دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)42%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح) مؤلف:
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11403 / ڈاؤنلوڈ: 5159
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عدّت کے احکام

عدت وہ مدت زمان ہے جس میں عورت ، شوہر سے جد اہونے یا شوہر کے مرنے کے بعد کسی اور مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔

جو عورت کسی دوسرے کی عدت میں ہو اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

اگر مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو یا کسی ایک کو اس بات کا علم ہو کہ عورت عدت گزار رہی ہے اور عدت کے زمانے میں شادی کرنا حرام ہے پھر بھی وہ شادی کرلیں تو دونوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہوجائیں گے خواہ دخول نہ بھی کرے۔ اگر دخول کرے تو اگرچہ وہ دونوں جاہل ہی کیوں نہ ہوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہو جائیں گے۔

دخول میں فرق نہیں پڑتا کہ قبل میں ہو یا دبر میں۔

دلائل:

۱ ۔ عدت گزارنے والی عورت کے شادی کرنا حرام ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے مسلمات میں سے ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَإِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنهَُم بِالمَْعْرُوفِ ...) “اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں...”(۱۰۲)

اس آیت مجیدہ کا مفہوم ، مطلوبہ حکم پر دلالت کر رہا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

( وَ الْمُطَلَّقَاتُ يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ...) “اور طلاق یافتہ عورتیں تنق مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں...”(۱۰۳)

انتظار کرنا ضروری ہونے سے مراد،گزشتہ آیت مجیدہ کے قرینے سے ہی سہی، شادی کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پاک بھی ہے:

( يَأَيهَُّا النَّبىِ‏ُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتهِِنَّ وَ أَحْصُواْ الْعِدَّة. ..) “اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو...”(۱۰۴)

جب تک عدت میں شادی کرنا حرام فرض نہ کیا جائے اس وقت تک احصائے عدت بے معنی ہوتا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَ يَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشهُْرٍ وَ عَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكمُ‏ْ فِيمَا فَعَلْنَ فىِ أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوف ...) “اور تم میںً سے جو وفات پا جائیںّ اوربیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میںَ رکھںا، پھرجب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں ...”(۱۰۵)

اس آیت مجیدہ میں بھی عدت کے دوران شادی کرنا حرام فرض کئے بغیر انتظار کا وجوب ، اگرچہ سیاق کے قرینے سے ہی سہی، بے معنی ہوجاتا ہے۔

روایات میں سے عبد الرحمن بن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت اور دوسری روایتوں سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔عدت میں یہ قید کہ کسی دوسرے شوہر سےعدت میں ہو: شرع مقدس میں عدت کا حکم تشریع ہونے کے بارے میں جو دلائل ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی سے منع کرنا صاحب عدت کے احترام کے لئے ہے۔

اگر یہ حکم مشکوک ہوجائے تو زواج موقت کی ادلہ سے تمسک کیا جا سکتا ہے جو عدت کے دوران شادی کرنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں، البتہ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ دونوں عدتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض روایات ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:

إِنْ أَرَادَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَمْراً جَدِيداً فَعَلَ، وَ لَيْسَ عَلَيْهَا الْعِدَّةُ مِنْهُ، وَ عَلَيْهَا مِنْ غَيْرِهِ خَمْسٌ وَ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً .”“اگر وہ کس ی امر جدید کا ارادہ رکھتا ہے تو انجام دے۔ عورت پر اسی مرد کی نسبت کوئی عدت نہیں ہے۔ اور کسی دوسرے کی نسبت ، عورت پر ضروری ہے کہ پینتالیس ۴۵ راتیں عدت گزارے۔ ”(۱۰۶)

۳ ۔ حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس حکم کوثابت کرنے کے لئے روایات سے مدد لینا ضروری ہے۔ اس بارے میں روایتوں کے چار مجموعے ہیں:

الف) مطلَقا ً حرام ابدی ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

ب) مطلَقا ً حرام ابدی نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

ج) حالت علم میں حرام ابدی ہونے اور لاعلمی کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

د) دخول کی صورت میں حرام ابدی ہونے اور عدم دخول کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

پہلے مجموعے کی مثال، محمد بن مسلم کی روایت ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو عدت کے دوران کسی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے۔فرمایا: ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔ ”(۱۰۷)

اس روایت کی سند اشکال سے خالی نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کے راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن بحر ہے جس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ہم اس قاعدے کے قائل ہوں کہ “تفسیر قمی” کے تمام راوی ثقہ ہیں۔(۱۰۸)

دوسرے مجموعے کی مثال، علی ابن جعفر کی روایت صحیحہ ہے جو انہوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل کی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَةٍ تَزَوَّجْتَ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهَا وَ بَيْنَهُ وَ يَكُونُ خَاطِباً مِنَ الْخُطَّابِ .”“م یں نے ایک ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا جس نے عدت ختم ہونے سے پہلے شادی کر لی تھی۔ امام ؑ نے فرمایا: وہ دونوں جدا ہو جائیں گے اور عدت کے ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کر سکے گا ”(۱۰۹)

قرب الاسناد میں اس روایت کی سند میں عبد اللہ بن حسن کا نام بھی ہے جو ایک مجہول الحال شخص ہے۔ مگر صاحب وسائل نے اس کو علی ابن جعفر کی اپنی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ صاحب وسائل سے علی ابن جعفر تک کی سند صحیح ہے جیسا کہ ایک سے زائد بار کہا جا چکا ہے۔(۱۱۰)

تیسرے مجموعے کی مثال، اسحاق بن عمار کی موثق روایت ہے:

قُلْتُ لِأَبِي إِبْرَاهِيمَ علیه السلام: بَلَغَنَا عَنْ أَبِيكَ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا تَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً، فَقَالَ: هَذَا إِذَا كَانَ عَالِماً، فَإِذَا كَانَ جَاهِلًا فَارَقَهَا وَ تَعْتَدُّ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا نِكَاحاً جَدِيداً .”“م یں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے عرض کیا: آپ ؑ کے پدر گرامی سے ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ اگر کوئی مرد ایک ایسی عورت کے ساتھ شادی کرے جو عدت گزار رہی ہے تو اس پر وہ عورت کبھی حلا ل نہیں ہوگی۔ امام ؑ نے فرمایا: یہ حکم اس وقت ثابت ہوگا جب اسے عدت میں ہونے کا علم ہو؛ لیکن اگر وہ حکم شرعی سے لاعلم ہوتو ان دونوں کو الگ کیا جائے گا اور وہ عورت عدت گزارے گی پھرمرد دوبارہ نکاح کرکے اس کے ساتھ شادی کرے گا۔”(۱۱۱)

چوتھے مجموعے کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحُبْلَى يَمُوتُ زَوْجُهَا فَتَضَعُ،وَ تَزَوَّجُ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً، فَقَالَ: إِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ، وَ اسْتَقْبَلَتْ عِدَّةً أُخْرَى مِنَ الْآخَرِ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ وَ هُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ .”“م یں نے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں امام ؑ سے سوال کیا کہ اس کا شوہر مر جائے اور وہ چار مہینے دس دن گزرنے سے پہلے شادی کر لے۔ امام ؑ نے فرمایا: اگر دخول کیا ہے تو ان کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس پر حلال نہیں ہوگی ۔ وہ پہلی عدت کی باقیماندہ مقدار گزارے گی اور دوسرے شوہر کے لئے تین پاکیوں پر مشتمل ایک دوسری عدت گزارے گی ۔ اگر دخول واقع نہیں ہوا ہے تو ان میں جدائی ڈالی جائے گی اور باقیماندہ عدت گزارے گی۔ وہ شخص اس عورت کے ساتھ شادی کے طلب گاروں میں سے ایک ہوگا۔”(۱۱۲)

مناسب یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کے مضامین کو اس حکم پر جمع کریں جس پر حلبی کی ایک دوسری روایت دلالت کر رہی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا وَ دَخَلَ بِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً عَالِماً كَانَ أَوْ جَاهِلًا، وَ إِنْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَلَّتْ لِلْجَاهِلِ وَ لَمْ تَحِلَّ لِلْآخَرِ .”“اگر کوئ ی شخص کسی عدت گزارتی ہوئی عورت سے شادی کر ے اور دخول بھی کرے تو وہ عورت اس پر حرام ابدی ہوجائے گی خواہ وہ عالم ہو یا جاہل۔ لیکن اگر دخول نہ کرے تو جاہل پر حلال ہوگی جبکہ عالم پر حرام۔”(۱۱۳)

اس روایت کے مضمون کے مطابق گزشتہ چار مجموعوں کے اطلاق کو مقید کیا جائے گا۔

۴ ۔ حرام ابدی ہونے کے لئے مرد اور عورت میں سے کسی ایک کو علم ہونا کافی ہونے کی دلیل: اگر مرد کو علم ہو تو یہ حکم اسحاق بن عمار کی گزشتہ موثق روایت کے مطابق واضح ہے ؛ کیونکہ اس میں مرد کو علم ہونے کی صورت بیان ہوئی ہے۔

اگر عورت کو اس کا علم ہو تو ابن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت کے سیاق سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کے اطلاق میں زوجہ بھی شامل ہے۔ اس عورت کے لئے رجوع کے ذریعے حلیت کا ثابت ہونا ہمارے مطلوب کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ حرام ابدی کا سبب بننے والے علم سے مراد عدت اور حرمت دونوں کے بارے میں علم ہونا ہے۔گزشتہ روایات کے ظاہرسے مراد اگرچہ عدت کے بارے میں علم ہونا ہے ؛ لیکن عدت کے بارے میں علم ہونا عموما حرمت کے بارے میں علم ہونے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ؛ لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو علم ، حرام ابدی کا سبب بنتا ہے وہ عدت اور حرمت دونوں کا ایک ساتھ علم ہونا ہے۔ اسی لئے حرام ابدی واقع ہونے کے لئے ان دونوں میں سے ایک کا علم ہونا کافی نہیں ہے۔

مندرجہ بالا طریقہ استدلال سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس حکم کو عبد الرحمن بن حجاج کی روایت صحیحہ سے واضح طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے جو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا بِجَهَالَةٍ أَ هِيَ مِمَّنْ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً؟ فَقَالَ: لَا، أَمَّا إِذَا كَانَ بِجَهَالَةٍ،فَلْيَتَزَوَّجْهَا بَعْدَ مَا تَنْقَضِي عِدَّتُهَا وَ قَدْ يُعْذَرُ النَّاسُ فِي الْجَهَالَةِ بِمَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: بِأَيِّ الْجَهَالَتَيْنِ يُعْذَرُ بِجَهَالَتِهِ أَنَّ ذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ،أَمْ بِجَهَالَتِهِ أَنَّهَا فِي عِدَّةٍ؟ فَقَالَ: إِحْدَى الْجَهَالَتَيْنِ أَهْوَنُ مِنَ الْأُخْرَى، الْجَهَالَةُ بِأَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَ ذَلِكَ بِأَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الِاحْتِيَاطِ مَعَهَا؛ فَقُلْتُ: وَ هُوَ فِي الْأُخْرَى مَعْذُورٌ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَهُوَ مَعْذُورٌ فِي أَنْ يَتَزَوَّجَهَا؛ فَقُلْتُ: فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مُتَعَمِّداً وَ الْآخَرُ بِجَهْلٍ، فَقَالَ: الَّذِي تَعَمَّدَ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى صَاحِبِهِ أَبَداً .”“م یں نے امام ؑ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو جہالت کی وجہ سے کسی عدت گزارتی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے، کیا وہ عورت اس مرد پر حرام ابدی ہوجائے گی؟ فرمایا: نہیں! لیکن اگر جہالت کی وجہ سے شادی کی ہے تو عدت ختم ہونے کے بعد شادی کرے ۔ لوگ جہالت کی وجہ سے اس سے بڑی چیزوں سے بھی معذور ہوتے ہیں۔ عرض کیا: ان دونوں میں سے کون سی جہالت معذور ہونے کا سبب بنتی ہے : حرمت سے جاہل ہونا یا عدت سے جاہل ہونا؟ فرمایا: ان دونوں جہالتوں میں سے ایک جہالت دوسری جہالت سے زیادہ آسان ہے ۔ اسے یہ علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کام حرام قرار دیا ہے تو یہ ایسی بات ہے جس کے ساتھ وہ احتیاط نہیں کر سکتا۔عرض کیا: تو کیا وہ دوسری صورت میں معذور ہے؟ فرمایا: ہاں ! اگر عدت ختم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ شادی کرنے میں معذور ہے۔ عرض کیا: اگر مرد اور عورت میں سے ایک جان بوجھ کر انجام دے رہا ہو اور دوسرے کو علم نہ ہو تو؟ فرمایا: جو عمدا ً انجام دے رہا ہے اس کے لئے کبھی بھی رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔”(۱۱۴)

۶ ۔ حرام ابدی کے لئے دبر میں دخول کرنا کافی ہونے کی دلیل: گزشتہ روایتوں کے اطلاق سے یہ حکم سمجھا جاتا ہے۔

چار سے زیادہ بیویوں کے احکام

چار سے زیادہ بیویوں کے ساتھ دائمی عقد کرنا جائز نہیں ہے۔

جس شخص کی چار بیویاں ہوں جن میں سے ایک کو طلاق رجعی دی جائے تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہوجائے وہ پانچویں سے شادی نہیں کر سکتا۔

جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے جبکہ طلاقوں کے درمیان رجوع کا فاصلہ ڈالے یا ایسی چیز کا جو رجوع کے حکم میں ہو؛ لیکن اس دوران کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کا فاصلہ نہ ہو تو وہ عورت اس شخص پر حرام ہوجائے گی جب تک کوئی اور شخص اس عورت کے ساتھ شادی نہ کرے۔ اگر اس کے بعد بھی طلاق کا سلسلہ جاری رہے تو چھٹی طلاق کے ساتھ دوبارہ حرام ہوجائے گی۔ اور نویں طلاق کے بعد حرام ابدی ہوجائے گی جس کو باب طلاق میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

دلائل:

۱ ۔ چار سے زیادہ بیویاں جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔(۱۱۵) اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے سمجھا جا سکتا ہے:

( وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فىِ الْيَتَامَى‏ فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنىَ‏ وَ ثُلَاثَ وَ رُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً ...) “اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیو ں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہں پسند آئے ان میں سے دو دو، تن تنر یا چار چارسے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میس عدل نہ کر سکوگے تو ایک ہی کافی ہے...”(۱۱۶)

اگرعدد ، مقام تحدید (حدبندی) میں نہ ہو تو اس کا مفہوم نہیں ہوتا ؛ لیکن اگر مقام تحدید میں ہو تو اس کا مفہوم ہوتا ہے ۔ آیت مجیدہ کا ظاہر یہ ہے کہ یہاں پر عدد ، مقام تحدید میں ہے۔

اس حکم پر دلالت کرنے والی روایات بھی بہت زیادہ ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ اور محمد بن مسلم کی صحیح روایت ہے:

إِذَا جَمَعَ الرَّجُلُ أَرْبَعاً وَ طَلَّقَ إِحْدَاهُنَّ فَلَا يَتَزَوَّجِ الْخَامِسَةَ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّةُ الْمَرْأَةِ الَّتِي طَلَّقَ. وَ قَالَ: لَا يَجْمَعْ مَاءَهُ فِي خَمْس .”“اگر کس ی کی چار بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دے تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے وہ پانچویں سے شادی نہیں کر سکتا۔ اور امامؑ نے فرمایا: وہ اپنے پانی کو پانچ میں جمع نہیں کر سکتا۔”(۱۱۷)

اس کے علاوہ بھی روایتیں موجود ہیں۔

چونکہ اس روایت میں امام ؑ نے فرمایا ہے : وہ اپنے پانی کو پانچ میں جمع نہیں کرسکتا ، لہذا اس کے ساتھ جماع کرنا جائز نہیں جبکہ شادی کرنا جائز ہے۔ یہ احتمال ، ضعیف ہے؛ کیونکہ امام ؑ کا مذکورہ جملہ شادی کرنے سے کنایہ ہے ۔ اگر اس کو نظر انداز کیا جائے تو مدعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری روایتیں کافی ہیں ۔

۲ ۔ اس حکم کے عقد دائمی کے ساتھ مختص ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے اور بہت ساری روایات اس پر دلالت کر رہی ہیں۔ جیسے زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

قُلْتُ: مَا يَحِلُّ مِنَ الْمُتْعَةِ؟ قَالَ: كَمْ شِئْتَ .”“م یں نے عرض کیا: متعہ کے ساتھ کتنی (بیویاں) حلال ہیں؟ فرمایا: جتنی تم چاہو۔”(۱۱۸)

اس روایت کا مُضمَر(۱۱۹) ہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جو امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتے۔علاوہ از ایں اس روایت کے بجائے دوسری روایات سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت متعہ کے بارے میں کہتی ہے : “هِيَ أَحَدُ الْأَرْبَعَة ”“ان چاروں م یں سے ایک یہ (متعہ والی عورت )ہے۔ ”(۱۲۰)

تو اس کا جواب یہ ہے کہ فقہاء میں سے کسی نے بھی اس روایت کے مضمون کی پیروی نہیں کی ہے اس لئے اس کی کوئی دوسری توجیہ کرنی پڑے گی۔ مخالفین کے انکار سے بچتے ہوئے اس روایت کو احتیاط پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ اسی بات پر واضح دلالت رکھتی ہے:

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیه السلام:‏ اجْعَلُوهُنَّ مِنَ الْأَرْبَعِ، فَقَالَ لَهُ صَفْوَانُ بْنُ يَحْيَى: عَلَى الِاحْتِيَاطِ؟ قَالَ: نَعَمْ .”“حضرت امام محمد باقر عل یہ السلام نے فرمایا: تم ان (متعہ والی عورتوں) کو چار میں سے قرار دو۔ تو صفوان بن یحیی نے عرض کیا: احتیاط کی بنا پر ؟ فرمایا: ہاں!”(۱۲۱)

۳ ۔ طلاق رجعی دینے والے پر عدت پوری ہونے سے پہلے پانچویں عورت سے شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔(۱۲۲) اور بعض روایات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے دو ،زرارہ اور محمد بن مسلم کی گزشتہ صحیحہ روایتیں ہیں۔

طلاق کو رجعی کے ساتھ مقید کرنا ، مشہور فتویٰ ہے کیونکہ طلاق بائن میں مکمل طور پر رابطہ کٹ جاتا ہے۔(۱۲۳)

گزشتہ صحیحہ اور دوسری روایتوں کے اطلاق کو دیکھتے ہوئے حکم کو بھی مطلق رکھنا مناسب ہے ؛ مگر یہ کہ اس کے خلاف ، اجماع تعبدی ثابت ہوجائے ، پھر تو حکم مقید ہوجائے گا۔

کافر بیوی کا حکم

کسی مسلمان کے لئے ، غیر کتابی کافر عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ اہل کتاب عورت کے ساتھ شادی جائز ہونے میں اختلاف ہے۔

مسلمان عورت کے لئے غیر مسلم سے شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ اہل کتاب ہو یا غیر کتابی۔

کسی مسلمان کے لئے اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر کتابی عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اہل کتاب سے شادی کرنا جائز ہونے کی بنا پر بھی۔

دلائل:

۱ ۔ مسلمان کے لئے غیر کتابی کافر عورت کے ساتھ شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔(۱۲۴) اور مندرجہ ذیل آیت کے ذریعے اس پر استدلال کیا جاتا ہے:

( وَ لَا تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتىَ‏ يُؤْمِنَّ وَ لَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيرٌْ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَ لَا تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتىَ‏ يُؤْمِنُواْ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيرٌْ مِّن مُّشْرِكٍ وَ لَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَئكَ يَدْعُونَ إِلىَ النَّار ...ِ) “اورتم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہترہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہترہے خواہ وہ (مشرک) تمہیں پسند ہو، کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں”(۱۲۵)

لیکن جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ یہ حکم مطلَقا ً کافر عورتوں کے لئے نہیں ؛ بلکہ مشرک عورتوں سے مختص ہے ۔ مگر یہ کہ مندرجہ ذیل دوبیانات میں سے کسی ایک سے تمسک کیا جائے:

الف) آیت مجیدہ کا آخری حصہ “أُوْلَئكَ يَدْعُونَ إِلىَ النَّار ” صرف مشرک عورتوں سے مختص ہونے ک ی نفی کرتا ہے۔

ب) غایت “حَتىَ‏ يُؤْمِنَّ ” دلالت کر رہ ی ہے کہ غیر مؤمنہ کے ساتھ شادی کرنا مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔

دونوں بیانات ، قابل اشکال ہیں:

پہلے بیان پر یہ اشکال ہے کہ آیت مجیدہ کا آخری حصہ ، حکمت کو بیان کررہا ہے؛ لہذا عموم کو ثابت کرنے کے لئے اس سے تمسک نہیں کیا جا سکتا؛ بلکہ اگر اس کو علت کا بیان کنندہ فرض کر لیا جائے تب بھی اس سے تمسک کا کوئی فائدہ نہیں ہے ؛ کیونکہ ایسی صورت میں آیت کا آخری حصہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ جب جہنم کی طرف دعوت نہ دی جائے تو شادی سے منع ہونا ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ میاں بیوی کے آپس میں نفرت ہو تو جہنم کی طرف دعوت نہیں دی جا سکے گی۔

دوسرے بیان پر یہ اشکال ہے کہ آیت مجیدہ میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ایمان سے مراد ، اسلام نہ ہو ؛ بلکہ کسی کو شریک ٹھہرائے بغیر اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان رکھنا مقصود ہو ۔

بہتر یہ ہے کہ اس حکم پر اس آیت مجیدہ سے استدلال کیا جائے:( ...وَ لَا تُمْسِكُواْ بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ...) “اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔”(۱۲۶)

“عِصَمِ”، “عِصَمة ” کی جمع ہے جو عقد کی طرح کا ایک رابطہ ہے اور “الْكَوَافِرِ ”، “كَافِرِة ” ک ی جمع ہے۔ اس سے مراد، کافر ہونے والی عورتوں کے ساتھ نکاح کے رابطے کو باقی رکھنے سے مؤمنین کو منع کرنا ہے؛ کیونکہ (کافر ہونے کی وجہ سے ) ان کا رابطہ اسلام سے ٹوٹ گیا ہے۔ جب نکاح کو باقی رکھنے کے لحاظ سے نہی ثابت ہوگئی تو نکاح کی ابتدا کرنے کے لحاظ سے بطریق اولیٰ ثابت ہوجائے گی۔

بنا بر ایں آیت مجیدہ کے اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے مطلق حکم لگایا جائے گا ؛ مگر یہ کہ کہیں اس کے خلاف کوئی دلیل قائم ہوجائے ۔ اس وقت اسی مورد کے لحاظ سے اس اطلاق کو مقید کیا جائے گا۔

۲ ۔ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ شادی کا حکم: ایک قول کے مطابق ،جو شاید مشہور بھی ہے، اہل کتاب عورتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا نکاح ،خواہ نکاح متعہ ہو یا دائمی ، جائز نہیں ہے یا فقط دائمی نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔(۱۲۷)

لیکن معاویہ بن وہب وغیرہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:

الرَّجُلِ الْمُؤْمِنِ يَتَزَوَّجُ الْيَهُودِيَّةَ وَ النَّصْرَانِيَّةَ؟ فَقَالَ:إِذَا أَصَابَ الْمُسْلِمَةَ فَمَا يَصْنَعُ بِالْيَهُودِيَّةِ وَ النَّصْرَانِيَّةِ؟ فَقُلْتُ لَهُ: يَكُونُ لَهُ فِيهَا الْهَوَى، قَالَ: إِنْ فَعَلَ فَلْيَمْنَعْهَا مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ وَ أَكْلِ لَحْمِ الْخِنْزِيرِ ...”“ک یا مؤمن ، کسی یہودن اور عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے؟ فرمایا: اگر اسے کوئی مسلمان عورت مل جائے تو وہ یہودن اور عیسائی عورت کا کیا کرے گا؟ عرض کیا: اس کو اس میں دلچسپی ہے۔ فرمایا: اگر وہ شادی کرلے تو وہ اسے شراب پینے اور سور کا گوشت کھانے سے منع کرے...”( ۱۲۸)

اس کے علاوہ بھی بعض روایات ہیں جن کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان ، کسی اہل کتاب عورت کے ساتھ متعہ ؛ بلکہ دائمی نکاح کر سکتا ہے۔

البتہ مشہور فتویٰ کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاط کی رعایت کرنا ایک لازمی امر ہے۔

۳ ۔ مسلمان عورت کا کسی کافر مردکے ساتھ شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔(۱۲۹) اور مندرجہ ذیل آیت مجیدہ سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے:

( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلىَ الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لهَّمْ وَ لَا هُمْ يحَلُّونَ لهَن ...) “اے ایمان والو! جب ہجرت کرنے والی مومنہ عورتیں تمہارے پا س آ جائیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایماندار ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کفار) ان کے لیے حلال ہیں...”

ایمان لانے کے بعد عورتوں کو دوبارہ کفار کی زوجیت میں رکھنے سے نہی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے ہی کفار کی زوجیت میں دینے سے نہی کی گئی ہے ؛ کیونکہ یہ نہی بطریق اولیٰ نہ ہو تو لازم و ملزوم ضرور ہے۔

علاوہ از ایں متعدد روایات سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبد اللہ بن سنان کی روایت صحیحہ ہے:

إِذَا أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ، وَ زَوْجُهَا عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا ”“اگر عورت اسلام لے آئے اور اس کا شوہر غ یر مسلم ہو تو ان دونوں میں جدائی ڈال دی جائے گی۔”(۱۳۰)

اس کے علاوہ بھی بعض روایتیں موجود ہیں۔

۴ ۔ مسلمان عورت پر اہل کتاب سوکن لانا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں۔ جیسے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

لَا تَتَزَوَّجِ الْيَهُودِيَّةَ وَ النَّصْرَانِيَّةَ عَلَى الْمُسْلِمَةِ .”“مسلمان ب یوی پر سوکن بنا کر یہودی اور عیسائی عورت سے شادی نہ کرو۔ ”(۱۳۱)

بلکہ بعض روایتوں میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی شادی کرنے والے شوہر پر زانی کی حد کا آٹھواں حصہ جاری کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن سالم نے صحیح روایت نقل کی ہے:

فی رَجُلٍ تَزَوَّجَ ذِمِّيَّةً عَلَى مُسْلِمَةٍ، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا،وَ يُضْرَبُ ثُمُنَ حَدِّ الزَّانِي، اثْنَيْ عَشَرَ سَوْطاً وَ نِصْفاً، فَإِنْ رَضِيَتِ الْمُسْلِمَةُ ضُرِبَ ثُمُنَ الْحَدِّ وَ لَمْ يُفَرَّقْ بَيْنَهُمَا ...”“امام ؑ نے ا یک ایسے شخص کے بارے میں ، جس نے مسلمان بیوی پر سوکن بنا کر ایک ذمی عورت سے شادی کی تھی، فرمایا: ان دونوں میں جدائی ڈال دی جائے گی اور اس آدمی پر زانی کی حد کا آٹھواں حصہ جاری کیا جائے گا جو ساڑھے بارہ کوڑے بنتے ہیں۔ اگر مسلمان عورت راضی ہوجائے تو آدمی پر حد کا آٹھواں حصہ جاری ہوگا لیکن ان دونوں میں جدائی نہیں ڈالی جائے گی ۔ ”(۱۳۲)

یہ روایت واضح دلالت کر رہی ہے کہ عدم جواز ،کوئی حکم شرعی نہیں؛ بلکہ مسلمان عورت کا حق ہے جو عورت کے اجازت دینے سے یا بعد میں راضی ہونے سے رفع ہوجاتا ہے ۔

لعان اورحالت احرام میں شادی کرنےاحکام

احرام کی حالت میں ازدواج کا حکم

محرم کے لئے حالت احرام میں شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ عورت بھی محرم ہو یا نہ ہو۔ اگر حرمت کا علم ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص ایسا کر لے تو وہ عورت اس پر حرام ابدی ہو جائے گی خواہ دخول کرے یا نہ۔

لعان کا حکم

جو شخص اپنی زوجہ پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف جاری ہوگی ؛ مگر یہ کہ وہ عورت سے لعان کرے ۔ لعان کے ذریعے وہ اپنے آپ سے حد کو ساقط کرے گا؛ لیکن وہ عورت اس شخص پر حرام ابدی ہوجائے گی۔

دلائل:

۱ ۔ محرم کے لئے حالت احرام میں شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔(۱۳۳) اور یونس بن یعقوب کی روایت صحیحہ اس پر دلالت کر رہی ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُحْرِمِ يَتَزَوَّجُ؟ قَالَ: لَا، وَ لَا يُزَوِّجُ الْمُحْرِمُ الْمُحِلَّ .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: کیا محرم ازدواج کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں! اور وہ کسی محل(غیر محرم) کا نکاح بھی نہیں پڑھ سکتا۔”(۱۳۴)

اس کے علاوہ بھی بعض روایتیں اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں۔

۲ ۔حرمت کا علم ہوتے ہوئے شادی کرنے کی صورت میں محرم پر اس عورت کے حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس بارے میں روایات کے تین مختلف مجموعے ہیں:

الف) مطلَقا ً حرام ابدی ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

ب) مطلَقا ً حرام ابدی نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

ج) حرمت کا علم ہوتو حرام ابدی ہونے اور علم نہ ہو تو نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

پہلے مجموعے کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ادیم بن حر کی موثق روایت ہے:

إِنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا تَزَوَّجَ وَ هُوَ مُحْرِمٌ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَ لَا يَتَعَاوَدَانِ أَبَداً،وَ الَّذِي يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ وَ لَهَا زَوْجٌ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَ لَا يَتَعَاوَدَانِ أَبَداً. ”“اگر محرم ، حالت احرام م یں ازدواج کرے تو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ہرگز دوبارہ نہیں پلٹ سکیں گے۔ نیز وہ شخص جو کسی شوہر دار عورت کے ساتھ شادی کرے ان کے درمیان بھی جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ہرگز دوبارہ نہیں پلٹ سکیں گے۔”(۱۳۵)

دوسرے مجموعے کی مثال، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن قیس کی روایت صحیحہ ہے:

قَضَى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیه السلام فِي رَجُلٍ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَ هُوَ مُحْرِمٌ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ؛ فَقَضَى أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَهَا وَ لَمْ يَجْعَلْ نِكَاحَهُ شَيْئاً حَتَّى يَحِلَّ، فَإِذَا أَحَلَّ خَطَبَهَا إِنْ شَاءَ وَ إِنْ شَاءَ أَهْلُهَا زَوَّجُوهُ، وَ إِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجُوهُ .”“ا یک شخص نے محل ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں کسی عورت سے ازدواج کیا تھا اس کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فیصلہ سنایا کہ اس کو اسی طرح چھوڑ دو اور جب تک محل نہ ہوجائے اس کا نکاح کچھ نہیں ہے۔ جب محل ہوجائے اور وہ چاہے تو اس کے لئے خواستگاری کرنا حلال ہے، اگر وہ اپنی زوجہ کو چاہے تو شادی کرے اور وہ دونوں نہ چاہیں تو شادی نہ کریں۔ ”(۱۳۶)

تیسرے مجموعے کی مثال ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ اور داؤد بن سرحان کی روایت صحیحہ ہے:

“...وَ الْمُحْرِمُ إِذَا تَزَوَّجَ وَ هُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ حَرَامٌ عَلَيْهِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً .”“... اگر محرم کو حرمت کا علم ہو اور وہ شاد ی کر لے تو وہ عورت اس پر ہرگز حلال نہیں ہوگی۔”(۱۳۷)

تیسری روایت سے قطع نظر، پہلی اور دوسری کے درمیان تعارض ہے۔ لیکن جب تیسری روایت کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں میں جمع عرفی ممکن ہے ؛ لہذا پہلی روایت کو حرمت کے بارے میں علم ہونے کے فرض پر محمول کیا جائے گا اور دوسری کو جہالت کے فرض پر۔ اس طرح ہم ، متن میں مذکور نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔

لیکن دخول کرنے یا نہ کرنے میں کوئی فرق نہ ہونا ، نصوص کی وجہ سے ہے جو اس جہت سے مطلق ہیں۔

۳ ۔ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے والے پر، لعان نہ کرنے کی صورت میں ،حد زنا جاری ہونے کی دلیل، ان شاء اللہ باب حدود میں بیان کی جائے گی۔

لعان کی وجہ سے حرام ابدی ثابت ہونے کی دلیل: اس حکم پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:

سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، قَالَ: يُلَاعِنُهَا ثُمَّ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا، فَلَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً .”“ا یک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے۔ فرمایا: وہ لعان کرے گا پھر ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ایک دوسرے پر کبھی حلال نہیں ہوں گے۔”(۱۳۸)

کا تعلق اموال سے ہوتا ہے ۔ یہ لفظ علم و حکمت و میں مجازا استعمال ہوتی ہے ۔ اور وہ اس وقت بے محل ہے۔ اب ہم حضرت صدیقہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے موقف کو واضح کرتے ہیں۔ آپ ے مطالبہ میراث کیا۔ حضرت ابوبکر نے انکار کر دیا تو آپ بے حد غضبناک ہوئیں۔ یہاں تک کہ جنازہ میں شرکت کی ممانعت کر دی۔ پھر آپ ؑ کا تاریخی خطبہ آپ کے رنگ استدلال اور غیظ و ملال کا شاہد عادل ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ کیا تم نے عمدا حکم خدا کو ترک کر دیا ہے۔ کہ وہ تو انبیاء میں میراث قرار دیتا ہے ۔ یا تم عموم و خصوص سے میری اور میرے پدر بزرگوار کی نسبت سے زیادہ واقف ہو۔ یا تم میرے اور میرے باپ کی مذہب کو جدا جدا تصور کرتے ہو؟ ذرا ملاحظہ کریں بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے آیات ارث انبیاء سے استدلال کیا اس کے بعد عموم میراث سے استدلال کیا۔ اس کے بعد قوم کی حمیت و غیرت کو چیلنج کیا جو حکم خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر آمادہ تھی۔ اہل انصاف بتاءیں کیا یہ ممکن تھا کہ ایسا واضح حکم (یعنی عدم وراثت اولاد انبیاء) بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معلوم نہ ہو جبکہ اس کا براہ راست تعلق آپ ہی سے تھا۔ کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم احکام کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ اور مکمل طور پر تبلیغ نہ فرماتے تھے؟ کیا امیرالمومنین علی السلام جن کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باب العلم اقضی امت باب حطہ سفینہ نجات قرار دیا تھا اس حکم سے واقت نہ تھے؟ کیا امہات المومنین کو یہ حکم معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان سے میراث کا مطالبہ کر بیٹھیں؟ معلوم ہوا کہ معاملہ احکام سے متعلق نہ تھا بلکہ سیاست سے متعلق تھا۔ اور سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو ان کے حق سے محروم کردیا جائے ۔ اسی لیے آپ نے ایک کلمہ سے تمام امات اسلامیہ کی غیرت و حمیت کو چیلنج کر دیا۔ اور وہ اس وقت کہ جب آپ کی زبان اقدس سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔

""اے ابو بکر کیا ہمیں ہمارے باپ کے دین سے الگ تصور کر لیا ہے جو ہمیں ان کا وارث نہیں قرار دیتا؟ حیف صد حیف بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باپ کے انتقال کے فوراً بعد ایسے دلخراش اور جگر سوز نالوں پر مجبور ہوجائے"" انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مورد عطیئہ زہرا :۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیر کے قلعے فتح کئے اور اہل فدک نے مرعوب ہوکر نصف اراضی پر آپ سے مصالحت کرلی تو آپ نے اپنی خاص ملکیت ہونے کی بنا پر آیت حق ذوی القربی کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا کر دیا۔ اور پھر یہ مال آپ کے زیر تصرف رہا۔ یہاں تک کہ غصب کر لیا گیا ہے ۔ یہ ہے امت اسلامیہ کا وہ اجماعی مسئلہ جسے تمام علماء نے نقل کیا ہے۔

امام رازی کہتے ہیں کہ حضرت زہرا علیہا السلام نے عطیہ کا دعوے کیا۔ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ مجھے تمہاری صداقت کا اعتبار نہیں۔ آپ نے گواہ پیش کیئے لیکن نصاب ناتمام کہا گیا ۔ ابن حجر کہتا ہے کہ دعوی عطیہ میں حضرت فاطمہ کا نصاب شہادت نا تمام تھا یہ ہی بیان ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ کا بھی ہے۔

اقول :۔

خدا مجھے معاف کرے اور حضرت ابوبکر سے حضرت فاطمہ ؑ اور ان کے آباو اولاد کو راضی کرے کاش انہوں نے ایسا اقدام نہ کیا ہوتا کہ جس سے امت اسلامیہ کے دل مجروح ہوگئے اور حکایت پر از حز والم ہوگئی ۔ کاش حضرت فاطمہ ؑ کو مال دے دیا ہوتا اور اس طرح اپنی نرم دلی اور شدت احتیاط کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا۔ کاش حق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کا خیال کیا ہوتا۔ اور حضرت فاطمہ ؑ کو مایوس نہ پلٹایا ہوتا۔

یہی وہ امور ہیں کہ جن کی تمنا خلیفہ سے ان کے قدیم و معاصر معتقدین نے بھی کی ہے۔ چنانچہ اس مقام پر استاد ابو ریاح کا قول بھی خالی از لطف نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبرواحد سے کتاب کریم کے عمومات(۱) کی تخصیص ہوسکتی ہے اور حدیث لانرث ولانورث صحیح ہے تو اتنا تو بہر حال کہہ سکتے ہیں کہ حق ولایت کی بنا پر حضرت ابوبکر کے لیے ممکن تھا کہ ایک حصہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو بھی دے دیتے جس طرح کہ زبیر اور محمد ابن مسلمہ کو متروکات رسالت می حصہ دیا۔ یا جس طرح کہ حضرت عثمان نے خود فدک کو مردان کے حوالہ کیا۔

ابن ابی الحدید نے بعض بزرگوں سے یہ کلام نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا یہ اقدام دین سے قطع نظر شرافت و کرامت کے بھی خلاف تھا اور اس کے بعد کہا ہے کہ یہ اعتراض لاجواب ہے۔

____________________

(۱) عصر حاضر میں یہ علم الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر روایت معتبر ہو اور اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کا کوئی عمومی حکم ہو تو اس روایت کا خیال کرتے ہوئے قرآ کی عمومیت سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن جناب فاطمہ کا ابوبکر کی روایت پر اعتماد نہ کرنا اور آیت سے استدلال پر مصر رہنا ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہر روایت یا راوی کے اعتبار غور کریں۔(مترجم)

تنقید:۔

ہمیں کسی کے رحم و کرم کی ضروری نہیں ہے ۔ ہمارا سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعا انصاب حکم نا تمام تھا ؟ کیا خود حاکم کا حضرت فاطمہ ؑ کی صداقت کے متعلق یقین حکم کے لیے ناکافی تھا؟ جسے روز مباہلہ کے لیے متخب کیا تھا جس کے جلال و جمال سے متاثر ہوکر نصاری نے مباہلہ کا خیال ترک کیا تھا جس کو وحی الہٰی نے مرکز تطہیر قرار دیا تھا جس کی محبت کو قرآ نے واجب کیا تھا اور جس پر صلوات شافعی کی نزدیک شرط صحت و قبولیت نماز ہے جس کی شان میں سورہ دہر قصیدہ بن کر نازل ہوا تھا۔ یقیناً ایسی ذات مقدس کا کلام شہادت دبینہ سے مافوق ہونا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقتاً معاملہ وہ تھا جو علی ب فاروقی نے اس وقت ظاہر کیا کہ جب ابن ابی الحدید نے پوچھا کہ اگر حضرت فاطمہ ؑ صادقہ تھیں تو حضرت ابوبکر نے فدک کیوں نہ دے دیا۔ اور انہوں نے جواب دیا کہ اگر آج ان کے قول کا اعتبار کر لیئے تو کل اپنے شوہر کے لیئے خلافت کا دعوی کرتیں اور حضرت ابوبکر لاجواب رہ جاتے۔

شاید یہی فلسفہ تھا جس نے حضرت علی کی گواہی مانتے سے روک دیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت علی کی ذات وہ ہے جسے یہود خیبر بھی عادل و معتبر جانتے تھے۔ پھر طرفہ تماشایہ ہے کہ صاحب یدیعنی قابض سے گواہ مانگے گئے پھر گواہوں میں حضرت علی جیسے صادق القول کے کلام کو ٹھکرا دیا گیا ۔ جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فقط خزیمہ کے قول کا اعتبار فرما لیا تھا۔ اور حضرت علی خزیمہ سے قطعاً افضل تھے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت فاطمہ ؑ کی گواہی کی ضرورت تھی اور حضرت علی ؑ کی گواہی ناکافی تھی تو خلیفہ نے حضرت فاطمہ ؑ سے قسم کیوں نہ لی۔ جیسا کہ قانون شریعت ہے اور پھر جبکہ حضرت فاطمہ ؑ کی وہ شخصیت ہے کہ بضعتہ النبی اور حضرت علی ؑ کی ذات وہ ہے کہ جسے آیت مباہلہ نے نفس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا ہے ۔ یہ وہ مصیبت ہے کہ جس پر اہل اسلام کو اناللہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت کرنا چاہیے۔

مورد ایذاء زہراسلام اللہ علیہا:۔

یہ یاد رہے کہ تمام اسباب و علل سے قطع نظر یہ امر قبیح خود بھی نصوص صریحہ کے مخالف ہے اس لیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکم بعض لوازم کی بنا پر بدل جاتا ہے ۔ مثلاً فعل مباح اگر موجب عقوق والدین ہوجائے تو خود ہی حرام ہوجائیگا اب ذرا وہ نصوص ملاحظہ کریں کہ جن میں نبوت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت بیان کی گئی ہے۔

اصابہ میں ابن ابی اعسم سے اور ""شرف موید"" میں طبرانی سے روایت ہے کہ اللہ تو حضرت فاطمہ ؑ کے غضب سے غضبناک ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم نے بھی یہ روایت نقل کی ہے نبہانی نے بھی تصریح کی ہے اور جامع صغیر میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ خود بنت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو گواہ بنا کر اس روایت کو بیان کیا تھا۔ ""الامت و السیاست""

اقول :۔

ان احادیث کے انداز پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اخبار میں حضرت صدیقہ طاہرہ کی عصمت عظمت کا صراحتا اعلان کیا گیا ہے آپ ہی کی رضا و غضب پر خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رضا و غضب کا دارو مدار ہے امام احمد حاکم طبرانی ترمذی اصابہ استاد عقاد وغیرہ نے حدیث غضب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم کو بھی نقل کیا ہے۔

ان تمام احادیث کے پیش نظر امت کے اہل حل و عقد کا فریضہ تھا کہ ایسے غمناک موقع پر اہل بیت کا احترام کرتے اور ان کو تسکین دیتے لیکن حیف کہ بجائے تعظیم و تکریم کے مصائیب کا پورا رخ انہیں کی طرف موڑ دیا گیا۔

(قصہ احراق بیت الشرف العقد الفرید ۵ ص ۱۲ )

یہاں تک کہ اہل بیت کی آواز کو صدا بصحرا بنا دیا گیا۔اور ان کے ابدی وقار کو ظاہرا ان سے سلب کر لیا گیا۔ اناللہ و اناللہ راجعون۔

مورد قتل ذوالثدیہ:۔

حرقوس بن زہیر جو ایک خارجی محض آدمی تھا اور ذوالثدیہ کے لقب سے مشہور تھا ایک مرتبہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو اس کے قتل کا حکم دیا لیکن دونوں نے اس کو حالت نماز میں دیکھ کر چھوڑ دیا۔ اور اس طرح فتنہ کی جڑ باقی رہ گئی۔ اس روایت کی مفصل طریقہ سے ابو لیلی نے اپی مسند میں انس سے نقل کیا ہے اور حافظ محمد ب موسی شیرازی نے اپنی کتاب میں بعض تفاسیر سے ابن عبدربہ نے اسے ارسال مسلمات کے طور پر بیان کیا ہے ۔ جس میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول بھی درج ہے کہ اگر یہ شخص قتل ہوجاتا تو اسلام فتنوں سے محفوظ رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ جب حضرت علی ؑ کو حکم قتل ملا تو یہ ظالم فرار کر چکا تھا۔

مورد قتل ذوالثدیہ:۔

علامہ نوری نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے اسے ایک وادی میں مشغول نماز دیکھا اور آکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سفارش کی تو آپ نے دوبارہ قتل کا حکم دیا۔ لیکن انہوں نے مثل حضرت عمر دوبارہ پر پھر حکم سے سرتابی کی اور اس کی نماز کو حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مقدم کیا جب کہ رسول عالم الغیب بھی تھا۔ میں اس روایت کے ماخذ کی تلاش میں تھا کہ دفعتاً مسند ابن حنبل کے جزو سوم میں سے یہ روایت یونہی نظر پڑی۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسرا حکم باقاعدہ شناخت کے بعد تھا لیکن صحابہ نے اپنی رائے و فکر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مقدم کر دیا۔ اور اس طرح نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا۔

مورد قتال اہل قبلہ:۔

تاریخ سے باخبر افراد پریہ امر واضح ہے کہ وفات رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مسئلہ خلافت میں شدید اختلاف واقع ہوا۔ مسلمانوں نے ایک کمیٹی کرکے حضرت ابوبکر کا خلیفہ بنالیا لیکن عرب کے مختلف قبائل ایسے تھے جنہوں نے اس خلافت کو قبول نہیں کیا اور اسی نظریہ کے زیر اثر حضرت ابوبکر کو مال زکوہ دینے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ نے اپنی خصوصی میٹنگ میں ان افراد کے متعلق مشورہ کیا حضرت عمر نے شدت سے اصرار کیا کہ ان سے جنگ نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن حضرت ابوبکر نے یہ اہتمام رکھا کہ یہ سب زکوۃ کے منکر ہیں لہذا ان سے جہاد ضروری ہے ۔ چنانچہ اسی بناء پر مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اس طرح حضرت عمر کے مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا۔

اقول :۔

خدا بھلا کرے خلیفہ کا ماشاء اللہ کتنی ذہانت اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے منکر زکوہ بنا دیا حالانکہ وہ بیچارے امر ولایت و امامت میں مشکوک تھے اور ایسی حالت میں زکوہ دینا ناجاءز تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حاکم ناگہانی کو انصاف سے کیا مطلب ؟ ہم نے یہ مان لیا کہ زکوہ حق مال ہے لہذا اس کی اہمیت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مانع زکوۃ کو کافر بنا دیا جائے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کلمہ توحید کو باعث حفظ جان و مال قرار دیا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ جنگ خیبر کے موقع پر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب امیر ؑ سے یہ فرمایا تھا کہ بعد قبول اسلام جنگ جاءز نہیں ہے ۔ اسی نے مجروح کر دیا تھا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنی نفرت کا اظہار فرمایا کہ میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کاش میں آج کے بعد اسلام لاتا تو یہ دن دیکھنے میں نہ آتے بخاری ہی نے ایک روایت میں خالد کے متعلق نقل کیا ہے کہ ایک جسور آدمی کے قتل کی اجازت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مانگی تو آپ نے نماز گزار کہہ کر روک دیا۔ انہیں دونوں کتابوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت نے مقام منی میں نفس مسلم کو شہر حرام بلد حرام اور روز حرام کے مانند محترم قرار دیا ہے غرض کتب احادیث میں احترام مسلم کی روایات بے شمار موجود ہیں جن کی صریحی مخالفت اس وقت کی گئی جب انکار ادائے زکوہ سے خلافت کی بنیادیں متزلزل نظر آنے لگیں۔ حالانکہ واضح ہے کہ ناگہانی خلافت اور فسادی حکومت میں تشکیک بلکہ اس کا انکار ہر مرد مسلم کا فطری حق تھا۔

مورد یوم سطاح:۔

وہ قیامت خیز دن جب حضرت ابوبکر کے جرنیل حضر خالد نے مالک اور ان کی قوم پر حملہ کرکے آزادانہ طور پر قتل و غارت قید و بند فسق و فجور سے کام لیا تھا۔

مالک؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی نویرہ کا فرزند بنی یربوع کی آبرو بنی تمیم کا تاج اور اسلامی زکوہ کا والی جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عہدہ پر فاءز کیا تھا۔

مالک کا جرم؟ مالک کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر کے پاس مال زکوٰۃ بھیجنے سے انکار کر دیا اور اس کا تاریخی راز یہ تھا کہ وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مدینہ میں ہنگامی حالت نے تمام عالم اسلام کو مدہوش و متحیر کر دیا تھا کہی بن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اموال کو غصب کرکے ان کے پسلیاں توڑی جارہی ہیں، کہیں شاہد رسالت کی گواہی مشکوک بنائی جارہی ہے کہیں بیت رسالت کی توہین کی جارہی ہے اور ایسے حالات میں ایک ایسی خلافت تیار ہوتی ہے کہ جس میں ایک طرف فخر عرب بنی ہاشم اور ایک طرف انصار و مہاجرین ظاہر ہے کہ ایسے حالات طبعی طور پر انسان کو اقدام سے اس وقت تک روک دیتے ہیں جب تک کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوجائے لیکن افسوس کہ مالک کے لیے تحقیق و تفتیش بھی جرم عظیم و باعث قتل و غارت بن گئی ۔ ورنہ مالک کا قصد نہ جنگ کا تھا نہ جہاد کا وہ نماز کے منکر تھے نہ روزہ کے ہاں بنیادی طور پر خلافت حضرت ابوبکر کے منکر ضرور تھے۔

خالد اور سطاح:۔

اسد و غطفان کے قتل و غارت سے فراغت کے بعد جب خالد نے سطاح کا قصد کیا تو انصار نے روکا اور یہ کہ خلیفہ کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کیسا؟ خالد نے جواب دیا کہ میں ولی امر ہوں تمہیں اعتراض کا حق نہیں ہے اور یہ کہہ کر روانہ ہوگیا۔ جب یہ لوگ وارد سطاح ہوئے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ مالک نے قوم کو اس خوف سے منتشر کر دیا تھا کہ مبادہ حضرت ابوبکر ارادہ قتل و غارت کا الزام رکھ دیں۔ (الصدیق ابوبکر ہیکل ص ۱۴۴)

تلاش مالک :۔

خالد نے اپنے لشکر کو قوم کی تلاش میں روانہ کر دیا۔ چنانچہ مالک کو مع افراد قوم کے گرفتار کیا گیا۔ رات بھر انہیں نگرانی میں رکھا گیا۔ ان لوگوں نے اپنے اسلحہ سنبھال لیے۔ ابو قتادہ رئیس لشکر خالد نے اعتراض کیا انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم سے جہاد جاءز ہے تو تم سے بھی جائز ہے تو تم سے بھی جائز ہوگا ہم دونوں ہی مسلمان ہیں۔ غرض دونوں نے اسلحے رکھ کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد لشکر سے اسلحے سنبھال لیے ۔ اور اب خالد و مالک میں بات چیت شروع ہوگئی ۔ مالک کے پہلو میں ان کی زوجہ بھی تھیں کہ جو ""بقول استاد عقاد"" اپنے وقت کی حسین ترین خاتون تھیں۔ مالک نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر نے ہمارے قتل کا حکم دیا ہے؟ خالد نے کہا ہم بہر حال قتل کریں گے۔ مالک نے مطالبہ کیا کہ ہمیں دیگر مجرمین کی طرح حضرت ابوبکر کے پاس لے چلو۔ وہاں فیصلہ ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور ابو قتادہ نے سفارش بھی کی لیکن حضرت خالد نے ایک نہ سنی اور قتل کا حکم دیدیا۔ اس وقت مالک نے اپنی زوجہ کے متعلق کہا کہ باعث قتل اس کا حسن و جمال ہے خالد نے جواب دیا کہ باعث قتل کفرو ارتداد ہے۔ مالک نے کلمہ اسلام زبان پر جاری کیا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے ۔ خالد نے قوم کو گرفتار کرکے رات بھر سردی میں رکھا۔ اور اس کے بعد اپنی قوم کو حکم دیا کہ گرم کرو۔ اس کلمہ کے معنی ان کی زبان میں قتل کے تھے۔ چنانچہ اس بہانہ سے پوری قوم مالک کا خون حلال کر دیا گیا۔ مالک کی زوجہ سے اسی شب میں ۔۔۔۔۔۔ بالجبر کیا گیا ۔ یہ ہے یہ قضیہ مالک کی حقیقت جو محقق بصیر تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ باقی افسانے حکومت وقت کے خوشامدی اور نمک خوار افراد کے افکار کی پیداوار ہیں۔

ابو قتادہ و حضرت عمر کے حملات :۔ استاد ہیکل کا بیان ہے کہ اس حادثہ کو دیکھ کر ابو قتادہ اس قدر متاثر ہوئے کہ مالک کے بھائی کو لےکر مدینہ کی طرف یہ کہہ کر روانہ ہوگئے کہ ایسے شخص کے زیر علم رہنا ننگ و عار ہے۔ اور یہاں آخر حضرت ابوبکر سے شکایت کی۔ حضرت ابوبکر نے کوئی توجہ نہ کی تو حضرت عمر کے پاس گئے اور خالد کی بیحد مذمت کی۔ حضرت عمر متاثر ہوکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے ۔ اور انہوں نے زور دیا کہ خالد سے مواخذہ کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر نے ٹال دیا۔ پھر اصرار کیا تو کہہ دیا۔ کہ وہ سیف اللہ ہے ۔ پھر تاکید کی تو بلایا ۔ خالد نے عمامہ میں تیر پیوست کرلیے حضرت عمر نے نکال کر پھینک دیے لیکن حضرت خالد نے ایسی باتیں بنائیں کہ حضرت ابوبکر نے خطائے اجتہادی قرار دے کر معاف کر دیا۔ اور یہ کہا کہ مالک کی زوجہ سے تعلق قانون عرب میں مناسب نہ تھا۔

اقول :۔

قانون اسلام میں بھی بیوہ سے قبل عدہ عقد حرام ہے۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ مالک کی زوجہ گرفتار کے حکم میں تھی تو کنیزہ کا استبراء(۱) بھی شرعاً واجب ہے

____________________

(۱) اس مقام پر استبراء کے معنی یہ ہیں کہ کنیز کے ہاتھ آنے کے بعد انسان کا فریضہ ہے کہ ۴۵ دن تک اس سے مجامعت نہ کرے مگر یہ کہ پہلے یہ استبراء ہوچکا ہو یا کسی عورت سے خریدا ہو۔ (مترجم)

""استاد ہیکل"" کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے تاثرات اپنی حالت پر باقی رہے یہاں تک کہ جب انہیں خلافت ملی تو پہلا کام یہ کیا کہ خالد کو معزول کر دیا۔

یا للعجب خلاف اولی ہی کے زمانہ میں اس طرح خونریزی آبرو ریزی اور توہین شریعت اسلامیہ ہو اور پھر ایسے فاسق و فاجر انسان سے کوئے مواخذہ بھی نہ ہو یہاں تک کہ خلیفہ دوم کو معزول کرنا پڑے۔ شاید تاریخ انسانیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جس میں کتاب و سنت کا باقاعدہ مذاق اڑایا گیا ہے۔

تاویل استاد ہیکل نے حضرت ابوبکر کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ زمانہ کے ناگفتہ بہ حالات اسی امر کے مقتضی تھے کہ اس اسلامی فاتح کی آزادیوں پر پابندی نہ لگائی جائے۔ اور اس کی صلاحیتو کو محدود نہ بنایا جائے۔ اسلام پر چار طرف سے حملے ہورہے تھے۔ اگر اس چہیتے جرنیل کو معزول کر دیا جاتا تو آج اسلام کا نام نہ ہوتا دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت سے خلاف قانون عرب تعلقات پیدا کر لینا کوئی اتنا اہم امر نہیں ہے کہ اس پر خالد جیسے افراد سے مواخذہ کیا جائے ۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ قوانین شرع پر عمل ہی ضروری ہے اور زنا کار پر سنگ ساری کرنا ہی فریضہ ہے تو ایسے افراد کی ذات عالی پر ایسے قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے اسلام پر ایسا وقت آگیا تھا کہ حضرت ابوبکر کو خالد کی تلوار کی بے حد ضرورت تھی۔ سطاح کے قریب ہی یمامہ تھا وہاں مسیلمہ نے ۴۰ ہزار افراد میں فتنہ نبوت برپا کر رکھا تھا۔ اب اگر اس فاتح اعظم کو مفرول کر دیا جائے تو اسلام کا کیا حشر ہوگا اور وہ بھی صرف ایک صحابی کے قتل کی بناء پر یا اس کی عورت سے زنا کی وجہ سے ۔ بڑی عمیق فکر سے کام لیا حضرت ابوبکر نے اس وقت کہ جب مطالبہ معزولی کو نظر انداز کر کے خالد کو یمامہ کی فتح کے لیے روانہ کر دیا اور شاید یہ قیادت صرف اس لیے تھی کہ اہل مدینہ کو خالد کی عظمت کا اندازہ ہوجائے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ خالد ایسے سخت مواقف کا انسان ہے اور دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اگر خالد قتل ہوگیا تو اس کے سابق جرم کی پاداش ہوجائے گی۔ اور اگر بچ گیا تو اسلام کا فاتح قرار پائے گا۔ لیکن حضرت عمر نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ان کی نظر میں خون مسلم عرض مسلمان کی قیمت تھی وہ کتاب و سنت کو قابل عمل سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے خالد کے وجود کو گوارا نہ کیا۔ ایسا نہ ہو کہ فاتح اسلام زانی کے لقب سے مشہور ہوجائے کسی کا سیف اللہ ہوجاا اس کے جرم کو سبک نہیں بنا سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانہ خلافت میں خالد کو نکال باہر کیا۔

اقول :۔

استاد کے بیان سے واضح ہوگیا کہ خلفاء کرام اپنے مصالح کو نصوص رسالت پر بے تحاشہ مقدم کر دیا کرتے تھے۔ اور یہی نظریہ آج بھی علماء ازہر کا ہے جیسا کہ اہوں نے مجھ سے بالمشافہ ۱۳۲۹ ء میں بیان کیا تھا جب میں وہاں وارد ہوا تھا اور ان لوگوں سے مشغول مناظرہ تھا۔

انصاف :۔ استاد عقاد نے خالد کے متعلق جملہ اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر تاریخ اسلام سے قضیہ ۔ سطاح کو حذف کر دیا جائے تو شاید یہ امر خالد کے حق میں زیادہ مناسب ہوگا بہ نسبت اس جوانمردی اور شان فاتحانہ کے جس میں بلاوجہ شرعی مسلمانوں کا خون بہایا جائے اورمخدرات عصمت کی آبروریزی کی جائے۔

خاتمہ کلام :۔

آخر کلام میں ہم ان مورخین و علماء کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے مالک کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شرافت و بزرگی بلندی نفس اور عزم قوی کا تزکرہ کیا ہے۔ ان حضرات میں سے طبری جمہرہ النسب کامل الروہ والفتوح موفقیات اغافی الدلائل نزہتہ المناظر مختصر شرح النہج وغیرہ کے مصنفین ہیں۔

ابن خلکان نے وثمیہ کے حالات میں مالک کی شرافت و کرامت عظمت و بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی عظمت کو ضرب المظل قرار دیا ہے ۔ انہیں اپنی قوم کا رئیس رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا والئی صدقات تسلیم کیا ہے ۔ اور اس کے بعد مالک اور خالد کی گفتگو کو تفصیلا بیان کیا ہے جس میں خالد نے مالک کے اسلام کی پرواہ کئے بغیر لیلی کے عشق میں مالک کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی ذیل میں حضرت عمر کے اعتراض اور حضرت ابوبکر کے عذر خطائے اجتہادی کا ذکر بھی موجود ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے بھی مالک کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ۔ مرزبانی نے بھی کی قومی بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی ولایت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح مالک کے موقف کو واضح کیا ہے۔

مگر افسوس کہ اللہ کی برہنہ شمشیر نے نہ صحابیت کا خیال کیا اور نہ حدود الہیہ کا قتل کی حرمت کو قابل توجہ قرار دیا اور نہ زنا کی رذالت کو اور اس طرح خطائے اجتہادی کا گزر نصوص صریحہ تک ہوگیا۔انالله و اناالیه راجعون

مورد منع کتابت حدیث :۔

حاکم نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ خود حضرت ابوبکر نے حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو میری حدیث لکھے گا اللہ اس کے لیے بقائے حدیث تک اجر لکھتا رہیگا لیکن افسوس کہ اس حدیث کے باوجود دور شیخین میں تالیف کا کام نظر نہیں آتا بلکہ حضرت ابوبک نے ایک مرتبہ قصد کرکے چند احادیث کو جمع کیا اور پھر رات بھر کی فکر کے بعد انہیں نذر آتش کر دیا۔ (حاکم نیشاپوری کنزالعمال ج ۵ حدیث ۴۸۴۵)

زہری نے عروہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے کتابت احادیث کا قصد کرکے اصحاب سے مشورہ کیا اور اس کے بعد ایک مہینہ فکر کرکے یہ نتیجیہ نکالا کہ کام غلط ہے اس طرح کتاب خدا کی عظمت خاک میں مل جائیگی (کنرل العمال)

ابو وہب نے مالک سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے چند حدیثیں لکھیں اور پھر یہ کہہ دیا کہ کتاب خدا کے ساتھ دوسری کتاب ناجائز ہے (کنر العمال حدیث ۴۸۶۱)

بلکہ بقول یحیی تمام شہرو میں محو کرا دینے کا حکم جاری کرادیا (جامع ابن عبدالبر) قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت عمر نے اپنے عہد میں تمام احادیث کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا (طبقات ۵ ص ۱۴۰)

ابن ابی الحدیدہ وغیرہ نے یہاں تک نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس کچھ کتابیں لایا اور اس نے کہا کہ یہ علوم فتح مدائن سے حاصل ہوئے ہیں انہوں نے ان کتابوں پر اتنے درے لگائے کہ پارہ پارہ ہوگئیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصحاب سیرکا اتفاق ہے کہ حضرت عمر نے کتاب احادیث سے شدت کے ساتھ روک دیا تاکہ یہ لوگ احادیث نشر نہ کرسکیں۔ (کنز العمال ج ۵)

کاش خلفاء وقت نے اس قدر دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا۔ اور اگر خود کم استعداد تھے تو خاندان رسالت ہی کو اتا موقع دیا ہوتا کہ وہ علوم رسالت کو ایک مفصل کتاب کی شکل میں جمع کرکے امت کے سامنے پیش کرتے اور اس طرح امت اسلامیہ قرآن کے دقیق مطالب اور مشکل مسائل حل کر سکتی اور آج دنیائے اسلام میں یہ ابتری نہ ہوتی۔

پھر اگر اسی عہد میں یہ تمام حدیثیں ایک مقام پر جمع ہوجائیں تو کذابین اور وضاعین کو اتنا موقع نہ مل سکتا کہ وہ روایات وضع کرکے ان میں بانی اسلام کی طرف منسوب کرسکیں۔ مگر افسوس کہ خلفاء کی شدت احتیاط سے اسلام کو اس خسارہ سے بھی دوچار ہونا پڑا۔

آہ ! کچھ ایسے اغراض سد راہ ہورہے تھے کہ جن کا ذکر اس مقام پر مناسب نہیں ہے ان حضرات کا ذوق تو اسی دن معلوم ہوگیا تھا جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود کچھ لکھنے کی فکر میں تھے لیکن اغراض و خواہشات نے آنے والی نسلوں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

یہ یاد رہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے فریضہ سے غافل نہ تھے آپ نے اپنی تمام روایتوں کو حضرت علی بن ابی طالب ؑکے پاس بعنوان کتاب محفوظ کر دیا تھا لیکن اس وصیت کے ساتھ کہ ناگزیر حالات کی بنا پر ان کا اظہار اس وقت تک نہ ہو جب تک عالمی حالات روبہ اصلاح نہ ہوجائیں۔

مورد شفاعت مشرکین :۔

احمد بن حنبل نے اپنی مسند (ص ۱۵۵) میں اس واقعہ کو درج کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس چند مشرکین آئے اور کہنے لگے کہ بعض لوگوں نے آپ کے دین کو قبول کر لیا ہے ۔ حالانکہ انہیں دین و دیانت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف قبضہ و اختیار سے نکلنے کی فکر می ہیں لہذا آپ انہیں واپس کر دیجئیے۔ حضرت نے حضرت ابوبکر کی طرف اشارہ کیا کہ ان لوگوں کو سمجھا دو۔ حضرت ابوبکر ے حضرت سے کہہ دیا کہ یہ لوگ حق پر ہیں آپ واپس کر دیجئیے آپ نے غصہ میں آکر حضرت عمر کی طرف رجوع کیا۔ حضرت عمر نے مزید سفارش کر دی تو آپ کا رنگ غیظ و غضب سے متغیر ہوگیا۔ بلکہ بقول نسائی آپ نے فرمایا اے گروہ قریش عنقریب وہ شخص تم پر مسلط ہوگا کہ جس کے قلب کی آزمائش ایمان کے لیے ہوچکی ہوگی۔ وہ تمہیں دین کے بارے میں مار مار کر درست کرے گا۔ یہ سنکر حضرت ابوبکر تڑپ اٹھے عرض کی یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ میں ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں حضرت عمر بول اٹھے تو حقیر ہوگا فرمایا ہرگز نہیں بلکہ وہ شخص ہے کہ جو اس وقت میری جوتیو کی مرمت کر رہا ہے علی ""خاصف النعل""

کا تعلق اموال سے ہوتا ہے ۔ یہ لفظ علم و حکمت و میں مجازا استعمال ہوتی ہے ۔ اور وہ اس وقت بے محل ہے۔ اب ہم حضرت صدیقہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے موقف کو واضح کرتے ہیں۔ آپ ے مطالبہ میراث کیا۔ حضرت ابوبکر نے انکار کر دیا تو آپ بے حد غضبناک ہوئیں۔ یہاں تک کہ جنازہ میں شرکت کی ممانعت کر دی۔ پھر آپ ؑ کا تاریخی خطبہ آپ کے رنگ استدلال اور غیظ و ملال کا شاہد عادل ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ کیا تم نے عمدا حکم خدا کو ترک کر دیا ہے۔ کہ وہ تو انبیاء میں میراث قرار دیتا ہے ۔ یا تم عموم و خصوص سے میری اور میرے پدر بزرگوار کی نسبت سے زیادہ واقف ہو۔ یا تم میرے اور میرے باپ کی مذہب کو جدا جدا تصور کرتے ہو؟ ذرا ملاحظہ کریں بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے آیات ارث انبیاء سے استدلال کیا اس کے بعد عموم میراث سے استدلال کیا۔ اس کے بعد قوم کی حمیت و غیرت کو چیلنج کیا جو حکم خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر آمادہ تھی۔ اہل انصاف بتاءیں کیا یہ ممکن تھا کہ ایسا واضح حکم (یعنی عدم وراثت اولاد انبیاء) بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معلوم نہ ہو جبکہ اس کا براہ راست تعلق آپ ہی سے تھا۔ کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم احکام کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ اور مکمل طور پر تبلیغ نہ فرماتے تھے؟ کیا امیرالمومنین علی السلام جن کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باب العلم اقضی امت باب حطہ سفینہ نجات قرار دیا تھا اس حکم سے واقت نہ تھے؟ کیا امہات المومنین کو یہ حکم معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان سے میراث کا مطالبہ کر بیٹھیں؟ معلوم ہوا کہ معاملہ احکام سے متعلق نہ تھا بلکہ سیاست سے متعلق تھا۔ اور سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو ان کے حق سے محروم کردیا جائے ۔ اسی لیے آپ نے ایک کلمہ سے تمام امات اسلامیہ کی غیرت و حمیت کو چیلنج کر دیا۔ اور وہ اس وقت کہ جب آپ کی زبان اقدس سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔

""اے ابو بکر کیا ہمیں ہمارے باپ کے دین سے الگ تصور کر لیا ہے جو ہمیں ان کا وارث نہیں قرار دیتا؟ حیف صد حیف بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باپ کے انتقال کے فوراً بعد ایسے دلخراش اور جگر سوز نالوں پر مجبور ہوجائے"" انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مورد عطیئہ زہرا :۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیر کے قلعے فتح کئے اور اہل فدک نے مرعوب ہوکر نصف اراضی پر آپ سے مصالحت کرلی تو آپ نے اپنی خاص ملکیت ہونے کی بنا پر آیت حق ذوی القربی کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا کر دیا۔ اور پھر یہ مال آپ کے زیر تصرف رہا۔ یہاں تک کہ غصب کر لیا گیا ہے ۔ یہ ہے امت اسلامیہ کا وہ اجماعی مسئلہ جسے تمام علماء نے نقل کیا ہے۔

امام رازی کہتے ہیں کہ حضرت زہرا علیہا السلام نے عطیہ کا دعوے کیا۔ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ مجھے تمہاری صداقت کا اعتبار نہیں۔ آپ نے گواہ پیش کیئے لیکن نصاب ناتمام کہا گیا ۔ ابن حجر کہتا ہے کہ دعوی عطیہ میں حضرت فاطمہ کا نصاب شہادت نا تمام تھا یہ ہی بیان ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ کا بھی ہے۔

اقول :۔

خدا مجھے معاف کرے اور حضرت ابوبکر سے حضرت فاطمہ ؑ اور ان کے آباو اولاد کو راضی کرے کاش انہوں نے ایسا اقدام نہ کیا ہوتا کہ جس سے امت اسلامیہ کے دل مجروح ہوگئے اور حکایت پر از حز والم ہوگئی ۔ کاش حضرت فاطمہ ؑ کو مال دے دیا ہوتا اور اس طرح اپنی نرم دلی اور شدت احتیاط کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا۔ کاش حق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کا خیال کیا ہوتا۔ اور حضرت فاطمہ ؑ کو مایوس نہ پلٹایا ہوتا۔

یہی وہ امور ہیں کہ جن کی تمنا خلیفہ سے ان کے قدیم و معاصر معتقدین نے بھی کی ہے۔ چنانچہ اس مقام پر استاد ابو ریاح کا قول بھی خالی از لطف نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبرواحد سے کتاب کریم کے عمومات(۱) کی تخصیص ہوسکتی ہے اور حدیث لانرث ولانورث صحیح ہے تو اتنا تو بہر حال کہہ سکتے ہیں کہ حق ولایت کی بنا پر حضرت ابوبکر کے لیے ممکن تھا کہ ایک حصہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو بھی دے دیتے جس طرح کہ زبیر اور محمد ابن مسلمہ کو متروکات رسالت می حصہ دیا۔ یا جس طرح کہ حضرت عثمان نے خود فدک کو مردان کے حوالہ کیا۔

ابن ابی الحدید نے بعض بزرگوں سے یہ کلام نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا یہ اقدام دین سے قطع نظر شرافت و کرامت کے بھی خلاف تھا اور اس کے بعد کہا ہے کہ یہ اعتراض لاجواب ہے۔

____________________

(۱) عصر حاضر میں یہ علم الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر روایت معتبر ہو اور اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کا کوئی عمومی حکم ہو تو اس روایت کا خیال کرتے ہوئے قرآ کی عمومیت سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن جناب فاطمہ کا ابوبکر کی روایت پر اعتماد نہ کرنا اور آیت سے استدلال پر مصر رہنا ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہر روایت یا راوی کے اعتبار غور کریں۔(مترجم)

تنقید:۔

ہمیں کسی کے رحم و کرم کی ضروری نہیں ہے ۔ ہمارا سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعا انصاب حکم نا تمام تھا ؟ کیا خود حاکم کا حضرت فاطمہ ؑ کی صداقت کے متعلق یقین حکم کے لیے ناکافی تھا؟ جسے روز مباہلہ کے لیے متخب کیا تھا جس کے جلال و جمال سے متاثر ہوکر نصاری نے مباہلہ کا خیال ترک کیا تھا جس کو وحی الہٰی نے مرکز تطہیر قرار دیا تھا جس کی محبت کو قرآ نے واجب کیا تھا اور جس پر صلوات شافعی کی نزدیک شرط صحت و قبولیت نماز ہے جس کی شان میں سورہ دہر قصیدہ بن کر نازل ہوا تھا۔ یقیناً ایسی ذات مقدس کا کلام شہادت دبینہ سے مافوق ہونا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقتاً معاملہ وہ تھا جو علی ب فاروقی نے اس وقت ظاہر کیا کہ جب ابن ابی الحدید نے پوچھا کہ اگر حضرت فاطمہ ؑ صادقہ تھیں تو حضرت ابوبکر نے فدک کیوں نہ دے دیا۔ اور انہوں نے جواب دیا کہ اگر آج ان کے قول کا اعتبار کر لیئے تو کل اپنے شوہر کے لیئے خلافت کا دعوی کرتیں اور حضرت ابوبکر لاجواب رہ جاتے۔

شاید یہی فلسفہ تھا جس نے حضرت علی کی گواہی مانتے سے روک دیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت علی کی ذات وہ ہے جسے یہود خیبر بھی عادل و معتبر جانتے تھے۔ پھر طرفہ تماشایہ ہے کہ صاحب یدیعنی قابض سے گواہ مانگے گئے پھر گواہوں میں حضرت علی جیسے صادق القول کے کلام کو ٹھکرا دیا گیا ۔ جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فقط خزیمہ کے قول کا اعتبار فرما لیا تھا۔ اور حضرت علی خزیمہ سے قطعاً افضل تھے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت فاطمہ ؑ کی گواہی کی ضرورت تھی اور حضرت علی ؑ کی گواہی ناکافی تھی تو خلیفہ نے حضرت فاطمہ ؑ سے قسم کیوں نہ لی۔ جیسا کہ قانون شریعت ہے اور پھر جبکہ حضرت فاطمہ ؑ کی وہ شخصیت ہے کہ بضعتہ النبی اور حضرت علی ؑ کی ذات وہ ہے کہ جسے آیت مباہلہ نے نفس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا ہے ۔ یہ وہ مصیبت ہے کہ جس پر اہل اسلام کو اناللہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت کرنا چاہیے۔

مورد ایذاء زہراسلام اللہ علیہا:۔

یہ یاد رہے کہ تمام اسباب و علل سے قطع نظر یہ امر قبیح خود بھی نصوص صریحہ کے مخالف ہے اس لیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکم بعض لوازم کی بنا پر بدل جاتا ہے ۔ مثلاً فعل مباح اگر موجب عقوق والدین ہوجائے تو خود ہی حرام ہوجائیگا اب ذرا وہ نصوص ملاحظہ کریں کہ جن میں نبوت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت بیان کی گئی ہے۔

اصابہ میں ابن ابی اعسم سے اور ""شرف موید"" میں طبرانی سے روایت ہے کہ اللہ تو حضرت فاطمہ ؑ کے غضب سے غضبناک ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم نے بھی یہ روایت نقل کی ہے نبہانی نے بھی تصریح کی ہے اور جامع صغیر میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ خود بنت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو گواہ بنا کر اس روایت کو بیان کیا تھا۔ ""الامت و السیاست""

اقول :۔

ان احادیث کے انداز پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اخبار میں حضرت صدیقہ طاہرہ کی عصمت عظمت کا صراحتا اعلان کیا گیا ہے آپ ہی کی رضا و غضب پر خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رضا و غضب کا دارو مدار ہے امام احمد حاکم طبرانی ترمذی اصابہ استاد عقاد وغیرہ نے حدیث غضب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم کو بھی نقل کیا ہے۔

ان تمام احادیث کے پیش نظر امت کے اہل حل و عقد کا فریضہ تھا کہ ایسے غمناک موقع پر اہل بیت کا احترام کرتے اور ان کو تسکین دیتے لیکن حیف کہ بجائے تعظیم و تکریم کے مصائیب کا پورا رخ انہیں کی طرف موڑ دیا گیا۔

(قصہ احراق بیت الشرف العقد الفرید ۵ ص ۱۲ )

یہاں تک کہ اہل بیت کی آواز کو صدا بصحرا بنا دیا گیا۔اور ان کے ابدی وقار کو ظاہرا ان سے سلب کر لیا گیا۔ اناللہ و اناللہ راجعون۔

مورد قتل ذوالثدیہ:۔

حرقوس بن زہیر جو ایک خارجی محض آدمی تھا اور ذوالثدیہ کے لقب سے مشہور تھا ایک مرتبہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو اس کے قتل کا حکم دیا لیکن دونوں نے اس کو حالت نماز میں دیکھ کر چھوڑ دیا۔ اور اس طرح فتنہ کی جڑ باقی رہ گئی۔ اس روایت کی مفصل طریقہ سے ابو لیلی نے اپی مسند میں انس سے نقل کیا ہے اور حافظ محمد ب موسی شیرازی نے اپنی کتاب میں بعض تفاسیر سے ابن عبدربہ نے اسے ارسال مسلمات کے طور پر بیان کیا ہے ۔ جس میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول بھی درج ہے کہ اگر یہ شخص قتل ہوجاتا تو اسلام فتنوں سے محفوظ رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ جب حضرت علی ؑ کو حکم قتل ملا تو یہ ظالم فرار کر چکا تھا۔

مورد قتل ذوالثدیہ:۔

علامہ نوری نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے اسے ایک وادی میں مشغول نماز دیکھا اور آکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سفارش کی تو آپ نے دوبارہ قتل کا حکم دیا۔ لیکن انہوں نے مثل حضرت عمر دوبارہ پر پھر حکم سے سرتابی کی اور اس کی نماز کو حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مقدم کیا جب کہ رسول عالم الغیب بھی تھا۔ میں اس روایت کے ماخذ کی تلاش میں تھا کہ دفعتاً مسند ابن حنبل کے جزو سوم میں سے یہ روایت یونہی نظر پڑی۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسرا حکم باقاعدہ شناخت کے بعد تھا لیکن صحابہ نے اپنی رائے و فکر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مقدم کر دیا۔ اور اس طرح نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا۔

مورد قتال اہل قبلہ:۔

تاریخ سے باخبر افراد پریہ امر واضح ہے کہ وفات رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مسئلہ خلافت میں شدید اختلاف واقع ہوا۔ مسلمانوں نے ایک کمیٹی کرکے حضرت ابوبکر کا خلیفہ بنالیا لیکن عرب کے مختلف قبائل ایسے تھے جنہوں نے اس خلافت کو قبول نہیں کیا اور اسی نظریہ کے زیر اثر حضرت ابوبکر کو مال زکوہ دینے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ نے اپنی خصوصی میٹنگ میں ان افراد کے متعلق مشورہ کیا حضرت عمر نے شدت سے اصرار کیا کہ ان سے جنگ نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن حضرت ابوبکر نے یہ اہتمام رکھا کہ یہ سب زکوۃ کے منکر ہیں لہذا ان سے جہاد ضروری ہے ۔ چنانچہ اسی بناء پر مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اس طرح حضرت عمر کے مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا۔

اقول :۔

خدا بھلا کرے خلیفہ کا ماشاء اللہ کتنی ذہانت اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے منکر زکوہ بنا دیا حالانکہ وہ بیچارے امر ولایت و امامت میں مشکوک تھے اور ایسی حالت میں زکوہ دینا ناجاءز تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حاکم ناگہانی کو انصاف سے کیا مطلب ؟ ہم نے یہ مان لیا کہ زکوہ حق مال ہے لہذا اس کی اہمیت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مانع زکوۃ کو کافر بنا دیا جائے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کلمہ توحید کو باعث حفظ جان و مال قرار دیا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ جنگ خیبر کے موقع پر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب امیر ؑ سے یہ فرمایا تھا کہ بعد قبول اسلام جنگ جاءز نہیں ہے ۔ اسی نے مجروح کر دیا تھا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنی نفرت کا اظہار فرمایا کہ میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کاش میں آج کے بعد اسلام لاتا تو یہ دن دیکھنے میں نہ آتے بخاری ہی نے ایک روایت میں خالد کے متعلق نقل کیا ہے کہ ایک جسور آدمی کے قتل کی اجازت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مانگی تو آپ نے نماز گزار کہہ کر روک دیا۔ انہیں دونوں کتابوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت نے مقام منی میں نفس مسلم کو شہر حرام بلد حرام اور روز حرام کے مانند محترم قرار دیا ہے غرض کتب احادیث میں احترام مسلم کی روایات بے شمار موجود ہیں جن کی صریحی مخالفت اس وقت کی گئی جب انکار ادائے زکوہ سے خلافت کی بنیادیں متزلزل نظر آنے لگیں۔ حالانکہ واضح ہے کہ ناگہانی خلافت اور فسادی حکومت میں تشکیک بلکہ اس کا انکار ہر مرد مسلم کا فطری حق تھا۔

مورد یوم سطاح:۔

وہ قیامت خیز دن جب حضرت ابوبکر کے جرنیل حضر خالد نے مالک اور ان کی قوم پر حملہ کرکے آزادانہ طور پر قتل و غارت قید و بند فسق و فجور سے کام لیا تھا۔

مالک؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی نویرہ کا فرزند بنی یربوع کی آبرو بنی تمیم کا تاج اور اسلامی زکوہ کا والی جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عہدہ پر فاءز کیا تھا۔

مالک کا جرم؟ مالک کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر کے پاس مال زکوٰۃ بھیجنے سے انکار کر دیا اور اس کا تاریخی راز یہ تھا کہ وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مدینہ میں ہنگامی حالت نے تمام عالم اسلام کو مدہوش و متحیر کر دیا تھا کہی بن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اموال کو غصب کرکے ان کے پسلیاں توڑی جارہی ہیں، کہیں شاہد رسالت کی گواہی مشکوک بنائی جارہی ہے کہیں بیت رسالت کی توہین کی جارہی ہے اور ایسے حالات میں ایک ایسی خلافت تیار ہوتی ہے کہ جس میں ایک طرف فخر عرب بنی ہاشم اور ایک طرف انصار و مہاجرین ظاہر ہے کہ ایسے حالات طبعی طور پر انسان کو اقدام سے اس وقت تک روک دیتے ہیں جب تک کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوجائے لیکن افسوس کہ مالک کے لیے تحقیق و تفتیش بھی جرم عظیم و باعث قتل و غارت بن گئی ۔ ورنہ مالک کا قصد نہ جنگ کا تھا نہ جہاد کا وہ نماز کے منکر تھے نہ روزہ کے ہاں بنیادی طور پر خلافت حضرت ابوبکر کے منکر ضرور تھے۔

خالد اور سطاح:۔

اسد و غطفان کے قتل و غارت سے فراغت کے بعد جب خالد نے سطاح کا قصد کیا تو انصار نے روکا اور یہ کہ خلیفہ کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کیسا؟ خالد نے جواب دیا کہ میں ولی امر ہوں تمہیں اعتراض کا حق نہیں ہے اور یہ کہہ کر روانہ ہوگیا۔ جب یہ لوگ وارد سطاح ہوئے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ مالک نے قوم کو اس خوف سے منتشر کر دیا تھا کہ مبادہ حضرت ابوبکر ارادہ قتل و غارت کا الزام رکھ دیں۔ (الصدیق ابوبکر ہیکل ص ۱۴۴)

تلاش مالک :۔

خالد نے اپنے لشکر کو قوم کی تلاش میں روانہ کر دیا۔ چنانچہ مالک کو مع افراد قوم کے گرفتار کیا گیا۔ رات بھر انہیں نگرانی میں رکھا گیا۔ ان لوگوں نے اپنے اسلحہ سنبھال لیے۔ ابو قتادہ رئیس لشکر خالد نے اعتراض کیا انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم سے جہاد جاءز ہے تو تم سے بھی جائز ہے تو تم سے بھی جائز ہوگا ہم دونوں ہی مسلمان ہیں۔ غرض دونوں نے اسلحے رکھ کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد لشکر سے اسلحے سنبھال لیے ۔ اور اب خالد و مالک میں بات چیت شروع ہوگئی ۔ مالک کے پہلو میں ان کی زوجہ بھی تھیں کہ جو ""بقول استاد عقاد"" اپنے وقت کی حسین ترین خاتون تھیں۔ مالک نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر نے ہمارے قتل کا حکم دیا ہے؟ خالد نے کہا ہم بہر حال قتل کریں گے۔ مالک نے مطالبہ کیا کہ ہمیں دیگر مجرمین کی طرح حضرت ابوبکر کے پاس لے چلو۔ وہاں فیصلہ ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور ابو قتادہ نے سفارش بھی کی لیکن حضرت خالد نے ایک نہ سنی اور قتل کا حکم دیدیا۔ اس وقت مالک نے اپنی زوجہ کے متعلق کہا کہ باعث قتل اس کا حسن و جمال ہے خالد نے جواب دیا کہ باعث قتل کفرو ارتداد ہے۔ مالک نے کلمہ اسلام زبان پر جاری کیا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے ۔ خالد نے قوم کو گرفتار کرکے رات بھر سردی میں رکھا۔ اور اس کے بعد اپنی قوم کو حکم دیا کہ گرم کرو۔ اس کلمہ کے معنی ان کی زبان میں قتل کے تھے۔ چنانچہ اس بہانہ سے پوری قوم مالک کا خون حلال کر دیا گیا۔ مالک کی زوجہ سے اسی شب میں ۔۔۔۔۔۔ بالجبر کیا گیا ۔ یہ ہے یہ قضیہ مالک کی حقیقت جو محقق بصیر تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ باقی افسانے حکومت وقت کے خوشامدی اور نمک خوار افراد کے افکار کی پیداوار ہیں۔

ابو قتادہ و حضرت عمر کے حملات :۔ استاد ہیکل کا بیان ہے کہ اس حادثہ کو دیکھ کر ابو قتادہ اس قدر متاثر ہوئے کہ مالک کے بھائی کو لےکر مدینہ کی طرف یہ کہہ کر روانہ ہوگئے کہ ایسے شخص کے زیر علم رہنا ننگ و عار ہے۔ اور یہاں آخر حضرت ابوبکر سے شکایت کی۔ حضرت ابوبکر نے کوئی توجہ نہ کی تو حضرت عمر کے پاس گئے اور خالد کی بیحد مذمت کی۔ حضرت عمر متاثر ہوکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے ۔ اور انہوں نے زور دیا کہ خالد سے مواخذہ کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر نے ٹال دیا۔ پھر اصرار کیا تو کہہ دیا۔ کہ وہ سیف اللہ ہے ۔ پھر تاکید کی تو بلایا ۔ خالد نے عمامہ میں تیر پیوست کرلیے حضرت عمر نے نکال کر پھینک دیے لیکن حضرت خالد نے ایسی باتیں بنائیں کہ حضرت ابوبکر نے خطائے اجتہادی قرار دے کر معاف کر دیا۔ اور یہ کہا کہ مالک کی زوجہ سے تعلق قانون عرب میں مناسب نہ تھا۔

اقول :۔

قانون اسلام میں بھی بیوہ سے قبل عدہ عقد حرام ہے۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ مالک کی زوجہ گرفتار کے حکم میں تھی تو کنیزہ کا استبراء(۱) بھی شرعاً واجب ہے

____________________

(۱) اس مقام پر استبراء کے معنی یہ ہیں کہ کنیز کے ہاتھ آنے کے بعد انسان کا فریضہ ہے کہ ۴۵ دن تک اس سے مجامعت نہ کرے مگر یہ کہ پہلے یہ استبراء ہوچکا ہو یا کسی عورت سے خریدا ہو۔ (مترجم)

""استاد ہیکل"" کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے تاثرات اپنی حالت پر باقی رہے یہاں تک کہ جب انہیں خلافت ملی تو پہلا کام یہ کیا کہ خالد کو معزول کر دیا۔

یا للعجب خلاف اولی ہی کے زمانہ میں اس طرح خونریزی آبرو ریزی اور توہین شریعت اسلامیہ ہو اور پھر ایسے فاسق و فاجر انسان سے کوئے مواخذہ بھی نہ ہو یہاں تک کہ خلیفہ دوم کو معزول کرنا پڑے۔ شاید تاریخ انسانیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جس میں کتاب و سنت کا باقاعدہ مذاق اڑایا گیا ہے۔

تاویل استاد ہیکل نے حضرت ابوبکر کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ زمانہ کے ناگفتہ بہ حالات اسی امر کے مقتضی تھے کہ اس اسلامی فاتح کی آزادیوں پر پابندی نہ لگائی جائے۔ اور اس کی صلاحیتو کو محدود نہ بنایا جائے۔ اسلام پر چار طرف سے حملے ہورہے تھے۔ اگر اس چہیتے جرنیل کو معزول کر دیا جاتا تو آج اسلام کا نام نہ ہوتا دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت سے خلاف قانون عرب تعلقات پیدا کر لینا کوئی اتنا اہم امر نہیں ہے کہ اس پر خالد جیسے افراد سے مواخذہ کیا جائے ۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ قوانین شرع پر عمل ہی ضروری ہے اور زنا کار پر سنگ ساری کرنا ہی فریضہ ہے تو ایسے افراد کی ذات عالی پر ایسے قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے اسلام پر ایسا وقت آگیا تھا کہ حضرت ابوبکر کو خالد کی تلوار کی بے حد ضرورت تھی۔ سطاح کے قریب ہی یمامہ تھا وہاں مسیلمہ نے ۴۰ ہزار افراد میں فتنہ نبوت برپا کر رکھا تھا۔ اب اگر اس فاتح اعظم کو مفرول کر دیا جائے تو اسلام کا کیا حشر ہوگا اور وہ بھی صرف ایک صحابی کے قتل کی بناء پر یا اس کی عورت سے زنا کی وجہ سے ۔ بڑی عمیق فکر سے کام لیا حضرت ابوبکر نے اس وقت کہ جب مطالبہ معزولی کو نظر انداز کر کے خالد کو یمامہ کی فتح کے لیے روانہ کر دیا اور شاید یہ قیادت صرف اس لیے تھی کہ اہل مدینہ کو خالد کی عظمت کا اندازہ ہوجائے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ خالد ایسے سخت مواقف کا انسان ہے اور دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اگر خالد قتل ہوگیا تو اس کے سابق جرم کی پاداش ہوجائے گی۔ اور اگر بچ گیا تو اسلام کا فاتح قرار پائے گا۔ لیکن حضرت عمر نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ان کی نظر میں خون مسلم عرض مسلمان کی قیمت تھی وہ کتاب و سنت کو قابل عمل سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے خالد کے وجود کو گوارا نہ کیا۔ ایسا نہ ہو کہ فاتح اسلام زانی کے لقب سے مشہور ہوجائے کسی کا سیف اللہ ہوجاا اس کے جرم کو سبک نہیں بنا سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانہ خلافت میں خالد کو نکال باہر کیا۔

اقول :۔

استاد کے بیان سے واضح ہوگیا کہ خلفاء کرام اپنے مصالح کو نصوص رسالت پر بے تحاشہ مقدم کر دیا کرتے تھے۔ اور یہی نظریہ آج بھی علماء ازہر کا ہے جیسا کہ اہوں نے مجھ سے بالمشافہ ۱۳۲۹ ء میں بیان کیا تھا جب میں وہاں وارد ہوا تھا اور ان لوگوں سے مشغول مناظرہ تھا۔

انصاف :۔ استاد عقاد نے خالد کے متعلق جملہ اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر تاریخ اسلام سے قضیہ ۔ سطاح کو حذف کر دیا جائے تو شاید یہ امر خالد کے حق میں زیادہ مناسب ہوگا بہ نسبت اس جوانمردی اور شان فاتحانہ کے جس میں بلاوجہ شرعی مسلمانوں کا خون بہایا جائے اورمخدرات عصمت کی آبروریزی کی جائے۔

خاتمہ کلام :۔

آخر کلام میں ہم ان مورخین و علماء کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے مالک کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شرافت و بزرگی بلندی نفس اور عزم قوی کا تزکرہ کیا ہے۔ ان حضرات میں سے طبری جمہرہ النسب کامل الروہ والفتوح موفقیات اغافی الدلائل نزہتہ المناظر مختصر شرح النہج وغیرہ کے مصنفین ہیں۔

ابن خلکان نے وثمیہ کے حالات میں مالک کی شرافت و کرامت عظمت و بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی عظمت کو ضرب المظل قرار دیا ہے ۔ انہیں اپنی قوم کا رئیس رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا والئی صدقات تسلیم کیا ہے ۔ اور اس کے بعد مالک اور خالد کی گفتگو کو تفصیلا بیان کیا ہے جس میں خالد نے مالک کے اسلام کی پرواہ کئے بغیر لیلی کے عشق میں مالک کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی ذیل میں حضرت عمر کے اعتراض اور حضرت ابوبکر کے عذر خطائے اجتہادی کا ذکر بھی موجود ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے بھی مالک کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ۔ مرزبانی نے بھی کی قومی بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی ولایت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح مالک کے موقف کو واضح کیا ہے۔

مگر افسوس کہ اللہ کی برہنہ شمشیر نے نہ صحابیت کا خیال کیا اور نہ حدود الہیہ کا قتل کی حرمت کو قابل توجہ قرار دیا اور نہ زنا کی رذالت کو اور اس طرح خطائے اجتہادی کا گزر نصوص صریحہ تک ہوگیا۔انالله و اناالیه راجعون

مورد منع کتابت حدیث :۔

حاکم نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ خود حضرت ابوبکر نے حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو میری حدیث لکھے گا اللہ اس کے لیے بقائے حدیث تک اجر لکھتا رہیگا لیکن افسوس کہ اس حدیث کے باوجود دور شیخین میں تالیف کا کام نظر نہیں آتا بلکہ حضرت ابوبک نے ایک مرتبہ قصد کرکے چند احادیث کو جمع کیا اور پھر رات بھر کی فکر کے بعد انہیں نذر آتش کر دیا۔ (حاکم نیشاپوری کنزالعمال ج ۵ حدیث ۴۸۴۵)

زہری نے عروہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے کتابت احادیث کا قصد کرکے اصحاب سے مشورہ کیا اور اس کے بعد ایک مہینہ فکر کرکے یہ نتیجیہ نکالا کہ کام غلط ہے اس طرح کتاب خدا کی عظمت خاک میں مل جائیگی (کنرل العمال)

ابو وہب نے مالک سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے چند حدیثیں لکھیں اور پھر یہ کہہ دیا کہ کتاب خدا کے ساتھ دوسری کتاب ناجائز ہے (کنر العمال حدیث ۴۸۶۱)

بلکہ بقول یحیی تمام شہرو میں محو کرا دینے کا حکم جاری کرادیا (جامع ابن عبدالبر) قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت عمر نے اپنے عہد میں تمام احادیث کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا (طبقات ۵ ص ۱۴۰)

ابن ابی الحدیدہ وغیرہ نے یہاں تک نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس کچھ کتابیں لایا اور اس نے کہا کہ یہ علوم فتح مدائن سے حاصل ہوئے ہیں انہوں نے ان کتابوں پر اتنے درے لگائے کہ پارہ پارہ ہوگئیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصحاب سیرکا اتفاق ہے کہ حضرت عمر نے کتاب احادیث سے شدت کے ساتھ روک دیا تاکہ یہ لوگ احادیث نشر نہ کرسکیں۔ (کنز العمال ج ۵)

کاش خلفاء وقت نے اس قدر دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا۔ اور اگر خود کم استعداد تھے تو خاندان رسالت ہی کو اتا موقع دیا ہوتا کہ وہ علوم رسالت کو ایک مفصل کتاب کی شکل میں جمع کرکے امت کے سامنے پیش کرتے اور اس طرح امت اسلامیہ قرآن کے دقیق مطالب اور مشکل مسائل حل کر سکتی اور آج دنیائے اسلام میں یہ ابتری نہ ہوتی۔

پھر اگر اسی عہد میں یہ تمام حدیثیں ایک مقام پر جمع ہوجائیں تو کذابین اور وضاعین کو اتنا موقع نہ مل سکتا کہ وہ روایات وضع کرکے ان میں بانی اسلام کی طرف منسوب کرسکیں۔ مگر افسوس کہ خلفاء کی شدت احتیاط سے اسلام کو اس خسارہ سے بھی دوچار ہونا پڑا۔

آہ ! کچھ ایسے اغراض سد راہ ہورہے تھے کہ جن کا ذکر اس مقام پر مناسب نہیں ہے ان حضرات کا ذوق تو اسی دن معلوم ہوگیا تھا جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود کچھ لکھنے کی فکر میں تھے لیکن اغراض و خواہشات نے آنے والی نسلوں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

یہ یاد رہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے فریضہ سے غافل نہ تھے آپ نے اپنی تمام روایتوں کو حضرت علی بن ابی طالب ؑکے پاس بعنوان کتاب محفوظ کر دیا تھا لیکن اس وصیت کے ساتھ کہ ناگزیر حالات کی بنا پر ان کا اظہار اس وقت تک نہ ہو جب تک عالمی حالات روبہ اصلاح نہ ہوجائیں۔

مورد شفاعت مشرکین :۔

احمد بن حنبل نے اپنی مسند (ص ۱۵۵) میں اس واقعہ کو درج کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس چند مشرکین آئے اور کہنے لگے کہ بعض لوگوں نے آپ کے دین کو قبول کر لیا ہے ۔ حالانکہ انہیں دین و دیانت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف قبضہ و اختیار سے نکلنے کی فکر می ہیں لہذا آپ انہیں واپس کر دیجئیے۔ حضرت نے حضرت ابوبکر کی طرف اشارہ کیا کہ ان لوگوں کو سمجھا دو۔ حضرت ابوبکر ے حضرت سے کہہ دیا کہ یہ لوگ حق پر ہیں آپ واپس کر دیجئیے آپ نے غصہ میں آکر حضرت عمر کی طرف رجوع کیا۔ حضرت عمر نے مزید سفارش کر دی تو آپ کا رنگ غیظ و غضب سے متغیر ہوگیا۔ بلکہ بقول نسائی آپ نے فرمایا اے گروہ قریش عنقریب وہ شخص تم پر مسلط ہوگا کہ جس کے قلب کی آزمائش ایمان کے لیے ہوچکی ہوگی۔ وہ تمہیں دین کے بارے میں مار مار کر درست کرے گا۔ یہ سنکر حضرت ابوبکر تڑپ اٹھے عرض کی یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ میں ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں حضرت عمر بول اٹھے تو حقیر ہوگا فرمایا ہرگز نہیں بلکہ وہ شخص ہے کہ جو اس وقت میری جوتیو کی مرمت کر رہا ہے علی ""خاصف النعل""


4

5

6

7