دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح) مؤلف:
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: مشاہدے: 9584
ڈاؤنلوڈ: 3127

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9584 / ڈاؤنلوڈ: 3127
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

باپ ، دادا کی ولایت ۱ ور سرپرستی

بچوں اور بچیوں کی شادی کرنے میں نیز دیوانگی کی حالت میں بلوغ کو پہنچے والے دیوانے پر بھی باپ دادا کو سرپرستی حاصل ہے؛ بلکہ کہا گیا ہے کہ ہر حال میں باپ دادا کو دیوانے پر سرپرستی حاصل ہوتی ہے خواہ وہ بالغ ہونے کے بعد دیوانہ ہو جائے۔

بالغ اور باکرہ لڑکی پر باپ دادا کو سرپرستی حاصل ہونے میں اختلاف ہے؛ جبکہ غیر کنواری کے اپنے امور میں خود مختار ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔

دلائل:

۱ ۔ باپ اور دادا کو سرپرستی حاصل ہونے کی دلیل: اس حکم سے ابن ابی عقیل کے سوا کسی فقیہ کو اختلاف نہیں ہے۔ ابن ابی عقیل کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ داداکو سرپرستی حاصل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۱۳) اس حکم پر بہت ساری روایات دلالت کر رہی ہیں ۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد ابن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

فِي الصَّبِيِّ يَتَزَوَّجُ الصَّبِيَّةَ يَتَوَارَثَانِ؟ فَقَالَ: إِذَا كَانَ أَبَوَاهُمَا اللَّذَانِ زَوَّجَاهُمَا، فَنَعَمِْ، قُلْتُ: فَهَلْ يَجُوزُ طَلَاقُ الْأَبِ؟ قَالَ: لَا .”“ا یک بچے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اگر وہ کسی بچی سے شادی کرے تو کیاوہ ایک دوسرے کا وارث بن سکتے ہیں؟فرمایا: ہاں ! بشرطیکہ ان کے باپ دادا نے ان کی شادی کرائی ہو۔ میں نے عرض کیا: تو کیا باپ، طلاق بھی دے سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔”(۱۴)

مذکورہ روایت کی مانند دوسری بعض روایات میں صرف باپ کا تذکرہ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن ابی عقیل نے ان روایات کے پیش نظر دادا کی سرپرستی کی مخالفت کی ہے۔

لیکن یہ مسئلہ اس طرح ختم ہوسکتا ہے کہ اولا: دادا بھی “اب”کا مصداق ہے ۔ ثانیا: بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ جب سرپرستی کے لحاظ سے باپ اور دادا میں ٹکراؤ ہو تو دادا کو مقدم کیا جائے گا۔ مثلا حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہماالسلام میں سے کسی ایک سے محمد ابن مسلم کی نقل کردہ روایت ہے:

إِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَةَ ابْنِهِ فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى ابْنِهِ، وَلِابْنِهِ أَيْضاً أَنْ يُزَوِّجَهَا. فَقُلْتُ: فَإِنْ هَوِيَ أَبُوهَا رَجُلًا وَ جَدُّهَا رَجُلًا، فَقَالَ: الْجَدُّ أَوْلَى بِنِكَاحِهَا .”“اگر کوئ ی شخص اپنی پوتی کی شادی کرائے تو یہ حکم اس کے بیٹے پر بھی نافذ ہوگا نیز اس کے بیٹے کے لئے بھی اس لڑکی کی شادی کرانا جائز ہے۔میں نے عرض کیا: اگر اس کا باپ کسی آدمی کے ساتھ اس کی شادی کرانا چاہے جبک دادا کسی اور کے ساتھ ، تو امام ؑ نے فرمایا: شادی کرانے میں اس کا دادا زیادہ سزاوار ہے۔”(۱۵)

۲ ۔ولایت کا حق (جد ّامی )نانا کو حاصل نہ ہونے ؛ بلکہ صرف (جدّ ابوی)دادا سے مختص ہونے کی دلیل: جو دلیلیں اس حق کو دادا کے لئے ثابت کرتی ہیں وہ نانا کے لئے بھی ثابت کرنے سے قاصر ہیں اس کے علاوہ محمد ابن مسلم کی گزشتہ روایت صحیحہ سے ظاہرا یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حق صرف (جد ابوی) دادا کے ساتھ مختص ہے۔

۳ ۔ باپ اور دادا کو دیوانے کی سرپرستی کا حق ملنےحاصل ہونے کی دلیل: ابو خالد القماط نے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: الرَّجُلُ الْأَحْمَقُ الذَّاهِبُ الْعَقْلِ، يَجُوزُ طَلَاقُ وَلِيِّهِ عَلَيْهِ؟ قَالَ: وَ لِمَ لَا يُطَلِّقُ هُوَ؟ قُلْتُ: لَا يُؤْمَنُ إِنْ طَلَّقَ هُوَ أَنْ يَقُولَ غَداً: لَمْ أُطَلِّقْ، أَوْ لَا يُحْسِنُ أَنْ يُطَلِّقَ، قَالَ: مَا أَرَى وَلِيَّهُ إِلَّا بِمَنْزِلَةِ السُّلْطَان .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا:جو شخص بیوقوف ہو اور جس کی عقل زائل ہو چکی ہو ، کیا اس کے ولی کی طلاق اس پر نافذ ہے؟ فرمایا: وہ خود کیوں طلاق نہیں دیتا؟ میں نے عرض کیا: کچھ بھروسہ نہیں ۔ اگر وہ طلاق دے گا تو کل کہے گا: میں نے طلاق نہیں دی ہے یا وہ ٹھیک طرح سے طلاق نہیں دے سکتا۔ امام ؑ نے فرمایا: میں اس کے ولی کو نہیں سمجھتا سوائے بمنزلہ ٔحاکم ۔”(۱۶)

اس کے علاوہ بھی روایات موجود ہیں۔

ولی سے جو معنی مراد لیا جاتا ہے اس کی قدر متیقن باپ اور دادا ہے۔ جب طلاق کے معاملے میں اس ولی کے لئے حاکم کا مرتبہ ثابت ہوجائے تو نکاح میں بطریق اولیٰ یہ منزلت ثابت ہوجائے گی۔

اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے ،مذکورہ روایت صحیحہ سے قطع نظر ، بالغ ہونے سے پہلے اس کے لئے ثابت ولایت کا استصحاب بھی کیا جا سکتا ہے۔

۴ ۔ بعض فقہاء کے مطابق ہر حال میں (اگرچہ بالغ ہونے کے بعد ہی دیوانہ ہو جائے )ولایت ثابت ہونے کی دلیل: اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے گزشتہ روایت صحیحہ کے اطلاق اور اسی مضمون کی حامل بعض دوسری روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔

۵ ۔ کنواری لڑکی کی شادی کے معاملے میں باپ اور دادا کو ولایت حاصل ہونے کی دلیل: اس مسئلے میں فقہاء اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:

۱ ۔ باپ اور دادا کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

۲ ۔ لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

۳ ۔ لڑکی اور اولیاء کو مشترک اختیار حاصل ہے۔

اس اختلاف کا اصلی سرچشمہ روایات کا مختلف ہونا ہے ؛ کیونکہ روایات کےمندرجہ ذیل مختلف مجموعے ہیں:

الف) وہ روایت جو فقط باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کی تعداد چھ ۶ یا اس سے زیادہ ہیں جن میں صحیحہ اور دوسری روایتیں بھی موجود ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ :

سَأَلْتُهُ عَنِ الْبِكْرِ إِذَا بَلَغَتْ مَبْلَغَ النِّسَاءِ، أَ لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ؟ فَقَالَ: لَيْسَ لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ مَا لَمْ تُثَيَّبْ .”“م یں نے امام ؑ سے کنواری لڑکی کے بارے میں سوال کیا : اگر وہ عورت کی حد تک پہنچ جائے تو کیا اس کے لئے اپنے باپ کے ساتھ اختیار حاصل ہے؟ فرمایا: جب تک وہ شادی شدہ نہ ہو جائے اسے باپ کے ساتھ کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔”(۱۷)

ب) وہ روایات جو باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر نہیں ؛ بلکہ صرف اس کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ ان کی تعداد بھی چھ ۶ یا اس سے کچھ زیادہ ہیں اور ان میں بھی صحیحہ اور دوسری روایتیں موجود ہیں۔مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابن ابی یعفور کی روایت صحیحہ:

لَا تُنْكَحُ ذَوَاتُ الْآبَاءِ مِنَ الْأَبْكَارِ إِلَّا بِإِذْنِ آبَائِهِنَّ .”“جن کنوار ی لڑکیوں کے باپ (زندہ) ہوں ان کے باپ کی اجازت کے بغیر ان سے شادی نہ کرو۔”(۱۸)

ج) وہ روایات باپ کو مکمل اختیار حاصل نہ ہونے اور کنواری کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کی تعداد دو ۲ ہیں۔ جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کردہ منصور بن حازم کی روایت صحیحہ ہے:

تُسْتَأْمَرُ الْبِكْرُ وَ غَيْرُهَا وَ لَا تُنْكَحُ إِلَّا بِأَمْرِهَا .”“کنوار ی اور غیر کنواری لڑکیوں سے اجازت لی جائے گی اور ان کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کیا جائے گا۔”(۱۹)

اور دوسری روایت صفوان کی صحیحہ ہے:

اسْتَشَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ لِابْنِ أَخِيهِ، فَقَالَ: افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ بِرِضَاهَا، فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا نَصِيباً. قَالَ:وَاسْتَشَارَ خَالِدُ بْنُ دَاوُدَ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ عَلِيَّ بْنَ جَعْفَرٍ، فَقَالَ: افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ بِرِضَاهَا فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا حَظّاً .”“عبد الرحمن نے اپنے بھت یجے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مشورہ لیا تو امام ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سےشادی کرادو ؛ کیونکہ لڑکی کے نفس پر اس کا بھی حق ہے۔ صفوان کہتا ہے کہ خالد بن داؤد نے بھی علی ابن جعفر کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مشورہ مانگا تو آپ ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سے شادی کرا دو؛ کیونکہ لڑکی کے نفس پر اس کا حق ہے۔”(۲۰)

د) وہ روایات جو کنواری لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حکم پر صرف سعدان بن مسلم کی روایت دلالت کر رہی ہے جو مندرجہ ذیل ہے:

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:‏ لَا بَأْسَ بِتَزْوِيجِ الْبِكْرِ إِذَا رَضِيَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَبِيهَا .”“اگر کنوار ی لڑکی خود راضی ہوجائے تو اس کے باپ کی اجازت کے بغیر اس کی شادی میں کوئی حرج نہیں ہے۔”(۲۱)

اس روایت کو شمار سے ہی حذف کرنا ضروری ہے کیونکہ باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے یا لڑکی کی رضایت کے ساتھ باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرنے والی روایات کی تعداد بارہ ۱۲ ؛ بلکہ اس سے زیادہ ہیں اور ان کی کثرت کے باعث “سنت قطعیہ” کا عنوان وجود میں آتا ہے ۔ اگر ان کی مخالف روایت کو اخذ کیا جائے تو سنت قطعیہ کی مخالفت لازم آتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ روایت بذات خود ایک ضعیف روایت ہے؛ کیونکہ سعدان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ “ کامل الزیارات” اور “ تفسیر قمی” میں مذکور تمام راوی موثق ہیں۔(۲۲)

اس بنا پر ہماری بحث صرف ابتدائی تین مجموعۂ روایات تک محدود ہوجائے گی۔

ابتدائی تین مجموعے کسی حد تک باپ کی اجازت کے شرط ہونے کی جہت سے مشترک ہیں اور اسی جہت سے ان کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے؛بلکہ ایک اضافی شرط کے لحاظ سے باہم متعارض ہیں جو لڑکی کی اجازت کا شرط ہونا ہے۔ پس اس تعارض کی وجہ سے اضافی شرط کے لحاظ سے روایتیں ساقط ہو جائیں گی اور اصل سے رجوع کرنا ضروری ہوجائے گا۔ نتیجتاً باپ اور بیٹی دونوں کی موافقت شرط ہوجائے گی۔

باپ کی اجازت ضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اجازت ضروری ہونے کے لحاظ سے روایات کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

اور بیٹی کی اجازت اس لئے شرط ہوگی کہ اگر اس کی اجازت کے بغیر نکاح ہو جائے تو ہم شک کرتے ہیں کہ اس نکاح پر اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں ؟ تو اصل کا تقاضا یہ ہے کہ آثار مرتب نہیں ہوں گے۔

۶ ۔ لڑکی کے دادا کی اجازت کے شرط ہونے کی دلیل: چونکہ دادا درحقیقت باپ ہی ہوتا ہے ؛ لہذا جو دلیلیں باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں دادا میں شامل ہے۔

۷ ۔ غیر کنواری کے خود مختار ہونے کی دلیل: اس حکم پر روایات اور فقہاء کے فتاویٰ متفق ہیں۔ کنواری کے بارے میں کی جانے والی بحث کے ذیل میں بعض احادیث کی طرف اشارہ ہو چکا ہے۔

نگاہ ڈالنے کے احکام

مرد کے لئے کسی اجنبی عورت کے بدن کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے خواہ بغیر شہوت کے ہی کیوں نہ ہو۔ فقہاء کی ایک جماعت نے حرمت کے حکم سے چہرہ اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کواستثناء کیا ہے۔

عورت کے لئے کسی اجنبی مرد کے بدن کو دیکھنا جائز ہونے میں اختلاف ہے۔

مرد اور عورت میں سے ہر ایک کے لئے اپنے مماثل ( ہم جنس) کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہےسوائے شرمگاہوں کے۔

اجنبی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہونے کے حکم سے کسی ضرورت کے وقت دیکھنے کو استثناء کیا گیا ہے۔ مثلا عورت کو پانی میں غرق ہونے سے یا آگ میں جل جانے سے بچانے کے لئے۔ ان حالتوں میں اس کی طرف دیکھنا جائز ہے ؛ بلکہ اس کو چھونا بھی جائز ہے۔

نیز یائسہ عورت اور نابالغ لڑکی پر نگاہ ڈالنا بھی حرمت کے حکم سے استثناء کیا گیا ہے۔

عورت پر نابالغ لڑکے سے پردہ کرنا واجب نہیں ۔ اگرچہ اس سے بھی پردہ کرنا بہتر ہے۔

جو شخص کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے اس عورت کے چہرے، ہاتھوں، بالوں اور حسن و جمال کے مقامات کو دیکھنا جائز ہے۔

جو عورت شادی کا ارادہ رکھتی ہے اس کے لئے بھی ایک قول کی بنا پر اس مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

غیر مسلم عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز ہے نیز ہر ان تمام عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز ہے جو کہنے کے باوجود پردہ نہیں کرتیں۔ بشرطیکہ شہوت کے ساتھ نہ دیکھے۔

دلائل:

۱ ۔ کلی طور پر اجنبی عورت کے بدن پر نگاہ ڈالنا، خواہ بغیر شہوت کے ہی کیوں نہ ہو، حرام ہونے کی دلیل:یہ فقہ کے واضح مسائل میں سے ہے۔اس حکم کو قرآن مجید کی آیت( وَلْيَضْرِبْنَ بخِمُرِهِنَّ عَلىَ‏ جُيُوبهِنَّ ...) “...اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں...”(۲۳) سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ نیز جن روایات میں بدن کو ظاہر کرنے کی حرمت سے چہرہ اور ہاتھوں کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح مختلف موارد میں بیان ہونے والی روایات سے بھی اس حکم کو سمجھا جا سکتا ہے۔

بلکہ اس کو آیت کے اس حصے( ...وَ لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ...) “...اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے ...”(۲۴) سے بھی سمجھا جا سکتا ہے؛ کیونکہ غیروں کے حضور بدن کو ظاہر کرنے کی حرمت کا لازمہ اس کی طرف دیکھنا حرام ہونا ہے۔اسی طرح زینت کو ظاہر نہ کرنے سے مراداگر مواضع زینت ہوں تو اس کا حکم واضح ہے؛ لیکن اگر اس سے مراد بذات خود زینت ہو تو اس کو ظاہر کرنے کی حرمت کا لازمہ یہی ہوگا کہ اس کے مواضع کو ظاہر کرنا بطریق اولیٰ حرام ہے۔

البتہ اس آیت( قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْمِنْ أَبْصَارِهِم ...) “آپ مومنوں سے کہدیجئے:کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں”(۲۵) سے استدلال کرنے میں اشکال ہے؛ کیونکہ “غضّ بصر” کے معنی دیکھنے کو ہی ترک کرنا نہیں؛ بلکہ کسی چیز میں دلچسپی نہ لینا اور اس سے بے توجہی برتنا ہے۔(۲۶)

اس کے علاوہ آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ “غضّ بصر” سے مرادفقط شرمگاہوں کی نسبت سے نظروں کو قابو میں رکھنا ہے۔

۲ ۔ فقہاء کی ایک جماعت نے چہرہ اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو حرمت کے حکم سےاستثناء کیا ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جو ہم ذیل میں ذکر کریں گے:

الف) فضیل کی روایت صحیحہ سے تمسک کرنا:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الذِّرَاعَيْنِ مِنَ الْمَرْأَةِ هُمَا مِنَ الزِّينَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ :( وَ لايُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَ ) ؟قَالَ: نَعَمْ، وَ مَا دُونَ الْخِمَارِ مِنَ الزِّينَةِ،وَمَا دُونَ السِّوَارَيْنِ .” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عورت کے (کہنیوں تک )ہاتھوں کے بارے میں سوال کیا : کیا یہ خدا کے اس فرمان میں “اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے” شامل ہیں؟ فرمایا: ہاں !جو جگہے دوپٹہ اور چوڑیوں کے نیچے ہوں وہ زینت میں شمار ہوتی ہیں۔ ”(۲۷)

چونکہ چہرہ دوپٹے کے نیچے نہیں ہوتا اور ہتھیلی بھی چوڑی سے اوپر ہوتی ہے ؛ لہذا یہ روایت ان دونوں کا ظٖاہر کرنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

البتہ اس روایت سے استدلال کرنا ایک اور مقدمے کی طرف محتاج ہے کہ جب ان چیزوں کو ظاہر کرنا جائز ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اجنبی کا اس پر نگاہ ڈالنا بھی جائز ہے؛ جبکہ بعض اوقات یہ لازمہ ختم ہوجاتا ہے ؛اسی باعث مرد کے لئے اپنے بدن کو نہ چھپانا جائز ہوتا ہے اور چونکہ عورت کے لئے مرد کے بدن پر نگاہ ڈالنا جائز ہے لہذا یہاں پر یہ لازمہ موجود نہیں ۔

ب) زرارہ کی روایت سے تمسک کرنا:

زرارہ نقل کرتے ہیں :

فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ ( ...إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها ...) قَالَ: الزِّينَةُ الظَّاهِرَةُ، الْكُحْلُ وَ الْخَاتَمُ .” “حضرت امام جعفر صادق عل یہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فرمان “مگر جو ان مں. سے کھلا رہتا ہو” کے بارے میں فرمایا: یہ ظاہری زینت ، سرمہ اور انگوٹھی ہے۔”(۲۸)

یہ روایت چہرہ اور ہتھیلیوں کے ظاہر کرنے کے جواز پر واضح دلالت کر رہی ہے۔

مگر اس روایت پر بھی وہی اشکال ہوتا ہے جو فضیل کی گزشتہ روایت پر ہوا تھا۔ علاوہ از ایں اس کی سند میں قاسم بن عروہ کا نام بھی ہے جس کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

ج) اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان سے تمسک کرنا:

( ...وَلْيَضْرِبْنَ بخِمُرِهِنَّ عَلىَ‏ جُيُوبهِنَّ ...) “...اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں...”(۲۹)

آیت میں چھپانے کے وجوب کو “جُيُوب ”( س ینے ) کے ساتھ مختص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کو چھپانا واجب نہیں ہے ورنہ سینہ کہنے کے بجائے چہرہ کہنا ہی بہتر تھا؛ کیونکہ عام طور پر اوڑھنیاں چہرے کو نہیں چھپاتیں۔

اس کے علاوہ جب تک گزشتہ روایت میں مذکور لازمے کو ساتھ نہ ملایا جائے اس وقت تک آیت کی دلالت بھی مکمل نہیں ہوتی۔

حرمت نگاہ کے حکم سے چہرہ اور ہتھیلیوں کو استثناء کرنے کے یہی تین اسباب موجود ہیں۔

مذکورہ بیانات سے واضح ہوا کہ اگر یہ لازمہ تام نہ ہو تو اس حکم میں جدائی ڈالنا ضروری ہوجائے گا کہ عورت کے لئے چہرہ اور ہاتھوں کو ظاہر کرنا جائز اوراس پر نگاہ ڈالنا اجنبی پر حرام ہے۔

۳ ۔ عورت کے مرد پر نگاہ ڈالنے کا حکم: اس مقام پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت کے نگاہ ڈالنے میں کوئی فرق نہیں(۳۰) ؛ یعنی عورت کے جن مقامات پر نگاہ ڈالنا مرد کے لئے جائز ہے ، عورت کے لئے بھی مرد کے انہی مقامات پر نگاہ ڈالنا جائز ہے اور عورت کے جن مقامات پر مرد کے لئے نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے، عورت کے لئے بھی مرد کے ان مقامات پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے۔

لیکن اس دعویٰ پر اشکال ہے ؛ کیونکہ یہاں ایسا اجماع ثابت نہیں ہے جو معصوم ؑ کی رائے کو منکشف کرے؛ بلکہ اہل شریعت کی قطعی سیرت، جو معصوم ؑ کے زمانے سے متصل ہے، اجماع کے خلاف قائم ہوئی ہے۔ مثلا جب مرد باہر نکلتے ہیں تو ان کے سر اور گردن کھلی ہوتی ہے اور عورتیں بھی گلیوں اور بازاروں میں ان کے ساتھ گھل مل کر رہتی ہیں۔ پس اگر مردوں کے ان مقامات پر ، جو گھر سے نکلتے وقت عموما ظاہر ہوتے ہیں، نگاہ ڈالنا عورت پر حرام ہوتا تو اس کا لازمہ تین حالتوں سےخالی نہیں : ۱ ۔یا تو مرد پر ان مقامات کو چھپانا واجب ہے ، ۲ ۔یا عورتوں کے ساتھ گھل مل کر بیٹھنا حرام ہے ، ۳ ۔ یا گھل مل کر بیٹھنا اور باتیں کرنا جائز ہے ؛ لیکن دیکھنا جائز نہیں۔ درحالیکہ تینوں مفروضوں کا احتمال نہیں دیا جا سکتا۔

لہذا اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے مردوں کے ان مقامات پر ، جو عموما ظاہر ہوتے ہیں، نگاہ ڈالنا جائز ہے۔

گزشتہ دلیلوں کے علاوہ بعض اوقات اس طرح بھی جواز پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جس میں اصحاب نے عورتوں کے مرد وں پر نگاہ ڈالنے کا حکم پوچھا ہو۔ پس سوال نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہاں پر تین مفروضے ہیں:

الف) اصحاب کے نزدیک حرام ہونے کا حکم واضح تھا؛

ب)انہیں حکم میں شک تھا؛

ج)ان کے نزدیک جائز ہونے کا حکم واضح تھا۔

ان تینوں میں سے ابتدائی دو مفروضے صحیح نہیں ہیں ۔

مفروضہ(الف)کے درست نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر عورت کو دیکھنا حرام ہونے سے یہ احتمال نہیں دیا جاسکتا کہ جب یہ حرام ہو تو عورت پر بھی مرد کو دیکھنا واضح طور پر حرام ہے۔

مفروضہ (ب) کے صحیح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر اصحاب کو حکم میں شک تھا تو مناسب یہ تھا کہ اصحاب اپنے شک کو دور کرنے کے لئے سوال کرتے ۔

پس مفروضہ (ج) ہی صحیح ہے کہ اصحاب کے نزدیک جائز ہونے کا حکم واضح تھا اسی لئے سوال نہیں کیا۔

جواز کے مقابلے میں بعض اوقات حرام پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیاجاتا ہے:

الف)آیت مجیدہ:

( وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَرِهِن ) “ اور مومنات سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیکی رکھے”(۳۱)

ب) احمد بن ابی عبداللہ برقی کی روایت:

اسْتَأْذَنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى النَّبِيِّ (ص)وَ عِنْدَهُ عَائِشَةُ وَ حَفْصَةُ، فَقَالَ لَهُمَا: قُومَا، فَادْخُلَا الْبَيْتَ، فَقَالَتَا: إِنَّهُ أَعْمَى، فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَرَكُمَا فَإِنَّكُمَا تَرَيَانِهِ .”“ابن ام مکتوم نے رسول اللہ ؐ سے حاض ر خدمت ہونے کی اجازت چاہی جبکہ آپ ؐ کے پاس عائشہ اور حفصہ موجود تھیں۔ رسول اللہ ؐ نے ان دونوں سے کہا: اٹھو اور گھر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: یہ تو اندھا ہے۔ فرمایا: اگر وہ تم دونوں کو نہ دیکھے تو تم اس کو دیکھ سکتی ہو۔”(۳۲)

ج)پیغمبر اکرم ؐ سے مکارم الاخلاق میں طبرسی کی نقل کردہ حدیث:

أَنَّ فَاطِمَةَعلیها السلام قَالَتْ لَهُ فِي حَدِيثٍ: خَيْرٌ لِلنِّسَاءِ أَنْ لَا يَرَيْنَ الرِّجَالَ وَ لَا يَرَاهُنَّ الرِّجَالُ، فَقَالَ (ص): فَاطِمَةُ مِنِّي .”“فاطمہ زہرا ؑ نے جب فرما یا: بہترین عورت وہ ہے جو مردوں کو نہ دیکھے اور کوئی مرد اسے نہ دیکھے تو پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: بے شک فاطمہ ؑ مجھ سے ہے۔”(۳۳)

د)ام سلمہ سے طبرسی ہی کی نقل کردہ حدیث:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ‏: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ عِنْدَهُ مَيْمُونَةُ، فَأَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ أُمِرَ بِالْحِجَابِ، فَقَالَ: احْتَجِبَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ(ص) أَ لَيْسَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا؟ قَالَ: أَ فَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا، أَ لَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ .”“ام سلمہ فرمات ی ہیں: میں اور میمونہ ، رسول اللہ کے پاس موجود تھیں اس وقت ابن ام مکتوم حاضر ہوا۔ اس وقت پردے کا حکم آچکا تھا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: پردہ کرو۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ ؐ! کیا وہ اندھا نہیں ہے جو ہمیں نہیں دیکھ سکتا؟ فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم اسے نہیں دیکھ سکتی ہو؟”(۳۴)

جبکہ آپ ان دلیلوں کو ملاحظہ کر رہے ہیں:

پہلی دلیل ( آیت) کے بارے میں پہلے کہا گیا ہے کہ “غضّ بصر” کے معنی دیکھنے کو ہی ترک کرنا نہیں؛ بلکہ کسی چیز میں دلچسپی نہ لینا اور اس سے بے توجہی برتنا ہے۔(۳۵)

دوسری دلیل ،اگرچہ دلالت کے لحاظ سے حرام ہونے کو ثابت ہی کیوں نہ کرے،سند کے لحاظ سے ضعیف ہے ؛ کیونکہ برقی اور پیغمبر اکرم ؐ کے درمیان زمانے کے لحاظ سے زیادہ فاصلہ ہے ؛ لہذا یہ حدیث مرسل ہے۔

تیسری اور چوتھی دلیل بھی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں اگرچہ ان کی دلالت تام ہی کیوں نہ ہو۔

۴ ۔ مماثل کی شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: یہ حکم مسلمات میں سے ہے۔ اس کے علاوہ سیرت مسلمین کا تقاضا بھی ہے نیز ان روایات کے ذریعے بھی ثابت ہو جاتا ہے جو“باب حمام” میں مذکور ہیں اور حمام میں تہبند کے بغیر داخل ہونے سے منع کرتی ہیں۔(۳۶)

بلکہ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں؛ کیونکہ یہ“اصل ” کا تقاضا ہے اور شرمگاہ کی طرف دیکھنا دلیل شرعی کے ذریعے اصل سےخارج ہوا ہے۔جیسا کہ بعض روایات شرمگاہ کو دیکھنا حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حریز کی روایت صحیحہ ہے:

لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ أَخِيهِ .”“کوئ ی مرد اپنے بھائی کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔”(۳۷)

۵ ۔مجبوری کی حالت میں شرمگاہ کو دیکھنا حرام نہ ہونے کی دلیل: مجبوری کی حالت میں یہ فعل “تزاحم” کے باب میں شامل ہوجاتا ہے جہاں زیادہ اہمیت والے فعل کو مقدم کیا جاتا ہے اور کم اہمیت والے فعل سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جواز کا حکم ہر قسم کی “حالت تزاحم” کے لئے عام ہے جس کی رعایت کرنا شارع کے نزدیک دیکھنے اور چھونے کی حرمت کی رعایت کرنے سے زیادہ اہم ہے۔

۶ ۔ یائسہ عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل:یہ حکم قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے ثابت ہے:

( وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الَّاتىِ لَا يَرْجُونَ نِكاَحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيرَْ مُتَبرَِّجَتِ بِزِينَةٍ وَ أَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيرٌْ لَّهُن ...) “ اور جو عورتیں (ضعیف العمری کی وجہ سے) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لےر اپنے (حجاب کے) کپڑے اتار دینے مںَ کوئی حرج نہیںش ہے بشرطکہک زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق مںک بہتر ہے...”(۳۸)

۷ ۔ نابالغ لڑکی کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: جو ادلہ دیکھنے کی حرمت کو ثابت کرتی ہیں وہ اس مورد کواپنےدائرے میں شامل کرنے سے قاصر ہے؛ کیونکہ حرمت نظر کا حکم اگرفقہ کے مسلمات میں سے ہے تو اس میں قدر متیقن بالغ عورتوں کو دیکھنا ہے اوراگر زینت کو ظاہر کرنا حرام قرار دینے والی آیت ( آیت ابداء الزینۃ) سے اخذ کیا گیا ہے تو وہ بھی بالغوں کے ساتھ مختص ہے۔ نیز اگر ان روایات سے اخذ کیا گیا ہے جو چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کو دیکھنا حرام قرار دیتی ہیں تو وہ روایات بھی بالغوں کے ساتھ مختص ہیں۔

لیکن اگر ان روایتوں سے حکم کو اخذ کیا جائے جن میں نظر کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر یا آنکھوں کا زنا(۳۹) کہا گیا ہے تو یہ روایات اس حکم پر دلالت کرنے سے قاصر ہیں جیسا کہ واضح ہے۔

۸ ۔نابالغ کے سامنے خود کو ظاہر کرنے والی عورت کا حکم: قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مفہوم سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت پر نابالغ کے سامنے خود کو ظاہر کرنا حرام ہے:

( وَ لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ... أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلىَ‏ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ. ..) “ اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے... اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں...”(۴۰)

لیکن حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے:

يُؤْخَذُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ وَ هُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ. وَ لَا تُغَطِّي الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا مِنْهُ حَتَّى يَحْتَلِمَ. ”“جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو نماز کے بارے م یں اس کا مؤاخذہ کیا جائے گا اور جب تک وہ محتلم نہ ہوجائے، کوئی عورت اس سے اپنے بالوں کو نہیں چھپائے گی۔”(۴۱)

آیت کا مفہوم ، مطلق ہے ؛ لہذا اس روایت کے ذریعے اس اطلاق کو مقید کرنا چاہئے۔

۹ ۔ شادی کا ارادہ رکھتے ہوئے عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: بعض روایتوں کی وجہ سے یہ حکم کسی حد تک متفق علیہ ہے۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن سالم ، حماد بن عثمان اور حفص بن البختری نے روایت کی ہے:

لَا بَأْسَ بِأَنْ يَنْظُرَ إِلَى وَجْهِهَا وَ مَعَاصِمِهَا إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا .”“اگر کوئ ی شخص کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے چہرے اور کلائیوں کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔”(۴۲)

نیز غیاث بن ابراہیم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے اور انہوں نے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت کی ہے:

فِي رَجُلٍ يَنْظُرُ إِلَى مَحَاسِنِ امْرَأَةٍ يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا. قَالَ: لَا بَأْسَ، إِنَّمَا هُوَ مُسْتَامٌ فَإِنْ يُقْضَ‏ أَمْرٌ يَكُون .”“ا یک شخص شادی کے ارادے سے کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ ڈالتا ہے اس بارے میں امام ؑ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔وہ شادی کی قابل ہے اگر وہ چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔”(۴۳)

کچھ فقہاء نے بعض روایات سے تمسک کرتے ہوئے شرمگاہ کے علاوہ پورے بدن کو دیکھنا جائز قرار دیا ہے۔(۴۴) ان روایات میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرعلیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ،أَيَنْظُرُ إِلَيْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّمَا يَشْتَرِيهَا بِأَغْلَى الثَّمَنِ .”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: جو شخص کسی عورت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے کیا وہ اس عورت کو دیکھ سکتا ہے؟ فرمایا: جی ہاں! کہ وہ اس کو مہنگے داموں خرید رہا ہے۔”(۴۵)

اس حکم سے شرمگاہ کو اس لئے استثناء کیا گیا ہے کہ اس کو دیکھنا تمام فقہاء کے نزدیک مسلماً حرام ہے۔

۱۰ ۔ اس عورت کا حکم جو کسی مرد کو شادی کے ارادے سے دیکھتی ہے: شیخ اعظم انصاری ؒ کے نزدیک اس عورت کے لئے شادی کے ارادے سے مرد کو دیکھنا جائز ہے؛اس لئے کہ جب اس سے شادی کرنے والے مرد کے لئے ، مہنگے داموں خریدنے کے باعث ، اس کو دیکھنا جائز ہو گیا تو اس عورت کے لئے بھی اس مرد کو دیکھنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا؛ کیونکہ وہ بھی قیمتی جنس دے رہی ہے۔ خصوصا اس بات کے پیش نظر کہ مرد طلاق کے ذریعے عورت سے جان چھڑا سکتا ہے لیکن عورت اس طرح بھی جان نہیں چھڑا سکتی۔(۴۶)

لیکن شیخ اعظم ؒ کی بات قابل اشکال ہے ؛ کیونکہ اگر عورت ،قیمتی جنس دے رہی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے جنس کی قیمت یعنی مہر کا علم ہونا چاہئے نہ کہ شوہر کا علم ؛ کیونکہ بضع ( عزت) کی قیمت شوہر نہیں ہے۔

۱۱ ۔ غیر مسلم عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ ، سکونی کی موثق روایت ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص):‏ لَا حُرْمَةَ لِنِسَاءِ أَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُنْظَرَ إِلَى شُعُورِهِنَّ وَ أَيْدِيهِنَّ .” “رسول اللہ ؐ نے فرما یا: ذمی عورتوں کے بالوں اور ہاتھوں کی طرف دیکھنا حرام نہیں ہے۔ ”(۴۷)

اس حکم کے ثبوت میں ذمی عورتوں کو کوئی دخل نہیں ہے ؛ بلکہ تمام غیر مسلم عورتوں کو دیکھنا جائز ہے۔ذمی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہونے کی وجہ سے کوئی یہ توہم کرسکتا ہے کہ ان کو دیکھنا بھی حرام ہے ؛ لہذا اس توہم کو دور کرنے کے لئے یہاں پر ان کو خاص کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ نکاح جائز ہونا ایک طرح سے ذمی عورتوں کا احترام شمار ہوتا ہے اور دیکھنے کا جواز ، نکاح کے علاوہ ایک دوسرا حکم ہے۔

اس روایت سے قطع نظر یہ حکم عباد بن صہیب کی روایت صحیحہ کے اطلاق سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے:

سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ:‏ لَا بَأْسَ بِالنَّظَرِ إِلَى رُءُوسِ أَهْلِ تِهَامَةَ، وَ الْأَعْرَابِ، وَ أَهْلِ السَّوَادِ، وَ الْعُلُوجِ، لِأَنَّهُمْ إِذَا نُهُوا لَا يَنْتَهُون .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کویہ کہتے ہوئے سنا کہ “اہل تہامہ” ، “اعراب” ، “اہل سواد” اور “ اہل علوج” عورتوں کے بالوں کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اگر انہیں روکا جائے تو یہ باز نہیں آتیں۔”(۴۸)

اس روایت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ منع کرنے کے باوجود باز نہ آنے والی تمام عورتوں کو دیکھنا جائز ہے۔

لذت کے ساتھ نہ دیکھنا شرط ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے مسلمہ احکام میں سے ہے۔ اگر یہ مسلمہ احکام میں سے نہ ہوتا تو اطلاق کے تقاضا کے مطابق مطلَقاً دیکھنا جائز ہے خواہ لذت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔