دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة) مؤلف:
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: مشاہدے: 14826
ڈاؤنلوڈ: 3352

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14826 / ڈاؤنلوڈ: 3352
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب:دروس تمهيدية في الفقه الاستدلالي

(كتاب الطهارة )

مصنف:آیت اللہ شیخ باقر ایروانی

مترجم:شیر علی نادم بلتستانی

مصحح: حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ علی توحیدی

اور حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ مصطفی علی فخری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب!

میری یہ ناچیز کوشش

اپنے مولا و آقا

حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف

کے نام!

جن کا دیدار نہ سہی ؛ پھر بھی اپنی زندگی انہی کے لطف و کرم کی گھنی چھاؤں میں گزر رہی ہے۔

مقدمہ

کتاب کا تعارف:

کتاب“دروس تمیدییة فی الفقه الاستدلالی ” آیت اللہ شیخ باقر ایروانی کی علمی کوشش کا نتیجہ ہے جس میں احکام کو ذکر دلیل کے ذریعے استدلال کے ساتھ پیش کرنے کی ایک نئی روش اپنائی گئی ہے۔ معاصر فقہ میں یہ کتاب ایک نیا اضافہ ہے جو اس شعبے کے طلبہ کے لئے روش استنباط سکھانے اور اپنے دعویٰ کے لئے استدلال پیش کرنے کا طریقہ سکھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ کتاب ، قدیم درسی کتب کی جگہ لینے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے اور بعض مراکز علمی میں نصاب درسی کے طور پر رائج بھی ہو گئی ہے ۔

مؤلف کا تعارف:

آیت اللہ شیخ محمد باقر ایروانی تقریبا ۱۹۴۹ ء میں عراق کے مقدس شہر نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ آپ نے فقہ و اصول اور عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسی شہر میں درس خارج تک کی تعلیم بھی حاصل کی۔آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی اور شہید محمد باقر الصدرؒ جیسی شخصیات کا نام آتا ہے۔

۱۹۸۴ ء میں ایران عراق کی جنگ کے دوران آپ نے قم کی طرف ہجرت کی اور کئی سال تک حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استا د رہے۔درس خارج کے ساتھ ساتھ تالیفات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ آپ کی مشہور کتب میں “الامام المهدی بین التواتر و حساب الاحتمال ” ،“الاسلوب الثانی للحلقة الثالثة ” ،“دروس تمهیدیة فی القواعد الفقهیة ” اور کتاب حاضر “دروس تمهیدیة فی الفقه الاستدلالی ” شامل ہیں۔

ظالم بعثی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد آیت اللہ ایروانی نجف اشرف واپس چلے گئے اور آج بھی وہاں پر درس خارج میں مشغول ہیں۔اللہ ان کی توفیقات خیر میں مزید اضافہ فرمائے ! آمین۔

ضرورت ترجمہ:

کسی بھی کتاب کی اہمیت کے پیش نظر دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جانا تمام معاشروں میں رائج اور متداول روش ہے۔ اردو زبان میں بھی عربی اور فارسی سمیت دوسری زبانوں سے مختلف کتب کے ترجمے کئے جا رہے ہیں۔ دینی اور مذہبی کتب کے حوالے سے عقائد، اخلاقیات اور دوسرے معارف دینی پر مشتمل کتب کی کثیر تعداد کا ترجمہ ہوچکا ہے؛ لیکن احکام کے حوالے سے سوائے مراجع کی توضیح المسائل کے کسی دوسری کتاب کا ترجمہ ہماری نظر سے نہیں گزرا؛ لہذا اردو دان طبقے کے لئے احکام کے ساتھ ان کی ادلہ سے آشنائی کی غرض سے فقہ استدلالی کے تمہیدی دروس کے عنوان سے اس ترجمے پر توجہ دی گئی ہے۔ امید ہے اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اسے قبول فرمائے گا۔

کتاب کے مشتملات:

راقم نے کتاب طہارت کا ترجمہ پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کتاب میں “پانی کی اقسام اور احکام”، “رفع حاجت کے احکام”، “وضو، غسل اور تیمم کے احکام”، “دمائے ثلاثہ (حیض، استحاضہ، نفاس) کے احکام”، “موت اور مس میت کے احکام”، “جبیرہ کے احکام” اور “نجاسات”و“مطہرات”کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔ ان احکام کوثابت کرنے کے لئے زیادہ ترمعصومین ؑ سے مروی روایات سے استناد کیا گیا ہے۔ البتہ گاہے گاہے اصولی قواعد جیسے “اصالہ برائت”، “ استصحاب” اور “قاعدہ فراغ” وغیرہ سے بھی مدد لی گئی ہے۔

وما توفیقی الا باللہ

پانی کے احکام

پانی کی اقسام:

پانی کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ مطلق پانی،

۲ ۔ مضاف پانی۔

مضاف پانی اور اس کے احکام:

مضاف پانی بذاتِ خود پاک ہے ؛ لیکن کسی اور چیز کو حدث اور خبث سےپاک نہیں کرتا۔

جب اسے کوئی نجاست لگ جائے تو یہ پورے کا پورا نجس ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ تدافع(۱) کی صورت میں پورے کا پورا نجس نہیں ہوتا۔

دلائل:

۱ ۔ پانی کے مطلق اور مضاف میں تقسیم ہونے کی دلیل: یہ دلیل وجدانی ہے جس کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ۔

البتہ مضاف کو پانی کہنا مجاز ہے؛ لہٰذا یہ تقسیم کسی چیز کو خود اسی چیز اور کسی دوسری چیز میں تقسیم کرنے کی طرح ہے۔

۲ ۔ مضاف پانی کے بذات خود پاک ہونے کی دلیل:اس کی پہلی دلیل قاعدہ طہارت ہے جو ہمیں امام جعفر صادق علیہ السلام سے عمار ساباطی کی روایت کردہ موثق حدیث سے معلوم ہوتا ہے:

كُلُّ شَيْ‏ءٍ نَظِيفٌ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ قَذِرٌ، فَإِذَا عَلِمْتَ فَقَدْ قَذِرَ وَ مَا لَمْ تَعْلَمْ فَلَيْسَ عَلَيْكَ .” “ہر چیز پاک ہے جب تک تجھے معلوم نہ ہو کہ وہ نجس ہے۔پس جب تجھے (اس کی نجاست کا) علم ہو جائے تووہ نجس ہوگی اور جس کا تجھے علم نہ ہو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں۔”(۲)

دوسری دلیل استصحابِ طہارت ہے بشرطیکہ اصل قاعدہ ہر چیز کا پاک ہونا ہو۔

۳ ۔ مضاف پانی کے کسی چیز کو حدث سے پاک نہ کر سکنے کی دلیل: یہ حکم علماء کے درمیان مشہور ہونا ہے۔ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے یہی شک کافی ہے کہ مضاف پانی حدث کو رفع کر سکتا ہے یا نہیں؟ ؛ کیونکہ مضاف سے دھونے کے بعد بھی حدث کی بقاء کا استصحاب کیا جا سکتا ہے لہٰذا مضاف کے ذریعے حدث کا رفع ہونا دلیل کا محتا ج ہے ؛ جبکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ حدث کے رفع نہ ہونے کی دلیل موجود ہے اور وہ دلیل یہ آیت ہے :

( ...فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا ) ،“۔۔۔اور تمہیں پانی میسرنہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو۔”(۳)

۴ ۔ مضاف کے کسی چیز کو خبث سے پاک نہ کر سکنے کی دلیل: یہ حکم بھی علماء کے درمیان مشہور ہے۔اس کو ثابت کرنے کے لئے بھی اس کے رافع ِ خبث ہونے کی دلیل کی عدم موجودگی ہی کافی ہے؛ جبکہ ہمارے پاس خبث کے رفع نہ ہونے کی دلیل موجود ہے۔ مثلاحضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی برید ابن معاویہ کی یہ روایت :

يُجْزِي مِنَ الْغَائِطِ الْمَسْحُ بِالْأَحْجَارِ،وَ لَا يُجْزِي مِنَ الْبَوْلِ إِلَّا الْمَاءُ .”“ پاخانہ(کی نجاست کو دور کرنے) کے لئے پتھروں کا رگڑنا کافی ہے جبکہ پیشاب( کی نجاست کو پاک کرنے ) کے لئے پانی کے علاوہ کوئی چیز کافی نہیں۔”(۴)

اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے ہم اس حدیث پر ایک بات کا اضافہ کریں گے اور وہ یہ کہ پیشاب اور دوسری نجاستوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔(پس مضاف پانی کسی چیز کو پاک نہیں کر سکتا۔)

ادھر فیض کاشانی ؒ سے منسوب نظریہ یہ ہے کہ ہر اس جسم کے ذریعے جو نجاست کو زائل کردے خبث کو پاک کیا جا سکتا ہے اگر چہ وہ جسم مضاف ہی کیوں نہ ہو۔(۵)

سید مرتضیٰ ؒ اور ان کے استاد شیخ مفید ؒ سے منسوب ہے کہ : ہر جسم سے نجاست کو زائل کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ (اس پر) دھونے کا عنوان صادق آئے۔ البتہ پانی سے دھونا ضروری نہیں؛ بلکہ ہر سیال اور مائع چیز سے دھونا کافی ہے خواہ وہ مضاف ہی کیوں نہ ہو۔(۶)

۵ ۔ نجاست کےساتھ اتصال سے ہی مضا ف پانی کے نجس ہونے کی دلیل: یہ ایک متفق علیہ حکم ہے۔ سکونی کی موثق روایت سے بھی اس پراستدلال کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو سکونی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار ؑسے نقل فرمایا ہے کہ :

أَنَّ عَلِيّاً علیه السلام سُئِلَ عَنْ قِدْرٍ طُبِخَتْ وَ إِذَا فِي الْقِدْرِ فَأْرَةٌ.قَالَ: يُهَرَقُ مَرَقُهَا وَ يُغْسَلُ اللَّحْمُ وَ يُؤْكَلُ .” “امیر المؤ منین علیہ السلام سے ایک ایسی دیگ کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں سالن بناتے ہوئے ایک چوہا گر گیا تھا۔ آپ ؑ نے فرمایا: دیگ کا شوربہ (سالن ) گرایا جائے گا اور گوشت کو دھو کر کھایا جائے گا۔”(۷)

اگر ہم اس حدیث کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ چوہا اور دوسرے مرداروں کے درمیان کوئی فرق نہیں نیز سالن اور دوسری مضاف اشیاء کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں تو اس کے نتیجے میں ایک حکم عام ثابت ہو تا ہے اور وہ یہ کہ ہر مضاف چیز، نجاست کے ساتھ صرف ملنے سے نجس ہو جاتی ہے۔)

۶ ۔ مضاف پانی کے تدافع کی صورت میں پورے پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:مثلا اگر مضاف پانی اوپر سے گرے اور نجاست اس کے نچلے حصے سےمتصل ہو تو اوپر والا حصہ نہیں بلکہ صرف نچلا حصہ نجس ہو جائے گا؛ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تدافع کی صورت میں یہ دونوں عرفاً دو الگ الگ پانی شمار ہوتے ہیں؛ لہذا ایک کے نجس ہونے سے دوسرے کے بھی نجس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ عرف کی نگاہ میں نچلے پانی کی نجاست اوپر کی طرف سرایت نہیں کرے گی ۔ پس جب نجاست کے سرایت کرنے کی کیفیت کے بارے میں کوئی خاص نص نہ ہو تو (اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے)عرف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

مطلق پانی اور اس کے احکام:

مطلق پانی کبھی کثیر ہوتا ہے اور کبھی قلیل۔

کثیر پانی ،نجاست سے صرف متصل ہونے کے باعث نجس نہیں ہوتا جب تک اس کے تین اوصاف (رنگ ، بو، ذائقہ)میں سے کوئی ایک وصف بدل نہ جائے۔

کثیر پانی سے مراد کر پانی ہے۔ وہ قلیل پانی بھی ،جس کا کوئی منبع اور سرچشمہ ہو ،کثیر کے حکم میں شامل ہے۔

قلیل پانی ، نجاست کے ساتھ ملنے سے ہی نجس ہو جاتا ہے، سوائے تدافع کی صورت کے۔

یاد رہے کہ کر پانی کی مقدار کے بارے میں چند اقوال ہیں۔

دلائل:

۱ ۔ “کر” پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:بعض روایات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک معاویہ بن عمار کی روایت صحیحہ ہے جو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کی ہےاور وہ روایت یہ ہے:

إِذَا كَانَ الْمَاءُ قَدْرَ كُرٍّ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْ‏ءٌ .”“جب پانی کی مقدار“کر” کے برابر ہو تو کوئی چیز اسے نجس نہیں کر سکتی۔”(۸)

۲ ۔ تینوں اوصاف میں سے ایک کی تبدیلی سےکثیر پانی کے نجس ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حریز نے روایت کی ہے:

كُلَّمَا غَلَبَ الْمَاءُ عَلَى رِيحِ الْجِيفَةِ فَتَوَضَّأْ مِنَ الْمَاءِ وَ اشْرَبْ فَإِذَا تَغَيَّرَ الْمَاءُ وَ تَغَيَّرَ الطَّعْمُ فَلَا تَوَضَّأْ مِنْهُ وَ لَا تَشْرَبْ .” “جب مردار کی بدبو پر پانی ( کی بو) غالب رہے تو اس پانی سے وضو کرو اور پیو؛ لیکن جب پانی (کا رنگ) بدل جائے اور اس کا ذائقہ تبدیل ہو جائے تو اس سے نہ وضو کرو اور نہ پیو۔ ”(۹)

یہ حدیث پانی کی قدرتی حالت و فطرت کے بارے میں ہے۔ لہذا اس اطلاق میں “کر” بھی شامل ہے۔

۳ ۔ منبع والے پانی اور آب “ کر”کے حکم کی یکسانیت کی دلیل:محمد بن اسماعیل بن بزیع کی صحیح روایت ہے:

“ کتبت الی رجل اسأله ان یسأل ابا الحسن الرضا علیه السلام، فقال: مَاءُ الْبِئْرِ وَاسِعٌ لَا يُفْسِدُهُ‏ شَيْ‏ءٌ إِلَّا أَنْ يَتَغَيَّرَ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ فَيُنْزَحُ حَتَّى يَذْهَبَ الرِّيحُ وَ يَطِيبَ طَعْمُهُ لِأَنَّ لَهُ مَادَّةً. ”“ میں نے کسی کو خط لکھا کہ وہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کرے ۔ پھر امام ؑ نے (جواب میں )فرمایا: کنویں کا پانی وسیع ہے۔ جب تک اس کی بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے کوئی چیز اسے نجس نہیں کر سکتی ( جب اس کی بو یا ذائقہ بدل جائے تو) اس سے اتنا پانی نکالا جائے کہ اس کی بدبو ختم ہو جائے اور اس کا ذائقہ بہتر ہو جائے؛ کیونکہ کنویں کا پانی منبع (سے متصل)ہوتا ہے۔”(۱۰)

یہ حدیث مذکورہ دو باتوں پر دلالت کرتی ہے:

۱ ۔کنویں کا پانی نجاست کے ساتھ صرف اتصال کے باعث نجس نہیں ہوتا،

۲ ۔جب پانی، اوصاف ثلاثہ میں سے کسی ایک کے باعث ، متغیر ہوتا ہے تو نجس ہوتا ہے۔

حدیث میں مذکور علت (لان له مادة )کے باعث ، ہر منبع والے پانی پر اس حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔

۴ ۔ نجاست کے ساتھ خالی اتصال سے قلیل پانی کےنجس ہونے کی دلیل: یہ معاویہ بن عمار کی گزشتہ صحیح روایت کا مفہوم(۱۱) ہے اور یہی حکم فقہاء کے درمیان معروف ہے؛ لیکن ابن ابی عقیل اور فیض کاشانی سے منسوب حکم یہ ہے کہ نجاست کے ساتھ صرف متصل ہونے سے قلیل پانی نجس نہیں ہوتا۔(۱۲)

۵ ۔ تدافع کی صورت میں سارےقلیل پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:یہ وہی دلائل ہیں جو مضاف پانی کے احکام میں گزر چکی ہیں۔

۶ ۔ پیمائش کے لحاظ سے “کر” کی مقدارمیں مختلف اقوال:اس بارے میں کئی اقوال ہیں جن میں سے دو اقوال مشہور ہیں:

پہلاقول: “کر” وہ پانی ہے جس کی تین جہات (لمبائی، چوڑائی، گہرائی) تین تین بالشت ہوں۔ نتیجتاً ایک کر ۲۷ بالشت کے برابر ہوگا۔

دوسرا قول:“کر” وہ پانی ہے جس کی تین جہات میں سے ہر ایک ساڑھے تین بالشت پر مشتمل ہو۔ نتیجتاً ایک کر ۷۸ ۴۲ بالشت کے برابر ہوگا۔

پہلے قول کی دلیل: اسماعیل بن جابر کی صحیح روایت ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ‏الْمَاءِ الَّذِي لَا يُنَجِّسُهُ شَيْ‏ءٌ، فَقَالَ: كُرٌّ. قُلْتُ:وَ مَا الْكُرُّ؟ قَالَ: ثَلَاثَةُ أَشْبَارٍ فِي ثَلَاثَةِ أَشْبَارٍ .”“ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس پانی کے بارے میں سوال کیا جسے کوئی نجاست نجس نہیں کر سکتی۔ آپ ؑ نے فرمایا: وہ “کر” پانی ہے۔ میں نے عرض کیا: “کر” کیا ہے؟ فرمایا: تین بالشت ضرب تین بالشت۔”(۱۳)

اس وضاحت کے ساتھ کہ صرف دو جہات کے ذکر کرنے پر اکتفا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تیسری جہت بھی مذکورہ جہات کے برابر ہے؛ لہذا اسے بیان نہیں کیا گیا۔

البتہ اس روایت کی سند پر اعتراض کیا جاسکتا ہےکہ اس روایت کو اسماعیل بن جابر سے ابن سنان نے نقل کیا ہے جبکہ ابن سنان کے بارے میں یہ شک ہے کہ وہ محمد بن سنان ہیں یا عبد اللہ بن سنان ؟ چونکہ محمد بن سنان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے لہذا یہ روایت حت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

لیکن ہاں! جب اس روایت کی بجائے ایک دوسری روایت(۱۴) سے استدلا ل کیا جائے تو مذکورہ اشکال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

دوسرے قول کی دلیل: اس حکم پر حسن بن صالح ثوری کی روایت سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو ابن صالح نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے:

إِذَا كَانَ الْمَاءُ فِي الرَّكِيِّ كُرّاً لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْ‏ءٌ. قُلْتُ:وَ كَمِ الْكُرُّ؟ قَالَ: ثَلَاثَةُ أَشْبَارٍ وَ نِصْفٌ عُمْقُهَا فِي ثَلَاثَةِ أَشْبَارٍ وَ نِصْفٍ عَرْضِهَا .”“ جب حوض میں پانی کی مقدار“ کر” کے برابر ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کر سکتی۔ میں نے عرض کیا:“کر” کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا: گہرائی کے لحاظ سے ساڑھے تین بالشت اور چوڑائی کے لحاظ سے ساڑھے تین بالشت۔”(۱۵)

اسی وضاحت کی روشنی میں جو اسماعیل بن جابر کی روایت میں گزر چکی ہے۔

یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے (کیونکہ حسن بن صالح ثوری کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے)۔ لہذا پہلی روایت کی حجیت کسی معارض کے بغیر اپنی جگہ ثابت رہے گی۔

بارش کا پانی:

بارش کے دوران ، اس کا پانی “کر” کی طرح ہے جو نجاست کے لگے سے ہی نجس نہیں ہوتا۔

جب یہ پانی کسی جگہ جمع ہوجائے ؛لیکن قلیل ہو تواس صورت میں بھی اگر بارش ہو رہی تو وہ “کر” ہی کی طرح ہے۔

جب یہ پانی کسی ایسی چیز کو جو نجس ہو گئی ہو ، لگ کر اس کے اندر تک سرایت کر جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی۔ اسے نچوڑنے یا ایک سے زائد بار اس پر بارش برسنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں ! اگر اس چیز کے صرف ظاہری حصے کو لگ جائے اور اس کے اندرونی حصے تک نہ پہنچے تو اس صورت میں اس کا ظاہری حصہ ہی پاک ہوگا۔

دلائل:

۱ ۔ نجاست سے ساتھ صرف اتصال سے بارش کے پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہشام بن سالم کی روایت کہتی ہے:

أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عهیی السلام عَنِ السَّطْحِ يُبَالُ عَلَيْهِ فَتُصِيبُهُ السَّمَاءُ فَيَكِفُ‏ فَيُصِيبُ الثَّوْبَِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، مَا أَصَابَهُ مِنَ الْمَاءِ أَكْثَرُ مِنْهُ .”“ اس نے امام سے پوچھا:جس چھت پر پیشاب کیا جاتاہے اس پر بارش برسے اورچھت ٹپکنے کی وجہ سے (اس کے چھینٹے )کسی کے کپڑوں کو لگ جائیں تو کیا (حکم) ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: اگر بارش کا پانی پیشاب کی مقدار سے زیادہ ہو تو کوئی اشکال نہیں۔”(۱۶)

اس کے علاوہ بھی روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بارش کا پانی پیشاب کے لگنے سے نجس نہیں ہوتا۔

اوصاف کی تبدیلی کے باعث اس کے نجس ہونے کی دلیل: حریز کی صحیح حدیث، جو کثیر پانی کے احکام میں گزر چکی ہے، کا اطلاق اس حکم پر دلالت کرتا ہے۔

۲ ۔ نجس نہ ہونے کابارش کے نزول کے وقت سے مشروط ہونے کی دلیل:جب بارش تھم جائے تو اس پانی پر بارش کا پانی صادق نہیں آتا ؛ بلکہ یہ قلیل پانی کہلاتا ہے۔ پس اس پر قلیل پانی کا حکم جاری ہوگا۔

۳ ۔ بارش کےدوران اس کے قلیل پانی کا “کر” کی طرح ہونے کی دلیل: بارش کے دوران یہ پانی منبع والا پانی بن جاتا ہے اور ابن بزیع کی گزشتہ روایت میں مذکورعلت (لان له مادة ) کا عموم اس پر بھی صادق آتا ہے۔

۴ ۔ بارش کا پانی لگنے سے ، نچوڑے اور ایک سے زائد بار برسے بغیر نجس شدہ چیز کے پاک ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہاء میں مشہور ہے جس پر کاہلی کی وہ روایت دلالت کرتی ہے جو اس نے کسی شخص کی وساطت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کی ہے:

“...كُلُّ شَيْ‏ءٍ يَرَاهُ مَاءُ الْمَطَرِ فَقَدْ طَهُرَ .” ،“ ۔۔۔ ہروہ چیز جس تک بارش کا پانی پہنچے ، پاک ہو جائے گی۔”(۱۷)

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نجس شدہ چیز کے پاک ہونے کے لئے بارش کے پانی کا اس تک پہنچنا ہی کافی ہے۔فقہاء کے مشہور فتویٰ سے اس کی سند کا ضعف بھی دور ہوتا ہے بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ شہرت فتوائی ضعف سند کو دور کرتی ہے۔

۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ بارش کے پانی کا نجس چیز میں پوری طرح سرایت کرجانا شرط ہے:وہ یوں کہ مکمل سرایت کئے بغیر پوری چیز کی نسبت سے رؤیت (پانی لگنے ) کا عنوان صادق نہیں آتا۔

۶ ۔ ظاہری حصے کو بارش لگنے کی صورت میں صرف ظاہر کے پاک ہونے کی دلیل:اس صورت میں صرف ظاہری سطح پر پانی لگنے (رؤیت) کا عنوان صادق آتا ہے۔

رفع حاجت کے احکام

شرمگاہ کو چھپانا:

رفع حاجت کے وقت نیز تمام حالتوں میں مکلف پر واجب ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو ہر ممیز ناظر سے چھپا ئے۔ سوائے میاں بیوی کے یا ان کے جو میاں بیوی کے حکم میں ہیں۔

دلائل:

۱ ۔شرمگاہ کو چھپانے کے وجوب کی دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

( قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَ يحَْفَظُواْ فُرُوجَهُمْ ) “ آپ مومنوں سے کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔”(۱۸)

البتہ یہ اس بنا پر ہے کہ آیت مجیدہ میں حفاظت سے مراد صرف زنا سے بچانا نہیں بلکہ اس سے مراد ہر جہت سے بچانا ہے۔

دوسری دلیل:شرمگاہوں کو چھپانا فقہ کا مسلمہ حکم ہے۔

تیسری دلیل :یہ بعض احادیث سے عبارت ہے۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے رفاعۃ کی نقل کردہ صحیح روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ كانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَدْخُلِ الْحَمَّامَ إِلَّا بِمِئْزَرٍ .”“جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ حمام میں تہبند کے بغیر داخل نہیں ہوتا۔ ”(۱۹)

یاد رہے کہ حدیث شریف میں حمام اور تہبند کا ذکر ہے؛ لیکن یہ ایک قطعی بات ہے کہ مذکورہ حکم کے ثبوت میں حمام اور تہبند دخیل نہیں ہیں۔

اسی طرح حریز نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ صحیح حدیث نقل کی ہے:

لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ أَخِيهِ .”“ کوئی آدمی اپنے بھائی کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔”(۲۰)

یہاں پر ان دو باتوں کا اضافہ ضروری ہے:

۱ ۔عرف عام میں دیکھنے کی حرمت کا لازمہ ،چھپانے کا وجوب ہے(کہ دیکھنا حرام ہے تو چھپانا واجب ہے)۔

۲ ۔ حرمت کا یہ حکم صرف اس مورد سے مختص نہیں کہ مرد ، دوسرے مرد کی شرمگاہ کو دیکھے( یعنی یہ روایت مردوں سے مختص نہیں بلکہ عام ہے۔)

۲ ۔ ممیز کی شرط کی دلیل:اولاً:غیر ممیز ،دیوانے کی طرح فہم و شعور سے عاری ہوتا ہے۔ ثانیاً انصراف(۲۱) کے باعث تمام ادلہ غیر ممیز کو شامل نہیں ہوتیں۔

۳ ۔ میاں بیوی وغیرہ سے چھپانے کے واجب نہ ہونے کی دلیل: قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کہتی ہے:

( الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلىَ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانهُُمْ ) ،“جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں o سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں سے جو ان کی ملکیت ہیں۔”(۲۲)

دوسری دلیل یہ کہ کسی کے ساتھ وطی کا جائز ہونا اور اس سے چھپانے کا واجب نہ ہونا آپس میں لازم و ملزوم ہیں(یعنی جس سے وطی جائز ہے اس سے چھپاناضروری نہیں)۔

رفع حاجت کے بعض احکام:

مشہور یہ ہے کہ رفع حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنا حرام ہے۔

پیشاب کا مخرج ،ایک مرتبہ صرف پانی کے ساتھ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔ ایک قول کی بنا پر دو مرتبہ دھونا چاہئے۔

پاخانہ کا مخرج،پانی کے علاوہ نجاست کو زائل کرنے والی ہر چیز سے پاک ہو جاتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ اگر نجاست کے محسوس ذرات نہ ہوں ، (رنگ، بو اور ذائقہ ) تبدیل نہ ہو اور کوئی دوسری نجاست اس کے ساتھ نہ لگی ہو تو استنجاء کا پانی پاک ہے۔

دلائل:

۱ ۔ رفع حاجت کے وقت روبقبلہ یا پشت بقبلہ ہونے کے حرام ہونے کی دلیل:تمام فقہاء کا اس حکم پر متفق ہونا اس حکم کی دلیل ہے۔ البتہ بعض متاخر فقہاء مثلا صاحب مدارک نے اسےمکروہ قرار دیا ہے۔(۲۳)

اس مسئلے میں گزشتہ فقہاء کے درمیان موجود اتفاق اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ان کے اتفاق سے یہ مکشف ہوتا ہے کہ حکم معصوم علیہ السلام سے صادر ہوا ہے اور دست بدست ان تک پہنچا ہے ورنہ اگر (ان کا اتفاق نہ ہو اور ) روایات کی طرف رجوع کیا جائے تو (ان روایتوں سے حرام ہونے کا حکم ثابت نہیں ہوتا کیونکہ) ان میں سند کے لحاظ سے ضعیف روایات بھی موجود ہیں مثلا:رسول خدا ﷺ سے ہاشمی کی یہ روایت:

إِذَا دَخَلْتَ الْمَخْرَجَ فَلَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَ لَا تَسْتَدْبِرْهَا وَ لَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا .”“جب تو بیت الخلاء جائے تو قبلے کی طرف منہ اور پشت کرکے مت بیٹھنا ؛ بلکہ مشرق یا مغرب کی سمت بیٹھنا ۔”(۲۴)

اور کچھ روایات کی سند اور دلالت دونوں ضعیف ہیں مثلا محمد بن یحیی کی یہ مرفوعہ روایت :

سُئِلَ أَبُو الْحَسَنِ علیه السلام مَا حَدُّ الْغَائِطِ؟ قَالَ: لَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَ لَا تَسْتَدْبِرْهَا وَ لَا تَسْتَقْبِلِ الرِّيحَ وَ لَا تَسْتَدْبِرْهَا .”“ حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ پاخانے کی حدود کیا ہیں؟(یعنی بیت الخلاء میں کیسے بیٹھا جائے؟) فرمایا: نہ ہی قبلے کی جانب رخ اور پشت کرنا اور نہ ہوا کی طرف۔”(۲۵)

اس روایت کا سیاق اس بات کا قرینہ ہے کہ ( جس طرح رفع حاجت کے دوران ہوا کی طرف رخ یا پشت نہ کرنا واجب نہیں ؛ بلکہ اسلامی آداب میں شامل ہے اسی طرح )قبلے کی طرف رخ یا پشت نہ کرنا بھی (واجب نہیں ؛ بلکہ ) اسلامی آداب میں شامل ہے۔

جب روایات ضعیف ہوں اور اجماع کرنے والوں کے بارے میں بھی یہ احتمال ہو کہ انہوں نے انہی روایات پر اعتماد کیا ہے(۲۶) تو رفع حاجت کے وقت رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہونے کو حرام قرار دینے کا حکم صادر کرنے میں اشکال ہے ۔

۲ ۔ پیشاب کے مخرج کا صرف پانی سے پاک ہونے کی دلیل: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ کی نقل کردہ صحیح حدیث میں مذکور ہے :

لَا صَلَاةَ إِلَّا بِطَهُور.وَ يُجْزِيكَ مِنَ الِاسْتِنْجَاءِ ثَلَاثَةُ أَحْجَارٍ. بِذَلِكَ جَرَتِ السُّنَّةُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص. وَ أَمَّا الْبَوْلُ فَإِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ غَسْلِهِ .” “ طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔ تیرے لئے استنجا کی خاطر تین پتھر کافی ہیں، پیغمبر خدا ﷺ کی روش یہی تھی۔ ہاں! پیشاب کے لئے دھونا ضروری ہے۔ ”(۲۷)

علاوہ از ایں پانی ہی سے پاک ہونا اصل کا تقاضا ہے اورکسی روایت کی ضرورت ہی نہیں۔

۳ ۔ پیشاب کے مخرج کا صرف ایک مرتبہ دھونا کافی ہونے کی دلیل: اس حکم پربعض روایات دلالت کرتی ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی جمیل بن دراج کی روایت کہتی ہے:

إِذَا انْقَطَعَتْ دِرَّةُ الْبَوْلِ فَصُبَّ الْمَاءَ .” “ جب پیشاب رک جائے تو اس پر پانی ڈالو۔ ”(۲۸)

ڈالنا ایک عمل ہے ،جو“ ایک مرتبہ” پربھی ڈالنا صادق آتا ہے۔

۴ ۔ کئی بار دھونا ضروری ہونے کی دلیل:یہ دلیل اس اعتراض پرمشتمل ہے جو (جمیل بن دراج کی ) گزشتہ روایت اور اس جیسی دوسری روایات پر اٹھایا گیا ہے کہ یہ روایتیں تعداد بیان کرنے کے درپے نہیں ہیں؛ لہذا اصل کی طرف رجوع کرناپڑے گا۔ جس کے مطابق نجاست کا استصحاب کرتے ہوئے ، کئی بار دھونا چاہئے۔

۵ ۔ مخرج پاخانہ کے ہر زائل کنندہ چیز سے پاک ہونے کی دلیل:اس حکم پر زرارہ کی سابق روایت اس شرط کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ پتھروں کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہو۔

بلکہ امام رضا علیہ السلام سے مروی ابن مغیرہ کی صحیح روایت وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ طہارت کی شرط صاف ہوناہے خواہ کسی بھی چیز سے صاف کیا جائے۔

قُلْتُ لَهُ: لِلِاسْتِنْجَاءِ حَدٌّ ؟ قَالَ: لَا، يُنَقَّى مَا ثَمَّةَ قُلْتُ فَإِنَّهُ يُنَقَّى مَا ثَمَّةَ .” “ میں نے امام سے عرض کیا: استنجاء کی کیا کوئی حد ہے؟ فرمایا: نہیں! (بلکہ) جس چیز سے بھی صاف ہو جائے ، پاک ہو جاتا ہے۔”(۲۹)

۶ ۔ استنجاء کے پانی کے پاک ہونے کی دلیل :اس حکم کی دلیل وہ روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ جس چیز کو استنجاء کا پانی لگ جائے وہ پاک ہے۔ اس مطلب کے اضافے کے ساتھ کہ اگرجس چیز کو یہ پانی لگے وہ پاک رہتی ہے تو عرفاً، لگنے والی چیز بھی پاک ہی ہوگی۔مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی “احول” کی صحیح روایت کہ:

أَخْرُجُ مِنَ الْخَلَاءِ فَأَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ فَيَقَعُ ثَوْبِي فِي ذَلِكَ الْمَاءِ الَّذِي اسْتَنْجَيْتُ بِهِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ .” “بیت الخلاء سے نکلتے ہوئے میرے کپڑے اس پانی سے لگ جاتے ہیں جس سے میں استنجاء کرتا ہوں۔ فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔”(۳۰)

۷ ۔ پانی (کے رنگ ،بو اور ذائقے ) میں تبدیلی نہ آنا ضروری ہونے کی دلیل:“مطلق پانی اور اس کے احکام ” میں ذکر کی گئی روایتوں کا عموم اس حکم پر دلالت کرتا ہےکہ نجس کے رنگ میں رنگ جانے والا پانی نجس ہے۔

۸ ۔استنجاء کا پانی پاک ہونے کے لئےنجاست کے ذرات کی عدم موجودگی شرط ہونے کی دلیل: چونکہ عفو اور بخشش کی دلیلیں استنجاء کے پانی کی طہارت کا حکم اس وقت لگاتی ہیں جب نجاست اپنی ہی جگہ پر ہو نہ کہ ہرجگہ۔

۹ ۔ اس پانی کے ساتھ کسی دوسری نجاست کی عدم موجودگی شرط ہونے کی دلیل:عفو اور بخشش کی روایات کے مطابق یہ پانی استنجاء کے وقت پیشاب اور پاخانے کی وجہ سے نجس نہیں ہوتا؛ جبکہ کسی اور قسم کی نجاست کے لگنے کی صورت کو یہ روایات بیان نہیں کر رہی ہیں؛ لہذا ان دلیلوں کے اطلاق سے تمسک کیا جائے گا جن کے مطابق قلیل پانی ، نجاست کے ساتھ ملنے سے ہی نجس ہو جاتا ہے۔