دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)42%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ) مؤلف:
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12033 / ڈاؤنلوڈ: 3757
سائز سائز سائز

روزےکے عام احکام

روزہ توڑنے اورروزے کی قضا اُسی وقت واجب ہوتی ہے کہ جب مذکورہ مبطلات روزہ اشیا ءمیں سے -جنابت پر باقی رہنے کے علاوہ-کو آپ نے اختیار سے جان بوجھ کر استعمال کیا ہو۔چاہے وہ ماہ رمضان میں ہویارمضان کے علاوہ۔

جسے روزہ توڑنے کا علم نہ ہوتو وہ بھی ایسے ہی ہے جیسے اس مسئلے کا جاننے والا- تو یہ بھی جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے کے حکم میں ہے ۔

روزہ توڑنے کا کفارے کی تین قسموں میں اسے اختیار حاصل ہے {ان میں سے کوئی بھی آپ نی مرضی سے ادا کر سکتاہے}۔جو شخص روزے کا کفارہ نہیں ادا کر سکتا ہے اس کے لئے استغفار کرلینا ہی کافی ہے۔لیکن جیسے ہی یہ کفارہ دے سکنے کے قابل ہوا تو اس پر کفارہ کا ادا کرنا واجب ہے۔

طلوع فجر میں شک کرنے والا کھا پی سکتاہے۔اوراگر بعد میں اسے پتہ چلے کہ طلوع ہو چکا تھا اب اگر اس نے سب شرائط کی رعایت نہیں کی تھی تو اس پر صرف قضا ہی واجب ہے۔لیکن اگر وہ آپ نی شک کی حالت پر باقی رہا {یعنی اسے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ طلوع ہو چکا تھا یا نہیں } تواس پرکوئی چیز واجب نہیں ہے{ نہ ہی قضا اور نہ ہی کفارہ}

غروب کے بارے میں شک کرنے والا روزہ نہیں توڑ سکتاہے ۔ اوراگر اس نے روزہ توڑ دیا تو اس پر قضا بھی واجب ہے اور کفارہ بھی۔ مگر یہ کہ اُس معلوم ہو جاے کہ اس نے جس وقت روزہ توڑا تھا اس وقت غروب ہو چکا تھا اور افطاری کا وقت ہو چکا تھا۔

اگر کوئی شخص روزہ توڑنے کی نیت کرے لیکن روزہ نہ توڑے تو ایسے شخص پر صرف قضا واجب ہے۔

دلائل:

جان بوجھ کر روزہ توڑنے سے کفارے کے واجب ہونا مندرجہ ذیل دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے:

ا ۔ مقتضی میں کمی پائی جاتی ہے۔کیونکہ گذشتہ صفحات میں محمد بن مسلم سے منقول صحیح روایت ہے:

"مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ لَا يَضُرُّ الصَّائِمَ‏ مَا صَنَعَ إِذَا اجْتَنَبَ ثَلَاثَ خِصَالٍ الطَّعَامَ وَ الشَّرَابَ وَ النِّسَاءَ وَ الِارْتِمَاسَ فِي الْمَاء "(۳۶)

ترجمہ :حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ روزہ دار کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی جب تین چیزوں سے اجتناب کرے ۱ ۔ کھانے پینے سے ۲ ۔ عورتوں (مباشرت سے )سے ۳ ۔ اور پانی میں غوطہ زنی سے )میں " اجتناب" کا تذکرہ پایا جاتاہے۔ اس لفظ کا اطلاق جان بوجھ کر افطار کرنے کے ساتھ ساتھ سہوا روزہ افطار کرنے پر بھی ہوتاہے۔

اور اگر کرئی شک کرے کہ اس کا کھانا پینا سہوا روزہ کو باطل کرتی ہے کہ نہیں تو اس صورت میں براءت جاری ہو گی ۔

ب:لیکن اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیتے ہیں کہ مقتضی تام ہے اور متقضی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہائی جاتی ہے تو اس صورت میں ہمیں امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی صحیح روایت وغیرہ سے ہاتھ اُٹھانا پڑے گا ۔ کیونکہ روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ‏ نَسِيَ‏ فَأَكَلَ‏ وَ شَرِبَ ثُمَّ ذَكَرَ قَالَ لَا يُفْطِرْ إِنَّمَا هُوَ شَيْ‏ءٌ رَزَقَهُ اللَّهُ فَلْيُتِمَّ صَوْمَه "(۳۷)

ترجمہ : {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } حلبی سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا گیا کہ ایک شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا ، بعد ازان یاد آیا تو ؟ فرمایا : وہ روزہ نہ کھولے ۔ یہ تو ایک چیز ہے جو خدا نے اسے عطا کی ہے اسے چاہیے کہ روزہ مکمل کرے )

اس روایت جو علت (إِنَّمَا هُوَ شَيْ‏ءٌ رَزَقَهُ اللَّهُ ) بیان کی گئی ہے وہ عام ہے جو کھانے پینے کے علاوہ دوسرے مبطلات روزہ کو بھی شامل ہوتی ہے۔

بلکہ اس بات کا استفادہ ہم عبداللہ بن سنان کی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی اس حدیث سےکرتے ہیں:

"بِإِسْنَادِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كُلَ‏ مَا غَلَبَ‏ اللَّهُ‏ عَلَيْهِ‏ فَلَيْسَ عَلَى صَاحِبِهِ شَيْ‏ء "(۳۸)

ترجمہ : " عبداللہ بن سنان حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ہر وہ تکلیف جو خدا مسلط کرے اس سلسلہ میں آدمی پر کچھ نہیں ہے "

اس حدیث میں بیان شدہ اس قاعدہ (كُلَ‏ مَا غَلَبَ‏ اللَّهُ‏ عَلَيْهِ‏ فَلَيْسَ عَلَى صَاحِبِهِ شَيْ‏ء ) کر سکتے ہیں کہ عمدا کھانا پینا روزہ کو باطل کرتا ہے کیونکہ حالت نسیان میں خداوندہ متعال انسان پر غلبہ کرتا ہے اور اس کا عقل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے پس اس پر کوئی چیز واجب (قضاء و کفارہ)نہیں ہوتی ہے

اسی طرح حدیث رفع سے بھی تمسک کرسکتے ہیں بشرطیکہ حدیث (رفع النسیان)(۳۹) رفع فقط عقابت اخروی کے ساتھ خاص نہ ہو بلکہ مطلق ہواور آثار وضعی (روزہ کے باطل کرنے والی چیزے )اور تکلیفی (حرام) اور عقابت اخروی پر دلالت کرتی ہے۔

۲۔ مذکورہ حکم سے طلوع آفتاب تک حالت جنابت میں باقی رہنے کےمستثنی ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اگر وہ شخص قبل از طلوع فجر بیدار ہو اور غسل نہ کرے اور دوبارہ سو جائے (چاہے غسل کا قصد ہو یا نہ ہو)یا بعد از طلوع فجر بیدار ہو تو دونوں صورتوں میں اس پر قضاء واجب ہو جائے گی اس پر دلیل یہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى وَ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ جَمِيعاً عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع الرَّجُلُ‏ يُجْنِبُ‏ فِي‏ أَوَّلِ‏ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ حَتَّى يُصْبِحَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ قُلْتُ فَإِنَّهُ اسْتَيْقَظَ ثُمَّ نَامَ حَتَّى أَصْبَحَ قَالَ فَلْيَقْضِ ذَلِكَ الْيَوْمَ عُقُوبَةً "(۴۰)

ترجمہ : "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } معاویہ بن عمار سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت عرض کیا کہ ایک شخص اول شب میں جنب ہوتا ہے اور ماہ رمضان میں صبح تک سوتا رہتا ہے ؟ فرمایا : اس پر کچھ نہیں ہے پھر عرض کیا : اگر ایک بار جاگے اور پھر سو جائے اور صبح تک سوتا رہے تو ؟ فرمایا : بطور سزا اس دن کی قضا کرے "

۳۔ ماہ رمضان کے روزے ہوں یا ماہ رمضان(قضاء"نذر)کے علاوہ ہوں اس پر دلیل حلبی کی صحیح روایات وغیرہ کا اطلاق ہے ۔ اوران میں سے بعض روایات کا ماہ مبارک رمضان کے ساتھ خاص ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔ جاہل کے عالم کے حکم میں ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جاہل جان بوجھ کر آپ نے ارادے سے ایسا کرتاہے ۔ منتہی وہ یہ نہیں جانتاہے کہ اس سے روزہ باطل ہوتا ہے یا نہیں ،لہذا مبطلات والی دلیلوں کا اطلاق اس کو بھی شامل ہے۔

۵۔ کفارہ کے تین قسموں (ازاد کرنا ایک غلام کا " ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا " دو ماہ متواتر روزے رکھنا ) میں مختار ہونا تویہ قول مشہور ہے اورروایات چند قسم کی ہیں:

ا۔ روایت میں سے پہلی قسم اختیار پر دلالت کرتی ہے جیساکہ روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"رَوَى الْحَسَنُ بْنُ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي رَجُلٍ‏ أَفْطَرَ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ مُتَعَمِّداً يَوْماً وَاحِداً مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ قَالَ يُعْتِقُ رَقَبَةً أَوْ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ يُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيناً فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ تَصَدَّقَ بِمَا يُطِيقُ (۴۱)

ترجمہ : " {حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} عبداللہ بن سنان سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےاس شخص کے بارے میں جو جان بوجھ کر بلا عذر ماہ رمضان کا ایک روزہ نہ رکھے (یا رکھ کر توڑ دے ) ۔ فرمایا : ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو حسب طاقت صدقہ دے)"

اس روایت میں لفظ (او) کا استعمال ہوا ہے جوکہ اختیار پر دلالت کرتی ہے

ب ۔ روایت میں دوسری قسم ترتیب پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ فِي كِتَابِهِ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنْ‏ رَجُلٍ‏ نَكَحَ‏ امْرَأَتَهُ‏ وَ هُوَ صَائِمٌ فِي رَمَضَانَ مَا عَلَيْهِ قَالَ عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَ عِتْقُ رَقَبَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَسْتَغْفِرِاللَّه "(۴۲)

ترجمہ : "جناب علی بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ نے بھائی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی اہلیہ سے مباشرت کی ہے تو اس پر کیا ہے ؟ فرمایا : اس پر ایک قضا ہے اور (کفارہ میں) ایک غلام آزاد کرنا اگر یہ نہ کر سکے تو پے در پے دو ماہ روزے رکھے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو خدا سے طلب مغفرت کرے "

یہ روایت صحیح ہے۔کیونکہ {شیخ حرعاملی }صاحب وسائل الشیعہ کا دیگر کتابوں سے روایات نقل کرنے کا ایک معتبر طریقہ ہے اور وہ یہ ہے ان سب کی انتہاء شیخ طوسی پر ہوتی ہے۔اوراس طریق کی وضاحت انہوں نے "وسائل الشیعہ" کے آخر میں دی ہے۔انہی{جن سے صاحب وسائل نقل کرتےہیں}کتابوں میں سے ایک "علی بن جعفر" کی کتاب بھی ہے۔کیونکہ شیخ کا " الفھرست " علی بن جعفر کی کتاب تک ایک صحیح طریق ہے ۔

اوران دونوں قسم کی حدیثوں کی سند کو اگر مکمل اور صحیح مان لیا جائے تب بھی ان کے درمیان جمع ممکن ہے وہ اس طرح کے دوسری قسم والی احادیث کو اسحباب پر حمل کریں گے کیونکہ پہلی میں قرینہ موجود ہے۔

۶۔ اور اگر ایک بندہ کفارہ(ازاد کرنا ایک غلام کا " ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا " دو ماہ متواتر روزے رکھنا )دینے سے قاصر ہے تو اس کے لیے کفارہ کے بدلے میں استغفار کافی ہے اور اس کے لیے دلیل مذکورہ علی بن جعفر والی حدیث ہے۔

۷- جب کفارہ ادا کر نے کی قدرت آجائے تو اسے کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا کوئی خاص وقت معین نہیں ہے۔اگراس کا کوئی خاص وقت معین ہوتا تو اب جب کہ وجوب کفارہ استغفار کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ اب اس کے لئے ایک خاص دلیل کی ضرورت ہے حالانکہ ہمارے پاس دلیل نہیں ہے۔ اور کفارہ کی تقسیمات والی دلیلوں میں ہے کہ جب بھی کفارہ ادا کر سکے تو اسے ادا کرے۔

۸۔ طلوع فجر میں شک کرنے والے کے لیے کھانے پینے کے جائز ہونے کی دلیل استصحاب موضوعی ہے(استحباب بقاء اللیل یعنی یہ استصحاب کرے گا کہ ابھی تک رات ہے ۔اور رات میں کھانا پینا جائز ہے۔ لہذا اب بھی اس کے لئے کھانا جائز ہے)

۹۔ اور بعد میں طلوع کا پتہ چلنے کی صورت میں قضا کے واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس نے ابھی واجب ادا نہیں کیا ہے اور وہ واجب دونوں حدوں کے درمیان آپ نے آپ کو مبطلات روزہ سے بچائےرکھنا تھا۔ اس صورت میں استصحاب ، حکم تکلیفی کو اٹھا لیتا ہے ۔یعنی اس شخص نے کوئی حرام کام نہیں کیا ہے۔لیکن استصحاب یہاں حکم وضعی کو نہیں اٹھا سکتاہے اور وہ ابھی تک باقی ہے یعنی اس کا روزہ باطل ہے۔یہ سب قاعدے(اولی)کےمطابق ہے لیکن اگر روایت کے مقتضی (قاعدہ ثانوی)کےمطابق یہاں تفصیل کا قائل ہوناچاہیے۔ یعنی اس نے شرائط کی رعایت کی ہے یا نہیں ۔چونکہ سماعہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےمروی صحیح روایت میں آیاہے :کہ

"أَكَلَ‏ أَوْ شَرِبَ‏ بَعْدَ مَا طَلَعَ الْفَجْرُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ إِنْ كَانَ قَامَ فَنَظَرَ فَلَمْ يَرَ الْفَجْرَ فَأَكَلَ ثُمَّ عَادَ فَرَأَى الْفَجْرَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ وَ لَا إِعَادَةَ عَلَيْهِ وَ إِنْ كَانَ قَامَ فَأَكَلَ وَ شَرِبَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَى الْفَجْرِ فَرَأَى أَنَّهُ قَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ وَ يَقْضِي يَوْماً آخَرَ لِأَنَّهُ بَدَأَ بِالْأَكْلِ قَبْلَ النَّظَرِ فَعَلَيْهِ الْإِعَادَةُ "(۴۳)

ترجمہ : "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} سماعہ بن مہران سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ کہ میں نے ان ( حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں طلوع فجر کے بعد کھایا اور پیا تو ؟ فرمایا : اگر تو اس نے اٹھ کر دیکھا اور فجر نظر نہ آئی اور کھانے پینے کے بعد پتہ چلا کہ فجر طلوع ہو چکی تھی تو وہ اس روزہ کو مکمل کرے اس پر قضا نہیں ہے ۔ اور اگر اٹھ کر دیکھے بغیر کھائے پیے اوربعد ازاں دیکھا کہ فجر طلوع ہو چکی ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس روزہ کو مکمل کرے اور پھر اس کی قضا بھی کرے کیونکہ اس نے تحقیق حال سے پہلے کھایا ہے ۔ لہذا اس پر اعادہ لازم ہے "

اورسماعہ کی روایت کے مضمر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ سماعہ ایک ایسا صحابی ہے کہ جو امام علیہ السلام کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت نقل نہیں کرتاہے۔

۱۰۔ اگر کوئی شخص طلوع فجر میں شک کرے اور کھا پی لے اور بعد میں بھی پتہ نہ چلے تو اس کا روزہ صحیح ہے یہاں برات جاری ہو گی چونکہ یہاں قضا کے لئے ہی موضوع محرز نہیں ہوا ہے تو کفارہ کیسے واجب ہو سکتاہے؟( اس لیے کہ وہ شخص جانتا ہی نہیں ہے کہ اس کا روزہ قضاء ہوا ہے یا نہیں ہوا تو اس پر قضا اور کفارہ کیسے آسکتاہے)

۱۱۔ اگر کوئی شخص غروب افتاب میں شک کرے تو اس کے اوپر کھانا پینا حرام ہے کیونکہ استحباب موضوعی (روزہ باطل) دن کے باقی ہونے پر دلالت کرتا ہے

۱۲۔ اس پر قضا اور کفارہ واجب ہے کیونکہ اصل استصحاب کے ساتھ وجدان کے ملانے کے ساتھ ان دونوں کا موضوع ثابت ہوچکا ہے ۔ لہذا اصل برات جاری کرنے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

۱۳۔ روزہ توڑنے کی نیت کرے لیکن روزہ نہ توڑے تو اس پر قضا اس لئے واجب ہے کہ اس کی نیت میں تسلسل نہیں رہا (یعنی عبادت میں اول سے لیکر آخر تک وہی اس نیت پر باقی رہنا چاہیے اور درمیان میں یہ سلسلہ ٹوٹنا نہیں چاہیے ۔ یہاں پر طلوع فجر سے غروب تک روزے کا وقت ہے لہذا اس دوران اسی نیت پر باقی رہنا چاہیے تھا حالانکہ اس نے وہ نیت درمیان میں توڑی دی ہے اور تسلسل باقی نہیں رہا ہے۔)کیونکہ اس نے واجب کو قصد قربت کے ساتھ ادا ہی نہیں کیا ہے۔ اور چونکہ اس نے روزہ نہیں توڑا ہے جو کہ کفارہ کا موضوع ہے لہذ ا اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔

۱۴۔ اگر کوئی روزہ دار نیت کو آخر وقت تک برقرار نہ رکھ سکے تو اس کو روزے کی قضاء کرنی پڑے گی اس وجہ سے کیونکہ اس نے واجب کو انجام نہیں دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قصد قربت سے آپ نے آپ کو روکا ہے ۔

اعتکاف کے احکام

اعتکاف کی تعریف: عبادت کی قصد سے مسجد میں ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہیں اعتکاف مستحب مؤکدہ ہے اور اعتکاف صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ روزہ رکھے اور روزہ بھی تین دن سے کم نہ ہو اور اس کے لیے روزے کی حالت میں جامع مسجد میں ٹھرنا واجب ہے

اور معتکف کے لیے آپ نی عورتوں کے ساتھ جماع کرنا اور خوشبو (عطر) سونگھنا یا پھولوں کو لذت کے ساتھ سونگھنا اورخریدو فروخت کرنا اور ایک دوسرے پرغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے دینی یا دنیوی اُمور پر بحث و مباحثہ کرنا اورضرورت کے علاوہ مسجد سے نکلنا ،جائز نہیں ہے۔اگر مسجد سے نکلے تو اسے سایے میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

دلائل

لغت میں اعتکاف کی تعریف:

۱۔ لغت میں اعتکاف کی تعریف: اعتکاف لغت میں ایک جگہ پر ٹھرنے کو کہتے ہیں

اصطلاح میں اعتکاف کی تعریف:

عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہیں .اعتکاف کی اس تعریف پر تمام علماء کا اتفاق ہے اس پر داود بن سرحان کی امام صادق علیہ السلام سے روایت کردہ اس صحیح حدیث سے مدد لی جاسکتی ہے:

"وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سِرْحَانَ قَالَ: كُنْتُ‏ بِالْمَدِينَةِ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ فَقُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع- إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْتَكِفَ فَمَا ذَا أَقُولُ: وَ مَا ذَا أَفْرِضُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَ لَا تَخْرُجْ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلَّا لِحَاجَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا وَ لَا تَقْعُدْ تَحْتَ ظِلَالٍ حَتَّى تَعُودَ إِلَى مَجْلِسِكَ "(۴۴)

ترجمہ : " {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }داؤد بن سرحان سے اور وہ حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ معتکف کو چاہیے کہ وہ کسی خاص ضروری کام کے علاوہ مسجد سے باہر نہ نکلے اورجب تک وپ وآپ س لوٹ نہیں آتا اُسے سایے میں نہیں بیٹھنا چاہیے ۔

لہذا مسجد میں ٹھرنا اعتکاف کہلاتاہے۔

اعتکاف صرف مسجد میں

ہاں ' اختلاف اس بات میں ہے کہ عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھرنا ہی کافی ہے یا دُعا اور اس جیسی دوسری عبادات کے لئے اسے الگ سے نیت کرنے پڑے گی؟ پہلے بات بعید نہیں کیونکہ مذکورہ بالا صحیح حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔بلکہ اس سے زیادہ پر دلیل کا نہ ہونا ہی ا س کے معتبر ہونے کے لئے کافی ہے۔

۲۔ اعتکاف کا مسجد میں ہونا ضروری ہے کیونکہ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور اس پر روایت بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا اعْتِكَافَ‏ إِلَّا بِصَوْمٍ‏ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ الْحَدِيث (۴۵)

ترجمہ : "}حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی اسناد کےساتھ {حلبی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: اعتکاف نہیں ہوتا مگر روزہ کے ساتھ اور وہ بھی جامع مسجد میں "

ابن بابویہ کا حلبی کی طرف نسبت دینا " مشیخہ " میں صحیح ہے۔

۳۔ اعتکاف کے مستحب مؤکدہ ہونے پر دو دلیل ہیں

ا ۔ انبیاء علیہم السلام کو بیت الحرام کو اعتکاف کرنے والوں کے لیے پاک کرنے کا حکم دینا ۔

جیساکہ خداوندہ متعال قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

( وَ عَهِدْنَا إِلىَ إِبْرَاهِمَ وَ إِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتىِ‏ لِلطَّائفِينَ وَ الْعَاكِفِينَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ ) (۴۶)

ترجمہ:"اور ابراہیم علیھ السّلام و اسماعیل علیھ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوںاو ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو"

ب۔ حدیث :

"وَ بِإِسْنَادِهِ عَنِ السَّكُونِيِّ بِإِسْنَادِهِ يَعْنِي عَنِ الصَّادِقِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ اعْتِكَافُ‏ عَشْرٍ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْن "(۴۷)

ترجمہ : " سکونی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور وہ آپ نے آباء طاہرین علیہم السلام کے سلسلہ سند سے حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےروایت کرتے ہیں فرمایا : ماہ رمضان میں ایک عشرہ اعتکاے بیٹھنا دو حجوں اور دو عمروں کے برابر ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات میں بھی اس کا ذکر ہے ۔

راوی سکونی کی سند اس روایت میں ثقہ ہے کیونکہ شیخ طوسی نے کتاب عدہ میں خبر واحد کی حجیت کی بحث پر اجماع کیا ہے اور اس کی روایت پر عمل کیا ہے ۔

اعتکاف کی پہلی شرط

۴۔ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لیے شرط روزہ ہے جیساکہ روایت صحیح حلبی وغیرہ سےیہ بات ثابت ہوتی ہے۔

اعتکاف کی دوسری شرط

۵۔ اور اعتکاف کےتین سے کم نہ ہونے پر دلیل عمر بن یزید کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےموثق روایت ہے:

"عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا يَكُونُ‏ اعْتِكَافٌ‏ أَقَلَ‏ مِنْ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ الْحَدِيثَ "(۴۸)

ترجمہ : " عمر بن یزید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ : اعتکاف تین دن سے کم نہیں ہوتا "

روایت میں محمد بن علی سے مراد ابن محبوب اشعری قمی ہے جس پر روایت میں حسن بن محبوب قرینہ ہے اور یہ روایت ثقہ ہے پس بے شک محمد بن علی بن محبوب سے کثیر تعداد میں روایات نقل ہوئی ہیں۔

اعتکاف کی تیسری شرط

۶۔ اعتکاف میں مسجد کا جامع ہونا ضروری ہے۔ یہ بات فقہاء میں معروف ہے۔اگرچہ بعض نے مساجد کوصرف چار مسجدوں {مسجد الحرام،مسجد النبی،مسجدکوفہ،مسجد بصرہ}میں منحصر قرار دیاہے۔جبکہ بعض دیگر نے کہ مسجد کے جامع ہونے کے لیے یہی کافی ہےاُس میں ایک بار صحیح نمازجماعت منعقدہوچکی ہو۔فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف کا منشا(سرچشمہ) اس بارے میں پائی جانے والی روایات ہیں۔جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

ا۔روایت صحیح حلبی مسجد جامع کا عنوان ذکر ہوا ہے

ب۔ اور عمر بن زید کی صحیح روایت میں مسجد کا وہ عنوان ذکر ہوا ہے کہ جس مسجد میں فقط ایک دفعہ نماز جماعت صحیح منعقد ہوئی ہو جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"وَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا تَقُولُ‏ فِي‏ الِاعْتِكَافِ‏ بِبَغْدَادَ- فِي بَعْضِ مَسَاجِدِهَا فَقَالَ لَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ إِمَامٌ عَدْلٌ صَلَاةَ جَمَاعَةٍ وَ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْتَكَفَ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَ الْبَصْرَةِ- وَ مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ وَ مَسْجِدِ مَكَّةَ "(۴۹)

ترجمہ : "مر بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بغداد کی بعض مساجد میں اعتکاف بیٹھنے کے بارے مین کیا فرماتے ہیں ؟فرمایا : اعتکاف نہیں ہوتا مگر اس جماعت والی مسجد میں جس امام عادل نے نماز باجماعت پڑھائی ہو اور مسجد کوفہ و بصرہ ، مسجد مدینہ اور مسجد مکہ میں اعتکاف بیٹھنے میں مضائقہ نہیں ہے "

ج۔ اور روایت عمر بن زید سے مسجد کا عنوان چہار مسجدوں کو دیا گیا ہے اور بعض نے گمان کیا ہے کہ روایت میں امام عادل سے مراد امام معصوم علیہ السلام ہیں اور اسی پر ان کا عقیدہ ہے کہ فقط چہار مسجدوں (مسجد الحرام "مسجد النبی "مسجد کوفہ "مسجد بصرہ ) میں اعتکاف صحیح ہے کیونکہ امام معصوم علیہ السلام نے وہاں نماز پڑھی ہے لیکن روایت میں امام عادل سے مراد تمام امام جماعت (عادل) ہیں پس ہر وہ مسجد جہاں پر نماز جماعت منعقد ہوئی ہو تو وہاں پر اعتکاف صحیح ہے

نتیجہ: حاصل بحث یہ ہے کہ ہمارے پاس دو قسم کی روایات ہیں

ا ۔ عنوان مسجد جامع کافی ہے اگرچہ اس مسجد میں نماز جماعت برپا نہیں ہوئی ہو

ب۔ اس مسجد میں نماز جماعت منعقد ہوئی ہو اگرچہ اس مسجد پر جامع مسجد کا عنوان صدق نہ کرے

ممکن ہے کہ جامع سے مراد جامع مسجد ہو کہ جہاں پر نماز جماعت صحیح درست طریقے سے منعقد ہوئی ہو یعنی نماز جماعت کی جامع مسجد تھی نہ یہ کہ شہر میں جامع مسجد سے معروف ہو اور وہاں پر نماز جماعت برپا نہ ہو ہاں مگر احتیاط یہ کہ مسجد جامع میں اعتکاف صحیح ہے اور اس مسجد میں نماز جماعت بھی منعقد ہوئی ہو اور اس سے بھی احتیاط یہ ہے کہ اعتکاف چہار مسجدوں منعقد ہو ۔

اعتکاف کی چوتھی شرط

۷ ۔ اعتکاف میں آپ نی بیویوں کے ساتھ نزدیک ہونا جائز نہیں ہے جیساکہ خداوندہ متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

( وَ لَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ أَنتُمْ عَكِفُونَ فىِ الْمَسَاجِدِ ) (۵۰)

ترجمہ:" اور خبردار مسجدوںمیں اعتکاف کے موقع پر عورتوں سے مباشرت نہ کرنا۔یہ سب مقررہ حدود الٰہی ہیں ۔ان کے قریب بھی نہ جانا"

اورروایت میں بھی امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : کہ

"مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُعْتَكِفِ‏ يَأْتِي‏ أَهْلَهُ‏ فَقَالَ لَا يَأْتِي امْرَأَتَهُ لَيْلًا وَ لَا نَهَاراً وَ هُوَ مُعْتَكِفٌ "(۵۱)

ترجمہ : { حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} حسن بن جہم سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ آیا اعتکاف والا آدمی آپ نی زوجہ سے مقاربت کر سکتا ہے ؟ فرمایا : جب تک حالت اعتکاف میں ہے آپ نی زوجہ کے پاس نہیں جا سکتا خواہ رات ہو اور خواہ دن ۔ "

اعتکاف کی پانچویں شرط

۸ ۔ مباشرت کرنا آپ نی بیوی کے ساتھ حرام ہے جو کہ اعتکاف کے ساتھ خاص ہے کیونکہ اعتکاف کرنے والا اس میں مقصر ہے (دلیل حرمت اس کے پاس نہیں ہے)اور اصل براءت مباشرت کے تمام انواع میں جاری ہو گی ۔

اعتکاف کی چھٹی شرط

۹ ۔ عطر اور پھل کا سونگھنا جائز نہیں ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: الْمُعْتَكِفُ‏ لَا يَشَمُ‏ الطِّيبَ‏ وَ لَا يَتَلَذَّذُ بِالرَّيْحَانِ وَ لَا يُمَارِي وَ لَا يَشْتَرِي وَ لَا يَبِيع (۵۲)

ترجمہ : "{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }ابو عبید سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : جو آدمی اعتکاف میں بیٹھا ہوا ہو وہ خوشبو نہ سونگھے اور نہ ہی ریحان سے لطف اندوز ہو ۔ نہ کسی سے جھگڑا کرے اور نہ ہی خرید وفروخت کرے "

۱۰ ۔ عطر اور پھول کو لذت کے ساتھ سونگھنا بھی جائز نہیں ہے پس اس پر دلیل انصراف ہے اور عطر کو خود با خود سونگھنا لذت کا ملازمہ ہے اور پھول کے سونگھنے کے بارے میں روایت میں قیدلذت پر تاکید کی گئی ہے یعنی پھول اور عطر سے لذت لینا مساوی ہے اسی بناء پر دونوں سے روایت میں نہی کی گئی ہے

اعتکاف کی ساتویں شرط

۱۱ ۔ اعتکاف میں خرید وفروخت اور بحث و مباحثہ کرنا جائز نہیں ہے جیساکہ امام صادق علیہ السلام نے اوپر والی حدیث میں ارشاد فرمایا ہے ۔

۱۲۔ اس قصد سے بحث و مباحثہ کرنا کہ ایک دوسرے پر غالب ہونا ہو چاہے دین کے لیے ہو یا دنیا کے لیے ہو جائز نہیں ہے ہاں اگر باطل کو جھٹلانے اور حق کو ثابت کرنے کے لیے ہو تو جائز ہے اس پر دلیل انصراف ہے جوکہ روایت میں نہی کی گئی ہے

۱۳ ۔ اور اعتکاف کے دوران مسجد سے خارج ہونا جائز نہیں ہے مگر جو پہلے روایت میں ذکر ہو چکے ہیں جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ {حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }داؤد بن سرحان سے اور وہ حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نےایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ معتکف کو چاہیے کہ وہ کسی خاص ضروری کام کے علاوہ مسجد سے باہر نہ نکلے اور اگر نکلے تو پھربیٹھے نہ جب تک وآپ س نہ لوٹ آئے اورعورت کا حکم بھی یہی ہے ۔

کتاب صوم

روزہ کو باطل کرنے والی چیزیں

روزہ یعنی قربتا الی اللہ کی نیت سے مندرجہ ذیل چیزوں سے بچنا :

۱ ۔کھانا اور پینا :چاہے وہ چیز عام طور پرکھائی پی جاتی ہوں یا نہ ہوںاور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عادی طریقے سے کھائی یا پی جائے یا غیر عادی طریقے سے ،مقدار کم ہو یا زیادہ اس سے بھی فرق نہیں پڑتا ہے سر اور سینہ کا بلغم اگر منہ میں آ جائے تو نگلناجائز نہیں ہے. انجکشن لگانا یا کان وغیرہ اور اس جیسےاعضاءمیں قطرے ڈالنا اور اسی طرح تھوک (لعاب دہن) کے نگلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

۲ ۔جماع کرنا چاہےآگے میں ہو یا پیچھےمیں، چاہے فاعل ہو یا مفعول اور اگر کوئی شخص جماع کا اردہ کرئےلیکن دخول میں شک کرے یاسپاری کی مقدارمیں دخول کا شک ہو تو صرف قضاء واجب ہے کفارہ نہیں.

۳ ۔منی کے نکلنےکے لیے اگر ایسے مقدمات فراہم کرنے کے بعد منی نکالنا جن سے عام طور پر منی نکل جاتی ہے لیکن اگر بغیر ارادہ کے منی نکل جائے تو نہ اس پر کفارہ ہےاور نہ قضاء ۔

۴ ۔طلوع فجر تک جان بوجھ کرجنابت پر باقی رہنا ۔

۵ ۔اکثر فقہاء کے نزدیک خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنایا اسی طرح کسی ایک معصوم(ع) پر جھوٹ باندھنا ۔

۶ ۔ گاڑھا غبار کا حلق تک پہنچانا ایک نظریے کے مطابق ۔

۷ ۔سر کا پانی میں ڈبونا۔

۸ ۔ سیال چیز سےحقنہ کرنا ۔

۹ ۔جان بوجھ کرقے کرنا ۔

مذکورہ احکام کے دلائل :

۱ ۔روزہ کی نیت میں قصد قربت شرعی لحاظ سے معتبر( ضروری) ہے ۔ لغت کے بر خلاف چونکہ لغوی لحاظ سے قصد قربت معتبر نہیں ہے ۔اور یہ(قصد قربت کا اعتبار) اہل شریعت کے نزدیک ثابت ہونے کی بنا پر ہے کہ جس میں شریعت اسلام کے علاوہ کااحتمال نہیں ہے

اور فضیل بن یسار کی امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا :

"الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الْحَجِّ وَ الصَّوْمِ وَ الْوَلَايَة (۱)

ترجمہ :''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : نماز ، زکات ،حج ، روزہ اور اہلبیت کی ولایت۔"

اوراسلام کی بنیاد کسی ایسی چیزپر نہیں رکھی جا سکتی جس میں قصد قربت نہ ہو ۔

۲ ̵ قصد قربت کا نہ ہونا بالخصوص روزے کو باطل کر دینے کی دلیل اہل شریعت کا اس کے پابندہونا ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی ایسی دلیلیں ہیں جوعدم قصد قربت کے روزہ باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ مذکورہ بالا موارد کے علاوہ میں ب روزہاطل نہیں ہوتا ہے

۳. کھانے پینے والی چیزو ں پر جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہےاس پر ادلہ :

۱.خداوند متعال فرماتے ہیں :

( وَ كلُواْ وَ اشْرَبُواْ حَتىَ‏ يَتَبَينَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الخْيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلىَ الَّيْلِ)

ترجمہ:"اور اس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے"

اور جس پر محمد بن مسلم کی حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ :سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ لَا يَضُرُّ الصَّائِمَ‏ مَا صَنَعَ‏ إِذَا اجْتَنَبَ ثَلَاثَ خِصَالٍ الطَّعَامَ وَ الشَّرَابَ وَ النِّسَاءَ وَ الِارْتِمَاسَ فِي الْمَاءِ "(۲)

ترجمہ: "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسل.م سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ روزہ دار جب تک ان تین چیزوں سے پرہیز کرئےتو اس کے روزئے کو کوئی چیزنقصان نہیں پہنچاسکتی ہے ۱ ۔ کھانے پینے سے ۔ عورتوں (مباشرت سے)سے۔اور پانی میں پورے سرکےڈبونے سے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس طلب کی تائید کرتی ہیں ۔

۴.کھانے، پینے والی چیزیں چاہے لوگوں میں رائج ہو ں یا نہ ہو ںاسی طرح چاہے عام طورپرکھائی جانے والی ہوں یا نہ ہوں اور عادی طریقے سے کھائی یا پی جائےیا غیر عادی ۔جس پر دلیل حذف متعلق کی وجہ ہے جوکہ عموم دلالت کرتی ہے یا دلیل اطلاق کی وجہ سے ہے۔

لیکن عام ہونا دو طرف سے عادی طریقے سے کھائی یا پی جائے یا غیر عادی سے اور چاہے کم ہو یا زیادہ یہ اطلاق کی دلیل سے ثابت ہوتی ہے ۔

۵۔اگر سر وسینہ کا بلغم منہ میں آجائےاور روزہ دار اس کو نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا کیونکہ اس پر کھانا پینا صدق کرتا ہےلیکن اگر منہ کی فضا تک نہیں پہنچا اور خود بخود اندر چلا جائے تو روزہ باطل نہیں ہو گا اور اگر شک کر ئے کہ روزہ صحیح ہےیا نہیں تو قاعدہ برائت جاری ہوگا ۔

۶۔انجکشن اورقطرے اور انکھ و کان میں دوائی ڈالنا جائز ہے کیونکہ ان پر کھانا پینا صدق نہیں کر تا اور اگر اس کی حرمت میں شک کریں تو قاعدہ برائت جاری ہو گا ۔

۷۔لعاب دھن کے نگلنے کے جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جو" نہی "آئی ہے اس کا انصراف کھانے اور پینے پر ہے جوکہ لعاب دھن کے نگلنے پر صدق نہیں کرتی ہے اور اس بات کی تاکید متشرعین کی سیرت سے بھی ہوتی ہے بلکہ ایک اور دلیل جو یہاں ذکر کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ اگر لعاب دھن کا نگلنا جائز نہ ہوتا تو روزہ دار کے لیے شدید مشقت کا باعث ہو تا جس سے اللہ تعالی نےاس ایت کی رو سے شریعت میں منع کیا گیا ہے

( مَا جَعَلَ عَلَيْكمُ‏ فىِ الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) (۳)

ترجمہ:" کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے"

۸۔روز ےکی حالت میں ہمبستری کرنا روزے کو باطل کر دیتی ہے کہ رات کو ہمبستری کرنا جائز ہے اور دن کوحرام ہے جس پر دلیل قران کی یہ آیت ہےکہ خداوندعالم ارشاد فرماتے ہیں :

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلىَ‏ نِسَائكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ أَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تخَتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَ عَفَا عَنكُمْ فَالَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَ ابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَ كلُواْ وَ اشْرَبُواْ حَتىَ‏ يَتَبَينَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الخْيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) (۴)

ترجمہ: " تمہارے لئے ماہ رمضان کی رات میں عورتوں کے پاس جانا حلال کر دےا گےا ہے۔ہو تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم انکے لئے ۔خدا کو معلام ہے کہ تم اپنے ہی نفس سے خیانت کرتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرکے تمہیں معاف کر دیا۔ اب تم با اطمینان مباشرت کرو اور جو خدا نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی آرزو کرو اوراس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے" اس سے مراد ہمبستری سے اجتناب کرنا ہے ۔

اور اسی طرح محمد بن مسلم کی صحیح روایت ہے جو کہ پہلے ذکر ہو چکی ہے اور دوسری روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے ۔

۹۔ہمبستری کرنا چاہےآگےسےہو یا پیچھےسے ،چاہے فاعل ہو یا مفعول روزہ کو باطل کر دیتی ہے کیونکہ یہ عام ہے جس پر دلیل آیت کا اطلاق ہے جو کہ پہلے گذر چکی ہے ۔

۱۰۔اگر کوئی شخص شک کرئے کہ مباشرت ہوئی ہے یا نہیں ، یا یہ جانتا ہے کہ مباشرت ہوئی ہے لیکن سپاری کے مقدار کے داخل ہونے میں شک کرئے کہ داخل ہوئی ہےیا نہیں تو اس صورت میں قضاء واجب ہے کیونکہ اس شخص نے قصد کیا تھا کہ روزہ توڑنے والی چیزوں میں سے کسی کو انجام دے گا اور یہ قصد روزے کے قضاء ہونے کا موجب بنتا ہے جس کا ذکر آیندہ عموی احکام میں آئے گا اور یہ کہ اس صورت میں کفارہ دینا واجب نہیں ہے کیونکہ اس پر دلیل استصحاب دلالت کرتی ہے کہ کفارہ واجب نہیں ہوا ہے کیونکہ اسباب کفارہ صادر نہیں ہوئے ہیں ۔

۱۱۔ منی کے نکلنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہےجس پر دلیل عبد الرحمن بن حجاج کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ الرَّجُلِ‏ يَعْبَثُ‏ بِأَهْلِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّى يُمْنِيَ قَالَ عَلَيْهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ مِثْلُ مَا عَلَى الَّذِي يُجَامِع "(۵)

ترجمہ:"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }عبدالرحمن بن حجاج سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سےپوچھا کہ ایک شخص ماہ رمضان میں اپنی اہلیہ سے اس قدربوس وکنار کرتا ہے کہ اس کی منی خارج ہو جاتی ہے تو ؟فرمایا : اس طرح کفارہ واجب ہے جس طرح مجامعت کرنے والے پر واجب ہوتا ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی ا س بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کا نکلنا مبطلات روزہ میں سے ہیں اور قضاء بھی واجب ہے اگرچہ یہ روایت استمناء کے طلب کے بارے میں ہے لیکن ممکن ہے کہ اس روایت کو بطریق اولی دوسرے مبطلات میں بھی جاری کریں ۔

۱۲۔ اگر منی بغیر قصد کےنکل جائےتو روزہ دار کے اوپر کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ چیزیں جو مبطل ہیں وہ انسان کے اختیاری افعال ہیں چونکہ یہاں موجب مبطل کی دلیل قاصر ہے جس کی بنا پر براءت سے تمسک کیا جائے گا پس اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ احتلام مبطلات روزہ میں سے نہیں ہے اور روایت میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے جس پر دلیل عبداللہ بن میمون کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُفَطِّرْنَ الصَّائِمَ الْقَيْ‏ءُ وَ الِاحْتِلَامُ وَ الْحِجَامَة "(۶)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} عبداللہ بن میمون سے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جو روزہ کو باطل نہیں کرتیں : ۱ ۔قئی ۲ ۔ احتلام ۳ ۔ اور پچھنے لگوانا "

تین چیزوں سے روزہ دار کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے ۱احتلام سے۲الٹی سے ۳حجامت سے ۔۔۔۔ اور اسی طرح واضح ہے کہ روایت میں بھی روزہ احتلام سے باطل نہیں ہوتا ہےاور اسی طرح روزہ دار کے لیے ممکن ہے کہ دن کو استبراء کرئے اگر چہ روزہ دار جانتا ہوکہ آلہ تناسل میں منی باقی ہے کیونکہ اس سے منی نکلی تھی تو باقی ماندہ منی احتلام سابق کے ساتھ ہے جو اختیاری نہیں تو مبطل روزہ میں سے نہیں ہے ۔

۱۳۔اگر کوئی مجنب روزہ کی حالت میں صبح تک جنابت پر باقی رہے تو اس کا روزہ باطل ہے جسں پر دلیل ابو بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي رَجُلٍ‏ أَجْنَبَ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ بِاللَّيْلِ ثُمَّ تَرَكَ الْغُسْلَ مُتَعَمِّداً حَتَّى أَصْبَحَ قَالَ يُعْتِقُ رَقَبَةً أَوْ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ يُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيناً قَالَ وَ قَالَ إِنَّهُ حَقِيقٌ أَنْ لَا أَرَاهُ يُدْرِكُهُ أَبَدا "(۷)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} ابوبصیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں جس نے ماہ رمضان کی کسی رات اپنے آپ کو جنب کیا اور پھرصبح صادق جان بوجھ کرغسل نہیں کیا ۔ فرمایا ( کفارہ میں )ایک غلام آزاد کرے ،یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے (اور اس روز کا روزہ بھی رکھے اور اس کی قضاء بھی کرے )۔ پھر فرمایا : وہ اس لائق ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ کبھی اس روز کے روزہ کی فضیلت کو نہیں پا سکے گا "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں پس اس بنا پر کفارہ کے واجب ہونے اور قضاء کے واجب ہونے پر یہ عمل دلالت کرتی ہے کہ مبطلات روزہ میں سے ایک جان بوجھ کرجنابت پر صبح تک باقی رہنا ہے ۔

اور اس روایت کے مقابلے میں حبیب خثعمی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"حَبِيبٍ الْخَثْعَمِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص يُصَلِّي‏ صَلَاةَ اللَّيْلِ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- ثُمَّ يُجْنِبُ ثُمَّ يُؤَخِّرُ الْغُسْلَ مُتَعَمِّداً حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْر "(۸)

ترجمہ :"حبیب خثعمی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نےفرمایا :حضرت رسوا خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں نماز تہجد پڑھ کر اپنے آپ کو جنب کرتے تھے اور پھرطلوع فجر تک جان بوجھ کرغسل کو مؤخر کرتے تھے "

اور اسی طرح روایت عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ‏ رَجُلٍ‏ أَجْنَبَ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ فَأَخَّرَ الْغُسْلَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ قَالَ يُتِمُّ صَوْمَهُ وَ لَا قَضَاءَ عَلَيْه "(۹)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} عیص بن قاسم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں رات کے پہلے حصہ میں اپنے آپ کو جنب کیا اور طلوع فجر تک غسل کو مؤخر کیا تو ؟ فرمایا : اس روزہ کو مکمل کرے اوراس پر قضاء نہیں ہے"

اور اس جیسی دوسری روایات ۔

پہلی روایت کا رد۔ اس روایت کے مضمون کی تصدیق نہیں کر سکتے خصوصا روایت میں لفظ (کان) کی شانیت کے مصادیق زیادہ ہیں تو ہم بے بس ہیں کہ لفظ ( کان) کو بعض مصادیق پر حمل کریں ۔

دوسری روایت کا رد۔دوسری روایت مطلق ہے اور ہم بے بس ہیں کہ اس کو غیر عمدی حالت پر حمل کریں کیونکہ روایت ابو بصیر عمدی حالت پر صراحت سےدلالت کرتی ہے ۔

یہاں پر ایک تفصیل ہے جس کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جو جنابت کی حالت میں صبح تک باقی رہتاہے کہ پہلی بار سونا صبح کی اذان تک ، اور یہ کہ نیند سے بیدار ہو جائے اور دوبارہ سوجائے جس کے بارے میں روزہ کے عمومی احکام میں اشارہ کیا جائےگا

۱۴۔ ان لوگوں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اکثر فقہاء کے قول کی بنا پر مبطلات روزہ میں سے ہے

جس پر دلیل ابی بصیر کی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ أَنَ‏ الْكَذِبَ‏ عَلَى‏ اللَّهِ‏ وَ عَلَى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْأَئِمَّةِ ع- يُفَطِّرُ الصَّائِمَ "(۱۰)

ترجمہ:"{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} ابو بصیر سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا :خدا اور رسول ص اور ائمہ علیھم السلام پر جھوٹ بولنا روزہ دار کے روزے کو توڑ دیتا ہے "

اس روایت کے علاوہ دوسری روایات میں بھی اس ( مبطلات روزہ )کا ذکرکیا گیا ہے ۔

۱۵۔مبطلات روزہ میں سے ایک غبار(گھاڑا) ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے قضاء و کفارہ دونوں واجب ہو جاتے ہیں جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے صرف قضاء واجب ہوتی ہے اور کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے

جس پر دلیل سلیمان بن حفص مروزی کی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے مروی روایت ہے :

"سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَرْوَزِيِّ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ إِذَا تَمَضْمَضَ‏ الصَّائِمُ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- أَوِ اسْتَنْشَقَ مُتَعَمِّداً أَوْ شَمَّ رَائِحَةً غَلِيظَةً أَو كَنَسَ بَيْتاً فَدَخَلَ فِي أَنْفِهِ وَ حَلْقِهِ غُبَارٌ، فَعَلَيْهِ صَوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَهُ فِطْرٌ مِثْلُ: الْأَكْلِ، وَ الشُّرْبِ، وَ النِّكَاح "(۱۱)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }سلیمان بن جعفر (حفص)مروزی سے روایت کرتے ہیں ہے کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ: جب روزہ دار ماہ رمضان میں جان بوجھ کر کلی کرئےیا ناک میں پانی ڈالے اور حلق تک پہنچائے یا غلیظ بو سونگھے یا گھر میں جھاڑو دے اور اس کے ناک اور حلق میں غبار داخل ہو جائے تو اس پر مسلسل دو ماہ کا روزہ واجب ہے کیونکہ یہ چیزیں کھانا ، پینا اور جماع کی طرح ہیں جوروزہ کو توڑ دیتی ہیں"

اس موضوع میں مناسب یہ ہے کہ ہم کہیں کہ کفارہ کو دینا ترجیح رکھتا ہے ۔ اگر ترجیح کی قابلیت ہو ۔ اس دلیل کے ساتھ کہ الفاظ میں جملے کی سیاق کلی کرنےاورناک میں پانی ڈالنے اورعطر کےخوشبو کرنے کو شامل ہے جو کہ یہ موارد یقینا مبطلات روزہ میں سے نہیں ہیں ۔

یہ حکم(قول مناسب) سند روایت سے قطع نظر کہ اس میں مروزی جو کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کاموثق ہونا ثابت نہیں ہے اور اس راوی کا مضمر ہونا اوربزرگان راویوں سے نہ ہونابھی ثابت ہے وگرنہ مسئلے کا حکم واضح و روشن ہے( یعنی اگر راوی کا مضمر ہونا دور ہو جائے تو غبار مبطل روزہ میں سے ہے) ۔

پس اس بنا پر مناسب قول یہ ہے کہ اس کے قائل ہو جائے کہ گھاڑا غبارمبطل روزہ میں سے نہیں ہے

۱۶۔پورےسر کو پانی میں ڈبونا قول مشہور کے مطابق مبطل روزہ میں سےہے اور بعض کہتے ہیں کہ فقط حرمت تکلیفی ہےاور ان کی دلیل روایت محمد بن مسلم ہے جوکہ پہلے گذر چکی ہے مگریہ کہ اس کے مقابلے میں روایت اسحاق بن عمار کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع رَجُلٌ‏ صَائِمٌ‏ ارْتَمَسَ‏ فِي الْمَاءِ مُتَعَمِّداً عَلَيْهِ قَضَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ لَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاؤُهُ وَ لَا يَعُودَن "(۱۲)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }اسحاق بن عمار سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک روزہ دار شخص جان بوجھ کر پانی میں ڈبکی لیتا ہے ۔ آیا اس پر اس دن کی قضاء واجب ہے ؟ فرمایا : اس پر قضاء واجب نہیں ہے مگردوبارہ تکرار نہ کرے "

اور بعض اوقات ممکن ہے کہ روایات کو اس طرح جمع کرئےکہ روایت اول کوروایت دوم کے قرینہ کے ذریعے سے جوکہ روزے کی قضاء کے واجب ہونے کونفی کرتی ہے تو اس کو حرمت تکلیفی پر حمل کرتے ہیں ۔

مگریہ کہ ضروری ہو جائے کہ مضر سے مراد روزہ دار کے لیے مضر ہونے پر حمل کریں ۔ نہ کہ روزے کی صحت کےلیے مضر ہونے پر حمل کریں ۔ پس اس بنا پر روزہ دار مکلف ہے اور اس طرح کا حمل بعید ہے ۔

اور بعض اس کے قائل ہیں کہ ان دو روایات کے درمیان تعارض(اختلاف ) برقرارہے یعنی ان دونوں کو جمع نہیں کر سکتے ہیں پس دوسری روایت اسحاق بن عمار کو تقیہ پر حمل کرتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجہ کا حکم روزہ کے باطل ہونے پر ہے ۔

۱۷-مائع چیزوں کے ساتھ حقنہ کرنا:سیال چیزوں سے حقنہ کرنے کی "تکلیفی حرمت(حقنہ کے حرام ہونے میں )" میں کسی قسم کوئی اشکال نہیں پایاجاتاہے جس پردلیل احمدبن محمدبن ابی نصر کی امام رضا علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

"أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع‏ أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الرَّجُلِ‏ يَحْتَقِنُ‏ تَكُونُ‏ بِهِ الْعِلَّةُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ الصَّائِمُ لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَحْتَقِنَ "(۱۳)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} احمد بن محمد بن نصر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ ماہ رمضان میں آدمی کو کچھ تکلیف ہوتی ہے ۔کیا وہ حقنہ کرسکتا ہے ؟ فرمایا : روزہ دار کے لیے (مائع چیز سے)حقنہ کرنا جائز نہیں ہے "

اگرحقنہ کرنے سے اُس کے مایع ہونے کا حکم نہیں سمجھ میں آتاہے تو پھر ضروری ہے کہ اس حقنہ کرنے کے ساتھ مائع چیزکے ساتھ حقنہ کرنے کی قید لگائی جائے ۔اور اس پردلیل حسن بن فضال کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی یہ موثق روایت ہے :

"كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ ع مَا تَقُولُ‏ فِي‏ التَّلَطُّفِ‏ يَسْتَدْخِلُهُ‏ الْإِنْسَانُ‏ وَ هُوَ صَائِمٌ‏ فَكَتَبَ‏ لَا بَأْسَ بِالْجَامِد "(۱۴)

ترجمہ :"میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کو خط لکھا کہ اگر ایک روزےکی حالت میں ایک بتی کو اپنے اندر داخل کرے تو اس کے بارے میں آپ علیہ السلام کیا فرماتے ہیں ؟امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ جامد چیزکے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے"

اور کیا حقنہ کرنے پر روزہ کے باطل ہونے کا حکم بھی لگایاجا سکتا ہے ؟ یہ حکم لگانا بعید نہیں کیونکہ عرف میں اُن اعمال کے بارے میں جو مختلف اجزاء سے مرکب ہیں (جیسے نمازاور روزہ وغیرہ میں )نہی کا ظہور اس کے مانع ہونے اور اس کی مخالفت سے اُس عمل کے فاسد(باطل)ہونے میں ہے۔

اورجس بات سے ہمارے موقف کی تاکیدہوتی ہے وہ سائل کا حقنہ کی ضرورت کے متعلق سوال کرنا ہے۔جس کے ساتھ اس کی "تکلیفی حرمت "(حرام ہونا)کا کوئی معنی نہیں بنتا۔لہذا ضروری ہے کہ یہ کہاجائے اس کا مقصد بطلان کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنا تھا۔

۱۸۔ جان بوجھ کرقئ کرنے سے روزے کا بطلان :مشہورقول یہی ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتاہے۔اوراس پر دلیل حلبی کی امام صادق علیہ السلام سے منقول یہ صحیح روایت ہے :

"حَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا تَقَيَّأَ الصَّائِمُ‏ فَقَدْ أَفْطَرَ وَ إِنْ ذَرَعَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَتَقَيَّأَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ "(۱۵)

ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }حلبی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا :جب کوئی روزہ دار جان بوجھ کرقئی کرئے تو اس نے روزہ توڑ دیا ۔ اور اگر بے اختیار آ جائے تو پھر اپنے روزہ کو مکمل کرے "

مگر صحیح مذکور کے مقابلے میں عبداللہ بن میمون کی امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

"عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُفَطِّرْنَ الصَّائِمَ الْقَيْ‏ءُ وَ الِاحْتِلَامُ وَ الْحِجَامَة "(۱۶)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } عبداللہ بن میمون سے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جو روزہ کو باطل نہیں کرتیں : ۱ ۔قئی ۲ ۔ احتلام ۳ ۔ اور پچھنے لگوانا "

پس اس روایت میں قئی کو غیر عمدی پر حمل کرئے گے

روزہ کےصحیح ہونے کی شرائط:

روزہ کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔اسلام

۲۔عقل

۳۔حیض اور نفاس سے پاک ہونا

۴۔وہ سفر جس سے نمازقصرہوجاتی ہے۔سوائے اُس مسافر کے کہ جو یاتو حکم سے جاہل ہےیااپنے وطن سے یا اُس جگہ سے جو اس کے وطن کے حکم میں ہے زوال کے بعد نکلا ہےیاپھر زوال سے پہلے اپنے وطن یااُس جگہ پہنچ جائے ،جہاں اس نے (دس دن یا اس سے زیادہ دن )ٹھرنے کا ارادہ کر رکھاہے ۔

۵۔اور نقصان دہ مرض ہو تو ان موارد میں روزہ دار کا روزہ صحیح ہے ۔

یہ بات ثابت ہونے کے لیے بیماری کے نقصان دہ ہونے کا ڈر کافی ہے ۔ اور ماہر اور قابل اعتماد ذاکٹر کی بات بھی (اس سلسلے میں ) حجت ہے

مذکورہ احکام کےدلائل :

۱۔اسلام

روزہ کے صحیح ہونے کی شرط میں سے ایک اسلام ہے اور اس پر دلیل اجماع ہےاور بعض اوقات اس پر قرآن کی اس آیت کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے ۔

( وَ مَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنهْمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللَّهِ وَ بِرَسُوله ) (۱۷)

ترجمہ: اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے۔

اس آیت کے ساتھ دلیل اولویت کو ملانے کے بعد اس سےعموم کا استفادہ کیا جاسکتاہے۔(۱۸)

اور اوپر والی دلیل کے علاوہ ممکن ہے کہ ان روایات سے بھی یہ حکم ثابت کیا جو ولایت (امیر المئومنین اور اولاد امیر المئومنین ) کو روزہ کے صحیح ہونےکے لیےشرط جانتی ہیں کیونکہ کافر ولایت کو نہیں مانتا ہے جس پر دلیل عبدالحمید بن ابی العلاءکی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

" عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَ كَذَلِكَ‏ هَذِهِ‏ الْأُمَّةُ الْعَاصِيَةُ الْمَفْتُونَةُ بَعْدَ نَبِيِّهَا ص وَ بَعْدَ تَرْكِهِمُ الْإِمَامَ الَّذِي نَصَبَهُ نَبِيُّهُمْ ص لَهُمْ فَلَنْ يَقْبَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَمَلًا وَ لَنْ يَرْفَعَ لَهُمْ حَسَنَةً حَتَّى يَأْتُوا اللَّهَ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ وَ يَتَوَلَّوُا الْإِمَامَ الَّذِي أُمِرُوا بِوَلَايَتِهِ وَ يَدْخُلُوا مِنَ الْبَابِ الَّذِي فَتَحَهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ لَهُمْ "(۱۹)

"ترجمہ: ابی علاء حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں ۔۔۔۔ایسا ہے کہ یہ گناہ گار لوگ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امتحان میں واقع ہو گئے اور اس کے بعد امام علیہ اسلام کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے منصوب کیا تھا لوگوں نے چھوڑ دیا ۔خدا وند عالم ان کے اعمال کو قبول نہیں کرئے گا اور کوئی نیکی ان کے لیے نہیں لکھے گا جب تک وہ راستہ جس پر خدا نے خکم دیا ہے اے کی طرف آ جائیں اور اس کی امام علیہ السلام کی طرف جس کا حکم کیا ہے اور وہ باب سے داخل ہوں جس کو خدا وند عالم نے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ نے کھولا ہے

اوراس روایت سے روزہ کی صحت کے لیے اسلام کی شرط کے ساتھ ایمان کی شرط بھی ثابت ہوتی ہے ۔

اگر اشکال ہو کہ آیت اور روایات کی دلالت قبول اعمال پرہے نہ کہ شرط صحت اعمال پر ـ جبکہ یہ دلالت محل کلام سے خارج ہے کیونکہ ہمارامحل کلام صحت عمل ہے اور اس عمل کو انجام دینے کے بعد مکلف بری الذمہ ہو جاتا ہے جیساکہ خدا وندمتعال ارشاد فرماتے ہیں کہ

( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين ) (۲۰)

ترجمہ: خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے ۔

اس کے بعد اس شرط ہونے پر "قطعی اجماع" کے علاوہ کوئی دلیل باقی نہیں رہتی ۔ اور مستزادیہ کہ بعض کافروں سے قربت کی نیت ٹھیک نہیں ہے حالانکہ عبادات میں قصد قربت شرط ہے اور یہ خدا کو مانتے ہی نہیں ہیں تو ان کا قرب حاصل کرنا بے معنی ہے ۔

۲۔ عقل کا روزہ صحیح ہونے کی شرط ہونا:

اس کی دلیل یہ ہےکہ عقل کےعلاوہ نیت ہی نہیں کی جاسکتی ہےکیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے مجنون (پاگل)مکلف ہی نہیں ہے۔پس جب اللہ کی طرف احکام اس کو شامل ہی نہیں ہیں تو اس کے بعد عقل کے روزہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہونے پر مزیدکسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

۳۔ حیض اورنفاس سے پاک ہونا:

عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ امْرَأَةٍ تَطْمَثُ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ- قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ قَالَ تُفْطِرُ حِينَ تَطْمَث (۲۱)

ترجمہ :''عیص بن قاسم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک عورت کو ماہ رمضان میں غروب آفتاب سے کچھ پہلے خون حیض آ جائے تو ؟ فرمایا : جیسےہی حیض آئے اسی وقت روزہ افطار کر دے''

اور اسی طرح عبدالرحمن بن حجاج کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

سالت أبَا الْحَسَنِ ع عَنِ الْمَرْأَةِ تَلِدُ بَعْدَ الْعَصْرِ أَ تُتِمُّ ذَلِكَ الْيَوْمَ أَمْ تُفْطِرُ قَالَ‏ تُفْطِرُ وَ تَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ (۲۲)

ترجمہ:''{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } عبدالرحمن بن الحجاج سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک روزہ دار عورت نے عصر کے بعد بچے کو جنم دیا آیا وہ اس دن کا روزہ تمام کرے یا کھول دے ؟ فرمایا:کھول دے اور اس کی قضاء کرے ''

یہ حکم اوپر والی روایت کے مطابق ہے لیکن اس کے مقابلےمیں ابی بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے:

أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنْ‏ عَرَضَ‏ لِلْمَرْأَةِ الطَّمْثُ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- قَبْلَ الزَّوَالِ فَهِيَ فِي سَعَةٍ أَنْ تَأْكُلَ وَ تَشْرَبَ وَ إِنْ عَرَضَ لَهَا بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَلْتَغْتَسِلْ وَ لْتَعْتَدَّ بِصَوْمِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مَا لَمْ تَأْكُلْ وَ تَشْرَبْ (۲۳)

ترجمہ :''ابو بصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں زوال آفتاب سے پہلے حائض ہو جائے تو وہ (روزہ افطار کرکے) کھا پی سکتی ہے اور اگر زوال کے بعد یہ صورت پیش آئے تو غسل کرکے اس روزہ کو شمار کرے جب تک کچھ کھایا پیا نہ ہو ''

مگر یہ روایت اصحاب امامیہ کے نزدیک متروکہ (یعنی اصحاب نے اس روایت سے دوری اختیار کی ہے ) ہےاور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا ہے پس اس روایت کا اعتبار باقی نہیں رہتاہے۔

۴۔سفر نہ کرنے کی شرط صحت روزہ ہونا:

اس پر دلیل خدا وند متعال کا یہ ارشاد گرامی ہے :

( و مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر ) (۲۴)

ترجمہ :''اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے''

دوسری دلیل روایت موثقۃ سماعہ ( اعتماد کرنا)بھی موجود ہے جو کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں ۔

سَمَاعَةَ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ لَا صِيَامَ‏ فِي‏ السَّفَرِ قَدْ صَامَ أُنَاسٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَسَمَّاهُمُ الْعُصَاةَ فَلَا صِيَامَ فِي السَّفَرِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي الْحَجِّ (۲۵)

ترجمہ :''{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } سماعہ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے ان (حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے پوچھا کہ سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟ فرمایا : سفر میں روزہ نہیں ہے کچھ لوگوں نے عہد رسالت میں سفر میں روزہ رکھا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کا نام گنہگار رکھا تھا ۔ پس سفر میں روزہ نہیں ہے ماسوا حج کے ان تین روزوں کے جن کا خدا نے (تمتع میں قربانی نہ دےسکنے کی وجہ سے ) حکم دیا ہے (اور سات واپس گھر پہنچ کر کل دس روزے)''

اور اے کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں

روایت سماعہ مضمر ہے تو پھر مضمر پر استدلال کس طرح کرتے ہیں ؟

یہ اضمار نہیں ہے کیونکہ یہاں پر اضمار بزگان اصحاب کی جانب سے ہے اور روایت بیان کرنا غیر امام سے ان کے لائق نہیں ہے

۵۔ شرط صحت روزہ میں سےایک یہ ہے کہ مکلف کاسفر نمازکےقصرہونےکاموجب بنے ۔اس پر دلیل روایت معاویہ بن وھب کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

''مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: هَذَا وَاحِدٌ إِذَا قَصَرْتَ‏ أَفْطَرْتَ‏ وَ إِذَا أَفْطَرْتَ قَصَرْتَ'' (۲۶)

ترجمہ :''{ حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }معاویہ بن وھب سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیا السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا : سلسلہ ایک ہے ۔ جب نماز قصر کرو تو روزہ افطار کرو اور جب روزہ افطار کرو تو نماز قصر کرو ''

۶۔اگر کوئی مسافر سفر کے دوران افطارکے حکم سے جاہل ہے یعنی نہیں جانتا کہ مسافر کا روزہ سفر میں درست نہیں ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے جس پر دلیل عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

عن صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ‏ صَامَ‏ فِي‏ السَّفَرِ بِجَهَالَةٍ لَمْ يَقْضِه (۲۷)

ترجمہ:''صفوان بن یحیی نےعیص بن قاسم سے روایت کی ہے جوکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کرتے ہیں فرمایا :جب کوئی شخص ماہ رمضان میں سفر کرے تو روزہ افطار کرے گا اور اگر جہالت ولاعلمی کی وجہ سے رکھے تو اس کی قضاء نہیں کرے گا ''

اس کے علاوہ دوسری روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مذکورہ بالا روایت مطلق ہے (کسی قسم کی قید نہیں لگائی گئی ہے )اس لیے کہ یہ اس شخص کو بھی شامل ہوتی ہے جس کو سرے سے ہی حکم معلوم نہیں ہے اور اس کو بھی جس کو اصل حکم تو معلوم ہے لیکن بعض خصوصیات کا علم نہیں ہے ۔مثلا اس کو یہ علم نہیں ہے کہ زوال سے پہلے سفر کرے اور زوال کے بعد واپس لوٹے اس کا روزہ نہیں ہوتا ۔

۷۔اگر مسافر بعد از زوال اپنے وطن سے حرکت کرے تو اس کا روزہ صحیح ہےاس کے لیے روزہ توڑنا حرام ہے ۔ لیکن جو شخص زوال سےپہلےسفرکرئے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور یہ مشہور فقہاء کا نظریہ ہےجس پر دلیل عبید بن زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

''عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي الرَّجُلُ‏ يُسَافِرُ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ يَصُومُ أَوْ يُفْطِرُ قَالَ إِنْ خَرَجَ قَبْلَ الزَّوَالِ فَلْيُفْطِرْ وَ إِنْ خَرَجَ بَعْدَ الزَّوَالِ فَلْيَصُمْ فَقَالَ يُعْرَفُ ذَلِكَ بِقَوْلِ عَلِيٍّ ع أَصُومُ وَ أُفْطِرُ حَتَّى إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عُزِمَ عَلَيَّ يَعْنِي الصِّيَام ''(۲۸)

ترجمہ : عبید بن زرارہ سے مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جو شخص رمضان کے مہینے میں سفر کرئے تو کیا وہ روزہ رکھے گا یا روزہ توڑ دے گا ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : اگر زوال سے پہلے سفر کرے تو افطار کرے اور اگر زوال کے بعد نکلے تو پھر روزہ مکمل کرے ۔ پھر فرمایا : یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوتی ہے ، فرمایا : میں روزہ رکھتا ہوں اور (بوجہ سفر) افطار کرتا ہوں مگر جب زوال ہو جائے تو پھر مجھ پر ضروری ہو جاتا ہے یعنی روزہ ''

لیکن زرارہ کی صحیح روایت کے مقابلے میں علی بن یقطین کی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

''عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى ع‏ فِي الرَّجُلِ‏ يُسَافِرُ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ أَ يُفْطِرُ فِي مَنْزِلِهِ قَالَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ فِي اللَّيْلِ بِالسَّفَرِ أَفْطَرَ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ وَ إِنْ لَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ مِنَ اللَّيْلَةِ ثُمَّ بَدَا لَهُ فِي السَّفَرِ مِنْ يَوْمِهِ أَتَمَّ صَوْمَهُ ''(۲۹)

ترجمہ : ''صفوان حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا :اگر کوئی شخص اپنے گھر (کوفہ) سے نہروان کے سفر کے ارادہ سے نکلے کہ جائے گا اور واپس آے گا تو اسے چاہیے کہ رات کو سفر کرنے اور روزہ افطار کرنے کی نیت کرے لیکن اگر اس حالت میں صبح کرے کا سفر کا کوئی ارادہ نہ ہو ہاں البتہ صبح کے بعد ارادہ کرے تو (نماز تو ) قصر کرے گا لیکن اس دن روزہ افطار نہیں کرے گا''

پس امام کاظم علیہ السلام نے افطار اور عدم افطار میں وجود نیت کو ملاک جانا ہے جوکہ اس نے سفر سے پہلے رات کو کیا ہو

اگر ان دو روایتوں کے درمیان تعرض (ٹکراؤ ) ثابت ہو جائے تو اول کو ترجیح دیں گے کیونکہ پہلی روایت تقیہ کے مخالف ہے پس اس سے قول مشہور بھی ثابت ہو جائے گا ۔

۸۔مشہور تفصیل کے قائل ہیں کہ اگر مسافر اپنے وطن کو قبل از زوال پلٹ ائے اور کچھ کھایا پیا نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ا اور اسی طرح اگر مسافر بعد از زوال اپنے وطن واپس پلٹ آئے تواس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے جس پر دلیل ابی بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےمروی یہ موثق روایت ہے:

''أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنِ‏ الرَّجُلِ‏ يَقْدَمُ‏ مِنْ‏ سَفَرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ إِنْ قَدِمَ قَبْلَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَعَلَيْهِ صِيَامُ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ يَعْتَدُّ بِهِ'' (۳۰)

ترجمہ :''{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } ابو بصیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے ان ( حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا کہ جس نے رمضان کے مہینے میں سفر کیا ہے اور گھر واپس لوٹ آیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اگر زوال سے پہلے پہنچ جائے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے اور اسے ماہ رمبارک کا روزہ شمار بھی کرے گا ''

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

لیکن اپنے وطن کو پہنچنے سے پہلے اس کو اختیار ہے کہ روزہ رکھے یا افطار کرئے جس پر دلیل محمد بن مسلم کی حضرت امام باقرعلیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

''مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ الرَّجُلِ يَقْدَمُ‏ مِنْ‏ سَفَرٍ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ فَيَدْخُلُ أَهْلَهُ حِينَ يُصْبِحُ أَوِ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ قَالَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَ هُوَ خَارِجٌ وَ لَمْ يَدْخُلْ أَهْلَهُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ صَامَ وَ إِنْ شَاءَ أَفْطَرَ'' (۳۱)

ترجمہ : ''محمد بن مسلم بیان کرتےہیں کہ میں نےحضرت امام باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص ماہ رمضان میں سفر سے واپس گھر آرہا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ چاشت کے وقت یا اس سے کچھ دیر بعد گھر پہنچ جائے گا تو ؟ فرمایا : اگر اسے گھر پہنچنے سے پہلے راستہ میں طلوع فجر ہو جائے تو اسے اختیار ہے چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو (سفر میں) افطار کرے ''

اس روایت میں امام علیہ السلام اختیار کو بیان فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی اپنے وطن کے حد ترخص تک نہیں پہنچا تو وہ مختار ہے چاہے افطار کرے یا نہ کرے ۔اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں

۹۔اگر کوئی مسافر سفر کرئے اور اس علاقے یا شہر میں داخل ہو جائے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اقامت (یعنی دس دن کے ٹھرنے) کاقصد کرئے تو چاہے وہ شخص محل اقامت میں قبل از طلوع فجر یا قبل از زوال داخل ہو دونوں حالتوں میں اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ۔جس پر دلیل روایت صحیحہ محمد بن مسلم ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلامسے نقل فرماتے ہیں :

''مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: فَإِذَا دَخَلَ‏ أَرْضاً قَبْلَ‏ طُلُوعِ الْفَجْرِ وَ هُوَ يُرِيدُ الْإِقَامَةَ بِهَا فَعَلَيْهِ صَوْمُ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ إِنْ دَخَلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ عَلَيْهِ وَ إِنْ شَاءَ صَامَ ''(۳۲)

ترجمہ :''{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسلم سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا : جب کوئی مسافر طلوع فجر سے پہلے کسی ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دس روزہ قیام کا پروگرام ہو ۔ تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہے اور اگر طلوع فجر کے بعد وہاں پہنچے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور اگر چاہے تو رکھ لے ''

اس روایت کے مقابلے میں قول مشہور ہے جو کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا واجب ہے اگرچہ قبل زوال پہنچا ہو اور فرق نہیں کرتا ہے کہ قبل از طلوع فجر ہو یا بعد از طلوع فجر ہو ۔

تو اس صورت میں احتیاط مقتضی دلیل ہے چونکہ احتیاط کی وجہ سے قول مشہور کی مخالفت سے اور روایت صحیحہ کی مخالفت سے بچ جائیں گے ۔

۱۰۔ بیمارنہ ہو( یعنی روزہ رکھنا اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو) جیسا کہ خداوندہ متعال فرماتے ہیں:

( وَ مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (۳۳)

ترجمہ:''اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے''

اور تمام روایات شریفہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرض روزہ دار کے لیے نقصان دہ ہو اگرچہ دلائل میں اس سے انصراف کیا ہے اور روایات میں اس کی تصریح کی گئی ہے جیساکہ صحیح محمد بن مسلم میں ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں :

''قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَدُّ الْمَرِيضِ‏ إِذَا نَقِهَ فِي الصِّيَامِ فَقَالَ ذَلِكَ إِلَيْهِ هُوَ أَعْلَمُ بِنَفْسِهِ إِذَا قَوِيَ فَلْيَصُم'' (۳۴)

ترجمہ: ''{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نےحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بیماری کی وہ حدکون سی ہے جو اسے روزہ سے کمزور کرتی ہے ؟فرمایا : وہ اپنی طبیعت کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے پس جب طاقت ہو تو روزہ رکھے ''

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

پس اگر اس کے لیے مرض نقصان دہ ہے اور جانتا ہے کہ روزہ رکھنے کی قدرت نہیں ہے یا ضرر کا خوف ہو تو اس پر روزہ رکھنا لازمی نہیں ہے.

۱۱۔ روزہ دار کے لیے مرض سے خوف کا ہونا کافی ہےاوردلیل عقلائی مرض کے نقصان کو مشخص کرنے کے باب سے اس پر دلالت کرتی ہے اور اےس کے علاوہ شارع نے بھی اس کو رد نہیں کیا ہےاور اس پر روایت صحیح حریز بھی ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں :

''مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّائِمُ‏ إِذَا خَافَ‏ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الرَّمَدِ أَفْطَرَ ''(۳۵)

ترجمہ : ''{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } حریز سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا: روزہ دار کو جب آشوب چشم کی وجہ سے

آنکھوں کا خطرہ ہو تو روزہ افطار کر سکتا ہے ''

پس اس بنا پر جو دلائل مرض کے خوف کے لیے ذکر کیے گئے وہ روزہ کو افطار کرنے کے لیے حجت ہیں ۔

۱۲۔ اگرماہر ڈاکٹر کہے تو طریقہ عقلائی کی بنا پر اس کی بات حجت ہوگیاور اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتا ۔ پس وہ ماہر ڈاکٹر کی بات کو مانے گا جب مریض کو ڈاکٹر کی بات پر اعتماد اور اطمینان حاصل ہو تو اس صورت میں روزہ نہ رکھے کیونکہ ضرر کی تشخص کے باب میں بیان ہوا ہے جس سے شارع نے نہیں روکا ہے اور ہاں اگر اس کی بات پر یقین حاصل نہ ہو تب بھی حجت ہے فقط دو صورتوں میں ماہر ڈاکٹر کی بات حجت نہیں ہو گی

ا۔ اگر آپ جانتے ہو کہ ڈاکٹر نے اشتباہ کیا ہے تو آپ نے علم پر عمل کریں گے کیونکہ حجت ذاتی ہے

ب۔ اور اگر اطمینان ہو کہ ماہر ڈاکٹر نے اشتباہ کیا ہے تو ڈاکٹر کی بات حجت نہیں ہے کیونکہ حجت شرعی اس کے خلاف ہے بس اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ضرر کا خوف مریض کے لیے دو راستوں سے ثابت ہو جاتا ہے خوف وجدانی سے اور ماہر ڈاکٹر کی قول سے ۔

سوال:ایا ہر قسم کا خوف روزہ نہ رکھنے کا موجب ہے ؟

جواب:نہیں ہر قسم کا خوف روزہ نہ رکھنے کا موجب نہیں بنتا ہے بلکہ نقصان کا خوف عقلائی ہو یعنی کوئی اور فرد اس جگہ پر کیوں نہ ہو اگر اس قسم کا خوف رکھتا ہو کیونکہ روایت حریز میں قید (ضرر خوف اگر منشاء عقلائی ہو)سے منصرف ہے

سوال:دلیل اطلاق سب کو شامل ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب:ہماری دلیل فقط سیرہ عقلائی ہے جس کو روایت میں بھی مد نظر رکھا گیا ہے پس ضروری ہے کہ حتی الامکان یقین پر اکتفا کریں کیونکہ یقین کے علاوہ اقتضاء نہیں کرتا ہے

کتاب صوم

روزہ کو باطل کرنے والی چیزیں

روزہ یعنی قربتا الی اللہ کی نیت سے مندرجہ ذیل چیزوں سے بچنا :

۱ ۔کھانا اور پینا :چاہے وہ چیز عام طور پرکھائی پی جاتی ہوں یا نہ ہوںاور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عادی طریقے سے کھائی یا پی جائے یا غیر عادی طریقے سے ،مقدار کم ہو یا زیادہ اس سے بھی فرق نہیں پڑتا ہے سر اور سینہ کا بلغم اگر منہ میں آ جائے تو نگلناجائز نہیں ہے. انجکشن لگانا یا کان وغیرہ اور اس جیسےاعضاءمیں قطرے ڈالنا اور اسی طرح تھوک (لعاب دہن) کے نگلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

۲ ۔جماع کرنا چاہےآگے میں ہو یا پیچھےمیں، چاہے فاعل ہو یا مفعول اور اگر کوئی شخص جماع کا اردہ کرئےلیکن دخول میں شک کرے یاسپاری کی مقدارمیں دخول کا شک ہو تو صرف قضاء واجب ہے کفارہ نہیں.

۳ ۔منی کے نکلنےکے لیے اگر ایسے مقدمات فراہم کرنے کے بعد منی نکالنا جن سے عام طور پر منی نکل جاتی ہے لیکن اگر بغیر ارادہ کے منی نکل جائے تو نہ اس پر کفارہ ہےاور نہ قضاء ۔

۴ ۔طلوع فجر تک جان بوجھ کرجنابت پر باقی رہنا ۔

۵ ۔اکثر فقہاء کے نزدیک خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنایا اسی طرح کسی ایک معصوم(ع) پر جھوٹ باندھنا ۔

۶ ۔ گاڑھا غبار کا حلق تک پہنچانا ایک نظریے کے مطابق ۔

۷ ۔سر کا پانی میں ڈبونا۔

۸ ۔ سیال چیز سےحقنہ کرنا ۔

۹ ۔جان بوجھ کرقے کرنا ۔

مذکورہ احکام کے دلائل :

۱ ۔روزہ کی نیت میں قصد قربت شرعی لحاظ سے معتبر( ضروری) ہے ۔ لغت کے بر خلاف چونکہ لغوی لحاظ سے قصد قربت معتبر نہیں ہے ۔اور یہ(قصد قربت کا اعتبار) اہل شریعت کے نزدیک ثابت ہونے کی بنا پر ہے کہ جس میں شریعت اسلام کے علاوہ کااحتمال نہیں ہے

اور فضیل بن یسار کی امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا :

"الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الْحَجِّ وَ الصَّوْمِ وَ الْوَلَايَة (۱)

ترجمہ :''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : نماز ، زکات ،حج ، روزہ اور اہلبیت کی ولایت۔"

اوراسلام کی بنیاد کسی ایسی چیزپر نہیں رکھی جا سکتی جس میں قصد قربت نہ ہو ۔

۲ ̵ قصد قربت کا نہ ہونا بالخصوص روزے کو باطل کر دینے کی دلیل اہل شریعت کا اس کے پابندہونا ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی ایسی دلیلیں ہیں جوعدم قصد قربت کے روزہ باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ مذکورہ بالا موارد کے علاوہ میں ب روزہاطل نہیں ہوتا ہے

۳. کھانے پینے والی چیزو ں پر جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہےاس پر ادلہ :

۱.خداوند متعال فرماتے ہیں :

( وَ كلُواْ وَ اشْرَبُواْ حَتىَ‏ يَتَبَينَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الخْيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلىَ الَّيْلِ)

ترجمہ:"اور اس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے"

اور جس پر محمد بن مسلم کی حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ :سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ لَا يَضُرُّ الصَّائِمَ‏ مَا صَنَعَ‏ إِذَا اجْتَنَبَ ثَلَاثَ خِصَالٍ الطَّعَامَ وَ الشَّرَابَ وَ النِّسَاءَ وَ الِارْتِمَاسَ فِي الْمَاءِ "(۲)

ترجمہ: "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسل.م سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ روزہ دار جب تک ان تین چیزوں سے پرہیز کرئےتو اس کے روزئے کو کوئی چیزنقصان نہیں پہنچاسکتی ہے ۱ ۔ کھانے پینے سے ۔ عورتوں (مباشرت سے)سے۔اور پانی میں پورے سرکےڈبونے سے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس طلب کی تائید کرتی ہیں ۔

۴.کھانے، پینے والی چیزیں چاہے لوگوں میں رائج ہو ں یا نہ ہو ںاسی طرح چاہے عام طورپرکھائی جانے والی ہوں یا نہ ہوں اور عادی طریقے سے کھائی یا پی جائےیا غیر عادی ۔جس پر دلیل حذف متعلق کی وجہ ہے جوکہ عموم دلالت کرتی ہے یا دلیل اطلاق کی وجہ سے ہے۔

لیکن عام ہونا دو طرف سے عادی طریقے سے کھائی یا پی جائے یا غیر عادی سے اور چاہے کم ہو یا زیادہ یہ اطلاق کی دلیل سے ثابت ہوتی ہے ۔

۵۔اگر سر وسینہ کا بلغم منہ میں آجائےاور روزہ دار اس کو نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا کیونکہ اس پر کھانا پینا صدق کرتا ہےلیکن اگر منہ کی فضا تک نہیں پہنچا اور خود بخود اندر چلا جائے تو روزہ باطل نہیں ہو گا اور اگر شک کر ئے کہ روزہ صحیح ہےیا نہیں تو قاعدہ برائت جاری ہوگا ۔

۶۔انجکشن اورقطرے اور انکھ و کان میں دوائی ڈالنا جائز ہے کیونکہ ان پر کھانا پینا صدق نہیں کر تا اور اگر اس کی حرمت میں شک کریں تو قاعدہ برائت جاری ہو گا ۔

۷۔لعاب دھن کے نگلنے کے جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جو" نہی "آئی ہے اس کا انصراف کھانے اور پینے پر ہے جوکہ لعاب دھن کے نگلنے پر صدق نہیں کرتی ہے اور اس بات کی تاکید متشرعین کی سیرت سے بھی ہوتی ہے بلکہ ایک اور دلیل جو یہاں ذکر کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ اگر لعاب دھن کا نگلنا جائز نہ ہوتا تو روزہ دار کے لیے شدید مشقت کا باعث ہو تا جس سے اللہ تعالی نےاس ایت کی رو سے شریعت میں منع کیا گیا ہے

( مَا جَعَلَ عَلَيْكمُ‏ فىِ الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) (۳)

ترجمہ:" کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے"

۸۔روز ےکی حالت میں ہمبستری کرنا روزے کو باطل کر دیتی ہے کہ رات کو ہمبستری کرنا جائز ہے اور دن کوحرام ہے جس پر دلیل قران کی یہ آیت ہےکہ خداوندعالم ارشاد فرماتے ہیں :

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلىَ‏ نِسَائكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ أَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تخَتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَ عَفَا عَنكُمْ فَالَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَ ابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَ كلُواْ وَ اشْرَبُواْ حَتىَ‏ يَتَبَينَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الخْيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) (۴)

ترجمہ: " تمہارے لئے ماہ رمضان کی رات میں عورتوں کے پاس جانا حلال کر دےا گےا ہے۔ہو تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم انکے لئے ۔خدا کو معلام ہے کہ تم اپنے ہی نفس سے خیانت کرتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرکے تمہیں معاف کر دیا۔ اب تم با اطمینان مباشرت کرو اور جو خدا نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی آرزو کرو اوراس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے" اس سے مراد ہمبستری سے اجتناب کرنا ہے ۔

اور اسی طرح محمد بن مسلم کی صحیح روایت ہے جو کہ پہلے ذکر ہو چکی ہے اور دوسری روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے ۔

۹۔ہمبستری کرنا چاہےآگےسےہو یا پیچھےسے ،چاہے فاعل ہو یا مفعول روزہ کو باطل کر دیتی ہے کیونکہ یہ عام ہے جس پر دلیل آیت کا اطلاق ہے جو کہ پہلے گذر چکی ہے ۔

۱۰۔اگر کوئی شخص شک کرئے کہ مباشرت ہوئی ہے یا نہیں ، یا یہ جانتا ہے کہ مباشرت ہوئی ہے لیکن سپاری کے مقدار کے داخل ہونے میں شک کرئے کہ داخل ہوئی ہےیا نہیں تو اس صورت میں قضاء واجب ہے کیونکہ اس شخص نے قصد کیا تھا کہ روزہ توڑنے والی چیزوں میں سے کسی کو انجام دے گا اور یہ قصد روزے کے قضاء ہونے کا موجب بنتا ہے جس کا ذکر آیندہ عموی احکام میں آئے گا اور یہ کہ اس صورت میں کفارہ دینا واجب نہیں ہے کیونکہ اس پر دلیل استصحاب دلالت کرتی ہے کہ کفارہ واجب نہیں ہوا ہے کیونکہ اسباب کفارہ صادر نہیں ہوئے ہیں ۔

۱۱۔ منی کے نکلنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہےجس پر دلیل عبد الرحمن بن حجاج کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ الرَّجُلِ‏ يَعْبَثُ‏ بِأَهْلِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّى يُمْنِيَ قَالَ عَلَيْهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ مِثْلُ مَا عَلَى الَّذِي يُجَامِع "(۵)

ترجمہ:"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }عبدالرحمن بن حجاج سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سےپوچھا کہ ایک شخص ماہ رمضان میں اپنی اہلیہ سے اس قدربوس وکنار کرتا ہے کہ اس کی منی خارج ہو جاتی ہے تو ؟فرمایا : اس طرح کفارہ واجب ہے جس طرح مجامعت کرنے والے پر واجب ہوتا ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی ا س بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کا نکلنا مبطلات روزہ میں سے ہیں اور قضاء بھی واجب ہے اگرچہ یہ روایت استمناء کے طلب کے بارے میں ہے لیکن ممکن ہے کہ اس روایت کو بطریق اولی دوسرے مبطلات میں بھی جاری کریں ۔

۱۲۔ اگر منی بغیر قصد کےنکل جائےتو روزہ دار کے اوپر کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ چیزیں جو مبطل ہیں وہ انسان کے اختیاری افعال ہیں چونکہ یہاں موجب مبطل کی دلیل قاصر ہے جس کی بنا پر براءت سے تمسک کیا جائے گا پس اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ احتلام مبطلات روزہ میں سے نہیں ہے اور روایت میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے جس پر دلیل عبداللہ بن میمون کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُفَطِّرْنَ الصَّائِمَ الْقَيْ‏ءُ وَ الِاحْتِلَامُ وَ الْحِجَامَة "(۶)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} عبداللہ بن میمون سے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جو روزہ کو باطل نہیں کرتیں : ۱ ۔قئی ۲ ۔ احتلام ۳ ۔ اور پچھنے لگوانا "

تین چیزوں سے روزہ دار کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے ۱احتلام سے۲الٹی سے ۳حجامت سے ۔۔۔۔ اور اسی طرح واضح ہے کہ روایت میں بھی روزہ احتلام سے باطل نہیں ہوتا ہےاور اسی طرح روزہ دار کے لیے ممکن ہے کہ دن کو استبراء کرئے اگر چہ روزہ دار جانتا ہوکہ آلہ تناسل میں منی باقی ہے کیونکہ اس سے منی نکلی تھی تو باقی ماندہ منی احتلام سابق کے ساتھ ہے جو اختیاری نہیں تو مبطل روزہ میں سے نہیں ہے ۔

۱۳۔اگر کوئی مجنب روزہ کی حالت میں صبح تک جنابت پر باقی رہے تو اس کا روزہ باطل ہے جسں پر دلیل ابو بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي رَجُلٍ‏ أَجْنَبَ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ بِاللَّيْلِ ثُمَّ تَرَكَ الْغُسْلَ مُتَعَمِّداً حَتَّى أَصْبَحَ قَالَ يُعْتِقُ رَقَبَةً أَوْ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ يُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيناً قَالَ وَ قَالَ إِنَّهُ حَقِيقٌ أَنْ لَا أَرَاهُ يُدْرِكُهُ أَبَدا "(۷)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} ابوبصیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں جس نے ماہ رمضان کی کسی رات اپنے آپ کو جنب کیا اور پھرصبح صادق جان بوجھ کرغسل نہیں کیا ۔ فرمایا ( کفارہ میں )ایک غلام آزاد کرے ،یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے (اور اس روز کا روزہ بھی رکھے اور اس کی قضاء بھی کرے )۔ پھر فرمایا : وہ اس لائق ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ کبھی اس روز کے روزہ کی فضیلت کو نہیں پا سکے گا "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں پس اس بنا پر کفارہ کے واجب ہونے اور قضاء کے واجب ہونے پر یہ عمل دلالت کرتی ہے کہ مبطلات روزہ میں سے ایک جان بوجھ کرجنابت پر صبح تک باقی رہنا ہے ۔

اور اس روایت کے مقابلے میں حبیب خثعمی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"حَبِيبٍ الْخَثْعَمِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص يُصَلِّي‏ صَلَاةَ اللَّيْلِ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- ثُمَّ يُجْنِبُ ثُمَّ يُؤَخِّرُ الْغُسْلَ مُتَعَمِّداً حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْر "(۸)

ترجمہ :"حبیب خثعمی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نےفرمایا :حضرت رسوا خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں نماز تہجد پڑھ کر اپنے آپ کو جنب کرتے تھے اور پھرطلوع فجر تک جان بوجھ کرغسل کو مؤخر کرتے تھے "

اور اسی طرح روایت عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ‏ رَجُلٍ‏ أَجْنَبَ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ فَأَخَّرَ الْغُسْلَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ قَالَ يُتِمُّ صَوْمَهُ وَ لَا قَضَاءَ عَلَيْه "(۹)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} عیص بن قاسم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص نے ماہ رمضان میں رات کے پہلے حصہ میں اپنے آپ کو جنب کیا اور طلوع فجر تک غسل کو مؤخر کیا تو ؟ فرمایا : اس روزہ کو مکمل کرے اوراس پر قضاء نہیں ہے"

اور اس جیسی دوسری روایات ۔

پہلی روایت کا رد۔ اس روایت کے مضمون کی تصدیق نہیں کر سکتے خصوصا روایت میں لفظ (کان) کی شانیت کے مصادیق زیادہ ہیں تو ہم بے بس ہیں کہ لفظ ( کان) کو بعض مصادیق پر حمل کریں ۔

دوسری روایت کا رد۔دوسری روایت مطلق ہے اور ہم بے بس ہیں کہ اس کو غیر عمدی حالت پر حمل کریں کیونکہ روایت ابو بصیر عمدی حالت پر صراحت سےدلالت کرتی ہے ۔

یہاں پر ایک تفصیل ہے جس کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جو جنابت کی حالت میں صبح تک باقی رہتاہے کہ پہلی بار سونا صبح کی اذان تک ، اور یہ کہ نیند سے بیدار ہو جائے اور دوبارہ سوجائے جس کے بارے میں روزہ کے عمومی احکام میں اشارہ کیا جائےگا

۱۴۔ ان لوگوں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اکثر فقہاء کے قول کی بنا پر مبطلات روزہ میں سے ہے

جس پر دلیل ابی بصیر کی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ أَنَ‏ الْكَذِبَ‏ عَلَى‏ اللَّهِ‏ وَ عَلَى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْأَئِمَّةِ ع- يُفَطِّرُ الصَّائِمَ "(۱۰)

ترجمہ:"{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} ابو بصیر سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا :خدا اور رسول ص اور ائمہ علیھم السلام پر جھوٹ بولنا روزہ دار کے روزے کو توڑ دیتا ہے "

اس روایت کے علاوہ دوسری روایات میں بھی اس ( مبطلات روزہ )کا ذکرکیا گیا ہے ۔

۱۵۔مبطلات روزہ میں سے ایک غبار(گھاڑا) ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے قضاء و کفارہ دونوں واجب ہو جاتے ہیں جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے صرف قضاء واجب ہوتی ہے اور کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے

جس پر دلیل سلیمان بن حفص مروزی کی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے مروی روایت ہے :

"سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَرْوَزِيِّ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ إِذَا تَمَضْمَضَ‏ الصَّائِمُ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- أَوِ اسْتَنْشَقَ مُتَعَمِّداً أَوْ شَمَّ رَائِحَةً غَلِيظَةً أَو كَنَسَ بَيْتاً فَدَخَلَ فِي أَنْفِهِ وَ حَلْقِهِ غُبَارٌ، فَعَلَيْهِ صَوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَهُ فِطْرٌ مِثْلُ: الْأَكْلِ، وَ الشُّرْبِ، وَ النِّكَاح "(۱۱)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }سلیمان بن جعفر (حفص)مروزی سے روایت کرتے ہیں ہے کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے کہ: جب روزہ دار ماہ رمضان میں جان بوجھ کر کلی کرئےیا ناک میں پانی ڈالے اور حلق تک پہنچائے یا غلیظ بو سونگھے یا گھر میں جھاڑو دے اور اس کے ناک اور حلق میں غبار داخل ہو جائے تو اس پر مسلسل دو ماہ کا روزہ واجب ہے کیونکہ یہ چیزیں کھانا ، پینا اور جماع کی طرح ہیں جوروزہ کو توڑ دیتی ہیں"

اس موضوع میں مناسب یہ ہے کہ ہم کہیں کہ کفارہ کو دینا ترجیح رکھتا ہے ۔ اگر ترجیح کی قابلیت ہو ۔ اس دلیل کے ساتھ کہ الفاظ میں جملے کی سیاق کلی کرنےاورناک میں پانی ڈالنے اورعطر کےخوشبو کرنے کو شامل ہے جو کہ یہ موارد یقینا مبطلات روزہ میں سے نہیں ہیں ۔

یہ حکم(قول مناسب) سند روایت سے قطع نظر کہ اس میں مروزی جو کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کاموثق ہونا ثابت نہیں ہے اور اس راوی کا مضمر ہونا اوربزرگان راویوں سے نہ ہونابھی ثابت ہے وگرنہ مسئلے کا حکم واضح و روشن ہے( یعنی اگر راوی کا مضمر ہونا دور ہو جائے تو غبار مبطل روزہ میں سے ہے) ۔

پس اس بنا پر مناسب قول یہ ہے کہ اس کے قائل ہو جائے کہ گھاڑا غبارمبطل روزہ میں سے نہیں ہے

۱۶۔پورےسر کو پانی میں ڈبونا قول مشہور کے مطابق مبطل روزہ میں سےہے اور بعض کہتے ہیں کہ فقط حرمت تکلیفی ہےاور ان کی دلیل روایت محمد بن مسلم ہے جوکہ پہلے گذر چکی ہے مگریہ کہ اس کے مقابلے میں روایت اسحاق بن عمار کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع رَجُلٌ‏ صَائِمٌ‏ ارْتَمَسَ‏ فِي الْمَاءِ مُتَعَمِّداً عَلَيْهِ قَضَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ لَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاؤُهُ وَ لَا يَعُودَن "(۱۲)

ترجمہ:"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }اسحاق بن عمار سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک روزہ دار شخص جان بوجھ کر پانی میں ڈبکی لیتا ہے ۔ آیا اس پر اس دن کی قضاء واجب ہے ؟ فرمایا : اس پر قضاء واجب نہیں ہے مگردوبارہ تکرار نہ کرے "

اور بعض اوقات ممکن ہے کہ روایات کو اس طرح جمع کرئےکہ روایت اول کوروایت دوم کے قرینہ کے ذریعے سے جوکہ روزے کی قضاء کے واجب ہونے کونفی کرتی ہے تو اس کو حرمت تکلیفی پر حمل کرتے ہیں ۔

مگریہ کہ ضروری ہو جائے کہ مضر سے مراد روزہ دار کے لیے مضر ہونے پر حمل کریں ۔ نہ کہ روزے کی صحت کےلیے مضر ہونے پر حمل کریں ۔ پس اس بنا پر روزہ دار مکلف ہے اور اس طرح کا حمل بعید ہے ۔

اور بعض اس کے قائل ہیں کہ ان دو روایات کے درمیان تعارض(اختلاف ) برقرارہے یعنی ان دونوں کو جمع نہیں کر سکتے ہیں پس دوسری روایت اسحاق بن عمار کو تقیہ پر حمل کرتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجہ کا حکم روزہ کے باطل ہونے پر ہے ۔

۱۷-مائع چیزوں کے ساتھ حقنہ کرنا:سیال چیزوں سے حقنہ کرنے کی "تکلیفی حرمت(حقنہ کے حرام ہونے میں )" میں کسی قسم کوئی اشکال نہیں پایاجاتاہے جس پردلیل احمدبن محمدبن ابی نصر کی امام رضا علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

"أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع‏ أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الرَّجُلِ‏ يَحْتَقِنُ‏ تَكُونُ‏ بِهِ الْعِلَّةُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ الصَّائِمُ لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَحْتَقِنَ "(۱۳)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ} احمد بن محمد بن نصر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ ماہ رمضان میں آدمی کو کچھ تکلیف ہوتی ہے ۔کیا وہ حقنہ کرسکتا ہے ؟ فرمایا : روزہ دار کے لیے (مائع چیز سے)حقنہ کرنا جائز نہیں ہے "

اگرحقنہ کرنے سے اُس کے مایع ہونے کا حکم نہیں سمجھ میں آتاہے تو پھر ضروری ہے کہ اس حقنہ کرنے کے ساتھ مائع چیزکے ساتھ حقنہ کرنے کی قید لگائی جائے ۔اور اس پردلیل حسن بن فضال کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی یہ موثق روایت ہے :

"كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ ع مَا تَقُولُ‏ فِي‏ التَّلَطُّفِ‏ يَسْتَدْخِلُهُ‏ الْإِنْسَانُ‏ وَ هُوَ صَائِمٌ‏ فَكَتَبَ‏ لَا بَأْسَ بِالْجَامِد "(۱۴)

ترجمہ :"میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کو خط لکھا کہ اگر ایک روزےکی حالت میں ایک بتی کو اپنے اندر داخل کرے تو اس کے بارے میں آپ علیہ السلام کیا فرماتے ہیں ؟امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ جامد چیزکے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے"

اور کیا حقنہ کرنے پر روزہ کے باطل ہونے کا حکم بھی لگایاجا سکتا ہے ؟ یہ حکم لگانا بعید نہیں کیونکہ عرف میں اُن اعمال کے بارے میں جو مختلف اجزاء سے مرکب ہیں (جیسے نمازاور روزہ وغیرہ میں )نہی کا ظہور اس کے مانع ہونے اور اس کی مخالفت سے اُس عمل کے فاسد(باطل)ہونے میں ہے۔

اورجس بات سے ہمارے موقف کی تاکیدہوتی ہے وہ سائل کا حقنہ کی ضرورت کے متعلق سوال کرنا ہے۔جس کے ساتھ اس کی "تکلیفی حرمت "(حرام ہونا)کا کوئی معنی نہیں بنتا۔لہذا ضروری ہے کہ یہ کہاجائے اس کا مقصد بطلان کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنا تھا۔

۱۸۔ جان بوجھ کرقئ کرنے سے روزے کا بطلان :مشہورقول یہی ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتاہے۔اوراس پر دلیل حلبی کی امام صادق علیہ السلام سے منقول یہ صحیح روایت ہے :

"حَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا تَقَيَّأَ الصَّائِمُ‏ فَقَدْ أَفْطَرَ وَ إِنْ ذَرَعَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَتَقَيَّأَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ "(۱۵)

ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }حلبی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا :جب کوئی روزہ دار جان بوجھ کرقئی کرئے تو اس نے روزہ توڑ دیا ۔ اور اگر بے اختیار آ جائے تو پھر اپنے روزہ کو مکمل کرے "

مگر صحیح مذکور کے مقابلے میں عبداللہ بن میمون کی امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

"عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُفَطِّرْنَ الصَّائِمَ الْقَيْ‏ءُ وَ الِاحْتِلَامُ وَ الْحِجَامَة "(۱۶)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } عبداللہ بن میمون سے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جو روزہ کو باطل نہیں کرتیں : ۱ ۔قئی ۲ ۔ احتلام ۳ ۔ اور پچھنے لگوانا "

پس اس روایت میں قئی کو غیر عمدی پر حمل کرئے گے

روزہ کےصحیح ہونے کی شرائط:

روزہ کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔اسلام

۲۔عقل

۳۔حیض اور نفاس سے پاک ہونا

۴۔وہ سفر جس سے نمازقصرہوجاتی ہے۔سوائے اُس مسافر کے کہ جو یاتو حکم سے جاہل ہےیااپنے وطن سے یا اُس جگہ سے جو اس کے وطن کے حکم میں ہے زوال کے بعد نکلا ہےیاپھر زوال سے پہلے اپنے وطن یااُس جگہ پہنچ جائے ،جہاں اس نے (دس دن یا اس سے زیادہ دن )ٹھرنے کا ارادہ کر رکھاہے ۔

۵۔اور نقصان دہ مرض ہو تو ان موارد میں روزہ دار کا روزہ صحیح ہے ۔

یہ بات ثابت ہونے کے لیے بیماری کے نقصان دہ ہونے کا ڈر کافی ہے ۔ اور ماہر اور قابل اعتماد ذاکٹر کی بات بھی (اس سلسلے میں ) حجت ہے

مذکورہ احکام کےدلائل :

۱۔اسلام

روزہ کے صحیح ہونے کی شرط میں سے ایک اسلام ہے اور اس پر دلیل اجماع ہےاور بعض اوقات اس پر قرآن کی اس آیت کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے ۔

( وَ مَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنهْمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللَّهِ وَ بِرَسُوله ) (۱۷)

ترجمہ: اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے۔

اس آیت کے ساتھ دلیل اولویت کو ملانے کے بعد اس سےعموم کا استفادہ کیا جاسکتاہے۔(۱۸)

اور اوپر والی دلیل کے علاوہ ممکن ہے کہ ان روایات سے بھی یہ حکم ثابت کیا جو ولایت (امیر المئومنین اور اولاد امیر المئومنین ) کو روزہ کے صحیح ہونےکے لیےشرط جانتی ہیں کیونکہ کافر ولایت کو نہیں مانتا ہے جس پر دلیل عبدالحمید بن ابی العلاءکی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

" عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَ كَذَلِكَ‏ هَذِهِ‏ الْأُمَّةُ الْعَاصِيَةُ الْمَفْتُونَةُ بَعْدَ نَبِيِّهَا ص وَ بَعْدَ تَرْكِهِمُ الْإِمَامَ الَّذِي نَصَبَهُ نَبِيُّهُمْ ص لَهُمْ فَلَنْ يَقْبَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَمَلًا وَ لَنْ يَرْفَعَ لَهُمْ حَسَنَةً حَتَّى يَأْتُوا اللَّهَ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ وَ يَتَوَلَّوُا الْإِمَامَ الَّذِي أُمِرُوا بِوَلَايَتِهِ وَ يَدْخُلُوا مِنَ الْبَابِ الَّذِي فَتَحَهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ لَهُمْ "(۱۹)

"ترجمہ: ابی علاء حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں ۔۔۔۔ایسا ہے کہ یہ گناہ گار لوگ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امتحان میں واقع ہو گئے اور اس کے بعد امام علیہ اسلام کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے منصوب کیا تھا لوگوں نے چھوڑ دیا ۔خدا وند عالم ان کے اعمال کو قبول نہیں کرئے گا اور کوئی نیکی ان کے لیے نہیں لکھے گا جب تک وہ راستہ جس پر خدا نے خکم دیا ہے اے کی طرف آ جائیں اور اس کی امام علیہ السلام کی طرف جس کا حکم کیا ہے اور وہ باب سے داخل ہوں جس کو خدا وند عالم نے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ نے کھولا ہے

اوراس روایت سے روزہ کی صحت کے لیے اسلام کی شرط کے ساتھ ایمان کی شرط بھی ثابت ہوتی ہے ۔

اگر اشکال ہو کہ آیت اور روایات کی دلالت قبول اعمال پرہے نہ کہ شرط صحت اعمال پر ـ جبکہ یہ دلالت محل کلام سے خارج ہے کیونکہ ہمارامحل کلام صحت عمل ہے اور اس عمل کو انجام دینے کے بعد مکلف بری الذمہ ہو جاتا ہے جیساکہ خدا وندمتعال ارشاد فرماتے ہیں کہ

( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين ) (۲۰)

ترجمہ: خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے ۔

اس کے بعد اس شرط ہونے پر "قطعی اجماع" کے علاوہ کوئی دلیل باقی نہیں رہتی ۔ اور مستزادیہ کہ بعض کافروں سے قربت کی نیت ٹھیک نہیں ہے حالانکہ عبادات میں قصد قربت شرط ہے اور یہ خدا کو مانتے ہی نہیں ہیں تو ان کا قرب حاصل کرنا بے معنی ہے ۔

۲۔ عقل کا روزہ صحیح ہونے کی شرط ہونا:

اس کی دلیل یہ ہےکہ عقل کےعلاوہ نیت ہی نہیں کی جاسکتی ہےکیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے مجنون (پاگل)مکلف ہی نہیں ہے۔پس جب اللہ کی طرف احکام اس کو شامل ہی نہیں ہیں تو اس کے بعد عقل کے روزہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہونے پر مزیدکسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

۳۔ حیض اورنفاس سے پاک ہونا:

عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ امْرَأَةٍ تَطْمَثُ‏ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ- قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ قَالَ تُفْطِرُ حِينَ تَطْمَث (۲۱)

ترجمہ :''عیص بن قاسم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک عورت کو ماہ رمضان میں غروب آفتاب سے کچھ پہلے خون حیض آ جائے تو ؟ فرمایا : جیسےہی حیض آئے اسی وقت روزہ افطار کر دے''

اور اسی طرح عبدالرحمن بن حجاج کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

سالت أبَا الْحَسَنِ ع عَنِ الْمَرْأَةِ تَلِدُ بَعْدَ الْعَصْرِ أَ تُتِمُّ ذَلِكَ الْيَوْمَ أَمْ تُفْطِرُ قَالَ‏ تُفْطِرُ وَ تَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ (۲۲)

ترجمہ:''{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } عبدالرحمن بن الحجاج سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک روزہ دار عورت نے عصر کے بعد بچے کو جنم دیا آیا وہ اس دن کا روزہ تمام کرے یا کھول دے ؟ فرمایا:کھول دے اور اس کی قضاء کرے ''

یہ حکم اوپر والی روایت کے مطابق ہے لیکن اس کے مقابلےمیں ابی بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے:

أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنْ‏ عَرَضَ‏ لِلْمَرْأَةِ الطَّمْثُ‏ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- قَبْلَ الزَّوَالِ فَهِيَ فِي سَعَةٍ أَنْ تَأْكُلَ وَ تَشْرَبَ وَ إِنْ عَرَضَ لَهَا بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَلْتَغْتَسِلْ وَ لْتَعْتَدَّ بِصَوْمِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مَا لَمْ تَأْكُلْ وَ تَشْرَبْ (۲۳)

ترجمہ :''ابو بصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں زوال آفتاب سے پہلے حائض ہو جائے تو وہ (روزہ افطار کرکے) کھا پی سکتی ہے اور اگر زوال کے بعد یہ صورت پیش آئے تو غسل کرکے اس روزہ کو شمار کرے جب تک کچھ کھایا پیا نہ ہو ''

مگر یہ روایت اصحاب امامیہ کے نزدیک متروکہ (یعنی اصحاب نے اس روایت سے دوری اختیار کی ہے ) ہےاور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا ہے پس اس روایت کا اعتبار باقی نہیں رہتاہے۔

۴۔سفر نہ کرنے کی شرط صحت روزہ ہونا:

اس پر دلیل خدا وند متعال کا یہ ارشاد گرامی ہے :

( و مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر ) (۲۴)

ترجمہ :''اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے''

دوسری دلیل روایت موثقۃ سماعہ ( اعتماد کرنا)بھی موجود ہے جو کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں ۔

سَمَاعَةَ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ لَا صِيَامَ‏ فِي‏ السَّفَرِ قَدْ صَامَ أُنَاسٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَسَمَّاهُمُ الْعُصَاةَ فَلَا صِيَامَ فِي السَّفَرِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي الْحَجِّ (۲۵)

ترجمہ :''{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } سماعہ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے ان (حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے پوچھا کہ سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے ؟ فرمایا : سفر میں روزہ نہیں ہے کچھ لوگوں نے عہد رسالت میں سفر میں روزہ رکھا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کا نام گنہگار رکھا تھا ۔ پس سفر میں روزہ نہیں ہے ماسوا حج کے ان تین روزوں کے جن کا خدا نے (تمتع میں قربانی نہ دےسکنے کی وجہ سے ) حکم دیا ہے (اور سات واپس گھر پہنچ کر کل دس روزے)''

اور اے کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں

روایت سماعہ مضمر ہے تو پھر مضمر پر استدلال کس طرح کرتے ہیں ؟

یہ اضمار نہیں ہے کیونکہ یہاں پر اضمار بزگان اصحاب کی جانب سے ہے اور روایت بیان کرنا غیر امام سے ان کے لائق نہیں ہے

۵۔ شرط صحت روزہ میں سےایک یہ ہے کہ مکلف کاسفر نمازکےقصرہونےکاموجب بنے ۔اس پر دلیل روایت معاویہ بن وھب کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

''مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: هَذَا وَاحِدٌ إِذَا قَصَرْتَ‏ أَفْطَرْتَ‏ وَ إِذَا أَفْطَرْتَ قَصَرْتَ'' (۲۶)

ترجمہ :''{ حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }معاویہ بن وھب سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیا السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا : سلسلہ ایک ہے ۔ جب نماز قصر کرو تو روزہ افطار کرو اور جب روزہ افطار کرو تو نماز قصر کرو ''

۶۔اگر کوئی مسافر سفر کے دوران افطارکے حکم سے جاہل ہے یعنی نہیں جانتا کہ مسافر کا روزہ سفر میں درست نہیں ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے جس پر دلیل عیص بن قاسم کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

عن صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عِيصِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ‏ صَامَ‏ فِي‏ السَّفَرِ بِجَهَالَةٍ لَمْ يَقْضِه (۲۷)

ترجمہ:''صفوان بن یحیی نےعیص بن قاسم سے روایت کی ہے جوکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کرتے ہیں فرمایا :جب کوئی شخص ماہ رمضان میں سفر کرے تو روزہ افطار کرے گا اور اگر جہالت ولاعلمی کی وجہ سے رکھے تو اس کی قضاء نہیں کرے گا ''

اس کے علاوہ دوسری روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مذکورہ بالا روایت مطلق ہے (کسی قسم کی قید نہیں لگائی گئی ہے )اس لیے کہ یہ اس شخص کو بھی شامل ہوتی ہے جس کو سرے سے ہی حکم معلوم نہیں ہے اور اس کو بھی جس کو اصل حکم تو معلوم ہے لیکن بعض خصوصیات کا علم نہیں ہے ۔مثلا اس کو یہ علم نہیں ہے کہ زوال سے پہلے سفر کرے اور زوال کے بعد واپس لوٹے اس کا روزہ نہیں ہوتا ۔

۷۔اگر مسافر بعد از زوال اپنے وطن سے حرکت کرے تو اس کا روزہ صحیح ہےاس کے لیے روزہ توڑنا حرام ہے ۔ لیکن جو شخص زوال سےپہلےسفرکرئے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور یہ مشہور فقہاء کا نظریہ ہےجس پر دلیل عبید بن زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی یہ صحیح روایت ہے :

''عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي الرَّجُلُ‏ يُسَافِرُ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ يَصُومُ أَوْ يُفْطِرُ قَالَ إِنْ خَرَجَ قَبْلَ الزَّوَالِ فَلْيُفْطِرْ وَ إِنْ خَرَجَ بَعْدَ الزَّوَالِ فَلْيَصُمْ فَقَالَ يُعْرَفُ ذَلِكَ بِقَوْلِ عَلِيٍّ ع أَصُومُ وَ أُفْطِرُ حَتَّى إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عُزِمَ عَلَيَّ يَعْنِي الصِّيَام ''(۲۸)

ترجمہ : عبید بن زرارہ سے مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جو شخص رمضان کے مہینے میں سفر کرئے تو کیا وہ روزہ رکھے گا یا روزہ توڑ دے گا ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : اگر زوال سے پہلے سفر کرے تو افطار کرے اور اگر زوال کے بعد نکلے تو پھر روزہ مکمل کرے ۔ پھر فرمایا : یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوتی ہے ، فرمایا : میں روزہ رکھتا ہوں اور (بوجہ سفر) افطار کرتا ہوں مگر جب زوال ہو جائے تو پھر مجھ پر ضروری ہو جاتا ہے یعنی روزہ ''

لیکن زرارہ کی صحیح روایت کے مقابلے میں علی بن یقطین کی حضرت امام کاظم علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

''عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى ع‏ فِي الرَّجُلِ‏ يُسَافِرُ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ أَ يُفْطِرُ فِي مَنْزِلِهِ قَالَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ فِي اللَّيْلِ بِالسَّفَرِ أَفْطَرَ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ وَ إِنْ لَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ مِنَ اللَّيْلَةِ ثُمَّ بَدَا لَهُ فِي السَّفَرِ مِنْ يَوْمِهِ أَتَمَّ صَوْمَهُ ''(۲۹)

ترجمہ : ''صفوان حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا :اگر کوئی شخص اپنے گھر (کوفہ) سے نہروان کے سفر کے ارادہ سے نکلے کہ جائے گا اور واپس آے گا تو اسے چاہیے کہ رات کو سفر کرنے اور روزہ افطار کرنے کی نیت کرے لیکن اگر اس حالت میں صبح کرے کا سفر کا کوئی ارادہ نہ ہو ہاں البتہ صبح کے بعد ارادہ کرے تو (نماز تو ) قصر کرے گا لیکن اس دن روزہ افطار نہیں کرے گا''

پس امام کاظم علیہ السلام نے افطار اور عدم افطار میں وجود نیت کو ملاک جانا ہے جوکہ اس نے سفر سے پہلے رات کو کیا ہو

اگر ان دو روایتوں کے درمیان تعرض (ٹکراؤ ) ثابت ہو جائے تو اول کو ترجیح دیں گے کیونکہ پہلی روایت تقیہ کے مخالف ہے پس اس سے قول مشہور بھی ثابت ہو جائے گا ۔

۸۔مشہور تفصیل کے قائل ہیں کہ اگر مسافر اپنے وطن کو قبل از زوال پلٹ ائے اور کچھ کھایا پیا نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ا اور اسی طرح اگر مسافر بعد از زوال اپنے وطن واپس پلٹ آئے تواس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے جس پر دلیل ابی بصیر کی حضرت امام صادق علیہ السلام سےمروی یہ موثق روایت ہے:

''أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنِ‏ الرَّجُلِ‏ يَقْدَمُ‏ مِنْ‏ سَفَرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ- فَقَالَ إِنْ قَدِمَ قَبْلَ زَوَالِ الشَّمْسِ فَعَلَيْهِ صِيَامُ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ يَعْتَدُّ بِهِ'' (۳۰)

ترجمہ :''{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } ابو بصیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے ان ( حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا کہ جس نے رمضان کے مہینے میں سفر کیا ہے اور گھر واپس لوٹ آیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اگر زوال سے پہلے پہنچ جائے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے اور اسے ماہ رمبارک کا روزہ شمار بھی کرے گا ''

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

لیکن اپنے وطن کو پہنچنے سے پہلے اس کو اختیار ہے کہ روزہ رکھے یا افطار کرئے جس پر دلیل محمد بن مسلم کی حضرت امام باقرعلیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

''مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنِ الرَّجُلِ يَقْدَمُ‏ مِنْ‏ سَفَرٍ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ فَيَدْخُلُ أَهْلَهُ حِينَ يُصْبِحُ أَوِ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ قَالَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَ هُوَ خَارِجٌ وَ لَمْ يَدْخُلْ أَهْلَهُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ صَامَ وَ إِنْ شَاءَ أَفْطَرَ'' (۳۱)

ترجمہ : ''محمد بن مسلم بیان کرتےہیں کہ میں نےحضرت امام باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص ماہ رمضان میں سفر سے واپس گھر آرہا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ چاشت کے وقت یا اس سے کچھ دیر بعد گھر پہنچ جائے گا تو ؟ فرمایا : اگر اسے گھر پہنچنے سے پہلے راستہ میں طلوع فجر ہو جائے تو اسے اختیار ہے چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو (سفر میں) افطار کرے ''

اس روایت میں امام علیہ السلام اختیار کو بیان فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی اپنے وطن کے حد ترخص تک نہیں پہنچا تو وہ مختار ہے چاہے افطار کرے یا نہ کرے ۔اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں

۹۔اگر کوئی مسافر سفر کرئے اور اس علاقے یا شہر میں داخل ہو جائے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اقامت (یعنی دس دن کے ٹھرنے) کاقصد کرئے تو چاہے وہ شخص محل اقامت میں قبل از طلوع فجر یا قبل از زوال داخل ہو دونوں حالتوں میں اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ۔جس پر دلیل روایت صحیحہ محمد بن مسلم ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلامسے نقل فرماتے ہیں :

''مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: فَإِذَا دَخَلَ‏ أَرْضاً قَبْلَ‏ طُلُوعِ الْفَجْرِ وَ هُوَ يُرِيدُ الْإِقَامَةَ بِهَا فَعَلَيْهِ صَوْمُ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ إِنْ دَخَلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ عَلَيْهِ وَ إِنْ شَاءَ صَامَ ''(۳۲)

ترجمہ :''{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسلم سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا : جب کوئی مسافر طلوع فجر سے پہلے کسی ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دس روزہ قیام کا پروگرام ہو ۔ تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہے اور اگر طلوع فجر کے بعد وہاں پہنچے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور اگر چاہے تو رکھ لے ''

اس روایت کے مقابلے میں قول مشہور ہے جو کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا واجب ہے اگرچہ قبل زوال پہنچا ہو اور فرق نہیں کرتا ہے کہ قبل از طلوع فجر ہو یا بعد از طلوع فجر ہو ۔

تو اس صورت میں احتیاط مقتضی دلیل ہے چونکہ احتیاط کی وجہ سے قول مشہور کی مخالفت سے اور روایت صحیحہ کی مخالفت سے بچ جائیں گے ۔

۱۰۔ بیمارنہ ہو( یعنی روزہ رکھنا اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو) جیسا کہ خداوندہ متعال فرماتے ہیں:

( وَ مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (۳۳)

ترجمہ:''اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے''

اور تمام روایات شریفہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرض روزہ دار کے لیے نقصان دہ ہو اگرچہ دلائل میں اس سے انصراف کیا ہے اور روایات میں اس کی تصریح کی گئی ہے جیساکہ صحیح محمد بن مسلم میں ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں :

''قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَدُّ الْمَرِيضِ‏ إِذَا نَقِهَ فِي الصِّيَامِ فَقَالَ ذَلِكَ إِلَيْهِ هُوَ أَعْلَمُ بِنَفْسِهِ إِذَا قَوِيَ فَلْيَصُم'' (۳۴)

ترجمہ: ''{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ }محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نےحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بیماری کی وہ حدکون سی ہے جو اسے روزہ سے کمزور کرتی ہے ؟فرمایا : وہ اپنی طبیعت کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے پس جب طاقت ہو تو روزہ رکھے ''

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

پس اگر اس کے لیے مرض نقصان دہ ہے اور جانتا ہے کہ روزہ رکھنے کی قدرت نہیں ہے یا ضرر کا خوف ہو تو اس پر روزہ رکھنا لازمی نہیں ہے.

۱۱۔ روزہ دار کے لیے مرض سے خوف کا ہونا کافی ہےاوردلیل عقلائی مرض کے نقصان کو مشخص کرنے کے باب سے اس پر دلالت کرتی ہے اور اےس کے علاوہ شارع نے بھی اس کو رد نہیں کیا ہےاور اس پر روایت صحیح حریز بھی ہے جوکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں :

''مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّائِمُ‏ إِذَا خَافَ‏ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الرَّمَدِ أَفْطَرَ ''(۳۵)

ترجمہ : ''{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ } حریز سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا: روزہ دار کو جب آشوب چشم کی وجہ سے

آنکھوں کا خطرہ ہو تو روزہ افطار کر سکتا ہے ''

پس اس بنا پر جو دلائل مرض کے خوف کے لیے ذکر کیے گئے وہ روزہ کو افطار کرنے کے لیے حجت ہیں ۔

۱۲۔ اگرماہر ڈاکٹر کہے تو طریقہ عقلائی کی بنا پر اس کی بات حجت ہوگیاور اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتا ۔ پس وہ ماہر ڈاکٹر کی بات کو مانے گا جب مریض کو ڈاکٹر کی بات پر اعتماد اور اطمینان حاصل ہو تو اس صورت میں روزہ نہ رکھے کیونکہ ضرر کی تشخص کے باب میں بیان ہوا ہے جس سے شارع نے نہیں روکا ہے اور ہاں اگر اس کی بات پر یقین حاصل نہ ہو تب بھی حجت ہے فقط دو صورتوں میں ماہر ڈاکٹر کی بات حجت نہیں ہو گی

ا۔ اگر آپ جانتے ہو کہ ڈاکٹر نے اشتباہ کیا ہے تو آپ نے علم پر عمل کریں گے کیونکہ حجت ذاتی ہے

ب۔ اور اگر اطمینان ہو کہ ماہر ڈاکٹر نے اشتباہ کیا ہے تو ڈاکٹر کی بات حجت نہیں ہے کیونکہ حجت شرعی اس کے خلاف ہے بس اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ضرر کا خوف مریض کے لیے دو راستوں سے ثابت ہو جاتا ہے خوف وجدانی سے اور ماہر ڈاکٹر کی قول سے ۔

سوال:ایا ہر قسم کا خوف روزہ نہ رکھنے کا موجب ہے ؟

جواب:نہیں ہر قسم کا خوف روزہ نہ رکھنے کا موجب نہیں بنتا ہے بلکہ نقصان کا خوف عقلائی ہو یعنی کوئی اور فرد اس جگہ پر کیوں نہ ہو اگر اس قسم کا خوف رکھتا ہو کیونکہ روایت حریز میں قید (ضرر خوف اگر منشاء عقلائی ہو)سے منصرف ہے

سوال:دلیل اطلاق سب کو شامل ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب:ہماری دلیل فقط سیرہ عقلائی ہے جس کو روایت میں بھی مد نظر رکھا گیا ہے پس ضروری ہے کہ حتی الامکان یقین پر اکتفا کریں کیونکہ یقین کے علاوہ اقتضاء نہیں کرتا ہے


4

5

6

7