خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات0%

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ابو مھدی قزوینی
زمرہ جات: مشاہدے: 8763
ڈاؤنلوڈ: 2122

تبصرے:

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8763 / ڈاؤنلوڈ: 2122
سائز سائز سائز
خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ضمیمہ

آیہ تبلیغ

خطبہ غدیر

آیہ تبلیغ

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) (۱۳۶)

اے پیغمبرؐ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

آیت کے انداز پر غور کرنے سے یہ بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے کہ آیت کسی اہم ترین مسئلہ کے بارے میں خبر دے رہی ہے کیونکہ اس آیت میں ایسی تاکیدیں موجود ہیں جو اس سے پہلے نہیں پائی گئیں مثلاً:

۱ ۔ آیت "یا ایھا الرسول" سے شروع ہو رہی ہے اور پیغمبرؐ گرامی کو منصب کے ذریعے مخاطب کیا گیا ہے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیان کیا جانے والا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

۲ ۔ کلمہ "بلّغ" خود موضوع کی اہمیت و خاصیت پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ:

 یہ کلمہ فرد پر منحصر ہے اور پورے قرآن میں ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

 راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات قرآن میں کہتے ہیں کہ "ابلغ" کی نسبت اس لفظ میں زیادہ تاکید پائی جاتی ہے کیونکہ اگرچہ یہ لفظ ایک ہی آیت (سورہ مائدہ، آیت نمبر ۶۷) میں آیا ہے لیکن اس کلمہ میں تاکید کے علاوہ مفہوم تکرار بھی پوشیدہ ہے یعنی یہ موضوع اتنا اہم تھا کہ اسے لازمی طور پر بیان ہونا چاہیے اور اس کی تکرار بھی ہونا چاہیے۔

۳ ۔ جملۂ"و اِن لَم تفعل فما بلّغت رسالتہ" اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پیغمبر گرامی کو جس مطلب کے ابلاغ پر مامور کیا گیا ہے وہ اساس دین اور ستون رسالت و نبوت ہے کیونکہ اگر پیغمبرؐ یہ کام انجام نہ دیں تو گویا فریضہ نبوت ادا نہ ہوسکے گا!

۴ ۔ پروردگار عالم کی طرف سے حضورؐ اکرم کی جان کی حفاظت کی ضمانت لینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر کی تبلیغ میں یقیناً حضور کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے علاوہ شدید ردِّ عمل کا بھی خوف تھا لیکن خالق اکبر نے ان تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دیدی۔

توجہ:

 لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر آیۂ تبلیغ کس اہم ترین موضوع کے بارے میں خبر دے رہی ہے؟

 پیغمبر ؐ گرامی قدر کی یہ اہم ماموریت کیا تھی کہ جس کے لیئے پروردگار عالم نے واضح طور پر حفظ و امان کی ضمانت دی ہے؟

 حضورؐ سرور کائنات کو وہ کونسا حکم پہنچانا تھا جو آپؐ کی تمام رسالت کے مساوی تھا؟

 اللہ تبارک و تعالیٰ حضورؐ اکرم سے کیا چاہتا ہے کہ جس کی خاطر ایک طرف آپ کو تہدید کر رہا ہے تو دوسری طرف حفظ جان کا وعدہ کر رہا ہے؟

آیت کے الفاظ پر غور و فکر اور تدبّر و تعمق سے تمام سوالات کے جوابات خودبخود حاصل ہوجاتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ غور و فکر کرنے والا تعصب کی عینک اتار کر منصفانہ طور پر کرسی قضاوت پر بیٹھے، کیونکہ:

اولاً: مورد بحث آیت، سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ ہے اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبرؐ گرامی پر نازل ہونے والی یہ آخری سورت ہے جیسا کہ صاحب تفسیر "المنار" نے بیان کیا ہے کہ یہ پورا سورہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ و مدینہ کے درمیان نازل ہوا ہے۔(۱۳۷)

یعنی یہ آیت بعثت کے دسویں سال نازل ہوئی ہے جبکہ پیغمبرؐ اکرم کو تبلیغ رسالت کرتے ہوئے ۲۳ سال گذر رہے تھے۔

سوال: آپ سوچ کر بتائیے کہ ۲۳ سال تبلیغ اور پیغمبر اکرم کی زندگی کا آخری سال شروع ہونے تک وہ کون سی چیز تھی کہ جس کا ابھی تک رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا؟

 کیا یہ اہم مسئلہ ، نماز کے بارے میں تھا حالانکہ مسلمان ۲۰ سال سے نماز پرھ رہے تھے؟

 کیا روزہ کے بارے میں اعلان تھا جبکہ ہجرت کے بعد روزہ واجب ہوگیا تھا اور تقریباًٍٍ مسلمان ۱۳ سال سے روزے رکھ رہے تھے؟

 کیا یہ حکم تشریع جہاد سے متعلق تھا؟ جبکہ مسلمان ہجرت کے دوسرے سال سے جہاد کرتے ہوئے آرہے تھے؟

جواب: انصاف تو یہ ہے کہ پیغمبر ؐ اکرم کو جو حکم دیا گیا تھا مذکورہ بالا امور میں سے کسی سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے! کیونکہ غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آخر پیغمبرؐ اکرم کی ۲۳ سالہ طاقت فرسا زحمت و مشقت کے باوجود وہ کون سا اہم امر تھا جس کا اعلان ابھی باقی تھا؟

ثانیاً: آیۂ مبارکہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ اکرم کی ماموریت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ اسے نبوت کے ہم وزن قرار دیا گیا ہے۔ مختلف علماء و دانشمند حضرات نے جو احتمالات دیئے ہیں یا جنکا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ بھی مبہم ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی امر بھی نبوت و رسالت کے ہم وزن نہیں ہوسکتا لہذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ اہم ترین امر کیا ہے جو رسالت و نبوت کے ہم وزن ہے اور ۲۳ سال میں ابھی تک انجام نہیں پایا تھا؟

ثالثاً: اس ماموریت کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ چند لوگ اس کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ پیغمبرؐ اسلام کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے جبکہ یہی مسلمان نماز، روزے، حج و زکواۃ وغیرہ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے پس یہ کوئی یقیناً سیاسی مسئلہ تھا جس کی اتنی شدت سے مخالفت ہو رہی تھی۔

لہذا تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے اور منصفانہ قضاوت کرنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہم ترین مسئلہ غدیر خم میں پیغمبرؐ اکرم کا حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و جانشینی کا رسمی طور پر اعلان تھا۔

روایات کی روشنی میں تفسیر آیت

( بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ) اس حکم کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس آیہ کریمہ کی صحیح تفسیر و توضیح کیلئے ہمارے پاس یہ طریقہ ہے کہ ہم اس کی شان نزول میں وارد ہونے والی روایات، مفسرین کی آراء ونظریات اور مورخین کے اقوال سے مدد لیں۔

صدر اسلام کے بہت سے محدثین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت حضرت علی ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے مثلاً:

۱ ۔ ابن عباس ۲ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری ۳ ۔ ابو سعید خدری ۴ ۔ عبد اللہ بن مسعود ۵ ۔ ابو ہریرہ ۶ ۔ خذیفہ ۷ ۔ براء بن عازب کے علاوہ دیگر اصحاب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ ولایت علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

مفسرین اہل سنت میں بھی بہت سے افراد کا یہ ہی نظریہ ہے کہ یہ آیت، ولایت علی ؑ ابن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مثلاً سیوطی اپنی تفسیر "در المنثور" میں، ابو الحسن واحدی نیشاپوری "اسباب نزول" میں، سید رشید رضا اپنی تفسیر "المنار" میں، فخر رازی اپنی تفسیر "التفسیر الکبیر" میں اور دیگر مفسرین نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہم قارئین کی سہولت کیلئے اور ان کے جذبہ جستجو کو مدّنظر رکھتے ہوئے فقط فخر رازی کے کلام کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں تفصیلات کیلئے مندرجہ بالا کتب و تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔

فخر رازی اہل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں ان کی جامع و مشروح تفسیر موجود ہے اور اس آیت کے بارے میں انہوں نے دس احتمال پیش کئے ہیں اور ولایت علی ابن ابی طالب ؑ کو دسویں احتمال کے طور پر پیش کیا ہے۔

متن کلام فخر رازی

نزلت الآیة فی فضل علی بن ابی طالب و لما نزلت هذه الآیة اَخذ بیده و قال: من کنت مولاه فعلی مولاه اللّهم وال من والاه و عاد من عاداه، فلقیه عمر فقال: هنیئاً لک یابن ابی طالب! اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنة ۔۔۔(۱۳۸)

یہ آیت (حضرت) علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا "جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں۔ پس اے پروردگار جو علی بن ابی طالب کو قبول کرے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو تو بھی اسے دشمن رکھ۔ اس کے بعد حضرت عمر کھڑے ہوئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس آکر کہنے لگے مبارک ہو اے علی ابن ابی طالب ؑ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے رہبر و پیشوا مقرر ہوگئے۔

حاکم جسکانی نے بھی اپنی بے نظیر کتاب "شواہد التنزیل" میں زیاد بن منذر" سے روایت نقل کی ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ آیت ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔(۱۳۹)

ابلاغ پیام سے پیغمبرؐکو خطرہ

آیت کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کو جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا اس سے پیغمبرؐ کو شدید خطرہ لاحق تھا اگرچہ اسلام سارے مراحل سے گذر چکا تھا اور خیبر و خندق کے معرکے سر ہوچکے تھے۔

ظاہر ہے یہ خطرہ پیغمبرؐ اکرم کی حیات کیلئے نہیں تھا اور نہ آپ کو اس امر کی پرواہ تھی کہ اس کی خاطر تبلیغ حکم میں تاخیر فرماتے بلکہ آپ دین اسلام کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے چکے تھے اور اب بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار تھے ہاں خطرہ اس بدنامی کا تھا کہ لوگ خاندان پرستی کا الزام لگا کر دین سے منحرف ہوجائیں گے اور سالہا سال کی محنت و زحمت خطرہ میں پڑ جائے گی۔

جیسا کہ جب حضورؐ اکرم نے ولایت علی ؑ کا اعلان کیا تو اسی صحرائے غدیر میں ایک حارث ابن نعمان فہری نے اعتراض کر دیا اور کہنے لگا۔

"اگر جو کچھ آپ نے اس وقت بیان کیا ہے خدا کی طرف سے ہے تو پھر خدا سے دعا کیجئے کہ مجھ پر عذاب نازل کرے اور مجھے نابود کردے!" اور پھر بعد میں ایسا ہی ہوا۔

لیکن پروردگار عالم نے وعدہ کیا اور حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرمایا:

( وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔(۱۴۰)

علماء اسلام نے اس حکم کے بارے میں بہت سی تاویلیں تلاش کی ہیں لیکن بالآخر یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ؐ اسلام نے حضرت علی ؑ کو میدان غدیر خم میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی ؑ بھی مولا ہے جیسا کہ فخر رازی نے بھی اسے دسویں قول کے طور پر ذکر کیا ہے۔

شُبہات ، اعتراضات و اشکالات

٭ یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی:

محترم قارئیں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کر دینا مناسب ہے کہ بعض لوگوں نے آیت کے معنی و مفہوم میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے ایک شبہ ایجاد کیا ہے تاکہ عام لوگ اصل معنی و مطالب کی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکم تبلیغ خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کی مکی آیت ہے لہذا اس کا واقعہ غدیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو محسوس کرسکتے ہیں کہ آیت کے ذیل میں( فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) کا لہجہ دلیل ہے کہ آیت ، تبلیغ رسالت کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس کا ابتداءِ تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ اشکال ابن تیمیہ نے وارد کیا ہے اس کا کہنا ہے: اہل علم حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں مدینہ میں حجۃ الوداع سے کئی سال پہلے نازل ہوئی ہے (اگرچہ یہ سورۂ مائدہ میں موجود ہے)۔

اس لیئے کہ یہ آیت، رجم یا یہودیوں سے قصاص کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور یہ دونوں واقعات اوائل ہجرت میں فتح مکہ سے پہلے واقع ہوئے تھے۔(۱۴۱)

ابن تیمیہ کے اس قول میں شدید ضعف پایا جاتا ہے اور کوئی اس کا حامی نہیں سوائے فخر رازی و عینی کے کہ انہوں نے بعض لوگوں کی طرف اس کی نسبت دی ہے اور بطور قول "قیل" یعنی قول ضعیف کہا ہے۔

صحابہ و تابعین میں بھی کوئی اس نظریہ کا حامی نظر نہیں آتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ کے دعویٰ کی حمایت نظر آئے کہ اہل علم حضرات متفق ہیں۔ بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حتی ایک فرد بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ یہ آیت اوائل ہجرت میں نازل ہوئی ہے بلکہ تاریخ و تفاسیر سے یہ بات ثابت ہے کہ علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہ آیت آخر نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔(۱۴۲)

٭ احادیث جعلی ہیں

آیہ تبلیغ کے سلسلہ میں ولایت علی ؑ سے متعلق وارد ہونے والی احادیث کی اسناد کے بارے میں بعض اہل سنت نے چند ایک اسناد کے ضعیف ہونے کے بارے میں تو اظہار خیال کیا ہے جیسا کہ محقق کتاب "اسباب النزول واحدی نے ابو سعید خدری سے نقل ہونے والی حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے(۱۴۳) لیکن کسی نے بھی ان کے جعلی یا جھوٹے ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ نے تعصب سے کام لیتے ہوئے ان احادیث کو جعلی و وضعی کہا ہے۔

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ علمائے حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو نعیم کی کتاب "حلیۃ الاولیاء"، ثعلبی کی "فضائل خلفاء" اور واحدی کی تفسیر "نقاش" میں جھوٹی اور جعلی احادیث ہیں۔(۱۴۴)

جہاں تک احادیث کے ضعیٖف ہونے کا تعلق ہے تو کثرت اسانید اور ان کے مضامین کا آیہ تبلیغ سے ہم آہنگ ہونا اس قسم کے الزامات کو دور کر دیتا ہے اور روایات کی اسناد کے ضعیف ہونے کے احتمال کا بھی ازالہ و تدارک کر دیتا ہے۔

ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے کہ یہ احادیث صرف ابو نعیم اور ثعلبی نے نقل کی ہیں، حالانکہ اہل سنت کے بہت سے معتبر محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

ابن تیمیہ جب ابو حاتم کو صحیح و جعلی احادیث کی شناخت کے سلسلہ میں مرجع تسلیم کرتے ہیں تو ابو حاتم کے فرزند نے اس آیۂ کریمہ کی شان نزول کے لیے کہا ہے کہ یہ حضرت علی ؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے والد کے ذریعہ ابو سعید خدری صحابی پیغمبرؐ سے روایت نقل کی ہے۔ پس ایسی صورت میں ابن تیمیہ کس طرح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابو حاتم اس قسم کی جعلی احادیث کو ہرگز نقل نہیں کرتے۔ اور کس طرح یہ حکم عائد کر رہے ہیں کہ "اس قسم کی احادیث کا کذب و جھوٹ، احادیث سے کمترین آگاہی رکھنے والے سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ ابن ابی حاتم کی سند حدیث میں تمام رجال، موثق یا صدوق مانے گئے ہیں۔

ابن تیمیہ نے ابو نعیم و ثعلبی اوردیگر افراد کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو احادیث نقل کی ہیں انہیں ان کے صحیح السند ہونے کا یقین نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ضعیف ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ کا یہ دعویٰ بہتان کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے دعوی کے اثبات میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے لہذا انہیں اس بہتان کا جواب دینا چاہیے۔

٭ انکار اعلان ولایت علی (علیہ السلام)

اہل سنت کے مطابق واقعہ غدیر اور پیغمبرؐ اکرم کی جانب سے اعلان ولایت علی ؑ (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) میں کوئی شک و شبھہ اور تردید نہیں پائی جاتی بلکہ یہ واقعہ قطعی ہے۔ صرف ذہبی نے ابن جریر طبری کی شرح حال میں فرغانی سے نقل کیا ہے:

جب ابن جریر طبری کو یہ خبر ملی کہ ابن ابی داؤد حدیث غدیر خم کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک کتاب فضائل ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے صحیح ہونے کے بارے میں روایات جمع کی ہیں۔(۱۴۵)

یاقوت حموی بھی کہتے ہیں:

بغداد کے بعض علماء، حدیث غدیر کا انکار اور تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: علی ابن ابی طالب اس وقت یمن میں تھے ۔۔۔ جب یہ خبر ابن جریر طبری کو ملی تو انہوں نے اس دعویٰ کی رد میں ایک کتاب فضائل علی بن ابی طالب ترتیب دی اور اس میں حدیث غدیر کے مختلف طرق بھی بیان کیئے۔(۱۴۶)

ابو العباس ابن عقد نے بھی ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں حدیث غدیر کے طرق بیان کیئے ہیں۔(۱۴۷)

پس ان تمام شواہد کے بعد اعلان ولایت علی بن ابی طالب (من کنت مولاه فعلی مولاه ) کی صداقت کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبھہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

٭ انکار دعاءِ "اللهم وال من والاه "

واقعہ غدیر میں اعلان ولایت علی ابن ابی طالب ؑ کے بعد بہت سی کتب میں پیغمبرؐ اسلام کے دعائیہ کلمات ملتے ہیں، جس میں آپ ؐ نے فرمایا:"اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله " لیکن اس کے باوجود ابن تیمیہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

"بیشک حدیث کا یہ حصہ علماء حدیث کی اتفاق نظر سے جھوٹ ہے اس لئے کہ پیغمبرؐ اکرم کی دعا لازمی طور پر مستجاب ہوتی ہے لیکن یہ دعا مستجاب نہ ہوئی لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعاءِ پیغمبرؐ اسلام نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے سابقین نے زمانہ خلافت علی ؑ میں ان کی مدد نہیں کی بلکہ ان سے برسر پیکار ہوئے اور ان کے بارے میں صحیحین میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات ہرگز دوزخ میں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ صلح حدیبیہ کے اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ انہیں علی (علیہ السلام) سے جنگ کے بعد کسی قسم کی ذلت و خواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے بعد انہوں نے کفار سے جنگ کی تو خدا نے ان کی مدد کرتے ہوئے انہیں فتحیاب کیا پس صفِ علی میں آنے والوں کے لیئے نصرت خدا کہاں ہے؟!(۱۴۸)

ابن تیمیہ کے یہ دعوے قرآن کریم کے معیار و موازین اور حدیث شناس علماء کے نظریہ کے برخلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہیں کیونکہ:

اولاً: جن احادیث میں "من کنت مولاه فعلی مولاه " کے بعد "اللهم وال من والاه ۔۔۔" آیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اہل سنت کے بزرگ و معتبر حدیث شناس علماء کی نظر میں صحیح السند ہیں جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے "یہ حدیث، شیخین، (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔(۱۴۹)

ان کے علاوہ ذہبی، ابن کثیر ، احمد بن حنبل وغیرہ نے بھی اسے بطور صحیح قبول کیا ہے۔

ان شواہد کے بعد ابن تیمیہ کو کیسے یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ کہنے لگے کہ حدیث شناس علماء کا اس حدیث کے جعلی و کذب ہونے پر اتفاق نظر ہے؟!

ثانیاً: مارقین و ناکثین سے حضرت علی علیہ السلام کی جنگیں تاویل قرآن پر تھیں اور اس کے بارے میں حضورؐ سرورکائنات پہلے سے پیش گوئی فرما چکے تھے:اِنّ منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیله ؛ تم میں ایک وہ ہے جو تاویل قرآن کے لیے جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس تنزیل قرآن کے لیے جنگ کی ہے۔ اہل سنت کے مطابق یہ حدیث صحیح السند ہے اور اس کے طرق و مصادر بھی متعدد ہیں۔(۱۵۰)

ثالثاً: جو تاویل قرآن کی خاطر جنگ کرے قطعی طورپر نصرت الٰہی اس کے شامل حال رہے گی یہاں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نصرت الٰہی سے کیا مراد ہے اگر اس سے مراد ہر میدان میں حق والوں کی ظاہری کامیابی و فتح اور باطل کی شکست و ناکامی ہوجیساکہ ابن تیمیہ نے گمان کیا ہے، تو پھر انبیاء و مومنین کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جن کی کامیابی و کامرانی اور ان کی مدد کا خدانے وعدہ کیا ہے لیکن ایسا واقع نہ ہوا۔ پروردگار عالم فرماتا ہے:( انَّا لننصر رُسُلَنا و الذین آمنوا فی الحیوة الدنیا و یَوم یقوم الا شهادُ ) "بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے(۱۵۱) ۔ یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا(۱۵۲) ۔

بہت سے انبیاءومومنین اس دنیا میں قتل ہوئے اور عدل و انصاف قائم نہ کرسکے خصوصاً جبکہ ان کے یاور و انصار نے ان کی نافرمانی کی یا اطاعت میں کوتاہی برتی جیسا کہ حضورؐ کے زمانے میں جنگ احد کے موقع پر اور حضرت علی ؑ کے زمانے میں جنگ صفین کے موقع پر نافرمانی اورکوتاہی پر اتر آئے تھے بنابرایں انبیاء و مومنین کی نصرت کا وعدہ ان شرائط سے مشروط ہے جبکہ یہ فراہم ہوں۔

رابعاًٍ: وہ حدیث (گرچہ صحیح السند ہو) جو آیات قرآن کے مخالف ہو، فاقد اعتبار ہوتی ہے بنابریں ابن تیمیہ نے جو اصحاب شجرہ کے بارے میں حدیث نقل کی ہے وہ فاقد اعتبار اور مردود ہے۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے بعض لوگوں کے لیے الگ حساب کتاب رکھا ہے اور ان کی فتنہ انگیزیوں، خون خرابہ اور خطاؤں کو نادیدہ لیا ہے حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں معیار نجات کی وضاحت کی گئی ہے بنابریں اگرچہ یہ روایت وارد ہوئی ہیں تو ان کی تاویل کرنا پڑے گی کیونکہ یہ تعلیمات قرآن کے برخلاف وارد ہوئی ہیں۔

پروردگار عالم نے اصحاب بیعت رضوان کے بارے میں اپنی رضایت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ۔۔۔) (۱۵۳) یقیناً خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔

یہ رضایت و خوشنودی اس صورت میں باقی رہنے والی ہے جبکہ یہ لوگ اپنی بیعت پر باقی رہیں لیکن اگر بیعت توڑ ڈالتےہیں تو پھر خوشنودی پروردگار بھی حاصل نہیں ہوسکتی بہشت کا تو سوال ہی کیا ہے!

جبکہ صحیحین میں وارد ہونے والی بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ حضورؐ کی وفات کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے لہذا وہ دوزخی ہیں۔(۱۵۴)

اب آپ بتائیے کیا ان روایات سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟!

غور کیجئے، فکر کیجئے اور خوب سوچئے !!!