زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) 0%

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: مشاہدے: 8716
ڈاؤنلوڈ: 2446

تبصرے:

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8716 / ڈاؤنلوڈ: 2446
سائز سائز سائز
زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلا حصّہ:

خدا شناس

اس دعا کا آغاز لفظاللَّهُمَ‏ سے ہوا ہے اور یہ لفظ اس دعا میں تیرہ ۱۳ مرتبہ تکرار ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دعاکرنے والے کا اللہ تعالی پر خصوصی توجہ ہے اور اس کلمہ کے بعد (رب ) کا نام آیا ہے جو اس دعا میں پانچ بار تکرار ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دعا کرنے والے کو ہمیشہ اور ہر لحظہ خدا کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔

چونکہ قرآن مجید میں بھی دعا کرنے کا طریقہ اسی طرح سے آیا ہے جیسا کہ سورہ مائدہ /آیت /۱۱۴ میں( اللَّهُمَ‏ رَبَّنَا ) آیا ہے۔معمولا قرآن مجید میں دعا کا آغاز (رب ) کے نام سے ہوتا ہے لیکن اس آیت میں دو کلمے جیسےاللَّهُمَ‏ رَبَّنَا آیا ہے۔

یہ شاید اس دعا کی اہمیت اور اس کے نتائج کی وجہ سے ہو ۔ اس حصے سے ہم یہ درس لیں گے کہ ہمیشہ خدا کو بہترین آداب اور اپنی حاجت کے ساتھ مناسب اللہ تعالی کے اوصاف سے پکارنا چاہیے ۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا خدایا مجھے اسمان سے کھانا نازل فرما تاکہ مشرکین جان لیں کہ یہ کوئی سادہ کام نہیں بلکہ ایک معجزہ الہی ہے ۔پس اس لحاظ سے اس جیسی دعاؤں کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہے جودعاوں میں خدا شناسی کی اہمیت کی نشان دہی کرتی ہے ۔منتظر شخص کو بعض تعلیمات اور معرفت کی ضرورت ہوتی ہے کہ جن میں سب سے پہلی چیز شناخت ہے اور انسان کو باقی دوسرے موجودات پر جو امتیاز حاصل ہے وہ معرفت اور شناخت ہے اور معرفت اور شناخت کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے بہت سی آیات میں اس معرفت اور شناخت کو حاصل کرنے کی طرف انسانوں کو دعوت دی ہے اور ان لوگوں کی جو اہل تفکر و تدبر نہیں ہیں سختی کے ساتھ توبیخ اور مذمت ہوئی ہیں ۔

اور قرآن نے ہمیں ان لوگوں کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے جو شناخت اور معرفت نہیں رکھتے ہیں جیساکہ فرمایا "( وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم ) (۵) اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے ۔

وہ لوگ جو بغیر کسی شناخت اور معرفت کے کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں اور کوئی عمل انجام دیتے ہیں انہیں گونگے اور اندھے سمجھتے ہیں جو تدبر اور تفکر نہیں کرتے ہیں ۔

معرفت اور شناخت کی ضرورت کے بارے میں مولائے کائنات نے اپنے صحابی کمیل کو جو بیان فرمایا تھا وہ بہت ہی قابل توجہ ہے فرمایا :يَا كُمَيْلُ‏ مَا مِنْ‏ حَرَكَةٍ إِلَّا وَ أَنْتَ مُحْتَاجٌ فِيهَا إِلَى مَعْرِفَة .(۶)

اے کمیل کوئی بھی حرکت انجام نہیں پاتی ہے مگر یہ کہ تمہیں شناخت اور معرفت کی ضرورت ہوتی ہے ۔کیوں کہ معرفت اور شناخت ہمارے اعمال کو قیمتی بناتے ہے اسلام میں ہمارے اعمال اور عبادات کے درجات ہماری معرفت سے وابستہ ہے جتنی ہماری معرفت زیادہ ہوگی اتنا ہی ہماری عبادت کا درجہ بلند ہوگا کیونکہ اللہ تعالی انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام اصول الدین اور فروع دین کی معرفت منتظرین امام علیہ السلام کے لئے بہت ہی ضروری ہے اسی نکتے کی پیش نظر سب سے پہلا راستہ جو یہ دعائے مہدوی زندگی کے لئے معین کرتا ہے وہ خدا شناسی ہے ۔کیونکہ اس دعا کی ابتدا ہی اللہ تعالی کے ذکر اور اس کے اوصاف سے ہوئی ہے ۔

اور جو بھی امام زمانہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے خدا کی معرفت حاصل کرے۔ اور امام زمان کی غیبت کے زمانے میں اس دعا کو پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے کہ جس میں خود اللہ تعالی سے اپنی معرفت اپنے رسول اور ولی کی معرفت کی دعا کریں جس کے بغیر ہم گمراہ ہوں گے جیسے ۔

اللَّهُمَ‏ عَرِّفْنِي‏ نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَك‏. (۷)

(خدایا مجھے اپنے نفس کی پہچان کر اگر ایسا نہ ہوا تو میں آپ کے رسول کو نہیں پہچان سکوں گا )۔

خدا کو پہچاننا امام کو پہچاننے کے لئے مقدمہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص امام زمانہ کو پہچاننا چاہے تو ضروری ہے کہ وہ

پہلے خدا کو پہچانے اور توحید کو پہچانے ۔

امام مہدی کے حقیقی منتظرین کے تمام چال و چلن کی بنیاد خدا کی حقیقی معرفت و شناخت اور دینی دستورات پر گہرا علم حاصل ہونا ہے ۔

اور یہی چیزیں سبب بنتی ہے کہ منتظر شخص کا اٹھنا بیٹھنا دیکھنا اور سننا یہاں تک کہ سوچنا بھی الہی دستورات کے مطابق ہوتا ہے چونکہ اس کو ان پر ملکہ حاصل ہوتا ہے اور خدا کی رضا اور حجت خدا کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے۔

یاران امام زمان علیہ السلام کے اوصاف میں خدا شناسی کی بحث کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اور وہ لوگ جو خدا کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں وہ امام زمان کے مددگار ہیں :رِجَالٌ‏ مُؤْمِنُونَ‏ عَرَفُوا اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَ هُمْ أَنْصَارُ الْمَهْدِيِّ فِي آخِرِ الزَّمَان‏ (۸)

اور خدا کی وحدانیت پر ایمان کامل رکھتے ہیں جیسے :فهم‏ الذين‏ وحّدوا اللّه تعالى حقّ توحيده .(۹)

اسی لئے ان کی علامت یہ ہے کہ وہ لوگ اطاعت الہی میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں جیسے:مجدون فی طاعة الله (۱۰)

اور یہ وہی لوگ ہے جیسے :وَ هُمُ‏ الَّذِينَ‏ قَالَ‏ اللَّهُ‏ فِيهِمْ- فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرِينَ .(۱۱)

امام زمانہ علیہ السلام کے انصار وہ ہیں کہ جن کے اوصاف اللہ تعالی اس طرح بیان کرتا ہے کہ خدا وند عالم ان کو دوست رکھتا ہے اور یہ لوگ خدا کو دوست رکھتے ہیں ۔

دعائے عہد کی ابتداء میں خداوند عالم کی سولہ /۱۶ اوصاف بیان ہوئیں ہیں ۔جیسے خدا وند عالم نور عظیم ہے بلند کرسی - جوش مارتا ہوا دریا - تپتی ہوئی دھوپ کا سایہ - تورات و انجیل و زبور اور قرآن عظیم کو نازل کرنے والا - وغیرہ

اس حصے میں سات خاص صفات بیان ہوئی ہیں جو خدا شناسی سے مربوط ہیں ۔

۱-اللَّهُمَ‏ رَبَ‏ النُّورِ الْعَظِيم ۔

اے معبود اے عظیم نورکے پرودگار ۔

معمولا لوگ جب کوئی تعمیراتی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کی افتتاح کرنے کے لئے کسی بڑی شخصیت کو بلاتے ہے تاکہ وہ اسی کام کا افتتاح کرے اگر یہی طریقہ ہی ہے تو ہم اپنے کام کا آغاز خدا کے نام سے کرتے ہیں جو تمام مخلوقات کا خالق اور تمام خوبصورتیوں کا مرکز ہے ۔( وَ لِلَّهِ الْأَسمْاءُ الحْسْنىَ‏ ) (۱۲) زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں۔

یہ آیت قرآن میں تین بار تکرار ہوئی ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ بہترین نام اللہ کے لئے ہیں اور اسماء حسنی کے درمیان کلمہ اللہ میں تمام صفات موجود ہے جس طرح سے ماں کے دودھ میں گلوکوز چکنائی مایعات اور تمام وٹامینز موجود ہوتی ہے جن کے بچے کو ضرورت ہوتی ہے اور ایک کامل غذا ہے اسی طرح اسماء الہی میں کلمہ اللہ میں تمام کمالات موجود ہے جو اللہ تعالی کے کامل ترین نام ہے ۔

اور اسم اللہ کے بعد اسم (رب ) آیا ہے یہ کلمہ رب مالک اور پر ورش کرنے والے کے معنی میں آیا ہے ۔

یعنی اللہ مالک بھی ہے اور پرورش کرنے والا بھی ہے ۔ اور دعاے عہد میں اس کلمہ کا تکرار ہونا اس کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ اسی طرح سے قرآن میں بھی رب کانام بہت ہی تکرار ہوا ہے تقریبا نویں /۹۰ مرتبہ ذکر ہوا ہے قرآن مجید میں سب سے زیادہ اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بعد رب کا لفظ ہے ۔

اور یہاں پر ان الفاظ کاتکرار ہونا بلاغت کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا ہے چونکہ انکا موقیعت ہی مختلف ہے اور ساتھ ہی تذکر، تفصیل اور تنوع کے لئے تکرار لازمی ہے جو یاد دہانی اور تربیت کے لئے بہترین طریقہ ہے لیکن اس دعا کی ابتداء میں کلمہ رب کا تکرار کے ساتھ آنا حکمت سے خالی نہیں ہے بالخصوص پانچ مقام پر یہ اسم الہی آیا ہے چونکہ کلمہ رب اور اس کا تکرار ہونا دعا کو قبولیت کے نزدیک کرتا ہے ۔ سورہ انبیاء آیت / ۸۹ میں آیا ہے( وَ زَكَرِيَّا إِذْ نَادَى‏ رَبَّهُ رَبّ‏ِ لَا تَذَرْنىِ فَرْدًا وَ أَنتَ خَيرْ الْوَارِثِين ) . اور زکریا کو بھی (رحمتوں سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے ۔

اسی طرح حضرت ابراہیم کے دعاؤں میں بھی یہ لفظ رب کا تکرار ہونا بھی قابل توجہ ہے جو کہ دعا کے قبول ہونے میں بہت ہی مؤثر ہے یا آداب دعا میں سے ہے.(۱۳)

رَبّ‏ِ اجْعَلْنىِ مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَ مِن ذُرِّيَّتىِ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ- رَبَّنَا اغْفِرْ لىِ وَ لِوَالِدَىَّ وَ لِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَاب .

میرے رب مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔

اکثر دعاؤں میں کلمہ رب کو اصرار اور تکرار کے طور پر استفادہ کیا ہے جیسے دعاے مجیر میں تقریبا ستر /۷۰ بار تکرار ہوا ہے (اجرنا من النار یارب ) خدایا مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے دیں ۔

اور دعاے جوشن کبیر میں سو بند ہیں اور ہر بند کے آخر میں ( خلصنا من النار یارب ) پڑھتے ہیں ۔

لیکن اس دعا میں کلمہ رب کا تکرار شاید بہترین اور مناسب ترین اسم رجعت کے لئے ہے یعنی خداوند عالم مالک اور پر ورش کرنے والا ہے اور دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت بھی رکھتا ہے ۔

۲-وَ رَبَّ الْكُرْسِيِّ الرَّفِيعِ ، :

اے بلند کرسی و بلند مرتبہ والا پروردگار ۔

یہاں پر کرسی کنایہ کے طور پر استعمال ہواہے اس سےمراد قدرت و حکومت اور کائنات پر مکمل اختیار ہے اور فارسی زبان میں بھی یہی مثال ہے کہ تخت پر بیھٹنا یا بٹھانا ۔ یہاں پر یہ بھی ممکن ہے عرش کنایہ ہو دنیاے مارای مادہ سے اور کرسی کنایہ ہو جہان مادہ سے ۔ کیونکہ آیت الکرسی میں پڑھتے ہیں کہ:

( وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْض ) . اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کرسی سےمراد خداوند عالم کا علم ہے جیسے

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ- وَسِعَ‏ كُرْسِيُّهُ‏ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ‏ قَالَ عِلْمُهُ .(۱۴)

امام صادق علیہ السلام نے پیغمبرخدا سے ایک اور حدیث نقل کی ہے اس میں فرمایا کہ کرسی سے مراد ایک جہان کا نام ہے جو اس قدر وسیع ہے کہ تمام آسمانوں و زمینوں کو اپنے اندر سمیٹی ہوئی ہے یعنی تمام زمین و آسمان اس کی نسبت سے انگھوٹھی کے نگینے کے یا اس کے حلقے کی مانند ہے.(۱۵)

اس کرسی کے بارے میں مختلف روایات ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : یہ ان علوم میں سے ہے جو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے ۔

۳-وَ رَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ،:

اے موجیں مارتے سمندر کے پرودگار ۔

قرآن مجید میں اس شعلہ اور جوش کے بارے میں آیا ہے جیساکہ سورہ تکویر میں پڑھتے ہیں ۔( وَ إِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَت ) ۔ اور جب سمندروں کو جوش میں لایا جائے گا۔

اس سے مراد وہ دریا ہے جو قیامت کے دن بھڑکائے جائنگے یا وہ آگ ہے جو زمین کی تہہ میں موجود ہے جو کبھی آتش فشاں کی شکل میں بھڑکتا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ قرآن نازل اور قرآن صائد یعنی دعا )انسانوں کو وہ چیزیں جو وہ دیکھتے ہیں اور وہ چیزیں جو وہ نہیں دیکھتے ہیں ان سب کی طرف توجہ دلا رہے ہیں ابتداء میں ان چیزوں کو باور کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن خداوند متعال کے لئے یہ تمام چیزیں

آسان و ممکن ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

۴-وَ مُنْزِلِ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الزَّبُورِ ،:

اے تورات اور انجیل اور زبور کے نازل کرنے والے۔

آسمانی کتابوں کو خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے ۔اور صحف اولی سے مراد سورہ طہ کی آیت /۱۳۳ ۔ میں تورات و انجیل اور زبور لیا ہے اور تورات و انجیل کا آسمانی کتاب ہونا صرف اس معنی میں نہیں کہ وہ ہمیشہ رہےگا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام آسمانی کتابیں ایک ہی ہستی کی نازل کی ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا :( مُصَدِّقًا لِّمَا بَينْ‏َ يَدَيْه ) ۔(۱۶) اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو پہلے سے موجود ہے ۔کیونکہ تمام ادیان کے ایک ہی اصول ہیں لیکن ان کی شریعتیں مختلف ہیں ۔دین اور شریعت ہی وہی راستہ ہے جو ہمیں حقیق حیات اور انسانیت تک پہنچاتی ہے چونکہ ہر زمانے میں صرف ایک ہی شریعت ہوتی ہے اور ہمارے زمانے میں جو دین و شریعت ہے وہ دین اسلام ہے اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے ۔

( إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْاسْلَام ) (۱۷) : اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔

اسلام عدل اور عدالت کا دین ہے اور اسی عدالت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہے اسی لئے خداوند عالم کے تمام عملی احکام و تر بیتی اصول سب اسی عدل کی بنیاد پر قائم ہے ۔اورہمیں قرآن مجید کے تمام موضوعات عادلانہ نظر آتی ہیں اور تمام اصولوں میں انصاف و عدالت ہی ہے چونکہ قرآن کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام آسمانی کتابیں جو قرآن سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی بھی تائید کرتی ہے اور یہ خود عدل و انصاف کی ایک بہترین مثال ہے ۔

کلمہ زبور لغت میں تحریر اور کتاب کے معنی میں آیا ہے ۔فرمایا :( وَ كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ فَعَلُوهُ فىِ الزُّبُر ) (۱۸) .

اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے سب نامہ اعمال میں درج ہے۔ لیکن یہ آیت کی قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حضرت داؤد علیہ السلام کی مخصوص کتاب ہے جیسے :( وَ ءَاتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا ) .(۱۹)

اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ہے ۔اور یہ مناجات و دعاؤں کا ایک مجموعہ ہے جو حضرت داؤد کی ہے ۔یہ ایک سو پچاس فصلوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب تورات کے بعد نازل ہوئی ہے چونکہ سورہ انبیاء کی آیت /۱۰۵ میں اس ذکر سے مراد تورات لیا ہے جیسا کہ فرمایا :( وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون ) ۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

اور اسی طرح سے آیت /۴۸ میں بھی موجود ذکر سے مراد توریت ہے جیسے :( وَ لَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسىَ‏ وَ هَرُونَ الْفُرْقَانَ وَ ضِيَاءً وَ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِين ) .اور بتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان ، ایک روشنی اور ذکر عطا کی ان متقین کے لیے۔لیکن اہم ترین آسمانی کتابیں تورات یہودیوں کی اور انجیل مسیحیوں کی اور قرآن مسلمانوں کی ہیں اللہ تعالی نے ان تینوں کو ایک سورہ میں نور کہا ہے ۔ سورہ مائدہ کی آیت /۱۵ میں قرآن کو نور بیان فرمایا ہے :

( قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُور ) ۔بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

اور اسی آیت /۴۴ میں تورات کو بھی نور کہا گیا ہے جیسا کہ فرمایا :( إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَ نُور ) ۔ ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا، اور اسی طرح آیت / ۴۶ میں انجیل کو نور سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ فرمایا"( وَ ءَاتَيْنَاهُ الْانجِيلَ فِيهِ هُدًى وَ نُور ) ۔ اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا ۔

اسی طرح سے قرآن مجید اور دوسر ی آسمانی کتابوں کے درمیان بہت ساری شباہتیں پائی جاتی ہیں اور خصوصا قرآن مجید اور توریت کے درمیان بہت ہی زیادہ شباہت موجود ہے کیونکہ انجیل میں زیادہ تر موعظہ و نصیحتیں ذکر ہوئی ہیں اور زبور میں زیادہ تر دعائیں ذکر ہوئی ہیں لہذا قوانین کے اعتبار سے تورات و قرآن میں زیادہ شباہت ہے یہی وجہ ہے کہ تورات کو امام کہا جاتا ہے ۔( وَ مِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسىَ إِمَامًا. ) ۔اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (بھی دلیل ہو جو) راہنما اور رحمت بن کر آئی ہے ؟لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید تورات انجیل اور زبور تینوں کو کامل کرنے والی ان کے وارث اور ان تینوں کو جمع کرنے والی کتاب ہے ۔

رسول اکرم صل اللہ علیہ والسلم فرماتے ہیں کہ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ أُعْطِيتُ السُّوَرَ الطِّوَالَ‏ مَكَانَ التَّوْرَاةِ وَ أُعْطِيتُ الْمِئِينَ مَكَانَ الْإِنْجِيلِ وَ أُعْطِيتُ الْمَثَانِيَ مَكَانَ الزَّبُورِ وَ فُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ ثَمَانٌ وَ سِتُّونَ سُورَةً وَ هُوَ مُهَيْمِنٌ عَلَى سَائِرِ الْكُتُبِ وَ التَّوْرَاةُ لِمُوسَى وَ الْإِنْجِيلُ لِعِيسَى وَ الزَّبُورُ لِدَاوُد (۲۰) .

طولانی سوروں کو تورات کی جگہ اور سو آیات والی سوروں کو انجیل کی جگہ اور سو آیات سے کم والی سورتوں کو زبور کی جگہ میں مجھے عطا کیا ہے اور اس کے علاوہ مفصل سوروں ( یعنی چھوٹے سوروں )کے ذریعے جو کہ ۶۸ سوروں پر مشتمل ہیں مجھے برتری عطا فرمائی ہے اور قرآن مجید ان تمام کتابوں پر چھائی ہوئی ہے ۔

اب امام زمانہ ان تمام آسمانی کتابوں کے حقیقی وارث ہیں چونکہ امام علیہ السلام ہر دور اور زمان میں تمام گزشتہ ہستیوں کے تمام خوبیوں کے وارث ہوتے ہیں جیسا کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں :السَّلَامُ‏ عَلَيْكَ‏ يَا وَارِثَ‏ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الزَّبُور. امام مہدی علیہ السلام بھی تمام انبیاء کے وارث ہے ۔

۵-وَ رَبِ‏ الظِّلِ‏ وَ الْحَرُورِ :

اے سایہ اور دھوپ کے پرودگار ۔

کلمہ ظل سایہ کے معنی میں ہے اور حرور گرمی اور تپش کے معنی میں ہے خدا وند متعال دنیا و آخرت اور ظل و حرور اور دن رات کے خالق ہے سورہ فاطر کی آیت /۲۱ میں آیا ہے کہ"( وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الحْرُور ) ۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ ۔

اس آیت میں مومن اور کافرکو دھوپ اور سایہ کی تشبیہ دی ہے اسکا نتیجہ یہ ہےکہ شخصیت کے اعتبار سے مؤمن کبھی بھی کافر کے ساتھ برابر نہیں ہو سکتا ہے اور انکا انجام ایک نہیں ہے ۔

بعض مفسرین نے مؤمن کو بہت ہی آرام دہ سایہ سے اور کافر کو گرم اور جلادینے والی ہوا کے ساتھ تشبیہ دی ہیں کہا گیا ہے

کہ اس ظل سے مراد بہشت ہے جہاں ہمیشہ سایہ اور آرام دہ ہے اور حرور سے مراد جہنم ہے جہاں جلن اور عذاب ہے(۲۱) ۔

اسی طرح یوم الحریر کے بارے میں روایت ہے کہ یہ قیامت کے اوصاف میں سے ایک ہے ۔اسی لحاظ سے خداوند عالم دھوپ اور سایہ کا مالک ہے اگر کوئی چاہتا ہےکہ دنیا اور آخرت میں اس دھوپ کی تپش یعنی قہر الہی سے نجات پائے اور سایہ الہی کے امان میں رہے تو وہ قرآن کی پیروی کرے :وَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي سَفَرٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنَا بِمَا لَنَا فِيهِ نَفْعٌ فَقَالَ إِنْ أَرَدْتُمْ عَيْشَ السُّعَدَاءِ وَ مَوْتَ الشُّهَدَاءِ وَ النَّجَاةَ يَوْمَ الْحَشْرِ وَ الظِّلَّ يَوْمَ الْحَرُورِ وَ الْهُدَى يَوْمَ الضَّلَالَةِ فَادْرُسُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ كَلَامُ الرَّحْمَنِ وَ حِرْزٌ مِنَ الشَّيْطَانِ وَ رُجْحَانٌ فِي الْمِيزَان .(۲۲) .

معاذ بن جبل نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ ہم پیغمبر خدا کے ساتھ کسی سفر میں تھے میں نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ایک ایسی گفتگو کریں کہ جی میں ہمارا فائدہ ہو تو آپ نے فرمایا اگر سعادت کی زندگی چاہتے ہو اور شہید کا درجہ چاہتے ہو اور قیامت کے دن عذاب الہی سے نجات چاہتے ہو تو قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ قرآن مجید خدائے رحمن کا کلام ہے اور شیطان سے نجات اور نیک اعمال کا پلٹرا بھاری ہونے کا سبب بنتا ہے ۔

۶-وَ مُنْزِلِ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ :

اے قرآن عظیم کے نازل کرنے والے ۔

خداوند متعال قرآن مجید میں اللہ کے رسول سے فرماتے ہیں :( وَ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ ) (۲۳) :

ہم نے آپ کو قران عظیم عطا کیا ہے ۔ یقینا قرآن مجید بہت ہی بڑی کتاب ہے اور اس کے ۱۱۴ سوروں میں سے ۲۶ سورے ایسے ہیں کہ جن کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی ہے اور ۲۴ موارد میں ان حروف کے بعد قرآن کی عظمت اور اس کے معجزہ ہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے جس طرح سے کہ سورہ بقرہ میں "( الم ذَالِكَ الْكِتَب ) آیا ہے اور یہ قرآن کی عظمت کی طرف اشارہ ہے ۔کیونکہ اکثر مصنفین اپنے کتابوں کو نقص سے خالی نہیں سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنی کتابوں کے بارے میں ہونے والی اشکالات کو سنتے ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں لیکن یہ صرف قرآن مجید ہے کہ جس کے بارے میں خدائے تعالی نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ (الکتاب الحکیم ) اس کی تمام آیات محکم اور حکمت کے ساتھ ہے اس میں کسی قسم کا نقص اور کمی نہیں ہے ۔

اور حضرات معصومین علیہم السلام نے بھی بہت ساری روایات میں قرآن کی عظمت کو بیان کی ہیں لیکن یہاں اختصار کے خاطر صرف امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلمات میں سے چند کو بیان کرتے ہیں ۔مولا نہج البلاغہ میں فرماتے ہے کہ قرآن مجید میں آئندہ اور گزشتہ کے بارے میں علم اور تمام دردوں کی دواء اور تمام امور کا نظام موجود ہے۔

قرآن ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کی تہہ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے اور ایک ایسی عمارت ہے کہ جس کی بنیادیں کبھی سست اور خراب نہیں ہوتیں اورایسی شفاء بخش دواء ہے کہ جس کے ساتھ کوئی بیماری باقی نہیں رہتی ہے ۔

قرآن ایک ایسی عزت ہے کہ جسے کو ئی کم نہیں کرسکتا اور ایک ایسا حق ہے کہ جو کبھی شکست نہیں کھاتی ہے

قرآن بہترین موعظہ و نصیحت ہے اور اللہ تعالی کی ایک مضبوط رسی ! دلوں کی بہار اور تمام علوم کا چشمہ ہے اور یہ ایک ایسی عظیم چیز ہے کہ جس کے بغیر انسان کے قلوب کو روشنائی نہیں ملتی ہے ۔

یعنی قرآن ایک روشن نور اور مفید دواء اور دلوں کی معنوی اور روحانی تشنگی کو سیراب کرنے والا اور نجات کا وسیلہ ہے ۔ کوئی بھی قرآن کا ہمنشین نہیں رہا مگر یہ کہ اس کی ہدایت میں اضافہ اور گمراہی میں کمی واقع ہوئی ہے ۔

قرآن میں گزشتہ لوگوں کی حالات اور آیندہ کے بارے میں خبر دی ہے اور حاضرین کے لئے احکام موجود ہے ۔

قرآن ! کفر و نفاق اور انحراف و گمراہی جیسی بڑی بیماریوں کاعلاج ہے ۔

انسان قرآن کے بغیر فقیر اور اس کے ساتھ امیر شمار ہوتا ہے ۔اور قرآن کبھی پرانا نہیں ہوگا(۲۴) ۔

قرآن مجید ایک ایسا خیر خواہ ہے جو کبھی خیانت نہیں کرتا اور ایسا راہنما ہے جو کبھی راہ گم نہیں کرتا ہے اور ایسا بولنے والا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا(۲۵) ۔

قرآن مجید عظیم کتاب جلو ہ الہی ہے ۔ اس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ اگر ہم ہردن قرآن کے ہر جملے پر غور کریں تو کوئی نہ کوئی نیا نکتہ حاصل ہو جاتا ہے طالب علم اس صورت میں عالم ربانی بنتا ہے جب وہ اس بی انتہا علم میں غور و فکر کرتا ہے اسی لئے قرآن فرماتا ہے کہ :

( كُونُواْ رَبَّانِيِّنَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَ بِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُون ) (۲۶) ۔

جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔

اس آیت میں کلمہ کنتم دو مرتبہ آیا ہے تعلمون اور تدرسون کے ساتھ تو اس سے مراد قرآن کی تعلیم اور تدریس تمام لوگوں کے لئے ہر روز اور ہر زمان میں جاری رہنا چاہیے ۔( دینی مراکز اور یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول ایجاد ہونے کی امیدوں کے ساتھ ۔

۷-وَ رَبِّ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَ الْأَنْبِيَاءِ والْمُرْسَلِينَ :

اے مقرب فرشتوں اور فرستادہ نبیوں اور رسولوں کے پروردگار۔

یہاں پر مقرب " یعنی قریب اور نزدیک کے معنی میں ہے اسی طرح سے سورہ نساء آیت /۱۷۲ میں "( وَ لَا الْمَلَئكَةُ المْقَرَّبُون ) ۔ مقرب فرشتوں کے معنی میں آیا ہے کیونکہ تمام فرشتوں کا مقام و مرتبہ ایک جیسا نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے اور اسی طرح سے ان کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض فرشتوں کا مقام بہت ہی بلند ہے جیسا کہ جبرئیل میکائیل عزرائیل اور اسرافیل ہیں لیکن قرآن مجید میں صرف جبرائیل اور میکائیل ہی کا نام آیا ہے جیسا کہ فرمایا "( وَمَلَئكَتِهِ وَ رُسُلِهِ وَ جِبرْيلَ وَ مِيكَئلَ ) .(۲۷)

اور دوسری آیات میں فرشتوں کے اوصاف کاذکر ہوا ہے جیسے "( كِرَامًا كَاتِبِين ) .(۲۸)

لہذا فرشتوں کے بھی مختلف گروہ ہیں اور ہر گروہ کے مختلف مقامات اورذمہ داریاں ہیں جیسے "( وَ مَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُوم ) (۲۹) ۔اور (ملائکہ کہتے ہیں) ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقام مقرر ہے،۔

جس طرح سے وحی کی ذمہ داری جبرائیل اور رزق کی ذمہ داری میکائیل اور قبض روح کی ذمہ داری عزرائیل اور صور پھونکنے کی ذمہ داری اسرافیل کی ہے تو اسی طرح خود روح بھی ایک مقرب فرشتوں میں سے ایک ہے اور ان کا نام بھی الگ طور پر معمولا قرآن میں ملائکہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَ الْمَلَئكَةُ صَفًّا ) ۔

اس روز روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے ۔(۳۰)

( تَعْرُجُ الْمَلَئكَةُ وَ الرُّوحُ إِلَيْهِ ) ۔ ملائکہ اور روح اس کی طرف اوپر چڑھتے ہیں۔(۳۱)

( تَنزَّلُ الْمَلَئكَةُ وَ الرُّوحُ فِيهَا ) .۔ فرشتے اور روح اس شب میں نازل ہوتے ہیں ۔(۳۲)

لیکن اس فراز میں انبیاء اور رسول کے مقام کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اور رسول کے درمیان فرق ہے اس فرق کے بارے میں بہت بحث ہوئی ہے من جملہ ان میں سے کہا گیا ہے کہ نبی وہ ہے جو وحی الہی سے آگاہ ہو اور نبا کے مادہ سے خبر کے معنی میں ہے اوراگر نبو کے مادہ سے ہو تو رفعت اور بلندی کے معنی میں ہے یعنی جس کا مقام عالی ہو ۔

اسی طرح رسول بھی آسمانی آئین و شریعت کا مالک ہوتاہے اور اس شریعت کو پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہوتاہے یعنی وحی الہی کو حاصل کرنے کے بعد اس کو لوگوں تک پہنچانا رسول کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن نبی وحی کو حاصل کرتا ہے پھر بھی اس کا ابلاغ کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ جواب دے گا لیکن خود اپنی طرف سے ابلاغ کرنا ضروری نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ نبی اس ڈاکٹر کی طرح ہے جو بیمار کوصر ف علاج کرتاہے اور اس بیمار کے پیچھے نہیں جاتا ہے اگر بیمار رجوع کرے تو علاج کرتا ہے لیکن رسول خود بیمار کے پیچھے جاتا ہے تاکہ اس کا علاج کرسکے ۔جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہیں "طَبِيبٌ‏ دَوَّارٌ بِطِبِّه .(۳۳) ۔

یعنی ایسا طبیب ہے جو بیمار کے پاس جاتا ہے اور ایسا چشمہ ہے جو تشنگان کی تلاش میں ہوتا ہے ۔

بعض پیغمبر ایسے تھے جو دونوں مقامات کو رکھتے تھے جیسے پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ والسلم جیسا کہ وحی کو حاصل کرنے کے بعد اس کو لوگوں تک پہنچانا بھی آپ کی ذمہ داری تھی(۳۴) ۔

جناب ابوذر پیغمبر خدا سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا : انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں اور ان میں سے تین سو تیرہ رسول تھے(۳۵)