دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ) مؤلف:
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: مشاہدے: 10639
ڈاؤنلوڈ: 2491

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10639 / ڈاؤنلوڈ: 2491
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

روزےکے عام احکام

روزہ توڑنے اورروزے کی قضا اُسی وقت واجب ہوتی ہے کہ جب مذکورہ مبطلات روزہ اشیا ءمیں سے -جنابت پر باقی رہنے کے علاوہ-کو آپ نے اختیار سے جان بوجھ کر استعمال کیا ہو۔چاہے وہ ماہ رمضان میں ہویارمضان کے علاوہ۔

جسے روزہ توڑنے کا علم نہ ہوتو وہ بھی ایسے ہی ہے جیسے اس مسئلے کا جاننے والا- تو یہ بھی جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے کے حکم میں ہے ۔

روزہ توڑنے کا کفارے کی تین قسموں میں اسے اختیار حاصل ہے {ان میں سے کوئی بھی آپ نی مرضی سے ادا کر سکتاہے}۔جو شخص روزے کا کفارہ نہیں ادا کر سکتا ہے اس کے لئے استغفار کرلینا ہی کافی ہے۔لیکن جیسے ہی یہ کفارہ دے سکنے کے قابل ہوا تو اس پر کفارہ کا ادا کرنا واجب ہے۔

طلوع فجر میں شک کرنے والا کھا پی سکتاہے۔اوراگر بعد میں اسے پتہ چلے کہ طلوع ہو چکا تھا اب اگر اس نے سب شرائط کی رعایت نہیں کی تھی تو اس پر صرف قضا ہی واجب ہے۔لیکن اگر وہ آپ نی شک کی حالت پر باقی رہا {یعنی اسے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ طلوع ہو چکا تھا یا نہیں } تواس پرکوئی چیز واجب نہیں ہے{ نہ ہی قضا اور نہ ہی کفارہ}

غروب کے بارے میں شک کرنے والا روزہ نہیں توڑ سکتاہے ۔ اوراگر اس نے روزہ توڑ دیا تو اس پر قضا بھی واجب ہے اور کفارہ بھی۔ مگر یہ کہ اُس معلوم ہو جاے کہ اس نے جس وقت روزہ توڑا تھا اس وقت غروب ہو چکا تھا اور افطاری کا وقت ہو چکا تھا۔

اگر کوئی شخص روزہ توڑنے کی نیت کرے لیکن روزہ نہ توڑے تو ایسے شخص پر صرف قضا واجب ہے۔

دلائل:

جان بوجھ کر روزہ توڑنے سے کفارے کے واجب ہونا مندرجہ ذیل دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے:

ا ۔ مقتضی میں کمی پائی جاتی ہے۔کیونکہ گذشتہ صفحات میں محمد بن مسلم سے منقول صحیح روایت ہے:

"مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ لَا يَضُرُّ الصَّائِمَ‏ مَا صَنَعَ إِذَا اجْتَنَبَ ثَلَاثَ خِصَالٍ الطَّعَامَ وَ الشَّرَابَ وَ النِّسَاءَ وَ الِارْتِمَاسَ فِي الْمَاء "(۳۶)

ترجمہ :حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ روزہ دار کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی جب تین چیزوں سے اجتناب کرے ۱ ۔ کھانے پینے سے ۲ ۔ عورتوں (مباشرت سے )سے ۳ ۔ اور پانی میں غوطہ زنی سے )میں " اجتناب" کا تذکرہ پایا جاتاہے۔ اس لفظ کا اطلاق جان بوجھ کر افطار کرنے کے ساتھ ساتھ سہوا روزہ افطار کرنے پر بھی ہوتاہے۔

اور اگر کرئی شک کرے کہ اس کا کھانا پینا سہوا روزہ کو باطل کرتی ہے کہ نہیں تو اس صورت میں براءت جاری ہو گی ۔

ب:لیکن اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیتے ہیں کہ مقتضی تام ہے اور متقضی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہائی جاتی ہے تو اس صورت میں ہمیں امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی صحیح روایت وغیرہ سے ہاتھ اُٹھانا پڑے گا ۔ کیونکہ روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ‏ نَسِيَ‏ فَأَكَلَ‏ وَ شَرِبَ ثُمَّ ذَكَرَ قَالَ لَا يُفْطِرْ إِنَّمَا هُوَ شَيْ‏ءٌ رَزَقَهُ اللَّهُ فَلْيُتِمَّ صَوْمَه "(۳۷)

ترجمہ : {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } حلبی سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا گیا کہ ایک شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا ، بعد ازان یاد آیا تو ؟ فرمایا : وہ روزہ نہ کھولے ۔ یہ تو ایک چیز ہے جو خدا نے اسے عطا کی ہے اسے چاہیے کہ روزہ مکمل کرے )

اس روایت جو علت (إِنَّمَا هُوَ شَيْ‏ءٌ رَزَقَهُ اللَّهُ ) بیان کی گئی ہے وہ عام ہے جو کھانے پینے کے علاوہ دوسرے مبطلات روزہ کو بھی شامل ہوتی ہے۔

بلکہ اس بات کا استفادہ ہم عبداللہ بن سنان کی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی اس حدیث سےکرتے ہیں:

"بِإِسْنَادِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كُلَ‏ مَا غَلَبَ‏ اللَّهُ‏ عَلَيْهِ‏ فَلَيْسَ عَلَى صَاحِبِهِ شَيْ‏ء "(۳۸)

ترجمہ : " عبداللہ بن سنان حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ہر وہ تکلیف جو خدا مسلط کرے اس سلسلہ میں آدمی پر کچھ نہیں ہے "

اس حدیث میں بیان شدہ اس قاعدہ (كُلَ‏ مَا غَلَبَ‏ اللَّهُ‏ عَلَيْهِ‏ فَلَيْسَ عَلَى صَاحِبِهِ شَيْ‏ء ) کر سکتے ہیں کہ عمدا کھانا پینا روزہ کو باطل کرتا ہے کیونکہ حالت نسیان میں خداوندہ متعال انسان پر غلبہ کرتا ہے اور اس کا عقل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے پس اس پر کوئی چیز واجب (قضاء و کفارہ)نہیں ہوتی ہے

اسی طرح حدیث رفع سے بھی تمسک کرسکتے ہیں بشرطیکہ حدیث (رفع النسیان)(۳۹) رفع فقط عقابت اخروی کے ساتھ خاص نہ ہو بلکہ مطلق ہواور آثار وضعی (روزہ کے باطل کرنے والی چیزے )اور تکلیفی (حرام) اور عقابت اخروی پر دلالت کرتی ہے۔

۲۔ مذکورہ حکم سے طلوع آفتاب تک حالت جنابت میں باقی رہنے کےمستثنی ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اگر وہ شخص قبل از طلوع فجر بیدار ہو اور غسل نہ کرے اور دوبارہ سو جائے (چاہے غسل کا قصد ہو یا نہ ہو)یا بعد از طلوع فجر بیدار ہو تو دونوں صورتوں میں اس پر قضاء واجب ہو جائے گی اس پر دلیل یہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى وَ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ جَمِيعاً عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع الرَّجُلُ‏ يُجْنِبُ‏ فِي‏ أَوَّلِ‏ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ حَتَّى يُصْبِحَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ قُلْتُ فَإِنَّهُ اسْتَيْقَظَ ثُمَّ نَامَ حَتَّى أَصْبَحَ قَالَ فَلْيَقْضِ ذَلِكَ الْيَوْمَ عُقُوبَةً "(۴۰)

ترجمہ : "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } معاویہ بن عمار سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت عرض کیا کہ ایک شخص اول شب میں جنب ہوتا ہے اور ماہ رمضان میں صبح تک سوتا رہتا ہے ؟ فرمایا : اس پر کچھ نہیں ہے پھر عرض کیا : اگر ایک بار جاگے اور پھر سو جائے اور صبح تک سوتا رہے تو ؟ فرمایا : بطور سزا اس دن کی قضا کرے "

۳۔ ماہ رمضان کے روزے ہوں یا ماہ رمضان(قضاء"نذر)کے علاوہ ہوں اس پر دلیل حلبی کی صحیح روایات وغیرہ کا اطلاق ہے ۔ اوران میں سے بعض روایات کا ماہ مبارک رمضان کے ساتھ خاص ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔ جاہل کے عالم کے حکم میں ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جاہل جان بوجھ کر آپ نے ارادے سے ایسا کرتاہے ۔ منتہی وہ یہ نہیں جانتاہے کہ اس سے روزہ باطل ہوتا ہے یا نہیں ،لہذا مبطلات والی دلیلوں کا اطلاق اس کو بھی شامل ہے۔

۵۔ کفارہ کے تین قسموں (ازاد کرنا ایک غلام کا " ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا " دو ماہ متواتر روزے رکھنا ) میں مختار ہونا تویہ قول مشہور ہے اورروایات چند قسم کی ہیں:

ا۔ روایت میں سے پہلی قسم اختیار پر دلالت کرتی ہے جیساکہ روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"رَوَى الْحَسَنُ بْنُ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي رَجُلٍ‏ أَفْطَرَ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ مُتَعَمِّداً يَوْماً وَاحِداً مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ قَالَ يُعْتِقُ رَقَبَةً أَوْ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ يُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيناً فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ تَصَدَّقَ بِمَا يُطِيقُ (۴۱)

ترجمہ : " {حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} عبداللہ بن سنان سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےاس شخص کے بارے میں جو جان بوجھ کر بلا عذر ماہ رمضان کا ایک روزہ نہ رکھے (یا رکھ کر توڑ دے ) ۔ فرمایا : ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو حسب طاقت صدقہ دے)"

اس روایت میں لفظ (او) کا استعمال ہوا ہے جوکہ اختیار پر دلالت کرتی ہے

ب ۔ روایت میں دوسری قسم ترتیب پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ فِي كِتَابِهِ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنْ‏ رَجُلٍ‏ نَكَحَ‏ امْرَأَتَهُ‏ وَ هُوَ صَائِمٌ فِي رَمَضَانَ مَا عَلَيْهِ قَالَ عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَ عِتْقُ رَقَبَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَسْتَغْفِرِاللَّه "(۴۲)

ترجمہ : "جناب علی بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ نے بھائی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی اہلیہ سے مباشرت کی ہے تو اس پر کیا ہے ؟ فرمایا : اس پر ایک قضا ہے اور (کفارہ میں) ایک غلام آزاد کرنا اگر یہ نہ کر سکے تو پے در پے دو ماہ روزے رکھے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو خدا سے طلب مغفرت کرے "

یہ روایت صحیح ہے۔کیونکہ {شیخ حرعاملی }صاحب وسائل الشیعہ کا دیگر کتابوں سے روایات نقل کرنے کا ایک معتبر طریقہ ہے اور وہ یہ ہے ان سب کی انتہاء شیخ طوسی پر ہوتی ہے۔اوراس طریق کی وضاحت انہوں نے "وسائل الشیعہ" کے آخر میں دی ہے۔انہی{جن سے صاحب وسائل نقل کرتےہیں}کتابوں میں سے ایک "علی بن جعفر" کی کتاب بھی ہے۔کیونکہ شیخ کا " الفھرست " علی بن جعفر کی کتاب تک ایک صحیح طریق ہے ۔

اوران دونوں قسم کی حدیثوں کی سند کو اگر مکمل اور صحیح مان لیا جائے تب بھی ان کے درمیان جمع ممکن ہے وہ اس طرح کے دوسری قسم والی احادیث کو اسحباب پر حمل کریں گے کیونکہ پہلی میں قرینہ موجود ہے۔

۶۔ اور اگر ایک بندہ کفارہ(ازاد کرنا ایک غلام کا " ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا " دو ماہ متواتر روزے رکھنا )دینے سے قاصر ہے تو اس کے لیے کفارہ کے بدلے میں استغفار کافی ہے اور اس کے لیے دلیل مذکورہ علی بن جعفر والی حدیث ہے۔

۷- جب کفارہ ادا کر نے کی قدرت آجائے تو اسے کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا کوئی خاص وقت معین نہیں ہے۔اگراس کا کوئی خاص وقت معین ہوتا تو اب جب کہ وجوب کفارہ استغفار کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ اب اس کے لئے ایک خاص دلیل کی ضرورت ہے حالانکہ ہمارے پاس دلیل نہیں ہے۔ اور کفارہ کی تقسیمات والی دلیلوں میں ہے کہ جب بھی کفارہ ادا کر سکے تو اسے ادا کرے۔

۸۔ طلوع فجر میں شک کرنے والے کے لیے کھانے پینے کے جائز ہونے کی دلیل استصحاب موضوعی ہے(استحباب بقاء اللیل یعنی یہ استصحاب کرے گا کہ ابھی تک رات ہے ۔اور رات میں کھانا پینا جائز ہے۔ لہذا اب بھی اس کے لئے کھانا جائز ہے)

۹۔ اور بعد میں طلوع کا پتہ چلنے کی صورت میں قضا کے واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس نے ابھی واجب ادا نہیں کیا ہے اور وہ واجب دونوں حدوں کے درمیان آپ نے آپ کو مبطلات روزہ سے بچائےرکھنا تھا۔ اس صورت میں استصحاب ، حکم تکلیفی کو اٹھا لیتا ہے ۔یعنی اس شخص نے کوئی حرام کام نہیں کیا ہے۔لیکن استصحاب یہاں حکم وضعی کو نہیں اٹھا سکتاہے اور وہ ابھی تک باقی ہے یعنی اس کا روزہ باطل ہے۔یہ سب قاعدے(اولی)کےمطابق ہے لیکن اگر روایت کے مقتضی (قاعدہ ثانوی)کےمطابق یہاں تفصیل کا قائل ہوناچاہیے۔ یعنی اس نے شرائط کی رعایت کی ہے یا نہیں ۔چونکہ سماعہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےمروی صحیح روایت میں آیاہے :کہ

"أَكَلَ‏ أَوْ شَرِبَ‏ بَعْدَ مَا طَلَعَ الْفَجْرُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ إِنْ كَانَ قَامَ فَنَظَرَ فَلَمْ يَرَ الْفَجْرَ فَأَكَلَ ثُمَّ عَادَ فَرَأَى الْفَجْرَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ وَ لَا إِعَادَةَ عَلَيْهِ وَ إِنْ كَانَ قَامَ فَأَكَلَ وَ شَرِبَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَى الْفَجْرِ فَرَأَى أَنَّهُ قَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ وَ يَقْضِي يَوْماً آخَرَ لِأَنَّهُ بَدَأَ بِالْأَكْلِ قَبْلَ النَّظَرِ فَعَلَيْهِ الْإِعَادَةُ "(۴۳)

ترجمہ : "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} سماعہ بن مہران سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ کہ میں نے ان ( حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں طلوع فجر کے بعد کھایا اور پیا تو ؟ فرمایا : اگر تو اس نے اٹھ کر دیکھا اور فجر نظر نہ آئی اور کھانے پینے کے بعد پتہ چلا کہ فجر طلوع ہو چکی تھی تو وہ اس روزہ کو مکمل کرے اس پر قضا نہیں ہے ۔ اور اگر اٹھ کر دیکھے بغیر کھائے پیے اوربعد ازاں دیکھا کہ فجر طلوع ہو چکی ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس روزہ کو مکمل کرے اور پھر اس کی قضا بھی کرے کیونکہ اس نے تحقیق حال سے پہلے کھایا ہے ۔ لہذا اس پر اعادہ لازم ہے "

اورسماعہ کی روایت کے مضمر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ سماعہ ایک ایسا صحابی ہے کہ جو امام علیہ السلام کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت نقل نہیں کرتاہے۔

۱۰۔ اگر کوئی شخص طلوع فجر میں شک کرے اور کھا پی لے اور بعد میں بھی پتہ نہ چلے تو اس کا روزہ صحیح ہے یہاں برات جاری ہو گی چونکہ یہاں قضا کے لئے ہی موضوع محرز نہیں ہوا ہے تو کفارہ کیسے واجب ہو سکتاہے؟( اس لیے کہ وہ شخص جانتا ہی نہیں ہے کہ اس کا روزہ قضاء ہوا ہے یا نہیں ہوا تو اس پر قضا اور کفارہ کیسے آسکتاہے)

۱۱۔ اگر کوئی شخص غروب افتاب میں شک کرے تو اس کے اوپر کھانا پینا حرام ہے کیونکہ استحباب موضوعی (روزہ باطل) دن کے باقی ہونے پر دلالت کرتا ہے

۱۲۔ اس پر قضا اور کفارہ واجب ہے کیونکہ اصل استصحاب کے ساتھ وجدان کے ملانے کے ساتھ ان دونوں کا موضوع ثابت ہوچکا ہے ۔ لہذا اصل برات جاری کرنے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

۱۳۔ روزہ توڑنے کی نیت کرے لیکن روزہ نہ توڑے تو اس پر قضا اس لئے واجب ہے کہ اس کی نیت میں تسلسل نہیں رہا (یعنی عبادت میں اول سے لیکر آخر تک وہی اس نیت پر باقی رہنا چاہیے اور درمیان میں یہ سلسلہ ٹوٹنا نہیں چاہیے ۔ یہاں پر طلوع فجر سے غروب تک روزے کا وقت ہے لہذا اس دوران اسی نیت پر باقی رہنا چاہیے تھا حالانکہ اس نے وہ نیت درمیان میں توڑی دی ہے اور تسلسل باقی نہیں رہا ہے۔)کیونکہ اس نے واجب کو قصد قربت کے ساتھ ادا ہی نہیں کیا ہے۔ اور چونکہ اس نے روزہ نہیں توڑا ہے جو کہ کفارہ کا موضوع ہے لہذ ا اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔

۱۴۔ اگر کوئی روزہ دار نیت کو آخر وقت تک برقرار نہ رکھ سکے تو اس کو روزے کی قضاء کرنی پڑے گی اس وجہ سے کیونکہ اس نے واجب کو انجام نہیں دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قصد قربت سے آپ نے آپ کو روکا ہے ۔

اعتکاف کے احکام

اعتکاف کی تعریف: عبادت کی قصد سے مسجد میں ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہیں اعتکاف مستحب مؤکدہ ہے اور اعتکاف صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ روزہ رکھے اور روزہ بھی تین دن سے کم نہ ہو اور اس کے لیے روزے کی حالت میں جامع مسجد میں ٹھرنا واجب ہے

اور معتکف کے لیے آپ نی عورتوں کے ساتھ جماع کرنا اور خوشبو (عطر) سونگھنا یا پھولوں کو لذت کے ساتھ سونگھنا اورخریدو فروخت کرنا اور ایک دوسرے پرغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے دینی یا دنیوی اُمور پر بحث و مباحثہ کرنا اورضرورت کے علاوہ مسجد سے نکلنا ،جائز نہیں ہے۔اگر مسجد سے نکلے تو اسے سایے میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

دلائل

لغت میں اعتکاف کی تعریف:

۱۔ لغت میں اعتکاف کی تعریف: اعتکاف لغت میں ایک جگہ پر ٹھرنے کو کہتے ہیں

اصطلاح میں اعتکاف کی تعریف:

عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہیں .اعتکاف کی اس تعریف پر تمام علماء کا اتفاق ہے اس پر داود بن سرحان کی امام صادق علیہ السلام سے روایت کردہ اس صحیح حدیث سے مدد لی جاسکتی ہے:

"وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سِرْحَانَ قَالَ: كُنْتُ‏ بِالْمَدِينَةِ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ فَقُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع- إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْتَكِفَ فَمَا ذَا أَقُولُ: وَ مَا ذَا أَفْرِضُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَ لَا تَخْرُجْ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَّا لِحَاجَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا وَ لَا تَقْعُدْ تَحْتَ ظِلَالٍ حَتَّى تَعُودَ إِلَى مَجْلِسِكَ "(۴۴)

ترجمہ : " {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }داؤد بن سرحان سے اور وہ حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ معتکف کو چاہیے کہ وہ کسی خاص ضروری کام کے علاوہ مسجد سے باہر نہ نکلے اورجب تک وپ وآپ س لوٹ نہیں آتا اُسے سایے میں نہیں بیٹھنا چاہیے ۔

لہذا مسجد میں ٹھرنا اعتکاف کہلاتاہے۔

اعتکاف صرف مسجد میں

ہاں ' اختلاف اس بات میں ہے کہ عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھرنا ہی کافی ہے یا دُعا اور اس جیسی دوسری عبادات کے لئے اسے الگ سے نیت کرنے پڑے گی؟ پہلے بات بعید نہیں کیونکہ مذکورہ بالا صحیح حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔بلکہ اس سے زیادہ پر دلیل کا نہ ہونا ہی ا س کے معتبر ہونے کے لئے کافی ہے۔

۲۔ اعتکاف کا مسجد میں ہونا ضروری ہے کیونکہ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور اس پر روایت بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا اعْتِكَافَ‏ إِلَّا بِصَوْمٍ‏ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ الْحَدِيث (۴۵)

ترجمہ : "}حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی اسناد کےساتھ {حلبی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: اعتکاف نہیں ہوتا مگر روزہ کے ساتھ اور وہ بھی جامع مسجد میں "

ابن بابویہ کا حلبی کی طرف نسبت دینا " مشیخہ " میں صحیح ہے۔

۳۔ اعتکاف کے مستحب مؤکدہ ہونے پر دو دلیل ہیں

ا ۔ انبیاء علیہم السلام کو بیت الحرام کو اعتکاف کرنے والوں کے لیے پاک کرنے کا حکم دینا ۔

جیساکہ خداوندہ متعال قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

( وَ عَهِدْنَا إِلىَ إِبْرَاهِمَ وَ إِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتىِ‏ لِلطَّائفِينَ وَ الْعَاكِفِينَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ ) (۴۶)

ترجمہ:"اور ابراہیم علیھ السّلام و اسماعیل علیھ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوںاو ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو"

ب۔ حدیث :

"وَ بِإِسْنَادِهِ عَنِ السَّكُونِيِّ بِإِسْنَادِهِ يَعْنِي عَنِ الصَّادِقِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ اعْتِكَافُ‏ عَشْرٍ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْن "(۴۷)

ترجمہ : " سکونی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور وہ آپ نے آباء طاہرین علیہم السلام کے سلسلہ سند سے حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےروایت کرتے ہیں فرمایا : ماہ رمضان میں ایک عشرہ اعتکاے بیٹھنا دو حجوں اور دو عمروں کے برابر ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات میں بھی اس کا ذکر ہے ۔

راوی سکونی کی سند اس روایت میں ثقہ ہے کیونکہ شیخ طوسی نے کتاب عدہ میں خبر واحد کی حجیت کی بحث پر اجماع کیا ہے اور اس کی روایت پر عمل کیا ہے ۔

اعتکاف کی پہلی شرط

۴۔ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لیے شرط روزہ ہے جیساکہ روایت صحیح حلبی وغیرہ سےیہ بات ثابت ہوتی ہے۔

اعتکاف کی دوسری شرط

۵۔ اور اعتکاف کےتین سے کم نہ ہونے پر دلیل عمر بن یزید کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےموثق روایت ہے:

"عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا يَكُونُ‏ اعْتِكَافٌ‏ أَقَلَ‏ مِنْ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ الْحَدِيثَ "(۴۸)

ترجمہ : " عمر بن یزید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ : اعتکاف تین دن سے کم نہیں ہوتا "

روایت میں محمد بن علی سے مراد ابن محبوب اشعری قمی ہے جس پر روایت میں حسن بن محبوب قرینہ ہے اور یہ روایت ثقہ ہے پس بے شک محمد بن علی بن محبوب سے کثیر تعداد میں روایات نقل ہوئی ہیں۔

اعتکاف کی تیسری شرط

۶۔ اعتکاف میں مسجد کا جامع ہونا ضروری ہے۔ یہ بات فقہاء میں معروف ہے۔اگرچہ بعض نے مساجد کوصرف چار مسجدوں {مسجد الحرام،مسجد النبی،مسجدکوفہ،مسجد بصرہ}میں منحصر قرار دیاہے۔جبکہ بعض دیگر نے کہ مسجد کے جامع ہونے کے لیے یہی کافی ہےاُس میں ایک بار صحیح نمازجماعت منعقدہوچکی ہو۔فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف کا منشا(سرچشمہ) اس بارے میں پائی جانے والی روایات ہیں۔جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

ا۔روایت صحیح حلبی مسجد جامع کا عنوان ذکر ہوا ہے

ب۔ اور عمر بن زید کی صحیح روایت میں مسجد کا وہ عنوان ذکر ہوا ہے کہ جس مسجد میں فقط ایک دفعہ نماز جماعت صحیح منعقد ہوئی ہو جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"وَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا تَقُولُ‏ فِي‏ الِاعْتِكَافِ‏ بِبَغْدَادَ- فِي بَعْضِ مَسَاجِدِهَا فَقَالَ لَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ إِمَامٌ عَدْلٌ صَلَاةَ جَمَاعَةٍ وَ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْتَكَفَ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَ الْبَصْرَةِ- وَ مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ وَ مَسْجِدِ مَكَّةَ "(۴۹)

ترجمہ : "مر بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بغداد کی بعض مساجد میں اعتکاف بیٹھنے کے بارے مین کیا فرماتے ہیں ؟فرمایا : اعتکاف نہیں ہوتا مگر اس جماعت والی مسجد میں جس امام عادل نے نماز باجماعت پڑھائی ہو اور مسجد کوفہ و بصرہ ، مسجد مدینہ اور مسجد مکہ میں اعتکاف بیٹھنے میں مضائقہ نہیں ہے "

ج۔ اور روایت عمر بن زید سے مسجد کا عنوان چہار مسجدوں کو دیا گیا ہے اور بعض نے گمان کیا ہے کہ روایت میں امام عادل سے مراد امام معصوم علیہ السلام ہیں اور اسی پر ان کا عقیدہ ہے کہ فقط چہار مسجدوں (مسجد الحرام "مسجد النبی "مسجد کوفہ "مسجد بصرہ ) میں اعتکاف صحیح ہے کیونکہ امام معصوم علیہ السلام نے وہاں نماز پڑھی ہے لیکن روایت میں امام عادل سے مراد تمام امام جماعت (عادل) ہیں پس ہر وہ مسجد جہاں پر نماز جماعت منعقد ہوئی ہو تو وہاں پر اعتکاف صحیح ہے

نتیجہ: حاصل بحث یہ ہے کہ ہمارے پاس دو قسم کی روایات ہیں

ا ۔ عنوان مسجد جامع کافی ہے اگرچہ اس مسجد میں نماز جماعت برپا نہیں ہوئی ہو

ب۔ اس مسجد میں نماز جماعت منعقد ہوئی ہو اگرچہ اس مسجد پر جامع مسجد کا عنوان صدق نہ کرے

ممکن ہے کہ جامع سے مراد جامع مسجد ہو کہ جہاں پر نماز جماعت صحیح درست طریقے سے منعقد ہوئی ہو یعنی نماز جماعت کی جامع مسجد تھی نہ یہ کہ شہر میں جامع مسجد سے معروف ہو اور وہاں پر نماز جماعت برپا نہ ہو ہاں مگر احتیاط یہ کہ مسجد جامع میں اعتکاف صحیح ہے اور اس مسجد میں نماز جماعت بھی منعقد ہوئی ہو اور اس سے بھی احتیاط یہ ہے کہ اعتکاف چہار مسجدوں منعقد ہو ۔

اعتکاف کی چوتھی شرط

۷ ۔ اعتکاف میں آپ نی بیویوں کے ساتھ نزدیک ہونا جائز نہیں ہے جیساکہ خداوندہ متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

( وَ لَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ أَنتُمْ عَكِفُونَ فىِ الْمَسَاجِدِ ) (۵۰)

ترجمہ:" اور خبردار مسجدوںمیں اعتکاف کے موقع پر عورتوں سے مباشرت نہ کرنا۔یہ سب مقررہ حدود الٰہی ہیں ۔ان کے قریب بھی نہ جانا"

اورروایت میں بھی امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : کہ

"مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُعْتَكِفِ‏ يَأْتِي‏ أَهْلَهُ‏ فَقَالَ لَا يَأْتِي امْرَأَتَهُ لَيْلًا وَ لَا نَهَاراً وَ هُوَ مُعْتَكِفٌ "(۵۱)

ترجمہ : { حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} حسن بن جہم سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ آیا اعتکاف والا آدمی آپ نی زوجہ سے مقاربت کر سکتا ہے ؟ فرمایا : جب تک حالت اعتکاف میں ہے آپ نی زوجہ کے پاس نہیں جا سکتا خواہ رات ہو اور خواہ دن ۔ "

اعتکاف کی پانچویں شرط

۸ ۔ مباشرت کرنا آپ نی بیوی کے ساتھ حرام ہے جو کہ اعتکاف کے ساتھ خاص ہے کیونکہ اعتکاف کرنے والا اس میں مقصر ہے (دلیل حرمت اس کے پاس نہیں ہے)اور اصل براءت مباشرت کے تمام انواع میں جاری ہو گی ۔

اعتکاف کی چھٹی شرط

۹ ۔ عطر اور پھل کا سونگھنا جائز نہیں ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: الْمُعْتَكِفُ‏ لَا يَشَمُ‏ الطِّيبَ‏ وَ لَا يَتَلَذَّذُ بِالرَّيْحَانِ وَ لَا يُمَارِي وَ لَا يَشْتَرِي وَ لَا يَبِيع (۵۲)

ترجمہ : "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }ابو عبید سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : جو آدمی اعتکاف میں بیٹھا ہوا ہو وہ خوشبو نہ سونگھے اور نہ ہی ریحان سے لطف اندوز ہو ۔ نہ کسی سے جھگڑا کرے اور نہ ہی خرید وفروخت کرے "

۱۰ ۔ عطر اور پھول کو لذت کے ساتھ سونگھنا بھی جائز نہیں ہے پس اس پر دلیل انصراف ہے اور عطر کو خود با خود سونگھنا لذت کا ملازمہ ہے اور پھول کے سونگھنے کے بارے میں روایت میں قیدلذت پر تاکید کی گئی ہے یعنی پھول اور عطر سے لذت لینا مساوی ہے اسی بناء پر دونوں سے روایت میں نہی کی گئی ہے

اعتکاف کی ساتویں شرط

۱۱ ۔ اعتکاف میں خرید وفروخت اور بحث و مباحثہ کرنا جائز نہیں ہے جیساکہ امام صادق علیہ السلام نے اوپر والی حدیث میں ارشاد فرمایا ہے ۔

۱۲۔ اس قصد سے بحث و مباحثہ کرنا کہ ایک دوسرے پر غالب ہونا ہو چاہے دین کے لیے ہو یا دنیا کے لیے ہو جائز نہیں ہے ہاں اگر باطل کو جھٹلانے اور حق کو ثابت کرنے کے لیے ہو تو جائز ہے اس پر دلیل انصراف ہے جوکہ روایت میں نہی کی گئی ہے

۱۳ ۔ اور اعتکاف کے دوران مسجد سے خارج ہونا جائز نہیں ہے مگر جو پہلے روایت میں ذکر ہو چکے ہیں جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }داؤد بن سرحان سے اور وہ حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ معتکف کو چاہیے کہ وہ کسی خاص ضروری کام کے علاوہ مسجد سے باہر نہ نکلے اور اگر نکلے تو پھربیٹھے نہ جب تک وآپ س نہ لوٹ آئے اورعورت کا حکم بھی یہی ہے ۔