مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 41559
ڈاؤنلوڈ: 3076

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41559 / ڈاؤنلوڈ: 3076
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل

اسم، کنیت اور لقب حضرت مہدی موعود (عج) روایات اہل بیت علیھم السلام کی روشنی میں

جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اس کتاب کا دوسرا باب دو فصلوں پر مشتمل ہے: پہلی فصل؛ اسم، کنیت اور لقب حضرت مہدی، روایات رسول خداؐ کی روشنی میں ہے اس فصل میں ہم نے اہل سنت کی کتب سے ۲۵ روایات آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔اب ہم اس باب کی دوسری فصل پیش کر رہے ہیں جس میں اسم، کنیت اور لقب حضرت مہدی موعود ، روایات اہل بیت عصمت و طہارت کی روشنی میں ذکر کریں گے، اور اس سلسلہ میں ہم اہل سنت ہی کی کتب سے استفادہ کریں گے۔

اسم مہدی (عج) "م، ح، م، د(۱) " ہے

۱ ۔ متقی ہندی(۲) نے روایت نقل کی ہے:"وَ اَخۡرَجَ اَیۡضاً (یعنی نعیم بن حمّاد) عَنۡ علی علیه السلام قالَ : اِسمُ الۡمَه ۡدیِّ مُحَمَّد " یعنی نیز (نعیم بن حماد) نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: اسمِ مہدی "م، ح، م، د" ہے۔

مہدی موعود "خاتم الأئمة " و "منقذ الاُمّة " ہیں

۲ ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرۃ الخواص کے باب نمبر ۶ میں حضرت علی علیہ السلام کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آنجناب  نے نبی کریمؐ اور ائمہ اطہار کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا، اس خطبہ کو نقل کرتے ہوئے سبط جوزی کہتے ہیں:

"قالَ علی علیه السلام فی آخِرِه ا : فَنَحۡنُ اَنوَارُ السَّماواتِ وَ الۡاَرضِ وَ سُفُنُ النَّجاتِ وَ فینا مَکنُونُ الۡعِلۡم وَ اِلَیۡنا مَصیرُ الۡاُموُرِ وَ بِمَه ۡدینا تَقۡطَعُ الۡحُجَجِ فَه ُوَ خاتَمُ الۡاَئِمَّةِ وَ مُنۡقِذُ الۡاُمَّةِ وَ مُنۡتَه یَ النُّورِ وَ غامِضُ السَّرِّ فَلیه نَّ مَنِ اسۡتَمۡسَکَ بِعُرۡوَتِنا وَ حَشَرَ عَلی مُحَبَّتِنا "

حضرت علی علیہ السلام نے اس خطبہ کے آخر میں فرمایا: ہم ہی آسمانوں اور زمین کے نور ہیں، ہم ہی کشتی نجات ہیں، علم ہم میں پوشیدہ ہے (ہم علم کا مخزن ہیں)، امور کی بازگشت ہماری ہی طرف ہے، اور ہمارے ہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)پر حجت خدا کا خاتمہ ہوگا پس وہ ہی (مہدیؑ) خاتم ائمہ ہیں، امت کے نجات دہندہ ہیں، وہی نور کی انتہا ہیں، وہی سرّ پنہاں ہیں پس جو ہماری ریسمان سے متمسک ہوجائے گا اور ہم سے وابستہ ہوجائے گا وہی نجات پائے گا۔

مہدی وہی خَلَف المنتظر "م، ح، م، د" ہیں

۳ ۔ کتاب مروج الذھب(۳) میں مفضل ابن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے سید و سردار حضرت جعفر بن محمد امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ اپنے بعد کے امام  کا تعارف کرا دیجئے تو آنجنابؑ نے فرمایا: "یا مُفَضَّلُ، اَلۡاِمامُ مِنۡ بَعۡدی مُوسی، وَ الۡخَلَفُ الۡمُنۡتَظَرُ مُحَمَّدُ بن الۡحَسَنِ بن عَلیِّ بن مُحَمَّدِ بن عَلیِّ بن مُوسی  "

اے مفضل! میرے بعد موسیٰ امام ہوں گے اور خلف منتظر وہی "م، ح، م، د" حسن بن علی بن محمد بن موسیٰ  ہوں گے۔

مہدی موعود (عج)، خلف صالح و صاحب الزمان ہیں

۴ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۴) نے حافظ ابو نعیم کی چہل روایت میں سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)کے بارے میں روایت کی ہے کہ :"وَ مِنۡه َا (مِن الۡاَحادیثِ الَّتی اَخۡرَجَ اَبوُ نُعَیۡمِ فِی الۡمَه ۡدی عَجَّلَ الله فرجه ) عَنۡ اِبۡنِ الۡخَشابِ قالَ حَدَّثَنا صَدَقَةُ بن مُوسی، قال حَدَّثَنا اَبی عَنۡ عَلیِّ بن مُوسَی الرِّضا، ابۡنِ مُوسَی الۡکاظِمِ علیه ما السلام قالَ: اَلۡخَلَفُ الصّالِحُ مِنۡ وَلَدِ الۡحَسَنِ بن عَلیٍّ الۡعَسۡکَری، ه ُوَ صاحِبُ الزَّمانِ وَ ه ُوَ الۡمَه ۡدی

ابن خشاب نے صدقہ بن موسیٰ سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی ابن موسیٰ الرضا‘سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: خلف صالح (جانشین صالح) حسن بن علی العسکری‘ کے فرزند ہیں، وہ ہی صاحب الزمان ہیں، اور وہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)ہیں۔

اسم مہدی "م، ح، م، د" ہے، کنیت ابو القاسم ہے اور ان کی والدہ ماجدہ کا نام نرجسؑ ہے

۵ ۔ نیز شیخ سلیمان(۵) نے حافظ ابو نعیم سے حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے بارے میں روایت کی ہے: "وَ مِنۡه َا (مِن الۡاَحادیثِ الَّتی اَخۡرَجَ اَبوُ نُعَیۡمِ فِی الۡمَه ۡدی عَجَّلَ الله فرجه ) عَنۡ اِبنِ الْخَشابِ حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الطَّاهِرُ بْنُ هَارُونَ بْنِ مُوسَى الۡکاظِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ سَيِّدِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، الْخَلَفُ الصَّالِحُ مِنْ وُلْدِي وَ هُوَ الْمَهْدِيُّ اسْمُهُ مُحَمَّد وَ كُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يُقَالُ لِأُمِّهِ نَرۡجِسُ وَ عَلَى رَأْسِهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ عَنِ الشَّمْسِ تَدُورُ مَعَهُ حَيْثُ ما دَارَ تُنَادِي بِصَوْتٍ فَصِيحٍ هَذَا الْمَهْدِی فَاتَّبِعوه ُ، سلَامُ الله ِ عَلَیۡه " ابو القاسم طاہر بن ہارون بن موسیٰ کاظم علیھم السلام نے اپنے والد ہارون سے انہوں نے اپنے جدِ بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنجناب  نے فرمایا: خلف صالح میری اولاد میں سے ہوں گے وہی مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہیں، ان کا نام "م، ح، م، د" ہے اور کنیت ابو القاسم ہے وہ آخرِ زمانہ میں خروج کریں گے، ان کی والدہ کا نام نرجس ہے، مہدی کے سر پر بادل سایۂ فگن ہوگا جو سورج کی تپش سے محروم رکھے گا، جہاں مہدی جائیں گے یہ ان کے سر پر ساتھ ساتھ ہوگا اور فصیح آواز میں ندا دے رہا ہوگا "یہ مہدی ہیں ان کی اتباع کرو" خدا کا سلام ہو ان پر۔

نکتہ: ہم اسی باب کی پہلی فصل میں روایت نمبر ۲۱ اور ۲۲ نقل کرچکے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے اور اس میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے سر پر بادل کے سایہ کرنے کا تذکرہ کیا گیا ہے لہذا تفصیل کے لئے وہاں رجوع فرمائیں۔

مہدی موعود (عج)، امام حسن  کی اولاد میں سے ہیں

۶ ۔ ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن ج ۲ ، ص ۴۲۳ و ۴۲۴ کتاب المہدیؑ میں، ابوبکر بیہقی نے البعث و النشور میں اور یوسف بن یحیی مقدسی شافعی(۶) ،(۷) نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے: "وَ عَنۡ اَبی اِسۡحاق، قالَ: قالَ علَیٌّ علیه السلام، وَ نَظَرَ اِلی اِبۡنِه ِ الۡحَسَنِ فَقالَ : اِنَّ اِبۡنی ه ذا سَیِّدٌ کَما سَمّاه ُ رَسوُلُ الله ﷺ و سَیَخۡرُجُ مِنۡ سُلۡبِه رَجُلٌ یُسَمّی بِاِسۡمِ نَبیِّکُمۡ، یُشۡبِه ُه ُ فِی الۡخُلقِ وَلا یُشۡبِه ُه َ فیِ الۡخَلۡقِ، یَمۡلَأُ الۡاَرضَۡ عَدلاً"

ابو اسحاق سے روایت کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند حسن  کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: بیشک میرا یہ بیٹا "سید" و "سردار" ہے جیسا کہ نبی کریمؐ نے اسے یہی نام عطا کیا ہے(۸) اور یاد رکھو اس کے صُلب سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی کے نام جیسا ہوگا جو اخلاق میں اس (حسنؑ) سے بالکل مشابہ ہوگا لیکن خلقت (یعنی شکل و صورت) میں نہیں، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

نکتہ: امام محمد باقر کی والدہ، امام حسنؑ کی دختر نیک اختر ہیں(۹) ۔ لہذا اس لحاظ سے آپؑ حسنی بھی ہیں اور حسینی بھی اسی طرح تمام ائمہ علیھم السلام حسنی بھی اور حسینی بھی۔ پس بنابریں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، امیرالمؤمنین کے اس روایت شدہ فرمان کی روشنی میں امام حسن کی اولاد میں سے ہیں جو کہ اخلاق میں انہی کی مانند ہوں گے نہ کہ شکل و صورت میں۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)، پیغمبرؐ کے ہمنام ہیں اور تین ہزار فرشتے ان کی مدد کریں گے

۷ ۔ یوسف بن یحیی مقدس شافعی نے کتاب عقد الدّرر فی اخبار المنتظر(۱۰) باب سوم "فی عدلہ و حلیتہ، صفحہ نمبر ۶۴ پر حضرت علی بن ابی طالب‘ سے روایت کی ہے:

"وَ عَنۡ اَمِیر المؤمنینَ علیِّ بن ابیطالبٍ علَیه السَّلامُ، قالَ:اَلۡمَه دیُّ مَوۡلِدُه ُ بِالۡمَدینَةِ، مِنۡ اَه ۡلِبَیۡتِ النَّبیﷺ، وَ اِسۡمُه ُ اِسۡمُ نَبیّ، وَ مُه اجَرُه ُ بَیۡتُ الۡمَقۡدِسِ، کَثُّ اللِّحۡیَةِ، اَکۡحَلُ الۡعَیۡنَیۡنِ، بَرّاقُ الثَّنایا، فی وَجۡه ِه خالٌ، اَقۡنی، اَجۡلی، فی کَتِفِه عَلامَةُ النَّبی، یَخۡرُجُ بِرایَةِ النَّبیﷺمِنۡ مِرۡطٍ مُخۡمَلَةٍ، سَوۡداءَ مُرَبَّعَةٍ فیه ا حِجۡرٌ، لَمۡ تُنۡشَرۡ مُنۡذُ تُوُفِّیَ رَسُولُ الله ِﷺوَلا تُنۡشَرُ حَتّی یَخۡرُجَ الۡمَه ۡدِیُّ، یُمِدُّه ُ الله ِ بِثَلاثَةِ آلاف مِنَ الۡمَلائِکَةِ، یَضۡرِبوُنَ وُجُوه َ مَنۡ خالَفَه ُ وَ اَدۡبارَه ُمۡ، یُبۡعَثُ وَ ه ُوَ ما بَیۡنَ الثَّلاثینَ اِلی الۡاَرۡبَعینَ "

حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: مہدی (عج) اس شہر میں پیدا ہوں گے، وہ اہل بیت نبیؐ سے ہوں گے، وہ نبی کریمؐ کے ہمنام ہوں گے، ان کا محل ہجرت "بیت المقدس" ہوگا، ان کی ریش مبارک بڑی ہوگی، ان کی آنکھوں میں قدرتی سُرمہ لگا ہوگا۔ ان کے دانت چمکدار ہوں گے، چہرے پر تل ہوگا، ناک لمبی ہوگی، پیشانی روشن ہوگی، ان کے دوش مبارک پر رسول اللہﷺ کی علامت و نشانی ہوگی، وہ پرچم نبیؐ لیکر خروج کریں گے، یہ پرچم پشم و مخمل کا ہوگا، سیاہ رنگ کا ہوگا اور اس کا اگلا حصہ مربع شکل ہوگا، یہ پرچم رسول اللہؐ کی وفات کے بعد سے آج تک کھلا نہیں ہے اور جب مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) خروج کریں گے تب ہی کھلے گا، خداوند عالم، مہدی موعود (عج) کی تین ہزار فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائے گا(۱۱) ، یہ فرشتے حضرت مہدی (عج) کے مخالفین کی صورت و پشت پر تازیانے ماریں گے، جب مہدی (عج) خروج کریں گے تو اس وقت ان کی عمر مبارک ۳۰ اور ۴۰ کے درمیان معلوم ہوگی۔

نکتہ: یہ روایت ابو عبد اللہ نعیم بن حماد(۱۲) نے بھی نقل کی ہے۔

صلبِ حسن  سے ایک شخص آئے گا جو پیغمبرؐ کا ہمنام ہوگا

۸ ۔ نیز روایت کرتے ہیں(۱۳) : "وَ عَنۡ اَبی وائِل، قالَ :نَظَرَ عَلیٌّ اِلَی الۡحَسَنِ‘، فَقالَ: اِنَّ اِبۡنی ه ذا سَیِّدٌ کَما سَمّاه ُ رَسولُ الله ﷺ، سَیَخۡرُجُ مِنۡ صُلۡبِه ِ رَجُلٌ بِاِسۡمِ نَبیِّکُمۡ، یَخۡرُجُ عَلی حین غَفۡلَةٍ مِنَ النّاسِ، وَ اِماتَةِ الۡحَقِّ وَ اِظۡه َارِ الۡجَوۡرِ وَ یَفۡرَجُ بِخُرُوجِه ِ اَه ۡلُ السَّماءِ وَ سُکّانُه ا وَ ه ُوَ رَجُلٌ اَجۡلَی الۡجَبینِ، اَقۡنَی الۡاَنفِ، ضَخۡمُ الۡبَطۡنِ، اَذبَلُ الۡفَخِذَیۡنِ، بِخَدِّه ِ الۡاَیۡمَنِ شاَمَّةٌ، اَفۡلَجُ الثَّنایا، یَمۡلَأُ الۡاَرضَ عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ ظُلۡماً وَ جَوۡراً "

ابو وائل نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آنجنابؑ نے امام حسن  کی طرف نظر کرتے ہوئے فرمایا: بیشک میرا یہ بیٹا "سید و سردار" ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے اسے اس نام سے یاد کیا ہے(۱۴) ۔ عنقریب اس کے صلب سے ایک شخص خروج کرے گا جو تمہارے نبی کا ہمنام ہوگا وہ ایسے عالم میں خروج کرے گا کہ لوگ غافل ہوں گے حق نابود ہو رہا ہوگا اور ظلم و جور کا دور دورہ ہوگا، اہل آسمان اس کے خروج سے خوشحال و مسرور ہوں گے، اس کی پیشانی روشن ہوگی، ناک لمبی، سینہ کشاد، سڈول و دبلا پتلا بدن، دائیں رخسار پر تِل ہوگا، سامنے کے دانت گشاد ہوں گے، وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے پُر کر دگے گا جس طرح اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

بہشت میں پیغمبرؐ کے ہمراہ بارہ امام ہوں گے ان میں اول میں ہوں اور آخری قائم ہیں

۹ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۱۵) ،(۱۶) نے کتاب مناقب سے روایت کی ہے:

"وَ فِی الۡمَناقِبِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، قَالَ: جَاءَ يَهُود مِنْ يَهُودِ الْمَدِينَةِ الی عَلیٍّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ، قَالَ إِنِّي أَسْئَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ وَ عَنْ ثَلَاثٍ وَ وَاحِدَةٍ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ لِمَ لَا تَقُولُ أَسْئَلُكَ عَنْ سَبْع قَالَ أَسْئَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ فَإِنْ أَصَبْتَ فِيهِنَّ سَئَلْتُكَ عَنِ الثَّلَاثِ الْآخَر فَإِنْ أَصَبْتَ فیه ِنَّ سَئَلْتُكَ عَنِ الْوَاحِدَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ مَا تَدْرِي إِذَا سَئَلْتَنِي فَأَجَبْتُكَ أَخْطَأْتُ اَمۡ اَصِبۡتُ، فَاَخۡرَجَ الۡیَه وُدیُّ مِن كُمِّهِ كِتَاباً عَتِيقاً قَالَ هَذَا وَرِثْتُهُ عَنْ آبَائِي وَ اَجْدَادِي عَن ه اروُنَ جَدّی إِمْلَاءَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ وَ خَطُّ هَارُون بن عِمۡران علیه ما السلام وَ فِيهِ هَذِهِ الۡمَسۡأَلَةُ الَّتِي أَسْئَلُكَ عَنْهَا، قَالَ عَلِيٌّ إِنْ أَجَبْتُكَ بِالصَّوَابِ فِيهِنَّ لِتَسْلِم؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ اَسْلِمُ السَّاعَةَ عَلَى يَدَيْكَ اِنۡ اَجِبۡتَنی بِالصَّوابِ فیه ِنَّ، قَالَ لَهُ سَلْ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ حَجَرٍ وُضِعَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، وَ عَنْ أَوَّلِ شَجَرَةٍ نُبِتَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، وَ عَنْ أَوَّلِ عَيْنٍ نُبِعَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، قَالَ: اََمَّا اَوَّلُ حَجَرٍ وُضِعَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعَموُنَ اَنَّهَا صَخْرَةُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَ كَذِبُوا وَ لَكِنۡ هُو الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ نَزَلَ بِهِ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ فَوَضَعَهُ فِي رُكْنِ الْبَيْتِ وَ النَّاسُ يَتَمَسَّحُونَ بِهِ وَ يُقَبِّلُونَهُ وَ يُجَدِّدُونَ الْعَهْدَ وَ الْمِيثَاقَ لِاَنَّه ُ کانَ مَلَکاً فَصارَ حَجَراً، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ وَ أَمَّا أَوَّلُ شَجَرَةٍ نُبِتَتْ عَلَى الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعَموُنَ أَنَّهَا الزَّيْتُونَةُ وَ كَذِبُوا وَ لَكِنَّهَا نَخْلَةٌ مِنَ الْعَجْوَةِ نَزَلَ بِهَا آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ فَاَصْلُ كُلِّ النَّخۡلَةِ الْعَجْوَةِ، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ کَرَّمَ الله ُ وَجۡه َه ُ: وَ أَمَّا أَوَّلُ عَيْنٍ نُبِعَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَإِنَّ الْيَهُودَ يَزْعَمُونَ أَنَّهَا الْعَيْنُ الَّتِي نَبَعَتْ کَانَتۡ تَحْتَ صَخْرَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَ كَذِبُوا وَ لَكِنَّهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ الَّتِي نَسِيَ عِنْدَهَا صَاحِبُ مُوسَى السَّمَكَةَ الْمَالِحَةَ فَلَمَّا أَصَابَهَا مَاءَ الْعَيْنِ حُیِّیَتۡ وَ عَاشَتْ وَ شَرُبَتْ مِنۡه ُ فَاَتۡبَعَهَا مُوسَى وَ صَاحِبُهُ الْخَضِرُ علیه ما السلام، قَالَ الْيَهُوديُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ سَلْ عَنِ الثَّلاثِ الۡآخَرِ، قَالَ: اََخْبِرْنِي کَمۡ لِه ذِه ِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّها مِنْ اِمَامٍ، وَ أَخْبِرْنِي عَنْ مَنْزِلِ مُحَمَّدٍ اَيْنَ هُوَ فِی الْجَنَّةِ وَ اَخۡبِرۡنی مَنْ يَسْكُنُ مَعَهُ فِي مَنْزِلِهِ، قَالَ عَلِيٌّ : لِهَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْد نَبيِّها "اِثْنَا عَشَرَ إِمَاماً" لَا يَضُرُّهُمْ خِلَافُ مَنْ خَالَفَه ُمْ، قَالَ الْيَهُودِيُّ صَدَقْتَ، قَالَ: عَلِيٌّ : یَنْزِلُ مُحَمَّدٌﷺ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ وَ هِيَ وَسَطُ الْجِنَانِ وَ اَعۡلاه ا وَ أَقْرَبُهَا مِنۡ عَرْشِ الرَّحْمَانِ جَلَّ جَلَالُهُ، قَالَ الۡیَه ُودیُّ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ : وَ الَّذِي يَسْكُنُ مَعَهُ فِي الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ الۡاَئِمَّة الۡاِثْنَا عَشَرَ "اَوَّلُه ُمۡ اَنا وَآخِرُنا القۡائِمُ الۡمَه ۡدیُّ (عج) " قَالَ صَدَقْتَ، قَالَ عَلِيٌّ : سَلْ عَنِ الۡوَاحِدَةِ، قالَ: اَخۡبِرۡنی كَمْ تَعِيشُ بَعْدَ نَبیِّکَ وَ هَلْ تَمُوتُ أَوْ تُقْتَلُ،قَالَ : اَعِيشُ بَعْدَهُ ثَلَاثِينَ سَنَةً وَ تَخْضِبُ هَذِهِ، اشَارَ بِلِحۡیَته ، مِنْ هَذَا، أَشَارَ بِرَأْسِهِ الشَّریف، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّ رَسُولِ اللَّهِﷺ "

مناقب میں ابوطفیل ، عامر بن وائلہ سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں: مدینہ کا رہنے والا ایک یہودی حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپؑ سے تین تین اور ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ کیوں نہیں کہتے کہ مجھے آپؑ سے سات سوال کرنے ہیں؟ یہودی نے جواب دیا کہ میں آپ سے پہلے تین سوال کروں گا اگر آپ نے صحیح جواب عنایت کئے تو دوسرے تین سوال کروں گا اگر وہ بھی صحیح جواب مرحمت فرمائے تو پھر میں آخری سوال کروں گا۔

امام علی علیہ السلام نے سوال فرمایا کہ جب میں تمہیں جوابات دونگا تو تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ میرے جواب صحیح ہیں یا غلط ہیں؟

یہودی نے اپنی آستین سے ایک پرانی سی کتاب نکالی اور کہا: مجھے یہ کتاب میرے آباء و اجداد سے ارث میں ملی ہے اور یہ ہمارے جد ہارون سے ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ اوریہ جناب موسیٰ بن عمران نے انہیں املاء فرمائی تھی اور ہمارے جد ہارون (برادر موسیٰ) نے اسے لکھا تھا۔ اس میں ان تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں جو میں آپ سے کرنا چاہ رہا ہوں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر ٹھیک ہے اگر میں تمہارے سوالات کے صحیح جوابات دیدوں تو کیا تم مسلمان ہوجاؤ گے؟

یہودی نے کہا: خدا کی قسم اگر آپؑ نے میرے سوالات کے صحیح جوابات عنایت فرمائے تو میں ابھی اسی وقت آپؑ کے دست مبارک پر اسلام لے آؤں گا!

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر سوال کرو۔

یہودی نے کہا: زمین پر رکھا جانے والا پہلا پتھر کونسا ہے؟ زمین سے اُگنے والا پہلا درخت کونسا ہے ؟ اور زمین سے پھوٹنے والا پہلا چشمہ کونسا ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: زمین پر سب سے پہلے رکھے جانے والے پتھر کے بارے میں یہودی گمان کرتے ہیں کہ وہ صخرۂ بیت المقدس ہے لیکن یہ بات غلط ہے بلکہ وہ پتھر حجر اسود ہے جو کہ حضرت آدم  کے ساتھ بہشت سے آیا تھا اور بیت اللہ الحرام کے رکن میں نصب کردیا گیا ہے کہ لوگ اسے بوسہ دیتے ہیں اور مسح کرتے ہیں اور اس سے تجدید عہد و میثاق کرتے ہیں کیونکہ وہ پتھر بننے سے قبل ایک فرشتہ تھا پھر سنگ میں تبدیل ہوگیا۔

یہودی نے کہا: آپؑ نے بالکل سچ فرمایا۔ پھر امام علی علیہ السلام نے فرمایا: سب سے پہلے اُگنے والے درخت کے بارے میں یہودی گمان کرتے ہیں کہ وہ زیتون کا درخت ہے حالانکہ وہ خرمہ کا درخت ہے جو حضرت آدم اپنے ہمراہ بہشت سے لائے تھے اور اُسے اُگایا گیا تھا اور یہی بعد میں تمام درخت خرما کی اصل قرار پایا۔

یہودی نے کہا: صحیح فرمایا آپ  نے۔

پھر امام علی علیہ السلام نے فرمایا: زمین سے پھوٹنے والے پہلے چشمہ کے بارے میں یہودی گمان کرتے ہیں کہ وہ صخرۂ بیت المقدس کے نیچے سے پھوٹنے والا چشمہ ہے، یہ بات غلط ہے حالانکہ پہلا چشمہ، چشمۂ حیات ہے جس کے نزدیک رفیق موسیٰ  (یوشعؑ) اپنی نمک زدہ مچھلی بھول گئے تھے اور انہوں نے اسے اس چشمہ کے پانی میں پھینک دیا تھا کہ اچانک وہ مچھلی زندہ ہوگئی اور تیرنے لگی اور اس نے چشمہ کا پانی بھی پی لیا، موسیٰ و خضر‘نے اس مچھلی کا پیچھا کیا۔

یہودی نے یہ سن کر کہا: آپؑ نے بالکل صحیح فرمایا۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اب تم اپنے دوسرے تین سوال بیان کرو۔

یہودی نے کہا: یہ بتائیے امت میں ان کے نبیؐ کے بعد کتنے امام ہوں گے؟ جنت میں حضرت محمدﷺ کا مقام و مرتبہ بیان کیجئے ؟ اور یہ بتائیے کہ اس مقام و منزل میں ان کے ساتھ کون ہوگا؟

حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا: اس امت میں نبیؐ کے بارہ امام ہوں گے جنہیں مخالفین کی مخالفت کوئی ضرور و نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔

یہودی نے کہا: آپؑ نے بالکل سچ فرمایا۔

پھر امام علی علیہ السلام نے فرمایا: حضرت محمد مصطفیؐ بہشت عدن میں ہوں گے جو کہ بہشت کے درمیان بلند ترین اور عرش الٰہی سے نزدیک ترین مقام پر واقع ہے۔

یہودی نے کہا: سچ فرمایا آپؑ نے۔

پھر امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بارہ امام، نبی کریمﷺ کے ساتھ بہشت میں ہوں گے ان میں پہلا امام میں ہوں اور آخری قائم مہدیؑ ہوں گے۔

یہودی نے کہا: بالکل سچ فرمایا آپؑ نے۔

پھر امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنا ساتواں سوال بھی پیش کرو۔

یہودی نے کہا: پیغمبر اسلام کے بعد آپ کتنے سال جیئیں گے اور یہ بھی بتائیے کہ آپؑ کی موت طبیعی ہوگی یا شہادت کی موت ہوگی؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں پیغمبر اسلامﷺ کے بعد تیس سال زندہ رہوں گا اور ریش مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ خون سے خضاب ہوگی اورپھر سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ خون سے خضاب ہوں گے۔ (یعنی میرے سر پر ضرب لگے گی اور سر کے خون سے میری داڑھی رنگین ہوجائے گی)۔

یہ سن کر یہودی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہﷺ کے رسولؐ ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ ہی رسولؐ اللہ کے وصی اور جانشین ہیں۔

ناقابل انکار حقائق

محترم قارئیں کی نظر سے گذرنے والی اس روایت میں ایسے مہم اور قابل توجہ حقائق موجود ہیں جو یقیناً ناقابل انکار ہیں مثلاً:

۱ ۔ اہل سنت کی معتبر کتب میں یہ روایت مرقوم ہے یعنی علمائے اہل سنت نے اس کی تصریح فرمائی ہے لہذا ہمارے اوپر کوئی اشکال وارد نہیں کیا جاسکتا۔

۲ ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس روایت کے مطابق تصریح فرمائی ہے کہ پیغمبرؐ کے بعد اس امت میں بارہ امام ہوں گے جن میں پہلا میں ہوں اور آخری قائم ہوں گے۔

۳ ۔ اہل تسنن، تمام صحابہ کرام کو مطلق طور پر عادل مانتے ہین تو پھر وہ اس حقیقت پر توجہ کیوں نہیں دیتے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی تو اصحاب میں سے ہیں اور نبی کریمؑ کے چچا زاد بھائی اور اہلبیت علیھم السلام میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے خلیفہ چہارم بھی ہیں اور روایت نبوی کی روشنی میں فاروق امت اور مدار حق ہیں کہ جہاں علی علیہ السلام ہیں وہاں حق ہے؟

کیا امام علی علیہ السلام نے خود نہیں فرمایا: "میں پہلا امام ہوں اور قائم آخری امام ہوں گے" تو پھر اہل سنت اس امر کو اپنا عقیدہ کیوں قرار نہیں دیتے؟ کیا یہ ان کے عقائد میں تناقض نہیں ہے کہ ایک طرف تو وہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ مانتے ہیں اور دوسری طرف اس جیسی دسیوں روایات سے غفلت برتتے ہیں کہ اس امت میں نبیؐ کے بعد بارہ امام ہوں گے پہلے حضرت علی اور آخری قائم مہدی (عج) ہوں گے؟!!

۴ ۔ اس روایت میں یہ عبارت "بَعد نَبِیِّہا؛ یعنی نبی کے بعد" ان لوگوں کی خلافت کو باطل قرار دے رہی ہے جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے محروم کرکے اسے اپنالیا۔

۵ ۔ یہ حقیقت اتنی آشکار تھی کہ ذیل روایت یہودی کے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہی ہے بلکہ شیعۂ امیرالمؤمنین  بن کر شہادت دے رہا ہے کہ آپؑ ہی "وصی پیغمبر اسلام" ہیں۔

۶ ۔ یہودی کا اسلام لانا اور نبی کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی وصایت کی شہادت دینا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ شیعہ پیغمبر گرامی قدر اور حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھے برخلاف اہل سنت کہ ہم اسی کتاب کے آغاز میں ثابت کرچکے ہیں کہ اہل سنت دوسری صدی ہجری میں اہل حدیث کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں۔

۷ ۔ یہودی، حضرت علی علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کرتا ہے کہ ان سوالات کے جوابات اس کتاب میں موجود ہیں جو اسے اس کے اجداد اور جناب ہارون بن عمران سے ارث میں ملی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اجداد اور ہارون و موسیٰ جیسے انبیاء کو علم تھا کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبرؐ کی نظر میں منزلت ہارونی پر قائم ہیں۔ نیز انہیں اس بات کا بھی علم تھا کہ جس طرح نقباء بنی اسرائیل بارہ ہیں اس طرح اس امت میں بھی نبی کے بعد امام بارہ ہی ہوں گے جن میں پہلے امام علی علیہ السلام اور آخری قائم المہدی (عج) ہوں گے۔

نیز انہیں معلوم تھا پیغمبر اسلام کے بعد ان کا وصی تیس سال زندہ رہے گا اور اس کی ریش مبارک سر کے خون سے رنگین ہوگی۔

روایت جندل(۱۷) میں جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ، حضرت امام حسن  و امام حسین  کے نام توریت اور گذشتہ انبیاء کی کتابوں میں موجود تھے یعنی ایلیاء اور شبّر و شبیر۔

۸ ۔ اس روایت کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ شیعہ اثناء عشری کے عقائد کہ انکے پہلے امام، علی علیہ السلام اور آخری امام حضرت مہدی (عج) ہیں، برحق ہیں اور تہتّر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ شیعہ اثنا عشری ہی ہے۔(۱۸)

نکتہ: ہم نے اس باب کی پہلی فصل میں اہل سنت کی کتب سے دو روایات (روایت نمبر ۲۴ و ۲۵) نبی کریمؐ کے اوصیاء و خلفاء کے بارے میں نقل کی ہیں اور ابھی آپ کی خدمت میں کتاب ینابیع المودۃ سے بھی ایک روایت نقل کی ہے اور آئندہ "روایات اثنا عشریہ" کے تحت ان روایات کے تواتر اور حقائق کو محترم قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے انشاء اللہ ، واللہ المستعان۔

اسم مہدی، اسم پیغمبر اسلام ہے اور وہ اولاد فاطمہ زہرا سے ہوں گے

۱۰ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی(۱۹) نے حضرت امیرالمؤمنین  سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے کہ جسے ہم یہاں اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔

" عَنۡ اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ عَلیِّ بن اَبیطالِبٍ  ، قالَ: … اَلا فَه ُوَ (اَی الۡمَه ۡدی (عج)) اَشۡبَه ُ خَلۡقِ الله ِ عَزَّوجلَّ بِرَسُولِ الله ِﷺ، وَ اِسۡمُه ُ عَلی اِسۡمِه ِ، وَ اِسۡمُ اَبیه ِ عَلی اِسۡمِ اَبیه ِ، مِنۡ وُلۡدِ فاطِمَةَ اِبۡنَةِ مُحَمَّدٍﷺ، منۡ وُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ، اَلا فَمَنۡ تَوالَی غَیۡرَه ُ لَعَنَه ُ الله ُ ثُمَّ قال  : فَیَجۡمَعُ الله ُ عَزَّوجَلَّ اَصۡحابَه ُ عَلی عَدَدٍ اَه ۡلِ بَدۡرٍ، وَ عَلی عَدَدِ اَصۡحابِ طالُوتَ، ثَلاثِمأَة وَ ثلاثَة عَشَرَ رَجُلاً، … ؛ ثُمَّ قالَ اَمیرُ الۡمُؤۡمِنینَ  وَ اِنّی لَاَعۡرِفُه ُمۡ وَ اَعۡرِفُ اَسۡمَائَه ُم، ثُمَّ سَمّاه ُمۡ، وَ قالَ: ثُمَّ یَجۡمَعُه ُمُ الله ُ عَزَّوجَلَّ، مِنۡ مَطۡلَعِ الشَّمۡسِ اِلی مَغرِبِه ا فی اَقَلَّ مِنۡ نِصۡفِ لَیۡلَةٍ، فَیَأۡتُونَ مَکَّةَ، فَیُشۡرِفُ عَلَیۡه ِمۡ اَه ۡل مَکَّةَ فَلا یَعۡرِفوُنَه ُمۡ، فَیَقوُلَونَ: کَبَسَنا اَصۡحابُ السُّفیانی؛

فَاِذا تَجَلّی لَه ُمُ الصُّبۡحُ یَرَوۡنَه ُمۡ طائِعینَ مُصَلّینَ، فَیُنۡکِروُنَه ُمۡ، فَعِنۡدَ ذلِکَ یُقَیِّضُ الله ُ لَه ُمۡ مَنۡ یُعَرَّفُه ُمُ الۡمَه ۡدیَّ  وَ ه ُوَ مُخۡتَفٍ، فَیَجۡتَمِعُونَ اِلَیۡه ِ، فَیَقُولُونَ لَه ُ: اَنۡتَ الۡمَه ۡدیُّ؟ فَیَقُولُ: اَنا اَنۡصاریُّ وَ الله ِ ما کَذِبَ، وَ ذلِکَ اَنَّه ُ ناِصرُ الّدینِ ؛ … وَ یَلۡحَقُه ُ ه ُناکَ ابۡنُ عَمِّه ِ الۡحَسَنیُّ فی اِثۡنی عَشَرَ اَلف فارِسٍ، فَیَقُولُ الۡحَسَنیُّ ه َلۡ لَکَ مِنۡ آیَةٍ فَنُباِیِعُکَ؟؛ فَیُؤۡمِیِ الۡمَه ۡدیُّ  اِلَی الطَّیۡر، فَتَسۡقُطُ عَلی یَدِه ِ، وَ یَغۡرُسُ قَضیباً فی بُقۡعَةٍ مِنَ الاَرضِ، فَیَخۡضَرُّ وَ یُورِقُ، فَیَقُولُ لَه ُ الۡحَسَنیُّ : یَابۡنَ عَمّ ه ِیَ لَکَ، وَ یُسَلِّمُ اِلَیۡه ِ جَیۡشَه ُ؛ … فَیَسیرُ الۡمَه دیُّ  بِمَنۡ مَعَه ُ، لا یُحۡدِثُ فی بَلَدٍ حادِثَةٍ اِلَّا الۡاَمۡنَ وَ الۡاَمانَ وَ الۡبُشۡری، وَ عَنۡ یَمینِه جِبۡریلُ، وَ عَن شِمآله میکائیلُ علیه ما السلام وَ النَّاسُ یَلۡحَقُونَه ُ مِنَ الآفاقِ ؛

وَ یَغۡضبُِ الله ُ عَزّوَجَلَّ عَلَی السُّفۡیانی وَ جَیۡشه ِ وَ یُغۡضِبُ سائِرَ خَلۡقِه عَلَیۡه ِمۡ حَتّی الطَّیۡرِ فِی السَّماءِ فَتَرۡمیه ِمۡ بِاَجۡنِحَتِه ا وَ اِنَّ الۡجِبالَ لَتَرۡمیه ِمۡ بِصُخُورِه ا، فَتَکُون وَقۡعَةٌ یُه ۡلِکُ الله ُ فیه ا جَیۡشَ السُّفۡیانی، وَ یَمۡضی ه ارِباً، فَیَأۡخُذُه ُ رَجُلٌ مِنَ الۡمَوالی اِسۡمُه ُ صبَاح، فَیَأۡتی بِه اِلَی الۡمَه دیّ  ، و … ؛

وَ یَکوُنُ السُّفۡیانی قَدۡ جُعِلَتۡ عِمامَتُه ُ فی عُنُقِه وَ سُحِب، فَیُوقِفُه ُ بَیۡنَ یَدَیۡه ِ، فَیَقُولُ السُّفۡیانی لِلۡمَه ۡدی : یَابۡنَ عَمّی(۲۰) ،(۲۱) ، مُنَّ عَلَیَّ بِالحَیاةِ اکُونُ سَیۡفاً بَیۡنَ یَدَیۡکَ وَ اُجاه ِدُ اَعۡدائَکَ؛

وَ الۡمَه ۡدیُّ جالِسٌ بَیۡنَ اَصۡحابِه وَ ه ُوَ اَحیی مِنۡ عذراء، فَیَقُولُ : خُلُّوه ُ، فَیقوُلُ اَصۡحابُ الۡمَه ۡدی : یَابۡنَ بِنۡتِ رَسوُلِ الله ِ، تَمُنُّ عَلَیۡه ِ بِالۡحَیاةِ؟ وَ قَدۡ قَتَلَ اَوۡلادَ رَسُولِ الله ِﷺ، ما نَصۡبِرُ عَلی ذلِکَ؛

فَیَقُولُ : شَأنُکُمۡ وَ ایّاه ُ اِصۡنَعُوا بِه ما شِئۡتُم وَ یذبَحُه ُ، وَ یَاۡخُذُ رَأسَه ُ، وَ یَأتی بِه ِ الۡمَه ۡدی، فَیَنۡظُرُ شیعَتُه ُ اِلَی الرّأۡسِ فَیُکَبِّروُنَ وَ یُه َلِّلُون وَ یَحۡمَدُونَ الله تعالی علی ذلِکَ، ثُمَّ یَأۡمُرُ الۡمَه ۡدی بِدَفۡنِه "

حضرت علی بن ابی طالب‘ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: یاد رکھو! مہدی، رسول اللہ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں گے (یعنی شبیہ رسولؐ ہوں گے، وہ پیغمبر اسلام کے ہمنام ہوں گے اور ان کے والد کا نام بھی پیغمبرؐ کے والد کے نام جیسا ہوگا(۲۲) ۔ مہدی (عج) حضرت فاطمہ بنت محمدؐ کی اولاد میں سے ہوں گے، وہ اولاد حسین  سے ہوں گے۔ یاد رکھو! جو شخص بھی حضرت مہدی (عج) کے علاوہ کسی اور کو اپنا امام قرار دے گا خداوند اس پر لعنت کرے گا ۔

نیز فرمایا: بتحقیق میں ان تمام افراد کو جانتا پہچانتا ہوں اور ان کے نام تک مجھے معلوم ہیں یہ کہہ کر پھر آپ  نے ان کے نام ذکر فرمائے۔

خداوند عالم ان ( ۳۱۳ اصحاب) کو (جو کہ) مشرق سے مغرب تک ہوں گے آدھی رات سے کم وقت میں یکجا کردے گا پس وہ سب کے سب مکہ میں داخل ہوں گے مکہ والے ان سے ملیں گے لیکن انہیں پہچانیں گے نہیں۔ اور کہیں گے کہ سفیانی لشکر نے ہم پر دباؤ ڈالا ہے۔

جب صبح نمودار ہوگی تو اہل مکہ دیکھیں گے کہ اصحاب مہدی (عج) نماز و اطاعت خداوندی میں مصروف ہیں لیکن مکہ والے انہیں پھر بھی نہیں پہچانیں گے۔ اس وقت خداوند عالم ایک شخص کو مامور کرے گا جو ان اصحاب سے حضرت کا تعارف کروائے گا کیونکہ مہدی (عج) اس وقت ان کے درمیان غیر معروف و غیر معلوم ہوں گے پس یہ اصحاب حضرت مہدی (عج) کی خدمت میں آئیں گے اور سوال کریں گے: کیا آپؑ ہی مہدی (عج) ہیں؟ حضرت مہدی (عج) فرمائیں گے: میں نصرت کرنے والوں میں سے ہوں۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کی قسم مہدی (عج) ہرگز جھوٹ نہ بولیں گے بلکہ (مراد یہ ہے کہ) وہ دین خدا کی نصرت کرنے والے ہیں

ان کا ابن عم سید حسنی بارہ ہزار لشکر کے ہمراہ ان سے ملحق ہوگا۔ وہ سید حسنی ان سے کہے گا کہ آپ کے پاس کیا نشانی ہے کہ ہم آپؑ کی بیعت کریں؟ حضرت مہدی (عج) اس وقت ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ انکے ہاتھ پر آکر بیٹھ جائے گا۔ سوکھی لکڑی اٹھا کر زمین میں گاڑ دیں گے تو فورا سر سبز ہوجائے گی۔

یہ دیکھ کر سید حسنی، حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے عرض کریں گے: اے پسر عمو! یہ تمام لشکر آپؑ کے اختیار میں ہے اور تمام لشکر امام  کے اختیار میں دے دیں گے۔

پھر حضرت مہدی (عج) اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ساتھ شہر بشہر آگے بڑھیں گے اور جس شہر سے بھی گذریں گے وہاں امن و امان قائم ہوجائے گا اور اہل شہر بشارت پائیں گے۔ حضرت مہدی (عج) کے دائیں جانب جبرئیل ہوں گے اور بائیں سمت میکائیل ہوں گے۔ اور دنیا بھر سے لوگ ان کے گرد جمع ہوجائیں گے ۔ اور (جب سپاہ مہدی (عج) و سپاہ سفیانی کا سامنا ہوگا تو) خداوند عالم سفیانی اور اس کے لشکر والوں پر اپنا غضب نازل کرے گا اور تمام مخلوقات الٰہی یہاں تک کہ آسمان کے پرندے بھی اپنے پروں سے ان پر (پتھر) برسائیں گے نیز پہاڑ بھی اپنے پتھر ان پر برسائیں گے۔ اس واقعہ میں خداوند عالم سفیانی لشکر کے تمام سپاہیوں کو ہلاک کردے گا اور سفیانی فرار ہوجائے گا۔

موالیان مہدی (عج) میں سے "صباح" نامی ایک شخص سفیانی کو گرفتار کرکے حضرت مہدی (عج) کے حضور پیش کردے گا جبکہ سفیانی کا عمامہ اس کے گلے میں لپٹا ہوگا اور اسے کشاں کشاں پھرا کر حضرت مہدی (عج) کے پاس لایا جائے گا۔ پھر وہ حضرت مہدی (عج) کے سامنے کھرے ہوکر کہے گا: اے پسر عمو! مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے زندہ رہنے دیجئے، میں تیز دھار تلوار کی مانند آپ کی خدمت میں رہ کر آپ کے دشمنوں سے جنگ کرتا رہوں گا۔

حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) اپنے اصحاب سے فرمائیں گے: اسے چھوڑ دو!

اصحاب عرض کریں گے: اے بنت نبیؐ کے لعل! کیا آپ اس پر احسان کرتے ہوئے اسے زندہ چھوڑ رہے ہیں جس نے اولاد رسولؐ خدا کو قتل کیا ہے۔ ہمارے لئے یہ بات ناقابل تحمل ہے۔

پس حضرت مہدی (عج) فرمائیں گے: ٹھیک ہے اسے لے جاؤ اور جو چاہو اس کے ساتھ رویہ اختیار کرو، جب سفیانی کا سر قلم کرکے حضرت مہدی (عج) کے حضور لائیں گے تو آپؑ کے چاہنے والے اس کا سر دیکھ کر با آواز بلند تکبیر، لا الہ الّا اللہ اور حمد الٰہی ادا کریں گے۔ پھر حضرت مہدی (عج)، سفیانی کو دفن کرنے کا حکم فرمائیں گے۔

حضرت مہدی (عج) کو مہدی (عج) کیوں کہتے ہیں؟

۱۱ ۔ یوسف بن یحیی مقدسی شافعی(۲۳) نے روایت نقل کی ہے:

"عَنْ جَابِر بۡنِ عَبۡدِ الله قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ عَلى اَبِي جَعْفَر مُحَمَّدِ بن عَلیٍّ الْبَاقِرِ علیه ما السلام، فَقَالَ لَهُ: اِقْبِضْ مِنِّي هَذِهِ الْخَمْسَمِأَة دِرْهَم، فَاِنَّهَا زَكَاةُ مَالِي فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ : خُذْهَا أَنْتَ فَضَعْهَا فِي جِيرانِكَ مِنْ أَهْلِ الْاِسْلَامِ وَ الْمَسَاكِينِ مِنْ اِخْوَانِكَ الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ قَالَ : اِذَا قَامَ مَه دیُّنا اَهْلَ الْبَيْتِ قَسَمَ بِالسَّوِيَّةِ، وَ عَدَلَ فِي الرَّعِيَّةِ، فَمَنْ أَطَاعَهُ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ وَ مَنْ عَصَاهُ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَ إِنَّمَا سُمِّيَ الْمَهْدِيُّ لِأَنَّهُ يُهْدَى إِلَى أَمْرٍ خَفِيٍّ "

جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ ایک شخص حضرت امام محمد باقر  کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؑ مجھ سے یہ پانچ سو درہم قبول کر لیجئے کہ یہ میرے مال کی زکات ہے۔ امام  نے فرمایا: یہ پانچ سو درہم تم خود ہی اپنے پڑوسی مسلمان مساکین میں تقسیم کردو۔

پھر آپؑ نے فرمایا: جب ہم اہل بیت علیھم السلام میں سے مہدی (عج) قیام کریں گے تو وہ اموال کو مساوی تقسیم کریں گے اور لوگوں میں عدالت قائم کریں گے، پس جس نے بھی مہدی (عج) کی اطاعت کی گویا اس نے خداوند عالم کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے گویا خداوند عالم کی نافرمانی کی، اور انہیں مہدی (عج) اس لئے کہتے ہیں کہ انہیں مخفی امر کی ہدایت کی گئی ہے۔

یاد رکھو "حجۃ اللہ"، بیت اللہ کے نزدیک ظہور فرمائیں گے

۱۲ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۲۴) نے فرائد السمطین حموینی سے روایت نقل کی ہے:

"وَ فیه ِ عَنِ الۡحَسَنِ بن خالِد قالَ، عَلیُّ بن مُوسَی الرِّضا رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُ: لا دینَ لِمَن لا وَرَعَ لَه ُ وَ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ الله ِ اَتۡقاکُمۡ ای اَعۡمَلُکُم بِالتَّقۡوی ثُمَّ قالَ اِنَّ الرَّابِعُ مِنْ وُلْدِي اِبْنُ سَيِّدَةِ الْإِمَاءِ يُطَهِّرُ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ مِنْ كُلِّ جَوْرٍ وَ ظُلۡمٍ وَ هُوَ الَّذِي يَشُكُّ النَّاسُ فِي وِلَادَتِهِ وَ هُوَ صَاحِبُ الْغَيْبَةِ فَإِذَا خَرَجَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّه ا وَ وَضَعَ مِيزَانَ الْعَدْلِ بَيْنَ النَّاسِ فَلَا يَظلُمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ هُوَ الَّذِي تَطْوى لَهُ الْاَرْض وَ لَا يَكُونُ لَهُ ظِلٌّ وَ هُوَ الَّذِي يُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ يَسْمَعُهُ جَمِيعُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلَا إِنَّ حُجَّةَ اللَّهِ قَدْ ظَهَرَ عِنْدَ بَيْتِ اللَّهِ فَاتَّبِعُوهُ فَإِنَّ الْحَقَّ فِيه ِ وَ مَعَهُ وَ ه ُوَ قَوۡلُ الله ِ عَزَّوَجَلَّ ( إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ ) (شعراء/ ۴)"

فرائد السمطین میں حسن بن خالد سے روایت کی گئی ہے، وہ کہتے ہیں: علی بن موسیٰ الرضا  فرماتے ہیں: جو شخص پرہیز گار نہیں اس کا کوئی دین نہیں اور تم میں جو صاحب تقویٰ ہے وہ اللہ کے نزدیک مکرم و محترم ہے یعنی اس کے اعمال تقویٰ کی بنیاد پر ہوں۔

پھر آپؑ نے فرمایا: میری چوتھی نسل کا بیٹا سیدۃ الاِماء کا فرزند ہوگا۔ خداوند عالم اس کے ذریعے زمین کو ظلم و جور سے پاک کردے گا، لوگ اس کی ولادت میں شک کریں گے، وہ صاحب غیبت ہے۔ پس جب وہ خروج کرے گا تو زمین پروردگار کے نور سے منور ہوجائے گی، لوگوں کے درمیان میزان عدل قائم ہوگا پھر کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے گا، زمین اس کے لئے سمٹ جائے گی (یعنی وہ طی الارض کرے گا)۔ اس کا سایہ نہ ہوگا، اس کے ظہور کے وقت منادی آسمان سے ندا دے گا جسے سب لوگ سنیں گے کہ آگاہ ہوجاؤ کہ بیت اللہ کے نزدیک حجۃ اللہ کا ظہور ہوچکا ہے، اس کی پیروی کرو کہ یہی مجسم حق ہے اور گویا وہ اس آیت کریمہ کا مصداق ہوگا: اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کر دیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساتھ جھک جائیں۔ (شعرا/ ۴)

مہدی موعود (عج)۔ خلف صالح ہیں اور ان کا نام "م، ح، م، د" ہے

۱۳ ۔ نیز روایت کرتے ہیں(۲۵) کہ حافظ ابو نعیم نے ابن خشاب سے کہ انہوں نے موسیٰ ابن جعفر  سے روایت کی ہے؛ آپ  فرماتے ہیں:

"اَلْخَلَفُ الصَّالِحُ مِنْ وُلْدِي وَ هُوَ الْمَهْدِيُّ اسْمُهُ مُحَمَّد وَ كُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يُقَالُ لِأُمِّهِ صَیقَلُ وَ ه ُوَ ذُو الۡاِسۡمَینِ "خَلَفۡ وَ مُحَمَّد" يَظْهَرُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ "

خلف صالح میری اولاد میں سے ہے، وہی مہدی ہے اور اس کا نام "م، ح، م، د" ہے اور اس کی کنیت ابو القاسم ہے، وہ آخر زمانہ میں خروج کرے گا، ان کی والدہ کو "صیقل" کہتے ہیں، اس کے دو نام ہیں"خلف" اور "م، ح، م، د" وہ آخر زمانہ میں ظہور کرےگا۔

حجت آل ؑمحمدؐ، مہدی و قائم اہل بیت علیھم السلام

۱۴ ۔ ابو الحسن علی بن حسین صاحب مروج الذھب (متوفی ۳۳۳ ھ) نے کتاب اثبات الوصیہ(۲۶) میں علی بن محمد سندی کے حوالے سے حضرت ابو الحسن صاحب عسکر  سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

"اَلۡخَلَفُ مِنۡ بَعۡدی اِبۡنی الۡحَسَنُ فَکَیۡفَ لَکُمۡ بِالۡخَلَفِ مِنۡ بَعۡدِ الۡخَلَفِ ؟ فَقُلۡتُ: وَ لِمَ جَعَلَنِیَ الله ُ فِداکَ ؟ فَقالَ : لَاَنَّکُمۡ لا تَرَوۡنَ شَخۡصَه ُ وَلا یَحِلُّ لَکُمۡ ذِکۡرُه ُ بِاسۡمِه ، قُلۡتُ: فَکَیۡفَ نَذۡکُرُه ُ ؟ قالَ: قوُلوُا: اَلۡحُجَّةُ مِنۡ آلِ مُحَمَّدٍ وَ الۡمَه ۡدی، وَ قائِمُ اَه ۡلِ الۡبَیۡت "

میرے بعد میرا بیٹا حسن میرا جانشین ہے، پس میرے جانشین کے جانشین کے ساتھ تمہارا رویہ کیسا ہوگا؟ میں نے عرض کیا: آپؑ ایسا سوال کیوں فرما رہے ہیں۔ امام ہادی  نے فرمایا: کیونکہ تم اسے دیکھ نہ سکو گے اور تمہارے لئے اس کا نام لینا بھی جائز نہ ہوگا؟ میں نےعرض کیا: تو پھر ہم انہیں کس طرح یاد کریں ؟ فرمایا: تم اسے حجت آل محمدؑ، مہدی، اور قائم اہل بیت، کہا کرنا۔

نکتہ: اسی باب کی پہلی فصل کے آخر میں مسعودی کی روایت نقل کرچکے ہیں کہ انہوں نے امام ہادی  سے مسنداً روایت کی ہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت مہدی (عج) کا نام "م، ح، م، د" لینا جائز نہیں ہے۔

مہدی موعود (عج) خلف زکی فرزند حسن بن علی‘ ہے

۱۵ ۔ نیز انہوں(۲۷) نے ابو ا لحسن محمد بن جعفر اسدی سے انہوں نے احمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے:

"دَخَلۡتُ عَلی خَدیجَة بِنۡتِ مُحَمَّدِ بن عَلیّ الرِّضا اُخۡتِ اَبی الۡحَسَنِ الۡعَسۡکَرِ فی سَنَةِ اِثۡنَیۡنِ وَ ستّین وَ مأَتَیۡنِ بِالۡمَدِینَةِ، فَکَلَّمۡتُه ا مِنۡ وَراءِ حِجاب وَ سَئَلۡتُه ا عَنۡ دینِه ا فَسَمَّتۡ لی مَن تَأَتَّمۡ بِه ِم ثُمَّ قالَتۡ: وَ الۡخَلَفُ الزَّکی اِبۡنُ الۡحَسَنِ بۡنِ عَلیّ اَخیِ، فَقُلتُ لَه ا :جَعَلَنِیَ الله ُ فِداکِ مُعایِنةً اَوۡ خَبَراً؟

فَقالَتۡ : خَبراً عَنۡ اِبۡنِ اَخی اَبی مُحَمَّد علیه السلام کَتَبَ بِه اِلی اُمِّه ِ، فَقُلۡتُ لَه ا : فَاَیۡنَ الۡوَلَدُ فَقَالَتۡ: مَستُورٌ (وَساقَ الحَدیث اِلی اَنۡ قالَ) ثُمَّ قالَتۡ اِنَّکُمۡ قَوۡمُ اَصۡحابِ اَخۡبارٍ وَ رِجالٍٍ وَ ثقاتٍ، اَما رَوَیۡتُمۡ اَنَّ التّاسِعَ مِنۡ وُلۡدِ الۡحُسَیۡنِ یَقسِمُ میراثه ُ وَ ه ُوَ حَیٌّ باقٍ؟ "

میں ۲۶۲ ھ میں مدینہ منورہ میں حضرت امام محمد تقی  کی دختر نیک اختر اور امام ہادی  کی خواہر عزیز جناب خدیجہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پشت پردہ سے ہمکلام ہوا اور ان سے ان کے مذہب (یعنی مذہب اہل بیت علیھم السلام کے بارے میں سوال کیا، آپؑ نے اپنے مذہب کے بارے میں کچھ تفصیلات و توضیحات بیان کیں پھر فرمایا: خلف زکی (مہدی موعود (عج)) میرے بھائی حسن بن علی کے فرزند امام حسن عسکری  کے فرزند کا نام ہے۔ میں نے عرض کیا: جن کا آپؑ تذکرہ کر رہی ہیں کیا خود آپؑ نے بھی انہیں درک کیا ہے، یا صرف بعنوان خبر بیان کر رہی ہیں؟

آپؑ نے فرمایا: یہ خبر ہے جو میں نے اپنے بھتیجے ابو محمد (امام حسن عسکری  ) سے سنی ہے، جس وقت انہوں نے اپنی والدہ کے لئے یہ خبر لکھی تھی تو میں نے اس وقت سوال کیا یہ خلف زکی کہاں ہے؟ والدہ نے فرمایا: پردۂ غیبت میں ہے (حدیث جاری ہے یہاں تک کہ راوی کا کہنا ہے کہ) پھر جناب خدیجہ نے فرمایا: بیشک تم اصحاب خیر و رجال میں سے ہو اور قابلِ اطمینان ہو۔ کیا یہ روایت نہیں کی گئی ہے کہ حسین  کی اولاد میں نویں نسل میں مہدیؑ موعود ہوں گے اور وہ زندہ رہیں گے؟

نکتہ: حضرت خدیجہ بنت امام جواد محمد تقی  ، حضرت فاطمہ معصومہ کریمہ اہل بیت علیھم السلام کی طرح امام کی بیٹی، امام کی بہن (خواہر امام ہادیؑ) اور امام حسن عسکری کی پھوپھی ہیں لہذا یہ بی بی پاک اہل بیت علیھم السلام میں سے ہیں اور یہ قانون ہے کہ "اَہلُ البیت اَدری بما فی البیت؛ یعنی جو کچھ گھر میں واقع ہوتا ہے وہ گھر والے ہی جانتے ہیں" لہذا یہ بی بی حضرت امام حسن عسکری  کے گھر میں رونما ہونے والے واقعات سے کاملاً باخبر تھیں اور ناقابل بیان مقام و مرتبہ پر فائز تھیں۔ بنابرایں جب ہم آپؑ کے کلام و گفتار پر غور و فکر کرتے ہیں تو آپؑ نے سائل کے سوال کے مقابلے میں دو باتوں سے استناد کیا ہے:

۱ ۔ وہ خبر مکتوب کہ جسے امام حسن عسکری  نے اپنی والدہ گرامی کے لئے تحریر فرمایا اور اس میں اپنی والدہ ماجدہ کو حضرت مہدی آل ؑمحمدؐ کی خبر دی ہے۔

۲ ۔ اہم خبر، جو کہ اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ سے نقل ہوئی ہے اور ہم نے اسے پہلے باب میں "رسول خدا کی بشارتیں" کے عنوان کے زیر تحت بیان کیا تھا کہ آپ نے فرمایا: مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف ، حسین  کی نویں نسل میں ہوں گے، ہم آئندہ روایات اثنا عشریہ کے ذیل میں خصوصیت کے ساتھ بیان کریں گے کہ آپؐ نے فرمایا: میرے بعد میرے بارہ جانشین ہوں گے، ان میں پہلے علی پھر حسن پھر حسین علیھم السلام اور آخری (جو کہ حسین کی نویں نسل میں ہیں) قائم ہوں گے۔

نکتہ: دلچسپ اور اہم بات جو کہ جناب خدیجہ کے بیان میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ نے دوسرے استناد یعنی روایت نبوی کو "قطعی الصدور یعنی قطعی و یقینی خبر" مانا ہے اور اسے متفق علیہ روایت کے طور پر پیش کیا ہے اسی لئے آپؑ نے بطور سوال فرمایا: کیا نبی کریمؐ سے روایت نہیں کی گئی ہے کہ حسین  کی نویں نسل میں آنے والا فرزند ہی مہدی موعود (عج) ہے؟

یعنی مطلب یہ ہے کہ یقیناً روایت کی گئی ہے اور تم ثقات و رجالِ روایات اور اصحاب خبر میں سے ہو۔ لہذا تم جانتے ہو کہ پیغمبر گرامی قدر نے یہ فرمایا تھا۔

نتیجہ:

ہم نے اس فصل میں کتب اہل سنت میں مرقوم روایات اہل بیت علیھم السلام میں سے ۱۵ روایات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کی ہیں جن سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

حضرت مہدی (عج) کا نام نبی کے نام "محمدؐ" جیسا ہے، آپؑ کی کنیت ابو القاسم و ابو عبد اللہ ہے، مذکورہ ۱۵ روایات میں آپ کے القاب یہ ہیں: خاتم الائمہ، منقذ الاُمہ، حجت اللہ، حجت آلؑ محمدؐ، خلف صالح، خلف زکی، صاحب الزمان، مہدی، قائم اہل بیت۔

اگر دونوں فصلوں کی تمام روایات یعنی ۴۰ روایات پر غور کیا جائے تو ان کی روشنی میں آپ کا نام پیغمبر گرامی قدر کے نام "محمد" و "احمد" جیسا ہے، کنیت ابو القاسم و ابو عبد اللہ ہے اور القاب یہ ہیں: مہدی، قائم (قائم اہل بیت، قائم مہدی)، حجت (حجت اللہ، حجت آل محمدؐ)، منتظر، خلیفۃ اللہ، صاحب الزمان، خلف صالح، خلفِ زکی، خاتم الائمہ، منقذ الاُمہ۔

پس مجموعاً دو اسم، دو کنیتیں اور ۱۴ القاب کتب اہل سنت میں ذکر کئے گئے ہیں۔

نکتہ: رسول اکرمؐ اور اہل بیت علیہم السلام سے نقل شدہ تمام روایات جن میں حضرت مہدی علیہ السلام کا نام ذکر کیا گیا ہے وہ اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ لقب منجی عالم بشریت جو کہ آخر زمانہ میں ظہور کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، "مہدی" ہے۔

حضرت مہدی (عج) کے اسم، کنیت اور لقب کے بارے میں علمائے اہل سنت کی تصریحات

۱ ۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۲۸) ، معروف عالم اہل سنت خواجہ محمد پارسا کی کتاب فصل الخطاب سے نقل کرتے ہیں: ائمہ اہل بیت عصمت و طہارت میں سے ایک "ابو محمد امام حسن عسکری  " ہیں، جو ۲۳۱ ہجری بروز جمعہ ۶ ربیع الاول کو متولد ہوئے، اپنے والد بزرگوار (امام علی نقیؑ) کے بعد ۶ سال فریضہ امامت ادا کرنے کے بعد والد ماجد کے پہلو (سامرا) میں دفن کئے گئے۔ پھر لکھتے ہیں: "لَمۡ یُخَلّفۡ وَلَداً غَیۡرَ اَبیِ الۡقاسِمِ مُحَمَّدٍ الۡمُنۡتَظَرِ الۡمُسَمّی بِالۡقائِمِ وَ الۡحُجَّةِ وَ الۡمَه ۡدی وَ صاحِبِ الزَّمانِ وَ خاتَمِ الۡاَئِمَّةِ الۡاِثۡنا عَشَرَ عِنۡدَ الۡاِمامیَّةِ وَ کانَ مُولِدُ الۡمُنۡتَظَرِ لَیۡلَةَ النِّصۡفِ مِنۡ شَعۡبان سَنَة خَمسۡ وَ خَمۡسینَ وَ مِأۡتَیۡنِ، اُمُّه ُ اُمُّ وَلَد یُقالُ لَه ا نَرۡجِسُ توفّی اَبوُه ُ وَ ه ُوَ اِبۡنُ خَمۡس سِنینَ فَاخۡتَفی اِلَی الۡآن "

ابو القاسم محمد المنتظر کے علاوہ امام حسن عسکری  کے کوئی بیٹا باقی نہ تھا انہی کو قائم، حجت، مہدی، صاحب الزمان، خاتم الائمہ اثنا عشر امامیہ کہتے ہیں۔

اس امام منتظر کی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوئی ہے، ان کی والدہ ماجدہ ام وَلَد ہیں اور انہیں نرجس کہا جاتا ہے۔ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک ۵ سال تھی اور آج تک آپ مخفی و پنہان ہیں۔

اس عالم اہل سنت کے کلام میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے نام اس طرح بیان کر رہے ہیں یعنی: قائم، محمد، منتظر، حجت، مہدی، صاحب الزمان، خاتم الائمہ (شیعہ اثنا عشری کے مطابق) جبکہ ہم نے اس کتاب(۲۹) میں علمائے اہل سنت کی کتب سے پیغمبر اسلام کی نقل شدہ روایات بیان کی تھیں جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ کے بارہ جانشین ہوں گے جو سب قریش اور بنی ہاشم سے ہوں گے اور ان میں آخری مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہوں گے۔ ہم اس سلسلہ میں روایات اثنا عشری کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

۲ ۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی متوفی ۹۷۴ ہجری کے جن کا شمار اہل سنت کے متعصب ترین علماء میں ہوتا ہے، اپنی کتاب صواعق محرقہ میں امام حسن عسکری  کے حالات کے ذیل میں رقمطراز ہیں:

"وَ لَم یُخَلّف غَیۡرَ وَلَدِه اَبِی الۡقاسِمِ مُحَمَّدٍ الۡحُجَّةِ وَ عَمۡرُه ُ عِنۡدَ وَفاتِ اَبیه ِ خَمۡسَ سِنینَ لکِن اَتاه ُ الله ُ فیه َا الۡحِکۡمَةَ وَیُسَمَّی الۡقائِمُ الۡمُنۡتَظَر لِاَنَّه ُ بِالۡمَدینَةِ وَ غاَبَ فَلَمۡ یُعۡرَفۡ اَیۡنَ ذَه َبَ "

ابو القاسم محمد الحجۃ کے علاوہ آنجناب  کے کوئی فرزند نہ تھا جس کی عمر اپنے والد کے انتقال کے وقت صرف پانچ سال تھی لیکن خداوند عالم نے انہیں اس سن طفولیت میں حکمت عطا فرمائی تھی، اسی کو قائم اور منتظر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ غائب ہوگئے اور معلوم نہیں کہ کہاں گئے۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابن حجر مکی تصریح کر رہے ہیں کہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کو پانچ سال کی عمر میں اذن الٰہی سے علم لدنی یعنی حکمت الٰہی عطا ہوئی اور یہ خود شیعہ اثنی عشری مذہب کی حقانیت کی دلیل ہے۔

ابن حجر کی گفتار میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ آنجناب کے نام بھی بیان کر رہے ہیں یعنی ابو القاسم، محمد، حجت، قائم اور منتظر نیز آنجناب کے غائب ہونے کی تصریح کر رہے ہیں اور یہ بات فریقین یعنی شیعہ و اہل سنت کی کتب میں نبی کریم ؐ و اہل بیت علیہم السلام سے نقل شدہ روایات کے عین مطابق ہے۔

۳ ۔ ابو المظفر یوسف شمس الدین سبط ابن جوزی متوفی ۶۵۴ ہجری معروف عالم اہل سنت اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں لکھتے ہیں:

"ه َوَ مُحَمَّدُبن الۡحَسَنِ بن عَلیِّ بۡن مُحَمَّدِ بن عَلیِّ بن مُوسَی الرِّضا بن جَعۡفَر بۡنِ مُحَمَّدِ بن عَلیّ بۡن الۡحُسَینِ بن عَلیّ بۡن اَبیطالب علیه م السلام وَ کُنۡیَتُه ُ اَبُو عَبۡدِ الله ِ وَ اَبُو الۡقاسِمِ وَ ه ُوَ الۡخَلَفُ الۡحُجَّةُ صاحِبُ الزَّمانِ الۡقائِمُ وَ الۡمُنۡتَظَرُ وَ التّالی وَ آخِرُ الۡاَئِمَّةِ، اَخۡبَرَنا عَبۡدُ الۡعَزیزِ بن مَحۡمُودِ بن الۡبَزّاز، عَنۡ اِبۡنِ عُمَر، قالَ، قالَ رَسولُ الله ﷺ: یَخُرُجُ فی آخِرِ الزَّمان رَجُلٌ مِنۡ وُلۡدی اِسۡمُه ُ کَاِسۡمی وَ کُنۡیَتُه ُ کَکُنۡیَتی یَمۡلَأُ الۡاَرۡضَ عَدۡلاً کَما مُلِئَتۡ جَوۡراً فَذلِکَ ه َوَ الۡمَه ۡدی، وَ ه ذا حَدیثٌ مَشۡه ُورٌ، وَ قَدۡ اَخۡرَجَ اَبُو داوُد عں الزُّه ری عَنۡ عَلیٍّ بِمَعۡناه ُ وَ فیه ِ: لَوۡ لَمۡ یَبۡقَ مِنَ الدَّه ۡرِ اِلّا یَوۡمٌ واحِدٌ لَبَعَثَ الله ُ مِنۡ اَه ۡلِ بَیۡتی مَنۡ یَمۡلَأُ الۡاَرضَ عَدلاً، وَ ذِکرُه ُ فی رِوایات کَثیرَة وَ یُقالُ لَه ُ ذُو الۡاِسۡمِیۡن مُحَمَّدُ وَ اَبُو الۡقاسِمِ، قالوُا اُمُّه ُ اُمُّ وَلَد یُقالُ لَه ا صَیۡقَلُ وَ قالَ السّدی یَجۡتَمِعُ الۡمَه ۡدی وَ عیسیَ بن مَرۡیَمَ فَیَجیءُ وَقۡتُ الصَّلاةِ فَیَقوُلُ الۡمَه ۡدی لِعیسی تَقَدَّم، فَیَقُولُ عیسی اَنۡتَ اَوۡلی بِالصَّلوه ِ فَیُصَلّی عیسی وَرائَه ُ مَأۡمُوماً "

وہ محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام ہیں۔ ان کی کنیت ابو عبد اللہ و ابو القاسم ہے، یہی خلف، حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر، تالی، آخر الائمہ ہیں۔

عبد العزیز محمود بزاز نے عبد اللہ بن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آخر زمانہ میں میری ذریت میں سے ایک شخص خروج کرے گا جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا، اس کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح اس سے قبل وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی، یاد رکھو یہی شخص مہدی (عج) ہوگا۔

یہ روایت جسے عبد اللہ بن عمر نے رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہے مشہور و معروف حدیث ہے۔ نیز ابو داؤد نے زہری کے توسط سے حضرت علی علیہ السلام سے بھی اسی جیسی روایت نقل کی ہے، اس روایت میں آپؑ نے فرمایا: اگر دنیا کے تمام ہونے میں صر ف ایک دن ہی باقی رہ جائے گا تب بھی خداوند عالم میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ کثرت سے روایات میں وارد ہوا ہے کہ مہدی (عج) کے دو نام محمد اور ابو القاسم ہیں۔ ان کی والدہ ام ولد ہیں انہیں صیقل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سدّی کہتے ہیں: مہدی (عج) و عیسیٰ بن مریم یکجا ہوں گے اور نماز کے وقت مہدی (عج) عیسیٰ سے کہیں گے آپ آگے آئیے اور جماعت کی امامت کیجئے۔ عیسیٰ عرض کریں گے: آج یہ منصب آپ ہی کے لئے سزوار ہے اور پھر عیسیٰ، مہدی (عج) کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔

نکات:

اول۔ محترم قارئین اگر اس عالم اہل سنت کی گفتار پر بغیر یہ دیکھے غور کریں کہ یہ کہنے والا کون ہے تو آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ ان روایات کے عین مطابق ہے جو ہم نے ان دو ابواب میں کتب اہل سنت سے نقل کی ہیں۔ نیز شیعہ اثناء عشری کے عقائد کے مطابق بھی ہیں اور یہ شیعہ مذہب کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ ایک ایسا عالم جو اکثر علماء اہل سنت کی نظر میں قابل اطمینان ہی نہیں بلکہ بزرگ علماء اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں؛ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کا نسب ذکر کرنے کے بعد ان کے اسم و کنیت اور القاب کو اپنی مشہور کتب میں نقل شدہ روایات کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔ ان کی یہ گفتار شیعہ اثنی عشری عقائد سے اتنی مطابقت رکھتی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہوں کہ یہ کس کا کلام ہے اور کس کی گفتار ہے تو وہ فورا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ گویا یہ کلام علامہ مجلسی ؒ جیسے کسی عالم کا کلام ہے۔

دوم۔ عالم اہل سنت خواجہ محمد پارسا (جن کا ذکر گذشتہ صفحات پر کر چکے ہیں) حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے القاب ذکر کرتے ہوئے کہتے ہین: "خاتم الائمہ اثنا عشر عند الامامیہ" یعنی شیعہ اثناء عشری کے نزدیک ایک لقب "خاتم الائمۃ " ہے۔

البتہ سبط ابن جوزی نے ایک لقب "آخر الائمہ" تسلیم کیا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ لقب شیعوں کے نزدیک ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ روایات میں تصریح موجود ہے کہ مہدی موعود (عج)، حسین  کی نسل میں نویں فرزند، اور رسول اللہؐ کے بارہویں جانشین ہوں گے۔ خصوصاً روایات اثنا عشری(۳۰) میں یہ حقیقت بھرپور انداز سے آشکار ہے جو ہم آئندہ بیان کریں گے جیسا کہ گذشتہ صفحات پر کلمہ بعدی پر اشکال کے جواب میں مختصر توضیح دے چکے ہیں۔

سوم۔ سبط ابن جوزی اپنی کتاب میں بیان کر رہے ہیں کہ حضرت مہدی (عج) کا نام محمد اور کنیت ابو القاسم ہے انہوں نے آنجناب کے اس نام و کنیت کے بارے میں رسولؐ اکرم سے نقل شدہ روایت سے استناد کیا ہے اور حضرت مہدی (عج) کے یہ القاب بیان کئے ہیں: خلف، حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر، تالی، آخر الائمہ۔ پس آنجناب کے القاب میں سے ایک لقب "تالی" ہے جو کہ گذشتہ روایات میں نقل نہیں ہوا (پس مجموعی طور پر ۱۵ القاب نقل ہوئے ہیں)۔

چہارم۔ سبط ابن جوزی تصریح کر رہے ہیں کہ حضرت مہدی (عج) کی والدہ اُمّ ولد ہیں اور انہیں صیقل کہا جاتا ہے یہی نام شیعہ کتب مثلاً منتہی الآمال تالیف شیخ عباس قمی اور جلاء العیون تالیف علامہ مجلسی میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مہدی (عج) کی والدہ کے اسماء میں سے ایک نام "صیقل" بھی ہے۔

۴ ۔ معروف عالم اہل سنت جناب شیخ کمال الدین ابو سالم بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۲ ہجری صاحب کتاب معروف مطالب السئول فی مناقب آل رسول، اپنی دوسری کتاب الدّرر المنظم(۳۱) میں لکھتے ہیں:

"وَ اِنَّ لِله ِ تَبارَکَ وَ تَعالی خَلیفَةٌ یَخۡرُجُ فی آخِرِ الزَّمانِ وَ قَدۡ اُمۡتُلِأَتِ الۡاَرۡجُ جَوراً وَ ظُلۡماً فَیَمۡلَأُه ا قِسۡطاً و عَدۡلاً … وَ ه ذا اَلۡاِمامُ الۡمَه ۡدی اَلۡقائِمُ بِاَمۡرِ الله ِ یَرۡفَعُ الۡمَذاه ِبَ فَلا یَبۡقی اِلَّا الدّینُ الخالِصُ "

بتحقیق آخری زمانہ کے لئے خداوند عالم کا ایک ایسا خلیفہ ہے جو ظلم و جور سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور وہ خلیفہ حضرت امام مہدی (عج) جو امر الٰہی کو قائم کریں گے اور تمام (باطل) مذاہب کو نابود کر دیں گے اور صرف خالص دین الٰہی ہی زمین پر نافذ ہوگا۔

محمد بن طلحہ شافعی اپنی کتاب مطالب السئول فی مناقب آل الرسول باب نمبر ۱۲ میں لکھتے ہیں:"اَلۡبابُ الثّانی عَشَرَ : فی اَبِی الۡقاسِمِ مُحَمَّدِ بن الۡحَسَنِ الۡخالِصِ بن عَلیٍّ الۡمُتوَکِّلِ بن مُحَمَّدٍ الۡقانِعِ بن عَلیٍّ الرَّضیِّ بن مُوسَی الۡکاظِمِ بن جَعۡفَرٍ الصّادِقِ بن مُحَمَّدٍ الۡباقِرِ بن عَلیٍّ زِیۡنَ الۡعابِدینَ بن الۡحُسَیۡنِ الزَّکیِّ بن عَلیٍّ الۡمُرۡتَضی اَمیرِ الۡمُؤۡمِنینَ بن ابیطالِبٍ، اَلۡمَه ۡدیِ الۡحُجَّةِ الۡخَلَفِ الصّالِحِ المُنۡتَظَرِ وَ رَحۡمَةُ الله ِ وَ بَرکاتُه ُ " یعنی بارہواں باب ابو القاسم محمد بن حسن الخالص (عسکری) بن علی متوکل (ہادی) بن محمد قانع (جواد) بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین زکی بن علی مرتضی امیرالمؤمنین بن ابی طالب‘ کے بارے میں ہے جن کے القاب یہ ہیں: مہدی (عج)، حجت، خلف صالح اور منتظر رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

۵ ۔ سید مؤمن بن حسن (مؤمن شبلنجی) متوفی ۱۲۹۱ ہجری اپنی معروف کتاب "نور الابصار فی مناقب آلِ بیت النبی المختار" باب نمبر ۲ ، صفحہ نمبر ۱۵۲ میں لکھتے ہیں: "فَصۡلٌ : فی ذِکۡرِ مَناقِبِ مُحَمَّدِ بن الۡحَسَنِ الۡخالِصِ بن عَلیٍّ الۡه ادی بن مُحَمَّدٍ الۡجَوادِ بن عَلیٍّ الرَّضیِّ بن مُوسَی الۡکاظِمِ بن جَعۡفَرٍ الصّادِقِ بن مُحَمَّدٍ الۡباقِرِ بن عَلیٍّ زِیۡنَ الۡعابِدینَ بن الۡحُسَیۡنِ بن عَلیٍّ بۡنِ اَبیطالِبٍ رَضِیَ الله ُ عَنۡه ُمۡ اَمُّه ُ اُمُّ وَلَد یُقالُ لَه ا نَرۡجِسُ وَ قیلَ صَیۡقَلُ وَ قیل سُوسَنُ وَ کُنۡیَتُه ُ اَبُو الۡقاسِمِ وَ لَقَّبَه ُ الۡاِمامِیَّةُ بِالحُجَّةِ وَ اَلۡمَه ۡدیِ وَ الۡقائِمِ وَ الۡمُنۡتَظَرِ وَ صاحِبِ الزَّمانِ وَ اَشۡه َرُه ا الۡمَه ۡدی "

کتاب کی یہ فصل محمد بن حسن الخالص بن علی الہادی، بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کے مناقب میں ہے، ان کی والدہ امّ ولد ہیں اور انہیں نرجس، صیقل اور سُوسَن کہا جاتا ہے، آپ کی کنیت ابو القاسم ہے اور امامیہ والے انہیں حجت، مہدی، قائم، منتظر اور صاحب الزمان کے القاب سےیاد کرتے ہیں کہ ان میں مشہور ترین لقب "مہدی" ہے۔

نکتہ: جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا یہ عالم اہل سنت جب حضرت مہدی (عج) کے القاب کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ امامیہ نے انہیں حجت، مہدی، قائم، منتظر اور صاحب الزمان القاب دیئے ہیں حالانکہ:

اولاً: ہم نے اب تک علمائے اہل سنت کی متعد کتب کا تذکرہ کیا ہے جن میں صراحت کے ساتھ حضر ت مہدی موعود کے القاب بیان کئے گئے ہیں بلکہ بعض بہت سے علمائے اہل سنت نے تو ان القاب کی باقاعدہ تصریح فرمائی ہے۔

پس اگر کوئی منصف مزاج کتب اہل سنت میں حضرت مہدی (عج) موعود کے نام، کنیت اور لقب کے بارے میں نقل شدہ روایات کی جانچ پڑتال کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت مہدی(عج) موعود کو یہ القاب امامیہ نے نہیں دیئے ہیں بلکہ نبی کریمؐ اور اہل بیت اطہار علیھم السلام نے عطا کئے ہیں۔

ثانیاً: اگر یہ القاب صرف امامیہ ہی کے نزدیک ہیں تو پھر بزرگ علمائے اہل سنت نے اپنی کتابوں کے نام ان القاب پر کیوں رکھے ہیں۔ مثلاً:

البیان فی اخبار صاحب الزمان، تالیف محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی ۶۵۸ ۔

عقد الدرر فی اخبار المنتظر، تالیف یوسف بن یحیی مقدسی شافعی، ساتویں صدی ہجری کے بزرگ عالم اہل سنت۔

مناقب المہدی ، تالیف حافظ ابو نعیم اصفہانی۔

تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخر الزمان، تالیف ملا علی متقی ہندی، متوفی ۹۷۵ ہجری۔

نکتہ:مؤمن شبلنجی نے امام زمانہ کی والدہ ماجدہ کے یہ نام بیان کئے ہیں:نرجس، صیقل، سوسن۔

۶ ۔ ابو الولید ، محمد بن شحنۂ حنفی اپنی کتاب تاریخ "روضۃ المناظر فی اخبار الاوائل و الاواخر(۳۲) ، جلد نمبر ۱ ، ص ۲۹۴ پر رقمطراز ہیں: "وَ وُلِدَ لِه ذَا الۡحَسَن، (یعنی اَلۡحَسَنَ الۡعَسۡکَری ) وَلَدُه ُ الۡمُنۡتَظَر ثانی عَشَرَه ُمۡ وَ یُقالُ لَه ُ الۡمَه ۡدی وَ الۡقائِمُ وَ الۡحُجَّةُ وَ مُحَمَّدُ، وُلِدَ فی سَنَةِ خَمۡسَ وَ خَمۡسینَ وَ مِأَتَیۡنِ "

حسن عسکری  کے یہاں ان کے فرزند منتظر کی ولادت ہوئی جو ائمہ اہل بیت علیھم السلام میں سے بارہویں ہیں، انہی کو مہدی (عج)، قائم، حجت، محمد کہا جاتا ہے۔ ان کی ولادت با سعادت ۲۵۵ ہجری میں ہوئی ہے۔

____________________

۱ ۔چند صفحے قبل "دو چیزیں ممنوع ہیں" کے عنوان کے تحت بیان کرچکے ہیں کہ زمانۂ غیبت میں حضرت مہدی (عج) کا نام "م، ح، م، د" ذکر کرنا ممنوع ہے۔

۲ ۔معروف عالم اہل سنت جناب علاء الدین علی بن حسام الدین، المعروف بہ متقی ہندی متوفی ۹۷۵ ھ، کتاب البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، باب۳، بنابر نقل از منتخب الاثر، آیت اللہ صافی، طبع۱، موسسۂ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ، فصل۲، باب۳، ص ۲۳۷۔

۳ ۔ابو الحسن علی بن حسین مسعودی، صاحب مروج الذھب، متوفی ۳۳۳ھ، کتاب اثبات الوصیہ، بنابر نقل از مہدی قائم، عماد زادہ، طبع۶، انتشارات قائم، ۱۸۴۔

۴ ۔ینابیع المودۃ، باب۹، ص ۴۹۱، طبع۸، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ ھ۔

۵ ۔ایضاً۔

۶ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب۱، "فی بیان انہ من ذریّہ رسول اللہ و عترتہ" ص ۴۵ و باب ۲ فی اسمہ و خلقہ و کنیتہ، ص ۵۵۔

۷ ۔نکتہ: عقد الدّرر کے صفحہ ۴۵ پر نقل شدہ روایت اور ص ۵۵ پر نقل شدہ روایت میں مختصر اختلاف پایا جاتا ہے، ص ۵۵ پر جملہ رسول اللہ کے بجائے نبی آیا ہے اور جملہیَملأ الارض عدلاً بھی موجود نہیں ہے۔

۸ ۔قال رسول اللہ: الحسن و الحسین سَیِّدا شباب اہل الجنّۃ۔

۹ ۔امام زین العابدین  کی شادی امام حسن  کی دختر نیک اختر فاطمہ بنت حسنؑ سے ہوئی جو امام باقر کی والدہ قرار پائیں لہذا امام باقر پہلے امام ہیں جو حسنی بھی ہیں اور حسینی بھی۔

۱۰ ۔ناشر: مسجد مقدس جمکران، سا ۱۴۲۵ ھ۔

۱۱ ۔جیسا کہ صدر اسلام میں جنگ بدر کے موقع پر خداوند عالم نے تین ہزار فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی جس کا تذکرہ سورہ آل عمران آیات ۱۲۳ و ۱۲۴ میں موجود ہے۔

۱۲ ۔الفتن، ص ۱۰۱، "فی صفۃِ المہدی"۔

۱۳ ۔عقد الدرر، باب۳، فی عدلہ و حلیتہ، ص ۶۵، ناشر: مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ ھ۔

۱۴ ۔رسول اکرمؐ نے فرمایا: الحسن و الحسین ‘سَیِّدا شباب اَہلِ الجنۃ؛ یعنی حسن و حسین وجوانان جنت کے سردار ہیں۔

۱۵ ۔ینابیع المودۃ، باب۷۶، صفحۃ ۴۴۳، طبع۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۱۶ ۔مرحوم شیخ صدوق نے کمال الدین، ج۱، ص ۵۴۷، حدیث ۳، باب ۲۶ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے۔

۱۷ ۔اسی باب کی پہلی فصل کی ۲۴ ویں روایت۔

۱۸ ۔جیسا کہ پہلی فصل (رسول خداؐ کی بشارتیں) کی روایت نمبر ۱۲ میں ذکر کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم روایات اثنا عشری کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

۱۹ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب۴، فیما یظہر من الفتن الدالۃ علی ولایتہ، ص ۱۲۶۔

۲۰ ۔استاد عماد زادہ اپنی کتاب "زندگانی صاحب الزمان" میں رقمطراز ہیں: سفیانی ایک بد صورت انسان ہے جس کا سر بڑا ہے، آنکھیں نیلی ہیں، اس کا نام عثمان ہے اس کے باپ کا نام عتبہ یا غتبہ یا عَنبثہ ہے وہ ابو سفیان بن حرب کی اولاد سے ہے۔ اسے سفیان بن حرب اور سفیان بن قیس بھی کہتے ہیں۔

۲۱ ۔اسی روایت میں امیرالمؤمنین  فرماتے ہیں: وہ شخص حرب بن عنبثہ بن مرّۃ بن کلب بن سلمہ بن یزید بن عثمان بن خالد بن "یزید بن معاویہ بن ابی سفیان" بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے (عبد شمس و ہاشم دونوں جڑواں بھائی تھے) وہ آسمان و زمین میں ملعون ہے، اس کا باپ شرّی ترین مخلوق خدا ہے، اس کا دادا ملعون ترین ملعون اور وہ خود ظالم ترین مخلوق خدا ہے۔ (عقد الدرر، باب۴، ص ۱۲۸)۔

۲۲ ۔روایت کا یہ جملہ "ان کے والد کا نام نبیؐ کے والد کے نام جیسا ہوگا، عمداً یا اشتباھاً راوی سے اضافہ ہوگیا ہے۔ تفصیل کے لئے دوسرے باب کی پہلی فصل کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔

۲۳ ۔عقد الدرر فی اخبار المنتظر، باب۳، ص ۶۶، مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۵ ھ۔

۲۴ ۔ینابیع المودۃ، باب ۷۸، ص ۴۴۸، طبع۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۲۵ ۔ینابیع المودۃ، ص ۴۹۱، بنا بر نقل از "مہدی قائم" تالیف عماد زادہ، طبع۶، انتشارات قائم، ص ۱۷۸۔

۲۶ ۔بنابر نقل از "مہدی قائم" عماد زادہ، انتشارات قائم، ص ۱۸۱۔

۲۷ ۔بنابر نقل از منتخب الاثر، آیت اللہ صافی ، ناشر : سیدۃ المعصومہ، ۱۴۱۹ھ، ص ۲۹۶، روایت ۳۔

۲۸ ۔ینابیع المودۃ، باب ۷۹، ص ۴۵۱، طبع ہشتم، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵۔

۲۹ ۔کلمہ بعدی کے بارے میں اشکال کے جواب میں بیان کیا تھا کہ روایات اثنا عشری سے استناد کیا تھا۔

۳۰ ۔کتب اہل سنت میں تواتر کے ساتھ ۲۰ اسناد کے مطابق رسولؐ اللہ نے فرمایا: میرے بارہ جانشین ہوں گے، بعض روایات میں ہے کہ "کُلّہم من قریش" بعض میں ہے "کلّہم من بنی ہاشم" بعض میں ہے کہ ان میں پہلے علی علیہ السلام اور آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

۳۱ ۔بنابر نقل از ینابیع المودۃ، باب ۶۸، ص ۴۱۰، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۳۲ ۔مروج الذھب، طبع مصر، ۱۳۰۳ ھ کے حاشیہ پر طبع شدہ۔