دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)42%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ) مؤلف:
: زاہد انقلابی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی(کتاب خمس، زکات اور روزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12035 / ڈاؤنلوڈ: 3757
سائز سائز سائز

1

کتاب خمس

جن چیزوں پر خمس واجب ہے ۔

خمس سات چیزوں پر واجب ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱ ۔ جنگ کا مال غنیمت

۲ ۔ معدن

جس کی قیمت ۲۰ دینار ہو اور اگر نصاب میں شک کرے کہ ۲۰ دینار ہے کہ نہیں تواس صورت میں خمس واجب نہیں ہے اور معدن سے اخراجات نکالنے کے بعد باقی معدن خمس کے متعلق ہو جائے گی البتہ اخراجات نکالنے سے پہلے خمس کے نصاب کا حساب کیا جائے گا ۔

۳ ۔ گنج

یعنی خزانہ جس کی قیمت ۲۰ دینار یا ۲۰۰ درھم ہو اور ضروری ہے کہ گنج دینار و درھم سونے کے سکّے ہوں اور اس کا نصاب کاحساب و اخراجات لینا معدن کی طرح ہے ۔

۴ ۔غواصی کے جواہرات

دریا میں غوطہ خوری کے ذریعے سےحاصل ہونے والے جواہرات ہوں اور اس سے اخروجات نکالنے کے بعد اس کی مقدار ایک دینار ہو جائے تو اخراجات نکالنے کے بعد اس میں سے خمس دیا جائے گا۔

۵ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائے

اور مال حرام قابل شناخت نہ ہو اور اس کا مالک و مقدار بھی معلوم نہ ہو ۔

۶ ۔ وہ زمین جس کو کافر ذمی مسلمان سے خریدے ۔

۷ ۔ سالانہ زندگی کے اخراجات سے زیادہ مال ہو ۔

خمس واجب ہونے کی اشیاء اور ان کے مصارف

۱ ۔خمس کے واجب ہونے پر مندرجہ ذیل دو دلیلیں ہیں :

ا ۔ خمس کا واجب ہونا ضروریات دین میں سے ہے ۔

ب ۔ اور آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے جیساکہ خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :کہ

( وَ اعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شىَ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِى الْقُرْبىَ‏ وَ الْيَتَامَى‏ وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيل ۔۔) (۱۰۷)

ترجمہ :"اور جان لو کہ جوغنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ' اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے ۔۔"

اور آیت میں لام (لله و للرسول و ۔۔۔۔) ملکیت کے لیے ہے پس ان کا مالک اللہ ورسول ہیں تو اس بنآپ رخمس کا دینا واجب ہے تمام مسلمین اجمالا اصل خمس کے واجب ہونے کے قائل ہیں اور ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے اختلاف عمومی ہے کیونکہ اہل سنت فقط جنگ کے مال غنیمت کےقائل ہیں لیکن امامیہ عموم کے قائل ہیں یعنی جس چیز پر مال غنیمت کا عنوان صدق کرے اس پر خمس ہے اور غنائم جنگی سے غنیمت عام ہے اور اگر خمس کے وجوب کو غنائم جنگی میں منحصر کر دیں تو ہمارے زمانے میں یا تو خمس کا مصداق نہیں ہے یا تو پھر بہت کم ہے ۔

حالانکہ امامیہ کے درمیان معروف ہے کہ خمس کے موارد عام ہیں دو دلیلوں کے ذریعے سےجوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

ا ۔ لغت(۱۰۸) کے لحاظ سے غنیمت عام ہے اور غنیمت تمام فوائد کو شامل ہوتی ہے اورفقط غنائم جنگی کے ساتھ خاص نہیں ہے اور اس طرح قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے جیساکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے کہ

( تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ) (۱۰۹)

ترجمہ :"تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں "

اور آیت کی سیاق اختصاص پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ کلی مطالب کو بعض مصادیق پر تطبیق کرنا ممکن ہے ۔

ب۔ اور خاص روایات ہیں جن کو انشاءاللہ بعد میں بیان کیا جائے گا ۔

۲ ۔ جنگی غنائم پر خمس ثابت ہے جس پر دلیل قدر متیقن آیت کریمہ ہے بلکہ جنگی غنائم خمس کے موارد میں سے ہے ۔

۳ ۔ معادن پرخمس واجب ہونے میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے جس پر دلیل زرارہ کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍع قَالَ:سَأَلْتُهُ‏ عَنِ‏ الْمَعَادِنِ‏ مَا فِيهَا فَقَالَ كُلُّ مَا كَانَ رِكَازاً فَفِيهِ الْخُمُسُ "(۱۱۰)

ترجمہ :" زرارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امامحمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ معادن میں کس قدر حصہ واجب ہے ؟ فرمایا : جہاں تک رکاز (زمین کے اندرقدرتی گڑی ہوئی دھاتوں ) کا تعلق ہے ان میں خمس (پانچواں حصہ ) واجب ہے "

تمام روایات بلکہ آیت کی اطلاق غنیمت پر معادن کے واجب ہونے کے اثبات کے لیے کافی ہے ۔

۴ ۔ جب معدن کا نصاب ۲۰ دینار ہو جائے تو اس کا خمس دینا ہو گا جس پر دلیل بزنطی کی حضرت امام رضا علیہ السلام سےصحیح روایت ہے:

"أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ الْبَزَنْطِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع عَمَّا أَخْرَجَ‏ الْمَعْدِنُ‏ مِنْ‏ قَلِيلٍ‏ أَوْ كَثِيرٍ هَلْ فِيهِ شَيْ‏ءٌ قَالَ لَيْسَ فِيهِ شَيْ‏ءٌ حَتَّى يَبْلُغَ مَا يَكُونُ فِي مِثْلِهِ الزَّكَاةُ عِشْرِينَ دِينَارا "(۱۱۱)

ترجمہ "{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ ب آپ نی سند کے ساتھ }احمد بن محمد بن ابو نصر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ جو چیز معدن ( کان ) سے برآمد ہو آیا اس کی قلیل و کثیرمقدار پر کچھ واجب ہے ؟ فرمایا : جب تک اس کی مقدار اس حد تک نہ پہنچ جائے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے یعنی بیس دینار تب تک اس میں کچھ نہیں ہے ہاں جب بیس دینار تک پہنچ جائے تو اس میں خمس واجب ہے "

مگر اس روایت کا دوسری روایت سے ٹکراؤ ہے جس میں خمس کے نصاب کو ایک دینار بیان کیا گیا ہے جیساکہ حضرت امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :کہ

"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَمَّا يُخْرَجُ‏ مِنَ‏ الْبَحْرِ مِنَ اللُّؤْلُؤِ وَ الْيَاقُوتِ وَ الزَّبَرْجَدِ وَ عَنْ مَعَادِنِ الذَّ هَبِ وَ الْفِضَّةِ هَلْ (فِيهَا زَكَاةٌ) فَقَالَ إِذَا بَلَغَ قِيمَتُهُ دِينَاراً فَفِيهِ الْخُمُسُ "(۱۱۲)

ترجمہ : "محمد بن علی بن ابو عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ جو لؤلؤ( و المرجان )اور یاقوت اور زبرجد سمندر سے نکلتے ہیں اور جو سونا اور چاندی کان سے برآمد ہوتے ہیں آیا اس میں زکوۃ ہے ؟ فرمایا : جب ان کی قیمت ایک دینار تک پہنچ جائےتو اس میں خمس ( پانچواں حصہ ) واجب ہے "

ممکن ہے کہ ان دو روایتوں جمع کریں اور بعض علماء نے دوسری روایت کو استحباب پر اور اول کو وجوب پر حمل کیا ہے اگر ہماری دلیل کامل و تام نہ ہو تو اس صورت میں مجبور ہیں کہ دوسری روایت سے چشم پوشی کریں گے کیونکہ وہ روایت شاذ ہے اور اس کی نسبت کسی کو نہیں دی گئی ہے مگر ابی صلاح حلبی کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے ۔

اور بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ دوسری روایت راوی (محمد بن علی بن ابی عبداللہ) ضعیف ہے تو اس صورت میں دو روایتوں کے درمیان جمع کی دلالت کی طرف محتاج نہیں ہے کیونکہ دوسری روایت ضعیف اور اس کے ساتھ اس کا راوی بھی مجہول ہے ۔

اور ممکن ہے کہ ان کو اس طرح جواب دیا جائے : کہ جو روایات بزنطی جیسے اصحاب اجماع نقل کرتے ہیں(۱۱۳) ان میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔

۵ ۔ اگر معادن کو نکالے اور اس کے نصاب میں شک کرے تو اس پر خمس نہیں ہے ۔

اگر معادن کا نکلنا تدریجی تھا اور ابھی شک کرئے کہ نصاب تک پہنچ گیا ہے یا نہیں ۔لیکن جب معادن کی مقدار کم تھی اور یقین بھی تھا کہ مقدار نصاب تک نہیں پہنچی ہے اور جب معادن کی مقدار زیادہ ہو گئی تب بھی شک کریں کہ مقدار نصاب تک پہنچ گئی ہے کہ نہیں ، تو اس صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا یعنی معادن کی مقدار نصاب تک نہیں پہنچی ہے پس اس معادن پر خمس واجب نہیں ہے اور اس قاعدہ کو استصحاب عدم نعتی کہا جاتا ہے ۔

اگر ایک دفعہ زیادہ مقدار میں معادن خارج ہو جائے لیکن شک کریں کہ آیا مقدار نصاب تک پہنچی ہے یا نہیں ؟ معادن نکالنے سے پہلے نصاب کا وجود نہیں تھا کیونکہ معادن نکلا ہی نہیں تھا تو صورت میں استصحاب کا قاعدہ جاری ہو گا اور اس معادن پر خمس واجب نہیں ہے اور اس قاعدہ کو استصحاب عدم ازلی کہا جاتا ہے یا دلیل برات ہے البتہ اگر استصحاب کی طرف رجوع کرنا ممکن نہ ہو ۔

۶ ۔ معادن کو نکالنے کے لیے جو اخراجات کیے گئے ہیں اسے پہلے جدا کر لیا جائے اس باقی ماندہ معادن پر خمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل حضرت امام جواد علیہ السلام کی روایت ہے :

"الخُمُسُ‏ بَعدَ المَؤونَةِ "(۱۱۴)

ترجمہ :"{حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ ب آپ نی سند کے ساتھ }محمد بن حسن اشعری سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا جس میں یہ استدعا کی کہ مجھے بتائیں کہ آدمی جو کچھ کم یا زیادہ کماتا ہے اور ہر قسم کے ذریعہ معاش سے کماتا ہے اور جائیدادکی آمدنی بھی ہے آیا سب پر خمس ہے ؟ اور کس طرح ہے ؟ امام علیہ السلام نے آپ نے دسخطوں سے لکھا کہ خمس اخراجات کے بعد ہے "

یہ روایت کلی قانون کی صورت میں نقل ہوئی ہے ۔

پس اس بناء پر خمس کے واجب ہونے کا موضوع نہیں ہے مگر خمس کے واجب ہونے کا موضوع غنیمت اور فائدہ ہے اور اسی طرح آیت بھی غنیمت پر دلالت کرتی ہے معادن پر خمس واجب ہو نا اور اس جیسی دوسری چیزیں پر اس دلیل کے ساتھ ہے کہ سب غنیمت کی مصداق ہیں اور روشن ہے کہ غنیمت کا عنوان اس وقت صدق نہیں کرتا ہےجب تک معادن سے اخراجات جدا نہیں کیے ہوں ۔

۷ ۔ خمس کی نصاب کی مقدار میں مجموع کو مد نظر رکھا گیا ہے اور باقی ماندہ مقدار کی لحاظ نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے خلاف صاحب جواہر کا نظریہ {نصاب کی مقدار حق زحمت نکالنے کے بعد ہے }ہے جس پر دلیل اطلاق کا بلوغ پر دلالت کرنا ہے جوکہ روایت صحیح بزنطی میں پہلے گذر چکی ہے ۔

۸ ۔ گنج پر بغیر کسی اشکال کے خمس واجب ہوتا ہے جس پر دلیل ابن ابی عمیر ہے کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے:

"ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْخُمُسُ‏ عَلَى‏ خَمْسَةِ أَشْيَاءَ عَلَى الْكُنُوزِ وَ الْمَعَادِنِ وَ الْغَوْصِ وَ الْغَنِيمَةِ وَ نَسِيَ ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ الْخَامِسَ (۱۱۵)

ترجمہ :{حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ }آپ نی کتاب المقنع مین فرماتے ہیں کہ محمد بن ابی عمیر نے روایت کی ہے کہ خمس پانچ چیزوں مین واجب ہے ۱ ۔ خزانہ ۲ ۔ معدن ۳ ۔ غوطہ زنی ۴ ۔ غنیمت اور پانچویں چیز ابن ابی عمیر بھول گئے "

اور سند کا مرسل ہونا روایت کی صحت کو نصان نہیں پہنچاتی ہے کیونکہ اس کا راوی ابن ابی عمیر ہے

کیونکہ عرف کی دیدگاہ سے ایک کی تعبیر ایک بندہ اور زیادہ پر اطلاق ہوتی ہے اور تین بندےاور زیادہ عدد ہیں کہ احتمال حساب کے ذریعے سے اس گروہ کا جمع ہونا کذب پر محال و بعید ہے اور مشایخ کے درمیان ابن اب؛عمیر اوردیگر افراد امام عادل میں سے ہیں ۔

۹ ۔ گنج کا نصاب ۲۰ دینا ریا ۲۰۰ درھم تک ہو جائے تو اس مقدار پرخمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل بزنطی کی حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ: سَأَلْتُهُ‏ عَمَّا يَجِبُ‏ فِيهِ‏ الْخُمُسُ‏ مِنَ الْكَنْزِ فَقَالَ مَا تَجِبُ الزَّكَاةُ فِي مِثْلِهِ فَفِيهِ الْخُمُسُ "(۱۱۶)

ترجمہ :"احمد بن ابو نصر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ دفینہ کی کتنی مقدار میں خمس واجب ہوتا ہے ؟ فرمایا : جتنی مقدار میں زکوۃ واجب ہوتی ہے (یعنی بیس دینار )اس میں یہاں خمس واجب ہے "

اس کے بعد اگر قبول کریں کہ زکات واجب نہیں ہوتی ہے جب تک ۲۰ دینار یا ۲۰۰ درھم تک اس کی مقدار پہنچ نہ جائے ۔

۱۰ ۔ اور گنج کو سونا وچاندی ہونا چائیے اور وہ سکّے بازار میں رائج ہوں کیونکہ سابقہ صحیح روایت میں اس کو بیان کیا گیا ہے جیساکہ زکات غّلات اور جانوروں کے علاوہ کسی دوسری چیز پر واجب نہیں ہے اور خمس واجب نہیں ہے مگر سونا اور چاندی کے سکّوں پر جوکہ بازار میں رائج ہوں ۔

۱۱ ۔ گنج میں حق زحمت(نکالنے کے اخراجات) کا حساب معادن کی طرح ہے جوکہ بیان ہو چکا ہے ۔

۱۲ ۔ دریا میں غوطہ خوری کے ذریعے حاصل ہونے والے مال پر خمس واجب ہوتی ہے جیساکہ روایت سابقہ میں ابن ابی عمیر اور روایت صحیح عمّار جوکہ بعد میں آنے والی ہے اور اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس بات کی تائید کردی ہیں ۔

۱۳ ۔ غوطہ خوری کے ذریعے سے حاصل ہونے والے مال کے مقدار کا نصاب ایک دینار ہے جیساکہ روایت بزنطی میں محمد بن علی بن ابی عبداللہ نے ارشاد فرمایا ہے جوکہ پہلے معادن کی بحث میں بیان ہو چکا ہے ۔

۱۴ ۔ غوطہ خوری میں حق زحمت ( نکالنے کےاخراجات ) کا حساب معادن اور گنج کی طرح ہے جوکہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔

۱۵ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو اس پر بھی خمس واجب ہے جس پر دلیل عمار بن مروان کی حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ فِيمَا يُخْرَجُ‏ مِنَ‏ الْمَعَادِنِ‏ وَ الْبَحْرِ وَ الْغَنِيمَةِ وَ الْحَلَالِ الْمُخْتَلِطِ بِالْحَرَامِ إِذَا لَمْ يُعْرَفْ صَاحِبُهُ وَ الْكُنُوزِ الْخُمُسُ "(۱۱۷)

ترجمہ :"{حصرت شیخ صدوق علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } عمار بن مروان سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ فرما رہے تھے کہ جو چیز معدن سے نکلے یا سمندر سے اور مال غنیمت اور وہ مال حلال و حرام سے مخلوط ہو جائے اور اس کے مالک کا کوئی پتہ نہ چل سکے اور دفینہ ان سب میں خمس واجب ہے "

اس کے علاوہ دوسری روایات بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں ۔

۱۶ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو ضروری ہے کہ مال حرام کی مال حلال سےتمیز و تشخیص نہیں دی جائے کیونکہ اگر تشخیص دی جائے تو ہر مال کا ایک خاص حکم ہے ۔

۱۷ ۔ حلال مال جو حرام سے مخلوط ہو جائےتو اس کا مالک مجہول ہونا چائیے جس پر دلیل پہلی والی صحیح روایت ہے اور اگر مالک معلوم ہو تو اس صورت میں اس کے ساتھ مصلحت کریں گے تاکہ مجہول مال کی مقدار معین کر سکیں ۔

۱۸ ۔ مال حرام کی مقدار بھی معلوم نہیں ہونی چائیے کیونکہ اگر معلوم ہو جائے کہ خمس سے زیادہ ہے یا کم ہے تو اس صورت میں یہ احتمال نہیں دی جا سکتا ہے کہ اس پر خمس واجب ہو کیونکہ خمس اس وقت واجب ہوتا ہے بلکہ پہلی والی صحیح روایت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص مال حرام کی مقدار کے بارے میں مطـلقا جاہل ہو تو تب تمام مال کا خمس دے گا ۔

۱۹ ۔ وہ زمین جس کو کافر ذمی مسلمان سے خریدےتو اس پر خمس واجب ہے جس پر دلیل ابی عبیدۃ حذاءسے کی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ أَيُّمَا ذِمِّيٍ‏ اشْتَرَى‏ مِنْ‏ مُسْلِمٍ‏ أَرْضاً فَإِنَّ عَلَيْهِ الْخُمُسَ "(۱۱۸)

ترجمہ :{ حضرت شیخ طوسی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }ابو عبید ۃ الحذاء سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ فرما رہے تھے جو کافر ذمی کسی مسلمان سے زمین خرید لے اس پر خمس لازم ہے "

۲۰ ۔ زندگی کے سالانہ نفقہ کے خرچہ سے جو باقی(نفع) بچ جائے اس پر خمس واجب ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن ابن جنید اسکافی اور ابن ابی عقیل عمانی جوکہ قدماء میں مشہور ہیں ان کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ مال زائد پر خمس واجب نہیں ہے لیکن ان دونوں فقیہ کی طرف سے علّامہ کی کتاب مختلف میں موجود ہے لیکن عدم وجوب خمس کو واضح طور پر دیکھا نہیں گیا ہے ۔(۱۱۹)

آیت غنیمت کے اطلاق کے علاوہ حد تواتر تک پہنچنے والی وہ خاص روایات ہیں جوکہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں جیساکہ سماعہ کی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی موثق روایت ہے ۔

"سَمَاعَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ ع عَنِ الْخُمُسِ فَقَالَ فِي‏ كُلِ‏ مَا أَفَادَ النَّاسُ‏ مِنْ‏ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ "(۱۲۰)

ترجمہ :"{حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ } سماعہ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے خمس کے متعلق سوال کیا ؟ فرمایا : جوکہ کچھ لوگ کم یا زیادہ کماتے ہیں اس میں خمس واجب ہے "

اور ہو سکتا ہے کہ اس موثق کو روایات دیگر مثلا ( الخمس بعد المؤونۃ) کے ساتھ مقید کریں اور اسی طرح جیساکہ صحیح علی بن مھزیار میں یہ قید بیان کی گئی ہےاور یہ روایت ایک خط ہے کہ ابراھیم بن محمد الھمدانی نے امام علیہ السلام کو خط لکھا اور امام علیہ السلام اس خط کے جواب میں فرمایا جوکہ علی بن مھزیار نے دیکھا اور پڑھا اور امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :کہ

"فَكَتَبَ وَ قَرَأَهُ عَلِيُّ بْنُ مَهْزِيَارَ- عَلَيْهِ‏ الْخُمُسُ‏ بَعْدَ مَئُونَتِهِ وَ مَئُونَةِ عِيَالِهِ وَ بَعْدَ خَرَاجِ السُّلْطَانِ "(۱۲۱)

ترجمہ :"ابراہیم بن محمد ہمدانی نے ان ( امام علی نقی علیہ السلام ) کو خط لکھا کہ علی (مہزیار ) نے مجھے آپ کے والد ماجد ( امام محمد تقی علیہ السلام ) کی تحریر پڑھائی ہے امام علیہ السلام نےان کے جواب میں لکھا جسے علی بن مہزیار نے بھی پڑھا کہ اس کے اور اس کے اہل وعیال کے اخراجات اور حاکم کے خراج کے بعد ( بچت ) پر خمس ہے "

اگرچہ ھمدانی کا موثق نہ ہونا روایت کو نقصان نہیں پہنچاتاہے کیونکہ علی بن مھزیار نے خود امام علیہ السلام کے جواب کو پڑھا ہے ۔

اور اس طرح یہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مسائل کا مبتلی بہ ہونا اور یہ کہ لوگوں کا اس مسئلہ سے سروکار ہے آپ س اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام لوگوں کے لیے امام علیہ السلام کے زمانے میں خمس کا حکم روشن ہو حالانکہ یہ احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا ہے کہ واضح حکم واجب نہیں ہو اور اگر سال بھر کے خرچہ سے زائد مال پر خمس کا حکم واجب نہ ہوتا تو اس پر تمام فقھاء نے اتفاق نہ کیا ہوتامگر بعض قدماء نے اتفاق نہیں کیا ہے ۔

پس اس بناء پر لازمی ہو جاتا ہے کہ مسئلہ کا حکم واجب ہے ۔

زندگی کے سالانہ اخراجات سے زائد مال پر خمس کے خاص احکام

تمام وہ فائدہ جو سالانہ آپ نے اہل وعیال کے اخراجات پر صرف کرنے کے بعد بچ جائے تو اس زائد مال پر خمس واجب ہے اگرچہ وہ مال کسب وکاروبار کے ذریعے حاصل نہیں کیا گیا ہو لیکن مشہور اس کے خلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ مال جو کسب وکاروبار کے ذریعےسے حاصل ہو تو اس پر خمس واجب ہے ۔

ہاں اگر میراث کے ذریعے مال حاصل ہوجو عام طور پر وراثت کے ذریعے سے ملتا ہے ۔

اور تحفہ وھدیہ کے ذریعے مال حاصل ہو لیکن وہ قیمتی نہ ہو ۔

اور مہر و عوض طلاق خلع جو شوہر کو بیوی کی طرف سے ملے تو ان تمام حالتوں میں خمس واجب نہیں ہے ۔ البتہ سال بھر کے اخراجات جدا کرنے کے بعد ہو ۔

اور جب کوئی شخص بغیر کسب وکاروبار کے علاوہ پہلی منفعت حاصل کرے تووہی اس کا خمس کا سال ہو گا اور وہ شخص جو کسب وکاروبار کو شروع کرئےاورمنفعت حاصل ہوتے ہی اس کا مال خمس کے متعلق ہو جائے گااگرچہ خمس کو سال کے آخر تک دینا اس کے لیے جائز ہے کیونکہ شارع نے اس میں نرمی و ارفاق کیا ہے ۔

بچے اور پاگل کے مال پر خمس واجب نہیں ہے ۔

دلائل:

۱ ۔ فائدہ حاصل کرنے کے بعد سالانہ اخراجات کو نکال کر خمس دیا جاتا ہے جس پر دلیل آیت کا اطلاق تر دلالت کرنا اور بعض روایات جیساکہ سماعہ کی موثق روایت ہے جو پہلے گذر چکی ہے ۔

احتمال یہ دیتے ہیں کہ خمس اس فائدے کے ساتھ خاص ہے جوکہ کسب وکاروبار کے ذریعے سے حاصل ہو یا اس احتمال کا دعوی اجماع ہے یا اس دلیل کے ساتھ ہےکہ مسئلہ ابتدائی ہے کیونکہ اگر مطلق فائدے میں واجب ہو تو یہ مشہور ہے اور یا مشہورنے سماعہ جیسی روایت سے اعراض کیا پس روایت سماعہ حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اور یااس کے علاوہ بھی دلیلیں ہیں ۔

یہ اس طرح کے احتمال میں اشکال و تامل کی علت یہ ہے کہ قدماء کی عبارت میں کسب و کاروبار پر اختصاص نہیں پایا جاتا ہے بلکہ کسب کاروبار کو بطور باب مثال ذکر کیا گیا ہے جیساکہ پیداوار کی راہ سے اور تجارت سے اور زراعت سے فائدہ حاصل ہو البتہ بعض قدماء کی عبارت میں تصریح ہے کہ تمام فوائد پر خمس واجب ہے۔

۲ ۔ اگر میراث کے ذریعے مال حاصل ہوجو عام طور پر وراثت کے ذریعے سے ملتا ہے اور وہ ھدیہ(خمس کے واجب ہونے کے شرائط ) جو ذکر ہو چکا ہےتو ان پر خمس نہیں ہے جس پر دلیل علی بن مھزیار کی حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

"فَالْغَنَائِمُ وَ الْفَوَائِدُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَهِيَ الْغَنِيمَةُ يَغْنَمُهَا الْمَرْءُ وَ الْفَائِدَةُ يُفِيدُهَا وَ الْجَائِزَةُ مِنَ الْإِنْسَانِ لِلْإِنْسَانِ‏ الَّتِي‏ لَهَا خَطَرٌ وَ الْمِيرَاثُ الَّذِي لَا يُحْتَسَب ۔۔۔۔۔"(۱۲۲)

ترجمہ :"خدا تم پ رحم کرے غنائم اور فوائد سے مراد وہ غنیمت ہے جسے آدمی حاصل کرتا ہے ، یا وہ فائدہ ہے جو آدمی کماتا ہے یا کسی آدمی کا کسی کو کوئی قابل قدر تحفہ و ہدیہ دینا یا میراث جس کے حاصل ہونے کا گمان )نہ ہو ۔۔۔"

۳ ۔ مہر و عوض طلاق خلع سے بھی خمس کو استثناء ہے مہر و عوض طلاق خلع جو شوہر کو بیوی کی طرف سے ملے تو ان دونوں صورتوںمیں خمس واجب نہیں ہےاورمھر اور عوض خلع پر فائدہ صدق نہیں کرتا ہے کیونکہ عورت جو مھر لیتی ہے وہ خود آپ نے ہاتھوں سے شوہر کے اختیار میں رکھتی ہے اور عوض خلع شوہر کی طرف سے حقوق زوجیت میں کوتاہی ہے جوکہ شوہر کے لیے ثابت ہے پس واقع میں عورت مھرمیں ایک چیز کو دیناہے اور دوسرے چیز کو پا لینا ہے اور اسی طرح عوض خلع میں بھی ہے ۔

۴ ۔ اور یہ ضروری کہ سال بھر کا خرچہ جدا کیا جائے جس پر دلیل مکاتبہ ہمدانی کی روایت دلالت کرتی ہے جو کہ گذر چکی ہے اور بہت سی روایات اس کی تائید کرتی ہیں اس کا حکم اخراجات کے علاوہ ہے جو کہ فائدے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے وہ مال جو زندگی کے اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے اور وہ دلیل کے لیے محتاج نہیں ہے کیونکہ اس پر فائدہ ومنفعت صدق نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ سال کے اخراجات سے زیادہ ہوں ۔

۵ ۔ ضروری ہے کہ پہلے سال بھر کا خرچہ نکال لیا جائے اس کے بعد خمس کو ادا کیا جائے کیونکہ یہاں پر اطلاق مقامی دلالت کرتی ہے جوکہ سال کا خرچہ نکالنا ہے کیونکہ معمولا روزمرہ زندگی میں لوگ سال بھر کے خرچے کا حساب کرتے ہیں اور اس طرح نہیں کرتے ہیں کہ مہینہ میں یا روزانہ خرچے کا حساب کرتے ہیں اور زمانے حاضر میں اکثر ممالک میں بھی سال بھر کے خرچے کا حساب کیا جاتا ہے اور روایت میں کلمہ مؤونہ کا استعمال ہمطلق ہوا ہے پس ضروری ہے کہ عرف کے مطابق سال بھر کے اخراجات نکالے جائیں ۔

۶ ۔ خمس کاسال شروع ہونے کے لیے دلیل جو ذکر ہو چکی ہے وہ قول مشہور ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ لوگ جو کسب وکاروبار کرتے ہیں جونہی وہ تجارت شروع کرتے ہیں وہی ان کا خمس سال ہے اور ہر سال اسی تاریخ کو جوکاروبار شروع کیا تھا تو خمس واجب ہے چاہے اس میں اس کو منفعت حاصل ہو یا نہ ہو ۔

اور وہ لوگ جو مزدوری وغیرہ کرتے ہیں تو جونہی ان کو منفعت حاصل ہو تو وہی ان کا خمس کا سال ہو گا اور ہر سال اسی تاریخ کو مال زائد پر خمس واجب جائے گی ۔

۷ ۔ اور منفعت حاصل ہوتے ہی مال پرخمس واجب ہو جائے گی جس پر دلیل آیت غنیمت ہے اور روایت سماعہ بھی اس پر دلالت کرتی ہ جوکہ پہلے گذر چکی ہے کیونکہ ظاہری تعبیر قرآن ( فان للہ خمسہ ) اور روایت ( ففیہ الخمس ) خمس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے لیکن جب اس پر فائدہ صدق کر

خمس کو تاخیر سے دینا ایک سال تک جائز ہے اور یہ شارع کی طرف سے سہولت ونرمی ہے جوکہ سالانہ اخراجات کو نکالنے کے بعد ہے اور یہ اخراجات ایک دفعہ حاصل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اخراجات بطور تدریجی حاصل ہوتے ہیں یعنی یہ اخراجات فوری طور پر حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس کے امکان کے بارے میں پہلے سے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ پس اخراجات کا تدریجی حاصل ہونے کا لازمہ یہ بنتا ہے کہ خمس کو تاخیر سے دینا جائز ہے

{خمس کے ادا کرنے میں کچھ باقی نہیں رہا کہ اگر خمس کو فوری ادا کیا جائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ بعض نے مستحب جانا ہے }

۸ ۔ اگر بچے اور پاگل کے پاس مال ہو اور ان کے سالانہ اخراجات سے زیادہ ہے تو ان کے مال پر خمس واجب نہیں ہے اور اے پر دلیل حدیث رفع ہے جس میں ان کے حکم سے قلم اٹھا لیا گیا ہے کیونکہ حکم تکلیفی ( خمس کا دینا واجب ) ان سے اٹھا لیا ہے بلکہ حکم وضعی ( ان کے مال پر خمس ) کو بھی ان سے اٹھالیا گیا ہے ۔

حدیث رفع حکم تکلیفی کے ساتھ خاص ہے پس ان کے مال پر خمس واجب ہے ہاں لیکن تکلیف کے عمومی شرائط نہیں ہیں تو اس صورت میں ان کو خمس دینا واجب نہیں ہے پس ضروری ہے کہ ان کے سرپرست و ولی خمس کو ادا کرے یا اس صورت میں جب عاقل یا بالغ ہو جائیں تو پھر خمس کو خود ادا کریں لیکن یہ بھی قاعدہ برات کی وجہ سے منتقی ہے ۔

خمس کو تقسیم کرنے کی کیفیت

مشہور کہتے ہیں کہ خمس کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں سے تین حصے امام علیہ السلام کے ہیں اور تین حصےسادات کے ہیں اور ساتھ یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ دنیا کے تمام سادات میں تقسیم کیا جائے اور سھم امام علیہ السلام کے مال کے استعمال کرنے کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتاہے ۔

دلائل :

۱۔ یہ کہ خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اس قول کےخلاف جو کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خمس پانچ حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے انھوں نے سھم خدا کوآیت غنیمت کے ذریعے سے حذف کیا ہے اورہاں یہ بات اس بناء پر درست ہو گی جب غنیمت کو مطلق فائدہ جانا جائے تو یہ مسئلہ روشن ہےاور اگربناء جنگی غنیمت کے ساتھ مختص ہو تو اس حالت میں کیونکہ آیت میں غیر جنگی غنیمت کے استعمال کا ذکر نہیں ہوا ہے اور یہ ذکر نہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا استعمال کرنا مطلق غنیمت پرہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو امام علیہ السلام کے لیے لازمی ہوتا کہ لوگوں کے لیے بیان کرتے اور اس کے استعمال کی طرف اشارہ کرتے ۔

۲ ۔ خمس کے تین حصّے امام علیہ السلام کے لیے ہیں جس پر دلیل احمد بن محمد بن ابی نصر کی حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی صحیح روایت ہے :

مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنِ الرِّضَا ع قَالَ: سُئِلَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ (وَ اعْلَمُوا أَنَّمٰا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‌ءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبىٰ) فَقِيلَ لَهُ فَمَا كَانَ لِلَّهِ فَلِمَنْ هُوَ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ص ، وَ مَا كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ص فَهُوَ لِلْإِمَامِ فَقِيلَ لَهُ أَ فَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ صِنْفٌ مِنَ الْأَصْنَافِ أَكْثَرَ وَ صِنْفٌ أَقَلَّ مَا يُصْنَعُ بِهِ ؟ قَالَ ذَاكَ إِلَى الْإِمَامِ ، أَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ ص كَيْفَ يَصْنَعُ ؟ أَ لَيْسَ إِنَّمَا كَانَ يُعْطِي عَلَى مَا يَرَى ؟ كَذَلِكَ الْإِمَامُ .(۱۲۳)

ترجمہ :"{ حضرت شیخ کلینی علیہ الرحمہ آپ نی سند کے ساتھ }احمد بن محمد ابو نصر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے خدا وندعالم کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا گیا " واعلمو انما ۔۔۔۔ "عرض کیا : جو خدا کا حصّہ ہے وہ کس کے لیے ہے ؟ فرمایا : وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے لیے ہے اور جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے لیے ہے وہ امام علیہ السلام کے لیے بھی ہے پھر عرض کیا کہ اگرمستحقین کا ایک گروہ زیادہ ہو اور دوسرا کم تو پھر کیا کیا جائے ؟فرمایا : یہ امام علیہ السلام کے صواب دید پر منحصر ہے تم خیال نہیں کرتے کہ حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے ؟ کیا وہ آپ نی صوابدید کے مطابق نہیں خرچ کیا کرتے تھے ؟اسی طرح امام علیہ السلام بھی آپ نی صوابدید کے مطابق خرچ کریں گے "

پس اسی بنا پر دور حاضر میں تمام اخماس حضرت امام زمان اراحنا لہ الفداء کو دیا جائے ۔

مسئلہ کا حکم واضح و روشن ہے اگر امام علیہ السلام کی ملکیت بناء کو ملکیت شخصی جانےتاہم اگر ملکیت کو منصب و مکان جانے تو تب بھی امام علیہ السلام کے لیے ملکیت ثابت ہے کیونکہ امام علیہ السلام کی ملکیت من حیث تقییدی نہ کہ تعلیلی ، جسطرح کہ روایات میں امام علیہ السلام کی تعبیر کی گئی ہے ، کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وجہ سے نہیں ہےجس طرح چاہے اس میں تصرف کرئےپس ملکیت شخصی ومنصبی کی تقدیر کی بناء پر فقیہ نائب امام علیہ السلام کی بنیاد پر جو کہ صاحب امام زمان علیہ السلام ہیں تو اس مال میں فقیہ دخالت و تصرف کر سکتا ہے ۔

۳ ۔ اور قول مشہور کے مطابق تین حصّے آخری سادات و بنی ہاشم کے لے مخصوص ہیں جو کہ اہل سنت کے قول(۱۲۴) کے برعکس ہے اور شاید جس قول کی نسبت ابن جنید(۱۲۵) کی طرف دی گئی ہے شاید وہی قول ہو اس شرط کے ساتھ کہ سادات و بنی ہاشم بے نیاز و محتاج ہوں اس امر و حکم کی ضرورت کے مطابق دعوی کیا گیا ہے کہ ان کا موجودہونا دلیل کے محتاج نہیں ہے ۔

بعض روایات جن کی سند ضعیف(۱۲۶) ہیں وہ بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں اور سند کا ضعیف ہونا اس کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ اس کی ضرورت ہے ۔

۴ ۔ لیکن ضرورت کیوں نہیں ہے کہ خمس تمام اصناف میں مساوی تقسیم ہو کیونکہ خمس کی آیت تقسیم کرنے کو بیان و ظاہر کر رہی ہے نہ کہ ان کی ملکیت کو ، اس پر دو دلیلیں ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

ا۔بے شک آیت میں کلمہ "الیتامی " "المساکین " جمع اور الف ولام کی صورت میں آئیں ہیں اور ظاہری خکم یہ ہے کہ یہ تمام یتیموں اور مسکینوں کو شامل حال ہے یعنی ان کے درمیان مساوی سے تقسیم کیا جائے اگرچہ اس طرح سے ممکن ہو یہ احتمال نہیں دیتے ہیں کہ خدا وند عالم کا بھی یہی ارادہ ہو ۔

ب۔ تو اس صورت میں سھم ابن سبیل کو محفوظ رکھنا لازمی آتا ہے اگرچہ ابن سبیل شھر میں نہ ہو اور یہ احتمال بھی نہیں دے سکتے ہیں ۔

پس ان دو قرینوں کی بناء پر واضح ہو جاتا ہے کہ خمس کی آیت استعمال کرنے کو بیان کر رہی ہے نہ کہ ان کی ملکیت کو ۔

زمان غیبت میں سھم امام علیہ السلام کے استعمال کرنےکے بارے میں صاحب حدائق(۱۲۷) نے چودہ اقوال ذکر کیئے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے کہ ان کو نقل کریں لیکن وہ اقوال جوبعض متاخرین کے درمیان معروف ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

سھم امام علیہ السلام کا مسئلہ شک کی حالت میں ہے کہ آیا سھم امام علیہ السلام کو دفن کیا جائے یا امانت دینا وصیت کے ذریعے سے نسل در نسل ،اور بھی احتمالات میں جن کو صاحب حدائق نقل کیا ہے اور یہ سب احتمالات سھم امام علیہ السلام کے تلف ہو نے کے موجب بنتے ہیں اور ان کے تلف ہونے پر ہمارے پاس کو ئی دلیل عقلی نہیں ہے تو اس صورت میں ہم مجبور ہیں کہ سھم امام علیہ السلام اس طرح استعمال کریں کہ امام علیہ السلام راضی ہو جائیں اور یہ رضایت حاصل نہیں ہوتی مگر دین اسلام کی تقویت کے لیے یا وہ لوگ جو دین اسلام کی تقویت کے لیے کوشاں ہیں اورسھم امام علیہ السلام کے استعمال کی روشن ترین مصادیق حوزہ علمیہ ہے کہ ان کی حفاظت سے دین کی حفاظت ہوتی ہے ۔

لازمی ہے کہ سھم امام علیہ السلام کا استعمال زیر نظر مجتہد و فقیہ ہو تاکہ سھم امام علیہ السلام اس کو دیا جائے یا اس سے اجازت لی جائے اور اجازت لینے کا ملازمہ اس ضرورت کی بناء پر ہے کہ لوگوں کی مرجعیت سے رابطہ ہو اور یا اس دلیل کی بناء پر ہو کہ وہ شخص امام علیہ کی طرف سے نائب ہے اگرچہ ہمارے پاس فقیہ کے بارے میں کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ لازمی طور پر اس کو دیا جائے ہاں حد اقل یہ احتمال دے سکتے ہیں اور یہ احتمال دینا کافی ہے کہ خمس کے اموال میں کسی شخص کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے مگر اس صورت میں اس کے لیے جائز ہو گا جب اس کو فقیہ کی رضایت کے بارے میں قطع و یقین ہو ۔

___________________

۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج ۱ ،ص ۱۳،باب ۱

۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱ ۳،باب ۱

۳ ۔ سورہ حج ایت ۷۸

۴ ۔ سورہ بقرہ ایت ۱۸۷

۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۹ ۳،باب ۴ ، حدیث ۱

۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۰۳،باب ۳۵، حدیث ۱

۷۔ و کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۶۳،باب۱۶ ، حدیث ۲

۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص ۶۴باب ۱۶ ، حدیث ۵

۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۸،باب ۱۳ ، حدیث ۴

۱۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۳۴،باب ۲ ، حدیث ۴

۱۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۶۹،باب ۲۲ ، حدیث ۱

۱۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۳،باب ۶ ، حدیث ۱

۱۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۲،باب ۵ ، حدیث ۴

۱۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۱،باب ۵ ، حدیث ۲

۱۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص ۸۶،باب ۲۹ ، حدیث ۱

۱۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۸۸ ،باب ۲۹ ، حدیث ۸

۱۷ ۔ سورہ توبہ ایت نمبر ۵۴

۱۸ ۔اس آیت سے (انھم کفروا باللہ و رسولہ) عمومیت سمجھ میں آتی ہے اگرچہ ایت منافقین کے بارے میں ہے لیکن کفار کو بھی شامل ہوجاتی ہے کیونکہ جب ان سے نفقہ قابل قبول نہیں ہے تو بطریق اولی کفار سے روزہ قابل قبول نہیں ہے پس ثابت ہوا کہ اسلام روزہ کے صحیح ہونے میں شرط ہے ۔

۱۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ،ج ۱ ،ص۰ ۱۲،باب ۲۹ ، حدیث ۵

۲۰ ۔ سورہ مائدہ آیت ۲۷

۲۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص ۲۲۸،باب ۲۵ ، حدیث ۲

۲۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۲۹،باب ۲۶ ، حدیث ۱

۲۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۳۲،باب ۲۸ ، حدیث ۴

۲۴ ۔ سورہ بقرہ ایت نمبر ۱۸۵

۲۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۰۰،باب ۱۱ ، حدیث ۱

۲۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۸۴،باب ۴ ، حدیث ۱

۲۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۸۰،باب ۲ ، حدیث ۵

۲۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۸۶،باب ۵ ، حدیث ۳

۲۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۸۷،باب ۵ ، حدیث ۱۰

۳۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۹۱،باب ۶ ، حدیث ۶

۳۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۹۰،باب ۶ ، حدیث ۳

۳۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۸۹،باب ۶ ، حدیث ۱

۳۳ ۔ سورہ بقرہ ایت نمبر ۱۸۵

۳۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۲۰،باب ۲۰ ، حدیث ۳

۳۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۱۸،باب ۱۹ ، حدیث ۱

۳۶۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۳۱،باب ۱ ، حدیث ۱

۳۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۰،باب ۹ ، حدیث ۱

۳۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۲۲۶،باب ۴ ۲ ، حدیث ۱

۳۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۵ ۱ ،ص۳۶۸،باب ۵۶ ، حدیث ۱

۴۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۶۱،باب ۱۵ ، حدیث ۱

۴۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۵،باب ۸ ، حدیث ۱

۴۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۸،باب ۸ ، حدیث ۹

۴۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۱۱۵،باب ۴۴ ، حدیث ۳

۴۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۵۰،باب ۷ ، حدیث ۳

۴۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۵۰،باب ۳ ، حدیث ۱

۴۶ ۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۲۵

۴۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۳۴،باب ۱ ، حدیث ۳

۴۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۴۵،باب ۴ ، حدیث ۵

۴۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۴۰،باب ۳ ، حدیث ۸

۵۰ ۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۸۶

۵۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۴۵،باب ۵ ، حدیث ۱

۵۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۵۴،باب ۱۰ ، حدیث ۱

۵۳ ۔ کتاب میں فضلاء آیا لیکن روایت میں فضیل ذکر ہوا ہے ۔

۵۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۵۵،باب ۸ ، حدیث ۴

۵۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۶۲،باب ۹ ، حدیث ۴

۵۶ ۔ اگر کوئی روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہو لیکن علما اس پر عمل کرتے آئے ہیں تو علما کا عمل کرنا اس روایت کی ضعف کو پورا کرے گا اسی کا نام قاعدہ انجبار ہے۔ اس قاعدہ کو فقہ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے بہت سے ضعیف روایتیں اسے طریقے سے قابل عمل بن جاتے ہیں۔ ۵۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۰ ۱ ،ص۴۵،باب ۴

۵۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج ۹ ،ص۹۲،باب ۴ ، حدیث ۳

۵۹ ۔سورہ توبہ ایت نمبر ۱۰۳

۶۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج ۹ ،ص۹۵،باب ۵ ، حدیث ۷

۶۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج ۹ ،ص۱۰۸،باب ۲ ، حدیث ۱

۶۲ ۔ کتاب میں فضلاء آیا لیکن روایت میں فضیل ذکر ہوا ہے ۔

۶۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۱،باب ۲ ، حدیث ۶

۶۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۵،باب ۴ ، حدیث ۱

۶۵ ۔ کتاب میں فضلاء آیا لیکن روایت میں فضیل ذکر ہوا ہے۔

۶۶ عاملی، حرّ، محمد بن حسن، وسائل الشیعة؛ ج۹، ص: ۱۱۲

۶۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۵،باب ۴ ، حدیث ۱

۶۸ ۔ کتاب میں فضلاء آیا لیکن روایت میں فضیل ذکر ہوا ہے۔

۶۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۶،باب۶ ، حدیث ۶

۷۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۷،باب ۶ ، حدیث ۲

۷۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۲۰،باب ۷ ، حدیث ۵

۷۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۲۱،باب ۸ ، حدیث ۱

۷۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۳۸،باب ۱ ، حدیث ۵

۷۴ ۔ کتاب میں فضلاء آیا لیکن روایت میں فضیل ذکر ہوا ہے ۔

۷۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۴۱،باب ۱ ، حدیث ۱۳

۷۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۴۵،باب ۲ ، حدیث ۱۰

۷۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۵۵،باب ۸ ، حدیث ۲

۷۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۷۶،باب ۱ ، حدیث ۵

۷۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۱۷۸،باب ۱ ، حدیث ۱۰

۸۰ ۔ ۶۰ صاع کی مقدار تقریبا ۱۶۹.۸۲۷۸۴ کلو گرام ۔

۸۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۱۷۷،باب ۱ ، حدیث ۷ ۔

۸۲ ۔ ایک وسق کی مقدار ساٹھ صاع ہے جو کہ تقریبا ۱۶۹.۸۲۷۸۴ کلو گرام ہے اس حساب سے پانچ وسق کی مقدار ۸۴۹.۱۳۹۲ کلو گرام ہے۔

۸۳ ۔سورہ التوبہ ایت نمبر ۶۰

۸۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۲۱،باب ۱ ، حدیث ۲

۸۵ ۔ کتاب ،اصول کافی مؤلف ، شیخ کلینی ، ج ۲ ص ۴۱۱

۸۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۲۱۶،باب ۳ ، حدیث ۱

۸۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۲۴۱،باب ۱۳ ، حدیث ۱

۸۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۲۷۵،باب ۳۲ ، حدیث ۶

۸۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۲۷۴،باب ۲ ۳ ، حدیث ۵

۹۰ ۔ حدائق ناظرہ ج ۱۲ ص ۳۹۶

۹۱ ۔ جواھر الکلام ج ۱۶ ص ۱۰۵

۹۲۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۰۷،باب ۵۲ ، حدیث ۲

۹۳۔ قاعدہ ید ایک فقہی قاعدہ ہے جس کے مطابق آدمی اس چیز کا مالک بنتا ہے جو اس کے ہاتھ میں ہو۔ جب کوئی چیز یا مال کسی کے قبضے میں ہو دوسروں کے لیے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ قاعدہ اثبات مالکیت کی دلائل میں سے ایک ہے۔

۹۴ ۔سورہ الاعلی ایت نمبر ۱۴ ' ۱۵

۹۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۱۸،باب ۱ ، حدیث ۵

۹۶۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۵،باب ۱

۹۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۲۱،باب ۲ ، حدیث ۱

۹۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۲۴،باب ۳ ، حدیث ۲

۹۹ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۵۲،باب ۱۱ ، حدیث ۱

۱۰۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۵۶،باب ۱۳ ، حدیث ۲

۱۰۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۵۷،باب ۱۳ ، حدیث ۴

۱۰۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۲۷،باب ۵ ، حدیث ۲

۱۰۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۳۵،باب ۶ ، حدیث ۸ ،الوافی ج۱۰ ص ۲۵۳

۱۰۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۳۶،باب ۶ ، حدیث ۱۱

۱۰۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۴۳،باب ۸ ، حدیث ۱

۱۰۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۳۴۷،باب ۹ ، حدیث ۶

۱۰۷ ۔ سورہ انفال ایت نمبر ۴۱

۱۰۸ ۔ لغت لسان عرب ۔ مادہ (غنم ) کسرہ کے ساتھ

۱۰۹ ۔ سورہ نساء ایت نمبر ۹۴

۱۱۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۲،باب ۳ ، حدیث ۳

۱۱۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۵،باب ۴ ، حدیث ۱

۱۱۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۳،باب ۳ ، حدیث ۵

۱۱۳ ۔ جوکہ تین راویوں "بزنطی ، صفوان اور ابن ابی عمیر "میں سے ایک بزرگ راوی ہے بلکہ ان پر اصحاب کی اجماع ہے جس کی وجہ سے راوی کے اعتبار کی حد کو دو بالا کر دیتا ہے {اور شیخ طوسی نے ان راویوں کو "بزنطی و صفوان اور ابن ابی عمیر "سے تعبیر لا یردون ولا یرسلون الّا عن ثقة کیا ہے۔

۱۱۴ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۹،باب ۸ ، حدیث ۱

۱۱۵ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۴،باب ۳ ، حدیث ۷

۱۱۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۶،باب ۵ ، حدیث ۲

۱۱۷ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۴۹۴،باب ۳ ، حدیث ۶

۱۱۸ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۰۵،باب ۹ ، حدیث ۱

۱۱۹ ۔ جواہر الکلام ج ۱۶ ص ۴۵

۱۲۰ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۰۳،باب ۸ ، حدیث ۶

۱۲۱ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۰۱،باب ۸ ، حدیث ۴

۱۲۲ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۰۱،باب ۸ ، حدیث ۵

۱۲۳ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۱۹،باب ۲ ، حدیث ۱

۱۲۴ ۔ کتاب ، المحّلی ، ج ۷ ص۳۲۷ ، کتاب ، المغنی ، ج ۶ ص۴۱۳

۱۲۵ ۔ کتاب ، جواھر الکلام ، ج ۱۶ ص ۸۸

۱۲۶ ۔ کتاب ،وسائل الشیعہ ۔ مؤلف ، محمد بن حسن حرعاملی ج۹ ،ص۵۰۹،باب ۱ ، حدیث ۲

۱۲۷ ۔ کتاب ، حدائق الناضرہ ، ج۱۲ ص۴۳۷

دوسرا حصّہ:

درخواست و طلب:(اسئلك )

دعا کے اس فراز میں دعا کرنے والے اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کے لئے دوبارہ اسماء و صفات الہی کو بیان کرتا ہے اور یہ تکرار کلمہاسئلك کے بعد دو حصوں میں بیان ہواہے اور یہ اس لئے کہ دعا کرنے والا اسماء اور صفات الہی کو اپنی حاجت کے مطابق ذکر کرے ان کا تکرار بھی لطف سے خالی نہیں ہے ۔ امام علی علیہ السلام کبھی لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ کو تکرار کرتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔

(اللَّهَ اللَّهَ فِي الْأَيْتَامِ )وَ (اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ )(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ )وَ (اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الصَّلَاة )(۳۶)

یہاں پر لفظ اللہ تکرار ہوا ہے اور ہر روز پانچ وقت کی نماز کا تکرار ہونا بھی اسی لئے ہے کہ انسان جتنا ہوسکے خدا سے نزدیک تر ہو جائے ۔ انسان ہر بار نماز اور ذکر و تلاوت قرآن کے ذریعے سے قدم بہ قدم خدا کے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہے کہ "

( ثمُ‏َّ دَنَا فَتَدَلىَ‏ فَكاَنَ قَابَ قَوْسَينْ‏ِ أَوْ أَدْنى ) . پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا(۳۷) ۔

اسی طرح ہر ہفتے میں نماز جمعہ کے دونوں خطبوں میں تقوا کے متعلق تاکید ہونا بھی لوگوں کی دینی تربیت میں تکرار کی افادیت کو بیان کرتی ہے ۔ اصولا انسان کی زندگی بھی تکرار تنفس پر موقوف ہے اور کمالات بھی تکرار سے حاصل ہوتی ہیں ایک بار صدقہ دینے اور شجاعت کے جوہر دکھانے سے سخاوت اور شجاعت کی عادت نہیں ہوتی ہے جس طرح انسان کے اندر برے اوصاف ان کے برے اعمال کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔

اس حصے میں دس مطالب ہیں : کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔ (اللّٰهُمَّ انىْ اسْئَلُكَ )

۱-بِوَجْهِكَ الْكَريْمِ :

اے خداآپ کے بزرگی و بخشندگی کا واسطہ :

خداوند عالم کے لئے کوئی جسم نہیں ہے کہ چہرہ رکھتا ہو ؟ بلکہ ان کلمات کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۵ میں پڑھتے ہیں کہ "( وَ لِلَّهِ المْشْرِقُ وَ المْغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم ) ۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے ۔

اسی طرح سورہ قصص کی آخری آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) (۳۸) ۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے ۔

لہذا اولا : وجہ اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہے صرف اسی کو حاجت روا جاننا چاہیے اور اگر اولیاء الہی کو ہم واسطہ قرار دیتے ہیںتو بھی اسی لئے ہیں کہ وہ حضرات بھی فیض و رحمت الہی کو ہم تک پہنچا تے ہیں ۔

ثانیا: خداکریم ہے چونکہ قرآن مجید میں صفات الہی میں سے ایک صفت کریم ذکر ہوا ہے جیسا کہ سورہ انفطار آیت ۶ میں فرمایا "( يَأَيهُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم ) ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔

کریم یعنی بہت زیادہ کرم کرنے والا اور زیادہ بخشنے والا لیکن یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں وجہ کریم کا کامل ترین مصداق امام زمانہ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ وجہ اللہ سے مراد پیغمبر اکرم اور ان کے جانشین ہیں اور انہی کے ذریعے سے دین اور خدا کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں(۳۹)

اور دعاے ندبہ میں بھی امام زمانہ کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ "أيْنَ‏ وَجْهُ‏ اللَّهِ‏ الَّذِي إِلَيْهِ یَتَوَجَّهُ الْأَوْلِيَاء ۔

۲-وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ :

تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے ۔

امام حسین علیہ السلام دعاے عرفہ میں خداوند متعال کو اس طرح سے پکارتے ہیں "أَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ‏ الَّذِي‏ أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْض (۴۰)

خدایا آپ کی اس پر نور جمال کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے زمین و آسمان نورانی ہوتا ہے درخواست کرتا ہوں ۔

نور اور پچھلے جملے میں بیان شدہ نور( وجہ) کے درمیان فرق ہے چونکہ خداوند عالم نور بھی ہے اور تمام عالم کو نورانی کرنے والا بھی ہے کائنات میں موجود سارے نور اس کے نور کی ایک جہلک ہے اور نورصرف خدا ہے وہ جسے چاہے نور دیتا ہے پس ہر شخص جتنا خدا کامقرب اور نزدیک ہوگا اتنا ہی نورانی ہو جائے گا لہذا قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کو منیر کہا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت /۴۵-۴۶ میں آیا ہے کہ فرمایا "

( يَأَيهُّا النَّبىِ‏ُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَ دَاعِيًا إِلىَ اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا ) ۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔

ان دو آیتوں میں پیغمبر اکرم کی سیرت کوبیان کیاہے کہ آپ معاشرے میں چراغ ہدایت ہے کہ جس کے نور کی وجہ سے رشد و حرکت اور حق و باطل کی پہچان انجام پاتا ہے ۔

اور اس زمانے میں تمام مخلوقات خدا میں صرف امام زمانہ کی ذات ہے جو خداوند متعال سے نور کو کشف کرتاہے اور دوسروں کو بھی نور دیتا ہے اور پیغمبر اکرم کا آخری وارث ہے ۔

۳-وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ :

اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے ۔

خداوند متعال تمام جہان کا مالک ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں کہ "( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا فِيهِنَّ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرُ ) (۴۱) ۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لفظ ملک لغت میں حاکم کے معنی میں ہے آیات اور روایات میں ملتا ہےکہ یہ لفظ خداوند عالم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ توحید کی اس آیت( لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَد ) میں اشارہ ہوا ہے کہ۔ نہ اس نے کسی کوجنااورنہ وہ جنا گیا بلکہ وہ ازلی ہے یعنی قدیم ہے حادث نہیں ہے ۔اور اسی طرح سے سورہ حدید میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے "( لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يحُىِ وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِير ) (۴۲) آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔

۴-یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ :

اے زندہ اے پائندہ۔

آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں کہ( اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم ) ۔ خدا وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کا نگہبان ہے ۔

حیات کے معنی میں پروردگار عالم اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق ہے باقی دوسرے صفات الہی کی طرح کیونکہ صفات کا ذات الہی سے جدا ہوناممکن نہیں ہیں اور فناء و نابودی و عدم ذات الہی میں تصور نہیں ہے جیسا کہ فرمایا "( وَ تَوَكَّلْ عَلىَ الْحَىّ‏ِ الَّذِى لَا يَمُوت ) (۴۳) ۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے ۔

اور وہ اپنی حیات کے لئے تغذیہ تولید مثل اور جاذبہ و دافعہ میں سے کسی کی طرف محتاج نہیں ہے جیسا کہ دعاے جوشن کبیر میں آیا ہے "يَا حَيُ‏ الَّذِي‏ لَيْسَ‏ كَمِثْلِهِ شَي ۔ اس اسم کے بارے میں آئندہ وضاحت دیں گے ۔

اور لفظ قیوم" قیام سے لیا ہے جس کامعنی جو جوشخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور دوسرے اس سے وابستہ ہوں(۴۴)

اور قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار کلمہ حی کے ساتھ آیا ہے ۔ پس خدا کا قیام ہونا خود اس کی ذات سے ہیں اور باقی تمام موجودات کا قیام اس کے وجود کی طرف سے ہیں ۔

اور قیومیت پروردگار سے مراد اپنے مخلوقات کی حفاظت اور تدبیر پر کامل تسلط رکھنا ہے ۔ پس خداوند عالم کا قیام ابدی و اذلی اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور روزی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ کبھی کسی ایک لحظہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے ۔

اور اسی طرح سے ہر زندہ موجود اپنے زندگی کو ادامہ دینے کے لئے اس منبع فیض الہی کی طرف محتاج ہے جسطرح سے بجلی کا بلپ روشن ہونے کے لئے اس کا مر کز سے متصل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر موجود اپنی حیات اور بقاء کے لئے خدا وند عالم کی طرف محتاج ہیں ۔

جیسا کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں "كلّ‏ شئ‏ خاضع‏ له كلّ‏ شئ‏ قائم به (۴۵)

تمام چیزیں خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور تمام چیزیں اسی سے وابستہ ہیں ۔

علماء نقل کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں پیغمبر اکرم بار بار سجدے میں جاتے تھے اور یا حی یا قیوم کا ورد کرتے تھے۔

۵-أسئلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی أشْرَقَتْ به السَّمٰوَاتُ وَالْاَرَضُونَ :

تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں۔

دعا کے اس جملے کی طرح روز قیامت کے روشن ہونے پر قرآن کریم میں بھی ایک آیت ہے سورہ زمر میں فرمایا ہے "

( وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا وَ وُضِعَ الْكِتَابُ وَ جِاْى‏ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَ الشهُّدَاءِ وَ قُضىِ‏َ بَيْنهَم بِالْحَقّ‏ِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُون ) (۴۶) ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر اطیب البیان میں اس آیت کی ذیل میں ہے کہ قیامت کے دن سورج اور چاند سے انکی روشنی واپس لینگے اور اس دن خدا کے نور روشن ہوگا تو اس سے مراد وہ نورہے جو مؤمنین سے نکلے گا ۔ اس کے بعد اس آیت کو گواہی کے طور پر ذکر کرتا ہے "( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِم ) (۴۷) قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا ۔

اس آیت کی اس تفسیر سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ وہ نو رجو قیامت کے دن روشن ہوگا وہ معصومیں علیہم السلام کا نور ہوگا کہ جن کا نور نور خدا سے ہے لہذاپیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کا نور ہیں اسی لئے زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی نور کی طرف اشارہ ہوا ہے جیساکہ فرمایا "وَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ‏ بِنُورِكُم ۔اور اسی طرح بہت ساری دعائیں موجود ہے کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن شیعوں کے اعتقاد کی بنیاد پر اہل بیت علیہم السلام نور الہی کے بہترین تجلی ہیں اور انکا نور نور خدا سے ہیں جو منور اور ہدایت گر ہے ۔اور اسی کی ذیل میں پیغمبر اکرم سے ایک حدیث نقل ہوئی ہیں فرمایا کہ "ثُمَ‏ أَظْلَمَتِ‏ الْمَشَارِقُ‏ وَ الْمَغَارِبُ فَشَكَتِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ تِلْكَ الظُّلْمَةَ فَتَكَلَّمَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كَلِمَةً فَخَلَقَ مِنْهَا رُوحاً ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ نُوراً فَأَضَافَ النُّورَ إِلَى تِلْكَ الرُّوحِ وَ أَقَامَهَا مَقَامَ الْعَرْشِ فَزَهَرَتِ الْمَشَارِقُ وَ الْمَغَارِبُ فَهِيَ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ لِذَلِكَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُورَهَا زَهَرَتْ بِهِ السَّمَاوَات (۴۸) ۔

جب ہر جگہ تاریکی اور اندھیرا چھا گیا تو خداوند عالم سے فرشتوں نے شکایت کی کہ خدایا اس تاریکی کو ہم سے برطرف فرما !تو خداوند عالم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور اسی کلمہ سے ایک روح خلق ہوا اس کے بعد ایک اور کلمہ ارشاد فرمایا اس سے ایک نور خلق ہوا اور اس نور سے روشنی دی اور اس روشنی اورروح کو خدا نے عرش پر رکھا اس سے تمام عالم روشن ہوا اور وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نور ہے اسی لئے آپ کو زہرا کہا اور آپ کے نور سے تمام آسمان روشن ہوا ۔

ایک اور روایت میں امام مہدی علیہ السلام کو زمین کو روشن کرنے والا کہا ہے ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا " رب الارض جوکہأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا والی آیت میں آیا ہے اس سے مراد امام الارض ہے یعنی امام زمانہ مراد ہے -(۴۹)

البتہ روایات میں قیام حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اس آیت کی تفسیر و تاویل میں بیان کیا ہے اور حقیقت میں یہ ایک تاکید و تشبیہ ہے روز قیامت کے ساتھ کیونکہ یہ قیامت کا ایک نمونہ ہے چونکہ امام زمانہ کا عدل و انصاف تمام عالم میں حاکم ہوگا ۔

امام زمانہ کے ظہور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ" إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ‏ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْس (۵۰) ۔ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو زمین نور پرور دگار سے روشن ہوگا اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہونگے ۔

۶-وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِه الْاَوَّلُونَ وَالْاَخِرُونَ :

تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین وآخرین نے بھلائی پائی۔

ان کلمات کے ساتھ دعا دوسری دعاوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح سے دعا کی ہے فرمایا "

فَأَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ الْأَرْضُ‏ وَ السَّمَاوَاتُ وَ انْكَشَفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِين (۵۱)

بعید نہیں ہے اس سے پہلے والے فراز میں اسم الہی کہ جس سے تمام مخلوقات اولین و آخرین اصلاح پاتے ہیں سے مراد وہ وہی انسان کامل اور خلیفہ الہی ہو ۔ کیونکہ خدا وند عالم نے حجت خدا کو مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور حجت خدا ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ابھی اس زمانے میں ہر صالح انسان کی زندگی میں جو مؤثر ذات ہے اور گمراہی اور فساد سے نجات دیتی ہے وہ حجت خدا امام زمانہ کی ذات اقدس ہے ۔ اور آپ کی ذات ہی معاشرے کی تربیت اور انسانوں کی ہدایت کا محور ہے اور آج کے اس دور میں انسان کی نجات کا واحد وسیلہ امام سے منسلک ہونا ہی ہے اور انسان جتنا بھی اپنے کردار سے امام سے نزدیک ہو جائے گا اتنا ہی وہ خوش نصیب ہوگا۔

ان جملات کے پڑھتے وقت منتظر اس نکتے کی طرف متوجہ ہے کہ انسان کو چاہیے اپنی زندگی کو ایسا بنائے کہ جس سے امام راضی ہو جائے کیونکہ حجت خدا کا انسان کے زندگی میں مؤثر ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ انسان کو فساد سے نجات دے اور اسکی ہدایت کرکے کامیابی کا راستہ دیکھا دے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں "بِمُوَالاتِكُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِينِنَا وَ أَصْلَحَ‏ مَا كَانَ‏ فَسَدَ مِنْ دُنْيَانَا ۔(۵۲)

خداوندمتعال نے آپ کی اس ولایت کے واسطے سے ہماری وہ زندگی جو خراب اوربے ثمر تھا اس کا اصلاح کیا ۔

پس ہر وہ شخص جو اپنی زندگی میں کامیاب تھے اور کامیابی تک پہنچے ہیں وہ اپنے زمانے کے حجت خدا کے وسیلہ سے کامیابی تک پہنچے ہیں ۔

۷-یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ :

اے زندہ ہر زندہ سے پہلے۔

۸-وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ :

اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد۔

۹-وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ :

اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔

اس دعامیں خاص طور پر خداوند متعال کے ( حَیٍّ ) یعنی زندہ ہونے پر تاکید ہوئی ہے اور یہ بحث دعاے جوشن کبیر کی سترویں فراز میں اس طرح سے آئی ہے ۔"يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيُّ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يُشَارِكُهُ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ إِلَى حَيٍّ (۵۳) ۔

ہاں خداوند عالم تمام موجودات سے پہلے اور بعد میں زندہ ہے اور زندہ رہنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی زندہ ہونے میں وہ کسی کا محتاج ہے بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ زندہ و قائم ہے

اس دعا میں اس اسم الہی کو چہار بار کیوں ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی زندگی اور موت کی طرف اشارہ کیا ہے آیاممکن ہے کہ یہ بحث رجعت کے ساتھ مربوط ہو ؟ جوکہ اس دعا کے بارے میں معروف ہے تو ظاہرا ایسا لگتا ہے کہ اس (حی ) پر تاکید کرنا رجعت کے مسالہ سے غیر مربوط نہ ہو۔

۱۰-یَا مُحْیِیَ الْمَوْتیٰ :

اے مردوں کو زندہ کرنے والے ۔

وہ خدا کہ جو پہلے خلق کیا ہے وہی دوبارہ بھی خلق کرسکتا ہے جیسا کہ سورہ نجم میں آیا ہے کہ "( وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا ) (۵۴) ۔

اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے ۔

پس وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمام عالم پر اور ہر چیز کی زندگی اور موت پر قدرت و اختیار رکھتا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے "( إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيي‏ وَ يُميتُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصيرٍ ) (۵۵)

آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی ۔

اسی قسم کی بہت ساری آیات موجود ہیں جیسا کہ سورہ عنکبوت میں فرمایا "

( أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) (۵۶) ۔

کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ (زیادہ )آسان ہے ۔

نتیجہ :

۱ ۔ آفرینش جہان خدا وند عالم کی قدرت نمائی کا مظہر ہے اور موت و زندگی اسی کا ایک حصہ ہے ۔

۲۔ موت و زندگی دینا اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا خدا وند عالم کا ہمیشہ کا کام ہے ۔( إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُه ) ۔ فعل مضارع ہے جو استمرار اوردوام پر دلالت کرتاہے ۔

۳۔ پہلی دفعہ خلق کرنا اور موت دینا اور پھر زندہ کرنا خدا کے لئے آسان ہے صرف ارادہ چاہیے ۔( إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) ۔

۱۱-وَمُمِیتَ الْاَحْیاء :

اے زندوں کو موت دینے والے ۔

قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ موت و حیات خدا وند عالم کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے ۔( وَ أَن إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏ ) ۔ ھوآفات و احیاء) اور اسی طرح سے سورہ یونس میں ملتا ہے ۔( هُوَ يُحْىِ وَ يُمِيتُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون ) (۵۷) ۔

وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

اور سورہ روم میں آیا ہے( اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يحُيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكاَئكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَالِكُم مِّن شىَ‏ْءٍ سُبْحَنَهُ وَ تَعَلىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون ) (۵۸) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں خداوند عالم کے چار اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر ان میں سے ایک بھی انسان میں ہو تو یہ اس کے لئے کافی ہے ۔

الف) انسان کی خلقت ہی بندگی لازم ہونے پر ایک دلیل ہے جیسا کہ فرمایا "

( اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ ) (۵۹) ۔ عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیداکیا۔

ب) اللہ تعالی کا ہمیں رزق و روزی دینا بندگی ضروری ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ فرمایا "( فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَاذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَ ءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِ ) (۶۰) ۔( چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔

اور اسی طرح سے موت و زندگی بھی اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ضروری ہونے پر الگ الگ دلیلیں ہیں فرمایا "

( اللَّهُ الَّذي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ ) (۶۱) ۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا،

اور اسی طرح سے سورہ غافر میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا "

( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ فَإِذَا قَضىَ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون ) (۶۲) ۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہوجاتا ہے ۔

نتیجہ :

۱۔ موت اور زندگی فقط خداکے ہاتھ میں ہے ۔( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۲۔ اللہ کے لئے زندگی دینا اور موت دینا برابر ہے ۔( يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۱۲-یَا حَیُّ لاَ إله إلاَّ أنْتَ :

اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.

اس سے پہلے خداوند عالم کے حَیّ ہونے کے بارے میں توضیح دی ہے اور اس حصے میں خداوند عالم کی وحدانیت کو ذکر کیا ہے لہذا اس کے بارے میں تھوڑا سا توضیح دینگے ۔

قرآن مجید میں بہت ساری مقامات پر وحدانیت کا ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( لَا إِلَه إِلَّا الله ) (سورہ صافات /۳۵() لَا إِلَه إِلَّا الله هو ) ۔ (سورہ بقرہ / )۱۶۳ ) اور( لَا إِلَه إِلَّا الله انت ) ۔ (سورہ انبیاء /۸۷ )۔( لَا إِلَه إِلَّا الله انا ) ۔ (سورہ نحل / ۲)۔

مسلمانوں کی شناختی علامت یہی ۔لَا إِلَه إِلَّا الله ہے اور اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے تبلیغ دین کا سب سے پہلا کلمہ بھی یہی تھا جیسا کہ فرمایا "قولوا لا اله الا الله تفلحوا ۔(۶۳)

اور اسی طرح سے فرمایا "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ إِخْلَاصُهُ أَنْ تَحْجُزَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل ۔(۶۴) ۔ جو کوئی خلوص کے ساتہ کلمہ توحید پڑھے گا تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اورخلوص کی علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد وہ حرام الہی سے دور رہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہقَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَمَنُ‏ الْجَنَّة (۶۵) ۔ یعنی اس کا پڑھنا جنت کی قیمت ہے۔ اور اسی طرح سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ "لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِي (۶۶)

یقینا خداکی وحدانیت خدا کا مضبوط قلعہ ہے خدا کی وحدانیت پر اقرار اور اعتراف کرنا بہت ساری دعاؤں میں موجود ہیں جیسا کہ آداب دعا میں سے ایک اہم حصہ یہی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام دعاے کمیل میں فرماتے ہیں "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‏ سُبْحَانَكَ‏ وَ بِحَمْدِكَ‏ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ تَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي ۔(۶۷)

اور قرآن میں بھی اسی طرح سے آیا ہے فرمایا "( أَن لَّا إِلَاهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنىّ‏ِ كُنتُ مِنَ الظَّلِمِين ) ۔(۶۸)

دوسرا حصّہ:

درخواست و طلب:(اسئلك )

دعا کے اس فراز میں دعا کرنے والے اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کے لئے دوبارہ اسماء و صفات الہی کو بیان کرتا ہے اور یہ تکرار کلمہاسئلك کے بعد دو حصوں میں بیان ہواہے اور یہ اس لئے کہ دعا کرنے والا اسماء اور صفات الہی کو اپنی حاجت کے مطابق ذکر کرے ان کا تکرار بھی لطف سے خالی نہیں ہے ۔ امام علی علیہ السلام کبھی لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ کو تکرار کرتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔

(اللَّهَ اللَّهَ فِي الْأَيْتَامِ )وَ (اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ )(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ )وَ (اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الصَّلَاة )(۳۶)

یہاں پر لفظ اللہ تکرار ہوا ہے اور ہر روز پانچ وقت کی نماز کا تکرار ہونا بھی اسی لئے ہے کہ انسان جتنا ہوسکے خدا سے نزدیک تر ہو جائے ۔ انسان ہر بار نماز اور ذکر و تلاوت قرآن کے ذریعے سے قدم بہ قدم خدا کے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہے کہ "

( ثمُ‏َّ دَنَا فَتَدَلىَ‏ فَكاَنَ قَابَ قَوْسَينْ‏ِ أَوْ أَدْنى ) . پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا(۳۷) ۔

اسی طرح ہر ہفتے میں نماز جمعہ کے دونوں خطبوں میں تقوا کے متعلق تاکید ہونا بھی لوگوں کی دینی تربیت میں تکرار کی افادیت کو بیان کرتی ہے ۔ اصولا انسان کی زندگی بھی تکرار تنفس پر موقوف ہے اور کمالات بھی تکرار سے حاصل ہوتی ہیں ایک بار صدقہ دینے اور شجاعت کے جوہر دکھانے سے سخاوت اور شجاعت کی عادت نہیں ہوتی ہے جس طرح انسان کے اندر برے اوصاف ان کے برے اعمال کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔

اس حصے میں دس مطالب ہیں : کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔ (اللّٰهُمَّ انىْ اسْئَلُكَ )

۱-بِوَجْهِكَ الْكَريْمِ :

اے خداآپ کے بزرگی و بخشندگی کا واسطہ :

خداوند عالم کے لئے کوئی جسم نہیں ہے کہ چہرہ رکھتا ہو ؟ بلکہ ان کلمات کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۵ میں پڑھتے ہیں کہ "( وَ لِلَّهِ المْشْرِقُ وَ المْغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم ) ۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے ۔

اسی طرح سورہ قصص کی آخری آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) (۳۸) ۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے ۔

لہذا اولا : وجہ اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہے صرف اسی کو حاجت روا جاننا چاہیے اور اگر اولیاء الہی کو ہم واسطہ قرار دیتے ہیںتو بھی اسی لئے ہیں کہ وہ حضرات بھی فیض و رحمت الہی کو ہم تک پہنچا تے ہیں ۔

ثانیا: خداکریم ہے چونکہ قرآن مجید میں صفات الہی میں سے ایک صفت کریم ذکر ہوا ہے جیسا کہ سورہ انفطار آیت ۶ میں فرمایا "( يَأَيهُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم ) ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔

کریم یعنی بہت زیادہ کرم کرنے والا اور زیادہ بخشنے والا لیکن یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں وجہ کریم کا کامل ترین مصداق امام زمانہ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ وجہ اللہ سے مراد پیغمبر اکرم اور ان کے جانشین ہیں اور انہی کے ذریعے سے دین اور خدا کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں(۳۹)

اور دعاے ندبہ میں بھی امام زمانہ کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ "أيْنَ‏ وَجْهُ‏ اللَّهِ‏ الَّذِي إِلَيْهِ یَتَوَجَّهُ الْأَوْلِيَاء ۔

۲-وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ :

تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے ۔

امام حسین علیہ السلام دعاے عرفہ میں خداوند متعال کو اس طرح سے پکارتے ہیں "أَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ‏ الَّذِي‏ أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْض (۴۰)

خدایا آپ کی اس پر نور جمال کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے زمین و آسمان نورانی ہوتا ہے درخواست کرتا ہوں ۔

نور اور پچھلے جملے میں بیان شدہ نور( وجہ) کے درمیان فرق ہے چونکہ خداوند عالم نور بھی ہے اور تمام عالم کو نورانی کرنے والا بھی ہے کائنات میں موجود سارے نور اس کے نور کی ایک جہلک ہے اور نورصرف خدا ہے وہ جسے چاہے نور دیتا ہے پس ہر شخص جتنا خدا کامقرب اور نزدیک ہوگا اتنا ہی نورانی ہو جائے گا لہذا قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کو منیر کہا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت /۴۵-۴۶ میں آیا ہے کہ فرمایا "

( يَأَيهُّا النَّبىِ‏ُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَ دَاعِيًا إِلىَ اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا ) ۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔

ان دو آیتوں میں پیغمبر اکرم کی سیرت کوبیان کیاہے کہ آپ معاشرے میں چراغ ہدایت ہے کہ جس کے نور کی وجہ سے رشد و حرکت اور حق و باطل کی پہچان انجام پاتا ہے ۔

اور اس زمانے میں تمام مخلوقات خدا میں صرف امام زمانہ کی ذات ہے جو خداوند متعال سے نور کو کشف کرتاہے اور دوسروں کو بھی نور دیتا ہے اور پیغمبر اکرم کا آخری وارث ہے ۔

۳-وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ :

اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے ۔

خداوند متعال تمام جہان کا مالک ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں کہ "( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا فِيهِنَّ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرُ ) (۴۱) ۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لفظ ملک لغت میں حاکم کے معنی میں ہے آیات اور روایات میں ملتا ہےکہ یہ لفظ خداوند عالم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ توحید کی اس آیت( لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَد ) میں اشارہ ہوا ہے کہ۔ نہ اس نے کسی کوجنااورنہ وہ جنا گیا بلکہ وہ ازلی ہے یعنی قدیم ہے حادث نہیں ہے ۔اور اسی طرح سے سورہ حدید میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے "( لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يحُىِ وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِير ) (۴۲) آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔

۴-یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ :

اے زندہ اے پائندہ۔

آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں کہ( اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم ) ۔ خدا وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کا نگہبان ہے ۔

حیات کے معنی میں پروردگار عالم اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق ہے باقی دوسرے صفات الہی کی طرح کیونکہ صفات کا ذات الہی سے جدا ہوناممکن نہیں ہیں اور فناء و نابودی و عدم ذات الہی میں تصور نہیں ہے جیسا کہ فرمایا "( وَ تَوَكَّلْ عَلىَ الْحَىّ‏ِ الَّذِى لَا يَمُوت ) (۴۳) ۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے ۔

اور وہ اپنی حیات کے لئے تغذیہ تولید مثل اور جاذبہ و دافعہ میں سے کسی کی طرف محتاج نہیں ہے جیسا کہ دعاے جوشن کبیر میں آیا ہے "يَا حَيُ‏ الَّذِي‏ لَيْسَ‏ كَمِثْلِهِ شَي ۔ اس اسم کے بارے میں آئندہ وضاحت دیں گے ۔

اور لفظ قیوم" قیام سے لیا ہے جس کامعنی جو جوشخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور دوسرے اس سے وابستہ ہوں(۴۴)

اور قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار کلمہ حی کے ساتھ آیا ہے ۔ پس خدا کا قیام ہونا خود اس کی ذات سے ہیں اور باقی تمام موجودات کا قیام اس کے وجود کی طرف سے ہیں ۔

اور قیومیت پروردگار سے مراد اپنے مخلوقات کی حفاظت اور تدبیر پر کامل تسلط رکھنا ہے ۔ پس خداوند عالم کا قیام ابدی و اذلی اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور روزی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ کبھی کسی ایک لحظہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے ۔

اور اسی طرح سے ہر زندہ موجود اپنے زندگی کو ادامہ دینے کے لئے اس منبع فیض الہی کی طرف محتاج ہے جسطرح سے بجلی کا بلپ روشن ہونے کے لئے اس کا مر کز سے متصل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر موجود اپنی حیات اور بقاء کے لئے خدا وند عالم کی طرف محتاج ہیں ۔

جیسا کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں "كلّ‏ شئ‏ خاضع‏ له كلّ‏ شئ‏ قائم به (۴۵)

تمام چیزیں خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور تمام چیزیں اسی سے وابستہ ہیں ۔

علماء نقل کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں پیغمبر اکرم بار بار سجدے میں جاتے تھے اور یا حی یا قیوم کا ورد کرتے تھے۔

۵-أسئلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی أشْرَقَتْ به السَّمٰوَاتُ وَالْاَرَضُونَ :

تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں۔

دعا کے اس جملے کی طرح روز قیامت کے روشن ہونے پر قرآن کریم میں بھی ایک آیت ہے سورہ زمر میں فرمایا ہے "

( وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا وَ وُضِعَ الْكِتَابُ وَ جِاْى‏ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَ الشهُّدَاءِ وَ قُضىِ‏َ بَيْنهَم بِالْحَقّ‏ِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُون ) (۴۶) ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر اطیب البیان میں اس آیت کی ذیل میں ہے کہ قیامت کے دن سورج اور چاند سے انکی روشنی واپس لینگے اور اس دن خدا کے نور روشن ہوگا تو اس سے مراد وہ نورہے جو مؤمنین سے نکلے گا ۔ اس کے بعد اس آیت کو گواہی کے طور پر ذکر کرتا ہے "( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِم ) (۴۷) قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا ۔

اس آیت کی اس تفسیر سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ وہ نو رجو قیامت کے دن روشن ہوگا وہ معصومیں علیہم السلام کا نور ہوگا کہ جن کا نور نور خدا سے ہے لہذاپیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کا نور ہیں اسی لئے زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی نور کی طرف اشارہ ہوا ہے جیساکہ فرمایا "وَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ‏ بِنُورِكُم ۔اور اسی طرح بہت ساری دعائیں موجود ہے کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن شیعوں کے اعتقاد کی بنیاد پر اہل بیت علیہم السلام نور الہی کے بہترین تجلی ہیں اور انکا نور نور خدا سے ہیں جو منور اور ہدایت گر ہے ۔اور اسی کی ذیل میں پیغمبر اکرم سے ایک حدیث نقل ہوئی ہیں فرمایا کہ "ثُمَ‏ أَظْلَمَتِ‏ الْمَشَارِقُ‏ وَ الْمَغَارِبُ فَشَكَتِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ تِلْكَ الظُّلْمَةَ فَتَكَلَّمَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كَلِمَةً فَخَلَقَ مِنْهَا رُوحاً ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ نُوراً فَأَضَافَ النُّورَ إِلَى تِلْكَ الرُّوحِ وَ أَقَامَهَا مَقَامَ الْعَرْشِ فَزَهَرَتِ الْمَشَارِقُ وَ الْمَغَارِبُ فَهِيَ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ لِذَلِكَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُورَهَا زَهَرَتْ بِهِ السَّمَاوَات (۴۸) ۔

جب ہر جگہ تاریکی اور اندھیرا چھا گیا تو خداوند عالم سے فرشتوں نے شکایت کی کہ خدایا اس تاریکی کو ہم سے برطرف فرما !تو خداوند عالم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور اسی کلمہ سے ایک روح خلق ہوا اس کے بعد ایک اور کلمہ ارشاد فرمایا اس سے ایک نور خلق ہوا اور اس نور سے روشنی دی اور اس روشنی اورروح کو خدا نے عرش پر رکھا اس سے تمام عالم روشن ہوا اور وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نور ہے اسی لئے آپ کو زہرا کہا اور آپ کے نور سے تمام آسمان روشن ہوا ۔

ایک اور روایت میں امام مہدی علیہ السلام کو زمین کو روشن کرنے والا کہا ہے ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا " رب الارض جوکہأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا والی آیت میں آیا ہے اس سے مراد امام الارض ہے یعنی امام زمانہ مراد ہے -(۴۹)

البتہ روایات میں قیام حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اس آیت کی تفسیر و تاویل میں بیان کیا ہے اور حقیقت میں یہ ایک تاکید و تشبیہ ہے روز قیامت کے ساتھ کیونکہ یہ قیامت کا ایک نمونہ ہے چونکہ امام زمانہ کا عدل و انصاف تمام عالم میں حاکم ہوگا ۔

امام زمانہ کے ظہور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ" إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ‏ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْس (۵۰) ۔ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو زمین نور پرور دگار سے روشن ہوگا اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہونگے ۔

۶-وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِه الْاَوَّلُونَ وَالْاَخِرُونَ :

تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین وآخرین نے بھلائی پائی۔

ان کلمات کے ساتھ دعا دوسری دعاوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح سے دعا کی ہے فرمایا "

فَأَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ الْأَرْضُ‏ وَ السَّمَاوَاتُ وَ انْكَشَفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِين (۵۱)

بعید نہیں ہے اس سے پہلے والے فراز میں اسم الہی کہ جس سے تمام مخلوقات اولین و آخرین اصلاح پاتے ہیں سے مراد وہ وہی انسان کامل اور خلیفہ الہی ہو ۔ کیونکہ خدا وند عالم نے حجت خدا کو مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور حجت خدا ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ابھی اس زمانے میں ہر صالح انسان کی زندگی میں جو مؤثر ذات ہے اور گمراہی اور فساد سے نجات دیتی ہے وہ حجت خدا امام زمانہ کی ذات اقدس ہے ۔ اور آپ کی ذات ہی معاشرے کی تربیت اور انسانوں کی ہدایت کا محور ہے اور آج کے اس دور میں انسان کی نجات کا واحد وسیلہ امام سے منسلک ہونا ہی ہے اور انسان جتنا بھی اپنے کردار سے امام سے نزدیک ہو جائے گا اتنا ہی وہ خوش نصیب ہوگا۔

ان جملات کے پڑھتے وقت منتظر اس نکتے کی طرف متوجہ ہے کہ انسان کو چاہیے اپنی زندگی کو ایسا بنائے کہ جس سے امام راضی ہو جائے کیونکہ حجت خدا کا انسان کے زندگی میں مؤثر ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ انسان کو فساد سے نجات دے اور اسکی ہدایت کرکے کامیابی کا راستہ دیکھا دے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں "بِمُوَالاتِكُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِينِنَا وَ أَصْلَحَ‏ مَا كَانَ‏ فَسَدَ مِنْ دُنْيَانَا ۔(۵۲)

خداوندمتعال نے آپ کی اس ولایت کے واسطے سے ہماری وہ زندگی جو خراب اوربے ثمر تھا اس کا اصلاح کیا ۔

پس ہر وہ شخص جو اپنی زندگی میں کامیاب تھے اور کامیابی تک پہنچے ہیں وہ اپنے زمانے کے حجت خدا کے وسیلہ سے کامیابی تک پہنچے ہیں ۔

۷-یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ :

اے زندہ ہر زندہ سے پہلے۔

۸-وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ :

اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد۔

۹-وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ :

اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔

اس دعامیں خاص طور پر خداوند متعال کے ( حَیٍّ ) یعنی زندہ ہونے پر تاکید ہوئی ہے اور یہ بحث دعاے جوشن کبیر کی سترویں فراز میں اس طرح سے آئی ہے ۔"يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيُّ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يُشَارِكُهُ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ إِلَى حَيٍّ (۵۳) ۔

ہاں خداوند عالم تمام موجودات سے پہلے اور بعد میں زندہ ہے اور زندہ رہنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی زندہ ہونے میں وہ کسی کا محتاج ہے بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ زندہ و قائم ہے

اس دعا میں اس اسم الہی کو چہار بار کیوں ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی زندگی اور موت کی طرف اشارہ کیا ہے آیاممکن ہے کہ یہ بحث رجعت کے ساتھ مربوط ہو ؟ جوکہ اس دعا کے بارے میں معروف ہے تو ظاہرا ایسا لگتا ہے کہ اس (حی ) پر تاکید کرنا رجعت کے مسالہ سے غیر مربوط نہ ہو۔

۱۰-یَا مُحْیِیَ الْمَوْتیٰ :

اے مردوں کو زندہ کرنے والے ۔

وہ خدا کہ جو پہلے خلق کیا ہے وہی دوبارہ بھی خلق کرسکتا ہے جیسا کہ سورہ نجم میں آیا ہے کہ "( وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا ) (۵۴) ۔

اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے ۔

پس وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمام عالم پر اور ہر چیز کی زندگی اور موت پر قدرت و اختیار رکھتا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے "( إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيي‏ وَ يُميتُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصيرٍ ) (۵۵)

آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی ۔

اسی قسم کی بہت ساری آیات موجود ہیں جیسا کہ سورہ عنکبوت میں فرمایا "

( أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) (۵۶) ۔

کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ (زیادہ )آسان ہے ۔

نتیجہ :

۱ ۔ آفرینش جہان خدا وند عالم کی قدرت نمائی کا مظہر ہے اور موت و زندگی اسی کا ایک حصہ ہے ۔

۲۔ موت و زندگی دینا اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا خدا وند عالم کا ہمیشہ کا کام ہے ۔( إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُه ) ۔ فعل مضارع ہے جو استمرار اوردوام پر دلالت کرتاہے ۔

۳۔ پہلی دفعہ خلق کرنا اور موت دینا اور پھر زندہ کرنا خدا کے لئے آسان ہے صرف ارادہ چاہیے ۔( إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) ۔

۱۱-وَمُمِیتَ الْاَحْیاء :

اے زندوں کو موت دینے والے ۔

قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ موت و حیات خدا وند عالم کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے ۔( وَ أَن إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏ ) ۔ ھوآفات و احیاء) اور اسی طرح سے سورہ یونس میں ملتا ہے ۔( هُوَ يُحْىِ وَ يُمِيتُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون ) (۵۷) ۔

وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

اور سورہ روم میں آیا ہے( اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يحُيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكاَئكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَالِكُم مِّن شىَ‏ْءٍ سُبْحَنَهُ وَ تَعَلىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون ) (۵۸) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں خداوند عالم کے چار اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر ان میں سے ایک بھی انسان میں ہو تو یہ اس کے لئے کافی ہے ۔

الف) انسان کی خلقت ہی بندگی لازم ہونے پر ایک دلیل ہے جیسا کہ فرمایا "

( اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ ) (۵۹) ۔ عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیداکیا۔

ب) اللہ تعالی کا ہمیں رزق و روزی دینا بندگی ضروری ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ فرمایا "( فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَاذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَ ءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِ ) (۶۰) ۔( چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔

اور اسی طرح سے موت و زندگی بھی اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ضروری ہونے پر الگ الگ دلیلیں ہیں فرمایا "

( اللَّهُ الَّذي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ ) (۶۱) ۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا،

اور اسی طرح سے سورہ غافر میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا "

( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ فَإِذَا قَضىَ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون ) (۶۲) ۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہوجاتا ہے ۔

نتیجہ :

۱۔ موت اور زندگی فقط خداکے ہاتھ میں ہے ۔( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۲۔ اللہ کے لئے زندگی دینا اور موت دینا برابر ہے ۔( يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۱۲-یَا حَیُّ لاَ إله إلاَّ أنْتَ :

اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.

اس سے پہلے خداوند عالم کے حَیّ ہونے کے بارے میں توضیح دی ہے اور اس حصے میں خداوند عالم کی وحدانیت کو ذکر کیا ہے لہذا اس کے بارے میں تھوڑا سا توضیح دینگے ۔

قرآن مجید میں بہت ساری مقامات پر وحدانیت کا ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( لَا إِلَه إِلَّا الله ) (سورہ صافات /۳۵() لَا إِلَه إِلَّا الله هو ) ۔ (سورہ بقرہ / )۱۶۳ ) اور( لَا إِلَه إِلَّا الله انت ) ۔ (سورہ انبیاء /۸۷ )۔( لَا إِلَه إِلَّا الله انا ) ۔ (سورہ نحل / ۲)۔

مسلمانوں کی شناختی علامت یہی ۔لَا إِلَه إِلَّا الله ہے اور اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے تبلیغ دین کا سب سے پہلا کلمہ بھی یہی تھا جیسا کہ فرمایا "قولوا لا اله الا الله تفلحوا ۔(۶۳)

اور اسی طرح سے فرمایا "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ إِخْلَاصُهُ أَنْ تَحْجُزَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل ۔(۶۴) ۔ جو کوئی خلوص کے ساتہ کلمہ توحید پڑھے گا تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اورخلوص کی علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد وہ حرام الہی سے دور رہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہقَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَمَنُ‏ الْجَنَّة (۶۵) ۔ یعنی اس کا پڑھنا جنت کی قیمت ہے۔ اور اسی طرح سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ "لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِي (۶۶)

یقینا خداکی وحدانیت خدا کا مضبوط قلعہ ہے خدا کی وحدانیت پر اقرار اور اعتراف کرنا بہت ساری دعاؤں میں موجود ہیں جیسا کہ آداب دعا میں سے ایک اہم حصہ یہی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام دعاے کمیل میں فرماتے ہیں "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‏ سُبْحَانَكَ‏ وَ بِحَمْدِكَ‏ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ تَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي ۔(۶۷)

اور قرآن میں بھی اسی طرح سے آیا ہے فرمایا "( أَن لَّا إِلَاهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنىّ‏ِ كُنتُ مِنَ الظَّلِمِين ) ۔(۶۸)


5

6

7