دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة) مؤلف:
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: مشاہدے: 14895
ڈاؤنلوڈ: 3382

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14895 / ڈاؤنلوڈ: 3382
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نجاسات کے احکام

نجاسات دس ہیں:

پیشاب اور پاخانہ:

پرندوں کے علاوہ تمام خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت حیوانوں کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔اگران دو شرطوں ( خون جہندہ رکھنے یا نہ رکھنے نیز حلال گوشت ہونے یا نہ ہونے) میں شک ہو تو اس حیوان پر پاک ہونے کا حکم جاری ہوگا۔

دلائل:

۱ ۔ نجاسات کا دس چیزوں میں منحصر ہونا استقراء کی وجہ سے ہے۔

۲ ۔ پیشاب اور پاخانہ کے نجس ہونے میں ،مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت امام محمد باقر یا جعفر صادق علیہما السلام میں سے کسی ایک سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ بھی اس پر دلالت کرتی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الْبَوْلِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، فَقَالَ: اغْسِلْهُ مَرَّتَيْنِ .”“میں نے امام ؑ سے کپڑے کو لگنے والے پیشاب کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: اس کپڑے کو دو مرتبہ دھو لے۔”(۱۶۶)

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت کا مفہوم بھی اسی حکم پر دلالت کرتا ہے:

كُلُّ مَا أُكِلَ لَحْمُهُ فَلَا بَأْسَ بِمَا يَخْرُجُ مِنْهُ .”“جس حیوان کا گوشت حلال ہو اس سے خارج ہونے والی چیزوں میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔”(۱۶۷)

۳ ۔ پیشاب اور پاخانہ کے نجس ہونے میں حیوان کے حرام گوشت ہونے کی شرط بھی مذکورہ بالا موثق روایت سے ہی معلوم ہوتی ہے۔

حیوان کا خون جہندہ رکھنے والا ہونا ضروری ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ساباطی کی موثق روایت دلالت کر رہی ہے:

سُئِلَ عَنِ الْخُنْفَسَاءِ،وَالذُّبَابِ، وَالْجَرَادِ، وَ النَّمْلَةِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، يَمُوتُ فِي الْبِئْرِ وَالزَّيْتِ وَ السَّمْنِ وَ شِبْهِهِ، قَالَ: كُلُّ مَا لَيْسَ لَهُ دَمٌ فَلَا بَأْسَ .”“میں نے امام ؑ سے پوچھا: اگر کنویں، تیل یا گھی وغیرہ میں گبریلا، مکھی، ٹڈی یا چیونٹی وغیرہ مرجائے تو (کیا حکم ہے؟) فرمایا:جس کا خون جہندہ نہیں ہے اس میں کوئی اشکال نہیں۔”(۱۶۸)

مذکورہ حشرات ،مرنے کے بعدیقینا سڑ جاتے ہیں اور ان کے پیٹ سے پیشاب اور دوسرے فضلات بھی نکلتے ہیں اس کے باوجود امام ؑ نے کسی قید وشرط کے بغیر پاک ہونے کا حکم لگایا ہے۔

۴ ۔ پرندوں کو مذکورہ حکم سے مستثنیٰ قرار دینا، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابوبصیر کی مندرجہ ذیل روایت صحیحہ کی وجہ سے ہے:

كُلُّ شَيْ‏ءٍ يَطِيرُ فَلَا بَأْسَ بِبَوْلِهِ وَ خُرْئِهِ .”“ہر طائر کے پیشاب اور پاخانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔”(۱۶۹)

۵ ۔ دو قیود ( خون جہندہ رکھنے یا نہ رکھنے نیز حلال گوشت ہونے یا نہ ہونے)میں شک کی صورت میں حیوان کا پاک ہونا، اصالت طہارت کی وجہ سے ہے۔

منی اور مردار:

خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کی منی اور مردار نجس ہے۔

مردار سے مرادوہ حیوان ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح نہ کیاگیا ہو۔

جوچیز(مثلا گوشت) مسلمانوں کے قبضے میں ہو یا ان کے بازار میں دستیاب ہو اگر اس کے پاک ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو تو وہ چیز حلال اور پاک شمار ہوگی خواہ اس سے پہلے کسی کافر کے قبضے میں ہی کیوں نہ رہی ہو بشرطیکہ اس بات کا احتمال ہو کہ مسلمان نے اس کی پاکی کے بارے میں چھان بین کی ہے۔

دلائل:

۱ ۔ انسان کی منی کا نجس ہونا ایک مسلمہ حکم اور دین کے بدیہی امور میں سے ہے جس پر بہت ساری روایات دلالت کرتی ہیں۔ مثلا محمد ابن مسلم نے حضرت امام محمد باقر یا جعفر صادق علیہما السلام سے روایت کی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَِ، قَالَ:إِنْ عَرَفْتَ مَكَانَهُ فَاغْسِلْهُ،وَإِنْ خَفِيَ عَلَيْكَ مَكَانُهُ فَاغْسِلْهُ كُلَّه .”“میں نے امام ؑ سے سوال کیا: اگر کپڑے پر منی لگ جائے ( تو کیا حکم ہے؟) فرمایا: اگر تمہیں منی لگنے والی جگہ کا علم ہوتو وہی جگہ دھو لو اور اگر اس جگہے کا علم نہ ہو تو پورے کپڑے کو دھو لو۔”(۱۷۰)

غیر انسان کی منی کے نجس ہونے پر محمد بن مسلم کی ایک روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:

ذَكَرَ الْمَنِيَّ وَ شَدَّدَهُ وَ جَعَلَهُ أَشَدَّ مِنَ الْبَوْل ”“منی کے نجس ہونے کو شدت کے ساتھ ذکر کیا اور اسے پیشاب سے نجس تر قرار دیا۔”(۱۷۱)

اس روایت میں منی اور بول کو “ال” جنس کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ جب خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت حیوان کا پیشاب نجس ہے تو اس کی منی بھی نجس ہے۔

اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے گزشتہ روایت “الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَِ ” سے تمسک کرنا صحیح نہیں ہے ؛ کیونکہ اس روایت میں مذکور “اصابة” کی تعبیر نے حکم کو انسان کی منی سے مختص کیا ہے۔( جبکہ ہماری بات غیر انسان کی منی کے بارے میں ہے۔)

خون جہندہ رکھنے والے حلال گوشت حیوان کی منی کے نجس ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے ۔ اگر اجماع نہ ہوتا تو ابن بکیر کی موثق روایت کے عموم کا تقاضا اس منی کا پاک ہونا ہے۔ ابن بکیر کی روایت یہ ہے :

“...فَإِنْ كَانَ مِمَّا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، فَالصَّلَاةُ فِي وَبَرِهِ وَ بَوْلِهِ وَ شَعْرِهِ وَ رَوْثِهِ وَ أَلْبَانِهِ وَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْهُ جَائِز ...”“اگر وہ حیوان حلال گوشت ہے تو اس کے اون ، پیشاب، بال، فضلات، دودھ اور اس کی ہر چیز میں نماز جائز ہے۔”(۱۷۲)

خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کی منی کا پاک ہونا اس بات کے پیش نظر ہےکہ منی کو نجس قرار دینے والی دلیلیں اس مورد کو ثابت نہیں کر سکتی ہیں ؛ لہذا ہم “اصالۂ طہارت” جاری کریں گے۔ بلکہ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کی منی کے پاک ہونے کی دلیل بھی موجود ہے اور وہ دلیل حفص بن غیاث کی روایت صحیحہ ہے ۔ اس روایت کو حفص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار ؑ سے نقل کی ہے:“لَا يُفْسِدُ الْمَاءَ إِلَّا مَا كَانَتْ لَهُ نَفْسٌ سَائِلَةٌ .”“پانی کو نجس نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ خون جہندہ رکھنے والا حیوان ہو۔”(۱۷۳)

اس روایت کے اطلاق میں حیوان کی منی بھی شامل ہے۔

۲ ۔ مردار ( جسے شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو) کا نجس ہونا ایک متفق علیہ حکم ہے جس پر بہت ساری روایات دلالت کر رہی ہیں جن کے بارے میں تواتر اجمالی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ نے روایت کی ہے:

إِذَا وَقَعَتِ الْفَأْرَةُ فِي السَّمْنِ فَمَاتَتْ فِيهِ، فَإِنْ كَانَ جَامِداً فَأَلْقِهَا وَ مَا يَلِيهَا،وَإِنْ كَانَ ذَائِباً فَلَا تَأْكُلْهُ وَ اسْتَصْبِحْ بِه .”“گھی میں چوہا گر کر مر جانے کی صورت میں ،اگر وہ گھی جامد ہے تو چوہے کے ساتھ اس کی اطراف کے حصوں کو بھی نکال پھینک دے (باقی کو کھانے کے لئے استعمال کرے) اور اگر مائع ہے تو اسے نہ کھائے بلکہ چراغ جلانے کے لئے استعمال کرے۔”(۱۷۴)

۳ ۔خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کا مردار پاک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مردار کو نجس قرار دینے والی دلیلوں میں عمومیت نہیں پائی جاتی؛ لہذاہم “اصالۂ طہارت” جاری کریں گے؛ بلکہ ہمارے پاس اس طرح کے مردار کے پاک ہونے کی دلیل ہےاور وہ ساباطی کی وہی روایت ہے جو پیشاب اور پاخانہ کے احکام میں گزر چکی ہے۔

۴ ۔ مردار ، صرف خودبخود مرجانے والے حیوان میں منحصر نہیں؛بلکہ شرعی طریقے پر ذبح نہ کئے جانے والے کو بھی کہاجاتا ہے۔ اس کی دلیل سماعہ کی موثق روایت ہے:

إِذَا رَمَيْتَ وَ سَمَّيْتَ فَانْتَفِعْ بِجِلْدِهِ وَ أَمَّا الْمَيْتَةُ فَلَا .”“جب تو تیر مارے اور اللہ کا نام لے تو اس (شکار) کی کھال سے فائدہ اٹھاؤ ؛ لیکن مردار ہو تو (استفادہ) نہ (کرو)۔”(۱۷۵)

جس شکار پرتیر چلاتے وقت اللہ کا نام لیا جائے (وہ ذبح شرعی ہے)اس کے مقابلے میں مردار کا ذکر ہوا ہے ؛ لہذا جس حیوان کو شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا جائے وہ بھی مردار میں شامل ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں۔

۵ ۔ مسلمانوں کے بازار سے خریدی جانے والی چیز وں پر حلال اور پاک ہونے کا حکم لگانے کی وجہ، محمد بن مسلم، زرارہ اور فضیل کی روایات صحیحہ سے معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے بازار میں ان چیزوں کا دستیاب ہونا ہی ان کے پاک اور حلال ہونے کی نشانی ( امارہ) ہے۔ جب مذکورہ راویان حدیث نے بازاروں میں دستیاب گوشت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سےسوال کیا کہ معلوم نہیں قصائی ان حیوانوں کو کیسے ذبح کرتے ہیں، تو امام ؑ نے فرمایا:

كُلْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فِي سُوقِ الْمُسْلِمِينَ وَ لَا تَسْأَلْ عَنْهُ .”“ جب یہ مسلمانوں کے بازار میں( دستیاب) ہو تو کھاؤ اور اس کے بارے میں استفسار نہ کرو۔ ”(۱۷۶)

یہ روایت مسلمانوں کے بازار سے خریدی جانے والی چیز کے بارے میں استفسار اور پوچھ گچھ نہ کرنے پر قائم قطعی سیرت کے علاوہ ایک دوسری دلیل ہے۔

مسلمان کے قبضے میں موجود چیز پر بھی حلال اور پاک ہونے کا حکم لگانے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بازارکو بازار ہونے کے عنوان سے یا متعدد دکانوں پر مشتمل ہونے کے عنوان سے ،اس حکم کے اجراء میں کوئی دخل نہیں ہے ؛ بلکہ مسلمانوں کا بازار اس لئے حجت بن گیا ہے کہ اس سے (ید مسلم) مسلمانوں کے قبضے میں ہونا منکشف ہوتا ہے۔ پس اس بنا پر اصلی معیار“ بازار” نہیں ہے ؛بلکہ“ید مسلم” (مسلمانوں کے قبضے میں ہونا) ہے ۔

۶ ۔ پہلے کسی کافر کے قبضے میں ہوتے ہوئے بھی بازار مسلمین کی حجیت عام ہونے کا حکم گزشتہ روایت صحیحہ کے اطلاق کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ احتمال بھی کہ کسی مسلمان نے اس کی پاکی کے بارے میں تحقیق کی ہو؛ اسلئے ضروری ہے کہ بازار مسلمین اس چیز کے پاک ہونے کی نشانی اور “ امارہ” ہونے کے باعث حجت ہے ؛ لیکن جب قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ کسی مسلمان نے اس چیز کی پاکی کے بارے میں تحقیق نہیں کی ہے تو وہاں “امارہ ” کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

خون:

خون جہندہ رکھنے تمام حیوانوں کا خون نجس ہے۔ اگر خون جہندہ رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں شک ہوتو پاک ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

کھجانے کی وجہ سے بدن سے خارج ہونے والی مشکوک چیز پاک ہے۔ نیز تاریکی کی وجہ سے مشکوک ہونے والی چیز بھی پاک ہے اور اس کے بارے میں چھان بین کرنا ضروری نہیں خواہ آسانی کے ساتھ چھان بین کی جا سکتی ہو۔

دلائل:

۱ ۔ کلی طور پر خون کا نجس ہوناایک متفق علیہ حکم ہے ؛بلکہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے۔بعض خصوصی موارد مثلا ناک سے نکلنے والےخون، دانت اکھاڑنے سے نکلنے والےخون نیز زخم کے خون کا حکم بیان کرنے والی بہت ساری روایات ، مذکورہ حکم پر دلالت کرتی ہیں۔

مذکورہ خصوصی موارد کی وجہ سے خون کی تمام اقسام کے نجس ہونے کا عمومی حکم لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ کہ اس ارتکاز ذہنی کا سہارا لیا جائے جو کلی طور پر خون کے نجس ہونے کا حکم لگاتا ہے یا اس موثق روایت سے تمسک کیا جائے جو عمار نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے:

سُئِلَ عَمَّا تَشْرَبُ مِنْهُ الْحَمَامَةُ، فَقَالَ:كُلُّ مَا أُكِلَ لَحْمُهُ، فَتَوَضَّأْ مِنْ سُؤْرِهِ وَ اشْرَبْ إِلَّا أَنْ تَرَى فِي مِنْقَارِهِ دَماً، فَإِنْ رَأَيْتَ فِي مِنْقَارِهِ دَماً، فَلَا تَوَضَّأْ مِنْهُ وَ لَا تَشْرَبْ .”“امام ؑ سے سوال کیا گیا اس چیز کے بارے میں جس سے کبوتر پانی پیتا ہے، فرمایا: تمام حلال گوشت حیوانوں کے جھوٹے سے وضو کیا جاسکتا ہے اور پیا جا سکتا ہے۔۔۔ مگر یہ کہ اس کی چونچ پر خون لگا ہو، اگر تجھے اس کی چونچ پر خون دکھائی دے تو اس سے نہ وضو کر و اور نہ پیو”(۱۷۷)

روایت میں مذکور خون کا اطلاق ،کلی طور پر خون کی نجاست پر دلالت کرتا ہے۔

اس روایت میں عمومیت ہونے کی صورت میں انڈے میں پائے جانے والے خون پر بھی نجاست کا حکم مرتب ہوتا ہے اور وہ بھی نجس شمار ہوتا ہے؛ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو انڈے میں پائے جانے والے خون پر“اصالۂ طہارت” کی وجہ سے پاک ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔البتہ خواہ اس خون کونجس مان لیا جائے یا پاک، اس کا کھانا دونوں صورتوں میں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق خون کا کھاناحرام ہے:( إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ ...) “یقینا اسی نے تم پر مردار،خون حرام قرار دیا۔”(۱۷۸)

۲ ۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں کا خون پاک ہونے کی دلیل: اس بات کے پیش نظر کہ خون کے عمومی طور پر نجس ہونے کو بیان کرنے والی دلیلیں کامل نہیں ہیں ؛ لہذا ہم “اصالۂ طہارت” جاری کریں گے۔ البتہ اگر وہ دلیلیں کامل ہوں اور عمومی طورپر خون کے نجس ہونے کا حکم لگایا جا سکے تو اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے حفص بن غیاث کی اس روایت سے،مذکورہ وضاحت کے ساتھ ،تمسک کیا جا سکتا ہے جوخون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کی منی پاک ہونے کے بارے میں گزر چکی ہے۔

۳ ۔ خون جہندہ رکھنے یا نہ رکھنے میں شک ہونے کی صورت میں “اصالۂ طہارت” سے تمسک کرتے ہوئے اس کے پاک ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

۴ ۔ کھجانے کی صورت میں بدن سے نکلنے والی رطوبت نیز تاریکی کی وجہ سے ہونے والی مشکوک چیزوں کے پاک ہونے کا حکم بھی “اصالۂ طہارت” کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔

۵ ۔ چھان بین کرنا ضروری نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ “شبہہ موضوعیہ” ہے جس میں چھان بین کرنا ضروری نہ ہونے پر تمام فقہاء متفق ہیں ۔

علاوہ بر ایں زرارہ کی روایت صحیحہ اس حکم پر دلالت کررہی ہے:

“...فَهَلْ عَلَيَّ إِنْ شَكَكْتُ فِي أَنَّهُ أَصَابَهُ شَيْ‏ءٌ أَنْ أَنْظُرَ فِيهِ؟ قَالَ: لَا، وَ لَكِنَّكَ إِنَّمَا تُرِيدُ أَنْ تُذْهِبَ الشَّكَّ الَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِك ...”“ اگر میرے کپڑوں سے کوئی مشکوک چیز لگ جائے تو کیا مجھ پر اس کی چھان بین کرنا ضروری ہے ؟ فرمایا: ضروری نہیں ہے مگر یہ کہ تم خود اس شک سے مطمئن ہونا چاہو ۔”(۱۷۹)

اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ حکم ، روایت میں مذکورہ مورد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

انگور، کھجور اور جو کی شراب:

شراب کی مذکورہ تینوں اقسام نجس ہیں۔ بعض فقہاء کے مطابق ہر وہ مائع اور سیال چیز نجس ہے جو انسان کو بے ہوش کردے۔

انگور کے رس کو ابالنے کی صورت میں اس کے دو تہائی حصے ختم ہونے سے پہلے اس کا پینا حرام ہے؛ لیکن وہ نجس نہیں ہوتا۔

کشمش اور کھجور کے رس کو ابالنے کی صورت میں وہ نہ صرف یہ کہ نجس نہیں ہوتا ؛ بلکہ حرام بھی نہیں ہوتا۔

دلائل:

۱ ۔ انگور کی شراب کا حکم: روایات کے مختلف ہونے کی وجہ سے اس کے پاک ہونے اور نجس ہونے میں اختلاف ہے۔

جو روایتیں اس کے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک “حناط” کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ‏أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَشْرَبُ الْخَمْرَ ثُمَّ يَمُجُّهُ مِنْ فيهِ فَيُصِيبُ ثَوْبِي، فَقَالَ: لَا بَأْسَ .” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ ایک آدمی شراب پیتا ہے پھر اس کا لعاب دہن میرے کپڑوں سے لگ جاتا ہے، فرمایا: کوئی حرج نہیں۔”(۱۸۰)

جو روایات اس کے نجس ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الدَّنِّ يَكُونُ فِيهِ الْخَمْرُ، هَلْ يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ فِيهِ خَلٌّ أَوْ مَاءٌ كَامَخٌ أَوْ زَيْتُونٌ؟ قَالَ:إِذَا غُسِلَ فَلَا بَأْس ...”“میں نے امام ؑ سے پوچھا : جس مٹکے میں شراب رکھی جاتی ہے کیا اس میں سرکہ، سالن یا زیتون کا تیل رکھا جا سکتا ہے؟ فرمایا: اگر دھو لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔۔۔”(۱۸۱)

بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ علی ابن مہزیار کی روایت صحیحہ کی وجہ سے ، شراب کے نجس ہونے پر دلالت کرنے والی روایات کو پاک قرار دینے والی روایت پر مقدم کرنا چاہئے۔علی ابن مہزیار کہتے ہیں : میں نےعبداللہ بن محمد کا وہ خط پڑھا جو اس نے حضرت امام رضا علیہ السلام کے نام لکھا تھا:

جُعِلْتُ فِدَاكَ رَوَى زُرَارَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ،وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عما السلام- فِي الْخَمْرِ يُصِيبُ ثَوْبَ الرَّجُلِ، أَنَّهُمَا قَالا: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، إِنَّمَا حَرُمَ شُرْبُهَا. وَ رُوِيَ عَنْ‏ غیر زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام أَنَّهُ قَالَ: إِذَاأَصَابَ ثَوْبَكَ خَمْرٌ أَوْ نَبِيذٌ، يَعْنِي الْمُسْكِرَ فَاغْسِلْهُ إِنْ عَرَفْتَ مَوْضِعَهُ، وَ إِنْ لَمْ تَعْرِفْ مَوْضِعَهُ فَاغْسِلْهُ كُلَّهُ، وَإِنْ صَلَّيْتَ فِيهِ فَأَعِدْ صَلَاتَكَ، فَأَعْلِمْنِي مَا آخُذُ بِهِ، فَوَقَّعَ علیه السلام بِخَطِّهِ وَ قَرَأْتُهُ:‏ خُذْ بِقَوْلِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ .”“میں آپ کے قربان جاؤں! زرارہ نے حضرت امام محمد باقر اور جعفر صادق علیہما السلام سے روایت کی ہے کہ اگر کسی کے کپڑے پر شراب لگ جائے تو دونوں ائمہ نے فرمایا: اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہےصرف شراب کا پینا حرام ہے ؛ جبکہ زرارہ کے علاوہ کسی راوی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اگر تیرے کپڑے پر شراب یا کھجور کی شراب( یعنی کوئی بھی مدہوش کرنے والی چیز) لگ جائے توجس جگہ وہ چیز لگی ہے اسی جگہے کو دھو لے اگر معلوم نہ ہو کہ کہاں پر لگی ہے تو پورے کپڑے کو دھولے۔ اگر تو نے اسی کپڑے کے ساتھ نماز پڑھی ہے تو نماز کا اعادہ کرے۔ پس آپ ؑ فرمائیں کہ میں کس حکم کو اخذ کروں؟ حضرت امام رضا علیہ السلام نے خود لکھا تھا ، جو میں نے پڑھا، : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کو اخذ کرو۔”(۱۸۲)

اس وضاحت کے ساتھ کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے باہم متعارض روایات کو ملاحظہ فرمانے کے بعد ان روایات کو مقدم فرمایا جو شراب کے نجس ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

۲ ۔ کھجور کی شراب(نبیذ) اور بے ہوش کرنے والی مائع چیزوں کے نجس ہونے کا حکم حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی علی ابن یقطین کی روایت صحیحہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يُحَرِّمِ الْخَمْرَ لِاسْمِهَا،وَ لَكِنْ حَرَّمَهَا لِعَاقِبَتِهَا، فَمَا كَانَ عَاقِبَتُهُ عَاقِبَةَ الْخَمْرِ فَهُوَ خَمْرٌ .”“اللہ تعالیٰ نے شراب کو اس کے نام کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اس کے انجام کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے۔ پس جس چیز کا انجام شراب کی طرح ہو وہ ( حکم کے لحاظ سے بھی ) شراب ( کی طرح) ہے۔”(۱۸۳)

۳ ۔ جو کی شراب(فقاع) کے نجس ہونے کی دلیل: ابن فضال کی مکاتبہ روایت میں جو کی شراب کو شراب کی مانند قرار دیا گیا ہے:

كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیه السلام أَسْأَلُهُ عَنِ الْفُقَّاعِ، فَقَالَ: هُوَ الْخَمْرُ، وَ فِيهِ حَدُّ شَارِبِ الْخَمْرِ .” “میں جو کی شراب کے بارے میں سوال کرتے ہوئے حضرت امام رضا علیہ السلام کے نام خط لکھا، آپ ؑ نے فرمایا:وہ شراب ہے اور اس کے پینے والے پر شرابخور کی حد جاری ہوگی۔”(۱۸۴)

اس وضاحت کے ساتھ کہ امام ؑ نے فقاع کو مطلق طور پر شراب کا رتبہ دیا ہے لہذا اس اطلاق میں نجس ہونے کا حکم بھی شامل ہے۔

۴ ۔ انگور کے رس کا حکم : انگور کے رس کو ابالنے کی صورت میں اس کے حرام ہونےپر کسی کو اعتراض نہیں؛ کیونکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبد اللہ بن سنان کی روایت صحیحہ اس حکم پر دلالت کررہی ہے:

كُلُّ عَصِيرٍ (۱۸۵) أَصَابَتْهُ النَّارُ فَهُوَ حَرَامٌ حَتَّى يَذْهَبَ ثُلُثَاهُ وَ يَبْقَى ثُلُثُهُ .”“ہر وہ رس جسے آگ پر رکھا جائے حرام ہے مگر یہ کہ اس کے دوتہائی حصے ختم ہوجائیں اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔”(۱۸۶)

لیکن اس کے نجس ہونے میں اشکال ہے کیونکہ حرام ہونے سے اس کا نجس بھی ہونا لازم نہیں آتا۔

بسا اوقات اس کے نجس ہونے پر عمار کی روایت صحیحہ سے استدلال کیا جاتا ہے:

سالت ابا عبد اللّه علیه السلام عن الرجل من اهل المعرفة بالحق، یأتینی بالبختج ویقول قد طبخ علی الثلث، و أنا أعرف أنّه یشربه علی النصف أفأشربه بقوله، وهو یشربه علی النصف؟ فقال: خمر لا تشربه ...”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حق کی معرفت رکھنے والے ایک شخص کے بارے میں پوچھا کہ وہ مجھے انگور کا ابلا ہوا رس یہ کہہ کر دیتا ہے کہ اس کے دو تہائی حصے ختم ہو گئے ہیں؛ جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر اس کا نصف حصہ ختم ہو جائے تب بھی وہ پیتا ہے۔ کیا میں اس پر اعتماد کر کے اس پانی کو پی سکتا ہوں؟ فرمایا: شراب ہے، اسے نہ پینا۔”(۱۸۷)

فیض کاشانی(۱۸۸) کے بیان کے مطابق “بختج” وہی انگور کا ابلا ہوا رس ہے۔ جب اس رس کو مطلق طور پر شراب کہا جاتا ہےتو اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب کے تمام آثار اس پر مرتب ہوتے ہیں انہی آثار میں سے ایک اس کا نجس ہونا ہے۔

ابتک بیان کی گئی باتیں انگور کے رس کو آگ پر ابالنے کے بارے میں تھیں ؛ لیکن اگر یہ رس خود بخود ابل پڑے تو اس وقت بھی کہاجاتا ہے کہ یہ شراب کے مصادیق میں شمار ہوگا اور شراب کا حکم اس پر جاری ہوگا۔

۵ ۔ کشمش کے رس کا حکم: کشمش کے رس کو نجس قرار دینے والا کوئی سبب موجود نہیں ہے؛لہذا اس کے پاک ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اشکال صرف اس کے حرام ہونے میں ہے۔ حرام ہونے کو ثابت کرنے کے لئے ان روایات سے تمسک نہیں کیا جا سکتا جو انگور کے رس کو،ابلنے کی صورت میں، حرام قرار دیتی ہیں؛ کیونکہ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ اس پر رس صادق نہیں آتا۔رس اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز سے نچوڑ کر حاصل کیا جائے جبکہ خشک ہونے کے باعث کشمش کا کوئی رس نہیں ہوتا ۔ جب ہم اسے کشمش کا رس کہتے ہیں تو یہ بطور حقیقت نہیں؛ بلکہ مجاز ہے۔

خشک ہونے سے پہلے انگور کے لئے حرام کا حکم ثابت تھا ۔ اس بات پر بنا رکھتے ہوئے حرام کا استصحاب کرنا صحیح نہیں ہے ؛ کیونکہ اس حکم کا موضوع بدل گیا ہے( جبکہ استصحاب جاری ہونے کے لئے موضوع کا ثابت رہنا ضروری ہے)۔حرام کا موضوع “عصیر” (رس) تھا جو کشمش پر صادق نہیں آتا۔

بنا بر ایں ،“قاعدۂ استصحاب ” یا “قاعدۂ حلیت” کے مطابق ، حلال ہونے کا حکم جاری کرنا مناسب ہے۔

۶ ۔ کھجور کے رس کا حکم: کھجور کے رس کو حرام قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے سوائے “عصیر ” والی روایتوں کے۔ جبکہ کھجور کے رس پر “عصیر ” کا اطلاق نہ ہونا ایک واضح بات ہے۔

کافر:

مشہور فتویٰ یہ ہے کہ کتابی کفار (اہل کتاب) نجس ہیں اور غیر کتابی کفار بطریق اولیٰ نجس ہیں۔

دلائل:

۱ ۔ کتابی کفار کے نجس ہونے کی دلیل: یہ مشہور کا منتخب نظریہ ہے؛ جبکہ روایات باہم مختلف ہیں۔ ان کے پاک ہونے اور نجس ہونے ، یعنی دونوں حکموں پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں۔

جو روایات ان کے نجس ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کا ایک نمونہ سعید الاعرج کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ سُؤرالْيَهُودِيِّ وَ النَّصْرَانِيِّ، فَقَالَ: لَا .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: یہودی اور عیسائی کے جھوٹے سے ( استفادہ کیا جا سکتا ہے)؟ فرمایا: نہیں۔”(۱۸۹)

اور جو روایات ان کے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کا ایک نمونہ عیص بن قاسم کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ مُؤَاكَلَةِ الْيَهُودِيِّ،وَالنَّصْرَانِيِّ،وَالْمَجُوسِيِّ، فَقَالَ: إِذَا كَانَ مِنْ طَعَامِكَ وَ تَوَضَّأَ فَلَا بَأْسَ .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہودی ، عیسائی اور مجوسی کے ساتھ کھانا کھانے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اگر کھانا تمہارا ہو اور وہ اپنے ہاتھوں کو دھو لے تو کوئی حرج نہیں۔”(۱۹۰)

بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ اہل کتاب، تثلیث کے قائل ہونے کی وجہ سے، مشرک ہیں ؛ لہذا ان روایات کو ترجیح ملے گی جو ان کے نجس ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؛ کیونکہ یہ روایات،قرآن مجید کی آیت( إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نجَسٌ ...) “مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں”(۱۹۱) کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔

بہتر ہے یہ کہا جائے کہ نجس ہونے پر دلالت کرنے والی روایات ان کفار کے ذاتاً نجس ہونے پر دلالت نہیں کرتیں ؛ بلکہ کسی نجس چیز کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے ان کی عارضی نجاست پر دلالت کرتی ہے ۔ گویا روایات یہ کہنا چاہتی ہیں کہ قاعدہ “اصالۂ طہارت” صرف مسلمان پر جاری ہوگا نہ کہ اہل کتاب پر؛ اسی لئے دوسری روایت کہہ رہی ہے کہ : اگر کھانا آپ کا ہو اور وہ کافر اپنے ہاتھوں کو دھولے تو اس کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس قول کے اولیٰ اور بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب تک عرفاً دو روایتوں کو باہم جمع کرنے کی گنجائش ہو اس وقت تک ترجیح دینے والے اسباب (مرجحات) سے رجوع کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔

علاوہ بر ایں یہ احتمال بھی ہے کہ شاید آیت مجیدہ میں نجس سے مراد معنوی نجاست ہو نہ کہ وہ نجاست جس میں ہم بحث کر رہے ہیں۔

۲ ۔غیر کتابی کافر کا نجس ہونا تقریبا متفق علیہ حکم ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات اس پر گزشتہ آیت مجیدہ کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کی دلالت کے سلسلے میں مذکورہ اشکال پیش آتاہے۔

ناصبی کا حکم: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبد اللہ بن ابی یعفور کی موثق روایت کی وجہ سے ناصبی پر نجس ہونے کا حکم لگایا گیا ہے:

“...وَ إِيَّاكَ أَنْ تَغْتَسِلَ مِنْ غُسَالَةِ الْحَمَّامِ، فَفِيهَا تَجْتَمِعُ غُسَالَةُ الْيَهُودِيِّ،وَ النَّصْرَانِيِّ،وَ الْمَجُوسِيِّ، وَ النَّاصِبِ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، وَ هُوَ شَرُّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمْ يَخْلُقْ خَلْقاً أَنْجَسَ مِنَ الْكَلْبِ، وَ إِنَّ النَّاصِبَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ لَأَنْجَسُ مِنْهُ .”“غسل خانے کےاس باقیماندہ پانی سے غسل کرنے سے اجتناب کرو جس میں یہودی، عیسائی ، مجوسی اورہم اہل بیت کی برائی کرنے والے ناصبی کا، جوان سے بھی بدتر ہیں، دھووَن جمع ہو۔ بتحقیق اللہ تعالیٰ نے کتے سے بڑھ کر کوئی نجس مخلوق ، خلق نہیں کی ہے اورہم اہل بیت ؑ کی برائی کرنے والے ناصبی، کتے سے بھی زیادہ نجس ہیں۔”(۱۹۲)

یہ ساری باتیں فقہی اور اصولی استدلال کا تقاضا ہیں؛ لیکن مشہور فتویٰ کے راستے سے نہیں ہٹنا چاہئے۔

بقیہ نجاسات:

خشکی پر زندگی گزارنے والے کتے اور سور نجس ہیں۔

حرام طریقے سےجنب ہونے والے کا پسینہ، بعض فقہاء کے مطابق نجس ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھنا حرام ہے۔

دلائل:

۱ ۔ خشکی پر زندگی گزارنے والے کتے اور سور کے نجس ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہےاور روایات کا ایک مجموعہ اس پر دلالت کرتا ہے۔

ناصبی کے بارے میں بیان کی جانے والی گزشتہ روایت صحیحہ کتے کو نجس قرار دیتی ہےاور سور کے نجس ہونے پر علی ابن جعفر کی مندرجہ ذیل روایت دلالت کرتی ہے:

“...وَ سَأَلْتُهُ عَنْ خِنْزِيرٍ يَشْرَبُ مِنْ إِنَاءٍ كَيْفَ يُصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: يُغْسَلُ سَبْعَ مَرَّاتٍ .”“۔۔۔ میں نے امام ؑ سے سوال کیا: جس برتن سے سور پانی پیتا ہے اس کا کیا کیا جائے؟ فرمایا: اس برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے”(۱۹۳)

جو روایات ظاہرا ً مندرجہ بالا حکم کے معارض ہیں ان کی کسی اور طرح سے توجیہ کرنی ہوگی۔

۲ ۔ صرف خشکی پر رہنے والے کتے اورسور کے نجس ہونے کی دلیل: در اصل “کلب وخنزیر” (کتا اور سور) کے الفاظ خشکی پر رہنے والے کتے اور سور کی نسبت حقیقت رکھتے ہیں اور بحری کتے اور سور پر ان الفاظ کااطلاق مجازاً ہوتا ہے۔

۳ ۔ حرام طریقے سے جنب ہونےوالے کے پسینے کا حکم: بعض روایات اس پسینے کے نجس ہونے پر یا اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؛ لیکن سب کے سب ضعیف روایتیں ہیں۔ مثلا علی ابن حکم نے ایک شخص کی وساطت سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے:

لَا تَغْتَسِلْ مِنْ غُسَالَةِ مَاءِ الْحَمَّامِ، فَإِنَّهُ يُغْتَسَلُ فِيهِ مِنَ الزِّنَا، وَ يَغْتَسِلُ فِيهِ وَلَدُ الزِّنَا، وَ النَّاصِبُ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، وَ هُوَ شَرُّهُمْ .”“غسل خانے کے اس باقیماندہ پانی سے غسل نہ کرو جس میں زانی، حرام زادہ اور ہم اہل بیت کی برائی کرنے والے ناصبی نے،جو ان سے بھی بدتر ہیں،غسل کیا ہو۔”(۱۹۴)

لیکن یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے سند کے لحاظ سے ضعیف ہے اور پسینے کی بات نہ ہونے کی وجہ سے دلالت کے لحاظ سے ضعیف ہے؛ کیونکہ روایت کی توجہ صرف زانی کے بدن اور اس کی نجاست پر ہے (نہ کہ پسینے کی نجاست پر)۔