دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ) مؤلف:
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: مشاہدے: 10640
ڈاؤنلوڈ: 2491

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10640 / ڈاؤنلوڈ: 2491
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زکات فطرہ

زکات فطرہ بالغ پر ، عاقل پر، ازاد پر اور وہ شخص جوکہ زکات کے واجب ہونے کے وقت بیہوش نہ ہو تو زکات ان پر واجب ہو گی ۔

مشہور کا عقیدہ یہ کہ تمام شرائط کا ایک لحظے میں قبل از تحقق غروب عید فطر کی رات ہے اور مشہور ہے کہ زکات فطرے کے واجب ہونے کا پہلہ لحظہ غروب عید فطر کی رات ہے اور وہ شخص جس نے عید فطر کی نماز نہیں پڑھی تو زکات فطرہ کا آخری لحظہ عید کے دن ظہر کے زوال کاہونا ہے ۔

اگر زکات فطرہ واجب ہونے کے وقت عزل (زکات فطرہ کو جدا کرے)کرے اور اس زکات فطرہ کو تاخیر سے دینا عقلائی طور پرجائز ہے کیونکہ زکات جدا کرنے سے معین ہو جاتا ہے ۔

زکات کا نکالنا ہر مکلف آپ نے طرف سے اوران اشخاص کے طرف سےجن کا وہ کفیل ہے نکالنا واجب ہے جیساکہ مہمان کا زکات ، لیکن اس صورت میں جب ان پر عیلولہ(نفقہ اور کفالت )صدق کرے تو زکات واجب ہو گی زکات فطرہ کی مقدار ایک صاع جوکہ تین کلو گرام عوام ناس میں غالبا مشہور ہے اور اس زکات فطرہ کی قیمت بھی ادا کرنا جائز ہے اور اے کا استعمال بھی زکات کے استعمال کی طرح ہے ۔

دلائل

۱ ۔ تین دلیل کے ساتھ زکات فطرہ واجب ہے اور زکات فطرہ زکات مال کے مقابلے میں ہےاور یہ مسّلما ت میں سے ہے اور اس پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض کو بعد میں بیان کیا جائے گا

اسی طرح آیت کی تفسیر کی گئی ہے جیساکہ قرآن میں خداوندعالم ارشاد فرماتے ہیں

( قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكى وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلى ) (۹۴)

ترجمہ :"بے شک پاکیزہ رہنے والا کامیاب ہو گیا 'جس نے آپ نے رب کے نام کی تسبیح کی اور پھر نماز پڑھی "

یہ آیت زکات کے واجب ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے

ب ۔ اور دوسری دلیل روایات سے ثابت ہے(۹۵) اور اس آیت کی روایات میں اس طرح تفسیر کی گئی ہے کہ:

" وہ لوگ سچے ہو گئے جن لوگوں نے زکات فطرہ ادا کیا اور آپ نے خدا وندہ متعال کو یاد کیا پھر عید کی نماز پڑھی"

زکات فطرہ واجب ہونے کی شرائط اور دلائل

۱۔۲ عقل اور بلوغ

۲ ۔ زکات فطرہ کےواجب ہونے میں شرط بلوغ وعقل پردو دلیلیں ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

ا ۔ مقتضی قاصر ہے کیونکہ خطابات بچے اور مجنون کو شامل نہیں ہوتا ہے

ب ۔ حکومت حدیث (رفع القلم)(۹۶) رفع زکات پر دلالت کرتی ہے حدیث رفع اطلاق پر دلالت کرتی ہے اور احکام تکلیفی و وضعی اور عاقبت اخروی کو شامل ہوتی ہے حاکم کی دلیل (حدیث رفع )حالت تفسیری میں اور دلیل پر نظارت محکوم ہے جوکہ زکات فطرہ پر دلالت کرتی ہے ۔

۳ ۔ استطاعت

زکات فطرہ کے واجب ہونے میں سے ایک شرط مالدار ہونا ہے کہ اس قدر اس شخص کے پاس مال ہو کہ وہ آپ نے سال بھر کا خرچہ پورہ کر سکتا ہو تو اس صورت میں فقیر پر زکات واجب نہیں ہے جیساکہ حلبی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سُئِلَ‏ عَنْ‏ رَجُلٍ‏ يَأْخُذُ مِنَ الزَّكَاةِ عَلَيْهِ صَدَقَةُ الْفِطْرَةِ قَالَ لَا "(۹۷)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ} حلبی سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آ پ سے پو چھا گیا کہ جو شخص خود زکوۃ وصول کرتا ہے ( اورن آپ نی گزر اوقات کرتا ہے ) آیا اس پر فطرہ واجب ہے ؟ فرمایا : نہ "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مگر اس کے مقابلے میں زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے صحیح روایت ہے :

"زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ الْفَقِيرُ الَّذِي‏ يُتَصَدَّقُ‏ عَلَيْهِ هَلْ عَلَيْهِ صَدَقَةُ الْفِطْرَةِ فَقَالَ نَعَمْ يُعْطِي مِمَّا يُتَصَدَّقُ بِهِ عَلَيْهِ "(۹۸)

ترجمہ:"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } زرارہ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ فقیر و محتاج جیسے صدقہ دیا جاتا ہے ۔ آیا خود اس پر فطرہ ہے ؟ فرمایا : ہاں اسی سے فطرہ دے جو اسے صدقہ دیا گیا ہے "

اول روایت نص ہے جوکہ زکات کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے اور دوسری روایت ظاہر وجوب زکات پر دلالت کرتی ہے پس تو اس صورت ممکن ہے کہ دوسری روایت کو استحباب پر حمل کریں ۔

۴ ۔ آزاد ہو

آزاد ہونے کی شرط زکات واجب ہونے کے لیے اس کی دلیل یہ ہے کہ غلام فقیر ہے اور ممکن نہیں ہے کہ غلام مالک ہو جائے اور اگر اس دلیل کو بھی قبول نہ کریں تو تنہا دلیل ہمارے پاس تسالم ہے ۔

۵ ۔ پاگل نہ ہو

مشہور ہے کہ جس مال کے اوپر زکات واجب ہوئی ہے اس کا مالک تمام وقت (عید فطر کے غروب کے رات سے لے کر عید فطر کے زوال تک)با ہوش ہو اور اگر تمام وقت باہوش نہ ہو بلکہ کچھ وقت با ہوش ہو تو اس پر بھی زکات واجب نہیں ہے لیکن قول مشہور کے بارے میں ہمارے پاس دلیل نہیں ہے اور فقط اطلاق کی دلالت اس کو شامل ہو گی ۔

اشکال : اگر کوئی شخص زمان بے ہوشی کی حالت میں زکات فطرہ ادا نہیں کر سکتا تو جب ہوش میں آ جائے تو زکات فطرہ کی قضاء کرئے گا یا نہیں ؟

جواب :تکلیف قضاء دلیل خاص کا محتاج نہیں ہے اور اس قسم کی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے اور اگر وجوب قضاء میں شک کریں تو اس صورت میں قاعدہ اصل براءت جاری ہو گی ۔

اور وہ جو کہا گیا ہے اس بنآپ ر وہ شخص جو سویا ہوا ہے اور وہ شخص جس کے پس شرعی عذر ہو مثلا غافل شخص اور وہ شخص جو بھول گیا ہو ، اگر ان اشخاص کا عذر زکات فطرہ کے واجب ہونے کے وقت ہو تو ان پر زکا ت فطرہ واجب نہیں ہے لیکن جب اجماع دلیل کے خلاف حکم نہ کرئے ۔

ایک مسئلہ

مشہور ہے کہ اگرشرائط وجوب زکات فطرہ ایک لحظے کے لیے قبل از غروب عید فطر کی رات حاصل ہو جائے تو زکات واجب ہو گی اس کو صدوق علیہ الرحمہ نے علی بن ابی جعفر سےروایت میں نقل فرمائی ہے جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي الْمَوْلُودِ يُولَدُ لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَ الْيَهُودِيِّ وَ النَّصْرَانِيِّ يُسْلِمُ لَيْلَةَ الْفِطْرِ قَالَ‏ لَيْسَ‏ عَلَيْهِمْ‏ فِطْرَةٌ لَيْسَ الْفِطْرَةُ إِلَّا عَلَى مَنْ أَدْرَكَ الشَّهْرَ "(۹۹)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }معاویہ بن عمار سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس مولود کے بارے میں جو عید الفطر کی رات پیدا ہو۔ یا جو یہودی و نصرانی عید الفطر کی رات اسلام لائے ۔ فرمایا کہ ان پر فطرہ نہیں ہے ۔ ہاں فطرہ صرف اس پر ہے جو ماہ رمضان کو درک کرئے "

پس اس بناء پر کہ روایت کے خاص ہونے کے بغیر واضح دلالت کرتی ہے کہ مکلف پر ماہ رمضان کا درک کرنا واجب ہے۔

پس اس بناء پر کہ مشہور شرط جانتے ہیں کہ تمام واجب ہونے کی شرائط ماہ رمضان میں قبل از غروب حاصل ہو جائیں اگرچہ عید فطر کی رات آخری لحظ میں حاصل ہو ں اور اس شخص میں واجب ہونے کے شرائط جمع ہوں اور اس میں تسلسل ہو تاکہ اس شخص پر صدق کرئے کہ اس نے ماہ رمضان کو درک کیا ہے اور شرائط کا جمع ہونا ماہ مبارک کے بعد کافی نہیں ہے ۔

فطرہ نکالنے کا وقت

ابتدائی وقت زکات فطرہ کے واجب ہونے کے لیے عید فطر کی رات کے غروب کو جانا گیا ہے اس پر دلیل روایت معاویہ جو کہ پہلے بھی ذکر ہو چکی ہے دلالت کرتی ہے کہ زکات فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط قبل از غروب اور اس کا تسلسل تا غروب ہو اور اس عبارت سے سمجھا جاتا ہے کہ زکات کے واجب ہونے کا وقت غروب ہے چونکہ اسی دلیل سے کہ شرائط کا جمع ہونا قبل از غروب شرط جانا گیا ہے ۔

۸ ۔ زکات فطرہ کے واجب ہونے کا وقت غروب عید فطر کی رات سے شروع ہوتا ہے اور عید فطر کے دن زوال تک ہے اور اس حکم پر روایت سے کوئی واضح دلیل نہیں ہے لیکن اصحاب کے درمیان مشہور یہ ہے ہاں اگر کوئی شہرت فتوائی کو حجت مانے تو ممکن ہے کہ شہرت فتوائی سے استنا و پرعمل کرئے اگرچہ دلیل نہیں ہے لیکن تحقیق بھی اس صورت میں اہمیت نہیں رکھتی ہے کیونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ اگر زکات کو عید کے ظہر تک جدا(عزل) نہیں کیا ہے تو بعد از ظہر زکات فطرہ کو جدا کرئے جس پر دلیل زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي رَجُلٍ‏ أَخْرَجَ‏ فِطْرَتَهُ‏ فَعَزَلَهَا حَتَّى يَجِدَ لَهَا أَهْلًا فَقَالَ إِذَا أَخْرَجَهَا مِنْ ضَمَانِهِ فَقَدْ بَرِئَ وَ إِلَّا فَهُوَ ضَامِنٌ لَهَا حَتَّى يُؤَدِّيَهَا إِلَى أَرْبَابِهَا (۱۰۰)

ترجمہ:"زرارہ بن اعین حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں جس نے مستحق کے ملنے تک فطرہ الگ کرکے رکھ دیا تھا ۔ فرمایا : جب آپ نی ذمہ داری پر علیحدہ کر دے تو وہ برئ الذمہ ہو جائے گا ۔ اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو مستحقین تک پہنچانے کا ضامن ہو گا "

اور اس صحیح روایت سے مدد لی جاتی ہے کہ زکات فطرہ کے واجب ہونے کے وقت میں زوال کے بعد تسلسل پایا جاتا ہے ۔

اور اگر کوئی شخص عید فطر کی نماز پڑھے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ زکات فطرہ کو نماز پڑھنے سے پہلے جدا کرئے جس پر دلیل اسحاق بن عمار کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے موثق روایت ہے :

"إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ وَ غَيْرِهِ قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَنِ‏ الْفِطْرَةِ فَقَالَ إِذَا عَزَلْتَهَا فَلَا يَضُرُّكَ مَتَى أَعْطَيْتَهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ أَوْ بَعْدَ الصَّلَاةِ "(۱۰۱)

ترجمہ :"اسحاق بن عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فطرہ کے متعلق سوال کیا ؟ فرمایا : جب اسے علیحدہ کر دیا جائےتو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نماز عید سے پہلے دیا جائے یا نمازکے بعد "

۹ ۔ اگر زکات فطرہ کو جدا کیا ہے تو عقلائی نقطہ نظر کی بنا پر زکات فطرہ کو تاخیر سے دینا جائز ہے جس پر دلیل اسحاق بن عمار کی روایت پہلے گذر گئی ہے لیکن تاخیر میں عقلائی نقطہ نظر اس وجہ سے معتبر ہے کہ واجب کو انجام دینے میں سستی نہ ہو اور احتیاط یہ تقاضہ کرتی ہے کہ زکات فطرہ کو جلدی ادا کرئے کیونکہ یہ جانے کا احتمال ہے کہ نماز کے بعد زکات فطرہ کو دینا عرفی بعدیت( تاخیر ) ہو { یعنی عرف حکم کرتا ہے کہ زکات فطرہ کو بعد از نماز دینا ممکن ہے }

۱۰ ۔ اگر مکلف زکات فطرہ کو جدا کرئےتو زکات اسی معزول (جدا شدہ )میں متعین ہو جائے گی اور مستحقین کی ملکیت ہو جائے گی اور مکلف کے لیے اس زکات کو دوسری چیز سے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مال معزول میں تصرف پر ولایت نہیں رکھتا ہے ۔

۱۱ ۔ زکات فطرہ کےواجب ہونے کا میزان کفالت ( نان خور )ہے جیساکہ عمر بر یزید کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے : "عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ‏ الرَّجُلِ‏ يَكُونُ‏ عِنْدَهُ‏ الضَّيْفُ مِنْ إِخْوَانِهِ فَيَحْضُرُ يَوْمُ الْفِطْرِ يُؤَدِّي عَنْهُ الْفِطْرَةَ فَقَالَ نَعَمْ الْفِطْرَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مَنْ يَعُولُ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ "(۱۰۲)

ترجمہ :"عمر بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ ایک شخص کے پاس اس کا کوئی برادر ایمانی مہمان ہوتا ہے اور فطرہ کا وقت آ جاتا ہے آیا یہ اس کی طرف سے بھی فطرہ ادا کرے گا ؟ فرمایا : ہاں تمام عیال کی طرف سے فطرہ واجب ہے خواہ نر ہوں یا مادہ ، چھوٹے ہوں یا بڑے اور آزاد ہوں یا غلام "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

مہمان کا فطرہ

۱۲ ۔ اس دلیل سے مہمان کی حالت روشن ہو جائے گی کہ زکات فطرہ کا واجب ہونا مہمان کا تابغ ہے کہ اس پر کفالت صدق کرئے پس بناءبر کہ وجوب کا دارو مدار عنوان صدق عیلولہ(نان خور) ہے اور مہمان کی وضیعت بھی معلوم ہو جائے یعنی مہمان کو عرفا نان خور کہا جائے تاکہ میزبان پر زکات فطرہ واجب ہو جائے پس اگر کوئی شخص قبل از عید فطر کسی کا مہمان ہو جائے اور عیدالفطر کا دن آ جائے تو اس صورت میں اگر مہمان پر عنوان نان خور صدق آ جائے تو زکات فطرہ میزبان کو ادا کرنی ہو گی اور فقط مہمان کا عنوان صدق کرنا کافی نہیں ہے جیساکہ لازمی نہیں ہے کہ پورے ماہ رمضان مہمان ہو یا ماہ رمضان کے نصف کف بعد مہمان ہو اور یا اس کے علاوہ دوسرے اقوال بھی اس مسئلہ میں پائے جاتے ہیں ۔

فطرہ کی مقدار

۱۳ ۔ زکات کی مقدار ایک صاع (تقریبا ۳ کلو گرام )ہے جیساکہ معاویہ بن وھب کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے ہے :

"مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ فِي‏ الْفِطْرَةِ جَرَتِ‏ السُّنَّةُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعٍ مِنْ شَعِيرٍ فَلَمَّا كَانَ فِي زَفمَنِ عُثْمَانَ وَ كَثُرَتِ الْحِنْطَةُ قَوَّمَهُ النَّاسُ فَقَالَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ بِصَاعٍ مِنْ شَعِيرٍ "(۱۰۳)

ترجمہ :"معاویہ بن وھب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فطرہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا کہ فرما رہے تھے کہ اس سلسلہ میں سنت یوں جاری ہے کہ خرما کا ایک صاع یا خشک انگور کا ایک صاع یا جوکا ایک صاع ۔ ہاں عثمان کا دور تھا اور گندم زیادہ ہو گئی تھی تو انہوں نے لوگوں کے لیے جو کے ایک صاع کے متبادل گندم کا نصف صاع مقرر کیا تھا"

لیکن حلبی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے رموی صحیح روایت ہے :

"الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ‏ صَدَقَةُ الْفِطْرَةِ عَلَى كُلِّ رَأْسٍ مِنْ أَهْلِكَ إِلَى أَنْ قَالَ عَنْ‏ كُلِ‏ إِنْسَانٍ‏ نِصْفُ‏ صَاعٍ‏ مِنْ حِنْطَةٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ أَوْ زَبِيبٍ لِفُقَرَاءِ الْمُسْلِمِين "(۱۰۴)

ترجمہ :"حلبی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : صدقہ فطرہ تمہارے اہل عیال میں سے ہر شخص کی جانب سے گندم ، جو ، خرما یا خشک انگور کا نصف صاع مسلمانوں کے فقیر و نادار لوگوں کے لیے ہے "

اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

لیکن روایت حجیت سے ساقط ہیں کیونکہ اصحاب نے اس قسم کے مضامین سے دوری کی ہے اور اس پر عمل نہیں کیا ہے ۔

۱۴ ۔ مگر دارو مدار زکات یہ ہے کہ غالب کھانا لوگوں کا ہو حالانکہ اس کے باوجود بعض روایات میں چار قسم کے غلاّت آئے ہیں اور بعض قسم کی چیزوں کا بھی زکات میں ذکر ہواہے مثال کے طور پر دودھ اور پنیر وغیرہ وغیر ہ ہیں جس پر دلیل زرارہ اور ابن مسکان کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"زُرَارَةَ وَ ابْنِ مُسْكَانَ جَمِيعاً عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْفِطْرَةُ عَلَى‏ كُلِ‏ قَوْمٍ‏ مِمَّا يَغْذُونَ عِيَالَهُمْ لَبَنٍ أَوْ زَبِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ "(۱۰۵)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ ب آپ نی سند کے ساتھ } زرارہ اور ابن مسکان سے اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں فرمایا : ہر قوم کو اس چیزسے فطرہ دینا چائیے جو وہ خود کھاتے ہیں اور آپ نے اہل و عیال کو کھلاتے ہیں خواہ وہ دودھ ہو یا خشک انگور وغیرہ "

اور تمام روایات اور توجہ کے ساتھ اس روایت کو ضروری ہے کہ چار قسم کے غّلات اور اس جیسی دوسری چیزوں کو ایک مثال کے طور پر حمل کریں گے اور زکات کے مصادیق کی تعداد میں روایات میں اختلاف بھی اس حمل کی تائید کرتے ہیں ۔

۱۵ ۔ صاع کی مقدار پہلے ذکر ہو چکی ہے ہے جوکہ چار مد کے برابر ہے اور ہر مد تقریبا ۷۵۰ گرام ہے ۔

۱۶ ۔ زکات فطرہ میں غّلات کا حساب کر کے قیمت کا دینا جائز ہے جس پر دلیل عمار بن اسحاق صیرفی کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے :

"إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع جُعِلْتُ‏ فِدَاكَ‏ مَا تَقُولُ‏ فِي‏ الْفِطْرَةِ يَجُوزُ أَنْ أُؤَدِّيَهَا فِضَّةً بِقِيمَةِ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ الَّتِي سَمَّيْتَهَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ ذَلِكَ أَنْفَعُ لَهُ يَشْتَرِي مَا يُرِيدُ "(۱۰۶)

ترجمہ :" عمار بن اسحاق صیرفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں آپ علیہ السلام فطرہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آیا میں ان نام بردہ چیزوں کی بجائے بطور قیمت چاندی دے سکتا ہوں ؟ فرمایا : ہاں یہ تو اس شخص کے لیے زیادہ مفید ہے ۔ وہ اس سے جو چاہے گا ( حسب ضرورت ) خریداری کرے گا "

اور اس علاوہ دوسری روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔

فطرہ کا مصرف

۔ زکات فطرہ کا استعمال مال کی زکات کے استعمال کس ساتھ یکساں ہے کیونکہ زکات فطرہ مصادیق زکات مال اور صدقہ ہیں اور اطلاق آیت بھی اس کو شامل ہوتی ہے( انما الصدقات ) جس میں زکات کے استعمال کو مطلقا ذکر کیا گیا ہے ۔