زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) 0%

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: مشاہدے: 8613
ڈاؤنلوڈ: 2347

تبصرے:

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8613 / ڈاؤنلوڈ: 2347
سائز سائز سائز
زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

زندگی مہدوی (دعاۓ عہد کے سایہ میں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آٹھواں حصّہ:

ظہور کا برنامہ

اس حصے میں ۲۱ جملے ہیں جن میں ۱۳ جملے ظہور کے فوائد کے بارے میں ہیں۔

۱-وَاعْمُرِ اَللّٰهُمَّ بِهِ بِلادَکَ :

اور اے معبود ان کے ذریعے اپنے شہر آباد کر ۔

دین اسلام میں زمینوں کو آباد کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكمُ‏ْ فِيهَا ) (۱۲۳) اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا ۔اور اسی طرح سے امیر المؤمنین علیہ السلام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ "جِبَايَةَ خَرَاجِهَا وَ جِهَادَ عَدُوِّهَا وَ اسْتِصْلَاحَ أَهْلِهَا وَ عِمَارَةَ بِلَادِهَا .(۱۲۴)

اس علاقے کی مالیات کو جمع کرو اور ان کے دشمنوں سے جنگ کرو اور ان کے شہروں کو آباد کرو اور آپ زمینوں کو آباد کرنے کی طرف مالیات لینے سے زیادہ توجہ کرو ۔

پیغمبر اکرم نے ایک گروہ کو جنگ کے لئے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ درختوں کو نہ کاٹے(۱۲۵) ۔

اور اسی طرح سے امام علی علیہ السلام نے کہا ہے کہ عقل کے کامل ہونے کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ درختوں کو نہ کاٹا جائے(۱۲۶) ۔

امام زمان علیہ السلام کے خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام شہروں کو آباد کریں گے کیونکہ تمام زمین وآسمان کے خزانے آپ کے پاس ہونگے اور تمام جگہے سرسبز و شاداب ہونگے جس سے تمام انسان بہرہ مند ہونگیں جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہيَمْلَأُ الْأَرْضَ‏ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْما .(۱۲۷) ۔

امام علیہ السلام تمام جگہوں کوعدل و انصاف سے بھر دینگے چاہے وہ آبادی ہو شہر ہو یا دیہات ہو ہر جگہ پر لوگ آسائش میں ہونگے ۔

۲-وَأَحْیِ بِهِ عِبادَکَ :

اور اپنے بندوں کو عزت کی زندگی دے۔

خداوند عالم حی ہے او رسب کا حیات خدا کے ہاتھ میں ہے حیات کے مختلف اقسام ہیں ۔ جیسا

۱۔ حیات گیاہان و سبزیجات : جیساکہ قرآن آیا ہے "( أَنَّ اللَّهَ يحُىِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتهَِا ) (۱۲۸) ۔

اللہ ہی زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے،

۲۔ حیات حیوانی ہے : جیسا کہ فرمایا "( إِنَّ الَّذِى أَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتىَ ) (۱۲۹) .

جس نے زمین کو زندہ کیا وہی یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔

۳۔ حیات فکری ہے : جیساکہ فرمایا "( أَ وَ مَن كاَنَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاه ) (۱۳۰) ۔

کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا ۔

یہاں حیات سے مراد حیات حیوانی نہیں ہے کہ جس سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے دعوت دے بلکہ حیات سے مراد حیات فکری اور عقلی ہے اور حیات معنوی و عملی اور اجتماعی ہیں یعنی حیات زندگی کے تمام مراحل مراد ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حیات انسان ایمان و عمل صالح میں ہے اسی وجہ سے خداوند عالم اور انبیاء علیہم السلام نے بھی لوگو ں کو اسی کی طرف دعوت دی ہیں چونکہ احکام و دستورات الہی کی اطاعت کرنے سے ہی انسان کی زندگی پاک وپاکیزہ ہو جاتی ہے

جیساکہ قرآن نے کہا "( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ‏ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً ) (۱۳۱) ۔

جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے ۔

اس لحاظ سے امام کے ظہور کے وقت انسان حقیقت میں زندہ ہونگے یعنی معنوی اعتبار سے ۔

۳-فَإنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ ظَهَرَ الْفَسَادُ ِفی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ :

فساد خشکی اور سمندر میں یہ نتیجہ ہے لوگوں کے غلط اعمال و افعال کا کیونکہ تو نے فرمایا اور تیرا قول حق ہے کہ ظاہر ہوا۔

جو خداوند عالم نے بیان کیا ہے وہ حق اور حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا کے بعض سختیاں اور مشکلات خود انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہیں جیسا کہ :

۱۔ شرک ہے : جو زمین پر فساد اور تباہی کا سبب بنتا ہے فرمایا "( عَمَّا يُشْرِكُونَ ) ۔

۲۔انسان کے اعمال خود طبیعت پر اثر رکھتے ہیں جیساکہ آب و ہوا کو خراب کرنے میں خود انسان سبب بنتا ہے ۔ فرمایا "ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ .(۱۳۲)

۳۔ اور اسی طرح سے معاشرے کو خراب کرنے میں بھی خود انسان ہی باعث ہوتا ہے فرمایا "( بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاس ) ۔

۴-فَأَظْهِرِ اَللّٰهُمَّ لَنا وَلِیَّکَ :

پس اے معبود! ظہور کر ہمارے لیے اپنے ولیعلیہ السلام کی۔

اس فراز میں خداوند عالم سے امام کی ظہور کے لئے درخواست کررہیں ہیں کیونکہ انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہے اور دنیا پر فساد کی آلودگی چھائی ہوئی ہیں تو انسان کو اس تباہی سے بچانے کے لئے اور نجات دینے کے لئے منجی بشریت کے ظہور میں تعجیل کی ضرورت ہے تاکہ انسان کو اس فساد سے نجات مل سکیں۔

۵-وَابْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ :

اور اپنے نبی صل اللہ علیہ و السلم کی بیٹی کے فرزند کا ۔

امام زمانہ علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کا نسل حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہونا ہے تقریبا

۱۹۰ سے زیادہ احادیث اور روایات جوکہ اہل سنت اور شیعہ منابع میں موجود ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد میں سے قرار دیتی ہیں(۱۳۳) ۔

سنن ابی داؤد میں ام سلمہ سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اکرم یہ فرماتے تھے "المهدي‏ من‏ عترتي‏ من ولد فاطمة ابنتي ۔(۱۳۴) ۔

اور اسی طرح سے کنز العمال میں بھی آیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا "

المهدي‏ رجل‏ منّا من ولد فاطمة (۱۳۵) ۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں خطبہ /۱۶ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اکثر محدثین کا عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدی موعود حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نسل سے ہیں(۱۳۶) ۔

۶-وَالْمُسَمَّیٰ بِاسْمِ رَسُولِکَ :

جن کا نام تیرے رسول کے نام پر ہے۔

اہل سنت اور شیعہ روایات میں تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیغمبر اکرم کا ہمنام اور ہم کنیہ ہونگے یعنی انکا نام بھی محمد اور کنیہ ابوالقاسم اور انکا لقب مہدی ہے اور سب سے زیادہ پیغمبر اکرم کے ساتھ

شباہت رکھتے ہیں اور خداوند متعال ان کے ذریعہ سے تمام عالم کو فتح کریں گے(۱۳۷) ۔

صاحبان صحاح -سنن -معاجم اور مسانید میں مختلف اسناد ارو الفاظ کے ساتھ رسول اکرم سے نقل کیے ہیں کہ آخر الزمان میں میرے فرزندوں میں سے ایک فرزند جو میراہم نام اور ہم کنیہ ہوگا ظہور کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے کہ یہ دنیا ظلم و جور سے بھرا ہوا ہے(۱۳۸) ۔

اور اسی طرح سے ترمذی نے سند کے ساتھ پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا "لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ‏ مِنْ‏ أَهْلِ‏ بَيْتِي‏ يُوَاطِئُ‏ اسْمُهُ اسْمِي (۱۳۹) ۔

۷-حَتَّی لاَ یَظْفَرَ بِشَیْئٍ مِنَ الْباطِلِ الا مَزَّقَهُ :

یہاں تک کہ وہ باطل کا نام و نشان مٹا ڈالیں ۔

خداوند متعال نے فرمایا "( هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى‏ وَ دِينِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّينِ كُلِّه ) (۱۴۰)

اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے ۔

یہ آیت قرآن مجید میں تین بار تکرار ہوئی ہے اور یہ بشارت دیتی ہے کہ دین اسلام تمام عالم میں پھیل جائے گا ۔ لیکن اس کے لئے تین شرائط کا ہونا ضروری ہیں ۔

۱۔ پوری دنیا کا ایک رہبر ہونا ۔

۲۔ اور پوری دنیا میں ایک ہی قانون کا ہونا ۔

۳۔ اور تمام دنیا والوں کا اس کے لئے تیار ہونا ۔

تو جو پوری دنیا کا رہبر ہے وہ حضرت امام مہدی ہے اور اسی طرح سے ایک قانون بھی موجود ہے وہ قرآن کریم ہے کہ جس میں تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے لیکن لوگوں کی آمادگی بہت ہی کم ہے لہذا اس کے لئے بہت ہی کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امام زمان علیہ السلام کی حکومت کے لئے زمینہ فراہم ہو جائے اور امام جب ظہور کریں گے تو ہمیں بالکل تیار ہونا چاہیے ۔

خدا وند متعال نے دین اسلام کو تین بار فتح و کامیابی حاصل ہونے کی خبر دی ہے تو انشااللہ یہ وعدہ یقینا پورا ہو جائے گا اور یہ اللہ کا وعدہ ہے وہ اپنے وعدے کی مخالفت نہیں کرتا ہے ۔( لَا يخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ ) (۱۴۱)

اور امام علی علیہ السلام نے فرمایا "فو الذي‏ نفسي‏ بيده‏ حتى‏ لا تبقى‏ قرية إلا ينادي فيها بشهادة أن لا إله إلا الله بكرة و عشيا (۱۴۲) ۔خداکی قسم کوئی شہر و دیہات باقی نہیں رہے گا مگر وہاں صبح و شام آذان اور شہادتوں کی صدائیں بلند ہو گی ۔

اور پیغمبر اکرم نے بھی غدیر خم کے میدان میں امام مہدی علیہ السلام کی معرفی کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگواس نور خدا کو مجھ میں قرار دیا ہے اور میرے بعد علی علیہ السلام کے نسل سے امام مہدی آئیں گے وہ تمام حقوق کو واپس لیں گے اور تمام ادیان پر فتح حاصل کریں گے تمام دنیا کی حکومتیں ان کے پاس ہونگی اورکوئی بھی انہیں شکست نہیں دے سکے گا(۱۴۳) ۔

۸-وَیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُحَقِّقَهُ :

حق کو حق کہیں اور اسے قائم کریں۔

طول تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ غلبا لوگوں پر ظالم اور جابر حکمرانوں کی حکومت رہی ہے اور ان حکومتوں کی بنیاد بھی ظلم اور فساد پر ہی ہوتی ہیں اور لوگ ان ظالم حکومتوں میں زندگی کرتے تھے جسکی مثال قرآن مجید نے ملکہ سباء کے قول کے طور پر بیان کیا ہوا ہے "قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُواْ قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَ جَعَلُواْ أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَ كَذَالِكَ يَفْعَلُون (۱۴۴) ۔

ملکہ نے کہا: یہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں حکومت قدرت مند لوگوں کی ہی ہوتی تھی اور انکا بنیاد بھی فساد اور ظلم پر ہوتا تھا ۔ لیکن قرآن مجید نے قطعی طور پر اور یقین کے ساتھ یہ کہا کہ آخر کامیابی حق کو ہی ہونا ہے اور تمام کائنات پر حق کا حکم نافذ ہو گا اور باطل حکومیتں ناکام و نابود ہو جائے گی اور روی زمین پر اچھے اور نیک لوگ وارث ہوں گے ۔

اور اسی طرح سے فریقین میں سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں کہ آخری فتح و کامیابی کو امام مہدی کی طرف نسبت دی ہے یعنی اس سے مراد امام علیہ السلام کا قیام کرنا ہے کہ جس میں امام کو فتح حاصل ہوگی اور باطل نابود ہو جائے گا جیسا

کہ قرآن کا وعدہ ہے کہ فرمایا "( وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كاَنَ زَهُوقًا ) (۱۴۵)

اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔

اور اسی طرح سے قرآن مجید میں ایک اور مقام پر فرمایا "( بَلْ نَقْذِفُ بِالحَقّ‏ِ عَلىَ الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ) (۱۴۶) ۔

بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگا تے ہیں جو اس کا سر کچل دیتاہے اور باطل مٹ جاتاہے۔

اس آیت کا ایک مصداق امام مہدی علیہ السلام کو قرار دیا ہے جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے جب امام مہدی کی

ولادت ہوئی تو آپ کے دائیں بازو پر یہ آیت لکھی ہوئی تھی(۱۴۷) ۔

اسی طرح سے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا "إذا قام‏ القائم‏ ذهبت‏ دولة الباطل (۱۴۸)

جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو باطل نابود ہو جائے گا ۔

پس امام علیہ السلام کے ظہورکے بعد تمام عالم عدل و انصاف سے بھر جائے گا اور اس دن کے بارے میں پیغمبر اکرم سے روایت ہوئی ہیں کہ آپ نے فرمایا "لَوْ لَمْ‏ يَبْقَ‏ مِنَ‏ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ‏ لَبَعَثَ‏ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَؤُهَا عَدْلًاكَمَا مُلِئَتْ جَوْرا .(۱۴۹) ۔

اگر دنیا کی عمر میں سے ایک دن بھی باقی رہ جائے تو بھی خدا وند عالم ہم میں سے ایک مرد کو مبعوث کرے گا تاکہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔

۹-وَاجْعَلْهُ اَللّٰهُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبادِکَ :

اے معبود قرار دے ان کو اپنے مظلوم بندوں کیلئے جائے پناہ ۔

خدا وند متعال نے اہلبیت علیہم السلام کو مظلومین اور بے پناہ لوگوں کے لئے پناہ گا قرار دیا ہے اور ان کی اپنی زندگی میں بھی وہ بے سہارا اور مظلومین کی لئے پناہگاہ اور سہارا تھے ۔ اسی طرح سے امام زمان علیہ السلام بھی بے سہاروں اور مظلوموں کے لئے پنا ہ گاہ ہیں اور خصوصا امام کی ظہور کے وقت اس کی مثال اور بھی واضح اور روشن ہوگا ۔

۱۰-وَناصِراً لِمَنْ لاَ یَجِدُ لَهُ ناصِراً غَیْرَکَ :

اور ان کے مددگار جن کا تیرے سوا کوئی مدد گار نہیں بنا۔

جس طرح سے خداوند متعال ہر اس بندے کا مددگار ہے کہ جن کا کوئی مددگار نہیں اسی طرح سے اسکا نمایندہ امام علیہ السلام بھی تمام مظلوموں اور بے سہاروں کا سہارا ہے امام مہدی کے ظہور کے بعد کوئی بھی بے یار و مددگار نہیں ہوگا بلکہ امام علیہ السلام سب کی مدد کرینگے اور یہ امام مہدی کی حکومت کی خصوصیات میں سے ہیں ۔

۱۱-وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ أَحْکامِ کِتابِکَ :

ان کو اپنی کتاب کے ان احکام کے زندہ کرنے والے جو بھلا دیئے گئے ۔

امام زمان علیہ السلام کی حکومت کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ دین اور قرآنی احکام کو دوبارہ زندہ کریں گے چونکہ جب امام ظہور کریں گے تو اس وقت مسلمانوں کے پاس صرف اس دین اور اسلام و قرآن کا ایک اثر ہی باقی رہا ہو گا کیونکہ جس معاشرے میں دین اسلام کی احکام پر عمل نہیں ہوتا ہو اور اسلامی قوانیں پر عمل درآمد نہ ہوتا ہو تو اس معاشرے کو صرف مردہ معاشرہ ہی کہا جا سکتا ہے اسی لئے امیر المؤمین نے امام زمانہ علیہ السلام کو اس تعبیر کے ساتھ مخاطب قرار دیا ہے ۔یعنی قرآن و سنت اور مردہ کو زند ہ کرنے والا ہے(۱۵۰) ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امام علیہ السلام قوانیں اسلام اور انکی تعلیمات کو معاشر ے میں دوبارہ رائج کریں گے

اور حقیقی اسلام نافذ کرینگے تمام بدعتوں کو ختم کریں گے اور پیغمبر اکرم کی سنت جوکہ متروک ہوا ہو اسکو زندہ کریں گے اور قرآن و تعلیمات اسلامی کو حقیقی معنوں میں تفسیر کرینگے پھر لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے ۔

۱۲-وَمُشَیِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ أَعْلامِ دِینِکَ :

ان کو اپنے دین کے خاص احکام ۔

امام کے ظہور کے وقت دین اسلام محکم اور قدرت مند دین شمار ہواگا چونکہ امام علیہ السلام خدا وند عالم کے حکم سے حقیقی معنوں میں اس دین کی تبلیغ کریں گے اور باقی تمام ادیان پر غالب آئے گا ۔

۱۳-وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وآلِهِ :

اور اپنے نبی کے طریقوں کو راسخ کرنے والے بنا ان پر اور انکی آل پر خدا کی رحمت ہو ۔

اہل بیت علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک بہترین ہدف دین اسلام کی تبلیغ اور پیغمبر اکرم کی سنتوں کو زندہ کرنا تھا کہ جس کے لئےانہوں نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی کوشش کی کہ جس کی ایک مثال قیام امام حسین علیہ السلام ہے ۔ اسی طرح سے امام زمانہ علیہ السلام بھی ان تمام سنتوں کو جوکہ لوگوں نے بھلا دیئے ہیں دوبارہ زندہ کریں گے ۔

۱۴-وَاجْعَلْهُ اَللّٰهُمَّ مِمَّنْ حَصَّنْتَهُ مِنْ بَأْسِ الْمُعْتَدِینَ ۔

اور اے معبود انہیں ان لوگوں میں سے فرار دے جنکو تو نے ظالموں کے حملے سے بچایا۔

تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حق اور باطل کے درمیان ہمیشہ ہی جنگ رہی ہے اور باطل ہمیشہ ہی حق پر حملہ آور رہا ہے جیسا کہ یہ سلسلہ دوران رسالت اور امامت سے ہی جاری رہا ہے لیکن امام مہدی علیہ السلام کی دور میں تمام اہل حق آپس میں متحد ہونگے اور انکے مخالفت میں باطل والے بھی آپس میں متحد ہونگے پھر حق اور باطل کے درمیان بہت سخت جنگ ہوگی لیکن آخر میں حق کو کامیابی ہوگی اور باطل و شیطان کا گروہ نابود ہوگا جیساکہ قرآن کہہ رہا ہے"( ْ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَلِبُون ) (۱۵۱) ۔ : اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ۔( أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ المْفْلِحُون ) (۱۵۲)

اللہ کی جماعت والے ہی یقینا کامیاب ہونے والے ہیں ۔

۱۵-اللّٰهُمَّ وَسُرَّ نَبِیَّکَ مُحَمَّداً صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وآلِهِ بِرُؤْیَتِهِ وَمَنْ تَبِعَهُ عَلَی دَعْوَتِهِ :

اے معبود خوشنود کر اپنے نبی محمد کو ان کے دیدار سے اوران لوگوں کو جنہوں نے ان کی دعوت میں ان کا ساتھ دیا ۔

یقینا یہ وہی زمانہ ہو گا جب امام مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور تمام عالم میں کلمہ شہادتین سنائی دے گا تو اس وقت پیغمبر اکرم خوش ہوں گے شیطان اور اس کے پیروکاروں کو شکست ہوگی ۔

۱۶-وَارْحَمِ اسْتِکانَتَنا بَعْدَهُ :

اور ان کے بعد ہماری حالت زار پر رحم فرما ۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد اہل بیت علیہم السلام کا حق غصب ہوگیا اور ہر قسم کی مشکلات اور مصائب شروع ہو گئیں ۔

۱۷-اللَّهُمَّ اکْشِفْ هذِهِ الْغُمَّةَ عَنْ هذِهِ الْاَمَّةِ بِحُضُورِهِ :

اے معبود ان کے ظہور سے امت کی اس مشکل اور مصیبت کو دور کر دے ۔

یہاں پر لفظ حضور سے مراد ظہور ہے کیونکہ ان کے ظہور سے امت اسلامی کے تمام مشکلات اور مصائب بر طرف ہوں گے اسی لئے امام علیہ السلام کا ظہور خوشحالی کا باعث ہیں اور تمام دنیا کی مشکلات کا خاتمہ ہے خصوصا امت اسلام کے لئے خاص امتیاز حاصل ہے چونکہ تمام عالم میں اسلا م حاکم ہو گا ۔

۱۸-وَعَجِّلْ لَنا ظُهُورَهُ

اور ہمارے لیے جلد انکا ظہور فرما ۔

امام علیہ السلام کے منتظرین کے وظائف میں سے ایک وظیفہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ امام کی ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرے تاکہ ان کے ظہور سے اس دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور اس دنیا سے ظلم و ستم اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے ۔

۱۹-إنَّهُمْ یَرَوْنَهُ بَعِیداً وَنَرَاهُ قَرِیباً :

کہ لوگ اس دن کو دور اور ہم اسے نزدیک سمجھتے ہیں۔

قرآن مجید میں یہ جملہ کافروں کے بارے میں آیا ہے جو کہ معاد کے منکر ہیں اور قیامت کو معقول نہیں سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں قیامت ایک حقیقی اور قطعی چیز ہے اور اسی طرح سے ہر وہ کام جو واقع ہونے والی ہے بہت ہی نزدیک ہے اسی طرح سے امام علیہ السلام کا ظہور بھی نزدیک اور واقع ہونے والا ہے اور یہ قطعی اور واقعی ہے ۔

۲۰-بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔

تیری رحمت کاواسطہ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

یہ جملہ بہت ساری دعاؤں میں ذکر ہوا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا قبول ہونا خداوند عالم کی رحمت اورلطف پر موقوف ہے یہی وجہ ہے کہ تمام دعائیں خداوند عالم کی رحمت اور اسی کی نظر لطف سے قبول ہوجاتی ہیں ۔

پھر تین بار دائیں ران پر ہاتھ مارے اور ہر بار کہے :

۲۱-الْعَجَلَ الْعَجَلَ یَامَوْلایَ یَا صاحِبَ الزَّمانِ ۔

جلد آئیے جلد آئیے اے میرے آقا اے زمانہ حاضر کے امام علیہ السلام ۔

اس جملہ میں تین نکتے بیان ہوئی ہیں :

پہلا ۔ خدا وند عالم سے انکے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کررہے ہیں اور اس کے ساتھ خود امام سے بھی اس کی درخواست کرتے ہیں ۔

دوسرا ۔ وہ ہمارا مولی اور سرپرست ہے ۔

تیسرا ۔ وہ زمانے کا امام اور صاحب عصر ہے ۔

تمت بالخیر

____________________

حوالہ جات

۱ ۔ بحار الانوار ج۸۳ /ص۲۸۴

۲۔ مآخذ سیرہ امام خمینی ج۳ ص/۴۲

۳ ۔ ہمان ص/۸۷

۴ ۔ فوز اکبر ص/ ۸۷)

۵۔ سورہ اسراء /۳۵

۶ ۔ بحار الانوار ج۷۷ /ص ۲۶۹.

۷ ۔ (بحار الانوار ج ۵۲/ ص۱۴۶) (کمال الدین ج۲/ ص ۵۱۲)

۸۔كشف الغمة ج‏۲ ؛ ص۴۷۸

۹ ۔ (الزام الناصب ،ج۲،ص: ۱۶۵.)یوم الغلاص /ص ۲۳۴

۱۰ ۔ ہمان ص ۲۳۶)

۱ ۔( الغيبة( للنعماني) ؛ ص۳۱۶).سورہ مائدہ آیت /۵۶ ۔(بحار الانوار ج ۵۲ /ص ۳۷۰)

۱۲ ۔ سورہ اعراف /۱۸۰

۱۳ ۔ سورہ ابراہیم آیات /۴۰-۴۱ ۔

۱۴ ۔التوحيدشیخ صدوق ص: ۳۲۷

۱۵ ۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ‏ فَقَالَ‏ السَّمَاوَاتُ‏ وَ الْأَرْضُ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِي الْكُرْسِيِّ وَ الْعَرْشُ هُوَ الْعِلْمُ الَّذِي لَا يَقْدِرُ أَحَدٌ قَدْرَه‏ _التوحيدشیخ صدوق)، ص: ۳۲۷.

۱۶ ۔ سورہ بقرہ /۹۷).

۱۷ ۔ سورہ آل عمران آیت / ۱۹ ۔

۱۸ ۔ سورہ قمر/۵۲

۱۹۔ سورہ اسراء /۵۵

۲۰ ۔ اصول کافی ج ۲ /ص ۶۰۱

۲۱ ۔ تفسیر قرطبی )۔

۲۲۔مستدرک الوسائل ج۴ /ص ۲۳۲

۲۳ ۔ سورہ حجر /۸۷

-۲۴ نہج البلاغہ خطبہ /۱۵۶

۲۵ ۔ بحار الانوار ج ۷۷ /ص ۱۱۴)

۲۶۔ سورہ آل عمران /۷۹ )

۲۷ ۔ سورہ بقرہ آیت /۹۸)

۲۸ ۔(سورہ انفطار آیت /۱۱ )

۲۹ ۔ ( سورہ صافات آیت /۱۶۴)

۳۰۔ سورہ نبا آیت /۳۸)

۳۱ ۔ (سورہ معارج آیت /۴)

۳۲ ۔ (سورہ قدر /۴)

۳۳ ۔ (نہج البلاغة خطبہ ۱۰۸)

۳۴۔ ( تفسیر نمونہ ج ۱ /ص۴۴۰)

۳۵۔ تفسیر برہان ج ۳ /ص۱۰۴ و ج۴ ص ۴۵۲ )

۳۶۔ نہج البلاغہ نامہ/۴۷

۳۷ ۔سورہ نجم /۸-۹

۳۸ ۔ سورہ قصص /۸۸

۳۹۔ توحید صدوق /ص ۱۱۷

۴۰۔ ( بحار الانوار ج۹۵ -ص/۲۱۹ و اقبال الاعمال ج۱ /ص۳۴۳ .)

۴۱ ۔ سورہ مائدہ آیت /۱۲۰

۴۲ ۔ سورہ حدید آیت /۲

۴۳- سورہ فرقان آیت / ۵۸

۴۴ ۔ مفردات راغب کلمہ قیوم کی ذیل میں /ص۱۵ ۔

۴۵ ۔ نہج البلاغہ خطبہ /۱۰۸۔

۴۶۔ سورہ زمر کی آیت /۶۹

۴۷ ۔ سورہ حدید آیت /۱۲ -سورہ تحریم آیت /۸ ۔

۴۸ ۔ بحار الانوار ج۴۰/ ص۴۴

۴۹۔ تفسیر نور الثقلین ج ۱۲۱ ذیل آیت ۔تفسیر قمی ج ۲ ص ۲۵۳ ۔

۵۰ ۔ ( بحار الانوار ج ۵۲ /ص ۳۳۷

۵۱ ۔ (اقبال الاعمال ؛ ج۱ ؛ ص۳۴۳ )

۵۲۔من لا يحضره الفقيه ؛ ج۲ ؛ ص۶۱۶)

۵۳ ۔ (البلد الامين ، ص: ۴۰۸)

۵۴ ۔ سورہ نجم /۴۴

۵۵۔ (سورہ توبة :آیت / ۱۱۶)

۵۶ ۔ سورہ عنکبوت /۱۹

۵۷۔ سورہ یونس /۵۶

۵۸۔ سورہ روم /۴۰

۵۹ ۔ سورہ بقرة / ۲۱)

۶۰ ۔ سورہ قریش آیات ۳-۴ )

۶ ۔ سورہ روم / ۴۰)

۶۲ ۔ سورہ غافر آیت / ۶۸

۶۳۔ کنز العمال حدیث /۳۵۵۴

۶۴۔ توحید ص /۲۸ )

۶۵۔ بحار الانوار ج۹۰ / ص ۱۹۶)

۶۶ ۔ عیون اخبار الرضا ج۲ /ص ۱۳۴ )

۶۷۔ (مصباح المتہجد ج۲، ص: ۸۴۵)

۶۸۔ (سورہ انبیاء/۸۷ )

۶۹ ۔ سورہ رعد آیت / ۷

۷۰۔ (بحار الانوار؛ ج۵۱ ؛ ص۳۰ )

۷۱ ۔ (بحار الانوار ج ۵۲ /ص ۱۶ )

۷۲۔ ( ارشاد /ص ۳۶۶ ۔

۷۳ ۔ کمال الدین و تمام النعمہ ج۲ ص/۳۷۸ ح ۳۔

۷۴۔ (مکیال المکارم ج ۲ ص/۳۷۳)

۷۵ ۔ ( سورہ احزاب /۵۶ )

۷۶ ۔ مفردات راغب ۔

۷۷ ۔ تفسیر نمونہ ذیل آیہ ۔

۷۸ ۔ سورہ تورہ آیت / ۱۰۳

۷۹ ۔ (توصیہ ہا و پرسش ہا و پاسخ ہا ص/ ۷۸ )

۸۰ ۔ ہمان ص /۹۶ ۔

۸۱ ۔ مصباح الزائر ص/۴۱۸ ) (بحار الانوار ج ۹۹ /ص ۸۵ )۔

۸۲ ۔ (سورہ واقعہ / ۱۰ )

۸۳ ۔ سورہ بقرہ آیت /۱۵

۸۴ ۔ سورہ رحمن آیت / ۱۷

۸۵ ۔ سورہ معارج آیت /۴۰

۸۶ ۔ (سورہ حاقہ آیت / ۱۷)

۸۷ ۔ (معانی الاخبار ص / ۲۹)۔

۸۸ ۔ ( توحید ص /۳۲۱ )

۸۹ ۔ ( سورہ ہود آیت /۷ )

۹۰ ۔ سورہ لقمان /۲۷ ۔

۹۱ ۔ (سورہ کہف آیت /۱۰۹ )

۹۲ ۔ (سورہ صافات/۱۷۱)

۹۳ ۔ (سورہ نساء /۱۷۱ )

۹۴ ۔ (سورہ ابراہیم آیت /۱۲۴ )

۹۵ ۔ (سورہ مریم آیت / ۱۲ )

۹۶ ۔ ( سورہ انفال آیت /۷ )

۹۷ ۔ ( تفیسر نور الثقلین ذیل آیہ )

۹۸ ۔ ( اصول کافی ج۳ ص/ ۲۵۹ )

۹۹ ۔ (سورہ طہ/۱۱۰ )

۱۰۰ ۔ (سورہ انعام آیت /۳ )

۱۰۱ ۔ (توحید شیخ صدوق / ص ۱۳۳ )

۱۰۲ ۔ ( سورہ طہ /۹۸ )

۱۰۳ ۔ (اصول کافی ج ۸۰ /ص ۲۶۸ )

۱۰۴ ۔ سورہ صف آیت /۱۴ ۔

۱۰۵ ۔ (اصول کافی ج ۱ ص/۵۴۸ )

۱۰۶ ۔ (كمال الدين و تمام النعمةج ۲ص۵۲۱ ) ( وسائل الشیعہ ج۹ ص ۵۴۱ )۔

۱۰۷ ۔ (لہوف ص /۱۱۵ )

۱۰۸ ۔ (سورہ انبیاء آیت /۹۰ )

۱۰۹ ۔ سورہ نساء آیت /۵۹ ۔

۱۱۰ ۔ آل عمران ص/۱۳۳۔

۱۱۱ ۔ سورہ حدبد ص/۲۱۔

۱۱۲ ۔ سورہ مؤمنون آیت /۶۱ )

۱۱۳ ۔ (سورہ مائدہ /۶۲)

۱۱۴ ۔ (سورہ حشر آیت /۱۰)

۱۱۵ ۔ (سورہ بقرہ آیت /۱۴۸ )

۱۱۶ ۔ سورہ مؤمنون آیت /۶۱ )

۱۱۷ ۔ (صف / ۴).(المزار الكبير ؛ ص۶۵۸) ( بحار الانوار ج۵۳ ص ۹۶ )

۱۱۸ ۔ (سورہ نمل آیت /۸۳)

۱۱۹ ۔ (صحیفۃ الرضا ص /۹۳)

۱۲۰ ۔ (بحار الانوار ج۵۱ ص/۹۱)

۱۲۱ ۔ ( ہمان ص /۹۵ )

۱۲۲ ۔ (تفسیر نو ر الثقلین ج ۳ ص /۳۷۴ )

۱۲۳ ۔ (سورہ ھود آیت /۶۱ )

۱۲۴ ۔ (بحار الانوار ج۳۳ص/۵۹۹)

۱۲۵ ۔ (بحار الانوار ج۱۰۰ ص/۶۵)

۱۲۶ ۔ ( بحار الانور ج ۷۶ ص/۳۱۳ )

۱۲۷ ۔ (بحار الانوار ؛ ج۲۴ ؛ ص۲۴۱ )

۱۲۸ ۔ (سورہ حدید /۱۷)

۱۲۹ ۔ (سورہ فصلت /۳۹ )

۱۳۰ ۔ (سورہ انعمام /۱۲۲)

۱۳۱ ۔ (سورہ نحل /۹۷ )

۱۳۲ ۔ سورہ روم /۴۱۔

۱۳۳ ۔ (متخب الاثر :ص/۲۴۷ )

۱۳۴ ۔ (سنن ابی داؤد : ج ۴ ص/ ۸۷ )

۱۳۵ ۔ (کنز العمال : ج ۷ص/۲۶ )

۱۳۶ ۔ (شرح نہج البلاغہ :ج ۱ ص/۲۸۱ )

۱۳۷ ۔ (ینابیع المودۃ :ج ۳/ص۳۹۸- منتخب الاثر :ص/ ۲۳۶ -)

۱۳۸ ۔ ( مسند احمد :ج۱ ص/۳۷۶ - ابن حیان : ج۱۳ ص/۲۸۴ - المعجم الاوسط :ج۷ ص/۵۴ )

۱۳۹ ۔ (سنن ترمذی : ج۳ ص/۳۴۳ )

۱۴۰ ۔ (سورہ توبہ :/۳۳)

۱۴۱ ۔ سورہ روم /۶۔

۱۴۲ ۔ (کنز الدقائق ج۱۳ ص/۲۳۴ ).

۱۴۳ ۔ (بحار الانوار : ج ۳۷ ص/۲۱۳ )۔

۱۴۴ ۔ ( سورہ نمل : آیت /۳۴)۔

۱۴۵ ۔ (سورہ اسراء :آیت /۸۱ )

۱۴۶ ۔ (سورہ انبیاء " آیت /۱۸)

۱۴۷ ۔ ( نور الثقلین ج۳ ص /۲۱۳)

۱۴۸ ۔ (کافی ج۸ ص/۲۸۷ )

۱۴۹ ۔ (بحار الانوار ج ۵۱ ص/۸۵ ) مسند ابن حنبل ج۲ ص/۷۷۴ )

۱۵۰ ۔ (نہج البلاغہ خطبہ/۱۳۸ )

۱۵۱ ۔ سورہ مائدہ /۵۶۔

۱۵۲ ۔ سورہ مجادلہ /۲۲۔