کہ اس زبان سے دعا مانگو جس زبان سے تم نےکوئی گناہ نہ کیا ہو۔(۱۸۴)

کیا مطلب ، اس زبان سے دعا مانگو، ہماری تو یہی ایک زبان ہے خدا خواستہ نخواستہ کتنے گناہ اس سے ہو جاتے ہیں۔ کسی کی غیبت ہو گئی، جھوٹ بولنا، یا تہمت اور انواع اور اقسام کے گناہ، فرمایا جب تک دوسروں کیلئےدعا کر رہے ہوتے ہو، دوسروں کے حق میں دعا کر رہے ہوتے ہو، دوسروں کی زبان سے دعا کرو یہ وہ زبان ہوگی جس سے تم نے کوئی گناہ نہیں کیا، یعنی جو دوسروں کے حق میں دعا کرتا ہے خداوند متعال وہی اس کے حق میں قبول کرتا ہے، جو دوسرے مومنین اور مومنات کیلئے دعا مانگے یا دعا کرے گا وہی دعا خالق کائنات اس کے حق میں قبول کرے گا۔اس لیے خاندان عصمت و طہارت کی سیرت ہی یہی تھی۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام نقل کرتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی والدہ کے نزدیک تھا، میں نے دیکھا کہ آپ دعا کر ہیں تھیں ایک ایک پڑوسی کا، ایک ایک مومن اور مومنہ کا نام لے لے کر دعا کر رہیں تھیں، میں نے کہا ہماری باری کب آئی گی، پوری دعا دوسروں کیلئے کرتی رہیں، میں نے پوچھا مادر گرامی آپ نے تو سب دوسروں کیلئے دعا کی، تو فرمایا: ہاں!الجار ثم الدار ؛(۱۸۵)

پہلے پڑوسیوں کیلئے دعا پہلے دوسروں کیلئے دعا کرنی چاہیے پھر اپنوں کیلئے۔ یعنی دوسروں کو دعا میں شامل کرنا، ایمان کی نشانی ہے، استجابت دعا کی نشانی ہے۔ لہذا ہم عبادات میں جو سورتیں تلاوت کرتے ہیں جو اذکار اور اوراد کرتے ہیں ان میں ہمیں یہی تلقین کی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اکیلا مت سمجھو دوسروں کو ساتھ ملا کر دعا کیا کرو، سورہ حمد میں جب ہم تلاوت کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین، ہم سب تیری عبادت کرتے ہیں، دوسروں کو ملا کر، انسان صرف اپنے آپ کو نہ دیکھے، غرور اور تکبر اسے اپنی مستی میں مدہوش نہ کر دے، سب کو ملا کر دیکھے، ہم سب تیرے بندے ہیں تیری عبادت کرتے ہیں تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں

اهدنالصراط المستقیم ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما، یعنی انسان دوسروں کو بھی ملا کر دیکھے، صرف اپنے لیے صرف میرا مفاد، صرف میری مصلحت، میرا فائدہ، صرف اپنی ذات کو دیکھنا یہ ایمان کے منافی ہےبلکہ جو انسان دوسروں کیلئے دعا کرتا ہے وہی دعا خدا اس کے حق میں بھی قبول کرلیتا ہے۔

یہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ من دعی لاخوانہ من المومنین و المومنات؛ جو بھی اپنے مومن بھائی اور اپنی مومنہ بہن کیلئے دعا کرتا ہے، جو مومنین اور مومنات کیلئے دعا کرتا ہے

وکل الله به عن کل مومن ملکا ؛(۱۸۶)

خداوند متعال ہر مومن اور مومنہ کے بدلے جس کے حق میں وہ دعا کر رہا ہے، یعنی جتنے مومنین اور مومنات کیلئے دعا کر رہا ہے خدا اتنے فرشتے اس کیلئے مامور کرتا ہے، موکل کرتا ہے۔ ان فرشتوں کو بھیجتا ہے وہ فرشتے آکر پھر اس کے حق میں دعا کرتے ہیں، کتنا بڑا درس دیا جا رہا ہے ، کتنا بڑا فائدہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تم اپنے لیے دعا کرو گے ایک ہی دعا شمار ہوگی وہ بھی پتا نہیں کہ مستجاب ہوگی یا نہیں، لیکن جب تم دوسروں کیلئے دعا کرو گے جتنے زیادہ انسانوں کیلئے دعا کرو گے، جتنے زیادہ مومنین اور مومنات کیلئے دعا کرو گے ہر ایک کے بدلے میں خالق کائنات ایک ایک فرشتہ بھیجے گا وہ فرشتے تمہارے لیے دعا کرینگے اور فرشتوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔یقینی مستجاب ہوگی اور بہت ساری دعائیں ہوں گی، اگر ہم اپنے لیے دعا کریں تو ایک ہی دعا ہے یقین بھی نہیں کہ مستجاب بھی ہوگی یا نہیں، لیکن اگر دوسروں کیلئے دعا کریں تو بہت زیادہ دعائیں ہوں گی اور یقینی طور پر مستجاب بھی ہوگی۔

یہ وہی درس قرآن ہے، جس میں خداوند متعال ارشاد فرما رہا ہے کہ

( وَ يَسْتَجيبُ‏ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ يَزيدُهُمْ مِنْ فَضْلِه‏؛ ) (۱۸۷)

خالق کائنات مستجاب کرتا ہے، ان کی دعائوں کو سنتا ہے جو ایمان لے آئے ہیں، جنہوں نے نیک عمل کیا ہے اللہ ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید نے جہاں انبیا کی دعائوں کے بعد یہ فرمایا ہے فاستجبنا ہم ان کی دعا کی قبول کیا، یہاں ااہل ایمان کیلئے ذکر ہو رہا ہے کہیستجیب الذین آمنو و عملو الصالحات الله اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کی دعا کو مستجاب کرتا ہے نہ صرف مستجاب کرتا ہے بلکہ و یزیدھم من فضلہ؛ اپنے فضل و کرم سے انہیں اور زیادہ عطا فرماتا ہے۔اگر اہل ایمان اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں تو جن چیزوں کی دعا نہ بھی کی ہوگی خدا اپنے فضل اور کرم سے وہ چیزیں ان کو عطا کرے گا، دوسروں کے ساتھ رہتے ہوئے دوسروں کی مشکلات کو مقدم رکھتے ہوے پہلے دوسروں کیلئے دعا کرے، دوسروں کی مشکلات کو انسان اپنی مشکل سمجھے اور ان کیلئے بھی دعا کرے صرف اپنی ذات کو نہ دیکھے، انبیا علیہ السلام کی دعائیں ہم دیکھتے ہیں تو اسی طرز فکر کی ہیں۔

انبیاء کی دعائیں

یہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہے:بار الہا! مجھے بخش دے میرے والدین کو بخش دے، اور تمام اہل ایمان چاہے مرد ہوں چاہے عورتیں ہوں ان سب کو بخش دے، اور یہ دعا اس وقت کیلئے جا رہی ہے جب دعا کے علاوہ کوئی چیز مفید نہیں ہوگی، یوم یقوم الحساب؛ قیامت کے دن، ہم سب کی بخشش کر دینا سب کیلئے دعا کی جا رہی ہے۔ حضرت نوح کی دیکھیں تو وہ بھی یہی ہے

( رَبِّ اغْفِرْ لي‏ وَ لِوالِدَيَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ‏ مُؤْمِنا ) (۱۸۸)

خدایا مجھے بخش دے میرے والدین کو بخش دے اور جو بھی میرے بیت میں داخل ہو جائے ، اس بیت سے مراد صرف یہ چار دیواری نہیں ہے۔ امام صادق علیہ السلام کی روایت(۱۸۹)

کے مطابق بیت سے مراد وہی ولایت ہے جو بھی میری ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے جو میری نبوت کو قبول کر کے میرا ہمفکر بن جاتا ہے، میرا پیروکار بن جاتا ہے، میری اتباع کرتا ہے، ان سب کو بخش دے، انبیا کی دعائیں ہماری لیے درس ہیں کہ جب دعا کرنی ہو تو اس طرح سے دعا کرو دوسرے بھی اس دعا میں شامل ہو جائیں، اور جتنا انسان اللہ کی رحمت کو وسیع کرے گا اللہ کی رحمت وسیع ہوتی چلی جائے گی، بسا اوقات ہم اپنی کم ظرفی کی وجہ سے کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ میں جو مانگوں گا خدا نے اگر دوسروں کو دے دیا تو پھر مجھے کیا دے گا۔ یہ ہماری کم علمی ہے جتنے وسیع پیمانہ پر دعا کی جائے گی خدا اتے وسیع پیمانہ پر عطا فرمائے گا اور وہ تو اتنا کریم ہے کہ جتنا دیتا ہے اتنا ہی اس کے جود میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

گذشتہ مومنین کے لئے دعا

قرآن مجید نے دعاکا طریقہ کار بتایا ہے کہ ایمان والوں کیلئے اس طرح کی بھی دعا کرو، نہ صرف اس زمانے کے مومنین اور مومنات کیلئے بلکہ گذشتہ زمانہ کے مومنین اور مومنات، بلکہ آئندہ زمانے میں آنے والے مومنین اور مومنات یہ انسان اپنے آپ کو ان سے متصل کردے اور سب کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کے مومنین اور مومنات کا رشتہ کل والےمومنین اور مومنات سے یا آنے والوں سے جڑا ہوا نہ ہو، سب مومنین اور مومنات کیلئے دعا کرنی چاہیے، اور اسی طرح دعا کرنی چاہیے جس طرح قرآن نے نقل کیا ہے، ارشاد رب العزت ہوتا ہے

( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذينَ سَبَقُونا بِالْإيمانِ وَ لا تَجْعَلْ في‏ قُلُوبِنا غِلاًّ لِلَّذينَ آمَنُوا ) (۱۹۰)

ار الہا ہماری بخشش کردے، ہمیں بخش دے، اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے ہیں، یعنی انسان اس ترتیب کو اگر مد نظر رکھے ایمان خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، بار الہا ہماری بھی بخشش فرما اور ولاخواننا ہمارے وہ مومن بھائی ہماری وہ ومنات بہنیں جو ہم سے پہلے ایمان لے آچکے ہیں، ان کی بخشش فرما۔یعنی گذشتہ اہل ایمان کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

یہ ان کی زحمتیں ہیں فداکاریاں ہیں کہ ان کی وجہ سے ایمان اور اسلام ہم تک پہنچا ہے، خدا وسیلہ بناتا ہے، اگر کل والے اہل ایمان اسی امانت الہی کو ہم تک نہ پہنچاتے ، تو ہم تک ایمان کی دولت کیسے پہنچتی، لہذا گذشتہ زمانے والوں کیلئے بھی دعا کریں، بار الہا! ہمار دلوں میں اہل ایمان کیلئے ذرہ برابر بھی بغض اور کینہ نہ رہنے دے۔ ہمارے دل اہل ایمان کیلئے صاف ہونے چاہیں، پاک ہونے چاہیں اگر انسان کا دل اہل ایمان کیلئے پاک اور صاف ہوگا یہ پاک دل تمام گناہوں کی جڑوں کو ختم کردیتا ہے، یہ غل یہ کینہ یہ حسد ہوتا ہے جو بہت ساری بیماریوں کی جڑ بنتا ہے۔ بہت ساری اخلاقی بیماریاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں، انسان کے دل میں اگر کسی کیلئے بغض ہو تو بہت ساری بیماریاں خود بخود آجاتی ہیں، لہذا ایسی دعا کرنی چاہیے کہ اصلا جڑ ہی ختم ہو جائے گناہوں کی۔

بار الہا! جو ایمان لے آ چکے ہیں ہماری دلوں میں ان کیلئے کوئی بغض اور کینہ باقی نہ رکھے، ہم ان کو بھائی سمجھیں، جس طرح تو نے حکم دیا ہے، ان کے حقوق ادا کریں جن حقوق کو تو نے واجب کیا ہے، ایمان ایک رشتہ ہے جب رشتہ ہے تو اس کے حقوق ہیں، اہل ایمان کے ایک دوسرے پر حق ہیں جن میں اہم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کیلئے دعا کریں، ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں ایک دوسرے کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے کوشش کریں، ایک دوسرے کے درد کو اپنا دردسمجھیں، یہ بے حسی نہ آنے پانے اہل ایمان کی دلوں میں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارنے اشاد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مغرب کا مسلمان مشرق کے مسلمان کی کوئی پریشانی سنے اور اس کی فریاد رسی نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔(۱۹۱)

ایمان کے رشتہ میں علائقے کا فرق نہیں ہوتا، رنگ اور نسل کا فرق نہیں ہوتا، قوم اور قبیلہ کا فرق نہیں ہوتا، زمان و مکان کا فرق نہیں ہوتا، یہ سب ایک رشتہ سے جڑے ہوئے ہیں، ان سب کی پریشانیاں اور خوشی ایک ہے۔ اور آج ہم جو اپنے اندر اختلاف دیکھ رہے ہیں دلوں میں جوکینہ دیکھ رہے ہیں یہ کمزور ایمان کی نشانی ہے اور دشمنوں کی کامیابی کی دلیل ہے کہ وہ ہمیں فرقوں میں تبدیل کرنے میں ، وہ ہمیں ایک دوسرے سے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر آ ہماری حالت دیکھیں تو کیا ہم سے راضی رہیں گے؟ کیا رسول اللہ ایسی ہی امت چاہتا تھا، کیا اہلبیت نے اور اصحاب کبار نے اسی بنیاد پر قربانیاں دی تھیں، کیا آج ہم ان کے سامنے مسئول نہیں ہیں، آج علماء اسلام ، اسلام کی اس کمزور حالت پر رحم کیوں نہیں کرتے،کیوں اسلام کی فریاد رسی نہیں کرتے، کیوں آج اسلام کو غریب بنا دیا ہے ہم نے، ایمان کے رشتوں کو کمزور بنا دیا ہے ہم نے، یقینا اگر آج ہماری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت دیکھیں تو ہم سے راضی نہیں ہونگے، ایک دوسرے کیلئے دل میں کینہ بغض نعوذ بالل ہ من ذالک ا یک دوسرے کیلئے کفر کی فتوائیں۔ مسلمانوں کا مسلمان سے اظہار ہمدردی نہ کرنا بلکہ انکی مشکلات پر خوش ہونا، یہ بتاتا ہے ہم ابھی ایمان کے رشتہ میں جڑے ہی نہیں ہیں، وہ ایمان ہماری دلوں میں آیا ہی نہیں ہے جو خدا چاہتا ہے جس کی بنیاد پر خدا نے فرمایا کہ یہ نعمت دی تھی کہ تمہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا تھا انما المومنون اخوہ اخوت کا رشتہ قائم کیا تھا، پھر یہ دوریاں کیسی، بغض کیسا۔ اسی دعا کی ضرورت ہے آج کل، اور یہ دعائیں ہمیں در حقیقت درس دے رہی ہیں کہ اپنے دلوں کو صاف بنائو۔

جب دوسروں کیلئے دعا کروگے تو ان کیلئے کوشش بھی کروگے،

( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذينَ سَبَقُونا بِالْإيمانِ وَ لا تَجْعَلْ في‏ قُلُوبِنا غِلاًّ لِلَّذينَ آمَنُوا ؛)

اہل ایمان کیلئے کوئی حسد اور کینہ نہیں ہونا چاہیے جو بھی اہل ایمان ہیں ، حقیقی ایمان کے مالک ہیں ان کے درمیان نفرتیں یہ شیطان کا کام ہے، منافقین کا کام ہے، دشمنوں کا کام ہے کہ وہ اس چال میں کامیاب ہو رہا ہے۔ قرآن مجید ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ تم ایک ایسے رشتہ میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہو جو ختم ہونے والا نہیں ہے، اس رشتہ کی وجہ سے تمہارے حقوق بنتے ہیں جن میں سے ایک حق دعا کرنے کا ہے۔ اس دعا کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں ایک دوسرے سے واقعی ہمدردی ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے مسائل کو ہم سمجھیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھیں، کہیں بھی کسی مسلمان پر ظلم ہوتا ہے تو اس سے لاتعلقی کا اظہار نہ کریں، اسے تنھا نہ چھوڑیں، جو بھییا للمسلین ، مسلمانوں کو اپنی فریاد کیلئے بلاتا ہے اس کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنا، بے رخی کرنا، ایمان کے کمزور ہونے کی نشانی ہے۔

فرشتوں کی مومنین کے لئے دعا

در حقیقت ہمیں فرشتوں کی دعائوں سے درس لینا چاہیے، کس طرح فرشتے اہل ایمان کیلئے دعا کرتے ہیں، فرشتے اہل ایمان کیلئے اس طرح دعا کرتے ہیں: بار الہا اہل ایمان کو اس بہشت میں داخل کر دے جس کا تو نے ان نے وعدہ کیا ہے، مومنین کیلئے وہ جنت کی دعا کرتے ہیں، اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ اس دنیا میں ہم بہشت بنائیں ایک دوسرے کیلئے۔ اس دنیا میں ہم کسی کو تکلیف نہ دیں، کسی کو ہمارے ہاتھوں سے رنجش نہ پہنچے، دوسروں کے کام آئیں، تب ہی جنتی بن سکتے ہیں فرشتوں کی دعا مستجاب ہوگی، ہم ایک دوسرے کو اس پیار محبت خلوص اور ایمانی رشتہ کی بنیاد پر یاد کریں، یاد رکھیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں،

( رَبَّنا وَ أَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتي‏ وَعَدْتَهُمْ وَ مَنْ صَلَحَ‏ مِنْ آبائِهِمْ وَ أَزْواجِهِمْ وَ ذُرِّيَّاتِهِم‏ ) (۱۹۲)

نہ صرف اہل ایمان کیلئے فرشتہ دعا کر رہے ہیں بلکہ و من صلح من ابائ ہم و ذر یات ہم؛ ان کے آبا و اجداد کو بھی جنت میں داخل فرما، ان کی بھی بخشش کر دے ان کی اولاد کی بھی بخشش کردے۔ فرشتوں کی دعا تمام مومنین کیلئے ہے، مومنین کے آبا و اجداد کیلئے بھی ہے خود مومنین کیلئے بھی ہے اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی ہے کہ ایمان کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے۔اور کبھی بھی اس سلسلے میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔

( الَّذينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ‏ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذينَ آمَنُوا، ) (۱۹۳)

حاملان عرش خدا کی تسبیح کرتے ہیں، خدا پر ایمان لے آتے ہیں، ویستغفرون للذین آمنو؛ اور اہل ایمان کیلئے بخشش کی اور استغفار کی دعا کرتے ہیں، بار الہا اہل ایمان کو بخش دے، ان کے پاس خواہشات بھی ہیں، بسااوقات یہ ہوتا ہے کہ خواہشات کی وجہ سے ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے ، برکت ایمان کی وجہ سے انہیں بخش دے۔ ایمان ایک عظیم رشتہ ہے ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور تمام اہل ایمان کیلئے دعا کرتے رہنی چاہیی اور یقین رکھنا چاہیے کہ جتنا ہم دوسروں کے حق میں دعا کریں گے وہی دعائیں ہمارے لیے مستجاب ہوں گی اور یقینی طور پر مستجاب ہوں گی۔

امام حسینؑ کو عرفات کے میدان میں یہی کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ آپ آنسو بہاتے ہوئے تمام عالم اسلام کیلئے دعا کرے تھے، امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے عرفہ اسی منظر کی حامل تھی۔ ان تمام بزرگان کی سیرت یہی ہے کہ خودسے بڑہ کر دوسروں کیلئے دعا کی جائے کیونکہ دوسروں کی دعا اپنے حق میں مستجاب ہوتی ہے۔ آئیے سب مل کر اہل اسلام کی مشکلات کے حل کیلئے دعا کریں کہ خالق کائنات اسلام کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور ہمارے ایمانی رشتوں کو مضبوط سے مضبوط بنائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

نماز قائم کرنے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( رَبِّ اجْعَلْني‏ مُقيمَ‏ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاء ) (۱۹۴)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ نماز قائم کرنے کی دعا ہے۔

نماز، عبد اور معبود کا رشتہ قائم کرتی ہے۔ اور انسان کو اس لم یزل و لایزال اور قادر مطلق سے ملا دیتی ہے جس سے بڑہ کر کوئی اور قدرت ہے ہی نہیں، عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر خالق کائنات نے انسانوں کو پیدا ہی کیوں کیا ہے، ہر شخص اپنی زندگی کے مختلف پیش آنے والے موڑ پر یہ سوال کرتا ہے کہ آخر خدا نے مجھے بنایا ہی کیوں ہے؟پھر جب قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے

( و وَ ماخَلَقْتُ‏ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُون ) (۱۹۵)

میں نے انسانوں اورجنوں کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی عبادت کیلئے، پھر یہ سوال کیا جاتے ہے کہ ہماری عبادت کی خدا کو ضرورت ہی کیا ہے؟جب وہ صمد ہے، بے نیاز ہےاس کو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہماری عبادات سے اس کی ربوبیت میں ایک ذرہ بھی اضافہ نہیں ہوگا، ہم سب کے مشرک بن جانے سے اس کی ربوبیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئےگی، پھر اس کی عبادت کریں ہی کیوں؟ اس کو کیا ضرورت ہے؟اس کی اگر ہم مثال پیش کرنا چاہیں تو اس طرح ہے کہ ایک شخص اپنے گھر کی خریدار کرنے کیلئے برتن خریدنے کیلئے خاص طور پر گلاس خریدنے کیلئے، خاص طور پر شیشہ کا گلاس، جاتا ہے دکان پر، مارکیٹ وہاں کیونکہ عام طور پر گلاسوں کو الٹا کر کے رکھا جاتا ہے تا کہ ان میں میل اور دہول نہ پڑے ، اب اگر کوئی شخص جیسے گلاس پڑے ہوں ان کو ایسے ہی اٹھائے اور اشکال کرنا شروع کر دے ارے بھائی یہ کیسا گلاس ہے یہ تو اوپر سے بند ہے اور پھر یہ تو نیچے سے کھلا ہوا ہے اس میں ایک تو پانی یا شربت ڈالیں گے کیسے اور اگر ڈال بھی لیا تو وہ اس میں رکے گا کیسے؟ اس ہی لمحہ دکاندار آکر اس گلاس کو سیدھا کر کے دکھائے کہ جناب اس کو ایسا کر کے دیکھو، اب تمہارے ہاں کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا اس میں پانی یا شربت ڈالا بھی جا سکتا ہے اور پھر وہ چیز اس میں رکے بھی گی، بہے گی نہیں، یہ ہم مسائل کو الٹا کرکے دیکھتے ہیں اس لیے سوال کرتے ہیں یا اشکال کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب خدا نے ہمیں عبادت کا حکم دیا ہے تو کوئی اسی کا ہی فائدہ ہے،اگر اس بات کو اس نگاہ سے دیکھیں، اس مطلب کو اس زاویہ دید سے دیکھیں کہ اس کا فائدہ نہیں ہے ہمارا فائدہ ہے۔اس نے جو عبادت کیلئے پیدا کیا ہے یہ نہیں ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں تو اس کو فائدہ پہنچے گا، نہیں وہ بے نیاز ہے وہ صمد ہے اس کو کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس نے کائنات کو پیدا کیا ہے تو اپنے فضل کا اظہار کرنے کیلئے، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ذرہ برابر بھی نہیں ہے ، عبادات سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے۔

نماز اور خود شناسی

یہ عبادتیں ہمیں اپنی شخصیت کو پہچاننے میں مدد دیتی ہیں یہ عبادات در حقیقت ہمارے لیے خود شناسی کا درس ہیں۔ عبادتوں کے سائے میں انسان اپنی حقیقت کو پہچان سکتا ہے کہ میں کیا ہوں، اس حقیقت کی تلاش میں لوگ بھٹکتے پھرتے ہیں، آج ہمارے ہاں جوانوں میں جو سب سے بڑا بحران نظر آتا ہے وہ یہی کہ وہ اس حقیقت کی تلاش میں بھٹک جاتے ہیں کبھی جا کر منشیات میں نشہ آور چیزوں میں پناہ لیتے ہیں، منشیات میں اپنے آپ کو سکون میں محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری تمام پریشانیوں کا حل منشیات میں ہے، کبھی جھوٹے عرفانوں کی طرف چلے جاتے ہیں کبھی جادو اور پتا نہیں کیسے کیسے مکاتب کی طرف چلے جاتے ہیں، لیکن جو انسان خدا سے مانوس ہو جس کا لنک خدا سے برقرار ہو جائے، اس کو پھر کوئی پریشانی نہیں رہتی، اور نماز کا سب سے بڑا اہم فلسفہ یہی ہے کہ نماز انسان کو اطمینان اور سکون اور آرامش فراہم کرتی ہے۔جو انسانوں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ سکون میسر ہو، کوئی دولت کے پیچھے دوڑ رہا ہے کہ سکون میسر ہو، لیکن جتنی دولت آ رہی ہے اتنا ہی بے آرامی میں اضافہ ہو رہا ہے، کوئی سکون میسر نہیں ہو رہا۔ انسان مختلف چیزوں کے پیچھے دوڑتا ہے کہ سکون میسر ہو، لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو سراب تھا، اس میں تو کوئی حقیقت نہیں تھی اس میں تو ذرہ برابر کا فائدہ نہیں تھا کوئی آرامش اور کوئی سکون نہیں تھا، اصلی سکون اور اطمینان ذکر الہی میں ہے، انسان اگر تو اپنے مستقبل سے پریشان ہے اگر ماضی کی غلطیاں تمہیں پریشان کرتی ہیں، اگر گزشتہ گناہ تمہارے ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں، ان سب کا حل ذکر الہی میں ہے۔ تو اپنے آپ کو متصل کر دے اس ذات لم یزل و لا یزال سے ، اس قادر مطلق سے وہ تمہیں سکون عطا فرمائے گا، وہ قادر ہے کہ تمہاری گزشتہ غلطیوں کو بخش، دے وہ قادر ہے تمہاری تمام پریشانیوں کو دور کر دے، وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے مستقبل کو تمہارے حق میں تبدیل کر دے، وہ قادر ہے کہ تمہاری تقدیر کو بدل دے، اس منبع اور سرچشمہ سے اگر انسان مل جائےتو اس کو سکون ہی سکون میسر ہوگا۔

نماز اور اطمینان

آخر کیا بات ہے انبیاء اور آئمہ علیہ السلام اور اولیائے الہی کی زندگی پر اگر نظر کرتے ہیں تو ہمیں اتنا سکون اور اطمینان نظر آتا ہے، پوری دنیا ان کی مخالف ہے، ان کو یہ اطمینان یہاں سے ملتا ہے جب وہ متصل ہو جاتے ہیں اس ذات سے تو اپنے آپ کو اطمینان میں محسوس کرتے ہیں، سکون میں محسوس کرتے ہیں، یہ وہی بات ہے جس کی طرف قرآن مجید ہمیں متوجہ کر رہا ہے۔ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے اقم الصلاہ لذکری؛ نماز قائم کرو میری یاد کیلئے، یہ نماز در حقیقت یاد خدا ہے۔ انبیا علیہ السلام کے اطمینان کا سبب یہی تھا وہ یاد خدا میں مصروف رہا کرتے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو متصل کر دیا تھا اس منبع سے اس ذات سے۔اس لیے ان کی زندگی میں اطمینان نظر آتا ہے، ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:( وَ أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْري ) (۱۹۶)

میری یاد قائم کرنے کیلئے نماز پڑہو، یہ نماز ذکر خدا ہے۔ اور جب انسان خدا کا ذاکر بنتا ہے تو اس کا اس کو صلہ یہ ملتا ہے فائدہ یہ ملتا ہے کہ

( الَّذينَ آمَنُوا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب ) (۱۹۷)

یاد الہی سے ذکر خدا سے دلوں کو قلوب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ ان کے سکون کا سبب یہی ذکر الہی تھا، آخر ان کے اندر کتنا یقین پایا جاتا تھا، سب طاقتیں ان کے خلاف جمع ہو جائیں شکایت لے کر آجائیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب ابوطالب کے پاس کہ آپ کا بھتیجا اپنی دعوت سے دستبردار ہو جائے جو چاہے گا ہم اس کو دے دیں گے، لالچ بھی دیا ڈرایا، دھمکایا بھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑے اطمینان سے کہنے لگے کہ جن چیزوں کی یہ پیشکش کر رہے ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں، اگر یہ چاند اور سورج کو میرے ہاتھوں پر لاکر رکھ دیں تو بھی میں اپنی دعوت سے دست بردار ہونے والا نہیں ہوں، اتنا یقین انہیں خدا کی ذات پر ہے، اس ذات سے رابطہ کی وجہ سے، انہیں پتا ہے کہ اگر وہ نہ چاہے تو یہ سب مل کر بھی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اس لیے اولیائے الہی کی سب سے بڑی مدد ان کا بڑا سرمایہ اور خزانہ اور طاقت یاد خدا، ذکر الہی ہے۔اس ذکر کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہیں، اس ذکی کی وجہ وہ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتے ہیں کسی سے ڈرتے نہیں ہے،

( لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون‏، ) (۱۹۸)

نہ ڈرتے ہیں نہ خوف کھاتے ہیں نہ انہیں کوئی غم اور اندوہ ہوتا ہے، یہ یاد خدا کی وجہ سے ہے۔

نماز کے آثار

اور نماز بہترین یاد خدا ہے، جس کو معراج مومن کہا گیا ہے، جس کو عمود الدین کہا گیا ہے ، مظہر یاد خدا ہے۔امام خمینی ؒ کی تعبیر کے مطابق نماز، انسان سازی کا کارخانہ ہے، یعنی جو نماز پڑہتا ہے وہ انسان بن سکتا ہے، یہ نماز انسان کو ہر چیز کی طرف متوجہ کرتی ہے، اس کو طہارت بھی دیتی ہے اس کو زمان شناس بھی بناتی ہے وقت کو پہچاننے والا بھی بنا دیتی ہے وہ مکان کی بھی معلومات بھی حاصل کرتا ہے وہ اپنی اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے، یہ نماز کی برکات ہیں، کیا قرآن مجید یہ ارشاد نہیں فرما رہا ہے،( إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَر ) (۱۹۹)

نماز ہے جو انسان کو برائیوں اور بے حیائوں سے بچاتی ہے، جب نماز میں اس ذات پاک و پاکیزہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے یہ عمل جو قربہ الی اللہ انجام دیتا ہے۔ یہ خدا کا تقرب کوئی زمانی تقرب تو نہیں ہے کوئی مکانی تقرب تو نہیں ہے، ایسا تو نہیں ہے کہ خدا کسی معین جگہ پر ہے ہم اس کے قریب یا نزدیک ہو رہے ہیں، یہ تقرب معنوی تقرب ہے،

( صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَة؛ ) (۲۰۰)

خدا کے رنگ میں رنگ جائو، خدا کے رنگ سے بڑہ کر کس کا رنگ ہو سکتا ہے، یہ تقرب الہی خدا کے رنگ میں انسان کو رنگ دیتا ہے۔ انسان کو کوئی پریشانی نہیں رہتی، یہ انسان خدا کے رنگ سے رنگ جائے گا تو ہر رنگ سے بیزار ہو جائے گا، اس کو کوئی چیز دھوکا نہیں دے سکی گی۔ شیطان اس کو فریب نہیں دے سکے گا، شیطان اس کے سامنے باطل کو حق نما بنا کر پیش نہیں کر سکے گا، گناہوں کو اچھا بنا کر پیش نہیں کر سکے گا، چیزوں کو اس طرح دیکھ سکے گا جس طرح ان کی حقیقت ہے۔ آئمہ علیہ السلام گناہ کیوں نہیں کرتے، قدرت ہونے کے باوجود گناہ نہیں کرتے، وہ معرفت کے اس درجہ پر ہے جہاں گناہ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔

انبیاء اور نماز

انبیاء با وجود اس کے کہ نماز گزار تھے، نماز قائم کرنے والے تھے، پھر بھی دعا مانگ رہے ہیں، حضرت ابراہیمؑ کی دعا رب اجعلنی مقیم الصلاة و من ذریتی؛ بار الہا مجھے نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما اور میری اولاد کو بھی،یعنی یہ چیز اتنی اہم ہے کہ حضرت ابراہیمؑ دعا مانگ رہے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ و اوصانی ما دمت حیا؛ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ نماز پڑہو جب تک زندہ ہو، یہ نماز ایسا نہیں ہے کہ صرف اس دین میں ہو جو ہمارے پاس ہے بلکہ یہ تمام ادیان میں ہیں، یہ انبیا نے نماز ادا کی ہے، یاد خدا کے سائے میں اس عظیم عبادت بجا لائے ہیں، یاد خدا ہے اور اس دعا میں انسان صرف اپنے آپ کو مد نظر نہ رکھے، وہ نماز پڑہنے والے تھے پھر بھی دعا کر رہے تھے کہ خدا ان کی یہ توفیق باقی رکھے، اور اس دعا میں اپنے بچوں کو بھی شامل کیا، ومن ذریتی میری اولاد کو بھی نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما۔

حضرت ابراہیمؑ کی دعائوں میں دو ہی جگہوں پر من ذریتی کا لفظ ملتا ہے ایک جب نماز کی دعا کر رہے ہیں رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی؛ دوسرا جب امامت کی بات کر رہے ہیں

( وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمين ) (۲۰۱)

جب خدا نے حضرت ابراہیم سے امتحان لینے کے بعد انہیں امامت کا رتبہ عطا کیا تو حضرت نے دعا کی ہے بار الہا یہ عھدہ میری اولاد کو بھی عطا فرما، من ذریتی کا تذکرہ دو مرتبہ کیا ہے ایک امامت کے عطا ہوتے وقت، اور دوسرا نماز کی دعا کرتے وقت، یعنی امامت اور نماز کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اور اس تعلق کو خداوند متعال اس طرح بیان کر رہا ہے کہ آئمہ کی بہترین صفت یہی ہے کہ وہ خدا کے ایسے بندے ہیں

( الَّذينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ‏ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاة، ) (۲۰۲)

وہ اللہ کے ایسے بندے ہیں کہ جب بھی انہیں خدا قدرت دیتا ہے، طاقت دیتا ہے، زمیں میں اپنا حاکم بناتا ہے تو ان کی پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ نماز قائم کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں کہالصلاة قرة عینی؛ (۲۰۳)

نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، امام علی ارشاد فرما رہے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز ادا کرنا ایسا ہے کہ ایک انسان کسی گرم چشمہ میں پانچ مرتبہ دن میں نہائے تو کیا اس کے جسم پر پھر بھی کوئی میل کچیل باقی رہے گی۔(۲۰۴)

یہ پانچ وقت کی نماز انسان کو اس طرح گناہوں سے پاک اور صاف بنادیتی ہے یہ گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتی ہے، گرا دیتی ہے ختم کر دیتی ہے جیسے خزاں درخت کے پتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ نماز یاد خدا ہے، ذکر خدا ہے، خدا سے متصل ہونا ہے، اور اگر کوئی انسان خدا کی یاد میں مشغول نہیں رہتا تو

( وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْري فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنْكا ) (۲۰۸)

اس دنیا میں اس کو پریشانیوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے، سب چیزیں ہوتے ہوئے بھی وہ سکون محسوس نہیں کرتا، عظیم سرمایہ انسانیت کا وہی سکون ہے، اطمینان ہے، یہ دنیوی چیزوں سے نہیں ملتا مادی چیزوں سے نہیں ملتا، معنوی چیزوں سے اور یاد خدا سے ہی یہ خزانہ انسان کو مل سکتا ہے۔ پھر کوئی بھی چیز اسے پریشان نہیں کر سکتی۔

نماز نہ پڑہنے کا عذاب

کل قیامت میں جو چیز انسان کو جہنم لے جائے گی ان میں سے ایک چیز نماز کا نہ پڑہنا ہے، سورہ مدثر میں ارشا ہو رہا ہے کہ مجرمین سے سوال کیا جائے گا

( ما سَلَكَكُمْ في‏ سَقَرَ قالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ) (۲۰۹)

کونسی چیز تمہیں جہنم میں لی آئے ہے ان کا جواب یہ ہوگا ہم نماز نہیں پڑہتے تھے، نماز نہ پڑہنے کی وجہ سے آخرت کا عذاب ملےگا۔ ہم متوجہ ہی نہیں ہوتے کہ کہ اس دنیا میں کتنے عذاب ہیں، خدا حدیث قدسی میں فرماتا ہے سب سے بڑا عذاب جو میں اس دنیا میں اپنے نافرمان بندوں کو دیتا ہوں وہ یہی کہ اپنے ذکر کی حلاوت اور شیرینی اور مٹھاس چھین لیتا ہوں، بہت بڑا عذاب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں یاد خدا میں مٹھاس محسوس نہ کرے، ہم نماز پڑہیں تو ہمیں بوریت محسوس ہو، تلاوت قرآن میں دل نہ لگے۔ لیکن گناہ کی محفل کی طرف جلدی جائیں، یہ عذاب ہے۔خدا جس کو دوست رکھتا ہے جس کو چاہتا ہے اس کو اپنے ذکر کی توفیق عطا فرماتا ہے۔

نماز حلال مشکلات

اور یہی نماز ہے جو اس دنیا میں حلال مشکلات ہے۔ خود قرآ ن مجید واضح طور پر یہ ارشاد فرماتا ہے

( وَ اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ وَ إِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخاشِعين ) (۲۰۱)

نماز سے مدد لو، صبر سے مدد لو، یہ نماز اور صبر تمہاری مشکلات کو حل کر سکتے ہیں،نماز بہت گراں ہے سوائے ان کے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں، وہی قائم کر سکتے ہیں، نماز حلال مشکلات ہے۔امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں وہ مشکل میرے لیے مشکل نہیں ہے جس سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑہنے کی فرصت مل جائے۔یہ نماز انسان کی زندگی کو اس طرح بدل کر رکھ دیتی ہے، نماز خود شناسی کا درس دیتی ہے۔حقوق کو پہچاننے کا درس دیتی ہے، انسان ذات خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اپنی معرفت حاصل کرتا ہے۔

اگرچہ انبیا کا اصلی مقصد دین کو قائم کرنا تھالیکن جیسا کہ آپ نے انبیا کی دعائوں میں ملاحظہ کیا

( رب اجعلنی مقیم الصلاة؛ و اوصانی بالصلاة ما دمت حیا، کان یامر اهله بالصلاة ؛ )

وہ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتا تھا، ان تمام فرمایشات سے ایسا لگتا ہے کہ نماز دین کا چہرہ اور اصلی ستون ہے کہ انبیا جو دین کو قائم کرنے آئے تھے انہوں نے نماز کی اتنی تاکید کی ہے، نماز اصل اور اساس دین ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر نماز قبول ہوجائے تو تمام عبادات قبول ہیں، اور اگر نماز رد ہو جائے تو کوئی عبادت قبول نہیں ہے۔(۲۰۲)

نماز وہ ذریعہ ہے جو مخلوق کو خالق تک پہنچا دیتا ہے، آئمہ کی زندگی میں ملتا ہے کہ رات کو کتنی نمازیں پڑہتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتنی نمازیں پڑہا کرتے تھے خاص طور پر رات کے وقت تو ان کو حکم دیا گیا ہے کہ رات کو نماز تہجد پڑہا کرو،

( عَسى‏ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً مَحْمُودا ) (۲۰۳)

وہ مقام محمود وہ مقام شفاعت، امت کی شفاعت کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نماز شب کے بدلہ میں دیا جا رہا ہے، یہ نماز شب انسان کو عظیم مراتب تک پہنچا سکتی ہے۔ آئمہ کا ہزار ہزار سجدے کرنا اسی بنیاد پر تھا کہ مقامات اسی نماز کے بدلہ میں ملتے ہیں۔ یاد خدا اور ذکر الہی کے سائے میں ملتے ہیں، انسان جب تک اس منبع سے متصل رہے گا اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔

امام حسینؑ کی اگر دعائے عرفہ کو ہم دیکھیں جس میں امام نے ارشاد فرمایا کہ خدایا جسے تو مل گیا اسے کیا کچھ نہیں ملا اور جسے تو نہیں ملا اسے ملا ہی کیا ہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس خدا ہے تو اس کے پاس سب کچھ ہےاگر کسی کے پاس خدا نہیں تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔یہ نماز خدا سے رابطہ رکھنے کا نام ہے۔ نماز انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے، گناہوں سے دور کرتی ہے۔

بعض اوقات ہمیں دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ افراد نماز بھی پڑہتے ہیں اور پھر نماز بھی پڑہتے رہتے ہیں تو پھر قرآن نے یہ کیوں فرمایا کہ ان الصلاہ۔۔ نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے حقیقی معنی میں نماز قائم نہیں کی ہے، انہوں نے ان شرائط اور آداب کا خیال نہیں رکھا جن کی بنیاد پر، نماز نماز بنتی ہے اور دوسرا یہ کہ نماز نے پھر بھی انہیں بہت سارے گناہوں سے بچایا ہوا ہے اگر یہ نماز بھی نہ پڑہتے تو پتا نہیں ان کی حالت کیا ہوتی، نماز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے، ذاکر خدا بناتی ہے، اور انسان اگر ذکرخدا کرنے لگے تو خدا اس کا ذکر کرتا ہے فاذکرونی اذکرکم تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا، آئیے ہم مل کر یہ دعا کریں رب اجعلنی مقیم الصلاہ و من ذریتی بار الہا ہمیں اور ہماری اولاد کو نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

اہل مکہ کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ إِذْ قالَ إِبْراهيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَ اجْنُبْني‏ وَ بَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ ) (۲۰۴)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج اہل مکہ کیلئے دعا کو پیش کرنا ہے۔

خالق کائنات پاک اور پاکیزہ ہے وہ احد ہے، وہ واحد ہے، اس جیسی کوئی ذات نہیں ہے، وہ بے مثل اور بے مثال ہے کسی کا محتاج نہیں ہے، وہ صمد اور بے نیاز ہے، اس کے علاوہ ہر کوئی اس کا محتاج ہے، وہ مکان اور زمان کی قیود سے بالاتر ہے مکان اور زمان اس کیلئے قید نہیں بن سکتے۔ اس کے باوجود خالق کائنات نے اپنے فضل اور کرم سے اس جہان کو بنایا، اس کائنات کو پیدا کیا، زمین کا فرش بچھایا، آسمان کا شامیانہ لگایا، چاند اور ستاروں جیسے قندیل بنائے، اور دریائوں میں روانی پیدا کی، یہ کہکشاں پورا بنایا، اپنے فضل و کرم کا اظہار کرنے کیلئے۔ اپنے بندوں کو اپنے قریب کرنے کیلئے مختلف وسائل پیدا کیے، اپنے قرب تک راستہ دکھانے کیلئے مختلف عبادتوں کو واجب قرار دیا، ان میں سے اہم ترین عبادت بیت اللہ کعبۃ اللہ کی زیارت ہے۔

کعبۃ اللہ اور مسلمانوں کی وحدت

مکہ کی زیارت ہے۔ اگرچہ وہ مکان سے پاک ہے منزہ ہے، لیکن اپنے بندوں کو متحد کرنے کیلئے انہیں ایک جہت دینے کیلئے انہیں ایک مرکز بنا کر دینے کیلئے اس نے کعبہ اللہ کو اپنا مرکز بنایا۔اور زمین کو اس طرح بنایا کہ اس کا پہلا نقطہ وہ جگہ ہے جہاں کعبہ اللہ ہے۔ پہلا نقطہ زمین کا کعبہ اللہ ہے

( وَ الْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحاها، ) (۲۰۵)

اس کے بعد زمین کو پھیلایا گیا، زمین کا مرکز کعبت اللہ ہے، اللہ نے اسی جگہ کو اپنا گھر قرار دیا اور اسی اپنی طرف نسبت دی، یہ بیت، دوسرے بیوت کی طرح نہیں ہے جس میں صاحب بیت آکر وہاں رہے وہ تو پاک و منزہ رہے لیکن انسانوں کو ایک مرکز دینے کیلئے اس نے اپنا گھر کہا، جس میں سیکڑوں انبیا نے نمازیں پڑہیں ذکر خدا کیا یاد خدا کی اور کتنے ہی انبیا وہاں پر مدفوں ہیں، انسان جب اس گھر کی زیارت کو جاتا ہے تو گویا محسنوں کو سلامی پیش کرنے کیلئے جاتا ہے۔ انبیا جو وہاں مدفون ہیں وہاں مقام ابراہیم ہے جہاں پر ابراہیم اور اسماعیل اور جناب حاجرہ اور جتنے انبیا مدفون ہیں ان کو سلامی کیلئے جاتا ہے کہ ان کی محنت کی وجہ سے آج دنیا میں توحید کی تعلیمات عام ہیں۔ یہ ان کی محنت کا صلہ ہے یہ ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ذکر خدا باقی ہے،یاد خدا باقی ہے، اللہ کی بندگی کی جا رہی ہے،یہ سب ان انبیا کی محنت کا نتیجہ ہے، یہ سب نتیجہ ہے اس دعا کا جو حضرت ابراہیم نے کی تھی، حضرت ابراہیم نے خصوصی طور پر دعا کی اور وہ وقت کرو جب ابراہیم نے دعا کی کہ بار الہا اس بلد کو امن و امان کا گہوارا بنا دے۔ یہاں امنیت قائم ہو، مجھے اور میری اولاد کو بچا اس چیز سے کہ ہم بتوں کی عبادت کرنے لگیں بت پرستی میں مبتلا ہو جائیں، ابراہیم نے خصوصی طور پر مکہ کیلئے دعا کی ہے اس کی امنیت کیلئے اور خالق کائنات کی نگاہ میں وہ جگہ اتنی بابرکت ہے اتنی مقدس ہے کہ اس کی قسم اٹھا رہا ہے،

( وَ هذَا الْبَلَدِ الْأَمين‏، ) (۲۰۶)

اور اے رسول مجھے قسم ہے اس مبارک شہر کا، یہ خدا کو اتنا پسند ہے، اور ارشاد فرمایا:

( إِنَّ أَوَّلَ‏ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذي بِبَكَّةَ مُبارَكاً وَ هُدىً لِلْعالَمين‏؛ ) (۲۰۷)

سب سے پہلا گھر روئے زمین پر وہی ہے جو مکہ میں ہے جس کو خداوند متعال نے مبارک قرار دیا ہے، جس کو مرکز ہدایت بنایا ہے، وہ جگہ جو انبیا کا مرکز رہی ہے، وہ جگہ جو خاتم الانبیا و المرسلین کی بعثت کا مرکز ہے، وہ جگہ جہاں پر وحی الہی نازل ہوئی ہے، وہ جگہ جو نور وحی سے منور ہے، جو سجود انبیا سے متبرک ہے، وہ جگہ جو اسلام کی نشانی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا یہ دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کعبہ باقی ہے، کعبہ اسلام کی نشانی ہے(۲۰۸)

اسلام کی بقا کا سبب ہے، اس لیے فقہی احکام میں بھی ہم یہی پڑہتے ہیں اگر خدا نخواستہ کوئی ایسا زمانہ آجائے کہ جب بیت اللہ کے زوار کم ہوجائیں ،اگرچہ ایسا ہوگا نہیں خالق نے تمام ایمان والوں کی دلوں میں اس کی محبت ڈال دی ہے۔ ہر کوئی خواہش رکھتا ہے اور نہیں تو زندگی میں ایک بار خالق کائنات اسے اس گھر کی زیارت نصیب فرمائے، وہ وہاں طواف کرے جہاں انبیا طواف کر چکے ہیں، اس جگہ پر جا کر سجدہ کرے جو مسجود آئمہ و انبیا تھی۔ اگر کوئی زمانہ ہو کہ کعبہ خالی ہوجائے تو حاکم اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المال کے پیسوں پر لوگوں کو بھیجے بیت اللہ خالی نہ ہونے پائے؛(۲۰۹)

کیونکہ وہ اسلام کی نشانی ہے۔اسلام کا سمبل ہے، کعبت اللہ کی یہ رونق حضرت ابراہیم کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔

یہ دعا قرآن مجید میں دو تین مرتبہ نقل ہوئی ہے کہ بار الہا اس گھر کو امن کا گہوارہ بنا دے،

( وَ ارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرات‏، ) (۲۱۰)

یہاں رہنے والوں کو، اہل مکہ کو، انواع و اقسام کے میوہ عطا فرما، امام باقر اسی آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ شرق اور غرب کا کوئی ایسا میوہ نہیں ہے جو مکہ میں دستیاب نہ ہو۔

کعبہ مکہ میں کیوں؟

اور یہ خدا کا عجیب امتحان ہے اگر وہ چاہتا تو اپنے گھر کو کسی سر سبز جگہ پر بنا سکتا تھا ایسی جگہ پر بناتا کہ جو دنیا میں مثال ہوتی لیکن خدا نے جب اپنا گھر بنایا تو ایک بنجر زمین پر بنایا۔ انتہائی گرم جگہ پر بنایا پہاڑوں کے درمیان، کوئی جذابیت نہیں ہے۔ البتہ معنوی کشش بہت ہی زیادہ ہے۔ایسی جگہ پر بنایا جہاں اگر انسان جائیں بھی تو خدا کا تقرب حاصل کرنے کیلئے جائے، وہاں زمین بنجر ہے، ابراہیم نے اسے کس طرح آباد کیا، ارشاد فرمایا

( رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ‏ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ بِوادٍ غَيْرِ ذي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِيُقيمُوا الصَّلاة رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ‏ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ بِوادٍ غَيْرِ ذي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِيُقيمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوي إِلَيْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ، ) (۲۱۱)

خدایا میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑے جا رہا ہوں تیرے گھر کے نزدیک یہاں پانی کا کوئی انتظام نہیں، کھانہ کا کوئی انتظام نہیں ہے، بنجر زمین ہے ،بے آب و گیاہ زمین ہے یہاں میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑے جا رہا ہوں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا توکل دیکھیے، ان کا خدا پر یقین دیکھیے۔ خدا نے حکم دیا تو ایسی جگہ پر چھوڑے جا رہے ہیں کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کے کھانے پینے کا کیا ہو گا، ان کی زندگی کیسے گذرے گی، مقصد کیا تھالیقیموا الصلا ةَ ۔ یہاں چھوڑے جا رہا ہوں تا کہ تیری نماز قائم ہو۔ اولیائے الہی کی تمام محنتوں کا محور اور مرکز نماز ہوا کرتی ہے، یہ سب جتنی قربانیاں دے رہا ہوں بار الہا لیقیمو الصلاہ، تیری نماز کیلئے، جب تیری نماز قائم ہوگی تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ پھر دعا مانگی، فاجعل افئدةَ من الناس ت ہو ی، بار الہا کچھ لوگوں کے دلوں کو مائل کر دے ان کی طرف لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دے ان کی، اولاد ابراہیم کی، ذریت ابراہیم کی۔ اتنے پاک و پاکیزہ ہیں کہ تمام انسان ان سے محبت نہیں کر سکتے بلکہ صرف وہ کریں گے جو باضمیر ہونگے، جن کی ولادت پاک ہو گی، وہ طاہر ہونگے، فاجعل افئدةَ من الناس ت ہو ی، اور یہاں بھی امام باقر کی روایت ہے کہ جس کیلئے حضرت ابراہیم نے دعا مانگی تھی کہ خدایا لوگوں کے دل کو مائل کر دے ان کی طرف، وہ ذریت ہم ہیں، ہماری محبت کو خدا نے اہل ایمان کے دلوں میں ڈال دیا ہے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اجر بنایا ہے

( قُلْ لاأَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّالْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ ،) (۲۱۲)

اور پھر حضرت ابراہیمؑ یہ دعا مانگ رہے ہیں کہوارقهم من الثمارت ، بار الہا انہیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کردے۔ ان کو ہر طرح کے پھل اور میوہ نصیب عطا فرمائے، آج کل ہم یہی دیکھتے ہیں کہ وہاں خدا کی ہر نعمت ہے، پوری دنیا کا مرکز ہے جہاں ابراہیم نے توحید کی آواز بلند کی تھی، اور جہاں سے خاتم الانبیا و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتوں کا صفایا کیا تھا، اس طرح علیؑ کو اپنے کاندہوں پر بلند کیا اور انہوں نے بتوں کو گرایا، یہ مرکز توحید ہے، یہ مرکز قیام ہے۔

کعبہ مرکز قیام

دوسری جگہ پر ارشاد رب العزہ ہو رہا ہے

( جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس‏، ) (۲۱۳)

خداوند متعال نے کعبت اللہ کو پاک اور پاکیزہ گھر بنایا ہے اور لوگوں کے قیام کا مرکز بنایا ہے۔کعبت اللہ توحید کی ندا ہے، توحید کیلئے قیام ہے۔یہاں اکیلے ابراہیم ہوتے ہوئے بھی اکیلے نہیں ہیں پوری امت اور لشکر ہیں خدا کا، نمرود کے پاس جتنا ساز و سامان ہے ابراہیم ڈرتے نہیں گھبراتے نہیں، توحید کے منادی ہیں، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ لوگ آئیں اس گھر کی زیارت کو آئیں۔

سید الشہدا حسین بن علی جب اپنے قیام کیلئے نکلتے ہیں مدینہ سے سب سے پہلے مکہ اور کعبت اللہ کا ارادہ کرتے ہیں قیاما للناس، کعبت اللہ قیام کا مرکز ہے، اپنے قیام کی دعوت اپنے قیام کا آغاز کعبت اللہ سے کرتے ہیں اور حجاج بیت اللہ کو یاد دلاتے ہیں کہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا کہ تم میں سے جو کوئی ایسے ظالم، فاسق اور فاجر حکمران کو دیکھے جو اللہ کے حلال کو حرام بنا رہا ہو، جو حرام الہی کو حلال بنا رہا ہو، اور پھر اس کے خلاف آواز نہ اٹھائے تو حق ہے کہ خدا اس کو بھی وہاں بھیج دے جہاں اس ظالم کو بھیجے۔کعبہ توحید کا مرکز ہے، وحدت اور اتحاد کا مرکز ہے۔ خداوند متعال نے اس گھر کو نشانی بنایا ہے۔

حج کے آثار

امام صادق علیہ السلام حکم دے رہے ہیں کہ خبردارلا تترکوا حج بیت ربکم فتهلکوا ،

کعبۃ اللہ کے حج کو ترک مت کرنا وگرنہ ہلاک ہو جائو گے حج۔ اسلام کی عظمت ہے، حج اسلام کی شان و شوکت ہے، پوری زمین میں ایسا حسین اجتماع کہاں پر ہوتا ہے کہ روئے زمیں سے ہر رنگ و نسل کے، ہر قوم اور قبیلے کے، ہر زبان کے، ہر علائقے کے لوگ جمع ہوں اور سب ملا کر ایک ہی صدا دیں لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک۔ سب توحید کی گواہی دیں، سب ایک ہی رنگ میں رنگ جائیں، تمام اختلافات کو بھلا دیں، زمان اور مکان کے اختلافات، رنگ اور نسل کے اختلافات، لسان اور قبیلوں کے اختلافات کو بھلا کر سب ایک ہی رشتہ میں جڑ جائیں مخلوق کا رشتہ خدا سے جو ہوتا ہے۔ اسلام کی شان و شوکت ہے حج، یہ ابراہیم کی دعائوں کا نتیجہ ہے جو ابراہیم نے یہ دعائیں کی تھیں، کہ بار الہا اس کو امن کا گہواراہ بنا دے، حج بیت اللہ کے کتنے ہی فوائد ہیں۔

امام باقر نے ارشاد فرمایا :الحج تسکین للقلوب ،(۲۱۴)

حج، دلوں کی تسکین کا سبب ہے۔ انسان خانہ خدا کی زیارت کو جائے، سرزمین وحی کو دیکھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان مقدس نشانات کو دیکھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضے کی زیارت کرے۔ کعبت اللہ کا طواف کرے، اس جگہ سعی کرے جہاں پر ایک مومنہ نے خدا کے نبی کی جان بچانے کیلئے سعی کی تھی صفا و مروہ کے درمیان، یہ ان کی نشانیوں کو باقی رکھنے کیلئے حکم دیا گیا ہے کہ ان کی قربانیوں کو باقی رکھا جائے۔ جنہوں نے دین خدا کیلئے قربانیاں دیں، جنہوں نے خدا کے نام کو باقی رکھنے کیلئے قربانی دی ان کو یاد کو رکھا جائے، آج حسین بن علی (ع) کی یاد کو اسی لیے باقی رکھا جا رہا ہے کہ اس نے لا ال ہ الا اللہ ک ی بنا رکھی، اور اپنے خون سے اسے نقش کیا، یہ گھر کتنی عظمتوں والا گھر ہے، جس کی معماری حضرت ابراہیم اور اسماعیل کریں، جن کو خدا نے حکم دیا کہ طہرا بیتی میرے گھر کو پاکیزہ بنائو طواف کرنے والوں کیلئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے، اور خداوند متعال نے خصوصی مغفرت کا سبب بنایا ہے حج بیت اللہ کو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ماہ مبارک رمضان کے فضائل بیان کیے تو ارشاد فرمایا لوگو بدبخت ہے وہ انسان جو اس رحمتوں کے مہینے میں اس برکتوں کے مہینے میں اپنی مغفرت نہ کرا سکے، اپنے آپ کو بخشوا نہ سکے، ماہ مبارک رمضان وہ مہینہ ہے جب خالق کائنات جنت کے دروازوں کو کھول دیتا ہے، جہنم کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے، شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ایک ایک عمل کے خداوند متعال ستر ستر ثواب عطا کرتا ہے۔ جس میں خالق کائنات سانس لینے کو تسبیح کا درجہ دیتا ہے اور سونے کو عبادت کا درجہ دیتا ہے، اس میں اگر انسان اپنے آپ کو بخشوا نہ سکے تو فرمایا پھر وہ کہیں بھی بخشا نہیں جائے گا، ہاں ایک جگہ ہے جہاں وہ بخشا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ۹ ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں حاضر ہو۔(۲۱۵)

سب انسانوں کی طرح ایک لباس پہنے ہوے، لبیک الل ہم لب یک کہتے ہوے نظر آئے، بخشش کا وہی ایک ذریعہ ہے۔ انسان جتنا خدا کے سامنے جھکے گا دنیا کی زینتوں کو چھوڑ دے گا انواع اور اقسام کے مختلف رنگوں کے لباس کو اتار کر ایک رنگ کے لباس میں بغیر سلائی کے لباس میں آجائے، اپنی ولادت کو بھی یاد کرے اپنے مرنے کو بھی یاد کرے، خدا کے سامنے اس طرح آہ و زاری کرے، گریہ و بکا کرے، یہ خداوند متعال کو بہت پسند ہے اور خالق کائنات اس کی مغفرت کردیتا ہے۔

خدا نے کس طرح جناب ابراہیم کی دعا کو قبول کرتے ہوے اس گھر کو امن کہوارا بنایا وہاں کسی کو حق کو نہیں ہے کہ کسی کو ذرہ برابر تکلیف پہنچائے چاہے وہ انسان ہے یا جانور اور پودے، امن امان کی جگہ ہے کعبت اللہ، جناب ابراہیم علیہ السلام کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ آج خدا نے مسلمانوں کو وہ شان و شوکت عطا کیا ہے۔ کاش مسلمان اس کے قدر دان بنیں۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

نیک نامی کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ اجْعَلْ لي‏ لِسانَ‏ صِدْقٍ فِي الْآخِرين‏، ) (۲۱۶)

مومنین کرام آج نیک نامی کی دعا کو پیش کرناہے۔

ایک بہت بڑا سوال جو انبیا علیہ السلام اور آئمہ، اولیائے خدا کے بارے میں کیا جاتا ہے وہ یہ کہ آخر ان کو اس دنیا میں کیا ملا؟ انبیا علیہ السلام آئے، انہوں نے توحید کی دعوت دی، طاغوت کا انکار کیا، ظالم فاسق اور فاجر حکمرانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن کیا ہوا؟اتنے سارے انبیا شہید کر دئے گئے، اتنے عجیب و غریب طریقوں سے انہیں شہید کیا گیا کہ آج بھی اگر انسان ان کا ذکر سنتا ہے تو احساس وحشت کرتا ہے، آخر راہ حق پر چلنے والوں کو اس دنیا میں ملنا کیا ہے؟ بعض اوقات ہمیں یہ دیکھنے کو آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شیطان اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے، اس نے جو پہلے دن سے قسم کھائی تھی، کہ

( قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ‏ أَجْمَعين ) (۲۱۷)

اس نے کہا: الہی تیری عزت کی قسم! میں سب کو گمراہ کردوں گا۔

آپ پوری تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ایسا ہی نظر آئے گا کہ اکثریت ہمیشہ شیطانی کارندوں کی رہی ہےاکثریت ہمیشہ حق کے خلاف نظر آئے گی، اکثریت ہمیشہ گناہگاروں کی نظر آئے گی، اکثریت باطل پرستوں کی نظر آئے گی، تو کیا خدا نعوذ الل ہ من ذالک ناکام ہو گ یا؟! کیا ابلیس کامیاب ہو گیا، خدا کے ماننے والوں کو کیا ملا؟ پریشانیاں، مشکلات، ان کو ہجرتیں کرنا پڑیں، جلا وطن ہونا پڑا، گھروں کو چھوڑنا پڑا، اقوام کو چھوڑنا پڑا، بچوں کو بے آب صحرا میں چھوڑ آئے، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم نے کہا کہ ربنا انی اسکنت ۔۔ محرم، بار الہا میں اپنے بچوں کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑے جا رہا ہوں ، حق والوں کو کیا ملا؟ انہیں کبھی آتش میں کودنا پڑا، کبھی ان کا سر قلم کر کے زانیوں کو ہدیہ کیا گیا، اس دنیا میں خالق کائنات اپنے اولیا کو کیا دیتا ہے؟ یہ اصلی سوال ہے ہمارا؟ کیا ملا انہیں؟

نیک انسانوں کا دنیوی صلہ

آئیے قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ان کو کیا ملا؟ انہوں نے کیا دعا کی اور خداوند متعال نے انہیں کن انعامات اور اکرامات سے نوازا۔ یہ ابراہیم کی دعا ہے

( واجعل لی لسان صدق فی الآخرین، )

باری الہا آنے والی نسلوں میں میرا نام باقی رہے، مجھے نیک نامی عطا فرما۔

اب ہم دعوت فکر دے رہے ہیں، آپ تمام اس موضوع پر غور و فکر کیجیے۔ مقایسہ کریں اس ڈکٹیٹر کا جو اپنے آپ کو خدا کہلوا رہا تھا، انا ربکم الاعلی کی دعوی کر رہا تھا، جس کا کہنا تھا کہ میرے پاس لشکر ہے، جس کا کہنا تھا کہ میں اس زمین کا ناخدا ہوں، اس کے مقابلے میں جناب ابراہیم علیہ السلام اکیلے تک و تنہا، کوئی ساتھی نہیں ہے، کوئی یاور و مددگار نہیں، لیکن ڈٹ جاتے ہیں، کھڑے ہو جاتے ہیں، قیام کرتے ہیں، ڈرتے نہیں ہیں خوف نہیں کھاتے، کوئی پریشانی نہیں ہے، کہ ایک میں اور وہ پادشاہ اور یہ کوئی ایسی بادشاہت نہیں تھی سلطنت نہیں تھی جو ایک خطہ پر ہو ایک ملک پر ہو، نہیں روئے زمین پر اسی کے نام کا سکہ چلتا تھا ابراہیم کھڑے ہو جاتے ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، لالچ دی جاتی ہے، کوئی چیز اثر نہیں کرتی، کہا تم کو آگ میں جلا ڈالینگے، فرمایا جو کرنا ہے کر لو، اولیاء کی ہمیشہ یہی نشانی رہے گی، تم کیا کر سکتے ہو، زیادہ سے زیادہ یہی کرو گے کہ ہماری روح کو ہمارے جسم سے جدا کرودوگے۔اس روح اور جسم کے ناطے کو ختم کرنے کے علاوہ تم کر بھی کیا سکتے ہو، کچھ نہیں کر سکتے، البتہ ہمارا نام باقی رہے گا، ہماری یاد باقی رہے گی، ہمیں لوگ اچھے الفاظ سے یاد کرینگے، ہماری مثالیں دی جائیں گی، ہمارے نام کا سکہ دلوں پر رائج ہوگا اور دلوں پر ہماری حکومت ہوگی، یہ وہ جزا ہے جو خالق کائنات اپنے انبیا اور اولیا کو دیتا ہے،سب سے بڑی جزا اس دنیا میں اللہ جو اپنے اولیا اور اپنے خالص بندوں کو دیتا ہے وہ یہی کہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔

یہ کام طاقت کے ذریعہ سے، حکومت کے ذریعہ سے، مال و جاہ، جلال و سلطنت، پیسہ اور دولت کے ذریعہ سے نہیں کیا جا سکتا، کتنا ہی ظالم حکمران کیوں نہ ہو جب تک اس کے پاس حکومت ہے لوگ ڈرتے رہینگے ڈر کی وجہ سے اس کے نعرے بھی لگائیںگے اس کے گن بھی گائینگے، اس کی تعرفیں بھی کرینگے، لیکن صرف زبان کی حد تک، اولیائے الہی کی محبت خدا دلوں میں ڈال دیتا ہے،ان کی یاد باقی رہتی ہے، وہ ظاہری طور پر اس دنیا میں نہیں رہتے لیکن ان کا نام باقی رہتا ہے ۔

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دنیا کیلئے مانگی جانے والی دعا تھی جس میں حضرت نے دعا مانگی کہواجعل لی لسان صدق فی الآخرین؛

باری الہا مجھے نیک نامی عطا فرما آنے والی نسلوں میں، یہ وہ بہترین جزا ہے جو خالق کائنات اپنے اولیا کو عطا فرماتا ہے،کہ دشمن چاہے جتنا بھی طاقتور ہو، مٹ جائے گا ختم ہوجائے گا، نیست و نابود ہو جائے گا، اس کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا، لیکن انبیا چاہے جتنی مشکلات سے گذریں، جتنےپریشانیوں کے پہاڑ ٹوٹے ہوں ان پر لیکن وہ زندہ ہیں، ان کا نام زندہ ہے، ان کی یاد زندہ ہے، ان کی نیک نامی باقی ہے۔

یزید نے کیا کچھ نہیں کیا، سید الشہدا حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کے ساتھ،اپنی خام خیالی سے وہ یہ سمجھ رہا تھا میں نے سب کچھ ختم کردیا۔ لیکن در حقیقت نتیجہ وہی تھا جو جناب زینب کبری ثانی زہرا سلام اللہ علیھا نے دربار میں جا کر بیان کیا کہ: یزید خدا کی قسم تو ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتا، تو ہماری یاد کو ختم نہیں کر سکتا ۔(۲۱۸)

تو نے ہمارے جسموں کو تو ختم کر دیا ہے لیکن ہمارے مقصد کو ختم نہیں کر سکتا، ہمای یاد کو ختم نہیں کرسکتا، ہمارے نام کو ختم نہیں کر سکتا، آج دنیا کے ہر با ضمیر انسان پر حسین بن علی کی حکومت ہے، کیا ہے؟ خدا اپنے لیے کام کرنے والوں کو جزا یہی دیتا ہے کہ ان کی محبت لوگوں کی دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ جناب ابراہیم کی دعا تھی، ایک نبی کی دعا تھی، اور آپ نے قرآن میں ملاحظہ کیا جب کسی نبی نے دعا مانگی ہے خالق کائنات نے قبول فرمائی ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے دعا مانگی، نجنی و من معی بار الہا مجھے نجات عطا فرما میرے جو ساتھی ہیں ان کو نجات عطا فرما، خداوند متعال ارشاد فرمایافانجیناه ۔:(۲۱۹)

ہم نے انہیں نجات عطا فرمائی۔ جس قسم کی دعا مانگی انبیا نے خدا نے قبول فرمائی۔ حضرت ابراہیم نے دعا مانگی

واجعل لی لسان صدق فی الآخرین، آنے والی نسلوں میری نیک نامی کو باقی رکھ، خالق کائنات دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ

( وَ جَعَلْنا لَهُمْ لِسانَ‏ صِدْقٍ عَلِيًّا، ) (۲۲۰)

ہم نے ابراہیم اور ان کی اولاد کی نیک نامی کو باقی رکھا آنے والی نسلوں میں۔ در حقیقت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ صرف دنیا کو نہ دیکھو ، صرف چند دنوں کو نہ دیکھو، تمہارا مقصد بلند ہونا چاہیے، جتنی تمہاری ہمت بلند ہوگی اتنا ہی زیادہ تمہیں خالق کائنات عطا فرمائے گا، اور یہ دعائیں ہمارے لیے درس ہیں، اپنی ہمت کو بلند رکھو۔

کسی استاد نے اپنے شاگرد سے کہا کہ تم کتنا پڑہنا چاہتے ہو؟ کہا حضرت استاد میں چاہتا ہوں اتنا پڑہ لوں کہ آپ کے جتنا علم میرے پاس آجائے۔ فرمایا: کچھ بھی نہیں بن سکتے تم۔ جب ہم پڑہتے تھے تو ہمارا یہ ارادہ ہوتا تھا کہ خدا ہمیں اتنا علم عطا کرے جتنا امام کو عطا کیا گیا ہے، تب جا کر ہمیں اتنا سا علم ملا ہے۔ انسان ہمت بلند رکھے، آنے والی پریشانیوں کو مایوس کن نہ قرار دے اپنے لیے، پریشانیوں سے مایوس نہ جائے، یہ پریشانیاں انسان کو مظبوط بنانے کیلئے آتی ہیں، یہ آنے والے طوفان درخت کو تناور بنادیتے ہیں، یہ مشکلات انسان کا رتبہ بڑہانے کیلئے ہوتی ہیں، انسان کے درجات بلند کرنے کیلئے ہوتی ہیں، ہمیں اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے، دوربین اور دور اندیش ہونا چاہیے ہمیں، حضرت ابراہیم کی دعا یہ سمجھا رہی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ اپنے عمل سے ابھی تمہیں کیا فائدہ ہوگا بلکہ تمہاری نظر اتنی دور تک ہونی چاہیے جب تم کوئی بھی کام کرنا چاہو یہ نظر رکھو کہ میری ساتوں پستوں تک اس عمل کا اثر رہے گا، اور آج تک ابراہیم کی دعا کا انہیں نتیجہ مل رہا ہے، انہوں نے دعا کی تھی: بار الہا میرا نیک نام باقی رکھے آج جتنے بھی ادیان آسمانی زمیں پر پائے جاتے ہیں، چاہے یہود کی صورت میں ہوں، چاہے عیسائیوں کی صورت میں ہوں چاہے مسلمانوں کی صورت میں ہوں سب کے سب جناب ابراہیم کو متفقہ طور پر مانتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ وہی دعا کا نتیجہ ہے جو ابراہیم نے کی تھی۔البتہ اس دعا کے اور بھی مصادیق بن سکتے ہیں۔

حضرت ابراہیم نے دعا کی جب خداوند متعال نے انہیں امامت عطا کرنا چاہی

( إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمين، ) (۲۲۱)

تو کہا: بار الہا میری اولاد میں بھی میری نسل میں بھی اس عہدے کو باقی رکھ، تو فرمایا ہاں، ملے گا لیکن ظالموں کو نہیں ملے گا، حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی ۔

( رَبَّنا وَ ابْعَثْ‏ فيهِمْ رَسُولاً مِنْهُم‏، ) (۲۲۲)

بار الہا ان میں ایک رسول بھیج، کب دعا کی جا رہی ہے؟ حضرت ابراہیم خلیل اللہ دعا کر رہے ہیں، کتنی صدیوں کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا جاتا ہے اور وہ یہ اعلان فرماتے ہیں کہانا دعوة ابراهیم ۔(۲۲۳)

میں ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں، ہم یہ نہ سمجھیں کہ ابھی ہم نے دعا کی ابھی خداوند متعال کچھ دے دے تو دعا قبول ہوئی ورنہ دعا قبول ہی نہیں ہوئی، دعا کی قبولیت میں مصلحتیں ہوتی ہیں، دعا کے اثرات اور رموز کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے، کب دینا ہے اور کب نہیں دینا ہے۔

کیا ہم اپنی اولاد کے ساتھ ایسا نہیں کرتے، چھوٹا بچہ ہمیں تنگ کرتا ہے کہ ابو یہ چیز دلائیں مجھے، ہم دیکھتے ہیں اس کے ضرر میں ہے، نقصان دہ ہے، ہم نہیں دیتے چاہے پھر وہ روئے، چلائے، ناراض ہو جائے، کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے لیکن اگر ہمیں یقین ہو کہ یہ اس کیلئے مضر ہو تو نہیں دیتے۔ ہم جانتے ہیں وہ نہیں جانتا، ہمارا اور خدا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، بہت ساری چیزوں کو ہم نہیں جاتے، ہم اپنی کم علمی کی بنیاد پر، نادانی کی وجہ سے ایسی دعائیں کرتے ہیں جو ہمارے فائدے میں نہیں ہوتیں، خدایا مجھے بیٹا ہی دینا، بیٹی نہیں دینا۔ کیا پتا بیٹی میرے لیے بہتر ہو، پھر پتا اس وقت چلتا ہے جب بیٹا دھکے دے کر گھر سے نکال دیتا ہے، خدا جو بہتر سمجھتا ہے وہ کرتا ہے، مصلحت کے مطابق مانگیں، حضرت ابراہیم نے دعا کی صدیوں بعد رسول اکرم آ رہے ہیں،امام جعفر صادق علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اس لسان صدق سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی کی ذات ہے۔(۲۲۴)

کیونکہ حضرت ابراہیم نے جو دعا کی، نیک نامی باقی رہے یہ فقط لفاظی نہیں تھی، نہیں یعنی میری اولاد میں میرے سلسلہ نسب میں، میری ذریت ایسے افراد آئے ہیں جن کی وجہ سے میرا نام روشن ہو۔

نیک نامی کی اہمیت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ

اذا مات ابن آدم انقطع عنه عمله؛ (۲۲۵)

جب کسی انسان کا انتقال ہو جاتا ہے اس کا نامہ اعمال بند ہو جاتا ہے جو کر چکا وہ کر چکا، اب اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا گناہ نہیں ملے گا، لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہتا ہے؛ ایک صدقہ جاریہ، کسی نے صدقہ جاریہ دیا راستہ میں ایک درخت لگا دیا، وہ درخت بن گیا آنے جانے والا وہاں اس کے سائے میں بیٹھنے لگا۔ اب بھلے اس کا انتقال ہو جائے لیکن جب تک لوگ اس درخت سے فائدہ اٹھاتے رہینگے اس کو ثواب ملتا رہے گا۔ ایک مدرسہ بنا دیا ، جب تک اس میں علوم اہل بیت کی تعلیم دی جاتی رہے گی اس کو ثواب ملتا رہے گا، ایک صدقہ جاریہ؛ دوسرا ولد صالح یدعو لہ؛ وہ نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے۔بہت بڑا سرمایہ ہے یہ نیک نامی اور نیک اولاد۔حضرت ابراہیم نے جو دعا کی تھی وہ نیک نامی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صورت میں علی کی صورت میں پوری ہوئی۔

اور یہ مولا علی کا فرمان ہے کہ دولت ملکیت پیسہ سے بڑہ کر نیک نامی اہم ہے۔(۲۲۶)

پیسا آنے جانی والی چیز ہے، آپ لاکھ پیسے خرچ کریں کسی پر اگر دل میں محبت پیدا نہیں کرتے تو پھر وہ کسی کام کے نہیں ہیں، لیکن اگر آپ کسی پر احسان کریں، آپ کی یہ محبت باقی رہے آپ کی یہ نیک نامی باقی رہے یہ دولت سے بڑہ کر ہے، اور انبیا علیہ السلام کو خالق کائنات نے یہی جزا دی، صدیاں گذر جائیں لوگ اپنے ماں باپ کو بھلا دیں اپنی اولاد کو بھلا دیں، اپنے بھائیوں کو بھلا دیں، رشتہ داروں کو بھلا دیں، لیکن آج بھی ان کی رسالت کو یاد رکھینگے، ان کی نبوت کو یاد رکھینگے، کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ ان کی یاد باقی رہے، یہ ان کی جزا ہے۔

خالق کائنات اتنا کریم ہے، فرماتا ہے کہ جو مانگو گے وہ تو دوں گا ہی

( وَ إِذا سَأَلَكَ عِبادي عَنِّي فَإِنِّي‏ قَريبٌ أُجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجيبُوا لي‏ وَ لْيُؤْمِنُوا بي‏ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون، ) (۲۲۷)

جو دعا کرتا ہے وہ تو میں دیتا ہی ہوں اتنا کریم ہے کہ ارشاد فرمایا :

( وَ يَسْتَجيبُ‏ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ يَزيدُهُمْ مِنْ فَضْلِه ) (۲۲۸)

دعا کو قبول کرتا ہے بلکہ اس سے بڑہ کر عطا فرماتاہے، اس سے زیادہ دیتا ہے، وہ کریم ہے۔خداوند متعال جناب نوح علیہ السلام کیلئے ارشاد فرماتے ہیں

( وَ لَقَدْ نادانا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجيبُون ) (۲۲۹)

نوح نے ہمیں پکارا کہ بار الہا اب ہماری کشتی پانی پر ہے، اب ہم سب تیرے حوالے ہیں ہم سب تیرے بھروسہ پر نکلیں ہیں سب غرق ہو چکے ہیں فقط ایک کشتی ہے جو تیرتی جا رہی ہے، حضرت نے دعا فرمائی کہ کافرین ہلاک ہو جائیں اور جو میرے ساتھ کشتی میں ہوں وہ سالم رہیں، نادنا نوح ، یہ دعا ہے خدا فرما رہا ہےفلنعم المجیبون ؛

ہم بہترین جواب دینے والے ہیں، ہم نے دعائے حضرت نوح کو بہترین طریقہ سے باحسن وجہ قبول کیا، اس نے یہ دعا مانگی تھی کہ ہم سلامت رہیں، دشمن ہلاک ہو جائیں۔ خداوند متعال نے جزا یہ دی کہ( سَلامٌ عَلى‏ نُوحٍ‏ فِي الْعالَمين ،) (۲۳۰)

خدا نے اپنی طرف سے سلام کیا، بہت بڑی جزا ہے۔

خدا کی طرف سے سلام

روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا، فرشتے ان سے پوچھنے آ رہے تھے، کوئی حاجت ہو تو ہمیں بتائیں، جب فرشتے آ رہے تھے تو سلام کر رہے تھے، حضرت ابراہیمؑ ارشاد فرماتے ہیں: مجھے وہ لذت جو فرشتوں کے سلام سے ملی کبھی میں نے وہ لذت محسوس نہیں کی۔(۲۳۱)

یہ دنیوی لذات ہیں ہی کیا، یہ تو سراب ہیں دھوکہ ہیں، انسان جتنا ان کے قریب چلا جائے گا اتنی پیاس بڑہتی چلی جائے گی، انسان دنیا سے کبھی بھی سیراب نہیں ہوتا، کیوں؟ دھوکہ ہے کوئی واقعیت نہیں ہے، کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ تو چند دنوں کا مزا ہے، سامان ہے، کوئی اس کی حقیقت نہیں ہے،لیکن وہ سلام جو فرشتوں کیا تھا اس کی لذت حضرت ابراہیم محسوس کرتے ہیں، اگر فرشتے کے سلام میں اتنی لذت ہے، تو خدا کی طرف سے سلام آئے تو اس میں کتنی لذت ہوگی،

سلام علی نوح فی العالمین،

حضرت نوح نے بلایا تھا، پکارا تھا خدا کو نادنا نوح فلنعم المجیبون، ہم نے بہترین طریقہ سے قبول کیا، اس کو سلامت بھی رکھا، دشمنوں کو ہلاک کردیا، ہم نے اپنی طرف سلام کیا، ان کو نیک نامی عطا کی، ان کو آدم ثانی بنا دیا، جتنے انسان آج روئے زمین پر ہیں، وہ سب سے پہلے حضرت کی اولاد ہیں اس کے بعد جناب نوح کی اولاد ہیں۔

فلنعم المجیبون، ہم دعا کو بہترین طریقہ سے قبول کرنے والے ہیں انا کذالک نجزی المحسنین، نیکی کرنے والوں کو ہم ایسے جزا دیتے ہیں ان کی توقع سے بڑہ کر، وہ اس جزا کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، خالق کائنات نے بہشت ایسی بنائی ہے اپنے نیک بندوں کیلئے

وَ فيها ما تَشْتَهيهِ‏ الْأَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْأَعْيُن، (۲۳۲)

جو تمہیں پسند آئے گا وہ وہاں پر موجود ہے، جو دیکھنا اچھا لگے گا وہ سب کچھ وہاں پر ہے، ایسی چیزیں جو کسی نے نہ سوچیں نہ دیکھیں اور نہ کبھی فکر کیا، یہ آخرت کی جزا ہے دنیا میں نیک نامی کی جزا دیتا ہے۔ انبیاء دنیا میں نہیں رہے، آئمہ اس دنیا میں نہیں رہے، ان کا نام باقی ہے، ان کی یاد باقی ہے ، ان کے عاشق باقی ہیں، ان کے نام پر جان قربان کرنے والے باقی ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ خدا کی جزا ہے۔یہ کیسے ملے گی؟اطاعت الہی کے ذریعہ سے۔نیکی کی ذریعہ سے، احسان کے ذریعہ سے۔

علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ

(خالطوا الناس مخالطة ان متم معها بکوا علیکم الیکم ،)(۲۳۳)

لوگوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھو تمہارا ایسا کردار ہونا چاہیے ایسا طریقہ کار ہونا چاہیے کہ اگر تمہارا انتقال ہو جائے لوگ تمہیں یاد کر کے روئیں، اور جب تک تم زندہ رہو لوگ تم سے ملنے کے مشتاق رہیں، یعنی اپنی سیرت کی وجہ سے اچھے اخلاق کے وجہ سے، احسان کے ذریعہ سے، لوگوں کی دلوں میں، محبت پیدا کرو، اللہ یہ جزا دیتا ہے، فرماتا ہے جو میرا ذکر کرے گا میں اس کا ذکر کروں گا، فاذکرونی اذکرکم تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، تم ذکر کر کے چلے جائوگے ہم تمہاری یاد کو باقی رکھیں گے، اور سب سے زیادہ رتبہ اگر ہے کائنات میں تو وہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے، قرآن مجید نے انبیا کو یاد کیا ہے،

واذکر فی الکتاب ابرا ہ یم ، اسماعیل، انبیا کا نام لے کر یاد کیا کہ ان کا ذکر رہنا چاہیے، لیکن رسول کائنات کیلئے ارشاد فرمایا:وَ رَفَعْنا لَكَ ذِكْرَك ۔(۲۳۴)

ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محنتوں، کاوشوں، کوششوں، فدارکاریوں اور ایثار کا نتیجہ ہے، اسلام اخلاق نبوی سے پھیلا ہے، ہم بھی اگر اس اخلاق کے مالک ہوجائیں تو ہمارا بھی نام باقی رہ سکتا ہے۔آئیے ہم سب مل کر یہ دعا کریں جو حضرت ابراہیم نے کی تھی

واجعل لی لسان صدق فی الآخرین۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

دنیا اور آخرت کی کامیابی کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّار، (۲۳۵)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج دنیا اور آخرت میں کامیابی کی دعا پیش کرنی ہے۔

تمام ادیان آسمانی کا عقیدہ ہے کہ خالق کائنات نے اس کائنات کو بیکار اور بیہودہ پیدا نہیں کیا، ضرور اس حکیم پروردگا نے اپنی تخلیق میں کوئی نہ کوئی حکمت رکھی ہے، جب کائنات کا ذرہ ذرہ کسی مقصد کیلئے پیدا ہوا ہے تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے، وہ بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا، جیسا خود قرآن مجید ارشاد ہو رہا ہے:

أفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثا ،(۲۳۶)

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے، تمہاری تخلیق میں کوئی مقصد نہیں رکھا ہم نے، اگر ایسا سوچ رہے ہو تو غلط سوچ رہے ہو، ضرور تمہاری تخلیق میں کوئی مقصد ہے۔اگر صرف یہی دنیا ہوتی اور فرض کریں کہ کوئی دوسری دنیا نہیں ہے دوسری کا تصور نہیں ہے، تو لازم آتا ہے کہ تخلیق کا کوئی مقصد نہ ہو، انسان اس دنیا میں پیدا ہو ، کتنے منوں ٹنوں غذا استعمال کرے پھر مر جائے اور بات ختم۔اگر اس طرح ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس لیے خالق کائنات نے ایک اور دنیا کو بنایا، جو جزا کی دنیا ہے، سزا کی دنیا ہے۔

امیر المومنین امام علیؑ کی تعبیر کے مطابقالیوم عمل ولا حساب؛ (۲۳۷)

آج عمل کا دن ہے، احتساب اور محاسبہ کا دن نہیں ہے ، حساب و کتاب کا دن نہیں ہے، اور کل حساب کا دن ہے اور وہاں عمل کی گنجائش نہیں ہوگی۔ عمل کی اجازت نہیں ہوگی، یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعبیر کے مطابق الدنیا مزرعة الآخرة،

دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جو کچھ انسان اس دنیا میں عمل کرے گا، گویا وہ اس کھیتی میں وہی بو رہا ہے اور آ ج بوئے گا وہی کل کاٹے گا، ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی کاشت تو گندم کی کرے، کل اس کو کشمش اور کھجور مل جائیں، نہیں! جو کرےگا اسے وہی نتیجہ ملے گا، یہ دنیا آخرت کا مقدمہ ہے، کامیاب انسان پھر وہی ہوگا جو دونوں میں کامیاب رہے، یہاں ہم اس غلط بات کی طرف توجہ کریں عام طور پر کبھی یہ خیال کیا جاتا ہے جناب دین آیا ہے انسان کی آخرت کو آباد کرنے کیلئے، دین تو قیامت میں کام آئے گا، نماز روزہ کر لو، دین یہی حکم دیتا ہے اور یہ سب آخرت کی چیزیں ہیں۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہیں، انبیا علیہ السلام نے آخرت کی دعوت ضرور دی ہے، آخرت کی تاکید ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نکالنا کہ دین کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، دین اس دنیا میں کسی کام کانہیں ہے، اس دنیا میں ہماری مرضی ہے، جیسے قوانین بنالیں، جس طرح سیاست کر لیں ہماری مرضی ہے، جس طرح کی سیاسی پالیسی بنا لیں ہماری مرضی ہے، جو خارجہ پالیسی بنا لیں ہماری مرضی ہے۔ جی نہیں، دین صرف دنیا کیلئے نہیں ہے، بلکہ دنیا و آخرت دونوں کیلئے ہے، دین کی تعلیمات سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جتنی تاکید آخرت کی کرتے تھے اتنی دنیا کیلئے بھی کرتے تھے۔

دنیا اور آخرت کے لئے کیا کریں؟

اور یہ امام علی کا عظیم الشان فرمان ہے۔ اعمل لآخرتککانک تموت غدا ؛

اپنی آخرت کیلئے ایسے بن جائو، آخرت کیلئے اس طرح فکر کرو گویا کل مر جائوگے، کل والا دن تمہاری زندگی میں نہیں ہے، اگر مجھے پتا چلے کل میں نے مرنا ہے ، میری کیا حالت ہوگی، کیونکہ ہم عام طور پر موت کو بھلا بیٹھے ہیں، موت تو صرف دوسروں کیلئے ہے، حادثات تو صرف دوسروں کیلئے ہیں، میں نے تو رہنا ہے۔ ہم گویا اس چیز کے منظر ہوتے ہیں کہ چند دن پہلے چند ہفتے پہلے حضرت عزرائیل ہمیں ٹیلیفون کر کے حضور تیار ہو جایئے ابھی آپ کی باری آنی ہے، اسی فکر میں رہتے ہیں۔ جب کہ موت اچانک آئے گی، بتا کر نہیں آئے گی، لہذا آخرت کی ہمیں اس طرح تیاری کرنی ہے کہ ہر لمحہ یہ سوچنا ہے کہ شاید ابھی آجائے شاید ابھی آجائے، حقیقت یہی ہے کہ آخرت تب ہی آباد ہو سکتی ہے جب انسان یہ فکر رکھے ذہن میں، اس لیے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ بہترین عبادت کرو وہ اس صورت میں کر سکتے ہو جب تمہیں یہ یقین ہو کہ شاید یہ میری زندگی کی آخری عبادت ہے۔ اگر مجھے پتا چل جائے کہ جو یہ دو رکعت نماز پڑہ رہا ہوں ، میری زندگی کی آخری در رکعت ہیں، کتنے خشوع اور خضوع کے ساتھ کوشش کروں کا کہ اس نماز کو ادا کروں، اس لیے فرمایا کہ آخرت کیلئے قانون یہ بنا لو کہ تمہاری کوئی ضمانت نہیں ہے، اور پھر دنیا کیلئے اعمل لدنیاک کانک تعیش فی ہاابدا؛

دنیا کیلئے ایسے بن جائو جیسا کہ تم نےاسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔یعنی دنیا تب ہی آباد ہو سکتی ہے جب اس میں رہنے کی بنیاد پر انسان کاموں کو انجام دے، اگر کسی کو پتا ہو کہ میں نے کل مرنا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ اگر میں کل ہی مرنا ہے تو میں اچھا گھر کیوں بنائوں، میں نے تو کل مرجانا ہے۔ یہاں پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ سمجھو تم نے یہاں ہی رہنا ہے۔سمجھو کہ یہی تمہارا بسیرا ہے۔

لیکن فرق ہے، مومن اور کافر کی دنیا کی طرف نگاہ میں فرق ہے۔ظاہری طور پر مومن بھی زندگی بسر کر رہا ہے کافر بھی زندگی بسر کر رہا ہے، وہ بھی کھا پی رہا ہے یہ بھی کھا پی رہا ہے، اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سب کچھ ایک جیسا ہے، لیکن کافر اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتا ہے جبکہ مومن اس دنیا کو آخرت کا مقدمہ سمجھتا ہے۔

امام علی علیہ السلام کی دوسری تعبیر کے مطابقالدنیا متجراولیاء الله ؛(۲۳۸)

دنیا اولیائے خدا کی محل تجارت ہے۔مومن دنیا کو محل تجارت سمجھتا ہے، یہاں تجارت کرنی ہے۔یہاں ہم ہیں بیچنے والے، خدا ہے خرید کرنے والا۔ کتنی دلچسپ تعبیر ہے، ہم نے بیچنا ہے خدا نے خریدنا ہے، کامیاب وہی انسان ہے جو اپنا سب کچھ اسےبیچے جو اچھی قیمت دے، ہر کوئی اپنا لمحہ لمحہ فروخت کر رہا ہے، ہمارے پاس یہی تو سرمایہ ہے، زندگی کا ایک ایک سانس ہمارا سرمایہ ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے( وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفي‏ خُسْرٍ إِلاَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْرِ ) ،(۲۳۹)

انسان خسارے میں ہے، کیونکہ اس کا اصل سرمایہ ختم ہو رہا ہے جتنی وہ سانسیں لے رہا ہے، اصل سرمایہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔

الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات؛ مگر وہ خسارے میں نہیں ہیں جو ان دی جانی والی چیزوں کے بدلے میں کچھ لے لیں۔

اس لیے امام علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:انه لیس لانفسکم ثمن الاالجنة ،

دیکھو تمہاری نفوس کی کوئی قیمت نہیں بن سکتی سوائے جنت کے:فلا تبیعوها الا بها؛ (۲۴۰)

اسے نہ بیچنا مگر جنت کے بدلے میں، تمہارے نفس کی قیمت جنت ہے، اس کے بغیر تم نے بیچا تو نقصان کیا،خسر الدنیا والآخرة،

یہ خالق کائنات بھی کتنا بڑا کریم رب ہے، ہماری کوئی بھی چیز کیا ہماری اپنی ہے، دی بھی اس نے ہے، وجود اس نے دیا، وجود کی بقا کے اسباب اس نے پیدا کیے، مادی اور معنوی نعمتیں اس نے عطا کیں، زمینی اور آسمانی برکات اس نے عطا فرمائیں، سب کچھ اس کا ہے،لیکن فرماتا ہے فرض کرو یہ سب کچھ تمہارا ہے، اب تم بیچو میں خریدوں گا، اور بہترین قیمت پر خریدوں گا، حد ہو جاتی خدا کے احسانات کی جب وہ یہ فرماتا ہے

( مَنْ ذَا الَّذي يُقْرِضُ‏ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَه‏، ) (۲۴۱)

کون ہے جو خدا کو قرض دے گا، کتنا کریم ہے، خود ہی دے رہا ہے اسی کا ہی ہے یہ سب کچھ، کتنا کریم ہے کہ فرما رہا ہے مجھے دو اور قرض کے طور پر دو۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ دیکھو یہ جو خدا نے کہا ہے کہ کون ہے جو قرض دے، اس بنیاد پر نہیں کہا کہ وہ محتاج ہے، اس کے پاس نہیں ہے اس لیے تم سے قرض لینا چاہتا ہے۔ اس بنیاد پر نہیں کہا کہ میری مدد کرو، میرے دین کی نصرت کرو کہ وہ کمزور ہے، نہیں۔(۲۴۲)

وہ ثواب دینا چاہتا ہے، وہ تم پر مزید انعام و اکرم کرنا چاہتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تم بیچو میں خریدوں گا، اب بہترین اور کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے نفوس کو خدا کے حوالے کر دے اور اسے بیچ دے، و من الناس من یشری نفس ہ ۔۔

لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے نفس کو خدا کو بیچتے ہیں، اپنے نفس کا خدا سے معاملہ کرتے ہیں، خدا کے ساتھ معاملہ کرو، کوئی نقصان نہیں ہوگا، اپنی دنیا کو آخرت کے ذریعہ بیچ دو، نقصان نہیں ہوگا، ہاں! نقصان وہ اٹھائینگے جو آخرت کو دنیا کے عوض بیچ دیں، اس چند دن کی زندگی کیلئے دائمی آکرت کو بیچنا یہ نقصان کا سودا ہے۔تو دین آیا ہے تا کہ دنیا بھی آباد رہے اور آخرت بھی آباد ہو۔

دنیا اور آخرت ایک ساتھ

ہم جو دعا کر تے ہیں وہ ہماری فکر کی عکاسی کرتی ہے، جس طرح قرآن مجید یہ فرما رہا ہے،

و من الناس من یقول ربنا : لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہاں دے دے ، آخرت میں ان کو کچھ بھی نہیں دیا جائے، لیکن کچھ ایسے ہیں و من ہم من یقول ربنا ۔۔

بار الہا دنیا کی نیکی عطا فرما آخرت کی نیکی عطا فرما، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین دعا ہے کہ جو تلاوت کیا کرتے تھے، کہ دنیا کی نیکی اور آخرت کی نیکی، دنیا بھی آباد رہے آخرت بھی آباد رہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریعت میں دنیا کو آباد کرنے کے بھی احکام ہیں، اور آخرت میں بھی کامیابی کے اصول ہیں، ایسا نہیں ہے دین کی نظر میں دنیا الگ ہو اور آخرت الگ ہو، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ان دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہے، یہ دنیا مقدمہ ہے، یہ دنیا کھیتی ہے آخرت کیلئے، لہذا کامیاب انسان وہی ہے جو اس چند دن کی زندگی کو مقدمہ بنائے آخرت کیلئے۔

قرآن مجید کی طرف اگر ہم چلیں اور اس سے معلوم کریں کہ دنیا کی صفات کیا ہیں، آخرت کی خصوصیات کیا ہیں، تب ہمیں پتا چلے گا، قرآن مجید دنیا کیلئے ارشاد فرما رہا ہے کہ

( وَ مَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ مَتاعُ‏ الْغُرُور ،) (۲۴۳)

لوگو یہ دنیا کی مختصر محدود زندگی زود گذر ہے، جلدی ختم ہو جانے والی ہے، معمولی ہے۔ اور فرمایا کہ آخرت ہی ہمیشہ رہنی والی ہے۔فرمایا :أُكُلُها دائِم ،(۲۴۴)

وہاں ابدی نعمتیں ہیں، یہ محدود ہےیہ دنیا محدود ہے، یہ دنیا انسان کو غافل بنا دیتی ہے، آخرت انسان کو بیدار کر دیتی ہے۔اس لیے امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ الناس نیام،(۲۴۵)

لوگ سائے ہوئے ہیں غفلت میں ہیں، جب ان کی موت کا وقت آتا ہے اذا ماتوا انتب ہوا۔

جب موت کا وقت آتا ہے تو بیدار ہو جاتے ہیں، پھر ان کی آنکھوں پر موجود پردے ہٹا دیے جاتے ہیں وہ حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں، پھر انہیں پتا چلتا ہے کہ جس طرح وہ سوچتے ہیں ایسا نہیں ہے، جو انہوں نے سمجھا اس طرح نہیں ہے، یہ کیا ہے؟ یہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ آخرت بیداری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کو اس بنیاد پر الگ کیا جاتا ہے کہ وہ مادی مفادات دیکھتے ہیں لیکن جس کی نیک فکر ہو، جو نیکی کی بنیاد پر سوچے تو کوئی ٹکراء نہیں ہے، لہذا اگر نیکی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو دنیا اور آخرت میں کوئی تضاد نہیں ہے، ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، یہ دونوں ایک ہی ہدف کیلئے ہیں، اولیائے الہی اپنی دنیا کو بھی آباد کرتے ہیں اور آخرت کو بھی آباد کرتے ہیں۔ دنیا میں آتے ہوئے کامیابی کا اعلان کرتے ہیںقَدْ أَفْلَحَ‏ الْمُؤْمِنُون، (۲۴۶)

دنیا سے جاتے ہوئے اور آخرت کی طرف قدم بڑہاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

فزت و رب الکعبة ۔(۲۴۷)

ایمان اورعمل صالح دنیا اور آخرت کو آباد کرنے کا وسیلہ ہیں، قرآن مجید فرما رہا ہے کہ: نیکی آخرت میں ان کو ملے گی جو اس دنیا میں نیکی کرے گا، فرما رہا ہے کہ:

أَحْسَنُوا في‏ هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَة (۲۴۸)

جو اس دنیامیں نیکی کرتے ہیں انہیں نیکی ملے گی، اور بعض اوقات ہم اپنے آپ کو دوکھا دیتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاف کرنا اسی کا کام ہے، ہم کسی کو کیا معاف کریں، حالانکہ اگر ہم زمین والوں پر رحم کرینگے تو آسمان والا ہم پر رحم فرمائے گا، ہم اگر دوسروں کو دینگے تو خدا ہمیں دے گا، خالق کائنات اپنی رحمتیں دیتا ہے ان کو جو اس کی رحمتوں کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں، انہیں نعمتیں دیتا ہے جو نعمتوں میں بخل نہیں کرتے۔ وہ نعمتوں کو اپنے ہاں مقید نہیں کردیتے، ان نعمتوں کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچاتے ہیںوَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّث، (۲۴۹)

یہی ہے، رب نے نعمت دی ہے اس کا اظہار کرو، دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو۔

یہ دین، دنیا اور آخرت کی کامیابی چاہتا ہے، لہذا ایسے قانون بتائے ہیں جو دونوں جگہوں پر ہمارے کام آئے ہیں، نماز پڑہو یہاں بھی تمہارے کام آئے گی، پاک صاف رہو گے، ٹائیم کا تمہیں قدر رہے گا، دوسروں کے حقوق کا خیال رہے گا کیونکہ غصبی جگہ پر نماز نہیں ہو سکتی، غصبی پانی سے وضو نہیں ہو سکتا، دوسروں کے حقوق کا بھی خیال ہوگا، دنیا بھی آباد ہوگی، رب بھی راضی ہوگا اور تمہیں جنت عطا فرمائے گا جس سے تمہاری آخرت بھی آباد ہوگی۔ دینی تعلیمات کے سائے میں،یہ دونوں آباد ہو سکتی ہیں۔

کم ظرف ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ دین کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے وہ اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں اپنے قانوں چلانا چاہتے ہیں، ان کا نظریہ یہ ہے کہ دین فقط چند رسومات کا نام ہے، چند اوراد کا نام ہے۔فردی طور پر چند رسومات کے انجام دینے کا نام دین ہے۔ جی نہیں! دین مکمل ظابطہ حیات ہے، دین نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاک و پاکیزہ سیرت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، اس میں سب چیزوں کا بیان ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا کو بھی آباد کرنے کے قوانین بتائے ہیں اور آخرت کو بھی آباد کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اسلام دنیا و آخرت دونوں کی آبادی چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر دعا کرنی چاہیے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

رسول اکرم(صلعم) کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ‏ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليما ،) (۲۵۰)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے دعا ہے۔

ہمارا فریضہ ہے، ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے دعا کریں، جیسا کہ جس آیہ کریمہ کی تلاوت کا شرف حاصل کیا گیا خالق کائنات اس میں یہ تذکرہ کر رہا ہے کہ خود خدا اور اس کے معصوم فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اے ایمان لانے والو!تم بھی درود اور سلام بھیجو۔کیونکہ خود خدا درود بھیج رہا ہے،فرشتے دعا کر رہے ہیں اور درود بھیج رہے ہیں، ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ خدا کے ساتھ اس کے معصوم فرشتوں کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجیں، یعنی پوری کائنات کیونکہ جب خود خداوند درود بھیجے اس کے معصوم فرشتے درود بھیجیں تو گویا کہ کائنات اور پوری ہستی درود بھیج رہی ہے، تو ہمیں بھی کائنات کے ساتھ چلنا چاہیے، ہمیں بھی اس کائنات کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا ساتھ دینا ہے اور اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے طلب رحمت کرنی ہے۔دعا کرنی ہے، درود بھیجنا ہے جس طرح یہ تمام کے تمام درود بھیجتے ہیں۔ اب درود کے حوالے سے مختلف سوالات سامنے آتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ یہ درود بھیجنے کی معنی کیا ہے؟ خدا درود بھیج رہا ہے فرشتے درود بھیج رہے ہیں، ہمیں درود بھیجنے کا حکم دیا جا رہا ہے، اس کی معنی آخر کیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیفیت درود کو کس طرح بیان کیا ہے؟ہمیں جو حکم دیا جا رہا ہے کہ درود بھیجو یعنی کیا کرو؟ کیا کہو؟ کس طرح کہو کیفیت درود کیا ہے؟ تیسرا یہ کہ ہمیں کیا فائدہ ہوگا، کتنا ثواب ہے؟کیا کچھ ہمیں ملے گا، اور آخر اس درود کا فلسفہ کیا ہے؟ آیا اس درود بھیجنے میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ یا نہیں؟ یہ سوالات ہیں جن کے حوالہ سے آج گفتگو ہوگی۔

درود کی معنی

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان اللہ ۔نبی؛ خود درود بھیج رہا ہے، اس کے معصوم ملائکہ درود بھیج رہے ہیں، درود کی اپنی ایک معنی ہے۔ صلوات، رحمت ہے، برکت ہے، سلامتی اور عافیت ہے۔لیکن جب بھی اس کی نسبت خدا کی طرف دی جائے ، اس کی معنی کچھ اور ہے۔ جب فرشتوں کی طرف اس کی نسبت دی جائے اس کا مضمون کچھ اور ہے، اور جب ہمیں حکم دیا جا رہا ہے اور اہل ایمان درود بھیجتے ہیں تو وہاں پر صلوات کی معنی کچھ اور ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان تینوں مراتب میں درود بھیجنے والا خدا ہو، فرشتے ہوں، اور اہل ایمان ہوں تو ان تینوں مراحلوں میں ایک ہی معنی ہو۔معنی مختلف ہے،اگر خدا درود بھیجتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات رحمت نازل فرماتا ہے۔وہ رحمت بھیجتا ہے،ایسا نہیں ہے کہ وہاں الفاظ کی صورت میں کچھ ادا کیا جائے، ایسا نہیں ہے کہ وہاں کسی اور سے تقاضہ کیا جائے، جس طرح ہم یہ درود بھیجتے ہیں

اللهُم صل علی محمد و آل محمد؛

ہم خدا سے تقاضہ کرتے ہیں، رب العزت سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ درود بھیجے، تو یہاں خدا کے درود بھیجنے کی معنی یہ ہے کہ وہ رحمت کو نازل کرتا ہے، فرشتوں کے درود بھیجنے کی معنی یہ ہے کہ اس رحمت کو لے کر نازل ہوتے ہیں۔ یعنی جو رحمت الہی نازل ہوتی ہے یہ فرشتوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے، فرشتے اس کو لے کر آنے والے ہوتے ہیں۔ اور ہمیں جو حکم دیا جا رہا ہے کہ اے ایمان لانے والو تم بھی درود بھیجو یعنی تم طلب دعا کرو، تم درخواست کرو، چاہو خدا کی بارگاہ سے کہ وہ رحمت نازل فرمائے محمد و آل محمد پر۔

اس حوالہ سے امام صادق علیہ السلام کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے درود کی معنی کو واضح کیا ہے، کہ خدا کے درود کا مطلب کیا ہے؟ ملائکہ کے درود کا مطلب کیا ہے؟ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ مختلف مراحل ہیں، امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کی صلوات کا مطلب یہ ہے کہ رحمت کو نازل فرماتا ہے، فرشتوں کی صلوات کی معنی یہ ہے کہ وہ یاد کرتے ہیں، نیک نامی کے ساتھ تعریف کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی۔ یاد خیر کرتے ہیں، ذکر خیر کرتے ہیں، اور اہل ایمان کے درود کی معنی یہ ہے کہ وہ دعا کرتے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے۔(۲۵۱)

درود کا طریقہ کار

دوسرا سوال کہ کیفیت درود کیا ہے؟کس طرح صلوات پڑہنی چاہیے؟ اس حوالے سے اہل تشیع اور اہل سنت کی کتب میں متعدد، متواتر روایات ہیں، جن میں کیفیت درود کو بیان کیا گیا ہے، کیفیت صلوات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح درود بھیجنا ہے تم نے، کس طرح خداوند متعال سے درخواست کرنی ہے کہ وہ درود بھیجے، وہ رحمت کو نازل فرمائے۔ خود اہلسنت کے ہاں اس طرح کی روایات پائی جاتی ہیں اور تواتر کی حد تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال گیا کہ یا رسول اللہ سلام کی تو ہمیں معنی آتی ہے، سلام کا تو علم ہے ہمیں، سلامتی طلب کرنا؛ لیکن صلوات کس طرح بھیجیں،؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صراحت کے ساتھ کھلے عام لفظوں میں یہ بیان فرمایا کہ

لا تصلوا علی صلاة البتراء ؛ دیکھو کبھی مجھ پر ناقص صلوات نہ بھیجنا،

قالوا وما صلواة البتراء : ،

اصحاب نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ یہ ناقص صلوات سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو فرمایا کہ

الل هُم صل عل ی محمد،

کوئی اگر صرف یہ کہتا ہے کہ بار الہا رحمت بھیج رسول اکرم پر، اور پھر خاموش ہوجاتا ہے یہ صلوات بتراء ہے، ناقص صلوات ہے،(۲۵۲)

مکمل صلوات نہیں ہے۔ تو فرمایا کہ کس طرح اس کو مکمل کیا جا سکتا ہے؟ اس کا طریقہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان کیا کہ اگر مجھ پر کامل صلوات بھیجنا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کہا کرو

اللهُم صل علی محمد و آل محمد ۔

خود کیفیت درود کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیان کر کرہے ہیں، تم نے درود کس طرح پڑہنا ہے، کیفیت درود کیا ہے، کس طرح ہے، اور یہ اہلسنت کے ہاں بھی ہے ہمارے ہاں بھی اس طرح کی روایات ہیں، آل کا وہاں تذکرہ کیا گیا ہے تصریح کی گئی ہے، واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے، اگر آل کو درود میں شامل نہ کیا جائے تو خود رسول کی تصریح کے مطابق یہ ناقص صلوات ہے۔آل کا بھی تذکرہ کیا جائے۔

لیکن حیرت ہوتی ہے جب انسان ان روایات کا ملاحظہ کرتا ہے اور روایات خود صحاح ستہ میں موجود ہیں، ہم شیعوں کی اکثر کتب میں موجود ہیں، اہلسنت نے ان روایات کو نقل تو کیا ہے خود بخاری اس روایت کو نقل کرتا ہے لیکن جب وہ باب کا نام لکھتا ہے تو لکھتا ہے باب الصلاۃ علی النبی صلی الل ہ عل ی ہ و سلم، خود جب وہ عنوان لکھتا ہے تو عنوان میں آل کا تذکرہ نہیں کرتا، نیچے جب روایتوں کو بیان کرتا ہے تو وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان حدیثوں کو نقل کرتا ہے کہ جہاں پر رسول اکرم کا فرمان ہے کہ آل کا بھی ذکر کیا کرو۔ خود روایات نقل کر رہے ہیں کہ ذکر ہونا چاہیے، کرو ورنہ صلوات ناقص ہے لیکن جب وہ خود لکھتے ہیں تو وہاں آل کا تذکرہ نہیں کرتے۔جبکہ خود یہ فرمان ان کے ہاں بھی ثابت ہے، احادیث میں آیا ہے اور خود آئمہ اہلسنت نے اس کو نقل کیا ہے۔

امام شافعی کا مشہور شعر ہے جس میں آپ نے اہلبیت کی منزلت اور فضیلت کو بیان کیا ہے،

یا اهل بیت رسول الله، حبکم فرض من الله فی القرآن انزله کفاکم من عظیم القدر انکم من لم یصل علیکم لا صلاة له (۲۵۳)

اے اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی محبت کو خالق کائنات نے اپنے نازل کرنے والی کتاب میں واجب قرار دیا ہے،محبت اہلبیت علیہ السلام دین کا جز ہے، رکن ہے۔

اور قرآن مجید نے اس کو اجر رسالت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا ہے

( قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏، ) (۲۵۴)

میں اپنی رسالت کا تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میری اہلبیت سے مودت کرو، ان سے محبت کرو، یعنی یہاں خالق کائنات اہلبیت علیہ السلام کی مودت کو واجب قرار دے رہاہے، امام شافعی اپنے اشعار میں ذکر رہے ہیں کہ خالق کائنات نے ان کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اس قرآن میں جو خدا نے نازل کیا ہے۔ اور آل کی فضیلت کیلئے تو اتنا کافی ہے اگر کوئی آپ پر درود نہیں بھیجتا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ صلوات، رسول اور اہلبیت رسول پر نماز کا واجب رکن ہے۔ یعنی واجب ہے نماز کا حصہ ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر نہیں بھیجتا تو اس کی نماز ہی درست نہیں ہے، یہ مطلب شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا اور اہلسنت کے ہاں بھی یہ فتوا موجود ہے، جو درود نماز میں پڑہا جاتا ہے اس میں آل کا بھی ذکر ہے، اس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہے۔

یہ احادیث میں بھی وارد ہوا ہے، خود جناب عائشہ نقل کرتی ہیں میں نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنے

لا صلاة الا بطهور و لا صلاة الابالصلواة علي ،(۲۵۵)

نماز طہارت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اسی طرح نماز مجھ پر درود بھیجے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی مجھ پر درود نہیں بھیجتا گویا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔اس کی نماز تب نماز رہے گی جب اس میں نماز کے تمام اجزا ہوں، نماز کے تمام ارکان ہوں شرائط پائے جاتے ہوں تب جا کر اس کی نماز، نماز بنے گی۔ اگر وہ اپنی نماز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود نہیں بھیجتا آپ کی اہلبیت علیہ السلام پر درود نہیں بھیجتا گویا اس کی نماز ہوئی ہی نہیں، اس لیے فقہا نے یہی کہا ہے کہ نماز میں صلوات پڑہنا واجب ہے، لیکن دوسرے موارد میں صلوات پڑہنا مستحب ہے۔

درود کی فضیلت

اس کی اپنی فضیلت ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بھی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے خالق کائنات اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، دس رحمتیں نازل کرتا ہے(۲۵۶)

نہ صرف دس رحمتیں نازل فرماتا ہے جس کے ذریعہ سے اس کا درجہ بلند ہوگا، بلکہ اس کے دس گناہوں کو بخش دیتا ہے، یہ کتنی فضیلت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پے بھیجا جانے والا ایک درود، دس رحمتوں کے نزول کا سبب بنتا ہے دس گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے، اور روایات ہیں متعدد روایات ہیں جن میں فضائل درود کو بیان کیا گیا کہ اس کی کتنی فضیلت ہے، اس کا کتنا ثواب ہے۔ روایت ہے محمد و آل محمد پر درود بھیجنا نفاق کا ختم کردیتا ہے،(۲۵۷)

ان پر درود بھیجنا نامہ اعمال کی سنگینی کا سبب بنتا ہے قیامت میں جب اعمال تولے جائینگے میزان میں ، وہاں پر اگر عمل کم ہوئے تو صلوات کا ثواب اس میں ڈالا جائے گا تو وزن بڑہ جائے گا۔(۲۵۸)

یہ فضائل صلوات ہیں۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے طلب رحمت کرنے کی دعا کا نتیجہ ہے یہ، جو مومن رسول للہ کیلئے طلب رحم کرتا ہے خدا اس کو اتنی رحمتیں عطا فرماتا ہے، اس ثواب کو خود اہلبیت نے نقل کیا ہے۔

کیفیت صلوات کے بعد، فضائل صلوات بیان ہوئے کہ اس کی کتنی فضیلت ہے، ہمیں کتنا فائدہ ہے، خود روایات میں ہے جب کچھ لکھنا چاہ رہے، کتاب لکھ رہے ہو، کچھ بھی لکھ رہے ہو اور لکھتے ہوئے تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جب نام لکھنے لگو تو اس کے ساتھصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لکھو کرو۔ اور روایت یہ بتا رہی ہے کہ جب تک یہ کتاب باقی رہے گا یہ کاغذ باقی رہے گا ، اس پر صلوات درج ہوگی خالق کائنات اس لکھنے والے کے نامہ اعمال میں ثواب کا اضافہ کرتا رہے گا۔(۲۵۹)

یعنی اس نے ایک مرتبہ لکھ دیا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رسول اکرم کے نام ساتھ تو جب تک یہ کاغذ باقی ہے یہ کتاب باقی ہے اس کو ثواب ملتا رہے گا۔ اور یہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے، میرا نام لیا جائے اور مجھ پر درود نہ بھیجے تو اس نے میرے وفا نہیں کی، جفا کی ہے۔(۲۶۰)

میرا حق بنتا ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو زحمتیں اٹھائیں جو قربانیاں دیں، ہماری ہدایت کیلئے جو مشکلات برداشت کیں، جن مصائب کے متحمل ہوئے، جو مشکلات انہیں اس راستے میں اٹھانی پڑیں، اب

هل جزا الاحسان الا الاحسان

کا تقاضہ یہی ہے اگر حق ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کیلئے دعا کریں، ان کیلئے طلب رحمت تو کریں، ان کیلئے بارگاہ الہی میں دست دعا تو بلند کریں، انہیں اچھے لفظوں کے ساتھ یاد تو کریں۔ ان کا ذکر خیر کرنا چاہیے ہمیں، یہ ان کی تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں، اگر خدا ہماری ہدایت نہیں کرتا وما کنا لنتہدی اگر خدا ہماری ہدایت فرتا تو ہم ہدایت نہیں پا سکتے تھے، اس ہدایت کا شکرانہ یہی ہے کہ ہم انہیں اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کریں، اور عزیزو اس صلوات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ محتاج ہے، ہمارا سوال تھا کہ ان کو کیا ضرورت ہے، لازمی نہیں ہے کہ انہیں ضرورت ہو، کیونکہ اس صلوات کا ثواب ہمیں ملتا ہے، ایک مرتبہ درود بھیجنے سے ہمارے اوپر دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ہمارے دس گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، معاف کر دیا جاتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے لئے حصول رحمت کیلئے، اپنے گناہوں کی بخشش کیلئے رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے۔اور ساتھ میں یہ کہ اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہماری دعائوں کے محتاج نہیں ہیں، لیکن لطف خدا کے تو محتاج ہیں، فضل خدا کے تو محتاج ہیں، خدا کے انعام و اکرام کے تو محتاج ہیں، اس لیے ہم درود میں یہ کہتے ہیں کہ خدایا تو رحمت نازل فرما، ہم مستقیما ان کیلئے نہیں کہہ رہے، ہم خدا سے درخواست کر رہے ہیں اللھم؛ اے ہمارے رب، اے ہمارے پروردگار! تو درود بھیج محمد و آل محمد پر۔ ہمارا خطاب کیونکہ رب العزت سے ہے، خالق کائنات سے ہے، ہم ان کی بارگاہ میں تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ رحمت نازل فرمائے۔ تو اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہماری دعائوں کی ضرورت نہیں لیکن لطف خدا اور رحمت خدا کی تو ضرورت ہے، ہم خدا کی بارگاہ میں عرض کر رہے ہیں، خدا کی طرف سے ان پر رحمت نازل ہوگی، ان کے درجات میں اضافہ ہوگا۔

یہ دعا اہلسنت کے ہاں بھی پائی جاتی ہے اور ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے، کہ خدایا! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس درجہ پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اس مقام محمود تک پہنچا جس کی وجہ سے وہ پوری کائنات کی پوری انسانیت کی شفاعت کریں گے۔یہ مضامین ہماری روایات میں ہیں، اور تمام مسلمانوں کی کتب میں بھی ہیں، در حقیقت صلوات بھیجنا ایسا ہے جیسے ایک باغبان جس کو مالک نےباغبان بنایا ہے اس طرح ہو کہ وہ باغ کی دیکھ بھال کرے، باغ کو صاف ستھرا رکھے، درختوں کی پودوں کی دیکھ بھال کرے، اگر وہی محنت کر کے اسی باغ سے پھول جمع کر کے گلدستہ بناتا ہے اور پھر مالک کی خدمت میں آ کر پیش کرتا ہے، اگرچہ پھول اس کے باغ کے ہیں، اگرچہ یہ سب سامان اسی کا ہی ہےلیکن اس نے محنت کر کے ان کو بنایا ہے، اس کو پیش کیا ہے اس سے خوش ہو کر اس کو دوبارہ انعام دے دیتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہے، ہمارا کچھ بھی نہیں ہے،سب کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عطا کردہ ہے، ہدایت انہوں نے کی، دعوت حق انہوں نے دی، انہوں نے ہمیں راہ حق کو دکھایا، ہماری رہنمائی فرمائی، لیکن اب ہم اس رہنمائی پر چلتے ہوئے عمل کرتے ہوئے ان کیلئے درخواست کرتے ہیں تو یہ گویا ایسا ہی ہے ان ہی کے سامان سے گلدستہ بنا کر کے اس کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں، تحفہ اور ہدیہ ان کی بارگاہ پیس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں خدا راضی ہو کر ہم پر مزید رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ جی ہاں وہ ہمارے محتاج نہیں ہیں، ہماری دعائوں کے محتاج نہیں ہیں، لیکن فضل خدا کے محتاج ہیں اور ہم بارگاہ الہی میں دعا کرتے ہیں کہ خدا ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

سلام کی تفسیر

اور آخری مطلب یہ کہ و سلمو تسلیما میں دو تفسریں بیان کی گئی ہیں ایک تو یہی ہے کہ ہم سلام پڑہیںالسلام علیک یا رسول الله السلام علیک ایها النبی و رحمه الله و برکاته ، ج یسا کہ نماز کے آخر میں پڑہا جاتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کرتے ہوئے کہا جاتا ہے یا تو مراد یہی ہے کہ سلام کرو۔یا یہ ہے کہو سلموا تسلیما یا ان کی ایسے اطاعت کرو، فرمانبرداری کا حق ہے۔ امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں یہ سلموا سے مرادهو التسلیم فی جمیع الامور (۲۶۱)

تمام امور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنا ہے، یعنی عملی اطاعت کرو، زبان سے تو تم نے کہ دیا کہ لا ال ہ الا اللہ محمد رسول اللہ(ص) اب عمل ی طور پر ثابت کرو کہ تم کلمہ گو ہو۔اطاعت کرو، فرمانبرداری کرو، اور پیروی کرو ان کی ان تمام ارشادات کی، دوسرے لفظوں میں سلموا سے مراد زبانی سلام بھی ہے السلام علیک بھی کہنا ہے اور عملی تسلیم بھی ہے اور یہ لسانی اورعملی ، دونوں قسم کی تسلیم ہی ہے جو انسان کوحقیقی مومن بنا سکتی ہے اور اس کے درجات میں اضافہ کرسکتی ہے۔

یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق میں دعا ہے، جو خود قرآن مجید نے بیان کی ہے، سورہ احزاب کی آیت ۵۶ ، کہ خود خدا بھی درود بھیج رہا ہے، رحمت نازل کر رہا ہے، فرشتے درود بھیج رہے ہیں، طلب رحمت کر رہے ہیں، ہمیں حکم دیا جا رہا ہے کہ اے ایمان لانے والو تم بھی درود بھیجو، تم بھی طلب رحمت کرو، ان کیلئے رحمت طلب کرنا در حقیقت اپنےلیے رحمت کو طلب کرنا ہے۔ہمیں اس عظیم الشان دعا سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جو ہمارے اوپر حق بنتا ہے اس کی ادائیگی کیلئے بکثرت صلوات پڑہنی چاہیے، درود بھیجنا چاہیے جو ہماری اس دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ دعا کرتے ہیں کہ خالق کائنات ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہلبیت کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

دنیا میں واپس آنے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قالَ رَبِّ ارْجِعُون ) (۲۶۲)

مومنین کرم قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج دنیا میں واپس آنے کی دعا کو پیش کرنا ہے۔

خالق کائنات نے اپنی حکمت اور دانائی کی بنیاد پر اس پوری کائنات کو پیدا فرمایاہے۔اور اتنے بہترین طریقے سے پیدا کیا ہے کہ اس سے بہتر طریقہ ہو ہی نہیں سکتا، یعنی یہ نظام جو اس دنیا میں پایا جاتا ہے، نظام احسن ہے۔اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا، اگر ہوتا تو خالق کائنات اس کے مطابق پیدا کرتا۔ کیونکہ خالق کائنات علیم ہے، خبیر ہے، بصیر ہے، حکیم ہے، کریم ہے اس کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، بخل نہیں ہے، جس چیز کیلئے جو جو صلاحیت ممکن ہو سکتی تھی ، جو بھی چیز جس جس جگہ اچھی لگ سکتی تھی خداوند متعال نے اس کو اسی طرح پیدا کیا ہے، اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اور اس مطلب کو قرآن مجید نے متعدد جگہوں پر بیان کیا ہے اور چیلنج کیا ہے کہ جائو جاکر رحمن کی تخلیق پر غور و فکر کرو، دیکھو، کیا کہیں تمہیں ایک چھوٹا سا ایک معمولی عیب نظر آ رہا ہے، پھر دوبارہ دیکھو ، پھر بھی تمہیں کوئی عیب نظر نہیں آئےگا، کیونکہ یہ حکیم کی تخلیق ہے۔خدا کی تخلیق ہے اس میں کوئی عیب اور نقص ہو ہی نہیں سکتا۔

موت کو مخفی رکھنے کا فلسفہ

اس نے اپنی حکمت سے انسان کو بنایا اور اس کو اتنے فضائل عطا فرمائے، احسن تقویم کی بنیاد پر اس کو پیدا فرمایا، اور اس دنیا میں اس کو بھیجنے کے بعد کچھ چیزیں اس سے پوشیدہ رکھیں، یہ بھی اپنی حکمت کی بنیاد پر، ان میں ایک اہم بات انسان کی موت کا وقت ہے۔خالق کائنات نے کسی کو نہیں بتایا کہ تم نے کب مرنا ہے،موت کے وقت کو مخفی رکھا رکھا گیا ہے، عام مخلوق سے چھپایا گیا ہے، اسی طرح خالق کائنات نے رزق اور روزی کا حساب کتاب مخفی رکھا ہے، اور قیامت کو بھی مخفی رکھا ہے کسی کو نہیں معلوم کہ قیامت کب ہوگی، میری موت کب آئے گی، میرا رزق کہاں سے کیسے اور کتنا آئےگا، ان چیزوں کے مخفی رکھنے میں بھی حکمت ہے، اگر خالق کائنات انسانوں کو بتادیتا ہے کہ تمہاری زندگی کتنی ہوگی، تم نے کب مرنا ہے، اس دنیا میں رہنا مشکل ہو جاتا،کیونکہ ظالم کو اگر پتا چل جائے کہ اس کی کتنی زندگی ہے تو وہ اور نڈر ہوجائے گا ، اس حوالہ سے ابھی تو بڑی زندگی پڑی ہے، آخر میں چل کر توبہ کرلینگے۔ اگر مظلوم کو پتا چلے کہ اس کی کتنی زندگی ہے وہ شاید مایوس ہو جائے، یعنی اتنے عرصہ تک مجھے اور مظالم برداشت کرنے ہیں، اس لیے خالق کائنات نے موت کے وقت کو مخفی رکھا ہے، تا کہ انسان ہر وقت تیار رہے، اور اہل ایمان کی نشانی یہی بتائی کہ وہ تیار رہتے ہیں۔

خالق کائنات یہودیوں کو مخاظب فرما کر ارشاد فرما رہا ہے،

( قُلْ يا أَيُّهَا الَّذينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صادِقين‏ ) (۲۶۳)

کہہ دو اے یہودیو اگر تم سمجھتے ہو کہ تم خدا کے دوست ہو، انسانوں میں سے خدا نے تمہیں چن لیا ہے، تم خدا کے زیادہ نزدیک ہو تو موت کی تمنا کرو، موت تو لقائے الہی کا ذریعہ ہے، موت کی وجہ سے تم خدا تک پہنچ جائوگے۔ تمنا کرو موت کی۔ لیکن پھر قرآن مجید خود جواب دے رہا ہے کہہ دو تم تمنا کر ہی نہیں سکتے ان اعمال کی وجہ سے جو تم سے سرزد ہوئے ہیں، جو تم نے انجام دئے ہیں، اس آیہ مبارکہ سے ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ موت کی تمنا کرنا موت کی آرزو میں رہنا، یعنی موت کیلئے تیار رہنا اولیائے الہی کی ایک نشانی ہے۔سسٹم خدا نے ایسا بنایا ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ آمادہ رہیں، تیار رہیں، موت کبھی بتا کر نہیں آئے گی، اچانک آئے گی۔ اور جو موت کا وقت معین ہے اسی وقت پر آئے گی، نہ ایک لمحہ پہلے اور نہ ایک لمحہ بعد میں۔

موت کی اقسام

البتہ ہم اس تفصیلی بحث میں نہیں جانا چاہتے جس کی بنیاد پر موت کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں ایک اجل حتمی ہوا کرتی ہے، جو یقینی ہے اور دوسری وہ جو لوح محو و اثبات میں ہوا کرتی ہے، یقینی نہیں بلکہ اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے، اس کے اپنے اسباب ہیں جن اسباب کی بنیاد پر کچھ ایسی نیکیاں ہیں جو عمرکو بڑہا دیتی ہیں، قرآن نے بھی بیان کیا ہے روایات میں بھی بیان ہوا ہے۔ کچھ ایسے گناہ ہیں جو زندگی کو کم کردیتے ہیں یہ بھی دونوں میں بیان ہوا ہے، لیکن موت تو آنی ہے۔ موت کے قانون سے کسی کی استثنا نہیں کی گئی، کوئی اس قانون سے باہر نہیں ہے سب کیلئے یہی قانون ہے، مومن وہ ہے جو ہمہ وقت تیار رہے۔ موت کے وقت کو نہ بتانے کا فلسفہ یہی ہے کہ ہر وقت تیار رہو۔ مومن تیار رہتا ہے، لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جو غفلت میں ہوتے ہیں، وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ موت صرف دوسروں کیلئے ہے ہم نے مرنا تھوڑی ہے، اتنی غفلت میں ہوتے ہیں، جب اچانک موت آ جاتی ہے حتی اذا جا احد ھم الموت جب ان میں سے کسی کو موت آجاتی ہے، موت کا وقت قریب ہو جاتا ہے، قبض روح کرنے والا فرشتہ نزدیک ہو جاتا ہے اس وقت دعا کرتا ہے قال رب ارجعون بار الہا مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے، مجھے دوسری زندگی عطا فرما، مجھے اور موقعہ اور فرصت دے، صالحا فیما ترکت، اس لیے موقعہ دے اس لیے زندگی دے تا کہ میں نے جو نیکیاں چھوڑ دی ہیں جو نیک عمل ضایع کر دیے ہیں دوبار جا کر ان کو انجام دوں، یعنی انسان پھر پشیمان ہوگا، حسرت کھائے گا، اسے دکھ ہوگا، کہ میں نے ایسا کیوں کیا، کاش ایسا نہ کرتا۔اور افسوس کی بات یہی ہے عام طور پر انسان کو تب ہی ہوش آتا ہے وہ اسی وقت ہی متوجہ ہوتا ہے جب پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔انسان اس وقت نعمت کا قدر کرتا ہے جب وہ نعمت چھن جاتی ہے، جب وہ نعمت ضایع ہو جاتی ہے، جب وہ نعمت چلی جاتی ہے پھر وہ ہاتھ ملتا ہے، پشیمان ہوتا ہے، حسرت کھاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی حسرت ہے۔کیونکہ دنیا کی چھوٹی موٹی چیزیں اگر انسان کے ہاتھ سے چلی جائیں تو قابل جبران ہیں، کیونکہ ان کو پھر سے حاصل کیا جا سکتا ہے نہ بھی ملیں تو اتنا مشکل نہیں ہوتا، لیکن زندگی خداوند متعال نے ایک بار دی ہے۔اور معلوم نہیں ہے کہ کس موڑ پر زندگی کی شام ہو جائے ، زندگی ختم ہوجائے، پھر انسان حسرت کھائے پشیمان ہو کہ دوبارہ اسے زندگی ملے، لیکن قانوں فطرت یہی ہے کہ زندگی خالق کائنات ایک ہی بار عطا فرماتا ہے۔

انسان کو چاہیے کہ اسی دنیا میں غفلت سے بیدار ہو جائے ، جو کچھ اس نے کرنا ہے اسی دنیا میں کرنا ہے، اسی زندگی میں کرنا ہے،دوبارہ زندگی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زندگی میں انسان تجربے کرے دیکھے پھر دوسری زندگی ملے جس میں جا کر وہ کام کرے، تجربہ سے فائدہ اٹھائے، نہیں اسی زندگی میں کرنا ہے۔در حقیقت یہ کافروں کی دعا ہے، کافر ایمان نہیں لائے انہوں نے جھٹلایا خدا کو، اس کے رسول کو، انبیا کو، کتاب الہی کو، خدا کی نشانیوں کو، اہل ایمان کو، آخرت نہیں ہے، تم دھوکہ میں ہو، تم ڈرا رہے ہو، تم بے جا سوچ اور فکر کرتے ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے، ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جب موت ان پر آ پڑی گی پھر بیدار ہوں گے، یہ موت ان کی آنکھوں سے پردوں کو ہٹا دے گی، حجاب ختم ہو جائینگے، انسان حقیقتوں کو دیکھنے لگیں گے، حقائق کو سمجھنے لگیں گے، اس وقت افسوس کرینگے، قرآن کہہ رہا ہے کہ ایسا نہ ہو تم ایسوں میں سے نہ بنو کہ زندگی کبھی بھی تمہیں متوجہ نہ کر سکے، زندگی کے کتنے ایسے موڑ ہیں جہاں انسان متوجہ ہوتا ہے کہ میں نے مرنا ہے، اس دنیا سے چلے جانا ہے، ہم کیوں متوجہ نہیں ہوتے، ہماری آنکھیں کیوں نہیں کھلتی، ہم سمجھ کیوں نہیں لیتے، اس وقت حسرت اور پشیمانی کا کیا فائدہ، جب پشیمانی کوئی فائدہ ہی نہ پہنچائے۔ ان آیتوں کا جو قرآن میں بہت زیادہ ہیں، ان کا مطلب ہمیں دعوت دینا ہے، ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے، ہمیں بیدار کرنا ہے، کہ مبادا تمہاری غفلت کہیں طولانی نہ ہوجائے کہ اس وقت تم متوجہ ہو جائو جب توجہ کا کوئی فائدہ نہ ہو، یہ سورہ مومنون کی آیت ۹۹ ہے دوبارہ بھیج دے خدایا لعلی اعمل صالحا اب جا کر میں نیک عمل کروں گا، اب جا کر آخرت کیلئے ذخیرہ کروں کا، اب جا کر توشہ جمع کروں گا، اب جا کر آخرت کو آباد کو فکر کرنے کی فکر کروں گا، لیکن اسے کہا جائے گا کہ نہیں ہر گز نہیں اب پشیمانی کا وقت نہیں ہے، اب حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ہم جانتے ہیں انھا کلمۃ ھو قائلھایہ وہ بات ہے جو وہ زبان سے کہہ رہا ہے، اس کو اگر دوبارہ بھیج دیا جائے وہی کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ انسان دھوکہ میں آجاتا ہے غافل ہو جاتا ہے۔

مرنے سے پہلے تیاری کر لو

اس لیے دوسری آیہ مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے

( وَ أَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْ لا أَخَّرْتَني‏ إِلى‏ أَجَلٍ قَريبٍ فَأَصَّدَّقَ وَ أَكُنْ مِنَ الصَّالِحين‏ ) (۲۶۴)

اب انفاق کردو جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، قبل اس کے کہ ایسا دن آجائے قبل اس کے کہ تم کو موت آجائے، پھر وہ کہنے لگے کہ بار الہا اس موت کو چند دنوں کیلئے موخر کر دے، مجھے چند دنوں کی مہلت دے دے، میری زندگی بڑہا دے، گویا کہ مجھے نئی زندگی عطا فرما، دوبارہ مجھے دنیا میں بھیج دے، اب میں صدقہ دوں گا، اور صالحین میں سے بن جائوں گا، اس آیہ مبارکہ میں خداوند متعال دعوت دے رہا ہے کہ دیکھو کوئی گارنٹی نہیں ہے، کوئی ضمانت نہیں ہے کہ تم نے کب تک اس دنیا میں زندہ رہنا ہے، باقی رہنا ہے، صحیح اور سالم رہنا ہے، تمہارے اعضا و جوارح میں طاقت اور توانائی ہے تم کچھ کر سکو،کوئی وقت معین نہیں ہے،ابھی سے انفاق کرو ، حیرت کی بات یہی ہے کہ خدا دے رہا ہے، دینے والا وہی ہے، چیزیں اسی کی ہیں، وہی کہہ رہا ہے کہ کچھ دے دو، خود بھی کھائو، استفادہ کرو، استعمال کرو، کچھ دے دو، انسان اتنا بخیل ہے کہ خدا کی دی ہوئی چیز خدا کے کہنے پر نہیں دیتا۔ عجیب و غریب قسم کے بہانے بناتا ہے، جب موت کا وقت آتا ہے پھر یہ کہتا ہے خدایا چند دنوں کی مہلت دے دے، اب مہلت نہیں ملے گی، مہلت کا وقت ختم ہو چکا ہے، تم نے پہلے کرنا تھا، یہ حسرت انسان موت کے وقت بھی کھائے گا جب موت کا وقت آئے گا تو بھی یہی کہے گا :بار الہا! مجھے کچھ مہلت مل جاتی، مجھے کچھ وقت مل جاتا، مجھے موقعہ دیا جائے، لیکن نہیں ملے گا۔ مرنے کے بعد انسان کہے گا کہ خدایا دوبارہ بھیج دے اس دنیا میں، نہیں، حتی کہ جب انسان کا فیصلہ ہو چکے گا قیامت ہو جائے گی، گنہگاروں کو جہنم میں ڈال دیا جائےگا وہاں بھی یہی کہے گا، ربنا ابصرنا و سمعنا ۔۔بار الہا اب ہم نے دیکھ لیا ہے ، اب ہم نے سن لیا، اب ہمیں دوبارہ زندگی عطا کر دے، دوبارہ دنیا میں بھیج دے، خدایا اب جب ہمیں دوبارہ زندگی دو گے دوبارہ دنیا میں بھیج دو گے تو اب ہم جا کر نیک بن جائیں گے، نیک عمل کرینگے، یہ حسرت انسان مختلف مواقع پر کرے گا، مرتے وقت بھی جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے قبل اس کے کہ موت آجائے پھر کہنے لگو کہ مہلت مل جائے۔ مرنے کے بعد دوبارہ حسرت کھائے گا بار الہا دوبارہ زندگی عطا کر دے، جہنم میں جانے کے بعد، جہنم کے عذاب کو دیکھنے کے بعد حقیقت کو جاننے کے بعد کہے گا کہ اب دوبارہ زندگی دے دے، دوبارہ دنیا میں بھیج دے، اب جا کر عمل کرینگے۔ اب ہم اچھے بن جائنیگے اب بہترین بن جائینگے ہمیں دوسرا موقعہ دیا جائے، لیکن اس وقت موقعہ نہیں دیا جائے گا، کیونکہ خالق کائنات نے موقعہ دیا تھا۔

شاید اس طرح کی گفتگو ہو، جب کسی کی موت آجائے تو کہے کہ مجھے بتا تو دیتے، ملک الموت کہہ سکتا ہے تم نے نہیں سنا فلاں دن تمہارے فلاں پڑوسی کا انتقال ہو گیا، کہا میں سے سنا تھا، کہا پھر اس سننے کو تم نے کافی نہیں جانا، جب تم نے دیکھا کہ وہ چلا گیا ہے اور جانے والے بھی مختلف ہیں، کوئی بچپنے میں جا رہا ہے، کوئی جوانی میں پہنچ کر مر رہا ہے، کسی کو بڑہاپے تک زندگی مل رہی ہے، ہر کوئی جا رہا ہے، کسی نہ کسی مرحلہ پر جا رہا ہے، ملک الموت یہی کہے گا جب تم دیکھا کہ تمہارا پڑوسی چلا گیا، وہ جوانی میں مر گیا، وہ پڑہاپے میں مر گیا، وہ فلاں مر گیا رشتہ دار گئے، دوست گئے، کون کون گیا، ان چیزوں کو تم نے نشانی کیوں نہیں سمجھا، پیغام کیوں نہیں سمجھا، خبر کیوں نہیں سمجھا کہ میں نے جانا ہے، اب کہہ رہے ہو کہ بتاتے، یہ سب بتانے تو آیا تھا، یہ سب تمہارے لیے اعلان تھا۔ تمہیں بتایا جا رہا تھا کہ وہ جا رہے ہیں جب انبیا نہیں رہے اس دنیا میں، اولیا نہیں رہے، خاتم الانبیا و المرسلین نہیں رہے ، جب احمد مرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ رہے تو کون رہے گا، تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ تم نے اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، نہیں اب پشیمانی کا کائی فائدہ نہیں ہے۔

خالق کائنات نے پشیمانی کا فائدہ رکھا ہے، لیکن آخری حد کے پہنچنے سے پہلے۔ وہ آخری حد کیا ہے معلوم نہیں، یعنی انسان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے، کوئی یہ سمجھے کہ بعد میں کچھ کر لوں گا، ابھی جو دل کہہ رہا ہے جو خواہشات کا تقاضہ ہے پوری کرتا ہوں ، کل جا کر اس طرح کروں گا اس طرح کروں گا، یہ کافی نہیں ہے، کل کی خبر کسی کو نہیں ہو، انسان سامان تو سو برس کا کر لیتا ہے سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں، امام علی علیہ السلام کی فرمایش کے مطابقاعمل لآخرتک کانک تموت غدا ۔(۲۶۵)

اپنی آخرت کیلئے جب عمل کرنا چاہو تو یہ سمجھ کر عمل کرو یہ عقیدہ رکھو تم نے کل مر جانا ہے، نہیں سمجھو کہ ابھی وقت ہے، لمبی عمر ہوگی، بڑی زندگی ہوگی، ابھی تو فرصت ہے،کبھی دوسری فرصت میں دوسرے موقعہ پر عمل کروں گا، انسان اس دنیا میں پشیمان ہو جائے اس پشیمانی کا فائدہ ہے، خدا کریم ہے غفور ہے، ستار العیوب ہے، غفار الذنوب ہے چھپا دیتا ہے، بخش دیتاہے لیکن یقینی فیصلہ ہونے سے پہلے، جب یقینی فیصلہ ہو جائے جب موت آ پہنچے پھر یہ تقاضہ کرنا اخرتنی الی اجل ۔۔ پھر یہ تقاضہ کرنا ارجعون پھر یہ تقاضہ کرنا فارجعنا، پھر اس تقاضہ کا اس درخواست کا اس دعا کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

زندگی کو غنیمت سمجھیں

ان تمام عرائض کا مطلب اور مقصد یہی ہے کہ ہمیں جو زندگی دی گئی ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، ایک ایک لی جانے والی سانس قیمتی ہے، یہ زندگی خدا نے ایک بار دی ہے، دوبارہ نہیں ملے گی اس لیے بڑے بڑے فلاسفہ عظیم دانشور اکابر علما یہی ہمیں نصیحت کر کے گئے ہیں کہ اپنی زندگی سے، صحت اور سلامتی سے، جوانی سے، مال و ملکیت سے اور تمام نعمتوں سے استفادہ کرو فائدہ اٹھائو اپنی دنیا کو آباد کرو، آخرت کی بھی فکر میں رہو، آخرت کو بھی آباد کرو، کیونکہ یہ موقعہ تمہیں دوبارہ نہیں ملے گا، شہید مرتضی مطہری ارشاد فرماتے ہیں کاش مجھے دوسری زندگی دی جاتی،میں اس زندگی میں جو تجربہ کیا ہے اس سے دوسری زندگی میں فائدہ اٹھاتا، لیکن دوسری زندگی نہیں ہے۔ جو کچھ کرنا ہے اسی زندگی میں کرنا ہے،انسان ہمیشہ اپنے تجربہ نہ کرتا رہے دوسروں کے تجربہ سے بھی فائدہ اٹھائے، تاریخ سے عبرت لے، اقوام کی سرگزشت کو دیکھے ان کے نصیب میں آنے والی تقدیر کو غور سے دیکھے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور اپنی زندگی کو سنوارے، کیونکہ یہ زندگی ایک ہی مرتبہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی وہاں پر یہی حسرت کھائیں، رب ارجعون دوبارہ زندگی دے، فارجعنا دوبارہ دنیا میں بھیج دے، اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اسی زندگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے، اور دعا کرنی چاہیے کہ خداوند متعال ہمیں اس پشیمانی سے بچائے، جس پشیمانی کا کائی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم دعا کرتے ہیں خدا ہم سب کو ایسی بابرکت اور مفید زندگی عطا فرمائے کہ جب یہ عمر پوری ہو تو ہم انعام و اکرام الہی دیکھ کر زندگی سے خوش ہو جائیں، ان میں سے قرار نہ دے جو موت کو دیکھ کر زندگی سے پشیمان ہوں۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

زکوات دینے والوں کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِمْ بِها وَ صَلِ‏ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَ اللَّهُ سَميعٌ عَليم‏ ) (۲۶۶)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج زکوات دینے والوں کیلئے دعا کو نقل کرنا ہے۔

اسلامی اقتصادی نظام

اسلام خالق کائنات کی طرف سے بھیجا ہوا مکمل ظابطہ حیات ہے، اس دین نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور ضرویات زندگی پر گفتگو کی ہے، اور اسلامی معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل بیان کر دیا ہے، کسی بھی معاشرے کسی بھی قوم کا ایک اہم ترین مسئلہ ان کی اقتصادیات اور معیشت کا ہوتا ہے۔اور معیشت اور اقتصاد کا اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں طبقاتی نظام نہ ہونے پائے۔یعنی ایسا نہ ہو کہ معاشرے میں لوگ مختلف طبقات میں بٹ جائیں ایک طبقہ امیروں کا ہو، ایک طبقہ غریبوں کا ہو، اور ان دونوں کے درمیان آپس میں اختلافات ہوں، تنازعات ہوں، اور یہ امیر پھر ایسی پالیسیاں بنائیں جن کی وجہ سے روز بروز وہ امیر سے امیر تر بن جائیں اور غریب زیادہ سے زیادہ غریب ہوتے چلے جائیں، اگر اس طرح کا فاصلہ بڑہے گا اگر معاشرے میں اس طرح کے طبقات وجود میں آئیں وہ معاشرہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا، ایسا دین بھی زیادہ دیر معاشرہ میں نہیں چل سکتا جو افراد کے مسائل کو حل نہ کر سکے۔ اگر انسان دین کو قبول کرتا ہے، اگر وہ کسی دین پر ایمان لے آتا ہے یقینا اس بنیاد پر کہ یہ دین اس کی مشکلات کا حل ہے، چاہے وہ معنوی مسائل ہوں روحانی و معنوی یا پھر اس دنیا کے مسائل ہوں، اسلام نے اس کا بہترین طریقہ بتایا ہے، اسلام ایک طرف آزادی ملکیت کا قائل ہے، یعنی اسلامی نظریہ یہ ہے کہ جس کے پاس جو مال ہے وہ اس کا اپنا ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مرضی کے بغیر اس کی رضایت کی بغیر، اس کی اجازت کے بغیر اس سے وہ مال چھین لے، غصب کر لے، اس پر قبضہ کر لے، دوسروں کا مال محترم ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کا مال اس سے لے لے۔ البتہ اسلام معاشرے کی سلامتی کیلئے صحیح معاشرہ کو وجود میں لانے کیلئے اور بہترین معاشرہ بنانے کیلئے اس ثروت کی تعدیل چاہتا ہے، اسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ دولت اور ملکیت اور سرمایہ کسی مخصوص طبقہ کا ہو کر نہ رہ جائے، ایسا نہ ہو کہ تمام وسائل پر ایک مخصوص گروہ قبضہ کرلے اور دوسرے انسان اس سے محروم رہ جائیں، وہ بھی خدا کے بندے ہیں، وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں، ان کے پاس بھی ان وسائل کا فائدہ پہنچنا چاہیے، ان کو بھی فائدہ ملنا چاہیے ، لہذا اسلام نے اس حوالے سے مختلف عناوین سے پیسے والوں کو تشویق دلائی ہے کہ غریبوں کی مدد کریں، وہ اپنے بھائیوں کی مدد کریں، ان کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا اکردار ادا کریں، ان میں سے اہم ترین مخارج اور عناوین خمس اور زکوات ہیں۔

زکوات معاشرے میں طبقاتی نظام کو ختم کرنے کیلئے ہے، خالق کائنات نے کتنا بڑا فضل کیا ہے اور کیسا بہترین دین ہمیں عطا کیا ہے تم دوسرے انسانوں کو خیال کرو، دوسروں کی مشکلات کو حل کرو، دوسرے کو مسائل کو حل کرو، یہ خدا اپنی عبادت شمار کرے گا، اور تمہارا یہ عمل خدا کی رضایت کا سبب بنے گا، دین اسلام رضایت پروردگار کو، بندگی خدا کو محدود نہیں کرتا مقید نہیں کرتا اذکار کے ساتھ مخصوص رسومات کے ساتھ، نہیں بلکہ ہر وہ عمل جس کا حکم خدا نے دیا ہے چاہے وہ عبادت ہو یعنی اس کا تعلق خدا سے ہو ، چاہے معاملات ہوں جس کا تعلق انسانوں سے ہو، معاشرہ سے ہو، یہ تمام کے تمام عبادت ہیں، تمام کے تمام رضایت لہی کا سبب ہیں۔

صدقہ سے مراد

اسی لیے رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا جا رہا ہے خذ من۔۔ان کے مال سے صدقہ لو البتہ یہاں یہ بھی بیان کیا جائے کہ یہاں صدقات سے مراد فقط مستحب صدقہ نہیں ہے ۔(۲۶۷)

اگرچہ قرآن نے لفظ صدقہ کو اسی معنی میں بھی استعمال کیا ہے، لیکن یہاں اس سے مراد زکوات ہے، خذ من اموال ہم صدقہ، ان کے مال سے زکوات لو، ک یوں لو؟ کیا ہوگا؟ تط ہرہم بہا، یہ ان کو پاکیزہ بنائے گا، ان کی تربیت کا سبب ہےلوگوں کے دلوں کو پاک کرنے کا سبب ہے یہ زکوات۔ و تزکیھم بھا؛ اور اس زکوات لینے کے ذریعہ سے ان کے مال میں برکت آئے گی۔ آثار زکوات کو اگر ہم دیکھیں کہ دین مبین اسلام نے زکوات کیوں واجب کی ہے؟ اس کے اثرات کیا ہیں معاشرے پر؟تو ان میں اہم وہی ہیں جو خود قرآن مجید نے اسی آیت میں نقل کئے ہیں۔

کنجوسی کا علاج

یہ جو انسان کے اندر مال کی محبت پائی جاتی ہے، انسان مال کو جمع کرنا چاہتا ہے،

( وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَديد ) (۲۶۸)

یہ جو زیادہ سے زیادہ مال کمانا اور جمع کرنا چاہتا ہے، یہ بھی ایک بیماری ہے، یہ بھی ایک مسئلہ ہے، اور اگر مال لینے کے بعد کمانے کےبعد، حاصل کرنے کے بعد، درآمد کے بعد اسے مناسب طور پر خرچ نہ کیا جائے، اس مال میں کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے بخل کا مظاہرہ کیا جائے، تو یہ بہت بڑی بیماری ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے کئی اخلاقی بیماریاں وجود میں آتی ہیں، انسان اپنے اور اپنے اہل و عیال کا خیال نہیں رکھتا، دوسروں کے بارے میں برا سوچتا ہے، خدا کے حوالہ سے سوئے ظن کرتا ہے، خدا پر توکل نہیں کر پاتا، یہ بخل کا نتیجہ ہے۔لیکن دین جب حکم دے رہا ہے کہ خرچ کرو اگر انسان اپنے اس خواہش پر غالب آتے ہوئے خرچ کرنے لگے تو اس کی یہ بیماری آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی، اس کا نفس پاک اور صاف ہو جائے گا اس بیماری سے،وہ بیماری بہت ساری بیماریوں کی جڑ ہے وہ اساس سے ختم ہو جائے گی۔ اس سے افراد کی تربیت ہوگی، افراد پاک و پاکیزہ بنیں گے، بخل ایک بیماری ہے۔ خود قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے کہ

( وَ مَنْ يُوقَ‏ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون‏ ) (۲۶۹)

جو بھی نفس کے حرص، طمع اور لالچ سے بچ جائے ، بخل اور کنجوسی سے بچ جائے وہی کامیاب ہونے والا ہے۔ اور زکوات دینا نفس پر غالب آنا ہے، اللہ کے حکم پر مال خرچ کرنا خواہشات کو دبا دیتا ہے، ان سے افراد کا اخلاق بہتر سے بہتر بنتا ہے۔

قرآن مجید دوسری جگہ پرارشاد فرما رہا ہے کہ

( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى ) (۲۷۰)

کامیاب ہے مومن وہ انسان جو زکوات کو ادا کرتا ہے، اپنے مالی واجبات کو ادا کرتاہے، جو جو اس کے مال کے اوپر دوسروں کا حق ہے ان کو ادا کرتاہے،چاہے وہ سائل ہے چاہے وہ محروم ہے جو بھی حق خالق کائنات ان کے اموال میں رکھا ہے اس حق کو ادا کرتے ہیں، یہ زکوات کو ادا کرنااخلاقی بیماریوں سے انسان کو بچا دیتا ہے،حب مال سے، مال کی محبت سے، بخل اور کنجوسی سے انسان کو نجات عطا کرتا ہے۔اور پھر یہ مال میں اضافہ کا سبب بنتا ہے، اس کی وجہ سے مال میں برکت آتی ہے، ہمارا تو عقید ہ یہی ہے کہ دینے والا خدا ہے، جب وہ دینے والا ہے اس نے دیا ہے اور حکم اس نے کیا ہے اس میں سے کچھ حصہ خرچ کرو ، جب اس کے مال کا کچھ حصہ اس کے حکم کے مطابق خرچ کیا جائے تو وہ مزید برکت عطا کرتا ہے

( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزيدَنَّكُم‏ ) (۲۷۱)

کی بنیاد پر اگر تم شکر کرو گے، مال کا صحیح استعمال کروگے، نعمت کو درست استعمال کرو گے تو یہ نعمتوں میں اضافہ کا سبب بنے گا، اس نعمت کو صحیح استعمال کی وجہ سے، اس نعمت میں برکت عطا ہوگی خالق کائنات اس میں اضافہ فرمائے گا۔

رزق اور روزی میں برکت

احادیث میں بھی اسی مضمون کو نقل کیا گیا ہے زکوات کو ادا کرنا مالی حقوق ادا کرنا رزق اور روزی میں اضافہ کا سبب ہے، خدا اور برکت عطا فرمائے گا، کیونکہ خالق کائنات کی اطاعت کی گئی ہے اور اس کی فرمانبرداری کی گئی ہے، اس کے نام پر اس کے مال کو خرچ کیا گیا ہے، ہم غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں، شیطان ہمیں دھوکہ دے دیتا ہے یہ کہہ کر اگر تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اللہ کے حکم پر خرچ کیا تو غریب ہو جائوگے،

( الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ‏ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً ) (۲۷۲)

شیطان تمہیں ڈراتا ہے غربت سے، اللہ کی راہ میں خرچ کروگے دوسروں کو دوگے تمہارا کیا ہوگا، تم غریب ہو جائوگے، تم فقیر ہو جائوگے، تمہیں پھر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا، اس طرح شیطان انسان کو نیکیوں سے دور کر دیتا ہے۔ یہی شیطان جب حرام کا مورد آتا ہے، گناہ کیلئے خرچ کرنا پڑتا ہے تو آ کر انسان کو بھڑکاتا ہے، اکساتا ہے کہ خرچ کرو۔ اور حقیقت ہے یہ پیسہ بچنے والا تو ہے نہیں، یہ مال و ملکیت اور متاع دنیا ہے یہ آنے اور جانے والی چیز ہے، اگر ہم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا، اگر ہم نے اسے صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کیا تو گناہوں میں استعمال ہو جائے گا، بجائے برکت کے ہمارے نقصان اور خسارہ کا سبب بنے گا، ہماری دنیا بھی آباد نہیں ہو پائے گی اور آخرت بھی برباد ہو جائے گی، اسی بنیاد پر۔ اور یہ تجربہ ہے کہ جو بھی انسان اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا ، نیکی کیلئے خرچ نہیں کرتا اسے گناہوں میں خرچ کرنا پڑہتا ہے، یہ پیسہ تو خرچ کرنا ہے، اگر صحیح راستہ پر خرچ نہ کیا جائے تو یہ شیطان انسان کو بہکا کر غلط راہوں پر خرچ کرا دیتا ہے، پھر وہاں شیطان یہ نہیں کہتا کہ اب فقیر ہو جائوگے یا غریب ہوجائوگے، وہاں پھر شیطان کے دوسرے طریقہ کار ہوتے ہیں یہ زکوات انسان کے مال میں برکت کا سبب بنتی ہے، اصلا زکوات کی معنی ہی یہی ہے کہ اس میں نمو آئے، رشد آئے، نشونما ہو اس میں اضافہ ہو۔

خالق کائنات خود ارشاد فرما رہا ہے کہوَ يَأْخُذُ الصَّدَقات (۲۷۳)

یہ تمہارے صدقات اور جو مال بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو وہ سب کے سب اللہ لیتا ہے، کبھی بھی یہ نہ سمجھنا تم جو مال کسی کو دے رہے ہو جس کے ہاتھ پر رکھ رہو ہے اس کے ہاتھ میں جا رہا ہے، نہیں اس کے ہاتھ سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جا رہا ہے اور وہ قبول کرنے والا ہے وہ لینے والا ہے صدقات کو، یاخذ الصدقات؛ قرآن بلکل واضح انداز میں ارشاد فرما رہا ہے تم جو سمجھتے ہو کہ سود دینے سے تمہارے پیسوں میں اضافہ ہوگا، زکوات دینے کی وجہ سے تمہارے مال میں کمی آ جا ئے گی، تو ایسا ہرگز نہیں ہے، خدا ربا اور سود کی برکت کو ختم کردیتا ہے، لیکن صدقات میں برکت عطا فرماتا ہے،

( يَمْحَقُ‏ اللَّهُ الرِّبا وَ يُرْبِي الصَّدَقات ) (۲۷۴)

خالق کائنات ربا کو بے اثر بنا دیتا ہے، بے فائدہ بنا دیتا ہے اس سے برکت کو چھین لیتا ہے لیکن صدقات اور جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے اللہ اس میں برکت عطا کرتاہے۔

مال کی حفاظت

اس طریقہ سے خداوند متعال چاہتا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے۔ اور خاص طور پر جس بھی پیسہ کے مالی حقوق ادا کیے جائیں ، مال کا جتنا حق اسلام نے رکھا ہے، خدا نے قرار دیا ہے اگر انسان اس کو ادا کرے ، اس مال کی حفاظت کا سبب بن جاتا ہے، یہ مال اب محفوظ رہے گا، اس کو دوسر ے چھین نہیں سکتے، کیونکہ یہ حلال، پاک اور پاکیزہ مال ہے۔

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جو بھی اپنے مال کا خدا ئی حق ادا کرے گاتو میں ضامن ہوں کہ اس کا مال چاہے خشکی پر ہو، چاہے پانی میں ہو، اس کا مال ضایع نہیں ہوگا(۲۷۵)

اس کے مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، درحقیقت یوں سمجھ لیا جائے جو مال خدا کی راہ خرچ کیا جاتا ہے وہ مال دوسرے باقی مال کی ضمانت اور حفاظت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس سے دوسرا مال بھی محفوظ بن جاتا ہے گویا کہ آپ نے اپنے مال کی انشورنس کرا دی ہے، بیمہ کر دیا اپنے مال کو، اب کوئی بھی زمینی اور آسمانی آفت اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی، یہ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جو مالی حق ادا کرے گا ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں۔

اور امام موسی کاظم علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ

حصنوا اموالکم بالزکاة ؛ اپنے مال کی حفاظت کرو، زکوات کے ذریعہ سے۔(۲۷۶)

یعنی خدا کا حق ادا کرو یہ حق ادا کرنا دوسرے مال کی حفاظت کا سبب بن جائے گا، دنیا میں کتنے فائدے ہیں، اسلامی معاشرہ صحیح اور سالم بن جائےگا، معاشرہ کے اندر طبقاتی نظام ختم ہوجائے، معاشرہ میں غربت کا خاتمہ ہو، زکوات غریبوں کی دی جائے گی تو غربت کا خاتمہ ہو گا، اتحاد ہو، وحدت ہو، امت مسلمہ ایک دوسرے سے مربوط رہے، ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔

امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ کوئی غریب اس وقت تک بھوکا نہیں رہتا مگر یہ کہ امیر اپنا حق ادا نہیں کرتے۔(۲۷۷)

غریبوں کی غربت میں امیروں کا عمل دخل ہوتا ہے، وہ اگر اپنے مالی حقوق کو ادا کریں تو کبھی غریب، غریب نہیں رہے گا، کیونکہ خدا نے اس کو غریب نہیں بنایا تھا، خدا نے جو وسائل بنائے ہیں وہ سب کیلئے بنائے ہیں، یہ انسان ہیں جو اپنے ارادے اور آزادی سے غلط استفادہ کرتے ہوئے وسائل کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو محروم کر دیتے ہیں، اور یہ زکوات ہے جو رضایت خدا کا سبب بنتی ہے، پھر بھی امام علی علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دینگے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ

الله الله فی الزکاة (۲۷۸)

خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو زکوات کے بارے میں، زکوات کو اد اکیا کرو کیونکہ زکوات کو ادا کرنا رحمان کی ناراضگی کو ختم کردیتا ہے، اس سے رضایت خدا حاصل ہوتی ہے،خدا راضی ہوجاتا ہے اور یہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، دوسروں کی مدد کرنے سے، دوسروں کی مشکلات کو حل کرنے سے خود انسان کی اپنی مشکلات حل ہوتی ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہماری مدد کرے تو ہمیں بھی کسی کی مدد کرنی چاہیے، خد ابھی ان کی مدد کرتا ہے جو دوسروں کی مدد کرے، انہیں معاف کرتا ہے جو دوسروں کو معاف کریں، ان کی سنتا ہے جو دوسروں کی سنیں، یہ آداب میں سے ہے۔

رسول اکرم(صلعم) کی دعا

اہم ترین فائدہ یہی ہے کہ یہ زکوات رسوک اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا کا سبب ہے۔

قرآن مجید یہ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر ان کے مال سے زکوات لو، اس زکوات لینے کی وجہ سے ان کو پاکیزہ بنائو، ان کو برکت عطا کرو، و صل علی ہم؛ زکوات لینے کے بعد ان کیلئے دعا کرو، تمہاری دعا کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان صلاتک سکن لھم، رسول کی دعا کی وجہ سے انسانوں کو سکون عطا ہوگا، اطمینان عطا ہوگا، دل مطمئن رہینگے، ضمیر مطمئن رہے گا، اور یہ اطمینان، سکون انسانیت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، انسان جتنی کوشش کرتا ہے کہ سکون حاصل کرے، اصلی سکون ان کاموں میں ہے جن میں خدا کی رضایت ہو اور رسول کی رضایت بھی شامل ہو، انسان کیلئے اس میں سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ اور یاد رکھو خدا دیکھ بھی رہا سن بھی رہا ہے، دیکھ رہا ہے کہ کون اس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے زکوات دیتا ہے اور کون ہے جو نقطہ چینی کرتا ہے، خدا کے خلاف باتیں کرتا ہے، خدا نے ایسا کیوں قرار دیا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو یہ اشکال کرتے ہیں کہ آخر ہم دوسروں کیوں دیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو بھی کسی نے دیا ہے، ناشکری کرتے ہیں در حقیقت۔

یہ وہ دعا ہے جو قرآن مجید زکوات دینے والوں کیلئے ارشاد فرمائی ہے، اور زکوات کے مصارف اگر ہم دیکھیں تو اسلامی معاشرہ کی اصلاح کا سبب ہے، اور دشمنوں کو اپنے طرف مائل کیا جا سکتا ہے زکوات کے ذریعہ سے؛ کیونکہ زکوات کا ایک مصرف یہ ہے کہ تالیف قلوب ہو، اگر اس زکوات کے پیسہ سے ہم کافروں کی دلوں کو نرم کر کے ان کو اسلام کی طرف جلب کر سکیں، اسلام کی طرف لا سکیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، اس سے دشمنوں کو دوست بنایا جاسکتا ہے، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کی جاسکتی ہے، عمومی جتنی مصلحتیں ہیں عمومی جتنے مسائل ہیں مسلمانوں کے، ان کو حل کیا جاسکتا ہے، فی سبیل اللہ یہ جو قرآن میں آیا ہے کہ زکوات کا ایک مصرف وہ ہے جو انسان کے فائدہ میں ہو، اسلامی معاشرہ کی ترقی کا سبب بنے، چاہے وہ روڈوں کا بننا ہو، چاہے ہسپتالوں کی تعمیر ہو، چاہے علمی مراکز کی تاسیس ہو، جتنے بھی عمومی فوائد ہیں ان سب میں زکوات کو استعمال کرکے ان کو حل کیا جاسکتا ہے۔ در حقیقت ایک پورا سسٹم ہے، نظام ہے جو خالق کائنات نے دین کی صورت کی ہمیں عطا کیا ہے، اور اس ذریعہ سے انسان اپنی دینا اور آخرت کو آباد کرسکتا ہے، اپنی اصلاح کرسکتا ہے، معاشرہ کے مسائل کو حل کرسکتا ہے، خدا کے ہاں مقام حاصل کرسکتا ہے، اپنے حق میں رسول اللہ کی دعا حاصل کرسکتا ہے۔ یہ خدا کا حکم ہے جو رسول کو دیا جا رہے کہ وصل علی ہم؛ زکوات لینے کے بعد ان کیلئے دعا کرو، یہ وظیفہ ہے، یعنی نیک انسانوں کیلئے سب سے بڑی دلجوئی کی بات یہ ہے کہ ان کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعا کرتے ہیں، خاص طور پر جب انسان مالی حقوق ادا کرتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے حق میں دعا کرتا ہے، اور ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے، خود قرآن مجید کہہ رہاے کہ و صل علیھم اس کا نتیجہ نکلے گا کہ پھر ان کا دل مطمئن رہے گا، یہ چھوٹی بڑی باتوں سے پریشان نہیں ہونگے، ڈپریشن، اضطراب اور ٹینشن کا شکار نہیں رہینگے، ان کے دل مطمئن رہینگے، ان کا ضمیر مطمئن رہے گا کہ انہوں نے خدا کی امانات کو ان کے حقداروں کے سپرد کر دیا ہے، اور جتنے سارے خدا کے واجبات تھے وہ ادا کر دیے ہیں، ان کی دنیا بھی آباد ہو رہی اور آخرت بھی، ان کو مال میں برکت بھی دی جا رہی ہے۔ نفس کی اصلاح ہو رہی ہے، اور اس کو رذائل اخلاقی سے پاک کیا جا رہا ہے، بہت سارے فوائد ہیں زکوات دینے میں، جس کی بنیاد پر رسول اللہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ ان سے زکوات لے کر ان کو پاک پاکیزہ بنائو، ان کو برکت عطا کرو، اور ان کیلئے دعا مانگو، اور رسول کی دعا ان کی دلوں کو سکون میسر کرے گی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خالق کائنات ہمیں ان مالی حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سکون قلبی عطا فرمائے جو کہ اوامر الہی کی اطاعت کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔خدایا ایسا بنا دے کہ ہم انبیا اور آئمہ کی دعائوںمیں شامل ہوسکیں۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

شرح صدر کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( قالَ رَبِّ اشْرَحْ‏ لي‏ صَدْري ) (۲۷۹)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج شرح صدر کی دعا کو پیش کرناہے۔

یہ شرح صدر اتنی اہمیت کی چیز ہے کہ جناب موسی علیہ السلام کو جب خالق کائنات نے نبوت عطا کی ، رسالت عطا کی اور فرمایا کہ جائو فرعون کو جا کر ڈرائو، اسی توحید کی دعوت دو، تو حضرت موسی علیہ السلام نے یہی دعا کی جو بہت معروف اور مشہور دعا ہے، سورہ طہ کی آیات ہیں ۲۵ سے ۲۸ تک، دعا کی کہ رب اشرح لی صدری بار الہا میرے سینے کو کشادہ کر دے، میرے کام کو آسان بنا دے، میری زبان کی گرہ کو کھول دے تا کہ وہ میری بات کو سمجھ سکیں ، انبیا علیہ السلام ایک مقصد لیکر آتے ہیں اس دنیا میں، اور امامت کیونکہ نبوت کا استمرار ہے، اس کیلئے آئمہ کا بھی مقصد وہی ہوتا ہےجو انبیا علیہ السلام کا ہوتا ہے۔پھر جب وہ اس دنیا میں آتے ہیں انہیں مختلف افراد کا سامنا پڑہتا ہے، کچھ تو ایسے ہیں جو ان کی بات کو مان لیتے ہیں، قبول کرتے ہیں، ایمان لے آتے ہیں، لیکن اکثریت ان کی ہوتی ہے جو ایمان تو نہیں لاتے الٹا جھٹلاتے ہیں، تہمتیں لگاتے ہیں، اور مخلتف طریقوں سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو ان کی تبلیغ سے دستبردار کیا جا سکے، ان کو ان کے مقصد سے دور کیا جا سکا، یہ باتیں پہلے مرحلہ میں انبیا کیلئے ہوتی ہیں ، دوسرے مرحلہ میں انبیا کے ماننے والوں کیلئے بھی ہوتی ہیں، اہل ایمان کیلئے بھی ہوتی ہیں، کیونکہ اہل ایمان انبیاء کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے خدائی پیغام کو قبول کرلیتے ہیں اس پر زندگی گذارنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ شیطان کے چیلوں کیلئے شیطان کے کارندوں کیلئے قابل برداشت نہیں ہوتا، ان سے برداشت نہیں ہوتا کہ یہ اس طرح کام کرتے رہیں لہذا کوشش کرتے ہیں کہ ان کو تکالیف دیں، اذیتیں دیں جس طرح بھی ہو سکے انہیں راہ نبوت سے، انبیا علیہ السلام کے ہدایت کے راستہ سے دور کیا جاسکے، اب یہاں انسان کے ایمان کا امتحان شروع ہو جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے، وہ ان مشکلات کا کتنا مقابلہ کر سکتا ہے،بہت اہم نکتہ ہے یہ، جو ایک مقصد لے کر آیا ہے اس کیلئے سب سے زیادہ اہم اس کا مقصد ہوا کرتا ہے، پھر اس کو تمام تکالیف برداشت کرنی پڑتیں ہیں، کیسے برداشت ہوں گی۔

شرح صدر کی معنی

جناب موسی علیہ السلام کو جیسےہی پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا کہ ہم تمہیں رسول بنا رہے ہیں جائو دعوت دو ، یہ ایک بہت بڑا مقصد تھا، بہت مشکل مرحلہ تھا، آپ ذرہ تصور کریں ایک عام معمولی انسان کو ، ظاہری طور پر معاشرہ میں ان کی اقتصادی حالت دیکھیں، ایک چوپان کو جسے فرعون غلام اور نوکر سمجھتا تھا اس کا ایک فرد جائے، فرعون کے سامنے کھڑا ہوجائے اور کہے کہ مجھ پر ایمان لے آئو، آسان کام نہیں ہے۔

لہذا دعا کی بار الہا میرے سینے کو کشادہ کر دے، اس مقصد میں بہت ساری مشکلات آئیں گی، میرے سینے کو کشادہ کر دے، مجھے اتنا مضبوط دل عطا فرما، میرے حوصلہ اتنے بلند ہوجائیں کہ تیری راہ میں آنے والی ہر مشکل کا سامنا کر سکوں، اور ہر مشکل کو برداشت کر سکوں، میرے قدم ڈگمگانے نہ پائیں،مجھ پر ان کا اثر نہ ہوجائے، یہ شرح صدر کی معنی ہے۔ سینہ کشادہ ہوجائے، میرا فکر وسیع ہوجائے، میں دور اندیش بن جائوں، میں حقیقت کو دیکھنے لگوں، میں حق اور باطل میں فرق کر سکوں، میں حقیقی باتوں کی تشخیص دے سکوں، یہ چند دنوں کی بات ہے اور یہ ہمیشہ کی بات ہے، یہ دکھاوا ہے، یہ حقیقت ہے، یہ سراب ہے، ان چیزوں کو سمجھ سکوں، جب خداوند متعال کسی کو کوئی ذمہ داری عطا کرتا ہے تو اسے یہ دعا کرنی چاہیے کہ خالق کائنات اسے اس ذمہ داری کو بہتر طریقہ سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور یہاں پر شرح صدر کی، سینہ کے کشادہ ہونے کی دعا کی جارہی ہے تا کہ اس مقصد میں جتنی مشکلات آئیں وہ جھٹلائیں، جادوگر کہیں، ساحر کہیں، کاہن کہیں، مجنون کہیں، کسی کا ایجنٹ کہیں، کسی کا نمائندہ کہیں، کچھ بھی کہیں مجھ پر اثر نہ پڑے۔ یہ شرح صدر ہے، یہ شرح صدر خداوند متعال کی خصوصی نعمت ہے اپنے اولیا کیلئے۔

یہاں حضرت موسی علیہ السلام دعا کر رہے ہیں کہ بار الہا تو اپنی طرف سے میرے سینہ کو کشادہ کر دے، میرے حوصلوں کو بلند کردے، مجھے دور اندیش بنا دے، اور وہاں خداوند متعال اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے اپنی اس نعمت کا خود سے تذکرہ فرما رہے ہیں، ارشاد رب العزت ہو رہا ہے( أَ لَمْ نَشْرَحْ‏ لَكَ صَدْرَك ) (۲۸۰)

اے میرے حبیب کیا ہم نے تمہارے سینہ کو کشادہ نہیں کیا، یہ قلب مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتنا کشادہ ہے، اللہ جانے ان کا حوصلہ کتنا بلند ہے، تاریخ کا مشاہدہ تو کریں وہاں لوگ پتھر مار رہے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بد دعا نہیں کرتے، عذاب کی دعا نہیں کر رہے، بلکہ دعا کر رہے ہیں

(اللهم اهد قومی فانهم لا یعلمون )(۲۸۱)

بار الہا میری قوم کی ہدایت فرما یہ نہیں جانتے۔

رسول اکرم(صلعم) کا شرح صدر

قوم نے کیا کچھ نہیں کیا کتنی تکالیف، کتنی اذیتیں، کتنی تہمتیں، راستوں سے گذرتے تو کانٹے بچھائے جاتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں تو آپ پر کثافت ڈالی جاتی ہے، انواع اور اقسام کی تہمتیں لگائی جاتی ہیں، بالآخرہ مجبور کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے شہر کو چھوڑ دیں، ہجرت کریں، پھر جنگوں پر جنگیں کی جاتی ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ترین ساتھیوں کو شہید کر دیا جاتا ہے، مسلمانوں کو طرح طرح کی تکالیف دی جاتی ہیں، پھر جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ کو فتح کرتے ہیں اب طاقت ان کے پاس ہے، اب قدرت ان کے پاس ہے، جو چاہیں کر سکتے ہیں سب کو جمع کر کے یہ ارشاد فرماتے ہیں: ہاں اب بتائو! تمہارا کیا خیال ہے میں تم سے کیا کر سکتا ہوں، سب نے بہ یک زبان یہی کہا ہمیں یقین ہے آپ ہمیں بخش دینگے، جس طرح جناب یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو بخش دیا تھا، ہمیں آپ سے یہی توقع ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا کہ( قالَ لا تَثْريبَ‏ عَلَيْكُمُ الْيَوْم ) (۲۸۲)

جائو تمہارے سب گناہوں کو، تمہاری سب خطائوں کو بخش دیا، اتنا سینہ کشادہ ، اتنی شرح صدر ہے، جنہوں نے اتنی تکالیف پہنچائیں، جلا وطن کیا کیا کیا کچھ نہیں کیا اتنی مشکلات پیدا کیں، فرمایا جائو معاف کر دیا، یہ شرح صدر ہے۔ اور یہی چیز سبب بنی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمومی معافی کا اعلان کیا، بلکہ دشمن کے گھروں کو امن کا مرکز قرار دیا، ان کا ضمیر بیدار ہوا وہ مجبور ہوئے کہ مسلمان ہو جائیں، ان کے مسلمان ہونے کا نتیجہ کیا ہوگا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بخش دینے کا نتیجہ کیا ہوا،

( وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ في‏ دينِ اللَّهِ أَفْواجا ) (۲۸۳)

لوگ جوک در جوک گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے، یہ اسلام میں لوگوں کا داخل ہونا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شرح صدر کی وجہ سے تھا، یہ آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے تھا، یہ آپ کی رحمت کی وجہ سے تھا، یہ اللہ کا احسان تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کیلئے نرم مزاج اور نرم دل تھے، لوگ آپ کے ہاں جمع ہو رہے تھے، خالق کائنات سے وہ شرح صدر طلب کرتے ہیں اور خدا ان کے سینے کو کشادہ کر رہا ہے۔

وہ اپنے شخصی مفادات کو تو دیکھتے ہی نہیں ہیں، ہم اپنی شخصی اور ذاتی مفادات کی وجہ سے، محدود مصلحتوں کی وجہ سے، تمام دشمنیاں وجود میں آتی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی نفرتیں بڑی بڑی دشمنیاں نسل در نسل جنگیں چلتی ہیں، لیکن خدا اپنے اولیا کو ایسا حوصلہ عطا فرماتا ہے جو انہیں گالیاں دے رہا ہے نعوذ باللہ من ذالک، ان کے شان میں گستاخی کر رہا ہے، ان سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ تو ہمیں پردیسی لگ رہے ہو، اگر بھوکے تو چلو تمہیں کھانا کھلاتے ہیں اگر کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تو تمہارے رہنے کا بندوبست کرتے ہیں، دشمنوں کو کھلایا پلایا اپنی طرف سے تحفہ و ہدایا دیے۔ ایسا عالی کردار جب دشمن نے دیکھا اس کو پتا چلتا ہے کہ حق کیا ہے، حق کہاں پر ہے، حق پر کون ہے، یہی حق والے ہیں، اور لوگ کلمہ پڑہ کر مومن بن جاتے ہیں، یہ شرح صدر کا نتیجہ ہے، خداوند متعال کی ایک بڑی نعمت ہے کہ انسان کو شرح صدر دیا جائے، اور یہ اسلام کو قبول کرنا، اس کی نورانیت کو اپنے دل میں بسانا اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کے پاس شرح صدر ہو۔

شرح صدر کے آثار

قرآن مجید یہ ارشاد فرما رہا ہے

( کهفَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ‏ صَدْرَهُ لِلْإِسْلام ) (۲۸۴)

خداوند متعال جس کی ہدایت کرنا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کیلئے کشادہ کر دیتا ہے، اسلام کو سمجھنا شرح صدر کا محتاج ہے، جس کے پاس شرح صدر ہوگا وہ اس بات درک کر سکے گا، اسے سمجھ پائے گا، شرح صدر کے کیا کیا کارنامے ہیں، انبیا اور آئمہ کی جو لوگوں کی دلوں میں محبت پائی جاتی ہے ان کے شرح صدر کا نتیجہ ہے، العلما ورثة الانبیاء کے مطابق ان کے ہاں بھی یہی پایا جاتا ہے۔

بزرگ عالم دین عظیم مراجع میں سے ایک حضرت آیت اللہ اصفہانی ہیں، بہت بڑے مجتہد تھے، لوگ اپنے مسائل ان کے پاس لے آتے تھے، ایک دن ایک شخص کوئی مسئلہ لے آیا، کہا کل دیکھ لینگے ، دوسرے دن اتفاق سے آغا اصفہانی کے بیٹے کا انتقال ہو جاتا ہے، کسی کے بیٹے کا انتقال ہوجائے اس کی کیا حالت بنتی ہے، کچھ یاد ہی نہیں رہتا، وہ اپنے مسائل کو بھی بھول جاتا ہے، تشییع جنازہ میں، جنازہ کو لے جا رہے ہیں وہاں انہیں وہ آدمی نظر آتے ہیں تو ان کو بلا کر کہتے ہیں کہ کل تم نے مسئلہ بتایا تھا، یہ لو میں جو تمہاری مدد کر سکتا تھا، وہ یہی ہے، کتنا حوصلہ ہے جوان بیٹے کا داغ ہو، تشییع جنازہ کا ماحول ہو، اس وقت بھی انسان کو یہ خیال ہو کہ دوسروں کے مسائل کیا ہیں، جن کا خدا سے رابطہ ہوتا ہے، ان کی عقل پر کوئی حملہ نہیں ہوتا، جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے بھی کہتے ہیں کہ معاذ اللہ ان پر بیماری کا اثر ہوگیا ہے، وہ ہذیان بول رہے ہیں،ان کو پتا ہی نہیں چل رہا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ کمزور دل افراد کی بات ہے۔ لیکن جو خدا سے متصل ہوتے ہیں خالق کائنات ان پر ضعف طاری نہیں ہونے دیتا، دشمنوں کو ان کیلئے کوئی بہانہ فراہم نہیں کرتا جس کی وجہ سے دشمن کہیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ہوگیا وہ ہو گیا، سمجھ رہے تھے، ان کا حافظہ کام کر رہا تھا، لیکن اپنی بزرگی کی وجہ سے تاکہ وہ شرمندہ نہ ہوں۔

شرح صدر اور کاموں میں آسانی

یہ شرح صدر ہے جو کاموں اس طرح آسان کر بنا دیتا ہے، اور انسان کو اس طرح استقامت عطا کرتا ہے، زندگی کا کوئی بھی موڑ ہو، کوئی بھی ذمہ داری انسان پر رکھی جائے انسان کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، رسالت س بڑہ کر کونسی ذمہ داری ہوگی، امامت سے بڑہ کر کونسی ذمہ داری ہوگی، جب انہیں رسالت دی جا رہی تھی ان کی یہ دعا تھی کہ رب اشرح۔۔امری، شرح صدر کی دعاکریں، خالق کائنات شرح صدر عطا کردے تو کام آسان سے آسان ہوجاتے ہیں، کوئی بھی ذمہ داری ملے تو انسان خدا سے دعا کرے اور اپنے وظیفہ پر عمل کرے تو خدا اس کیلئے کامیابیوں کے راستے کھولتا چلا جائے گا، رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت کا اعلان کیا، کفار نے کیا کچھ نہیں کیا کبھی لالچ کے ذریعہ سے، کچھ ڈرانے دہمکانے کے ذریعہ سے، ہر کوشش کر لی، آخر جمع ہو گئے جناب ابو طالب کے ہاں، کہ آپ اپنے بھتیجے کو خود روکیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کہنا یہ تھا کہ نہیں، اگر یہ سورج چاند ستارے بھی لا کر میرے ہاتھوں پر رکھ دیں، میں اپنے مقصد سے دستبردار ہونے والا نہیں ہوں، ان کی یہ چھوٹی چھوٹی مشکلات ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں، مجھے اپنے مقصد سے دور نہیں کر سکتے۔ ان کے یہ ہتھکنڈے مجھے کمزور نہیں بنا سکتے، ان کے ان کاموں کی وجہ سے ان حرکتوں کی وجہ سے میرے قدم ڈگمگا نہیں سکتے، یہ کیا تھا، یہ شرح صدر تھا جو خالق کائنات نے انہیں عطا کیا تھا، یہ شرح صدر خالق کائنات کی طرف سے نعمت ہے، ایک نورانیت ہے، جو انسان کے دل میں ایجاد ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تشخیص دے سکتا ہے کہ حق کہاں پر ہے، باطل کہاں پر ہے۔ معیار حق اور باطل کو پہچاننا ہے، یہ شرح صدر ہے جو انسان کی زندگی کو آسان بنا دیتا ہے، اور زندگی کو شیرین بنا دیتا ہے، معافی در گذشت، بخشش، یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانیت کی انسانیت کو ظاہر کرتی ہیں، انسان کی انسانیت کو ظاہر کرتی ہیں، اور اس کی روح کی بلندی کو بیان کرتی ہیں کہ اس کی روح کتنی بلند ہے یہ معرفت کے کس درجہ پر ہے، اگر اپنے بہترین ساتھی مددگار چچا جناب حمزہ جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسد اللہ کہا کرتے تھے، ان کا قاتل بھی اگر اسلام قبول کرتا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبول کرتے ہیں، کتنی وسعت ہے یہاں پر، کتنا بڑا دل ہے ان کا، ہم بسا اوقات معمولی سے معمولی چیزوں پر نہ جانے کیا سے کیا کر بیٹھتے ہیں۔

ایک مرتبہ کسی قیدی سے انٹرویو لینے گئے، کہا تم کس کیس میں اندر آئے ہو، کہا قتل کے کیس میں کیا ہوا تھا کسی نے مجھے گالی دی، میں نے اس کا قتل کر دیا، کہا اب کیا ہو رہاہے، پاکستانی جیلوں کو اللہ بہتر بنائے، کہا اب یہ روزانہ پولیس والے آتے ہیں مجھے سیکڑوں گالیاں دیتے ہیں، کہا تو؟ کہا برداشت کر لیتا ہوں، پھر؟ پھر مجھے افسوس ہو رہا ہے کاش اس دن میں اس ایک گالی کو برداشت کرلیتا، یہ آئمہ کا درس ہے جو تم سے نازیبا کلمات کہے ، اس کو یہ کہہ دو کہ اگر واقعا میرے اندر کچھ ایسا ہے تو خدا مجھے معاف کر دے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو خدا تمہیں بخش دے، جاہلوں سے جاہلانہ سلوک کرنا، عباد الرحمن اللہ کے بندوں کی، اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی نشانی نہیں ہے، قرآن یہ تعلیم دے رہا ہے کہ( وَ إِذا خاطَبَهُمُ‏ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاما ) (۲۸۵)

جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام ہو تم پر، ان سے لڑتے نہیں ہے ان کو معلوم ہے کہ یہ اپنی جہالت کی وجہ سے اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے جھگڑا کیا جا سکے، شرح صدر ہے جو خالق کائنات اس طرح عطا کرتا ہے تو زندگی اس قدر معنی دار بن جاتی ہے، ماحول اتنا خوش گوار بن سکتا ہے، اور شرح صدر کی بنیاد پر انسان اسی دنیا کو جنت بنا سکتا ہے۔

ہمیں حضرت موسی علیہ السلام کی اس دعا کو یاد رکھنا چاہیے اور زندگی کے ہر موڑ پر اس دعا کو کرتے رہنا چاہیے، ہر چیلنج کو قبول کرلینا چاہیے، اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اس دعا کو پڑہتے ہوئے کہ رب ۔۔قولی؛ دعا کرتے ہیں کہ خالق کائنات ہمیں اور آپ سب کو وسعت صدر عطا فرمائے سینہ کی کشادگی عطا فرمائے جس کی وجہ سے ہم زندگی میں مشکلات کو برداشت کر سکیں اور اپنے اعلی مقاصد میں کامیاب ہو سکیں۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

طلب حکومت کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( قالَ رَبِّ اغْفِرْ لي‏ وَ هَبْ لي‏ مُلْكاً لا يَنْبَغي‏ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّاب‏ ) (۲۸۶)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج طلب حکومت کی دعا پیش کرنی ہے۔ خالق کائنات نے اپنے فضل و کرم سے انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد ان کی ہدایت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی، فرمایا ِنَّ عَلَنا لَلہُد(۲۸۷)

ہدایت کی ذمہ داری ہماری ہے، جب خالق کائنات نے ہدایت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے، انسانوں کی ہدایت کرنے کیلئے اس طرح کے راستوں اپنایا جن کے ذریعہ سے انسان کی ہدایت ہو سکے، اور انسان کو آسانی کے ذریعہ سے خدا تک پہنچایا جا سکے اور پیغام خدا آسانی کے ساتھ انسانوں تک پہنچایا سکے۔خدا نے اپنی طرف سے ہادی بنا کر بھیجے ہیں، انبیا علیہ السلام کو بھیجا تا کہ انسانوں کی ہدایت کریں، انبیا علیہ السلام انسانوں کی ہدایت کیلئے آئے اور ان کی بعثت کا اہم ترین مقصد یہ تھا کہ انسانوں کی ہدایت کی جائے، اور یہ ہدایت اس صورت میں حقیقی اور واقعی ہو سکتی تھی جب تمام کے تمام افراد برابری کی بنیاد پر ایک ہی سطح پر انبیا علیہ السلام سے رہنمائی لی سکیں اور معاشرہ میں اس کا اثر ظاہر ہو۔

عادلانہ حکومت کی ضرورت

قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق یہ

( لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ‏ النَّاسُ بِالْقِسْط ) (۲۸۸)

انبیا کے آنے کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل اور انصاف قائم ہو سکے۔اب عدل اور انصاف کے قیام کیلئے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ حکومت صالح انسانوں کے پاس ہو حکومت نیک انسانوں کے پاس ہو، حکومت کے ذریعہ سے ہی عدل و انصاف کا قیام ممکن بنایا جا سکتا ہے، اگر جو حکومت پر ہے وہ ظالم ہو فاسق اور فاجر ہو، اسے لوگوں کے حقوق کی کوئی پرواہ نہ ہو تو معاشرہ میں انصاف کا قیام ناممکن ہے، اس صورت میں عدل کا قیام ہوگا کہ حکومت صالح انسانوں کے پاس ہو۔

البتہ کیونکہ انسان کو خالق کائنات نے اختیار دیا ہے، ارادہ کا مالک بنایا ہے، انسان کیلئے خداوند متعال نے حق اور باطل کے راستوں کو روشن کر دیا ہے اب یہ انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے، خدا تو یہی چاہتا ہے کہ صالح انسانوں کی حکومت ہو اس دنیا پر، اور آخر ایسا ہو کرہی رہے گا، خالق کائنات کا وعدہ یہی ہے

( هُوَ الَّذي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى‏ وَ دينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ‏ عَلَى الدِّينِ كُلِّه‏ ) (۲۸۹)

آخر یہ ہو کر رہے گا کہ دین خدا غالب آجائے، خدا کی زمین پر خدا کی حکومت قائم ہو، اور جو خداوند متعال نے زبور میں وعدہ دیا تھا کہ( أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُون ) (۲۹۰)

زمین کے وارث میرے صالح بندے بنینگے میرا یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا، یہ خداکا وعدہ ہے کہ زمین پر صالح انسانوں کی حکومت ہوگی تو یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا، اور تاریخ میں خدا نے اس کیلئے مثالیں دی ہیں، تاریخ میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ جب بھی موقعہ ملا ہے صالح انسانوں کو وہ حکومت پر آئے ہیں اور انہوں نے ایسی عدل و انصاف کی حکومت قائم کی ہے جو آج تک ضرب المثال ہے۔

ان عظیم حکومتوں میں سے ایک جناب سلیمان علیہ السلام کی حکومت ہے، یہ خدا کے نبی، خدا بھیجے ہوئے پیغمبر، جن کو خدا نے ایک عریض و وسیع حکومت عطا فرمائے، البتہ اس کیلئے اس نے اپنی اہلیت کو بھی ثابت کیا، دعا بھی کی، خدا سے مدد بھی مانگی، اور ایک بہترین حکومت کا قیام کر کے بھی دکھایا، ان کی دعا یہ ہے جو قرآن مجید نے نقل کی ہے، قال رب اغفر لی؛ عرض کرنے لگے بار الہا مجھے بخش دے، میری مغفرت فرما، و ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی، اور مجھے ایک ایسی حکومت عطا فرما، ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو بھی نہ ملے،یعنی پوری کائنات کی بے مثال حکومت ہو، خالق کائنات کو ان کی صفات کا واسطہ دیا انک انت الوھاب، تو نے ہی عطا کرنے والا ہے۔

حکومت کے لئے نفس کی پاکیزگی

اس دعا سے جن اہم نکات کا استفادہ ہوتا ہے وہ یہ کہ انسان اگر چاہتا ہے کہ حکومت حاصل کرے تو اس کیلئے پہلےاپنے نفس کو پاک کرنا ضروری ہے۔پاکیزہ نفس کے ساتھ، صحیح اور سالم طبیعت اور فطرت کے ساتھ جس میں گناہوں کی کوئی گرد و غبار نہ ہو، ایسا انسان لائق حکومت ہے۔ جو اپنے آپ کو پاک کر چکا ہو، اس کے اندر رذائل اخلاقی نہ پائے جاتے ہوں، اس کے اندر وہ صفات نہ پائی جاتی ہوں جو جیسے ہی قدرت ہاتھ میں آجائے تو اس کو انسان کے خلاف استعمال کرے، اس کو بندوں پر ظلم کیلئے استعمال کرے، یہ حکومت کی پہلی شرط ہے۔اگر ایک کامیاب حکومت ہم قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے لازمی ہے جو ہمارے حکمران بنیں وہ اپنے آپ کو پاک کریں، جب تک ان کے اندر رذائل اخلاقی رہیں گے جب تک ان کے اندر مال جمع کرنے کی ہوس رہے گی، جب تک ان کے اندر شہرت خواہی مشہور ہونے کی تمنا ہوگا، اس وقت تک یہ حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ صحیح معنوں میں لوگوں کو انصاف نہیں دے سکتی، یہ حکومت کے ذریعہ سے اپنے فوائد حاصل کرینگے، حکومت کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرینگے، لہذا حکومت کیلئے پہلا زینہ یہ ہے کہ حاکم کو اپنی تربیت کرنی چاہیے۔ لہذا پہلے یہ دعا کی قال رب اغفرلی، مجھے بخش دے۔ میرے نفس کو پاک کردے، میرے اندر برائیوں کی جڑوں کو ختم کردے، میرے اندر رذائل اخلاقی نہ ہوں، کیونکہ ایک تو جیسے انسان کے پاس قدرت آتی ہے طاقت آتی ہے حکومت آتی ہے، تو یہ حکومت خود ایک بہت بڑا امتحان ہوا کرتی ہے۔

قرآن مجید اس فطری قانون کو اس طریقہ سے بیان کر رہا ہے کہ

( كَلاَّ إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى‏،أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى ) (۲۹۱)

یہ انسان سرکش بن جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے، یعنی جب کوئی انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرے اس کے محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، وہ اپنے اندر بے نیازی کو محسوس کرتا ہے تو پھر سرکش بن جاتا ہے، خدا کے سامنے بھی نہیں جھکتا، اسے بھی خالق ماننے کو تیار نہیں ہوتا، اس کی بھی اطاعت نہیں کرتا، اس کا لازمی نتیجہ یہی بنتا ہے کہ پھر وہ آمریت کا راستہ اختیار کرتا ہے اور یہ پھر آگے چل کر وہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ انا ربکم الاعلی کی دعوی کرنے لگتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں اور کچھ بھی نہیں ہے، اس حاکم کو ان صفات سے پاک ہونا چاہیے، یہ حکومت پھر بعد میں جو بہت بڑا امتحان ہے، اس کو کمزور نہ بنا سکے، اس کو منحرف نہ کر سکے، لہذا پہلے نفس کی پاکیزگی چاہیے، یعنی نفس کی پاکیزگی حکومت میں آنے کے بعد لوگوں کے درمیان انصاف کرنے کیلئے بہترین مددگار شمار ہوگی۔

حکومت کے لئے توفیق پروردگار کی دعا

جب نفس پاک ہے اور خود کو حکومت کا اہل سمجھ رہے ہیں تو پھر دعا کر ہے ہیں ، ھب لی مجھے ایسی حکومت عطا فرما میرے بعد کسی کو بھی ایسی حکومت نہ ملے، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام خاص الخاص حکومت چاہتے ہیں، ایسی حکومت جو تاریخی اوربے مثال حکومت ہو، اور پھر آداب دعا کا خیال کرتے ہوئے خدا کی اس صفت کا تذکرہ کرتے ہیں جو اس دعا کے ساتھ، اس مضمون دعا کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ھب لی کہا، پھر فرما رہے ہیں انک انت الو ہاب؛ مجھے عطا کر دے ک یونکہ تو ہی عطا کرنے والا ہے، خالق کائنات نے ان کی دعا کو قبول کر لیا، لہذا ارشاد فرمایا

( فَسَخَّرْنا لَهُ الرِّيحَ تَجْري بِأَمْرِه ) (۲۹۲)

جیسے حضرت سلیمان نے دعا کی کہ ایسی حکومت ہو جو کسی کو نہ ملے تو خالق کائنات نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا ہم نے ہوا کو ان کیلئے مسخر کر دیا، اب وہ جیسے چاہینگے ویسے ہوا حرکت کرے گی، یعنی ایسی حکومت ہم نے اس کو عطا کی کہ جو حکومت صرف انسانوں تک محدود نہیں تھی، جناب سلیمان علیہ السلام کی حکومت انسانوں پر بھی تھی، جنوں پر بھی تھی، جیسا کہ بعد والی آ یت ہے یہاں پر کہا جا رہا ہے کہ ہم نے ہوا کو ان کیلئے مسخر بنا دیا، ہوا کو ان کے کنٹرول میں دے دیا، دوسری آیات میں ارشاد ہو رہا ہے والشیاطین اور ہم نے شیاطین کو جنوں کو بھی ان کے کنڑول میں دے دیا، یہ جن کیا کرتے تھے، کل بناء و غواص؛ یہ شیاطین حضرت سلیمان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے جس طرح کی وہ عمارت چاہتے تھے ان کیلئے بنا دیتے تھے، جس طرح کی چیزیں وہ دریا سے نکالنا چاہتے تھے وہ بھی لیکر آتے تھے، اور حضرت سلیمان کی حکومت پرندوں پر بھی تھی، جب فرمایا کہ ہدہد کہاں ہے وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہا، جب اسے حاضر کیا گیا تو فرمایا کہ قوم سبا کے پاس یہ خط لیکر جائو، ان کی ملکہ کے پاس، یعنی یہ تمام کی تمام چیزیں حضرت سلیمان کے کنٹرول میں دی گئیں تھیں، ایسی حکومت خالق کائنات نے کس کو عطا کی ہے، یہ جناب سلیمان علیہ السلام کی دعا تھی کہ بار الہا ایسے حکومت ہو جو کسی کوعطا نہ ہو، خدا نے ہوا کو، جن، انسان، ملک، پرندے، پوری کی پوری مخلوقات ان کے کنٹرول میں تھیں اور ان کے حکم کے تابع تھیں، ایسی حکومت تھی ان کی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت سے ہمیں کچھ چیزیں سمجھ میں آتی ہیں کہ اگر ایک حکومت کامیاب حکومت ہونا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ تمام زاویوں سے کام کرے، ملک کو آباد کرنے کی فکر میں رہے، ہنر کو استعمال کیا جائے، فن کا سہارہ لیا جائے، کل بنا غواص سے مدد لی جائے، خشکی اور تری کے تمام وسائل کو استعمال کیا جائے یعنی زمین کے ذریعہ سے بھی کام لیا جائے اور پانی کو بھی وسیلہ بنایا جائے اپنے ملک کو آباد کرنے کیلئے، حضرت سلیمان علیہ السلام ان تمام چیزوں سے کام لے رہے ہیں، جنوں سے کام لے رہے ہیں ملک کو آباد کرنے کیلئے، بہترین عمارتوں کی تعمیر کرنے کیلئے، اور پانی کے اندر جو نعمتیں ہیں خداوند متعال کی ان سے بھی فائدہ لیا جا رہا ہے، تمام ماہرین سے مدد لی جائے حکومت کو قائم کرنے کیلئے اور حکومت کو بہتر سے بہتر چلانے کیلئے، یہ عظیم حکومت حضرت سلیمانؑ کو تب ہی جا کر ملتی ہے کہ جب اس طرح کے پورے پروگرام ذہن میں رکھتے ہیں، اور اس طرح کے کام چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انسان کی جتنی ہمت بلند ہوگی جتنا ارادہ مظبوط ہوگا جتنا اس کے حوصلے بلند ہونگے خدا ان کے حاصلہ کے مطابق ان کے ارادوں کے مطابق انہیں عطا کرتا ہے، خدا کے دینے میں کوئی کمی نہیں ہے، ان کی بارگاہ سے ہمیں ہر چیز مل سکتی ہے، ہم اپنے ارادے بلند رکھیں، ہم اپنی ہمتوں کو بلند کریں تو خدا کے دینے میں کوئی کمی نہیں ہے، خالق کائنات ان کی یہ دعا قبول کر لی۔

حکومت کا شکرانہ

اس دعا سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ استغفار دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔ لہذا پہلے استغفار کیا، قال رب اغفر لی استغفار کے بعد ھب لی ملکا؛ ایسی حکومت عطافرما، دوسری جگہ پر ہے کہ ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور سخرنا او ر یہ سب چیزیں ان کے اختیار میں دے دیں، کیا کچھ نہیں دیا خدا نے جناب سلیمان کو، پرندوں کی زبان جانتے تھے، ان کی زبان میں ان سے بات کرتے تھے، یہ تمام چیزیں ان کے اختیار دے دی گئیں تھیں، اور وہ توفیق شکر بھی خدا سے ہی طلب کرتے ہیں

( وَ قالَ رَبِّ أَوْزِعْني‏ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتي‏ أَنْعَمْتَ عَلَي ) (۲۹۳)

اتنی ساری جب نعمتیں دی ہیں تو خدایا مجھے توفیق شکر بھی عطا فرما، یعنی ایسا نہ ہو کہ انسان صرف نعمتوں کو طلب کرتا رہے، اور شکر کرے ہی نہیں، شکر کی توفیق ہی طلب نہ کرے، یہ ناشکری ہے، یہ احسان فراموشی ہے، انسان کو احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے، جب حکومت کی دعا کر رہے ہیں اتنی نعمتوں کی دعا کر رہے ہیں جناب سلیمان علیہ السلام ان کے ساتھ یہ بھی دعا کر رہے ہیں کہ بار الہا مجھے توفیق شکر عطا فرما، ان تمام نعمتوں کا میں شکر ادا کر سکوں، اور ان میں سے ایک اور اہم نکتہ جو جناب سلیمان کی دعائوں میں ملتا ہے اور بعد میں خالق کائنات کے بیان میں ملتا ہے وہ یہ کہ ساری ترقی، جتنی چیزیں جناب سلیمان دے گئی تھیں، چاہے ہوا کا مسخر ہونا ہو، پرندوں کا اختیار میں آنا ہو، انسانوں اور جنوں کی اطاعت کرنا ہو، یہ وسیع اور عریض حکومت جو پوری زمین پر تھی یہ تمام کے تمام وسائل اس کےساتھ ساتھ معنوی رتبہ اہم ہے، اس لیے بعد والی آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ جناب سلیمان علیہ السلام کی ہمارے پاس ایک بہترین منزلت ہے، ایک مقام ہے،

( وَ إِنَّ لَهُ عِنْدَنا لَزُلْفى‏ وَ حُسْنَ‏ مَآبٍ ) (۲۹۴)

حسن مآب ہے ان کیلئے، ایک بہترین درجہ ہے، یعنی یہ تمام طرح کی نعمتیں اس وقت کام کی ہیں جب انسان خدا ہاں مقام رکھتا ہو اگر خداکے ہاں مقام نہ رکھتا ہو تو یہ تمام کی تمام چیزیں کسی کام کی نہیں ہیں۔

حکومت ایک امتحان

ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ خالق کائنات نے انسان کو کیونکہ اختیار دیا ہے لہذا ایسی حکومتیں بہت کم ملتی ہیں، عام طور ہم ماضی کی حکومتیں دیکھیں تو فرعون اور نمرودکی حکومتیں ملتی ہیں، بہت کم ہیں ایسے انسان، کیونکہ یہ حکومت خود ایک بہت بڑا امتحان ہے، شاید کچھ لوگ حکومت ملنے سے پہلے اچھے ہوں، بہت ہی اچھے ہوں لیکن قدرت آنے کے بعد پھر ان کے اندر تبدیلی آ گئی ہو، ایمان مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے حکومت آنے سے وہ منحرف ہو گئے ہوں، قدرت آنے کے بعد وہ قدرت کے نشہ میں مست ہو گئے ہوں، اور یہ طاقت کا نشہ بہت برا نشہ ہوتا ہے، لہذا جناب سلیمان علیہ السلام نے جب یہ دعا کی کہ ہمیں حکومت ملے تو ان کے ساتھ ایک یہ بھی دعا کی کہ و توفنی مسلما؛ بار الہا مجھے حکومت دینے کے بعد اس حکومت کو صحیح طور پر چلانے کی توفیق بھی عطا فرما اور جب میری موت آئے تو اس وقت میں گمراہ نہ ہو چکا ہوں، بلکہ اس وقت بھی تیری اطاعت میں رہتے ہوئے حقیقی مسلمان رہوں۔

جناب یوسف علیہ السلام نے جیل میں رہتے ہوئے یہ دعا نہیں کی، حکومت مصر پر آنے کے بعد یہ دعا کر رہے ہیںتَوَفَّني‏ مُسْلِما (۲۹۵)

یہ حکومت بہت بڑا امتحان ہے، بہت بڑی آزمایش ہے، اس میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کو خدا محفوظ رکھے، انواع اور اقسام کے لوگوں کا مقابلہ کرنا ہر ایک کی خواہشات کے حوالہ سے سوچنا، تمام افراد کے مفادات کا خیال رکھنا، ان کی بھلائی کا کام کرنا، ان کی باتیں سننا کوئی آسان کام نہیں ہے، لہذا یک دعا کی جا رہی ہے اتنی بڑی حکومت آنے کے بعد ہمیں یہ توفیق ہو کہ ہم اس حکومت کو سنبھال سکیں، اور منحرف نہ ہونے پائیں، البتہ جناب سلیمان علیہ السلام کی دعا اپنے زمانے کے حالات کے مطابق تھی، ان کیلئے ممکن تھا کہ حکومت تشکیل دیں، ان کے پاس اختیار تھا، وسائل تھے، پھر دعا کی اور قبول بھی ہوگی۔

رسول اکرم(صلعم) کی معنوی حکومت

لیکن اس دعا کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا رتبہ خدا کے ہاں تمام انبیا سے برتر ہو، بلکہ اتفاق کی بات یہ ہے روایات میں یہ ملتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سب سے آخر میں جنت میں جائیں گے، اس دنیا خواہی اور طلب حکومت کی وجہ سے۔ اور کسی نے جناب علیؑ سے سوال کیا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیا سے افضل ہیں تو پھر کیوں خالق کائنات نے انہیں وہ حکومت عطا نہیں کی جو جناب سلیمان کو عطا کی تھی۔یہ اشکال کرتے ہیں، جناب علی علیہ السلام جواب میں ارشاد فرماتے ہیں خالق کائنات نے اس سے بھی بہتر نعمتیں ہمارے رسول کو عطا کی ہیں، کیا ہوا کہ ظاہری طور پر پوری دنیا پر حکومت کرنے کے وسائل اور اختیارات نہیں تھے، ظاہری طور انسانوں کے اندر بھی وہ گنجائش نہیں تھی، لیکن معنوی طور پر جو حکومت رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل ہے کسی کو حاصل نہیں ہے، جو محبت لوگوں کی دلوں میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے پائی جاتی ہے کسی کیلئے نہیں ہے، اور خدا نے ظاہری طور پر بھی دینا چاہا تھا لیکن فرمایا نہیں میں چاہتا ہوں کہ ا یک دن کھائوں تو ایک دن بھوکا رہوں، اسی طرح انسانیت کے کام آ کر ان کی ہدایت کرتا رہوں، پھر خداوند متعال نے انہیں اخروی حکومت عطا فرمائی۔(۲۹۶)

آخرت کا سب سے عظیم رتبہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عطا کر دیا، جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ

( عَسى‏ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً مَحْمُوداً ) (۲۹۷)

خالق کائنات نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مقام شفاعت عطا فرمایا ہے، مقام محمود عطا کیا ہے، یہ وہ مقام ہے کہ جہاں تمام انسان تو کیا انبیا بھی ان کی شفاعت کے محتاج ہونگے، یہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی منزلت ہے، فضیلت ہے کہ ان کو دلوں پر حکومت دی گئی ہے اور انہیں قیامت کی حکومت دی گئی ہے۔

جناب سلیمان علیہ السلام کی حکومت کیلئے دعا تھی، اس طرح حکومت، پہلے اپنے آپ کو پاک کیا جائے خدا سے مدد طلب کی جائے، انصاف کی حکومت قائم کی جائےاور پھر گمراہ اور منحرف نہ ہونے کی دعا کی جائے، اور ان تمام چیزوں کو نظر میں رکھا جائے تو یہ ایک بہترین حکومت ہوگی۔ اس طرح کی حکومت۔

مستقبل میں صالحین کی حکومت

البتہ اسلام کی نظر میں انسانیت کا خاتمہ، حکومت خدائی پر ہی ہوگا، ایسا نہیں ہے کہ تخلیق انسان میں شیطان کامیاب ہو جائے، نہیں، رحمن کا جو وعدہ ہے ضرور بضرور پورا ہوگا، اور ہم سب منظر ہیں اس حجت خدا کے جو آئیں گے اور اس پوری زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے

یملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا؛ (۲۹۸)

جس طرح یہ زمین ظلم اور ستم سے بھر چکی ہوگی وہ نمایندہ خدا، وہ حجت الہی آئینگے اور اس پوری دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دینگے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسی حکومت قائم ہو، تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اپنے خاندان کی اصلاح کرنی ہوگی، اپنے معاشرہ کی اصلاح کرنی ہوگی، اس عالمی حکومت قائم کرنے کیلئے جتنا ممکن ہو ہم اپنا کردار ادا کریں اور پھر یہ دعا کریں کہ بار الہا اس قیام حکومت کے لئے اپنے آخری امام کو بھیج دے، الل ہم عجل لول یک الفرج جس کے ذریعہ سے تیرا وعدہ پورا ہوجائے کہ زمین پر صالح انسانوں کی حکومت ہوگی اور پھروَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها (۲۹۹)

یہ زمین نور الہی سے منور ہو جائےگی، یہاں پر انصاف کی حکومت ہوگی، سب کو انصاف ملے گا اور عدالت کی حکومت ہوگی، آئیے ہم سب مل کر یہ دعا کریں بار الہا ہمیں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے حکومت کو دیکھنے کی توفیق عطا فرما۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

کاموں کے آسان ہونے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( قالَ رَبِّ اشْرَحْ لي‏ صَدْري (*) وَ يَسِّرْ لي‏ أَمْري (*) وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِساني‏ (*) يَفْقَهُوا قَوْلي ) (۳۰۰)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج کاموں کے آسان ہونے کی دعا کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرناہے۔

خدا کی مشیت اور انسان کا عمل

لیکن اصل دعا کو پیش کرنےسے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ عرض کریں: جب ہم قرآن مجید کی ان آیات کو دیکھتے ہیں جن میں ارشاد ہوتا ہے کہ خالق کائنات ہی سب کچھ کرنے والا ہے، جو کچھ یہاں ہو رہا ہے وہ سب اس کی اجازت سے ہو رہا ہے، وہ خود کر رہا ہے، مثلا خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، یہ خدا ہی ہے جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کی روزی کو تنگ کر دیتا ہے، اور اس طرح کی بہت ساری آیات جن میں تصریح کی گئی ہے کہ تمام کام خدا کے ہاتھ میں ہیں وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے، قرآن مجید میں ایک قسم کی آیات اس طرح کی ہیں؛ اور کچھ اس طرح کی بھی ہیں کہ زمین میں جو فساد ہو رہا ہے وہ انسانوں کے کاموں کا نتیجہ ہے۔زمین میں اگر عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو یہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہے، یہ آیتیں بتا رہی ہیں کہ انسان کے عمل کا بھی خدا کے ارادہ میں عمل و دخل ہوا کرتا ہے،خدا جب ارادہ کرتا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ بغیر مقدمات کے ہو، ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنے ارادہ کی وجہ سے کسی کو مجبور کرنا چاہتا ہے، شاید کوئی ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو لیکن خدا نہ چاہتا ہو اور اس کو گمراہ کر دے۔ جی نہیں، ان پہلی قسم والی آیتوں کا بھی مضمون وہی ہے جو دوسری قسم کی آیتوں کا ہے، یعنی کرنے والا خدا ہی ہے، وہی قادر مطلق ہے، اسی کا ہی ارادہ چلتا ہے، اسی کا ہی حکم چلتا ہے، لیکن خالق کائنات نے اپنے ارادہ کیلئے دوسری چیزوں کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ انسانوں کے عمل کو بھی نظر میں رکھا ہے، اور انسان کے عمل کے مطابق، انسان کے ارادہ اور اختیار کے مطابق خداوند متعال اس کیلئے ارادہ کرتا ہے، اگر کوئی ہدایت حاصل کرنا ہی نہیں چاہتا تو ایسے انسان کی ہدایت نہیں کرے گا۔ اگر کوئی گمراہ رہنا چاہتا ہے تو خدا اس کو گمراہی میں ہی رکھے گا۔ ہاں پہلے انسان ارادہ کرے تو خداوند متعال دروازے کھول دیتا ہے، یعنی اس کی طرف سے کوئی بخل نہیں ہے۔ اس لیے بعض روایات اور حدیث قدسی میں تصریح کی گئی ہے کہ بندا اگر ایک قدم میری طرف اٹھاتا ہے تو میں دس قدم اس کی طرف اٹھاتا ہوں، وہ مجھے ایک مرتبہ پکارتا ہے تو میں دس بار اس کا جواب دیتا ہوں۔ اس طرح آیات، روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں خداوند متعال کی مشیت اور ارادہ میں، انسانوں کے ارادہ اور عمل کا بھی اثر ہوتا ہے اور عمل دخل ہوا کرتا ہے۔

تقوا اور کاموں میں آسانی

اب اصلی دعا کی طرف چلیں، کاموں کے آسان کرنے کی دعا، جیسا کہ حضرت موسیؑ نے دعا کی تھی، یسر لی امری۔ میرے کام کو آسان کر دے، اب ایسا نہیں ہے کہ ہم کچھ بھی نہ کریں، ہم اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کریں، ایک گوشہ میں بیٹھ جائیں اور دعا کرتے رہیں تو وہ آسان ہوجائیں۔ کام کے آسان ہونے کے بھی اسباب ہیں، شرائط ہیں، خدا تب ہی کام کو آسان کرے گا جب ہم اپنے وظیفہ کو پورا کریں، خدا ہماری دعائوں کو تب سنے گا جب ہم تقوائے الہی اختیار کریں، لہذا دوسری جگہ پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے

( وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرا ) (۳۰۱)

جو بھی تقوائےالہی اختیار کرے گا، خدا سے ڈرے گا، پرہیزگاری کو اپنا پیشہ بنائے گا تو خداوند متعال اس کے کاموں کو آسان کردے گا، اس کیلئے راستوں کو کھول دے گا، اسی مضمون کی دوسری آیت ہے کہ جو خدا سے ڈرے گا اور تقوائے الہی اختیار کرے گا خداوند متعال اس کیلئے راستہ کھول دے گا، اس آیت کی تاریخی بحث کو دیکھیے۔

اس حوالے سے روایت ہے امام صادق علیہ السلام سے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جو خداوند متعال سے ڈرےگا اور تقوا اختیار کرے گا خدا اس کے کاموں کو آسان کر دے گا۔ کچھ لوگ عبادت کرنے کیلئے جاکر مسجد میں بیٹھ گئے، کہا کہ ہم عبادت کرتے ہیں خدا ہمارے کاموں کو آسان بنا دے گا، یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا خدا ایسے لوگوں کی دعا کو قبول نہیں کرے گا۔(۳۰۲)

جی ہاں خدا کاموں کو آسان کرتا ہے، خدا متقی اور پرہیزگار انسانوں کی مشکلات کو حل کرتا ہے، ان کیلئے راستوں کو ہموار بنا دیتا ہے، لیکن یہ صرف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ وہ دعا کریں اور بیٹھے رہیں، ان کی دعا کو خدا قبول نہیں کرے گا، یہ اٹھیں، جائیں ، تلاش کریں، کوشش کریں، زحمت اٹھائیں تو خدا ان کے کاموں کو آسان کر دے گا اور ان کی مشکلات ختم ہوتی چلی جائیں گی۔

تو یسر لی امری خدا آسان کرتا ہے، ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہیے وہی کاموں کو آسان کرے گا لیکن ہم اپنا وظیفہ انجام دیں، اپنا کام پورا کریں، اپنی کوشش کرتے رہیں، اپنی ذمہ داری کو انجام دیں پھر اس کے بعد خدا سے دعا کریں اور وہ دعا ہماری دعا سنے گا اور ہمارے کاموں کو آسان کردے گا۔

تاریخی داستان

اس حوالے تاریخی داستان بھی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک صحابی ہیں عوف بن مالک کے نام سے،ہوا یہ کہ ایک جنگ میں ان کے بیٹے اسیر ہوگئے، دشمن اس کو لے گئے، یہ پہنچتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں۔ یا رسول اللہ! پریشان ہوں کیا کروں؟ بیٹا تھا، اس کو دشمن لے گئے، ویسے بھی ہم غریب ہیں، ایک غریب ہیں اوپر سے وہ بیٹا جو کام آتا تھا، اسیر ہوگیا، اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ایک ذکر کی تاکید کی کہ جائو اس ذکر کو پڑہو، اس کا ورد کرو۔ خداوند متعال تمہارے کام کو آسان کر دےگا، تمہاری مشکل کو حل کر دے گا، وہ ذکر کونسا تھا، یہ تھا۔

لا حول ولا قوة الا بالله،

اس ذکر کی تلاوت کرو، اس کا ورد کرو، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کا باپ دشمنوں کے پاس نہیں جا سکتا، یہ وہ جگہ ہے جہاں دعا کارساز ہوتی ہے، یعنی جہاں تمہاری طاقت نہ پہنچ سکتی ہو تو وہاں صرف دعا کرو، جہاں کچھ کرسکو تو دعا کے ساتھ کام بھی کرو تب ہی جا کر کام آسان ہوگا۔ یہ جا کر ورد کرتے ہیں، ایک بار ورد میں ہیں مشغول تھے کہ دیکھا کہ اس کا بیٹا چلا آ ر ہا ہے، حیرت سے پوچھا بیٹا تو کیسے؟ کہا بابا وہ مجھے قیدی بنا کر لے جا رہے تھے، ایک جگہ پہنچے آرام کرنے کیلئے، مجھے موقعہ ملا کہ وہاں سے بھاگ آئوں، میں بھی آیا ساتھ میں غنیمت کے طور پر ایک اونٹ بھی لے کر آیا ہوں، یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پا س سوال لیکر گئے تھے کہ بیٹا اسیر ہوگیا ہے جبکہ ہم غریب ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک ذکر کی تعلیم دی کیونکہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا، اس ذکر کی وجہ سے خدا نے اس کی مشکل کو آسان کر دیا، بیٹا بھی مل گیا اور مال بھی۔ اس طرح خداوند متعال کاموں کو آسان کرتا ہے۔

کام کس کے لئے آسان ہوں گے؟

اور بہت ہی پیاری آیات ہیں سورہ لیل کی اس حوالے سے، ان چند آیتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اورپھر دیکھیں کہ خداوند متعال کس طرح کارساز ہوا کرتا ہے،

( فَأَمَّا مَنْ أَعْطى‏ وَ اتَّقى‏(*)وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنى‏(*)فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى‏(*)وَ أَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنى‏(*)وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنى‏(*)فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى ) (۳۰۳)

تمہاری کوششیں یقینا مختلف ہیں، کسی کی کوشش یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے، دوسروں کے کام آئے، وہ دلسوز ہے ۔ اور کسی کی کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرے، دوسروں کا برا ہو تو ہو میری مشکل حل ہوجائے میرا کام ہو جائے، مجھے فائدہ پہنچے۔ انسان مختلف قسم ہیں اور مختلف کاموں کیلئے کوشش کرتے ہیں۔کس طرح مختلف ہیں؟ فاما من اعطی واتقی؛ کچھ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کا خیال کرتے ہیں، اپنے ساتھ دوسروں کی بھی انہیں فکر رہتی ہے، دوسروں کو بھی اہمیت دیتے ہیں، سخاوت کرتے ہیں، اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں، نیک دن پر جس دن میں جزا دی جائے گی، اس پر بھی ان کا ایمان ہے۔اور کچھ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو بھی دیتے ہیں، تقوا اور پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں، ان کا قیامت پر بھی ایمان ہے، ایسے لوگوں کیلئے خداوند متعال ارشاد فرما رہا ہے، فسنیسرہ للیسری؛ ہم ان کو صلاحیت دینگے کہ ان کیلئے کام آسان ہوتے جائیں۔

ایک قسم کے یہ انسان ہیں جو دوسروں کو دیتے ہیں، تقوا اختیار کرتے ہیں، اس کے مقابلہ میں کچھ وہ لوگ ہیں واما من بخل واستغنی؛ جو بخل کرتے ہیں، جو بھی نعمت ان کے پاس پہنچتی ہے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں، اور ان کی یہ کنجوسی خود ان کے نقصان میں ہے؛ کیونکہ وہ خود بھی فائدہ نہیں اٹھاتے، وہ سوچتے ہیں ہیں اگر ہم نے اس چیز کا استعمال کیا تو ختم ہوجائے گی۔ نہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ اٹھانے دیتے ہیں۔ و کذب بالحسنی؛ روز جزا اور قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کیلئے کیا ہو گا؟ فسنیسری للعسری، ان کیلئے کاموں کو مشکل بنا دیا جائے گا، دیکھیے یہاں خالق کائنات بلکل وضاحت کے ساتھ اعلان کر رہا ہے کہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے، تمہارے عمل کا رد عمل ہے، مکافات عمل ہے، تم میں سے جو دوسروں کیلئے خرچ کرے، دوسروں کی فکر کرے، تقوا کو اپنا پیشہ بنائے تو اس کیلئے کاموں کو آسان بنا دیا جائے گا۔ لیکن جو بخل کرے کنجوسی کرے، دوسروں کا احساس نہ کرے، قیامت کا انکار کرے، اس کیلئے کاموں کو مشکل بنا دیا جائے گا۔ اب یہ انسان کے کاموں کا نتیجہ ہے، اگر ہم کسی کام کو آسان کرنا چاہتے ہیں، ہم اگر نیکی کا ارادہ کرنا چاہتے ہیں تو مشکل کو خدا ہمارے لیے آسان بنا دیتا ہے۔ اگر کسی کا واقعا حقیقی معنی میں صبح کی نماز کیلئے اٹھنے کا ارادہ ہے بلکہ نماز شب کیلئے اٹھنے کا ارادہ ہے، وہ سچے دل کے ساتھ، خلوص نیت کے ساتھ ارادہ کرے خالق کائنات اس کی مدد کرے گا، اسی اس وقت پر جاگ ہوجائی گی، وہ بیدار ہو جائے گا، لیکن ہم ارادہ تو کریں، ہم خود نیکی کرنا چاہیں۔ یہاں خدا فرما رہا ہے کہ

( فاما من اعطی واتقی و صدق بالحسنی فسنیسره للیسری؛ )

وہ ارادہ کرے دینے کا، تقوا اختیار کرے، ایمان لے آئے، نتیجتا آسان ہوجائے گا، یعنی خداوند متعال کی طرف سے آسانی تب نصیب ہوتی ہے جب بندہ پہلا قدم اٹھائے، جب انسان اپنی کوشش کرے، انسان عمل کے میدان میں اترے، خدا پر توکل کرتے ہوئے پھر آگے کیلئے دعا کرے تو خداوند متعال آگے کیلئے اس کا راستہ ہموار کرتا چلا جائے گا اور اس کے کام آسان ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن پہلا زینہ اپنا ارادہ ہے، پہلا مرحلہ اپنا عمل ہے، اپنی کوشش ہے اس کے بعد پھر خالق کائنات کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے۔

عبرتناک داستان

انہی آیات کے شان نزول ایک بہترین داستان بھی نقل کی گئی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک شخص کے گھر میں کھجور کا درخت تھا،اس درخت میں پکنے والی کھجور بہت ہی لذیذ اور بہت ہی عمدہ قسم کی کھجور تھی، یہ جب بھی کھجور اتارنا چاہتا، کیونکہ اس کی ٹھنیاں اس کے ہمسایہ کے گھر کی طرف بھی تھیں جب یہ کھجور اتارنا چاہتے تھے تو چند کھجور ہمسایہ کے گھر میں بھی گر جاتیں تھیں، جب کھجور گرتیں تو وہ ہمسایہ یا اس کی اولاد کھانی لگتی، جب یہ دیکھتا میری کچھ کھجوریں اس کے گھر میں گری ہیں تو یہ اتنا بخیل انسان تھا، کنجوس انسان تھا، اس سے برداشت نہ ہوتا، فورا جاتا جو نیچی گری ہوئی ہیں ان کو بھی لے آتا حتی کہ ان کے ہاتھ سے بھی چھین لیتا، یہاں تک بھی نقل ہوا ہے اگر کسی بچے کے منہ میں بھی ہوتی تو اس کو بھی نکال دیتا۔ اس قسم کا کنجوس انسان تھا۔

اس کا یہ پڑوسی جو غریب ہے، وہ رسول کائناتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جاتا ہے، یا رسول اللہ! میں کیا کروں؟ میرا کیسا ہمسایہ ہے، اگر یہ درخت ہمیں دکھائی نہ دیتا، میرے بچے اس کو دیکھتے ہیں نہیں تو ہمیں پریشانی نہیں ہوتی، چھوٹے بچے ہیں اس کے درخت کی ٹہنیاں ہمارے گھر کی طرف ہیں، جب وہ کھجور اتارتا ہے تو کچھ ہمارے گھر میں گر جاتی ہیں، بچوں کا دل ہے وہ اٹھا لیتے ہیں، کھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کے منہ سے بھی نکال لیتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم جائو، ہم دیکھ لیتے ہیں۔ بلاتے ہیں اس گھر والے کو۔فرمایا: دیکھو، میں چاہتا ہوں تم سے ایک معاملہ کروں، معاملہ یہ ہے کہ یہ جو کھجور کا درخت تمہارے گھر میں ہے، ایسا کرو کہ یہ مجھے دے دو، میرے حوالے کردو، میری مرضی ہے میں اس کا جو بھی کروں، میں اس درخت کے بدلہ میں تمہیں جنت میں ایک درخت دوں گا۔ اس دنیوی درخت کو بیچ کر آخرت کا درخت کا مجھ سے لے لو۔

اب اس کا ایمان اتنا کمزور ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسے پیشکش کر رہے ہیں، اس کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتے ہیں، دنیوی درخت کے بدلے میں اخروی درخت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ انکار کرتا ہے کہتا ہے نہیں، میرے پاس بہت درخت ہیں، لیکن اس درخت کی کھجور بہت عمدہ قسم کی ہیں، میں اس کو نہیں بیچنا چاہتا، وہ بھی آخرت کے درخت کے بدلہ میں جو کہ ادہار ہے نقد ہوتا تو ہم سوچتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس شخص کی گفتگو کوئی صحابی سن رہا تھا، اس نے دیکھا کہ یہ کتنا بدبخت انسان ہے، کتنا کمبخت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو آخرت کے درخت کی پیشکش کر رہےہیں، یہ قبول نہیں کر رہا ہے۔ چپکے سے وہ آگے آتا ہے اور کہتا ہے یا رسول اللہ! اگر میں یہ درخت اس شخص سے خرید کر کے آپ کو دے دوں کسی بھی طرح سے، تو کیا آپ میرے لیے بھی اسی قسم کی ضمانت دیتے ہیں، مجھے بھی آخرت میں اس قسم کا درخت نصیب ہوگا؟ دیکھیے اس کو رسول اللہ کے وعدہ پر کتنا یقین ہے، کتنا اعتبار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہاں، کیوں نہیں۔ اگر تم بھی یہ درخت خرید کر کے ہمارے حوالے کر دو، تو ہم تمہیں جنت میں درخت دلائینگے۔

یہ جاتا ہے، اس شخص کے پاس۔ کہا تمہارا یہ درخت میں خریدنا چاہتا ہوں، اس نے کہا، میں اس کو بیچنا نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کو بیچوں۔ کہا سوچ لو، منہ مانگی قیمت دوں گا، اس نے کہا مجھے یہ درخت بہت عزیز ہے، اس کا خرما مجھے بہت پسند ہے۔ لیکن اگر کوئی بہت زیادہ قیمت دے جو میرے وہم اور گمان میں بھی نہ ہو تو شاید بیچ دوں۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے تم مجھے یہ ایک درخت دے دو، میں تمہیں چالیس درخت دیتا ہوں، چالیس درختوں کی قیمت تمہیں دیتا ہوں، وہ حیران ہو گیا، ایک درخت کے بدلے میں چالیس درختوں کی قیمت، چالیس گنا زیادہ۔ کہنے لگا اتنا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا، ٹھیک ہے مجھے قبول ہے۔ یعنی اس کمبخت اور بدبخت کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دنیا کے چالیس درخت زیادہ قیمتی ہیں یا ٓخرت کا ایک درخت جس کی ضمانت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دے رہے ہیں۔ اس نے قبول کرلیا کہ چالیس درخت کے بدلہ میں یہ درخت تمہارا ہوا۔ اب وہ شخص رسول اللہ کے پاس آتا ہے، رسول کائنات پھر اس غریب ہمسایہ کو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آج سے وہ درخت تمہارا ہے۔

اس واقعہ کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوتی ہیں، ان سعیکم لشتی، تمہاری کوششیں مختلف ہیں، فاما من اعطی واتقی، و صدق بالحسنی فسنیرہ للیسری؛

کچھ وہ ہیں جو سخاوت کرنا چاہتے ہیں، نیکی کرنا چاہے ہیں، ہم ان کیلئے نیکیوں کو آسان کر دیتے ہیں، اور یہ شخص چاہتا تھا کہ جنت میں اپنے لیے درخت بنا لے، وہ رسول اکرم سے انکار کر چکا تھا، لیکن یہ کیونکہ نیکی کرنا چاہتا تھا، اس لیے خدا نے اس کیلئے راستہ کھول دیا اس کے دل خیال ڈال دیا کہ چالیس درختوں کی قیمت دے دو، وہ درخت بیچ دے گا، لیکن یہ بخل کرنے والا تھا، دوسروں کا احساس بھی نہیں کرتا تھا، آخرت پر تو ایمان ہی نہیں تھا اس کو، جو آخرت کے درخت کی قیمت کو پہچان سکتا۔ اس لیے کہا میں نہیں دوں گا، اس کیلئے مشکل بنا دیا گیا، اس کو توفیق ہی نہیں ہوئی۔ اس طرح خالق کائنات کاموں کو آسان بنا دیتا ہے۔

یسر لی امری، میرے کاموں کو آسان بنا دے، یعنی مجھ میں یہ صلاحیت آ جائے کہ میں نیکیاں کر سکوں، ان کاموں کو انجام دے سکوں، خداوند متعال بھی کاموں کو آسان نہیں بناتا، اس شخص میں صلاحیت دے دیتا ہے اس کو یہ استعداد عطا کرتا ہے وہ ان کاموں کو کرسکے، پھر وہ کام اس کیلئے ہوتے چلے جاتے ہیں، اس طرح کی دعا کرنا کہ خدا ہمارے کاموں کو آسان کر دے یہ تب ہی اچھی لگتی ہے ، جب ہم اپنی پوری کوشش کریں، اپنے وظیفہ کو انجام دیں، اور خلوص کے ساتھ عمل کریں، تقوا کی بنیاد پر، خدا کیلئے کام کریں، اس کا مقصد رضایت خدا ہو، اس کا مقصد انسانیت کی خدمت ہو، نفسانی خواہشات کو پورا کرنا نہ ہو، شہرت اور ریاکاری کرنا نہ ہو، خدا کیلئے کام کرے تو خدا اس کیلئے راستوں کو کھول دیتا ہے۔اس کو کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں، اور اس کیلئے کام آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ آیات مجیدہ ہمیں بتاتی ہیں کہ خالق کائنات ہماری مدد کرتا ہے، وہ ہماری دعائوں کو سنتا ہے، ہماری مشکلات کو دیکھ رہا ہے، یہ چیزیں خود انسان کیلئے حوصلہ کا سبب بنتی ہیں، جب وہ سمجھے کہ خدا دیکھ رہا ہے، اب اگر وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر کے دعا کرے تو خدا اس کی دعا کو ضرور بضرور سن لیتا ہے۔ جب انسان خدا کیلئے کام کرنا چاہے تو خدا اس کو حوصلہ دیتا ہے، اس کو استعداد عطا کرتا ہے۔

سید الشہداحسین بن علی علیہ السلام ، عاشور کے دن کتنے مصائب برداشت کر رہے ہیں، کتنی بڑی مصیبت تھی ان کیلئے، وہ لمحہ کتنی مصیبت والا تھا جب آپ کا شش ماہ آپ کے ہاتھوں پر تھا، اور دشمن نے تیر چلا دیا، تصور کر سکتے ہیں ہم؟چھ مہینہ کا بچہ والد کے ہاتھوں پر ہو، پیاس سے بلک رہا ہو، دشمن کا تیر چلے، بہت مشکل ہے اس کو برداشت کرنا، سید الشہدا حسین بن علی ایک ہی جملہ کہا:

هون علی ما نزل بی انه بعین الله (۳۰۴)

جس چیز کی وجہ سے میرے لیے اس مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہو گیا ہے وہ یہ کہ خدا دیکھ رہا ہے۔سب خدا کے سامنے ہو رہا ہے، اگر انسان خدا کیلئے کام کرے اور اس کو یقین ہو کہ خدا دیکھ رہا ہے، خدا کسی کی کوشش کو ضایع ہونے نہیں دیتا، خدا پھر اس کے حوصلہ کو بلند کردیتا ہے، اس کے کاموں کو آسان کر دیتا ہے، اس کیلئے دروازوں کو کھول دیتا ہے، اس کو کوئی پشیمانی نہیں ہوتی، خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے اس میں، اس طرح خالق کائنات کاموں کو آسان بنا دیتا ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام کی یہ دعا ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ تم اپنا وظیفہ پوراکرو، اپنی کوشش کرو، کاموں کو خدا کیلئے انجام دو، اپنی نیتوں کو پاک و صاف بنالو، خدا سے دعا کرو، خالق کائنات تمہارے لیے دروازوں کو کھول دے گا، مشکلات حل ہوتی چلی جائینگی، جتنا ارادہ بلند ہوگا خدا اتنا دے گا بلکہ اس سے بڑہ کر دے گا۔ خداوند متعال نے اپنے لیے کہا ہے کہ ہم بہترین عطا کرنے والے ہیں، اس کی طرف سے کوئی بخل نہیں ہے ۔ دعا ہے کہ خالق کائنات ہمارے تمام کاموں کو ہمارے لیے آسان بنادے، اور ہمیں خلوص نیت عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

والدین کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ اخْفِضْ‏ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني‏ صَغيرا ) (۳۰۵)

مومنین کرام قرآنی دعائوں ک ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ والدین کیلئے دعا ہے۔

خالق کائنات نے انسان کو وجود عطا کیا اور پھر اس کی بقا کیلئے مختلف اسباب و سائل بنائے ، پہلے انسا ن ابو البشر حضرت آدم کو خالق کائنات نے مٹی سے بنایا اور پھر انسان کی نسل میں اضافہ کا سفر شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے ۔خداوند متعال والدین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے: سورہ اسرا کی آیت ۲۳ میں ،اور تہمارے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کسی کی بھی عبادت نہ کرو سوائے اس کے، عبادت کے لائق وہی ہے، جھکنے کے لائق وہی ہے، عبادت کے بعد جو حکم خداوند متعال اس آیت میں ارشاد فرما رہا ہے وہ یہ کہ والدین کے ساتھ احسان کرویعنی یہ والدین کے ساتھ نیکی کرنا، اچھا سلوک کرنا، صحیح طریقے سے پیش آنا، ان کی خدمت کرنا، اور وہ تمام چیزیں جو احسان میں داخل ہوتی ہیں یہ اتنی اہم ہیں کہ خالق کائنات اپنی عبادت کے بعد ان کا تذکرہ کر رہا ہے۔ بندگی خدا وجہ تخلیق انسان ہے ۔تمام انبیا نے سب سے پہلی دعوت جو انسانوں کو دی ہے، وہ یہی ہے کہ

( أَنِ اعْبُدُوا اللَّه ) (۳۰۶)

اللہ کی عبادت کرو، خالق کائنات جتنے انبیاء کا تذکرہ کر رہا ہے وہ آئے اپنی قوم کی طرف انہوں نے پہلا پیغام یہ دیا کہ خدا کی بندگی کرو، وہی لائق عبادت ہے، وہی لائق تعظیم ہے، اسی کے سامنے جھکنا چاہیے، اسی سے مدد مانگنی چاہیے، اسی کی بندگی کرنی چاہیے۔

خدمت والدین عظیم عبادت

اس اصلی قانون کے بعد خالق کائنات والدین کی بات کر رہا ہے کہ عبادت کے ساتھ عبادت کے دوسرے رتبے پر یا عبادت کا ایک مصداق،عبادت کا ایک اہم نمونہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرو، یہ والدین کے ساتھ نیکی کرنا در حقیقت خدا کی بندگی کرنا ہے۔یہاں خداوند متعال ایک حقیقی موحد کی نشانی بیان کر رہے ہیں کہ جو حقیقی معنی میں خدا کا ماننے والا ہے، خدا کو قبول کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے، ان کے ساتھ نیکی کرے ۔

و بالوالدین احسانا یہ ان کی عظمت ہے اور یہ سب نتیجہ ہے ان زحمت کا ان کوششوں کا ان کاوشوں کا، اس جدوجہد کا جو والدین اپنی اولاد کیلئے اٹھاتے ہیں۔ ہل جزا الاحسان الا الاحسان کا ا یک مصداق یہیں پر ہے کہ والدین جو زحمات اپنی اولاد کیلئے اٹھاتے ہیں، کس طرح کی مشکلات کو تحمل کرتے ہیں، برداشت کرتے ہیں، اس کا نتیجہ یہی ہے اس کا بدلہ یہی ہے کہ انسان ان کے ساتھ نیک سلوک کرے، اچھا برتاء کرو، اچھے اخلاق سے ان سے پیش آئے۔ خاص طور پر والدہ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آتا ہے، یا رسول اللہ! میں کیا کروں؟ فرمایا جائو اپنی والدہ کی خدمت کرو، والدہ کی خدمت کرو، تیسرے نمبر پر فرمایا والد کی خدمت کرو(۳۰۷)

والدین میں سے بھی والدہ کا حق زیادہ ہے اگرچہ یہاں قرآن مجید فرما رہا ہے وبالوالدین احسانا؛ دونوں کے ساتھ احسان کرو، لیکن والدہ کا رتبہ قطعا زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کی زحمات بھی زیادہ ہیں۔

والدین کے حقوق

امام زین العابدین علیہ السلام رسالہ حقوق میں جب والدین کے حق بیان کرتے ہیں خاص طور پر والدہ کے تو فرماتے ہیں کہ یاد رکھو! تمہاری ماں نے تمہاری والدہ نے تمہیں وہاں رکھا، تمہیں اس جگہ پر جگہ دی، جہاں کوئی کسی کو نہیں رکھتا، اپنے وجود کے اندر تمہیں کتنے مہینوں تک رکھا۔ اس کا خون تمہاری غذا بنا، اس سے تمہارا وجود بنا، تم نے مراحل طے کئے اور پھر زندہ موجود بن گئے، پھر جب اس دنیا میں آتا ہے وہ زحمات، اس کے بعد کی جو زحمات ہیں کہ والدین خود بھوکے رہ کر بھی بچوں کو کھلاتے ہیں خود سے زیادہ انہیں اپنی اولاد کی فکر رہتی ہے،اگر یہ والدین نہ ہوں تو یہ دنیا میں آنے والا ننہا بچہ کیا کر سکتا ہے؟ نظام کائنات اس طرح خدا نے بنایا ہے کہ انسان کے علاوہ جتنے بھی دوسرے حیوان ہیں جیسے ہی بچہ دنیا میں آجاتا ہے، اسی دن قابل ہو جاتا ہے اس کے کہ وہ خود سے اپنی زندگی بسر کر سکے۔ لیکن انسان کا بچہ سالوں تک اس حد تک نہیں پہنچتا کہ اپنی زندگی خود بسر کر سکے، اس کیلئے مہربان رئوف والدین کی ضرورت ہے جو اس کی جسمانی تربیت اور جسمانی نشونما کے ساتھ ان کی معنوی تربیت کر سکیں۔ ان کے اخلاق کی تربیت کر سکیں، انہیں انسانیت کے راستے کی ہدایت کریں، انہیں اصول زندگی سے آشنا کریں، والدین کا بہت بڑا کردار ہے اولاد کی تربیت میں، ان کو انسان بنانے میں اور ان کی انسانیت کی تکمیل میں۔ ان زحمات کا نتیجہ یہی ہے کہ پھر انسان ان کے ساتھ نیکی کا سلوک کرے۔

لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد جتنی بھی خدمت کرے والدین کا حق ادا نہیں کرسکتی، والدین نےجو کچھ اولاد کیلئے کیا ہے وہ معمولی عمل نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جا سکے،اور فرق یہی ہے کہ ایک نیا بچا جب بولنا سیکھتا ہے تو ماں باپ سے بار بار سوال کرتا ہے، ایک ایک چیز کے بارےمیں ۲۰ ، ۲۰ بار سوال کرتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ بڑے پیار سے شفقت سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ لیکن یہ بچہ بڑا ہوجاتا ہے والدین بوڑہے ہو جاتے ہیں اب یہ چاہتے ہیں یہ چند منٹ ہمارے پاس بیٹے اس کو مشکل لگتا ہے، وہاں بیٹھنا، ان کو ٹائیم دینا، ایک دو بار کوئی ایک چیز پوچھ لیں اسے غصہ آنے لگتا ہے، ٹوک دیتا ہے کہ کیوں بار بار پوچھ رہے ہو، جب کہ یہی بچہ جب اپنے طفولیت کی عمر میں تھا تو ایک ایک چیز کے بارے میں کتنی مرتبہ سوال کرتا تھا؟ والدین بڑی شفقت کے ساتھ اس کا جواب دیتے تھے۔

خدمت کی مختلف صورتیں

خالق کائنات اسی بنیاد پر ارشاد فرما رہا ہے وبالوالدین احسانا؛ عبادت خدا کے ساتھ عبادت کا ایک نمونہ والدین کی خدمت ہے، ان کے ساتھ نیکی کرنا ہے اور کیونکہ یہاں کسی واسطہ کا ذکر نہیں ہوا مطلب یہ کہ خود خدمت کرو یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر خدا نے اولاد کو زیادہ مال عطا کیا تو وہ ان کیلئے نوکر رکھ دے، نہیں وبالوالدین احسانا؛ خود خدمت کرو اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کرو جس طرح انہوں نے ہاتھوں سے تمہاری تربیت کی ، وبالوالدین احسانا ان کے ساتھ احسان کرو، کوئی قید نہیں لگائی گئی، ہر قسم کا احسان، چاہے وہ مال کی صورت میں ہو، چاہے محبت کی صورت میں ہو چاہے ادب کی صورت میں ہو، چاہے تشکر اور قدردانی کی صورت میں ہو، تمام کو شامل ہے کہ ہر نیکی جو ان کے ساتھ کی جا سکتی ہے تمہیں کرنی چاہیے،اور پھر یہ والدین جب عمر کے آخری حصہ میں پہنچتے ہیں تو ان کو خاص ضرورت ہوتی ہے کہ اولاد ان کے ساھ اچھا سلوک کرے، نیک سلوک کیا جائے ان کے ساتھ، ان کے جذبات کو سمجھا جائے ، اور اس کے مطابق ان کی ضرویات کو پورا کیا جائے۔

ضرویات پورا کرنے کیلئے صرف پیسے خرچ کرنا کافی نہیں ہے ۔ایسا نہیں ہے اگر والدین بوڑہے ہو جاتے ہیں تو اولاد جا کر انہیں آسایشگاہ کے حوالے کر دیں، جہاں بوڑہوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے حفاظت کی جاتی ہے۔ نہیں، انسان کو اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس لئے خالق کائنات نے ان کے عمر کے آخری حصہ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے

( إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍ‏ وَ لا تَنْهَرْهُما وَ قُلْ لَهُما قَوْلاً كَريما ) (۳۰۸)

دیکھو جب یہ اپنے بوڑہاپےکو پہنچ جائیں تمہاری زندگی میں جب یہ دونوں بوڑہاپے کو پہنچ جائیں یا دونوں مین ایک پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہنا، اف بھی نہ کہو،ان سے سختی سے بات نہ کرو، نرم لہجے سے ادب کے ساتھ ان کے ساتھ گفتگو کرو۔

کتنی تاکید کے ساتھ خالق کائنات فرما رہا ہے کہ جب یہ اپنی عمر آخری حصہ پہنچ جائیں ان کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے پھر وہاں ان کو اف کہنا ان کے ساتھ سخت لہجے میں گفتگو کرنا، ان کیلئے تکلیف، ان کیلئے اذیت کا سبب بنتا ہے۔ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے بلکہ ان کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کرو، اور پھر خصوصی طور پر حکم دیا جا رہا ہے اپنے والدین کے سامنے ہمیشہ تواضع متواضع رہو ، انکساری کے ساتھ ادب کے ساتھ ان سے پیش آئو، ان کے سامنے اپنے کمالات بیان نہ کرو، ہمیشہ یہی یاد رکھو کہ تمہارے ہر کمال کے پیچھے تمہارے والدین کی محنت کا عمل دخل ہے۔ تم جس بھی مرتبہ پر فائز ہوجائو، جس بھی منصب پر فائز ہوجائو یہ تمہارے والدین کی محنت کا نتیجہ ہے، اگر انہوں نے تمہارے لئے کام نہ کیا ہوتا وہ اگر تمہارے لئے زحمت نہ کرتے تو تم اس درجہ پر نہیں پہنچ سکتے تھے، جہاں بھی پہنچو یہ سمجھو کہ یہ والدین کا احسان ہے۔ اور پھر ایسا نہیں ہے کہ انسان عہدہ پر مغرور ہونے لگے اور یہ سمجھے کہ میں اپنے والدین سے بھی بڑا ہو گیا ہوں، میرے والد کو کچھ پڑہنا لکھنا نہیں آتا، میں اتنا پڑہ لکھ چکا ہوں۔ نہیں، ہرگز نہیں، تم جتنا پڑہ لکھ لو اپنے والدین کیلئے ان کی اولاد ہو۔

اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں کہ کچھ شخصوں کا کھڑے ہو کر استقبال کرو، ان میں سے ایک والد ہے تم جس بھی مرتبہ پر پہنچ جائو جہاں بھی جس منزل پر پہنچ جائو جب بھی تمہارے والد آجائیں تو اٹھ کھڑے ہوجائو، اپنے استاد کیلئے کھڑے ہو جائو(۳۰۹)

یہ تم جس بھی درجہ پر پہنچ رہے ہو یہ ان کا صدقہ ہے، ان کی وجہ سے ہے۔ لہذا ان کے سامنے اپنے کمالات کا اظہار نہ کرو۔

واخفض رحم ہ؛ رحمت ک ی بنیاد پر نرمی کی بنیاد پر ان کے سامنے انکساری سے پیش آئو، دکھاوے کیلئے نہیں ہونا چاہیے، ریاکاری کیلئے نہیں ہونا چاہیے، دنیوی مفادات کیلئے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ادب کے طور پر، ان سے متواضعانہ سلوک کرو، پھر خاص دعا کی جا رہی ہے

( وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني‏ صَغيرا )

بار الہا ان پر اپنی رحمت فرما اپنی رحمتوں کا نزول فرما جس طرح انہوں بچپن میں میری تربیت کیلئے میرے لئے زحمات اٹھائیں یعنی والدین کے حق میں یہی دعا کرنی چاہیے کہ باارلہا! جس طرح انہوں نے مجھ پر رحم کیا، مجھ پر شفقت کی، اسی طرح تو ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما۔ تو انہیں غریق رحمت فرما، اور یہ والدین کے حقوق میں سے اہم حق یہی ہے کہ ان کے حق میں دعا کی جائی اور یہ دعا صرف مرنے کے بعد کی نہیں ہے ان کی زندگی میں ان کیلئے دعا کی جائی، زندگی کے بعد دعا کی جائے۔

عاق ہونے سے بچو

گناہ کبیرہ، بہت بڑا گناہ یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد سے مایوس ہو کر، ان کی نافرمانی کو دیکھ کر ان کو عاق کردیں، بے دخل کردیں، اپنا رشتہ ان سے توڑ دیں، بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو اتنی تکلیف دے کہ وہ کہیں تم ہمارے بیٹے ہی نہیں ہ،و ہماری اولاد ہی نہیں ہو۔ بہت بڑا گناہ ہے۔ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ایسا انسان جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتا،(۳۱۰)

جانا تو بڑی بات ہے۔ ان کی زندگی میں اور ان کے مرنے کے بعد انسان ان کے ساتھ احسان کرتا رہے، ان کیلئے دعا کرتا رہے و قل۔۔ گرچہ آیات میں خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا جا رہا ہے لیکن یہ حکم سب کیلئے ہے ۔تمام امت کیلئے ہے، تمام مسلمانوں کیلئے ہے۔

والدین کی خدمت جہاد ہے

خدا کو ماننے والے موحد انسان کی ایک نشانی یہی ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرتا ہے اور تاریخ میں کتنے نمونہ کتنی مثالیں ہیں، کہ کوئی جب اسلام میں داخل ہو گیا رسول کائنات نے انہیں سب سے اہم حکم یہی دیا کہ اگر تمہارے والدین زندہ ہیں تو جائو ان کی خدمت کرو، یا رسول اللہ وہ کافر ہیں؟ فرمایا کوئی بھی ہوں، تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا دین کونسا ہے؟ تمہیں یہ دیکھنا ہے یہ تمہارے والدین ہیں، انہوں نے تمہاری تربیت کی ہے، اس دنیا میں آنے کیلئے تمہارا وسیلہ بنے ہیں، تمہیں اس منزلت پر پہنچایا ہے۔ یہ نہ دیکھو ان کا دین کونسا ہے۔وبالوالدین احسانا؛ کوئی بھی ہوں کافر ہی کیوں نہ ہوں ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اور کتنے ہی والدین ایسے ہیں کہ اولاد کے اسی اچھے اور نیک سلوک کی وجہ سے مسلمان بن گئے۔ انہوں نے پوچھ لیا: بیٹا کیا سبب ہے کہ پہلے اتنی خدمت نہیں کرتے تھے اب بہت زیادہ خدمت کرنے لگے ہو؟ یہ بیٹا یہی کہتا کہ اب میں اسلام میں داخل ہوگیا ہوں، میں مسلمان بن گیا ہوں اور اسلام کا حکم یہی ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کرو، یہاں تک کہ جب جہاد کا حکم آتا ہے جہاد کیلئے مجاہدین تیار ہوتے ہیں اور رسول اللہ دیکھتے ہیں کہ مجاہدین کافی تعداد میں ہیں تو جن کے والدین بوڑہے ہیں، ان کو مدد ضرورت ہے، سہارے کی ضرورت ہے، فرماتے: تم جائو اپنے والدین کی خدمت کرو۔(۳۱۱)

والدین کی خدمت کرنا خود ایک جہاد ہے، ایک عبادت ہے، ہمارا وظیفہ ہے، اپنے محسن کو یاد رکھنا ہے۔ یہ بہترین اخلاق اور اچھا سلوک سبب بنتا ہے کہ والدین مسلمان ہوجائیں کتنے ہی مسلمان بن گئے اپنے اولاد کے اس اچھے اخلاق کو دیکھ کر۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا گیا تھا جو ہم سب کیلئے ہے۔

اسی طرح قرآن مجید نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کو نقل کیا ہے رب اغفر لی و لوالدی؛ بار الہا مجھے بخش دے میرے والدین کو بخش دے ۔جہاں اپنے لیے دعا کی جارہی ہے وہاں والدین کیلئے بھی دعا کی جا رہی ہے۔ اپنی مغفرت کی دعا کی جا رہی ہے، والدین کی مغفرت کی بھی دعا کی جا رہی ہے۔

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جس میں ارشاد ہو رہا ہے:

( رَبَّنَا اغْفِرْ لي‏ وَلِوالِدَي ) (۳۱۲)

بار الہا! مجھے بخش دے میرے والدین کو بخش دے مومنین اور مومنات کو بخش دے۔جو بھی دائرہ ایمان میں داخل ہو جائے اسے بخش دے۔ تو تمام اہل ایمان کیلئے ایک دعا ہے اور والدین کیلئے مخصوص دعا ہے کیونکہ والدین انسان کی زندگی میں بہت اہمیت کا مقام رکھتے ہیں، ان کیلئے خصوصی دعا ہونی چاہیے کہ وہ سبب بنے ہیں تمہارے اس دنیا میں آنے کا، اور تمہارے کمالات میں ان کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔

فرشتوں کی دعا

اور سب سے اہمیت کی بات یہ ہے کہ خالق کائنات نے فرشتوں کی جس دعا کونقل کیا ہے۔ ملائکہ اہل ایمان کیلئے دعا کرتے ہیں، مومنین کیلئے دعا کرتے ہیں، یہ ایمان کتنی بڑی برکت ہے جس کی وجہ سے فرشتے دعا کر رہے ہیں، ملائکۃ اللہ دعا کرتے ہیں مومنین کیلئے نہ صرف مومنین کیلئے بلکہ ان کی اس دعا میں اہل ایمان کے والدین بھی شامل ہیں، ان کی ازواج بھی شامل ہیں ان کی ذریت بھی شامل ہے۔وہ یہ دعا کرتے ہیں ربنا و ادخل ہم بار الہا؛ ان اہل ایمان کو اس جنت عدن میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ اہل ایمان کو جنت میں، بہشت میں جگہ عطا فرما، نہ صرف اہل ایمان کیلئے دعا کی بلکہ فرمایا و من صلح اور جو ان کے والدین ہیں جو ان کے آبا و اجداد ہیں، صالح ابا اجداد ہیں ان کو بھی جنت میں داخل فرما، ملائکہ اور فرشتے اہل ایمان کیلئے، ان کے ابا و اجداد کیلئے، ان کی ازواج کیلئے، ان کی اولاد کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ یہ فرشتوں کی دعا در حقیقت ہمارے لئے درس ہے کہ جس طرح فرشتے سب کیلئے دعا کر رہے ہیں اہل ایمان کیلئے ان کے والدین کیلئے ان کے ابا اجداد کیلئے ان کی ازواج کیلئے ان کی ذریت کیلئے ہمیں بھی سب کیلئے دعا کرنی چاہیے۔ یہ دعا ایک طرف، انبیا کی اتباع ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے، حضرت نوح نے دعا کی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اس طرح کہا کرو و قل رب ۔۔صغیرا اور اسی طرح یہ دعا کرنا، فرشتوں کی پیروی و اتباع ہے کہ فرشے بھی دعا کرتے ہیں کہ بار الہا اہل ایمان کو جنت میں جگہ عطا فرما و من صلح من ابائ ہم اور ان کے والد ین بھی جنت میں جگہ عطا فرما، بہت بڑی دعا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کی خدمت کرنا بہت بڑی عظیم عبادت ہے۔ یہ دعا کرنا بھی خدمت کا ایک نمونہ ہے، ایک مثال ہے۔ اگر ان کے واجبات رہ جاتے ہیں، ان کو ادا کرنا۔ اگر ان کے ذمہ کسی کا حق ہے اس کو ادا کرنا، یہاں تک کہ ان کے وسیلہ سے دعا کرنا، ان کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑہ کر ان کے توسل سے دعا کرنا، ان کے ذریعہ انسان کی مشکلات حل ہوتی ہیں اور والدین کی دعا اگر اولاد کیلئے ہو تو خالق کائنات اس دعا کو مستجاب کرتا ہے چاہے والدین زندہ ہوں یا اس دنیا سے جا چکے ہوں۔ جب بھی اولاد، والدین کیلئے دعا کریں اور ان کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں دعا کریں خد اس دعا کو قبول فرماتا ہے۔والدین خالق کائنات کی ایک عظیم نعمت ہیں جتنی تاکید کی گئی ہے کہ والدین کی خدمت کرو یہ اس بنیاد پر ہے کہ تمہارے کمالات ان کی وجہ سے ہیں ایک، اور دوسرا یہ کہ کل تم بھی والد بنو گے تمہیں پھر احساس ہوگا کہ اولاد کیا ہے؟ ان کیلئے کتنی زحمت کی جاتی ہے؟ کتنی قربانیاں دی جاتی ہیں؟ آج تم دوسروں کیلئے دعا کروگے، کل تمہاری اولاد تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی۔

بعض اوقات ہم جو دیکھتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمیں تکلیف دیتی ہے یہ شاید اس وجہ سے بھی ہو کہ ہم نے اپنے والدین کے حقوق کو ادا نہیں کیا، تو ہمیں اپنے والدین کیلئے دعا کرتے رہنی چاہیے جس طرح رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا گیا و قل۔۔ دعا ہے کہ خالق کائنات ہمارے والدین کو غریق رحمت فرمائے اور جن کے والدین زندہ ہیں انہیں طول عمر فرمائے اور ہمیں ان کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

بھائی کے حق میں دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( قالَ رَبِّ اغْفِرْ لي‏ وَ لِأَخي‏ وَ أَدْخِلْنا في‏ رَحْمَتِكَ وَ أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمينَ ) (۳۱۳)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج بھائی کے حق میں دعا کو پیش کرنا ہے۔

خالق کائنات نے انسان کو وجود دینے کے بعد ایسے اسباب پیدا کیے اس کیلئے جو اس کے وجود کی حفاظت کر سکیں، جو اس کی حمایت کرسکیں، اس کا ساتھ دے سکیں، اس کیلئے مختلف رشتوں کو بنایا تاکہ اس زندگی بہتر سے بہتر ہوسکے، خوبصورت اور حسین ہو۔ کتنی نعمتیں دی ہیں خالق کائنات انسان کو، معنوی اور مادی، ظاہری اور باطنی۔ ان میں سے ایک بہترین نعمت رشتہ دار ہیں، اور ان میں سے بھی بہت بہترین رشتہ بھائی کا ہے۔بھائی انسان کیلئے مددگار ہوتا ہے، اس کی پشت پناہ ہوتا ہے، اس کا ساتھی ہوتا ہے، اور دیکھا جائے تو یہ وہ رشتہ ہوتا ہے جس پر انسان کو بہت زیادہ اعتماد ہوتا ہے اور بھروسہ بھی ہوتا ہے۔ رشتہ داروں کا خیال کرنا، خاص طور پر جتنا نزدیک کا رشتہ ہو، اس کا زیادہ سے زیادہ خیال کرنا ایک فطری سی بات ہے، اس سے توقع رکھنا بھی ایک فطری سی بات ہے، انسان پر جیسے مشکل وقت آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں وہی آتے ہیں جس کا بہت زیادہ قریبی رابطہ ہے اس کے ساتھ، بہت زیادہ نزدیک کا رشتہ ہے۔ ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ میری مدد کرینگے، میرا ساتھ دینگے، اور ان کا ساتھ دینا فطری ہوا کرتا ہے کہ یہ ہمارا بھائی ہے ہم اس کا ساتھ نہیں دیں گے تو کون اس کا ساتھ دے گا، دین نے بھی اسی فطری چیز کو مورد نظر قرار دیا ہے، اور اس کی تاکید کی ہے کہ ان رشتوں کا پاس رکھو، ان کا خیال رکھو، ان کی قدر اور قیمت جانو، ان کا ساتھ دو، دین نے اسی مطلب کی تائید کی ہے۔

اچھا بھائی

بھائی کیلئے دعا جس کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے، وہ حضرت موسی علیہ السلام کی دعا ہے، جس میں آپ علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ ؛ بار الہا مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بخش دے، یہ بھائی کا رشتہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں حضرت موسیؑ اسی کے حق میں دعا کر رہے ہیں، مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے؛ کیونکہ توبہترین رحم کرنے والا ہے، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔اس دعا میں حضرت موسیؑ نے اپنے ساتھ اپنے بھائی کے حق میں دعا کی ہے۔

البتہ آپ جانتے ہیں کہ دین کیونکہ ایک خاص رسالت رکھتا ہے، دین کیونکہ خداوند متعال سے رشتہ مضبوط بنانے کا نام ہے، اس کی اطاعت اور فرمانبردای کا نام ہے، لہذا یہاں ایسا نہیں ہے کہ صرف رشتہ کی بنیاد پر اگرچہ رشتہ کے اپنے حقوق ہیں، لیکن اگر کائی رشتہ دار دین کے مقابل میں آکر کھڑا ہوجاتا ہے، خدا کے مقابلہ میں آکر کھڑا ہوجاتا ہے، تو ظاہر ہے اس رشتہ کی پھر کوئی اہمیت نہیں ہے۔حضرت موسی علیہ السلام اگر اپنے بھائی کیلئے دعا کر رہے ہیں صرف بھائی ہونے کی وجہ سے نہیں، کیونکہ وہ دین میں بھی ان کے مددگار ہیں، دین میں بھی وہ جانشین اور وصی ہیں، اسی لیے اس دعا میں ان کو شامل کیا جا رہا ہے، کہ نسبی رشتہ کے ساتھ ایمانی رشتہ بھی ہے۔ جسمانی رشتہ کے علاوہ معنوی رشتہ بھی ہے اس لیے ان کیلئے خصوصی دعا کی جا رہی ہے۔ ایسا بھائی جو نسب کے ساتھ رشتہ کے ساتھ معنوی رشتہ بھی رکھتا ہو، اس کی قیمت اور بڑہ جاتی ہے، اس کی قدر اور بڑہ جاتی ہے۔ یہاں حضرت موسی علیہ السلام اپنے بھائی کی اہمیت کو بیان کر رہے ہیں، اپنی دعا میں اس کو شامل کرکے، یہ میرا بھائی بھی ہے رشتہ دار بھی ہے، میرا ساتھ دینے والا بھی ہے، میرا مددگار بھی ہے، اس کو دعائوں میں مانگا تھا، میرے بھائی کو میرا وزیر قرار دے، اسی لیے ان کیلئے خصوصی دعا کر رہا ہے،۔

البتہ آپ جانتے ہی کہ تاریخ میں مختلف قسم کے بھائی پائے جاتے ہیں، ایک بھائی یہ ہے جس کیلئے حضرت موسی علیہ السلام خصوصی دعا کر رہے ہیں۔

برا بھائی

ایک وہ بھائی ہے جو اپنے بھائی کا قتل کر رہاہے۔ میرا اشارہ حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کی طرف ہے، ہابیل اور قابیل؛ جن میں ایک قاتل بن جاتا ہے دوسرا مقتول بن جاتا ہے۔ انتہائی معمولی چیزوں کی بنیاد پر، کمزور بہانوں کی بنیاد پر ایک بھائی دوسرے بھائی کا قاتل بن جاتا ہے۔ پھر وہ اتنا گر جاتا ہے، قتل کرنے کے بعد پشیمان ہوتا ہی ہے اس کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے؟ خالق کائنات اس کو سمجھانے کیلئے کہ اس بھائی کی میت کا کیا کرنا ہے، پرندوں کو بھیجتا ہے۔کوے کو بھیجتا ہے،کہ وہ کس طرح آکر ایک مردہ کوے کو دفن کرتے ہیں۔ اسے دیکھ کر قاتل بھائی کو پتا چلتا ہے کہ ہاں میں بھی اس طرح اپنے بھائی کو دفن کردوں۔ بھائی سے دشمنی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس قدر گر جاتا ہے کہ پرندے آ کر اس کو تعلیم دیتے ہیں، یعنی وہ حیوانوں سے بھی گرجاتا ہے۔ قرآن مجیدنے اس کو نقل کیا ہے، وہ پشیمان ہونے لگا، وائے ہو مجھ پر، میں نے کیا کر دیا، قرآن مجید تعبیر کر رہا ہے کہ

( فَأَصْبَحَ‏ مِنَ النَّادِمين ) (۳۱۴)

وہ پشیمان ہونے لگا،اس بھائی سے دشمنی کا نتیجہ جو بھائی حق پر تھا، حق اور سچ کی اس کو تلقین کرتا تھا، جو اس کو راہ حق کی ہدایت کر تا تھا، اس سے دشمنی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جانوروں سے بھی گر جاتا ہے۔ اس بھائی کا بھی قرآن میں تذکرہ ملتا ہے۔

ان بھائیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے قرآن مجید میں، جو اپنے ایک بھائی کو بیچ ڈالتے ہیں، حسد کی بنیاد پر، وہ سمجھ رہے تھے کہ اس نے ہمارا حق غصب کیا ہوا ہے، ہمارے حصہ کی محبت اس کو دی جا رہی ہے، اپنی اسی نادانی اور کم علمی کی وجہ سے پہلے اس کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں، کامیاب نہیں ہوتے اس کو کوئیں میں ڈالتے ہیں لیکن وہ مرتا نہیں اور اس میں بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ آخر میں یہ طریقہ اپناتے ہیں کہ اس کو بیچ ڈالتے ہیں انہوں نے اپنی طرف کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن وہ بھائی جو اپنے بھائیوں کی جفا پر صبر کرتا ہے، تو پھر خدا اس کو کیسے نوازتا ہے۔ اس کو پہلے غلام تو بنا دیا جاتا ہے، پہلے اسے کنویں کی گہرائی میں پھینک دیا جائے لیکن جب وہ خدا کیلئے صبر کرتا ہے، بھائیوں کو بخش دیتا ہے تو جس کو کنویں کی گہرائیوں میں ڈال دیا گیا تھا وہ تخت مصر کی بلندیوں پر نظر آتا ہے، جس کو لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا وہ ایک ملک کا سربراہ بن جاتا ہے،جب یہ بھائی اس کو پاس پہنچتے ہیں، اور پہچان لیتے ہیں کہ یہی یوسف ہے، وہ گر پڑتے ہیں قدموں پر اور معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ان کا کردار تھا، اس طرف حضرت یوسف کا کردار ہے، کہتے ہیں کہ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کرو، میں نے اپنے دل میں تمہارے لیے کبھی اس طرح کا سوچا بھی نہیں ہے، میں نے تو اپنے دل میں کبھی انتقام کا جذبہ نہیں رکھا تمہارے لیے۔

اور بڑے کم ظرف ہوتے وہ لوگ جو ان بھائیوں کی داستانوں میں جا کر حضرت یوسف کے بھائیوں کو لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خون کے رشتوں میں وفا نہیں ہوتی، نہیں، اگر مثال ہی دینی ہے تو آپ حضرت یوسف کی مثال کیوں نہیں دیتے، وہ بھی تو بھائی ہیں، یعنی آپ منفی سوچ کیوں رکھ رہے ہیں، اگر آپ نے بھائی کی مثال دینے ہے تو حضرت یوسف کی مثال کیوں نہیں دیتے، انہوں نہ صرف کس طرح اپنے بھائیوں کو بخش دیا، اور کہا کہ تم معافی مانگ کر مجھے شرمندہ کر رہے ہو، میں نے اپنے دل میں انتقام کا جذبہ ہی نھیں رکھا، میں تو تمہیں اپنا بھائی سجھتا ہوں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم میں جدائی کرانے والا ہمارا دشمن شیطان تھا، جس نے ہم بھائیوں میں حسد پیدا کیا، جس کی وجہ سے تم نے یہ اقدام کیا۔ مثال دینے کیلئے اچھی مثال کو لینا چاہیے۔

کتنے اچھے اچھے بھائی ہیں تاریخ میں، حضرت یوسف علیہ السلام جیسے بھائی، اور یہاں کربلا میں آ کر دیکھیں تو جناب ابوالفضل العباس جیسے بھائی، جس کیلئے معصوم امام فرما رہے ہیں کہ

بنفسی انت؛ (۳۱۵)

بھائی میری جان تم پر قربان، سوار ہو کر دیکھو کہ ان کا ارادہ کیا ہے شب عاشور۔ اس طر ح کے بھائی بھی ہیں، بھائی کا رشتہ انتہائی عظیم رشتہ ہے جس کی خصوصی تعلیمات ہیں، جس کے خاص حق ہیں۔

دینی بھائی

قرآن مجید نے اخ کا لفظ کبھی نسبی برادری کیلئے استعمال کیا ہے، یعنی ہمارا بھائی وہ ہوتا ہے جو ہمارا نسبی بھائی ہے، رشتہ کا بھائی ہے ہم ایک ماں باپ سے ہیں، اس کی اپنی اہمیت ہے، فضیلت ہے، اور شریعت نے پھر اس کو معیار بنایا ہے، یہی رشتہ جو دو سگے بھائیوں میں ہوتا ہے، یہی رشتہ تمام مومنوں کے درمیان ہونا چاہیے، اس لیے رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم دیا گیا کہ آپ اپنے ماننے والوں کو اسی رشتہ میں جوڑ دیں اور سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عقد مواخات کے ذریعہ سے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا، فرمایا جائو دیکھو جو تمہیں پسند آتا ہے، اس کے ساتھ عقد اخوت پڑہ لو، بھائی بھائی بنا دیا۔

مولا علی(ع) کی دو فضیلتیں

آخر حضرت علیؑ رہ جاتے ہیں رونے لگتے ہیں، یا رسول اللہ! آپ نے ہر ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا،میں اکیلا رہ گیا ہوں، تو رسول کائنات نے ارشاد فرمایا کہ

الا ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی (۳۱۶)

کیوں پریشان ہو رہے ہو، کیا تم میرے بھائی بننا پسند نہیں کروگے، تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو جناب موسی سے تھی، سوائے اس کے کہ الا ان ہ لا نب ی بعدی، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ایک یہ بھائی کا رشتہ ہے۔ شب ہجرت حضرت علیؑ سو رہے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کیلئے نکل رہے ہیں، ایک بھائی قربانی دے رہا ہے دوسرے بھائی کیلئے(۳۱۷)

آسمان کے فرشتے اس فضیلت کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہو رہے ہیں، خدا جب ان سے پوچھتا ہے کہ بتائو کہ تم میں سے کون ہے ایسا، جو اپنے بھائی کیلئے اپنی جان قربان کر دے؟ تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں، فضیلت اس کو حاصل ہوتی ہے جو اس رشتہ کی اہمیت، فضیلت اور قدر کو جانتے ہوں۔ اور پھر یہاں رسول اللہ فرما رہے ہیں کہ وہی نسبت ہے صرف نبوت نہیں ہے۔ یعنی نبوت کے علاوہ وہ تمام فضائل جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل ہیں، وہ تمام فضائل علیؑ کو حاصل ہیں، کیوں نہ ہوں جبکہ حضرت علیؑ نفس پیغمبر ہے آیہ مباہلہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ

( تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُم ) (۳۱۸)

نفس پیغمبر ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھائی ہیں۔

آج کل ایک بہت غلط پروپینگڈا کیا جا رہا ہے اس نعرہ کی صورت میں علی اور معاویہ بھائی بھائی، ان دونوں کی آپس میں نسبت ہی کیا ہے، ایک وہ ہے جو نفس رسول ہے ، وہ ہے جس کو رسول اللہ نے اپنا بھائی بنایا، وہ ہے جس کو رسول اللہ نے الا ترضی کا تاج پہنایا، وہ ہے جس کیلئے ارشاد فرمایا کہ:

من کنت مولاه فهذا علی مولاه ؛ (۳۱۹)

اس کا معاویہ سے کوئی رابطہ ہی نہیں بنتا۔

بھائی کی غیبت کرنا

اور پھر وہاں جب اسلام نے بعض گناہوں کی اہمیت کو ثابت کرنا چاہا، دکھانا اور بتانا چاہا تو وہاں بھی بھائی کی مثال کو استعمال کیا، فرمایا ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ غیبت کرنا ایسا ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ کیا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا نہیں۔ غیبت کرنے کو بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف بناگیا ہے کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، مرنے کے بعد تو بھائی کے احترام میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

اب انسانوں کی ایک مصیبت یہ ہے کہ جب نعمت پاس ہوتی ہے تو قدر نہیں کرتے نعمت چھن جانے کے بعد اس کا قدر کرتے ہیں، فرمایا غیبت کرنا ایسے ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا، کوئی پسند نہیں کرے گا، یہ بھائی کے احترام کی وجہ سے ہے، بھائی کا اپنا ایک تقدس ہے، اس لیے اسلام نے جب ایمان کا رشتہ بتانا چاہا تو فرمایا :

( إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُم‏ ) (۳۲۰)

مومن بھائی ہیں، جس طرح نسبی بھائی ہوا کرتے ہیں، خون کے رشتہ ہوا کرتے ہیں، ان کا احترام اور تقدس ہوتا ہے، ان کے حقوق ہوتے ہیں، ان کا خیال کیا جاتاہے، ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، ان کی مشکلات کو اپنی مشکل سمجھا جاتا ہے اسی طرح ایمان کی بنیاد پر جو بھی ایمان کے دائرہ میں آجائے وہ تمہارا بھائی ہے۔

بھائیوں میں صلح و صفائی

اور پھر ارشاد فرمایا( فاصلحوا بین اخویکم ؛) دو بھائیوں میں اگر اختلاف ہو جاتے ہیں تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے بھائیوں صلح و صفائی کرائو، اور یہ صلح و صفائی کرانا اتنا اہم ہے کہ روایات میں تصریح کی گئی ہے کہ مستحب نماز اور روزہ سے بڑہ کر ثواب ہے دو بھائیوں میں صلح و صفائی کرانے کا(۳۲۱) ۔

قرآن یہ چاہتا ہے کہ یہ رشتے محفوظ رہیں، یہ محبتیں باقی رہیں، ان خلوصوں میں روز بروز اضافہ ہو، ان رشتوں کو مضبوط بنانا بندگی کرنے کے مترادف ہے۔عبادت ہے یہ اور اتنی عظیم عبادت ہے کہ مستحب نماز اور رواہ سے بڑہ کر اس کا ثواب ہے۔

بہترین بھائی

البتہ اسلام نے یہ کیا کہ اس بھائی کے رشتہ کیلئے یہ بیان کیا ہے کہ تمہارا بہترین بھائی کونسا ہے؟نسبی کے ساتھ جس میں اخلاقی صفات پائی جاتی ہوں، اس کی فضیلت اور زیادہ ہے، کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ احب اخوانی الی من ا ہد ی الی عیوبی ۔(۳۲۲)

میرا بہترین بھائی وہ ہے جو میرے عیبوں کی نشاندہی کرے، مجھے بتائے کہ میرے اندر کونسا عیب ہے تا کہ میں اصلاح کرلوں، قبل اس کے کہ میرے دشمن میرے عیب کو دیکھیں اور میرے عبیب کی وجہ سے انگلیاں اٹھائیں میری طرف کہ اس میں یہ عیب پایا جاتا ہے۔ میرے بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے میرا عیب بتائے تا کہ میں اپنے عیب کی اصلاح کرلوں، تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارے عیوب کو چھپائے ایسا نہیں کہ اگر کوئی عیب دکھائی تو جا کر دوسروں کو بتائے، اشتہار کردے۔جو اپنے بھائی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے چپکے سے اس کا عیب بتاتا ہے، یہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے اپنے بھائی کو زینت بخشی، لیکن علی الاعلان کھلے عام جا کر اپنے بھائی کو اس کے گناہ پر ٹوکتا ہے تو گویا کہ اس نے اپنے بھائی کو رسوا کیا۔ اس طرح روایات میں اس کیلئے بہت سارے فضائل بتائے گئے ہیں کہ بہترین بھائی کون ہے؟ وہ جس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تمہیں اللہ کی یاد دلائے، جو تمہیں خدا کے نزدیک کرے، تمہاری بھلائی چاہے، تمہارے لیے دلسوز ہو، تمہاری مشکل میں تمہارے کام آئے۔

اگر رشتوں کے ساتھ ہمارے اندر اخلاقی صفات بھی آجائیں تو اس بھائی کی ان رشتوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑہ جاتی ہے۔یہ قرآن مجید نے جو اپنے انبیا سے بھائیوں کے حق میں دعائیں نقل کی ہیں جیسے حضرت موسیؑ کی دعا ؛مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بخش دے۔ اپنے بھائی کی فکر میں رہتے ہیں اس کی بھلائی چاہتی ہیں، اور جس سے اس کا بھائی جدا ہوجائے یہ بہت بڑی مصیبت ہوا کرتی ہے۔

سید الشہدا حسین بن علیؑ نے عاشور کے دن کیا کیا مصائب برداشت نہیں کیے، اصحاب گئے، انصار گئے، اولاد گئی، لیکن ایک بہت بڑی مصیبت کا وقت وہ تھا جب آپ علیہ السلام نے اپنے بھائی کی شہادت کو دیکھا جب عباس علیہ السلام کی شہادت کو دیکھا تو اس وقت ارشاد فرمایا

الان انکسر ظهری؛ (۳۲۳)

اب میری کمر ٹوٹ گئی ، بھائی کا رشتہ ہی ایسا ہے، وہ وفادار بھائی جس کی وفا ضرب المثال بن جائے اس کی جدائی انسان کیلئے اتنی پریشان کن ہوا کرتی ہے۔

ہمیں اپنے ساتھ رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہیے، ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہیے ان کی بھلائی کیلئے سوچنا چاہیے اور ان کیلئے نیک خواہشات رکھنی چاہیں، ان کے کام آنا، ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھنا، اس کو حل کرنی کی کوشش کرنا، یہ قرآن کا درس ہے، انبیا کا درس ہے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

شریک حیات کیلئے دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَالَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَ ذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ‏ وَاجْعَلْنا لِلْمُتَّقينَ إِما ما) (۳۲۴)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج شریک حیات کیلئے دعا عرض کرنی ہے۔

خالق کائنات نے اپنی حکمت سے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اور جس چیز کو خداوند متعال نےجس طرح پیدا کیا ہے، وہی تخلیق کا احسن نمونہ ہے۔یعنی اس سے بہتر نظام ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ خدا سے بڑہ نہ کسی کے پاس علم ہے ،نہ حکمت ہے، نہ تدبیر ہے، نہ قوت فیصلہ ہے۔ نہ قوت ادراک اور فہم و شعور ہے۔ نہ طاقت اور قدرت ہے۔اس لیے خدا نے اپنے علم اور حکمت کی بنیاد پر جس طرح اس کائنات کو۔ اس کہکشان کو، ان مخلوقات کو بنایا ہے یہی ان کے بنانے کی احسن وجہ ہے، اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم لوگ کبھی اپنی کم علمی کی وجہ سے، نادانی کی وجہ سے، کم ظرفی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس طرح ہوتا کیا ہوتا؟ یہ ہماری کم علمی نادانی اور محدود علم اور فکر کی دلیل ہے۔ پوری کائنات کی مخلوقات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں، ہر مخلوق کو الگ طریقے سے نہیں دیکھا جا سکتا، ہر مخلوق کے دوسری مخلوقات پر جو اثرات ہیں، جو رابطہ ہے، ہم ایسا کرتے ہیں کبھی صرف ایک چیز کو دیکھتے ہیں کہ یہ یوں ہوتی تو بہتر ہوتا۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اگر یہ یوں ہوتی تو دوسروں پر کیا اثر پڑتا۔ یہ پوری کائنات ایک دوسرے سے ملی جلی ہوئی ہے۔ یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے ارتباط میں ہیں، رابطہ میں ہیں، یہی نظام احسن ہے ۔

کائنات میں غور و فکر کی دعوت

لہذا خداوند متعال دعوت فکر دے رہا ہے کہ ہم نے اس کائنات کو بطور احسن پیدا کیا ہے، اگر تمہیں کوئی شک ہے ،کوئی شبھہ ہے جائو کائنات پر نظر دوڑائو اور دیکھو کیا تمہیں کہیں بھی کوئی معمولی سا عیب نظر آ رہا ہے؟ نہیں آئے گا۔ پھر خدا فرما رہا ہے دوبارہ جا کر دیکھو رحمان کی تخلیق میں خدا کی تخلیق میں کوئی ذرہ برابر بھی عیب تمہیں نظر نہیں آئے گا۔(۳۲۵)

یہی نظام احسن ہے۔ اور اس کائنات کی سب سے بہترین مخلوق جسے خالق کائنات نے احسن تقویم کا نام دیا، وہ انسان ہے۔ خداوند متعال نے انسان کے اندر اپنی قدرت کی تجلیاں کی ہیں، اسے ایسا بنایا ہے کہ یہ احسن تقویم ہے۔ انسان کے اندر جتنے جذبات رکھے ہیں خواہشات رکھی ہیں، خالق کائنات نے بہترین نظام بنایا ہے جو انسان کے اندر خواہش رکھی ہے جو جذبہ رکھا ہے جو تڑپ اور تشنگی رکھی ہے باہر کائنات میں اس کا کائی حل بھی بنایا ہے۔

یا یوں کہہ لیں انسان کو جس فطرت پر خدا نے پیدا کیا ہے، خالق کائنات نےاپنی شریعت کو بھی اس کے مطابق قرار دیا ہے، احکام دین، دینی احکام فطرت کے مطابق ہیں۔ جتنے جذبات اور احساسات اور خواہشات فطری ہیں انسان کے پاس، اسلام نے ان کا فطری حل بتایا ہے۔ اگر تمہیں پیا س لگتی ہے تو خدا نے اس کا حل بیان کیا ہے پینے کیلئے بہترین خوشگوار چیزیں بنائی ہیں، ایک سے ایک بڑہ کر مشروب بنایا ہے، اس تشنگی کو ختم کرنے کیلئے۔ لیکن یہ انسان کی کم علمی اور نادانی ہوگی کہ وہ بہترین مشروب کو چھوڑ کر اچھے اور مقوی مشروب کو چھوڑ کر بدترین مشروبات کی طرف جائے۔ایسے مشروب کو پیئے جو بجائے اس کے کہ اس کی صحت اور سلامتی کا سبب بنے، اس کے عقل کو بھی زائل کر دے۔ اب یہ انسان کی اپنی مرضی ہے خدا نے جو اس کے اندر تشنگی رکھی تھی اس کا حل رکھا ہے۔

اگر اس انسان کے اندر ہمیشہ رہنی کی حس ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہے تو خدا نے اس خواہش کا بھی بندوبست کیا ہے کہ تم نے ہمیشہ رہنا ہے انسان، لیکن ہم نے تمہارے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا ہے جو بہترین جگہ ہو، جو دائمی زندگی تم نے بسر کرنی ہے اس کی جگہ یہاں پر نہیں ہے آخرت میں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے، جو احساسات، جذبات عواطف انسان کو دئے ہیں ان کا حل بھی بیان کیا ہے۔

شادی کی فضیلت

خداوند متعال نے انسان کو جو احساسات اور جذبات دیے ہیں ان میں سے ایک احساس جنسی خواہش کا احساس ہے۔ خداوند متعال نے انسان کو جنسی قوت عطا فرمائی ہے اور یہ بھی خدا کی حکمت ہے کہ اس طرح نوع انسان کو باقی رہنا ہے، نسل انسان کو باقی رہنا ہے۔ بقائے انسان کا اہم سبب اور فلسفہ یہی بن سکتا ہے کہ خالق کائنات نے اس کے اندر جنسی قوت رکھ دی ہے کہ اس کی بنیاد پر کشش محسوس کرے وہ جنس مخالف میں اور پھر اس کیلئے خالق کائنات نے جب یہ رکھا تو اس کیلئے دینی احکام بیان کر دیے، پھر شادی کی فضیلت بھی بیان کر دی، یہ جذبہ ہے یہ احساس ہے تو اس کو حل کرنے کیلئے بہترین حل اسلام نے دیا ہے۔ مسیحیت نے شادی کرنے کو ولایت جیسے اہم رتبہ میں مانع قرار دیا کہا جو خدا کے قریب ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ شادی نہ کرے۔ اسلام رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا

ولا رهبانیة فی الاسلام؛ (۳۲۶)

اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اس دنیا کو بھی آباد کرو تو اس دنیا کو بھی آباد کرو۔اسلام کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اور بہترین دین ہونے کی دلیل یہی ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ یہ دنیا بھی آباد رہے وہ دنیا بھی آباد رہے، اس دنیا میں بھی انسان اپنی ضروریات حاصل کرے سعادت کا سفر طے کرے کامیابیوں تک پہنچے ، اس دنیا میں بھی۔ بہترین دعا جو اسلام نے تعلیم دی گئی ہے وہ یہی ہے ربنا آتنا حسنہ؛اس دنیا کی بھی کامیابی اس دنیا میں بھی نیکی اور سعادت اس دنیا میں بھی کامیابی۔ اس دنیا میں بھی انسان کی ضروریات کو بطور احسن پورا ہونا چاہیے خدا نے جو بھی جذبہ رکھا تو اس کے حل کیلئے حکم بھی دیا جائو شادی کرو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شادی کرنے کو اپنی سنت قرار دیا اور فرمایا کہ

فمن رغب عن سنتی فلیس منی؛ (۳۲۷)

جو میری سنت پر عمل نہیں کرتا روگردانی کرتا ہے میری سنت سے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ نکاح کرنے کو سنت بنایا تمہارے اندر جب یہ خواہش پائی جاتی ہےاس کا بہترین حل یہی ہے کہ شادی کرو اپنے لئے بہترین ہمسر کا انتخاب کرو، خدا نے اس کا حل یہی بنایا ہے کہ عورت کو بھی وجود دیا، مرد کے ساتھ اس کی شریک حیات کو بنایا اور ارشاد فرمایا :

هوالذی خلقکم من نفس واحدة،

خدا نے تم سب کو ایک نفس سے بنایا ہے تم سب ایک باپ کی اولاد ہو، ایک سے بنے ہو ۔پھر فرمایا کہ

وجعل منها زوجها لیسکن الیها؛

پھر خدا نے ہر ایک کیلئے شریک حیات کو بنایا، اس کیلئے اس کی ہمسر کو بنایا، تا کہ اس سے وہ سکون حاصل کرے۔ جب یہ احساس انسان کے اندر خدا نے رکھا تو اس کا حل بھی رکھا ہے۔تاکید بھی کی ہے۔اور بسا اوقات کہا ہے کہ شادی واجب ہے۔

اللہ اکبر اسلام کتنی بڑی نعمت ہے، تم چاہتے ہو کہ تمہاری خواہش پوری کرے اس کیلئے خدا فرما رہا ہے اب شادی کرنا تمہارے لئے واجب ہے۔ جائو اپنی خواہش کو جائز طریقے سے پورا کرو، کتنا فطری دین ہے، کتنا اچھا دین ہے، کتنا جامع اور کامل دین ہے۔ خدا نے ہر ایک کیلئے اس کے شریک حیات کو بنایا ہے۔تمام چیزوں کو خدا نے جوڑے جوڑے کی صورت میں بنایا ہے۔جفت جفت کر کے بنایا ہے، دو دو چیزیں، نر اور مادہ خدا نے بنایا ہے تا کہ یہ تناسل کا سلسلہ باقی رہے۔ نوع انسان باقی رہے اسی طریقہ سے باقی رہے گی، اور اس کو عبادت قرار دیا، تم اپنے فطری جذبہ کی تسکین کرنا چاہتے ہو اس کو عبادت قرار دیا، اور شادی کرنے کو کہا کہ جو شادی کرتا ہے

من تزوج فقد احرز نصف دینه؛ ثلثا دینه (۳۲۸)

مختلف روایات کے مطابق، جو شادی کر لیتا ہے اپنی آدہے دین کو محفوظ کرلیتا ہے، جو شادی کر لیتا ہے اپنے دین کے تین میں سے دو حصوں کو محفوظ کرلیتا ہے، شادی شدہ کی نماز کو افضل بنایا۔ اس کی نینند کو افضل بنا دیا۔یہ کیا ہے؟ یہ دین فطرت ہے۔ جو فطری جذبہ ہے اس کے فطری حل کو تلاش کرو عین عبادت ہے عین بندگی ہے۔

جو لوگ کم فکر ہوتے ہیں، شیطان کے دہوکے میں آجاتے ہیں۔ شیطان کہتا ہے کہ: عبادت یہی ہے کہ صرف ذکر خدا کرو، اللہ کی بندگی کرو، ایک کونے میں بیٹھ جائو، اللہ اللہ کرو تسبیح پڑہو، تمہارا دنیا سے کیا جائے، تمہارا گھر سے کیا جائے، بیوی بچوں سے کیا جائے تم تو اللہ والے ہو اللہ اللہ کرو۔ یہ شیطان کا دھوکہ ہے، فریب ہے۔ انبیاء نے ہمیشہ اس کی مذمت کی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک مرتبہ چند عورتیں شکایت لے کر آئیں۔ یا رسول اللہ! ایک کہہ رہی کہ میرا شوہر ایسا ہے کہ کبھی گھر ہی نہیں آتا۔ دوسری کہتی میرا شوہر گوشت نہیں گھاتا، تیسری کہتی ہے میرا شوہر خوشبو نہیں لگاتا۔ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں، میں نے شادی کی ہے۔(۳۲۹)

میں بیویوں کے پاس جاتا ہوں، ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہوں، گھر کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہوں، تم مجھ سے بڑہ کر متقی نہیں ہو۔ شیطان کے دھوکہ میں نہ آنا، وہ عبادت، بندگی، عرفان کے نام پر تمہیں دھوکہ نہ دے کہ تم شریعت کو چھوڑ دو۔ رسول اللہ سے بڑہ کر کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان سے بڑہ کوئی کمالات کو حاصل نہیں کرسکتا، کمالات کے حاصل کرنے کا وہی ذریعہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا ہے۔شادی کے ذریعہ سے اپنی خواہشات کو پورا کرو۔ شیطان کو دھوکہ دینے کی گنجائش ہی نہ دو۔

یہ خدا کی تخلیق ہے، فرمایا :

( هُوَ الَّذي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ وَ جَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها ) (۳۳۰)

ایک نفس سے پیدا کیا و جعل منھا زوجھا اور خدا نے اس کیلئے شریک حیات کو بنایا ہے

لیسکن الی ہا تا کہ اس سے سکون حاصل کرے۔ اور خدا نے سب سے بڑا کرم یہ کیا کہ جب دو شخص مرد اور عورت رشتہ ازدواج سے منسلک ہو جاتے ہیں ان کے درمیان ازدواج کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، شادی کر کے وہ شریک حیات بن جاتے ہیں تو خدا ان کے دلوں میں رحمت بھی ڈال دیتا ہے محبت بھی ڈال دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا( وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَة ) (۳۳۱)

یہ خدا ہی ہے جس نے تمہارے دل میں میاں بیوی کے دل میں مودت اور رحمت کو وجود دیا۔ اگر اسلام کے فلسفہ ازدواج کو سمجھا جائے اس پر عمل کیا جائے تمام برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ تمام انحرافات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔

شادی ناکام ہونے کی وجوہات

آج کل شادی کے ناکام ہونے کا سبب کیا ہے؟ آج کل ہمارے معاشرے شرح طلاق کیوں بڑہ رہی ہے؟ جلدی جلدی طلاقیں کیوں ہو رہی ہیں؟ لوگ شادیوں سے دور کیوں ہو رہے ہیں؟ اس لیے کہ ہم نے شادیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ خدا نے آسان بنایا تھا، اسلام نے بہت آسان بنایا ہے لیکن ہم نے مشکل بنادیا، ہم نے معیار تبدیل کر دیے۔ ان چیزوں کو معیار بنایا جس کی وجہ سے شادیاں جلدی ناکام ہو جائیں، ہمارے یہاں شادیاں ظاہری حسن کی بنیاد پر ہوتی ہیں یہ حسن آنے جانے والی چیز ہے، دنیا کے حالات مختلف رہتے ہیں زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، چار دن حسن باقی رہتا ہے پھر خدانخواستہ کوئی بھی مسئلہ ہوگیا ایکسیڈنٹ ہو گیا کوئی بیماری آگئی یہ حسن باقی نہیں رہے گا۔ اگر وہ دینی محبت نہ ہو وہ قلبی تعلق نہ ہو وہ مودت اور رحمت نہ ہو تو یہ رشتہ باقی نہیں رہ سکتا۔ ہماری شادیاں مال و ملکیت کی بنیاد پر ہوتی ہیں، شہرت کی بنیاد پر ہوتی ہیں، خاندانی اور شرافت کی بے جا بنیادوں پر ہوتی ہیں تو باقی نہیں رہیں گی، شادی وہی کامیاب رہے گی جس کا پتا اسلام نے دیا ہے، جس کی بنیاد اسلامی اصولوں کے مطابق ہو، اس شادی میں برکت ہے۔

اور یہ غرب کی ایجاد ہے جس طرح وہ سوچتے ہیں ہم بھی ویسے سوچنے لگیں، فرق ہے اسلام نے جنسیت کو محدود کر دیا ہے کہ ہاں تمہارے اندر جذبہ ہے لیکن اس جذبہ کی تکمیل حلال طریقہ سے ہونی چاہیے۔ ہر عورت سے تم یہ رشتہ برقرار نہیں کر سکتے جب تک نکاح نہیں ہو جاتا، در حقیقت اسلام نے اس کے صحیح رخ کو معین کیا ہے، لہذا جو مرد زندگی میں پہلی مرتبہ جس عورت سے آشنا ہوتا ہے وہ اس کی بیوی ہوتی ہے اور اس سے اس کی دائمی محبت ہو جاتی ہے کیونکہ وہی عورت ہے جو اس کو جنسی تسکین تک پہنچاتی ہے۔ لیکن غرب میں جنسی آزادی ہے لہذا اگر یہ کہا جائے کہ شادی کر لو تو شادی قید محسوس ہوتی ہے اور آج کل مغربی اصطلاح میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے اپنے لیے ایک جیلر پال لیا ہے۔ شادی میں میاں اپنی بیوی کو جیلر سمجھتا ہے، بیوی اپنے شوہر کو جیلر سمجھتی ہے۔اسلام شادی کو آزادی جنسی سمجھتا ہے اس کی بنیاد پر اگر اسلامی نقطہ نگاہ سے شادی کی جائے اور قوانین اور اصولوں کا خیال کیا جائے یہ شادی کبھی ناکام نہیں ہوگی۔ فرمایا جہاں شادی کرنا چاہتے ہو، پہلے ایمان کو دیکھو قرآن فرما رہا ہے

( وَ لَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُم ) (۳۳۲)

ایک مسلمان کنیز مشرکہ عورت سے بہتر ہے۔ اسلام اور ایمان تو ہے اس کے پاس، ایمان کو دیکھو، اخلاق کو دیکھو، شادی کا معیار ایمان ہونا چاہیے، دین ہونا چاہیے۔ جو دین کی بنیاد پر شادی کرتا ہے وہ شادی ناکام نہیں ہوتی۔ دین دائمی چیز ہے حقیقی چیز ہے۔

بہترین شادی

فرمایا مراسم ازدواج، شادی کی رسومات سادگی سے انجام پائیں، بہترین عورت وہ ہے بہترین بیوی وہ ہے جس کا مہر کم سے کم ہو۔اقلهن مهرا؛ (۳۳۳)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں حق مہر کم سے کم ہو، ہمارے ہاں فخر کیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ رکھا جائے۔ چاہے اس کے بعد دولہا حق مہر ادا ہی نہ کر سکے ہمیشہ دبا رہے، شادی اس طرح ناکام ہوتی ہے۔لیکن اسلام نے جو شادی کا معیار بتایا ہے، اگر ان اصولوں پر شادی کی جائے تو کبھی شادی ناکام نہ ہوگی۔ اور شریک حیات کیلئے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ خدایا ہم میں سے ہر ایک کو ایسی شریک حیات دے جو اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شوق دلاتے تھے جائو شادی کرو۔تم نہیں چاہتے تمہارے پاس بھی بیوی ہو جس کو دیکھ کر تمہارا دل بہل جائے وہ تمہں خوش کر دے مل کر خدا کی بندگی کرو عبادت کرو۔اسے آسان سے آسان بنایا۔

یا رسول اللہ شادی کرنا چاہتا ہوں کچھ بھی نہیں ہے، فرمایا قرآن پڑہنا جانتے ہو؟ جی ہاں یا رسول اللہ! فرمایا یہی قرآن کی تعلیم کو حق مہر قرار دو(۳۳۴)

کتنا آسان بنایا؟! ایمان کی بنیاد پر اسلام کی بنیاد پر قرآن کی تعلیم حق مہر والسلام، شادی ہو گئی نکاح ہوگیا۔ اس لیے جو خدا کے بندے ہیں مومن اورحقیقی انسان ہیں ان کی دعا یہی ہوتی ہے: والذین۔۔۔اعین بار الہا ہماری بیویوں کی شریک حیات کو اور ہماری اولاد کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے، دل کا سکون بنادے، روح کا چین بنادے، جس کو دیکھ ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں دل خوش ہوجائے، اور ایسی شادی کامیاب رہتی ہے۔

البتہ تاریخ میں بہت ساری مثالیں ہیں لازمی نہیں ہیں یہ دعا ہم کریں اور ویسا ہی ہو، دنیا آزمائش کی جگہ بھی ہے کبھی کبھی خداوند متعال مثال بیان کرتا ہے :

( وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذينَ آمَنُوا امْرَأَتَ‏ فِرْعَوْن‏ ) (۲۳۵)

خداوند متعال اہل ایمان کیلئے مثال دیتا ہے فرعون کی بیوی جو فرعون کے پاس تھی، بیوی تھی، اس نے اپنے ایمان کی حفاظت کی، اپنے ایمان کو نہیں چھوڑا کامیاب رہیں، اور یہاں حضرت نوح علیہ السلام اور جناب لوط علیہ السلام کی بیویاں تھیں، نبی کی بیویاں تھیں لیکن ناکام رہیں۔ نبوت سے انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا فیض نہیں لیا، ایسی شریک حیات جو انسان کے ساتھ اس کے دین میں اس کی مددگار بنے۔

جب جناب علیؑ اور جناب زہرا کی شادی ہوگئی اور شادی کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب علیؑ سے پوچھا کہ کیف وجدت فاطمہ؛ فاطمہ تمہیں کیسی لگیں؟ تو فرمایا:

نعم العون علی عباده الرب؛ (۳۳۶)

یا رسول اللہ! رب کی عبادت کیلئے بہترین مددگار ہے فاطمہ۔ یعنی ایسی شریک حیات ہونی چاہیے جو وجہ تخلیق میں انسان کی مددگار ہو، مقصد تخلیق کیلئے اس کی مددگار بنے۔ انسان کو جس مقصد کیلئے پیدا کیا ہے خدا نے یہ اس کی مددگار بنے۔

میاں بیوی ایک دوسرےکےلئے لباس

قرآن مجید نے جو بہترین تعبیر کی ہے مرد اور عورت کیلئے وہ یہی ہے کہ:

( هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَ أَنْتُمْ لِباسٌ لَهُن ) (۳۳۷)

شوہر تم اپنی بیوی کیلئے لباس ہو اور بیوی مرد کیلئے لباس ہے۔میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے لباس ہیں۔ جس طرح لباس زینت کیلئے ہوتا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کی زینت ہیں۔ جس طرح لباس انسان کو سردی اور گرمی سے بچاتا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کو سردی اور گرمی سے بچاتے ہیں۔ انسان کتنا تھکا ہارا کیوں نہ ہو تو اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا ہے، اسی طرح بیوی شوہر کی پناہ میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہے۔

یہ لباس ہیں ایک دوسرے کیلئے اور لباس کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ لباس انسان کے وجود کو چھپا دیتا ہے، جسم پر جتنےظاہری عیب ہوں انسان نے لباس پہن لیا سب چھپ گئے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کیلئے ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسری کی چھوٹی غلطیوں کو چھپا دیں، ایک دوسرے کیلئے پردہ اور زینت بنیں، ایک دوسرے کیلئے حقیقی ساتھی بنیں، شریک حیات بنیں، جو رشتہ میاں بیوی کے درمیان ہے ویسا رشتہ کہیں بھی نہیں ہے۔بلکل ایک ہوجانا، اولاد اور ماں باپ کے درمیان اچھا رشتہ ہے، بہترین رشتہ ہے، لیکن اس مین ایک حد تک اخلاقیات کا ادب کا فاصلہ کا رہتا ہے۔ لیکن میاں بیوی میں کوئی دوری نہیں ہوتی، بلکل ایک بن جاتے ہیں۔ ان کو ایسا ہی بننا چاہیے، خدا ان کو ایسا دیکھنا چاہتے ہے:

و جعل بینکم مودة و رحمة؛

خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ ان کے درمیان مودت اور رحمت ہو، محبت اور آداب اور احترام ہو ایک دوسرے کو حقوق خیال کریں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ بیوی کے بہت بڑے حق ہیں، اور دوسری طرف بیوی کی گردن پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے، لیکن بیوی کا خیال رکھنا بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔

بیوی سے بدسلوکی پر عذاب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک عظیم الشان صحابی ہیں جب ان کا انتقال ہو جاتا ہے تو رسول کائناتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ننگے پائوں برہنہ پائوں اس کی تشیع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہزاروں ملائکہ بھی اس تشییع میں شامل ہیں۔ جب مرحوم کی والدہ دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ بیٹا تم کتنے خوش قسمت ہو کہ رسول اللہ تمہارے لیے تمہارے جنازہ میں شریک ہوئے ہیں، فرشتے آتے ہیں۔ وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو، اگرچہ اس کی یہ فضیلت ہے لیکن کیونکہ وہ اپنی بیوی سے بد سلوکی کرتا تھا لہذا ابھی اس بدسلوکی کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہے۔(۳۳۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں مردوں کو جو نصیحت کی وہ یہی کہ میں تمیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھنا، بیوی اللہ کی امانت ہے تمہارے پاس، اللہ کی امانت ہے اس کے حقوق کو ضایع مت کرنا، وہ ضعیف اور کمزور ہیں ان کی حفاظت کرتے رہنا، تمہیں خدا نے ان کا سہارا بنایا ہے ۔ جہاں ہم یہ دعا کرتے ہیں ہماری بیویاں اچھی ہونی چاہییں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی بیویوں کیلئے اچھے شوہر ثابت ہوں ایسی بیوی جو شوہر کیلئے سکون قلب کا سبب بنے۔ خالق کائنات نے رشتہ ازدواج کو سکون کا سبب بنایا ہے۔جسمانی سکون بھی ہو اور معنوی نعمتیں بھی ہوں اسی شادی کے ذریعہ سے خالق کائنات جب اولاد عطا کرتا ہے وہ اس شادی کا معنوی ثمر ہوتا ہے، انسان کی نیک نامی کا سبب بنتا ہے اور نسل خیر کا سبب بنتا ہے اس طرح انسان کیلئے دنیا اور آخرت کا ذخیرہ بن جاتا ہے، بیویوں کیلئے دعا کرنا کہ خالق کائنات ہماری بیویوں کو ہمارے لیے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔

دعا ہے کہ خالق کائنات ہم سب کو ایسی شریک حیات عطا کرے جن سے آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور ہماری دنیا اور آخرت آباد ہو جائے، اور دنیا اور آخرت ہم مل کر کامیابیاں حاصل کریں۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

حصول اولاد کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( هُنالِكَ دَعا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قالَ رَبِّ هَبْ لي‏ مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَميعُ الدُّعاء ) (۳۳۹)

مومنین کرام قرآنی! دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کو پیش کرنا ہے وہ حصول اولاد کی دعا ہے۔

اسلام کی نظر میں خاندان بہت اہمیت کا حامل ہے، اسلام نے خاندان کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، ظاہر ہے کہ خاندان کو تشکیل دینے کیلئے پہلا قدم شادی کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام نے شادی کرنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔

النکاح من سنتی؛ (۳۴۰)

نکاح کرنا میری سنت ہے، شادی کرنا میری سنت ہے اور جو بھی میری سنت سے روگردانی کرے گا، میری سنت پر عمل نہیں کرے گا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے، وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے ، وہ مسلمان نہیں ہے حقیقی معنی میں۔ یہ شادی کی جتنی فضیلت ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ خاندان کی تشکیل ہو رہی ہے خاندان کو وجود دیا جا رہا ہے، خاندان جنم لے رہا ہے۔ اس شادی کے نتیجہ میں انسانیت کی نسل بڑہتی رہے گی۔

انسان ہونے کے ناطے ہمارا یہ وظیفہ بنتا ہے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح دوسروں نے ہمیں وجود دیا ہے اس طرح انسانیت کا یہ سلسلہ بڑہتے رہنا چاہیے۔ انسانیت کا وجود ایک امانت ہے ہمارے پاس ،ہم نے اس امانت کو ادا کرنا ہے، اس سلسلہ کو آگے بڑانا ہے، یہ سلسلہ باقی رہنا چاہیے۔ اس لیے اولاد کی دعا کرنا انبیاء کی سنت ہے۔ اولاد کے حصول کیلئے دعا کرو تا کہ خدا تمہیں صاحب اولاد بنادے، تم صاحب اولاد بن جائو، اولاد دینا خدا کا کام ہے لیکن ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ خالق کائنات ہمیں اولاد عطا فرمائے، اب جو مختلف بہانے بنائے جا رہے ہیں مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، مختلف مشکلات کا بہانہ بنایا جا رہا ہے انتہائی غیر معقول عمل ہے۔ آج جو مختلف ممالک میں ہمیں افرادی اور انسانی توانائی کی قلت دیکھنے میں آ رہی ہے یہ غیر اسلامی نظریہ کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے اولاد کے وجود کو نعمت قرار دیا ہے اور اس نعمت کے حصول کیلئے دعا کرنے کا حکم دیا ہے کہ دعا کرو کہ تم صاحب اولاد بنو۔

اولاد کے فوائد

اولاد کے بہت سارے فوائد ہیں خود انسان کی اپنی نفسیات میں اعتدال پیدا ہوتا ہے، ایک بہت بڑا فرق ہے نفسیاتی طور پر جو میاں بیوی اولاد پیدا کرتے ہیں صاحب اولاد بنتے ہیں اور دوسرے مسائل کا اس میں عمل دخل نہیں ہوتا ان کی زندگی میں، ان کی نفسیاتی سلامتی دوسروں سے بہت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔اس سے انسانی احساسات اور جذبات میں تعدیل ہوتی ہے، انسان معتدل المزاج بن جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے، بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایک صحیح اور مکمل اور کامل انسان بن جاتا ہے اس طرح۔ لہذا آج اس طرح کے جو مختلف بہانے اٹھائے جا رہے ہیں کہ اولاد ہوگی ان کے پھر مسائل ہونگے، ان کے کھانے پینے مسئلے، ان کیلئے تعلیم کا مسئلہ، روٹی مکان کا مسئلہ، ان کیلئے شادی کے مسائل، کیا کریں گے کہاں سے ہونگے اور اس طرح عجیب غریب بہانے بنا کر کوشش کی جا رہی ہے کہ اولاد پیدا ہی نہ کی جائے۔ یہ سراسر غیر اسلامی نظریہ ہے۔

اسلامی نظریہ تو یہی ہے جس طرح خدا تمہیں دے رہا ہے، تمہیں رزق دے رہا ہے، اسی طرح تمہاری اولاد کو بھی رزق دے گا۔ ان کافروں کی مذمت کی گئی اسلام میں جو بیٹیوں کو پیدا ہوتی ہی زندہ دفن کردیتے تھے، ڈرتے تھے ان کو کہاں سے کھلا پلا سکیں گے۔ خالق کائنات نے فرمایا کہ ڈرو نہیں اپنی اولاد کو غربت کے خوف کی وجہ سے قتل نہ کرو

( وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ‏ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيرا ) (۳۴۱)

ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔ رزق دینا خدا کی ذمہ داری ہے ، رزق کے مسئلے کی وجہ سے روٹی مکان اور کپڑے کے مسئلے کی وجہ سے ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم اولاد ہی پیدا نہ کریں۔

سنت انبیا یہ ہے کہ وہ اولاد کے وصول کیلئے دعا کرتے رہے ہیں۔ حضرت زکریاؑ کی دعا قرآن مجید نے کتنی آیات میں نقل کی ہے،ایک مرتبہ حضرت زکریا محل عبادت میں وارد ہوئے دیکھا جناب مریم کے پاس مختلف انواع و اقسام کے میوہ جات ہیں۔ سوال کیا: انی لک ہذا؛ مر یم یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے؟تو جناب مریم نے کہا یہ خدا کی طرف سے ہیں۔ جب جناب مریم پر خدا کا لطف و کرم دیکھا، فضل اور احسان کو دیکھا تو وہاں حضرت زکریا نے دعا کی ہنالک دعا ۔۔ل ی وہاں حضرت زکریا نے دعا کی اور کہا کہ بار الہا مجھے بھی پاک و صالح نسل عطا فرما، اولاد عطا فرما، انک سمیع الدعا تو دعا کو سننے والا ہے یعنی جب دیکھا کہ اولاد پر کس طرح خداوند متعال کا انعام و اکرام ہوتا ہے، کس طرح اس کو خداوند متعال اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے تو اپنے لیے بھی دعا کی۔

دلچسپ بات یہ ہے جناب مریم کی والدہ نے کب دعا کی تھی اولاد کیلئے ، ایک مرتبہ اس نے دیکھا کہ پرندے کس طرح اپنے بچوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، اپنی چھوٹی چھوٹی چونچ سے کس طرح دانہ تلاش کر کے آتے ہیں اور پھر وہ دانہ اپنی بچوں کی چونچ پر رکھ دیتے ہیں، کس طرح وہ اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں، پیار کرتے ہیں، شفقت کرتے ہیں۔ یہ منظر انہیں بہت اچھا لگا، اس نے اپنے لیے دعا کی کہ بار الہا! مجھے بھی اولاد عطا کر۔ اور پھر نذر کی کہ بار الہا ہمیں جو اولاد ملے گی ہم اسے تیرے گھر کی خدمت کیلئے وقف کردینگے ، دوسروں کے پاس نعمت کو دیکھ کر غبطہ کھا کر نعمت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے، کبھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دوسروں کے پاس نعمت دیکھ کر حسد کی وجہ سے یہ دعا کریں کہ ان کی نعمت ختم ہو جائے۔ نہیں، انبیا کی سنت یہ ہے کہ کسی کے پاس نعمت دیکھتے ہیں تو اپنے لیے بھی نعمت کے حصول کی دعا کرتے ہیں ۔

بار الہا! جس طرح تو نے اسے اپنے انعام و اکرام سے نوازا ہے اسی طرح ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرما۔ اس لیے مختلف انبیا کی دعائوں کو دیکھیں، ایک ہی دعا ہے جو بہت سارے انبیا نے مانگی ہے کہ خدایا جس طرح تو نے انہیں دیا ہے ہمیں بھی دے دے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا

جناب زکریاؑ اولاد کیلئے دعا کر رہے ہیں اولاد کے حصول کی دعا کرنا انبیا کی سنت ہے۔ صالحین کی سنت ہے۔انسانیت کا وجود ہمارے پاس امانت ہے، اس کو ہم نے دوسری نسلوں میں منتقل کرنا ہے، اس انسان سے دوسرے انسان وجود میں آنے ہیں۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاص طور پر تاکید کی ہے :

تناکحوا و تناسلوا فتکثروا انی اباهی بکم الامم یوم القیامه؛ (۳۴۲)

نکاح کرو اولاد پیدا کرو یہ میری سنت ہے میں تمہاری تعداد کی وجہ سے فخر کروں گا قیامت میں کہ میری امت زیادہ ہے۔

البتہ ایک اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے جو دعائیں نقل کی ہیں اولاد کیلئے مثلا یہ جناب زکریا کی دعا تھی سورہ آل عمران کی آیہ ۳۸ ذریہ طیبہ مجھے پاکیزہ نسل عطا فرما، دوسری جگہ پر جناب زکریا کی دعا نقل کی گئی ہے اس میں حضرت زکریا نے یہ دعا مانگی ہے

( وَ إِنِّي خِفْتُ الْمَوالِيَ مِنْ وَرائي‏ وَ كانَتِ امْرَأَتي‏ عاقِراً فَهَبْ لي‏ مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ) (۳۴۳)

بار الہا مجھے وارث عطا فرما، مجھے میرا جانشین عطا فرما، اپنی طرف سے مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے، خدایا اسے ایسا بنا کہ وہ تجھ سے راضی ہو اور تو اس سے راضی ہو۔یعنی ایسی اولاد مانگی جا رہی ہے جو محبوب خدا ہو، جن کو خدا پسند کرے اور وہ بھی خدا کو پسند کرنے والی ہو، محب خدا بھی ہوں اور محبوب خدا بھی ہوں ، ذریت طیبہ کی دعا کی جا رہی ہے کہ ایسی نسل ہونی چاہیے، ایسی اولاد ہونی چاہیے جو پاک و پاکیزہ ہو جو صالح ہو اور وہاں حضرت ابراہیم کی دعا نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ رب ھب لی من الصالحین مجھے صالح اور نیک اولاد عطا فرما۔

نیک اولاد کی دعا

ہمیں اولاد کی دعا کرنی چاہیے لیکن نیک اولاد کی صالح اولاد کی، رسول اللہ کی حدیث ہے کہ اللہ جب کسی بندے کو بہترین تحفہ دینا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے صالح اولاد عطا کرتا ہے جو اس کے مرنے کے بعد اس کیلئے دعا کرتی ہے، ایسی اولاد جو والدین کیلئے دعا کریں ان کیلئے ذخیرہ بنیں، ان کیلئے نیکی کا سبب بنیں ،ان کی نیک نامی کا سبب بنیں، ان کے نام کو زندہ رکھیں، ان کی یاد کو باقی رکھیں، انسان چلا جائے لیکن اولاد کی دعائوں میں ان کی یاد میں باقی رہے، یہ خدا کو پسند ہے ۔اور ایسا ہونا چاہیے تو ان دعائوں یہ مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ نیک اولاد، پاکیزہ نسل صالح اولاد، ایسی اولاد جو انسان کی نیک نامی کا سبب بنے، ایسی اولاد جو انسان کی یاد کو باقی رکھے، ان کیلئے نیک عمل کرتی رہے، ان کی نیکیوںمیں اضافہ کا سبب بنیں، ان کا نیک نامی کا سبب بنیں۔

ایسی اولاد سے خدا کی پناہ مانگی چاہیے جو انسان کی بدنامی کا سبب بنیں، نا صالح اولاد بن جائے، جس کی وجہ سے والدین پر انگلیاں اٹھائی جائیں یہ فلان کی اولاد ہے فلان کے بیٹے ہیں یہ فلان کی بیٹی ہے ایسی اولاد سے خدا کی پناہ۔قرآن یہ کہتا ہے کہ دعا تو مانگو اولاد کیلئے حصول اولاد کیلئے دعا مانگو لیکن صالح اولاد، لائق اولاد شایستہ اولاد جو تمہاری نیک نامی کا سبب بنیں جو تمہارے وجود کی بقا کا سبب بنیں، تم چلے جائو لیکن تمہاری یاد باقی رہے، تمہارا تذکرہ باقی رہے، تمہاری نیک نامی ہوتی رہی ایسی اولاد، انبیا نے ایسی اولاد کی دعا کی ہے۔

بیٹی بیٹے میں فرق نہیں کرنا چاہیے

ان دعائوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں فرق نہیں کیا گیا، اولاد کی دعا مانگی گئی ہے۔ اب اولاد چاہے بیٹے کے صورت میں ہو چاہے بیٹی کی صورت میں ہو، خالق کائنات انسان کو جو عطا فرمائے انسان اسے قبول کرے، بیٹے عطا کرے تو بیٹے پر خوش ہو جائے اور اگر خدا کسی کو بیٹی عطا کرتا ہو تو بیٹی پر اسے خوش ہونا چاہیے۔ بلکہ اسلام کی نظر میں بیٹی خداوند متعال رحمت شمار ہوتی ہے، بیٹا خدا کی نعمت شمار ہوتا ہے۔ امام صادقؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ

البنون نعمة والبنات رحمة ؛ (۳۴۴)

بیٹے اللہ کی نعمت ہوتے ہیں اور بیٹیان اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ بیٹیاں نیکی شمار ہوتی ہیں، بیٹے نعمت شمار ہوتے ہیں۔ جب اللہ نعمت دیتا ہے اس کے بارے میں سوال کرے گا اور نیکی ہو تو اس پر ثواب عطا فرماتا ہے ، روایت میں ہے کہ خوش قسمت ہے وہ ماں جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو، بیٹی کا سن کر ناراض ہونا غضب ناک ہونا افسوس کرنا کافروں کا شیوا ہے۔ جاہل عرب لوگوں کہا جاتا تھا تمہارے ہاں بیٹی ہوئی ہے، تو ان کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سیاہ ہو جاتا تھا۔کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ تم نے بھی تو کسی کی بیٹی سے شادی کی۔ ہے تمہاری بیٹی سے اگر کسی نے شادی کی تو اس میں کونسا غیر انسانی کام ہو گیا ہے۔ اس غلط فکر کی وجہ سے وہ کہتے تھے ہمارے ہاں بیٹیاں نہیں ہونی چاہیں وہ تو کسی اور گھر کی ہو جاتیں ہیں۔ کوئی اور ان کو بیاہ کر لے جاتا ہے۔ یہ وہی جاہلانہ فکر ہے، بیٹی نہ ہو، بیٹے ہوں۔

کتنے ایسے بیٹے ہیں جن سے بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں خود یہ واقعہ جس میں حضرت زکریا دعا مانگ رہے ہیں ایک بیٹی سے متاثر ہو کر دعا مانگ رہے ہیں ایک بیٹی پر خدا کے انعام و اکرام کو دیکھ کر دعا مانگ رہے ہیں کہ بار الہا اس کی طرح میری بھی اولاد ہونی چاہیے۔ اس نے جناب مریم کو دیکھا تھا اس پر خدا کے ہونے والے فضل و کرم دیکھا تھا تو دعا مانگی۔ ایک بیٹی ایک نبی کو متاثر کر سکتی ہے، سو غیر صالح نا خلف بیٹوں سے ایک بیٹی اچھی ہے جو والد کی قدردان بنے، والدین کی قدردان بنے، ان کی نیک نامی کا سبب بنے۔ وہ بھی انسان ہے یہ بھی انسان ہے کیا فرق ہے؟

لیکن افسوس ہوتا ہے جب بعض خاندان میں یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹی ہو گئی تو ہمارا ناک کٹ جائے گا، بے عزتی ہو جاے گی، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ اور وہاں بھی افسوس ہوتا ہے جب بعض خاندان والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیٹیاں ہونی چاہیں بیٹے نہیں۔ یہ اولاد اللہ کی نعمت ہے جو وہ بہتر سمجھتا ہے وہ عطا فرماتا ہے، چاہے بیٹا ہو چاہی بیٹی ہو، دونوں انسان ہیں، دونوں مومن ہیں، دونوں مسلمان ہیں، جو اچھا بنے گا اسے والد کو فائدہ پہنچے گا بیٹا اگر اچھا بنا تو فائدے کا سبب ہے۔ بیٹی اچھی ہوتو والدین کی نیک نامی کا سبب ہے۔ ہم خدا سے مانگ مانگ کر بیٹا مانگیں اور وہ ناخلف نکلے تو؟ہم بیٹی نہ مانگیں اور وہ بیٹی اچھی نکلی تو؟ کتنی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کو ہم اچھا سمجھتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہوتا، کتنے ایسے کام جن کو ہم اچھا نہیں سمجھتے لیکن وہ ہمارے لئے اچھے ہوتے ہیں

( وَ عَسى‏ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُم‏ ) (۳۴۵)

قرآن کی تعبیر ہے ہو سکتا ہے تمہیں اچھی نہ لگے لیکن حقیقت میں تمہارے لیے اچھی ہو۔ ہمیں نہیں معلوم ہماری اولاد میں سےبیٹی اچھی ہوگی یا بیٹا اچھا ہوگا۔

ایک درس آموز واقعہ

امام صادق علیہ السلام کا واقعہ ہے جب ایک صحابی کے ہاں پہنچے، پتا چلا انہیں بیٹی ہوئی ہے ،دیکھا اس کا منہ اترا ہوا ہے کیا ہوا؟ کہا خدا نے بیٹی دی ہے۔ فرمایا اس میں پریشان اور پشیمان اور افسوس کرنے کی کونسی بات ہے ؟ اچھا مجھے یہ بتائو اگر خدا تم سے یہ فرماتا کہ میں تمہیں اولاد دینا چاہتا ہوں لیکن تم بتائو کہ بیٹی دوں یا بیٹا؟ تمہاری مرضی سے دوں جو تم کہو وہ دوں ؟ یا اپنی مرضی سے دوں؟تمہارا جواب کیا ہوتا؟کہا مولا میں یہی کہتا کہ خدایا اپنی مرضی سے دے دے تو بہتر جانتا ہے میرا لئے کون سی اولاد اچھی ہے ۔ فرمایا خدا نے اپنی مرضی سے تو تمہیں دیا ہے، خدا نے تمہارے لیے بیٹی کا انتخاب کیا ہے۔ اب تم اس پر افسوس کر کے یہ بتا رہے ہو خدا کی مرضی پر راضی نہیں ہو، خدا کے انتخاب پر راضی نہیں ہو، لیکن انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس چیز کا خدا انتخاب کرتا ہے وہ بہتر ہوتی ہے۔بیٹا یا بیٹی والدین کا فرض یہی ہے کہ اس کیلئے اچھی تربیت کا انتظام کریں، اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔ پھر اولاد جانے ان کا حساب و کتاب جانے، خدا کے حوالے۔

اولاد وارث بنتی ہے

ایک اہم بات جو ان آیات میں ہمیں نظر آتی ہے وہ یہی کہ اولاد وارث ہوتی ہے والدین کی۔ حضرت زکریا نے کیا دعا کی؟ خدایا مجھے اپنی طرف سے جانشین عطا فرما، یرثنی و یرث من آل یعقوب جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے ، یعنی اولاد وارث ہوتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں خدا نے کسی قید کا ذکرہ نہیں فرمایا کہ اولاد وارث بنے گی علم کی حکمت کی معنوی چیزوں کی نہیں مطلق ہے ۔اور جہاں بھی مطلق پایا جائے یعنی سب کو شامل ہے خاص طور پر جہاں وراثت اور میراث کی بات کی جا ئے تو یعنی وہ مال و ملکیت کا وارث ہے، اولاد مال ملکیت کی وارث ہوتی ہے اس میں تخصیص نہیں لگائی کہ اگر انبیا کی ہوں تو ان کی وارث نہیں بنیں گی۔ اگر انبیا ہوں تو ان کی اولاد وارث نہیں بنیں گی، عام اہل ایمان کی اولاد ان کی وارث بنے گی، ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔بلکہ یہاں خاص طور پر انبیا دعا مانگ رہے ہیں جناب زکریا دعا مانگ رہے ہیں کہ میرا وارث ہونا چاہیے جو وارث ہو اور فخر رازی کی تفسیر کبیر کے مطابق جہاں بھی مطلق طور پر وراثت کی بات کی جائے وہاں مال کی وراثت مراد ہوتی ہے، مال ملکیت کا وارث ہونا چاہیے۔ اگرچہ انبیا کی اولاد ہو تو ان کے علم و حکمت کی بھی وارث ہوگی لیکن خاص طور پر مال و ملکیت کی وراثت کی بات ہو رہی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ انبیا کا کوئی وارث نہیں ہوتا وہ جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہوتا ہے۔ یہ خلاف قرآن بات ہے۔ قرآن میں انبیا کی یہی دعائیں ہیں کہ ہمارا وارث ہونا چاہیے اور میراث سب کو شامل ہے خاص طور پر میراث کا لفظ مال و ملکیت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ لہذا جناب زہرا اپنے والد کی وارثہ تھیں انہیں میراث سے محروم کرنا غیر قرآنی عمل تھا، اولاد وارث ہوتی ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کا تعجب

صالح اولاد کی دعا کرنی چاہیے جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے کی کہ ذریۃ طیبۃ؛ ایسی اولاد واجعلہ رب رضیا حضرت ابراہیمؑ نے یہ دعا کی کہ

رب هب لی من الصالحین

صالح اولاد ہونی چاہیے نیک اولاد ہونی چاہیے ، جو نیک نامی کا سبب بنے، جو ہمارے نام کو باقی رکھے، ہمارے وجود کی استمرار کا سبب بنے اور اس ضمن میں یہ نقطہ بھی واضح کرتے چلیں کہ جب حضرت زکریاؑ نے دعا مانگی اور فرشتے خوش خبری دینے کیلئے آئے کہ خدا آپ کو اولاد عطا فرمائے گا انہوں نے تعجب کیا کیسے مجھے اولاد ہوگی میں بوڑہا ہو چکا ہوں میری بیوی بوڑہی ہو چکی ہے۔ یا جناب ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ خدایا

رب هب لی من الصالحین

صالح اولاد عطا فرما، ان کو جب خوش خبری دی انہوں نے تعجب کیا یہ تعجب کس بنیاد پر تھا؟ دعا بھی خود مانگ رہے ہیں خدا کی قدرت یقین بھی رکھتے ہیں کہ خدا قادر ہے قدرت رکھتا ہے وہ اولاد دے سکتا ہے۔ جب خدا نے خوش خبری دی کہ تمہیں اولاد ہونی والی ہے

فبشرناه بغلام حلیم

ہم نے انہیں خوش خبری دی ایک رشید بیٹے کی، تو انہوں نے تعجب کیوں کیا؟ کیا خدا کی قدرت پر شک کر رہے تھے؟

نہیں! لیکن ان کا تعجب اور ان کا سوال اس بنیاد پر تھا کہ خدایا تو جو ہمیں اولاد عطا فرمائے گا ایسا ہوگا کہ ہم جوان بن جائیں گے دوبارہ ہمیں جوان بنا دے گا؟ خدا اس چیز پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ انسان کو دوبارہ جوانی عطا کر دے گا یعنی ان کا سوال یہ تھا ہم دوبارہ جوان ہو جائیں گے اس جوانی اور شباب کی حالت میں ہمارے ہاں اولاد ہو گی یا اسی پیری میں اسی بوڑہاپے ہم اسی حالت میں ہوں گے؟ہمارے ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں ہمارے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں، اسی حالت میں خدا اولاد عطا فرمائے گا۔ ان کا سوال اس بنیاد پر تھا، ورنہ انبیا تھے وہ خالق کائنات کی قدرت کو جانتے تھے وہ امر الہی کی طاقت کو جانتے تھے۔ خدا اگر کسی چیز کا ارادہ کر لے

( إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ‏ فَيَكُون‏ ) (۳۴۶)

جب خدا ارادہ کر دیتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے وہ ہوجائے تو وہ ہو جاتی ہے انبیا کو خدا کی قدرت کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں تھا ان کا سوال اور ان کا تعجب اسی بات پر تھا ہم بھی جوان بن جائیں گے یا خدا اسی حالت میں ہمیں اولاد عطا فرمائے گا۔

اولاد کی تربیت

بہرحال اولاد کی دعا بہت اہم دعا ہے انسانی نسل کو بڑہتے رہنا چاہیے، یہ وجود ہمارے ہاں امانت ہے اور اس امانت کو آگے بڑہانا چاہیے، جس طرح ہم اپنی والدین میں سے پیدا ہوئے ہیں ہم میں سے پھر دوسرے انسان وجود میں آنے چاہیں، بچے وجود میں آنے چاہیں۔ ساتھ میں یہ بھی کہ صالح اولاد، یعنی کمیت سے بڑہ کر کیفیت کو دیکھا جائے اس طرح بھی نہیں ہے کہ صرف زیادہ ہو، صرف زیادتی کی بات نہیں ہوتی صالح اولاد، اچھی اولاد، نیک اولاد، لائق اولاد، جو اپنے ماں باپ کا نام روشن کرے، ان کی نیک نامی کا سبب بنے، ان کی تعریف کا سبب بنے کہ انہیں دیکھ کر لوگ کہیں کہ یہ ان کی اولاد ہے ان کا سر فخر سے بلند ہو جائے کہ میری ایسی اچھی اولاد ہے۔

البتہ ایسی اولاد کیلئے زحمت کرنی پڑہتی ہے، تربیت کیلئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ انسان اگر چاہتا ہے کہ اسے کچھ ملے تو اس کیلئے اسے کوشش کرنی پڑتی ہے

( وَ أَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ‏ إِلاَّ ما سَعى ) (۳۴۷)

انسان جس چیز کیلئے کوشش کرے گا یہ کوشش کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔چابی ہوتی ہے اس کے ذریعہ سے کامیابیاں ہوتی ہیں۔ اولاد کیلئے ماں باپ کو بہت زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے، ان کی تربیت کیلئے ان کو اچھا بنانے کیلئے، بغیر زحمت کے والد ہونے کا رتبہ نہیں مل سکتا والدین کی جو اتنی عظمت ہے وہ اسی بنیاد پر ہے کہ کوشش کرتے ہیں اپنی اولاد کیلئے زحمت اٹھاتے ہیں، ان کی کوشش کرنا ان کے درجے کا سبب بنتی ہے۔ جی ہاں اولاد کیلئے بہت ساری مشکلات ہیں، پریشانیاں ہیں۔ لیکن پھر عظمت کا درجہ بھی بڑہ جاتا ہے، پھر ثواب بھی بڑہ جاتا ہے، پھر والدین اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ جنت والدہ کے قدموں میں ہوتی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے قربانیاں دی ہیں، کوششیں کی ہیں، اولاد کیلئے کوشش کرنا عین عبادت ہے ۔کوشش کرنی چاہیے، دعا کرنی چاہیے کہ ہمارے ہاں اولاد ہو اور اولاد کو اچھا بنانے کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔

اولاد کیلئے اچھا اور بہترین نام کا انتخاب کرنا چاہیے۔ خالق کائنات نے خود جناب زکریا علیہ السلام کو جب بشارت دی کہ ہم تمیں اولاد عطا کرینگے تو اس کا نام بھی بتا دیا کہ یحیؑ نام ہونا چاہیے، ایسا نام ہے جو پہلے کسی کا نہیں تھا۔ نام سے اولاد کی پہچان ہوگی، تعارف ہوگا، تو اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھنا چاہیے۔اولاد کی دعا انبیا کی سنت ہے اور اس کیلئے انسان پریشان نہ ہو کہ پتا نہیں کل میری اولاد کیسی بن جائے گی، اچھی بنی گا اچھی نہیں بنے گی، اللہ کے دوست بنیں گے یا دشمن، یہ ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ سے انجام دے یا تو اس کے بعد ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ خالق کائنات ہماری ذمہ داری کے متعلق ہم سے سوال کرے گا کہ تم نے کیا کیا؟ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ والدین پریشان ہوتے ہیں بچے جوان ہو گئے ہیں، ہمارا کہا نہیں ماننتے اس حوالے سے کبھی پریشانی بے جا ہوتی ہے۔ اب وہ خود مختار ہیں، اب وہ عاقل و بالغ ہو چکے ہیں، اب اگر وہ نہیں مانتے یا سمھجتے اب یہ ان کی مسئولیت ہے خدا ان سے پوچھے گا، والدین کی ذمہ داری یہی تھی کہ اولاد کو وجود میں لانے کا وسیلہ بنیں، ان کی صحیح تربیت کریں، انہوں نے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقہ سے انجام دیا ہے تو خدا ان کا ثواب ضایع نہیں کرے گا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے، ہمیں نعمت کو حاصل کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے ویسا بنانی کی کوشش کرنی چاہیے جیسا خدا دیکھنا چاہتا ہے۔ہم بھی مل کر یہی دعا کرتے ہیں کہ خالق کائنات تمام بے اولادوں کو اولاد عطا فرمائے اور ہم سب کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته

اولاد کے حق میں دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( رَبَّنا وَ اجْعَلْنا مُسْلِمَيْنِ‏ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَ أَرِنا مَناسِكَنا وَ تُبْ عَلَيْنا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحيم‏ ) (۳۴۸)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کی طرف اشارہ کرنا ہے وہ اولاد کے حق میں دعا ہے۔

خالق کائنات نے انسان کو وجود عطا کیا،اس کی تمام ضرویات عطا فرمائیں، اس کے وجود کے بقا کے اسباب پیدا کیے اور حکم دیا،فطرت میں یہ رکھ دیا، اس سلسلے کو باقی رہنا چاہیے، یہ سب تسلسل ہے، یہ انسانیت اور بشریت کا وجود باقی رہنا چاہیے جب تک خدا چاہتا ہے۔اس لیے تمام ادیان آسمانی نے نسل کے باقی رکھنے کو ایک وظیفہ قرار دیا ہے۔ایک ذمہ داری ہے ہماری کہ ہم میں سے ہر ایک خاندان کو تشکیل دے اور اپنے جیسے دوسرے انسان پیدا کرے۔ اور اپنی خوبیاں، اپنے کمالات، اپنی نیک صفات کو منتقل کرے آنے والی نسل میں۔خداوند متعال کی نعمات کو محدود نہ کرے صرف اپنی ذات پر، اس لیے خالق کائنات نے ہم میں سے ہر ایک وظیفہ یہی معین کیا ہے کہ تمہیں اپنی بھی فکر کرنی چاہیے، اپنی عاقبت کا بھی خیال رکھیں اور تمہیں اپنی اولاد کا بھی خیال ہونا چاہیے۔خالق متعال حکم دے رہا ہےیایهالذین امنوا قونارا ؛

اے ایمان لانے والو اپنے آپ کو اور اپنی اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔یعنی خود بھی اس جہنم سے بچنےکی کوشش کرو اور اپنی اولاد کی بھی ایسی تربیت کرو، ان کو ایسا بنائو، انہیں ایسی تعلیم دو کہ وہ بھی جہنم سے بچ پائیں۔

اور یہ خالق کائنات کا کتنا بڑا لطف و کرم ہے کہ اس نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کیلئے خصوصی محبت ڈالی ہے۔ اس لیے خداوند متعال جب بھی اپنی محبت کا تذکرہ کرتا ہے تو احادیث قدسیہ میں اور روایات اہل بیت میں وارد ہوا ہے کہ خالق کائنات ستر مائوں سے بڑہ کر اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی خدا اپنی محبت بیان کرنا چاہتا ہے تو والدین کی محبت کو مثال بناتا ہے؛ کیونکہ وہ بے لوث محبت کرتے ہیں دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اپنی اولاد سے بے لوث و بے غرض محبت کرے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کا اولاد دن چوگنی اور رات چوگنی ترقی کریں جبکہ دوسرے انسان جلتے رہتے ہیں، چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا ترقی نہ کرے، ہمارا نام ہو ہم آگے بڑہیں۔ لیکن والدین اپنی اولاد کی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔

اولاد سے بے جا محبت

البتہ اس فطری محبت کو بھی ایک لائین دینے کی ضرورت ہے، ایک پروگرام کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ بے لوث محبت بیجا محبت میں تبدیل ہو جائے۔ اور بجائے اس کے کہ اولاد کو اچھی لائین پر لگائے انہیں یہ بے جا محبت مزید بگاڑ دے خراب کر دے۔ اور ایک برا انسان بنا دے؛ کیونکہ اگر محبت کو ان قوانین کے دائرے میں، حدود کے اندر نہ رکھا جائے، اگر تربیت کے قواعد کا خیال نہ کیا جائے تو شاید یہ محبت بھی مضر چیزوں میں تبدیل ہو جائے۔ تو اولاد کیلئے دعا کرنی چاہیے جس طرح انبیاء نے اپنی اولاد کیلئے دعا کی ہے۔

انسان کی فطرت یہی ہے کہ وہ اولاد چاہتا ہے جو لوگ اولاد نہیں چاہتے در حقیقت وہ نفسیاتی مریض ہیں، بیمار ہیں، انہیں اپنا نفسیاتی معاینہ کرانا چاہیے وہ نفسیاتی طور پر صحیح و سالم نہیں ہیں، اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کتنے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کتنے مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔انسان کے اندر جو محبت کا، جو اخلاص کا منبع اور سرچشمہ ہے، اس کے اندر اتنا خزانہ ہے جو خالق کائنات نے رکھا ہے، اسے اولاد کی صورت میں اولاد سے محبت کی صورت میں اسے باہر نکالنا چاہیے۔ان محبتوں کو تقسیم ہونا چاہیے۔ اگر فطری طور پر یہ سلسلہ جاری نہ رکھا جائے تو اس کے مضر اثرات مترتب ہونگے، آج پوری دنیا میں دیکھیں کہ جس خاندان میں اولاد نہیں ہے وہ کتنی نفسیاتی پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اولاد ہونے سے ذمہ داریاں بڑہ جاتی ہیں، ہم قابو نہیں پا سکیں گے، ہم خدمت نہیں کر پا سکیں ،ہم تربیت نہیں کر سکیں گے۔ لہذا ہمیں اولاد نہیں ہونی چاہیے، نہیں! اولاد نہ ہونے کے اپنے مسائل ہیں، لہذا اولاد ہونی چاہیے اور جب بھی کسی کے ہاں اولاد ہوتی ہے وہ فطری طور پر یہی چاہتا ہے، ہرکوئی اپنے لحاظ سے اولاد کیلئے اچھے مستقبل کا سوچتا ہے، ان کیلئے نیک خواہشات رکھتا ہے۔ ان کیلئے ترقی کی دعا کرتا ہے ۔

نعمت اولاد کی قدر دانی

یہ فطری دعا ہے جو قرآن مجید نے نقل کی ہے کہ جب بھی کسی کے ہاں اولاد ہونے لگتی ہے، جب بھی بچہ ماں کے رحم میں آ جاتا ہے اور بطن مادر میں ہوتا ہے، اب یہ ماں باپ دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کرے ہیں

( دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُما لَئِنْ آتَيْتَنا صالِحاً لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرينَ ) (۳۴۹)

دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کرتے ہیں اگر تو نے ہمیں صحیح اور سالم اولاد عطا فرمائی، صالح اور نیک اولاد دی، ہم تیرا شکر ادا کرینگے اور شکر گذار بندوں میں سے بن جائینگے۔ اس آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک فطری دعا ہے۔ ہر کوئی یہی دعا کرتا ہے کہ اولاد خدا کی طرف سے ہے، تربیت کرنی چاہیے، اپنی کوشش کرنی چاہیے لیکن ان کے صالح بننے کی خدا سے دعا کرنی چاہیے۔ خدا سے مدد مانگنی چاہیے کہ بار الہا اس اہم وظیفہ کو انجام دینے میں، اس بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ہماری مدد فرما۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر پائیں۔ اور یہ صالح بنیں ۔

لیکن بڑی مصیبت یہی ہوتی ہے انسانوں کی، جب مصیبت آتی ہے تو اللہ انکو یاد آتا ہے ۔بڑی بڑی لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں، خدا کو یاد کرتے ہیں، ذکر الہی کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں۔ لیکن جب خالق کائنات اس کی مشکل کو حل کر دیتا ہے، جب ان کی دعا مستجاب ہو جاتی ہے، جب خدا ان کی حاجت انہیں دے دیتا ہے، جب ان کی مرادیں پوری ہو جاتیں ہیں تو وہ خدا کو بھول جاتے ہیں: فلما اتا ہما؛ جب خالق کائنات انہ یں اولاد دے دیتا ہے، ان کی دعا کو مستجاب کر دیتا ہے، اب وہ اللہ کیلئے شریک کے قائل ہو جاتے ہیں۔ شرک کرنے لگتے ہیں اور پھر دوسروں کی طرف نسبت دینے لگتے ہیں کہ فلان نے دیا ہے، فلان نے دیا ہے۔ نہیں! خدا نے دیا ہے۔ یہ خدا کا لطف و کرم ہے ۔

انسان جس طرح مصیبت میں دعا کرتا ہے، ذکر الہی کرتا ہے، بارگاہ الہی میں پہنچتا ہے، خدا کو سمجھتا ہے، اسی طرح نعمت کے بعد بھی احسان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ،عظمت الہی بھلانا نہیں چاہیے، خدا کے احسان کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن انسان تو ایسا ہے کہ جب بھی اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بڑے خلوص کے ساتھ دعا کرتا ہے۔ لیکن جب اسے حاجت مل جاتی ہے تو وہ خدا سے اس طرح گذر جاتا ہے گویا اس نے کبھی دعا ہی نہیں کی، کتنا کم ظرف ہے یہ انسان، خدا کے کتنے بڑے احسان کو بھلا دیتا ہے۔لیکن حقیقی مومن وہی ہے جو احسان کو یاد رکھے، اولاد کو خدا کی نعمت سمجھتے ہوے اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرے ۔

اولاد کے لئے اسلام کی دعا

لہذا انبیا نے جس طرح اپنے لیےدعائیں کی ہیں، اسی طرح اپنی اولاد کیلئے دعا کی ہے۔جتنے کمالات انہوں نے اپنے لیے طلب کیے ہیں وہی کمالات اپنی اولاد کیلئے طلب کیے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم کی دعا ہے جو اپنے اسلام کی دعا کر رہے ہیں۔ بار الہا! مجھے واقعی اور حقیقی مسلمان بنا دے، میں تیرے سامنے تسلیم ہو جائوں:

ربنا وجعلنا مسلمین لک ؛

بار الہا! مجھے اور اسماعیل کو اپنا خالص مسلمان بنا دے، حقیقی مسلمان بنا دے۔ جو تیری اطاعت کرنے میں ایک ذرہ بھی ایک لمحہ بھی غفلت نہ کریں،

و من ذریتنا،، لک

اور ہماری اولاد میں سے بھی مسلمان امت بنا دے، ہماری اولاد کو بھی حقیقی مسلمان بنا دے صرف مسلمان نہیں۔ امۃ مسلمۃ لک ؛حقیقی اسلام جس کو تو چاہتا ہے جس کو تو پسند کرتا ہے۔ یعنی جو ہمارے پاس کمالات ہیں، خدا جو نعمتیں تو ہمیں عطا فرما رہا ہے ہمیں جو تو نے اپنے سامنے تسلیم کیا ہے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرے سامنے تسلیم رہیں یہ ہمارے لئے عزت ہے اسی طرح میری اولاد کو بھی میری نسلوں کو بھی حقیقی مسلمان بنا دے۔ اولاد کیلئے اسلام کی دعا کریں کہ انہیں بھی خالق کائنات حقیقی مسلمان بنا دے۔

حضرت ابراہیمؑ نے دوسری دعا کی بارگاہ الہی میں کہ خداوندا جس طرح تو نے مجھے نبوت عطا کی ہے، اسی طرح میری اولاد کو بھی نبوت عطا فرما؛کیونکہ حضرت ابراہیمؑ جانتے تھے ابھی یہ سلسلہ باقی ہے، ابھی اسی منصب کو باقی رہنا ہے، ابھی کتنے سارے انبیاء آنے ہیں۔ یہ نعمت انسانیت پر باقی رہے گی، بار الہا! یہ نعمت میری ذریت میں قرار دے، میری اولاد میں قرار دے۔ انہیں ایسا بنا دے کہ وہ تیری نبوت کے حامل ہو سکیں، اور تیری نبوت کے متحمل ہو سکیں اور پھر اس نبوت کو امانت کے طور پر اٹھا سکیں اور نبی بن سکیں، لہذا دعا کی

( رَبَّنا وَ ابْعَثْ‏ فيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِك ‏) (۳۵۰)

بار الہا! ان میں ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے، جو انہیں حکمت کی تعلیم دے، جو ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے، جو ان کی تعلیم اور تربیت کر سکے، اور جب جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا پر تشریف لائے تو فرمایا کرتے تھے

انا دعوة ابراهیم؛ (۳۵۱)

میں حضرتؑ ابراہیم کی دعا ہوں جو حضرت ابراہیمؑ نے اس وقت مانگی تھی: ربنا وابعث بار الہا ان میں ایک رسول بھیج جو ان صفات کا مالک ہو۔ فرمایا کرتے تھے میں ابراہیم کی دعا کا اثر ہوں۔

عزیزو ہمیں آداب دعا میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے کہ ابھی ہم نے دعا کی، ابھی ہی ہمیں چیز مل جانی چاہیے۔ کبھی دعا کی مستجابت میں صدیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ ابراہیمؑ نے کب دعا کی تھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کب اس دنیا میں تشریف لا رہے ہیں؟ ہمیں جلدی مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہے۔ دعا قبول ہوتی ہے خاص طور پر اگر انسان اولاد کے نیک ہونے کیلئے جو دعا کرتا ہے وہ ضرور مستجاب ہوتی ہے، والدین کی دعا، ماں کی دعا، اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہے۔ ماں مظہر ہوتی ہے محبت الہی کا۔ خالق کائنات ماں کی دعا کو مستجاب کرتا ہے ۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کیلئے اسلام کی دعا ہے، ان کیلئے نبوت کی دعا کی اور ان سے بڑہ کر جب خالق کائنات نے حضرت ابراہیم عظیم نعمت سے نوازا

( وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمين ) (۳۵۲)

جب حضرت ابراہیم کا امتحان لیا گیا کتنے کٹھن مشکل امتحان لئے گئے ،حضرت ہر امتحان میں پاس ہوتے چلے گئے کتنے مشکل امتحانات تھے۔سو سال تک اولاد کا نہ ہونا، کیا امتحان نہیں ہے؟ ہمارے ہاں شادی کو چند سال نہیں گذرتے ہیں اولاد نہ ہو تو واویلا بن جاتا ہے، دعائیں کی جاتی ہیں، منتیں مانی جاتی ہیں اولاد ہو جائے ۔حضرت ابراہیمؑ کو آزمایا جا رہا ہے۔ جب اولاد ہوگئی انہیں قربان کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے، اولاد ہوگئی پھر انہیں بے آب و گیاہ سرزمین پر رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے، جہاں ظاہری طور پر نہ کھانے کا انتظام ہے اور نہ پینے کا، کبھی انہیں آگ میں ڈالا جا رہا ہے کتنی مشکلات کتنے امتحانات، سب میں پا س ہو گئے تو خالق کائنات نے ارشاد فرمایا انی ۔امام ، ابراہیمؑ ہم تمہیں انسانوں کیلئے امام بنا رہے ہیں۔ کتنی بڑی عظیم نعمت تھی۔ جیسے خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو امامت عطا کی فورا دعا کی: بار الہا! یہ عظیم نعمت جس طرح تو نے مجھے عطا فرمائی ہے، میری اولاد کو بھی عطا فرما۔ ان میں سے بھی امام بنا، خالق کائنات نے فرمایا: خلیل تیری دعا ہے، مستجاب ہے۔ لیکن میں امام بنائوں گا، امام ضرور بنائوں گا ، لیکن میرا عہدہ کبھی ظالموں کو نہیں ملے گا، امام آئیں گے لیکن وہی بنیں گے جو معصوم ہوں۔ امام وہی ہونگے جن کو خدا نے امام بنایا ہوگا، جو امامت کے حقدار ہوں گے، امامت کی شرائط رکھتے ہوں گے، ایک لمحہ کیلئے بھی جو شرک و کفر نہ کریں، معصیت خدا نہ کریں۔ خالق کائنات ان کو امام بنائے گا اور امام بنائے خدا نے نسل ابراہیمؑ میں سے ، یہ حضرت ابراہیم کی دعائیں تھیں اپنی اولاد کیلئے۔

اولاد کیلئے بت پرستی سے بچنے کی دعا

اور کبھی یہ دعا کر رہے ہیں کہ

( وَ اجْنُبْني‏ وَ بَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنام ) (۳۵۳)

بار الہا مجھے اور میری اولاد کو بچا اس سے کہ ہم بتوں کی عبادت کرنے لگیں، یہ بتوں کے ظاہری جلوے انسان جو مادہ پرست ہے، مادہ کی طرف جلدی جذب ہو جاتا ہے محسوسات کے اثر کو جلدی قبول کر لیتا ہے۔یہ معمولی دعا نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام مانگ رہے ہیں کہ بار الہا مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ حضرت موسیؑ نے کتنے معجزات دکھائے بنی اسرائیل کو، ان کو نجات دی فرعون غرق ہوگیا، اب کتنے معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ لیکن جب یہ دریا سے عبور کر کے باہر آتے ہیں آگے چلتے ہیں، دیکھتے ہیں دوسری اقوام بتوں کے سامنے سجدہ کر رہی ہیں۔ ان کے خدا ان کو دکھائی دے رہے ہیں۔ فورا یہ کہتے ہیں اے موسیؑ دعا کرو ہمارے لیے بھی ایسے خدا ہونے چاہیں جیسے یہ ہیں۔ یعنی بت پرستی کا کتنا بڑا خطرہ ہے، انسان محسوسات میں مقید ہو جائے اور محسوسات کے اثر جو جلد قبول کر لے۔اتنے سارے معجزات دیکھنے کے بعد ابھی تک خدا کو نہیں پہچان سکے، وہ کہتے ہیں کہ جناب موسی آپ بھی ایسے خدا بنائیں جیسے ان کے خدا ہیں یعنی بت پرستی کا زہر ہے۔

حضرت ابراہیمؑ اسی سے بچنا چاہتے ہیں واجنبنی بار الہا مجھے بھی بچا ئو۔ و بنی؛ میری اولاد کو بچا، ان نعبد الاصنام کہ ہم بتوں کی عبادت کریں، بہت بڑی دعا ہے کہ اولاد کی عقیدتی اور فکری اصلاح کی دعا کریں۔ ہمیشہ ان کی مادی ضرویات کی دعا نہ کریں، ہمیشہ ان کی ظاہری حاجتوں کی دعا نہ کریں، اصلی دعا یہی ہے کہ ان کو صحیح فکری تربیت ملے وہ منحرف نہ ہونے پائیں، شیطان اور اس کے کارندے ان کو اپنی جال میں نہ پھنسا لیں فکری حریت ہونی چاہیے ان کے پاس، وہ دل سے اور ذہن سے فکر سے خدا کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں۔

اولاد کیلئے نماز کی دعا

اس سے بڑہ کر حضرت ابراہیمؑ اپنی اولاد کیلئے نماز گذار ہونے کی دعا کر رہے ہیں۔ دعا کرتے ہیں :بار الہا!

( رَبِّ اجْعَلْني‏ مُقيمَ‏ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي ) (۳۵۴)

بار الہا مجھے نماز گذار بنا دے، نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرما مجھے اور اسی طرح میری اولاد کو۔ اتنی عظیم عبادت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چاہتے ہیں کہ جو کمالات نماز کے ذریعہ سے مجھے ملتے ہیں جو فضائل اور معنوی درجات مجھے ملتے ہیں نماز کے ذریعہ سے میری اولاد کو بھی ملنے چاہیں، کتنے کمالات ملے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو۔

نماز کتنی عظیم ہے جس کیلئے رسول اکرم(ص)

الصلاة معراج المومن؛

نماز مومن کی معراج ہے،

الصلاة عمود الدین؛

دین کا ستون صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ہے ، سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا، اگر نماز قبول ہوجائے تو تمام عبادات قبول ہو جائیں گی اگر نماز رد ہو جائے تو کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی، لہذا دعا کر رہے ہیں رب اجعلنی بار الہا مجھے نماز گذا ربنا دے، نماز کو قائم کرنے کی توفیق عطا فرما، و من ذریتی اور میری اولاد کو بھی، جہاں جہاں اپنے لیے کمالات کی دعا کی جا رہی ہے وہاں اپنی اولاد کیلئے بھی دعا کی جا رہی ہے ؛کیونکہ یہ اولادہمارا حصہ ہیں، ہمارا جز ہیں، ہماری بقا ان سے وابستہ ہے، جب تک ہماری اولاد رہے گی ہماری نیک نامی رہے گی، اولاد کی نیک نامی آباء و اجداد کی نیک نامی ہے۔ لہذا انبیا چاہتے ہیں کہ ان کی اچھی اولاد ہونی چاہیے۔

اولاد کی معنوی تربیت

جب جناب نوحؑ کشتی پرسوارہونےلگےتوانہیں بھی اولادکی فکرتھی۔ کہا:

( إِنَّ ابْني‏ مِنْ أَهْلي‏ وَ إِنَّ وَعْدَكَ الْحَق ) (۳۵۵)

بار الہا! یہ میرا بیٹا میری اہل میں سے ہے۔ اور تیرا وعدہ حق ہے، اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ خداوند متعال نے فرمایا تھا میں تیرے اہل کو نجات دوں گا، تو یہی دعا کر رہے ہیں خیال کر رہے ہیں کہ میرا فرزند ہے یقینی طور پر نہیں کہہ رہے ہیں کہ کہیں بے ادبی نہ ہو، جاہلانہ سوال نہ ہو جائے۔ لیکن خالق نے کائنات یہی جواب دیا، یہ تیرا اہل نہیں ان ہ عمل غ یر صالح؛ کیونکہ اس کا عمل صالح نہیں ہے۔ یہ جو اہم درس جناب نوح کے بیٹےسےہمیں ملتا ہے وہ یہی کہ جسمانی رشتہ اہم نہیں ہےجسم سےجسم کا وجودمیں آنا اہم نہیں ہے۔ اصل یہ ہےکہ انکےدرمیان ایمانی رشتہ ہو، دینی رشتہ ہو،معنوی رشتہ ہو، اگر نوح کا بیٹا ہےمعنوی رشتہ نہیں ہے، روحانی رشتہ نہیں ہے، ایمان کاتعلق نہیں ہے، معنوی ارتباط نہیں ہے، خدا کہہ دیتا ہےکہ تیرا اہل نہیں ہے۔کیونکہ اس کاعمل تیرےعمل سےنہیں ملتا،لیکن جب معنوی رشتہ قائم ہوجائےجب روحانی رشتہ برقرار ہو جائے تویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں:سلمان منا اهل البیت؛ (۳۵۶)

سلمان فارس (ایرانی) اورعجم ہوتے ہوے ہم اہلبیت میں سے ہے۔ کیونکہ اس کا روحانی رشتہ بن چکا ہے ، معنوی طور پر اس نے خود کو اس لائق بنایا ہے کہ یہ ہمارا اہل بن سکے، نوحؑ کے بیٹے نے اپنی اہلیت کو گنوا دیا بروں کی صحبت میں آکر برا بن گیا، یہاں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ہمیں اولاد کیلئے کوشش کرتے رہنی چاہیے ان کی بھلائی کا سوچنا چاہیے، لیکن بھلائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔

میں ان والدین کوتسلی دینا چاہتا ہوں جو اپنی ذمہ داری کوبطوراحسن انجام دیتے ہیں، پھربھی انکی اولاد بگڑ جاتی ہے۔ زیادہ پریشان نہ ہوں؛ کیونکہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو انجام دے دیا ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر کسی کی صحیح تربیت کی جائے تو کبھی بھی یہ منحرف نہیں ہو سکتا، نہیں! ہر انسان کا اپنا اختیار ہے، یہ بچہ جب جوان ہو جاتا ہے، عاقل و بالغ ہو جاتا ہے۔ پھر جو ان کے اعمال ہوتے ہیں اب ان کی مسئولیت ان کے گردن پر ہے۔ اگر والدین نے صحیح تربیت کی، انہوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی پھر بھی یہ منحرف ہو رہا ہے تو یہ نمونے ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ انبیا کی اولاد میں بھی انحراف ہو سکتا ہے، ان کے اقربا میں بھی انحراف ہو سکتا ہے تو ہمیں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ یہ پریشانی ضرور ہونی چاہیے کہ ہماری طرف سے کوتاہی نہ ہو۔ ہم اپنی پوری کوشش کریں، اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی پوری کوشش کریں ان کو لائین دیں، فکری لائین دیں، ان کو صحیح راستہ دکھائیں، ان کی رہنمائی کریں ،اس کے بعد وہ عاقل و بالغ ہونے کے بعد اب وہ جانیں، اولاد کی فکر اچھی بات ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہونا چاہیے۔

امیرالمومنینؑ کی دعا

اسی سلسلہ میں حضرت علیؑ کی ایک دعا بھی ملاحظہ کریں۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں، امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

والله ما سئلت ربی ولدا نضر الوجه؛ (۳۵۷)

خدا کی قسم! میں نے کبھی بھی خدا سے خوبصورت اولاد کی دعا نہیں کی کہ بار الہا مجھے ایسی اولاد دے جو جسمانی طور پر خوبصورت ہوں، اور نہ میں نے ایسی اولاد کی دعا کی ہے جو حسن القامہ بہترین قد کے مالک ہوں، میں نے اپنی اولاد کیلئے جسمانی دعائیں نہیں کی ہیں، مادی دعائیں نہیں کی ہیں، دنیا کی زینتیں ان کیلئے طلب نہیں کی ہیں۔ لیکن یہ خدا کا لطف ہے کہ جو خدا کا حقیقی طور پر طالب ہو جاتا ہے، خدا اسے سب نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ میں نے یہ دعا نہیں کی وہ خوبصورت ہوں، بہترین قد و قامت کے مالک ہوں۔ لیکن میں نے جو دعا کی ہے خداوند متعال سے وہ یہ دعا کی ہے

و لکن سئلت ربی اولاد مطیعین له ؛

لیکن میں نے اگر اولاد کی دعا کی ہے تو خالق کائنات سے ایسی اولاد مانگی ہے جو خدا کے اطاعت گذار ہوں۔ خدا کی اطاعت کرنے والے ہوں مطیعین للہ ہوں۔

وجلین من ہ جو خوف خدا رکھتے ہوں، بار الہا مجھےا یسی اولادعطا فرما جو تیری اطاعت کریں، ایسی اولادعطا فرما جو تیرےفرمانبردار ہوں، ایسی اولاد عطا فرما کہ جب وہ تیری اطاعت کرنےلگیں اور انہیں دیکھوں کہ تیری اطاعت کررہےہیں تو تیری اطاعت میں انہیں مشغول دیکھ کرمیرا دل خوش ہو جائے

اہل ایمان کی عباد الرحمن کی بندگان رحمان کی بہترین دعا یہی ہوا کرتی ہے

( وَ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَ ذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ‏ وَ اجْعَلْنا لِلْمُتَّقينَ إِماما؛) (۳۵۸)

رحمان کےبندے وہ ہیں خدا کے بندے وہ ہیں جو ایک دعا یہ کرتے ہیں کہ بار الہا! ہماری ہمسروں میں سے، ہماری شریک حیات اورہماری اولاد ایسی ہوں جوہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں، جن سےہماری روح کو سکون ملے، جو ہمارے قلب کےاطمینان کا سبب بنیں، جن کو دیکھ کرہمیں خوشی محسوس ہو کر یہ اولاد ہیں جو تیری اطاعت کررہے ہیں۔

امیرالمومنینؑ کی دعا کیسےقبول ہوئی، خالق کائنات نے اسے کیسی اولاد عطا فرمائی، چاہے حسنین شریفین کریمین ہوں ۔چاہے جناب زینب و ام کلثوم ہوں چاہے حضرت عباس ہوں، جن کیلئے وارد ہوا ہے

ایها العبد الصالح المطیع لله و لرسوله و للحسن و للحسین ۔

خدا سے ایسی دعا کی، ایسی اولاد مانگی فرمایا میں نے کبھی ایسی اولاد نہیں مانگی جو خوبصورت ہو، بہترین قد و قامت والی ہو بلکہ میں نے یہ دعا کی بار الہا! مجھے ایسی اولاد عطا فرما جو تیری مطیع ہو، خدا سے جب انسان معنوی دعا کرتا ہے جب حقیقی چیزیں طلب کرتا ہے تو خداوند دوسری چیزیں اس کے ضمن میں خود بخود عطا کر دیتا ہے۔جو چیزیں خداکو پسند ہیں ان کا سوال کیا جائے تو دوسری چیزیں خود بخود خداعطاکردیتاہے۔

فرمایاجواپنےاورخداکےدرمیان رشتےکومضبوط بنائےتوخدااس کےاورمخلوق کےرشتےکومحفوظ کردیتاہے۔(۳۵۹) یہ اولاد کیلئے دعا تھی۔

خاندان کوتشکیل دینا، اولاد کی دعا کرنا، ان کی بہترین تربیت کی فکر کرنا، ان کی تربیت کیلئے خدا سے مدد طلب کرنا۔ معنوی کمالات کا سوال کرنا انبیا کی سنت ہے۔ یہ انبیا کی دعائیں تھیں جناب ابراہیمؑ کی دعا تھی اور جناب زکریاؑ نے بھی یہی دعا کی، بار الہا مجھے اپنی طرف سے ولی عطا فرما جانشین عطا فرما :

( يَرِثُني‏ وَ يَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ) (۳۶۰)

جو میرا وارث بنے آل یعقوب کا وارث بنے، بار الہا تو اسے ایسا بنا دے جس سے تو راضی رہے اور وہ تجھ سے راضی رہے۔ایسی اولاد جن سے خدا راضی رہے، ایسی اولاد جو خدا سے راضی رہے۔ ایسی اولاد کی دعا کرنا انبیا کا شیوہ ہے، انبیا کی سنت ہے۔ ہم سب کی بھی یہی دعا ہونی چاہیے؛ بار الہا ایسی اولاد عطا فرما جو تیرے مطیع ہوں جن کو تیری اطاعت میں دیکھ کر ہمارے آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاتة