دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة) مؤلف:
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: مشاہدے: 14824
ڈاؤنلوڈ: 3349

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14824 / ڈاؤنلوڈ: 3349
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

موت اور مس میت کے احکام

مشہور یہ ہے کہ جب کوئی احتضار کے عالم میں ہو تو اس کو قبلہ کی طرف اس طرح پھیرنا واجب کفائی ہے کہ اگر بیٹھ جائے تو اس کا چہرہ قبلے کی جانب ہوتا ہو ۔

جب وہ مرجائے تو ابتداء میں سدر (بیری) کے پانی سے ، دوسری دفعہ کافور کے پانی سے اور تیسری دفعہ مطلق پانی سےغسل دینا واجب کفائی ہے۔اس غسل کا طریقہ بھی غسل جنابت کی مانند ہے۔ پہلے اور دوسرے غسل میں شرط ہے کہ پانی کے ساتھ سدر اور کافور اتنی مقدار میں نہ ملائے کہ اسے مطلق پانی نہ کہا جا سکے۔

غسال کے لئے ضروری ہے کہ وہ میت کا ہم جنس ہو ( کہ اگر میت مرد ہو تو غسال بھی مرد ہواور اگر عورت ہو تو غسال بھی عورت ہو)۔ البتہ میاں بیوی، تین سال سے کم عمر بچہ اور محرم کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔

میت کو غسل دینے کے بعد،پاک اور پسے ہوئے کافور سے ،اس کے سات اعضائے سجدہ(پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گٹھنوں اور پاؤں کے دونوں انگوٹھوں) کو حنوط کرنا واجب ہے۔

پھر اسے تین کپڑوں میں کفن پہنانا چاہئے۔ پہلا کپڑا اس کی ناف سے گٹھنوں تک کے درمیانی حصے کو چھپائے جسے شلوار کہاجاتا ہے۔ دوسرا کپڑا اس کے کندھوں سے آدھی پنڈلیوں تک کے حصے کو چھپائے جسے قمیص کہا جاتا ہے اور تیسرا کپڑا اس کے پورے بدن کو ڈھانپ لے اسے چادر کہا جاتا ہے۔

مسلمان میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد اگر اس کی عمر چھے سال سے کم نہ ہو تو اس پر نماز پڑھنا واجب ہے۔اس نماز میں پانچ تکبیریں ہیں ۔ پہلی تکبیر کے بعد شہادتین اور دوسری تکبیر کے بعد نبی اکرم ﷺ پر صلوات پڑھی جاتی ہے،تیسری تکبیر کے بعد مومنین کے لئے اور چوتھی تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا مانگی جاتی ہے؛ اس کے بعد پانچویں تکبیر کہہ کر نماز کو ختم کیا جاتا ہے۔

نماز میت میں نمازی کا حدث اور خبث سے پاک ہونا نیز اس کے لباس کا مباح ہونا ضروری نہیں۔

نماز کے بعد میت کو زمین میں اس طرح چھپا کر دفنایا جاتا ہے کہ اس کا بدن درندوں کی پہنچ سے امان میں رہے اور لوگوں کو اس کی بدبو سے اذیت نہ پہنچے۔ میت کو قبر میں دائیں پہلو پر اس طرح سے رکھا جاتا ہے کہ اس کا چہرہ قبلے کی طرف ہو۔

غسل دینے سے پہلے میت کو چھونے کی صورت میں:

۱ ۔ اگر کوئی رطوبت ہو تو چھونے والے کا وہ عضو نجس ہوجاتا ہے،

۲ ۔ اگر میت کسی انسان کی ہو اور سرد ہوچکی ہو تو چھونے والے پر غسل مس میت واجب ہوجاتا ہے۔

دلائل:

۱ ۔میت کو قبلہ رو کرنے کا وجوب،مشہور فتویٰ ہے ۔ اس حکم کی پہلی دلیل “علل الشرائع” میں شیخ صدوق ؒ کی نقل کردہ وہ روایت ہو سکتی ہے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:

دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) عَلَى رَجُلٍ مِنْ وُلْدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ هُوَ فِي السَّوْقِ‏ -النزع- وَ قَدْ وُجِّهَ بِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَقَالَ وَجِّهُوهُ إِلَى الْقِبْلَةِ فَإِنَّكُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ.. .”“رسول اللہ ﷺ ، اولاد عبد المطلب میں سے کسی ایک کے گھر تشریف لے گئے ۔ وہ شخص احتضار کے عالم میں تھا اور قبلہ رخ نہیں تھا۔ آپ ؐ نے فرمایا: اس کو قبلہ رخ کرو! اگر تم اس کو روبقبلہ کرو گے تو فرشتے اس کی طرف آئیں گے۔۔۔”(۱۲۱)

اور اس کی دوسری دلیل سیرت مسلمین ہے۔

مصنف کے نزدیک ان دونوں دلیلوں پر اشکال ہے کہ:

۱ ۔روایت کی سند سے قطع نظر، اس میں بیان کی گئی علت سےمعلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت وجوب پر دلالت نہیں کرتی۔

۲ ۔ سیرت ، وجوب سے عام ہے؛ یعنی: سیرت مسلمین میں واجب اور مستحب دونوں کی گنجائش ہے لہذا اس سے صرف واجب مراد لینا صحیح نہیں۔

۲ ۔ محتضر کو روبقبلہ کرنا اس لئے (واجب )کفائی ہے کہ اس کام کے لئے اگر ایک شخص بھی اقدام کرے تو مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔

۳ ۔ روبقبلہ کرنے کامذکورہ طریقہ گزشتہ روایات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

غسل میت کے احکام:

۱ ۔ میت کو غسل دینے کا وجوب ،مسلمہ امور میں سے ہے اور اس پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سماعہ کی موثق روایت ہے:

غُسْلُ الْجَنَابَةِ وَاجِبٌ...وَ غُسْلُ الْمَيِّتِ وَاجِبٌ .”“غسل جنابت واجب ہے... غسل میت واجب ہے۔”(۱۲۲)

غسل میت کے واجب کفائی ہونے کی دلیل وہی ہے جو محتضر کے حکم میں بیان کی گئی ہے۔

۲ ۔ میت کو تین بار غسل دینا ضروری ہونے پر بعض روایت دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ابن مسکان کی روایت صحیحہ ہے :

سَأَلْتُهُ عَنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ، فَقَالَ‏: اغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَ سِدْرٍ ثُمَّ اغْسِلْهُ عَلَى أَثَرِ ذَلِكَ غَسْلَةً أُخْرَى بِمَاءٍ وَ كَافُورٍ وَ ذَرِيرَةٍ إِنْ كَانَتْ وَ اغْسِلْهُ الثَّالِثَةَ بِمَاءٍ قَرَاحٍ ....”“میں سے امام ؑ سے غسل میت کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: میت کو سدر کے پانی سے غسل دو پھر اسی تری کے اوپر کافور کے پانی سے یاذریرہ(۱۲۳) ہو تو اس کے پانی سے ایک اور غسل دو پھر تیسری بار اسے آب مطلق سے غسل دو۔۔۔ ”(۱۲۴)

۳ ۔ غسل میت کا طریقہ بھی غسل جنابت کی مانند ہونے کی دلیل،غسل حیض کے بیان میں گزر چکی ہے۔ اس کے علاوہ خصوصاًغسل میت کو بیان کرنے والی بعض روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔(۱۲۵)

۴ ۔ پانی کے ساتھ سدر یا کافور کو اس حد تک نہ ملائے کہ پانی کو مطلق نہ کہا جا سکے، اس حکم کی دلیل ،ابن مسکان کی گزشتہ روایت صحیحہ اور بعض دوسری روایات ہیں۔

۵ ۔ غسال اور میت میں جنس کے لحاظ سے مماثلت ضروری ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ دلالت کرتی ہے:

سَأَلَهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَمُوتُ فِي السَّفَرِ وَ لَيْسَ مَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ وَ لَا نِسَاءٌ قَالَ: تُدْفَنُ كَمَا هِيَ بِثِيَابِهَا. وَ عَنِ الرَّجُلِ يَمُوتُ وَ لَيْسَ مَعَهُ إِلَّا النِّسَاءُ لَيْسَ مَعَهُنَّ رِجَالٌ‏، قَالَ: يُدْفَنُ‏ كَمَا هُوَ بِثِيَابِهِ .”“امام ؑ سے ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جو سفر میں مرجاتی ہے جبکہ اس کے ساتھ کوئی محرم یا کوئی دوسری عورت نہیں ہے، فرمایا:اسے اپنے کپڑوں سمیت دفنایا جائے گا۔ نیز ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو مرجاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ عورتوں کے سوا کوئی نہیں ہے اور ان عورتوں کے ہمراہ بھی کوئی مرد نہیں ہے، فرمایا: اسے اپنے کپڑوں سمیت دفنایا جائے گا۔”(۱۲۶)

۶ ۔ میاں بیوی کو اس شرط سے مستثنیٰ قرار دینے کے لئے ، حلبی کی گزشتہ روایت صحیحہ کے ساتھ تقریر معصوم کی دلالت کا اضافہ کرتے ہوئے استدلال کیا جا سکتا ہے۔

البتہ اگر کوئی اس استدلال پر اشکال کرے تو ہم،مورد نظر حکم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرنے والی دوسری روایات(۱۲۷) سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

بچے کو مستثنیٰ قرار دینے کےحکم کو ثابت کرنے کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ جو روایات ،میت اور غسال میں مماثلت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں بچہ شامل نہیں ہے؛ کیونکہ روایات مرد اور عورت سے مختص ہیں جبکہ بچہ یا بچی کو مرد یا عورت نہیں کہا جاتا۔ لہذا بچے کے لحاظ اصالۂ برائت جاری کیا جائے گا۔

محرم کو مستثنیٰ قرار دینے کے حکم کو ثابت کرنے کے لئے بھی حلبی کی گزشتہ روایت صحیحہ سے مذکورہ وضاحت کے ساتھ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔اگر اس سے قطع نظر کر لیا جائے تو مورد نظر حکم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرنے والی بعض دوسری روایات(۱۲۸) سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

رہا یہ سوال کہ جب تک بالغ نہ ہوجائے تب تک بچے پر مرد یا عورت کا عنوان صادق نہیں آتا اس کے باوجود بچے کے لئے تین سال کی شرط لگانے کی کیا وجہ ہے؟

مذکورہ شرط مشہور فتویٰ کے مطابق ہے جسے ثابت کرنے کے لئے “ابو نمیر”کی روایت سے تمسک کیا جاتا ہے:

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام حَدِّثْنِي عَنِ الصَّبِيِّ إِلَى كَمْ تُغَسِّلُهُ النِّسَاءُ فَقَالَ إِلَى ثَلَاثِ سِنِينَ .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بچے کے بارے میں سوال کیا کہ کس عمر تک ، عورت اس کو غسل دے سکتی ہے؟ فرمایا: تین سال کی عمر تک۔”(۱۲۹)

اگرچہ یہ روایت بچے کے بارے میں ہے مگر اس بات پر بطریق اولیٰ دلالت کررہی ہے کہ مرد بھی تین سال سے زیادہ عمر کی بچی کو غسل نہیں دے سکتا۔

البتہ اس کا راوی “ابو نمیر” مجہول ہے؛ لہذا سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے؛ مگر یہ کہ ہم اس قاعدے کے قائل ہوں کہ شہرت فتوائی کے ذریعے سند کی کمزوری دور ہوجاتی ہے۔

لیکن اگر ہم مذکورہ قاعدے کے قائل نہ ہوں تب بھی مشہور فتویٰ کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حنوط کے احکام:

۱ ۔سجدہ کے اعضاء کو حنوط کرنا واجب ہونے پر بعض روایتیں دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

إِذَا جَفَّفْتَ الْمَيِّتَ عَمَدْتَ إِلَى الْكَافُورِ فَمَسَحْتَ بِهِ آثَارَ السُّجُود ...”“جب تم میت کے بدن کوخشک کرو تو کافور لے کر اس کے اعضائے سجدہ پر مل لو۔ ”(۱۳۰)

۲ ۔ حنوط کا (واجب) کفائی ہونا اسلئے ہے کہ اگر ایک شخص بھی اقدام کرے تو مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔

۳ ۔ کافور کے پاک ہونے کی شرط ،شریعت پر عمل پیرا افراد کے ارتکاز ذہنی سے عبارت ہے ؛ کیونکہ صاحبِ شرع نے میت کے بدن اور کفن کے پاک ہونے کی شرط رکھی ہے؛ بلکہ نجس ہونے کی صورت میں کفن کے کاٹنے اور بدن کے دھونے کا حکم دیا ہے۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ صاحب شرع طبعاً یہ چاہتا ہے کہ میت کے ساتھ کسی قسم کی نجاست نہ ہو۔

۴ ۔ کافور کے لئے پسا ہوا ہونا شرط ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ ایک مرسل(۱۳۱) روایت ہے جو ابراہیم بن ہاشم نے اپنے سلسلہ سند کے ذریعے یونس سے اور یونس نے ائمہ علیہہم السلام سے نقل کی ہے:

“...ثُمَّ اعْمِدْ إِلَى كَافُورٍ مَسْحُوقٍ فَضَعْهُ عَلَى جَبْهَتِه ...”“۔۔۔پھر پسا ہوا کافور لے کر اس کی پیشانی پر رکھو۔۔۔”(۱۳۲)

اس روایت کا مرسل ہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا کیونکہ ابراہیم کے سلسلہ سند میں مذکور تمام راویوں کے ضعیف ہونے کا احتمال نہیں ۔

کفن کے احکام:

۱ ۔ میت کو تین کپڑوں میں کفن پہنانا واجب ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

إِنَّمَا الْكَفَنُ الْمَفْرُوضُ ثَلَاثَةُ أَثْوَاب ...”“واجب کفن ، تین کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔۔۔”(۱۳۳)

۲ ۔ کفن پہنانے کے مذکورہ طریقے پر مسلمانوں کی مسلسل سیرت کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہوتا تو حتما وہی طریقہ مسلمانوں کے درمیان مشہور اور معروف ہوتا؛ کیونکہ کفن پہنانے کا مسئلہ تمام مسلمانوں کو عموماً پیش آنے والے مسائل میں سے ہے۔

علاوہ بر ایں ،اس حکم کی کوئی قابل اعتماد دلیل نہ ملنے کی صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ طریقے پر مسلمانوں کا ارتکاز ذہنی ہے جو ان میں وراثتاً پایا جاتا ہے جس سے منکشف ہوتا ہے کہ یہ طریقہ انہوں نے معصومین علیہم السلام سے پایا ہے۔

نماز میت کے احکام:

۱ ۔ میت پر نماز پڑھنے کا وجوب ،اسلام کے مسلمات میں سے ہےجس پر طلحہ بن زید کی موثق روایت دلالت کرتی ہے۔ اس روایت کو طلحہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار ؑ سے نقل کیا ہے:

صَلِّ عَلَى مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ، وَ حِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ .”“اہل قبلہ میں سے جو بھی مرجائے ، اس پر نماز پڑھ! اور اس کا حساب خدا پر ہے۔”(۱۳۴)

اس روایت پر ،اس کی سند میں طلحہ کی موجودگی کے علاوہ ، کوئی اشکال نہیں ہے؛ کیونکہ طلحہ کا موثق ہونا رجال کی کتابوں میں صراحتاً بیان نہیں کیا گیا ہے۔مگر شیخ طوسی ؒ کے اس بیان “ طلحہ کی کتاب قابل اعتماد ہے”(۱۳۵) کے ذریعے یہ مسئلہ بھی آسان ہوجاتا ہے۔

۲ ۔ اس نمازکے صرف مسلمان میت کے ساتھ مختص ہونے پر مسلمانوں کی سیرت دلالت کر تی ہے۔ نیز قرآن مجید کی آیت میں بیان کی گئی علت کے عموم سے بھی یہی حکم ثابت ہوتا ہے:

( وَ لَا تُصَلّ‏ِ عَلىَ أَحَدٍ مِّنهُْم مَّاتَ أَبَدًا وَ لَا تَقُمْ عَلىَ‏ قَبرِْهِ إِنهَُّمْ كَفَرُواْ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ ) “اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے۔”(۱۳۶)

۳ ۔ نماز کا غسل و کفن کے بعد پڑھنا ضروری ہونے میں کسی کا اختلاف ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(یعنی اس حکم پر اجماع ہے) بعض روایات کے ذریعے بھی اس حکم پر استدلال کیا جا سکتا ہے جن میں معصوم ؑ نے حکم کو بیان کرنے کے مرحلے میں غسل اور کفن پر “واو” کے ذریعے نماز کا عطف کیا ہے۔(۱۳۷)

مذکورہ استدلال کو نہ ماننے کی صورت میں صرف “اجماع” رہ جاتا ہے ؛ لیکن وہ بھی“ مدرکی” ہونے کے احتمال کی وجہ سے ضعیف قرار پاتا ہے لہذا “اصالۂ برائت” کے مطابق غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعدہی نماز میت کا پڑھنا ضروری نہیں بلکہ ان دونوں سے پہلے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

البتہ مذکورہ دونوں دلیلوں کے ضعیف ہونے کے باوجود فقیہ کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مشہوربلکہ متفق علیہ حکم کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاطا یہ فتویٰ دے کہ غسل اور کفن کے بعد ہی نماز پڑھنی چاہئے۔

۴ ۔ وجوب ِنماز کے لئے میت کی عمر چھ سال سے کم نہ ہونے کی شرط کو زرارہ کی مندرجہ ذیل روایت صحیحہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے:

مَاتَ ابنٌ‏ لِأَبِي جَعْفَرٍعلیه السلام فَأُخْبِرَ بِمَوْتِهِ، فَأَمَرَ بِهِ فَغُسِّلَ وَ كُفِّنَ وَ مَشَى مَعَهُ وَ صَلَّى عَلَيْهِ فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُصَلَّى عَلَى مِثْلِ هَذَا-وَ كَانَ ابْنَ ثَلَاثِ سِنِينَ -كَانَ عَلِيٌّ علیه السلام يَأْمُرُ بِهِ فَيُدْفَنُ وَ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَ لَكِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا شَيْئاً، فَنَحْنُ نَصْنَعُ مِثْلَهُ. قَالَ قُلْتُ: فَمَتَى تَجِبُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: إِذَا عَقَلَ الصَّلَاةَ وَ كَانَ ابْنَ سِتِّ سِنِينَ .”“حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ایک فرزند کا انتقال ہو گیا۔ آپ ؑ کو اس کی خبر دی گئی ۔ آپ ؑ کے حکم کے مطابق جب اسے غسل دیا اور کفن پہنایا گیا تو آپ ؑنے جنازے کی تشییع کی اور اس پر نماز ادا کی۔۔۔ پھر فرمایا:آگاہ ہوجاؤ کہ اس جیسے میت پر نماز نہیں پڑھی جاتی (کہ وہ تین سالہ بچہ تھا) امیر المومنین علیہ السلام اس طرح کی میت کو دفنانے کا حکم دیتے اور اس پر نماز نہیں پڑھتے تھے؛ لیکن لوگوں نے ایسا کام انجام دیا ہے لہذا ہم بھی اسی طرح انجام دیتے ہیں۔ راوی کہتا ہے: میں نے سوال کیا: پس میت پر کب نماز واجب ہوجاتی ہے؟ فرمایا: جب اسے نماز کی سوجھ بوجھ آجائے اور چھ سال کو پہنچے۔”(۱۳۸)

۵ ۔ نماز میت میں پانچ تکبیروں کے واجب ہونے پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عبد اللہ بن سنان نے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:

التَّكْبِيرُ عَلَى الْمَيِّتِ خَمْسُ تَكْبِيرَاتٍ .”“میت پر پانچ تکبیریں (کہی جاتی ) ہیں۔”(۱۳۹)

لیکن مذکورہ کیفیت کے ساتھ تکبیر کہنے کی کوئی کامل دلیل موجود نہیں ہے۔ البتہ نماز میت میں پیغمبر اکرم ﷺ پر صلوات پڑھنا اور میت کے لئے دعا مانگنا واجب ہونے پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ایک روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:

لَيْسَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ قِرَاءَةٌ وَ لَا دُعَاءٌ مُوَقَّتٌ.تَدْعُو بِمَا بَدَا لَكَ.وَ أَحَقُّ الْمَوْتَى أَنْ يُدْعَى لَهُ الْمُؤْمِنُ، وَ أَنْ يُبْدَأَ بِالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.”“ نماز میت میں قرائت اور کوئی مخصوص دعا نہیں ہے ۔تو جو چاہے دعا کرسکتا ہے؛ لیکن میت کا حق ہے کہ مومن اس کے دعا کرے اور پیغمبر اکرم ﷺ پر صلوات بھیجنے کے ذریعے اس دعا کی ابتداء کرے۔”(۱۴۰)

البتہ بعض روایات کی رو سے،آجکل لوگوں کے درمیان ، نماز میت کی رائج اور متداول کیفیت کاجائز ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ اسی کیفیت کا ضروری ہونا۔(۱۴۱)

۶ ۔ نماز میت میں حدث اور خبث سے پاک ہونا کی شرط کے نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی عدم موجودگی ہی کافی ہےاورجو دلیلیں نماز کے لئے حدث اور خبث سے پاک ہونا شرط جانتی ہیں جیسے :( يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوةِ فَاغْسِلُواوجوهکم و ایدیکم ...) “اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چہروں اور ہاتھوں کو دھو لو۔۔۔”(۱۴۲) یہ دلیلیں حقیقی نماز سے مختص ہیں اور نماز میت“دعا” ہے۔

نیز یونس بن یعقوب کی روایت صحیحہ میں ذکر ہوا ہے :

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِعلیه السلام عَنِ‏الْجِنَازَةِ أُصَلِّي‏ عَلَيْهَا عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ؟ فَقَالَ نَعَمْ، إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ وَ تَسْبِيحٌ وَ تَحْمِيدٌ وَ تَهْلِيل ...”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جنازہ سے متعلق سوال کیا : کیا میں اس پر وضو کے بغیر نماز پڑھ سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں! یہ صرف تکبیر و حمد اور تسبیح و تہلیل ہے۔۔۔”(۱۴۳)

یہ روایت ،حدث سے پاک ہونا ضروری نہ ہونے پر صراحتاً دلالت کررہی ہے (کیونکہ سوال وضو کے بارے میں ہے)؛ جبکہ خبث سے پاک ہونا ضروری نہ ہونا ، مذکورہ علت سے معلوم ہوتا ہے۔

دفن کے احکام:

۱ ۔ دفنانے کے وجوب کا حکم “متفق علیہ” احکام میں سے ہے ۔اس پر تمام مسلمانوں کا ارتکاز ذہنی موجود ہےاور دفن کے بارے میں ذکر کی گئی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔

۲ ۔ زمین میں چھپانے کو دفن کہنے کی دلیل: روایات میں مذکور لفظ “دفن” کا ظاہر یہ ہے کہ مردے کو زمین میں چھپا دیا جائے۔

۳ ۔ مذکورہ دو شرطیں ( یعنی مردے کا جسم درندوں سے محفوظ رہے اور لوگوں کو اس کی بد بو سے اذیت نہ پہنچے)، روایات سے ظاہر ہوتی ہیں کہ جب“دفنانا ” میت کے احترام کی خاطر ہے تو جب تک مذکورہ شرطیں پوری نہ ہوجائیں میت کا احترام نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ قبر میں دائیں پہلو لٹا کر قبلہ رخ رکھنا ضروری ہونے میں کسی کا اختلا ف ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یعقوب بن یقطین کی روایت صحیحہ کے ذریعے بھی اس پر استدلال کیا جاتا ہے:

سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیه السلام عَنِ الْمَيِّتِ كَيْفَ يُوضَعُ عَلَى الْمُغْتَسَلِ، مُوَجَّهاً وَجْهُهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ أَوْ يُوضَعُ عَلَى يَمِينِهِ وَوَجْهُهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ؟ قَالَ: يُوضَعُ كَيْفَ تَيَسَّرَ، فَإِذَا طَهُرَ وُضِعَ كَمَا يُوضَعُ فِي قَبْرِهِ .”“میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ مردے کو غسل کی جگہ پر کس طرح رکھا جائے گا، قبلہ رخ یا دائیں پہلو کے بل، کہ اس کا چہرہ قبلے کی جانب ہو؟ فرمایا: جیسے آسانی ہواسی طرح رکھا جائے گا اور جب وہ پاک ہوجائے تو اسے جس طرح قبر میں رکھا جاتا ہے اسی طرح رکھا جائے گا۔”(۱۴۴)

اس روایت کا آخری حصہ،میت کو قبر میں رکھنے کی خاص کیفیت موجود ہونے پر دلالت کررہا ہےاور جب وہ اس کیفیت سے ،جس پر دینداروں کی سیرت قائم ہوئی ہے ، مختلف ہونے کا احتمال نہ ہو تو یہ بات طے ہوجائے گی کہ امام ؑ کا مقصد یہی کیفیت ہے۔

مس میت کے احکام:

۱ ۔ میت کو چھونے سے مس شدہ چیز کے نجس ہونےکی دلیل،حلبی کی روایت ہے جو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يُصِيبُ ثَوْبُهُ جَسَدَ الْمَيِّتِ، فَقَالَ: يَغْسِلُ مَا أَصَابَ الثَّوْبَ .”“میں نے امام ؑ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ جس کا لباس میت سے مس ہوا تھا، فرمایا: لباس کے اس حصے کو دھوئے گا وہ جو میت سے مس ہوا ہے۔”(۱۴۵)

اگرچہ اس روایت کا اطلاق ،میت کے خشک ہونے کی صورت میں بھی اس کے نجس ہونے پر دلالت کرتا ہے؛ لیکن دینداروں کے ارتکاز ذہنی کی وجہ سے مس ہونے والی چیز کا نجس ہونا اس حالت کے ساتھ مختص کیا جاتا ہے جب کوئی رطوبت ہو۔

۲ ۔ میت کو چھونے سے غسل واجب ہونے کی دلیل: حضرت امام محمد باقر یا جعفر صادق علیہما السلام میں سے کسی ایک سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

الرَّجُلُ يُغَمِّضُ‏ الْمَيِّتَ، أَ عَلَيْهِ غُسْلٌ؟ قَالَ: إِذَا مَسَّهُ بِحَرَارَتِهِ فَلَا، وَ لَكِنْ إِذَا مَسَّهُ بَعْدَ مَا يَبْرُدُ فَلْيَغْتَسِل‏.”“ اگر کوئی شخص کسی میت کی آنکھوں کوبند کرے تو کیا اس پر غسل واجب ہے ؟ فرمایا: اگر اس وقت میت کا بدن گرم ہو تو غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر اس کا جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد مس کرے تو غسل کرناواجب ہے۔”(۱۴۶)

یہ روایت جس طرح غسل مس میت کے اصل ِوجوب پر دلالت کرتی ہے اسی طرح اس قید پر بھی دلالت کر تی ہے کہ میت کا جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد، اس کو چھونے سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔

۳ ۔ صرف انسان کی میت کو چھونے سے غسل واجب ہونے پر حلبی کی صحیح روایت دلالت کررہی ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَمَسُّ الْمَيْتَةَ أَ يَنْبَغِي‏أَنْ يَغْتَسِلَ مِنْهَا؟ فَقَالَ: لَا، إِنَّمَا ذَلِكَ‏ مِنَ الْإِنْسَانِ ”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو مردار کو چھوتا ہے ، کیا اسے غسل کرنا چاہئے؟ فرمایا: نہیں! یہ (غسل )صرف انسان (کے جسم کے ساتھ مس کرنے) سے (مختص) ہے۔”(۱۴۷)

اس کے علاوہ “اصالہ برائت”جاری کرنا بھی کافی ہے؛ کیونکہ غسل مس میت کو واجب قرار دینے والی دلیلیں، غیر انسان کے مردار کو چھونے کی صورت میں غسل کے وجوب کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔