مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں0%

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام ہادی عامری
زمرہ جات: مشاہدے: 41549
ڈاؤنلوڈ: 3074

تبصرے:

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41549 / ڈاؤنلوڈ: 3074
سائز سائز سائز
مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مہدی آلِ محمد کُتب اہلِ سُنّت کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تتمۂ باب دوم

رسول خداﷺ اور حضرت مہدی موعود (عج) میں بیس شباہتیں

جیسا کہ محترم قارئین نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ اہل سنت کی نقل کردہ روایات اور علمائے اہل سنت کی تصریح کی روشنی میں حضرت مہدی (عج) کا نام و کنیت حضور سرور کائنات کے نام و کنیت "محمد" و "ابو القاسم" جیسا ہے لہذا اسی مناسبت سے ہم یہ مناسب سمجھ رہے ہیں کہ نبی کریمؐ اور حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) کے درمیان موجودہ شباہتیں آپ کی خدمت میں بیان کردی جائیں۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ شباہتیں کہ جنکی تعداد بیس ہے، یہ تمام شباہتیں اہل سنت کی کتب میں مرقوم روایات سے ماخوذ ہیں:

۱ ۔ نام میں شباہت

نبی کریمﷺ کا نام مبارک "احمدو محمد" ہے اسی طرح حضرت مہدی ع موعود کا نام مبارک بھی "احمد و محمد" نقل ہوا ہے؛ اور روایات اس بات پر دلالت کر رہی ہیں۔

۲ ۔ کنیت میں شباہت

نبی کریمﷺ کی کنیت ابو القاسم ہے اور حضرت مہدی صاحب الزمان کی کنیت بھی "ابو القاسم" ہے جیسا کہ دوسرے باب میں مرقوم روایات اس امر پر دلالت کر رہی ہیں۔

۳ ۔ عمل میں شباہت

نبی کریمؐ نے نزول وحی کے خاطر جنگ کی ہے جیسا کہ متعدد روایات سے یہ بات واضح ہے مثلاً خود اس کتاب کے پہلے باب کی پہلی فصل میں مرقوم پہلی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:اَنتَ تُقاتِلُ علیٰ التاویل کما قاتَلۡتُ عَلی التنزیل ؛ یعنی اے علی علیہ السلام تم ان لوگوں سے جنگ کرو گے جو قران کے معنی میں تاویل کرنا چاہتے ہیں جس طرح میں نے نزول وحی کی خاطر جنگ کی ہے۔ اور حضور ؐ کی بعض جنگیں مثلاً بدر و احد اور احزاب اسی بنیاد پر ہوئی تھیں ورنہ مشرکین قران و اسلام کا کوئی اثر باقی نہ چھوڑتے۔

یہی بات حضرت مہدی موعود (عج) میں بھی صادق آتی ہے؛ اس شباہت کے ساتھ کہ رسول گرامی قدر نے نزول وحی کی خاطر جنگ کی تھی اور حضرت مہدی (عج) موعود دین خالص کے خاطر جنگ کریں گے جیسا کہ متعدد روایات سے یہ حقیقت روشن ہے مثلاً وہ روایات جو بیان کر رہی ہیں کہ آسمانی آواز سب کو سنائی دے گی کہ مہدی خلیفۃ اللہ ہیں پس سب ان کی اتباع و پیروی کرو۔

نیز جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ محمد بن طلحہ شافعی نے کتاب الدر المنظم میں آنجناب کے اسم و لقب کے سلسلہ میں تصریح کی ہے کہ : "وَ ه ذَا الۡاِمامُ الۡمَه دی اَلۡقائِمُ بِاَمۡرِ الله ِ یَرۡفَعُ الۡمَذاه ِبَ فَلا یَبۡقی اِلّا الدّینُ الخالِصُ" یعنی اور یہ خلیفہ وہی امام مہدی ہوں گے جو امر الٰہی کو قائم کریں گے، تمام مذاہب کو نابود کر دیں گے اور زمین پر صرف خالص دین الٰہی باقی بچے گا۔

ہم نے پہلے باب کی پہلی فصل میں روایت نمبر ۳۷ نبی کریمؐ سے نقل کی ہے کہ مہدی موعود(عج) دین کو دوبارہ نزول قران کے زمانہ کی طرح اس کی اصلی و حقیقی شکل میں پلٹا دیں گے؛ اور زمین پر صرف لا الہ الّا للہ کہنے والے ہی بچیں گے۔ پہلے باب کی پہلی فصل روایت ۳۱ میں حضورؐ نے فرمایا: مہدی میری عترت میں سے ہیں وہ میری سنت کے لئے جنگ کریں گے جس طرح میں نے وحی کے لئے جنگ کی ہے۔

۴ ۔ خاتمیت میں شباہت

قران کریم کی تصریح کے مطابق حضور سرور کائنات خاتم الانبیاء ہیں (احزاب / ۴۰) اور علمائے اہل سنت کی تصریح (جیسا کہ چند صفحہ قبل بیان کیا گیا) نیز باب دوم کی دوسری فصل میں ائمہ اطہار کی تصریح کے مطابق اور اہل سنت کی کتب (مثلاً شیخ سلیمان کی ینابیع المودہ باب ۷۷) میں روایات نبوی (مثلاً روایات اثنا عشریہ) کی روشنی میں مہدی موعود (عج) خاتم الائمہ ہیں۔ روایات اثنا عشریہ کے متواتر ہونے کے بارے میں ہم علیحدہ سے تفصیلاً گفتگو کریں گے۔

۵ ۔ سایہ نہ ہونے میں شباہت

روایات و تاریخ انبیاء اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ رسولؐ گرامی قدر کا "سایہ" نہ تھا اور اسی طرح ہم نے پہلے باب کی دوسری فصل میں روایت نمبر ۳ میں نقل کیا ہے کہ امام رضا  نے حضرت مہدی (عج) کے بارے میں فرمایا: "ه ُوَ الَّذی تَطۡوی لَه ُ الۡاَرضُ وَ لا یَکُونَ لَه ُ ظِلٌّ " یعنی مہدی وہی ہے کہ زمین ان کے لئے سمٹ جائے گی اور ان کا سایہ بھی نہ ہوگا۔

نیز دوسرے باب کی دوسری فصل روایت نمبر ۱۲ میں حسن ابن خالد کے حوالے سے کلمات امام رضا علیہ السلام مفصل تر بیان کئے گئے امام  نے اس میں بھی تصریح فرمائی ہے کہ "مہدی" کا سایہ نہ ہوگا۔

۶ ۔ اخلا ق میں شباہت

روایات نبوی کے مطابق اخلاق مہدی موعود (عج)، نبی کریمؐ کے اخلاق کے مطابق ہے جیسا کہ پہلے باب کی پہلی فصل روایات نمبر ۲۲ اور ۳۷ میں حضور ؐ نے فرمایا:

"اِسۡمُه ُ اِۡسمی وَ خُلۡقُه ُ خُلۡقی " مہدی کا نام میرے نام جیسا ہے اور ان کا اخلاق بھی میرے اخلاق جیسا ہے۔

نیز پہلے باب کی دوسری فصل روایت نمبر ۱۲ میں حضرت علی علیہ السلام نے رسول اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ فرمایا: "وَ ه ُوَ اَشۡبَه ُ النّاسِ بی خَلۡقاً وَ خُلۡقاً "؛ "مہدی" خلقت (شکل و صورت) اور اخلاق میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں۔

۷ ۔ طہارت میں شباہت

جیسا کہ کتب اہل سنت میں نقل شدہ روایات نبوی و روایات اہل بیت علیھم السلام میں تصریح کی گئی ہے کہ مہدی موعود اہل بیت میں سے ہیں (ہم اس سلسلہ میں تیسرے باب میں تفصیل سے گفتگو کریں گے) اور کلام خداوندی سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس نے قران کریم میں نبی کریم اور ان کے اہل بیت کی طہارت وپاکیزگی کی گواہی کے لئے آیت تطہیر نازل کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) (احزاب/ ۳۳) بیشک خداوند عالم کا ارادہ ہی یہ ہے کہ وہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس و گناہ کو دور رکھے۔

۸ ۔ خلقت نورانی میں شباہت

فراوانی کے ساتھ شیعہ و سنی کتب میں مرقوم روایات اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ خداوند عالم نے نبی کریمﷺ اور آپؐ کی آل پاک کو اپنے نور سے خلق فرمایا لہذا رسول اللہؐ اور حضرت مہدی موعود (عج) ایک ہی نور سے خلق ہوئے ہیں اور روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خداؐ اور مہدی موعود (عج) کا شجرہ ایک ہی ہے۔

نمونہ کے طور پر ہم اس وقت کتب اہل سنت سے صرف ایک روایت نقل کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں:

شیخ سلیمان بلخی حنفی(۱) نے مناقب خوارزمی سے انہوں نے ابو سلیمان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں:

"سَمِعۡتُ رَسوُلَ الله ِﷺ یَقوُلُ: لَيْلَةً اُسْرِيَ بِي اِلَى السَّماءِ قالَ لِیَ الْجَلِيلُ جَلَّ جَلَالُهُ آمَنَ الرَّسُولُ بِما أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ فَقُلْتُ وَ الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ صَدَقْتَ، يَا مُحَمَّدُ اِِنِّي اطَّلَعْتُ إِلَى الْأَرْضِ اطِّلَاعَةً فَاخْتَرْتُكَ مِنْهُم فَشَقَقْتُ لَكَ اسْماً مِنْ اَسْمائِي فَلَا أُذْكَرُ فِي مَوْضِعٍ إِلَّا ذُكَرْتَ مَعِي فَأَنَا الْمَحْمُودُ وَ أَنْتَ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ اِطَّلَعْتُ الثَّانِيَة فَاخْتَرْتُ مِنْه ُم عَلِيّاً فَسَمَّیۡتُه ُ بِاِسۡمی، يَا مُحَمَّدُ خَلَقْتُكَ وَ خَلَقْتُ عَلِيّاً وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِ الۡحُسَیۡنِ مِنْ نُوری وَ عَرَضْتُ وِلَايَتَكُمْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِ فَمَنْ قَبِلَها كَانَ عِنْدِي مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَنْ جَحَدَهَا كَانَ عِنْدِي مِنَ الْكَافِرِينَ … يَا مُحَمَّدُ تُحِبُّ أَنْ تَرَاهُمْ؟ قُلْتُ نَعَمْ يَا رَبِّ، قَالَ لِي اُنۡظُرۡ اِلی يَمِينِ الْعَرْشِ فَنَظَرۡتُ فَإِذَا عَلِي وَ فَاطِمَة وَ الْحَسَن وَ الْحُسَيْن وَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْن وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِي وَ عَلِي بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ مُحَمَّد اَلْمَهْدِي بن الۡحَسَنِ كَأَنَّهُ كَوْكَبٌ دُرِّي بَیۡنَه ُمۡ وَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ هَؤُلَاءِ حُجَجی عَلی عِبادی وَ ه ُمۡ اَوۡصیائُکَ وَ الۡمَه ۡدی مِنۡه ُمۡ، اَلثّائِرُ مِنۡ قاتِلِ عِتۡرَتِکَ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي اِنَّه ُ الْمُنْتَقِمُ مِنْ أَعْدَائِي وَ الۡمُمِدُّ لِاَوۡلیائی "

میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا آپؐ نے فرمایا: شب معراج جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں خداوند عالم نے مجھ سے فرمایا:آمَنَ الرَّسُولُ بِما أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ یعنی رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

میں نے عرض کیا: و مؤمنون ( یعنی مؤمنین بھی اسی طرح ایمان رکھتے ہیں) خداوند عالم نے فرمایا: صحیح کہا ہے آپؐ نے۔ پھر فرمایا: اے محمدؐ میں نے اہل زمین پر خاص نظر ڈالی تو میں نے ان میں سے آپ کا انتخاب کیا اور آپؐ کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں اپنے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر نہ کیا ہو پس میں محمود ہوں اور تم محمدؐ ہو، پھر میں نے دوبارہ نظر ڈالی اور علی کا انتخاب کیا اور ان کا نام اپنے نام پر رکھا۔ میں نے آپؑ کو، اور علی و فاطمہ، حسن و حسین اور نسل حسین کے ائمہ کو اپنے نور سے خلق کیا ہے ۔ اور اہل آسمان و زمین کے سامنے آپ کی ولایت کو رکھا پس جس نے بھی آپ حضرات کی ولایت کو قول کیا وہ مؤمنین میں سے ہے اور جس نے بھی انکار کیا وہ میرے نزدیک کافروں میں سے ہے اے محمدؐ! کیا آپؐ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں پروردگار۔ پس خداوند عالم نے فرمایا: عرش کے دائیں جانب نگاہ اٹھائیے۔ میں نےنگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہاں علی و فاطمہ، حسن و حسین، علی بن حسین، محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسیٰ بن جعفر و علی بن موسیٰ، و محمد بن علی، و علی بن محمد، حسن بن علی و محمد المہدی (عج) بن حسن کو دیکھا اور مہدی (عج) ان کے درمیان کوکب دری کی طرح تھے یعنی روشن ستارے کی طرح چمک رہے تھے۔ اور خداوند عالم نے فرمایا: یہ سب میری جانب سے میرے بندوں پر حتو ہیں، آپ کے اوصیاء ہیں، مہدی انہی میں سے ہیں۔ مہدی (عج) آپ کی عترت کے قاتلوں سے انتقام لیں گے۔ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے، مہدی (عج) آپ کے دشمنوں سے انتقام لیں گے اور آپ کے چاہنے والوں اور آپ کے موالیوں کی مدد فرمائیں گے۔"

شیخ سلیمان اپنی کتاب ینابیع المودۃ کے باب نمبر ۹۳ میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ : ایضاً اَخرَجَہُ الحَموِینی؛ یعنی یہ روایت حموینی نے بھی نقل کی ہے۔

۹ ۔ ولایت و سرپرستی میں شباہت

نبی کریمؐ لوگوں پر حق ولایت رکھتے ہیں یعنی فرمان الٰہی سے لوگوں کے ولی و سرپرست مقرر ہوئے ہیں۔ جیسا کہ قران کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:( النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ) (احزاب/ ۶) یعنی نبی مؤمنین پر خود ان سے زیادہ حق اولویت رکھتا ہے، یہاں "اولیٰ" ولایت و سرپرستی کے معنی میں آیا ہے۔ نیز تیس سے زائد مقامات پر خداوند عالم نے قران کریم میں رسولؐ کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے۔

جب ہم آیات و روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہی معنی حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف کے لئے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ قران کریم میں آیا ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ) (۲)

اے ایمان والو اللہ و رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔

اس آیت کریمہ میں لفظ "اطیعوا" دو مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوسری مرتبہ استعمال میں رسولؐ و اُولی الامر ایک ساتھ آئے ہیں جو اس بات کی تصریح ہے کہ رسولؐ اور اولی الامر جو کہ اوصیائے نبیؐ ہیں؛ ان کی اطاعت واجب ہے۔

نیز کثیر التعداد روایات کی روشنی میں حضرت رسول اسلامﷺ کی فرمائش کے مطابق حضرت مہدی کی اطاعت واجب ہے۔ جیسا کہ پہلے باب کی پہلی فصل کی روایت نمبر ۱۲ میں رسول اکرمؐ نے عوف بن مالک سے فرمایا: میری امت کے ۷۳ فرقے ہوجائیں گے پھر آپؑ نے آخر میں فرمایا: میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ایک شخص خروج کرے گا جسے مہدی (عج) کہتےہیں: "فَاِنۡ اَدۡرَکۡتَه ُ فَاتَّبِعۡه ُ وَ کُنۡ مِنَ الۡمُه ۡتَدینَ " پس اگر تم مہدی کو درک کرلو تو ان کی اتباع کرنا تاکہ ہدایت پانے والوں میں سے ہوجاؤ۔

نیز دوسرے باب کی پہلی فصل میں روایت نمبر ۲۲ و ۲۳ میں تصریح کی گئی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: آسمان سے منادی ندا دے گا: "ه ذَا الۡمَه ۡدی خَلیفَةُ الله ِ فَاتَّبِعُوه ُ " یعنی یہ مہدی خلیفہ خدا ہے پس اس کی پیروی کرو۔

۱۰ ۔ فرشتوں کی مدد میں شباہت

سب جانتے ہیں کہ خداوند عالم نے متعدد جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ اور مؤمنین کی اپنے فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی ہے جیسا کہ جنگ بدر میں حضور سرور کائنات اور مؤمنین کی نصرت کے لئے ۳۰۰ فرشتے آئے لہذا سورہ آل عمران آیت ۱۳۳ میں جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد کا تذکرہ کیا گیا ہے اور آیت ۱۲۴ میں ارشاد فرماتا ہے:( إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ ) یعنی اس وقت جب آپ مؤمنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے کہ خدا تین ہزار فرشتوں کو نازل کرکے تمہاری مدد کرے۔

جب ہم روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی روایات میں حضرت مہدی (عج) کی فرشتوں کے ذریعے مدد و نصرت کا تذکرہ موجود ہے مثلاً پہلے باب کی دوسری فصل کی روایات ۲۶ میں امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب‘ فرماتے ہیں:

"یُمِدُّه ُ الله ُ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الۡمَلائِکَةِ یَضۡرِبوُنَ وُجُوه َ مَنۡ خالَفَه ُ وَ اَدۡبارَه ُمۡ" خداوند عالم تین ہزار فرشتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا، یہ فرشتے حضرت مہدی (عج) کے مخالفین کے چہروں اور پشت پر تازیانے ماریں گے۔

۱۱ ۔ حکم مخالفین میں شباہت

فقہاء کے نزدیک قطعی احکام میں سے ایک یہ ہے کہ رسول ؐ اکرم کی تکذیب کرنے والا کافر ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور جب ہم روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مہدی (عج) کے مخالفین کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ہم نے آٹھویں شباہت میں ینابیع المودۃ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں شب معراج خداوند عالم نے اپنے نبی کریمؐ سے فرمایا: "وَ عَرَضْتُ وِلَايَتَكُمْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِ فَمَنْ قَبِلَها كَانَ عِنْدِي مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَنْ جَحَدَهَا كَانَ عِنْدِي مِنَ الْكَافِرِينَ "

میں نے تم سب (چہاردہ معصومین علیھم السلام ) کی ولایت کو اہل آسمان و زمین کے سامنے پیش کیا پس جس نے تمہاری ولایت کو قبول کیا وہ مؤمنین میں سے ہے اور جس نے اس کا انکار کردیا وہ میرے نزدیک کافر ہے۔

نیز شیخ سلیمان بلخی(۳) روایت کرتے ہیں:"عَن کِتابِ فَرائِد السِمطَعین بِسَنَدِه عَن الشَّیخِ اَبی اِسحاق اِبراه یم بن یعقوب الکِلابادی البُخاری بِسَندِه ِ عَن جابِرِ بنِ عَبدِ الله ِ الاَنصاری رَضی الله ُ عَنه ُما قالَ : قالَ رَسولُ الله ِ ﷺ : مَن اَنکَرَ خُرُوجَ المَه دی فَقَد کَفَرَ بِما اَنزَلَ عَلی مُحَمَّدٍ "

حموینی نے کتاب فرائد السمطین میں ابو اسحاق بخاری کے توسط سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے خروج مہدی کا انکار کیا گویا اس نے ان تمام چیزوں کا انکار کیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہیں۔

نیز ابو جعفر اسکافی نے کتاب فوائد الاخبار میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: "مَنکَذَّبَ بِالۡمَهۡدی فَقَدۡ کَفَرَ " یعنی جس نے مہدی کی تکذیب کی وہ کافر ہے۔

۱۲ ۔ چالیس سال عمر میں شباہت

حضور سرور کائنات ۴۰ سال میں مبعوث بہ رسالت ہوئے اور جب حضرت مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو آپ ۴۰ سال کے معلوم ہوں گے جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی(۴) نے ینابیع المودۃ میں فرائد السمطین کے حوالہ سے ابو امامہ باہلی سے روایت کی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: "اَلۡمَه ۡدی مِنۡ وُلۡدی اِبۡنُ اَرۡبَعینَ سَنَةً کانَ وَجۡه ُه ُ کَوۡکَبٌ دُرّی وَ فی خَدِّه ِ الۡاَیۡمَنِ خالٌ اَسۡوَد " مہدی میری نسل میں سے ہیں وہ چالیس سالہ ہوں گے، ان کا چہرہ درخشاں ستارہ کی طرح ہوگا ان کے دائیں رخسار پر سیاہ تِل ہوگا۔

ہم نے دوسرے باب کی پہلی فصل میں روایت نمبر ۲۰ نقل کی ہے جس میں بھی حضورؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ مہدی (عج) چالیس سال کے ہوں گے۔

۱۳ ۔ نجات دینے میں شباہت

جس طرح حضور سرور کائنات بشریت کے لئے ہلاکت ابدی سے نجات کا باعث ہیں اور لوگوں نے شرک و بت پرستی سے نجات و چھٹکارا حاصل کیا اسی طرح حضرت مہدی بھی بشریت کے لئے ہلاکت ابدی سے نجات کا باعث ہیں۔ پہلے باب کی پہلی فصل روایت نمبر ۲۱ میں رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

"بِنایَخۡتِمُ الله ُ الدّین کَما فَتَحَ بِنا و بِنا یَنۡقُذوُنَ عَنِ الۡفِتۡنَةِ کَما اَنقَذُوا مِنَ الشِّرۡکِ " یعنی دین خدا کا اختتام ہم پر ہوگا جس طرح دین ہم ہی سے شروع ہوا تھا اور لوگ ہمارے ذریعے فتنوں سے نجات پائیں گے جس طرح شرک و بت پرستی سے نجات حاصل کی ہے۔

نیز پہلے باب کی پہلی فصل روایت نمبر ۲۷ میں رسول ؐ خدا نے فرمایا:

"کَیۡفَ تَه ۡلِکُ اُمَّةٌ اَنَا فی اَوَّلِه ا وَ عیسی فی آخِرِه ا وَ الۡمَه ۡدیُّ فی وَسَطِه ا " امت کس طرح ہلاک ہوسکتی ہے جبکہ اس کے شروع میں میں ہوں آخر میں عیسیٰ اور وسط میں مہدی (عج) ہوں گے۔

نیز دوسرے باب کی دوسری فصل کی روایت نمبر ۲ میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "فَه ُوَ خاتَمُ الۡاَئِمَّة وَ مُنۡقِذُ الۡاُمَّة " یعنی مہدی خاتم الائمہ، آخری امام اور امت کے نجات دہندہ ہیں۔

۱۴ ۔ ولایت تکوینی میں شباہت

سب جانتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ اذنِ الٰہی سے ولایت تکوینی کے مالک تھے جیسا کہ ذہبی نے تاریخ اسلام میں صفحہ ۳۴۲ پر لکھا ہے :

"نُبُوعُ الۡماءِ مِنۡ اَصابِعِه بَعۡدَ رُجوُعِه مِنۡ غَزۡوَةِ تَبُوک " یعنی جب پیغمبر اسلام غزوہ تبوک سے پلٹ رہے تھے تو (راستہ میں اصحاب کی تشنگی کی وجہ سے) آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا تھا۔

بیہقی نے کتاب دلائل النبوۃ، جلد ۶ ، صفحہ ۶۴ میں لکھا ہے "سَبَّحَ الحِصی فی یدِه " سنگریزوں نے دست نبی کریمؐ پر تسبیح کی ہے۔ نیز جلد ۶ ، صفحہ ۱۳ پر رقمطراز ہیں: "وَ دَعَا الشَّجَرَةَ فَاَجابَتۡه ُ وَ جائَته ُ تَخُدُّ الۡاَرۡضَ، ثُمَّ رَجَعَتۡ اِلی مَکانِه ا " جب رسولؐ اللہ نے درخت کو آنے کا حکم دیا تو وہ درخت زمین چیرتا ہوا چلا آیا اور پھر واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔(۵)

حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف بھی ولایت تکوینیہ رکھتے ہیں جیسا کہ پہلے باب کی دوسری فصل روایت نمبر ۱۷ میں امیرالمؤمنین  نے فرمایا: جب سید حسنی اپنی سپاہ کے ہمراہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) سے ملیں گے تو ان سے عرض کریں گے کیا آپ کے پاس مہدی ہونے کی کوئی دلیل ہے جسے دیکھ کر ہم آپ کی بیعت کریں؟ "یَؤۡمِی الۡمَه ۡدیُّ اِلَی الطَّیۡرِ فَیَسۡقُطُ عَلی یَدِه ، وَ یَغۡرُسُ قَضِیۡباً فِی بُقۡعَةٍ مِنَ الۡاَرۡضِ فَیَخۡضَرُّ وَ یورِقُ " اس وقت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف)ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو اشارہ کریں گے تو وہ ان کے ہاتھ پر آکر بیٹھ جائے گا اور سوکھی لکڑی اٹھا کر زمین میں بودیں گے تو فورا ہر بھری ہوجائے گی۔

۱۵ ۔ شب قدر میں شباہت

آیات و روایات میں ثابت ہے کہ شب قدر ایک خاص اہمیت کی حامل ہے، اس رات ملائکہ اور "روح" نازل ہوتے ہیں اب یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ کس پر نازل ہوتے ہیں؟

رسول ؐ اللہ کے زمانہ میں شب قدر میں یہ ملائکہ خود آنحضرت کے پاس آتے تھے اور ان کے بعد آنحضرت کے اوصیاء (جن میں حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) بھی شامل ہیں) کے پاس نازل ہوتے ہیں۔ شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین و تمام النعمۃ ، جلد اول باب ۲۶ ، روایت نمبر ۱۹ حسن بن عباس بن عریش رازی سے روایت کی ہے " "عَنۡ اَبی جَعۡفَر مُحَمَّدِ بن عَلیٍّ الثّانی (۶) عَن آبائِه ِ علیه م السلام، اَنَّ اَمیرَ المُؤۡمِنینَ صَلَواتُ الله ِ عَلَیه ِ قالَ لِاِبۡنِ عَبّاسِ : اِنَّ لَیۡلَةَ الۡقَدۡر فی کُلِّ سَنَةٍ وَ اِنَّه ُ یُنۡزَلُ فی تِلۡکَ الۡلَیۡلَةِ اَمۡرُ السَّنَةِ وَ لِذلِکَ الۡاَمرِ وُلاةٌ بَعۡدَ رَسوُلِ الله ِﷺ، فَقالَ اِبۡنُ عَبّاسٍ: مَنۡ ه ُمۡ؟ قالَ : اَنا وَ اَحد عَشَرَ مِنۡ صُلۡبی اَئِمَّةٌ مُحَدَّثوُنَ "

امیرالمؤمنین  نے ابن عباس سے فرمایا: ہر سال شب قدر آتی ہے اور اس شب میں اس سال کے امور نازل ہوتے ہیں اور ان امور کے حصول کے لئے رسول ؐ خدا کے بعد ان کے ولی موجود ہیں۔ ابن عباس نے عرض کیا: وہ کون ہیں؟ فرمایا: میں اور میرے صلب سے گیارہ ائمہ محدث ہیں (ملائکہ ان سے گفتگو کرتے ہیں۔)

۱۶ ۔ خلقت میں شباہت

حضرت مہدی موعود عج اللہ فرجہ الشریف خلقت میں سب سے زیادہ نبی کریمؐ سے مشابہ ہیں۔ جس طرح اخلاق کے لحاظ سے بھی وہ حضور سے مشابہ ہیں۔ اسی کتاب کے باب اول، فصل دوم ، روایت نمبر ۱۲ میں شیخ سلیمان بلخی حنفی نے کتاب مناقب خوارزمی سے امام محمد باقر  سے انہوں نے اپنے جد امیرالمؤمنین  سے اور انہوں نے رسول خداﷺ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "اَلمَه دی مِن وُلدی، اِسمُه ُ اِسمی وَ کُنۡیَتُه ُ کُنۡیَتی وَ ه ُوَ اَشبَه ُ الناسِ بی خَلقاً وَ خُلقاً " مہدی میری نسل میں سے ہوں گے، ان کا نام میرے نام جیسا ہے انکی کنیت میری کنیت جیسی ہے اور وہ لوگوں میں خلقت اور اخلاق کے اعتبار سے سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہوں گے۔

متعدد روایات کی روشنی میں قطعی قرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عج) خلقت میں سب سے زیادہ رسول اللہﷺ سے مشابہ ہیں مثلاً سایہ نہ ہونا، آنکھوں میں قدرتی سرمہ کا ہونا (اکحلُ العینین ہونا) یہاں تک کہ آنجناب کے دوشِ مبارک پر علامت نبی کا ہونا وغیرہ۔

نیز باب اول کی دوسری فصل روایت ۴۰ میں امیر المؤمنین فرماتے ہیں:

"اَلا فَه ُوَ (اَیِ المه دی) اَشۡبَه ُ خَلۡقِ الله ِ عَزَّوَجَلَّ بِرَسوُلِ الله ﷺ " یعنی یاد رکھو! کہ وہ (یعنی مہدی) مخلوق خداوند میں سب سے زیادہ رسولؐ اللہ سے مشابہ ہیں۔

۱۷ ۔ پرچم میں شباہت

صدر اسلام میں مسلمان جب مشرکین و مخالفین کے مقابلہ پر میدان جنگ میں جاتے تھے تو ان کے ہمراہ مختلف پرچم ہوتے تھے اور ان کے اور رسول اللہ کے پرچم پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہوتا تھا؛ روایات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مہدی موعود (عج) کے پاس وہی پرچم رسول اللہﷺ ہوگا جیسا کہ پہلے باب کی دوسری فصل روایت نمبر ۲۶ میں امیرالمؤمنین  فرماتے ہیں: "یَخۡرُجُ بِرایَةِ النَّبیِﷺ… لَمۡ تُنۡشَرۡ مُنۡذُ تُوُفِّیَ رَسوُلُ الله ﷺوَلا تُنۡشَرُ حَتّی یَخۡرُجَ الۡمَه ۡدی " مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) نبی کریمﷺ کے پرچم کے ہمراہ خروج کریں گے یہ پرچم رسولؐ اللہ کی وفات سے لیکر مہدی (عج) کے خروج تک نہ کھلے گا۔

نیز اسی کتاب کے پہلے باب کی دوسری فصل کی پہلی روایت جسے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں محمد بن طلحہ شافعی کی کتاب الدرر المنظم سے نقل کیا ہے کہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب‘ نے فرمایا: "یَظۡه َرُ صاحِبُ الرّایه ِ الۡمُحَمَّدیَّةِ وَ الدَّوۡلَةِ الۡاَحۡمَدیَّة " صاحب پرچم محمدی و دولت احمدی کا ظہور حتمی ہے۔

نیز پہلے باب کی دوسری فصل روایت ۱۶ میں امام باقر  نے فرمایا:وَ مَعَه ُ رایَةُ رَسوُلِ الله ِ یعنی جب مہدی ظہور کریں گے تو ان کے ساتھ پرچم رسولؐ اللہ ہوگا۔

۱۸ و ۱۹ ۔ تلوار و پیراہن میں شباہت

جب حضرت مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو آپ رسولؐ اکرم کا پیراہن زیب تن کئے ہوئے اور نبی کریم ؐ کی تلوار لئے ہوں گے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے باب کی دوسری فصل روایت نمبر ۱۶ جو کہ یوسف بن یحیی مقدس شافعی کی کتاب عقد الدرر(۷) سے نقل کی ہے اور انہوں نے یہ روایت ابو عبداللہ نعیم بن حماد کی کتاب الفتن(۸) سے نقل کی ہے۔ اس روایت میں امام باقر  فرماتے ہیں: "یَظۡه َرُ الۡمَه ۡدِیُّ بِمَکَّةَ عِنۡدَ الۡعِشاءِ، وَ مَعَه ُ رایَةُ رَسوُلِ الله ِﷺ، وَ قَمیصُه ُ و سَیۡفُه ُ، وَ عَلاماتٌ و نورٌ وَ بَیانٌ، فَاِذا صَلَّی الۡعِشَاءَ نادی بِاَعۡلی صَوۡتِه ، یَقوُلُ : اُذَکِّرۡکُمۡ الله َ اَیُّه َا النّاسُ وَ مُقامَکُمۡ بَیۡنَ یَدَیۡ رَبِّکُمۡ … وَ اِنّی اَدۡعوُکُم اِلَی الله ِ وَ اِلی رَسوُلِه ِ، وَ الۡعَمَلِ بِکِتابِه ِ، وَ اِماتَةِ الۡباطِلِ وَ اِحۡیاءِ سُنَّتِه "

مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) مکہ میں بوقت عشاء ظہور فرمائیں گے اور ان کے ہمراہ رسول اللہﷺ کا پرچم، پیراہن اور تلوار ہوگی، ان کے ساتھ کچھ علامات، نور اور بیان ہوگا پس نماز عشاء پڑھنے کے بعد با آواز بلند ندا دیں گے: اے لوگو! خدا کو یاد کرو اور جب تم اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہو بتحقیق میں تمہید خدا، رسولؐ کی طرف ، کتاب پر عمل کرنے، باطل کی نابودی اور احیائے سنت الٰہی کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔

۲۰ ۔ محل ظہور میں شباہت

حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ مکہ مکرمہ میں مبعوث بہ رسالت ہوئے اور وہیں سے آپ نے تمام عالم کو نور اسلام سے منور فرمایا، اسی طرح حضرت مہدی (عج) بھی مکہ مکرمہ سے ظہور فرمائیں گے جیسا کہ رسول مکرمؐ نے فرمایا: وہو الظاہر علی دین اللہ؛ مہدی دین الٰہی کو مکمل طور پر ظاہر کر دیں گے، اس لئے آپؑ کے القاب میں سے ایک لقب "ظاہر" بھی ہے۔ مفسرین قران کریم کا کہنا ہے کہ سورہ توبہ(۹) آیت نمبر ۳۳ ، سورہ فتح(۱۰) کی آیت نمبر ۲۸ اور سورہ صف(۱۱) کی آیت نمبر ۹ حضرت مہدی کے بارے میں ہی ہے۔ کیونکہ دین الٰہی کو تمام ادیان پر غلبہ حضرت مہدی (عج اللہ فرجہ الشریف) ہی کے زمانے میں ہوگا۔

حضرت مہدی (عج) کے مکہ مکرمہ سے ظہور کرنے پر فراوانی سے روایات پائی جاتی ہیں مثلاً اس سلسلہ میں گذشتہ شباہت (شباہت نمبر ۱۸ و ۱۹) میں ذکر شدہ روایت ہی کافی ہے جس کے آغاز میں امام باقر  نے فرمایا: "یَظۡه َرُ الۡمَه ۡدِیُّ بِمَکَّةَ " یعنی مہدی (عج) مکہ سے ظہور کریں گے اور جیسا کہ دوسرے باب کی دوسری فصل میں روایت نمبر ۱۲ میں امام رضا  نے فرمایا کہ منادی آسمان ندا دے گا:

"اَلا اِنَّ حجَّةَ الله ِ قَدۡ ظَه َرَ عِنۡدَ بَیۡتِ الله " آگاہ ہوجاؤ کہ بیت اللہ کے پاس (مکہ میں) حجت خدا کا ظہور ہوگیا ہے۔

نتیجہ:

مذکورہ شباہتوں کا نتیجہ بیان کرنے سے قبل یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ یہ بسا شباہتیں صرف بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ورنہ حضور سرور کائنات اور حضرت مہدی (عج) میں ان سے کہیں زیادہ شباہتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ناصران و اصحاب کی تعداد، کیونکہ ہجرت کے بعد پہلی جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی؛ اور حضرت مہدی (عج) کے ناصرانِ کی تعداد بھی ۳۱۳ ہے۔ نیز دائیں رخسار پر تِل کا ہونا وغیرہ۔

پس نبی کریمﷺ اور حضرت مہدی (عج) میں فراوان شباہتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ہم نے یہاں مندرجہ ذیل ۲۰ شباہتیں ذکر کی ہیں: ان کا نام "محمد" اور کنیت ابو القاسم ہے، یہ خاتم (انبیاءو ائمہ) ہیں، انکا "سایہ" نہیں ہے، انکا محل ظہور چالیس سال کی عمر میں مکہ ہے، یہ ایک دوسرے سے اخلاق و خلقت میں سب سے زیادہ مشابہ ہیں، خدا نے دونوں کو ایک ہی نور سے خلق کیا ہے دونوں اولیٰ بالتصرف ہیں یعنی حق ولایت و سرپرستی رکھتے ہیں، دونوں ولایت تکوینیہ کے مالک ہیں، دونوں کے پاس شب قدر میں ملائکہ نازل ہوئے، دونوں کی تکذیب کرنے والا کافر ہے، ان کے ہوتے ہوئے امت ہرگز ہلاک نہیں ہوسکتی، لہذا یہ دونوں ہی نجات دہندہ ہیں، جنگ کے موقع پر دونوں کا پیراہن، تلوار اور پرچم ایک ہی ہے، دونوں کی مدد کرنے والے ۳۰۰۰ فرشتے ہیں دونوں کے اصحاب و انصار کی تعداد ۳۱۳ ہے، دونوںاَکحلُ العینین (یعنی قدرتی آنکھوں میں سرمہ)، دونوں منصوب من اللہ ہیں، دونوں کا کلام ، کلام الٰہی ہے، جس نے انہیں سبّ و شتم کی اس نے اللہ کو سبّ و شتم کی، ان کے دائیں رخسار پر تِل ہے وغیرہ وغیرہ۔

____________________

۱ ۔ینابیع المودۃ، باب ۹۳، صفحہ ۴۸۷، آخری روایت، طبع۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵۔

۲ ۔سورہ نساء، آیت ۵۹۔

۳ ۔ ینابیع المودۃ، باب ۷۸، صفحہ ۴۴۷، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، ۱۳۸۵ ھ۔

۴ ۔باب ۷۸، ص ۴۴۷، طبع ۸، دار الکتب العراقیہ، سال ۱۳۸۵ھ ۔

۵ ۔علامہ مجلسی نے بحار، ج۱۷ و ۱۸ میں نبی کریمؐ کے معجزات کا ذکر کیا ہے؛ خواجہ نصیر الدین طوسی نے تجرید الاعتقاد میں نبوت عامہ کے ذیل میں اور علامہ حلی نے کشف المراد میں تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔

۶ ۔ امام جواد علیہ السلام۔

۷ ۔ باب ۷، ص ۱۹۵، طبع مسجد مقدس جمکران، سال ۱۴۲۵ ھ۔

۸ ۔ باب اجتماع الناس بمکۃ و بَیعتہم للمہدی فیہا۔

۹ ۔هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

۱۰ ۔هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

۱۱ ۔هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ