پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)0%

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن غرویان
زمرہ جات: مشاہدے: 4841
ڈاؤنلوڈ: 1786

تبصرے:

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4841 / ڈاؤنلوڈ: 1786
سائز سائز سائز
پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

پیغمبر اکرمؐ کی شناخت(عقل و سنت کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری فصل

انبیاء کی دعوت کے بارے میں کلی مباحث

پیغمبر اسلام (ص) کا وجود ساری امتوں کے لئے :

کیا ہر زمان اور ہر مکان میں اللہ کی طرف سے پیغمبر مبعوث ہواہے؟

ممکن ہے بعض آیات و روایات کی رو سے اس مطلب کو استفادہ کرسکیں کہ انبیاء کی کثرت اور کوئی برہۂ زمانی حجت الٰہی سے خالی نہ رہنے کی حکایت کرے جو اس سوال کے لئے مثبت جواب شمار ہوتاہے لیکن توجہ کی بات یہ ہے کہ جو چیزیں قرآن کریم میں تصدیق اور تاکید کا مورد قرار پائی ہے وہ یہ ہے کہ ہر امت کے لئے اللہ کی طرف سے انبیاء و رسل الٰہی کی بعثت ہے:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ) (۳۹)

اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے ۔

کسی اور جگہ پر فرماتے ہیں:( وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ ) (۴۰)

اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو ۔

لفظ امت کے موارد استعمال کے لحاظ سے قرآن کریم میں حتی حیوانات کے بارے میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے(۴۱) فقط یہ نکتہ ہمیں ملتا ہے کہ یہ لفظ انسانوں یا غیر انسانوں کے ایک گروہ اور معین دستہ پر اطلاق ہوتا ہے، اما یہ سوال جو اس گروہ کی مشترک خصوصیت اور ا ن کے درمیان موجودہ وحدت کا عنصر کیا ہے؟ کیا زمان مشترک ، مکان واحد،، وحدت ہدف یا کوئی اور چیزیں ہیں؟ یہ وہ مطالب ہیں جو مذکورہ آیات سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں، لہذا تمام زمانوں میں یا تمام مکانوں میں ہرقوم کے درمیان ایک ہی پیغمبر کے مبعوث ہونے پر کوئی دلیل موجودنہیں ہے، البتہ اس مطلب کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ ہر زمان و مکان میں ایک گروہ کے لئے حجت الٰہی کی موجودگی کا امکان نہ ہو بلکہ روایات کی تصریح اور قرآن کریم کی روشنی میں جو عقلی براہین سے مورد تائید بھی ہے کسی وقت بھی زمین حجت الٰہی کی وجود سے جو لوگوں کو ہدایت اور کمال کی راہ دکھاتا ہے خالی نہیں ہوجائےگا، لیکن اس موضوع میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ خدا کا حجت پیغمبر ہی کا ہونا لازمی نہیں ہے، بلکہ احتمال یہ ہے کہ اس حجت الٰہی سے مراد جانشین پیغمبر اور حتی آسمانی کتاب ہو۔

ایک وقت میں دو پیغمبر:

جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض ادوار میں دو پیغمبر لوگوں کے درمیان موجودتھے مثلاً حضرت ابراہیم اور لوط یہ دو نبی ایک ہی زمانے میں تھے اور اسی طرح حضرت موسی اور اس کا بھائی ہارون قوم بنی اسرائیل کے درمیان ایک زمان میں اللہ کے دو پیغمبر تھے ۔ البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان موارد میں ہمیشہ دو نبیوں میں سے ایک نبی دوسرے نبی کے پیروتھے۔

انبیاء کی دعوت کا مقصد :

جیساکہ اس سے پہلے ذکر ہوچکا، انبیاء الٰہی کی دعوت کا محتویٰ ، زمانی اور مکانی تفاوت اور اجتماعی شرایط کے باوجود برابر اوریکساں ہے اور ان سب نے لوگوں کو خدا کی پرستش اور و طاغوت سے دوری اختیار کرنے کی طرف دعوت دی ہے:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) (۴۲) اور بے شک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو ۔

( اِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللهَ ) (۴۳)

جب ان کے پاس پیغمبر آگئے تھے ان کے سامنے اور پیچھے سے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

انبیاء کا مرد ہونا:

سارے انبیاء جنس مذکر میں سے تھے اور عورتوں میں سے کوئی بھی نبوت کے لئے مبعوث نہیں ہوئی ہے:( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ) (۴۴)

اور آپ سے پہلے ہم ان بستیوں میں صرف مردوں ہی کو بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ۔

( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ ) (۴۵)

اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردان (حق) ہی کی طرف وحی بھیجی ہے ۔

انبیاء کا اپنی قوم کی زبان میں گفتگو کرنا:

تمام انبیاء جس قوم کے درمیان رسالت پر مبعوث ہوئے تھے اسی قوم کی زبان میں بات کرتے تھے:

( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِه لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ) (۴۶)

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے ۔

انبیاء کے وظائف کے مطابق جو یہ حضرات انسانی معاشرے کے افراد کے لئے معلم اور سعادت و کمال کی راہ دکھانے والے ہیں اور ان کے لئے وحی کی محتویٰ کو تبیین کرتےتھے اور دستورات الٰہی بیان کرکے لوگوں کو تعلیم دیتے تھے اوران کے نفوس کو تہذیب دیتے تھے، اس نکتہ کی حکمت لوگوں کےساتھ رہنا بطور وضوح عیاں ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر ہر پیغمبر اپنی قوم کے زبان نہ جانے تو بدیہی ہے کہ اپنے وظایف میں کامیاب نہیں ہوجائے گا، اور لوگ اس کے باتوں کو نہیں سمجھیں گے لہذا ان کے آپس میں تفاہم وجود میں نہیں آئے گا، اور یہ رسالت اور بعثت کی ہدف کے ساتھ سازگار نہیں ہوتا ہے۔

یہی حکمت ان نبیوں کےبارے میں جو ان کی دعوت ایک خاص گروہ پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کی دعوت کا دامن ساری دنیا کو شامل ہوتا ہے، جیسے پیغمبر اکرمﷺ کی عالمی رسالت کی طرح کچھ اور بیان کے ساتھ موجود ہے۔ یہ انبیاء ایک خاص قوم کے درمیان قیام کیا ہے اور اپنی دعوت کواسی قوم سے شروع کیا ہے اور تدریجاً ان کی دعوت اور نبوت کا چرچا دنیا کے دوسرے جگہوں تک پہنچا ہے، لوگ ان کی طرف ملحق ہوئے ہیں ان نبیوں کے لئےبھی تفاہم اور اپنے قوم کا اعتماد اپنی طرف جلب کرنا یعنی جنہوں نے دوسرے لوگ سے پہلے ان حضرات کی دعوت کو سن کر، ان کے سامنے تسلیم ہوگئے ہیں، ان کی دعوت کامیاب ہونے کے بعد اس کو پھیلانے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، اس لئے لازم تھا کہ اپنے قوم کی زبان سے واقف ہو، اسی زبان سے بات کرے اور اپنی رسالت کو اپنے قوم کے درمیان ابلاغ کرے اور دعوت الٰہی کی بنیاد مستحکم ہونے کے بعد بہت سارے مبلغین اور رسولوں کو مختلف زبان اور گریشوں کے ساتھ، مختلف جگہوں پر بھیج کر لوگوں کو اپنی رسالت پر آگاہ کردے، جیساکہ پیغمبر اکرمﷺ اپنے عالمی دعوت کے بارے میں اسی طرح عمل کیا ہے۔

انبیاء کا صلہ (اجر):

انبیاء کو ابلاغ رسالت کی راہ میں جتنی زحمات و سختیاں اور دشواریاں اٹھانی پڑیں ، اور ان پر مشکلات اور سختیاں پہنچانے کے باوجود آخر لوگوں سےکسی قسم کی اجر اور مزدوری رسالت نہیں چاہتےتھے، اور اس نکتہ کو ہمیشہ لوگوں کویاد دلاتے رہے تھے کہ ہم تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے ہیں اور ہمارے اجر اور جزاء صرف اللہ پر ہیں،

قرآن کریم متعدد نبیوں کی قول سے ان میں سے حضرت نوح ، ہود، صالح، لوط، شیعب اور پیغمبر

اکرم ﷺ کے قول سے اس نکتہ کو نقل کیاہے ۔(۴۷)

ایک آیت میں پیغمبر اکرمﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتےہیں:

( قُلْ مَآ اَسْألُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ) (۴۸)

کہدیجیے: میں تم لوگوں سے اس بات کا اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ والوں میں سے ہوں ۔

البتہ انبیاء کی طرف سے اجر کی طلب اور تقاضا انسان کی توقع سے خارج نہیں ہے، انہوں نے اس بھاری اور مشکل مسؤلیت کو اس عہد و پیمان کی وجہ سے عہدیدار ہوگئے ہیں جو اپنے پروردگار کے ساتھ کئے ہیں لہذا اس مسؤلیت اور ذمہ داری کو انجام دینے میں کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہیں کئے ہیں نہایتاً اسی راہ میں اپنی جانیں خالصانہ طور پر پیش کردیئے ہیں اور بدیہی ہے کہ اپنے اجر اور انعام کو خداوند سے چاہے اور اس کے سوا تھوڑی چیز سے قانع نہ ہوجائے ، جو اس بارے میں توجہ کی بات ہے وہ آیات ہیں جو پیغٖمبر اکرمؐ کی طرف سے اجر و پاداش کے بارےمیں ہونے والے تقاضا پر دلالت کرتے ہیں :

( قُلْ لَّآ اَسْألُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ) (۴۹)

کہدیجیے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے... ۔

دقت کی ضرورت ہے کہ اس آیت میں استثناء حقیقی نہیں ہے یعنی یہ پاداش دیگر پاداشوں کے خلاف، اجر لینے والے پیغمبر کے لئے ذاتی فائدہ نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی نفع خود اجر رسالت دینے والوں کی طرف لوٹتی ہیں، جیساکہ کوئی دوسری آیت میں فرمارہے ہیں:( قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَلَكُمْ ) (۵۰)

کہدیجیے: جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لئے ہے ۔

ایک اور آیت پر توجہ کرنے کے بعد جو بھی خداوند کی طرف جانے کے ایک راستہ کے عنوان سے یاد کیا ہے، اہلبیت پیغمبر اکرمﷺ کی دوستی اور محبت کی تاکید کا راز معلوم ہوجا تاہے کہ اس اجر کا سود اور فائدہ خود لوگوں کو نصیب ہوجائےگا:

( قُلْ مَآ اَسْألُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّه سَبِيْلًا ) (۵۱)

کہدیجیے: اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں ) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ۔

انبیاء کے مراتب:

انبیاء کے مراتب فضل اور کمالات کے عنوان سے برابر نہیں ہے، بلکہ بعض انبیاء کے لئے بعض دیگر عناوین کے اعتبار سے برتری حاصل ہے۔

قرآن کریم اس بارے میں فرماتےہیں:( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَهُمْ عَلى‏ بَعْضٍ ) (۵۲)

انبیاء اور ان کی عالمی رسالت:

غالبا انبیاء کا ذکر قرآن کریم کی آیات میں ان کے اپنے خاص قوم کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جو اس نبی سے مرتبط تھے جیسے قوم لوط، قوم ہود، قوم ثمود، قوم عاد وغیرہ ۔۔۔۔، انہی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ انبیاء ہر ایک اپنے قوم پر مبعوث ہوگئے تھے ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا انبیاء الٰہی کے درمیان ایسے انبیاء بھی ہیں جو ساری دنیا کے لوگوں پر مبعوث ہوچکے ہو؟ اور ان کی دعوت ایک خاص قوم تک محدود نہ ہو؟ اسی سوال کا جواب بطور واضح بیان کرنے کے لئے اس کو دو قسموں میں تقسیم کریں گے۔

الف: کیا انبیاء کے درمیان ایسے نبی موجود ہیں جو پیغام الٰہی کو سارے لوگوں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہو؟

ب: کیا وہ احکامات اور دستورات جو ایک پیغمبر نے ابلاغ کرنے ہیں ، فقط اس کی قوم کے لئے مختص ہیں اور دوسرے لوگ اس کی شریعت پر ایمان لانے کا حق نہیں رکھتے ہیں؟

پہلا سوال کا جواب مثبت ہے اور اس کا غیر قابل تردید مصداق خود پیغمبر اکرمﷺ کی ذات ہے، جیساکہ دعوت ناموں سے جو حضرت نے مختلف ملکوں کے عہداروں اور حکمرانوں کے لئے لکھے تھے بطور واضح معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ آئندہ آنے والے ابحاث میں بیان کریں گے، کہ حضرت کی دعوت حتی انسانوں تک محدود نہیں رہی ہے، بلکہ جنّات بھی شامل ہوتی ہیں، لیکن باقی انبیاء کے بارے میں تو واضح دلیل ہمارے پاس نہیں ہے جو ان کی رسالت کی عمومیت پر دلالت کرے۔ اور شاید بعض آیات کے ظاہر سے ان کی دعوت کا عام نہ ہونے پر استفادہ ہوگا، جیسے وہ آیات جو ایک خاص گروہ پر رسولوں کی رسال ہونے کے بارے میں یاد کرتی ہے ۔(۵۳)

دوسرے سوال کا جواب منفی ہے، وہ آئین او رمذہب جو انسان کو ایک آسمانی اور پیغمبر الٰہی عطا کرتا ہے فقط اسی قوم کے لئے مختص نہیں ہے، بلکہ جو بھی اس آئین سے مطلع ہوجائے اس پر لازم ہے کہ اسی نبی پر ایمان لائے، کیونکہ وہ چیزیں جو مبحث وحدت دین الٰہی اور انبیاء کے دین کی وحدت اور یگانگی جو حقیقت میں وہی اسلام ہے اور نیز انبیاء الٰہی کے درمیان تفکیک ناپذیر ہونا اور بعض نبیوں پر ایمان لانا اور بعض پر ایمان نہ لانا اس مبحث میں بیان ہوچکے ہیں۔

واضح اور روشن ہے کہ جو بھی کسی پیغمبر کی نبوت سے آگاہ ہوجائے اور اس کی سچائی پر گمان پیدا کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اسی پر ایمان لائے ، البتہ اس مطلب سے لازم نہیں بنتی ہے کہ کوئی نبی اپنے قوم کے لئے خاص احکامات اور دستورات نہ لایا ہو جس طرح سے دوسرے لوگوں کو ان دستورات کی پیروی کرنالازم نہ ہو، جیساکہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہی مسئلہ واقع ہوا ہے(۵۴) ،لیکن بہرحال انبیاء کے قوانین اور دستورات کا عمدہ اور بڑا حصہ جو لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں فقط ان کے قوم کے لئے مختص نہیں بلکہ سب کے لئے عمومی ہے۔

پیغمبروں کی رسالت اور جنّات :

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم جن ّ کوبھی انسان کی طرح ایک مکلف موجود مسؤل بتا رہا ہے، لہذا اس نوع کے افراد بھی جب کسی پیغمبر کی نبوت سے مطلع ہوجائے اور اس کی ادعا کی سچائی پہ یقین پیدا کرے تو ان پر بھی لازم ہے کہ اس نبی پر ایمان لائے ، اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کوئی پیغمبر اس قوم پر مبعوث ہوا ہے؟ جس طرح کہ اس پر واجب و لازم ہو کہ اپنی رسالت کو انہیں ابلاغ کرے؟

اس سوال کاجواب رسول اکرمؐ کے بارے میں تو روشن اور واضح ہے، کیونکہ ہمیں آیات اور روایات سےجو ملتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اکرمؐ دونوں گروہ جن و انس پر مبعوث ہوئے ہیں(۵۵) ۔لیکن دوسرے نبیوں کے بارے میں اس سوال واضح اور روشن جواب ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔

انبیاء الٰہی کی دعوت اور لوگوں کا جواب:

لوگوں کے برتاؤ اور ان کے عکس العمل انبیاء الٰہی کی آسمانی دعوت کے بارے میں قابل توجہ موضوعات میں سے ہیں۔ قرآن کریم کی وہ آیات جو اس موضوع کے حوالے سے ہمارے آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہیں، سب کے سب لوگوں کی طرف سے انبیاء کی اور ان کا انکار اورنیز ان کی طرف سےانبیاء پر تہمتیں لگانے پر دلالت کرتی ہیں، بعض آیات میں اس انکار کو سارے لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جیساکہ فرماتاہے :

( اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِن بَعْدِهمْ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللهُ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرَدُّوْٓا اَيْدِيَهُمْ فِيْٓ اَفْوَاههِمْ وَقَالُوْٓا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِه وَاِنَّا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ ) (۵۶)

کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (مثلا) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعد آئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے توانہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں ۔

لیکن دوسرے متعدد آیات سے یہ واضح ہوتاہے کہ انبیاء الٰہی کے مخالفین اور منکرین کو بطور معمول معاشرے کے ایک خاص گروپ سے بنتے ہیں جو کبھی معاشرے میں اپنے اثرو رسوخ چلاکر مختلف حیلوں اور طریقوں کو استعمال کرکے دوسرے گروہوں کو بھی اپنے ساتھ انبیاء کی مخالفت کی راہ میں ڈال دیتے تھے۔

قرآن کریم نے ایسے گروہ کو ملا، مترف، اور مستکبر کے عنوان سے یاد کیا ہے، قوم نوح کےبارے میں فرمایا ہے:( قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٓ اِنَّا لَنَرٰیكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) ۔(۵۷)

ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں ۔

ایک اور آیت میں ہے:( وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِه كٰفِرُوْنَ ) (۵۸)

اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے ۔

قوم ثوم کے بارے میں فرماتا ہے:

( قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِه لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّه قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِه مُؤْمِنُوْنَ ) (۵۹)

ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور طبقہ اہل ایمان سے کہا: کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: جس پیغا م کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں ۔

لفظ ملا عہدیداروں اور معاشرے کے بھاگ ڈور چلانے والوں پر اطلاق ہوتاہے۔ لفظ مترف معاشرے کے عیاش اور خوشگزران طبقہ کو کہا جاتا ہے۔ اور مستکبر بھی ان افراد پر اطلاق ہوتا ہے جو خیال کرتےہیں کہ لوگ ان سے پست تر ہیں۔ یہ تین قسم کے افراد ایک گروہ سے حکایت کرتے ہیں اور یہ افراد سماج میں بانفوز، عیاش اور دوسروں کے سربراہ ہیں جو معاشرہ کے تمام امور کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس چیز کی طرف جو ان کے ذاتی منافع کا تقاضا کرتی ہے ہدایت کرتی ہے اور اس راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ بنے مقابلہ کرتی ہے ، لہذا انبیاء الٰہی جو پیغام لانے والے اورعدالت و آزادی اور انسانوں کی شرافت کو فراہم کرنے والے ہیں ان کا ظہور ان کے ناخوشنودی کا موجب بن کر مخالفت کرتے ہیں، جس معاشرے میں فرامین پروردگار حاکم ہو اور لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت ہوجائے ایک نافرمان اقلیت گروہ کے لئے سرکشی اور بغاوت کا میدان نہیں رہے گا، اس توضیح سے انکار کرنے والوں کی نیت اور عزایم جو وہی بغاوت اور لوگوں پر برتری اور فوقیت طلبی ہے معلوم ہوتا ہے جیساکہ ہم نے بیان کیا یہ گروہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو گمراہ کررہے تھے۔

ان کا ایک رائج اور مرسوم طریقہ جس کے ذریعہ عوام کو دکھ دیتے تھے وہ انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو مسخرہ اور توہین کرتے تھے :( وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ) (۶۰)

اور کافر جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا بس استہزاء کرتے ہیں (ا ور کہتے ہیں ) کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا (برے الفاظ میں ) ذکر کرتا ہے؟ ۔

دوسری آیت میں فرماتاہے:

( اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ وَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ يَتَغَامَزُوْنَ وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ وَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْٓا اِنَّ هٰٓؤُلَاءِ لَضَالُّوْنَ ) (۶۱)

جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا تھا، وہ مؤمنین کا مذاق اڑاتے تھے۔ جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھیں مار کر اشارہ کرتے تھے۔اور جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو اتراتے ہوئے لوٹتے تھے۔ اور جب ان (مومنین) کو دیکھتے تو کہتے تھے: یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں ۔

اگر یہ طریقہ اثر نہ کرتا تو انبیاء پر تہمتیں اور افتراء نسبت دیتےتھے اور ان کو جادوگر، مجنون اور کاذب کہہ کر یاد کرتےتھے :

( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ اَتَوَاصَوْا بِه بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ ) (۶۲)

قرآن کریم پیغمبر اکرمﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے:

اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر اس سے انہوں نے کہا : جادوگر ہے یا دیوانہ۔ کیا ان سب نے ایک دوسرے کو اسی بات کی نصیحت کی ہے؟ (نہیں ) بلکہ وہ سرکش قوم ہیں۔

مخالفین جب اس راہ سے اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوتے تھے اور انبیاء کو اپنی کوششوں سے نہیں روک سکتے تھے، بحث و جدال کا طریقہ اختیار کرتےتھے اور ناممکن اور غیر معقول مطلب بیان کرکے بہانہ تراشی کرتےتھے بطور مثال کہتےتھے: کیوں خدانے اپنے انبیاء کو نوع بشر میں سے قرار دیا ہے؟ کیوں پیغمبروں کو فرشتوں سے منتخب نہیں کیا ہے؟ کیوں خداوند بطور مستقیم و بغیر واسطہ ہم سے بات نہیں کرتے ہیں؟

قرآن کریم نے اس قسم کی بہانہ تراشی کی ہوئی موارد کو بطور مثال ذکر کرتا ہے:

اور کہنے لگے: ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے جب تک آپ ہمارے لیے زمین کو شگافتہ کر کے ایک چشمہ جاری نہ کریں ۔ یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں ۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیساکہ خو دآپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں ۔ یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی کتاب اپنے ساتھ اتار نہ لائیں جسے ہم پڑھیں ، کہدیجیے: پاک ہے میرا رب، میں توصرف پیغام پہنچانے والا انسان ہوں ۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو اس پر ایمان لانے میں اور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟(۶۳)

ایک اور آیت میں فرماتاہے:

اور بے علم لوگ کہتے ہیں : اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں ، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں ، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں(۶۴)

ان کےمخالفت یہی پر ختم نہیں ہوتی ، جب یہ منکرین اپنے سارے مکر و فریب کی طریقوں سے مایوس ہوتےتھے تو تہدید اور دھمکیاں دینے کا موضع اختیار کرلیتے تھے ، کبھی انبیاء کو اپنے شہر و وطن سے نکالنے کی دھمکی دیتےتھے:( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَ ) (۶۵)

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے یا بہرصور ت تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہوگا، اس وقت ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے ۔

بعض موارد میں انبیاء کو اپنے مخالفین کی طرف سے سنگسار اور پتھراؤ کرنے کی دھمکی دیتےتھے:

( قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰیكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ ) (۶۶)

انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور بیشک تم ہمارے درمیان بے سہارا بھی نظر آتے ہو اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر چکے ہوتے (کیونکہ) تمہیں ہم پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے ۔

ایک اور آیت میں بیان ہوا ہے :

( قَالُوْٓا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ ) (۶۷)

بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں ، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا ۔

البتہ جب دشمنوں کی مخالفت یہاں تک پہنچی تھی لہذا جب کبھی انسانی معاشرے میں متصل ہدایت کی خاموشی اور ہدایت کا راستہ مسدود ہونے کا خطرہ فراہم ہوتاتھا تو ایک مہلک عذاب اس قوم پر آجاتا تھا۔ اور یہ اللہ کی تغییر ناپزیر سنت ہے۔

لوگوں کا پیغمبروں سے سلوک:

یہاں پر لازم ہے کہ سنت الٰہی جو لوگوں کے سلوک انبیاء کے ساتھ کس طرح تھے، اس بارے میں بطور اختصار، اشارہ ہوجائے ، قرآن کریم کی آیات کو بررسی کرنے کے بعد اس موضوع سے متعلق چند سنت اور قوانین الٰہی ہمیں ملتے ہیں جو یکی بعد دیگری متحقق ہواہے اور مختلف اقوام کے بارے میں تکرار ہوا ہے:

۱ ۔ لوگوں کا سختیوں میں مبتلا ہونے کا فلسفہ :

( وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ) (۶۸)

اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔

۲ ۔ ۳ ۔ قانون املاء اور قانون استدراج:

اگر لوگ زیادہ گناہ کرنے کی وجہ سے قساوت قلب سے دوچار ہوکر تسلیم نہ ہوجائے،تو پروردگار انہیں فرصت دے کر بطور تدریجی اپنے نعمتوں کو انہیں زیادہ سے زیادہ دے کر اس حد تک کہ وہ خوشی اور سرمستی میں غر ق ہوکر یاد خدا کو کامل طور پر بھلا دیتے ہیں وہ طغیان اور سرکشی میں ڈوب جاتےہیں کیونکہ اگر انسان خود کو بے نیاز دیکھے تو بغاوت کرنا شروع کردیتا ہے(۶۹)

لہذا آہستہ آہستہ وہ اپنے تاریک اور زیانبار سرنوشت کی طرف قریب ہوتا ہے، اس حدتک کہ پروردگار کی تیسرے قانون کا اجرا ہونے کا وسیلہ فراہم ہوتا ہے اور اچانک ان کو پانے گھیرےمیں لیکر نابود کرتے ہیں:

( ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَايَشْعُرُوْنَ ) (۷۰)

پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں ، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی ۔

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰٓي اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) (۷۱) ۔

پھر جب انہوں نے وہ نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے ۔

( وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ وَاُمْلِيْ لَهُمْ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ ) (۷۲)

اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے ۔

قرآن کریم بہت سی قوموں کی سرنوشت کو یاد دلاتا ہے جو انتہائی دردناک انجام سےدوچار ہوچکےہیں کہ ان واقعات کا ہر لفظ غافلوں کے لئے ہشدار ہے، اور وعظ ونصیحت ہے ہوشیار دل والوں کےلئے۔

انبیاء الٰہی کی تعداد:

بہت سی روایات میں انبیاء کی تعداد کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔ ان روایات میں اختلاف کے باوجود اس موضوع میں مشہور نظریہ جو انبیاء الٰہی کی تعداد کو ایک لاکھ چوبیس ہزار نفر ہے ان روایات سےاخذ کرسکتے ہیں۔

چنانچہ علامہ مجلسی ، شیخ صدوق سے جو شیعہ بزرگ دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں نقل کرتیں ہیں: ہمارے اعتقاد کے مطابق انبیاء کی تعداد ۱۲۴ ہزار اور ان کے اوصیاکی تعداد بھی یہی مقدار ہے او رہر پیغمبر کے لئے ایک وصی ہے۔(۷۳)

اب بعض روایات کے ترجمہ پر توجہ فرمائیں جو اس قول کی تائید کرتےہیں:

الف: امام رضاؑ اپنے آبا و اجداد طاہرین سے نقل کرتے ہیں: رسول اکرمؐ نے فرمایا: خداوند نے ۱۲۴ ہزار پیغمبر خلق کئے اور میں ان سب سے خداوند عالم کے نزدیک و برتر ہوں، لیکن میں اس پر فخر فروشی نہیں کرتا ہوں، اسی طرح خداوند نے ۱۲۴ ہزار وصی اور جانشین انبیاءکے لئے خلق کئے کہ علیؑ خداوند کے درگاہ میں ان سب سےبرتر ہیں(۷۴)

ب: امام صادقؑ رسول اکرمؐ سے نقل فرمارہے ہیں : انبیاء کا اولین وصی اور جانشین زمین پر ھبۃ اللہ فرزند آدم تھا اور کوئی پیغمبر دنیا سے رخصت نہیں ہوئے مگر اس کے لئے ایک وصی اور جانشین تھے اور انبیاء کی تعداد ۱۲۴ ہزار نفر ہیں جو ان میں سے پانچ نفر یعنی نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمدﷺ اولوالعزم ہیں اور علی بن ابی طالبؑ یقیناً محمد کے لئے ھبۃ اللہ ہے(۷۵) اور وہ تمام انبیاء کے جانشین اور تمام گزشتگان کے وارث ہے اور محمد تمام انبیاء اور فرستادگان جو ان سے پہلے آئے ہیں سب کے علم کا وارث ہیں(۷۶)

انبیاء کے اسمائے گرامی:

اگرچہ قرآن کریم میں بعض انبیاء کا نام آیا ہے لیکن قرآن میں اکثر انبیاء کا ذکر نہیں ہوتاہے جیساکہ خود قرآن کریم اس پر اشارہ کرتاہے۔کچھ موارد میں بعض پیغمبروں کی داستان کی طرف اشارہ کیا ہے (پیغمبر اس کے کہ ان کے نام کو ذکر کرے)اما روایات میں ان کے اسماء ذکر ہوا ہے، ہم یہاں پر انہی انبیاء کی تعداد پر جو قرآن میں آئی ہے ان پر اکتفا کریں گے:

( اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّبِيّنَ مِنْ بَعْدِه وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ وَاٰتَيْنَا دَاودَ زَبُوْرً وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللهُ مُوْسٰى تَكْلِیمًا ) (۷۷)

(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی، اور جس طرح ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق،یعقوب،اولادیعقوب،عیسیٰ،ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف (وحی بھیجی) اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں ۔

مذکورہ دو آیتوں میں بطور مجموع ۱۳ ، پیغمبروں کا نام لیا گیا ہے اور آیت کی خطاب شخص رسول اکرمؐ پر ہیں :

( وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰي قَوْمِه نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ وَوَهَبْنَا لَهٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِه دَاودَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وهٰرُوْنَ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰي وَاِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) (۷۸)

اور یہ ہماری وہ دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عنایت فرمائی، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں ، بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا، خوب علم والا ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کئے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے۔ اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط (کی رہنمائی کی) اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی ۔ مذکورہ آیات میں ۱۸ انبیاء کا نام ذکر ہوا ہے۔

( وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَاالْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ ) (۷۹) ۔اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے ۔اس آیت میں تین انبیاء کے نام آئے ہیں۔

اور بعض انبیاء سے باقی آیتوں میں بطور پراکندہ یاد ہوئی ہیں :

( وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُه اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ ) (۸۰)

اور عاد کی طرف ان کی برادری کے فرد ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے،

( وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ) (۸۱)

( وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ) (۸۲)

( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ) (۸۳)

محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں،

جیساکہ متعدد موارد میں حضرت آدم بھی قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے ، شایان ذکر ہے کہ بطور مجموع۲۳ پیغمبروں کے نام کا صراحتاً قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے ۔

آسمانی کتابیں :

آسمانی کتب کے بارے میں بھی جو انبیاء پر نازل ہوئی ہیں مسئلہ اسی طرح ہے بعض کتب کا نام جیسے تورات، انجیل، زبور اور قرآن بطور صریح ذکر ہوئی ہیں لیکن بعض کتاب جو بنی اسرائیل پر نازل ہو ئی ہیں قرآن میں ذکر ہوئی ہیں:

( كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَائِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاءِيْلُ عَلٰي نَفْسِه مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰیةُ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰیةِ فَاتْلُوْهَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) (۸۴)

بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جو اسرائیل نے توریت نازل ہونے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں ، کہدیجیے: اگر تم سچے ہو تو توریت لے آؤ اور اسے پڑھو ۔

اس آیت میں تورات کا بنی اسرائیل پر نازل ہونے والی کتاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔

( وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰیةِ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ ) ۔(۸۵)

( وَاٰتَيْنَا دَاودَ زَبُوْرً ا ) (۸۶)

ان آیتوں میں انجیل اور زبور کو حضرت عیسٰیؑ اور داوود کی آسمانی کتاب سے اشارہ کیا ہے ، قرآن کریم بھی رسول اکرمؐ کی آسمانی کتاب اور جاویدانہ معجزہ الٰہی ہے جو متعدد آیات میں متعدد عناوین کے ساتھ (شاید ۳۴ عنوان سے زیادہ) ذکر ہوئی ہیں ۔ ان میں سے بعض آیات کو ذیل ذکر کریں گے:

( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) (۸۷)

( وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِه وَمَنْ بَلَغَ ) (۸۸)

( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) (۸۹)

قرآن کی دوسرے آیتوں میں کتب آسمانی سے اسی طرح ذکر آچکے ہیں:

( اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى ) (۹۰)

( یا یحیٰ خذ الکتاب بقوّة ..) .(۹۱)

مذکورہ آیات بطور اجمالی کتب سماوی سے یاد کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے ناموں کی طرف اشارہ کرے، وہ جو آج کل آسمانی کتابوں کے درمیان جو لوگوں کی دسترس میں ہے اور آفاقی شہرت کا حامل تورات، انجیل اور قرآن کریم یہ تین کتابیں ہیں لیکن قابل توجہ کا موضوع یہ ہے کہ یہ تورات و انجیل جو یہودی اور مسیحی جوامع میں ان کے پاس مشہور ہے یہ دو کتابیں تحریف اور تزویر کا شکار ہوگئے ہیں، لیکن تاریخ کی نقل کے مطابق قرآن کریم ہر قسم کے تحریفات سے محفوظ رہا ہے ہم عدم تحریف قرآن کے بارے میں آیندہ الگ بحث شروع کریں گے اور ابھی تورات اور انجیل کے تحریف کے بارے میں مختصرسا مطلب پیش کرتےہیں تورات اور انجیل کی تحریف بہت واضح ہےکہ عہد قدیم اور عہد جدید کی کتب کے بارے میں تفصیلی بحث اور تاریخی بررسی کے لحاظ سے جو مجموعا پچاس سے زیادہ کتابیں پائی جاتی ہیں ، اگر اس بارے میں بحث کرے توبہت لمبی اور وسیع ہوجائے گی علاوہ اس کے کہ اسلامی دانشمنداوں نے ہمت کرکے اس موضوع پر کافی حد تک تحقیق کرچکے ہیں ہم ان کے روشنگرانہ کوششوں سے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحقیقات سے استفادہ کرکے موضوع کے بارے میں صحیح ترین نظریہ حاصل کرنے میں قریب ترین راستہ اختیار کرلیتےہیں۔

عہد عتیق کوبررسی کرنے سے اور اس بارے میں جو شواہد موجود ہیں ہم اس نتیجے پر پہنچتےہیں کہ عہد عتیق کو یعنی موجودہ تورات کو حضرت موسی سےنسبت دینا، زیادہ مورد تردید قرار پایاہے اور ہرگز نہیں کہہ سکتےہیں کہ یہ وہی تورات ہے جو حضرت موسی کی تعلیمات اور ان کے دستورات آسمانی کی متضمن والی کتاب ہو(۹۲)

تورات جو اہل کتاب کا دعویٰ ہیں کہ حضرت موسٰیؑ نے جمع آوری کی ہے ، اور اپنے زندگی کے آخری لمحہ میں بنی اسرائیل کے شیوخ کے ہاتھوں سپرد کیا تاکہ ہر سال میں ایک مرتبہ اس کو سب کے لئے پڑھیں، لیکن فساد اور تباہی جو ان حضرات کے بعد بلکہ خود حضرت کی حیات کے دوران بنی اسرائیل والوں کے درمیان رواج پیدا ہوا تھا اس اطمینان کو تورات تحریف ہونے سےمصون رہا ہے ہم سے سلب کئے گئے ہیں اس بارے میں تورات کےچند جملات پر توجہ کریں:

آپ لوگوں کے تمرد اور خلاف ورزی کو میں جانتا ہوں میرے ابھی زندہ ہوتےہوئے فتنہ اور فساد کرتےہو میں مرجاؤں تو اس سے بھی فاسدتر ہوجاوگے اور اس راستےسے جو میں نے تمہیں دکھایا ہےہٹ جاوگے(۹۳)

لیکن عہد عتیق کی کتابوں میں سے ایک کتاب کی نقل کے مطابق حضرت موسی کی یہ دھمکیاں مؤثر واقع نہیں ہوئیں اور بنی اسرائیل جو کہ بارہ قبیلے تھے، سرکشی و متمرد اور زنا کار و بت پرست بن گئے اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کوکنعان کے بتوں کے لئے قربانی کردیا ۔(۹۴)

جو کتب عہد قدیم سے ملتےہیں حضرت موسی کی تورات سےکچھ عرصہ تک بطور کلی لوگوں کے دسترس سے خارج ہو گئی تھی اور یوشیا کی بادشاہت کے آٹھویں سال میں اللہ کے گھر کو تعمیر کردیا اور بتوں اور ان کےقربانگاہوں کو ویران کرایا۔ حلقیاے کاہن نے یوشیا کو خبر دیا کہ خانہ خدا میں تورات ملی ہے اور اس نے اسے پادشاہ کے پاس بھیجا ، پادشاہ نے بھی اس کتاب کے چند جملے سننے کے بعد اپنے لاس کو چاک کردیا اور اس بات پر جو اس کے آبا و اجداد نے اس کتاب پر عمل نہیں کیا تھا بہت متاثر ہوئے، اس کے بعد حکم دیا اورشلیم کے سارے لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہوگئے اور اس نے اس کتاب کو ان کےلئے پڑھا اور ان کو پاپند کیا کہ اس پر عمل کرے ۔(۹۵)

اب سوال یہ ہے کہ حلقیاے کاہن کی صدق گفتار پر کیا دلیل ہے؟ وہ کتابیں جن پر گزشتگان عمل کرتےتھے کون سی کتابیں تھیں؟ بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنہیں حضرت موسی نے تورات سپرد کی، تورات حقیقی کشف ہونے سے پہلے کیا کررہے تھے اور کیوں اس تورات سے آگاہ او رمطلع نہیں تھے؟ جالب بات یہ ہے کہ عہد قدیم کی بعض کتابیں بعض اور کتابوں کی تحریف ہونے پر اعتراف کرتےہیں کتاب ارمیا کے آٹھویں بند میں آیاہے کیسے بولتے ہو کہ ہم حکیم ہیں اور پروردگار کی شریعت ہمارے ساتھ ہے؟ یقینا جھوٹ بولنے والے کاتبوں کے قلم نے اسی شریعت کو تبدیل کیا ہے ۔(۹۶)

کتاب اشعیا کی انتیس ویں باب سولھویں بند میں یہ جملہ آیاہے وای تمہارے تحریف سے اور یہ جملہ بطور واضح تحریف کی رواج کو اس زمانے میں بتاتی ہے پطرس کا دوسرا رسالہ تیسرا باب آٹھویں بند ، اس کتاب کے تحریف ہونے پر جن موضوعات کے بارے میں جو ان کو سمجھا اسی کے لئے دشوار اور مشکل ہوگئی ہے ۔(۹۷)

رسالۂ پوسل باب اول چھٹی اور ساتھویں بند میں غلاطیان کو مخاطب ہو کر کہتاہے بے شک میں تعجب کرتا ہوں کہ اسی جلد میں تم اسی شخص سے منہ موڑ لیتے ہو اور کسی دوسری انجیل کی طرف جاتےہو جو تمہیں نعمت مسیح کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ کوئی اور انجیل نہیں ہے مگر یہ کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ تم کو متزلزل کرکے مسیح کی انجیل کو تبدیل کریں ۔(۹۸)

ہم یہاں پر عہد قدیم اور عہد جدید کی کتابوں کے مطالب کے بارے میں چند نمونے نقل کرتےہیں اس کے بعد اس سوال کوبیان کرتےہیں کہ کیا یہ تورات و انجیل پر جو ہمارے درمیان موجود ہیں اس پر اعتماد کرسکتے ہیں اور انہیں حضرت موسی وحضرت عیسٰیؑ اور باقی انبیاء بنی اسرائیل کی تعالیم الٰہی اور انسان ساز تعالیم شمار کرسکتے ہیں یانہیں؟

ان سوالات کے جواب کو ہم قارئین کے عہدہ پر چھوڑ دیں گے۔

عہد قدیم کی کتابوں سے کچھ مثالیں :

کتاب حزقیل کے چوتھے باب میں اس سےخطاب ہوکر آیاہے جو کی روٹیاں جو تو کھاتا ہے ان روٹیوں کو ان یہودیوں کی تصرف سے تونے ان کو فضلات انسان کے ذریعے سے پکاتےہو اور خداوند نے فرمایا: اسی سوال پر بنی اسرائیل نجس روٹی کو ان امتوں کے درمیان جنہیں میں ان کے درمیان پراکندہ کروں گا ضرور کھاتےرہیں گے ۔(۹۹)

ہم کتاب ہوشح کے پہلی باب اور دوسرا بند میں پڑھتے ہیں خداوند نے ہوشح سےکہا: جاو ایک زناکار عورت اور اولاد زنا اپنے اختیار میں کروکیونکہ اس نے زمین خداوند سے منہ موڑلیا ہے اور سخت زناکار ہوگیاہے ۔(۱۰۰) کتب عہد قدیم میں لکھا ہے کہ اگر انبیاء جھوٹ بولیں تو یہ ان کے لئے جائز شمار کیا ہےاور ان کے لئے متعدد مصادیق بھی ان کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ۔(۱۰۱)

یہاں پر اگر حضرت داؤد کےبارے میں ایک داستان سن لیں تو نامناسب نہیں ہوگا، اور بطور ضمن ہم ان تحریف گر افراد کی ارادت کو پیغمبروں کے ساتھ ہمیں معلوم ہوجاتے ہیں۔

کتاب سموئیل دوم کے گیارہویں باب میں چھٹی بند سے ستائیسویں بند تک اسی طرح آیاہے دوپہر کا وقت تھا داؤد اپنے تخت سےاٹھا اور بادشاہ کے گھر کی چھت کے اوپر ٹہل رہا تھا کہ اس وقت چھت سے ایک عورت کو دیکھا جو نہانے میں مشغول تھی اور وہ عورت بہت خوبصورت تھی لہذا داؤد نے کسی کوبھیجا اور اس کے بارےمیں تحقیق کی؛ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے بولا کیا وہ بتشیع کی بیٹی الیعام اوریای حتیکہ کی بیوی نہیں ہے؟ لہذا داؤ د نے قاصدوں کو بھیجا کہ اس کو پکڑ کرلائیں اور وہ اس کے پاس آکر اس کے ساتھ ہمبستر ہوگیا ، جبکہ وہ اپنی عادت حیض سے پاک تھی، لہذا اپنے گھر میں آئی اور وہ داؤد سےحاملہ ہوگئی اور کسی کو داؤد کے پاس بھیجا اسےخبر دی اور کہا میں حاملہ ہوں، داوود نے ایک قاصد بھیجا تاکہ اوریا کو جنگ سےواپس پلٹا دے اور اس کوحکم دیا کہ اپنےگھرچلے جائے یعنی اپنے بیوی کےساتھ ہمبستری کرے تاکہ کسی کو پتہ نہ ہو کہ یہ حمل داؤد سے ہے اوریا نے کیونکہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تمام علائق و لذائز سے دوری اختیار کردی تھی میدان جنگ میں خدا کی راہ میں تابوت کے ہمراہ تھے ان کے ساتھ ہمدردی کرکے واپس گھر نہیں آیا، اور جب اوریا جنگ کی طرف واپس گیا تو داؤدنے امیر لشکر کوخط لکھا کہ اوریا کو آگے جو سخت لڑائی کی جگہ پر قرار دے دیں اوروہ اسے وہاں چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائیں اور اس کو وہاں نرغہ اعدا میں اکیلا چھوڑ دے تاکہ قتل ہوجائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا لہذا اوریا قتل ہوا اور داؤد کو اسکی موت کی خبر پہنچی، لہذا داؤد نے اوریا کی بیوی کو طلب کیا اور اس کو اپنی بیویوں میں سے قرار دیا ، لہذا اس زنا سے ایک فرزند داؤد کے لئے اس عورت سے متولد ہوا اس کے بعد پروردگار نے ناتان پیغمبر کو داؤد کے پاس بھیجا اور اسے بولا ایک شہر میں دو مرد تھے ان دو میں سے ایک درویش تھا اس کے پاس فقط ایک گوسفند تھا جو اسکو بہت ہی عزیز تھا اور دوسرا شخص مالدار اور بہت سی گوسفند اور گائے کا مالک تھا لہذا مرد غنی نے شخص فقیر کی گوسفند کو اس سے چھین لیا اور اپنے مہمانوں کے لئے آمادہ کیا داؤد بولا اس مرد غنی کو ضرور قتل ہونا چاہئے اور مرد فقیر درویش کو چار گنابرابر گوسفند بد لے میں دیدیا جائےگا۔اس حکم کو بیان کرنے کے بعد داؤد کو کہا گیا یہ مثال تیرے لئے ہے اور اس کو اپنے کئے ہوئے اعمال پر خداوند کی طرف سے توبیخ اور مذمت کی اور کہا خداوند ترے ان اعمال کی تلافی کرےگا، اور تجھ پر اور تیرے اہلبیت پر ایک ایسا شخص مسلط کرےگا جو تمام بنی اسرائیل کے سامنے تیرے بیویوں کے ساتھ زنا کرے اور اسے خبر دی کہ زنا سے ایک فرزند تیرے لئے متولد ہوا ہے وہ عنقریب مرجائے گا اور جب اس کا فرزند بیمار ہوا داؤد نے روزہ رکھا اور خداوند سے اس کے لئے شفا طلب کی اور ساری رات صبح تک زمین پر سوگیا اور بھوکا رہا ۔

کتب عہد قدیم میں بہت بڑے گناہوں کو از جملہ بت پرستی کوحضرت سلیمان سےنسبت دی گئی ہیں، اور ایسع بنی اسرائیل کا ایک پیغمبر ہے اس پردروغگوئی کی نسبت دی ہے ، جبکہ تاکید کیاہےکہ یہ جھوٹ بولناضروری بھی نہیں تھا۔کسی اور جگہ قاس قبیح جملہ کو اریمای پیغمبر کی زبان سےنقل کرتےہیں کہ اس نےکہا خدایاتونے اس قوم کو سخت دھوکا دیاہے ۔(۱۰۲)

عہد جدید کی کتابوں کے بعض نمونے:

اگرچہ عہد جدید کی کتابوں میں میگساری اور شراب تحریم ہوگئی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کتابوں میں حضرت عیسٰیؑ سےایک فرد جو شراب نوشی کو پسند کرتےتھے ذکر ہوئےہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت ایک مجلس جشن میں شرکت کی تھی اور کیونکہ شراب ختم ہوئی تھی حضرت معجزہ کے ذریعے چھے بوتل شراب وجود میں لائے(۱۰۳) ۔ اسی طرح ان کتابوں میں جھوٹ بولنا ، ماں کے ساتھ بی اعتنائی کرنا، حتی اعمال منافی عفت کو حضرت مسیح کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔(۱۰۴)

جیساکہ ہم نے بیان کیا ، متعدد موارد میں عہد جدید کی کتابوں کے محتویات ایک دوسرے کے ساتھ سازگار اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں، بطور مثال اس موضوع کے بارے میں کہ حضرت عیسٰیؑ کس کی نسل سےتھا عہد جدید کی کتابوں میں مختلف نظریات بیان کی ہیں اور معلوم نہیں ہے ان میں سے کونسا صحیح ہے(۱۰۵) ۔اب ہم پوچھتےہیں کیا یہ ناشایستہ و ناروا الزامات کو ایک شریف انسان سے جو ان سے مبرّا ہے، آیاممکن ہے انبیاء الٰہی اور بشریت کے ہادیوں کی جانب نسبت دینا صحیح ہے؟

وہ افراد جنہوں نے تاریکیوں میں ہدایت کا چراغ جلایا ہے اور خود جل گئے ہیں تاکہ بشریت کو نور کی طرف جانے کا راستہ فراہم ہوجائے۔ وہ جنہوں نے اپنے آپکو منیت کی زنجیروں سے آزاد کردیا ہے اور اس راہ میں حتی اپنی ہستی سے بھی ہاتھ اٹھایاہے اسی راہ میں اپنے جان کو بعنوان قیمت، خالصانہ اور عاشقانہ دےدیا ہے تاکہ انسان کو ہدایت فراہم کرے۔

کیسے ممکن ہے کہ خود ہوائے نفسانی کے قفس میں گرفتار اور پھنس جائیں؟ کبھی بھی ایسا نہیں ہے پس قرآن کریم کی چندآیات سماعت فرمائیں تاکہ یہ اندھے لوگوں کی باتوں کی سیاہی ہمارے دلوں سے مٹ جائے۔

( وَمِنْ ذُرِّيَّتِه دَاودَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ) (۱۰۶)

اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔

( وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاودَ ذَا الْاَيْدِ اِنَّهٓ اَوَّابٌ ) (۱۰۷) مارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک اور (اللہ کی طرف) بار بار رجوع کرنے والے تھے ۔

( اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَه يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ ) (۱۰۸) ہم نے ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا تھا، یہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے ۔

( وَاِنَّ لَه عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ ) (۱۰۹) اور یقیناً ہمارے نزدیک ان کے لیے تقرب اور بہتر بازگشت ہے

( وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) (۱۱۰) اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط (کی رہنمائی کی) اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی ۔

( وَاذْكُرْ اِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْيَارِ ) (۱۱۱) اور (اے رسول) اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کیجیے، یہ سب نیک لوگوں میں سے ہیں ۔

حضرت موسی و حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں شاہد لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سراسر قرآن کریم ان دونوں کی شایستگی و برگزیدگی پر گواہ ہے۔ حضرت موسٰیؑ کے بارےمیں خداوند فرماتاہے:

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ) (۱۱۲) اور میں نے آپ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے ۔

یہ جملہ خداوند کی خاص توجہ اپنے اس شایستہ بندہ کی طرف نشاندہی کر رہاہے۔

حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں بھی قرآن حضرت کی زبان سے اس وقت جب حضرت بچپن کے دور میں تھے اور حضرت گہوارہ میں تھے ، فرماتےہیں:

بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے ۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا(۱۱۳)

بنابر این کیسےممکن ہے کہ اس طرح تابناک او رنورانی رخساریں عہدین کی کتابوں میں اندھیرا اور تاریک ترسیم ہوچکے ہیں؟

اس سوال کا جواب قرآن کریم سےسن لیجئے :

اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں یہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہو گی اور اسے پوشیدہ نہیں رکھنا ہو گا، لیکن انہوں نے یہ عہد پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا، پس ان کا یہ بیچنا کتنا برا معاملہ ہے(۱۱۴)

پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں ، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجیے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(۱۱۵)

اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں ، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے(۱۱۶)

نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کبھی بھی یہی تورات اور انجیل پر (جو ہماری دسترس میں ہے اور اسی طرح کی باطل باتوں سے بنی ہوئی ہے)، ہم اعتماد نہیں کرسکتےہیں اور یہ کتابیں کتب سماوی میں سےشمار نہیں ہوتی ہیں۔

اولو العزم انبیاء:

انبیاء الٰہی کے درمیان بعض انبیاء اولوالعزم سے مشہور و معروف ہیں اور قرآن کریم و اسلامی روایات کی

روشنی سے اسی عنوان سے ان کو یاد کیاگیا ہے:

( فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ) (۱۱۷)

پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ۔

بعض علماء شیعہ نے اس عنوان کلی کے مصداق کو پانچ نفر اس ترتیب سے حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسٰیؑ، حضرت عیسٰیؑ، وحضرت محمدﷺ پیامبر اعظم پر انطباق کیا ہے۔ اور ان پیغمبروں کی دعوت کی عمومیت اور ان کے آئین کو تمام انسانوں کے لئے ہونے کو اپنے مدعا کے لئے دلیل قرار دیاہے ۔ بعض روایات بھی اسی نظریے کی تائید کرتی ہیں،

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: اولوالعزم رسول پانچ نفر ہیں نوح، ابراہیم، موسٰیؑ ، عیسٰیؑ و محمد ۔

امام رضاؑ ایک حدیث کےضمن میں مذکور ہ نظریہ کی تائید کرتےہوئے انبیائے اولوالعزم کی تعداد کے بارے میں مذکورہ دلیل کی بھی تائید کرتےہیں ۔ بے شک بعض پیغمبروں کا نام اولوالعزم رکھا ہے کیونکہ وہ شریعت و آئین کے مالک تھے ہر پیغمبر جو حضرت نوح کے بعد تا حضرت ابراہیم کےدور تک تھے حضرت نوح کے تابع تھےاس کی کتاب اور دین کی پیروی کرتےتھے اسی طرح حضرت ابراہیم کی عصر سے لےکر بعثت حضرت موسٰیؑ تک جتنے انبیاءالٰہی تھے سب کے سب حضرت ابراہیم کی آئین و شریعت کے تابع تھے اور اس کی کتاب کی تبلیغ کرتےتھے اور زمان حضرت موسٰیؑ کے دور سے حضرت عیسٰیؑ کے دور تک سارے انبیاء حضرت موسٰیؑ کی پیروی کیاکرتےتھے اور نیز حضرت عیسٰیؑ سےبعثت پیامبر اکرمؐ اسلام، رسول اکرمؐ تک سارے انبیاء تابع حضرت عیسٰیؑ تھے اسی طرح یہ پانچ نفر اولوالعزم پیغمبر تھے اور باقی انبیاء سے برتر اور افضل ہیں اور حضرت محمد کا آئین روز قیامت تک قائم رہے گا اور حضور ﷺ کے بعد کسی کو مبعوث نہیں کیا ہے اور جو آنحضرت کے بعد ادعائے نبوت کرلے یا قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب آسمانی قرآن کریم کےمقابلے میں لائےبےشک اس کا خون بے ارزش ہوگااور وہ زندگی اور حیات کا مستحق نہیں رہے گا ۔(۱۱۸)

تفسیر علی بن ابراہیم میں ابتداء بحث کی آیت کے ذیل میں آیاہے کہ اولوالعزم نوح و ابراہیم و موسٰیؑؑ و عیسٰیؑ ومحمد ﷺ ہیں اور اس لئے اولوالعزم کا نام رکھا گیا ہے کیونکہ یہ حضرات حقانیت خداوند پر اقرار کرنے میں باقی انبیاء سے سبقت لیئے ہیں اور نیز جتنے انبیاء جو ان سے پہلے آچکے تھے اور جتنے انبیاء ان کے بعد میں مبعوث ہوگئے تھے ان سب کی نبوت کا اقرار کیا ہے۔اور مشرکین کے تکذیب و انکار کرنے کے مقابلے میں ہمیشہ وہ عزم و استقامت اور صابر تھے۔(۱۱۹) کیونکہ مفہوم لغوی عزم تصمیم ہے اس لئے وجہ تسمیہ اولوالعزم کے بارےمیں مناسب ہوگا، لہذا مذکورہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی مشکلات کے مقابلے میں صبر و تحمل اختیار کرلو۔جیساکہ ہمارے اولوالعزم انبیاؑ جو آپ سے پہلے آئین الٰہی و اجرای حکام و دستورات خداوندی کے تحقق کے لئے آئے تھے، مشکلات اور سختیوں کے مقابلےمیں صبر و استقامت اختیار کیا ہے۔