دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)28%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح) مؤلف:
: غلام مہدی شگری
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11410 / ڈاؤنلوڈ: 5165
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب النکاح)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ازدواج موقت یا متعہ

ازدواج موقت کو اصطلاحا عقد تمتع کہا جاتا ہے اور یہ بلا اشکال مشروع اور جائز ہے۔

اس میں ایجاب و قبول کا لفظی ہونا شرط ہے۔ نیز مہر اور مدت کا معین ہونا بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ عقد باطل ہوگا۔

متعے کی مدت ختم ہونے یا باقی مدت کو معاف کرنے کے بعد ، عدت گزارنا بھی ضروری ہے جو دو حیض آنے تک ہے۔ اگر وہ عورت حیض دیکھنے کی عمر میں ہوتے ہوئے حیض نہیں دیکھتی تو ضروری ہے کہ پینتالیس ۴۵ دن عدت گزارے۔

یہ عدت ان عورتوں کے لئے تھی جو چھوٹی ، یائسہ اور غیر مدخول بہا نہ ہوں؛ لیکن اگر وہ بچی ہو یا یائسہ ہو یا ایسی عورت ہو جس کے ساتھ دخول نہیں کیا گیا تو ان کی کوئی عدت نہیں ہے۔

نیز یہ عدت اس صورت میں ہے جب عدت کے دوران شوہر کا انتقال نہ ہو جائے ؛ لیکن اگر دوران عدت ، شوہر کی موت واقع ہو جائے تو اس عورت پر ضروری ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارے۔

ازدواج موقت کے ذریعے پیدا ہونے والا بچہ ، اسی شوہر سے متعلق ہوگا اور عقد دائمی میں بچے کو ملنے والے تمام حقوق اس بچے کو بھی ملیں گے۔

ازدواج موقت میں عورت، نفقے کا مستحق نہیں ہوگی ۔ اگر متعے کی مدت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے وارث بھی نہیں ہوں گے ؛ مگر یہ کہ وارث بننے کی شرط رکھی گئی ہو۔

نیز ازدواج موقت میں طلاق بھی نہیں ہے؛ بلکہ مدت کے تمام ہونے سے یا باقی مدت کو بخشنے کے ذریعے دونوں جدا ہوجائی گے۔

کسی مسلمان کے لئے اہل کتاب عورتوں کے علاوہ کسی کافر عورت سے متعہ کرنا جائز نہیں ہے۔

دلائل:

۱ ۔ ازدواج موقت کے مشروع ہونے کی دلیل: یہ مذہب امامیہ کی ضروریات مذہب اور علامت میں سے ہے؛ بلکہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے اگر چہ بعد میں نسخ ہونے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ اس حکم پر قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کر رہی ہے:

( ...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم محُّْصِنِينَ غَيرَْ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنهُْنَّ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَة ) “...اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد مںر لا سکتے ہو بشرطکہن (نکاح کامقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کار ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔”(۱۳۹)

اس بارے میں ہماری احادیث ، متواتر ہیں؛ بلکہ غیروں کی احادیث بھی اسی طرح ہی ہیں۔

ہماری احادیث میں سے ایک زراہ کی صحیح حدیث ہے:

جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَيْرٍاللَّيْثِيُّ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ علیه السلام فَقَالَ: مَا تَقُولُ فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ؟ فَقَالَ: أَحَلَّهَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَ عَلَى سُنَّةِ نَبِيِّهِ، فَهِيَ حَلَالٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ: يَا ابَا جَعْفَرٍ، مِثْلُكَ يَقُولُ هَذَا وَ قَدْ حَرَّمَهَا عُمَرُ وَ نَهَى عَنْهَا! فَقَالَ: وَ إِنْ كَانَ فَعَلَ، فَقَالَ: فَإِنِّي أُعِيذُكَ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ أَنْ تُحِلَّ شَيْئاً حَرَّمَهُ عُمَرُ، فَقَالَ لَهُ: فَأَنْتَ عَلَى قَوْلِ صَاحِبِكَ، وَ أَنَا عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَهَلُمَّ أُلَاعِنْكَ أَنَّ الْحَقَ‏ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)، وَ أَنَّ الْبَاطِلَ مَا قَالَ صَاحِبُك. ..”“عبد اللہ بن عم یر لیثی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں آکر عرض کیا: عورتوں کے ساتھ متعہ کے بارے میں آپ ؑ کیا فرماتے ہیں؟ امام ؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے حلال قرار دیا ہے اور اس کے نبی کی سنت بھی ہے۔ پس روز قیامت تک متعہ کرنا حلال ہے۔ ابن عمیر نے کہا: اے ابو جعفر! آپ ؑ جیسے لوگ یہ کہتے ہیں جبکہ عمر نے اسے حرام قرار دیا اور اس سے نہی کی ہے! فرمایا: اگرچہ اس نے نہی کی ہے( کرنے دے) ۔ اس نے عرض کیا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ ایسی چیز کو حلال قرار دے رہے ہیں جسے عمر نے حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا: تو اپنے آقا کے قول پر ثابت رہو اور میں رسول اللہؐ کے قول پر ثابت رہوں گا۔ آؤ میں تجھ سے بیزاری کروں کہ حق وہی ہے جو رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے اور باطل وہی ہے جو تیرے آقا نے کہا ہے...”(۱۴۰)

غیروں کی احادیث میں سے ایک وہ روایت ہے جو بخاری اور مسلم نے جابر بن عبد اللہ اور سلمہ بن اکوع سے نقل کی ہے کہ ان دونوں نے کہا:

خرج علینا منادی رسول اللّه (ص) فقال: ان رسول اللّه (ص) قد اذن لکم ان تستمتعوا ، یعنی متعة النساء .”“رسول اللہ ؐ کی طرف سے ایک منادی نے ندا دی کہ بے شک رسول اللہ ؐ نے تم لوگوں کو استمتاع یعنی عورتوں کے ساتھ متعے کی اجازت دی ہے۔”(۱۴۱)

جب دونوں طرف سے سنت پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے تو آیت مجیدہ کی دلالت میں اس دعویٰ کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ استمتاع ، عقد تمتع کے معنی میں نہیں ہے ؛ بلکہ عقد دائمی میں دخول واقع ہونے کے معنی میں ہے اور آیت مجیدہ اس حکم کو بیان کر رہی ہے کہ دخول کرنا پورے مہر کے مستحق ہونے کا سبب بنتا ہے۔(۱۴۲) کیونکہ اس حکم پر سنت کی دلالت اور تمام مسلمانوں کے اتفاق کے بعد اس طرح کا دعویٰ بے فائدہ ہے۔(۱۴۳)

ہاں ! متعہ کی مشروعیت کے نسخ ہونے کا دعویٰ یہاں پر فائدہ دیتا ہے ؛ کیونکہ جب پیغمبر اکرم ؐ سے نسخ کا حکم صادر ہونا یقینی نہیں ہے تو یہ مشکوک ہوجاتا ہے ۔ مشکوک ہونے کی صورت میں عدم نسخ کا استصحاب کیا جائے گا اور استصحاب تمام مسلمانوں کے نزدیک حجت ہے۔

پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے کے بعد اس بارے میں نہی کا صادر ہونا ، اگرچہ مسلم(۱۴۴) ہی کیوں نہ ہو، بے فائدہ ہے۔ اس لئے کہ احکام کو نسخ کرنا صرف پیغمبر اکرم ؐ کا حق ہےا ور آپ ؐ کے زمانے سے مختص ہے؛ کیونکہ آپ ؐکی حلال کردہ چیزیں روز قیامت تک حلال اور آپ ؐکی حرام کردہ چیزیں روزقیامت تک حرام ہیں۔(۱۴۵)

اور جس شخص نے عمر کے اس فعل کی توجیہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ :“اجتہادی مسائل میں ایک مجتہد کا دوسرے مجتہد کی مخالفت کرنا بدعت نہیں ہے”۔(۱۴۶) اس نے اللہ تعالیٰ کے خلاف بولنے کی جرائت کی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ، اپنے نبی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى ) “وہ خواہش سے نہیں بولتا۔یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔”(۱۴۷) ( ...قُلْ مَا يَكُونُ لىِ أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسىِ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلىّ ...) “...کہہ دیجئے ! مجھے یہ اختیا ر نہین کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھییج جاتی ہے...”(۱۴۸) ان فرامین کے مقابلے میں کہا جاتا ہے کہ پیغمبر بھی دوسرے افراد کی مانند ایک مجتہد ہیں بغیر کسی فرق کے۔( كَبرُتْ كَلِمَةً تخَرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ) “یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، یہ تومحض جھوٹ بولتے ہیں ۔”(۱۴۹)

اگر متعہ کی مشروعیت کو رد کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ “ زنا کو اس لئے سفاح کہا جاتا ہے کہ اس میں نکاح کے احکام نہیں ہوتے جیسے نسب کا ثابت ہونا، عدت کا واجب ہونا اور فراش کا باقی رہنا ۔ جب متعہ میں بھی یہ معانی موجود نہ ہوں تو یہ بھی زنا کے معنی میں ہے۔ ”(۱۵۰)

اس کا جواب ہم اس طرح دیں گے کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر اشکال ہے کیونکہ ابتدائے شریعت میں تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق طور پر متعہ کی مشروعیت ثابت ہے۔ اس کے علاوہ اشکال میں مذکور تین چیزیں عقد دائمی کی طرح متعہ میں بھی شرط ہیں۔

اگر یہ اشکال کیا جائے کہ عورت کا ہر وقت خود کو کسی مرد کے لئے پیش کرنا اس پاکدامنی کے منافی ہے جس کی شریعت میں تاکید کی گئی ہے اور یہ عمل ،سفاح سے مناسبت رکھتا ہے۔

بلکہ متعہ کا جواز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے منافی ہے:( وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلىَ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانهُُمْ فَإِنهَُّمْ غَيرُْ مَلُومِين ) “اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں؛مگر اپنی بیوَییوں اور لونڈیوں سے پس ان پر کوئی ملامت نہیںَ ہے۔”(۱۵۱) کیونکہ جس عورت کے ساتھ متعہ کیا جائے وہ نہ تو زوجہ ہے اور نہ لونڈی؛ لہذا اس کے ساتھ شادی کرنا ظلم وتجاوز اور حرام ہے۔

اس کے علاوہ خلیفہ دوم نے اپنی طرف سے حرام ہونے کا حکم صادر نہیں کیا ہے ؛ بلکہ وہ اس حکم کو بیان کرنے والا اور نافذ کرنے والا ہے۔ اگر اس نے نہی کی نسبت اپنی طرف دی ہے تو اسی بیان کنندہ اور نافذ کنندہ کے معنی میں ہے۔(۱۵۲)

اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر ازدواج موقت کی لازمی شرائط کو ہم سمجھ لیں تو پاکدامنی اور ازدواج موقت کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے ۔ اگر تنافی لازم آئے تو یقینا ًرسول اللہ ؐ کے زمانے میں اس کی ثابت مشروعیت پر دوبارہ اشکال پلٹ آئے گا۔

ازدواج کے افراد میں سے ایک حقیقی فرد ،متعہ ہے۔ فقط یہ کہ متعہ، ازدواج موقت ہے اور اس میں ازدواج دائمی کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں؛ سوائے بعض جہتوں کے۔ لہذا ہماری نظر میں آیت مجیدہ کے ساتھ اس کے منافی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

خلیفہ دوم کے دفاع میں کہی گئی آخری بات ، مدعی سست، گواہ چست کی طرح ہے اور یہ بات مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔

۲ ۔ ایجاب اور قبول لفظی کے بغیر ازدواج موقت واقع نہ ہونے کی دلیل: چونکہ متعہ بھی ازدواج کے افراد میں سے ایک فرد ہے ؛ لہذا جو کچھ عقد دائم میں شرط ہے اس میں بھی شرط ہے۔

بلکہ کچھ ایسی روایات بھی ہیں جو ازدواج موقت میں ان چیزوں کے شرط ہونے پر خصوصی دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔

ازدواج موقت کا صیغہ یہ ہے کہ پہلے عورت کہے: “متعتک او انکحتک او زوجتک نفسی بمهر کذا الی اجل کذا ” ۔ “میں نےفلاں (معین) مہر پر فلاں (معین) مدت تک اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں قرار دیا۔” پھر مرد کہے: “قبلتُ” “میں نے قبول کیا۔”

عربی زبان کا شرط ہونا، ایجاب کا پہلے ہونا اور ایجاب کا عورت کی طرف سے ہونا اس کے علاوہ وہ تمام شرائط جو نکاح دائمی میں بیان کی گئی ہیں ، ازدواج متعہ میں بھی شرط ہیں؛ کیونکہ دائم کی طرح یہ بھی ازدواج کا ایک حقیقی فرد ہے۔

۳ ۔ متعہ میں مہر اور مدت کی تعیین ضروری ہونے اور تعیین نہ کرنے کی صورت میں نکاح کے باطل ہونے کی دلیل: اس حکم پر بعض روایتیں دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

لَا تَكُونُ مُتْعَةٌ إِلَّا بِأَمْرَيْنِ: أَجَلٍ مُسَمًّى وَ أَجْرٍ مُسَمًّى .”“متعہ نہ یں ہوتا مگر دو چیزوں کے ذریعے: ۱ ۔ معین مدت اور ۲ ۔ معین مہر۔”(۱۵۳)

۴ ۔ مدت تمام ہونے یا باقیماندہ مدت بخش دینے کے بعد عدت گزارنا واجب ہونے کی دلیل: عدت کے وجوب میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ البتہ اس کی مدت میں اختلاف ہے؛ کیونکہ روایت کے مضامین میں اختلاف ہے۔

الف) بعض روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حیض دیکھنے والی عورت کی عدت دو حیض ہے اور جو عورت حیض دیکھنے کی عمر میں ہو لیکن حیض نہیں دیکھتی ہو اس کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔

ب) بعض روایات کہتی ہیں کہ حیض دیکھنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے اور حیض نہ دیکھنے والی کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔

پہلےحکم پر دلالت کرنے والی روایتوں کی مثال، اسماعیل بن فضل ہاشمی کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُتْعَةِ، فَقَالَ: الْقَ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ جُرَيْجٍ فَسَلْهُ عَنْهَا فَإِنَّ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْماً، فَلَقِيتُهُ فَأَمْلَى عَلَيَّ شَيْئاً كَثِيراً فِي اسْتِحْلَالِهَا وَ كَانَ فِيمَا رَوَى لِي فِيهَا... فَإِذَا انْقَضَى الْأَجَلُ بَانَتْ مِنْهُ بِغَيْرِ طَلَاقٍ...وَ عِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ، وَ إِنْ كَانَتْ لَا تَحِيضُ فَخَمْسَةٌ وَ أَرْبَعُونَ يَوْماً، قَالَ: فَأَتَيْتُ بِالْكِتَابِ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام، فَقَالَ: صَدَقَ وَ اُقِرُّ بِهِ.. .” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ؑ نے فرمایا: عبد الملک بن جریح سے ملو اور اس بارے میں اس سے سوال کرو ؛ کیونکہ اس بارے میں اسے علم ہے۔ پس میں نے اس سے ملاقات کی اس نے بہت ساری چیزیں املاء کیں جو متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں تھیں۔ اس نے مجھ سے جو چیزیں بیان کیں ان میں یہ بھی تھا جب مدت تمام ہو جائے تو عورت ،بغیر طلاق کے ، مرد سے جدا ہوجائے گی... اور اس کی عدت دو حیض ہے۔ اگر وہ حیض نہ دیکھتی ہو تو اس کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں وہ کتاب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس لے آیا۔ تو امام ؑ نے فرمایا: اس (عبد الملک ) نے سچ کہا ہے اور میں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ ”(۱۵۴)

دوسرے حکم پر دلالت کرنے والی روایتوں کی مثال، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زراہ کی روایت صحیحہ ہے:

عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِنْ كَانَتْ تَحِيضُ فَحَيْضَةٌ، وَ إِنْ كَانَتْ لَا تَحِيضُ فَشَهْرٌ وَ نِصْفٌ .”“اگر عورت ح یض دیکھتی ہو تواس کے متعے کی عدت ایک حیض ہے اور اگر حیض نہیں دیکھتی تو ایک مہینہ پندرہ دن ( ۴۵ دن) ہے۔”(۱۵۵)

پہلی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہوئے ان دونوں کے درمیان جمع عرفی کرنے میں مشکل پیدا ہوتی ہے ؛ کیونکہ یا تو امر ارشادی ، استحباب پر محمول کرنے کو قبول نہیں کرتا۔ یا قبول تو کرتا ہے ؛ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ لسان روایت “امر ” والی ہو نہ کہ خبر دینے والی۔ جس طرح روایت میں ہے۔

جب جمع عرفی متعذر ہو تو تعارض پیدا ہوجائے گا؛ لہذا قرآن کی موافقت یا تقیے کی مخالفت جیسے مرجحات کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوجائے گا۔ جب اس مقام پر کوئی مرجح بھی دسترس میں نہ ہو تو دونوں روایتوں کا ساقط ہونا یقینی ہوجائے گا اور اصل کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اصل کا تقاضا یہ ہے کہ عقد ثانی کے اثرات مرتب ہونے کے لئے اس سے پہلے دو حیض دیکھنا شرط ہے۔ پس عدم ترتیب اثر کا استصحاب کیا جائے گا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے فرمان( ...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ ...) (۱۵۶) کی طرف رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ آیت میں عام احوالی نہیں ؛ بلکہ عام افرادی مدنظر رکھا گیا ہے۔

۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ مدت ختم ہونے یا باقیماندہ مدت بخش دینے کے بعدمکمل دو مرتبہ حیض دیکھنا شرط ہے اور وہ حیض کافی نہیں ہے جس کے دوران مدت تمام ہو جائے یا اسی کے دوران باقی مدت بخش دی جائے۔ ہاشمی کی روایت صحیحہ کو ترجیح دینے کی صورت میں یہ حکم واضح ہے ؛ کیونکہ اس روایت میں “و عدّتها حیضتان ” کی تعبیر موجود ہے اس کا ظاہر یہی ہے کہ دو حیض شرط ہے۔ اگر اس کو ترجیح نہ دی جائے ؛بلکہ ہم تساقط کے قائل ہوجائیں تو اس وقت بھی معاملہ واضح ہے۔

۶ ۔“صغیرہ”، “یائسہ” اور “غیر مدخول بہا” کے لئے عدت گزارنا ضروری نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک ،عبد الرحمن بن حجاج کی روایت ہے:

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:‏ ثَلَاثٌ يَتَزَوَّجْنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ:الَّتِي لَمْ تَحِضْ وَ مِثْلُهَا لَا تَحِيضُ، قَالَ: قُلْتُ: وَ مَا حَدُّهَا؟ قَالَ: إِذَا أَتَى لَهَا أَقَلُّ مِنْ تِسْعِ سِنِينَ، وَ الَّتِي لَمْ يُدْخَلْ بِهَا وَ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ مِنَ الْمَحِيضِ وَ مِثْلُهَا لَا تَحِيض ...”“حضرت امام جعفر صادق عل یہ السلام نے فرمایا: تین قسم کی عورتیں ہر حال میں شادی کر یں گی: وہ لڑکی جس نے ابھی تک حیض نہیں دیکھا اور وہ جو حیض نہیں دیکھتی۔ راوی کہتا ہے : میں نے کہا:ان کی حد کیا ہے؟ فرمایا: اگر اس کی عمر نو ۹ سال سے کم ہو اور وہ عورت جس کے ساتھ دخول نہ کیا گیا ہو اور وہ عورت جو یائسہ ہو چکی ہو اور انہی کی طرح حیض نہ دیکھنے والی عورت بھی ہے...”(۱۵۷)

اگرچہ اس روایت کی سند میں سہل بن زیاد کا نام آتا ہے ؛ لیکن ان شاء اللہ معاملہ مشکل نہیں ہے۔

۷ ۔ وفات کی عدت ، چار مہینے دس دن ہونے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے۔(۱۵۸) اور اس پر زرارہ کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:

سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام مَا عِدَّةُ الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا الَّذِي تَمَتَّعَ بِهَا؟ قَالَ: أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْراً.ثُمَّ قَالَ: يَا زُرَارَةُ! كُلُّ النِّكَاحِ إِذَا مَاتَ الزَّوْجُ فَعَلَى الْمَرْأَةِ حُرَّةً كَانَتْ أَوْ أَمَةً وَ عَلَى أَيِّ وَجْهٍ كَانَ النِّكَاحُ مِنْهُ مُتْعَةً أَوْ تَزْوِيجاً أَوْ مِلْكَ يَمِينٍ؛ فَالْعِدَّةُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْرا ...”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: اگر متعہ کرنے والا مرجائے تو اس متعے کی عدت کیا ہے؟ فرمایا: چار مہینے دس دن۔ پھر فرمایا: اے زرارہ ! ہر نکاح میں اگر شوہر مر جائے تو عورت پر واجب ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارے خواہ وہ آزاد ہو یا کنیز اور نکاح بھی متعہ ہو یا دائمی یا کنیزی۔”(۱۵۹)

اس کے علاوہ بھی روایتیں موجود ہیں جو اس حکم پر دلالت کر تی ہیں۔

بلکہ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئےمندرجہ ذیل آیت کے عموم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:

( وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَ يَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَترََبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشهْرٍ وَ عَشْرًا ...) “ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں،...”(۱۶۰)

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی علی بن یقطین کی روایت اس طرح ہے:

عِدَّةُ الْمَرْأَةِ إِذَا تَمَتَّعَ بِهَا فَمَاتَ عَنْهَا خَمْسَةٌ وَ أَرْبَعُونَ يَوْما ”“کس ی عورت کے ساتھ متعہ کرنے والا مر جائے تو اس عورت کی عدت پینتالیس ۴۵ دن ہے۔”(۱۶۱)

اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص کی وساطت سے حلبی کی نقل کردہ روایت اس طرح ہے:

سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مُتْعَةً ثُمَّ مَاتَ عَنْهَا مَا عِدَّتُهَا؟ قَالَ: خَمْسَةٌ وَ سِتُّونَ يَوْماً .”“م یں نے ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے ایک عورت کے ساتھ متعہ کیا اور وہ مر گیا تو اس عورت کی عدت کیا ہوگی؟ فرمایا: پینسٹھ ۶۵ دن۔”(۱۶۲)

یہ دونوں روایتیں اوپر بیان کردہ روایت کے منافی ہیں۔

تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے : اولاً: یہ دونوں روایتیں ، زرارہ کی روایت صحیحہ سے معارض نہیں ہو سکتیں ؛ کیونکہ ان میں سے پہلی روایت کی سند ، احمد بن ہلال کی وجہ سےقابل اشکال ہے اور دوسری روایت مرسل ہے۔ ثانیا ً: اگر یہ دونوں تام ہوں تب بھی تعارض کی صورت میں زرارہ کی روایت کو ترجیح دی جائے گی ؛ کیونکہ وہ قرآن کے موافق ہے۔

۸ ۔ متعہ سے پیدا ہونے والا بچہ ، شوہر سے متعلق ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے واضحات میں سے ہے۔ اس پر بعض روایتیں دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے جو متعہ کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:

أَ رَأَيْتَ إِنْ حَبِلَتْ‏، فَقَالَ: هُوَ وَلَدُهُ .”“اگر وہ عورت حاملہ ہوجائے تو آپ ؑ ک ی فرماتے ہیں؟ فرمایا: وہ اس کے شوہر کا بچہ ہے۔”(۱۶۳)

بلکہ اس مقام پر ہمیں کسی خاص روایت کی ضرورت نہیں ہے ؛ کیونکہ پیغمبر اکرم ؐ کا یہ فرمان ہے کہ :

الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَ لِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ .”“بچہ شوہر کا ہوگا اور زناکار کے لئے پتھر(سنگسار) ہے۔”(۱۶۴)

متعے سے پیدا ہونے والے بچے پر ، اولاد کے تمام احکام جاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب شوہر کی اولاد شمار ہوجائے گا تو اس کا لازمہ اس پر اولاد کے تمام احکام کا جاری ہونا ہے؛ کیونکہ اولاد کے عنوان کے لئے ثابت تمام احکام کی دلیلوں کے اطلاق میں یہ بچہ بھی شامل ہوگا۔

۹ ۔ متعہ کرنے والی عورت کے مستحق نفقہ نہ ہونے کی دلیل: صاحب جواہر نے اس حکم پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔(۱۶۵) اور شیخ بحرانی ؒنے ان ادلہ کے ذریعے اس پر استدلال کیا ہے جو کہتی ہیں کہ متعہ والی عورت کو نہ طلاق دی جاتی ہے اور نہ وہ وارث بنتی ہے ، وہ صرف ایک مزدور ہے۔ شیخ بحرانی فرماتے ہیں: “ یہ بات واضح ہے کہ اجیر کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے۔”(۱۶۶)

جبکہ شیخ بحرانی ؒ کے لئے مناسب یہ تھا کہ ہشام بن سالم کی روایت سے بھی استدلال کرتے۔ وہ روایت یوں ہے:

قلت لابی عبد اللّه علیه السلام: اتزوج المراة متعة مرة مبهمة، فقال: ذلک اشد علیک ترثها و ترثک ولا یجوز لک ان تطلقها الا علی طهر و شاهدین، قلت: اصلحک اللّه فکیف اتزوجها؟ قال: ایاما معدودة بشیء مسمی مقدار ما ترضیتم به، فاذا مضت ایامها کان طلاقها فی شرطها ولا نفقة ولا عدة لها علیک .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کیا میں کسی عورت سے ایک بار مبہم متعہ کر سکتا ہوں؟ فرمایا: یہ تمہارے اوپر زیادہ سخت ہوگا وہ تم سے ارث پائے گی اور تم اس کو طلاق بھی نہیں دے سکتے جب تک وہ پاک نہ ہو اور دو گواہ بھی نہ ہوں۔ عرض کیا: اللہ آپ کا بھلا کرے ! پس میں کیسے اس کے ساتھ شادی کروں؟ فرمایا: چند معین دنوں کے لئے اور ایک مقدار مہر کے ساتھ جس پر تم دونوں راضی ہوں۔ پس جب یہ ایام گزر جائیں تو شرط کے تحت اس کی طلاق ہوجائے گی تم پر اس کا کوئی نفقہ بھی نہیں اور نہ اس کی عدت ہے۔”(۱۶۷)

اس روایت کی دلالت تو واضح ہے ؛مگر یہ کہ اس کی سند موسی بن سعدان اور عبد اللہ بن قاسم پر مشتمل ہے جن کی وثاقت ثابت نہیں ہے؛ لیکن شیخ بحرانی ؒ کے مبنا کے مطابق ایسے اشکالات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

متعہ والی عورت کا نفقہ واجب نہ ہونے کے کی یہی دو دلیلیں ہیں جبکہ دونوں کی حالت آپ دیکھ رہے ہیں۔

اس مسئلے پر یوں استدلال کرنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ مسئلہ عموما پیش آنے والے مسائل میں سے ہے ؛ لہذا اس کا حکم اصحاب کے نزدیک واضح ہونا ضروری ہے۔ اگر نفقہ واجب ہوتا تو روایات اور اصحاب کے کلام میں اس کا ذکر ہوتا جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ؛ لہذا نفقہ واجب ہونے کا احتمال نہیں دیا جا سکتااور واجب نہ ہونا ہی مطلوب ہے۔

۱۰ ۔ازدواج موقت میں ، شرط کئے بغیر، ایک دوسرے کی وراثت نہ ملنے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے۔(۱۶۸) اس سلسلے میں روایات کے تین مجموعے ہیں:

الف)وہ روایات جو بغیر کسی تفصیل کے وراثت نہ ملنے پر دلالت کرتی ہیں ۔

ب) وہ روایات جو شرط رکھنے کی وجہ سے وراثت ملنے پر دلالت کرتی ہیں۔

ج)وہ روایات جو وراثت ملنے پر دلالت کرتی ہیں بشرطیکہ نہ ملنے کی شرط نہ رکھی ہو۔

پہلے مجموعے کی مثال، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:

“...وَ لَا مِيرَاثَ بَيْنَهُمَا فِي الْمُتْعَةِ إِذَا مَاتَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا فِي ذَلِكَ الْأَجَلِ .”“اگر متعہ ک ی مدت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو ان کے درمیان کوئی میراث نہیں ہوگی۔”(۱۶۹)

دوسرے مجموعے کی مثال، حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ ہے:

تَزْوِيجُ الْمُتْعَةِ نِكَاحٌ بِمِيرَاثٍ وَ نِكَاحٌ بِغَيْرِ مِيرَاثٍ، إِنِ اشْتَرَطَتْ كَانَ وَ إِنْ لَمْ تَشْتَرِطْ لَمْ يَكُنْ .” “متعہ ک ی شادی میں ایک نکاح وراثت کے ساتھ ہے اور ایک نکاح بغیر وراثت کے۔ اگر وراثت کی شرط رکھی جائے تو ملے گی اور اگر شرط نہیں رکھی تو نہیں ملے گی۔”(۱۷۰)

تیسرے مجموعے کی مثال، محمد بن مسلم کی موثق روایت ہے:

سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ‏ فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ مُتْعَةً: إِنَّهُمَا يَتَوَارَثَانِ إِذَا لَمْ يَشْتَرِطَا، وَ إِنَّمَا الشَّرْطُ بَعْدَ النِّكَاحِ .”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے متعہ کیا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر انہوں نے شرط نہیں رکھی ہے تو وہ ایک دوسرے سے میراث پائیں گے اور شرط تو نکاح کے بعد ہوتی ہے۔”(۱۷۱)(۱۷۲)

بشرطیکہ شرط سے مراد وراثت نہ ملنے کی شرط ہو۔ لیکن شرط سے مراد مدت معین نہ کرنا ہو تو یہ روایت موضوع بحث سے مطابقت نہیں رکھتی ؛ لہذا تیسرے مجموعہ روایات کو اس فہرست سے خارج کرنا ضروری ہوگا۔

رہی بات تعارض کی تو صرف دوسرے اور تیسرے مجموعے کے درمیان تعارض ہوگا ؛ کیونکہ پہلا مجموعہ مطلق ہونے کی حیثیت سے کسی جانب جھکاؤ نہیں رکھتا اور بعد والے دونوں مجموعوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اس کو مقید کیا جا سکتا ہے۔

بعد والے دونوں مجموعے، شرط رکھنے کی صورت میں وراثت ثابت ہونے پر متفق ہیں لیکن شرط نہ رکھنے کی صورت میں باہم متعارض ہیں۔ دوسرا مجموعہ وراثت نہ ملنے اور تیسرا مجموعہ وراثت ملنے پر دلالت کرتا ہے۔

جس مقدار میں دونوں متعارض ہیں اسی کی نسبت سے دونوں ساقط ہوجائیں گے اور پہلے مجموعے کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوجائے گا؛ کیونکہ پہلامجموعہ عام فوقانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نتیجتاً شرط رکھنے کی صورت میں وراثت ثابت ہوجائے گی ؛ کیونکہ دونوں مجموعے اس پر متفق ہیں اور شرط نہ رکھنے کی صورت میں وراثت نہیں ملے گی جو پہلے مجموعے کے اطلاق سے تمسک کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔

اس طرح ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جو مشہور فتویٰ کے مطابق ہے۔

۱۱ ۔ ازدواج موقت میں طلاق نہ ہونے ؛بلکہ مدت ختم ہوتے ہی میاں بیوی میں جدائی ہونے کی دلیل: یہ حکم ان احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اور دلیل نمبر ۴ میں مذکور ہاشمی کی روایت سمیت بعض دوسری روایتیں اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں۔

اگر شوہر باقیماندہ مدت ، عورت کو بخش دے تو بھی صحیح ہے اور عورت اس سے جد اہو جائے گی۔ یہ حکم بھی انہی احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس پر بعض روایت دلالت کر رہی ہیں جن میں سےا یک علی بن رئاب کی روایت صحیحہ ہے:

كَتَبْتُ إِلَيْهِ أَسْأَلُهُ عَنْ رَجُلٍ تَمَتَّعَ بِامْرَأَةٍ ثُمَّ وَهَبَ لَهَا أَيَّامَهَا قَبْلَ أَنْ يُفْضِيَ إِلَيْهَا أَوْ وَهَبَ لَهَا أَيَّامَهَا بَعْدَ مَا أَفْضَى إِلَيْهَا هَلْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيمَا وَهَبَ لَهَا مِنْ ذَلِكَ؟ فَوَقَّعَ علیه السلام:لَا يَرْجِعُ .”“م یں نے کتابت کے ذریعے ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے کسی عورت کے ساتھ متعہ کیا تھا پھر عورت کے علم میں لائے بغیر باقیماندہ مدت اسے بخش دی یا اس کو بتاکر بخش دی ۔ کیا وہ اس معاف کردہ مدت کے حوالے سے رجوع کرسکتا ہے؟ تو امام ؑ نے جواب میں لکھا: رجوع نہیں کر سکتا۔”(۱۷۳)

یہ روایت کہہ رہی ہے کہ مدت کو معاف کرنے کا جواز ایک طے شدہ مسئلہ ہے اور سوال صرف رجوع کے جواز کے بارے میں کیا گیا ہے۔

اس روایت کا مُضمَرہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جو امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتے۔

۱۲ ۔اہل کتاب کے علاوہ دوسری کافر عورتوں سے ازدواج موقت جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم کی وہی دلیل ہے جو عقد دائمی کی بحث میں گزر چکی ہے۔

____________________

۱ ۔معارج: ۲۹۔۳۰، ترجمہ : محسن علی نجفی

۲ ۔جواہر الکلام: ۲۹/۶

۳ ۔الحدائق الناضرۃ: ۲۳/ ۱۵۶

۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۱۸، حدیث ۱

۵ ۔ احزاب: ۳۷، ترجمہ : محسن علی نجفی

۶ ۔نساء: ۲۲، ترجمہ : محسن علی نجفی

۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب متعہ، باب ۲۰، حدیث۱

۸ ۔نور: ۳۲، ترجمہ : محسن علی نجفی

۹ - یہ علم اصول کا ایک قانون ہے

۱۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۱۸، حدیث ۱

۱۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب ۳، حدیث ۳

۱۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۴۳، حدیث ۵

۱۳ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۱۷۱

۱۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب ۱۲، حدیث ۱

۱۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب ۱۱، حدیث۱

۱۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات طلاق، باب ۳۵، حدیث ۱

۱۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب ۳، حدیث ۱۱

۱۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب ۶، حدیث ۵

۱۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب۹، حدیث۱

۲۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب۹، حدیث۲

۲۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح، باب۹، حدیث۴

۲۲ ۔ ملاحظہ ہو: دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ: ۱۷۱، ۱۷۵

۲۳ ۔نور: ۳۱

۲۴ ۔نور: ۳۱

۲۵ ۔نور:۳۰

۲۶ ۔ملاحظہ ہو: مجمع البحرین: ۴/ ۲۱۸، مفردات راغب: ۶۰۷

۲۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۰۹، حدیث۱

۲۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب عقد نکاح ، باب ۱۰۹، حدیث ۳

۲۹ ۔نور: ۳۱

۳۰ ۔ریاض المسائل: ۱۱/ ۵۳

۳۱ ۔ نور: ۳۱

۳۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۲۹، حدیث۱

۳۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۲۹، حدیث ۳

۳۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۲۹، حدیث ۴

۳۵ ۔ملاحظہ ہو: مجمع البحرین: ۴/ ۲۱۸، مفردات راغب: ۶۰۷

۳۶ ۔ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ: ابواب آداب الحمام، باب ۹

۳۷ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب آداب الحمام،باب ۳، حدیث۱

۳۸ ۔نور: ۶۰

۳۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۰۴

۴۰ ۔نور: ۳۰

۴۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۲۶، حدیث ۳

۴۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۳۶، حدیث۲

۴۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۳۶، حدیث۸

۴۴ ۔ملاحظہ ہو: سید یزدی، عروۃ الوثقیٰ ، کتاب نکاح، مسئلہ: ۲۶

۴۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۳۶، حدیث۱

۴۶ ۔شیخ اعظم انصاری ؒ ، کتاب نکاح: ۴۳

۴۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۱۲، حدیث ۱

۴۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مقدمات نکاح، باب ۱۱۳، حدیث۱

۴۹ ۔نساء:۲۳

۵۰ ۔نساء: ۲۲

۵۱ ۔نساء: ۲۳

۵۲ ۔احزاب :۵۳

۵۳ ۔نساء: ۲۲

۵۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب۲، حدیث ۱

۵۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۱، حدیث ۱

۵۶ ۔نساء: ۲۳

۵۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرہ، باب ۱۸، حدیث ۴

۵۸ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۳۴۹

۵۹ ۔نساء: ۲۳

۶۰ ۔ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۲۴ اور اس کے بعد والے ابواب

۶۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۰، حدیث ۱

۶۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۰، حدیث ۳

۶۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۰، حدیث۸

۶۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۰، حدیث۱

۶۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۰، حدیث۱

۶۶ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۰، حدیث۲

۶۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۶ ، حدیث ۱

۶۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۶ ، حدیث ۶

۶۹ ۔جواہر الکلام : ۲۹/ ۴۴۷

۷۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب۱۵ ، حدیث۱۔ اس روایت میں ضمیر غائب “رجل” کی طرف نہیں ؛ بلکہ“غلام” کی طرف پلٹ رہی ہے۔اگرچہ فقہاء کے فتاویٰ کےقرینے سے ہی کیوں نہ معلوم ہو کہ مفعول پر فاعل کی رشتہ دار خواتین میں سے کوئی بھی حرام نہیں ہوگی۔ البتہ جواہر : ۲۹/ ۴۴۸ کی نقل کے مطابق شیخ نے بعض اصحاب سے نقل کیا ہے کہ مفعول پر بھی فاعل کی رشتہ دار خواتین حرام ہوں گی۔ لیکن اس قول کو بعید قرار دیا ہے کیونکہ جس کے بارے میں بات ہورہی ہے وہ “رجل” ہے۔ پھر کہتے ہیں : شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر کے فاعل اور مفعول دونوں کی طرف پلٹنے کا احتمال ہے۔

۷۱ ۔مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: کتاب دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ: ۱۸۴

۷۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۵، حدیث ۷

۷۳ ۔ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۵

۷۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۸، حدیث ۱

۷۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۶، حدیث ۱

۷۶ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۶، حدیث۳

۷۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۶، حدیث۶

۷۸ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۴۴۶

۷۹ ۔مستدرک الوسائل: ۱۴/ ۳۸۷ ، نمبر ۱۷۰۴۸

۸۰ ۔نساء : ۲۴

۸۱ ۔نساء: ۲۳

۸۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۱، حدیث ۱، ۳، ۴...

۸۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۱، حدیث۲

۸۴ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۳۰۹

۸۵ ۔نساء: ۲۴

۸۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالرضاع، باب ۱۶، حدیث ۱

۸۷ ۔یعنی: اسی وجہ سے لوگ نادانی میں یہ کہتے ہیں کہ فحل کا دودھ اس کی بیوی کو اس پر حرام قرار دیتا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ؛ کیونکہ فحل کا دودھ اس بات کا سبب نہیں بنتا ؛ بلکہ رضیع کے باپ پر صاحب لبن کی بیٹی کے حرام ہونے کا سبب بنتا ہے۔ وافی : ۲۱/ ۲۴۷ پر مذکورہ عبارت کی یہی تشریح کی گئی ہے اور وسائل کے حاشئے میں حرعاملی ؒ نے کوئی دوسری تشریح کی ہے۔ لیکن اس روایت سے کیا جانے والا استدلال اسی جملے کے سمجھنے پر موقوف نہیں ہے ؛ لہذا کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

۸۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالرضاع، باب۶ ، حدیث ۱۰

۸۹ ۔الحدائق الناضرۃ: ۲۳/ ۲۹۹

۹۰ ۔نساء: ۲۴

۹۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۱۰، حدیث ۱

۹۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۶، حدیث۴

۹۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب۹، حدیث ۱

۹۴ ۔نساء: ۲۴

۹۵ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۲۹۶

۹۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۵، حدیث ۲

۹۷ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۵، حدیث۵

۹۸ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۳۰۱

۹۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۲، حدیث۲

۱۰۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۲، حدیث۵

۱۰۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالرضاع، باب ۲، حدیث۱

۱۰۲ ۔بقرہ: ۲۳۲

۱۰۳ ۔بقرہ: ۲۲۸

۱۰۴ ۔طلاق: ۱

۱۰۵ ۔بقرہ: ۲۳۴

۱۰۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۲۳، حدیث ۱

۱۰۷۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۲۲

۱۰۸ ۔اس قاعدے کی مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: کتاب دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ: ۱۷۱

۱۰۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۱۹

۱۱۰ ۔ملاحظہ ہو: اسی کتاب کی دوسری جلد: ص ۱۲۷

۱۱۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۱۰

۱۱۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۶

۱۱۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۳

۱۱۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۱۷، حدیث ۴

۱۱۵ ۔جواہر الکلام : ۳۰/ ۲

۱۱۶ ۔نساء: ۳

۱۱۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم باستیفاء العدد، باب ۲، حدیث ۱

۱۱۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۴، حدیث ۳

۱۱۹ ۔مضمر: وہ روایت جس میں معصوم کے نام کے بجائے ضمیر کا استعمال کیا گیا ہو۔

۱۲۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب متعہ، باب ۴، حدیث ۱۰

۱۲۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب متعہ، باب ۴، حدیث۹

۱۲۲ ۔جواہر الکلام: ۳۰ / ۹

۱۲۳ ۔ جواہر الکلام: ۳۰ / ۹

۱۲۴ ۔جواہر الکلام: ۳۰/ ۲۷

۱۲۵ ۔بقرہ: ۲۲۱

۱۲۶ ۔ممتحنہ: ۱۰

۱۲۷ ۔جواہر الکلام: ۳۰/ ۲۸

۱۲۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالکفر، باب ۲، حدیث ۱

۱۲۹ ۔ریاض المسائل: ۱۱/ ۲۸۲

۱۳۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالکفر، باب ۹، حدیث ۴

۱۳۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالکفر، باب۷، حدیث ۱

۱۳۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یحرم بالکفر، باب۷، حدیث ۴

۱۳۳ ۔جواہر الکلام: ۲۹/ ۴۵۰

۱۳۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۱، حدیث ۲

۱۳۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب تروک الاحرام، باب ۱۵، حدیث۲

۱۳۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب تروک الاحرام، باب ۱۵، حدیث۳

۱۳۷ ۔وسائل الشیعہ:ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۱، حدیث ۱

۱۳۸ ۔وسائل الشیعہ:ابواب مایحرم بالمصاہرۃ، باب ۳۲، حدیث ۱

۱۳۹ ۔ نساء: ۲۴

۱۴۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۱، حدیث ۴

۱۴۱ ۔صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ، حدیث ۱۴۰۵؛ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب نہی رسول اللہ ؐ عن نکاح المتعۃ آخرا، حدیث ۵۱۱۷

۱۴۲ ۔احکام القرآن، لابی بکر الجصاص: ۲/ ۱۸۴؛ تفسیر القرطبی: ۵/ ۱۲۹؛ تفسیر الرازی: ۵/ ۵۱

۱۴۳ ۔جن لوگوں نے ابتدائے اسلام میں متعہ کے مباح ہونے پر مسلمانوں کے اتفاق ہونے کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک فخر رازی ہے ۔ تفسیر کبیر : ۵/ ۱۵

۱۴۴ ۔مسلم نے اپنی صحیح میں ابی نضرۃ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:“کنت عند جابر بن عبد اللّه فاتاه آت، فقال: ابن عباس، وابن زبیر اختلفا فی المتعتین، فقال جابر: فعلناهما مع رسول اللّه ، ثم نهانا عمر فلم نعد لهما ” میں جابر بن عبد اللہ کے پاس بیٹھا تھا ۔ اتنے میں ایک شخص نے آکر کہا:دونوں متعوں کے بارے میں ابن عباس اور ابن زبیرکے درمیان اختلاف ہوگیا ہے۔پس جابر نے کہا: ہم نے رسول اللہ کے ہمراہ ان دونوں کو انجام دیا تھا پھر عمر نے ہمیں منع کیا تو ہم نے دوبارہ انجام نہیں دیا۔(صحیح مسلم: باب نکاح متعہ، حدیث ۱۴۰۹)

رازی نے اپنی تفسیر میں عمران بن حصین سے روایت کی ہے : “نزلت آیة المتعة فی کتاب اللّه تعالی ولم تنزل بعدها آیة تنسخها وامرنا بها رسول اللّه و تمتعنا بها و مات ولم ینهنا عنه، ثم قال رجل برایه ما شاء ”قرآن مجید کی آیت متعہ نازل ہونے کے بعد پھر اس کو نسخ کرنے والی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ؐ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور حکم نےانجام دیا۔اور ہمیں منع کئے بغیر رسول اللہ ؐ کا وصال ہوا ۔ پھر ایک آدمی نے جو کچھ چاہا اپنی مرضی سے کہا۔( تفسیر کبیر: ۵/ ۵۲)

اس کے بعد اسی صفحے پر ہی تفسیر طبری سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابیطالب ؑ نے فرمایا: “لولا ان عمر نهی الناس عن المتعة ما زنی الا شقی ” اگر عمر لوگوں کو متعہ سے منع نہ کرتا تو کسی شقی کے علاوہ کوئی شخص زنا نہ کرتا۔

نیز اسی صفحے پر نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ دوم نے اپنے خطبے میں کہا: “متعتان کانتا علی عهد رسول اللّه انا انهی عنهما و اعاقب علیهما ” دو متعے رسول اللہ کے زمانے میں تھے ، میں ان سے نہی کرتا ہوں اور ان کو انجام دینے والوں کو سزا دوں گا۔

یہی مضمون بیہقی نے بھی نقل کیا ہے۔ ( سنن بیہقی: ۷/ ۲۰۶)

احمد بن حنبل نے روایت کی ہے: “تمتعنا متعتین علی عهد رسول اللّه: الحج و النساء، فنهانا عنهما عمر فانتهینا ” ہم نے پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے میں دو متعے انجام دئیے : حج تمتع اور عورتوں کے ساتھ متعہ۔ پھر عمر نے ہمیں منع کیا تو ہم نے اجتناب کیا۔( مسند احمد: ۳/ ۳۲۵)

احمد بن حنبل نے ہی روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن عمر، متعہ کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتا تھا تولوگوں نے اس سے کہا: “کیف تخالف اباک و قد نهی عن ذالک؟ فقال لهم: ویلکم الا تتقون... افرسول اللّه احق ان تتبعوا ام سنة عمر ؟!”تم کیسے اپنے باپ کی مخالفت کرتے ہو کہ اس نے متعہ کرنے سے نہی کی ہے؟ ابن عمر نے لوگوں سے کہا: وائے ہو تم پر ! کیا خدا سے نہیں ڈرتے... کیا پیغمبر اکرم ؐ پیروی کے لائق ہیں یا عمر؟! ( مسند احمد: ۲/ ۹۵)

۱۴۵ ۔یہی مضمون زرارہ کی روایت صحیحہ کا ہے جو شیخ کلینی ؒ نے نقل کی ہے۔ ( کافی: ۱/ ۵۸)

۱۴۶ ۔اس قول کو قوشجی نے خلیفہ دوم کا دفاع کرتے ہوئے بغیر کسی تبصرے کے نقل کیا ہے۔ شرح تجرید الاعتقاد: ۳۷۴

۱۴۷ ۔نجم: ۳۔۴

۱۴۸ ۔یونس: ۱۵

۱۴۹ ۔کہف: ۵

۱۵۰ ۔یہ قول جصاص کا ہے ۔ (احکام القرآن: ۲/ ۱۸۶

۱۵۱ ۔معارج: ۲۹۔ ۳۰

۱۵۲ ۔یہ قول سید محمد رشید رضا کا ہے۔ تفسیر المنار: ۵/ ۱۳

۱۵۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب ۱۷، حدیث ۱

۱۵۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۴، حدیث۸

۱۵۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۲۲، حدیث ۱

۱۵۶ ۔نساء: ۲۴

۱۵۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب العدد، باب ۲، حدیث ۴

۱۵۸ ۔جواہر الکلام: ۳۰/ ۲۰۰

۱۵۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب العدد، باب۵۲، حدیث ۲

۱۶۰ ۔بقرہ: ۲۳۴

۱۶۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب العدد، باب ۵۲، حدیث ۳

۱۶۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب العدد، باب ۵۲، حدیث ۴

۱۶۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب العدد، باب۳۳، حدیث ۱

۱۶۴ ۔ وسائل الشیعہ:ابواب نکاح العبید والاماء، باب ۵۸، حدیث ۴

۱۶۵ ۔جواہر الکلام: ۳۱/ ۳۰۳

۱۶۶۔ الحدائق الناضرۃ: ۲۵/ ۹۸

۱۶۷ ۔ تہذیب الاحکام: ۷/ ۲۶۷

۱۶۸ ۔ جواہر الکلام: ۳۰/ ۱۹۰

۱۶۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۳۲، حدیث۱۰

۱۷۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۳۲، حدیث۱

۱۷۱ ۔شاید یہ مراد ہو کہ شرائط کو عقد کے ضمن میں کلمہ “انکحت” کے بعد ذکر کرنا ضروری ہے۔

۱۷۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۳۲، حدیث۲

۱۷۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المتعہ، باب۲۹، حدیث۱

باپ ، دادا کی ولایت ۱ ور سرپرستی

بچوں اور بچیوں کی شادی کرنے میں نیز دیوانگی کی حالت میں بلوغ کو پہنچے والے دیوانے پر بھی باپ دادا کو سرپرستی حاصل ہے؛ بلکہ کہا گیا ہے کہ ہر حال میں باپ دادا کو دیوانے پر سرپرستی حاصل ہوتی ہے خواہ وہ بالغ ہونے کے بعد دیوانہ ہو جائے۔

بالغ اور باکرہ لڑکی پر باپ دادا کو سرپرستی حاصل ہونے میں اختلاف ہے؛ جبکہ غیر کنواری کے اپنے امور میں خود مختار ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔

دلائل:

۱ ۔ باپ اور دادا کو سرپرستی حاصل ہونے کی دلیل: اس حکم سے ابن ابی عقیل کے سوا کسی فقیہ کو اختلاف نہیں ہے۔ ابن ابی عقیل کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ داداکو سرپرستی حاصل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۱۳) اس حکم پر بہت ساری روایات دلالت کر رہی ہیں ۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد ابن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

فِي الصَّبِيِّ يَتَزَوَّجُ الصَّبِيَّةَ يَتَوَارَثَانِ؟ فَقَالَ: إِذَا كَانَ أَبَوَاهُمَا اللَّذَانِ زَوَّجَاهُمَا، فَنَعَمِْ، قُلْتُ: فَهَلْ يَجُوزُ طَلَاقُ الْأَبِ؟ قَالَ: لَا .”“ا یک بچے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اگر وہ کسی بچی سے شادی کرے تو کیاوہ ایک دوسرے کا وارث بن سکتے ہیں؟فرمایا: ہاں ! بشرطیکہ ان کے باپ دادا نے ان کی شادی کرائی ہو۔ میں نے عرض کیا: تو کیا باپ، طلاق بھی دے سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔”(۱۴)

مذکورہ روایت کی مانند دوسری بعض روایات میں صرف باپ کا تذکرہ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن ابی عقیل نے ان روایات کے پیش نظر دادا کی سرپرستی کی مخالفت کی ہے۔

لیکن یہ مسئلہ اس طرح ختم ہوسکتا ہے کہ اولا: دادا بھی “اب”کا مصداق ہے ۔ ثانیا: بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ جب سرپرستی کے لحاظ سے باپ اور دادا میں ٹکراؤ ہو تو دادا کو مقدم کیا جائے گا۔ مثلا حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہماالسلام میں سے کسی ایک سے محمد ابن مسلم کی نقل کردہ روایت ہے:

إِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَةَ ابْنِهِ فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى ابْنِهِ، وَلِابْنِهِ أَيْضاً أَنْ يُزَوِّجَهَا. فَقُلْتُ: فَإِنْ هَوِيَ أَبُوهَا رَجُلًا وَ جَدُّهَا رَجُلًا، فَقَالَ: الْجَدُّ أَوْلَى بِنِكَاحِهَا .”“اگر کوئ ی شخص اپنی پوتی کی شادی کرائے تو یہ حکم اس کے بیٹے پر بھی نافذ ہوگا نیز اس کے بیٹے کے لئے بھی اس لڑکی کی شادی کرانا جائز ہے۔میں نے عرض کیا: اگر اس کا باپ کسی آدمی کے ساتھ اس کی شادی کرانا چاہے جبک دادا کسی اور کے ساتھ ، تو امام ؑ نے فرمایا: شادی کرانے میں اس کا دادا زیادہ سزاوار ہے۔”(۱۵)

۲ ۔ولایت کا حق (جد ّامی )نانا کو حاصل نہ ہونے ؛ بلکہ صرف (جدّ ابوی)دادا سے مختص ہونے کی دلیل: جو دلیلیں اس حق کو دادا کے لئے ثابت کرتی ہیں وہ نانا کے لئے بھی ثابت کرنے سے قاصر ہیں اس کے علاوہ محمد ابن مسلم کی گزشتہ روایت صحیحہ سے ظاہرا یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حق صرف (جد ابوی) دادا کے ساتھ مختص ہے۔

۳ ۔ باپ اور دادا کو دیوانے کی سرپرستی کا حق ملنےحاصل ہونے کی دلیل: ابو خالد القماط نے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: الرَّجُلُ الْأَحْمَقُ الذَّاهِبُ الْعَقْلِ، يَجُوزُ طَلَاقُ وَلِيِّهِ عَلَيْهِ؟ قَالَ: وَ لِمَ لَا يُطَلِّقُ هُوَ؟ قُلْتُ: لَا يُؤْمَنُ إِنْ طَلَّقَ هُوَ أَنْ يَقُولَ غَداً: لَمْ أُطَلِّقْ، أَوْ لَا يُحْسِنُ أَنْ يُطَلِّقَ، قَالَ: مَا أَرَى وَلِيَّهُ إِلَّا بِمَنْزِلَةِ السُّلْطَان .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا:جو شخص بیوقوف ہو اور جس کی عقل زائل ہو چکی ہو ، کیا اس کے ولی کی طلاق اس پر نافذ ہے؟ فرمایا: وہ خود کیوں طلاق نہیں دیتا؟ میں نے عرض کیا: کچھ بھروسہ نہیں ۔ اگر وہ طلاق دے گا تو کل کہے گا: میں نے طلاق نہیں دی ہے یا وہ ٹھیک طرح سے طلاق نہیں دے سکتا۔ امام ؑ نے فرمایا: میں اس کے ولی کو نہیں سمجھتا سوائے بمنزلہ ٔحاکم ۔”(۱۶)

اس کے علاوہ بھی روایات موجود ہیں۔

ولی سے جو معنی مراد لیا جاتا ہے اس کی قدر متیقن باپ اور دادا ہے۔ جب طلاق کے معاملے میں اس ولی کے لئے حاکم کا مرتبہ ثابت ہوجائے تو نکاح میں بطریق اولیٰ یہ منزلت ثابت ہوجائے گی۔

اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے ،مذکورہ روایت صحیحہ سے قطع نظر ، بالغ ہونے سے پہلے اس کے لئے ثابت ولایت کا استصحاب بھی کیا جا سکتا ہے۔

۴ ۔ بعض فقہاء کے مطابق ہر حال میں (اگرچہ بالغ ہونے کے بعد ہی دیوانہ ہو جائے )ولایت ثابت ہونے کی دلیل: اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے گزشتہ روایت صحیحہ کے اطلاق اور اسی مضمون کی حامل بعض دوسری روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔

۵ ۔ کنواری لڑکی کی شادی کے معاملے میں باپ اور دادا کو ولایت حاصل ہونے کی دلیل: اس مسئلے میں فقہاء اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:

۱ ۔ باپ اور دادا کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

۲ ۔ لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

۳ ۔ لڑکی اور اولیاء کو مشترک اختیار حاصل ہے۔

اس اختلاف کا اصلی سرچشمہ روایات کا مختلف ہونا ہے ؛ کیونکہ روایات کےمندرجہ ذیل مختلف مجموعے ہیں:

الف) وہ روایت جو فقط باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کی تعداد چھ ۶ یا اس سے زیادہ ہیں جن میں صحیحہ اور دوسری روایتیں بھی موجود ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ :

سَأَلْتُهُ عَنِ الْبِكْرِ إِذَا بَلَغَتْ مَبْلَغَ النِّسَاءِ، أَ لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ؟ فَقَالَ: لَيْسَ لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ مَا لَمْ تُثَيَّبْ .”“م یں نے امام ؑ سے کنواری لڑکی کے بارے میں سوال کیا : اگر وہ عورت کی حد تک پہنچ جائے تو کیا اس کے لئے اپنے باپ کے ساتھ اختیار حاصل ہے؟ فرمایا: جب تک وہ شادی شدہ نہ ہو جائے اسے باپ کے ساتھ کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔”(۱۷)

ب) وہ روایات جو باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر نہیں ؛ بلکہ صرف اس کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ ان کی تعداد بھی چھ ۶ یا اس سے کچھ زیادہ ہیں اور ان میں بھی صحیحہ اور دوسری روایتیں موجود ہیں۔مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابن ابی یعفور کی روایت صحیحہ:

لَا تُنْكَحُ ذَوَاتُ الْآبَاءِ مِنَ الْأَبْكَارِ إِلَّا بِإِذْنِ آبَائِهِنَّ .”“جن کنوار ی لڑکیوں کے باپ (زندہ) ہوں ان کے باپ کی اجازت کے بغیر ان سے شادی نہ کرو۔”(۱۸)

ج) وہ روایات باپ کو مکمل اختیار حاصل نہ ہونے اور کنواری کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کی تعداد دو ۲ ہیں۔ جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کردہ منصور بن حازم کی روایت صحیحہ ہے:

تُسْتَأْمَرُ الْبِكْرُ وَ غَيْرُهَا وَ لَا تُنْكَحُ إِلَّا بِأَمْرِهَا .”“کنوار ی اور غیر کنواری لڑکیوں سے اجازت لی جائے گی اور ان کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کیا جائے گا۔”(۱۹)

اور دوسری روایت صفوان کی صحیحہ ہے:

اسْتَشَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ لِابْنِ أَخِيهِ، فَقَالَ: افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ بِرِضَاهَا، فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا نَصِيباً. قَالَ:وَاسْتَشَارَ خَالِدُ بْنُ دَاوُدَ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ عَلِيَّ بْنَ جَعْفَرٍ، فَقَالَ: افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ بِرِضَاهَا فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا حَظّاً .”“عبد الرحمن نے اپنے بھت یجے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مشورہ لیا تو امام ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سےشادی کرادو ؛ کیونکہ لڑکی کے نفس پر اس کا بھی حق ہے۔ صفوان کہتا ہے کہ خالد بن داؤد نے بھی علی ابن جعفر کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مشورہ مانگا تو آپ ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سے شادی کرا دو؛ کیونکہ لڑکی کے نفس پر اس کا حق ہے۔”(۲۰)

د) وہ روایات جو کنواری لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حکم پر صرف سعدان بن مسلم کی روایت دلالت کر رہی ہے جو مندرجہ ذیل ہے:

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:‏ لَا بَأْسَ بِتَزْوِيجِ الْبِكْرِ إِذَا رَضِيَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَبِيهَا .”“اگر کنوار ی لڑکی خود راضی ہوجائے تو اس کے باپ کی اجازت کے بغیر اس کی شادی میں کوئی حرج نہیں ہے۔”(۲۱)

اس روایت کو شمار سے ہی حذف کرنا ضروری ہے کیونکہ باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے یا لڑکی کی رضایت کے ساتھ باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرنے والی روایات کی تعداد بارہ ۱۲ ؛ بلکہ اس سے زیادہ ہیں اور ان کی کثرت کے باعث “سنت قطعیہ” کا عنوان وجود میں آتا ہے ۔ اگر ان کی مخالف روایت کو اخذ کیا جائے تو سنت قطعیہ کی مخالفت لازم آتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ روایت بذات خود ایک ضعیف روایت ہے؛ کیونکہ سعدان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ “ کامل الزیارات” اور “ تفسیر قمی” میں مذکور تمام راوی موثق ہیں۔(۲۲)

اس بنا پر ہماری بحث صرف ابتدائی تین مجموعۂ روایات تک محدود ہوجائے گی۔

ابتدائی تین مجموعے کسی حد تک باپ کی اجازت کے شرط ہونے کی جہت سے مشترک ہیں اور اسی جہت سے ان کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے؛بلکہ ایک اضافی شرط کے لحاظ سے باہم متعارض ہیں جو لڑکی کی اجازت کا شرط ہونا ہے۔ پس اس تعارض کی وجہ سے اضافی شرط کے لحاظ سے روایتیں ساقط ہو جائیں گی اور اصل سے رجوع کرنا ضروری ہوجائے گا۔ نتیجتاً باپ اور بیٹی دونوں کی موافقت شرط ہوجائے گی۔

باپ کی اجازت ضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اجازت ضروری ہونے کے لحاظ سے روایات کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

اور بیٹی کی اجازت اس لئے شرط ہوگی کہ اگر اس کی اجازت کے بغیر نکاح ہو جائے تو ہم شک کرتے ہیں کہ اس نکاح پر اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں ؟ تو اصل کا تقاضا یہ ہے کہ آثار مرتب نہیں ہوں گے۔

۶ ۔ لڑکی کے دادا کی اجازت کے شرط ہونے کی دلیل: چونکہ دادا درحقیقت باپ ہی ہوتا ہے ؛ لہذا جو دلیلیں باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں دادا میں شامل ہے۔

۷ ۔ غیر کنواری کے خود مختار ہونے کی دلیل: اس حکم پر روایات اور فقہاء کے فتاویٰ متفق ہیں۔ کنواری کے بارے میں کی جانے والی بحث کے ذیل میں بعض احادیث کی طرف اشارہ ہو چکا ہے۔

نگاہ ڈالنے کے احکام

مرد کے لئے کسی اجنبی عورت کے بدن کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے خواہ بغیر شہوت کے ہی کیوں نہ ہو۔ فقہاء کی ایک جماعت نے حرمت کے حکم سے چہرہ اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کواستثناء کیا ہے۔

عورت کے لئے کسی اجنبی مرد کے بدن کو دیکھنا جائز ہونے میں اختلاف ہے۔

مرد اور عورت میں سے ہر ایک کے لئے اپنے مماثل ( ہم جنس) کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہےسوائے شرمگاہوں کے۔

اجنبی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہونے کے حکم سے کسی ضرورت کے وقت دیکھنے کو استثناء کیا گیا ہے۔ مثلا عورت کو پانی میں غرق ہونے سے یا آگ میں جل جانے سے بچانے کے لئے۔ ان حالتوں میں اس کی طرف دیکھنا جائز ہے ؛ بلکہ اس کو چھونا بھی جائز ہے۔

نیز یائسہ عورت اور نابالغ لڑکی پر نگاہ ڈالنا بھی حرمت کے حکم سے استثناء کیا گیا ہے۔

عورت پر نابالغ لڑکے سے پردہ کرنا واجب نہیں ۔ اگرچہ اس سے بھی پردہ کرنا بہتر ہے۔

جو شخص کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے اس عورت کے چہرے، ہاتھوں، بالوں اور حسن و جمال کے مقامات کو دیکھنا جائز ہے۔

جو عورت شادی کا ارادہ رکھتی ہے اس کے لئے بھی ایک قول کی بنا پر اس مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

غیر مسلم عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز ہے نیز ہر ان تمام عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز ہے جو کہنے کے باوجود پردہ نہیں کرتیں۔ بشرطیکہ شہوت کے ساتھ نہ دیکھے۔

دلائل:

۱ ۔ کلی طور پر اجنبی عورت کے بدن پر نگاہ ڈالنا، خواہ بغیر شہوت کے ہی کیوں نہ ہو، حرام ہونے کی دلیل:یہ فقہ کے واضح مسائل میں سے ہے۔اس حکم کو قرآن مجید کی آیت( وَلْيَضْرِبْنَ بخِمُرِهِنَّ عَلىَ‏ جُيُوبهِنَّ ...) “...اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں...”(۲۳) سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ نیز جن روایات میں بدن کو ظاہر کرنے کی حرمت سے چہرہ اور ہاتھوں کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح مختلف موارد میں بیان ہونے والی روایات سے بھی اس حکم کو سمجھا جا سکتا ہے۔

بلکہ اس کو آیت کے اس حصے( ...وَ لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ...) “...اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے ...”(۲۴) سے بھی سمجھا جا سکتا ہے؛ کیونکہ غیروں کے حضور بدن کو ظاہر کرنے کی حرمت کا لازمہ اس کی طرف دیکھنا حرام ہونا ہے۔اسی طرح زینت کو ظاہر نہ کرنے سے مراداگر مواضع زینت ہوں تو اس کا حکم واضح ہے؛ لیکن اگر اس سے مراد بذات خود زینت ہو تو اس کو ظاہر کرنے کی حرمت کا لازمہ یہی ہوگا کہ اس کے مواضع کو ظاہر کرنا بطریق اولیٰ حرام ہے۔

البتہ اس آیت( قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْمِنْ أَبْصَارِهِم ...) “آپ مومنوں سے کہدیجئے:کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں”(۲۵) سے استدلال کرنے میں اشکال ہے؛ کیونکہ “غضّ بصر” کے معنی دیکھنے کو ہی ترک کرنا نہیں؛ بلکہ کسی چیز میں دلچسپی نہ لینا اور اس سے بے توجہی برتنا ہے۔(۲۶)

اس کے علاوہ آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ “غضّ بصر” سے مرادفقط شرمگاہوں کی نسبت سے نظروں کو قابو میں رکھنا ہے۔

۲ ۔ فقہاء کی ایک جماعت نے چہرہ اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو حرمت کے حکم سےاستثناء کیا ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جو ہم ذیل میں ذکر کریں گے:

الف) فضیل کی روایت صحیحہ سے تمسک کرنا:

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الذِّرَاعَيْنِ مِنَ الْمَرْأَةِ هُمَا مِنَ الزِّينَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ :( وَ لايُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَ ) ؟قَالَ: نَعَمْ، وَ مَا دُونَ الْخِمَارِ مِنَ الزِّينَةِ،وَمَا دُونَ السِّوَارَيْنِ .” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عورت کے (کہنیوں تک )ہاتھوں کے بارے میں سوال کیا : کیا یہ خدا کے اس فرمان میں “اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے” شامل ہیں؟ فرمایا: ہاں !جو جگہے دوپٹہ اور چوڑیوں کے نیچے ہوں وہ زینت میں شمار ہوتی ہیں۔ ”(۲۷)

چونکہ چہرہ دوپٹے کے نیچے نہیں ہوتا اور ہتھیلی بھی چوڑی سے اوپر ہوتی ہے ؛ لہذا یہ روایت ان دونوں کا ظٖاہر کرنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

البتہ اس روایت سے استدلال کرنا ایک اور مقدمے کی طرف محتاج ہے کہ جب ان چیزوں کو ظاہر کرنا جائز ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اجنبی کا اس پر نگاہ ڈالنا بھی جائز ہے؛ جبکہ بعض اوقات یہ لازمہ ختم ہوجاتا ہے ؛اسی باعث مرد کے لئے اپنے بدن کو نہ چھپانا جائز ہوتا ہے اور چونکہ عورت کے لئے مرد کے بدن پر نگاہ ڈالنا جائز ہے لہذا یہاں پر یہ لازمہ موجود نہیں ۔

ب) زرارہ کی روایت سے تمسک کرنا:

زرارہ نقل کرتے ہیں :

فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ ( ...إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها ...) قَالَ: الزِّينَةُ الظَّاهِرَةُ، الْكُحْلُ وَ الْخَاتَمُ .” “حضرت امام جعفر صادق عل یہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فرمان “مگر جو ان مں. سے کھلا رہتا ہو” کے بارے میں فرمایا: یہ ظاہری زینت ، سرمہ اور انگوٹھی ہے۔”(۲۸)

یہ روایت چہرہ اور ہتھیلیوں کے ظاہر کرنے کے جواز پر واضح دلالت کر رہی ہے۔

مگر اس روایت پر بھی وہی اشکال ہوتا ہے جو فضیل کی گزشتہ روایت پر ہوا تھا۔ علاوہ از ایں اس کی سند میں قاسم بن عروہ کا نام بھی ہے جس کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

ج) اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان سے تمسک کرنا:

( ...وَلْيَضْرِبْنَ بخِمُرِهِنَّ عَلىَ‏ جُيُوبهِنَّ ...) “...اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں...”(۲۹)

آیت میں چھپانے کے وجوب کو “جُيُوب ”( س ینے ) کے ساتھ مختص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کو چھپانا واجب نہیں ہے ورنہ سینہ کہنے کے بجائے چہرہ کہنا ہی بہتر تھا؛ کیونکہ عام طور پر اوڑھنیاں چہرے کو نہیں چھپاتیں۔

اس کے علاوہ جب تک گزشتہ روایت میں مذکور لازمے کو ساتھ نہ ملایا جائے اس وقت تک آیت کی دلالت بھی مکمل نہیں ہوتی۔

حرمت نگاہ کے حکم سے چہرہ اور ہتھیلیوں کو استثناء کرنے کے یہی تین اسباب موجود ہیں۔

مذکورہ بیانات سے واضح ہوا کہ اگر یہ لازمہ تام نہ ہو تو اس حکم میں جدائی ڈالنا ضروری ہوجائے گا کہ عورت کے لئے چہرہ اور ہاتھوں کو ظاہر کرنا جائز اوراس پر نگاہ ڈالنا اجنبی پر حرام ہے۔

۳ ۔ عورت کے مرد پر نگاہ ڈالنے کا حکم: اس مقام پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت کے نگاہ ڈالنے میں کوئی فرق نہیں(۳۰) ؛ یعنی عورت کے جن مقامات پر نگاہ ڈالنا مرد کے لئے جائز ہے ، عورت کے لئے بھی مرد کے انہی مقامات پر نگاہ ڈالنا جائز ہے اور عورت کے جن مقامات پر مرد کے لئے نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے، عورت کے لئے بھی مرد کے ان مقامات پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے۔

لیکن اس دعویٰ پر اشکال ہے ؛ کیونکہ یہاں ایسا اجماع ثابت نہیں ہے جو معصوم ؑ کی رائے کو منکشف کرے؛ بلکہ اہل شریعت کی قطعی سیرت، جو معصوم ؑ کے زمانے سے متصل ہے، اجماع کے خلاف قائم ہوئی ہے۔ مثلا جب مرد باہر نکلتے ہیں تو ان کے سر اور گردن کھلی ہوتی ہے اور عورتیں بھی گلیوں اور بازاروں میں ان کے ساتھ گھل مل کر رہتی ہیں۔ پس اگر مردوں کے ان مقامات پر ، جو گھر سے نکلتے وقت عموما ظاہر ہوتے ہیں، نگاہ ڈالنا عورت پر حرام ہوتا تو اس کا لازمہ تین حالتوں سےخالی نہیں : ۱ ۔یا تو مرد پر ان مقامات کو چھپانا واجب ہے ، ۲ ۔یا عورتوں کے ساتھ گھل مل کر بیٹھنا حرام ہے ، ۳ ۔ یا گھل مل کر بیٹھنا اور باتیں کرنا جائز ہے ؛ لیکن دیکھنا جائز نہیں۔ درحالیکہ تینوں مفروضوں کا احتمال نہیں دیا جا سکتا۔

لہذا اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے مردوں کے ان مقامات پر ، جو عموما ظاہر ہوتے ہیں، نگاہ ڈالنا جائز ہے۔

گزشتہ دلیلوں کے علاوہ بعض اوقات اس طرح بھی جواز پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جس میں اصحاب نے عورتوں کے مرد وں پر نگاہ ڈالنے کا حکم پوچھا ہو۔ پس سوال نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہاں پر تین مفروضے ہیں:

الف) اصحاب کے نزدیک حرام ہونے کا حکم واضح تھا؛

ب)انہیں حکم میں شک تھا؛

ج)ان کے نزدیک جائز ہونے کا حکم واضح تھا۔

ان تینوں میں سے ابتدائی دو مفروضے صحیح نہیں ہیں ۔

مفروضہ(الف)کے درست نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر عورت کو دیکھنا حرام ہونے سے یہ احتمال نہیں دیا جاسکتا کہ جب یہ حرام ہو تو عورت پر بھی مرد کو دیکھنا واضح طور پر حرام ہے۔

مفروضہ (ب) کے صحیح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر اصحاب کو حکم میں شک تھا تو مناسب یہ تھا کہ اصحاب اپنے شک کو دور کرنے کے لئے سوال کرتے ۔

پس مفروضہ (ج) ہی صحیح ہے کہ اصحاب کے نزدیک جائز ہونے کا حکم واضح تھا اسی لئے سوال نہیں کیا۔

جواز کے مقابلے میں بعض اوقات حرام پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیاجاتا ہے:

الف)آیت مجیدہ:

( وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَرِهِن ) “ اور مومنات سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیکی رکھے”(۳۱)

ب) احمد بن ابی عبداللہ برقی کی روایت:

اسْتَأْذَنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى النَّبِيِّ (ص)وَ عِنْدَهُ عَائِشَةُ وَ حَفْصَةُ، فَقَالَ لَهُمَا: قُومَا، فَادْخُلَا الْبَيْتَ، فَقَالَتَا: إِنَّهُ أَعْمَى، فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَرَكُمَا فَإِنَّكُمَا تَرَيَانِهِ .”“ابن ام مکتوم نے رسول اللہ ؐ سے حاض ر خدمت ہونے کی اجازت چاہی جبکہ آپ ؐ کے پاس عائشہ اور حفصہ موجود تھیں۔ رسول اللہ ؐ نے ان دونوں سے کہا: اٹھو اور گھر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: یہ تو اندھا ہے۔ فرمایا: اگر وہ تم دونوں کو نہ دیکھے تو تم اس کو دیکھ سکتی ہو۔”(۳۲)

ج)پیغمبر اکرم ؐ سے مکارم الاخلاق میں طبرسی کی نقل کردہ حدیث:

أَنَّ فَاطِمَةَعلیها السلام قَالَتْ لَهُ فِي حَدِيثٍ: خَيْرٌ لِلنِّسَاءِ أَنْ لَا يَرَيْنَ الرِّجَالَ وَ لَا يَرَاهُنَّ الرِّجَالُ، فَقَالَ (ص): فَاطِمَةُ مِنِّي .”“فاطمہ زہرا ؑ نے جب فرما یا: بہترین عورت وہ ہے جو مردوں کو نہ دیکھے اور کوئی مرد اسے نہ دیکھے تو پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: بے شک فاطمہ ؑ مجھ سے ہے۔”(۳۳)

د)ام سلمہ سے طبرسی ہی کی نقل کردہ حدیث:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ‏: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ عِنْدَهُ مَيْمُونَةُ، فَأَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ أُمِرَ بِالْحِجَابِ، فَقَالَ: احْتَجِبَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ(ص) أَ لَيْسَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا؟ قَالَ: أَ فَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا، أَ لَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ .”“ام سلمہ فرمات ی ہیں: میں اور میمونہ ، رسول اللہ کے پاس موجود تھیں اس وقت ابن ام مکتوم حاضر ہوا۔ اس وقت پردے کا حکم آچکا تھا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: پردہ کرو۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ ؐ! کیا وہ اندھا نہیں ہے جو ہمیں نہیں دیکھ سکتا؟ فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم اسے نہیں دیکھ سکتی ہو؟”(۳۴)

جبکہ آپ ان دلیلوں کو ملاحظہ کر رہے ہیں:

پہلی دلیل ( آیت) کے بارے میں پہلے کہا گیا ہے کہ “غضّ بصر” کے معنی دیکھنے کو ہی ترک کرنا نہیں؛ بلکہ کسی چیز میں دلچسپی نہ لینا اور اس سے بے توجہی برتنا ہے۔(۳۵)

دوسری دلیل ،اگرچہ دلالت کے لحاظ سے حرام ہونے کو ثابت ہی کیوں نہ کرے،سند کے لحاظ سے ضعیف ہے ؛ کیونکہ برقی اور پیغمبر اکرم ؐ کے درمیان زمانے کے لحاظ سے زیادہ فاصلہ ہے ؛ لہذا یہ حدیث مرسل ہے۔

تیسری اور چوتھی دلیل بھی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں اگرچہ ان کی دلالت تام ہی کیوں نہ ہو۔

۴ ۔ مماثل کی شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: یہ حکم مسلمات میں سے ہے۔ اس کے علاوہ سیرت مسلمین کا تقاضا بھی ہے نیز ان روایات کے ذریعے بھی ثابت ہو جاتا ہے جو“باب حمام” میں مذکور ہیں اور حمام میں تہبند کے بغیر داخل ہونے سے منع کرتی ہیں۔(۳۶)

بلکہ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں؛ کیونکہ یہ“اصل ” کا تقاضا ہے اور شرمگاہ کی طرف دیکھنا دلیل شرعی کے ذریعے اصل سےخارج ہوا ہے۔جیسا کہ بعض روایات شرمگاہ کو دیکھنا حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حریز کی روایت صحیحہ ہے:

لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ أَخِيهِ .”“کوئ ی مرد اپنے بھائی کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔”(۳۷)

۵ ۔مجبوری کی حالت میں شرمگاہ کو دیکھنا حرام نہ ہونے کی دلیل: مجبوری کی حالت میں یہ فعل “تزاحم” کے باب میں شامل ہوجاتا ہے جہاں زیادہ اہمیت والے فعل کو مقدم کیا جاتا ہے اور کم اہمیت والے فعل سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جواز کا حکم ہر قسم کی “حالت تزاحم” کے لئے عام ہے جس کی رعایت کرنا شارع کے نزدیک دیکھنے اور چھونے کی حرمت کی رعایت کرنے سے زیادہ اہم ہے۔

۶ ۔ یائسہ عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل:یہ حکم قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے ثابت ہے:

( وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الَّاتىِ لَا يَرْجُونَ نِكاَحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيرَْ مُتَبرَِّجَتِ بِزِينَةٍ وَ أَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيرٌْ لَّهُن ...) “ اور جو عورتیں (ضعیف العمری کی وجہ سے) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لےر اپنے (حجاب کے) کپڑے اتار دینے مںَ کوئی حرج نہیںش ہے بشرطکہک زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق مںک بہتر ہے...”(۳۸)

۷ ۔ نابالغ لڑکی کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: جو ادلہ دیکھنے کی حرمت کو ثابت کرتی ہیں وہ اس مورد کواپنےدائرے میں شامل کرنے سے قاصر ہے؛ کیونکہ حرمت نظر کا حکم اگرفقہ کے مسلمات میں سے ہے تو اس میں قدر متیقن بالغ عورتوں کو دیکھنا ہے اوراگر زینت کو ظاہر کرنا حرام قرار دینے والی آیت ( آیت ابداء الزینۃ) سے اخذ کیا گیا ہے تو وہ بھی بالغوں کے ساتھ مختص ہے۔ نیز اگر ان روایات سے اخذ کیا گیا ہے جو چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کو دیکھنا حرام قرار دیتی ہیں تو وہ روایات بھی بالغوں کے ساتھ مختص ہیں۔

لیکن اگر ان روایتوں سے حکم کو اخذ کیا جائے جن میں نظر کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر یا آنکھوں کا زنا(۳۹) کہا گیا ہے تو یہ روایات اس حکم پر دلالت کرنے سے قاصر ہیں جیسا کہ واضح ہے۔

۸ ۔نابالغ کے سامنے خود کو ظاہر کرنے والی عورت کا حکم: قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مفہوم سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت پر نابالغ کے سامنے خود کو ظاہر کرنا حرام ہے:

( وَ لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ... أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلىَ‏ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ. ..) “ اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے... اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں...”(۴۰)

لیکن حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی بزنطی کی روایت صحیحہ سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے:

يُؤْخَذُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ وَ هُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ. وَ لَا تُغَطِّي الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا مِنْهُ حَتَّى يَحْتَلِمَ. ”“جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو نماز کے بارے م یں اس کا مؤاخذہ کیا جائے گا اور جب تک وہ محتلم نہ ہوجائے، کوئی عورت اس سے اپنے بالوں کو نہیں چھپائے گی۔”(۴۱)

آیت کا مفہوم ، مطلق ہے ؛ لہذا اس روایت کے ذریعے اس اطلاق کو مقید کرنا چاہئے۔

۹ ۔ شادی کا ارادہ رکھتے ہوئے عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: بعض روایتوں کی وجہ سے یہ حکم کسی حد تک متفق علیہ ہے۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن سالم ، حماد بن عثمان اور حفص بن البختری نے روایت کی ہے:

لَا بَأْسَ بِأَنْ يَنْظُرَ إِلَى وَجْهِهَا وَ مَعَاصِمِهَا إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا .”“اگر کوئ ی شخص کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے چہرے اور کلائیوں کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔”(۴۲)

نیز غیاث بن ابراہیم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے اور انہوں نے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت کی ہے:

فِي رَجُلٍ يَنْظُرُ إِلَى مَحَاسِنِ امْرَأَةٍ يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا. قَالَ: لَا بَأْسَ، إِنَّمَا هُوَ مُسْتَامٌ فَإِنْ يُقْضَ‏ أَمْرٌ يَكُون .”“ا یک شخص شادی کے ارادے سے کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ ڈالتا ہے اس بارے میں امام ؑ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔وہ شادی کی قابل ہے اگر وہ چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔”(۴۳)

کچھ فقہاء نے بعض روایات سے تمسک کرتے ہوئے شرمگاہ کے علاوہ پورے بدن کو دیکھنا جائز قرار دیا ہے۔(۴۴) ان روایات میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:

سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرعلیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ،أَيَنْظُرُ إِلَيْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّمَا يَشْتَرِيهَا بِأَغْلَى الثَّمَنِ .”“م یں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: جو شخص کسی عورت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے کیا وہ اس عورت کو دیکھ سکتا ہے؟ فرمایا: جی ہاں! کہ وہ اس کو مہنگے داموں خرید رہا ہے۔”(۴۵)

اس حکم سے شرمگاہ کو اس لئے استثناء کیا گیا ہے کہ اس کو دیکھنا تمام فقہاء کے نزدیک مسلماً حرام ہے۔

۱۰ ۔ اس عورت کا حکم جو کسی مرد کو شادی کے ارادے سے دیکھتی ہے: شیخ اعظم انصاری ؒ کے نزدیک اس عورت کے لئے شادی کے ارادے سے مرد کو دیکھنا جائز ہے؛اس لئے کہ جب اس سے شادی کرنے والے مرد کے لئے ، مہنگے داموں خریدنے کے باعث ، اس کو دیکھنا جائز ہو گیا تو اس عورت کے لئے بھی اس مرد کو دیکھنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا؛ کیونکہ وہ بھی قیمتی جنس دے رہی ہے۔ خصوصا اس بات کے پیش نظر کہ مرد طلاق کے ذریعے عورت سے جان چھڑا سکتا ہے لیکن عورت اس طرح بھی جان نہیں چھڑا سکتی۔(۴۶)

لیکن شیخ اعظم ؒ کی بات قابل اشکال ہے ؛ کیونکہ اگر عورت ،قیمتی جنس دے رہی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے جنس کی قیمت یعنی مہر کا علم ہونا چاہئے نہ کہ شوہر کا علم ؛ کیونکہ بضع ( عزت) کی قیمت شوہر نہیں ہے۔

۱۱ ۔ غیر مسلم عورت کو دیکھنا جائز ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ ، سکونی کی موثق روایت ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص):‏ لَا حُرْمَةَ لِنِسَاءِ أَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يُنْظَرَ إِلَى شُعُورِهِنَّ وَ أَيْدِيهِنَّ .” “رسول اللہ ؐ نے فرما یا: ذمی عورتوں کے بالوں اور ہاتھوں کی طرف دیکھنا حرام نہیں ہے۔ ”(۴۷)

اس حکم کے ثبوت میں ذمی عورتوں کو کوئی دخل نہیں ہے ؛ بلکہ تمام غیر مسلم عورتوں کو دیکھنا جائز ہے۔ذمی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہونے کی وجہ سے کوئی یہ توہم کرسکتا ہے کہ ان کو دیکھنا بھی حرام ہے ؛ لہذا اس توہم کو دور کرنے کے لئے یہاں پر ان کو خاص کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ نکاح جائز ہونا ایک طرح سے ذمی عورتوں کا احترام شمار ہوتا ہے اور دیکھنے کا جواز ، نکاح کے علاوہ ایک دوسرا حکم ہے۔

اس روایت سے قطع نظر یہ حکم عباد بن صہیب کی روایت صحیحہ کے اطلاق سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے:

سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ:‏ لَا بَأْسَ بِالنَّظَرِ إِلَى رُءُوسِ أَهْلِ تِهَامَةَ، وَ الْأَعْرَابِ، وَ أَهْلِ السَّوَادِ، وَ الْعُلُوجِ، لِأَنَّهُمْ إِذَا نُهُوا لَا يَنْتَهُون .”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کویہ کہتے ہوئے سنا کہ “اہل تہامہ” ، “اعراب” ، “اہل سواد” اور “ اہل علوج” عورتوں کے بالوں کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اگر انہیں روکا جائے تو یہ باز نہیں آتیں۔”(۴۸)

اس روایت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ منع کرنے کے باوجود باز نہ آنے والی تمام عورتوں کو دیکھنا جائز ہے۔

لذت کے ساتھ نہ دیکھنا شرط ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہ کے مسلمہ احکام میں سے ہے۔ اگر یہ مسلمہ احکام میں سے نہ ہوتا تو اطلاق کے تقاضا کے مطابق مطلَقاً دیکھنا جائز ہے خواہ لذت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔


3

4

5

6

7