دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح) مؤلف:
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: مشاہدے: 9581
ڈاؤنلوڈ: 3122

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9581 / ڈاؤنلوڈ: 3122
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عدّت کے احکام

عدت وہ مدت زمان ہے جس میں عورت ، شوہر سے جد اہونے یا شوہر کے مرنے کے بعد کسی اور مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔

جو عورت کسی دوسرے کی عدت میں ہو اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

اگر مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو یا کسی ایک کو اس بات کا علم ہو کہ عورت عدت گزار رہی ہے اور عدت کے زمانے میں شادی کرنا حرام ہے پھر بھی وہ شادی کرلیں تو دونوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہوجائیں گے خواہ دخول نہ بھی کرے۔ اگر دخول کرے تو اگرچہ وہ دونوں جاہل ہی کیوں نہ ہوں ایک دوسرے پر حرام ابدی ہو جائیں گے۔

دخول میں فرق نہیں پڑتا کہ قبل میں ہو یا دبر میں۔

دلائل:

۱ ۔ عدت گزارنے والی عورت کے شادی کرنا حرام ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے مسلمات میں سے ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَإِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنهَُم بِالمَْعْرُوفِ ...) “اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں...”(۱۰۲)

اس آیت مجیدہ کا مفہوم ، مطلوبہ حکم پر دلالت کر رہا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

( وَ الْمُطَلَّقَاتُ يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ...) “اور طلاق یافتہ عورتیں تنق مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں...”(۱۰۳)

انتظار کرنا ضروری ہونے سے مراد،گزشتہ آیت مجیدہ کے قرینے سے ہی سہی، شادی کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پاک بھی ہے:

( يَأَيهَُّا النَّبىِ‏ُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتهِِنَّ وَ أَحْصُواْ الْعِدَّة. ..) “اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو...”(۱۰۴)

جب تک عدت میں شادی کرنا حرام فرض نہ کیا جائے اس وقت تک احصائے عدت بے معنی ہوتا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَ يَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشهُْرٍ وَ عَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكمُ‏ْ فِيمَا فَعَلْنَ فىِ أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوف ...) “اور تم میںً سے جو وفات پا جائیںّ اوربیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میںَ رکھںا، پھرجب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں ...”(۱۰۵)

اس آیت مجیدہ میں بھی عدت کے دوران شادی کرنا حرام فرض کئے بغیر انتظار کا وجوب ، اگرچہ سیاق کے قرینے سے ہی سہی، بے معنی ہوجاتا ہے۔

روایات میں سے عبد الرحمن بن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت اور دوسری روایتوں سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔عدت میں یہ قید کہ کسی دوسرے شوہر سےعدت میں ہو: شرع مقدس میں عدت کا حکم تشریع ہونے کے بارے میں جو دلائل ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی سے منع کرنا صاحب عدت کے احترام کے لئے ہے۔

اگر یہ حکم مشکوک ہوجائے تو زواج موقت کی ادلہ سے تمسک کیا جا سکتا ہے جو عدت کے دوران شادی کرنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں، البتہ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ دونوں عدتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض روایات ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:

إِنْ أَرَادَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَمْراً جَدِيداً فَعَلَ، وَ لَيْسَ عَلَيْهَا الْعِدَّةُ مِنْهُ، وَ عَلَيْهَا مِنْ غَيْرِهِ خَمْسٌ وَ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً .”“اگر وہ کس ی امر جدید کا ارادہ رکھتا ہے تو انجام دے۔ عورت پر اسی مرد کی نسبت کوئی عدت نہیں ہے۔ اور کسی دوسرے کی نسبت ، عورت پر ضروری ہے کہ پینتالیس ۴۵ راتیں عدت گزارے۔ ”(۱۰۶)

۳ ۔ حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس حکم کوثابت کرنے کے لئے روایات سے مدد لینا ضروری ہے۔ اس بارے میں روایتوں کے چار مجموعے ہیں:

الف) مطلَقا ً حرام ابدی ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

ب) مطلَقا ً حرام ابدی نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

ج) حالت علم میں حرام ابدی ہونے اور لاعلمی کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں،

د) دخول کی صورت میں حرام ابدی ہونے اور عدم دخول کی صورت میں نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

پہلے مجموعے کی مثال، محمد بن مسلم کی روایت ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو عدت کے دوران کسی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے۔فرمایا: ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔ ”(۱۰۷)

اس روایت کی سند اشکال سے خالی نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کے راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن بحر ہے جس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ہم اس قاعدے کے قائل ہوں کہ “تفسیر قمی” کے تمام راوی ثقہ ہیں۔(۱۰۸)

دوسرے مجموعے کی مثال، علی ابن جعفر کی روایت صحیحہ ہے جو انہوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل کی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَةٍ تَزَوَّجْتَ قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهَا وَ بَيْنَهُ وَ يَكُونُ خَاطِباً مِنَ الْخُطَّابِ .”“م یں نے ایک ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا جس نے عدت ختم ہونے سے پہلے شادی کر لی تھی۔ امام ؑ نے فرمایا: وہ دونوں جدا ہو جائیں گے اور عدت کے ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کر سکے گا ”(۱۰۹)

قرب الاسناد میں اس روایت کی سند میں عبد اللہ بن حسن کا نام بھی ہے جو ایک مجہول الحال شخص ہے۔ مگر صاحب وسائل نے اس کو علی ابن جعفر کی اپنی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ صاحب وسائل سے علی ابن جعفر تک کی سند صحیح ہے جیسا کہ ایک سے زائد بار کہا جا چکا ہے۔(۱۱۰)

تیسرے مجموعے کی مثال، اسحاق بن عمار کی موثق روایت ہے:

قُلْتُ لِأَبِي إِبْرَاهِيمَ علیه السلام: بَلَغَنَا عَنْ أَبِيكَ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا تَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً، فَقَالَ: هَذَا إِذَا كَانَ عَالِماً، فَإِذَا كَانَ جَاهِلًا فَارَقَهَا وَ تَعْتَدُّ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا نِكَاحاً جَدِيداً .”“م یں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے عرض کیا: آپ ؑ کے پدر گرامی سے ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ اگر کوئی مرد ایک ایسی عورت کے ساتھ شادی کرے جو عدت گزار رہی ہے تو اس پر وہ عورت کبھی حلا ل نہیں ہوگی۔ امام ؑ نے فرمایا: یہ حکم اس وقت ثابت ہوگا جب اسے عدت میں ہونے کا علم ہو؛ لیکن اگر وہ حکم شرعی سے لاعلم ہوتو ان دونوں کو الگ کیا جائے گا اور وہ عورت عدت گزارے گی پھرمرد دوبارہ نکاح کرکے اس کے ساتھ شادی کرے گا۔”(۱۱۱)

چوتھے مجموعے کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحُبْلَى يَمُوتُ زَوْجُهَا فَتَضَعُ،وَ تَزَوَّجُ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً، فَقَالَ: إِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ، وَ اسْتَقْبَلَتْ عِدَّةً أُخْرَى مِنَ الْآخَرِ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَ اعْتَدَّتْ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْأَوَّلِ وَ هُوَ خَاطِبٌ مِنَ الْخُطَّابِ .”“م یں نے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں امام ؑ سے سوال کیا کہ اس کا شوہر مر جائے اور وہ چار مہینے دس دن گزرنے سے پہلے شادی کر لے۔ امام ؑ نے فرمایا: اگر دخول کیا ہے تو ان کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور وہ عورت کبھی بھی اس پر حلال نہیں ہوگی ۔ وہ پہلی عدت کی باقیماندہ مقدار گزارے گی اور دوسرے شوہر کے لئے تین پاکیوں پر مشتمل ایک دوسری عدت گزارے گی ۔ اگر دخول واقع نہیں ہوا ہے تو ان میں جدائی ڈالی جائے گی اور باقیماندہ عدت گزارے گی۔ وہ شخص اس عورت کے ساتھ شادی کے طلب گاروں میں سے ایک ہوگا۔”(۱۱۲)

مناسب یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کے مضامین کو اس حکم پر جمع کریں جس پر حلبی کی ایک دوسری روایت دلالت کر رہی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا وَ دَخَلَ بِهَا لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً عَالِماً كَانَ أَوْ جَاهِلًا، وَ إِنْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَلَّتْ لِلْجَاهِلِ وَ لَمْ تَحِلَّ لِلْآخَرِ .”“اگر کوئ ی شخص کسی عدت گزارتی ہوئی عورت سے شادی کر ے اور دخول بھی کرے تو وہ عورت اس پر حرام ابدی ہوجائے گی خواہ وہ عالم ہو یا جاہل۔ لیکن اگر دخول نہ کرے تو جاہل پر حلال ہوگی جبکہ عالم پر حرام۔”(۱۱۳)

اس روایت کے مضمون کے مطابق گزشتہ چار مجموعوں کے اطلاق کو مقید کیا جائے گا۔

۴ ۔ حرام ابدی ہونے کے لئے مرد اور عورت میں سے کسی ایک کو علم ہونا کافی ہونے کی دلیل: اگر مرد کو علم ہو تو یہ حکم اسحاق بن عمار کی گزشتہ موثق روایت کے مطابق واضح ہے ؛ کیونکہ اس میں مرد کو علم ہونے کی صورت بیان ہوئی ہے۔

اگر عورت کو اس کا علم ہو تو ابن حجاج کی عنقریب ذکر ہونے والی روایت کے سیاق سے اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کے اطلاق میں زوجہ بھی شامل ہے۔ اس عورت کے لئے رجوع کے ذریعے حلیت کا ثابت ہونا ہمارے مطلوب کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ حرام ابدی کا سبب بننے والے علم سے مراد عدت اور حرمت دونوں کے بارے میں علم ہونا ہے۔گزشتہ روایات کے ظاہرسے مراد اگرچہ عدت کے بارے میں علم ہونا ہے ؛ لیکن عدت کے بارے میں علم ہونا عموما حرمت کے بارے میں علم ہونے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ؛ لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو علم ، حرام ابدی کا سبب بنتا ہے وہ عدت اور حرمت دونوں کا ایک ساتھ علم ہونا ہے۔ اسی لئے حرام ابدی واقع ہونے کے لئے ان دونوں میں سے ایک کا علم ہونا کافی نہیں ہے۔

مندرجہ بالا طریقہ استدلال سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس حکم کو عبد الرحمن بن حجاج کی روایت صحیحہ سے واضح طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے جو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی ہے:

سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا بِجَهَالَةٍ أَ هِيَ مِمَّنْ لَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً؟ فَقَالَ: لَا، أَمَّا إِذَا كَانَ بِجَهَالَةٍ،فَلْيَتَزَوَّجْهَا بَعْدَ مَا تَنْقَضِي عِدَّتُهَا وَ قَدْ يُعْذَرُ النَّاسُ فِي الْجَهَالَةِ بِمَا هُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: بِأَيِّ الْجَهَالَتَيْنِ يُعْذَرُ بِجَهَالَتِهِ أَنَّ ذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ،أَمْ بِجَهَالَتِهِ أَنَّهَا فِي عِدَّةٍ؟ فَقَالَ: إِحْدَى الْجَهَالَتَيْنِ أَهْوَنُ مِنَ الْأُخْرَى، الْجَهَالَةُ بِأَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَ ذَلِكَ بِأَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الِاحْتِيَاطِ مَعَهَا؛ فَقُلْتُ: وَ هُوَ فِي الْأُخْرَى مَعْذُورٌ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَهُوَ مَعْذُورٌ فِي أَنْ يَتَزَوَّجَهَا؛ فَقُلْتُ: فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مُتَعَمِّداً وَ الْآخَرُ بِجَهْلٍ، فَقَالَ: الَّذِي تَعَمَّدَ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى صَاحِبِهِ أَبَداً .”“م یں نے امام ؑ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو جہالت کی وجہ سے کسی عدت گزارتی عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے، کیا وہ عورت اس مرد پر حرام ابدی ہوجائے گی؟ فرمایا: نہیں! لیکن اگر جہالت کی وجہ سے شادی کی ہے تو عدت ختم ہونے کے بعد شادی کرے ۔ لوگ جہالت کی وجہ سے اس سے بڑی چیزوں سے بھی معذور ہوتے ہیں۔ عرض کیا: ان دونوں میں سے کون سی جہالت معذور ہونے کا سبب بنتی ہے : حرمت سے جاہل ہونا یا عدت سے جاہل ہونا؟ فرمایا: ان دونوں جہالتوں میں سے ایک جہالت دوسری جہالت سے زیادہ آسان ہے ۔ اسے یہ علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کام حرام قرار دیا ہے تو یہ ایسی بات ہے جس کے ساتھ وہ احتیاط نہیں کر سکتا۔عرض کیا: تو کیا وہ دوسری صورت میں معذور ہے؟ فرمایا: ہاں ! اگر عدت ختم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ شادی کرنے میں معذور ہے۔ عرض کیا: اگر مرد اور عورت میں سے ایک جان بوجھ کر انجام دے رہا ہو اور دوسرے کو علم نہ ہو تو؟ فرمایا: جو عمدا ً انجام دے رہا ہے اس کے لئے کبھی بھی رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔”(۱۱۴)

۶ ۔ حرام ابدی کے لئے دبر میں دخول کرنا کافی ہونے کی دلیل: گزشتہ روایتوں کے اطلاق سے یہ حکم سمجھا جاتا ہے۔

چار سے زیادہ بیویوں کے احکام

چار سے زیادہ بیویوں کے ساتھ دائمی عقد کرنا جائز نہیں ہے۔

جس شخص کی چار بیویاں ہوں جن میں سے ایک کو طلاق رجعی دی جائے تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہوجائے وہ پانچویں سے شادی نہیں کر سکتا۔

جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے جبکہ طلاقوں کے درمیان رجوع کا فاصلہ ڈالے یا ایسی چیز کا جو رجوع کے حکم میں ہو؛ لیکن اس دوران کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کا فاصلہ نہ ہو تو وہ عورت اس شخص پر حرام ہوجائے گی جب تک کوئی اور شخص اس عورت کے ساتھ شادی نہ کرے۔ اگر اس کے بعد بھی طلاق کا سلسلہ جاری رہے تو چھٹی طلاق کے ساتھ دوبارہ حرام ہوجائے گی۔ اور نویں طلاق کے بعد حرام ابدی ہوجائے گی جس کو باب طلاق میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

دلائل:

۱ ۔ چار سے زیادہ بیویاں جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔(۱۱۵) اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے سمجھا جا سکتا ہے:

( وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فىِ الْيَتَامَى‏ فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنىَ‏ وَ ثُلَاثَ وَ رُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً ...) “اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیو ں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہں پسند آئے ان میں سے دو دو، تن تنر یا چار چارسے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میس عدل نہ کر سکوگے تو ایک ہی کافی ہے...”(۱۱۶)

اگرعدد ، مقام تحدید (حدبندی) میں نہ ہو تو اس کا مفہوم نہیں ہوتا ؛ لیکن اگر مقام تحدید میں ہو تو اس کا مفہوم ہوتا ہے ۔ آیت مجیدہ کا ظاہر یہ ہے کہ یہاں پر عدد ، مقام تحدید میں ہے۔

اس حکم پر دلالت کرنے والی روایات بھی بہت زیادہ ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ اور محمد بن مسلم کی صحیح روایت ہے:

إِذَا جَمَعَ الرَّجُلُ أَرْبَعاً وَ طَلَّقَ إِحْدَاهُنَّ فَلَا يَتَزَوَّجِ الْخَامِسَةَ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّةُ الْمَرْأَةِ الَّتِي طَلَّقَ. وَ قَالَ: لَا يَجْمَعْ مَاءَهُ فِي خَمْس .”“اگر کس ی کی چار بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دے تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے وہ پانچویں سے شادی نہیں کر سکتا۔ اور امامؑ نے فرمایا: وہ اپنے پانی کو پانچ میں جمع نہیں کر سکتا۔”(۱۱۷)

اس کے علاوہ بھی روایتیں موجود ہیں۔

چونکہ اس روایت میں امام ؑ نے فرمایا ہے : وہ اپنے پانی کو پانچ میں جمع نہیں کرسکتا ، لہذا اس کے ساتھ جماع کرنا جائز نہیں جبکہ شادی کرنا جائز ہے۔ یہ احتمال ، ضعیف ہے؛ کیونکہ امام ؑ کا مذکورہ جملہ شادی کرنے سے کنایہ ہے ۔ اگر اس کو نظر انداز کیا جائے تو مدعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری روایتیں کافی ہیں ۔

۲ ۔ اس حکم کے عقد دائمی کے ساتھ مختص ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے اور بہت ساری روایات اس پر دلالت کر رہی ہیں۔ جیسے زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

قُلْتُ: مَا يَحِلُّ مِنَ الْمُتْعَةِ؟ قَالَ: كَمْ شِئْتَ .”“م یں نے عرض کیا: متعہ کے ساتھ کتنی (بیویاں) حلال ہیں؟ فرمایا: جتنی تم چاہو۔”(۱۱۸)

اس روایت کا مُضمَر(۱۱۹) ہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جو امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتے۔علاوہ از ایں اس روایت کے بجائے دوسری روایات سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت متعہ کے بارے میں کہتی ہے : “هِيَ أَحَدُ الْأَرْبَعَة ”“ان چاروں م یں سے ایک یہ (متعہ والی عورت )ہے۔ ”(۱۲۰)

تو اس کا جواب یہ ہے کہ فقہاء میں سے کسی نے بھی اس روایت کے مضمون کی پیروی نہیں کی ہے اس لئے اس کی کوئی دوسری توجیہ کرنی پڑے گی۔ مخالفین کے انکار سے بچتے ہوئے اس روایت کو احتیاط پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ اسی بات پر واضح دلالت رکھتی ہے:

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیه السلام:‏ اجْعَلُوهُنَّ مِنَ الْأَرْبَعِ، فَقَالَ لَهُ صَفْوَانُ بْنُ يَحْيَى: عَلَى الِاحْتِيَاطِ؟ قَالَ: نَعَمْ .”“حضرت امام محمد باقر عل یہ السلام نے فرمایا: تم ان (متعہ والی عورتوں) کو چار میں سے قرار دو۔ تو صفوان بن یحیی نے عرض کیا: احتیاط کی بنا پر ؟ فرمایا: ہاں!”(۱۲۱)

۳ ۔ طلاق رجعی دینے والے پر عدت پوری ہونے سے پہلے پانچویں عورت سے شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔(۱۲۲) اور بعض روایات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے دو ،زرارہ اور محمد بن مسلم کی گزشتہ صحیحہ روایتیں ہیں۔

طلاق کو رجعی کے ساتھ مقید کرنا ، مشہور فتویٰ ہے کیونکہ طلاق بائن میں مکمل طور پر رابطہ کٹ جاتا ہے۔(۱۲۳)

گزشتہ صحیحہ اور دوسری روایتوں کے اطلاق کو دیکھتے ہوئے حکم کو بھی مطلق رکھنا مناسب ہے ؛ مگر یہ کہ اس کے خلاف ، اجماع تعبدی ثابت ہوجائے ، پھر تو حکم مقید ہوجائے گا۔

کافر بیوی کا حکم

کسی مسلمان کے لئے ، غیر کتابی کافر عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ اہل کتاب عورت کے ساتھ شادی جائز ہونے میں اختلاف ہے۔

مسلمان عورت کے لئے غیر مسلم سے شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ اہل کتاب ہو یا غیر کتابی۔

کسی مسلمان کے لئے اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر کتابی عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اہل کتاب سے شادی کرنا جائز ہونے کی بنا پر بھی۔

دلائل:

۱ ۔ مسلمان کے لئے غیر کتابی کافر عورت کے ساتھ شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔(۱۲۴) اور مندرجہ ذیل آیت کے ذریعے اس پر استدلال کیا جاتا ہے:

( وَ لَا تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتىَ‏ يُؤْمِنَّ وَ لَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيرٌْ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَ لَا تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتىَ‏ يُؤْمِنُواْ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيرٌْ مِّن مُّشْرِكٍ وَ لَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَئكَ يَدْعُونَ إِلىَ النَّار ...ِ) “اورتم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہترہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہترہے خواہ وہ (مشرک) تمہیں پسند ہو، کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں”(۱۲۵)

لیکن جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ یہ حکم مطلَقا ً کافر عورتوں کے لئے نہیں ؛ بلکہ مشرک عورتوں سے مختص ہے ۔ مگر یہ کہ مندرجہ ذیل دوبیانات میں سے کسی ایک سے تمسک کیا جائے:

الف) آیت مجیدہ کا آخری حصہ “أُوْلَئكَ يَدْعُونَ إِلىَ النَّار ” صرف مشرک عورتوں سے مختص ہونے ک ی نفی کرتا ہے۔

ب) غایت “حَتىَ‏ يُؤْمِنَّ ” دلالت کر رہ ی ہے کہ غیر مؤمنہ کے ساتھ شادی کرنا مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔

دونوں بیانات ، قابل اشکال ہیں:

پہلے بیان پر یہ اشکال ہے کہ آیت مجیدہ کا آخری حصہ ، حکمت کو بیان کررہا ہے؛ لہذا عموم کو ثابت کرنے کے لئے اس سے تمسک نہیں کیا جا سکتا؛ بلکہ اگر اس کو علت کا بیان کنندہ فرض کر لیا جائے تب بھی اس سے تمسک کا کوئی فائدہ نہیں ہے ؛ کیونکہ ایسی صورت میں آیت کا آخری حصہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ جب جہنم کی طرف دعوت نہ دی جائے تو شادی سے منع ہونا ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ میاں بیوی کے آپس میں نفرت ہو تو جہنم کی طرف دعوت نہیں دی جا سکے گی۔

دوسرے بیان پر یہ اشکال ہے کہ آیت مجیدہ میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ایمان سے مراد ، اسلام نہ ہو ؛ بلکہ کسی کو شریک ٹھہرائے بغیر اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان رکھنا مقصود ہو ۔

بہتر یہ ہے کہ اس حکم پر اس آیت مجیدہ سے استدلال کیا جائے:( ...وَ لَا تُمْسِكُواْ بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ...) “اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔”(۱۲۶)

“عِصَمِ”، “عِصَمة ” کی جمع ہے جو عقد کی طرح کا ایک رابطہ ہے اور “الْكَوَافِرِ ”، “كَافِرِة ” ک ی جمع ہے۔ اس سے مراد، کافر ہونے والی عورتوں کے ساتھ نکاح کے رابطے کو باقی رکھنے سے مؤمنین کو منع کرنا ہے؛ کیونکہ (کافر ہونے کی وجہ سے ) ان کا رابطہ اسلام سے ٹوٹ گیا ہے۔ جب نکاح کو باقی رکھنے کے لحاظ سے نہی ثابت ہوگئی تو نکاح کی ابتدا کرنے کے لحاظ سے بطریق اولیٰ ثابت ہوجائے گی۔

بنا بر ایں آیت مجیدہ کے اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے مطلق حکم لگایا جائے گا ؛ مگر یہ کہ کہیں اس کے خلاف کوئی دلیل قائم ہوجائے ۔ اس وقت اسی مورد کے لحاظ سے اس اطلاق کو مقید کیا جائے گا۔

۲ ۔ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ شادی کا حکم: ایک قول کے مطابق ،جو شاید مشہور بھی ہے، اہل کتاب عورتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا نکاح ،خواہ نکاح متعہ ہو یا دائمی ، جائز نہیں ہے یا فقط دائمی نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔(۱۲۷)

لیکن معاویہ بن وہب وغیرہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:

الرَّجُلِ الْمُؤْمِنِ يَتَزَوَّجُ الْيَهُودِيَّةَ وَ النَّصْرَانِيَّةَ؟ فَقَالَ:إِذَا أَصَابَ الْمُسْلِمَةَ فَمَا يَصْنَعُ بِالْيَهُودِيَّةِ وَ النَّصْرَانِيَّةِ؟ فَقُلْتُ لَهُ: يَكُونُ لَهُ فِيهَا الْهَوَى، قَالَ: إِنْ فَعَلَ فَلْيَمْنَعْهَا مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ وَ أَكْلِ لَحْمِ الْخِنْزِيرِ ...”“ک یا مؤمن ، کسی یہودن اور عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے؟ فرمایا: اگر اسے کوئی مسلمان عورت مل جائے تو وہ یہودن اور عیسائی عورت کا کیا کرے گا؟ عرض کیا: اس کو اس میں دلچسپی ہے۔ فرمایا: اگر وہ شادی کرلے تو وہ اسے شراب پینے اور سور کا گوشت کھانے سے منع کرے...”( ۱۲۸)

اس کے علاوہ بھی بعض روایات ہیں جن کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان ، کسی اہل کتاب عورت کے ساتھ متعہ ؛ بلکہ دائمی نکاح کر سکتا ہے۔

البتہ مشہور فتویٰ کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاط کی رعایت کرنا ایک لازمی امر ہے۔

۳ ۔ مسلمان عورت کا کسی کافر مردکے ساتھ شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔(۱۲۹) اور مندرجہ ذیل آیت مجیدہ سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے:

( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلىَ الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لهَّمْ وَ لَا هُمْ يحَلُّونَ لهَن ...) “اے ایمان والو! جب ہجرت کرنے والی مومنہ عورتیں تمہارے پا س آ جائیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایماندار ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کفار) ان کے لیے حلال ہیں...”

ایمان لانے کے بعد عورتوں کو دوبارہ کفار کی زوجیت میں رکھنے سے نہی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے ہی کفار کی زوجیت میں دینے سے نہی کی گئی ہے ؛ کیونکہ یہ نہی بطریق اولیٰ نہ ہو تو لازم و ملزوم ضرور ہے۔

علاوہ از ایں متعدد روایات سے بھی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبد اللہ بن سنان کی روایت صحیحہ ہے:

إِذَا أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ، وَ زَوْجُهَا عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا ”“اگر عورت اسلام لے آئے اور اس کا شوہر غ یر مسلم ہو تو ان دونوں میں جدائی ڈال دی جائے گی۔”(۱۳۰)

اس کے علاوہ بھی بعض روایتیں موجود ہیں۔

۴ ۔ مسلمان عورت پر اہل کتاب سوکن لانا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں۔ جیسے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

لَا تَتَزَوَّجِ الْيَهُودِيَّةَ وَ النَّصْرَانِيَّةَ عَلَى الْمُسْلِمَةِ .”“مسلمان ب یوی پر سوکن بنا کر یہودی اور عیسائی عورت سے شادی نہ کرو۔ ”(۱۳۱)

بلکہ بعض روایتوں میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی شادی کرنے والے شوہر پر زانی کی حد کا آٹھواں حصہ جاری کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن سالم نے صحیح روایت نقل کی ہے:

فی رَجُلٍ تَزَوَّجَ ذِمِّيَّةً عَلَى مُسْلِمَةٍ، قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا،وَ يُضْرَبُ ثُمُنَ حَدِّ الزَّانِي، اثْنَيْ عَشَرَ سَوْطاً وَ نِصْفاً، فَإِنْ رَضِيَتِ الْمُسْلِمَةُ ضُرِبَ ثُمُنَ الْحَدِّ وَ لَمْ يُفَرَّقْ بَيْنَهُمَا ...”“امام ؑ نے ا یک ایسے شخص کے بارے میں ، جس نے مسلمان بیوی پر سوکن بنا کر ایک ذمی عورت سے شادی کی تھی، فرمایا: ان دونوں میں جدائی ڈال دی جائے گی اور اس آدمی پر زانی کی حد کا آٹھواں حصہ جاری کیا جائے گا جو ساڑھے بارہ کوڑے بنتے ہیں۔ اگر مسلمان عورت راضی ہوجائے تو آدمی پر حد کا آٹھواں حصہ جاری ہوگا لیکن ان دونوں میں جدائی نہیں ڈالی جائے گی ۔ ”(۱۳۲)

یہ روایت واضح دلالت کر رہی ہے کہ عدم جواز ،کوئی حکم شرعی نہیں؛ بلکہ مسلمان عورت کا حق ہے جو عورت کے اجازت دینے سے یا بعد میں راضی ہونے سے رفع ہوجاتا ہے ۔

لعان اورحالت احرام میں شادی کرنےاحکام

احرام کی حالت میں ازدواج کا حکم

محرم کے لئے حالت احرام میں شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ عورت بھی محرم ہو یا نہ ہو۔ اگر حرمت کا علم ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص ایسا کر لے تو وہ عورت اس پر حرام ابدی ہو جائے گی خواہ دخول کرے یا نہ۔

لعان کا حکم

جو شخص اپنی زوجہ پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف جاری ہوگی ؛ مگر یہ کہ وہ عورت سے لعان کرے ۔ لعان کے ذریعے وہ اپنے آپ سے حد کو ساقط کرے گا؛ لیکن وہ عورت اس شخص پر حرام ابدی ہوجائے گی۔

دلائل:

۱ ۔ محرم کے لئے حالت احرام میں شادی کرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔(۱۳۳) اور یونس بن یعقوب کی روایت صحیحہ اس پر دلالت کر رہی ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُحْرِمِ يَتَزَوَّجُ؟ قَالَ: لَا، وَ لَا يُزَوِّجُ الْمُحْرِمُ الْمُحِلَّ .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: کیا محرم ازدواج کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں! اور وہ کسی محل(غیر محرم) کا نکاح بھی نہیں پڑھ سکتا۔”(۱۳۴)

اس کے علاوہ بھی بعض روایتیں اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں۔

۲ ۔حرمت کا علم ہوتے ہوئے شادی کرنے کی صورت میں محرم پر اس عورت کے حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس بارے میں روایات کے تین مختلف مجموعے ہیں:

الف) مطلَقا ً حرام ابدی ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

ب) مطلَقا ً حرام ابدی نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

ج) حرمت کا علم ہوتو حرام ابدی ہونے اور علم نہ ہو تو نہ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں۔

پہلے مجموعے کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ادیم بن حر کی موثق روایت ہے:

إِنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا تَزَوَّجَ وَ هُوَ مُحْرِمٌ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَ لَا يَتَعَاوَدَانِ أَبَداً،وَ الَّذِي يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ وَ لَهَا زَوْجٌ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا وَ لَا يَتَعَاوَدَانِ أَبَداً. ”“اگر محرم ، حالت احرام م یں ازدواج کرے تو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ہرگز دوبارہ نہیں پلٹ سکیں گے۔ نیز وہ شخص جو کسی شوہر دار عورت کے ساتھ شادی کرے ان کے درمیان بھی جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ہرگز دوبارہ نہیں پلٹ سکیں گے۔”(۱۳۵)

دوسرے مجموعے کی مثال، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن قیس کی روایت صحیحہ ہے:

قَضَى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیه السلام فِي رَجُلٍ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَ هُوَ مُحْرِمٌ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ؛ فَقَضَى أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَهَا وَ لَمْ يَجْعَلْ نِكَاحَهُ شَيْئاً حَتَّى يَحِلَّ، فَإِذَا أَحَلَّ خَطَبَهَا إِنْ شَاءَ وَ إِنْ شَاءَ أَهْلُهَا زَوَّجُوهُ، وَ إِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجُوهُ .”“ا یک شخص نے محل ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں کسی عورت سے ازدواج کیا تھا اس کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فیصلہ سنایا کہ اس کو اسی طرح چھوڑ دو اور جب تک محل نہ ہوجائے اس کا نکاح کچھ نہیں ہے۔ جب محل ہوجائے اور وہ چاہے تو اس کے لئے خواستگاری کرنا حلال ہے، اگر وہ اپنی زوجہ کو چاہے تو شادی کرے اور وہ دونوں نہ چاہیں تو شادی نہ کریں۔ ”(۱۳۶)

تیسرے مجموعے کی مثال ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ اور داؤد بن سرحان کی روایت صحیحہ ہے:

“...وَ الْمُحْرِمُ إِذَا تَزَوَّجَ وَ هُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ حَرَامٌ عَلَيْهِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أَبَداً .”“... اگر محرم کو حرمت کا علم ہو اور وہ شاد ی کر لے تو وہ عورت اس پر ہرگز حلال نہیں ہوگی۔”(۱۳۷)

تیسری روایت سے قطع نظر، پہلی اور دوسری کے درمیان تعارض ہے۔ لیکن جب تیسری روایت کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں میں جمع عرفی ممکن ہے ؛ لہذا پہلی روایت کو حرمت کے بارے میں علم ہونے کے فرض پر محمول کیا جائے گا اور دوسری کو جہالت کے فرض پر۔ اس طرح ہم ، متن میں مذکور نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔

لیکن دخول کرنے یا نہ کرنے میں کوئی فرق نہ ہونا ، نصوص کی وجہ سے ہے جو اس جہت سے مطلق ہیں۔

۳ ۔ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے والے پر، لعان نہ کرنے کی صورت میں ،حد زنا جاری ہونے کی دلیل، ان شاء اللہ باب حدود میں بیان کی جائے گی۔

لعان کی وجہ سے حرام ابدی ثابت ہونے کی دلیل: اس حکم پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:

سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، قَالَ: يُلَاعِنُهَا ثُمَّ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا، فَلَا تَحِلُّ لَهُ أَبَداً .”“ا یک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے۔ فرمایا: وہ لعان کرے گا پھر ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی اور دونوں ایک دوسرے پر کبھی حلال نہیں ہوں گے۔”(۱۳۸)