خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات0%

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ابو مھدی قزوینی
زمرہ جات: مشاہدے: 8841
ڈاؤنلوڈ: 2240

تبصرے:

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8841 / ڈاؤنلوڈ: 2240
سائز سائز سائز
خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

خلافت و امامت کے بارے میں سوالات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خطبۂ غدیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے۔ وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے۔ وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ہمیشہ سے بزرک ہے اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا۔ بلندیوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، بے نیاز، پاکیزہ صفات، ملائکہ اور روح کا پروردگار تمام مخلوقات پر فضل و کرم کرنے والا اور تمام ایجادات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگرچہ کوئی آنکھ اُسے نہیں دیکھتی، وہ صاحب علم و کرم ہے، اس کی رحمت ہر شے کے لیے وسیع اور اس کی نعمت کا احسان ہر شے پر قائم ہے۔ انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقیقن عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، مخفی امور اس پر مشتہس نہیں ہوتے، وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے، اس کی قوت ہر شے میں اور اس کی قدرت ہر چیز پر ہے، وہ بے مثل ہے اور شے کو شے بنانے والا ہے، ہمیشہ رہنے والا، انصاف کرنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ عزیز و حکیم ہے، نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی۔ کوئی شخص اس کے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اس کے ظاہر و باطن کا ادراک نہیں کرسکتا۔ مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے، میں گواہی دیتا دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکیزگی زمانہ پر محیط اور جس کا نور ابدی ہے۔ اس کا حکم نافذ ہے۔ نہ اس کا کوئی مشیر ہے نہ وزیر۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی تدابیر میں کوئی فرق ہے، جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر و نظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا۔ وہ خدا ہے لاشریک ہے جس کی صفت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے۔

وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اس کے قدرت کے سامنے متواضع اور ہر چیز اس کی ہبیت کے سامنے خاضع ہے وہ تمام ملکوں کا مالک، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، ہر ایک کو معین مدت کے لیے چلانے والا، دن کو رات اور رات کو دن پر حاوی کرنے والا، ظالموں کی کمر توڑنے والا، شیطانوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ نہ اس کا کوئی ضد ہے نہ مثل۔ وہ یکتا ہے بے نیاز ہے، اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے پورا کر دیتا ہے۔ جاننے والا، خیر کا احصاء کرنے والا ، موت و حیات کا مالک، فقر و غنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا ، رلانے والا، قریب کرنے والا، دو رہٹانے والا، عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے۔ ملک اسی کے اختیار میں ہے اور حمد اسی کے لیے زیبا ہے اور اسی کے قبضہ میں ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔ اس عزیز و غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، عطاؤں کو بکثرت دینے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے، اس کے لیے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسے گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال کرتا نہیں ہے۔ نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا اور عالمین کا مولا و حاکم ہے۔ اس کا حق ہر مخلوق پر یہ ہے کہ راحت و تکلیف اور نرم و گرم میں اس کی حمدو ثناء کرے اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرے۔ میں اس پر اور اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اس کے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، اس کی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اس کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں اس لیے کہ اس کی اطاعت میرا فرض ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بنا پر کہ نہ کوئی اس کی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے ظلم کا خطرہ ہے میں اپنے لیے بندگی اور اس کے لیے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور اس کے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اس خدائے وحدہ لاشریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے حفاظت کی ضمانت لی ہے۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ، اے رسول جو حکم تمہاری طرف علی ؑ کے بارے میں نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جبرئیل بار بار میرے پاس یہ حکم پروردگار لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی ؑ بن ابی طالب میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزل میرے لیے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس کا اعلان خدا نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

علی ؑ ابن ابی طالب نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوۃ دی ہے، وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ یہ گذارش کی کہ اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لیے کہ متقین کی قلت ہے اور منافقین کی کثرت، فساد کرنے والے، بدعمل اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاری کا بھی خطرہ ہے، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے: "یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو اِن کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پیش پروردگار بہت بڑی بات ہے"۔ ان لوگوں نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ مجھے "کاہن" کہنےلگے ہیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں اسی لیے خدا نے آیت نازل کی کہ "کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو فقط کاہن ہیں، تو پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر ایسا ہے تو تمہارے حق میں یہی خیر ہے، ورنہ میں چاہوں تو ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں اور اس کی طرف اشارہ بھی کرسکتا ہوں اور لوگوں کے لیے نشان دہی بھی کرسکتا ہوں۔ لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کر دوں۔ لہذا لوگو! ہوشیار رہو کہ اللہ نے علی ؑ کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ، انصار اور ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی ، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے۔ ہر توحید پرست کے لیے ان کا حکم جاری، ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے، ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

ایھا الناس! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمہارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدؐ تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی ؑ تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے۔ اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تا روزِ قیامت باقی رہے گی۔

حلال وہ ہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ یہ سب اللہ نے مجھے بتایا تھا اور میں نے سارے علم کو علی ؑ کے حوالہ کردیا۔

ایھا الناس! کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علی ؑ کے حوالہ کردیا ہے۔ یہ امام المتقین ؑ بھی ہے اور امام المبین بھی ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہوجانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے باطل کو فنا کردینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں۔ انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوئی۔ وہ سب سے پہلے اللہ و رسولؐ پر ایمان لائے اور اپنے جی جان سے رسولؐ پر قربان تھے ہمیشہ خدا کے رسولؐ کے ساتھ رہے جب کہ رسولؐ کے علاوہ کوئی عبادتِ خدا کرنے والا نہ تھا۔ ایھا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔ ایھا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں، اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے، بلکہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اس امر پر مخالفت کرنے والے پر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدترین عذاب نازل کر دے۔ لہذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہوجاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لیے مہیار کیا گیا ہے۔

ایھا الناس! خدا گواہ ہے کہ سابق کے تمام انبیاء و مرسلین کو میری بشارت دی گئی ہے اور میں خاتم الانبیاء و المرسلین اور زمین و آسمان کے تمام مخلوقات کے لیے حجت پروردگار ہوں۔ جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ جاہلیت جیسا کافر ہو جائےگا۔ اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا اور اس کا انجام جہنم ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ تا ابد اور ہر حال میں میری حمد کا حق دار ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و برتر ہے۔ اللہ نے ہمارے ہی ذریعہ رزق کو نازل کیا ہے اور مخلوقات کو باقی رکھا ہے۔ جو میری اس بات کو رد کردے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی ؑ سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قدم راہ حق سے پھسل جائیں اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ وہ جنب اللہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ ظالمین افسوس کریں گے کہ انہوں نے جنب اللہ کے بارے میں کوتاہی کی ہے۔

ایھا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات کو نگاہ میں رکھو اور متَشابہات کے پیچھے نہ پڑو۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے احکام اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ کوئی واضح نہ کرسکے گا۔ جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں ، میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی ؑ مولا ہے۔ یہ علی ؑ بن ابی طالب میرا بھائی ہے اور وصی بھی۔ اس کی محبت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! علی ؑ اور میری اولاد طیبین ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان میں ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوں۔ یہ میری اولاد مخلوقات میں احکام خدا کے امین اور زمین میں ملک خدا کے حکام ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ میں نے تبلیغ کردی میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی۔ میں نے حق کو واضح کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پھر آگاہ ہوجاؤ کہ امیر المومنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔

(اس کے بعد علی ؑ کو اپنے ہاتھوں پر اتنا بلند کیا کہ ان کے قدم رسولؐ کے گھٹنوں کے برابر ہوگئے۔ اور فرمایا)

ایھا الناس! یہ علی ؑ میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اور امت پر میرا خلیفہ ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا، اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا، اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے روکنے والا، اس کے رسولؐ کا جانشین اور مومنین کا امیر، امام اور ہادی ہے اور بیعت شکن، ظالم اور خارجی افراد ے جہاد کرنے والا ہے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ حکم خدا سے کہہ رہا ہوں میری کوئی بات بدل نہیں سکتی ہے۔ خدایا! علی ؑ کے دوست کو دوست رکھنا اور علی ؑ کے دشمن کو دشمن قرار دینا، ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔ پروردگار! تو نے یہ وحی کی تھی کہ امامت علی ؑ کے لیے ہے اور تیرے حکم سے میں نے انہیں مقرر کیا ہے۔ جس کے بعد تو نے دین کو کامل کردیا، نعمت کو تمام کردیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دے دیا اور یہ اعلان کردیا جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہوگا۔ پروردگار! میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔

ایھا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علی ؑ کی امامت سے کی ہے لہذا جو علی ؑ اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ ان پر نگاہ رحمت کی جائے گی۔

ایھا الناس! یہ علی ؑ ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، مجھ سے قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے۔ اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں۔ قرآن مجید میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے بارے میں ہے اور جہاں بھی یا ایھا الذین امنو کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے۔ ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے، ہل اتیٰ میں جنت کی شہادت اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علاوہ کسی غیر کی مدح میں نہیں نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! یہ دین خدا کا مددگار، رسولؐ خدا سے دفاع کرنے والا، متقی، پاکیزہ صفت، ہادی اور مہدی ہے۔ تمہارا نبی بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں۔

ایھا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے اور میری ذریت علی ؑ کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! ابلیس آدمؑ کے مسئلہ میں حسد کا شکار ہوا۔ لہذا خبردار! تم علی ؑ سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہارے قدموں میں لغزش پیدا ہو جائے۔ آدم صفی اللہ ہونے کے باوجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دیئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے۔ تم میں تودشمنان خدا بھی پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھو علی ؑ کا دشمن صرف شقی ہوگا اور علی ؑ کا دوست صرف تقی ہوگا۔ اس پر ایمان رکھنے والا صرف مومن ہی ہوسکتا ہے اور انہیں کے بارے میں سورہ عصر نازل ہوا ہے۔

ایھا الناس! میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہوجاؤ۔

ایھا الناس! اللہ، اس کے رسولؐ اور اس نور پر ایمان لاؤ جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا اچھے چہروں کو بگاڑ دے اور انہیں پشت کی طرف پھیر دے۔

ایھا الناس!نور کی پہلی منزل میں ہوں۔ میرے بعد علی ؑ اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ مہدی قائم تک برقرار رہے گا جو اللہ کا حق اور ہمارا حق حاصل کرے گا! اس لیے کہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین، معاندین، مخالفین، خائنین، آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔

ایھا الناس! میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے لیے اللہ کا نمائندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ تو کیا میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں تو تم اپنے پرانے دین پر پلٹ جاؤ گے؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اللہ کا نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ علی ؑ کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے جو ان کے صلب سے ہے۔

ایھا الناس! اللہ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کہ وہ تم سے ناراض ہوجائے اور تم پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوجائے کہ وہ مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے۔

ایھا الناس! عنقریب میرے بعد ایسے راہنما پیدا ہوں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے۔ اور قیامت میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بری اور بیزار ہیں۔

ایھا الناس! یہ لوگ اور ان کی اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہذا ان کے صحیفہ پر تمہیں نگاہ رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی قلیل جماعت کے علاوہ سب صحیفہ کی بات بھول چکے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں امامت کو امانت اور قیامت تک کے لیے اپنی اولاد میں وراثت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کردی ہے تاکہ ہر حاضر و غائب ، موجود و غیر موجود، مولود وغیر مولود سب پر حجت تمام ہوجائے۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ یہ پیغام غائب تک پہنچائے اور ہر باپ کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کو اپنی اولاد کے حوالہ کرتا رہے اور عنقریب لوگ اس کو غصبی ملکیت بنالیں گے۔ خدا غاصبین پر لعنت کرے۔ قیامت میں تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور آگ کے شعلے برسائے جائیں گے جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔

ایھا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھوڑے گا جب تک خبیث اور طیّب کو الگ الگ نہ کردے اور اللہ تم کو غیب پر باخبر کرنے والا نہیں ہے۔

ایھا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جسے اللہ اس کی تکذیب کی بناء پر ہلاک نہ کردے وہ اسی طرح ظالم بستیوں کو ہلاک کرتا رہا ہے۔ علی ؑ تمہارے امام اور حاکم ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ صادق الوعد ہے۔

ایھا الناس! تم سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور وہی بعد کے ظالموں کو ہلاک کرنے والا ہے۔

ایھا الناس! اللہ نے امر و نہی کی مجھے ہدایت کی ہے اور میں نے اسے علی ؑ کے حوالہ کردیا ہے وہ امر و نہی الٰہی سے باخبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلامتی پاؤ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔ ان کے روکنے پر رک جاؤ تاکہ راہ راست پر آجاؤ۔ ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستوں پر منتشر نہ ہوجاؤ۔ میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کے اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی ؑ ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو اِن کے صلب سے ہے۔ یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین (سورہ حمد کی تلاوت کرنے کے بعد آپ نے فرمایا) یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے بارے میں نازل ہوا ہے، اس میں اولاد کے لیے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔ یہی میری اولاد وہ الیاء ہیں جن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ کہ دشمنان علی ؑ ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادرانِ شیطان ہیں جن میں ایک دوسرے کی طرف مہمل باتوں کے خفیہ اشارے کرتا رہتا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی مومنین برحق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کااب میں کیا ہے۔ "تم کسی ایسی قوم جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھیں " آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے۔ "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو جنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے تم طیب و طاہر ہو، لہذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے کہ "یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے"۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جو جہنم میں تپائے جائیں گے اور جہنم کی آواز اس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور ہر داخل ہونے والا گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا۔

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں کہ جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے کہ کوئی گروہ داخل جہنم ہوگا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟

آگاہ ہوجاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

ایھا الناس! دیکھو جنت و جہنم میں کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ، اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔

ایھا الناس! آگاہ ہوجاؤ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی ؑ ہادی ہیں۔

ایھا الناس! میں نبی ہوں اور علی ؑ میرے وصی ہیں۔ یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدیؑ ہے۔ وہی ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کا فتح کرنے والا اور ان کا منہدم کرنے والا ہے۔ وہی مشرکین کے ہر گروہ کا قاتل اور اولیاء اللہ کے ہر خون کا انتقام لینے والا ہے، وہی دین خدا کا مددگار اور ولایت کے عمیق سمندر سے سیراب کرنے والا ہے۔ وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشان لگانے والا ہے۔

آگاہ ہوجاؤ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے۔ وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے، وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے، اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے اور اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے، وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔ ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے۔ اس پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حکم اور خفیہ اور اعلانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے۔

ایھا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد علی ؑ تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے اللہ کے ہاتھ اپنا نفس بیچا ہے اور میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ جو اس بیعت کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! یہ حج اور عمرہ، اور یہ صفا و مروہ سب شعائر اللہ ہیں، لہذا حج اور عمرہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔

ایھا الناس! خانۂ خدا کا حج کرو، جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہوجاتے ہیں، اور جو اس سے الگ ہوجاتے ہیں وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔

ایھا الناس! کوئی مومن کسی موقف میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ لہذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

ایھا الناس! حجاج خدا کی طرف سے محل امداد ہیں اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

ایھا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو اور جب وہاں سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گناہ کے ساتھ۔

ایھا الناس! نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو جس طرح کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتاہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی ؑ تمہارے ولی اور تمہارے لیے وہ احکام کے بیان کرنے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد معین کیا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے وہ تمہیں ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جانتے ہو سب بیان کردیں گے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں تمام حلال و حرام کی امر و نہی اس مقام پر یہ کہہ کر بیان کر دیتا ہوں کہ میں تم سے علی ؑ کی بیعت لے لوں اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی ؑ اور ان کے بعد کے آئمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں، تم ان سب کا اقرار کرلو۔

"کہ یہ سب مجھ سے ہیں اور ان میں ایک امت قیام کرنے والی ہے جن میں سے مہدی ؑ بھی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا۔"

ایھا الناس! میں نے جس جس حلال کی رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ لہذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہو اور کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں پھر دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاؤ اور جو لوگ نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو۔ اس لیے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی واقعی امر بالمعروف ہوسکتا ہے اور نہ ہی عن المنکر۔

ایھا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علی ؑ کے بعد امام ان کی اولاد ہے اور میں نے بھی سمجھایا ہے یہ سب میرے اور علی ؑ کے اجزاء ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انہیں اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے۔ اور میں نے بھی کہا کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے۔

ایھا الناس! تقویٰ اختیار کرو تقوی، قیامت سے ڈرو کہ اس کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے۔ موت، حساب، اللہ کے بارگاہ کا محاسبہ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

ایھا الناس! تم اتنے زیادہ ہو کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کرسکتے ہو۔ لہذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبان سے علی ؑ کے امیر المومنین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو اِن کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں، لہذا تم سب مل کر کہو ہم سب آپ کی بات کے سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی ؑ اور اولاد علی ؑ کے بارے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے بیعت کر رہے ہیں، اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے۔ اللہ کی اطاعت کریں گے۔ آپ کی اطاعت کریں گے اور علی ؑ امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ ؑ جو آپ کی ذریت میں ہیں ان کی اطاعت کریں گے۔ جن میں سے حسن ؑ و حسین ؑ کی منزلت کو اور ان کے مرتبہ کو اپنی اور خدا کی بارگاہ میں تمہیں دکھلا دیا ہے اور یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور اپنے باپ علی ؑ کے بعد امام ہیں اور میں علی ؑ سے پہلے ان دونوں کا باپ ہوں۔ اب تم لوگ یہ کہو کہ ہم نے اس بات پر اللہ کی اطاعت کی، آپ کی اطاعت کی اور علی ؑ ، حسنؑ ، حسین ؑ او ائمہ ؑ جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے عہد لیا ہے سب کی دل و جان سے اور دست و زبان سے بیعت کی ہے۔ ہم اس کا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کریں گے۔ اللہ ہمارا گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں اور ہر ظاہر و باطن اور ملائکہ اور بندگان خدا سب اس بات کے گواہ ہیں اور اللہ ہر گواہ سے بڑا گواہ ہے۔

ایھا الناس! اب تم کیا کہتے ہو؟ یاد رکھو کہ اللہ ہر آواز کو جانتا ہے اور ہر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ہے، جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے لیے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔ جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی ہے، اس کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

ایھا الناس! اللہ سے ڈرو ، علی ؑ کے امیر المومنین ہونے اور حسن ؑ و حسین ؑ اور ائمہ ؑ کے کلمۂ باقیہ ہونے کی بیعت کرو۔ جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔

ایھا الناس! جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور علی ؑ کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو اور یہ کہو کہ پروردگار ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ہمیں تیری مغفرت چاہیے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور یہ کہو کہ شکر پروردگار ہے کہ اس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اس کی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔

ایھا الناس! علی ؑ ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ سے ہیں اور اس نے قرآن میں بیان کیا ہے اور اس سے زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کراسکوں۔ لہذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اس کی تصدیق کرو۔ یاد رکھو جو اللہ، رسولؐ، علی ؑ اور ائمہ ؑ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا۔

ایھا الناس ! جو علی ؑ کی بیعت، ان کی محبت اور انہیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے، وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے۔ ایھا الناس! وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پروردگار مومنین و مومنات کی مغفرت فرما اور کافرین پر اپنا غضب نازل فرما۔

والحمد لله رب العالمین

____________________

۱ ۔نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۴۷:ابن ملجم (لعنہ اللہ) جب آپ کو ضربت لگا چکا تو آپؑ نے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ کو وصیت کرتے ہوئے یہ جملہ فرمایا اور اس کا ترجمہ یہ ہے: ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔ میں تم کو اور اپنی تمام اولاد کو اور جن تک میرا یہ نوشتہ پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں لہذا امیر المومنین ؑ نے سب سے پہلے دشمنان اسلام سے جنگ کرکے اور مظلوموں کی مدد فرما کر اپنے اس فرمان کا عملی نمونہ پیش کیا۔

۲ ۔صحیح مسلم،ج ۶، ص ۱۹، کتاب الامارہ، باب الامر بالصبر عند ظلم الولاۃ؛ سنن بیہقی، ج۸، ص ۱۵۸۔

۳ ۔سنن بیہقی، ج۸، ص ۱۵۹؛ المصنف لابن ابی شیبہ، ج۱۷، ص ۷۳۷؛ الدر المنثور، ج۲، ص ۱۷۷؛ کنز العمال، ج۵، ص ۷۷۸۔

۴ ۔مناقب ابن شہر آشوب، ج۳، ص ۲۲۴؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص ۱۹۲۔

۵ ۔شرح صحیح مسلم النواوی، ج۱۲، ص ۲۲۹؛ شرح المقاصد، تفتازانی، ج۲، ص ۷۱؛ المواقف، قاضی الایجی، ج۸، ص ۳۴۹۔

۶ ۔تحریر الوسیلہ، آیت اللہ خمینی، ج۱، ص ۴۵۰۔

۷ ۔مجلہ تراثنا۶، ص ۳۲، مقالہ موقف الشیعہ من ہجمات الخصوم۔

۸ ۔مجلہ میقات، ش ۴۳، ص ۱۹۸، نقل از روزنامہ عکاظ، مورخہ ۸۱۔ ۹۔ ۱۱۔ (۲۰۰۳۔ ۱۲۔ ۲)۔

۹ ۔جریدة الرأی العام الکویتیه بتاریخ ۲۰۰۱۔ ۶۔ ۳۰ یہ نامہ انٹرنیٹ کی مختلف سائٹس پر قرار دیا گیا ہے۔

۱۰ ۔و جاء دور المجوس، ص ۳۵۷۔

۱۱ ۔و جاء دور المجوس، ص ۳۷۴۔

۱۲ ۔اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، ج۳، ص ۱۳۹۲۔

۱۳ ۔المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین، ص ۱۷۸۔

۱۴ ۔المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوبیین، ص ۱۷۸۔

۱۵ ۔مقدمۂ کتاب الشیعۃ الامامیۃ فی میزان الاسلام، ص ۵۔

۱۶ ۔مقدمه کتاب من سبّ الصحابة و معاویه فأمه هاویه، ص ۴

۱۷ ۔مقدمہ اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریہ ، ج۱، ص ۹۔

۱۸ ۔انتصار الحق، ص ۱۱ و ۱۴۔

۱۹ ۔سورہ احزاب، آیت ۲۱۔

۲۰ ۔المناظرات فی الامامۃ، ص ۲۴۶ و ص ۲۵۹؛ قصص العلماء، ص ۳۹۱، مناظرہ شیخ صوق با ملک رکن الدولہ اور مناظرہ مامون با علمائے اہل سنت۔

۲۱ ۔تفسیر قرطبی، ج۱، ص ۲۶۸۔

۲۲ ۔عون المعبود، عظیم آبادی، ج۸، ص ۱۰۶؛ کنز العمال، ج۸، ص ۲۶۸؛ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد، ج۴، ص ۲۰۹؛ الاصابۃ، ج۴، ص ۴۹۵؛ المغنی، ابن قدامۃ، ج۲، ص ۳۰۔

۲۳ ۔التنبیہ و الاشرف، مسعودی، ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۱۶، ۲۱۷، ۲۱۸، ۲۲۱، ۲۲۵، ۲۲۸، ۲۳۱، ۲۳۵؛ تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص ۶۰۔

۲۴ ۔جتنے موارد کی ہم نے نشاندہی کی ہے بتائیے کون سا ایسا موقع تھا کہ جب پیغمبر اکرم (ﷺ) نے کسی کو اپنا جانشین معین نہ کیا ہو یا یہ کہ امت میں سے کسی ایک سے اپنے جانشین کے بارے میں مشورہ لیا ہو؟۔

۲۵ ۔تاریخ مدینہ دمشق ۴۲، ۳۹۲؛ الریاض النضرۃ ۳، ۱۳۸ (ج۲، ص ۱۷۸)؛ ذخائر العقبیٰ، ص ۷۱؛ مناقب خوارزمی، ۴۲، ۸۵۔

۲۶ ۔المعجم الکبیر ۶، ۲۲۱؛ مجمع الزوائد۹، ۱۱۳؛ فتح الباری ۸، ۱۱۴۔

۲۷ ۔سورہ انعام، آیت ۹۰۔

۲۸ ۔سورہ توبہ، آیت ۱۲۸۔ یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر (ص) آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔

۲۹ ۔فجر الاسلام، ۲۲۵۔

۳۰ ۔مقدمۂ ابن خلدون، ۱۸۷۔

۳۱ ۔صحیح مسلم ۶/ ۵ (۳، ۱۸۲۳)، کتاب الامار، باب الاستخلاف او ترکہ؛ مسند احمد۱، ۴۷؛ المصنف: عبد الرزاق۵، ۴۴۸۔

۳۲ ۔الامامۃ و السیاسۃ۱، ۴۲، بتحقیق الشیری اور ۱، ۸۲ بتحقیق الزینی۔

۳۳ ۔تاریخ طبری۴، ۲۲۶؛ الامامۃ و السیاسۃ ۱، ۲۰۶، بتحقیق الشیری اور ۱، ۱۵۹ بتحقیق الزینی۔

۳۴ ۔وقال عبد الله ابن عمر لابیه: لو استخلفت؟ قال: من؟ قال: تجتهد فانک لست لهم برب تجتهد أ رأیت لو انک بعثت اِلیٰ قیّم أرضک ألم تکن تحب أن یستخلف مکانه یرجع اِلیٰ الارض؟ قال: بلیٰ، قال: أ رأیت لو بعثت اِلیٰ راعی غنمک ألم تکن تحب أن یستخلف رجلاً حتی یرجع؟ ۔ طبقات ابن سعد، ج۳، ص ۳۴۲؛ تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۴، ص ۴۳۵۔

۳۵ ۔سورہ مائدہ، آیت ۳۔

۳۶ ۔صحیح مسلم۵، ص ۷۰، اول کتاب الوصیۃ۔

۳۷ ۔سورہ صف، آیت ۲ و ۳۔

۳۸ ۔صحیح بخاری ۳، ص ۱۸۶، کتاب الجہاد ۵، ص ۱۴۴، باب مرض النبی من کتاب؛ المغازی۶، ص ۱۰۸، باب الوصاۃ بکتاب اللہ۔

۳۹ ۔مسند احمد بن حنبل ۴، ص ۳۵۴؛ فتح الباری ۵، ص ۲۶۸؛ تحفة الأحوذی۶، ص ۲۵۷

۴۰ ۔سورہ بقرہ، آت ۴۴۔

۴۱ ۔قال أبوبکر فی اوائل خلافته :اِنَّ بَیعتی کانت فَلتَةً وَقَی اللهُ شرَّها و خشیت الفتنة ۔ شرح نہج البلاغہ، لابن ابی الحدید۶، ۴۷ بتحقیق محمد ابو الفضل؛ انساب الاشراف للبلاذری: ۱، ۵۹۰۔

۴۲ ۔قال ابن الاثیر: أراد بالفلتة الفَجأَةَ، ومثل هذا البیعة جدیرة بأن تکون مهیّجة للشر ۔ النہایہ فی غریب الحدیث۳، ۴۶۷۔

۴۳ ۔شرح نہج البلاغۃ، ابن ابی الحدید۲، ۲۶؛ صحیح بخاری، ج۸، ص ۲۶، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی من الزنا؛ مسند احمد ج۱، ص ۵۵۔

۴۴ ۔النہایۃ فی غریب الحدیث ۳، ۴۶۷۔

۴۵ ۔اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول (ﷺ) کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔سورہ احزاب، آیت ۳۶۔

۴۶ ۔صحیح بخاری۱/ ۳۶، ۲/ ۸۱، ۴/ ۱۴۵، ۷/ ۱۱۸؛قال ابن الجوزی رواه من الصحابه ثمانیة وتسعون نفسا ؛ ابن جوزی کہتے ہیں کہ اس روایت کو ۹۸ صحابہ سے نقل کیا ہے؛ الموضوعات: ۱/ ۵۷؛و قال النووی: قال نعضهم : رواه مائتان من الصحابه ،نواوی کہتے ہیں: یہ روایت ۲۰۰ صحابہ سے نقل کی ہے۔ شرح مسلم للنوی ۱۳ٰ ۶۸۔

۴۷ ۔صحیح بخاری: ۷/ ۹، کتاب المرضی باب قول المریض، قوموا عنّی: ۵/ ۱۳۷؛ کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔و وفاتہ۔ صحیح مسلم فی آخر کتاب الوصیۃ، ج۵/ ۷۶۔

۴۸ ۔سورہ کہف، آیت ۵ (بہت بڑی بات ہے جو ان کے منھ سے نکل رہی ہے)۔

۴۹ ۔عن ابن عباس قال: (یوم الخمیس وما یوم الخمیس) ثم جعل تسیل دموعه حتی رأیت علیٰ خدّیه کانها نظام اللؤلؤ قال: قال رسول الله اِئتونی بالکتف والدواة (او اللوح و الدواة) کتب لکم کتابا لن تضلوا بعدی أبدا فقالوا: ان رسول الله (صلی الله علیه وسلم) یهجرصحیح مسلم، ج۵، ص ۷۶، کتاب الوصیة باب ترک الوصیة لمن لیس عنده شئی؛ صحیح بخاری، ۴، ص ۳۱، کتاب الجہاد و السیر۔

۵۰ ۔سورہ نجم، آیت ۴۔

۵۱ ۔سورہ حشر۵۹، آیت ۷۔

۵۲ ۔سورہ حجرات۴۹، آیت ۲۔

۵۳ ۔سورہ نساء، آیت ۶۵۔

۵۴ ۔صحیح بخاری، ج۷، ص ۹، کتاب المرضی ، باب قول المریض قوموا عنی؛ صحیح مسلم ، ج۵، ص ۷۵ آخر کتاب الوصیۃ۔

۵۵ الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج۲، ص ۲۴۴؛ المعجم الأوسط للطبرانی: ۵/ ۲۸۸؛ مجمع الزوائد للهیثمی الشافعی: ۹/ ۳۴؛ کنز العمال: ۵/ ۶۴۴، ح ۱۴۱۳۳

۵۶ ۔صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ، باب کراہیۃ الخلاف، ج۸، ص ۱۶۱۔

۵۷ ۔صحیح بخاری، ج۷، ص ۹، کتاب المرضی ، باب القول المریض قوموا عنی۔

۵۸ ۔سورہ احزاب، آیت ۵۷؛ یقیناً جو لوگ خدا اور اس کے رسول (ﷺ) کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لیئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

۶۰ صحیح بخاری:۱، ۱۶۲، کتاب الاذان با وجوب صلاة الجماعة، ص ۱۶۵، باب اهل العلم و الفضل أحق بالامامة

۶۱ ۔کما عن احمد بن حنبل بأنّه انما قدّمه من هو أقرألفهم الصحابة من تقدیمه فی الامامة الصغریٰ استحقاقه للامامة الکبریٰ، و تقدیمه فیها علی غیره کشاف القناع للبیهقی، ج۱، ص ۵۷۳؛ المواقف ، ج۸، ص ۳۶۵ ۔

۶۲ ۔لمّا حضرت أبا بکر الصدیق الوفاة عا عثمان بن عفان فأملی علیه عهده، ثم اغمی علی ابی بکر قبل أن یملی أحد فکتب عثمان عمر بن الخطاب فأفاق أبوبکر فقال لعثمان کتبت أحدا؟ فقال ظننتک لما بک و خشیت الفرقه فکتبت عمر ابن خطاب فقال: یرحمک الله، أَما کتبت نفسک لکنت لها أهلَا ۔

کنز العمال، ج۵، ص ۶۸۷؛ تاریخ طبری ۲/ ۳۵۳؛ تاریخ مدینہ دمشق، ابن عسکر، ج۳۹، ۱۸۶ و ج۴۴، ۲۴۸؛ سیرۃ عمر، ابن جوزی، ۳۸؛ تاریخ ابن خلدون: ۲/ ۸۵۔

۶۳ ۔تاریخ طبری: ۲، ۶۱۸۔

۶۴المعجم الاوسط: ۷/ ۳۷۰؛ جامع الصغیر، سیوطی: ۲/ ۴۸۱؛ مجمع الزوائد: ۱/ ۱۵۷؛ ذهبی، سیر أعلام النبلاء: ۴/ ۳۱۱؛ تذکرة الحفاظ: ۱/ ۸۷، عن شعبی و لیس فی سنده موسیٰ بن عبیدة

۶۵ ۔صحیح بخاری ۸/ ۲۶، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی من الزنا۔

۶۶ ۔مارودی، الاحکام السلطانیہ: ۳۳؛ ابو یعلی محمد بن الحسن الفراء، الاحکام السلطانیہ: ۱۱۷۔

۶۷ ۔جامع الاحکام القرآن، ج۱، ۲۷۲۔ ۲۶۹۔

۶۸ ۔الارشاد فی الکلام ۴۲۴، باب فی الاختیار وصفتہ و ذکر ما تنعقد الامامۃ۔

۶۹ ۔المواقف فی علم الکلام: ۸/ ۳۵۱۔

۷۰ ۔شرح سنن ترمذی: ۱۳/ ۲۲۹۔

۷۱ ۔صحیح بخاری، ج۸، ص ۲۶، کتاب المحاربین باب رجم الحبلی من الزانا۔

۷۲ ۔صحیح مسلم، ج۵، ص ۱۵۲، کتاب الجہاد، باب ۱۵، حکم الفی حدیث ۴۹۔

۷۳ ۔عن عمر بن الخطاب انه قال :لصهیب: صلِّ بالناس ثلاثة ایام، و ادخل علیا و عثمان و الزبیر و سعداَ و عبد الرحمن بن عوف و طلحة، ان قدم و اَحضر عبد الله بن عمر، ولا شیء له من الأمر، و قم علیٰ رؤوسهم فان اجتمع خمسة و رضوا رجلاً و ابی واحد، فاشدخ رأسه، او اضرب رأسه بالسیف، و ان اتفق اربعة فرضوا ارجلا و ابی اثنان فاضرب رؤوسهما فان رضی ثلاثة رجلا منهم، و ثلاثة رجلا منهم، فحکموا عبد الله ابن عمر، فأی الغریقین حکم له فلیختا روا رجلا منهم، فان لم یرضوا بحکم عبد الدین عمر فکونوا مع الذین فیم عبد الرحمن بن عوف و اقتلوا الباقین ان رغبوا عما اجتمع علیه الناس ۔ (تاریخ طبری: ۳/ ۲۹۴؛ تاریخ المدینۃ لابن شبۃ النمیری: ۳/ ۹۲۵؛ الکامل لابن الاثیر: ۳/ ۳۵)۔

۷۴ ۔صحیح البخاری: ۴/ ۲۱۰؛ و فی روایة مسلم: "انما فاطمة بضعة منی یؤذینی ما آذاها؛ صحیح مسلم ج۷/ ۱۴۱؛ روی الحاکم عن علی علیه السلام قال: "قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لفاطمة اِنّ الله یغضب لغضبک، و یرضی لرضاک" ثم قال: هذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاه؛ المستدرک: ۳/ ۱۵۳ (لیس فیه ذکر خطبة بنت ابی جهل)؛ مجمع الزوائد: ۹/ ۲۰۳؛ تاریخ مدینه دمشق: ۳/ ۱۵۳؛ أسد الغابة: ۵/ ۵۲۲؛ الاصابة: ۸/ ۲۶۵، ۲۶۶؛ تهذیب التهذیب: ۱۲/ ۳۹۲؛ صحیح بخاری: ۴/ ۲۱۰؛ صحیح مسلم: ۷/ ۱۴۱؛ المصنف لابن ابی شیبه الکوفی: ۷/ ۵۲۶؛ السنن الکبری للنسائی: ۵/ ۹۷، ح ۸۳۷۰؛ المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۲/ ۴۰۴، ۱/ ۱۰۸؛ الجامع الصغیر للسیوطی: ۲/ ۲۰۸

۷۵ ۔صحیح بخاری: ۴/ ۴۲؛ صحیح مسلم: ۵/ ۱۵۴، فیہ:فهجرته فلم تکلّمه حتی توفیت و عاشت بعد رسول الله صلی الله علیه وسلم ستة أشهر فلماتوفیت دفنها زوجها علی ابن ابی ط۷۶الب لیلاً و لم یؤذن بہا ابابکر و صلی علیہا علی۔

۷۶ ۔سورہ احزاب، آیت ۵۷۔

۷۷ ۔فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للمناوی: ۴/ ۵۵۴۔

۷۸ ۔فتح الباری: ۷/ ۸۲؛ شرح المواہب للزرقانی المالکی ۳/ ۲۰۵۔

۷۹ ۔فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی: ۶/ ۲۴، ح ۸۲۷۔

۸۰ ۔السقیفہ و فدک للجوہری ۱۰۴؛ شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید: ۱۶/ ۲۱۵؛ دلائل الامامۃ للطبری ۱۲۳۔

۸۱(قال ابن ابی الحدید: قلت: قرأت هذا الکلام علی النقیب ابی یحیی جعفر ابن یحیی ابن ابی زید البصری و قلت له: من یعرض؟ فقال: بل یصرّح قلت: لو صرح لم أسالک فضحک و قال: بعلی بن ابی طالب علیه السلام، قلت هذا الکلام کلّه لعلی یقوله ؟!قال: نعم، انّه الملک یا بنیّ قلت: فما مقالة الانصار؟ قال: هتفوا بذکر علی، فکاف من اصطراب الامر علیهم، فنها هم و ثعالة: اسم الثعلب علم غیر مصروف، و مثل زؤاله للذئب، و شهیده ذنبه، ای لا شاهد له علی ما یدّعی الا بعضه و جزء منه، و اصله مثل قالوا: ان الثعب اراد ان یغری الاسد بالذئب، فقال :انه قد اکَل الشاة التی کنت قد اعدد تها لنفسک، و کنت حاضراً، قال فیمن یشهد لک بذالک؟ فرفع ذنبه و علیه دم، و کان الاسد قد فتقد الشاة، فقبل شهادة و قتل الذئب و امّ طحال امرأة بغی فی الجاهلیة، و یضرب بها المثل فیقال: أزنی من أمّ طحال ، شرح نہج البلاغہ: ۱۶/ ۲۱۵۔

۸۲ ۔جو بغیر امام کے مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ مسند احمد: ج۴/ ۹۶؛ المعجم الکبیر للطبرانی: ج۱۹/ ۳۸۸؛ مجمع الزوائد الہیثمی، ج۵/ ۲۱۸؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۹/ ۱۵۵؛ انہوں نے کہا ہے: (اصحابنا کافة قائلون بصحة هذه القضیة

۸۳ ۔صحیح بخاری: ج۸/ ۱۰۵، کتاب الاحکام باب السمع و الطائۃ الامام۔

۸۴ ۔صحیح مسلم: ۶/ ۲۱،کتاب الأمارة باب الأمر بلزوم الجماعة ۔

۸۵ ۔فی صحیح البخاری: قال رسول الله یا فاطمة الا ترضین ان تکونی سیدة نساء المومنین او سیدة نساء هذه الامة صحیح بخاری: ۷/ ۱۴۲، کتاب بدء الخلق باب علامات النبوة، کتاب الاتسئذان، باب من ناجی بین یدی الناس، صحیح مسلم، ج۷/ ۱۴۳، کتاب فضائل الصحابہ، باب (۱۵) باب من فضائل فاطمۃ بنت النبی (ﷺ) ح: ۹۹ اور اس طرح یہ بھی وارد ہوا: فاطمۃ سیدۃ نساء اہل الجنۃ۔ صحیح بخاری: ۴/ ۲۰۹، ۲۱۹۔

۸۶ ۔سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴۔

۸۷ ۔سورہ ص، آیت ۲۶۔

۸۸ ۔سورہ طہ، آیت ۲۹، ۳۶۔

۸۹ ۔سورہ طہ، آیت ۲۹، ۳۶۔

۹۰ ۔سورہ سجدہ، آیت ۲۴۔

۹۱ ۔الثقات لابن حبان: ۱/ ۸۹؛ البدایۃو النہایۃ لابن کثیر، ج۳/ ۱۷۱۔

۹۲ ۔مع المصطفی للدکتورۃ بنت الشاطی، ۱۶۱؛ سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص ۲۸۹؛ السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج۲، ص ۱۵۷۔

۹۳ ۔طبقات ابن سعد:۱/ ۲۶۲؛ نصب الرایۃ لزیعلی: ۶/ ۵۶۷۔

۹۴ ۔صحیح بخاری: ۸/ ۷۸، اول کتاب الفتن؛ صحیح مسلم، ج۶، ص ۲۱،کتاب الامارة، باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن ۔

۹۵ ۔مسند احمد:: ۵/ ۱۸۰؛ سنن ابی داؤد: ۲/ ۴۲۶؛ سنن الترمذی: ۴/ ۲۲۶؛ المستدرک: ۱/ ۱۱۷، انہوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور اسے حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے۔ ج۱/ ۷۷ اور کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرائط حدیث کے مطابق صحیح ہے۔ اور ۱/ ۱۱۷، پر یہ کہا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر سے بھی شرائط شیخین کے تحت بھی یہی متن، صحیح اسناد سے نقل کیا گیا ہے۔ و ہکذا فی ۱/ ۴۲۲ و قال ہذ احدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ فی مجمع الزوائد: ۵/ ۲۱۷ قائلاً: راوہ احمد و رجالہ ثقات رجال الصحیح خلاف علی ابن اسحاق اسلمی وہو ثقۃ۔

۹۶ ۔المعجم الکبیر: ۳/ ۳۰۲؛ مجمع الزوائد: ۵/ ۲۱۷۔

۹۷ ۔مستدرک الحاکم: ۱/ ۱۱۸؛ المعجم الکبیر لطبرانی: ۶/ ۵۳؛ الدر المنثور: ۵/ ۱۱۳؛ کنز العمال: ۱/ ۲۰۸، ح ۱۰۳۹۔

۹۸ ۔صحیح مسلم: ۶/ ۲۳،کتاب اماتة، باب اذا بویع لخلیفتین، روی الطبرانی عن ابی هریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم "اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الأحدث منهما "؛ المعجم الاوسط: ۳/ ۱۴۴،قال القرطبی: و اذا بویع لخلیفتین فالخلیفة الأول، و قتل الأخر ، تفسیر القرطبی: ۱/ ۲۷۲۔

۹۹ ۔صحیح البخاری: ۳/ ۲۰۷، کتاب الجہاد باب مسح الغبار عن الناس فی السبیل؛ صحیح مسلم: ۸/ ۱۸۶،کتاب الفتن باب لا تقوم الساعة حتی یمرا لرجل بقبر الرجل، من دون جملة "یدعوهم الی النار..." قد صرّح بتواتره؛ الذہبی فی سیر اعلام النبلاء: ۱/ ۴۲۱۔

۱۰۰ ۔المستدرک: ۳/ ۳۸۷،ثم قال: صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه و هکذا صححه الذهبی فی هامشه ۔

۱۰۱ ۔احقاق الحق: ۸/ ۴۴۸، عن نور الابصار للشبلنجی، ۹۰؛ خلاصۃ ابقات الانوار: ۳/ ۵۹؛نفحات الأزهار ، ص ۳/ ۵۴۔ (جب عمرو نے جنگ سے دوری اختیار کی تو معاویہ نے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو۔ تو عمرو نے جواب دیا کہ ہم نے اس شخص کو قتل کیا ہے جس کے بارے میں ، میں نے خود پیغمبر ﷺ سے سنا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اس (عمار) کو ایک دین سے باغی گروہ قتل کرے گا۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم باغی گروہ ہیں)۔

۱۰۲ ۔مسند احمد: ۴/ ۱۹۹؛ مجمع الزوائد: ۷/ ۲۴۲، ثم قال: رواہ احمد و ہو ثقۃ؛ المستدرک: ۲/ ۱۵۵، قائلاً ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ بہذہ السیاقہ۔

۱۰۳ ۔المعیار و الموازنۃ ۹۷؛ وقعۃ صفین ۳۴۳؛ النصائح الکافیہ ۳۹؛ صحیح شرح العقیدۃ الطحاویہ لحسن بن علی السقاف ۶۴۲۔

۱۰۴ ۔و حکم بن حزم باَنّ الصحابة کلهم من اهل الجنة قطعاً ۔ الاصابۃ:۱/ ۱۹۔

۱۰۵ ۔و قال ابن الاثیر: کُلُّهم عَدول لَا یَتَطَرَّقُ اِلَیهم الجَرۡح ۔أسد الغابة : ۱/ ۳۔

۱۰۶ ۔ذالک ان الرسول صلی الله علیه وسلم عندنا حق و القرآن حق و انما أدی الینا هذا القرآن و السنن اصحابه رسول الله صلی الله علیه وسلم و انما یریدون ان یجرحوا شهودنا لیبطلوا الکتاب و السنة و الجرح بهم اولی وهم زنادقة (الکفایۃ فی علم الروایۃ: ۶۷)۔

۱۰۷ ۔اصول السرخسی: ۲/ ۱۳۴۔

۱۰۸ ۔النفاق و المنافقون؛ استاد ابراہیم علی سالم مصری۔

۱۰۹ ۔سورہ توبہ، آیت ۱۰۱۔

۱۱۰ ۔صحیح مسلم: ۸/ ۱۲۲؛ مسند احمد: ۴/ ۳۲۰؛ البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر: ۵/ ۲۰۔

۱۱۱ ۔زاد المسیر: ۳/ ۳۱۶۔

۱۱۲ ۔الدر المنثور: ۳/ ۲۰۸۔

۱۱۳ ۔تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۳۹۹۔

۱۱۴ ۔تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۳۹۹؛ البدایۃ و النہایۃ: ۵/ ۲۵ سنۃ تسع من الہجرۃ ذکر غزوۃ تبوک؛ جامع البیان للطبری: ۱۱/ ۱۶۔

۱۱۵ ۔عن عبد الملک بن عبید قال: قال عمر ابن الخطاب "نستعین بقوة المنافق و اثمه علیه"؛ المصنف لابن ابی شیبة : ۷/ ۲۶۹، ح ۱۲۰؛ کنز العمال، ج۴/ ۶۱۴۔

۱۱۶ ۔تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۳۹۹؛ جامع البیان للطبری: ۱۱/ ۱۶۔

۱۱۷ ۔قال الذهبی: ابن حزم، الامام الأوحد، البحر، ذو الفنون و المعارف، فانه رأس فی علوم الاسلام، متبحر فی النقل، عدیم النظیر؛ سیر اعلام النبلاء: ۱۸۹ ۱۸۴، و قریب من هذا فی العبر: ۳/ ۲۳۹؛ دول الاسلام: ۱/ ۶۰۷

قال السمعانی: ابن حزم، من افضل أهل عصره بالاندلس و بلاد المغرب، الأنساب الیزیدی و قال السیوطی: و کان صاحب فنون و ورع و زهد، و الیه المنتهی فی الذکاء و الحفظ و سعة الدائرة فی العلوم ؛ طبقات الحفاظ: ۴۳۶۔

قال الزرکلی:عالم الأندلس فی عصره، و أحد آئمة الأسلام، کان فی الأندلس خلق کثیر ینتسبون الی مذهبه الأعلام : ۴/ ۲۵۴ ۔

۱۱۸ ۔کما صرح بوثاقته العجلی تاریخ الثقات / ۴۶۵، رقم / ۱۷۷۳، و قال ابن سعد کان ثقة وله احادیث: طبقات:۶/ ۳۵۴، و أورده ابن حبان فی الثقافت، کتاب الثقات : ۵/ ۴۹۲۔و قد نقل الذهبی و ابن ابی حاتم عن ابی عبد الله ابن احمد بن حنبل قال: ابی: لیس به بأس و عن یحیی بن معین انه قال: ثقة و قال ابو حاتم: صالح حدیث و قال ابو زرقه: لا بأس به ، الجرح و التعدیل: ۹/۸، رقم ۳۴۔ و تہذیب الکمال: ۳۱/ ۳۵۔ و قال الذہبی: و ثقہ ابو نعیم، تاریخ الاسلام: ۹/ ۶۶۱۔

ابن سعد نے کہا (کان ثقة وله أحادیث طبقات :۶/ ۴۵۳ ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے کتاب الثقات: ۵/ ۴۹۲ذهنی و ابن حاتم نےابی عبد الله بن احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے (لیس به بأس ) اور یحیی بن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ ہے ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے ابو زرقہ نےلابأس به کہا ہے الجرح و التعدیل ۹/ ۸ رقم: ۳۴۔ لہذا ان تمام فقروں سے ہماری بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

۱۱۹ ۔تہذیب التہذیب: ۱۱/ ۱۲۲۔

۱۲۰ ۔النفاق و المنافقون۔ ابراہیم علی سالم۔

۱۲۱ ۔سورہ نساء، آیت ۶۱ ۔

۱۲۲ ۔سورہ نساء، آیت ۸۸: منافقین کا ایک گروہ جس نے ہجرت نہیں کی اور مکہ میں رہ گیا تاکہ ہر طرح کی حفاظت میں رہیں انکے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے ایک رعایت کا حامی تھا اور ایک سزا کا کہ حکم خدا کے بعد بھی ہجرت نہیں کی ہے۔ پروردگار عالم نے اس اختلاف کی طرف اشارہ کرکے واضح کردیا ہے کہ رعایت کی پالیسی غلط ہے۔ اور اس آیت میں واضح طور پر ارشاد ہوا ہے کہ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو جبکہ اللہ نے انکے اعمال کی بنا پر انہیں الٹ دیا ہے کہ تم اسے ہدایت دینا چاہتے ہو خدا نے جسے گمراہی پر چھوڑ دیا ہے حالانکہ خدا جسے گمراہی پر چھوڑ دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں نکال سکتے۔

۱۲۳ ۔سورہ توبہ، آیت ۶۸: اور اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں وہی انکے واسطے کافی ہے۔

۱۲۴ ۔سورہ نساء، آیت ۱۴۵: بیشک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔

۱۲۵ ۔عن عبد الملک بن عبید قال: قال عمر بن خطاب "نستعین بقوة المنافق و اِثمه علیه " المصنف لابن ابی شیبۃ؛ ۷/ ۲۶۹، ح ۱۲۰، کنز العمال، ص ۴/ ۶۱۴۔

۱۲۶ ۔عن الحسن أن خذیفه قال لعمر: انک تستعین بالرجل الفاجر فقال: عمر "انی لأستعمله لأستعین بقوته ثم اکون علی قفائه" ابو عبید۔ کنز العمال: ۵/ ۷۷۱۔

۱۲۷ ۔عن عمر قال: من استعمل فاجراً وهو یعلم ان فاجر فهو مثله ، کنز العمال، ج۵/ ۷۶۱، ح ۱۴۳۰۶۔

۱۲۸ ۔سورہ صف، آیت ۳: اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو۔

۱۲۹ ۔قال البیهقی: فان صخّ فانما ورد فی منافقین لم یعرفوا بالتخذیل والارجاف، والله اعلم سنن الکبری: ۹/ ۳۶۔

۱۳۰ ۔صحیح بخاری: ۸/ ۱۰۰، کتاب الفتن، باب اذا قال عند قوم شیئاً ثم خرج فقال بخلافہ۔

۱۳۱ ۔سورہ توبہ، آیت ۹۷۔

۱۳۲ ۔تفسیر ابن کثیر: ج۲، ص ۳۹۷؛ تفسیر القرطبی، ۸/ ۲۳۱۔

۱۳۳ ۔صحیح بخاری: ۴/ ۲۰۶، باب مناقب المہاجرین۔

۱۳۴ ۔حین توفی الله نبیه صلی الله علیه وسلم ان الانصار خالفونا، و اجتمعوا بأسرهم فی سقیفة بنی ساعدة و خالف عنّا علی و الزبیر و من معهما؛ صحیح بخاری، ج۸/ ۲۶، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی من الزنا ۔

۱۳۵ ۔تاریخ طبری، ج۲/ ۴۵۸؛ کامل ابن اثیر، ج۲/ ۲۲۴۔

۱۳۶ ۔روی ابن ابی الحدید عن البراء ابن عازب: فلم البث و اذاً انا بابی بکر قد اقبل و معه عمر و ابو عبیدة و جماعة من اصحاب السقیفة وهم محتجزون بالازر الصنعانیه لایمرون بأحد الأخطبوه و قدموه فمدوا یده فمسحوها علی ید ابی بکر یبایعه شاء ذالک او ابی ۔ شرح ابن ابی: ۱/ ۲۱۹۔

۱۳۷ ۔سورہ مائدہ، آیت نمبر ۶۷۔

۱۳۸۔تفسیر المنار، ج۶، ص ۱۱۶۔

۱۳۹۔التفسیر الکبیر، ج۱۱، ص ۴۹۔

۱۴۰۔شواہد التنزیل، ج۱، ص ۱۹۱، ح ۲۴۸۔

۱۴۱۔فخر الدین رازی، مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص ۴۸۔

۱۴۲۔ابن تیمیہ، احمد، منھاج السنۃ، ج۲، ص ۸۴۔

۱۴۳۔ابن کثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج۲، ص ۸۹۔ فیروز آبادی ، محمد، بصائر ذوی التمییز، ج۱، ص ۱۷۸۔

۱۴۴۔اسباب النزول، ص ۲۱۴۔

۱۴۵۔ا بن تیمیہ، منھاج السنۃ، ج۲، ص ۱۱۔

۱۴۶۔ذہبی، محمد ، تذکرۃ الحفاظ، ج۲، ص ۷۱۰ تا ۷۱۳۔

۱۴۷۔حموی، یاقوت معجم الادباء، ج۱۸، ص ۸۵، ط: دارا لفکر۔

۱۴۸۔خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغدادی، ج۸، ص ۱۴۶۔ ابن اثیر، علی اسد الغابۃ، ج۳، ص ۲۷۴۔

۱۴۹۔ابن تیمیہ، احمد، منھاض السنۃ، ج۲، ص ۱۶، ۱۷ و ۸۵۔

۱۵۰۔حاکم نیشاپوری، ابو عبد اللہ ، ج۵، ص ۱۸۸۔

۱۵۱۔حاکم نیشاپوری، ابو عبد اللہ، ج۵، ص ۱۲۲، ۱۲۳۔

۱۵۲۔سورہ غافر، آیت ۵۱۔

۱۵۳۔سورہ آل عمران، آیت ۱۹۴۔

۱۵۴۔سورہ فتح، آیت ۱۸۔

۱۵۵۔بخاری، محمد، صحیح، کتاب الدعوات، باب الغنی، غنی النفس، ج۸، ص ۱۳۸و باب فی الخواص، ص ۱۴۸۔ ۱۵۲۔